FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

حویلی

 

 

 

فہرست مضامین

مشتاق احمد یوسفی

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

آب گم ۔۔۔ حصہ اول

حصہ اول: حویلی (بشمول ’غنودیم غنودیم)

حصہ دوم، سکول ماسٹر کا خواب

حصہ سوم: کار، کابلی والا اور الہ دین بے چراغ

حصہ چہارم: شہرِ دو قصہ

حصہ پنجم: دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ

 

 

 

 

 

 

 

غنودیم غنودیم

 

"احسان بھائی! منور حسین بھی رخصت ہو گئے۔ انتقال سے پہلے۔۔۔”

"کس کے انتقال سے پہلے؟” میاں احسان الٰہی نے اپنی بے نور آنکھوں سے چھت کے پنکھے کو تکتے اور اپنے فالج زدہ ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے اٹھا کر اپنے دل پر رکھتے ہوئے پوچھا۔ انھیں رہ رہ کر اینجائنا کے درد کا شبہ ہو رہا تھا۔ یہ جنوری 1986 کا ذکر ہے۔ مجھے اپنا مدعا بیان کرنے میں خاصی دشواری ہو رہی تھی۔ میاں احسان الٰہی پانچ سال سے صاحب فراش تھے۔ فالج کے حملے کے بعد وہ امراضِ قلب کے اسپتال میں دس بارہ دن "کوما” میں رہے۔ جب ہوش آیا تو انھیں معلوم ہوا کہ ان کا آدھا جسم مفلوج ہو چکا ہے۔ بینائی جاتی رہی۔ قوت گویائی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ حافظہ آنکھ مچولی کھیلنے لگا۔ صرف تکلیف دہ باتیں یاد رہ گئیں۔

اگر اب انھیں کوئی پہلی بار دیکھتا تو یہ باور نہیں کر سکتا تھا کہ یہ وہی سوا چھ فٹ، دو سو دس پونڈ اور پہلوانی ڈیل ڈول والا شخص ہے جو بہتر سال کی عمر میں صبح چار بجے ڈیڑھ گھنٹے ڈنڑ بیٹھک لگاتا، پھر ایک گھنٹے ٹینس کھیلتا اور دن میں چار پانچ میل پیدل چلتا تھا۔ 1990ء میں دل کے پہلے شدید دورے کے بعد انھوں نے بد پرہیزی، بیٹھکوں اور بزم آرائیوں میں اضافہ کر دیا تھا۔ لندن گئے تو ابن حسن برنی کی طرح انھیں بھی کہیں کوئی زینہ نظر آ جاتا تو اس پر چڑھتے ضرور تھے۔ کہتے تھے "اس سے دل قوی اور بڑھاپا پسپا ہوتا ہے۔ ساٹھ پینسٹھ برس پہلے چنیوٹ کے نواح میں کوئی درخت ایسا نہیں تھا جس پر میں نہ چڑھا ہوں۔” ڈاکٹروں نے غذا میں سخت پرہیز کی تاکید کی۔ انھوں نے چنیوٹ سے اصلی گھی اور آم کا اچار منگوانا تو چھوڑ دیا لیکن چنیوٹی کٹا[1]، سندھی بریانی، برنس روڈ کی ترتراتی تافتان، کوئٹہ کے سجی کباب، بادام کی حیدر آبادی لوازمات، ملتان کے انور رٹول۔۔۔۔ مختصر یہ کہ دل کے مریض کے لیے خود کشی کے نسخے کے جملہ اجزا۔۔۔۔ نہیں چھوڑے۔ خود ہی نہیں اپنے معالجوں کو بھی گھر بلا کر بڑے شوق اور اصرار سے کھلاتے۔ کہتے تھے، لذیذ غذا سے مرض کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور طاقت پیدا ہوتی ہے! وہ بدستور اپنے خلافِ وضع طبی معمولات پر قائم رہے۔ روزے بھی نہیں چھوڑے کہ بچپن سے رکھتے چلے آئے تھے۔ اس طرح پنج وقتہ نماز اب بھی باقاعدگی سے قضا کرتے تھے۔ تاویل یہ پیش کرتے کہ اب شروع کروں تو لوگ کہیں گے، میاں صاحب ایک ہی ہارٹ اٹیک میں اٹھک بیٹھک کرنے لگے! ذیابیطس بھی ہو گئی۔ لیکن سونے سے پہلے ایک پاو فل کریم والی آئس کریم ضرور کھاتے۔ جتنے ذہین تھے، اس سے زیادہ خود رائے۔ ہر مسئلے پر۔۔۔۔ خواہ طبی ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔ وہ الگ اپنی رائے رکھتے تھے۔ کہتے تھے "آئس کریم قلب کو ٹھنڈک پہنچاتی اور بلڈ پریشر کو قابو میں رکھتی ہے بشرطیکہ مقدار قلیل نہ ہو۔ سرگودھا یا ساہیوال اپنے سمدھیانے جاتا ہوں تو تکلف میں رات آئس کریم کا ناغہ ہو جاتا ہے۔ رات بھر کروٹیں بدلتا رہتا ہوں۔ جس رات آئس کریم نہ کھاؤں اس رات مچھر بہت کاٹتے ہیں۔ 1980 میں آپ کو معلوم ہے یورپ کی سیاحت پر گیا تھا۔ کئی دن بریانی نہیں ملی چنانچہ ویانا میں ہرنیا کا آپریشن کرانا پڑا۔ آپ میرے چٹورپن اور بد پرہیزی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ غالب کو دیکھیے۔ ساری عمر ناقدری اور عسرت و تنگ دستی کا رونا روتے رہے، خصوصاً آخری دنوں میں۔ لیکن ذرا مرض الموت میں ان کی آخری غذا تو ملاحظہ فرمایئے: صاحب کو سات بادام کا شیرہ، قند کے شربت کے ساتھ۔ دوپہر کو سیر بھر گوشت کی یخنی۔ تین شامی کباب۔ چھ گھڑی رات گئے پانچ روپے بھر شرابِ خانہ ساز اور اسی قدر عرق شیر[2]۔

بھائی میرے! یہاں اللہ کا دیا سب کچھ ہے، سوائے ستم پیشہ ڈومنی کے۔ لیکن مجھے تو مرض الموت کے بغیر بھی اتنی کیلوریز میسر نہیں۔ اور ہاں، شراب کے ضمن میں بادہ پرتگالی کے بجائے خانہ ساز کی شراب توجہ طلب ہے۔ علاوہ ازیں، صرف پانچ روپے بھر شراب غالباً اس لیے پیتے تھے کہ اگر اس کی مقدار بڑھا دیتے تو پھر اتنا ہی عرقِ شیر بھی زہر مار کرنا پڑتا۔ بھائی میرے، میں تو دودھ کی آئس کریم صبر و شکر سے کھاتا ہوں۔ کبھی تولہ ماشہ کی قید نہیں لگائی۔”

ڈاکٹروں سے ایکس رے اور مرض کی تشخیص کرانے کے بعد اکثر بایو کیمسٹری سے خود اپنا علاج کرتے۔ ایسی قوتِ ارادی کے مالک اور ایسے بقراط مریض پر ڈاکٹر کو بھی غصہ نہیں آتا، ترس اور پیار آتا ہے۔ حلقہ یاراں میں جب وہ خوش گفتاری پر آتے تو ڈمپل ان کے رخسار ہی میں نہیں، فقروں میں بھی پڑتا تھا۔ بالآخر ان کی بد پرہیزی اور لاجواب کر دینے والی منطق کا نتیجہ شدید فالج کی شکل میں رو نما ہوا۔

میں ڈرائنگ روم اور برآمدے سے ہوتا ہوا ان کے کمرے تک پہنچا تو دیکھا کہ ان کے میوزک روم میں (جس میں نو دس لاوڈ اسپیکر اس خوبی سے لگائے گئے تھے کہ ایک بھی نظر نہیں آتا تھا) تالا پڑا ہے۔ ان کی ذاتی لائبریری جس کی سیکڑوں کتابوں کی قیمتی جلدیں انھوں نے نظام دکن کے شاہی جلد ساز سے بطور خاص بنوائی تھیں، چار سال سے بند پڑی تھی۔ اسی لائبریری میں انھوں نے میرا تعارف نیاز فتح پوری، مولانا محمد ایوب دہلوی، محمد حسن عسکری اور سلیم احمد سے کرایا تھا۔ اور یہیں سے انھوں نے ایک دفعہ آدھ گھنٹے تک مجھے فون پر استاد بندو خان کی سارنگی سنوائی تھی کہ وہ اپنے ہر شوق اور لطف میں دوستوں کو شریک کر کے خوشی دوبالا کرنے کے رمز سے واقف تھے۔

فون پر سارنگی سنوانے کا قصہ یہ ہے کہ ان کے والد مرحوم حاجی محمد یعقوب صاحب اپنے گھر میں تاش، پرائی عورتوں کے فوٹو (مراد ایکٹرسوں سے تھی) اور پاندان رکھنے کے تو خلاف تھے ہی، گانے کی محفل کے بھی روادار نہ تھے۔ "بیٹا جی! موسیقی حرام تو ہے ہی منحوس بھی ہوتی ہے۔ جس گھر میں ایک دفعہ طبلہ یا گھنگھرو بج گئے، اس گھر کے سامنے ایک نہ ایک دن دِوالے اور قرقی کا ڈھول بجنا لازمی ہے۔ وہ گھر اجڑے ہی اجڑے۔ اسے میری وصیت جانو۔” وصیت کے احترام میں میاں احسان الٰہی اس مترنم نحوست کا اہتمام عاجز کے گھر کرواتے تھے۔ لیکن الحمد للہ مرحوم کی پیشین گوئی کے مطابق ہمارے گھر کے سامنے کبھی قرقی کا ڈھول نہیں بجا۔ کسی کے گھر بھی نہیں بجا جب کہ اس عرصے میں ہم نے (کرائے کے) نو گھر تبدیل کیے۔ میاں احسان الٰہی اپنے گھر میں موسیقی صرف تین صورتوں میں جائز و مباح سمجھتے تھے۔ اول، گانے والی زندہ حالت میں نہ ہو۔ مطلب یہ کہ اس کے گانے کا صرف ریکارڈ یا ٹیپ ہو۔ دوم، ان کے گھر میں گانے والا بالکل تنہا گائے۔ یعنی نہ طبلے کی سنگت ہو اور نہ ان کے علاوہ کوئی اور سننے والا موجود ہو۔ نیز یہ اندیشہ نہ ہو کہ گانے کے بول سمجھ آ جائیں گے۔ یعنی راگنی پکی ہو۔ سوم، گانے والے کو داد کے سوا کچھ اور نہ دینا پڑے۔ مطلب یہ کہ گانے والا فی سبیل اللہ گلو کاری کرے۔ مرزا کہتے ہیں کہ ان پاکیزہ شرائط و قیود کے ساتھ جو شے ظہور میں آئے گی وہ والد مرحوم کی وصیت تو ہو سکتی ہے، موسیقی ہرگز نہیں۔

میاں احسان الٰہی اس کمرے کے وسط میں ایک اونچے اسپتالی بیڈ پر نئی ریشمی دلائی اوڑھے نیم غنودگی کے عالم میں لیٹے تھے۔ دائیں دیوار پر عالم جوانی کی دو تصویریں ٹنگی تھیں۔ ایک میں وہ مولانا حسرت موہانی کے ساتھ کھڑے تھے دوسری میں وہ بندوق کا بٹ (کندہ) مردہ نیل گائے کی تھوتھنی پر رکھے کھڑے مسکرا رہے تھے۔ دونوں تصویروں کے نیچے ان کی نئی ان ویلڈ چیئر (معذوروں کی کرسی رواں) رکھی تھی۔ ان کے سرھانے ایک اونچے اسٹول پر وہ قیمتی دوائیں سجی تھیں جن کے ناکارہ و بے اثر ہونے کا وہ نیم زندہ اشتہار تھے۔ اس وقت تو ان کے حافظے کا قائل ہونا پڑا اس لیے کہ انھوں نے میری تواضع کے لیئے فریسکو سے میری پسندیدہ گرم جلیبیاں اور ناظم آباد کے ملا حلوائی کے گلاب جامن منگوائے تھے۔ دائیں طرف دیوار سے لگے ساگوان کے کنگ سائز بیڈ پر تکیے نہیں تھے۔ ان کی بیگم کے انتقال کو دو مہینے ہوئے تھے۔ دروازے کے سامنے والی کھڑکی کے کارنس پر ایک چھوٹا سا کیسٹ پلئیر اور ان مشاعروں کے ٹیپ رکھے تھے جو گزشتہ پینتیس برسوں میں اس لان پر ہوئے تھے جس کے لیے گھاس ڈھاکا سے، گلاب اور پام کے درخت پنڈی اور سری لنکا سے منگوائے تھے۔ فالج کے پیش نظر پنکھا، ایئر کنڈیشنر، کھڑکیاں، بری خبروں کی اطلاع، بچوں کا داخلہ۔۔۔۔ سب بند تھے۔ مجھے خیال گزرا کہ ان کی سماعت بھی متاثر ہو چلی ہے۔ میں نے ذرا اونچی آواز میں دہرایا۔

"ہمارے یار جانی منور حسین مر گئے۔”

"ہاں، مجھے کسی نے بتایا تھا۔” انھوں نے بڑی لکنت سے کچھ کہا جس کا مطلب میں نے یہی سمجھا۔ مجھے کچھ ایسا محسوس ہوا جیسے وہ اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتے۔ میری بات پہ وہ اپنی توجہ بیس پچیس سیکنڈ سے زیادہ فوکس نہیں کر پا رہے تھے اور حاضر دماغی کے اس مختصر سے کوندے میں اپنا مدعا بیان کرنے میں مجھے خاصی دشواری محسوس ہو رہی تھی۔

وہ بات یہ تھی کہ اٹھائیس سال کراچی میں رہنے کے بعد میں نے جنوری 1979ء میں لندن جانے کے لیے رختِ سفر باندھا تو پہلے اپنے دونوں دوستوں (جن کے نام رسمی خانہ پری کی خاطر میاں احسان الٰہی اور منور حسین فرض کر لیجیے۔ نام میں کیا رکھا ہے۔ دوست کو کسی بھی نام سے پکاریں، گلوں ہی کی خوشبو آئے گی) کی تین باتیں اور یادیں انھیں کی زبانی ٹیپ پر محفوظ کیں۔ مفصل نوٹ بھی لیے۔ ان یاداشتوں پر مبنی و مشتمل دس خاکے اور مضامین لندن میں بڑی تیز قلمی سے لکھ ڈالے اور حسبِ عادت پال میں لگا دیے کہ ڈیڑھ دو سال بعد نکال کر دیکھیں گے کہ کچھ دم ہے بھی یا نرے سوختنی ہیں۔ میاں احسان الٰہی اور منور حسین سے دوبارہ ان کی اشاعت کی اجازت چاہی جو انھوں نے بخوشی اور غیر مشروط طور پر دے دی۔ میں نے صاف کرنے کے لیے مسودہ نکال کر دیکھا تو ایک عجیب کیفیت سے دوچار ہوا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے یہ سب کچھ کسی اور نے لکھا ہے۔ یہ بھی بالکل عیاں تھا کہ یہ دو کتابوں کا مواد ہے۔ میں ایک مسودے سے دو کتابیں برآمد کرنے کا جتن کر رہا تھا کہ منور حسین کا ایک مختصر سا خط موصول ہوا، جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ مجھے تو ذاتی طور پر کوئی تامل یا اعتراض نہیں، لیکن ممکن ہے اس کی اشاعت میرے اعزہ و اقربا کو اچھی نہ لگے۔ لہٰذا ان باتوں اور یادوں کو میرے نام سے منسوب نہ کیا جائے۔ قبل اس کے کہ میں کراچی جا کر ان سے اس موضوع پر مفصل گفتگو کروں، دو تین مہینے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔

میری روداد سن کر میاں احسان الٰہی نے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں کہا کہ مجھے تو کوئی اعتراض نہیں۔ آپ جیسا مناسب سمجھیں کریں۔ پھر کہنے لگے، بہت دن ہو گئے۔ اب پاکستان آ بھی جایے۔ ہمارے بعد آئے تو کیا آئے۔ بینائی بالکل جاتی رہی۔ کبھی کبھی مجھے آپ کا چہرہ یاد نہیں آتا۔ یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ سینتس سال میں، میں نے انھیں دوسری بار روتے دیکھا۔

اب میں عجیب پس و پیش میں مبتلا ہو گیا۔ دونوں کی یادیں اور باتیں ایک دوسرے میں کچھ اس طرح گتھی اور گندھی ہوئی تھیں کہ ان جڑواں سیامی تحریروں کو بے ضرر عملِ جراحی سے علیحدہ کرنا میرے بس کا کام نہ تھا۔ اور نہ یہ ممکن تھا کہ ایک کے نام، مقام اور شناختی کوائف کا تو انکشاف کر دوں اور دوسرے کی تلبیس لباس کر کے افسانوی لبادہ پہنا دوں۔ ان حالات میں میرے لیے اس کے سوا چارہ نہیں تھا کہ سارے مسودے کو یک قلم مسترد کر کے نہ صرف نام اور مقام بدل دوں، بلکہ اول تا آخر سب کچھ fictionalise کر دوں، جس کا ان دونوں سے کوئی تعلق نہ ہو۔ اور میں نے یہی کیا۔

چنانچہ "آبِ گم” کے پانچ کہانی نما خاکوں میں آپ جو کچھ ملاحظہ فرمائیں گے، اس کا ان دوستوں کے واقعاتِ زندگی یا ان کے احباب، بزرگوں اور لواحقین سے قطعاً کوئی تعلق یا مماثلت نہیں ہے۔ مودبانہ گزارش ہے کہ فکشن کو فکشن ہی سمجھ کر پڑھا جائے۔ اگر کوئی واقعہ سچ یا کردار "اصلی” نظر آئے تو اسے محض سوء اتفاق تصور فرمائیے۔ تمام تر واقعات و کردار فرضی ہیں۔ البتہ جن مشاہیر کا ذکر جہاں کہیں "بہ بدی” یا بر بنائے تنقیص آیا ہے، اسے جھوٹ نہ سمجھا جائے۔ اتنا ضرور ہے کہ میں نے حتی الا مکان منور حسین اور میاں احسان الٰہی کے مخصوص پیرایہ بیان اور انداز گفتگو کی لٹک۔۔۔۔۔۔ اور کہیں کہیں آپس کی نوک جھونک کے دوران شرارِ جستہ و فقرہ برجستہ۔۔۔۔۔ کو جوں کا توں برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔

یوں بھی اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ یہ فکشن ہے یا سچی واردات یا ان دونوں کا ملغوبہ جسے آج کل Fact + Fiction) Faction) کہا جاتا ہے۔ ایک چینی دانا کا قول ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بلی سیاہ ہے یا سفید۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ وہ چوہے پکڑ سکتی ہے یا نہیں۔

اس پس منظر کا ذکر و وضاحت مجھ پر اس لیے بھی واجب ہے کہ اس کتاب کا اصل محور، محرک اور باعثِ تصنیف ہر دو یارانِ رفتہ کی صحبت اور مطائبات تھے جو میری زندگی کا نہایت قیمتی سرمایہ ہیں۔ وہ صحبتِ یاراں میں ہر لمحے کو ایک جشن سمجھ کر گزار تے۔ اس قرض اور نعمتِ عظمیٰ کا اخفا بد دیانتی ہو گی۔

جس اکھڑی اکھڑی گفتگو کا اوپر ذکر آیا ہے، اس کے کچھ ہی دن بعد میاں احسان الٰہی بھی اپنے رب سے جا ملے اور دیس سونا کر گئے۔ اور اب میں ایک بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی زیرِ زرپرستی گیارہ سال لندن میں گزارنے کے بعد وطن کو مراجعت کی تیاری کر رہا ہوں۔ ان کا گلہ اور خدشہ صحیح ثابت ہو۔

پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو ذاتی، ادبی، پیشہ ورانہ، سیاسی اور قومی اعتبار سے اس عشرہ رائگاں میں زیاں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ سب کچھ کھو کر بھی کچھ نہ پایا۔ البتہ ملکوں ملکوں گھومنے اور وطن سے دور رہنے کا ایک بین فائدہ یہ دیکھا کہ وطن اور اہل وطن سے محبت نہ صرف بڑھ جاتی ہے بلکہ بے طلب اور غیر مشروط بھی ہو جاتی ہے:

سفر کردم بہر شہری دویدم

بہ لطف و حسن تو کس را ندیدم[3]

نقصان یہ کہ ہر خبر اور افواہ جو ادھر سے آتی ہے، دل دہلانے اور خون جلانے والی ہوتی ہے۔ پاکستان کی افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں۔ یہ عمل دس گیارہ سال تک جاری رہے تو حساس آدمی کی کیفیت سیسموگراف کی سی ہو جاتی ہے جس کا کام ہی زلزلوں کے جھٹکے ریکارڈ کرنا اور ہمہ وقت لرزتے رہنا ہے۔ یوں محسوس ہوتا جیسے ہماری سیاست کا قوام ہی آتش فشاں لاوے سے اٹھتا ہے:

دن رات ہے اک زلزلہ تعمیر میں میری​

لیڈر خود غرض، علما مصلحت بیں، عوام خوف زدہ اور راضی برضائے حاکم، دانش ور خوشامدی اور ادارے کھوکھلے ہو جائیں (رہے ہم جیسے لوگ جو تجارت سے وابستہ ہیں تو: کامل اس فرقہ تجار سے نکلا نہ کوئی) تو جمہوریت آہستہ آہستہ آمریت کو راہ دیتی چلی جاتی ہے۔ پھر کوئی طالع آزما آمر ملک کو غضب ناک نگاہوں سے دیکھنے لگتا ہے۔ تیسری دنیا کے کسی بھی ملک کے حالات پر نظر ڈالیے: ڈکٹیٹر خود نہیں آتا، لایا اور بلایا جاتا ہے۔ اور جب آ جاتا ہے تو قیامت اس کے ہم رکاب آتی ہے۔ پھر وہ روایتی اونٹ کی طرح بدوؤں کو خیمے سے نکال باہر کرتا ہے۔ باہر نکالے جانے کے بعد کھسیانے بدو ایک دوسرے کا منہ نوچنے لگتے ہیں۔ پھر ایک نایاب بلکہ عنقا شے کی جستجو میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے سے زیادہ غبی اور تابع دار اونٹ تلاش کر کے اسے دعوت دینے کے منصوبے بنانے لگتے ہیں تاکہ اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر اپنے خیمے میں رہ سکیں اور آقائے سابق الانعام یعنی پچھلے اونٹ پر تبرا بھیج سکیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈکٹیٹر سے زیادہ مخلص اور کوئی نہیں ہو سکتاہ اس معنی میں کہ وہ خلوصِ دل سے یہ سمجھتا ہے کہ ملک و ملت سے جس طرح ٹوٹ کر وہ محبت کرتا ہے اور جیسی اور جتنی خدمت وہ تنِ تنہا کر سکتا ہے، وہ پوری قوم کے بوتے کا کام نہیں۔ نیز اسی کی ذاتِ واحد خلاصہ کائنات اور بلا شرکتِ غیرے سر چشمہ ہدایت ہے، لہذا اس کا ہر فرمان بمنزلہ صحیفہ سماوی ہے۔

آتے ہیں غیب سے یہ فرامیں خیال میں

​ اس میں شک نہیں کہ اس کے پاس ان مسائل (Non-issues) اور فرضی قضیوں کا نہایت اطمینان بخش حل ہوتا ہے جو وہ خود اپنی جودتِ طبع سے کھڑے کرتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اخباری معمے (کراس ورڈ) بنانے والوں کی طرح پہلے وہ بہت سے حل اکھٹے کر لیتا ہے اور پھر اپنے ذہنِ معما ساز کی مدد سے ان سے آڑے ترچھے مسائل گھڑتا چلا جاتا ہے۔

رائے کی قطعیت اور اقتدار کی مطلقیت کا لازمی شاخسانہ یہ کہ وہ بندگانِ خدا سے اس طرح خطاب کرتا ہے جیسے وہ سب پتھر کے عہد کے وحشی ہوں اور وہ انھیں ظلمت سے نکال کر اپنے دورِ ناخدائی میں لانے اور بن مانس سے آدمی اور آدمی سے انسان بنانے پر مامور من اللہ ہے۔ وہ ہمہ وقت اپنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار سے خطاب کرتا رہتا ہے مگر قدِ آدم حروف میں اس پر لکھا ہوا نوشتہ اسے نظر نہیں آتا۔ مطلق العنانیت کی جڑیں در اصل مطلق الانانیت سے پیوست ہوتی ہیں۔ چنانچہ اوامر و نواہی کا انحصار اس کی جنبشِ ابرو پر ہوتا ہے۔ انصاف کی خود ساختہ ترازو کے اونچے اونچے پلڑوں کو، اپنی تلوار کا پاسنگ، کبھی اس پلڑے اور کبھی اس پلڑے میں ڈال کر برابر کر دیتا ہے:

ہر کہ آمد عدالتِ نو ساخت​

ایسی سرکارِ دولت مدار کو ما بدولت مدار کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ نقلِ کفر، کفر نہ باشد، مرزا عبد الودود بیگ تو (جو ابتدا میں ہر حکومت کی زور شور سے حمایت اور آخر میں اتنی ہی شد و مد سے مخالفت کرتے ہیں) ایک زمانے اپنے کان پکڑتے ہوئے یہاں تک کہتے تھے کہ اللہ معاف کرے میں تو جب اعوذ با للہ من الشیطان الرجیم کہتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے رجیم سے یہی regime مراد ہے! نعوذ باللہ۔ ثم نعوذ باللہ۔

پھر جیسے جیسے امورِ سلطنت پر وفورِ تمکنت اور ہوسِ حکمرانی غالب آتی ہے۔ آمر اپنے ذاتی مخالفین کو خدا کا منکر اور اپنے چاکر ٹولے کے نکتہ چینوں کو وطن کا غدار اور دین سے منحرف قرار دیتا ہے۔ اور جو اس کے دستِ آہن پوش پر بیعت میں عجلت سے کام نہیں لیتے ان پر اللہ کی زمین کا رزق، اس کی چھاؤں اور چاندنی حرام کر دینے کی بشارت دیتا ہے۔ ادیبوں اور تلامیذ الرحمن کو شاہی مطبخ کی بریانی کھلا کر یہ بتلاتا ہے کہ لکھنے والے کے کیا فرائض ہیں اور نمک حرامی کسے کہتے ہیں۔ وہ یہ جانتا ہے کہ ادب اور صحافت میں ضمیر فروش سے بھی زیادہ مفیدِ مطلب ایک اور قبیلہ ہوتا ہے جسے مافی الضمیر فروش کہنا چاہیے۔ اس سے وہ تصدیق کراتا ہے کہ میرے عہد میں اظہار و ابلاغ پر کوئی قدغن نہیں، مطلب یہ کہ جس کا جی چاہے جس زمین اور جس بحر میں قصیدہ کہے۔ قطعاً کوئی روک ٹوک نہیں۔ بلکہ وزن، بحر اور عقل سے خارج ہو تب بھی ہم حارج نہیں ہوں گے۔ بامتشالِ امر قصائدِ نو کے انبار لگ جاتے ہیں۔

روز اک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ​

جیسے اور دور گزر جاتے ہیں، یہ دور بھی گزر گیا۔ لیکن کچھ لوگ ایسے خوف زدہ اور چڑھتے سورج کی پرستش کے اتنے عادی ہو گئے تھے کہ سورج ڈوبنے کے بعد بھی سجدے میں پڑے رہے کہ نہ جانے پھر کب اور کدھر سے نکل آئے۔ کبھی کسی نے کولی بھر کے زبردستی کھڑا کرنا چاہا بھی تو معلوم ہوا کہ کھڑے نہیں ہو سکتے۔ جوڑ بند سب اکڑ کر رہ گئے ہیں۔ اور اب وہ اپنے تمام معمولات اور فرائضِ منصبی حالتِ سجود میں ادا کرنے کے عادی و خوگر ہو گئے ہیں۔

یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا۔

ارجنٹائن ہو یا الجزائر، ترکی ہو یا بنگلہ دیش یا عراق و مصر و شام، اس دور میں تیسری دنیا کے تقریباً ہر ملک میں یہی ڈراما کھیلا جا رہا ہے۔۔۔ سیٹ، مکالمے اور ماسک کی وقتی اور مقامی تبدیلیوں کے ساتھ۔ متذکرہ صدر دس تحریریں جو اپنی ساخت، ترکیب اور دانستہ و آراستہ بے ترتیبی کے اعتبار سے مونتاژ، اور پھیلاؤ کے لحاظ سے ناول سے زیادہ قریب ہیں، اسی دورِ ضیاع کا تلخاب ہیں۔

ان میں سے صرف پانچ اس کتاب میں شامل ہیں۔ کہتے ہیں کسی نے امینول جوزف سائیز سے پوچھا کہ آپ نے انقلابِ فرانس میں کون سا شاندار کارنامہ انجام دیا تو اس نے جو سہ لفظی جواب دیا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا (J’ai Vecu” (I survived” یعنی میں اپنے آپ کو بچا لے گیا۔ لیکن مجھے معلوم نہیں میں خود کو اپنے آپ سے بھی بچا پایا کہ نہیں۔ وطن اور احباب سے گیارہ سال دوری اور مہجوری کا جو اثر طبیعت پر مرتب ہوتا ہے اس کی پرچھائیاں آپ کو جہاں تہاں ان تحریروں میں نظر آئیں گی۔ یوں لندن بہت دلچسپ جگہ ہے اور اس کے علاوہ بظاہر اور کوئی خرابی نظر آتی کہ غلط جگہ واقع ہوا ہے۔ تھوڑی سی بے آرامی ضرور ہے، مثلاً مطلع ہمہ وقت ابر و کہر آلود رہتا ہے۔ صبح اور شام میں تمیز نہیں ہوتی۔ اسی لیے لوگ A.M اور P.M. بتانے والی ڈائل کی گھڑیاں پہنتے ہیں۔ موسم ایسا جیسے کسی کے دل میں بغض بھرا ہو۔ گھر اتنے چھوٹے اور گرم کہ محسوس ہوتا ہے کمرہ اوڑھے پڑے ہیں۔ پھر بقول ملک الشعرا فلپ لارکن یہ کیسی مجبوری کہ

"Nowhere to go but indoors”​

روشن پہلو یہ کہ شائستگی، رواداری اور بردباری میں انگریزوں کا جواب نہیں۔ مذہب، سیاست اور سیکس پر کسی اور کیسی بھی محفل میں گفتگو کرنا خلافِ تہذیب اور انتہائی معیوب سمجھتے ہیں۔۔۔۔ سوائے پب (شراب خانہ) ‌اور بار کے! گمبھیر اور نازک مسائل پر صرف نشے کی حالت میں اظہارِ خیال کرتے ہیں۔ بے حد خوش اطوار اور ہمدرد۔ کار والے اتنے خوش اخلاق کہ اکلوتے پیدل چلنے والے کو راستہ دینے کے لیے اپنی اور دوسروں کی راہ کھوٹی کر کے سارا ٹریفک روک دیتے ہیں۔ مرزا عبد الودود بیگ کہ سدا کے جذباتی ٹھہرے، سرِ را ہے اپنی اس توقیر سے اتنے متاثر ہوتے ہیں کہ بے تحاشا جی چاہتا ہے زبیرا لائن پر ہی کھڑے ہو کر پہلے سب کو جھک جھک کر فرد آ فرد آ کورنش بجا لائیں، پھر سڑک کراس کریں۔ مختصراً  یہ کہ کنجِ قفس میں اچھی گزرتی ہے۔

قفس میں کوئی اذیت نہیں مجھے، صیاد!

