FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

حصہ نثر

 

 

 

فروغ اردو کاؤنسل  کی اردو کی نصابی کتاب

 

 

 

 

غالب کے لطیفے

 

                (اسد اللہ خان غالب )

 

مکان کے جس کمرے میں مرزا دِن بھر بیٹھتے اُٹھتے تھے وہ مکان کے دروازے کی چھت پر تھا اور اس کے ایک جانب ایک کوٹھری تنگ و تاریک تھی جس کا در اس قدر چھوٹا تھا کہ کوٹھری میں بہت جھک کر جانا پڑتا تھا اور مرزا اکثر گرمی اور لو کے موسم میں دس بجے سے تین چار بجے تک وہاں بیٹھتے تھے۔ ایک دن جب کہ رمضان کا مہینہ اور گرمی کا موسم تھا مولانا آزردہ ٹھیک دوپہر کے وقت مرزاسے ملنے کو چلے آئے۔ اس وقت مرزا صاحب اسی کوٹھری میں کسی دوست کے ساتھ چوسریا شطرنج کھیل رہے تھے۔ مولانا بھی وہیں پہنچے اور مرزا کو رمضان کے مہینے میں چوسر کھیلتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگے کہ ہم نے حدیث میں پڑھا تھا کہ رمضان کے مہینے میں شیطان مقید رہتا ہے مگر آج اس حدیث کی صحت میں تردّد پیدا ہو گیا۔ مرزا نے کہا ’’قبلہ حدیث بالکل صحیح ہے مگر آپ کو معلوم رہے کہ وہ جگہ جہاں شیطان مقید رہتا ہے وہ یہی کوٹھری تو ہے۔ ‘‘

الغرض مرزا کی کوئی بات لطف و ظرافت سے خالی نہ ہوتی تھی۔ اگر کوئی ان کے تمام ملفوظات جمع کرتا تو ایک ضخیم کتاب لطائف کی تیار ہو جاتی۔ اس کے باوجود کہ مرزا کی آمدنی بہت کم تھی وہ خود داری و حفظ وضع کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ شہر کے امرا و عمائد سے برابر کی ملاقات تھی۔ ایک روز دوپہر کا کھانا آیا اور دستر خوان بچھا۔ برتن تو بہت سے تھے مگر کھانا نہایت قلیل تھا۔ مرزا نے مسکرا کر کہا۔ اگر برتنوں کی کثرت پر خیال کیجیے گا تو میرا دستر خوان یزید کا دسترخوان معلوم ہوتا ہے اور جو کھانے کی مقدار کو دیکھیے تو بایزید کا۔ فواکہ میں آم ان کو بہت مرغوب تھا۔ آموں کی فصل میں ان کے دوست دور دور سے ان کے لیے عمدہ عمدہ آم بھیجتے تھے اور وہ خود اپنے بعض دوستوں سے تقاضا کر کے آم منگواتے تھے۔ ایک روز مرحوم بہادر شاہ ظفر آموں کے موسم میں چند مصاحبوں کے ساتھ جن میں مرزا بھی تھے باغِ حیات بخش یا مہتاب باغ میں ٹہل رہے تھے۔ آم کے پیڑ رنگ برنگ کے آموں سے لد رہے تھے۔ یہاں کا آم بادشاہ یا سلاطین یا بیگمات کے سوا کسی کو میّسر نہیں آسکتا تھا۔ مرزا بار بار آموں کی طرف غور سے دیکھتے تھے۔ بادشاہ نے پوچھا ’’مرزا اس قدر غور سے کیا دیکھتے ہو؟ ‘‘ مرزا نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا۔ ’’پیرو مرشد یہ جو کسی بزرگ نے کہا ؎ برسرِ ہردانہ بنوشتہ عیاں کایں فلاں ابن فلاں ابن فلاں اس کو دیکھتا ہوں کہ کسی دانے پر میرا اور میرے باپ دادا کا نام بھی لکھا ہے یا نہیں۔ ‘‘ بادشاہ مسکرائے اور اسی روز ایک بہنگی عمدہ عمدہ آموں کی مرزا کو بھجوائی۔ حکیم رضی الدین جو مرزا کے نہایت دوست تھے ان کو آم نہیں بھاتے تھے۔ ایک دِن وہ مرزا کے مکان پر برآمدے میں بیٹھے تھے اور مرزا بھی وہیں موجود تھے۔ ایک گدھے والا اپنے گدھے لیے ہوئے گلی سے گزرا۔ آم کے چھلکے پڑے تھے۔ گدھے نے سونگھ کر چھوڑ دیا۔ حکیم صاحب نے کہا۔ ’’دیکھئے آم ایسی چیز ہے جسے گدھا بھی نہیں کھاتا۔‘‘ مرزا نے کہا۔ ’’بے شک گدھا نہیں کھاتا۔‘‘

مرزا کی نیت آموں سے کسی طرح سیر نہ ہوتی تھی۔ اہلِ شہر تحفہ بھیجتے تھے۔ خود بازار سے منگواتے تھے۔ باہر سے دور دور کا آم بطور سوغات کے آتا تھا مگر حضرت کا جی نہیں بھرتا تھا۔ نواب مصطفی خاں مرحوم ناقل تھے کہ ایک صحبت میں مولانا فضل حق اور مرزا اور دیگر احباب جمع تھے اور آم کی نسبت ہر شخص اپنی رائے بیان کر رہا تھا کہ اس میں کیا کیا خوبیاں ہونی چاہئیں۔ جب سب لوگ اپنی اپنی کہہ چکے تو مولانا فضل حق نے مرزا سے کہا کہ تم بھی اپنی رائے بیان کرو۔مرزا صاحب نے کہا ’’ بھئی میرے نزدیک تو آم میں صرف دو باتیں ہونا چاہئیں میٹھا ہو اور بہت ہو۔ ‘‘ سب حاضرین ہنس پڑے۔

مرزا کو مدّت سے رات کو سوتے وقت پینے کی عادت تھی۔ جو مقدار انھوں نے مقرر کر لی تھی اس سے زیادہ کبھی نہیں پیتے تھے۔ جس بکس میں بوتلیں رہتی تھیں اس کی کنجی داروغہ کے پاس رہتی تھی اور اس کو سخت تاکید تھی کہ اگر رات کو سرخوشی کے عالم میں مجھ کو زیادہ پینے کا خیال پیدا ہو توہر گز میرا کہنا نہ ماننا اور کنجی مجھ کو نہ دینا۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ وہ رات کو کنجی طلب کرتے اور نشے کی حالت میں داروغہ کو بہت برا بھلا کہتے تھے مگر داروغہ نہایت خیر خواہ تھا ہر گز کنجی نہ دیتا تھا۔ اوّل تو وہ مقدار میں بہت کم پیتے تھے دوسرے اس میں دو تین حِصہ گلاب ملا لیتے تھے جس سے اس کی حدّت اور تیزی کم ہو جاتی تھی مگر باوجود اس قدر احتیاط اور اعتدال کے اس کافر نشے کی عادت نے آخر مرزا کی صحت کو سخت صدمہ پہنچایا، جس کی شکایت سے ان کے تمام اردو رقعات بھرے ہوئے ہیں۔

مرزا کے خاص خاص شاگرد اور دوست جن سے نہایت بے تکلّفی تھی اکثر شام کو ان کے پاس جاکر بیٹھتے تھے اور مرزا سرور کے عالم میں اس وقت بہت پر لطف باتیں کیا کرتے تھے۔ ایک روز میر مہدی مجروح بیٹھے تھے اور مرزا پلنگ پر پڑے ہوئے کراہ رہے تھے۔ میر مہدی پاؤں دابنے لگے۔ مرزا نے کہا : ’’ بھئی تو سیّد زادہ ہے، مجھے کیوں گنہگار کرتا ہے ‘‘۔انھوں نے نہ مانا اور کہا ’’ آپ کو ایسا ہی خیال ہے تو پیر دابنے کی اُجرت دے دیجیے گا۔ ‘‘ مرزا نے کہا ’’ ہاں اس میں مضائقہ نہیں۔‘‘ جب پیر داب چکے تو اُجرت طلب کی۔ مرزا نے کہا ’’بھیّا کیسی اُجرت ؟ تم نے میرے پاؤں دابے،میں نے تمھارے پیسے دابے۔ حساب برابر ہوا۔‘‘

ایک دن قبل غروب آفتاب کے مرزا صاحب شام کا کھانا کھا رہے تھے اور کھانے میں صرف شامی کباب تھے۔ میں بھی وہاں موجود تھا اور ان کے سامنے بیٹھا رومال سے مکھیاں جھل رہا تھا۔ مرزا نے کہا آپ ناحق تکلیف کرتے ہیں۔ میں ان کبابوں میں سے آپ کو کچھ نہ دوں گا۔ پھر آپ ہی یہ حکایت بیان کی کہ نواب عبدالاحد خاں کے دسترخوان پر ان کے مصاحبوں اور عزیزوں اور دوستوں کے لیے ہر قسم کے کھانے چنے جاتے تھے مگر ان کے لیے ہمیشہ ایک چیز تیار ہوتی تھی، وہ اس کے سوا اور کچھ نہ کھاتے تھے۔ ایک روز ان کے لیے مز عفر پکا تھا، وہی ان کے سامنے لگایا گیا۔ مصاحبوں میں ایک ڈوم بہت منھ لگا ہوا تھا، جو اس وقت دسترخوان پر موجود تھا۔ نواب نے اس کو کھانا دینے کے لیے خالی رکابی طلب کی۔ اس کے آنے میں دیر ہوئی۔ نواب کھانا کھائے جاتے تھے اور خالی رکابی بار بار مانگتے تھے۔ وہ مصاحب نواب کے آگے رومال ہلانے لگا اور کہا۔’’ حضور اور رکابی کیا کیجیے گا۔ اب یہ خالی ہوئی جاتی ہے‘‘۔ نواب یہ فقرہ سن کر پھڑک گئے اور وہی رکابی اس کی طرف سرکادی۔ ایک دفعہ رات کو پلنگ پر لیٹے ہوئے آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ تاروں کی ظاہری بے نظمی اور انتشار دیکھ کر بولے۔ ’’جو کام خودرائی سے کیا جاتا ہے اکثر بے ڈھنگا ہوتا ہے‘‘۔ ستاروں کو تو دیکھو کس ابتری سے بکھرے ہوئے ہیں نہ تناسب ہے نہ انتظام ہے نہ بیل ہے نہ بوٹا ہے مگر بادشاہ خود مختار ہے کوئی دم نہیں مارسکتا ہے۔

ایک دن سید سردار مرزا مرحوم شام کو چلے آئے۔ جب تھوڑی دیر ٹھہر کر واپس جانے لگے تو مرزا خود اپنے شعر پر سردھننے لگے اور متحیر ہو کر پوچھنے لگے کہ یہ مطلع کس نے لکھا اور اس قدر تعریف کی کہ مولانا آزردہ کو یہ اُمید نہ رہی کہ اس سے زیادہ میرے مطلع کی داد ملے گی۔ چنانچہ انھوں نے اپنا مطلع نہیں پڑھا اور سب لوگ نہایت تعجب کرتے ہوئے وہاں سے اُٹھے۔

مرزا کی تقریر میں ان کی تحریر اور ان کی نظم و نثر سے کچھ کم لطف نہ تھا اور اسی وجہ سے لوگ ان سے ملنے اور ان کی باتیں سننے کے مشتاق رہتے تھے۔ وہ زیادہ بولنے والے نہ تھے مگر جو کچھ ان کی زبان سے نکلتا تھا لطف سے خالی نہ ہوتا تھا۔ ظرافت مزاج میں اس قدر تھی کہ اگر ان کو بجائے حیوانِ ناطق کے حیوانِ ظریف کہا جائے تو بجا ہے۔ حسنِ بیان، حاضر جوابی اور بات سے بات پیدا کرنا ان کی خصوصیات میں سے تھا۔ ایک دفعہ جب رمضان گزر چکا تو قلعہ میں گئے۔ بادشاہ نے پوچھا مرزا تم نے کتنے روزے رکھے ؟ عرض کیا پیرو مرشد ایک نہیں رکھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

مجھے میرے بزرگوں سے بچاؤ

 

                (کنہیا لال کپور)

 

میں ایک چھوٹا سا لڑکا ہوں۔ ایک بہت بڑے گھر میں رہتا ہوں۔ زندگی کے دن کاٹتا ہوں۔ چونکہ سب سے چھوٹا ہوں اس لیے گھر میں سب میرے بزرگ کہلاتے ہیں۔ یہ سب مجھ سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ انھیں چاہے اپنی صحت کا خیال نہ رہے، میری صحت کا خیال ضرور ستاتا ہے۔ دادا جی کو ہی لیجیے۔ یہ مجھے گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتے کیونکہ باہر گرمی یا برف پڑ رہی ہے۔ بارش ہو رہی ہے یا درختوں کے پتے جھڑ رہے ہیں۔ کیا معلوم کوئی پتّہ میرے سر پر تڑاخ سے لگے اور میری کھوپڑی پھوٹ جائے۔ ان کے خیال میں گھر اچھا خاصا قید خانہ ہونا چاہیے۔ ان کا بس چلے تو ہر ایک گھر کو جس میں بچے ہوتے ہیں سنٹرل جیل میں تبدیل کر کے رکھ دیں۔ وہ فرماتے ہیں بچوں کو بزرگوں کی خدمت کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے وہ ہر وقت مجھ سے چلم بھرواتے یا پاؤں دبواتے رہتے ہیں۔

دادی جی بہت اچھی ہیں۔ پوپلا منھ، چہرے پر بے شمار جھریاں اور خیالات بے حد پرانے۔ ہر وقت مجھے بھوتوں جنوں اور چڑیلوں کی باتیں سنا سنا کر ڈراتی رہتی ہیں۔ ’’ دیکھ بیٹا مندر کے پاس جو پیپل ہے اس کے نیچے مت کھیلنا۔ اس کے اوپر ایک بھوت رہتا ہے۔ آج سے پچاس سال پہلے جب میری شادی نہیں ہوئی تھی میں اپنی ایک سہیلی کے ساتھ اس پیپل کے نیچے کھیل رہی تھی کہ یک لخت میری سہیلی بے ہوش ہو گئ۔ اس طرح وہ سات دفعہ ہوش میں آئی اور سات دفعہ بے ہوش ہوئی۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے چیخ کر کہا ’’بھوت‘‘ ! اور وہ پھر بے ہوش ہو گئی۔ اسے گھر پہنچایا گیا جہاں وہ سات دن کے بعد مر گئی اور وہاں، پرانی سرائے کے پاس جو کنواں ہے اس کے نزدیک مت پھٹکنا۔ اس میں ایک چڑیل رہتی ہے۔ وہ بچوں کا کلیجہ نکال کر کھا جاتی ہے۔ اس چڑیل کی یہی خوراک ہے۔ ‘‘

ماتا جی کو ہر وقت یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ پر ماتما نہ کرے مجھے کچھ ہو گیا تو کیا ہو گا؟ وہ مجھے تالاب میں تیرنے کے لیے اس لیے نہیں جانے دیتیں کہ اگر میں ڈوب گیا تو ؟ پٹاخوں اور پھلجھڑیوں سے اس لیے نہیں کھیلنے دیتیں کہ اگر کپڑوں میں آگ لگ گئی تو ؟ پچھلے دنوں میں کرکٹ کھیلنا چاہتا تھا۔ ماتا جی کو پتا لگ گیا۔ کہنے لگیں، کرکٹ مت کھیلنا۔ بڑا خطرناک کھیل ہے۔ پرماتما نہ کرے اگر گیند آنکھ پر لگ گئی تو ؟