بس ایک حشر بپا بال و پر میں رہتا ہے ​

کوئی لکھنے والا اپنے لوگوں، ہم عصر ادیبوں، ملکی ماحول و مسائل، لوک روایت اور کلچر سے کٹ کر کبھی کوئی زندہ اور تجربے کہ دہکتی کٹھالی سے نکلا ہوا فن پارہ تخلیق نہیں کر سکتا۔ برطانیہ میں رہنے والے ایشائیوں میں سو میں سے ننانوے اب خوبصورت درختوں کے نام نہیں بتا سکتے جو ان کے مکانوں کے سامنے جانے کب سے کھڑے ہیں۔ (رہا سواں آدمی، سو اس نے درختوں کو کبھی نوٹس ہی نہیں کیا) نہ ان رنگ برنگے پرندوں کے نام جو منھ اندھیرے اور شام ڈھلے ان چہچہاتے ہیں۔ اور نہ اس گرل فرینڈ کے بالوں کا شیڈ بتا سکتے ہیں جس کے رات بھر بڑی روانی سے غلط انگریزی بولی۔۔۔ گولڈن آبرن، کاپر آبرن، ایش بلانڈ، چیسٹ نٹ براؤن، ہیزل براؤن، برگنڈی براؤن۔۔۔۔؟ کچھ معلوم نہیں۔ ان کی خیرہ نگاہیں تو "جو کچھ بھی ہو خدا کی قسم لاجواب ہو” کے فلمی مقام پر آ کر ٹھہر جاتی ہیں۔ غیر ملک کی زندگی اور معاشرے کا مشاہدہ اور اس کے مسائل کی تفہیم اور گرفت اتنی سرسری اور سطحی ہوتی ہے کہ کبھی میوزیم، آرٹ گیلری، تھیٹر، نائٹ کلب، سوہو کی شب تاب گلیوں کے طواف، ایسٹ اینڈ میں ذلت آمیز "مکنگ” یا چیئرنگ کراس پر گاہک کی منتظر شب زادیوں کی عنایاتِ عاجلہ سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ بہت تیر مارا تو برطانیہ شہریت حاصل کر کے وہ رہی سہی عزت بھی گنوا دی جو ٹورسٹ یا مہمان مزدور کی حیثیت سے حاصل تھی، یا بیک وقت برٹش پاسپورٹ اور "اربابِ وطن کی بے بسی کا انتقام” لینے کی غرض سے کسی انگریز عورت سے شادی کر لی اور اپنے حسابوں سارے انگلستان کی ازار بندی رشتے سے مشکیں کس دیں۔ نک سک اور نسلی اعتبار سے انگریزوں کا "اسٹاک” بہت اچھا ہے۔ قد کاٹھ، رنگ روپ اور تیکھے ترشے نقوش کے لحاظ سے ان کا شمار خوب صورتوں میں ہوتا ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ بدصورت انگریز عورت rarity (نایاب) ہے۔ بڑی مشکل سے نظر آتی ہے۔ یعنی ہزار میں ایک۔ پاکستانی اور ہندوستانی اسی عورت سے شادی کرتا ہے! لیکن انگریز عورت کو حبالہ نکاح میں لانے سے نہ تو انگلستاں فتح ہوتا ہے، نہ سمجھ میں آتا ہے بلکہ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، خود عورت بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ چنانچہ جلا وطن ادیب (خواہ اس نے بہتر تنخواہ اور بدتر سلوک کی خاطر خود کو ملک بدر کیا ہو یا ذاتی اور سیاسی مجبوری کے تحت آسودہ حال جلا وطنی اختیار کی ہو) ہر پھر کر اسی چھوڑی ہوئی منزل اور گزری ہوئی زندگی کی تصویر کشی کرتا ہے جسے مرورِ ایام، غربت اور فاصلے نے اب آؤٹ آف فوکس کر کے گلیمرائز بھی کر دیا ہے۔ جلا وطن وہائٹ روسی ادیب اس کی بہترین مثال ہیں۔ لندن میں مقیم یا آباد اردو ادیبوں کا بھی کچھ ایسا ہی احوال ہوا:

کوئی ان کی بزم جمال سے کب اٹھا، خوشی سے کہاں اٹھا

جو کبھی اٹھا بھی اٹھائے سے تو اسی طرف نگراں اٹھا​

لندن میں اس راندۂ درگاہ پر کیا گزری اور کیسے کیسے باب ہائے خرد افروز وا ہوئے، یہ ایک الگ داستان ہے جس میں کچھ ایسے پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں جو: صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔ اسے ان شاء اللہ جلد ایک علیحدہ کتاب کی شکل میں پیش کروں گا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ "زرگزشت” کی اشاعت کے بعد ارادہ تھا کہ کوچہ سود خواراں میں اپنی خواری کی داستان، آخری باب میں باب میں جہاں ختم ہوئی ہے، وہیں سے دوسری جلد کا آغاز کروں گا۔ لیکن درمیان میں لندن، ایک اور بینک، ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف اور "آب گم” آ پڑے۔ کچھ اندیشہ ہائے دور دراز بھی ستانے لگے۔ مثلاً یہی کہ میرے ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز یہ نہ سمجھیں کہ بینکینگ کیریر تو محض کیموفلاژ اور بہانہ تھا۔ در اصل یکم جنوری 1950ء یعنی ملازمت کے روزِ اول ہی سے میری نیت میں فتور تھا۔ محض مزاح نگاری اور خود نوشت کے لیے سوانح اکھٹے کرنے کی غرض سے فقیر اس حرام پیشے سے وابستہ ہوا( وہ بھی کیا زمانہ تھا جب حرام پیسے کی صرف ایک ہی شکل ہوا کرتی تھی۔۔۔ سود! ) دوسری حوصلہ شکن الجھن جو "زرگزشت” حصہ دوم کی تصنیف میں مانع ہوئی، یہ تھی کہ یہ اردو فکشن کا سنہری دور ہے۔ آج کل اردو میں بہترین فکشن لکھی جا رہی ہے۔۔۔۔ خود نوشت اور سفر ناموں کی شکل میں! افسانے اور ناول ان کی گرد کو نہیں پہنچتے۔ افسوس، میرے یہاں سوانح کا اتنا فقدان ہے کہ تا دمِ تحریر، زندگی کا سب سے اہم واقعہ میری پیدائش ہے ( بچپن کا سب سے زیادہ قابلِ ذکر واقعہ یہ تھا کہ بڑا ہو گیا) اور غالباً آپ بھی مجھ سے متفق ہوں گے کہ اس پر میں کوئی تین ایکٹ کا سنسنی خیز ڈراما نہیں لکھ سکتا۔ تیسرا سبب خامہ خود بین و خود آرا کو روکے رکھنے کا یہ کہ اس اثنا میں لارڈ کونٹن کے تاثرات نظر سے گزرے۔ وہ ٹرینٹی کالج، آکسفورڈ کا پریسیڈنٹ اور بورڈ آف برٹش لائبریری کا چیرمین ہے۔ علمی و ادبی حلقوں میں عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے ذاتی کتب خانے میں بیس ہزار سے زائد کتابیں ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ میں خود نوشت سوانح عمری کو سوانح عمری کے ساتھ کبھی نہیں رکھتا۔ مزاح کی الماری میں رکھتا ہوں! عاجز اس کی ذہانت پر ہفتوں عش عش کرتا رہا کہ اس کی خود نوشت سوانح نو عمری زرگزشت پڑھے بغیر وہ زیرک اس نتیجے پر کیسے پہنچ گیا۔ ابھی اگلی ظرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں۔

اس مجموعے کے بیشتر کردار ماضی پرست، ماضی زدہ اور مردم گزیدہ ہیں۔ ان کا اصل مرض ناسٹل جیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ زمانی اور مکانی، انفرادی اور اجتماعی۔ جب انسان کو ماضی، حال سے زیادہ پرکشش نظر آنے لگے اور مستقبل نظر آنا ہی بند ہو جائے تو باور کرنا چاہیے کہ وہ بوڑھا ہو گیا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ بڑھاپے کا جوانی لیوا حملہ کسی بھی عمر میں۔۔۔۔ بالخصوص بھری جوانی میں۔۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے۔ اگر افیم یا ہیروئن دستیاب نہ ہو تو پھر اسے یادِ ماضی اور فینٹسی میں، جو تھکے ہاروں کی آخری پناہگاہ ہے، ایک گونہ سرخوشی محسوس ہوتی ہے۔ جیسے کچھ حوصلہ اور جفا کش لوگ اپنے زورِ بازو سے اپنا مستقبل بناتے ہیں، اسی طرح وہ زورِ تخیل سے اپنا ماضی آپ بنا لیتا ہے۔ پھر اندر ہی اندر کہیں ابھرتی، گم ہوتی سوت ندیوں اور کہیں کاریزوں کی صورت، خیال بگولوں میں بوئی ہوئی کھیتی کو سینچتا رہتا ہے اور کہیں اچانک کسی چٹان سے چشمہ آبِ زندگانی بن کے پھوٹ نکلتا ہے۔

کبھی کبھی قومیں بھی اپنے اوپر ماضی کو مسلط کر لیتی ہیں۔ غور سے دیکھا جائے تو ایشیائی ڈرامے کا اصل ولن ماضی ہے۔ جو قوم جتنی پسماندہ، درماندہ اور پست حوصلہ ہو، اس کو اپنا ماضی معکوس اقلیدسی تناسب (inverse geometrical ratio) میں اتنا ہی درخشاں اور دہرائے جانے کے لائق نظر آتا ہے۔ ہر آزمائش اور ادبار و ابتلا کی گھڑی میں وہ اپنے ماضی کی جانب راجع ہوتی ہے۔ اور ماضی بھی وہ نہیں کہ جو واقعتاً تھا، بلکہ وہ جو اس نے اپنی خواہش اور پسند کے مطابق ازسرِنو گھڑ کر آراستہ پیراستہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔ ماضی تمنائی۔ اس پاستان طرازی کے پس منظر میں مجروح ان کا طاؤسی رقص دیدنی ہوتا ہے کہ مور فقط اپنا ناچ ہی نہیں، اپنا جنگل بھی خود ہی پیدا کرتا ہے۔ ناچتے ناچتے ایک طلسماتی لمحہ ایسا آتا ہے کہ سارا جنگل ناچنے لگتا ہے اور مور خاموش کھڑا دیکھتا رہ جاتا ہے۔ ناسٹل جیا اسی لمحہ منجمد کی داستان ہے۔

شکست خوردہ انا اپنے لیے کہاں کہاں اور کیسی کیسی پناہیں تراشتی ہے، یہ اپنے اپنے ذوق، ظرف، تابِ ہزیمت اور طاقتِ فرار پر منحصر ہے۔۔۔ تصوف، تقشف، مراقبہ، شراب، مزاح، سیکس، ہیروئن، ویلیم، ماضی تمنائی، فینٹسی (خوابِ نیم روز)۔۔۔۔۔ جس کو جو نشہ راس آ جائے۔ آرنلڈ نے ہار جانے والے مگر نہ ماننے والے، دھیان دھول میں لت پت مشرق کی ہار سہار کے بارے میں لکھا تھا:

The East bow’d low before the blast

In patient, deep disdain

She let the legions thunder past

And plunged in thought again

اس اس مغرور مراقبے میں صدیاں بیت جاتی ہیں۔ سب سے زیادہ خواب آور اور گہرا نشہ جو انسان کو حاضر و موجود سے بے نیاز کر دیتا ہے، خود اپنے لہو میں کسی خواب یا خیال کے فشار و آمیزش سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ بے خودی میسر آ جائے تو پھر سب گوارا، سب کچھ پذیرا۔

ہزار آشفتگی مجموعہ یک خواب ہو جائے ​

صاحب مراۃ الخیال سے روایت ہے کہ جب کفر و برہنگی کے الزام میں سرمد کو پابجولاں شہادت گاہ لے جایا گیا تو وہ تیغ بکف جلاد کو دیکھ کر مسکرا دیا۔ اور گویا ہوا "فدائے تو شوم! بیا بیا کہ تو بہر صورت می آئی من ترا خوب می شناسی” پھر یہ شعر پڑھا اور سر تلوار کے نیچے رکھ کر ابدی نیند سو گیا۔

شورے شد و از خوابِ عدم چشم کشودیم

دیدیم کہ باقیست شبِ فتنہ غنودیم​

قدیم زمانے میں چین میں دستور تھا کہ جس شخص کا مذاق اڑانا مقصود ہوتا، اس کی ناک پر سفیدی پوت دیتے تھے۔ پھر وہ دکھیا کتنی بھی گمبھیر بات کہتا، کلاؤن ہی لگتا تھا۔ کم و بیش یہی حشر مزاح نگار کا ہوتا ہے۔ وہ اپنی فولس کیپ[4] اتار کر پھینک بھی دے تو لوگ اسے جھاڑ پونچھ کر دوبارہ پہنا دیتے ہیں۔ مجھے یہ تو علم نہیں کہ کوچہ سود خواراں میں سر پر دستار رہی یا نہیں، تاہم آپ اس کتاب کا موضوع، مزاج اور ذائقہ مختلف پائیں گے۔ موضوع اور تجربہ خود اپنا پیرایہ اور لہجہ متعّین کرتے چلے جاتے ہیں۔ اقبال خدا کے حضور مسلمانوں کا شکوہ اپنے استاد فصیح الملک داغ دہلوی کی نخرے چونچلے کرتی زبان میں نہیں لکھ سکتے تھے۔ رسوا کی امراؤ جان ادا اور طوائفوں سے متعلق منٹو کے افسانوں کا ترجمہ اگر مولانا ابو الکلام آزاد کی جنّاتی زبان میں کر کے انہیں (طوائفوں کو) بالجبر سنایا جائے تو مجھے یقین ہے کہ ایک ہی صفحہ سن کر کان پکڑ لیں اور اپنے دھندے سے تائب ہو جائیں۔ وہ تو وہ، خود ہم اپنے طرزِ نگارش و معاش سے توبہ کر لیں کہ آج وہ، کل ہماری باری ہے۔ بہر کیف، اس بار موضوع، مواد اور مشاہدات سب قدرے مختلف تھے۔ سو وہی لکھا جو دیکھا۔ قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید۔

قصّہ گو قلندر کو اپنی عیاری یا راست گفتاری کا کتنا ہی زعم ہو، اور اس نے اپنا سر کتنا ہی باریک کیوں نہ ترشوا رکھا ہو، بافنگانِ ژرف و حکایت کی پرانی عادت ہے کہ کہانی کا تانا بانا بنتے بنتے اچانک اس کا رنگ، رخ اور ذائقہ بدل دیتے ہیں۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کہانی کہتے کہتے خود کہنے والے کو کچھ ہو جاتا ہے۔ وہ پھر وہ نہیں رہتا کہ جو تھا۔ سو کچھ ایسی ہی واردات اس نامہ سیاہ راقمِ سطور کے ساتھ ہوئی۔ وَ اَنّہ ہو اَ ضحکَ وَ ابکیٰ[5]۔ یہ نہ ادّعا ہے، نہ اعتذار، فقط گزارشِ احوال واقعی ہے۔

چنگ را گیرید از ستم کہ کار از دست رفت

نغمہ ام خوں گشت و از رگہائے ساز آید بروں[6]

بحمد للہ! میں اپنی طبعی اور ادبی عمر کی جس منزل میں ہوں وہاں انسان تحسین اور تنقیض دونوں سے اس درجہ مستغنی ہو جاتا ہے کہ ناکردہ خطاؤں تک کا اعتراف کرنے میں حجاب محسوس نہیں کرتا؟ چنانچہ اب مجھے "کسے کہ خنداں نہ شد از قبیلہ مانیست” پر اصرار کے باوجود یہ اقرار کرنے میں خجالت محسوس نہیں ہوتی کہ میں طبعاً، اصولاً اور عادتاً یاس پسند اور بہت جلد شکست مان لینے والا آدمی ہوں۔ قنوطیت غالباً مزاح نگاروں کا مقدّر ہے۔ مزاح نگاری کے باوا آدم ڈین سوفٹ پر دیوانگی کے دورے پڑتے تھے اور اس کی یاس پسندی کا یہ عالم تھا کہ اپنی پیدائش کو ایک المیہ سمجھتا تھا۔ چنانچہ اپنی سالگرہ کے دن بڑے التزام سے سیاہ ماتمی لباس پہنتا اور فاقہ کرتا تھا۔

مارک ٹوین پر بھی اخیر عمر میں کلبیت طاری ہو گئی تھی۔ مرزا کہتے ہیں کہ ان مشاہیر محتشم سے تمہاری مماثلت بس اسی حد تک ہے۔ بہرحال، قبل از وقت مایوس ہو جانے میں ایک فائدہ یہ دیکھا کہ ناکامی اور صدمے کا ڈنک اور ڈر پہلے ہی نکل جاتا ہے۔ بعض نامور پہلوانوں کے گھرانوں میں یہ رواج ہے کہ ہونہار لڑکے کے بزرگ اس کے کان بچپن میں ہی توڑ دیتے ہیں، تاکہ آگے چل کر کوئی ناہنجار پہلوان توڑنے کی کوشش کرے تو ذرا تکلیف نہ ہو۔ مزاح کو میں دفاعی میکے نزم سمجھتا ہوں۔ یہ تلوار نہیں، اس شخص کا زرہ بکتر ہے جو شدید زخمی ہونے کے بعد اسے پہن لیتا ہے۔ زین بدھ ازم میں ہنسی کو گیان کا زینہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن سچ پوچھیے تو اونچ نیچ کا سچا گیان اس سمے پیدا ہوتا ہے جب کھبے پر چڑھنے کے بعد کوئی نیچے سے سیڑھی ہٹا لے۔ مگر ایک کہاوت یہ بھی سنی کہ بندر پیڑ کی پھننگ پر سے زمین پر گر پڑے تب بھی بندر ہی رہتا ہے۔

"حویلی” کی کہانی ایک متروکہ ڈھنڈورا حویلی اور اس کے مغلوب الغضب مالک کے گرد گھومتی ہے۔ "اسکول ماسٹر کا خواب” ایک دکھی گھوڑے، حجام اور منشی سے متعلق ہے۔ "شہر دو قصہ” ایک چھوٹے سے کمرے اور اس میں پچھتر سال گزار دینے والے سنکی آدمی کی کہانی ہے "دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ” میں ایک قدیم قصباتی اسکول اور اس کے ایک ٹیچر اور بانی کے کیری کیچور[7] پیش کیے گئے ہیں۔ اور "کار، کابلی والا اور الہ دین بے چراغ” ایک کھٹارا کار، ناخواندہ پٹھان آڑھتی اور شیخی خورے اور لپاڑی ڈرائیور کا حکایتی طرز میں ایک طویل خاکہ ہے۔ ان میں جو کردار مرکزی، ثانوی یا محض ضمنی حیثیت سے ابھرتے ہیں، وہ سب کے سب اصطلاحاً بہت "عام” اور سماجی رتبے کے لحاظ سے بالکل "معمولی” ہیں۔ اسی لیے خاص التفات اور تامّل چاہتے ہیں۔ میں نے زندگی کو ایسے ہی لوگوں کے حوالے سے دیکھا، سمجھا، پرکھا اور چاہا ہے۔ اسے اپنی بد نصیبی ہی کہنا چاہیے کہ جن "بڑے” اور "کامیاب” لوگوں کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، انہیں بحیثیت انسان بالکل ادھورا، گرہ دار اور یک رخا پایا۔ کسی دانا کا قول ہے کہ جس کثیر تعداد میں قادرِ مطلق نے عام آدمی بنائے ہیں، اسے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں بنانے میں اسے خاص لطف آتا ہے، وگرنہ اتنے سارے کیوں بناتا۔ اور قرن با قرن سے کیوں بناتا چلا جاتا۔ جب ہمیں بھی یہ اتنے ہی اچھے اور پیارے لگنے لگیں تو جاننا چاہیے کہ ہم نے اپنے آپ کو پہچان لیا۔ اس ایسے ہی عام انسانوں کا تذکرہ ہے۔ ان کی الف لیلیٰ ایک ہزار ایک راتوں میں بھی ختم نہیں ہو سکتی کہ

ہے ہر اک فرد جہاں میں ورقِ ناخواندہ

ممکن ہے بعض طبائع پر جزئیات کی کثرت اور پلاٹ کا فقدان گراں گزرے۔ میں نے پہلے کسی اور ضمن میں عرض کیا ہے کہ پلاٹ تو فلموں، ڈراموں، ناولوں اور سازشوں میں ہوتا ہے۔ ہمیں تو روزمرہ کی زندگی میں دُور دُور اس کا نشان نہیں ملا۔ رہی جزئیات نگاری اور باریک بینی تو اس میں فی نفسہ کوئی عیب نہیں۔ اور نہ خوبی۔ جزئیات اگر محض خوردہ گیری پر مبنی نہیں، اور سچی اور جان دار ہیں تو اپنی کہانی اپنی زبانی کہتی چلی جاتی ہیں۔ انھیں توڑ مروڑ کر افسانوی سانچے میں ڈھالنے یا کسی آدرشی شکنجے میں کسنے کی ضرورت نہیں۔ ککول، چخیف اور کلاڈسیمون زندگی کی چھوٹی چھوٹی جزئیات اپنے کینوس پر بظاہر بڑی لاپروائی سے بکھیرتے چلے جاتے ہیں۔ پروست نے ایک پورا ناول ایک ڈنر پارٹی کی تفصیل بیان کرنے میں لکھ دیا جو یادوں کے total recall ( مکمل باز آفرینی ) کی بہترین مثال ہے۔ (ہم نے یادوں کی برات ” کا قصداً ذکر نہیں کیا۔ اس لیے کہ اس میں دولہا براتیوں کے کاندھے پر سوار انھیں چھوہاروں سے مارتا اپنی شہنائی آپ بجاتا جاتا ہے۔ آرسی مصحف کے دوران آئینے میں اپنی ہی صورت دیکھ کر ہزار جان سے فریفتہ ہو جاتا ہے۔ دلہن کا چہرہ اسے نظر ہی نہیں آتا۔ اس کے بعض کرداروں کے نام اور کارنامے آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہیں۔ )

انگریزی کے عظیم ترین (بغیر پلاٹ کے ) ناول Ulysses کی کہانی۱۶ جون ۱۹۱۶ء کو صبح آٹھ بجے شروع ہو کر اسی دن ختم ہو جاتی ہے۔ یوجین اونیل کے ڈرامے Long Day’s Journey Into Night کی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے۔ ان شاہکاروں کا حوالہ دینے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اگر میری کچھ بات نہیں بنی تو یہ تکنیک کا قصور نہیں، سراسر میری کم سوادی اور بے ہنری ہے پیڑ گنتا رہ گیا، جنگل کا سماں نہ دکھلا سکا۔ آبشار نیاگرا کی ہیبت اور بلندی کا اندازہ لگانے کے لیے اس کے نیچے کھڑے ہو کر اوپر دیکھنا ضروری ہے۔ میں جتنی بار اوپر دیکھتا ہوں، کلاہِ پِندار قدموں پر آن پڑتی ہے۔

یہاں ایک ادبی بدعت اور بد مذاقی کی وضاحت اور معذرت ضروری سمجھتا ہوں۔ فارسی مصرعوں اور اشعار کے معنی فٹ نوٹ یا قوسین میں دینے کی دو وجہیں ہیں۔ اولاً، نئی نسل کے پڑھنے والوں کو ان کے معنی معلوم نہیں۔ دوم، خود مجھے بھی معلوم نہیں تھے۔ تفصیل اس اجمالِ پُر ملال کی یہ کہ عاجز نے باقاعدہ فارسی صرف چار دن چوتھی جماعت میں پڑھی تھی اور آمد نامہ کی گردان سے اس قدر دہشت زدہ ہوا کہ ڈرائنگ لے لی۔ ہر چند کہ اس میں گردان نہیں تھی، لیکن مقاماتِ آہ و فغاں کہیں زیادہ نکلے۔ اس میں میٹرک تک میری مہارت صراحی اور طوطا بنانے سے آگے نہ بڑھ پائی۔ اور میں ہر دو اشیا ڈرائنگ میں اسپیشلائز کرنے سے پہلے بھی بالکل ویسے ہی بنا سکتا تھا۔ ڈرائنگ ماسٹر کہتا تھا کہ تم اپنا نام اتنی محبّت اور محنت سے لکھتے ہو اور تمہاری lettering (حرف کشی) اتنی خوبصورت ہے کہ تمھیں فیل کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ اگر تم اسکیچ کے نیچے یہ نہ لکھو کہ یہ انگور کی بیل ہے تو تمھیں سو میں سے سو نمبر ملیں۔ تین کرم فرما ایسے ہیں جو بخوبی جانتے ہیں کہ میں فارسی سے نابلد ہوں۔ چنانچہ وہ اپنے خطوط اور گفتگو میں صرف فارسی اشعار سے میری چاند ماری کرتے ہیں۔ دس بارہ برس تو میں ستائشی حیرت، دوستانہ درگزر اور مؤدبانہ نا فہمی کے عالم میں یہ ساب جھیلتا رہا۔ پھر اوسان درست ہوئے تو یہ وتیرہ اختیار کیا کہ اپنے جن احباب کے بارے میں مجھے بخوبی علم تھا کہ فارسی میں ان کی دست گاہ میرے برابر (یعنی صفر) ہے، انھیں ان اشعار سے ڈھیر کرنے لگا۔ اس عمل سے میری توقیر اور رعبِ فارسی دانی مں دس گنا اضافہ ہوا اور لطفِ صحبت ومراسلت میں اسی قدر کمی واقع ہو گئی۔ اس کتاب میں فارسی کے جو اشعار یا مصرعے جہاں تہاں نظر آئیں وہ ان ہی تین کرم فارماؤں کے بے طلب عطایا میں سے ہیں۔ یہ ہیں درویش بے ریا وریش برادرم منظور الٰہی بخش ( مصنّف دّردل کشا اور سلسلۂ روز و شب ) جو پر سشِ حال کے لیے بصرفِ کثیر لاہور سے لندن انٹرنیشنل کال بھی کریں تو پہلے علالت وعیادت سے متعلق فارسی اشعار سناتے ہیں۔ پھر میری فرمائش پر ان کا اردو ترجمہ و تشریح۔ اتنے مں وقت ختم ہو جاتا ہے اور آپریٹر لائن کاٹ دیتا ہے۔ دوسرے دن وہ مجھے محبّت، معذرت اور فارسی اشعار سے لبریز خط لکھتے ہیں کہ معاف کیجیے، آپ کا آپریشن کس چیز کا ہوا تھا اور اب طبیعت کیسی ہے۔ جب سے سنا ہے بہت تردد ہے۔ وقت ضائع کرنے پر سعدی نے کیا خوب کہا ہے ____ مگر بیدل نے اسی مضمون کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا واہ واہ!

دوسرے کرم فرما ہیں ڈاکٹر ضیاءالدین شکیب کہ جب بھی برٹش لائبریری جاتے ہیں، بک اسٹال سے ایک خوب صورت اور سمجھ میں آنے والا تصویری پوسٹ کارڈ خریدتے ہیں۔ پھر اس پر فیضی، بیدل یا طالب آملی کے شعر سے پانی پھیر کر مجھے پوسٹ کر دیتے ہیں۔ اور تیسرے ہیں حبیب لبیب و صاحبِ طرز ادیب محّبی مختار مسعود جو عاجز کے وسیع و عمیق علمی خلا کو پُر کرنے میں رُبع صدی سے جٹے ہوئے ہیں۔ اپنے دل پسند موضوعات پر گھنٹوں ہمارے آگے بین بجاتے ہیں اور مجبوراً خود ہی جھومتے رہتے ہیں۔ کئی بار ان سے پوچھا، حضورِ والا! آپ کو کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ ہمیں یہ بات معلوم نہیں؟ مگر وہ کسرِ نفسی سے کام لیتے ہیں۔ خود ذرا کریڈٹ نہیں لیتے۔ بس آسمان کی طرف شہادت کی انگلی سے اشارہ کر دیتے ہیں۔ اور اسی انگلی سے اپنا کان پکڑ کر اگر بیٹھے ہوں تو اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور کھڑے ہوں تو بیٹھ جاتے ہیں۔ انکسار واستغفار کے مخلوط اظہار کے لیے یہ ان کی ادائے خاص ہے، جس کے دوست و دشمن سب قتیل ہیں۔

فارسی اشعار کے جو معنی آپ حواشی میں ملاحظہ فرمائیں گے، وہ ان ہی کرم فرماؤں سے پوچھ کر لکھ دیے ہیں تاکہ سند رہے اور بھول جاؤں تو دوبارہ ان سے رجوع نہ کرنا پڑے۔ خصوصاً مختار مسعود صاحب سے کہ جب سے وہ آر۔ سی۔ ڈی کے سلسلے میں ترکی کے سرکاری پھیرے لگا آئے ہیں اور مزارِ پیر رومی کے گرد و نواح میں درویشوں کا والہانہ رقص بچشمِ حیراں دیکھ آئے ہیں، فارسی اشعار کا مطلب ہمیں ترکی کے حوالے سے سمجھانے لگے ہیں۔ یوں تو ہم اپنے ایک اور دیرینہ کرم فرما، پروفیسر قاضی عبدالقدوس ایم اے، بی ٹی سے بھی رجوع کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ آسان شعر کو بھی اپنے علم کے زور اور وفور سے ناقابلِ فہم بنا دیتے ہیں۔

آساں زِ توجّہ تو مشکل

مشکل زِ تجاہل تو آساں

(معذرت کے ساتھ ُ آسان” اور مشکل” کی ترتیب اُلٹی کر دی ہے۔

تحریف کے بعد مطلب یہ کہ تیری توجّہ سے تو آسان بات بھی مشکل بن جاتی ہے اور تجھ سے رجوع نہی کرین تو مشکل بات بھی آسان ہو جاتی ہے۔)

​ سچ تو یہ ہے کہ فارسی شعر کی مار آج کل کے قاری سے سہی نہیں جاتی۔ بالخصوس اس وقت جب وہ بے محل بھی ہو۔ مولانا ابو الکلام آزاد تو نثر کا آرائشی فریم صرف اپنے پسندیدہ فارسی اشعار ٹانگنے کے لیے استعتمال کرتے ہیں۔ ان کے اشعار بے محل نہیں ہوتے ملحقہ نثر بے محل ہوتی ہے۔ وہ اپنی نثر کا تمام ریشمی کو کون (کویا) اپنے گاڑھے گاڑھے لعابِ ذہن سے فارسی کے گرد بُنتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ ریشم حاصل کرنے کا زمانہ قدیم سے ایک ہی طریقہ چلا آتا ہے _ کوئے کو ریشم کے زندہ کیڑے سمیت کھولتے پانی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جب تک کہ وہ مر نہ جائے، ریشم ہاتھ نہیں لگتا۔

مرزا کہتے ہیں کہ کلامِ غالب کی سب سے بڑی مشکل اس کی شرحیں ہیں۔ وہ نہ ہوں تو غالب کا سمجھنا چنداں مشکل نہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا میں غالب واحد شاعر ہے جو سمجھ میں نہ آئے تو دُگنا مزہ دیتا ہے۔ خدا ان تین عالموں کے درمیان اس فقیر پُر تقصیر کو سلامت بے کرامت رکھے۔ جب سے میری صحت خراب ہوئی ہے، ان کی طرف سے متردد رہتا ہوں، کس کے گھر جائے گا سیلابِ رواں میرے بعد۔

ایک دفعہ میں نے منظور الٰہی صاحب سے عرض کیا کہ آپ نے اپنی دونوں کتابوں میں فارسی کے نہایت خوب صورت اشعار نقل کیے ہیں۔ لیکن میری طرح، قارئین کی نئی نسل بھی فارسی سے نابلد ہے۔ یوں ہی شدبد اور اٹکل سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں تو مطلب فوت ہو جاتا ہے۔ اگر اگلے ایڈیشن میں بریکٹ میں ان کا مطلب اردو میں بیان کر دیں تو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔

سوچ میں پڑ گئے۔ پھر آنکھیں بند کر کے، بند ہونٹوں سے اپنے دل آویز انداز میں مسکرائے۔ فرمایا، مگر بھائی صاحب! پھر مقصد فوت ہو جائے گا۔

اس پر مرزا کہنے لگے تم نے اس کتاب میں جو ڈھیر سارے انگریزی الفاظ بے دھڑنگ ( مرزا بے درنگ کا یہی تلفّظ کرتے ہیں جو اُن کے منہ سے بھلا معلوم ہوتا ہے ) استعمال کیے ہیں، ان پر بھی یہی فقرہ چست کیا جا سکتا ہے۔ انگریز تو دوسری زبانوں کے الفاظ خاص خاص موقعوں پر دانستہ اور مصلحتاً استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ان کے کھانے پھیکے سیٹھے اور بد مزہ ہوتے ہیں، لہٰذا اعلیٰ ریستورانوں میں ان کے نام ہمیشہ فرنچ میں دیے جاتے ہیں۔ فرنچ آج بھی شائستگی اور سوفسٹی کیشن کی زبان تصوّر کی جاتی ہے۔ لہٰذا انگریزوں کو کوئی آرٹسٹک یا نا شائستہ بات کہنی ہو تو جھٹ فرنچ فقرے کا گھونگھٹ نکال لیتے ہیں۔ تمھیں تو معلوم ہو گا کہ سیمسول پیپس (۱۷۰۳۔ ۱۶۳۳) نے اپنی شہرہ آفاق ڈائری (جس میں اس نے اپنی آوارگیوں اور شبینہ فتوحات کا حاصل بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے) شارٹ ہینڈ میں لکھی تھی تاکہ اس کے ملازم نہ پڑھ سکیں۔ جہاں کوئی ایسا نازک مقام آتا جسے انگریز اپنی روایتی کسرِ بیانی سے (understatement) کام لیتے ہوئے، naughty کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں، تو وہ اس واردات کا اندراج فرنچ میں کرتا تھا۔ لیکن جہاں بات اتنی ناگفتنی ہو____جو کہ اکثر ہوتی تھی ___ کہ فرنچ زبان بھی سُلگ اٹھے تو اس رات کی بات کو بلا کم وکاست ہسپانوی زبان میں قلم بند کرتا تھا۔ گویا یہ ہوئی لسانی درجہ بندی باعتبارِ مدارجِ بوالہوسی۔ اب ذرا علوم کی طرف نگاہ کیجیے۔ انگریزوں نے درختوں اور پودوں کے نام اور بیشتر قانونی اصطلاحیں جوں کی

توں لاطینی سے مستعار لی ہیں۔ دانائی کی باتیں وہ بالعموم یونانی زبان میں الٹے واوین کے اندر نقل کرتے ہیں تاکہ کوئی انگریز نہ سمجھھ پائے۔ اوپیرا کے پکے گانوں کے لیے اٹالین ارر فلسفے کی ادق اصطلاحات کے لیے جرمن زبان کو ترجیح دے کر ناقابلِ فہم کو نا قابلِ برداشت بنا دیتے ہیں۔ ”

اس طولانی تمہید کے بعد فرمایا لیکن ہم انگریزی کے الفاظ صرف ان موقعوں پر استعمال کرتے ہیں جہاں ہمیں یقین ہو کہ اس مفہوم کو اردو میں کہیں بہتر طریقے سے ادا کیا جا سکتا ہے۔ ”

اس بر وقت تنبیہ کے با وجود آپ کو انگریزی کے الفاظ جا بجا نظر آئیں گے۔ سبب یہ کہ یا تو مجھے ان کے اردو مترادفات معلوم نہیں۔ یا وہ کسی رواں دواں مکالمے کی بنت میں پیوست ہیں۔ بصورتِ دیگر، بہت مانوس اور عام فہم ہونے کے علاوہ اتنے غلط تلفظ کے ساتھ بولے جاتے ہیں کہ اب انھیں اردو ہی سمجھنا چاہیے۔ کوئی انگریز انھیں پہچاننے یا اپنانے کے لیے تیار نہ ہو گا۔

"اسکول ماسٹر کا خواب” اور "دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ” پر محب و مشفقِ دیرینہ محمد عبدالجمیل صاحب نے بکمالِ لطف و توجہ نظر ثانی کی اور اپنے مفید مشوروں سے نوازا۔ جیسے نفاست پسند اور منکسرمزاج وہ خود تھے ویسے ہی دھیمے ان کے اعتراضات تھے جو انھوں نے میرے مسودے کے حاشیے پر اتنی ہلکی پینسل سے نوٹ کیے تھے کہ انگلی بھی پھیر دیں تو مٹ جائیں کچھ ایسی غلطیوں کی نشان دہی بھی کی جن کی اصلاح پر خامہ ہذیاں رقم کسی طور آمادہ نہ ہوتا تھا۔ مثلا میں نے ایک ترش مکالمے کے دوران گجراتی سیٹھ سے کہلوایا تھا ہم اس سالے لنگڑے گھوڑے کو لے کے کیا کریں گا؟ "جمیل بھائی کی لکھنوی شائستگی اس کی متحمل نہ ہوئی۔ تادیبا پورا جملہ تو نہیں کاٹا، صرف سالے کو قلم زد کر کے اس کے اوپر برادر نسبتی لکھا پھر فرمایا کہ "حضرت، یہ ہک دک کیا ہوتا ہے؟ ہکا بکا لکھیے۔ ہمارے یہاں ہک دک نہیں بولا جاتا۔” عرض کیا ہکا بکا میں صرف پھٹی پھٹی آنکھیں اور کھلا ہوا منھ نظر آتا ہے، جب کہ ہک دک میں ایسا لگتا جیسے دل بھی دھک سے رہ گیا ہو۔” فرمایا "تو پھر سیدھے سبھاؤ دھک دھک کرنے لگا کیوں نہیں لکھتے؟ اور ہاں! مجھے حیرت ہے کہ ایک جگہ آپ نے لوطی لکھا ہے ذلتِ قلم ہی کہوں گا۔ معاف کیجیے! یہ لفظ آپ کے قلم کو زیب نہیں دیتا۔”

پوچھا تو پھر آپ کے ہاں لوطی کو کیا کہتے ہیں؟”

فرمایا "کچھ نہیں کہتے”

میں زور سے ہنس دیا تو چونکے۔ دوسرے پہلو پر خیال گیا تو خود بھی دیر تک ہنستے رہے۔

رومال سے آنسو پونچھتے ہوئے کہنے لگے ایسا ہی ہے تو اس کی جگہ ‘بدتمیز‘ لکھ دیجیے۔ تہذیب کا تقاضہ یہی ہے۔ ” یہ سن کر میں ہکا بکا رہ گیا۔ اس لیے کہ میں نے یہ لفظ (بدتمیز) دوسرے ابو اب میں تین چار جگہ ایسے لوگوں کے بارے میں استعمال کیا تھا جو صرف لغوی معنی میں بدتمیزی کے مرتکب ہوئے تھے۔ اس نئے مہذب مفہوم کے ساتھ تو وہ مجھ پر بہتان طرازی اور ازالہ حیثیتِ عرفی کا مقدمہ چلا سکتے تھے۔

کچھ دیر بعد کلف لگے کرتے کی آستین الٹ کر مسودے کی ورق گردانی کرتے ہوئے بولے دواب خانہ، سنگوٹیاں، آر اور جوجھنا شرفائے لکھنو نہیں بولتے۔” عرض کیا "میں نے اسی لیے لکھے ہیں۔” پھڑک اٹھے۔ کہنے لگے "بہت دیر بعد آپ نے ایک سمجھ داری کی بات کہی۔” پھر اس خوشی میں سگریٹ سے سگریٹ سلگاتے ہوئے بولے مگر مشتاق صاحب، یہ بوک کیا ہوتا ہے؟ ہم نے نہیں سنا۔ ” عرض کیا جوان اور مست بکرا جس سے نسل کشی کے سلسلے میں رجوع کیا جاتا ہے۔ اس کی داڑھی ہے اور جسم سے سخت بدبو آتی ہے۔ گوشت بھی بساندہ اور ریشے دار۔ ” فرمایا واللہ! ہم نے یہ لفظ ہی نہیں ایسا بکرا بھی نہیں دیکھا۔ لفظ، مفہوم اور اس کے گوشت تینوں سے کراہت آتی ہے۔ مقی ہے۔ آپ اس کی جگہ کوئی اور کم بدبودار جانور استعمال نہییں کر سکتے؟ کراچی میں کون اس لفظ کو سمجھے گا۔ ” عرض کیا وہی جو مقی (قے آور) کو سمجھے گا۔ آپ توغالب کے حافظ ہیں۔ آپ کو تو یہ لفظ معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی ضد کا غالب نے عجیب سیاق وسباق میں ذکر کیا ہے۔ علائی کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ تم خصی بکروں کے گوشت کے قلیے اڑا رہے ہو گے۔ لیکن بخدا میں تمھارے پلاؤ قلیے پر رشک نہیں کرتا۔ خدا کرے تمھیں بیکانیر کی مصری کا ٹکڑا میسر نہ آیا ہو۔ جب یہ تصور کرتا ہوں کہ میر جان صاحب اس مصری ٹکڑے کو چبا رہے ہوں گے تو رشک سے اپنا کلیجہ چبانے لگتا ہوں۔ تحقیق طلب امر یہ ہے کہ اس مصری کی ڈلی سے در اصل غالب کی کیا مراد تھی۔ محض مصری؟ سو وہ تو اعلیٰ سے اعلیٰ قسم کی، دلی میں منوں دستیاب تھی۔ حیرت ہے محققین و شارحین کی طبعِ بدگماں ادھر نہیں گئی، حالاں کہ غالب نے مصری کے تلازمے عشق عاشقی کے ضمن میں ایک دوسرے خط میں بھی استعمال کیا ہے۔ ”

فرمایا جا چھوڑ دیا حافظِ دیوان سمجھ کر۔ لیکن حضرت، یہ روہڑ کس زبان کا لفظ ہے؟ کریہہ الصورت۔ بالکل گنوارو لگتا ہے۔ کیا راجستھانی ہے؟ ” عرض کیا خود ہمیں بھی یہی شبہ ہوا تھا۔ لہذا ہم نے ماجد بھائی سے پوچھا۔

"کون ماجد بھائی؟”

ماجد علی صاحب۔ سابق سی ایس پی۔ لندن منتقل ہو گئے ہیں۔ چھوٹے بڑے، اپنے بیگانے، باس اور ما تحت__سب انھیں ماجد بھائی کہتے ہیں، سوائے ان کی بیگم، زہرا نگاہ کے۔ وہ انھیں ماجد چچا کہتی ہیں۔ ان سے رجوع کیا تو انھوں نے تصدیق کر دی کہ لحاف کی پرانی روئی کو، جسے غریب غربا ہاتھوں سے توم کے دوبارہ استعمال کرتے ہیں، رُوہڑ کہتے ہیں۔

یوں تو وہ عاجز کے لیے پیر و مرشد کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کا فرمایا ہوا ہمیشہ مستند ہی ہوتا ہے، تاہم میں نے مزید تشفی کے لیے پوچھا کیا بداؤں میں بھی بولا جاتا ہے؟” چہرے پر ایک بناؤٹی اور لہجے میں خفیف سی مصنوعی لکنت پیدا کرتے ہوئے، جو بحثا بحثی میں عصائے موسوی کا کام کرتی ہے، بولے دیکھیے، ذاتی بے تکلفی اپنی جگہ، علمی مباحث اپنی جگہ، بدایوں کو بداؤں کہنے کا حق صرف بدایوں والوں کو پہنچتا ہے۔ مثلاً یوں سمجھیے کہ کل کلاں کو آپ مجھے ماجد بھائی کی بجائے ماجد چچا کہنے لگیں تو لندن پولیس پولی گیمی (تعددِ ازواج) میں دھر لے گی۔ آپ کا تو مزید کچھ نہیں بگڑے گا۔ بہر کیف رُوہڑ صحیح ہے۔ بداؤن میں تو پھیری والے گھر گھر صدا لگا کے رُوہڑ خریدتے تھے اور اس کے بدلے ریوڑیاں دیتے تھے جنھیں اندھے آپس میں بانٹ لیتے تھے۔ ” علمی تحقیق و تدقیق کا جذبہ اب مجھے اس مقام پر لے آیا تھا جہاں مزید سوال کرنا گویا اپنی دستارِ فضیلت سے سے خود فٹ بال کھیلنے کے مترادف تھا۔ ماجد بھائی کی بذلہ سنجی کے آگے اچھے اچھے نہیں ٹھہر پاتے۔ راویِ غیبت بیاں کہتا ہے کہ ایک دفعہ ان کے باس (وزیر) کے دفتر کے سامنے کچھ دور پر لوگ عزتِ مآب کے خلاف ایوب خان کا چمچہ! ایوب خان کا چمچہ!” کے نعرے لگا رہے تھے۔ وزیر موصوف نے ماجد بھائی سے پوچھا یہ لوگ کیوں شور مچا رہے ہیں؟ ؛ انھوں نے جواب دیا سر، کٹلری کے بارے میں کچھ کہہ رہے ہیں۔”

جمیل صاحب اس طویل تشریح اور معتبر سند سے کچھ پسیجے۔ ناک سے سگریٹ کا دھواں خارج کرتے ہوئے بولے "اگر آپ کو صاف روئی سے الرجی ہے تو رُوہڑ بھی چلے گا۔ لیکن ایک بات ہے۔ متروکات کو آپ بہت فیسی نیٹ کرتے ہیں۔ خیر، مجھے تو اچھے لگتے ہیں۔ کس واسطے کہ مجھے انٹیک جمع کرنے کا شوق ہے۔ لیکن ممکن ہے کہ پڑھنے والوں کو اتنے اچھے نہ لگیں۔ بریکٹ میں معنی لکھ دیجیے گا۔”

عرض کیا "مرزا اکثر طعنہ دیتے ہیں کہ تم ان معدودے چند لوگوں میں سے ہو، جنھوں نے متروکہ جائداد کا کوئی کلیم داخل نہیں کیا۔ وجہ یہ کہ چلتے وقت تم اپنے ساتھ متروکات کا دفینہ کھود کر، سموچا ڈھو کر پاکستان لے آئے! تفنن بر طرف، اگر ان میں سے ایک لفظ، جی ہاں، صرف ایک لفظ بھی دوبارہ رائج ہو گیا تو سمجھوں گا کہ عمر بھر کی محنت سوارت ہوئی۔”

بولے "پھر وہی!”

افسوس، جمیل صاحب صرف دو ابواب دیکھ پائے تھے کہ ان کا بلاوا آ گیا۔ اب ایسا نکتہ داں، نکتہ سنج، نکتہ شناس کہاں سے لاؤں جس کا اعتراض بھی نکتہ پروری، استعداد آفرینی اور دل آسائی سے خالی نہ تھا۔

آخر میں اپنی شریک (سوانح) حیات ادریس فاطمہ کا شکریہ بھی لازم ہے کہ انھوں نے اپنے تبسم سقم شناس سے بہت سی خامیوں کی نشان دہی کی۔ تاہم بے شمار سخن ہائے سوختنی اور غلطی ہائے مضامین بوجوہ باقی رہ گئی ہوں گی۔ وہ سارا مسودہ دیکھ چکیں تو میں نے کہا راجستھانی لہجہ اور محاورہ کسی طرح میرا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ بہت دھوتا ہوں پر چنری کے رنگ چھٹائے نہیں چھوٹتے۔

Out, damned spot! I say!

حیرت ہے اس دفعہ تم نے زبان کی ایک بھی غلطی نہیں نکالی! ”

کہنے لگیں پڑھائی ختم ہوتے ہی علی گڑھ سے اس گھر ___ گڑھی میں آ گئی۔ تینتالیس برس ہو گئے۔ اب مجھے کچھ یاد نہیں کہ میری زبان کیا تھی اور تمھاری بولی کیا۔ اب تو جو سنتی ہوں سبھی درست معلوم ہوتا ہے۔”

ایک دوسرے کی چھاپ، تِلک سب چھین کر اپنا لینے کے اور دریائے سندھ اور راوی کا پانی پینے کے بعد تو یہی کچھ ہونا تھا۔ اور جو کچھ ہوا بہت خوب ہوا۔ فالحمد للہ ربِ العالمین۔

٭٭٭

 

 

 

حویلی

 

وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں

 

یادش بخیر! میں نے 1945 میں جب قبلہ کو پہلے پہل دیکھا تو ان کا حلیہ ایسا ہو گیا تھا جیسا اب میرا ہے۔ لیکن ذکر ہمارے یار طرح دار بشارت علی فاروقی کے خسر کا ہے، لہٰذا تعارف کچھ انہی کی زباں سے اچھا معلوم ہو گا۔ ہم نے بارہا سنا آپ بھی سنیے۔

” وہ ہمیشہ سے میرے کچھ نہ کچھ لگتے تھے۔ جس زمانے میں میرے خُسر نہیں بنے تھے تو پھوپا ہوا کرتے تھے اور پھوپا بننے سے پہلے میں انہیں چچا حضور کہا کرتا تھا۔ اس سے پہلے بھی یقیناً وہ کچھ اور لگتے ہوں گے، مگر اس وقت میں نے بولنا شروع نہیں کیا تھا۔ ہمارے ہاں مراد آباد اور کانپور میں رشتے ناتے ابلی ہوئی سویّوں کی طرح الجھے اور پیچ در پیچ گتھے ہوتے ہیں۔ ایسا جلالی، ایسا مغلوب الغضب آدمی زندگی میں نہیں دیکھا۔ بارے ان کا انتقال ہوا تو میری عمر آدھی ادھر، آدھی ادھر، چالیس کے لگ بھگ تو ہو گی۔ لیکن صاحب! جیسی دہشت ان کی آنکھیں دیکھ کر چھٹ پن میں ہوئی تھی، ویسے ہی نہ صرف ان کے آخری دم تک رہی، بلکہ میرے آخری دم تک بھی رہے گی۔ بڑی بڑی آنکھیں اپنے ساکٹ سے نکلی پڑتی تھیں۔ لال سرخ۔ ایسی ویسی؟ بالکل خونِ کبوتر! لگتا تھا بڑی بڑی پتلیوں کے گرد لال ڈوروں سے ابھی خون کے فوارے چھوٹنے لگیں گے اور میرا منہ خونم خون ہو جائے گا۔ ہر وقت غصے میں بھرے رہتے تھے۔ جنے کیوں۔ گالی ان کا تکیہ کلام تھی۔ اور جو رنگ تقریر کا تھا وہی تحریر کا۔

رکھ ہاتھ نکلتا ہے دھواں مغز قلم سے۔

ظاہر ہے کچھ ایسے لوگوں سے بھی پالا پڑتا تھا، جنہیں بوجوہ گالی نہیں دے سکتے۔ ایسے موقعوں پر زبان سے تو کچھ نہ کہتے لیکن چہرے پر ایسا ایکسپریشن لاتے کہ قد آدم گالی نظر آتے۔ کس کی شامت آئی تھی کہ ان کی کسی بھی رائے سے اختلاف کرتا۔ اختلاف تو درکنار، اگر کوئی شخص محض ڈر کے مارے ان کی رائے سے اتفاق کر لیتا تو فوراً اپنی رائے تبدیل کر کے الٹے اس کے سر ہو جاتے۔

"ارے صاحب! بات اور گفتگو تو بعد کی بات ہے، بعض اوقات محض سلام سے مشتعل ہو جاتے تھے، آپ کچھ بھی کہیں، کیسی ہی سچی اور سامنے کی بات کہیں وہ اس کی تردید ضرور کریں گے۔ کسی کی رائے سے اتفاق کرنے میں اپنی سبکی سمجھتے تھے۔ ان کا ہر جملہ نہیں سے شروع ہوتا تھا۔ ایک دن کانپور میں کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی۔ میرے منھ سے نکل گیا کہ، آج بڑی سردی ہے، بولے، نہیں۔ کل اس سے زیادہ پڑے گی،۔

” وہ چچا سے پھوپا بنے اور پھوپا سے خسر الخدر لیکن مجھے آخر وقت تک نگاہ اٹھا کر بات کرنے کی جسارت نہ ہوئی۔ نکاح کے وقت وہ قاضی کے پہلو میں بیٹھے تھے۔ قاضی نے مجھ سے پوچھا قبول ہے؟ ان کے سامنے منھ سے ہاں کہنے کی جرات نہ ہوئی۔ بس اپنی ٹھوڑی سے دو مودبانہ ٹھونگیں مار دیں جنہیں قاضی اور قبلہ نے رشتہ مناکحت کے لئے ناکافی سمجھا قبلہ کڑک کر بولے، لونڈے بولتا کیوں نہیں؟ ڈانٹ سے میں نروس ہو گیا۔ ابھی قاضی کا سوال بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ میں نے، جی ہاں قبول ہے، کہہ دیا۔ آواز ایک لخت اتنے زور سے نکلی کہ میں خود چونک پڑا قاضی اچھل کر سہرے میں گھس گیا۔ حاضرین کھلکھلا کے ہنسنے لگے۔ اب قبلہ اس پر بھنّا رہے ہیں کہ اتنے زور کی ہاں سے بیٹی والوں کی ہیٹی ہوتی ہے۔ بس تمام عمر ان کا یہی حال رہا۔ اور تمام عمر میں کربِ قرابت داری و قربتِ قہری دونوں میں مبتلا رہا۔

” حالانکہ اکلوتی بیٹی، بلکہ اکلوتی اولاد تھی اور بیوی کو شادی کے بڑے ارمان تھے، لیکن قبلہ نے مائیوں کے دن عین اس وقت جب میرا رنگ نکھارنے کے لئے ابٹن ملا جا رہا تھا، کہلا بھیجا کہ دولہا میری موجودگی میں اپنا منہ سہرے سے باہر نہیں نکالے گا۔ دو سو قدم پہلے سواری سے اتر جائے گا اور پیدل چل کر عقد گاہ تک آئے گا۔ عقد گاہ انہوں نے اس طرح کہا جیسے اپنے فیض صاحب قتل گاہ کا ذکر کرتے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ قبلہ کی دہشت دل میں ایسی بیٹھ گئی تھی کہ مجھے تو عروسی چھپر کھٹ بھی پھانسی گھاٹ لگ رہا تھا۔ انہوں نے یہ شرط بھی لگائی کہ براتی پلاؤ زردہ ٹھونسنے کے بعد ہر گز یہ نہیں کہیں گے کہ گوشت کم ڈالا اور شکر ڈیوڑھی نہیں پڑی۔ خوب سمجھ لو، میری حویلی کے سامنے بینڈ باجا ہر گز نہیں بجے گا۔ اور تمہیں رنڈی نچوانی ہے تو Over my dead body، اپنے کوٹھے پر نچواؤ۔

” کسی زمانے میں راجپوتوں اور عربوں میں لڑکی کی پیدائش نحوست اور قہر الٰہی کی نشانی تصور کی جاتی تھی۔ ان کی غیرت یہ کیسے گوارا کر سکتی تھی کہ ان کے گھر برات چڑھے۔ داماد کے خوف سے وہ نوزائیدہ لڑکی کو زندہ گاڑ آتے تھے۔ قبلہ اس وحشیانہ رسم کے خلاف تھے۔ وہ داماد کو زندہ گاڑ دینے کے حق میں تھے۔

” چہرے، چال اور تیور سے کوتوال شہر لگتے تھے۔ کون کہہ سکتا تھا کہ بانس منڈی میں ان کی عمارتی لکڑی کی ایک معمولی سی دکان ہے۔ نکلتا ہوا قد۔ چلتے تو قد سینہ اور آنکھیں، تینوں بیک وقت نکال کر چلتے۔ ارے صاحب! کیا پوچھتے ہیں؟ اول تو ان کے چہرے کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی، اور کبھی جی کڑا کر کے دیکھ بھی لیا تو بس لال بھبوکا آنکھیں نظر آتی تھیں۔

نگہِ گرم سے اک آگ ٹپکتی ہے اسد

رنگ گندمی آپ جیسا، جسے آپ اس گندم جیسا بتاتے ہیں جسے کھاتے ہی حضرت آدم، بیک بیوی و دو گوش جنت سے نکال دیے گئے۔ جب دیکھو جھلاّاتے تنتناتے رہتے ہیں۔ مزاج، زبان اور ہاتھ کسی پر قابو نہ تھا۔ دائمی طیش سی لرزہ بر اندام رہنے کے سبب اینٹ، پتھر، لاٹھی، گولی، گالی، کسی کا بھی نشانہ ٹھیک نہیں لگتا تھا۔ گچھی گچھی مونچھیں جنہیں گالی دینے سے پہلے اور بعد میں تاؤ دیتے۔ آخری زمانے میں بھوؤں کو بھی بل دینے لگے۔ گھٹا ہوا کسرتی بدن ململ کے کرتے سے جھلکتا تھا۔ چنی ہوئی آستین اور اس سے بھی مہین چنی ہوئی دو پلی ٹوپی۔ گرمیوں میں خس کا عطر لگاتے۔ کیکری کی سِلائی کا چوڑی دار پاجامہ، چوڑیوں کی یہ کثرت کہ پاجامہ نظر نہیں آتا تھا۔ دھوبی الگنی پر نہیں سکھاتا تھا۔ علیحدہ بانس پر دستانے کی طرح چڑھا دیتا تھا۔ آپ رات کے دو بجے بھی دروازہ کھٹکھٹا کر بلائیں تو چوڑی دار ہی میں برآمد ہوں گے۔

” واللہ! میں تو یہ تصور کرنے کی بھی جرات نہیں کر سکتا کہ دائی نے انہیں چوڑی دار کے بغیر دیکھا ہو گا۔ بھری بھری پنڈلیوں پر خوب کھبتا تھا۔ ہاتھ کے بنے ریشمی ازار بند میں چابیوں کا گچھا چھنچھناتا رہتا۔ جو تالے برسوں پہلے بے کار ہو گئے تھے ان کی چابیاں بھی اس گچھے میں محفوظ تھیں۔ حد یہ کہ اس تالے کی بھی چابی تھی جو پانچ سال پہلے چوری ہو گیا تھا۔ محلے میں اس چوری کابرسوں چرچا رہا۔ اس لئے کہ چور صرف تالا، پہرہ دینے والا کتا اور ان کا شجرہ نسب چرا کر لے گیا تھا۔ فرماتے تھے کہ اتنی ذلیل چوری صرف کوئی عزیز رشتے دار ہی کر سکتا ہے۔ آخری زمانے میں یہ ازار بندی گچھا بہت وزنی ہو گیا تھا اور موقع بے موقع فلمی گیت کے بازو بند کی طرح کھل کھل جاتا۔ کبھی جھک کر گرم جوشی سے مصافحہ کرتے تو دوسرے ہاتھ سے ازار بند تھامتے، مئی جون میں ٹمپریچر 110 ہو جاتا اور منہ پر لو کے تھپڑ سے پڑنے لگتے تو پاجامے سے ائیر کنڈینشنگ کر لیتے۔ مطلب یہ کہ چوڑیوں کو گھٹنوں گھٹنوں پانی میں بھگو کر سر پر انگوچھا ڈالے، تربوز کھاتے۔ خس خانہ و برفاب کہاں سے لاتے۔ اس کے محتاج بھی نہ تھے۔ کتنی ہی گرمی پڑے۔ دکان بند نہیں کرتے تھے۔ کہتے تھے، میاں! یہ تو بزنس، پیٹ کا دھندا ہے۔ جب چمڑے کی جھونپڑی (پیٹ) میں آگ لگ رہی ہو تو کیا گرمی کیا سردی،۔ لیکن ایسے میں کوئی شامت کا مارا گاہک آ نکلے تو برا بھلا کہہ کے بھگا دیتے تھے۔ اس کے باوجود وہ کھنچا کھنچا دوبارہ انہی کے پاس آتا تھا۔ اس لئے کہ جیسی عمدہ لکڑی وہ بیچتے تھے۔ ویسی سارے کانپور میں کہیں نہیں ملتی تھی۔ فرماتے تھے، داغی لکڑی بندے نے آج تک نہیں بیچی، لکڑی اور داغ دار؟ داغ تو دو ہی چیزوں پرسجتا ہے۔ دل اور جوانی۔

 

لفظ کے لچّھن اور بازاری پان

 

تمباکو، قوام، خربوزے اور کڑھے ہوئے کُرتے لکھنو سے حقہ مراد آباد اور تالے علی گڑھ سے منگواتے تھے۔ حلوہ سوہن اور ڈپٹی نذیر احمد والے محاورے دلّی سے۔ دانت گرنے کے بعد صرف محاوروں پر گزارا تھا۔ گالیاں البتہ مقامی بلکہ خانہ ساز دیتے جن میں سلامت و روانی پائی جاتی تھی۔ طبع زاد لیکن بلاغت سے خالی۔ بس جغرافیہ سا کھینچ دیتے تھے۔ سلیم شاہی جوتیاں اور چنری آپ کے جے پور سے منگواتے تھے۔ صاحب آپ کا راجستھان بھی خوب تھا۔ کیا کیا سوغاتیں گنوائیں تھیں اس دن آپ نے۔۔۔۔۔؟ کھانڈ، سانڈ، بھانڈ اور رانڈ۔ اور یہ بھی خوب رہی کہ مارواڑیوں کو جس چیز پر بھی پیار آتا ہے اس کے نام میں ٹھ، ڈ، اور ڑ لگا دیتے ہیں۔ مگر یہ بات آپ نے عجیب بتائی کہ راجستھان میں رانڈ سے مراد خوب صورت عورت ہوتی ہے۔ مارواڑی زبان میں سچ مچ کی بیوہ کے لئے بھی کوئی لفظ ہے کہ نہیں؟ یا سبھی خوب صورت نورٌ علیٰ نور بلکہ حورٌ علیٰ حور ہوتی ہیں۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ سو سوا سو سال قبل تک رنڈی سے بھی مراد صرف عورت ہی ہوتی تھی۔ جب سے مردوں کی نیتیں خراب ہوئیں، اس لفظ کے لچھن بھی بگڑ گئے۔ صاحب! راجستھان کے تین طرفہ تحفوں کے تو ہم بھی قائل اور گھائل ہیں۔ میرا بائی، مہدی حسن اور ریشماں۔

” ہاں تو میں کہہ یہ رہا تھا کہ باہر نکلتے تو ہاتھ میں پان کی ڈبیا اور بٹوہ رہتا۔ بازار کا پان ہر گز نہیں کھاتے تھے۔ کہتے تھے بازاری پان صرف رنڈوے، تماش بین اور بمبئی والے کھاتے ہیں۔ صاحب، یہ نفاست اور پرہیز میں نے انھی سے سیکھا۔ ڈبیا چاندی کی۔ نقشین۔ بھاری۔ ٹھوس۔ اس میں جگہ جگہ ڈینٹ نظر آتے تھے جو انسانی سروں سے تصادم کے باعث پڑے تھے۔ طیش میں اکثر پانوں بھری ڈبیا پھینک مارتے۔ بڑی دیر تک تو یہ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ مضروب کے سر اور چہرے سے خون نکل رہا ہے یا بکھرے پانوں کی لالی نے غلط جگہ رنگ جمایا ہے۔ بٹوے خاص طور سے آپ کی جائے پیدائش ریاست ٹونک سے منگواتے تھے۔ کہتے تھے کہ وہاں کے بٹوے ایسے ڈورے ڈالتے ہیں کہ اک ذرا گھنڈی کو جھوٹوں ہاتھ لگا دو تو بٹوہ آپی آپ مصاحبوں کی باچھوں کی طرح کھلتا چلا جاتا ہے۔ گٹکا بھوپال سے آتا تھا لیکن خود نہیں کھاتے تھے۔ فرماتے تھے میٹھا پان، ٹھمری، گٹکا اور ناول۔ یہ سب نابالغوں کے شغل ہیں۔ شاعری سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ ردیف قافیے سے آزاد شاعری سے بطور خاص چڑتے تھے۔ یوں بھی، بقول شخصے، آزاد شاعری کی مثال ایسی ہے جیسے بغیر نیٹ کے ٹینس کھیلنا۔ لیکن اتنا ضرور تھا کہ اردو فارسی کے جتنے بھی اشعار لکڑی، آگ، دھوئیں، ہیکڑی، لڑ مرنے، ناکامی اور خود داری سے متعلق ہیں سب یاد کر رکھے تھے۔ صورت حال کبھی قابو سے باہر ہو جاتی تو شعر سے اس کا دفعیہ فرماتے۔ آخری زمانے میں عزلت گزیں اور مردم بیزار ہو گئے تھے اور صرف دشمنوں کے جنازے کو کندھا دینے کے لئے باہر نکلتے تھے۔ خود کو کاسنی اور بیوی کو موتیا رنگ پسند تھا۔ شیروانی ہمیشہ موتیا رنگ کے ٹسر کی پہنی۔ ”

 

واہ کیا بات کورے برتن کی!