بڑے بھائی صاحب کا خیال ہے جو چیز بڑوں کے لیے بے ضرر ہے چھوٹوں کے لیے سخت مضر ہے۔ خود چوبیس گھنٹے پان کھاتے ہیں لیکن اگر کبھی مجھے پان کھاتا دیکھ لیں فوراً ناک بھوں چڑھائیں گے۔ پان نہیں کھانا چاہیے۔ بہت گندی عادت ہے۔ سنیما دیکھنے کے بہت شوقین ہیں لیکن اگر میں اصرار کروں تو کہیں گے، چھوٹوں کو فلمیں نہیں دیکھنا چاہیے۔ اخلاق پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔

بڑی بہن کو گانے بجانے کا شوق ہے۔ ان کی فرمائشیں اس قسم کی ہوتی ہیں ’’ہارمونیم پھر خراب ہو گیا ہے اسے ٹھیک کرا لاؤ۔ ستار کے دو تار ٹوٹ گئے ہیں اسے میوزیکل ہاؤس لے جاؤ۔ طبلہ بڑی خوفناک آوازیں نکالنے لگا ہے اسے فلاں دکان پر چھوڑ آؤ۔ ‘‘ جب انھیں کوئی کام لینا ہو تو بڑی میٹھی بن جاتی ہیں۔ کام نہ ہو تو کاٹنے کو دوڑتی ہیں۔ خاص کر جب ان کی سہیلیاں آتی ہیں اور وہ طرح طرح کی فضول باتیں بناتی ہیں، اس وقت میں انھیں زہر لگنے لگتا ہوں۔

لے دے کر سارے گھر میں ایک غمگسار ہے اور وہ ہے میرا کتّا ’’ موتی ‘‘۔ بڑا شریف جانور ہے۔ وہ نہ تو بھوتوں اور چڑیلوں کے قصّے سنا کر مجھے خو ف زدہ کرنے کی کوشش کرتا، نہ مجھے نالائق کہہ کر میری حوصلہ شکنی کرتا ہے اور نہ اسے جاسوسی ناول پڑھنے کا شوق ہے اور نہ ستار بجانے کا۔ بس ذرا موج میں آئے تو تھوڑا سا بھونک لیتا ہے۔ جب اپنے بزرگوں سے تنگ آ جاتا ہوں تو اسے لے کر جنگل میں نکل جاتا ہوں۔ وہاں ہم دونوں تیتریوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ دادا جی اور دادی جی سے دور۔ پتا جی اور ماتا جی سے دور۔ بھائی اور بہن کی دسترس سے دور اور کبھی کبھی کسی درخت کی چھاؤں میں موتی کے ساتھ سستاتے ہوئے میں سوچنے لگتا ہوں، کاش! میرے بزرگ سمجھ سکتے کہ میں بھی انسان ہوں۔ یا کاش، وہ اتنی جلدی نہ بھول جاتے کہ وہ کبھی میری طرح ایک چھوٹا سا لڑکا ہوا کرتے تھے۔

٭٭٭

 

 

کتے

 

                (پطرس بخاری)

 

عِلم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا، خود سَر کھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کا کیا فائدہ ہے، گائے کو لیجیے، دُودھ دیتی ہے، بکری کو لیجیے دُودھ دیتی ہے، اور مینگنیاں بھی۔یہ کُتّے کیا کرتے ہیں ؟ کہنے لگے وفادار جانور ہے۔ اب جناب وفاداری اگر اسی کا نام ہے کہ شام کے وقت سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتار بغیر دم لیے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے ہی چلے گئے۔ تو ہم لنڈورے ہی بھلے۔

اس میں شک نہیں کہ ہمارے تعلّقات کتّوں سے ذرا کشیدہ ہی رہے ہیں لیکن ہم سے قسم لے لو جو ایسے موقع پر ہم نے کبھی ستیہ گرہ سے مُنھ موڑا ہو۔ شاید آپ اس کو نقلی سمجھیں، لیکن خدا شاہد ہے کہ آج تک کبھی کسی کُتّے پر ہاتھ ہی نہ اُٹھ سکا۔ اکثر دوستوں نے صَلاح دی کہ رات کے وقت لاٹھی، چھڑی ضرور ہاتھ میں رکھنی چاہیے کہ دافع بلیّات ہے، لیکن ہم کسی سے خواہ مخواہ عداوت پیدا کرنا نہیں چاہتے، حالانکہ کُتّے کے بھونکتے ہی ہماری طبعی شرافت ہم پر اس قدر غلبہ پا جاتی ہے کہ آپ ہمیں اگراس وقت دیکھیں تو یقیناً یہی سمجھیں گے کہ ہم بُزدِل ہیں، شاید آپ اس وقت بھی یہ اندازہ لگا لیں کہ ہمارا گلا خشک ہوا جاتا ہے، یہ البتّہ ٹھیک ہے، ایسے موقع پر کبھی گانے کی کوشش کروں گا تو کھرج کے سُروں کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلتا۔ بعض اوقات ایسا بھی اتفاق ہوا ہے کہ رات کے دو بجے چھڑی گھماتے تھیٹر سے واپس آرہے ہیں اور ناٹک کے کسی نہ کسی گیت کی طرز ذہن میں بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ گیت کے الفاظ یاد نہیں اور نومشقی کا عالم بھی ہے، اس لیے سیٹی پر اکتفا کی ہے کہ بے سُر بھی ہو گئے ہیں تو کوئی یہی سمجھے گا کہ شاید انگریزی موسیقی ہے۔

اتنے میں ایک موڑ پر سے گزرے تو سامنے ایک بکری بندھی تھی، ذرا تصّور ملاحظہ فرمایئے۔ آنکھوں نے اُسے بھی کُتّا ہی دیکھا۔ ایک تو کُتّا اور پھر بکری کی جسامت کا، گویا بہت ہی کُتّا۔ بس ہاتھ پاؤں پھول گئے، چھڑی کی گردش دھیمی ہوتے ہوتے ایک نہایت نا معقول زاویے پر ہوا میں ٹھہر گئی، سیٹی کی موسیقی بھی تھرتھرا کر خاموش ہو گئی، لیکن کیا مجال جو ہماری شکل میں ذرا بھی فرق آیا ہو۔ گویا ایک بے آواز لے ابھی تک نکل رہی ہے۔ ایسے موقعے پر اگر سردی کے موسم میں بھی پسینہ آ جائے تو کوئی مضائقہ نہیں بعد میں سوکھ جاتا ہے۔

جب تک اِس دُنیا میں کُتّے موجود ہیں بھونکنے پر مصر ہیں سمجھ لیجیے کہ ہم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں اور پھر کُتّوں کے بھونکنے کے اُصول بھی تو نرالے ہوتے ہیں۔ یعنی ایک تو متعدی مرض ہے اور پھر بچوں، بوڑھوں سبھی کو لاحق ہے۔ اگر کوئی بھاری بھرکم کُتّا کبھی کبھی اپنے رعب اور دبدبے کو قائم رکھنے کے لیے بھونک لے تو ہم بھی چارو نا چار کہہ دیں کہ بھئی بھونک۔

اگرچہ ایسے وقت میں اس کو زنجیر سے بندھا ہوا ہونا چاہیے۔ لیکن یہ کمبخت دو روزہ، سَہ روزہ دو، دو تین تین تولے کے پلے بھی بھونکنے سے باز نہیں آتے۔ باریک آواز ذرا سا پھیپھڑا، اس پر یہ کہ زور لگا کر بھونکتے ہیں کہ آواز کی لرزش دُم تک پہنچتی ہے اور پھر بھونکتے ہیں کہ چلتی موٹر کے سامنے آ کر گویا روک ہی لیں گے اب یہ خاکسار موٹر چلا رہا ہو تو قطعاً ہاتھ کام کرنے سے انکار کر دیں لیکن ہر کوئی یوں ان کی جان بخشی تھوڑا ہی کرے گا۔

کتّوں کے بھونکنے پر مجھے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ ان کی آواز سوچنے کے تمام قویٰ مُعطّل کر دیتی ہے۔ خصوصاً جب کسی دکان کے تختے کے نیچے سے ان کا ایک پورا جلسہ سڑک پر آ کر کام شروع کر دے تو آپ ہی کہیے۔ ہوش ٹھکانے رہ سکتے ہیں ؟ ہر ایک طرف باری باری سوچنا پڑتا ہے، کچھ ان کا شور کچھ ہماری صدائے احتجاج (زیرِ لب) بے ڈھنگی حرکات وسکنات۔ اِس ہنگامے میں بھلا کام کرسکتا ہے ؟ اگرچہ یہ مجھے بھی نہیں معلوم اگر ایسے موقع پر دماغ کام کرے بھی تو کیا تیر مارے گا ؟ بہر صورت کُتّوں کی یہ پر لے درجے کی نا انصافی میرے نزدیک ہمیشہ قابلِ نفریں رہی ہے۔ اگر ان کا ایک نمائندہ شرافت کے ساتھ ہم سے آکر کہہ دے کہ عالی جناب سڑک بند ہے تو خدا کی قسم ہم بغیر چون و چرا کیے واپس لوٹ جائیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ہم نے کُتّوں کی درخواست پر کئی راتیں سڑکیں ناپنے میں گزار دی ہیں لیکن پوری مجلس کا یوں متفقہ طور پر سینہ زوری کرنا ایک کمینہ حرکت ہے لیکن قارئین کرام کی خدمت میں عرض ہے اگر ان کا کوئی عزیز محترم کُتّا کمرے میں موجود ہو تو یہ مضمون بلند آواز سے نہ پڑھا جائے۔ مجھے کسی کی دل شکنی مطلوب نہیں، خدا نے ہر قوم میں نیک افراد بھی پیدا کیے ہیں۔ آپ نے خدا ترس کُتّا بھی ضرور دیکھا ہو گا۔ عموماً جس کے جسم پر تپسیّا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں جب چلتا ہے تو اُس کی مسکینی اور عجز سے گویا بار گناہ کا احساس آنکھ نہیں اُٹھانے دیتا۔ دُم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی رہتی ہے، سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے لیے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں جیسی۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا۔ گاڑی کے مختلف حِصّوں کو کھٹکھٹایا۔ لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو اپنے سرکووہیں زمیں پر رکھے سُرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتِ حالات کو ایک نظر دیکھا اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔ کسی ایک نے چابک لگایا۔ آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اُٹھ کر ایک گز پر جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا، وہیں سے پھر شروع کر دیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی تو وہ لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وہ رستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ رات کے وقت یہی کُتّا اپنی خشک پتلی سی دُم کو تاحدِ امکان سڑک پر پھیلا کر رکھتا ہے۔ اس سے محض خدا کے برگزیدہ بندوں کی آزمائش مقصود ہوتی ہے، جہاں آپ نے غلطی سے پاؤں رکھ دیا انھوں نے غیض و غضب کے لہجے میں آپ سے پُرسش شروع کر دی۔ بچہ فقیروں کو چھیڑتا ہے نظر نہیں آتا ہم سادھو لوگ یہاں بیٹھے ہیں۔ بس اِس فقیر کی بد دعا سے اسی وقت رعشہ شروع ہو جاتا ہے، بعد میں کئی راتوں تک یہی خواب نظر آتے رہتے ہیں کہ بے شمار کُتّے ٹانگوں سے لپٹے ہوئے ہیں اور جانے نہیں دیتے۔ آنکھ کھلتی ہے تو پاؤں چار پائی کی ادوان میں پھنسے ہوتے ہیں۔

انگریزی میں ایک مثل ہے کہ’’ بھونکتے ہوئے کُتّے کاٹا نہیں کرتے ‘‘ یہ بجا سہی لیکن کون جانتا ہے کہ ایک بھونکتا ہوا کُتّا کب بھونکنا بند کر دے ؟ اور کاٹنا شروع کر دے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ایک بار الکشن میں

 

                (رشید احمد صدیقی )

 

ایک دن یہی الکشن کی فصل تھی۔ ووٹ لینے کے لیے لوگ موٹر، ڈنڈے اور لڈّو لیے ہوئے میری تلاش میں نکلے تھے۔ صرف تین اُمیّدوار تھے اور میں نے تینوں سے ووٹ دینے کا وعدہ کر لیا تھا۔ ایک سے تو اس بِنا پر کہ مجھ پر اس کے روپئے واجب تھے دوسرے سے یوں کہ میں اس کا کاشت کار تھا اور تیسرے سے اس لیے کہ یہ شخص بات کرتے کرتے یا تو کبھی خود رو پڑتا تھا یا مجھے مار ڈالنے پر آمادہ ہو جاتا تھا۔

ظاہر ہے ایسی حالت میں میرے لیے اس کے سواچارا نہ تھا کہ کہیں بھاگ جاؤں لیکن آپ نے سنا ہو گا کہ گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ میں اتفاق سے ایک ایسے مقام پر جا نکلا جہاں ہر طرف عجیب و غریب قسم کے لوگوں کا ہجوم تھا۔ کہیں گراموفون بج رہا تھا، کہیں کھانے پکانے اور کھِلانے کا انتظام تھا۔ ایک طرف سپیرا سانپ کے اور دوسری طرف مداری بندر، بھالو اور بکری کے کرتب دکھا رہا تھا۔ ایک طرف سبیل لگی ہوئی تھی، دوسری طرف ناچ رنگ کا سامان تھا۔ ایک جگہ کچھ لوگ لکچر دے رہے تھے۔ لکچر اور حاضرین کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ شاید کوئی منچلا کسی سنیاسی یا فقیر کی بنائی ہوئی جڑی بوٹیوں کے خواص بتا رہا تھا۔ ابھی میں اسی حیص بیص میں تھا کہ یہ ماجرا کیا ہے کہ ایک صاحب نے نہایت دوستانہ انداز میں پیچھے سے آکر میری گردن پکڑی اور آگے پیچھے کھینچ ڈھکیل کر جیسے رائفل میں کارتوس بھرے جاتے ہیں، بولے : کیوں آپ کا نام بندو خاں ہے ؟ چلیے ووٹ دیجیے اور یہ بیڑی پیجیے۔ بڑا انتظار دکھایا۔ میں نے دوستی کا اعتراف ابھی اس حد تک کیا تھا کہ بیڑی لینے پر آمادہ ہوا تھا کہ ایک دوسرے صاحب نے مجھے اپنی طرف گھسیٹا اور بولے : خبردار، بُدّھو خلیٖفہ میرے ووٹر ہیں۔ لڑکپن میں ہم دونوں کپاس چرایا اور مار کھایا کرتے تھے۔ کیوں خلیٖفہ بولے تو نہیں ؟ ابھی میں نے پورے طور پر حافظے کا امتحان نہیں لیا تھا نہ دیا تھا ایک تیسرے بزرگ آگے بڑھے اور میرا گریبان کھینچ کر بولے : واہ میر بنّے! تم نے کنویں جھنکوا دیے۔ ایسا بھی کیا غائب ہونا۔ چلو کچھ کھا پی لو اس کے بعد مجرا سنیں گے۔ لیکن اس سارے قصّے کا انجام یہ ہوا کہ مجھے اس کمرے میں لے گئے جہاں ووٹروں کی جانچ پڑتال ہوتی ہے۔ اصلی شخص جس کا ووٹ پڑنے والا تھا، بندہ حسن تھا۔ کلرک نے پوچھا:’’ بندہ حسن کون ہے ؟‘‘ میرے ایک دوست نے مجھے آگے بڑھا کر کہا:’’ صاحب ! ان کا اصلی نام بندہ حسن ہے لیکن یہ نام ماں باپ نے رکّھا تھا ورنہ عام طور پر ان کو بندو خاں کہتے ہیں۔ ‘‘ دوسرے نے کہا ’’ ارے بھائی ! اللہ سے ڈرو۔ بُدّھو خلیٖفہ ہمیشہ بُدّھو خلیٖفہ ہیں، اسی نام سے ووٹ دیں گے۔ ‘‘ تیسرے نے لپک کر للکارا ’’ ارے لوگو! خدا سے ڈرو یا نہ ڈرو، حوالات سے تو ڈرو۔ میر بنّے کو بُدّھو خلیٖفہ کہتے شرم نہیں آتی۔ کلرک نے گھبرا کر مجھ سے پوچھا : ’’ آخر تم کیسے چپ ہو۔ تم ہی بتاؤ تمہارا کیا نام ہے ؟‘‘ میں نے کہا ’’ حضور ! اپنا اصلی نام مجھے بھی ٹھیک نہیں معلوم لیکن کُشتی لڑتا تھا تو اکھاڑے میں بندو خاں کے نام سے مشہور ہوا، غازی میاں کا علم اُٹھانے لگا تو بُدّھو خلیٖفہ کہلایا۔ اب نفیری اور فیرینی بیچتا ہوں تو لوگ میر بنّے کہنے لگے۔ ‘‘ کلرک بھی زندہ دِل تھا بولا: ’’ تم نے آنے میں جلدی کی ورنہ یہی لوگ تم کو اس ممبر کی حیثیت سے پیش کر دیتے جس کے تم ووٹر سمجھے جاتے ہو، لیکن اب یہاں سے فوراً بھاگ جاؤ ورنہ تمھاری خیر نہیں۔ ‘‘ میں بھاگا اور سارا مجمع میرے پیچھے ہو لیا۔ ایک ہُلّڑ مچ گیا اور مشہور یہ ہوا کہ میں بچوں کو چرا کر لے جایا کرتا ہوں۔ قریب تھا کہ مجموعے کے ہاتھوں صبر و شکر قسم کی کوئی چیز بن جاتا کہ میں ایک گلی میں ہولیا اور شور مچایا کہ پولنگ اسٹیشن پر بلوا ہو گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مجمع پولنگ اسٹیشن کی طرف روانہ ہو گیا اور میں بھاگا۔ گرتا پڑتا سامنے ایک عالی شان عمارت تھی، اس میں داخل ہوا اور بے ہوش ہو گیا۔ یہ جانوروں کا عجائب خانہ تھا۔ دوسرے دن آنکھ کھُلی تو اپنے آپ کو ہسپتال میں پایا۔

٭٭٭

 

 

 

مچھر

 

                (خواجہ حسن نظامی )

 

یہ بھنبھناتا ہوا ننھا سا پرندہ آپ کو بہت ستاتا ہے۔ رات کو نیند حرام کر دی ہے۔ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، یہودی سب بالاتفاق اس سے ناراض ہیں۔ ہر روز اس کے مقابلہ کے لیے مہمیں تیار ہوتی ہیں، جنگ کے نقشے بنائے جاتے ہیں۔ مگر مچھروں کے جنرل کے سامنے کسی کی نہیں چلتی۔ شکست پر شکست ہوئی چلی جاتی ہے اور مچھروں کا لشکر بڑھا چلا آتا ہے۔

اتنے بڑے ڈیل ڈول کا انسان ذرا سے بھنگے پر قابو نہیں پاسکتا۔ طرح طرح کے مصالحے بھی بناتا ہے کہ ان کی بو سے مچھر بھاگ جائیں۔ لیکن مچھر اپنی یورش سے باز نہیں آتے۔ آتے ہیں اور نعرے لگاتے ہوئے آتے ہیں۔ بے چارہ آدم زاد حیران رہ جاتا ہے اور کسی طرح ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

امیر۔ غریب۔ ادنیٰ۔ اعلیٰ۔ بچے۔ بوڑھے۔ عورت۔ مرد۔ کوئی اس کے وار سے محفوظ نہیں۔ یہاں تک کہ آدمی کے پاس رہنے والے جانوروں کو بھی ان کے ہاتھ سے ایذا ہے۔ مچھر جانتا ہے کہ دشمن کے دوست بھی دشمن ہوتے ہیں۔ ان جانوروں نے میرے دشمن کی اطاعت کی ہے تو میں ان کو بھی مزا چکھاؤں گا۔

آدمیوں نے مچھروں کے خلاف ایجی ٹیشن کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ ہر شخص اپنی سمجھ اور عقل کے موافق مچھروں پر الزام رکھ کر لوگوں میں ان کے خلاف جوش پیدا کرنا چاہتا ہے مگر مچھراس کی کچھ پروا نہیں کرتا۔

طاعون نے گڑ بڑ مچائی تو انسان نے کہا کہ طاعون مچھر اور پسو کے ذریعے سے پھیلتا ہے۔ ان کو فنا کر دیا جائے تو یہ ہولناک وبا دور ہو جائے گی۔ ملیریا پھیلا تو اس کا الزام بھی مچھر پر عائد ہوا۔ اس سرے سے اس سرے تک کالے گورے آدمی غل مچانے لگے کہ مچھروں کو مٹا دو۔ مچھروں کو کچل ڈالو۔ مچھروں کو تہس نہس کر دو اور ایسی تدبیر نکالیں جن سے مچھروں کی نسل ہے منقطع ہو جائے۔

مچھر بھی یہ سب باتیں دیکھ رہا تھا اور سن رہا تھا اور رات کو ڈاکٹر صاحب کی میز پر رکھے ہوئے ’’پانیر‘‘ کو آ کر دیکھتا اور اپنی برائی کے حروف پر بیٹھ کر اس خون کی ننھی ننھی بوندیں ڈال جاتا جو انسان کے جسم سے یا خود ڈاکٹر صاحب کے جسم سے چوس کر لایا تھا۔ گویا اپنے فائدہ کی تحریر سے انسان کی ان تحریروں پر شوخیانہ ریمارک لکھ جاتا کہ میاں تم میرا کچھ نہیں کرسکتے۔

انسان کہتا ہے کہ مچھر بڑا کم ذات ہے۔ کوڑے،کرکٹ،میل کچیل سے پیدا ہوتا اور گندی موریوں میں زندگی بسر کرتا ہے اور بزدلی تو دیکھو اس وقت حملہ کرتا ہے جب کہ ہم سو جاتے ہیں۔ سوتے پر وار کرنا، بے خبر کے چرکے لگانا مردانگی نہیں انتہا درجے کی کمینگی ہے۔ صورت تو دیکھو کالا بھتنا۔ لمبے لمبے پاؤں بے ڈول چہرہ اس شان و شوکت کا وجود اور آدمی جیسے گورے چٹے۔ خوش وضع۔ پیاری ادا کے آدمی کی دشمنی، بے عقلی اور جہالت اسی کو کہتے ہیں۔ مچھر کی سنو تو وہ آدمی کو کھری کھری سناتا ہے اور کہتا ہے کہ جناب ہمت ہے تو مقابلہ کیجئے۔ ذات صفات نہ دیکھیے۔ میں کالا سہی، بد رونق سہی، نیچ ذات سہی اور کمینہ سہی مگر یہ تو کہیے کہ کس دلیری سے آپ کا مقابلہ کرتا ہوں اور کیوں کر آپ کی ناک میں دم کرتا ہوں۔

یہ الزام سراسر غلط ہے کہ بے خبری میں آتا ہوں اور سوتے میں ستاتا ہوں۔ یہ تم اپنی عادت کے موافق سراسر نا انصافی کرتے ہو۔ حضرت میں تو کان میں آ کر ’’الٹی میٹم‘‘ دے دیتا ہوں کہ ہوشیار ہو جاؤ۔ اب حملہ ہوتا ہے۔ تم ہی غافل رہو تو میرا کیا قصور۔ زمانہ خود فیصلہ کر دے گا کہ میدان جنگ میں کالا بھتنا، لمبے لمبے پاؤں والا بے ڈول فتح یاب ہوتا ہے یا گورا چٹا آن بان والا۔

میرے کارناموں کی شاید تم کو خبر نہیں کہ میں نے اس پردۂ دنیا پر کیا کیا جوہر دکھائے ہیں۔ اپنے بھائی نمرود کا قصّہ بھول گئے جو خدائی کا دعویٰ کرتا تھا اور اپنے سامنے کسی کی حقیقت نہ سمجھتا تھا۔ کس نے اس کا غرور توڑا۔ کون اس پر غالب آیا۔ کس کے سبب اس کی خدائی خاک میں ملی ؟ اگر آپ نہ جانتے ہوں تو اپنے ہی کسی بھائی سے دریافت کیجیے یا مجھ سے سنیے کہ میرے ہی ایک بھائی مچھر نے اس سرکش کا خاتمہ کیا تھا۔

اور تم تو ناحق بگڑتے ہو اور خواہ مخواہ اپنا دشمن تصور کیے لیتے ہو۔ میں تمھارا مخالف نہیں۔ اگر تم کو یقین نہ آئے تو اپنے کسی شب بیدار صوفی بھائی سے دریافت کر لو۔ دیکھو وہ میری شان میں کیا کہے گا۔ کل ایک شاہ صاحب عالم ذوق میں اپنے ایک مرید سے فرما رہے تھے کہ میں مچھر کی زندگی کو دل سے پسند کرتا ہوں۔ دن بھر بےچارا خلوت خانہ میں رہتا ہے رات کو، جو خدا کی یاد کا وقت ہے،باہر نکلتا ہے اور پھر تمام شب تسبیح و تقدیس کے ترانے گایا کرتاہے۔ آدمی غفلت میں پڑے سوتے ہیں تو اس کو ان پر غُصّہ آتا ہے۔ چاہتا ہے کہ یہ بھی بیدار ہو کر اپنے مالک کے دیے ہوئے اس سہانے خاموش وقت کی قدر کرے اور حمد شکر کے گیت گائے۔ اس لیے پہلے ان کے کان میں جاکر کہتا ہے کہ اُٹھو میاں ! اُٹھو جاگو جاگنے کا وقت ہے۔ سونے کا اور ہمیشہ سونے کا وقت ابھی نہیں آیا۔ جب آئے گا تو بے فکر ہو کر سونا۔ اب تو ہوشیار رہنے اور کچھ کام کرنے کا موقع ہے مگر انسان اس سریلی نصیحت کی پروا نہیں کرتا اور سوتا رہتا ہے تو مجبور ہو کر غُصّہ میں آ جاتا ہے اور اس کے چہرہ اور ہاتھ پاؤں پر ڈنک مارتا ہے۔ پرواہ رے انسان آنکھیں بند کیے ہوئے ہاتھ پاؤں مارتا ہے اور بے ہوشی میں بدن کھجا کر پھر سو جاتا ہے اور جب دن کو بیدار ہوتا ہے تو بے چارا مچھر کو صلواتیں سناتا ہے کہ رات بھر سونے نہیں دیا۔ کوئی اس دروغ گو سے پوچھے کہ جناب عالی ! کتنے سکنڈ جاگے تھے جو ساری رات جاگتے رہنے کا شکوہ ہو رہا ہے۔

شاہ صاحب کی زبان سے یہ عارفانہ کلمات سن کر میرے دل کو بھی تسلی ہوئی کہ غنیمت ہے ان آدمیوں میں بھی انصاف والے موجود ہیں بلکہ میں دل میں شرمایا کہ کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے کہ شاہ صاحب مصلے پر بیٹھے وظیفہ پڑھا کرتے ہیں اور میں ان کے پیروں کا خون پیا کرتا ہوں۔ یہ تو میری نسبت ایسی اچھی اور نیک رائے دیں اور میں ان کو تکلیف دوں۔ اگرچہ دل نے یہ سمجھایا کہ تو کاٹتا تھوڑی ہے۔ قدم چومتا ہے اور ان بزرگوں کے قدم چومنے ہی کے قابل ہوتے ہیں لیکن اصل یہ ہے کہ اس سے میری ندامت دور نہیں ہوتی اور اب تک میرے دل میں اس کا افسوس باقی ہے۔

سواگر سب انسان ایسا طریقہ اختیار کر لیں جیسا کہ صوفی صاحب نے کیا تو یقین ہے کہ ہماری قوم انسان کو ستانے سے خود بخود باز آ جائے گی ورنہ یاد رہے کہ میرا نام مچھر ہے۔ لطف سے جینے نہ دوں گا اور بتا دوں گا کہ کمین اور نیچ ذات اعلیٰ ذات والوں کو یوں پریشان اور بے چین کرسکتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

اچھی کتاب

 

                (عبدالحق)

 

 

پڑھنے کی عادت بہت اچھی ہے لیکن پڑھنے پڑھنے میں فرق ہے اور کتاب کتاب میں فرق ہے۔

میں ایک بدمعاش اور پاجی آدمی سے باتیں یا بے تکلّفی کرتے ہوئے جھپکتا ہوں اور آپ بھی میرے اس فعل کو بُری نظر سے دیکھتے ہیں لیکن میں اس سے زیادہ تر بُری اور پاجی کتاب پڑھتا ہوں، نہ آپ کو ناگوار گزرتا ہے اور نہ مجھے ہی کچھ ایسی شرم آتی ہے بلکہ اس کی بات شربت کے گھونٹ کی طرح حلق سے اُترتی چلی جاتی ہے۔ پاجی آدمی کی شاید کوئی حرکت ناگوار ہوتی اور میں اس سے بیزار ہو جاتا مگر یہ چپکے چپکے دِل میں گھر کر رہی ہے اور اس کی ہر بات دلربا معلوم ہوتی ہے۔

اگر میں کسی روز بازار جاؤں اور چوک میں سے کسی محض اجنبی شخص کو ساتھ لے آؤں اور اس سے بے تکلفی اور دوستی کی باتیں شروع کر دوں اور پہلے ہی روز اس طرح اعتبار کرنے لگوں جیسے کسی پرانے دوست پر، تو آپ کیا کہیں گے ؟ لیکن ریل اگر کسی اسٹیشن پر ٹھہرے اور میں اپنی گاڑی سے اُتر کر سیدھا بک اسٹا ل (کتب فروش کی الماری ) پر پہنچوں اور پہلی کتاب جو میرے ہاتھ لگے وہ خرید لاؤں اور کھول کر شوق سے پڑھنے لگوں تو شاید آپ کچھ نہ کہیں گے۔ حالانکہ یہ فعل پہلے فعل سے زیادہ مجنونانہ ہے

میں ایک بڑے شہر یا مجمع میں جاتا ہوں۔ کبھی ایک طرف نکل جاتا ہوں اور کبھی دوسری طرف جا پہنچتا ہوں اور بغیر کسی مقصد کے اِدھر اُدھر مارا مارا پھرتا ہوں۔ افسو س کہ باوجود آدمیوں کی کثرت کے میں وہاں اپنے تئیں اکیلا اور تنہا پاتا ہوں اور اس ہجوم میں تنہائی کا بار اور بھی گراں معلوم ہوتا ہے۔ میرے کتب خانے میں بیسوں الماریاں کتابوں کی ہیں میں کبھی ایک الماری کے پاس جا کھڑا ہوتا ہوں اور کوئی کتاب نکال کر پڑھنے لگتا ہوں۔ میں اس طرح سینکڑوں کتابیں پڑھ جاتا ہوں لیکن اگر میں غور کروں تو دیکھوں گا کہ میں نے کچھ بھی نہیں پڑھا۔ اس وقت میری آوارہ خوانی مجھے ستائے گی اور جس طرح ایک بھرے پرے شہر میں میری تنہائی میرے لیے و بال ہو گی۔ اسی طرح اس مجمع شرفا و علما ادبا شعرا میں یکہ و تنہا و حیران ہوں گا۔

بغیر کسی مقصد کے پڑھنا فضول ہی نہیں مضر بھی ہے۔ جس قدر ہم بغیر کسی مقصد کے پڑھتے ہیں اسی قدر ہم ایک بامعنی مطالعہ سے دور ہوتے جاتے ہیں۔

ملٹن نے ایک جگہ کہا ہے ’’ اچھی کتاب کا گلا گھونٹنا ایسا ہی ہے جیسا کسی انسان کا گلا گھوٹنا۔‘‘ جس سے اس کی مراد یہ ہے کہ فضول اور معمولی کتابوں کے پڑھنے میں عزیز وقت ضائع کرنا اچھی کتابوں کا گلا گھوٹنا ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں وہ ہمارے لیے مردہ ہے۔ لو گ کیوں فضول، معمولی اور ادنیٰ درجے کی کتابیں پڑھتے ہیں، کچھ تو اس لیے کہ ان میں نیاپن ہے، کچھ اس خیال سے کہ ایسا کرنا داخل فیشن ہے اور کچھ اس غرض سے کہ اس سے معلومات حاصل ہوتی ہیں۔