 

بشارت کی زبانی تعارف ختم ہوا۔ اب کچھ میری کچھ ان کی زبانی سنیے اور رہی سھی زبان خلق سے جسے کوئی نہیں پکڑسکتا۔

کانپور میں پہلے بانس منڈی اور پھر کوپرگنج میں قبلہ کی عمارتی لکڑی کی دکان تھی۔ اسی کو اپ ان کا حیلہ معاش اور وسیلہ مردم آزاری کہہ سکتے ہیں۔ تھوڑی بہت جلانے کی لکڑی بھی رکھتے تھے مگر اسے کبھی بھی لکڑی نہیں کہا۔ سوختہ یا ہیزم سوختنی کہتے تھے۔ ان کی دکان کو کبھی کوئی نا آشنائے مزاج ٹال کہہ دیتا تو دوسیری لے کر دوڑتے تھے۔ جوانی میں پنسیری لے کر دوڑتے تھے۔ تمام عمر پتھر کے باٹ استعمال کئے فرماتے تھے۔ لوہے کے فرنگی باٹ بھاری اور بے برکت ہوتے ہیں۔ پتھر کے باٹ کو بازوؤں میں بھر کے، سینے سے لگا کر اٹھانا پڑتا ہے۔ اعمال تو دور رہے، کسی کو یہ جرات نہیں ہوئی کہ ان پتھروں کا وزن ہی کروا لے۔ کس کی شامت آئی تھی کہ ان کی دی ہوئی رقم یا لوٹائی ہوئی ریزگاری گن لے۔ اس زمانے میں، یعنی اس صدی کی تیسری دہائی میں عمارتی لکڑی کی کھپت بہت کم تھی۔، سال، اور چیڑ کا رواج عام تھا۔ بہت ہوا تو چوکھٹ اور دروازے شیشم کے بنوا لیے۔ ساگوان تو صرف امرا رؤسا کی ڈائننگ ٹیبل اور گوروں کے تابوت میں استعمال ہوتی تھی۔ فرنیچر ہوتا ہی کہاں تھا۔ بھلے گھروں میں فرنیچر کے ذیل میں صرف چارپائی آتی تھی۔ جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے۔ ان دنوں کرسی صرف دو موقعوں پر نکالی جاتے تھی۔ اول، جب حکیم، وید، ہومیوپیتھ، پیر، فقیر اور سیانوں سے مایوس ہو کر ڈاکٹر کو گھر بلایا جائے۔ اس پر بیٹھ کے وہ جگہ جگہ اسٹے تھسکوپ لگا کر دیکھتا کہ مریض اور موت کے درمیان جو خلیج حائل تھی اسے ان حضرات نے اپنی دواؤں اور تعویذ گنڈوں سے کس حد تک پُر کیا ہے۔ اس زمانے کا دستور تھا کہ جس گھر میں موسمبی یا مہین لکڑی کی پٹاری میں روئی میں رکھے ہوئے پانچ انگور آئیں یا سولا ہیٹ پہنے ڈاکٹر آئے (اور اس کے آگے آگے ہٹو بچو کرتا ہوا تیمار دار خصوصی اس کا چمڑے کا بیگ اٹھائے) تو اڑوس پڑوس والے جلدی جلدی کھانا کھا کر خود کو تعزیت اور کاندھا دینے کے لئے تیار کر لیتے تھے۔ در حقیقت ڈاکٹر کو صرف اس مرحلے پر بلا کر اس کرسی پر بیٹھا دیا جاتا تھا جب وہ صورت حال پیدا ہو جائے جس میں دو ہزار سال پہلے لوگ حضرت عیسی کو آزماتے تھے۔ کرسی کے استعمال کا دوسرا اور آخری موقع ہمارے یہاں ختنوں پر آتا تھا جب لڑکے کو دولہا کی طرح سجا بنا کر اور مٹّی کا کھلونا ہاتھ میں دے کر اس کرسی پر بیٹھا دیا جاتا تھا۔ اس جلادی کرسی کو دیکھ اچھے اچھوں کی گھگھی بندھ جاتی تھی۔ غریبوں میں اس مقصد کے لیے نئے ماٹ یا لمبی وضع کے کورے مٹکے کو الٹا کر کے سرخ کپڑا ڈال دیتے تھے۔

 

چارپائی

 

سچ تو یہ ہے کہ جہاں چارپائی ہو وہاں کسی فرنیچر کی ضرورت، نہ گنجائش، نہ تُک، انگلستان کا موسم اگر اتنا ذلیل نہ ہوتا اور انگریزوں نے بر وقت چار پائی ایجاد کر لی ہوتی تو نہ صرف یہ کہ وہ موجودہ فرنیچر کی کھکھیڑ سے بچ جاتے، بلکہ پھر آرام دہ چار پائی چھوڑ کر، کالونیز بنانے کی خاطر، گھر سے باہر نکلنے کو بھی ان کا دل نہ چاہتا، اوور ورکڈ سورج ان کی سلطنت پر ایک صدی تک ہمہ وقت چمکتے رہنے کی ڈیوٹی سے بچ جاتا۔ اور کم از کم آج کل کے حالات میں اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑا رہنے کے لئے ان کے گھر میں کوئی ڈھنگ کی چیز تو ہوتی۔ ہم نے ایک دن پروفیسر قاضی عبدالقدوس ایم اے، بی ٹی سے کہا کہ بقول آپ کے، انگریز تمام ایجادات کے موجد ہیں۔ آسائش پسند، بے حد پریکٹکل لوگ ہیں۔ حیرت ہے چار پائی استعمال نہیں کرتے! بولے ادوان کسنے سے جان چراتے ہیں۔ راقم الحروف کے خیال میں ایک بنیادی فرق ذہن میں ضرور رکھنا چاہئیے۔ وہ یہ کہ یورپین فرنیچر صرف بیٹھنے کے لیے ہوتا ہے۔ جب کہ ہم کسی ایسی چیز پر بیٹھتے ہی نہیں جس پر لیٹ نہ سکیں۔ مثال میں دری، گدیلے، قالین، جازم، چاندنی، چارپائی، کوچہ یار اور پہلوئے دلدار کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ ایک چیز ہمارے ہاں البتہ ایسی تھی، جسے صرف بیٹھنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ اسے حکمرانوں کا تخت کہتے ہیں۔ لیکن جب انہیں اس پر لٹکا کر اور پھر لٹا کر نہلا دیا جاتا ہے تو یہ تختہ کہلاتا تھا اور اس عمل کو تختہ الٹنا کہتے تھے۔

 

اسٹیشن، لکڑی مَنڈی اور بازارِ حُسن میں بجوگ

 

مقصد اس تمہید غیر دل پزیر کا یہ کہ جہاں چارپائی کا چلن ہو وہاں فرنیچر کی بزنس پنپ نہیں سکتی۔ اب اسے چوب عمارتی کہیے یا ہیزم غیر سوختنی، دھندا اس کا بھی ہمیشہ مندا ہی رہتا تھا کہ دکانوں کی تعداد گاہکوں سے زیادہ تھی۔ لہذا کوئی شخص ایسا نظر آ جائے جو حلیے اور چال ڈھال سے ذرا بھی گاہک معلوم ہو تو لکڑ منڈی کے دکان دار اس پر ٹوٹ پڑتے۔ بیشتر گاہک گرد و نواح کے دیہاتی ہوتے جو زندگی میں پہلی اور آخری بار لکڑی خریدنے کانپور آتے تھے۔ ان بیچاروں کا لکڑی سے دو ہی مرتبہ سابقہ پڑتا تھا۔ ایک، اپنا گھر بناتے وقت۔ دوسرے اپنا کریا کرم کرواتے سمے۔ قیام پاکستان سے پہلے جن پڑھنے والوں نے دلی یا لاہور کے ریلوے اسٹیشن کا نقشہ دیکھا ہے، وہ اس چھینا جھپٹی کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔ 1945 میں ہم نے دیکھا کہ دلی سے لاہور آنے والی ٹرین کے رکتے ہی جیسے مسافر نے اپنے جسم کا کوئی حصہ دروازے یا کھڑکی سے باہر نکالا، قلی نے اسی کو مضبوطی سے پکڑ کے سالم مسافر کو ہتھیلی پر رکھا اور ہوا میں اَدھر اٹھا لیا۔ اور اٹھا کر پلیٹ فارم پر کسی صراحی یا حقے کی چلم پر بٹھا دیا۔ لیکن جو مسافر دوسرے مسافروں کے دھکے سے خود بخود ڈبے سے باہر نکل پڑے، ان کا حشر ویسا ہی ہوا جیسا اردو کی کسی نئی نویلی کتاب کا نقادوں کے ہاتھ ہوتا ہے۔ جو چیز جتنی بھی جس کے ہاتھ لگی، سر پر رکھ کر ہوا ہو گیا۔ دوسرے مرحلے میں مسافر پر ہوٹلوں کے دلال اور ایجنٹ ٹوٹ پڑتے۔ سفید ڈرل کا کوٹ پتلون، سفید قمیض، سفید رومال، سفید کینوس کے جوتے، سفید موزے، سفید دانت۔ اس کے باوجود ہم محمد حسین آزاد کے الفاظ میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چنبیلی کا ڈھیر پڑا ہنس رہا ہے۔ ان کی ہر چیز سفید اور اجلی ہوتی۔ سوائے چہرے کے، ہنستے تو معلوم ہوتا توا ہنس رہا ہے۔ یہ مسافر پر اس طرح گرتے جیسے انگلستان میں رگبی کی گیند اور ایک دوسرے پر کھلاڑی گرتے ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو کا مقصد خود کچھ حاصل کرنا نہیں بلکہ دوسروں کو حاصل کرنے سے باز رکھنا ہوتا تھا۔ مسلمان دلال ترکی ٹوپی سے پہچانے جاتے۔ وہ دلّی اور یو پی سے آنے والے مسلمان مسافروں کو ٹونٹی دار لوٹے، مستورات، کثرت اطفال اور قیمے پراٹھے کے بھبکے سے فوراً پہچان لیتے اور”السلام علیکم Brother in Islam” کہہ کر لپٹ جاتے۔ مسلمان مسافروں کے ساتھ صرف مسلمان دلال ہی دھینگا مشتی کر سکتے تھے۔ جس دلال کا ہاتھ مسافر کے کپڑوں کے مضبوط ترین حصے پر پڑتا وہی اسے گھسٹیتا ہوا باہر لے آتا۔ جن کا ہاتھ لباس کے کمزور یا بوسیدہ حصوں پر پڑتا وہ بعد میں ان کو بطور دستی رومال استعمال کرتے۔ نیم ملبوس مسافر قدم قدم پر اپنی سترکشائی کرواتا۔ اسٹیشن کے باہر قدم رکھتا تو لاتعداد پہلوان جنھوں نے اکھاڑے کو ناکافی محسوس کرتے ہوئے تانگہ چلانے کا پیشہ اختیار کر لیا تھا۔ خود کو اس پر چھوڑ دیتے تھے۔ اگر مسافر کے تن پر کوئی چیتھڑا اتفاقاً بچ رہا تو اسے بھی نوچ کرتا نگے کی پچھلی سیٹ پر رام چندر جی کی کھڑاؤں کی طرح سجادیتے۔ اگر کسی کے چوڑی دار کمر بند کا سرا تانگے والے کے ہاتھ لگ جاتا تو وہ غریب گرہ پر ہاتھ رکھے اسی میں بندھا چلا آتا۔ کوئی مسافر کا دامن آگے سے کھینچتا، کوئی پیچھے سے زلیخائی کرتا۔ آخری راونڈ میں بس ایک تگڑا سا تانگے والا سواری کا دایاں ہاتھ اور دوسرا مسٹنڈا اس کا بایاں ہاتھ پکڑ کے tug of war کھیلنے لگتے۔ لیکن قبل اس کے ہر دو فریقین اپنے اپنے حصے کی ران اور دست اکھیڑ کر لے جائیں، ایک تیسرا پھرتیلا تانگے والا ٹانگوں کے چرے ہوئے چمٹے کے نیچے بیٹھ کر مسافر کو یکلخت اپنے کندھوں پر اٹھا لیتا اور تانگے میں جوت کر ہوا ہو جاتا۔

کم و بیش یہی نقشہ کو پر گنج کی لکڑ منڈی کا ہوا کرتا تھا۔ جس کے قلب میں قبلہ کی دکان تھی۔ گودام بالعموم دکان سے ملحق، عقب میں ہوتے تھے۔ گاہک پکڑنے کے لیے قبلہ اور تین چڑی مار دکان داروں نے یہ کیا کہ دکانوں کے باہر سڑک پر لکڑی کے چھوٹے چھوٹے کیبن بنالیے۔ قبلہ کا کیبن مسند تکیے، حقے، اگال دان اور اسپرنگ سے کھلنے والے چاقو سے آراستہ تھا۔ کیبن گویا ایک نوع کا مچان تھا جہاں سے گاہک کو مار گراتے تھے۔ پھر اسے چمکار پچکار کر اندر لے جایا جاتا جہاں کوشش یہ ہوتی تھی کہ خالی ہاتھ اور بھری جیب واپس نہ جانے پائے۔ جیسے ہی کوئی شخص جو قیافے سے گاہک لگتا، سامنے سے گزرتا تو دور و نزدیک کے دکان دار اسے ہا تھ کے اشارے سے یا آواز دے کر بلاتے "مہاراج مہاراج” ان مہاراجوں کو دوسرے دکان داروں کے پنجے سے چھڑانے کے لئے اور خود گھسیٹ کر اپنے کچھار میں لے جانے کے دوران اکثر ان کی پگڑیاں کھل کر پیروں میں الجھ جاتیں۔ اس سلسلے میں آپس میں اتنے جھگڑے اور ہا تھا پائی ہو چکی تھی کہ منڈی کے تمام بیوپاریوں نے پنجایتی فیصلہ کیا کہ گاہک کو صرف وہی دکان دار آواز دے کر بلائے گا جس کی دکان کے سامنے سے وہ گزر رہا ہو۔ لیکن جیسے ہی وہ کسی دوسرے دکان دار کے حلقہ تشدد میں داخل ہو گا تو اسے کوئی اور دکان دار ہرگز آواز نہ دے گا۔ اس کے باوجود چھینا جھپٹی اور کشتم پچھاڑ بڑھتی ہی گئی تو ہر دکان دار کے آگے چونے سے حد بندی لائین کھینچ دی گئی۔ اس سے یہ فرق پڑا کہ کشتی بند ہو گئی۔ کبڈی ہونے لگی۔ بعض دکان داروں نے مار پیٹ، گاہکوں کا ہانکا کرنے اور انہیں ڈنڈا ڈولی کر کے اندر لانے کے لئے بگڑے پہلوان اور شہر کے چھٹے ہوئے شُہدے اور مسٹنڈے پارٹ ٹائم ملازم رکھ لئے تھے۔ کساد بازاری اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ یہ لوگ دن میں لکڑ منڈی میں گاہکوں کو ڈرا دھمکا کر ناقص اور کنڈم مال خریدواتے اور رات کو یہی فریضہ بازار حسن میں بھی انجام دیتے۔ بہت سے طوائفوں نے اپنی آبرو کو ہر شب زیادہ سے زیادہ غیر محفوظ رکھنے کی غرض سے ان کو بطور پمپ ملازم رکھ چھوڑا تھا۔ قبلہ نے اس قسم کا کوئی غنڈا یا بد کردار پہلوان ملازم نہیں رکھا کہ انہیں اپنے زورِ بازو پر پورا بھروسہ تھا۔ لیکن اوروں کی طرح مال کی چِرائی کٹائی میں مار کٹائی کا خرچہ بھی شامل کر لیتے تھے۔

 

آلات اخراجِ خون: جونک، سینگی، لاٹھی

 

ہمہ وقت طیش کا عالم طاری رہتا تھا۔ سونے سے پہلے ایسا موڈ بنا کر لیٹتے کہ آنکھ کھلتے ہی غصہ کرنے میں آسانی ہو۔ پیشانی کے تین بل سوتے میں بھی نہیں مٹتے تھے۔ غصے کی سب سے خالص قسم وہ ہوتی ہے جو کسی اشتعال کی محتاج نہ ہو یا کسی بہت معمولی سے بات پر آ جائے۔ غصے کے آخر ہوتے ہوتے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ آیا کس بات پر تھا۔ بیوی ان کو روزہ نہیں رکھنے دیتی تھیں۔ غالباً 1935 کا واقعہ ہے۔ ایک دن عشا کی نماز کے بعد گڑگڑا گڑگڑا کر اپنی دیرینہ پریشانیاں دور ہونے کی دعائیں مانگ رہے تھے کہ ایک تازہ پریشانی کا خیال آتے ہی ایک دم جلال آ گیا۔ دعا ہی میں کہنے لگے کہ تو نے میری پرانی پریشانی ہی کون سی رفع کر دی جو اَب یہ نئی پریشانی دور کرے گا اس رات مصّلا تہ کرنے کے بعد پھر کبھی نماز نہیں پڑھی۔

ان کے غصّے پر یاد آیا کہ اس زمانے میں کن میلیے محلّوں بازاروں میں پھیری لگاتے تھے۔ کان کا میل نکالنے پر ہی کیا موقوف، دنیا جہان کے کام گھر بیٹھے ہو جاتے تھے۔ سبزی، گوشت اور سودا سلف کی خریداری، حجامت، تعلیم، زچگی، پیڑھی، کھاٹ، کھٹولے کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ خود اپنی مرمت بھی، سب گھر بیٹھے ہو جاتی۔ بیبیوں کے ناخن نہرنی سے کاٹنے اور پیٹھ ملنے کے لئے نائنیں گھر آتی تھیں۔ کپڑے بھی مغلانیاں گھر آ کر سیتی تھیں تاکہ نامحرموں کو ناپ تک کی ہوا نہ لگے۔ حالانکہ اس زمانے کی زنانہ پوشاک کے جو نمونے ہماری نظر سے گزرے ہیں وہ ایسے ہوتے تھے کہ کسی بھی لیٹربکس کا ناپ لے کر سیے جا سکتے تھے۔ غرض کہ سب کام گھر میں ہی ہو جاتے۔ حد یہ کہ موت تک گھر میں واقع ہوتی تھی۔ اس کے لئے باہر جا کر کسی ٹرک سے اپنی روح قبض کروانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ فسادِ خون سے کسی کے بار بار پھوڑے پھنسی نکلیں، یا دماغ میں خیالاتِ فاسدہ کا ہجوم دن دہاڑے بھی رہنے لگے، تو گھر پر ہی فصد کھول دی جاتی تھی۔ فاضل و فاسد خون نکلوانے کی غرض سے اپنا سر پھڑوانے یا پھوڑنے کے لئے کسی سیاسی جلسے میں جانے یا حکومت کے خلاف مظاہرے کر کے لاٹھی کھانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ اس زمانے میں لاٹھی کو آلہ اخراج خون کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ جونک اور سینگی لگانے والی کنجریاں روز پھیری لگاتی تھیں۔ اگر اس زمانے کے کسی حکیم کا ہاتھ آج کل کے نوجوانوں کی نبض پر پڑ جائے تو کوئی نوجوان ایسا نہ بچے جس کے جہاں تہاں سینگی لگی نظر نہ آئے۔ رہے ہم جیسے آج کل کے بزرگ کہ

کی جس سے بات اس کو ہدایت ضرور کی

تو کوئی بزرگ ایسا نہ بچے گا جس کی زباں پر حکیم صاحبان جونک نہ لگوا دیں۔

ہم واقعہ یہ بیان کرنے چلے تھے کہ گرمیوں کے دن تھے قبلہ ادلے کا قورمہ اور خربوزہ تناول فرما کر کیبن میں قیلولہ کر رہے تھے کہ اچانک کن ملییے نے کیبن کے دروازے پر بڑے زور سے آواز لگائی "کان کا میل” خدا جانے میٹھی نیند سو رہے تھے یا کوئی بہت ہی حسین خواب دیکھ رہے تھے جس میں گاہک ان سے تگنے داموں دھَڑا دھَڑ لکڑی خرید رہے تھے۔ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے۔ ایک دفعہ تو دہل گئے۔ چق کے پاس پڑی ہوئی لکڑی اُٹھا کر اس کے پیچھے ہولیے۔ کمینے کی یہ جرات کہ ان کے کان سے فقط ایک گز دور بلکہ پاس ایسے گستاخانہ طریقے سے چیخے۔ یہ کہنا تو درست نہ ہو گا کہ آگے آگے وہ اور پیچھے پیچھے یہ، اس لئے قبلہ غصے میں ایسے بھرے ہوئے تھے کہ کبھی کبھی اس سے آگے بھی نکل جاتے۔ سڑک پر کچھ دور بھاگنے کے بعد کن میلیا گلیوں میں نکل گیا اور آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ مگر قبلہ محض اپنی چھٹی حس کی بتائی ہوئی سمت میں دوڑتے رہے اور یہ وہ سمت تھی جس طرف کوئی شخص جس کے پانچوں حواس سلامت ہوں، جارحانہ انداز میں لکڑی لاٹھی گھماتا ہرگز نہ جاتا کہ یہ تھانے کی طرف جاتی تھی۔ اس وحشیانہ دوڑ میں قبلہ کی لکڑی اور کن میلیے کا پگڑ جس کے ہر پیچ میں اس نے میل نکالنے کے اوزار اڑس رکھے تھے، زمین پر گر گیا۔ اس میں سے ایک ڈبیا بھی نکلی جس میں اس نے کان کا میل جمع کر رکھا تھا۔ نظر بچا کر اسی میں سے تولہ بھر میل نکال کر دکھا دیتا کہ دیکھو یہ تمھارے کان سے نکلا ہے۔ کسی کے کان سے گولر کے بھنگے برآمد کر کے کہتا کہ تمھارے کان میں جو بھن بھن تن تن کی آوازیں آ رہی تھیں وہ انھیں کی تھیں۔ لیکن یہ سچ ہے کہ وہ کان کی بھول بھلیوں میں اتنی دور تک سہج سہج سلائی ڈالتا چلا جاتا کہ محسوس ہوتا ابھی کان کے راستے آنتیں بھی نکال کر ہتھیلی پر رکھ دے گا۔ قبلہ نے اس پگڑ کو بَلّی پر چڑھا کر بَلّی اپنی کیبن کے سامنے اس طرح گاڑ دی جس طرح اگلے وقتوں میں کوئی بے صبرا ولی عہد، یا وہ نہ ہو تو پھر کوئی دشمن، بادشاہ سلامت کا سر کاٹ کر نیزے پر ہر خاص و عام کی اطلاع کے لئے بلند کر دیتا تھا۔ اس کی دہشت ایسی بیٹھی کہ دکان کے سامنے سے بڑھئی، کھٹ بُنے، سینگی لگانے والیوں اور سحری کے لئے جگانے والوں نے بھی نکلنا چھوڑ دیا۔ ملحقہ مسجد کا کریہہ الصوت موذّن بھی عقب والی گلی سے آنے جانے لگا۔

 

کانسی کی لٹیا، بالی عمریا اور چگی داڑھی

 

قبلہ اپنا مال بڑی توجہ، محنت اور محبت سے دکھاتے تھے۔، محبت، کا اضافہ ہم نے اس لیے کیا کہ وہ گاہک کو تو شیر کی نظر سے دیکھتے، مگر اپنی لکڑی پر محبت سے ہاتھ پھیرتے رہتے۔ کوئی ساگوان کا تختہ ایسا نہیں تھا۔ جس کے ریشوں کے ابر اور رگوں (veins) کا طغریٰ، اگر وہ چاہیں تو، یادداشت سے کاغذ پر نہ بنا سکتے ہوں۔ لکڑ منڈی میں وہ واحد دکان دار تھے جو گاہک کو اپنا اور ہر شہتیر اور بَلّی کا شجرہ نسب ازبر کرا دیتے تھے۔ ان کا اپنا شجرہ نسب بَلی سے بھی زیادہ لمبا تھا۔ اس پر اپنے جد اعلیٰ کو ٹانگ رکھا تھا۔ ایک بَلی کی قامَتِ زیبا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے "سوا انتالیس فٹ لمبی ہے! گونڈہ کی ہے۔ افسوس! اصغر گونڈوی کے غوغائے شاعری نے گونڈہ کی بَلیوں کی شہرت کا بیڑا غرق کر دیا۔ لاکھ کہو، اب کسی کو یقین ہی نہیں آتا کہ گونڈے کی اصل وجہِ شہرت خوب صورت بَلیاں تھیں۔ اصغر گونڈوی سے پہلے ایسی سیدھی، بے گانٹھ بَلی ملتی تھی کہ چالیس فٹ اونچے سرے پر سے چھلّا چھوڑ دو تو بے روک، سیدھا نیچے جھَن سے آگے ٹھہرتا ہے۔ ” ان کے ہاں کا ہر شہتیر اصیل اور خاندانی تھا۔ بیش تر تو خالص مغل یا روہیل کھنڈ کے پٹھان معلوم ہوتے تھے کہ ہر آئے گئے کے کپڑے پھاڑتے اور خود مشکل سے چِرتے تھے۔ کبھی قبلہ کونے میں پڑے ہوئے گرم و سرد سیلاب چشیدہ seasoned تختے کی طرف اتنے ادب و احترام سے اشارہ کرتے گویا ابھی ابھی جودی پہاڑ کی ترائی سے کشتی نوح میں سے اکھاڑ کر بطور خاص ایک دانہ آپ کے approval کے لئے لے آئے ہیں۔ کبھی برمی ساگوان کے لٹھے پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے، میاں! ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے! بچہ ہے۔ بہت سے بہت اسّی سال کا ڈیڑھ ڈیڑھ سو سال کا ساگوان اراودی کے جنگلوں میں آندھی طوفان میں بالکل کھڑی کمر استادہ رہتا ہے۔ لیکن صاحب ہے بلا کا سیزنڈ۔ سیکڑوں بارشوں اور سات دریاؤں کا پانی پی کر یہاں پہنچا ہے۔ اور اس لٹھے پر تو مگر مچھ نے پیشاب بھی کیا ہے۔ (انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے) یہ جو کنول نین گرہ نظر آ رہی ہے، اس پر۔ مگر مچھ جس لکڑی پر مُوت دے اس کو حشر تک نہ دیمک لگ سکتی ہے، نہ آگ! اس پر خواجہ عبدالمجید جو منشیانہ ڈیسک کے لیے لکڑی خریدنے آئے تھے، پوچھ بیٹھے "کیا مگرمچھ کھمبے کے بجائے درخت پر۔۔۔۔۔۔ "وہ جملہ مکمل نہ کر پائے تھے کہ قبلہ تنک کر بولے جی نہیں! مگرمچھ تو سبیلِ اہلِ اسلام میں زنجیر سے بندھے ہوئے ٹین کے گلاس سے پانی پی کے، سڑک پر ٹہل ٹہل کر استنجا سکھاتے ہیں۔ آپ کے والدِ ماجد کی طرح، آیا خیال شریف میں؟”

بس چوبیس گھنٹے مزاج کی کچھ ایسی ہی جوالا مکھی کیفیت رہتی تھی۔ ایک دفعہ حاجی محمد اسحاق چمڑے والے کچھ شیشم خریدنے آئے۔ قبلہ یوں تو ہر قسم کی لکڑی کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے تھے۔ لیکن شیشم پر سچ مچ فریفتہ تھے۔ اکثر فرماتے تخت طاؤس میں شاہجہاں نے شیشم ہی لگوائی تھی۔ شیشم کے گن گاہک اور قدر دان تو قبر میں جا سوئے۔ مگر کیا بات ہے شیشم کی جتنا استعمال کرو اتنے ہی جوہر کھلتے ہیں۔ شیشم کی جس چارپائی پر میں پیدا ہوا، اسی پر دادا میاں کی ولادت ہوئی تھی۔” اپنے حسنِ تولد و توارد کو قبلہ چارپائی اور دادا جان دونوں کے لئے باعث سعادت و افتخار سمجھتے ہیں۔ حاجی محمد اسحاق بولے "یہ لکڑی تو صاف معلوم نہیں ہوتی” قبلہ نہ جانے کتنے برسوں بعد مسکرائے۔ حاجی صاحب کی داڑھی کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہوئے ارشاد فرمایا "یہ بات ہم نے شیشم کی لکڑی، کانسی کی لٹیا، بالی عمریا اور چگی داڑھی میں ہی دیکھی کہ جتنا ہاتھ پھیرو اتنی ہی چمکتی ہے۔ اعلیٰ ذات کی شیشم کی پہچان یہ ہے کہ آرا، رندہ، برما سب کھُنڈے (کند) اور ہاتھ شل ہو جائیں۔ یہ چیڑ تھوڑا ہی ہے کہ ایک ذرا کیل ٹھونکو تو الف سے لے کر ے تک چِر جائے۔ پر ایک بات ہے۔ تازہ کٹی ہوئی چیڑ سے بَن مہکار کا ایک آبشار پھوٹ پڑتا ہے لگتا ہے اس میں نہایا جا رہا ہوں۔ جس دن کارخانے میں چیڑ کی کٹائی ہونے والی ہو۔ اس دن میں عطر لگا کر نہیں آتا۔ ”

قبلہ کا موڈ بدلا تو حاجی محمد اسحاق کی ہمت بندھی۔ کہنے لگے، یہ شیشم تو واقعی اعلیٰ درجے کی معلوم ہوتی ہے مگر سیزنڈ نہیں لگتی۔ قبلہ کے آگ ہی تو لگ گئی۔ فرمایا "سیزنڈ! کتنے فاقوں میں سیکھا ہے یہ لفظ؟ اگر فقط سیزنڈ ہی چاہیے تو سب سے زیادہ سیزنڈ سامنے والی مسجد کے غسلِ میت کا تختہ ہے۔ بڑا پانی پیا ہے اس نے! لاؤں؟ اسی پہ لٹال دوں گا۔”