پہلی دو وجہیں تو طفلانہ ہیں، تیسری وجہ بظاہر معقول ہے لیکن اس کے یہ معنٰی ہوں گے کہ ہم معمولی، ذلیل اور ادنیٰ معلومات کو اپنے دماغ میں بھرتے ہیں تاکہ اعلیٰ معلومات کی گنجائش باقی نہ رہے۔ اگر ہم اپنے مطالعہ کا ایک سیاہہ تیار کریں اور اس میں صبح و شام تک جو کچھ پڑھتے ہیں لکھ لیا کریں اور ایک مدّت کے بعد اسے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ہم کیا کیا کر گزرے۔ اس میں ہم بہت سی ایسی تحریریں پائیں گے جن کا ہمیں مطلق خیال نہیں۔

بہت سے ایسے ناول ہوں گے جس کے ہیروؤں تک کے نام یاد نہیں۔ بہت سے ایسی کتابیں ہیں کہ جن کی نسبت اگر ہم سے کوئی کہتا کہ یہ ہم پڑھ چکے ہیں تو ہمیں کبھی یقین نہ آتا۔ بہت سی ایسی تاریخیں، سفر نامے، رسالے وغیرہ ہوں گے جنھیں پڑھ کر خوش تو کیا ہوتے پچھتائے ہی ہوں گے۔

اگرہم علی گڑھ کے کالج کے طالب علموں کے نام، ان کے حلیے، ان کے وطن، ان کے محلّے، ان کی کتب، نصاب تعلیم اور ان کے شجرے یاد کرنے شروع کر دیں اور اسے معلومات کے نام سے موسوم کریں تو لوگ کیا کہیں گے۔

غرض ایسا ہی کچھ حال اس سیاہہ کا ہو گا۔ اس کا اکثر حِصّہ خرافات کی ایک عجیب فہرست اور ہماری ورق گردانی اور تضیع وقت و دماغ کی ایک عمدہ یادگار ہوتی ہے۔

ملٹن نے کیا خوب کہا ہے۔’’ عمدہ کتاب حیات ہی نہیں بلکہ وہ ایک لافانی چیز ہے۔ ‘‘ اس قول میں مطلق مبالغہ نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

تعصب

 

                (سر سیداحمد خاں)

 

انسان کی خصلتوں میں سے تعصب ایک بدترین خصلت ہے۔ یہ ایسی بد خصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت اور برباد کرتی ہے۔ متعصب گو اپنی زبان سے نہ کہے، مگر اس کا طریقہ یہ بات جتلاتا ہے کہ عدل و انصاف اس میں نہیں ہے۔ متعصب اگر کسی غلطی میں پڑتا ہے تو اپنے تعصب کے سبب اس غلطی سے نکل نہیں سکتا، کیونکہ اس کا تعصب اُس کے برخلاف بات سننے،سمجھنے اور اُس پر غور کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر وہ کسی غلطی میں نہیں ہے، بلکہ سچی اور سیدھی راہ پر ہے تو اس کے فائدے اور اس کی نیکی کو پھیلنے اور عام ہونے نہیں دیتا۔

تعصب انسان کو ہزار طرح کی نیکیوں کے حاصل کرنے سے باز رکھتا ہے۔ اکثر دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی کام کو نہایت عمدہ اور مفید سمجھتا ہے، مگر صرف تعصب سے اس کو اختیار نہیں کرتا اور برائی میں گرفتار اور بھلائی سے بیزار رہتا ہے۔

انسان کو ہمیشہ مددگاروں کی جو دوستی اور محبت سے ہاتھ آتے ہیں ضرورت ہوتی ہے، مگر متعصب تمام لوگوں سے بیزار رہتا ہے اور کسی کو دوستی اور محبت کی طرف بجز اُن چند لوگوں کے جو اس کے ہم رائے ہیں مائل نہیں ہوتا۔

وہ ان تمام دلچسپ اور مفید باتوں سے محض جاہل اور ناواقف رہتا ہے۔ اُس کی عقل اور اُس کے دماغ کی قوت بیکار ہو جاتی ہے اور جو کچھ اس میں سمائی ہوئی ہے اس کے سوا اور کسی بات کے سمجھنے کی اس میں طاقت اور قوت نہیں رہتی۔ وہ ایک ایسے جانور کی مانند ہو جاتا ہے کہ اس کو جو کچھ آتا ہے اس کے سوا اور کسی چیز کی تعلیم و تربیت کے قابل نہیں ہوتا۔ بہت سی قومیں ہیں جو اپنے تعصب کے باعث سے تمام باتوں میں اعلیٰ درجے سے نہایت پست درجے کو پہنچ گئی ہیں اور بہت سے قومیں ہیں جنھوں نے اپنی بے تعصبی سے ہر جگہ اور ہر قوم سے اچھی اچھی باتیں اخذ کیں اور ادنیٰ درجے سے ترقی کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجے پر پہنچ گئیں۔

مجھ کو اپنے ملک کے بھائیوں پر اس بات کی بدگمانی ہے کہ وہ بھی تعصب کی بد خصلت میں گرفتار ہیں اور اس سبب سے ہزاروں قسم کی بھلائیوں کے حاصل کرنے سے محروم اور ذلت اور خواری اور بے عملی اور بے ہنری کی مصیبت میں گرفتار ہیں اور اسی لیے میری خواہش ہے کہ وہ اس بد خصلت سے نکلیں اور اعلیٰ درجے کی عزت تک پہنچیں۔

ہم مسلمانوں میں ایک غلطی یہ پڑی ہے کہ بعض دفعہ ایک غلط نما نیکی کے جذبے سے تعصب کو اچھا سمجھتے ہیں اور جو شخص اپنے مذہب میں بڑا متعصب ہو اور تمام شخصوں کو جو اُس مذہب کے نہیں ہیں اور تمام اُن علوم و فنون جو اس مذہب کے لوگوں میں نہیں ہیں نہایت حقارت سے دیکھے اور برا سمجھے۔ اس شخص کو نہایت قابل تعریف اور توصیف کے اور بڑا پختہ اور پکا اپنے مذہب میں سمجھتے ہیں، مگر ایسا سمجھنا سب سے بڑی غلطی ہے۔

اب ہم یہ بات بتاتے ہیں کہ اپنے مذہب میں پختہ ہونا جدا بات ہے اور یہ ایک نہایت عمدہ صفت ہے جو کسی اہل مذہب کے لیے ہو سکتی ہے اور تعصب، گو کہ وہ مذہبی باتوں میں کیوں نہ ہو نہایت برا اور خود مذہب کو نہایت نقصان پہنچانے والا ہے۔

غیر متعصب، مگر اپنے مذہب میں پختہ ہمیشہ سچا دانا دوست اپنے مذہب کا ہوتا ہے۔ اس کی خوبیوں اور نیکیوں کو پھیلاتا ہے، اس کے اصول کو دلائل سے ثابت کرتا ہے مخالفوں اور برا کہنے والوں کی باتوں کو ٹھنڈے دِل سے سنتا ہے اور خود بھی اس کے دفعیے پر مستعد ہوتا ہے اور لوگوں کو بھی اس کے دفیعے کا موقع دیتا ہے۔

برخلاف اس کے متعصب۔ نادان دوست اپنے مذہب کا ہوتا ہے۔وہ سراسر اپنی نادانی سے اپنے مذہب کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اپنے مذہب کی خوبیوں کے پھیلنے اور لوگوں کو اس کی طرف راغب کرنے کے بدلے اُلٹا اس کا ہارج قوی ہوتا ہے۔ اپنے تعصب کے سبب بد اخلاق اور مغرور اورسخت دِل ہو جاتا ہے۔

غرضکہ تعصب خواہ دینی ہو یا دنیاوی باتوں میں، نہایت برا اور بہت سی خرابیوں کو پیدا کرنے والا ہے۔ مغرور و متکبر ہو جانا اور اپنے ہم جنسوں کو سوائے چند کے نہایت حقیر و ذلیل سمجھنا متعصب کا خاصہ ہوتا ہے۔

اس کے اصول کا مقتضا یہ ہوتا ہے کہ تمام دنیا کے لوگوں سے سوائے چند کے کنارہ گزیں ہو، مگر ایسا کرنہیں سکتا اور بہ مجبوری ہر ایک سے ملتا ہے اور اوپری دل سے ان کا ادب اور اپنی جھوٹی نیاز مندی بھی ظاہر کرتا ہے اور ایسا کرنے سے ایک اور بد خصلت فریب و مکاری کی صفت اپنے میں پیدا کرتا ہے۔

دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس نے خود ہی تمام کمالات اور تمام خوبیاں اور خوشیاں حاصل کی ہوں، بلکہ ہمیشہ ایک قوم نے دوسری قوم سے فائدہ اُٹھایا ہے مگر متعصب شخص ان نعمتوں سے بد نصیب رہتا ہے۔

علم میں اس کی ترقی نہیں ہوتی، ہنر و فن میں اس کی دست گاہ نہیں ہوتی، دنیا کے حالات سے وہ ناواقف رہتا ہے، عجائبات قدرت سے محروم ہوتا ہے حصول معاش اور دنیاوی عزت اور تمول، مثل تجارت وغیرہ کے وسیلے جاتے رہتے ہیں اور رفتہ رفتہ تمام دنیا کے انسانوں میں روز بروز ذلیل و خوار ہوتا جاتا ہے۔

تعصب میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جب تک وہ نہیں جاتا کوئی ہنرو کمال اُس میں نہیں آتا۔ تربیت و شایستگی، تہذیب وانسانیت کا مطلق نشان نہیں پایا جاتا اور جب کہ وہ مذہبی غلط نما نیکی کے پردے میں ظہور کرتا ہے تو اور بھی سم قاتل ہوتا ہے، کیونکہ مذہب سے اور تعصب سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ انسان کے خراب و برباد کرنے کے لیے شیطان کا سب سے بڑا داؤ تعصب کو مذہبی رنگت سے دل میں ڈالنا اور اس تاریکی کے فرشتے کو روشنی کا فرشتہ کر کے دکھلانا ہے۔

پس میری التجا اپنے بھائیوں سے یہ ہے کہ ہمارا خدا نہایت مہربان اور بہت بڑا منصف ہے اورسچا،سچائی پسند کرنے والا ہے، وہ ہمارے دلوں کے بھید جانتا ہے، وہ ہماری نیتوں کو پہچانتا ہے۔ پس ہم کو اپنے مذہب میں نہایت سچائی سے پختہ رہنا، مگر تعصب کو جو ایک بُری خصلت ہے چھوڑنا چاہیے۔ تمام نبی نوع انساں ہمارے بھائی ہیں، ہم کو سب سے محبت اور سچا معاملہ رکھنا اور سب سے سچی دوستی اور سب کی سچی خیر خواہی کرنا ہمارا قدرتی فرض ہے۔ پس اسی کی ہم کو پیروی کرنی چاہیے۔

٭٭٭

 

 

 

 

آرام کی قدر، مصیبت کے بعد ہوتی ہے

 

                (شیخ سعدی )

 

 

ایک بار کوئی بادشاہ اپنے نئے جاہل غلام کے ساتھ کشتی میں بیٹھا تھا۔ اس غلام نے کبھی دریا نہیں دیکھا تھا اور نہ اس کو کشتی پر سوار ہونے کا تجربہ تھا۔ اس نے رونا پیٹنا شروع کر دیا اور خوف سے اس کا بدن کانپنے لگا۔ اسے نرمی کے ساتھ سمجھایا گیا اور ہر طرح اطمینان دلایا گیا لیکن وہ خاموش نہیں ہوا۔ اس کے رونے کی وجہ سے بادشاہ کی طبیعت خراب ہو گئی اور سیر و تفریح کا لطف ختم ہو گیا۔ کسی کے سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے کس طرح خاموش کریں۔ اس کشتی میں ایک عقلمند آدمی بیٹھا تھا۔ اس نے بادشاہ سے کہا۔ اگر آپ حکم دیں تو میں ایک ترکیب سے اسے چپ کرا دوں بادشاہ نے جواب دیا۔ آپ کی بہت مہربانی اور احسان ہو گا۔

اس عقلمند آدمی نے دوسرے ملازموں کو حکم دیا کہ غلام کو دریا میں ڈال دو۔ انھو‌‌‌‌ں نے ایسا ہی کیا۔ اس نے جیسے ہی پانی میں چند غوطے کھائے اس کے بال پکڑ کر کشتی کے پاس لائے اور اس کے دونوں ہاتھ باندھ کر کشتی کے پتوار میں لٹکا دیا۔ جب وہ پانی سے باہر نکالا گیا تو کشتی کے ایک گوشے میں خاموش بیٹھ گیا۔ بادشاہ کو تعجب ہوا۔ عقلمند آدمی سے پوچھا بھلا اس میں کیا حکمت تھی کہ غوطہ کھانے اور تکلیف اُٹھانے کے بعد وہ خاموش ہو گیا۔ اس نے کہا کہ اس نے کبھی ڈوبنے کا مزہ نہیں چکھا تھا اور نہ اس کو کشتی میں آرام اور اطمینان سے بیٹھنے کی قدر معلوم تھی۔ جان کی حفاظت اور اطمینان کی قدر وہی جانتا ہے جو کبھی کسی مصیبت میں پھنس چکا ہو۔ ‘‘ جس کا پیٹ بھرا ہوتا ہے اس کو جو کی روٹی اچھی نہیں معلوم دیتی۔ جو چیز ایک شخص کو بری نظر آتی ہے وہی،دوسرے کو بھلی لگتی ہے۔ جو شخص کسی دوست کے آنے کا انتظار کر رہا ہو اس کی طبیعت بے چین و پریشان رہتی ہے اور جس کا عزیز یا دوست اس کے پاس ہواس کو انتظار کی تکلیف کا احساس نہیں ہوتا۔ دونوں کی حالت میں فرق ہے۔

٭٭٭

 

 

 

قِصّہ حاتم طائی

 

                (میر امن)

 

حاتم کے وقت میں ایک بادشاہ کا نام نوفل تھا۔ اس کو حاتم کے ساتھ بسبب نام آوری کے دشمنی ہوئی۔ بہت سی فوج جمع کر کے لڑائی کی خاطر چلا آیا۔ حاتم تو خدا ترس اور نیک مرد تھا، یہ سمجھا کہ اگر میں بھی جنگ کی تیّاری کروں تو خدا کے بندے مارے جائیں گے اور بڑی خونریزی ہو گی۔ اس کا عذاب میرے نام لکھا جائے گا۔ یہ سوچ کر تنِ تنہا اپنی جان لے کر ایک پہاڑ کی کھوہ میں جا چھپا۔ جب حاتم کے غائب ہونے کی خبر نوفل کو معلوم ہوئی، حاتم کا سب اسباب قرق کیا اور منادی کرا دی کہ جو کوئی حاتم کو پکڑ لائے پانسو اشرفی انعام پائے۔ یہ سُن کر سب کو لالچ آیا اور حاتم کی جستجو کرنے لگے۔ ایک روز ایک بُڑھیا اور اس کا بُڈّھا دو تین بچے ساتھ لیے ہوئے لکڑیاں توڑنے کے لیے اس غار میں جہاں حاتم پوشیدہ تھا پہنچے اور لکڑیاں چننے لگے۔ بُڑھیا بولی کہ اگر ہمارے دن بھلے آتے تو حاتم کو کہیں دیکھ پاتے اور اس کو نوفل کے پاس لے جاتے اور پانسو اشرفیاں دیتا تو آرام سے کھاتے۔ بُڈّھے نے کہا کیا بڑ بڑ کرتی ہے ہمارے طالع میں یہی لکھا ہے کہ روز لکڑیاں توڑیں اور سر پر دھر کر بازار میں بیچیں تب روٹی میسّر آئے۔ لے اپنا کام کر۔ حاتم ہمارے ہاتھ کا ہے کو آئے گا کہ بادشاہ سے اتنے روپے دلا دے گا۔ عورت ٹھنڈی سانس بھر کر چُپ ہو رہی۔ ان دونوں کی باتیں حاتم نے سنیں۔ مردمی اور مروّت سے بعید جانا کہ آپ کو چھپائے اور جان کو بچائے اور ان بے چاروں کو مطلب تک نہ پہنچائے۔ سچ ہے جس آدمی میں رحم نہیں وہ۔