 

سائی کے ساتھ عزتِ سادات بھی گئی

 

یوں تو ان کی زندگی ڈیل کارنیگی کے ہر اصول کی اول تا آخر نہایت کامیاب خلاف ورزی تھی۔ لیکن بزنس میں انہوں نے اپنے ہتھکنڈے الگ ایجاد کیے تھے۔ گاہک سے جب تک یہ نہ کہلوا لیں کہ لکڑی پسند ہے۔ اس کی قیمت اشارتاً بھی نہیں بتاتے تھے۔ وہ پوچھتا بھی تو صاف ٹال جاتے۔ "آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ آپ کو لکڑی پسند ہے۔ لے جائیے۔ گھر کی بات ہے۔” گاہک جب قطعی طور پر لکڑی پسند کر لیتا تو قبلہ قیمت بتائے بغیر، ہاتھ پھیلا کر بیعانہ طلب کرتے۔

سستا سماں تھا۔ وہ دونّی یا چونّی کی سائی پیش کرتا جو اس سودے کے لئے کافی ہوتی۔ اشارے سے دھتکارتے ہوئے کہتے، چاندی دکھاؤ (یعنی کم از کم ایک کلدار روپیہ نکالو) وہ بے چارہ شرما حضوری ایک روپیہ نکالتا جو اس زمانے میں پندرہ سیر گیہوں یا سیر بھر اصلی گھی کے برابر ہوتا تھا۔ قبلہ روپیہ لے کر اپنی ہتھیلی پر اس طرح رکھے رہتے کہ اسے تسلی کے لئے نظر تو آتا رہے، مگر جھپٹا نہ مار سکے۔ ہتھیلی کو اپنے زیادہ قریب بھی نہ لاتے۔ مبادا سودا پٹنے سے پہلے گاہک بدک جائے۔ کچھ دیر بعد خود بخود کہتے "مبارک ہو! سودا پکا ہو گیا۔” پھر قیمت بتاتے جسے سن کر وہ ہکا بکا رہ جاتا۔ وہ قیمت پر حجت کرتا تو کہتے "عجیب گھن چکر آدمی ہو۔ سائی دے کر پھرتے ہو۔ ابھی روپیہ دے کر سودا پکا کیا ہے۔ ابھی تو اس میں سے تمھارے ہاتھ کی گرمائی بھی نہیں گئی اور ابھی پھر گئے۔ اچھا کہہ دو کہ یہ روپیہ تمھارا نہیں ہے۔ کہو، کہو” قیمت ناپ تول کر ایسی بتاتے کہ کائیاں سے کائیاں گاہک دُبدھا میں پڑ جاتا اور یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ پیشگی ڈوبنے میں زیادہ نقصان ہے یا اس بھاؤ لکڑی خریدنے میں۔

دورانِ حجت کتنی ہی گرما گرمی بلکہ ہاتھا پائی ہو جائے وہ اپنی ہتھیلی کو چت ہی رکھتے۔ مٹھی کبھی بند نہیں کرتے تھے تاکہ بے آبرو ہوتے ہوئے گاہک کو اطمینان رہے کہ کم از کم سائی تو محفوظ ہے۔ ان کے بارے میں ایک قصہ مشہور تھا کہ ایک سر پھرے گاہک سے جھگڑا ہوا تو دھوبی پاٹ کا داؤں لگا کر زمین پر دے مارا اور چھاتی پر چڑھ کے بیٹھ گئے۔ لیکن اس پوز میں بھی اپنی ہتھیلی جس پر روپیہ رکھا تھا، چت ہی رکھی تاکہ اسے یہ بد گمانی نہ ہو کہ روپیہ ہتھیانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ جیسی بے داغ اور اعلی لکڑی وہ بیچتے تھے، ویسی بقول ان کے "تمہیں باغِ بہشت میں شاخِ طوبیٰ سے بھی دستیاب نہ ہو گی۔ داغی لکڑی بندے نے آج تک نہیں بیچی۔ سو سال بعد بھی دیمک لگ جائے تو پورے دام واپس کر دوں گا۔” بات در اصل یہ تھی کہ وہ اپنے اصولوں کے پکے تھے۔ مطلب یہ کہ تمام عمر”اونچی دکان، صحیح مال، غلط مال” پر سختی سے کار بند رہے۔ سنا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے فیشن ایبل اسٹور”ہیرڈز” کا دعوی ہے کہ ہمارے پاس سوئی سے لے کر ہاتھی تک دستیاب ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ قیمت بھی دونوں کی ایک ہی ہوتی ہے! ہیرڈز اگر لکڑی بیچتا تو با خدا ایسی ہی اور ان ہی داموں بیچتا۔

۲

یہ چھوڑ کر آئے ہیں

 

کانپور سے ہجرت کر کے کراچی آئے تو دنیا ہی اور تھی۔ اجنبی ماحول، بے روزگاری، بے گھری، اس پر مستزاد۔ اپنی آبائی حویلی کے دس بارہ فوٹو مختلف زاویوں سے کھنچوا کر لائے تھے۔ "ذرا یہ سائیڈ پوز دیکھیے۔ اور یہ شاٹ تو کمال کا ہے۔” ہر آئے گئے کو فوٹو دکھا کر کہتے "یہ چھوڑ کر آئے ہیں۔” جن دفتروں میں مکان کے الاٹ منٹ کی درخواستیں دی تھیں، ان کے بڑے افسروں کو بھی کٹہرے کے اس پار سے تصویری ثبوتِ استحقاق دکھاتے: "یہ چھوڑ کر آئے ہیں۔ ” واسکٹ اور شیروانی کی جیب میں کچھ ہو یا نہ ہو، حویلی کا فوٹو ضرور ہوتا تھا۔ یہ در حقیقت ان کا وزیٹنگ کارڈ تھا۔ کراچی کے فلیٹوں کو کبھی ماچس کی ڈبیا، کبھی دڑبے، کبھی کابک کہتے۔ لیکن جب تین مہینے جوتیاں چٹخانے کے باوجود ایک کابک میں سر چھپانے کو جگہ نہ ملی تو آنکھیں کھلیں۔ احباب نے سمجھایا "فلیٹ ایک گھنٹے میں مل سکتا ہے۔ کسٹوڈین کی ہتھیلی پر پیسا رکھو اور جس فلیٹ کی چاہو چابی لے لو۔” مگر قبلہ تو اپنی ہتھیلی پر پیسا رکھوانے کے عادی تھے، وہ کہاں مانتے۔ مہینوں فلیٹ الاٹ کروانے کے سلسلے میں بھوکے پیاسے، پریشان حال سرکاری دفتروں کے چکر کاٹتے رہے۔ زندگی بھر کسی کے ہاں مہمان نہ رہے اب بیٹی داماد کے ہاں مہمان رہنے کا عذاب بھی سہا۔

 

اب کیا ہوئے گا؟

 

انسان جب کسی گھلا دینے والے کرب یا آزمائش سے گزرتا ہے تو ایک ایک ساعت ایک ایک برس بن جاتی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے

ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

بیٹی کے گھر ٹکڑے توڑنے یا اس پر بار بننے کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ کانپور میں کبھی اس کے ہاں کھڑے کھڑے ایک گلاس بھی پانی پیتے تو ہاتھ پر پانچ دس روپے رکھ دیتے۔ لیکن اب؟ صبح سرجھکائے ناشتہ کر کے نکلتے تو دن بھر خاک چھان کر مغرب سے ذرا پہلے لوٹتے۔ کھانے کے وقت کہہ دیتے کہ ایرانی ہوٹل میں کھا آیا ہوں۔ جوتے انہوں نے ہمیشہ رحیم بخش جفت ساز سے بنوائے۔ اس لیے کہ اس کے بنائے جوتے چرچراتے بہت تھے۔ ان جوتوں کے تلے اب اتنے گھس گئے تھے، کہ چرچرانے کے لائق نہ رہے۔ پیروں میں ٹھیکیں پڑ گئیں۔ شیروانیاں ڈھیلی ہو گئیں۔ بیمار بیوی رات کو درد سے کراہ بھی نہیں سکتی تھی کہ سمدھیانے والوں کی نیند خراب ہونے کا اندیشہ تھا۔ ململ کے کرتوں کی لکھنوی کڑھائی میل میں چھپ گئی۔ چنٹیں نکلنے کے بعد آستینیں انگلیوں سے ایک ایک بالشت نیچے لٹکی رہتیں۔ خضابی مونچھوں کا بل تو نہیں گیا، لیکن صرف بل کھائی ہوئی نوکیں سیاہ رہ گئیں۔ چار چار دن نہانے کو پانی نہ ملتا۔ موتیا کا عطر لگائے تین مہینے ہو گئے۔

بیوی گھبرا کر بڑے بھولپن سے مضافاتی لہجے میں کہتیں "اب کیا ہوئے گا؟” ہو گا کے بجائے، ہوئے گا، ان کے منھ سے بہت پیارا لگتا تھا۔ اس ایک فقرے میں وہ اپنی ساری سراسیمگی، معصومیت، بے بسی اور مخاطب کے علم نجوم اور اس کی بے طلب مدد پر بھروسا ۔۔۔۔۔ سبھی کچھ سمو دیتی تھیں۔ قبلہ اس کے جواب میں ہمیشہ بڑے اعتماد اور تمکنت سے "دیکھتے ہیں” کہہ کر ان کی تشفی کر دیتے تھے۔

 

یہ زورِ دست و ضربتِ کاری کا ہے مقام

 

ہر دکھ، ہر عذاب کے بعد زندگی آدمی پر ایک راز کھول دیتی ہے۔ بودھ گیا کی چھاؤں تلے بدھ بھی ایک دکھ بھری تپسیا سے گزرے تھے۔ جب پیٹ پیٹھ سے لگ گیا، آنکھیں اندھے کنوؤں کی تہ میں بے نور ہوئیں اور ہڈیوں کی مالا میں بس سانس کی ڈوری اٹکی رہ گئی، تو گوتم بدھ پر بھی ایک بھید کھلا تھا۔ جیسا اور جتنا اور جس کارن آدمی دکھ بھوگتا ہے، ویسا ہی بھید اس پر کھلتا ہے۔ نروان ڈھونڈنے والے کو نروان مل جاتا ہے، اور جو دنیا کی خاطر کشت اٹھاتا ہے تو دنیا اس کو راستہ دیتی چلی جاتی ہے۔

سو گلی گلی خاک پھانکنے اور دفتر دفتر دھکے کھانے کے بعد قبلہ کے قلب حزیں پر کچھ القا ہوا۔ وہ یہ کہ قاعدے قانون، داناؤں اور جابروں نے کمزور دل والوں کو قابو میں رکھنے کے لئے بنائے ہیں۔ جو شخص ہاتھی کی لگام ہی تلاش کرتا رہ جائے، وہ کبھی اس پر چڑھ نہیں سکتا۔ جام اس کا ہے جو بڑھ کر خود ساقی کو جام و مینا سمیت اٹھا لے۔ بالفاظ دیگر، جو بڑھ کرتالے توڑ ڈالے۔ مکان اسی کا ہو گیا۔ کانپور سے چلے تو اپنی جمع جتھا، شجرہ، اسپرنگ سے کھلنے والا چاقو، اختری بائی فیض آبادی کے تین ریکارڈ، مراد آبادی حقے اور صراحی کے سبز کیریر اسٹینڈ کے علاوہ اپنی دکان کا تالا بھی ڈھو کر لے آئے تھے۔ علی گڑھ سے خاص طور پر بنوا کر منگوایا تھا۔ تین سیر سے کم کا نہ ہو گا۔ مذکورہ بالا القا کے بعد برنس روڈ پر ایک اعلیٰ درجے کا فلیٹ اپنے لیے پسند فرمایا۔ ماربل کی ٹائلز، سمندری ہوا کی رخ کھلنے والی کھڑکیاں جن میں رنگین شیشے لگے تھے۔ دروازے کے زنگ آلود تالے پر اپنے علیگ تالے کی ایک ہی ضرب سے فلیٹ میں اپنی آباد کاری بلا منتِ سرکار کر لی۔ گویا پروفیسر قاضی عبدالقدوس کے الفاظ میں، اول الذکر کو ثانی الذکر پر مار کر آخر الذکر کا قبضہ لے لیا۔ تختی دوبارہ پینٹ کروا کے لگا دی۔ اس سے پہلے اس پر کسٹوڈین متروکہ املاک کا نام لکھا تھا۔ قبلہ عالمِ جلال میں اسے وہیں سے کیلوں سمیت اکھاڑ لائے تھے۔ تختی پر نام کے آگے "مضطر کانپوری” بھی لکھوا دیا۔ پرانے واقف کاروں نے پوچھا کہ آپ شاعر کب سے ہو گئے؟ فرمایا میں نے آج تک کسی شاعر پر دیوانی مقدمہ چلتے نہیں دیکھا، نہ ڈگری، قُرقی ہوتے دیکھی۔

فلیٹ پر قابض ہونے کے کوئی چار ماہ بعد قبلہ چوڑی دار کا گھُٹنا رفو کر رہے تھے کہ کسی نے بڑے گستاخانہ انداز سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ مطلب یہ کہ نام کی تختی کو پھٹ پھٹایا۔ جیسے ہی انہوں نے ہڑبڑا کر دروازہ کھولا۔ آنے والے نے خود کا تعارف اس طرح کروایا کہ گویا اپنے عہدے کی چپڑاس ان کے منھ پر اُٹھا کر دے ماری ہو۔ "افسر، محکمہ کسٹوڈین، ایویکوی پراپرٹی” پھر ڈپٹ کر کہا "بڑے میاں! فلیٹ کا الاٹ منٹ آرڈر دکھاؤ” قبلہ نے واسکٹ کی جیب سے حویلی کا فوٹو نکال کر دکھایا۔ "یہ چھوڑ کر آئے ہیں” اس نے فوٹو کا نوٹس نہ لیتے ہوئے قدرے درشتی سے کہا "بڑے میاں سنا نہیں کیا؟ الاٹ منٹ آرڈر دکھاؤ۔” قبلہ نے بڑی رسان سے اپنے بائیں پیر کا سلیم شاہی جوتا اتارا۔ اور اتنی ہی رسان سے کہ اس کو گمان تک نہ ہوا کیا کرنے والے ہیں۔ اس کے منھ پر مارتے ہوئے بولے "یہ ہے یاروں کا الاٹ منٹ آرڈر، کاربن کاپی بھی ملاحظہ فرمائیے گا” اس نے اب تک یعنی تا دم تذلیل، رشوت پہ رشوت کھائی تھی، جوتے نہیں کھائے تھے۔ پھر کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا۔

 

جس حویلی میں تھا ہمارا گھر

 

قبلہ نے بڑے جتن سے لی مارکیٹ میں ایک چھوٹی سے لکڑی کی دکان کا ڈول ڈالا۔ بیوی کے جہیز کے زیور اور ویبلی اسکاٹ کی بندوق اونے پونے بیچ ڈالی۔ کچھ مال ادھار خریدا۔ ابھی دکان ٹھیک سے جمی بھی نہ تھی کہ ایک انکم ٹیکس انسپکٹر آ نکلا۔ کھاتے، رجسٹریشن، روکڑ بہی، اور رسید بک طلب کیں۔ دوسرے دن قبلہ ہم سے کہنے لگے "مشتاق میاں! سنا آپ نے؟ مہینوں جوتیاں چٹخاتا، دفتروں میں اپنی اوقات خراب کرواتا پھرا۔ کسی نے پلٹ کر نہ پوچھا کہ بھیا کون ہو! اب دل لگی دیکھیے، کل ایک انکم ٹیکس کا تیس مار خان دندناتا ہوا آیا۔ لقہ کبوتر کی طرح سینہ پھُلائے۔ میں نے سالے کو یہ دکھا دی "یہ چھوڑ کر آئے ہیں” چندرا کر پوچھنے لگا "یہ کیا ہے؟” ہم نے کہا "ہمارے ہاں اسے محل سرا کہتے ہیں۔”

سچ جھوٹ کا حال مرزا جانیں کہ انھیں سے روایت ہے کہ اس محل سرا کا ایک بڑا فوٹو فریم کروا کے اپنے فلیٹ کی کاغذی سی دیوار میں کیل ٹھونک رہے تھے کہ دیوار کے اس پار والے پڑوسی نے آ کر درخواست کی کہ ذرا کیل ایک فٹ اوپر ٹھونکیں تاکہ دوسرے سرے پر میں اپنی شیروانی لٹکا سکوں۔ دروازے زور سے کھولنے اور بند کرنے کی دھمک سے اس زنگیائی کیل پر ساری محل سرا پنڈولم کی طرح جھولتی رہتی تھی۔ گھر میں ڈاکیا یا نئی دھوبن بھی آتی تو اسے بھی دکھاتے "یہ چھوڑ کر آئے ہیں۔”

اس حویلی کا فوٹو ہم نے بھی بار بار دیکھا۔ اس سے دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے کیمرے کو موٹا نظر آنے لگا ہے۔ لیکن کیمرے کے ضعف بصارت کو قبلہ اپنے زور بیان سے دور کر دیتے تھے۔ یوں بھی ماضی ہر شے کے گرد ایک رومانی ہالہ کھینچ دیتا ہے۔ گزرا ہوا درد بھی سہانا لگتا ہے۔ آدمی کا جب کچھ چھن جائے تو وہ یا تو مست ملنگ ہو جاتا ہے یا کسی فینٹسی لینڈ میں پناہ لیتا ہے۔

نہ ہو اگر یہ فریب پیہم تو دَم نکل جائے آدمی کا

شجرہ اور حویلی بھی ایک ایسی ہی جائے اماں تھی۔ ممکن ہے بے ادب نگاہوں کو یہ تصویر میں ڈھنڈار دکھلائی دے، لیکن جب قبلہ اس کی تعمیراتی نزاکتوں کی تشریح فرماتے تو اس کے آگے تاج محل بھی بالکل سپاٹ گنوارو گھروندا معلوم ہوتا۔ مثلاً دوسری منزل پر ایک دروازہ نظر آتا تھا جس کی چوکھٹ اور کواڑ جھڑ چکے تھے۔ قبلہ اسے فرانسیسی دریچہ بتاتے تھے۔ اگر یہاں واقعی کوئی ولائتی دریچہ تھا تو یقیناً یہ وہی دریچہ ہو گا جس میں جڑے ہوئے آئینہ جہاں نما کو توڑ کر ساری کی ساری ایسٹ انڈیا کمپنی آنکھوں میں اپنے جوتوں کی دھول جھونکتی گزر گئی۔ ڈیوڑھی میں داخل ہونے کا جو بے کواڑ پھاٹک تھا وہ در اصل شاہ جہانی محراب تھی۔ اس کے اوپر ٹوٹا ہوا ایک چھّجا تھا جس پر سرِ دست ایک چیل قیلولہ کر رہی تھی۔ یہ راجپوتی جھروکے کی باقیات بتائی جاتی تھیں، جن کے عقب میں ان کے دادا کے وقتوں میں ایرانی قالینوں پر آذربائیجانی طرز کی قوالی ہوتی تھی۔ پچھلے پہر جب نیند کے غلبے سے غلافی آنکھیں مندنے لگتیں تو وقفے وقفے سے نقرئی گلاب پاشوں سے حِضّار محفل پر عرقِ گلاب مقطر چھڑکا جاتا۔ فرش اور دیواریں قالینوں سے ڈھکی رہتی تھیں۔ فرماتے تھے کہ ” جتے پھول غلیچے پہ تھے وتے ہی باہر بغیچے میں تھے۔” یہاں اطالوی مخمل کے کار چوبی زیر انداز پر گنگا جمنی منقّش اگال دان رکھے رہتے تھے، جن میں چاندی کے ورق میں لپٹی ہوئی گلوریوں کی پیک جب تھوکی جاتی تو بلوریں گلے میں اترتی چڑھتی صاف نظر آتی، جیسے تھرمامیٹر میں پارا۔

 

وہ ازدحام کہ عقل دھرنے کی جگہ نہیں

 

حویلی کے چند اندرونی کلوز اپ بھی تھے۔ کچھ کیمرے کی آنکھ اور کچھ چشم تصور کے رہینِ منّت۔ ایک سہ دری تھی جس کی دو محرابوں کی دراڑوں میں بازنطنیی اینٹوں پر کانپوری چڑیوں کے گھونسلے نظر آ رہے تھے۔ ان پر Moorish arches کی تہمت تھی۔ چراغ رکھنے کا ایک آلہ (طاقچہ ) ایسے آرٹسٹک زاویے سے ڈہا تھا کہ پرتگالی آرچ کے آثار دکھائی پڑتے تھے۔ فوٹو میں اس کے پہلو میں ایک چوبی گھڑونچی نظر آ رہی تھی جس کا شاہ جہانی ڈیزائن ان کے جد نے آب دار خانہ خاص سے بدست خود چرایا تھا۔ شاہ جہانی ہو یا نہ ہو، اس کے مغل ہونے میں کوئی شبہ نہ تھا، اس لیے کہ اس کی ایک ٹانگ تیموری تھی۔ حویلی کی غلام گردشیں فوٹو میں نظر نہیں آتی تھیں، لیکن ایک ہمسائے کا بیان ہے کہ ان میں گردش کے مارے خاندانی بڑے بوڑھے رُلے پھرتے تھے۔ شمالی حصّے میں ایک ستون جو مدتیں ہوئیں چھت کا بوجھ اپنے اوپر سے اوچھے کے احسان کی طرح اتار چکا تھا، Roman Pillars کا نادر نمونہ بتایا جاتا تھا۔ حیرت تھی کہ یہ چھت سے پہلے کیوں نہ گرا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ چاروں طرف گردن گردن ملبے میں دبے ہونے کے باعث، اس کے گرنے کے لیے کوئی خالی جگہ نہ تھی۔ ایک شکستہ دیوار کے ساتھ لکڑی کی بوسیدہ نسینی (سیڑھی) اس طرح کھڑی تھی کہ یہ کہنا مشکل تھا کہ کون کس کے سہارے کھڑا ہے۔ ان کی بیان کے مطابق جب دوسری منزل منہدم نہیں ہوئی تھی تو یہاں وکٹورین اسٹائل کا Grand staircase ہوا کرتا تھا۔ اس غیر موجود چھت پر جہاں اب چمگادڑیں بھی لٹک نہیں سکتی تھیں، قبلہ ان آہنی کڑیوں کی نشان دہی کرتے جن میں دادا کے زمانے میں المانوی فانوس لٹکے رہتے تھے، جن کی چمپئ روشنی میں وہ گھنگرالی خنجریاں بجتیں جو کبھی دو کوہان والے باختری اونٹوں کی محمل نشینوں کے ساتھ آئی تھیں۔ اگر یہ فوٹو ان کی رننگ کمنڑی کے ساتھ نہ دیکھے ہوتے تو کسی طرح یہ قیاس و ذہن میں نہیں آ سکتا تھا کہ پانچ سو مربع گز کی ایک لڑکھڑاتی حویلی میں اتنے فنون تعمیر اور ڈھیر ساری تہذیبوں کا ایسا گھمسان کا ازدحام ہو گا کہ عقل دھرنے کی جگہ نہ رہے گی۔ پہلی مرتبہ فوٹو دیکھیں تو خیال ہوتا تھا کہ کیمرا ہل گیا ہے۔ پھر ذرا غور سے دیکھیں تو حیرت ہوتی تھی کہ یہ ڈھنڈار حویلی اب تک کیسے کھڑی ہے۔ مرزا کا خیال تھا کہ اب اس میں گرنے کی بھی طاقت نہیں رہی۔

 

وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے

 

حویلی کے صدر دروازے سے چند قدم کے فاصلے پر جہاں فوٹو میں گھورے پر ایک کالا مرغا گردن پھیلائے اذان دے رہا تھا، وہاں ایک شکستہ چبوترے کے آثار نظر آ رہے تھے۔ اس کے پتھروں کے جوڑ اور درزوں میں سے پودے روشنی کی تلاش میں گھبرا کے باہر نکل پڑے تھے۔ ایک دن اس چبوترے کی طرف اشارہ کر کے فرمانے لگے کہ یہاں آبِ مصفّا سے لبریز سنگِ سرخ کا ہشت پہلو حوض ہوا کرتا تھا جس میں ولایتی گولڈ فش تیرتی رہتی تھیں۔ عارف میاں اس میں پایونیر اخبار کی کشتیاں تیرایا کرتے تھے۔ یہ کہتے کہتے قبلہ جوشِ بیان میں اپنی چھڑی لے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس سے پھٹی ہوئی دری پر ہشت پہلو حوض کا نقشہ کھینچنے لگے۔ ایک جگہ فرضی لکیر قدرے ٹیڑھی کھنچی تو اسے پیر سے رگڑ کر مٹایا۔ چھڑی کی نوک سے اس بد ذات مچھلی کی طرف اشارہ کیا جو سب سے لڑتی پھرتی تھی۔ پھر ایک کونے میں اس مچھلی کی بھی نشان دہی کی جس کا جی ماندہ تھا۔ انھوں نے کھل کر تو نہیں کہا کہ آخر ہم ان کے خورد تھے، لیکن ہم سمجھ گئے کہ مچھلی کا جی کھٹی چیزیں اور سوندھی مٹّی کھانے کو بھی چاہ رہا ہو گا۔

قبلہ کبھی ترنگ میں آتے تو اپنے اکلوتے بے تکلف دوست رئیس احمد قدوائی سے فرماتے کہ جوانی میں مئی جون کی ٹِیک دوپہریا میں ایک حسین دوشیزہ کا کوٹھوں کوٹھوں ننگے پیر اُن کی حویلی کی تپتی چھت پر آنا، اب تک (مع ڈائیلاگ) یاد ہے۔ یہ بات مرزا کی سمجھ میں آج تک نہیں آئی۔ اس لیے کہ ان کی حویلی سہ منزلہ تھی، جب دائیں بائیں پڑوس کے دونوں مکان ایک ایک منزلہ تھے۔ حسین دوشیزہ اگر ننگے پیر ہو اور زیورِ حیا اتارنے کے لئے اتاولی بھی ہو رہی ہو، تب بھی یہ کرتب ممکن نہیں، تا وقتے کہ حسینہ ان کے عشق میں دوشیزہ ہونے کے علاوہ دو لخت بھی نہ ہو جائے۔

 

پلکھن

 

فوٹو میں حویلی کے سامنے ایک چھتنار پِلکھن اداس کھڑی تھی۔ اس کا تخم ان کے جدّ اعلیٰ سمندِ سیاہ زانو پر سوار، کارچوبی کام کے چغے میں چھپا کر قحط کے زمانے میں دمشق سے لائے تھے۔ قبلہ کے قول کے مطابق، ان کے پر دادا کے ابا جان کہا کرتے تھے کہ ” بے سر و سامانی کے عالم میں یہ ننگِ خلائق، ننگِ اسلاف، ننگِ وطن۔۔۔۔۔۔ ننگے سر، ننگے پیر، گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر، ننگی تلوار ہاتھ میں لیے۔۔۔۔۔۔ خیبر کے سنگلاخ ننگے پہاڑوں کو پھلانگتا، واردِ ہندوستان ہوا۔” جو تصویر وہ فخریہ کھینچتے تھے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا تھا کہ اس وقت بزرگوار کے پاس ستر پوشی کے لیے گھوڑے کی دُم کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ جائداد، محل سرا، خدام، مال و متاع۔۔۔۔۔۔۔ سب کچھ وہیں چھوڑ آئے۔ البتہ اثاث البیت کا سب سے قیمتی حصّہ یعنی شجرہ نسب اور پِلکھن کا تخم ساتھ لے آئے۔ گھوڑا جو انھی کی طرح نجیب الطرفین اور وطنِ مالوف سے بیزار تھا، تخم اور شجرے کے بوجھ سے رانوں تلے سے نکلا پڑ رہا تھا۔

 

شجرے کی ہر شاخ پہ نابغہ بیٹھا تھا

 

زندگی کی دھوپ جب کڑی ہوئی اور پیروں تلے زمین جائداد نکل گئی تو آئندہ نسلوں نے اسی شجر اور شجرے کے سائے تلے بسرام کیا۔ قبلہ کو اپنے بزرگوں کی ذہانت و فطانت پر بڑا ناز تھا۔ ان کا ہر بزرگ نادرۂ روزگار تھا اور ان کے شجرے کی ہر شاخ پر ایک نابغہ بیٹھا اونگھ رہا تھا۔

قبلہ نے ایک فوٹو اس پلکھن کے نیچے اس جگہ کھڑے ہو کر کھنچوایا تھا جہاں ان کی نال گڑی تھی۔ فرماتے تھے، اگر کسی تخم نا تحقیق کو میری حویلی کی ملکیت میں شبہ ہو تو نال نکال کر دیکھ لے۔ جب آدمی کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کی نال کہاں گڑی ہے اور پرکھوں کی ہڈیاں کہاں دفن ہیں، تو وہ منی پلانٹ کی طرح ہو جاتا ہے جو مٹی کے بغیر صرف بوتلوں میں پھلتا پھولتا ہے۔ اپنی نال، پرکھوں اور پِلکھن کا ذکر اتنے فخر، غلو اور کثرت سے کرتے کرتے یہ احوال ہوا کہ پِلکھن کی جڑیں شجرے میں اتر آئیں، جیسے گھٹنوں میں پانی اُتر آتا ہے۔

 

امپورٹڈ بزرگ اور یونانی ناک

 

 

وہ زمانے اور تھے۔ شرافت اور نجابت کے معیار بھی مختلف تھے۔ جب تک بزرگ اصلی امپورٹڈ یعنی ماورا النہری اور خیبر کے اس پار سے آئے ہوئے نہ ہوں، کوئی ہندوستانی مسلمان خود کو عزت دار اور نجیب نہیں گردانتا تھا۔ غالب کو تو شیخی بگھارنے کے لئے اپنا (فرضی) استاد ملّا عبدالصمد تک ایران سے امپورٹ کرنا پڑا۔ قبلہ کے بزرگوں نے جب بے روزگاری اور عسرت سے تنگ آ کر وطن چھوڑا تو آنکھیں نم اور دل گداز تھے۔ بار بار اپنا دستِ افسوس زانوئے اسپ پر مارتے اور ایک راویِ شیوہ بیان کے بقول ایک دوسرے کی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر استغفر اللہ! استغفر اللہ! کہتے۔ تازہ ولایت جس سے ملے، اپنے حسنِ اخلاق سے اس کا دل جیت لیا۔

پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہو گئے

پھر یہی پیارے لوگ بتدریج

پہلے خاں، پھر خانِ خاں، پھر خانِ خاناں ہو گئے

حویلی کے آرکی ٹیکچر کی طرح قبلہ کے امراض بھی شاہانہ ہوتے تھے۔ بچپن میں دائیں رخسار پر غالباً آموں کی فصل میں پھنسی نکلی تھی جس کا داغ ہنوز باقی تھا۔ فرماتے تھے، جس سال میرے یہ اورنگ زیبی پھوڑا نکلا، اسی سال بلکہ اسی ہفتے میں ملکہ وکٹوریہ رانڈ ہوئی۔ ساٹھ کے پیٹے میں آئے تو شاہجہانی حبسِ بول میں مبتلا ہو گئے۔ فرماتے تھے کہ غالب مغل بچہ تھا۔ ستم پیشہ ڈومنی کو اپنے زہرِ عشق سے مار ڈالا، مگر خود اسی، گویا کہ میرے والے عارضے میں مرا۔ ایک خط میں مرقوم ہے کہ جرعہ جرعہ پیتا ہوں اور قطرہ قطرہ خارج کرتا ہوں۔ دمے کا دورہ ذرا تھمتا تو قبلہ بڑے فخر سے فرماتے کہ فیضی کو بھی یہی مرض لاحق تھا۔ اس نے ایک قطعے میں کہا ہے، کہ دو عالم میرے سینے میں سما گئے، مگر آدھا سانس کسی طور پر نہیں سما رہا! اپنے والد مرحوم کے با رے میں فرماتے تھے کہ راج روگ یعنی اکبری سنگرہنی میں انتقال فرمایا۔ مراد اس سے آنتوں کی ٹی بی تھی۔ مرض تو مرض قبلہ کی ناک تک اپنی نہیں تھی۔ یونانی بتاتے تھے۔

 

"مُردہ” از غیب بروں آیدوکارے بکند

 

قبلہ کو دو غم تھے۔ پہلے غم کا ذکر بعد میں آئے گا۔ کہ وہ جاں گسل تھا۔ دوسرا غم در اصل اتنا ان کا اپنا نہیں جتنا بیوی کا تھا جو بیٹے کی تمنّا میں گھل رہی تھی۔ اس غریب نے بڑی منتیں مانیں۔ قبلہ کو شربت میں نقش گھول گھول کر پلائے۔ ان کے تکیے کے نیچے تعویذ رکھے۔ چھپ چھپ کر مزاروں پر چادریں چڑھائیں۔ ہمارے ہاں لوگ جب زندوں سے مایوس ہو جاتے ہیں تو ایک ہی آس باقی رہ جاتی ہے۔

مُردہ از غیب بروں آیدوکارے بکند

پچاس میل کے دائرے میں کوئی مزار ایسا نہ بچا جس کے سرھانے کھڑے ہو کر وہ اس طرح پھوٹ پھوٹ کر نہ روئی ہوں کہ اہلِ قبر کے پسماندگان بھی تدفین کے وقت یوں نہ روئے ہوں گے۔ اس زمانے کے اہلِ القبور، صاحب کرامات ہوں یا نہ ہوں کم از کم قبر کے اندر ضرور ہوتے تھے۔ آج کل جیسا حال نہیں تھا کہ مزار اگر خالی از میت ہے تو غنیمت جانیے، ورنہ اللہ جانے اندر کیا دفن ہے، جس کا اس دھُوم سے عرس شریف منایا جا رہا ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ کراچی کے اخباروں میں ایسے اشتہارات نہ ہوں کہ آج فلاں آستانہ عالیہ پر چادر شریف چڑھائی جا رہی ہے، پانچ بجے گاگر شریف، جلوس کی شکل میں لے جائی جائے گی۔ پھر اس سے مزار شریف کو غسل دیا جائے گا۔ بعد نماز مغرب لنگر شریف تقسیم ہو گا۔ ہم نے بعض نو دریافت بزرگوں کے نو تعمیر مزاروں کے ضمن میں "شریف” پر تاکیداً اتنا زور دیکھا کہ دل میں طرح طرح کے وسوسے اٹھنے لگتے ہیں۔ ہم نہ ضعیف الاعتقاد ہیں، نہ وہابی، لیکن کراچی کے ایک مزار کے بارے میں جو ہمارے سامنے پُر ہوا ہے، ہم بالاعلان یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس سے متعلق ہر چیز شریف ہے، سوائے صاحبِ مزار کے۔

خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا جو روانی میں پھیل کر پورا پیرا بن گیا۔ عرض یہ کرنا تھا کہ قبلہ خود کو کسی زندہ پیر سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ انھیں جب یہ پتہ چلا کہ بیوی اولادِ نرینہ کی منت مانگنے چوری چھپے نا محرموں کے مزاروں پر جانے لگی ہیں۔ تو بہت خفا ہوئے، وہ جب بہت خفا ہوتے تو کھانا چھوڑ دیتے تھے۔ حلوائی کی دکان سے ربڑی، موتی چور کے لڈو اور کچوری لا کر کھا لیتے۔ دوسرے دن بیوی کاسنی رنگ کا دوپٹہ اوڑھ لیتیں اور ان کے پسندیدہ کھانے یعنی دو پیازہ، ڈیوڑھی شکر والا زردہ، بہت تیز مرچوں کے ماش کے دہی بڑے کھِلا کے انھیں منا لیتیں۔ قبلہ انھی مرغوبات پر اپنے ایرانی اور عربی النسل بزرگوں کی نیاز دلواتے۔ البتہ ان کے دہی بڑوں میں مرچیں برائے نام ڈلواتے۔ مزاروں پر حاضری پر قدغن بڑھا۔ بیوی بہت روئیں دھوئیں تو قبلہ کچھ پگھلے۔ مزاروں پر جانے کی اجازت دے دی، مگر اس شرط پر کہ مزار کا مکین "ذات کا کمبوہ نہ ہو۔ کمبوہ مرد اور غزل گو شاعر سے پردہ لازم ہے، خواہ مردہ ہی کیوں نہ ہو۔ میں ان کے رگ و ریشہ سے واقف ہوں۔” ان کے دشمنوں سے روایت ہے کہ قبلہ خود بھی جوانی میں شاعر اور ننھیال کے طرف سے کمبوہ تھے۔ اکثر فرماتے

"مرگِ کمبوہ جشنے دارد۔ ”

 

کٹ کھنے بلاؤ کے گلے میں گھنٹی

 

رفتہ رفتہ بیوی کو صبر آ گیا۔ ایک بیٹی تھی۔ قبلہ کو وہ عزیز سے عزیز تر ہوتی گئی۔ انھیں اس حد تک صبر آ گیا کہ اکثر فرماتے، خدا بڑا رحیم و کریم ہے۔ اس نے بڑا فضل کیا کہ بیٹا نہ دیا۔ اگر مجھ پر پڑتا تو تمام عمر خوار ہوتا۔ اور اگر نہ پڑتا تو نا خلف کو عاق کر دیتا۔

سیانی بیٹی، کتنی بھی چہیتی ہو، ماں باپ کی چھاتی پر پہاڑ ہوتی ہے۔ لڑکی، ضرورتِ رشتہ کی اشتہاری اصطلاحوں کے مطابق، قبول صورت، سلیقہ شعار، خوش اطوار، امورِ خانہ داری سے بخوبی واقف۔ لیکن کس کی شامت آئی تھی کہ قبلہ کی بیٹی کا پیام دے۔ ہمیں آتشِ نمرود میں کودنے کا ذاتی تجربہ تو نہیں، لیکن وثوق سے نہیں کہہ سکتے ہیں کہ آتشِ نمرود میں بے خطر کُودنے سے کہیں زیادہ خطرناک کام نمرود کے شجرہ نسب میں کود پڑنا ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کر چکے ہیں، قبلہ ہمارے دوست بشارت کے پھوپا، چچا اور اللہ جانے کیا کیا لگتے تھے۔ دکان اور مکان دونوں اعتبار سے پڑوسی بھی تھے۔ بشارت کے والد بھی رشتے کے حق میں تھے، لیکن رقعہ بھیجنے سے صاف انکار کر دیا کہ بہو کے بغیر پھر بھی گزارا ہو سکتا ہے، لیکن ناک اور ٹانگ کے بغیر تو شخصیت نا مکمل سی معلوم ہو گی۔ بشارت نے ریل کی پٹڑی سے خود کو بندھوا کر بڑی لائن کے انجن سے اپنی خود کشی کی دھمکی دی۔ رسیوں سے بندھوانے کے بعد شرط خود اس لیے لگا دی کہ عین وقت پر اٹھ کر بھاگ نہ جائیں۔ لیکن ان کے والد نے صاف کہہ دیا کہ اس کٹ کھنے بلاؤ کے گلے میں تمھی گھنٹی ڈالو۔

قبلہ "مدمغ” بد لحاظ، منھ پھٹ مشہور ہی نہیں، تھے بھی۔ وہ دل سے۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ بے دلی سے بھی۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی کی عزت نہیں کرتے تھے۔ دوسرے کو حقیر سمجھنے کا کچھ نہ کچھ جواز ضرور نکال لیتے۔ مثلاً کسی کی عمر اُن سے ایک مہینے بھی کم ہو تو اس کو لونڈا کہتے اور اگر ایک سال زیادہ ہو تو بڑھؤ!

 

ب و س ہ اور چار نقطے

 

بشارت نے ان دنوں بی اے کا امتحان دیا تھا اور پاس ہونے کا امکان، بقول ان کے، ففٹی ففٹی تھا۔ ففٹی ففٹی اتنے زور، فخر اور وثوق سے کہتے تھے گویا اپنی کانٹا تول نصفا نصف نالائقی سے ممتحن کو کڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ فرصت ہی فرصت تھی۔ کیرم اور کوٹ پیس کھیلتے۔ روحوں کو بلاتے اور ان سے ایسے سوالات کرتے کہ زندوں کو حیا آتی۔ کبھی دن بھر بیٹھے نظیر اکبر آبادی کے کلیات میں وہ نقطے والے بلینک پُر کرتے رہتے جو منشی نول کشور پریس نے بہ تقاضائے تہذیب و تعذیراتِ ہند خالی چھوڑ دیے تھے۔ گفتگو میں ہر جملے کے بعد شعر کا ” ٹھیکا ” لگاتے۔ افسانہ نویسی کی مشق و مشقت بھی جاری تھی۔ نیاز فتح پوری کی اطلسی فقرہ طرازی اور ابو الکلام کی جھومتی جھامتی گج گامنی نثر کی چھاپ، ایک انھی پر موقوف نہیں، اچھے اچھوں کی طرز تحریر پر تھی۔ بعض پر ماتھے کے جھومر کے مانند۔ کچھ پر دھوبی کے نشان کی طرح۔ اور کچھ پر اس طرح جیسے انگریز ملآح اپنی محبوباؤں کی تصویریں جسم پر گدوا لیتے ہیں۔ جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی۔ کسی کی محتاجی نہیں۔ اردو نثر اس زمانے میں فیل پا میں مبتلا تھی۔ اس میں کچھ افاقہ ہوا تو معجونِ فلک سیر کھا کر ٹیگوری ادب پاروں کے اُڑن غالیچے پر سوار ہو گئی۔ بشارت کے ایک افسانے کا کلائمکس کچھ اس طرح تھا۔

انجم آرا کی حسن آفرینیوں، سحر انگیزیوں، اور حشر سامانیوں سے مشامِ جان معطّر تھا۔ وہ لغزیدہ لغزیدہ قدموں سے آگے بڑھی اور فرطِ حیا سے اپنی اطلسی بانہوں کو اپنی ہی دُزدیدہ دُزدیدہ آنکھوں پر رکھا۔ سلیم نے انجم آرا کے دستِ حنائی کو اپنے آہنی ہاتھ میں لے کر پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اس کی ہیرا تراش کلائی اور ساقِ بلوریں کو دیکھا اور گلنار سے لبوں پر …. چار نقطے ثبت کر دیے ” اس زمانے میں لفظ "بوسہ” فحش سمجھا جاتا تھا. لہذا اس کی جگہ نقطے لگا دیئے جاتے تھے . بشارت گن کر اتنے ہی نقطے لگاتے جن کی اجازت اس وقت کے حالات، حیا یا ہیروئن نے دی ہو۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ اس زمانے میں انجمنِ ترقیِ اردو کے رسالے میں ایک مضمون چھپا تھا۔ اس میں جہاں جہاں لفظ بوسہ آیا، وہاں وہاں مولوی عبدالحق نے بربنائے تہذیب اس کے ہجے یعنی ب و  س ہ چھاپ کر الٹا اس کی لذت و طوالت میں اضافہ کر دیا۔ یہاں ہمیں ان کا یا اپنی حبیبِ لبیب کی طرز نگارش کا مذاق اڑانا مقصود نہیں۔ ہر زمانے کا اپنا اسلوب اور آہنگ ہوتا ہے۔ لفظ کبھی انگرکھا، کبھی عبا و عمامہ، کبھی ڈنر جیکٹ یا فولس کیپ، کبھی پیر میں پائل یا بیڑی پہنے نظر آتے تھے۔ اور کبھی کوئی مداری اپنی قاموسی ڈگڈگی بجاتا ہے تو لفظوں کے سدھے سدھائے بندر ناچنے لگتے ہیں۔

مولانا ابو الکلام آزاد اپنا سِن پیدائش اس طرح بتاتے ہیں:

"یہ غریب الدّیارِ عہد، نا آشنائے عصر، بیگانہ خویش، نمک پروردہ ریش، خرابہ حسرت کہ موسوم بہ احمد، مد عو بابی الکلام 1888ءمطابق ذوالجحہ 1305 ھ میں ہستیِ عدم سے اس عدمِ ہستی میں وارد ہوا اور تہمتِ حیات سے مہتم۔”

اب لوگ اس طرح نہیں لکھتے۔ اس طرح پیدا بھی نہیں ہوتے۔ اتنی خجالت، طوالت و اذیت تو آج کل سیزیرین پیدائش میں بھی نہیں ہوتی۔

مرزا عبدالودود بیگ نے ایسے pompous style کے لیے سبک ہِندی کی طرز پر ایک نئی اصطلاح وضع کی ہے: طرزِاسطوخودوس۔ اس راقم الحروف کا نوٹ "دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ” کے باب میں ملاحظہ فرمائیے۔ ویسے اس کے لغوی معنی ہیں: نزلے اور پاگل پن کی ایک دوا جسے اطبّا دماغ کی جھاڑو کہتے ہیں۔

 

کوہ آتش فشاں میں چھلانگ

 

بالآخر ایک سہانی صبح بشارت نے بقلم خود رقعہ لکھا اور رجسٹری سے بھجوا دیا، حالانکہ مکتوب الیہ کے مکان کی دیوار ملی ہوئی تھی۔ رقعہ 23 صفحات اور کم و بیش پچاس اشعار پر مشتمل تھا۔ جن میں سے آدھے اپنے اور آدھے عندلیب شادانی کے تھے جن سے قبلہ کے برادرانہ مراسم تھے۔ اس زمانے میں رقعے زعفران سے لکھے جاتے تھے۔ لیکن اس رقعے کے لیے تو زعفران کا ایک کھیت بھی نا کافی ہوتا۔ لہذا صرف القاب و آداب زعفران سے اور بقیہ مضمون سُرخ روشنائی سے زیڈ کے موٹے نِب سے لکھا۔ جن حصوں پر بطور خاص توجہ دلانی مقصود تھی انھیں نیلی روشنائی سے باریک حروف میں لکھا۔ مدّعا اگرچہ گستاخانہ لیکن لہجہ برابر فدویانہ اور مضمون بے حد خوشامدانہ تھا۔ قبلہ کے حسن اخلاق، شفقت، خوش خوئی، خوش معاملگی، صلہ رحمی، نرم گفتاری، مردانہ وجاہت۔۔۔۔۔۔ مختصر یہ کہ ہر اس خوبی کی جی کھول کر تعریف کی جس کا شائبہ تک قبلہ کے کردار میں نہ تھا۔ ساتھ ساتھ قبلہ کے دشمنوں کے نام بنام ڈٹ کر برائی کی۔ ان کی تعداد اتنی تھی کہ 23 صفحات کے کوزے میں بند کر کے کھرل کرنا انھی کا کام تھا۔ بشارت نے جی کڑا کر کے یہ تو لکھ دیا کہ میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن اس وضاحت کی ہمت نہ پڑی کہ کس سے۔ مضمون بے ربط و ژولیدہ سہی لیکن قبلہ اپنے حسنِ سیرت اور دشمنوں کی حرمزدگیوں کے بیان سے بہت خوش ہوئے۔ اس سے پہلے ان کو کسی نے وجیہہ بھی نہیں کہا تھا۔ دو دفعہ پڑھ کر اپنے منشی کو پکڑا دیا کہ تم ہی پڑھ کر بتاؤ صاحب زادے کس سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ اوصاف تو میرے بیان کیے ہیں۔

قبلہ دیر تک اپنے مبینہ اوصاف حمیدہ پر دل ہی دل میں اِترایا کیے۔ گلیشیئر تھا کہ پگھلا جا رہا تھا۔ مسکراتے ہوئے، منشی جی سے گویا ہوئے، بعضے بعضے بے استادے شاعر کے اشعار میں کبھی کبھی الف گرتا ہے۔ اس کے اشعار میں تو الف سے لے کرے تک سارے حروف تہجّی ایک دوسرے پر گرے پڑ رہے ہیں۔ جیسے عید گاہ میں نمازی ایک دوسرے کی کمر پر رکوع و سجود کر رہے ہوں۔

بشارت کی جرات رندانہ کی کہانی جس نے سنی ششدر رہ گیا۔ خیال تھا کہ کوہ آتش فشاں پھٹ پڑے گا۔ قبلہ نے اگر از راہِ ترحم سارے خاندان کو قتل نہیں کیا تو کم از کم ہر ایک ٹانگیں ضرور توڑ دیں گے۔ یہ سب کچھ نہیں ہوا قبلہ نے بشارت کو اپنی غلامی قبول کر لیا۔

 

راون کیوں مارا گیا؟

 

قبلہ کی دکان داری اور اس کی لائی ہوئی آفتوں کی ایک مثال ہو تو بیان کریں۔ کوئی گاہک اشارۃً یا کنایتًہ بھی ان کی کسی بات یا بھاؤ پر شک کرے تو پھر اس کی عزت ہی نہیں، ہاتھ پیر کی بھی خیر نہیں۔ ایک دفعہ عجلت میں تھے۔ لکڑی کی قیمت چھوٹتے ہی دس روپے بتا دی۔ دیہاتی گاہک نے پونے دس لگائے اور یہ گالی دیتے ہوئے مارنے کو دوڑے کہ جٹ گنوار کو اتنی جرات کیسے ہوئی۔ دکان میں ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی پڑی رہتی تھی۔ جس کے بانوں کو چرا چرا کر آرا کھینچنے والے مزدور چلم میں بھر کے سلفے کے دم لگاتے تھے۔ قبلہ جب باقاعدہ مسلح ہو کر حملہ کرنا چاہتے تو اس چارپائی کا سیروا یعنی سرھانے کی پٹّی نکال کر اپنے دشمن یعنی گاہک پر جھپٹتے۔ اکثر سیروے کو پچکارتے ہوئے فرماتے "عجب سخت جان ہے۔ آج تک اس میں فریکچر نہیں ہوا۔ لٹھ رکھنا بزدلوں اور گنواروں کا وتیرہ ہے۔ اور لاٹھی چلانا، قصائی، کنجڑوں، غنڈوں، اور پولیس کا کام ہے۔ ” استعمال کے بعد سیروے کی فرسٹ ایڈ کر کے یعنی انگوچھے سے اچھی طرح جھاڑ پونچھ کر واپس جھلنگے میں لگا دیتے۔ اس طریقہ واردات میں غالباً یہ حکمت عملی پوشیدہ تھی کہ چار پائی تک جانے اور سیروا نکالنے کے وقفے میں اگر غصے کو ٹھنڈا ہونا ہے تو ہو جائے۔ اور اگر ان کے معتوب کی بینائی اور عقل زائل نہیں ہوئی ہے تو وہ اپنی ٹانگوں کے استعمال میں مزید بخل سے کام نہ لے۔ ایک قدیم چینی کہاوت ہے کہ لڑائی جو 370 پینترے داناؤں نے گنوائے ہیں، ان میں جو پینترا سب سے کارآمد بتایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ بھاگ لو! اس کی تصدیق ہندو دیو مالاسے بھی ہوتی ہے۔ راون کے دس سر اور بیس ہاتھ تھے۔ پھر بھی مارا گیا۔ اس کی وجہ ہماری سمجھ میں تو یہی آتی ہے کہ بھاگنے کے لیے صرف دو ٹانگیں تھیں۔ حملہ کرنے سے پہلے قبلہ کچھ دیر خوخیاتے تاکہ مخالف اپنی جان بچانا چاہتا ہے تو بچا لے۔ فرماتے تھے، آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی شخص کی ٹھکائی کرنے سے پہلے میں نے اسے گالی دے کر خبردار نہ کیا ہو۔ کیا شعر ہے وہ بھلا سا؟ ہاں!

پشّہ سے سیکھے شیوہ مردانگی کوئی

جب قصدِ خوں کو آئے تو پہلے پکار دے

انسانی کردار میں مچھر کی صفات پیدا کر کے اتنا فخر کرتے ہم نے انھی کو دیکھا۔ پروفیسر قاضی عبدالقدوس، ایم اے، بی ٹی نے ان کے خیالات سے متاثر ہو کر اپنے دو بقراطی لیکچروں کے مجموعے بعنوان "خطابات چاکسو” کی آؤٹ لائن بنائی۔ "مشرقی شعر و روایت میں پشہ کا مقام: تاریخی تناظر میں معروضی زاویے سے” اور "موازنہ پشہ و شاہین” ہمارے قارئین ماشا اللہ عاقل ہیں۔ اشارے کی بھی ضرورت نہیں کہ میدان کس کے ہاتھ رہا۔

 

ہوں لائق تعزیر، پہ الزام غلط ہے

 

قبلہ کی ہیبت سب کے دلوں پر بیٹھی تھی۔ بجز دائیں جانب والے دکان دار کے۔ وہ قنوج کا رہنے والا، نہایت خود سر، ہتھ چھُٹ، بد معاملہ اور بد زبان آدمی تھا۔ عمر میں قبلہ سے بیس سال کم ہو گا۔ یعنی جوان اور سرکش، چند سال پہلے تک اکھاڑے میں باقاعدہ زور کرتا تھا۔ پہلوان سیٹھ کہلاتا تھا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ ایک گاہک قبلہ کی سرحد میں 4/3 داخل ہو چکا تھا کہ پہلوان سیٹھ اسے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا اپنی دکان میں لے گیا اور قبلہ "مہاراج! مہاراج! ” پکارتے رہ گئے۔ کچھ دیر بعد وہ اس کی دکان میں گھس کر گاہک کو چھڑا کر لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ کہ پہلوان سیٹھ نے ان کو وہ گالی دی جو وہ خود سب کو دیا کرتے تھے۔

پھر کیا تھا قبلہ نے اپنے اسلحہ خانہ خاص یعنی چارپائی سے پٹی نکالی اور ننگے پیر دوڑتے ہوئے اس کی دکان میں دوبارہ داخل ہوئے۔ گاہک نے بیچ بچاؤ کرانے کی کوشش کی اور اولین غفلت میں اپنا دانت تڑوا کر مصالحتی کاروائی سے ریٹائر ہو گیا۔ دریدہ دہن پہلوان سیٹھ دکان چھوڑ کر بگٹٹ بھاگا۔ قبلہ اس کے پیچھے سر پٹ۔ تھوڑی دور جا کر اس کا پاؤں ریل کی پٹڑی میں الجھا اور وہ منھ کے بل گرا قبلہ نے جا لیا۔ پوری طاقت سے ایسا وار کیا کہ پٹّی کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ معلوم نہیں اس سے چوٹ آئی یا ریل کی پٹڑی پر رگڑنے سے۔ وہ دیر تک بے ہوش پڑا رہا۔ اس کے گرد خون کی تلیا سی بن گئی۔

پہلوان سیٹھ کی ٹانگ کے multiple فریکچر میں گنگرین ہو گیا اور ٹانگ کاٹ دی گئی۔ فوجداری مقدمہ بن گیا۔ اس نے پولیس کو خوب پیسا کھلایا اور پولیس نے دیرینہ عداوت کی بنا پر قبلہ کا اقدام قتل میں چالان پیش کر دیا۔ تعزیرات ہند کی اور بہت سی دفعات بھی لگا دیں۔ لمبی چوڑی فردِ جرم سن کر قبلہ فرمانے لگے کہ ٹانگ کا نہیں، تعزیراتِ ہند کا ملٹی پل فریکچر ہوا ہے۔ پولیس گرفتار کر کے لے جانے لگی تو بیوی نے پوچھا "اب کیا ہوئے گا؟ ” کندھے اچکاتے ہوئے بولے "دیکھیں گے ” عدالت مجسٹریٹی میں بیچ بچاؤ کرنے والے گاہک کا دانت اور آلہ قتل یعنی چار پائی مع خون پلائی ہوئی پٹّی کے بطور exhibits پیش ہوئے۔ مقدّمہ سیشن سپرد ہو گیا۔ قبلہ کچھ عرصے ریمانڈ پر جوڈیشنل حوالات میں رہے تھے۔ اب جیل میں باقاعدہ خونیوں، ڈاکوؤں، جیب کتروں اور عادی مجرموں کے ساتھ رہنا پڑا۔ تین چار مچیٹوں کے بعد وہ بھی قبلہ کو اپنا چچا کہنے اور ماننے لگے۔

ان کی طرف سے یعنی بحیثیت وکیل صفائی کانپور کی ایک لائق بیرسٹر مصطفٰے رضا قزلباش نے پیروی کی۔ مگر وکیل اور مؤکل کا کسی ایک نکتے پر بھی اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ مثلاً قبلہ بضد تھے کہ حلف اٹھا کر بیان دوں گا مضروب نے اپنی ولدیت غلط لکھوائی ہے۔ اس کی صورت اپنے باپ سے نہیں، باپ کے ایک اوباش دوست سے ملتی ہے۔ بیرسٹر موصوف یہ موقف اختیار کرنا چاہتے تھے کہ چوٹ ریل کی پٹڑی پر گرنے سے آئی ہے، نہ کہ ملزم کی مبینہ ضرب سے۔ ادھر قبلہ کمرۂ عدالت میں فلمی بیرسٹروں کی طرح طرح ٹہل ٹہل کر اور کٹہرے کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر یہ اعلان کرنا چاہتے تھے کہ میں سپاہی بچّہ ہوں۔ دکان داری میرے لیے کبھی ذریعہ عزت نہیں رہی بلکہ عرصۂ دراز سے ذریعہ آمدنی بھی نہیں رہی۔ ٹانگ پر وار کرنا ہماری شانِ سپہ گری اور شیوہ مردانگی کی توہین ہے۔ میں تو در اصل اس کا سر پاش پاش کرنا چاہتا تھا۔ لہذا اگر مجھے سزا دینی ہی تو ٹانگ توڑنے کی نہیں، غلط نشانے کی دیجئیے:

ہوں لائق تعزیر، پہ الزام غلط ہے۔

 

ایام اسیری اور جوں کا بلڈ ٹیسٹ

 

عدالت میں فوجداری مقدّمہ چل رہا تھا۔ قرائن کہتے تھے کہ سزا ہو جائے گی اور خاصی لمبی۔ گھر میں ہر پیشی کے دن رونا پیٹنا مچتا۔ اعزا اور احباب اپنی جگہ پریشان اور سراسیمہ کہ ذرا سی بات پر یہ نوبت آ گئی۔ پولیس انھیں ہتھکڑی پہنا کر سارے شہر  کا چکر دلا کر عدالت میں پیش کرتی اور پہلوان سیٹھ سے حق الخدمت وصول کرتی۔ بھولی بھالی بیوی کو یقین نہیں آتا تھا۔ ایک ایک سے پوچھتیں "بھیا! کیا سچ مچ کی ہتھکڑی پہنائی تھی؟” عدالت کے اندر اور باہر قبلہ کے تمام دشمنوں یعنی سارے شہر کا ہجوم ہوتا۔ سارے خاندان کی ناک کٹ گئی۔ مگر قبلہ نے کبھی منھ پر تولیا اور ہتھکڑی پر رومال نہیں ڈالا۔ گشت کے دوران مونچھوں پر تاؤ دیتے تو ہتھکڑی جھن جھن جھن جھن کرتی۔ رمضان آیا تو کسی نے مشورہ دیا کہ نماز روزہ شروع کر دیجئے۔ اپنے کان ہی پور کے مولانا حسرت موہانی تو روزے میں چکی بھی پیستے تھے۔ قبلہ نے بڑی حقارت سے جواب دیا "لاحول ولا قوۃ! میں شاعر تھوڑا ہی ہوں۔ یہ نام ہو گا غمِ روزگار سہ نہ سکا”

بیوی نے کئی مرتبہ پچھوایا "اب کیا ہوئے گا”

ہر بار ایک ہی جواب ملا "دیکھ لیں گے۔”

طیش کے عالم میں جو بات منھ سے نکل جائے یا جو حرکت سرزد ہو جائے، اس پر انھیں کبھی نادم ہوتے نہیں دیکھا۔ فرماتے تھے کہ آدمی کے اصل کردار کی جھلک تو طیش کے کوندے میں ہی دکھائی دیتی ہے۔ چنانچہ اپنے کسی کرتوت یعنی اصل کردار پر پشیمان یا پریشان ہونے کو مردوں کی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ ایک دن ان کا بھتیجا شام کو جیل میں کھانا اور جوئیں مارنے کی دوا دے گیا۔ دوا کے اشتہار میں لکھا گیا تھا کہ اس کے ملنے سے جوئیں اندھی ہو جاتی ہیں۔ پھر انھیں آسانی سے پکڑ کر مارا جا سکتا ہے۔ جوں اور لیکھ مارنے کی مروّجہ ترکیب بھی درج تھی۔ یعنی جوں کو بائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر رکھو اور دائیں انگوٹھے کے ناخن سے چٹ سے کچل دو۔ اگر جون کے پیٹ سے کالا یا گہرا عُنابی خون نکلے تو فوراً ہماری دوا "اکسیر جالینوس” مصفّی خون پی کر اپنا خون صاف کیجئے۔ پرچے میں یہ ہدایت بھی تھی کہ دوا کا کورس اس وقت جاری رکھا جائے جب تک جوں کے پیٹ سے صاف شدہ خون نہ نکلنے لگے۔ قبلہ نے جنگلے کے اس طرف اشارے سے بھتیجے کو کہا کہ اپنا کان میرے منھ کے قریب لاؤ۔ پھر اس سے کہا کہ برخوردار! زندگی کا بھروسہ نہیں۔ دنیا، اس جیل سمیت، سرائے فانی ہے۔ غور سے سنو۔ یہ میرا حکم بھی ہے اور وصیت بھی۔ لوہے کی الماری میں دو ہزار روپے آڑے وقت کے لیے ردّی کے اخباروں کے نیچے چھپا آیا تھا۔ یہ رقم نکال کر الّن (شہر کا نامی غنڈہ) کو دے دینا۔ اپنی چچی کو میری طرف سے دلاسا دینا۔ الن کو میری دعا کہنا اور یہ کہنا کہ ان چھؤں کی ایسی ٹھکائی کرے کہ گھر والے صورت نہ پہچان سکیں۔ یہ کہہ کر اخبار کا ایک مسلا ہوا پرزہ بھتیجے کو تھما دیا، جس کے حاشیے پر ان چھ گواہانِ استغاثہ کے نام درج تھے جن کو پٹوانے کا انھوں نے جیل میں اس وقت منصوبہ بنایا تھا جب ایسی ہی حرکت پر انھیں آج کل میں سزا ہونے والی تھی۔

ایک دفعہ اتوار کو ان کا بھتیجا جیل میں ملاقات کے لئے آیا اور بولا کہ جیلر تک بآسانی سفارش پہنچائی جا سکتی ہے۔ اگر آپ کا جی کسی خاص کھانے مثلاً زردہ یا دہی بڑے، شوق کی مثنوی، سگریٹ یا مہوے کے پان کو چاہے تو چوری چھپے ہفتے میں کم از کم ایک بار آسانی سے پہنچایا جا سکتا ہے۔ چچی نے تاکید سے کہا ہے۔ عید نزدیک آ رہی ہے۔ رو رو کر آنکھیں سجا لی ہیں۔