غرض کہ حاتم نے قبول نہیں کیا کہ اپنے کانوں سے سُن کر چپکا ہی رہے وہیں باہر آ کر بُڈّھے سے کہا کہ اے عزیز حاتم میں ہی ہوں۔ مجھ کو نوفل کے پاس لے چل۔ وہ مجھ کو دیکھ کر جو کچھ روپیہ دینے کا اقرار کیا ہے تجھے دے گا۔ بُڈّھے نے کہا سچ ہے۔ اس صورت میں بھلائی اور بہبودی البتہ ہے لیکن نہ معلوم وہ تیرے ساتھ کیا سلوک کرے اگر مار ڈالے تو میں کیا کروں۔ یہ مجھ سے ہرگز نہ ہو گا کہ تجھ سے انسان کو اپنی خاطر جمع کے لیے دشمن کے حوالے کر دوں۔ وہ مال کتنے دن کھاؤں گا اور کتنے دِن جیوں گا۔ آخر مروں گا تو خدا کو کیا جواب دوں گا۔ حاتم نے بہتیری منّت کی کہ مجھے لے چل۔ میں خوشی سے کہتا ہوں اور ہمیشہ اسی آرزو میں رہتا ہوں کہ میری جان و مال کسی کے کام آئے تو بہت ہے لیکن وہ بُڈّھا کسی طرح حاتم کو لے جانے پر راضی نہ ہوا۔ آخر نا چار ہو کر حاتم نے کہا کہ اگر تو مجھے نہیں لے جاتا تو میں خود ہی بادشاہ کے پاس جا کر کہتا ہوں کہ اس بُڈّھے نے مجھے پہاڑ کی کھوہ میں چھُپا رکھا تھا وہ بُڈّھا ہنس کر بولا اگر بھلائی کے بدلے بُرائی ملے تو اپنا نصیب۔ اس سوال و جواب میں اور آدمی بھی آ گئے۔ انھوں نے معلوم کیا کہ حاتم یہی ہے۔ حاتم کو فوراً پکڑ لیا اور لے چلے۔ وہ بُڈّھا بھی افسوس کرتا ہوا پیچھے پیچھے ہولیا۔ جب نوفل کے پاس لے گئے تو اس نے پوچھا  کہاں کو کون پکڑ کر لایا ہے۔ ایک بد ذات بولا کہ یہ کام سوا میرے اور کون کرسکتا ہے ؟ یہ فتح ہمارے لیے ہے اور ہم نے جھنڈا عرش پر گاڑا ہے۔ ایک اور ڈینگ مار کر بولا کہ میں کئی دن سے دوڑ دھوپ کر کے جنگل سے پکڑ کر لایا ہوں۔ میری محنت پر نظر کیجیے۔

اسی طرح اشرفیوں کے لالچ سے ہر کوئی کہتا تھا کہ یہ کام مجھ سے ہوا۔ وہ بُڈّھا چُپکا کھڑا سب کی شیخیاں سُن رہا تھا اور حاتم کی خاطر کھڑا رو رہا تھا۔ جب اپنی اپنی مردانگی سب بگھار چکے تو حاتم نے کہا کہ سچ بات یہ ہے کہ وہ بُڈّھا جو سب سے الگ کھڑا ہے مجھے لایا ہے۔ اگر جاننا چاہتے ہو تو دریافت کر لو اور میرے پکڑے جانے کی خاطر جو قول کیا ہے پورا کرو کہ ساری ڈیل میں زبان ہی ایک چیز ہے۔ مرد کو چاہیے کہ جو کہے سو کرے۔ یوں تو جیبھ حیوان کو بھی خدا نے دی ہے، پھر انسان اور حیوان میں کیا تفاوت ہے۔ نوفل نے اُس بُڈّھے کو پاس بلا کر پوچھا کہ سچ کہہ اصل کیا ہے ؟ حاتم کو کون پکڑ لایا ہے۔ اس نے تمام حال کہہ سُنایا اور کہا کہ حاتم میری خاطر آپ ہی چلا آیا ہے۔ نوفل حاتم کی یہ ہمّت سُن کر متعجب ہوا جتنے لوگ جھوٹے دعوے حاتم کے پکڑ لانے کے کرتے تھے حکم دیا کہ پانچ سو اشرفی کے عوض پانچ سوجوتیاں ان کے سروں پر لگاؤ کہ ان کا بھیجا نکل پڑے۔ وہیں تڑ تڑ پیزاریں پڑنے لگیں۔ ایک دم میں ان کے سر گنجے ہو گئے۔ سچ ہے جھوٹ بولنا ایسا ہی گناہ ہے کہ کوئی اس کو نہیں پہنچ سکتا۔ خدا سب کو اس بلا سے محفوظ رکھے اور جھوٹ بولنے کا چسکا نہ دے۔ بہت لوگ جھوٹ موٹ بکے جاتے ہیں لیکن آزمائش کے وقت سزا پاتے ہیں۔ غرض اُن سب کو موافق ان کے انعام دے کر نوفل نے اپنے دل میں خیال کیا کہ حاتم سے شخص سے جس سے دنیا کو فیض پہنچتا ہے اور جو محتاجوں کی خاطر اپنی جان تک سے دریغ نہیں کرتا اور خدا کی راہ میں سرتاپا حاضر ہے، دشمنی رکھنی اور اس کا مُدّعی ہونا آدمیّت اور انسانیت سے بعید ہے۔ تواضع اور تعظیم کر کے پاس بٹھایا اور حاتم کا ملک و املاک اور مال و اسباب جو کچھ ضبط کیا تھا، وہیں چھوڑ دیا نئے سرے سے سرداری قبیٖلۂ طے کی اُسے دی اور اس بُڈّھے کو پانچ سو اشرفیاں اپنے خزانے سے دلوا دیں۔ وہ دعائیں دیتا چلا گیا۔

٭٭٭

 

 

کابُلی والا

 

                (رابندر ناتھ ٹیگور)

 

میری پانچ برس کی بچّی، جس کا نام منی ہے، گھڑی بھر کو خاموش نہیں رہتی۔ایک دِن صبح سویرے میں اپنے ناول کا سترہواں باب لکھ رہا تھا، منی نے آ کر کہا :

بابوجی ! سبودھ (میرا نوکر) کوّے کو کاگ کہتا ہے، وہ کچھ نہیں جانتا۔‘‘ اور اس سے پہلے کہ میں کچھ کہوں اُس نے دوسری بات شروع کر دی : ’’ دیکھیے بابوجی ! بھولا کہتا ہے کہ آسمان میں ہاتھی اپنی سونڈوں سے پانی برساتے ہیں، بھولا ایسی ہی جھوٹی باتیں کرتا ہے۔ ‘‘ میں نے ہنس کر منی سے کہا :’’ منی تو بھولا کے ساتھ جا کر کھیل، مجھے اِس وقت کام کرنا ہے۔ ‘‘

میرا گھر سڑک کے کنارے ہے۔ایک دِن منی میرے کمرے میں کھیل رہی تھی، اچانک وہ کھیل چھوڑ کر برآمدے میں دوڑ گئی اور زور زور سے ’’ کابُلی والے ___اُو کابُلی والے ‘‘ پکارنے لگی۔

کابُلی والے کے کندھے پر میوے کا تھیلا اور ہاتھ میں انگوروں کی پٹاری تھی۔ موٹے کپڑے کا ڈھیلا ڈھالا کُرتا پہنے، صافہ باندھے، لمبے ڈیل ڈول کا ایک کابُلی سڑک پر آہستہ آہستہ چلا جا رہا تھا۔

منی کی آواز سُن کر، ہنس مُکھ کابُلی والے نے گھوم کر دیکھا۔ منی گھبرا گئی اور اُس کابُلی کو پھاٹک میں آتا دیکھ کر اندر بھاگ گئی۔ اس لیے کہ منی کی ماں کہا کرتی تھی کہ کابُلی والے بچوں کو تھیلے میں ڈال کر لے جاتے ہیں۔

میں نے منی کا خوف دور کرنے کے لیے اُس کو اندر سے بُلایا۔ کابُلی اپنی جھولی سے کِشمش نکال کر منی کو دینے لگا۔ منی کسی طرح لینے پر راضی نہ ہوئی، اُس کا شبہ اور بھی بڑھ گیا۔ وہ ڈر کر مجھ سے لپٹ گئی، کابُلی والے سے میرا تعارف اس طرح ہوا۔

میں ایک روز کسی ضروری کام سے باہر جا رہا تھا، دروازے پر دیکھا کہ منی اُس کابُلی سے بڑے مزے سے باتیں کر رہی تھی۔ وہ بادام اور کِشمش لیے ہوئے تھی۔ میں نے کابُلی سے کہا : ’’ یہ سب کیوں دیا ؟ اب مت دینا۔ ‘‘ یہ کہہ کر میں نے جیب سے ایک اٹھنّی نکال کر کابُلی کو دی۔ اُس نے بلا جھجک اٹھنّی لے کر جیب میں ڈال لی۔

جب میں کام سے لوٹ کر گھر آیا، تو میں نے دیکھا کہ اُس اٹھنّی کی وجہ سے گھر میں بڑا شور مچا ہوا ہے۔ منی کی ماں اُس سے ڈانٹ کر پوچھ رہی ہے کہ تو نے اُس سے اٹھنّی کیوں لی ؟ منی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اُس نے کہا : ’’ میں نے نہیں مانگی، وہ اپنے آپ دے گیا۔ ‘‘ میں منی کو لے کر باہر چلا گیا۔

معلوم ہوا کہ یہ کابُلی کا دوسرا پھیرا نہیں تھا وہ روز گھر آتا تھا اور پستے بادام دے کر اُس نے مُنی سے دوستی کر لی تھی۔

کابُلی کا نام رحمت تھا۔ رحمت اور منی کی عمر میں زمین آسمان کا فرق تھا، پھر بھی دونوں ایک دوسرے کے دوست ہو گئے۔ اُن دونوں میں کچھ بندھی ٹکی باتیں ہوتی تھیں۔

کابُلی والا کہتا :’’ منی سُسرال جاؤ گی ؟‘‘ منی نہیں جانتی تھی کہ سُسرال کسے کہتے ہیں ؟ لیکن بھلا وہ چُپ رہنے والی کہاں تھی۔ وہ تو اُلٹا کابُلی سے پوچھتی : ’’ تم سُسرال جاؤ گے ؟‘‘ رحمت گھونسا تان کر کہتا : ’’ میں تو سُسرے کو ماروں گا۔ ‘‘ یہ سُن کر منی خوب ہنستی۔ ہر سال جب جاڑے کا موسم ختم ہونے لگتا، تو رحمت اپنے وطن جانے کی تیاری کرتا اور گھر گھر جا کر اپنا روپیہ وصول کرتا، مگر ایک بار منی سے ملنے ضرور آتا۔

ایک دِن میں اپنے کمرے میں بیٹھا پڑھ رہا تھا، اچانک گلی میں بڑا شور و غُل سنائی دیا۔ میں نے کھڑے ہو کر دیکھا : رحمت کو دو سپاہی باندھے لیے جا رہے تھے، پیچھے سے لڑکوں اور راہ گیروں کا مجمع چلا آ رہا تھا۔ رحمت کے کُرتے پر خون کے دھبے تھے اور ایک سپاہی کے ہاتھ میں خون سے بھری چھُری تھی۔ میں بھاگا ہوا گیا اور سپاہیوں کو روک کر پوچھا :’’کیا بات ہے ؟‘‘ معلوم ہوا کہ پڑوس میں ایک چپراسی نے رحمت سے ایک چادر لی تھی اور اب وہ دام دینے سے انکار کرتا تھا، اس پر جھگڑا ہو گیا اور رحمت نے غُصّے میں آ کر چپراسی پر چُھری سے حملہ کر دیا۔

رحمت اس بے ایمان چپراسی کو سیکڑوں گالیاں دے رہا تھا۔ اس بیچ میں ’’ کابُلی والے ___او کابُلی والے ‘‘ پکارتی ہوئی منی بھی وہاں آ گئی۔

رحمت کا چہرہ دَم بھر کے لیے خوشی سے کھِل اُٹھا منی نے آتے ہی اُس سے پوچھا: ’’تم سُسرال جاؤ گے ؟‘‘

رحمت نے ہنس کر کہا :’’ہاں وہیں جا رہا ہوں۔ ‘‘ اُس نے دیکھا کہ اِس جواب سے منی کو ہنسی آ  گئی۔ تب اُس نے گھونسا دکھا کر کہا:’’میں سُسرے کو مارتا تو ضرور، لیکن کیا کروں میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ‘‘

کچھ دنوں کے بعد اِس جرم میں رحمت کو سات سال کی سزا ہو گئی۔ اِس واقعے کے بعد کئی سال گزر گئے، منی کابُلی والے کو بھول گئی۔

منی بڑی ہو گئی اور پھر اُس کی شادی بھی طے ہو گئی۔ آخر کار شادی کی تاریخ آ پہنچی۔ مہمانوں سے گھر بھرا ہوا تھا۔ میں اپنے کمرے میں بیٹھا کچھ کام کر رہا تھا، اچانک اُس وقت رحمت پہنچا۔ پہلے تو میں اُس کو پہچا ن نہ سکا، لیکن اُس کی ہنسی سے سمجھ گیا کہ یہ رحمت ہے، میں نے پوچھا: ’’کیوں رحمت کب آئے ؟‘‘

’’کل ہی شام کو جیل سے چھوٹا ہوں۔‘‘

میں نے کہا :’’ آج تو میں بہت مصروف ہوں، پھر کبھی آنا۔ ‘‘

وہ اُداس ہو کر جانے لگا، لیکن پھر ہچکچاتے ہوئے بولا:’’ بابوجی ! منی کہاں ہے ؟‘‘

میں نے کہا :’’ آج گھر میں کام ہے، منی سے بھی مُلاقات نہ ہو گی۔‘‘وہ اُداس ہو گیا۔

’’ اچھّا۔۔۔۔بابو جی سلام۔ ‘‘ کہہ کر جانے لگا۔

مجھے جیسے دھکاّ سا لگا۔ جی چاہا کہ اُس کو بُلا لوں۔ اِتنے میں دیکھا کہ وہ خود ہی واپس آ رہا ہے۔پاس آ کر اُس نے کہا : ’’ یہ کچھ کِشمش بادام منی کے لیے لایا تھا، اُس کو دے دیجیے۔ ‘‘ میں نے اس کی قیمت ادا کرنی چاہی۔ تب اُس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا :’’ آپ کی مہربانی میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ مجھے قیمت نہ دیجیے، بابوجی ! منی جیسی میری بھی بیٹی ہے، اِسی لیے میں اُس کے لیے میوہ لاتا تھا۔ میں یہاں سودا بیچنے نہیں آتا۔ ‘‘

منی اتنا کہہ کر اُس نے کُرتے کے اندر سے ایک میلے کاغذ کی پڑیا نکالی۔ بڑی احتیاط سے پڑیا کھول کر میرے سامنے رکھ دی۔ اُس کاغذ پر ایک چھوٹے سے ہاتھ کا نشان تھا۔ اپنی بیٹی کی اِس نشانی کو چھاتی سے لگا کر رحمت اتنی دور سے میوہ بیچنے کلکتہ آیا تھا۔

یہ دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، میں سب کچھ بھول گیا، بس یہ بات یاد رہ گئی کہ میں بھی باپ ہوں اور وہ بھی باپ ہے۔ میں نے اُسی وقت منی کو اندر سے بُلایا۔ منی شادی کے کپڑے اور زیور پہنے ہوئے آئی اور شرمائی شرمائی میرے سامنے کھڑی ہو گئی۔ اُس کو دیکھ کر کابُلی گھبرا سا گیا اور بات بھی نہ کرسکا۔ پھر اُس نے ہنس کر کہا: ’’منی ! تو سُسرال جا رہی ہے ؟‘‘

اب منی سُسرال کے معنی سمجھنے لگی تھی، اُس نے شرما کر سر جھکا لیا۔ رحمت کچھ سوچ کر زمین پر بیٹھ گیا، جیسے اُس کو یکایک احساس ہوا کہ اُس کی لڑکی بھی اِتنے دنوں میں بڑی ہو گئی ہو گی۔ اِن آٹھ برسوں میں اُس کا کیا ہوا، کون جانے ! وہ اُس کی یاد میں کھو گیا۔

٭٭٭

 

 

احسان کا بدلہ احسان

 

                (ذاکر حسین)

 

بہت دنوں کا ذکر ہے جب ہر جگہ نیک لوگ بستے تھے اور دَغا فریب بہت ہی کم تھا۔ ہندو مسلمان ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔ کوئی کسی پر زیادتی نہیں کرتا تھا اور جو جس کا حق ہوتا تھا، اُسے مِل جایا کرتا تھا۔ اُن دنوں ایک شہر تھا : عادِل آباد۔

اس عادِل آباد میں ایک بہت دولت مند دُکان دار تھا۔ دور دور کے مُلکوں سے اُس کا لین دین تھا۔ اُس کے پاس ایک گھوڑا تھا، جو اُس نے بہت دام دے کر ایک عرب سے خریدا تھا۔

ایک دِن کا ذکر ہے کہ وہ دُکان دار تجارت کی غرض سے گھوڑے پر سوار ہو کر جا رہا تھا کہ بے خیالی میں شہر سے بہت دور نکل گیا اور ایک جنگل میں جا نکلا۔ ابھی یہ اپنی دھُن میں آگے جاہی رہا تھا کہ پیچھے سے چھے آدمیوں نے اُس پر حملہ کر دیا۔ اُس نے اُن کے دو ایک وار تو خالی دیے، لیکن جب دیکھا کہ وہ چھے ہیں تو سوچا کہ اچھا یہی ہے کہ ان سے بچ کر نکل چلوں۔ اُس نے گھوڑے کو گھر کی طرف پھیرا، لیکن ڈاکوؤں نے بھی اپنے گھوڑے پیچھے ڈال دیے۔ اب تو عجیب حال تھا، سارا جنگل گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج رہا تھا۔ سچ یہ ہے کہ دُکان دار کے گھوڑے نے اُسی دِن اپنے دام وصول کرا دیے۔ کچھ دیر بعد ڈاکوؤں کے گھوڑے پیچھے رہ گئے اور گھوڑا دکان دار کی جان بچا کر اُسے گھر لے آیا۔

اُس روز گھوڑے نے اِتنا زور لگایا کہ اُس کی ٹانگیں بیکار ہو گئیں۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ دنوں بعد غریب کی آنکھیں بھی جاتی رہیں۔ لیکن دُکان دار کو اپنے وفادار گھوڑے کا احسان یاد تھا، چنانچہ اُس نے سائیٖس کو حکم دیا کہ جب تک گھوڑا جیتا رہے، اُس کو روز صبح شام چھے سیر دانہ دیا جائے اور اُس سے کوئی کام نہ لیا جائے۔

لیکن سائیٖس نے اس حکم پر عمل نہ کیا وہ روز بروز گھوڑے کا دانہ کم کرتا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ایک روز اُسے اپاہج اور اندھا سمجھ کر اصطبل سے نکال دیا۔ بے چارہ گھوڑا رات بھر بھوکا پیاسا، بارش اور طوفان میں باہر کھڑا رہا۔ جب صبح ہوئی تو جوں توں کر کے وہاں سے چل دیا۔

اِسی شہر عادِل آباد میں ایک بڑی مسجد تھی اور ایک بڑا مندر۔ اُن میں نیک ہندو اور مسلمان آ کر اپنے اپنے ڈھنگ سے خدا کی عبادت کرتے اور اُس کو یاد کرتے تھے۔ مندر اور مسجد کے بیچ میں ایک بہت اونچا مکان تھا، اُس کے بیچ میں ایک بڑا سا کمرا تھا۔ کمرے میں ایک بہت بڑا گھنٹا لٹکا ہوا تھا اور اس میں ایک لمبی سی رسی بندھی ہوئی تھی۔ اُس گھر کا دروازہ دن رات کھُلا رہتا۔ شہر عادِل آباد میں جب کوئی کسی پر ظلم کرتا، یا کسی کا مال دبا لیتا، یاکسی کا حق مار لیتا، تو وہ اُس گھر میں جاتا، رسّی پکڑ کر کھینچتا، یہ گھنٹا اِس زور سے بجتا کہ سارے شہر کو خبر ہو جاتی۔ گھنٹے کے بجتے ہی شہر کے سچے، نیک دِل ہندو مسلمان وہاں آ جاتے اور فریادی کی فریاد سُن کر انصاف کرتے۔

اتفاق کی بات کہ اندھا گھوڑا بھی صبح ہوتے ہوتے اُس گھر کے دروازے پر جا نکلا۔ دروازے پر کچھ روک ٹوک تو تھی نہیں، گھوڑا سیدھا گھر میں گھس گیا۔ بیچ میں رسی لٹکی تھی، یہ غریب مارے بھوک کے ہر چیز پر منھ چلاتا تھا، رسی جو اُس کے بدن سے لگی تو وہ اُسی کو چبانے لگا۔ رسی جو ذرا کھنّچی تو گھنٹا بجا۔ مسلمان مسجد میں نماز کے لیے جمع تھے، پجاری مندر میں پوجا کر رہے تھے۔ گھنٹا جو بجا تو سب چونک پڑے اور اپنی اپنی عبادت ختم کر کے سب اُس گھر میں آن کر جمع ہو گئے۔ شہر کے پنچ بھی آ گئے۔ پنچوں نے پوچھا:’’یہ اندھا گھوڑا کس کاہے ؟‘‘ لوگوں نے بتایا: ’’یہ فلاں تاجر کا ہے۔ اِس گھوڑے نے تاجر کی جان بچائی تھی۔ ‘‘ پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ تاجر نے اُسے نکال باہر کیا ہے۔ پنچوں نے تاجر کو بُلوایا۔ ایک طرف اندھا گھوڑا تھا، اُس کی زبان نہ تھی جو شکایت کرتا۔ دوسری طرف تاجر کھڑا تھا، شرم کے مارے اُس کی آنکھیں جھکی تھیں۔ پنچوں نے کہا :’’ تم نے اچھا نہیں کیا۔اِس گھوڑے نے تمھاری جان بچائی اور تم نے اِس کے ساتھ کیا کیا ؟ تم آدمی ہو، یہ جانور ہے۔ آدمی سے اچھا تو جانور ہی ہے۔ ہمارے شہر میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہر ایک کو اُس کا حق ملتا ہے اور احسان کا بدلہ احسان سمجھا جاتا ہے۔

تاجر کا چہرہ شرم سے سُرخ ہو گیا، اُس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ بڑھ کر اُس نے گھوڑے کی گردن میں ہاتھ ڈال دیا۔

اُس کا مُنھ چوما اور کہا :’’ میرا قُصور معاف کر۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے وفادار گھوڑے کو ساتھ لیا اور گھر لے آیا۔ پھر اُس کے لیے ہر طرح کے آرام کا اِنتظام کر دیا۔

٭٭٭

 

 

بھولا

 

                (راجندر سنگھ بیدی)

 

میں نے مایا کو پتھر کے ایک کوزے میں مکھّن رکھتے دیکھا۔ چھاچھ کی کھٹاس کو دور کرنے کے لیے مایا نے کوزے میں پڑے ہوئے مکھن کو کنویں کے صاف پانی سے کئی بار دھویا۔ اس طرح مکھن کے جمع کرنے کی کوئی خاص وجہ تھی۔ ایسی بات عموماً مایا کے کسی عزیز کی آمد کا پتا دیتی تھی۔ ہاں ! اب مجھے یاد آیا۔ دو دن کے بعد مایا کا بھائی اپنی بیوہ بہن سے راکھی بندھوانے کے لیے آنے والا تھا۔ یوں تو اکثر بہنیں بھائیوں کے ہاں جا کر انھیں راکھی باندھتی ہیں مگر مایا کا بھائی اپنی بہن اور بھانجے سے ملنے کے لیے خود ہی آ جایا کرتا تھا اور راکھی بندھوا لیا کرتا تھا۔ راکھی بندھوا کروہ اپنی بیوہ بہن کو یہی یقین دلاتا تھا کہ اگرچہ اس کا سہاگ لٹ گیا ہے مگر جب تک اس کا بھائی زندہ ہے، اس کی رکھشا، اس کی حفاظت کی ذمے داری اپنے کندھوں پر لیتا ہے۔ ننھے بھولے نے میرے اس خیال کی تصدیق کر دی۔ گنّا چوستے ہوئے اُس نے کہا: ’’ بابا ! پرسوں ماموں جی آئیں گے نا۔۔۔۔؟‘‘

میں نے اپنے پوتے کو پیار سے گود میں اٹھا لیا۔ بھولے کا جسم بہت نرم و نازک تھا اور اس کی آواز بہت سُریلی تھی۔ جیسے کنول کی پتیوں کی نزاکت اور سفیدی، گلاب کی سرخی اور بلبل کی خوش الحانی کو اکھٹا کر دیا ہو۔ اگرچہ بھولا میری لمبی اور گھنی داڑھی سے گھبرا کر مجھے اپنا منھ چومنے کی اجازت نہ دیتا تھا تاہم میں نے زبردستی اس کے سُرخ گالوں پر پیار کی مہر ثبت کر دی۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا : ’’ بھولے تیرے ماموں جی تیری ماتا جی کے کیا ہوتے ہیں ؟‘‘بھولے نے کچھ وقت کے بعد جواب دیا ’’ ماموں جی !‘‘

مایا نے استوتر پڑھنا چھوڑ دیا اور ہنسنے لگی۔ میں اپنی بہو کے اس طرح کھل کر ہنسنے پر دل ہی دل میں بہت خوش ہوا۔ مایا بیوہ تھی اور سماج اسے اچھے کپڑے پہننے اور خوشی کی بات میں حصہ لینے سے بھی روکتا تھا۔ میں نے بار ہا مایا کو اچھے کپڑے پہننے ہنسنے کھیلنے کی تلقین کرتے ہوئے سماج کی پروانہ کرنے کے لیے کہا تھا۔ مگر مایا نے خو د اپنے آپ کو سماج کے روح فرسا احکام کے تابع کر لیا تھا۔ اس نے اپنے تمام اچھے کپڑے اور زیورات کی پٹاری ایک صندوق میں مقفّل کر کے چابی ایک جوہڑ میں پھینک دی تھی۔

مایا نے ہنستے ہوئے اپنا پاٹھ جاری رکھا۔

ہری ہری ہری ہر، ہری ہر، ہری

میر ی بار دیر کیوں اتنی کری

پھر اس نے اپنے لال کو پیار سے بلاتے ہوئے کہ ’’بھولے!۔۔ تم ننھی کے کیا ہوتے ہو ؟‘‘

’’ بھائی !‘‘ بھولے نے جواب دیا۔

’’ اسی طرح تیرے ماموں جی میرے بھائی ہیں۔‘‘

بھولا یہ بات نہ سمجھ سکا کہ ایک ہی شخص کس طرح ایک ہی وقت میں کسی کا بھائی اور کسی کا ماموں ہو سکتا ہے۔ وہ تو اب تک یہی سمجھتا آیا تھا کہ اس کے ماموں جان اس کے بابا جی کے بھی ماموں جی ہیں۔ بھولے نے اس مخمصے میں پڑنے کی کوشش نہ کی اور اچک کر ماں کی گود میں جا بیٹھا اور اپنی ماں سے گیتا سننے کے لیے اصرار کرنے لگا۔ وہ گیتا محض اس وجہ سے سنتا تھا کہ وہ کہانیوں کا شوقین تھا اور گیتا کے ادھیائے کے آخر میں مہاتم سن کر وہ بہت خوش ہوتا اور پھر جوہڑ کے کنارے پھیلی ہوئی دوپ کی مخملی تلواروں میں بیٹھ کر گھنٹوں ان مہاتموں پر غور کیا کرتا۔

مجھے دوپہر کو اپنے گھر سے چھے میل دور اپنے مزارعوں کو ہل پہنچانے تھے۔ بوڑھا جسم، اس پر مصیبتوں کا مارا ہوا، جوانی کے عالم میں تین تین من بوجھ اٹھا کر دوڑا کیا۔ مگر اب بیس سیر بوجھ کے نیچے گردن پچکنے لگتی ہے۔ بیٹے کی موت نے امید کو یاس میں تبدیل کر کے کمر تو ڑ دی تھی۔ اب میں بھولے کے سہارے ہی جیتا تھا ورنہ دراصل تو مر چکا تھا۔

رات کو میں تکان کی وجہ سے بستر پر لیٹتے ہے اونگھنے لگا۔ ذرا توقف کے بعد مایا نے مجھے دودھ پینے کے لیے آواز دی۔ میں اپنی بہو کی سعادت مندی پر دل ہی دل میں بہت خوش ہوا اور اسے سنکڑوں دعائیں دیتے ہوئے میں نے کہا : ’’ مجھ بوڑھے کی اتنی پروانہ کیا کرو بٹیا۔‘‘

بھولا ابھی تک نہ سویا تھا اس نے ایک چھلانگ لگائی اور میرے پیٹ پر چڑھ گیا۔ بولا : ’’ بابا جی ! آپ آج کہانی نہیں سنائیں گے کیا ؟‘‘

نہیں بیٹا۔‘‘ میں نے آسمان پر نکلے ہوئے ستاروں کو دیکھتے ہوئے کہا : ’’ میں آج بہت تھک گیا ہوں۔ کل دوپہر کو تمھیں سناؤں گا۔‘‘

بھولے نے روٹھتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ میں تمھارا بھولا نہیں بابا۔ میں ماتا جی کا بھولا ہوں۔‘‘

بھولا بھی جانتا تھا کہ میں نے اس کی ایسی بات کبھی برداشت نہیں کی۔ میں ہمیشہ اس سے یہی سننے کا عادی تھا کہ  ’’بھولا بابا جی کاہے اور ماتا جی کا نہیں ‘‘ مگر اس دن ہلوں کا کندھے پر اٹھا کر چھے میل تک لے جانے اور پیدل ہی واپس آنے کی وجہ سے میں بہت تھک گیا تھا۔ شاید میں اتنا نہ تھکتا، اگر میرا نیا جوتا ایڑی کو نہ دباتا اور اس وجہ سے میرے پاؤں میں ٹیسیں نہ اٹھتیں۔ اس غیر معمولی تھکن کے باعث میں نے بھولے کی وہ بات بھی برداشت کی۔ میں آسمان پر ستاروں کو دیکھنے لگا۔ آسمان کے جنوبی گوشے میں ایک ستارہ مشعل کی طرح روشن تھا۔ غور سے دیکھنے پر وہ مدھم سا ہونے لگا۔ میں اونگھتے اونگھتے سوگیا۔