قبلہ نے جیل کے کھدر کے نیکر پر دوڑتا ہوا کھٹمل پکڑتے ہوئے کہا، مجھے قطعی کسی چیز کی حاجت نہیں۔ اگلی دفعہ آؤ تو سراج فوٹو گرافر سے حویلی کا فوٹو کھنچوا کر لانا کئی مہینے ہو گئے دیکھے ہوئے۔ جدھر تمہاری چچی کے کمرے کی چق ہے، اس رخ سے کھینچے تو اچھی آئے گی۔

سنتری نے زمین پر زور سے بوٹ کی تھاپ لگاتے اور تھری ناٹ تھری کی رائفل کا کندہ بجاتے ہوئے ڈپٹ کر کہا ملاقات کا وقت ختم ہو چکا۔ عید کا خیال کر کے بھتیجے کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں اور اس نے نظریں نیچی کر لیں۔ اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ قبلہ نے اس کا کان پکڑا اور کھینچ کر اپنے منھ تک لانے کے بعد کہا، ہاں! ہو سکے تو جلد ایک تیز چاقو کم از کم چھ انچ کے پھل والا، ڈبل روٹی یا عید کی سویوں میں چھپا کر بھجوا دو۔ دوم، بمبئی میں Pentangular شروع ہونے والا ہے۔ کسی ترکیب سے مجھے روزانہ اسکور معلوم ہو جائے تو واللہ! ہر روز عید ہو، ہر شب شبِ برات! خصوصاً  وزیر علی کا اسکور دن کے دن معلوم ہو جائے تو کیا کہنا۔

سزا ہو گئی، ڈیڑھ سال قیدِ با مشقّت۔ فیصلہ سنا۔ سر اٹھا کر اوپر دیکھا۔ گویا آسمان سے پوچھ رہے ہوں "تو دیکھ رہا ہے! کیا ہو رہا ہے؟ ?How’s that” پولیس نے ہتھکڑی ڈالی۔ قبلہ نے کسی قسم کے رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ جیل جاتے وقت بیوی کو کہلا بھیجا کہ آج میرے جدّ اعلیٰ کی روحِ پُر فتوح کتنی مسرور ہو گی۔ کتنی خوش نصیب بی بی ہو تم کہ تمہارا دولھا (جی ہاں! یہی لفظ استعمال کیا تھا) ایک حرامزادے کی ٹھکائی کر کے مردوں کا زیور پہنے جیل، جا رہا ہے۔ لکڑی کی ٹانگ لگوا کر گھر نہیں آ رہا۔ دو رکعت نماز شکرانے کی پڑھنا۔ بھتیجے کو تاکید کی کہ حویلی کی مرمت کراتے رہنا۔ اپنی چچی کا خیال رکھنا۔ ان سے کہنا یہ دن بھی گزر جائیں گے۔ دل بھاری نہ کریں اور جمعے کو کاسنی دوپٹا اوڑھنا نہ چھوڑیں۔

بیوی نے پچھوایا "اب کیا ہوئے گا؟”

جواب ملا، "دیکھا جائے گا۔”

 

ٹارزن کی واپسی

 

دو سال تک دکان میں تالا پڑا رہا۔ لوگوں کا خیال تھا جیل سے چھوٹنے کے بعد چپ چپاتے کہیں اور چلے جائیں گے۔ قبلہ جیل سے چھوٹے۔ ذرا جو بدلے ہوں۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں جوڑ نہیں تھے۔ جاپانی زبان میں کہاوت ہے کہ بندر درخت سے زمین پر گر پڑے، پھر بھی بندر ہی رہتا ہے۔ سو وہ بھی ٹارزن کی طرح! AAuuaauuuu چنگھاڑتے ہوئے جیل سے نکل کر سیدھے اپنے آبائی قبرستان گئے۔ والد کی قبر کی پائینتی کی خاک سر پر ڈالی۔ فاتحہ پڑھی اور کچھ سوچ کر مسکرا دیے۔

دوسرے دن دکان کھولی، کیبن کے باہر ایک بَلی گاڑ کر اس پر ایک لکڑی کی ٹانگ بڑھئی سے بنوا کر لٹکا دی۔ صبح و شام اس کو رَسّی سے کھینچ کر اس طرح چڑھاتے اور اتارتے تھے جس طرح اس زمانے میں چھاؤنیوں میں یونین جیک چڑھایا اتارا جاتا تھا۔ جن نا دہندوں نے دو سال سے رقم دبا رکھی تھی انھیں یاد دہانی کے دھمکی آمیز خطوط لکھے۔ اور اپنے نام کے دستخط کے بعد بریکٹ میں (سزا یافتہ) لکھا۔ جیل جانے سے پہلے خطوط میں خود کو بڑے فخر سے "ننگِ اسلاف” لکھا کرتے تھے۔ کس کی مجال نہ تھی کہ اس سے اتفاق کرے۔ اتفاق تو درکنار، مارے ڈر کے اختلاف بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اب اپنے نام کے ساتھ ننگِ اسلاف کے بجائے "سزایافتہ” اس طرح لکھنے لگے جیسے لوگ ڈگریاں یا خطاب لکھتے ہیں۔ قانون اور جیل سے ان کی جھجھک نکل چکی تھی۔

تو قبلہ جیسے گئے تھے ویسے ہی جیل کاٹ کر واپس آ گئے۔ طنطنے اور آواز کے کڑکے میں ذرا فرق نہ آیا۔ اس اثنا میں اگر زمانہ بدل گیا تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اب ان کی رائے میں قطعیت کے ساتھ فقطیت بھی پیدا ہو گئی۔ ان کا فرمایا ہوا مستند تو پہلے ہی تھا، اب مختمم بھی ہو گیا۔ سیاہ مخمل کی رام پوری ٹوپی اور زیادہ تِرچھی ہو گئی۔ یعنی اتنی جھکا کر ٹیڑھی اوڑھنے لگے کہ دائیں آنکھ ٹھیک سے نہیں کھول سکتے تھے۔ اب کبھی بیوی گھبرا کے ” اب کیا ہوئے گا؟ ” کہتیں تو وہ "دیکھتے ہیں” کے بجائے "دیکھ لیں گے” اور "دیکھتی جاؤ” کہنے لگے۔ رہائی کے دن قریب آئے تو داڑھی کے علاقے کے بال بھی گپھے دار مونچھوں میں شامل کر لیے جو اَب اتی گھنی ہو گئی تھیں کہ ایک ہاتھ سے پکڑ کر اٹھاتے، تب کہیں دوسرے ہاتھ سے لقمہ رکھ پاتے تھے۔ جیل ان کا کچھ بگاڑ نہ سکی۔ فرماتے تھے "یہیں تیسرے بیرک میں ایک منشی فاضل پاس جعلیا ہے۔ فصاحت یار خان۔ بن اور دھوکہ دہی میں تین سال کی کاٹ رہا ہے۔ با مشقت۔ پہلے شعلہ اب حزیں تخلص کرتا ہے۔ بلا کا بسیار گو۔ چکی پیسنے میں اپنی ہی تازہ غزل گاتا رہتا ہے۔ موٹا پیستا ہے اور پٹتا ہے۔ اب یہ کوئی شاعری تو ہے نہیں۔ تس پر خود کو غالب سے کم نہیں سمجھتا۔ حالاں کہ مماثلت صرف اتنی ہے کہ دونوں نے جیل کی ہوا کھائی۔ خود کو روہیلہ بتاتا ہے۔ ہو گا۔ لگتا نہیں۔ قیدیوں سے بھی منھ چھپائے پھرتا ہے۔ اپنے بیٹے کو ہدایت کر رکھی ہے کہ میرے بارے میں کوئی پوچھے تو کہہ دینا والد صاحب عارضی طور پر نقل مکانی کر گئے ہیں۔ جیل کو کبھی جیل نہیں کہتا۔ زنداں کہتا ہے۔ اور خود کو قیدی کے بجائے اسیر! ارے صاحب! غنیمت ہے کہ جیلر کو عزیزِ مصر نہیں کہتا۔ اسے تو چکی کو آسیا کہنے میں بھی عار نہ ہوتی، مگر میں تو جانوں پاٹ کی عربی معلوم نہیں۔ شاید وہ سمجھتا ہے استفراغ اور اسہال کہنے سے قے دست تو بند نہیں ہوتے، بو جاتی رہتی ہے۔ کس واسطے کہ اس کے باپ کا انتقال ہیضے میں ہوا تھا۔ ارے صاحب! میں یہاں کسی کی جیب کاٹ کر تھوڑا ہی آیا ہوں۔ شیر کو پنجرے میں بند کر دو، تب بھی شیر ہی رہتا ہے۔ گیڈر کو کچھار میں آزاد چھوڑ دو، اور زیادہ گیڈر ہو جائے گا۔ اب ہم ایسے بھی گئے گزرے نہیں کہ جیل کا گھٹنا ( گھٹنوں تک نیکر) پہنتے ہی طبیعت میں سوز و گداز پیدا ہو جائے۔” بلکہ ہمیں تو قبلہ کی باتوں سے ایسا لگتا تھا کہ پھٹا ہوا کپڑا پہننے اور جیل میں قیام فرمانے کو سنتِ یوسفی سمجھتے ہیں۔ ان کی مزاج میں جو ٹیڑھ تھی وہ کچھ اور بڑھ گئی۔ کوے پر کتنے ہی صدمے گزر جائیں، کتنا ہی بوڑھا ہو جائے، اس کے پر و بال کالے ہی رہتے ہیں۔ اکل کھُرّے، کھُرّے، کھُردرے کھَرے یا کھوٹے، وہ جیسے کچھ بھی تھے، ان کا ظاہر و باطن ایک تھا۔

تن اُجرا ( اُجلا) من گادلا (گدلا) بگلا جیسے بھیس

ایسے سے کاگا بھلے، باہر بھیتر ایک

فرماتے تھے، الحمد اللہ میں منافق، ریاکار نہیں۔ میں نے گناہ کو ہمیشہ گناہ سمجھ کر کیا۔

دکان دو سال سے بند پڑی تھی۔ چھوٹ کر گھر آئے تو بیوی نے پوچھا:

"اب کیا ہوئے گا؟”

"بیوی، ذرا تم دیکھتی جاؤ۔”

 

لب معشوق

 

اب کے دکان چلی اور ایسی چلی کہ اوروں ہی کو نہیں خود انھیں بھی حیرت ہوئی۔ دکان کے باہر اسی شکار گاہ یعنی کیبن میں اسی ٹھّسے سے گاؤ تکیے کی ٹیک لگا کر بیٹھتے۔ مگر زاویہ پسر گیا تھا۔ پیروں کا رخ اب فرش کی بہ نسبت آسمان کی طرف زیادہ تھا۔ جیل میں سکونت پذیر ہونے سے پہلے قبلہ گاہک کو ہاتھ کے ملتجیانہ اشارے سے بلایا کرتے تھے۔ اب صرف انگشتِ شہادت کے خفیف سے اشارے سے طلب کرنے لگے۔ انگلی کو اس طرح حرکت دیتے جیسے ڈانواں ڈول پتنگ کو ٹھمکی دے کر اس کا قبلہ درست کر رہے ہوں۔ حقّے کی نَے میں اب ایک فٹ کا اضافہ کر لیا۔ حقّہ اب پیتے کم، گڑگڑاتے زیادہ تھے۔ بدبو دار دھوئیں کا چھلا اس طرح چھوڑتے کہ گاہک کی ناک میں نتھ کی طرح لٹک جائے۔ اکثر فرماتے واجد علی شاہ، جانِ عالم پیا نے، جو خوب صورت نام رکھنے میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے، حقّے کا کیسا پیارا نام رکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لبِ معشوق۔ جو شخص کبھی حقّے کے پاس سے بھی گزرا ہو وہ بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ جانِ عالم پیا کا پالا کیسے لبوں سے پڑا ہو گا۔ چنانچہ معزولی کے بعد وہ فقط حقّہ اپنے ہمراہ مٹیا برج لے گئے۔ پری خانے کے تمام معشوق لکھنؤ میں ہی چھوڑ گئے، اس لیے کہ معشوق کو نیچہ پکڑ کے گڑگڑایا نہیں جا سکتا۔

 

بلی پہ لٹکا دوں گا

 

منشی دیا نرائن نگم کے رسالے "زمانہ” کے کاتب سے عرفی کا مشہور شعر احاطے کی دیوار پر ڈامر سے لکھوا دیا:

عرفی تو میندیش زغوغائے رقیباں

آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا

ہمیں اس شعر سے نسلی عصبیت اور جانب دار کی بو آتی ہے۔ کتّے اگر شعر کہہ سکتے تو دوسرا مصرع کچھ یوں ہوتا:

آوازِ گدا کم نہ کند رزقِ سگاں را

کچھ دن بعد ان کا لنگڑا دشمن یعنی پہلوان سیٹھ دکان بڑھا کر کہیں اور چلا گیا۔ قبلہ بات بے بات ہر ایک کو دھمکی دینے لگے کہ سالے کو بَلی پر لٹکا دوں گا۔ ہیبت کا یہ عالم کہ اشارہ تو بہت بعد کی بات ہے، قبلہ جس گاہک کی طرف نظر اٹھا کر بھی دیکھ لیں، اسے کوئی دوسرا نہیں بلاتا تھا۔ اگر وہ از خود کسی دوسری دکان میں چلا جاتا تو دکان دار اسے لکڑی نہیں دکھاتا تھا۔ ایک دفعہ ایسا بھی ہوا کہ سڑک پر یوں ہی کوئی راہ گیر منھ اٹھائے جا رہا تھا کہ قبلہ نے اسے انگلی سے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ جس دکان کے سامنے سے وہ گزر رہا تھا اس کا مالک اور منیم اسے گھسیٹتے ہوئے قبلہ کی دکان میں اندر دھکیل گئے۔ اس نے قبلہ سے روہانسا ہو کر کہا میں تو مول گنج پتنگوں کے پیج دیکھنے جا رہا تھا!

 

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ شجر تو نہیں

 

پھر یکایک ان کا کاروبار ٹھپ ہو گیا۔ وہ کٹّر مسلم لیگی تھے۔ اس کا اثر ان کی بزنس پر پڑا۔ پھر پاکستان بن گیا۔ انھوں نے اپنے نعرے کو حقیقت بنتے دیکھا۔ اور دونوں کی پوری قیمت ادا کی۔ گاہکوں نے آنکھیں پھر لیں۔ لکڑ منڈی کے چو ہے شیر ہو گئے۔ عزیز و اقارب جن سے وہ تمام عمر لڑتے جھگڑتے اور نفرت کرتے رہے، ایک ایک کر کے پاکستان چلے گئے تو ایک جھٹکے کے ساتھ یہ انکشاف ہوا کہ وہ ان نفرتوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ اور جب اکلوتی بیٹی اور داماد بھی اپنی دکان بیچ کھوچ کے کراچی سدھارے تو انھوں نے بھی اپنے خیمے کی طنابیں کاٹ ڈالیں۔ دکان اونے پونے ایک دلال کے ہاتھ بیچی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ "بے نامی” سودا ہے۔ دلال کی آڑ میں دکان در اصل اسی لنگڑے پہلوان سیٹھ نے خرید کر ان کی ناک کاٹی ہے۔ خفیف سا شبہ تو قبلہ کو بھی ہوا تھا، مگر "اپنی بلا سے بُوم بسے یا ہُما رہے” والی صورتِ حال تھی۔ ایک ہی جھٹکے میں پیڑھیوں کے رشتے ناتے ٹوٹ گئے اور قبلہ نے پُرکھوں کی جنم بھوم چھوڑ کر ان کے خوابوں کی سر زمین کا رُخ کیا۔

ساری عمر شیش محل میں اپنی مور پنکھ اَنا کا ناچ دیکھتے دیکھتے، قبلہ ہجرت کر کے کراچی آئے تو نہ صرف زمین اجنبی لگی، بلکہ اپنے پیروں پر نظر پڑی تو وہ بھی کسی اور کے لگے۔ کھولنے کو تو لی مارکیٹ میں ہرچند رائے روڈ پر لشتم پشتم دکان کھول لی، مگر بات نہیں بنی۔ گجراتی میں مثل ہے کہ پرانے مٹکے پر نیا منھ نہیں چڑھایا جا سکتا۔ آنے کو تو وہ ایک نئی سرسبز زمین میں آ گئے، مگر ان کی بوڑھی آنکھیں پلکھن کو ڈھونڈھتی رہیں۔ پلکھن تو درکنار، انھیں تو کراچی میں نیم تک نظر نہ آیا۔ لوگ جیسے نیم بتاتے تھے، وہ در اصل بکائن تھی جس کی ‘نبولی‘ کو لکھنؤ میں حکیم صاحب عالم، پیچش اور بواسیر کے نسخوں میں لکھا کرتے تھے۔

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ شجر تو نہیں

کہاں کانپور کے دیہاتی گاہک، کہاں کراچی کے نخریل ساگوان خریدنے والے۔ در حقیقت انھیں جس بات سے سب سے زیادہ تکلیف ہوئی وہ یہ تھی کہ یہاں اپنے قرب و جوار میں، یعنی اپنے سایۂ زحمت میں ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آیا جسے وہ بے وجہ و بے خطر گالی دے سکیں۔ ایک دن کہنے لگے "یہاں تو بڑھئی آری کا کام زبان سے لیتا ہے۔ چار پانچ دن ہوئے ایک دریدہ دہن بڑھئی آیا، اقبال مسیح نام تھا۔ میں نے کہا، ابے! پرے ہٹ کر کھڑا ہو۔ کہنے لگا: حضرت عیسیٰ بھی تو ترکھان تھے۔ میں نے کہا، کیا کفر بکتا ہے؟ ابھی بَلی پہ لٹکا دوں گا۔ کہنے لگا، اوہ لوک وی ایہی کہندے ساں! (وہ لوگ بھی حضرت عیسیٰ سے یہی کہتے تھے! )

 

میر تقی میر کراچی میں

 

پہلی نظر میں انھوں نے کراچی کو اور کراچی نے ان کو مسترد کر دیا۔ اٹھتے بیٹھتے کراچی میں کیڑے ڈالتے۔ شکایت کا انداز کچھ ایسا ہوتا تھا:

"حضت! یہ مچھر ہیں یا مگر مچھر؟ کراچی کا مچھر ڈی ڈی ٹی سے بھی نہیں مرتا۔ صرف قوالوں کی تالیوں سے مرتا ہے۔ یا غلطی سے کسی شاعر کو کاٹ لے تو باؤلا ہو کر بے اولادا مرتا ہے۔ نمرود مردود کی موت ناک میں مچھرگھسنے سے واقع ہوئی تھی۔ کراچی کے مچھروں کا شجرۂ نسب کئی نمرودوں کے واسطے سے اسی مچھر سے جا ملتا ہے۔ اور ذرا زبان تو ملاحظہ فرمائیے، میں نے پہلی بار ایک صاحب کو پٹّے والے کو پُکارتے سنا تو میں سمجھا اپنے کتے کو بلا رہے ہیں۔ معلوم ہوا یہاں چپراسی کو پٹے والا کہتے ہیں۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ پھڈا اور لفڑا ہوتا رہتا ہے۔ ٹوکو تو کہتے ہیں، اردو میں اس صورتحال کے لئے کوئی لفظ نہیں ہے۔ بھائی میرے! اردو میں یہ صورتحال بھی تو نہیں ہے۔ بمبئی والے لفظ اور صورتِ حال دونوں اپنے ساتھ لائے ہیں۔ میر تقی میر اونٹ گاڑی میں منھ باندھے بیٹھے رہے۔ اپنے ہم سفر سے اس لیے بات نہ کی کہ "زبانِ غیر سے اپنی زباں بگڑتی ہے”۔ میر صاحب کراچی میں ہوتے تو بخدا ساری عمر منھ پر ڈھاٹا باندھے پھرتے، یہاں تک کہ ڈاکوؤں کا سا بھیس بنائے پھرنے پر کسی ڈکیتی میں دھر لیے جاتے۔ اماں! ٹونک والوں کو امرود کو صفری کہتے تو ہم نے بھی سنا تھا۔ یہاں امرود کو جام کہتے ہیں۔ اور اس پر نمک مرچ کے بجائے ‘صاحب‘ لگا دیں تو مُراد نواب صاحب لسبیلہ ہوتے ہیں۔ اپنی طرف وکٹوریہ کا مطلب ملکہ ٹوریہ ہوتا تھا۔ یہاں کسی ترکیب سے دس بارہ جنے ایک گھوڑے پرسواری گانٹھ لیں تواسے وکٹوریہ کہتے ہیں۔ میں دو دن لاہور رکا تھا۔ وہاں دیکھا کہ جس بازار میں کوئلوں سے منھ کالا کیا جاتا ہے، وہ ہیرا منڈی کہلاتی ہے! اب یہاں نیا فیشن چل پڑا ہے۔ گانے والے کو گلو کار اور لکھنے والے کو قلم کار کہنے لگے ہیں۔ میاں! ہمارے وقتوں میں تو صرف نیکو کار اور بد کار ہوا کرتے تھے۔ قلم اور گلے سے یہ کام نہیں لیا جاتا تھا۔

"میں نے لالو کھیت، بہار کالونی، چاکی واڑہ اور گولیمار کا چپہ چپہ دیکھا ہے۔ چودہ پندرہ لاکھ آدمی (اخبار والے اب آدمی کہنے سے شرماتے ہیں۔ افراد اور نفوس کہتے ہیں) ضرور رہتے ہوں گے، لیکن کہیں کتابوں اور عطریات کی دکان نہ دیکھی، کاغذ تک کے پھول نظر نہ آئے، کانپور میں ہم جیسے شرفا کے گھروں میں کہیں نہ کہیں موتیا کی بیل ضرور چڑھی ہوتی تھی، حضور والا! یہاں موتیا صرف آنکھوں میں اترتا ہے! حد ہو گئی، کراچی میں لکھ پتی، کروڑ پتی سیٹھ لکڑی اس طرح نپواتا ہے گویا کم خواب کا پارچہ خرید رہا ہے۔ لکڑی دن میں دو فٹ بکتی ہے اور برادہ خریدنے والے پچاس! میں نے برسوں اپلوں پر پکایا ہوا کھانا بھی کھایا ہے۔ لیکن برادے کی انگیٹھی پر جو کھانا پکے گا وہ صرف دو زخمی مُردوں کے چالیسویں کے لیے مناسب ہے۔

"بھر پائے ایسے بزنس سے! مانا کہ روپیہ بہت کچھ ہوتا ہے، مگر سبھی کچھ تو نہیں، زر کو حاجت روا کرنے والا، قاضی الحاجات کہا گیا ہے۔ تسلیم۔ مگر جب یہ خود سب سے بڑی حاجت بن جائے تو وہ صرف موت سے رفع ہو گی، میں نے تو زندگی میں ایسی کانی کھتری لکڑی نہیں بچی، نہ فروختنی، نہ سوختنی۔ بڑھئی کی یہ مجال چھاتی پہ چڑھ کر کمیشن مانگے۔ نہ دو تو مال کو گندے انڈے کی طرح قیامت تک سیتے رہو۔ ہائے نہ ہوا کانپور بسولے سے سالے کی ناک اتار کر ہتھیلی پر رکھ دیتا کہ جا اپنی جروا کو دین مہر میں دے دینا! واللہ! یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔، سنتا ہوں کہ یہاں کے بازار حسن نیپئیر روڈ اور جاپانی روڈ پر شب زادیاں اپنے اپنے درشن دریچوں میں لال بتیاں جلتے ہی خنجراب چھاتیوں کے خوانچے لگا کر بیٹھ جاتی ہیں۔ فلموں میں بھی اشرف المعلقات ہی کی نمائش ہوتی ہے، یہ تو وہ ہی مثل ہے کہ اوچھے کے گھر تیتر، باہر باندھوں کہ بھیتر۔ جمہوریہ اسلامیہ کی سرکار بے سروکار کچھ نہیں کہتی۔ لیکن کسی طوائف کو شادی بیاہ میں مجرے کیلے بلانا ہو تو پہلے اس کی اطلاع تھانہ متعلقّہ کو دینی پڑتی ہے! رنڈی کو پرمٹ راشن کارڈ پہ ملتے ہم نے یہیں دیکھا، نقد عیش عند الطلب نہ ملا تو کس کام کا، درشنی منڈیوں میں درشنی ہنڈیوں کا کیا کام۔ ”

مرزا عبد الودود بیگ اس صورت حال کی کچھ اور ہی تاویل کرتے تھے، فرماتے ہیں کہ طوائف کو تھانے سے NOC (نو آبجکشن سرٹیفکٹ) اس لیے لینا پڑتا ہے کہ پولیس پوری طرح اطمینان کر لے کہ وہ اپنے دھندے پرہی جا رہی ہے۔ وعظ سننے یا سیاست میں حصہ لینے نہیں جا رہی ہے۔ ایک دن قبلہ فرمانے لگے "ابھی کچھ دن ہوئے کراچی کی ایک نامی گرامی طوائف کا گانا سننے کا اتفاق ہوا۔ اماں! اس کا تلفظ تو چال چلن سے بھی زیادہ خراب نکلا۔ ہائے ایک زمانہ تھا، کہ شرفا اپنے بچوں کو ادب آداب سیکھنے کے لیے چوک کی طوائفوں کے کوٹھے پر بھیجتے تھے۔”

اس باب میں بھی مرزا سوء ظن سے کام لیتے ہیں، فرماتے ہیں کہ طوائفوں کے کوٹھوں پر تو اس لیے بھیجتے تھے، کہ بزرگوں کی صحبت اور گھر کے ماحول سے بچے رہیں۔

 

دوڑتا ہوا درخت

 

کراچی شہر انھیں کسی طور پر اور کسی طرف سے اچھا نہیں لگا۔ جھنجھلا کر بار بار کہتے "اماں! یہ شہر ہے یا جہنم؟ ” مرزا کسی دانا کے قول میں تصرفِ بے جا کر کے فرماتے ہیں کہ قبلہ اس دار المحن سے کوچ فرمانے کے بعد اگر خدانخواستہ وہیں پہنچ گئے جس سے کراچی کو تشبیہ دیا کرتے تھے تو چاروں طرف نظر دوڑانے کے بعد یہی ارشاد ہو گا کہ ہم نے تو سوچا تھا، کراچی چھوٹا سا جہنم ہے۔ جہنم تو بڑا سا کراچی نکلا!

ایک دفعہ ان کے ایک بے تکلّف دوست نے ان سے کہا کہ "تمھیں معاشرے میں خرابیاں ہی خرابیاں نظر آتی ہیں تو بیٹھے بیٹھے ان پر کڑھنے کے بجائے ان کی اصلاح کی فکر کرو۔”

ارشاد فرمایا "سنو! میں نے ایک زمانے میں پی ڈبلیو ڈی کے کام بھی کیے ہیں مگر دوزخ کی ایئر کنڈیشنگ کا ٹھیکا نہیں لے سکتا۔”

بات صرف اتنی تھی کہ اپنی چھاپ، تلک اور چھپ چھنوانے سے پہلے وہ جس آئینہ میں خود کو دیکھ دیکھ کر ساری عمر اترایا کیے، اس میں جب نئی دنیا اور نئے وطن کو دیکھا تو وہ امتدادِ زمانہ سے distorting mirror بن چکا تھا، جس میں ہر شکل اپنا ہی منھ چڑاتی نظر آتی تھی۔

ان کے کاروباری حالات تیزی سے بگڑ رہے تھے۔ بزنس نہ ہونے کے برابر تھی۔ ان کی دکان کی دیوار پر ایک تازہ وصلی آویزاں دیکھ کر ہمیں بڑا دکھ ہوا:

نہ پوچھ حال مرا، چوب خشک صحرا ہوں

لگا کے آگ جسے کارواں روانہ ہوا

ہم نے ان کا دل بڑھانے کیلے کہا کہ، آپ کو چوبِ خشک کون کہہ سکتا ہے؟ آپ کی جواں ہمتی اور مستعدی پر ہمیں تو رشک آتا ہے۔ خلاف معمول مسکرائے۔ جب سے ڈینچرز ٹوٹے، منھ پہ رو مال رکھ کر ہنسنے لگے تھے۔ کہنے لگے "ہاں میاں! آپ جوان آدمی ہیں۔ اپنا تو یہ احوال ہوا کہ

"منفعل” ہو گئے قویٰ غالب

اب عناصر میں "ابتذال” کہاں

پھر منھ سے رومال ہٹاتے ہوئے کہا "برخوردار! میں وہ درخت ہوں جو ٹرین میں جاتے ہوئے مسافروں کو دوڑتا ہوا نظر آتا ہے۔”

 

میرے ہی من کا مجھ پر دھاوا

 

یوں وہ حتی الامکان اپنے غصے کو کم نہیں ہونے دیتے تھے۔ کہتے تھے، میں ایسی جگہ ایک منٹ بھی نہیں رہنا چاہتا جہاں آدمی کسی پر غصہ ہی نہ ہو سکے۔ اور جب انھیں ایسی ہی جگہ رہنا پڑا تو وہ زندگی میں پہلی بار اپنے آپ سے روٹھے۔ اب وہ آپ ہی آپ کڑھتے، اندر ہی اندر کھولتے، جلتے، سلگتے رہتے:

میرے ہی من کا مجھ پر دھاوا

میں ہی اگنی میں ہی ایندھن

انھی کا قول ہے کہ یاد رکھو، غصہ جتنا کم ہو گا، اس کی جگہ اداسی لیتی چلی جائے گی۔ اور یہ بڑی بزدلی کی بات ہے۔ بزدلی کے ایسے ہی اداس لمحوں میں اب انھیں اپنا آبائی گاؤں جہاں بچپن گزرا تھا، بے تحاشا یاد آنے لگتا۔ واماندگیِ زیست نے ماضی میں اپنی پناہیں تراش لیں۔ گویا البم کھل گیا۔ دھندلاتے سیپیا رنگ کی تصویریں چشمِ تصّور کے سامنے بکھرتی چلی جاتیں۔ ہر تصویر کے ساتھ زمانے کا ورق الٹتا چلا گیا۔ ہر اسنیپ شاٹ کی اپنی ایک کہانی تھی: دھوپ میں ابرق کے ذروں سے جلتی کچی سڑک پر گھوڑوں کے پسینے کی نر مہکار۔ بھیڑ کے نوزائیدہ بچے کو گلے میں مفلر کی طرح ڈالے شام کو خوش خوش لوٹتے کسان۔ چلمنوں کے پیچھے ہار سنگھار کے پھولوں سے رنگے ہوئے دوپٹے۔ ارہر کے ہرے بھرے کھیت میں پگڈنڈی کی مانگ۔ خشک سالی میں ساون کے تھوتھے بادلوں کو رہ رہ کر تکتی نراس آنکھیں۔ جاڑے کی اجاڑ راتوں میں ٹھٹھرتے گیدڑوں کی منحوس آوازیں۔ چراغ جلے باڑے میں لوٹتی گایوں کے گلے میں بجتی ہوئی گھنٹیاں۔ کالی بھنور رات میں چوپال کی جلتی بجھتی گشتی چلم پر طویل سے طویل تر ہوتے ہوئے کش۔ موتیا کے گجروں کی لپٹ کے ساتھ کنوارے پنڈے کی بگولا مہکار۔ ڈوبتے سورج کی زرد روشنی میں تازہ قبر پر جلتی اگر بتی کا بل کھاتا ہوا دھواں۔ دہکتی بالو میں تڑختے چنوں کی سوندھی لپٹ سے پھڑ کتے ہوئے نتھنے۔ میونسپلٹی کی مٹی کے تیل کی لالٹین کا بھبھکا۔ یہ تھی ان کے گاؤں کی ست سگند۔ یہ ان کے اپنے نافہ ماضی کی مہکار تھی جو یادوں کے دشت میں دِوانی پھرتی تھی۔