صبح ہوتے ہی میرے دل میں خیال آیا کہ بھولا سوچتا ہو گا کہ کل رات بابا نے میری بات کس طرح برداشت کی ؟ میں اس خیال سے لرز گیا کہ بھولے کے دل میں کہیں یہ خیال نہ آیا ہو کہ اب بابا میری پروا نہیں کرتے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ صبح کے وقت اس نے میری گود میں آنے سے انکار کر دیا اور بولا :

’’ میں نہیں آؤں گا۔تیرے پاس بابا ؟‘‘

’’ کیوں بھولے ؟‘‘

’’ بھولا بابا جی کا نہیں۔ بھولا ماتا جی کا ہے۔‘‘

میں نے بھولے کو مٹھائی کے لالچ سے منا لیا اور چند ہی لمحات میں بھولا بابا جی کا بن گیا اور میری گود میں آ گیا اور اپنی ننھی ٹانگوں کے گرد میرے جسم سے لپٹے ہوئے کمبل کو لپیٹنے لگا۔ مایا ہری ہر استو تر پڑھ رہی تھی۔ پھر اس نے پاؤ بھر مکھّن نکالا اور اسے کوزے میں ڈال کر کنویں کے صاف پانی سے چھا چھ کی کھٹاس کو دھو ڈالا۔ اب مایا نے اپنے بھائی کے لیے سیر کے قریب مکھّن تیار کر لیا۔ میں بہن بھائی کے اس پیار کے جذبے پر دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا۔ اتنا خوش کہ میری آنکھوں میں آنسو ٹپک پڑے۔ میں نے دل میں کہا : عورت کا دل محبت کا ایک سمندر ہوتا ہے کہ ماں، باپ، بھائی بہن، خاوند بچے سب سے وہ بہت ہی پیار کرتی ہے اور اتنا کرنے پر بھی وہ ختم نہیں ہوتا۔ ایک دل کے ہوتے ہوئے بھی وہ سب کو اپنا دل دے دیتی ہے۔ بھولے نے دونوں ہاتھ میرے گالوں کی جھریوں پر رکھے۔ مایا کی طرف سے چہرے کو ہٹا کر اپنی طرف کر لیا اور بولا :

’’ بابا تمھیں اپنا وعدہ یاد ہے نا۔۔؟‘‘

’’ کس بات کا۔۔۔بیٹا ؟‘‘

’’ تمھیں آج دوپہر کو مجھے کہانی سنانی ہے۔‘‘

’’ ہاں بیٹا۔۔!‘‘ میں نے اس کا منھ چومتے ہوئے کہا

یہ تو بھولا ہی جانتا ہو گا کہ اس نے دوپہر کے آنے کا کتنا انتظار کیا۔ بھولے کو اس بات کا علم تھا کہ بابا جی کے کہانی سنانے کا وقت وہی ہوتا ہے جب وہ کھانا کھا کر اس پلنگ پر جا لیٹتے ہیں جس پر وہ بابا جی یا ماتا جی کی مدد کے بغیر نہیں چڑھ سکتا تھا۔ چنانچہ وقت سے آدھ گھنٹہ پیشتر ہی اس نے کھانا نکلوانے پر اصرار شروع کر دیا۔ میرے کھانے کے لیے نہیں بلکہ اپنی کہانی سننے کے چاؤ سے۔

میں نے معمول سے آدھ گھنٹہ پہلے کھانا کھایا۔ ابھی آخری نوالہ میں نے توڑا ہی تھا کہ پٹواری نے دروازے پر دستک دی۔ اس کے ہاتھ میں ایک ہلکی سے جریب تھی۔ اس نے کہا کہ خانقاہ والے کنویں پر آپ کی زمین کو ناپنے کے لیے مجھے آج ہی فرصت مل سکتی ہے، پھر نہیں۔

دالان کی طرف نظر دوڑائی تو میں نے دیکھا۔ بھولا چار پائی کے چاروں طرف گھوم کر بستر بچھا رہا تھا۔ بستر بچھانے کے بعد اس نے ایک بڑا سا تکیہ بھی ایک طرف رکھ دیا اور خود پائینتی میں پاؤں اڑا کر چار پائی پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ اگرچہ بھولے کا مجھے اصرار سے جلد روٹی کھلانا اور بستر بچھا کر میری تواضع کرنا اپنی خود غرضی پر مبنی تھا تاہم میرے خیال میں آیا۔

’’آخر مایا ہی کا بیٹا ہے نہ۔۔۔ایشور اس کی عمر دراز کرے۔‘‘

میں نے پٹواری سے کہا، تم خانقاہ والے کنویں کو چلو اور میں تمھارے پیچھے پیچھے آ جاؤں گا۔ جب بھولے نے دیکھا کہ میں باہر جانے کے لیے تیار ہوں تو اس کا چہرہ اس طرح مدھم پڑ گیا جیسے گزشتہ شب کو آسمان کے ایک کونے میں مشعل کی مانند روشن ستارہ مسلسل دیکھتے رہنے کی وجہ سے ماند پڑ گیا تھا۔ مایا نے کہا :

’’ بابا جی، اتنی بھی کیا جلدی ہے۔ ؟ خانقاہ والا کنواں کہیں بھاگا تو نہیں جاتا۔۔ آپ کم سے کم آرام تو کر لیں۔‘‘

اوہوں۔‘‘ میں نے زیر لب کہا ’’ پٹواری چلا گیا تو پھر یہ کام ایک ماہ سے ادھر نہ ہو سکے گا۔‘‘

مایا خاموش ہو گئی۔بھولا منھ بسورنے لگا۔ اس کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ اس نے کہا: ’’ بابا میری کہانی۔۔۔میر ی کہانی۔۔۔‘‘

’’ بھولے۔۔۔میرے بچے ؟ میں نے بھولے کو ٹالتے ہوئے کہا۔‘‘ دن کو کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں۔‘‘

’’ راستہ بھول جاتے ہیں !‘‘ بھولے نے سوچتے ہوئے کہا۔’’بابا تم جھوٹ بولتے ہو۔۔۔میں بابا جی کا بھولا نہیں بنتا۔‘‘

اب جب کہ میں تھکا ہوا بھی نہیں تھا اور پندرہ بیس منٹ آرام کے لیے نکال سکتا تھا، بھلا بھولے کی اس بات کو آسانی سے کس طرح برداشت کر لیتا۔ میں نے اپنے شانے سے چادر اتار کر چار پائی کی پائینتی پر رکھی اور اپنی دبی ہوئی ایڑی کو جوتی کی قید با مشقت سے نجات دلاتے ہوئے پلنگ پر لیٹ گیا۔ بھولا پھر اپنے بابا کا بن گیا۔ لیٹتے ہوئے میں نے بھولے سے کہا : ’’ اب کوئی مسافر راستہ کھو بیٹھے۔۔تو اس کے تم ذمے دار ہو:‘‘

اور میں نے بھولے کو دوپہر کے وقت سات شہزادوں اور سات شہزادیوں کی ایک لمبی کہانی سنائی۔ کہانی میں ان کی باہمی شادی کو میں نے معمول سے زیادہ دلکش انداز میں بیان کیا۔ بھولا ہمیشہ اس کہانی کو پسند کرتا تھا جس کے آخر میں شہزادہ اور شہزادی کی شادی ہو جائے مگر میں نے اس روز بھولے کے منھ پر خوشی کی کوئی علامت نہ دیکھی بلکہ وہ ایک افسردہ سا منھ بنائے خفیف طور پر کانپتا رہا۔

اس خیال سے کہ پٹواری خانقاہ والے کنویں پر انتظار کرتے کرتے تھک کر اپنی ہلکی ہلکی جھنکا ر پیدا کرنے والی جریب جیب میں ڈال کر کہیں اپنے گاؤں کا رخ نہ کر لے۔ میں جلدی جلدی مگر اپنے نئے جوتے میں دبتی ہوئی ایڑی کی وجہ سے لنگڑاتا ہوا بھاگا۔ گو مایا نے جوتی کو سرسوں کا تیل لگا دیا تھا۔ تاہم وہ نرم مطلق نہ ہوئی تھی۔

شام کو جب میں واپس آیا تو میں نے بھولے کو خوشی سے دالان سے صحن میں اور صحن سے دالان میں کودتے پھاندتے دیکھا۔  وہ لکڑی کے ایک ڈنڈے کو گھوڑا بنا کر اسے بھگا رہا تھا اور کہہ رہا تھا :

’’ چل ماموں جی کے دیس۔۔۔۔رے گھوڑے، ماموں جی کے دیس۔

ماموں جی کے دیس، ہاں ہاں، ماموں جی کے دیس۔ گھوڑے۔۔۔‘‘

جوں ہی میں نے دہلیز میں قدم رکھا۔ بھولے نے اپنا گانا ختم کر دیا اور بولا۔

’’ بابا۔۔۔آج ماموں جی آئیں گے نا۔۔؟‘‘

’’ پھر کیا ہو گا بھولے۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ ماموں جی اگن بوٹ لائیں گے۔ ماموں جی کلّو ( کتا ) لائیں گے۔ ماموں جی کے سر پر مکّی کے بھٹوں کا ڈھیر ہو گا نا بابا۔ ہمارے یہاں تو مکّی ہوتی ہی نہیں بابا۔ اور تو اور ایسی مٹھائی لائیں گے جو آپ نے خواب میں بھی نہ دیکھی ہو گی۔ ‘‘

میں حیران تھا اور سوچ رہا تھا کہ کس خوبی سے ’’ خواب میں بھی نہ دیکھی ہو گی ‘‘ کے الفاظ سات شہزادوں اور سات شہزادیوں والی کہانی کے بیان میں سے اس نے یاد رکھے تھے۔ ’’ جیتا رہے ‘‘ میں نے دعا دیتے ہوئے کہا ’’ بہت ذہین لڑکا ہو گا اور ہمارے نام کو روشن کرے گا۔‘‘

شام ہوتے ہی بھولا دروازے میں جا بیٹھا تاکہ ماموں کی شکل دیکھتے ہی اندر کی طرف دوڑے اور پہلے پہل اپنی ماتا جی کو اور پھر مجھے اپنے ماموں جی کے آنے کی خبر سنائے۔

دیوں کو دیا سلائی دکھائی گئی۔ جوں جوں رات کا اندھیرا گہرا ہوتا جاتا دیوں کی روشنی زیادہ ہوتی جاتی۔

متفکرانہ لہجے میں مایا نے کہا :

’’ بابا جی۔ بھیّا ابھی تک نہیں آئے۔‘‘

’’ کسی کام کی وجہ سے ٹھہر گئے ہوں گے۔‘‘

’’ ممکن ہے کوئی ضروری کام آ پڑا ہو۔۔۔۔ راکھی کے روپئے ڈاک میں بھیج دیں گے۔۔۔۔۔۔ ‘‘

’’ مگر راکھی ؟‘‘

’’ ہاں راکھی کی کہو۔۔انھیں اب تک تو آ جانا چاہیے تھا۔‘‘

میں نے بھولے کو زبردستی دروازے کی دہلیز پر سے اُٹھایا۔ بھولے نے اپنی ماتا سے بھی زیادہ متفکرانہ لہجے میں کہا :’’ ماتا جی۔۔ماموں جی کیوں نہیں آئے ؟‘‘

مایا نے بھولے کو گود میں اُٹھاتے ہوئے اور پیار کرتے ہوئے کہا۔’’ شاید صبح کو  آ جائیں۔ تیرے ماموں جی۔ میرے بھولے۔‘‘

پھر بھولے نے اپنے نرم و نازک بازوؤں کو اپنی ماں کے گلے میں ڈالتے ہوئے کہا :

’’ میرے ماموں جی تمھارے کیا ہوتے ہیں ؟‘‘

’’ جو تم ننھی کے ہو۔‘‘

’’ بھائی ؟‘‘

’’ تم جانو۔۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

چندرو کی دُنیا

 

                ( کرشن چندر )

 

کراچی میں بھی اس کا یہی دھندا تھا اور  باندرے آ کر بھی یہی دھندا رہا۔ جہاں تک اس کی ذات کا تعلق تھا، کوئی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ وہ کراچی میں بھی سدّھو حلوائی کے گھر کی سیڑھیوں کے پیچھے ایک تنگ و تاریک کوٹھری میں سوتا تھا اور باندرے میں وہی سیڑھیوں کے عقب میں اسے جگہ ملی تھی۔ کراچی میں اس کے پاس ایک میلا کچیلا بستر، زنگ آلود پترے کا ایک چھوٹا سا سیاہ ٹرنک اور ایک پیتل کا لوٹا تھا۔ یہاں پر بھی وہی سامان تھا۔ ذہنی لگاؤ نہ اسے کراچی سے تھا نہ بمبئی سے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اسے معلوم ہی نہ تھا ذہنی لگاؤ کسے کہتے ہیں، کلچر کسے کہتے ہیں، حُبّ الوطنی کیا ہوتی ہے اور کس بھاؤ سے بیچی جاتی ہے۔ وہ ان سب نئے دھندوں سے واقف نہ تھا۔ بس اسے اتنا یاد تھا کہ جب اس نے آنکھ کھولی تو اپنے کو سدّھو حلوائی کے گھر میں برتن مانجتے، جھاڑو دیتے، پانی ڈھوتے، فرش صاف کرتے اور گالیاں کھاتے پایا۔اسے ان باتوں کا کبھی ملا ل نہ ہوا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ کام کرنے اور گالیاں کھانے کے بعد ہے روٹی ملتی ہے اور اس قسم کے لوگوں کو ایسے ہی ملتی ہے۔ علاوہ ازیں سدّھو حلوائی کے گھر میں اس کا جسم تیزی سے بڑھ رہا تھا اور اسے روٹی کی شدید ضرورت رہتی تھی اور ہر وقت محسوس ہوتی رہتی تھی۔ اس لیے وہ حلوائی کے جھوٹے سالن کے ساتھ ساتھ اس کی گالی کو بھی روٹی کے ٹکڑے میں لپیٹ کے نگل جاتا تھا۔

اس کے ماں باپ کون تھے، کسی کو پتا نہ تھا۔ خود چندرو نے کبھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ البتہ سدّھو حلوائی اسے گالیاں دیتا ہوا اکثر کہا کرتا تھا کہ وہ چندرو کو سڑک پر سے اُٹھا کر لایا ہے۔ اس پر چندرو نے کبھی حیرت کا اظہار نہیں کیا۔ نہ سدّھو کے لیے شکریے کے نرم جذبے کا اس کے دِل تک گزر ہوا۔ کیونکہ چندرو کو کوئی دوسری زندگی یاد نہیں تھی۔ اسے بس اتنا معلوم تھا کہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے ماں باپ ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے ماں باپ نہیں ہوتے۔ کچھ لوگ گھر والے ہوتے ہیں، کچھ لوگ سیڑھیوں کے پیچھے سونے والے ہوتے ہیں، کچھ لوگ گالیاں دیتے ہیں، کچھ لوگ گالیاں سہتے ہیں۔ ایک کام کرتا ہے دوسرا کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ بس ایسی ہی یہ دُنیا اور ایسی ہی رہے گی۔ وہ خانوں میں بٹی ہوئی یعنی ایک وہ جو اوپر والے ہیں، دوسرے وہ جو نیچے والے ہیں۔ ایسا کیوں ہے اور ایسا کیوں نہیں ہے اور جو ہے وہ کب کیوں اور کیسے بہتر ہو سکتا ہے ؟ وہ یہ سب کچھ نہیں جانتا تھا اور نہ اس قسم کی باتوں سے کوئی دلچسپی رکھتا تھا۔ البتہ جب کبھی وہ اپنے ذہن پر بہت زور دے کر سوچنے کی کوشش کرتا تھا تو اس کی سمجھ میں یہی آتا تھا کہ جس طرح وہ سٹے کے نمبر کا داؤ لگانے کے لیے کبھی کبھی ہوا میں سکہ اُچھال کر ٹاس کر لیتا ہے۔ اسی طرح اس کے پیدا کرنے والے نے اس کے لیے ٹاس کر لیا ہو گا اور اسے اس خانے میں ڈال دیا ہو گا اجو اس کی قسمت تھی۔