 

اولتی کی ٹپاٹپ

 

ستر سالہ بچے کے ذہن میں تصویریں گڈمڈ ہونے لگتیں۔ خوشبوئیں، نرماہٹیں اور آوازیں بھی تصویر بن بن کر ابھرتیں۔ اسے اپنے گاؤں میں مینہ برسنے کی ایک ایک آواز الگ سنائی دیتی۔ ٹین کی چھت پر تڑ تڑ بجتے ہوئے تاشے۔ سوکھے پتوں پر کراری بوندوں کا شور۔ پکے فرش پر جہاں اُنگل بھر پانی کھڑا ہو جاتا، وہاں موٹی بوند گرتی تو ایک موتیوں کا تاج سا ہوا میں اچھل پڑتا۔ تپتی کھپریلوں پر اڑتی بدلی کے جھالے کی سنسنا ہٹ۔ گرمی دانوں سے اُپڑے بالک بدن پر برکھا کی پہلی پھوار، جیسے کسی نے منتھول میں نہلا دیا۔ جوان بیٹے کی قبر پر پہلی بارش اور ماں کا ننگے سر آنگن میں آ آ کر آسمان کی طرف دیکھنا۔ پھبک اٹھنے کے لیے تیار مٹّی پر ٹوٹ کے برسنے والے بادلوں کی ہراول گرم لپٹ۔ ڈھولک پر ساون کے گیت کی تال پر بجتی چوڑیاں اور بے تال قہقہے۔ سوکھے تالاب کے پیندے کی چکنی مٹّی میں ‌‌پڑی ہوئی دڑاڑوں کے لوزاتی جال میں ترسا ترسا کر برسنے والی بارش کے سرسراتے ریلے۔ تھونی سے لٹکی ہوئی لالٹین کے سامنے، تا حدِ روشنی، موتیوں کی رِم جھم جھالر، ہمک ہمک کر پرائے آنگن میں گرتے پر نالے۔ آموں کے پتوں پر مجیرے بجاتی نرسل بوچھار۔ اور جھولوں پر پینگیں لیتی دوشیزائیں۔

اور پھر رات کے سناٹے میں، پانی تھمنے کے بعد سوتے جاگتے میں اولتی کی ٹپاٹپ! اولتی کی ٹپاٹپ تک پہنچتے پہنچتے قبلہ کی آنکھیں جل تھل ہو جاتیں۔ بارش تو ہم انھیں اپنے لاہور اور نتھیا گلی کی ایسی دکھا سکتے تھے کہ عمرِ رفتہ کی ساری ٹپاٹپ بھول جاتے۔ پر اولتی کہاں سے لاتے؟ اسی طرح آم تو ہم ملتان کا ایک سے ایک پیش کر سکتے تھے، دسہری، لنگڑا، ثمر بہشت، انور رٹول۔ لیکن ہمارے پنجاب میں تو ایسے درخت نا پید ہیں جن میں آموں کے بجائے دوشیزائیں لٹکی ہوئی ہوں۔

چنانچہ ایسے نازک موقعوں پر ہم خاموش، ہمہ تن گوش، بلکہ خرگوش بنے اولتی کی ٹپاٹپ سنتے رہتے۔

 

قبلہ کا ریڈیو اونچا سنتا تھا

 

دریا کے بہاؤ کے خلاف تیرنے میں تو خیر کوئی نقصان نہیں۔ ہمارا مطلب ہے کہ دریا کا نقصان نہیں۔ لیکن قبلہ تو سینکڑوں فٹ کی بلندی سے گرتے ہوئے آبشار نیاگرا پر تیر کر چڑھنا چاہتے تھے، یا یوں کہیے کہ تمام عمر نیچے جانے والی ایس کے لیٹر سے اوپر چڑھنے کی کوشش کرتے رہے اور ایس کے لیڑ بنانے والے کو گالیاں دیتے رہے۔ ایک دن کہنے لگے "مشتاق میاں! یہ تمہارا کراچی بھی عجب مردم ناشناس شہر ہے۔ نہ خریداری کی تمیز، نہ خوردی کے آداب، نہ کسی کی بزرگی کا لحاظ ملاحظہ، میں جس زمانے میں بشارت میاں کے ساتھ بہار کالونی میں رہتا تھا، ایک بیٹری سے چلنے والا ریڈیو خرید لیا تھا۔ (اس زمانے میں ٹارچ بیٹری کے بجائے کار بیٹری لگانی پڑتی تھی اور اُسے روزانہ چارج کرنا پڑتا تھا۔ بہار کالونی میں، جہاں وہ رہتے تھے، اس زمانے میں بجلی نہیں آئی تھی۔) اس زمانے میں ریڈیو میں کار کی بیٹری لگوانی پڑتی تھی۔ بہار کالونی میں بجلی نہیں تھی۔ اس کا رکھنا اور چلانا ایک درد سر تھا۔ بشارت میاں روزانہ بیٹری اپنی کارخانے میں لے جاتے اور چارج ہونے کے لئے آرا مشین میں لگا دیتے۔ سات آٹھ گھنٹے میں اتنی چارج ہو جاتی تھی کہ بس ایک آدھ گھنٹے بی بی سی سن لیتا تھا۔ اس کے بعد ریڈیو سے آرا مشین کی آوازیں آنا شروع ہو جاتیں اور میں اُٹھ کر چلا آتا۔ گھر کے پچھواڑے ایک پچیس فٹ اونچی نہایت قیمتی، بے گانٹھ بلی گاڑ کر ایریل لگا رکھا تھا۔ اس کے باوجود وہ ریڈیو اونچا سنتا تھا۔ آئے دن پتنگ اڑانے والے لونڈے میرے ایریل سے پیچ لڑاتے۔ مطلب یہ کہ اس میں پتنگ الجھا کر زور آزمائی کرتے۔ ڈور ٹوٹ جاتی، ایریل خراب ہو جاتا۔ ارے صاحب ایریل کیا تھا، پتنگوں کا فضائی قبرستان تھا، اس پر یہ کٹی پتنگیں چوبیس گھنٹے اس طرح پھڑ پھڑاتی رہتیں، جیسے سڑک کے کنارے کسی نو فوتیدہ پیر کے مزار پر جھنڈیاں۔ پچیس فٹ کی اونچائی پر چڑھ کر ایریل دوبارہ لگانا۔ نہ پوچھیے کیسا عذاب تھا۔ بس یوں سمجھئیے سُولی پہ لٹک کے بی بی سی سنتا تھا۔ بہر حال جب برنس روڈ کے فلیٹ میں منتقل ہونے لگا تو سوچا، وہاں تو بجلی ہے چلو ریڈیو بیچتے چلیں۔ بشارت میاں بھی عاجز آ گئے تھے۔ کہتے تھے، اس سے تو پتنگوں کی پھڑپھڑاہٹ براڈ کاسٹ ہوتی رہتی ہے۔ ایک دور کے پڑوسی سے 250 روپے میں سودا پکّا ہو گیا۔ علی الصبح وہ نقد رقم لے آیا اور میں نے ریڈیو اس کے حوالے کر دیا۔ رات کو گیارہ بجے پھاٹک بند کرنے باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں وہ شخص اور اس کے بیل جیسی گردن والے دو بیٹے کدال پھاؤڑا لیے مزے سے ایریل کی بلی کو اکھاڑ رہے ہیں۔ میں ڈپٹ کر پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے؟ سینہ زوری دیکھیے! کہتے ہیں، بڑے میاں بَلی اکھاڑ رہے ہیں۔ ہماری ہے۔

"ڈھائی سو روپے میں ریڈیو بیچا ہے۔ بَلی سے کیا تعلق”

” تعلق نہیں تو ہمارے ساتھ چلو اور ذرا بَلی کے بغیر بجا کے دکھا دو۔ یہ تو اس کی accessory ہے۔ ”

"نہ ہوا کانپور۔ سالے کی زبان گدی سے کھینچ لیتا اور ان حرامی پلّوں کی بیل جیسی گردن ایک ہی وار میں بھٹا سی اڑا دیتا۔ میں نے تو زندگی میں ایسا بد معاملہ، بے ایمان آدمی نہیں دیکھا۔ اس اثنا میں وہ نابکار بَلی اکھاڑ کے زمین پر لٹال چکا تھا۔ ایک دفعہ جی میں تو آیا کہ اندر جا کر 12 بور لے آؤں اور اسے بھی بَلی کے برابر لمبا لٹال دوں۔ پھر خیال آیا کہ بندوق کا لائنسس تو ختم ہو چکا ہے۔ اس کی بے قصور بیوی رانڈ ہو جائے گی۔ وہ زیادہ قانون چھانٹنے لگا تو میں نے کہا، "جا، جا! تو کیا سمجھتا ہے؟ بَلی کی حقیقت کیا ہے۔ یہ دیکھ یہ چھوڑ کے آئے ہیں۔” قبلہ حویلی کی تصویر دکھاتے ہی رہ گئے اور وہ تینوں بَلی اٹھا کر لے گئے۔

 

معذور بیوی اور گشتی چلم

 

ان کی زندگی کا ایک پہلو ایسا تھا جس کا کسی نے ان کو اشارتاً بھی ذکر کرتے نہیں سنا۔ ہم اس کی طرف ابتدائی حصّے میں اشارہ کر چکے ہیں۔ ان کی شادی بڑے چاؤ چونچلے سے ہوئی تھی۔ بیوی بہت خوب صورت، نیک طینت اور سلیقہ شعار خاتون تھیں۔ شادی کے چند سال بعد ایک مرض لاحق ہوا کہ پہنچوں تک دونوں ہاتھوں سے معذور ہو گئیں۔ قریبی اعزہ بھی ملنے سے گریز کرنے لگے۔ روز مرہ کی ملاقاتیں، شادی غمی میں شرکت، سبھی سلسلے رفتہ رفتہ منقطع ہو گئے۔ گھر کا سارا کام نوکر اور مامائیں تو نہیں کر سکتیں۔ قبلہ نے جس محبت اور دل سوزی سے تمام عمر بے عذر خدمت اور دیکھ ریکھ کی، اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کی چوٹی بے گندھی اور دوپٹہ بے چنا ہو، یا جمعے کو کاسنی رنگ کا نہ ہو۔ وقت نے سر پر کانسی دوپٹے کے نیچے روئی کے گالے جما دیے، مگر ان کی توجہ اور پیار میں جو ذرا فرق آیا ہو۔ یقین نہیں آتا تھا، کہ ایثار و رفاقت کا یہ پیکر وہی مغلوب الغضب آدمی ہے جو گھر کے باہر ایک چلتی ہوئی تلوار ہے۔ زندگی بھر کا ساتھ ہو تو صبر اور سجھاؤ کی آزمائش کے ہزار مرحلے آتے ہیں۔ مگر انھوں نے اس معذور بی بی سے کبھی اونچی آواز میں بھی بات نہیں کی۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ ان کی جھلاہٹ اور غیظ و غضب کی ابتدا اسی سانحہ معذوری سے ہوئی۔ وہ بی بی تو مصلے پر ایسی بیٹھیں کہ دنیا ہی میں جنت مل گئی۔ قبلہ کو نماز پڑھتے کسی نے نہیں دیکھا۔ لیکن زندگی بھر جیسی سچی محبت اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر جیسی بے عذر اور خاموش خدمت انھوں نے چالیس برس تک کی، وہی ان کی عبادت و ریاضت، وہ ہی ان کا ورد وظیفہ اور وہ ہی ان کی دعائے نیم شبی تھی۔ وہ بڑا بخشن ہار ہے۔ شاید یہی ان کا وسیلہ بخشائش بن جائے۔

ایک دَور ایسا بھی آیا کہ بیوی سے ان کی یہ حالت نہ دیکھی گئی۔ خود کہا کسی رانڈ، بیوہ سے شادی کر لو۔ بولے، ہاں! بھاگوان! کریں گے۔ کہیں دو گز زمین کا ایک ٹکڑا ہے جو نہ جانے کب سے ہماری بارات کی راہ دیکھ رہا ہے۔ وہیں چار کاندھوں پہ ڈولا اترے گا۔ بیوی! مٹّی سدا سُہاگن ہے۔ سو جائیں گے اک روز زمیں اوڑھ کے ہم بھی۔

بیوی کی آنکھ میں آنسو دیکھتے تو بات کا رُخ پھیر دیا۔ وہ اپنی ساری "امیجری” لکڑی، حقے اور تمباکو سے کشید کرتے تھے۔ بولے، بیوی! یہ رانڈ بیوہ کی قید تم نے کیاسوچ کر لگائی؟ مانا شیخ سعدی کہہ گئے ہیں، زن بیوہ مکن اگرچہ حور است۔ مگر تم نے شاید وہ پوربی مثل نہیں سنی: پہلے پیوے بھکوا۔ پھر پیوے تمکوا۔ پیچھے پیوے حلیم چاٹ۔ یعنی جو شخص پہلے حقہ پیتا ہے وہ بدھو ہے کہ در اصل وہ تو چلم سلگانے اور تاؤ پر لانے میں ہی جٹا رہتا ہے۔ تمباکو کا اصل مزہ تو دوسرے شخص کے حصّے میں آتا ہے۔ اور جو آخر میں پیتا ہے وہ جلے ہوئے تمباکو سے خالی بھک بھک کرتا ہے۔

 

جدھر جائیں دہکتے جائیں

 

کراچی میں دکان تو پھر بھی تھوڑی بہت چلی، مگر قبلہ بالکل نہیں چلے۔ زمانے کے تغیر اور گردش پر کس کا زور چلا ہے جو اُن کا چلتا۔ حوادث کو روکا نہیں جا سکتا۔ ہاں تہذیبِ حواس سے حوادث کا زور توڑا جا سکتا ہے۔ شخصیت میں پیچ پڑ جائیں تو دوسروں کے علاوہ خود کو بھی تکلیف دیتے ہیں۔ لیکن جب وہ نکلنے لگیں تو اور زیادہ اذیت ہوتی ہے۔ کراچی ہجرت کرنے کے بعد اکثر فرماتے کہ ڈیڑھ سال جیل میں رہ کر جو تبدیلی مجھ میں نہ آئی وہ یہاں ایک ہفتے میں آ گئی۔ یہاں تو بزنس کرنا ایسا ہے جیسے سنگھاڑے کے تالاب میں تیرنا۔ کانپور ہی کے چھٹے ہوئے چھا کٹے یہاں شیر بنے دندناتے پھرتے ہیں۔ اور اچھے اچھے شرفا ہیں کہ گیدڑ کی طرح دُم کٹوا کے بھٹ میں جا بیٹھے۔ ایسا بجوگ پڑا کہ

خود بخود "بل” میں ہے ہر شخص سمایا جاتا

جو دانا ہیں وہ اپنی دُمیں چھپائے بلوں میں گھسے بیٹھے ہیں۔ باہر نکلنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ اس پر مرزا نے ہمارے کان میں کہا

انیس "دُم” کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ

ایک دوست نے اپنی آبرو جوکھم میں ڈال کر قبلہ سے کہا کہ گزرا ہوا زمانہ لوٹ کر نہیں آ سکتا۔ حالات بدل گئے۔ آپ بھی خود کو بدل لیجئے۔ مسکرائے۔ فرمایا، خربوزہ خود کو گول کر لے تب بھی تربوز نہیں بن سکتا۔

بات در اصل یہ تھی کہ زمانے کا رُخ پہچاننے کی صلاحیت، حلم و بُرد باری، نرمی اور لچک نہ ان کی سرشت میں تھی اور نہ زمیں دارانہ ماحول اور معاشرے میں ان کا شمار خوبیوں میں ہوتا تھا۔ سختی، خورائی، تمکنت، خشونت اور جلالی مزاج عیب نہیں، بلکہ فیوڈل کردار کی راستی اور مضبوطی کی دلیل تصّور کیے جاتے تھے۔ اور زمیں دار تو ایک طرف رہے، اس زمانے کے علما تک ان اوصاف پر فخر کرتے تھے:

ہم نہ نکہت ہیں، نہ گل ہیں، جو مہکتے جاویں

آگ کی طرح جدھر جاویں دہکتے جاویں

قبلہ کے حالات تیزی سے بگڑنے لگے تو ان کے بہی خواہ میاں انعام الٰہی نے جو اپنی خوردی کے با وصف ان کے مزاج اور معاملات میں درخور رکھتے تھے، عرض کیا دکان ختم کر کے ایک بس خرید لیجیے۔ گھر بیٹھے آمدنی کا وسیلہ ہے۔ رُوٹ پرمٹ میرا ذمّہ۔ آج کل اس دھندے میں بڑی چاندی ہے۔ یک بارگی جلال آ گیا۔ فرمایا، چاندی تو طبلہ سارنگی بجانے میں بھی ہے۔ ایک وضع داری کی ریت بزرگوں سے چلی آ رہی ہے، جس کا تقاضا ہے کہ خراب و خوار ہی ہونا ہی مقّدر میں لکھا ہے تو اپنے آبائی اور آزمودہ طریقے سے ہوں گے۔ بندہ ایسی چاندی پر لات مارتا ہے۔

چرخ اب ہمیں جو دے ہے، نہیں لیتے ہم

کونین بھی گو دے ہے، نہیں لیتے ہم

ہم لیتے ہیں جس ڈھب سے، نہیں دیتا وہ

جس ڈھب سے کہ وہ دے ہے، نہیں لیتے ہم

 

آخری گالی

 

کاروبار مندا بلکہ بالکل ٹھنڈا۔ طبعیت زنگ رنگ۔ بے دلی کے عالم میں دن گزر رہے تھے۔ دکان داری اب ان کی مالی نہیں، نفسیاتی ضرورت تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ دکان بند کر دی تو گھر میں پڑے کیا کریں گے۔ پھر ایک دن یہ ہوا کہ ان کا نیا پٹھان ملازم زرین گل خان کئی گھنٹے دیر سے آیا۔ ہر چند غصّے کو پینے کی کوشش کرتے، لیکن پرانی عادت کہیں جاتی ہے۔ چند ماہ قبل انھوں نے ایک ساٹھ سالہ منشی آدھی تنخواہ پر رکھا تھا جو گیروے رنگ کا ڈھیلا ڈھالا جبّہ پہنے، ننگے پیر زمین پر آلتی پالتی مارے حساب کتاب کرتا تھا۔ کرسی یا کسی بھی اونچی چیز پر بیٹھنا اس کے مسلک میں منع تھا۔ وارثی سلسلے سے کسی بزرگ سے بیعت تھا۔ فرض شناس، ایمان دار، پابندِ صوم صلٰوۃ، زود رنج، کام میں چوپٹ۔ قبلہ نے طیش میں آ کر ایک دن اسے حرام خور کہہ دیا۔ سفید داڑھی کا لحاظ بھی نہ کیا۔ اس نے رسان سے کہا "حضور کے ہاں جو شے وافر ملتی ہے وہ ہی تو فقیر کھائے گا۔ سلام علیکم۔” یہ جا وہ جا دوسرے دن سے منشی جی نے آنا اور قبلہ نے حرام خور کہنا چھوڑ دیا۔ لیکن حرام خور کے علاوہ اور بھی تو دل دکھانے والے بہتیرے لفظ ہیں۔ زرین گل خان کو سخت سست کہتے کہتے ان کے منھ سے روانی اور سرگرانی میں وہی گالی نکل گئی جو اچھے دنوں میں ان کا تکیہ کلام ہوا کرتی تھی۔ گالی کی بھیانک گونج درۂ آدم خیل کے پہاڑوں تک ٹھنٹھناتی پہنچی جہاں زرین گل کی بیوہ ماں رہتی تھی۔ وہ چھ سال کا تھا جب ماں نے بیوگی کی چادر اوڑھی تھی۔ بارہ سال کا ہوا تو اس نے وعدہ کیا کہ ماں میں اور بڑا ہو جاؤں تو کراچی میں نوکری کر کے تجھے پہلی تنخواہ سے بغیر پیوند کی چادر بھیجوں گا۔ اسے آج تک کسی نے یہ گالی نہیں دی تھی۔ جوان خون، غصیلا مزاج۔ پٹھان کی غیرت اور پختو کا سوال تھا۔ زریں گل نے ان کی ترچھی ٹوپی اتار کر پھینک دی اور چاقو تان کر کھڑا ہو گیا۔ کہنے لگا "بڈھے! میرے سامنے سے ہٹ جا، نہیں تو ابھی تیرا پیٹ پھاڑ کر کلیجا کچا چبا جاؤں گا۔ تیرا پلید مُردہ بَلی پہ لٹکا دوں گا۔ ” ایک گاہک نے بڑھ کر چاقو چھینا۔ بڈھے نے جھک کے زمین سے اپنی مخملی ٹوپی اٹھائی اور جھاڑے بغیر سر پر رکھ لی۔

 

کون کیسے ٹوٹتا ہے

 

دس پندرہ منٹ بعد وہ دکان میں تالا ڈال کر گھر چلے آئے اور بیوی سے کہہ دیا، اب ہم دکان نہیں جائیں گے۔ کچھ دیر بعد محلّے کی مسجد سے عشاء کی اذان کی آواز بلند ہوئی۔ اور وہ دوسرے ہی اللہ اکبر پر وضو کر کے کوئی چالیس سال بعد نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو بیوی دھک سے رہ گئیں کہ خیر تو ہے۔ وہ خود بھی دھک سے رہ گئے۔ اس لیے کہ انھیں دو سورتوں کے علاوہ کچھ بھی یاد نہیں رہا تھا۔ وتر بھی ادھورے چھوڑ کر سلام پھیر لیا کہ یہ تک یاد نہیں آ رہا تھا کہ دعائے قنوت کے ابتدائی الفاظ کیا ہیں۔

وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ آدمی اندر سے ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ اور یوں ٹوٹتا ہے! اور جب ٹوٹتا ہے تو اپنوں بیگانوں سے، حد یہ کہ اپنے سب سے بڑے دشمن سے بھی صلح کر لیتا ہے۔ یعنی اپنے آپ سے۔ اسی منزل پر بصیرتوں کا نزول ہوتا ہے۔ دانش و بینش کے باب کھلتے ہیں:

چشم ہو تو آئنہ خانہ ہے دہر

منھ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ

ایسے بھی محتاط لوگ ہیں جو پیکار و فشارِ زیست سے بچنے کی خاطر خود کو بے عملی کے حصارِ عافیت میں قید رکھتے ہیں۔ یہ بھاری و قیمتی پردوں کی طرح لٹکے لٹکے ہی لیر لیر ہو جاتے ہیں۔ کچھ گم صم گمبھیر لوگ اس دیوار کی مانند تڑختے ہیں جس کی مہین سی دراڑ جو عمدہ پینٹ یا کسی آرائشی تصویر سے با آسانی چھپ جاتی ہے، اس بات کی غمّازی کرتی ہے کہ نیو اندر ہی اندر کسی صدمے سے زمین میں دھنس رہی ہے۔ بعض لوگ چینی کے برتن کی طرح ٹوٹتے ہیں، کہ مسالے سے آسانی سے جڑ تو جاتے ہیں مگر وہ بال اور جوڑ پہلے نظر آتا ہے، برتن بعد میں۔ اس کے برعکس کچھ ڈھیٹ اور چپکو لوگ ایسے اٹوٹ مادّے کے بنے ہوتے ہیں کہ چیونگ گم کی طرح کتنا ہی چباؤ ٹوٹنے کا نام نہیں لیتے۔

کھینچنے سے کھنچتے ہیں، چھوڑے سے جاتے ہیں سکڑ

آپ انھیں حقارت سے تھوک دیں تو جوتے سے اس بری طرح چپکتے ہیں کہ چھٹائے سے نہیں چھوٹتے۔ رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ اس سے تو دانتوں تلے ہی بھلے تھے کہ پپول تو لیتے تھے۔ یہ چیونگ گم لوگ خود آدمی نہیں، پر آدم شناس ہیں۔ یہ کامیاب و کامران کامگار لوگ ہیں۔ یہ وہ ہیں جنھوں نے انسانوں کو دیکھا، پرکھا اور برتا ہے اور جب اسے کھوٹا پایا تو خود بھی کھوٹے ہو گئے۔ وقت کی اٹھتی موج نے اپنے حباب کا تاج ان کے سر پہ رکھا اور ساعت گزران نے اپنے تختِ رواں پہ بٹھایا۔

اور کچھ ایسے بھی ہیں کہ کار کے ونڈ اسکرین کی مانند ہوتے ہیں۔ ثابت و سالم ہیں تو سینہ عارف کی طرح شفاف کہ دو عالم کا نظارہ کر لو۔ اور یکایک ٹوٹے تو ایسے ٹوٹے کہ نہ بال پڑا، نہ دَرکے نہ تڑخے۔ یکبارگی ایسے ریزہ ریزہ ہوئے کہ نہ عارف رہا، نہ دو عالم کی جلوہ گری، نہ آئینے کا پتا کہ کہاں تھا، کدھر گیا۔

نہ حذر رہا نہ خطر رہا، جو رہی سو بے خبری رہی۔

اور ایک انا ہے کہ یوں ٹوٹتی ہے جیسے جابر سلطانوں کا اقبال یا حضرت سلیمان کا عصا جس کی ٹیک لگائے وہ کھڑے تھے کہ روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ لیکن ان کا قالب بے جان ایک مدت تک اسی طرح استادہ رہا اور کسی کو شبہ تک نہ گزرا کہ وہ رحلت فرما چکے ہیں۔ وہ اسی طرح بے روح کھڑے رہے اور ان کے اقبال اور رعب و دبدبے سے کاروبارِ سلطنت حسبِ معمولِ سابق چلتا رہا۔ ادھر عصا کو دھیرے دھیرے گھن اندر سے کھاتا رہا، یہاں تک کہ ایک دن وہ چٹاخ سے ٹوٹ گیا اور حضرت سلیمان کا جسدِ خاکی فرشِ زمین پر آ رہا۔ اس وقت ان کی امّت اور رعیّت پر کھلا کہ وہ دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں۔

سو وہ دیمک زدہ عصائے پندار و جلال جس کے بَل قبلہ نے بے غِلّ و غش زندگی گزاری آج شام ٹوٹ گیا اور زیست کرنے کا وہ طنطنہ اور ہمہمہ سرنِگوں ہوا۔

 

 میں پاپن ایسی جلی کوئلہ بھئی نہ راکھ

 

انھیں اس رات نیند نہیں آئی۔ فجر کی اذان ہو رہی تھی کہ کہ ٹمبر مارکیٹ کا ایک چوکیدار ہانپتا کانپتا آیا اور خبر دی کہ "صاحب جی! آپ کی دکان اور گودام میں آگ لگ گئی ہے۔ آگ بجھانے کے انجن تین بجے ہی آ گئے تھے۔ سارا مال کوئلہ ہو گیا۔ صاحب جی! آگ کوئی آپ ہی آپ تھوڑی لگتی ہے۔” وہ جس وقت دکان پہنچے تو سرکاری اصطلاح میں آگ پر قابو پایا  جا چکا تھا، فائر بریگیڈ کی مستعدی اور کار کردگی کے علاوہ اس کو بھی بڑا دخل تھا کہ اب جلنے کے لئے کچھ رہا نہیں تھا۔ شعلوں کی لپلپاتی دو شاخہ زبانیں کالی ہو چلی تھیں۔ البتہ چیڑ کے تختے ابھی تک دھڑ دھڑ جل رہے تھے۔ اور فضا دور دور تک ان کی تیز خوشبو کے آتشیں آبشار میں نہائی ہوئی تھی۔ مال جتنا تھا سب جل کر راکھ ہو چکا تھا۔ صرف کونے میں ان کا چھوٹا سا دفتر بچا تھا۔ عرصہ ہوا، کانپور میں جب لالہ رمیش چندر نے ان سے کہا تھا حالات ٹھیک نہیں ہیں، گودام کی انشورنس پالیسی لے لو، تو انھوں نے ململ کے کرتے کی چنی ہوئی آستین الٹ کر اپنے بازو کی پھڑکتی ہوئی مچھلیاں دکھاتے ہوئے کہا تھا "یہ رہی یاروں کی انشورنس پالیسی!” پھر اپنے ڈنڑ پھلا کر لالہ رمیش چندر سے کہا "ذرا چھو کر دیکھو۔” لالہ جی نے اچنبھے سے کہا "لوہا ہے! لوہا!” بولے "نہیں۔ فولاد کہو۔”

دکان کے سامنے خلقت کے ٹھٹ لگے تھے۔ ان کو لوگوں نے اس طرح راستہ دیا جیسے جنازے کو دیتے ہیں۔ ان کا چہرہ جذبات سے عاری تھا۔ نہ لبِ بے سوال پر کوئی لرزش۔ انھوں نے اپنے دفتر کا تالا کھولا۔ انکم ٹیکس کے حسابات اور گوشوارے بغل میں مارے اور گودام کے مغربی حصّے میں جہاں چیڑ سے ابھی شعلے اور خوشبوؤں کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں، تیز تیز قدموں سے گئے۔ پہلے انکم ٹیکس کے کھاتے اور ان کے بعد چابیوں کا گچھا نذرِ آتش کیا۔ پھر آہستہ آہستہ، دائیں بائیں نظر اٹھائے بغیر، دوبارہ اپنے دفتر میں داخل ہوئے۔ حویلی کا فوٹو دیوار سے اتارا۔ رومال سے پونچھ کر بغل میں دبایا اور دکان جلتی چھوڑ کر چلے آئے۔

بیوی نے پوچھا "اب کیا ہوئے گا؟”

انھوں نے سرجھکا لیا۔

اکثر خیال آتا ہے، اگر فرشتے انھیں جنت کی طرف لے گئے جہاں موتیا دھوپ ہو گی اور کاسنی بادل، تو وہ بابِ بہشت پر کچھ سوچ کر ٹھٹک جائیں گے۔ رضوان جلد اندر داخل ہونے کا اشارہ کرے گا تو سینہ تانے اس کے قریب جا کر کچھ دکھاتے ہوئے کہیں گے:

"یہ چھوڑ کر آئے ہیں۔ ”

٭٭٭

ٹائپنگ: رضوان نور، شمشاد خان، محب علوی

ماخذ: اردو ویب ڈاٹ آرگ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

حوالے

[1] گڑے یا مٹی کے برتن میں پکا ہوا سوندھا سالن، چنیوٹ کی خاص ڈش

[2] پھاڑے ہوئے دودھ کا عرق جو ضعفِ معدہ کے مریضوں کو دیا جاتا تھا۔ غالب سے بعید نہیں کہ اسے شراب کے ۔۔۔۔۔ مصلح کے طور پر پیتے ہوں۔

[3] مطلب یہ کہ میں ملکوں ملکوں شیروں شیروں گھوما لیکن یہ تیرے لطف اور حسن کا فیضان ہے کہ میں نے کچھ نہیں دیکھا

[4] کلاؤن یا مسخرے کی ٹوپی

[5] اور یہ کہ وہی ہنستاتا ہے اور وہی رلاتا ہے۔ قرآن مجید۔ ۲۷ قال فماخطبکم۔ النجم ۵۳

[6] میرے ہاتھ سے ساز لے لو کہ میرا کام تمام ہو چکا۔ میرا نغمہ خون ہو کر ساز کے تاروں سے بہہ نکلا ہے۔

[7] مسخاکے (مسخ خاکے)