یہ کہنا بھی غلط ہو گا کہ چندرو کو اپنی قسمت سے کوئی شکایت تھی ہر گز نہیں ! وہ ایک خوش باش، محنت کرنے والا، بھاگ بھاگ کر جی لگا کر خوش مزاجی سے کام کرنے والا لڑکا تھا۔ وہ رات دِن اپنے کام میں اس قدر مشغول رہتا تھا کہ اسے بیمار پڑنے کی بھی کبھی فرصت نہیں ملی۔ کراچی میں تو وہ ایک چھوٹا سا لڑکا تھا۔ مگر بمبئی آ کر تو اس کے ہات پاؤں اور کھلے اور بڑھے، سینہ پھیلا، گندمی رنگ صاف ہونے لگا، بالوں میں لچھے سے پڑنے لگے، آنکھیں زیادہ روشن اور بڑی معلوم ہونے لگیں۔ اس کی آنکھیں اور ہونٹ دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ اس کی ماں ضرور کسی بڑے گھر کی رہی ہو گی۔

چندرو کی دُنیا میں آواز کا اس حد تک گزر تھا کہ وہ سن سکتا تھا۔ بول نہیں سکتا تھا۔ عام طور پر گونگے بہرے بھی ہوتے ہیں۔ مگر وہ صرف گونگا تھا بہرا نہ تھا۔ اس لیے حلوائی ایک دفعہ اسے بچپن میں ایک ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا۔ ڈاکٹر نے چندرو کا معائنہ کرنے کے بعد حلوائی سے کہا کہ چندرو کے حلق میں کوئی پیدائشی نقص ہے۔ مگر آپریشن کرنے سے یہ نقص دور ہو سکتا ہے اور چندرو کو بولنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے مگر حلوائی نے کبھی اس نقص کو آپریشن کے ذریعے دور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ سدّھو نے سوچا یہ تو بہت اچھا ہے کہ نوکر گالی سن سکے مگر اس کا جواب نہ دے سکے۔

چندرو کا یہ نقص سدّھو کی نگاہ میں اس کی سب سے بڑی خوبی بن گیا۔ اس دُنیا میں مالکوں کی آدھی زندگی اسی فکر میں گزر جاتی ہے کہ کسی طرح وہ اپنے نوکروں کو گونگا کر دیں۔ اس کے لیے قانون پاس کیے جاتے ہیں، پارلیمنٹیں سجائی جاتی ہیں، اخبار نکالے جاتے ہیں، پولیس اور فوج کے پہرے بٹھائے جاتے ہیں۔ سن لو مگر جواب نہ دو۔

اور چندرو تو پیدائشی گونگا تھا۔ یقیناً سدّھو ایسا احمق نہیں ہے کہ اس کا آپریشن کروائے۔ سدّھو بھی دِل کا برا نہیں تھا۔ اپنے مخصوص حالات میں، مخصوص حدود کے اندر رہ کر اپنا مخصوص زاویہ نگاہ رکھتے ہوئے وہ چندرو کو اپنے طریقے سے چاہتا بھی تھا۔ وہ سمجھتا تھا اور اس بات پر خوش تھا، اور اکثر اس کا فخریہ اظہار بھی کیا کرتا تھا کہ اس نے چندرو کی پرورش ایک بیٹے کی طرح کی ہے۔ کون کسی یتیم بچے کی اس طرح پرورش کرتا ہے۔ اس طرح پالتا پوستا بڑا کرتا ہے۔ کون اس طرح اسے کام پر لگاتا ہے۔ جب تک چندرو کا لڑکپن تھا، سدّھو اس سے گھر کا کام لیتا رہا۔ جب چندرو لڑکپن کی حدود پھلانگنے لگا، سدّھو نے اس کی خاطر ایک نیا دھندا شروع کیا۔

حلوائی کی دُکان پر اس کے اپنے بیٹے بیٹھتے تھے۔ اس نے چندرو کے لیے چاٹ بیچنے کا دھندا طے کیا۔ ہولے ہولے اس نے چندرو کو چاٹ بنانے کا فن سکھا دیا۔ جل جیرہ اور کانجی بنانے کا فن،گول گپے اور دہی بڑے بنانے کے طریقے،چٹخارہ پیدا کرنے والے تیکھے مصالحے، کرکری پاپڑیاں اور چنے کا لذیذ مرچیلا سالن، بھٹورے بنانے اور تلنے کے انداز، پھر سموسے اور آلو کی ٹکیاں بھرنے کا کام، پھر چٹنیاں،لہسن کی چٹنی، لال مرچ کی چٹنی، ہرے پودینے کی چٹنی، کھٹی چٹنی، میٹھی چٹنی، ادرک کی چٹنی اور پیاز اور انار دانے کی چٹنی۔

پھر انواع و اقسام کی چاٹیں پروسنے کا انداز۔ دہی بڑے کی چاٹ، کانجی کے بڑے کی چاٹ، میٹھی چٹنی کے پکوڑوں کی چاٹ، آلو کی چاٹ، آلو اور آلو پاپڑی کی چاٹ، ہری مونگ کے گول گپے، آلو کے گول گپے، کانجی کے گول گپے، ہرے مصالحے کے گول گپے۔

جتنے برسوں میں چندرو نے یہ کام سیکھا اتنے برسوں میں ایک لڑکا ایم۔ اے پاس کر لیتا ہے۔ پھر بھی بے کار رہتا ہے۔ مگر سدّھو کا گھر بے کار گریجویٹوں کو اگلنے کی یونیورسٹی نہیں تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ چندرو اپنے کام میں مشاق ہو گیا ہے اور جوان ہو گیا ہے تو اس نے چار پہیوں والی ایک ہاتھ گاڑی خریدی۔ چاٹ کے تھال سجائے اور چندرو کو چاٹ بیچنے پر لگا دیا، ڈیڑھ روپیہ روز پر۔

جہاں چندرو چاٹ بیچنے لگا وہاں اس کا کوئی مد مقابل نہ تھا۔ سدّھو نے بہت سوچ سمجھ کے یہ جگہ انتخاب کی تھی۔ کھار لنکنگ روڈ پر اور پالی ہل کے چوراہے کے قریب ٹیلیفون ایکسچینج کے سامنے اس نے چاٹ کی پہیوں والی سائیکل گاڑی کو کھڑا کیا۔ یہ جگہ بہت با رونق تھی۔ ایک طرف یونین بینک تھا، دوسری طرف ٹیلیفون ایکسچینج۔ تیسری طرف ایرانی کی دُکان، چوتھی طرف گھوڑ بندر روڈ کا ناکہ۔ بیچ میں شام کے وقت کھاتے پیتے خوش باش خوش لباس نوجوان لڑکے لڑکیوں کا ہجوم بہتا تھا۔ چندرو کی چاٹ ہمیشہ تازہ عمدہ اور کراری ہوتی تھی۔

وہ بول نہیں سکتا تھا مگر اس کی مسکراہٹ بڑی دلکش ہوتی تھی۔ اس کا سودا ہمیشہ کھرا ہوتا تھا۔ ہات صاف اور تول پورا۔ گاہک کو اور کیا چاہیے ؟ چندرو کی چاٹ اس نو آبادی میں چاروں طرف مقبول ہوتی گئی اور شام کے وقت اس کے ٹھیلے کے چاروں طرف نوجوان لڑکے لڑکیوں کا ہجوم رہنے گا۔ چندرو کو سدّھو نے ڈیڑھ روپیہ روز پر لگایا تھا۔ اب اسے تین روپئے روز دیتا تھا اور چندرو جو ڈیڑھ روپے روز میں خوش تھا، اب تین روپیہ پاکر بھی خوش تھا کیونکہ خوش رہنا اس کی عادت تھی۔ اسے کام کرنا پسند تھا اور وہ اپنا کام جانتا تھا اور اپنے کام سے اسے لگن تھی۔ وہ اپنے گاہکوں کو خوش کرنا جانتا تھا اور انھیں خوش کرنے میں اپنی خوشی محسوس کرتا تھا۔ دن بھر وہ چاٹ تیار کرنے میں مصروف رہتا۔ شام کے چار بجے وہ چاٹ گاڑی لے کر ناکے پر جاتا۔ چار سے آٹھ بجے تک ہاتھ رو کے بغیر، آرام کا سانس لیے بغیر، وہ جلدی جلدی کام کرتا۔ آٹھ بجے اس کا ٹھیلا خالی ہو جاتا اور وہ اسے لے کر اپنے مالک کے گھر واپس آ جاتا۔ کھانا کھا کر سنیما چلا جاتا۔ بارہ بجے رات کو سنیما سے لوٹ کر اپنی چٹائی بچھا کر سیڑھیوں کے پیچھے سو جاتا اور صبح پھر اپنے کام پر۔

یہ اس کی زندگی تھی۔ یہ اس کی دُنیا تھی۔ وہ بے فکر اور زندہ دل تھا۔ نہ ماں نہ باپ نہ بھائی نہ بہن۔نہ بچے نہ بیوی۔ دوسرے لوگوں کے بہت سے خانے ہوتے ہیں۔ اس کا صرف ایک ہی خانہ تھا۔ دوسرے لوگ بہت سے ٹکڑوں میں بٹے ہوتے ہیں اور ان ٹکڑوں کو جوڑ کر ہی ان کی شخصیت دیکھی جا سکتی ہے مگر چندرو ایک ہی لکڑی کا تھا اور لکڑی کے ایک ہی ٹکڑے سے بنا تھا۔ جیسا وہ اندر سے تھا ویسا ہی وہ باہر سے بھی نظر آتا تھا۔ وہ اپنی ذات میں بے جوڑ اور مکمل تھا۔

سانولی پارو کواسے پریشان کرنے میں بڑا مزہ آتا تھا۔ کانوں میں چاندی کے بالے جھلاتی، پاؤں میں چھوٹی سی پازیب کھنکاتی جب وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ اس کے ٹھیلے کے گرد کھڑی ہو جاتی تو چندرو سمجھ جاتا کہ اب اس کی شامت آئی ہے۔دہی بڑے کی پتل تقریباً چاٹ کر وہ ذرا سا دہی بڑا اس پر لگا رہنے دیتی اور پھر اسے دکھا کر کہتی۔

’’ ابے گونگے، تو بہر ا بھی ہے کیا ؟میں نے دہی بڑے نہیں مانگے تھے دہی پٹا کری مانگی تھی۔ اب اس کے پیسے کون دے گا۔ تیرا باپ ؟‘‘

اتنا کہہ کر وہ اس بڑے کی تقریباً خالی پتل کو اسے دکھا کر بڑی حقارت سے زمین پر پھینک دیتی۔ وہ جلدی جلدی اس کے لیے دہی پٹاکر ی بنانے لگتا۔ پارواس پٹاکری کی پتل صاف کر کے اس میں آدھی پٹاکری چھوڑ دیتی اور غُصّے سے کہتی۔

’’اتنی مرچ ڈال دی ؟ اتنی مرچی ؟ چاٹ بنانا نہیں آتا ہے تو ٹھیلہ لے کر ادھر کیوں آتا ہے ؟ لے اپنی پٹاکری واپس لے لے۔ ‘‘

اتنا کہہ کر وہ دہی اور چٹنی کی پٹاکری اپنے ناخن کی کور میں پھنسا کر اس کے ٹھیلے پر گھماتی۔ کبھی اسے جھوٹی پٹاکریوں کے تھال میں واپس ڈال دینے کی دھمکی دیتی۔ اس کی سہیلیاں ہنستیں۔ تالیاں بجاتیں۔ چندرو دونوں ہاتھوں سے ناں ناں کے اشارے کرتا ہوا پارو سے اپنی جھوٹی پٹاکری زمین پر پھینک دینے کا اِشارہ کرتا۔

’’ اچھا سمجھ گئی، تیرے چنوں کے تھال میں ڈال دوں ؟‘‘ وہ جان بوجھ کر اس کا اِشارہ غلط سمجھتی۔ جلدی جلدی گھبرائے ہوئے انداز میں چندرو زور زور سے سر ہلاتا پھر زمین کی طرف اِشارہ کرتا۔ پارو کھلکھلا کر کہتی۔

’’ اچھا زمین سے مٹی اُٹھا کر تیرے دہی کے برتن میں ڈال دوں ؟‘‘ پارو نیچے زمین سے تھوڑی سے مٹّی اُٹھا لیتی۔

اس پر چندرو اور بھی گھبرا جاتا۔ دونوں ہاتھ زور سے ہلا کر منع کرتا۔

بالآخر پارواسے دھمکاتی۔ ’’ تو چل جلدی سے آلو کی چھ ٹکیاں تل دے اور خوب گرم گرم مصالحے والے چنے دینا اور ادرک بھی نہیں تو یہ پٹاکری ابھی جائے گی تیرے کالے گلاب جامنوں کے برتن میں۔۔۔‘‘

چندرو خوش ہو کر پوری بتیسی نکال دیتا۔ ماتھے پر آئی ہوئی ایک گھنگریالی لٹ پیچھے کو ہٹا کے تولیے سے ہاتھ پونچھ کر جلدی سے پارو اور اس کی سہیلیوں کے لیے آلو کی ٹکیاں تلنے میں مصروف ہو جاتا۔

پھر کبھی کبھی پارو حساب میں بھی گھپلا کیا کرتی۔

’’ساٹھ پیسے کی ٹکیاں، تیس پیسے کی پٹاکری۔ دہی بڑے تو میں نے مانگے ہی نہیں تھے۔ اس کے پیسے کیوں ملیں گے تجھے۔۔؟ ہو گئے نوے پیسے دس پیسے کل کے باقی ہیں۔۔ لے ایک روپیہ۔ ‘‘

گونگا چندرو پیسے لینے سے انکار کرتا۔ وہ کبھی پارو کی شوخ چمکتی ہوئی شریر آنکھوں کو دیکھتا۔ کبھی اس کی لمبی لمبی انگلیوں میں کپکپاتے ایک روپے کے نوٹ کو دیکھتا اور سر ہلا کر انکار کر دیتا اور حساب سمجھانے بیٹھتا۔ وہ وقت قیامت کا ہوتا تھا جب وہ پارو کو حساب سمجھاتا تھا۔ دہی بڑے کے تھال کی طرف اشارہ کر کے اپنی انگلی کو اپنے منھ پر رکھ کر چپ چپ کی آواز پیدا کرتے ہوئے گویا اس سے کہتا۔

’’ دہی بڑے کھا تو گئی ہو۔ اس کے پیسے کیوں نہیں دو گی۔۔‘‘

’’تیس پیسے دہی بڑے کے بھی لاؤ۔ ‘‘ وہ اپنے گلّے میں سے تیس پیسے نکال کے پارو کو دکھاتا۔ اس پر فوراً چمک کر کہتی۔

’’اچھا تیس پیسے مجھے واپس دے رہے ہو؟ لاؤ۔۔‘‘

اس پر چندرو فوراً اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیتا۔ ’’ نہیں۔۔۔‘‘

انکار میں وہ سر ہلا کر پارو کو سمجھاتا۔

’’ مجھے نہیں تمھیں دینا ہوں گے یہ تیس پیسے۔ ‘‘ وہ اپنی تہدیدی انگلی پارو کی طرف بڑھا کے اِشارہ کر کے کہتا۔ اس پر پارو فوراً اسے ٹوک دیتی۔

’’ ابے اپنا ہاتھ پیچھے رکھ۔۔۔نہیں تو ماروں گی چپل۔‘‘

اس پر چندرو گھبرا جاتا۔ پارو کی ڈانٹ سے لاجواب ہو کر بالکل بے بس ہو کر مجبور اور خاموش نگاہوں سے پارو کی طرف دیکھنے لگتا کہ پارو کو اس پر رحم آ جاتا۔ جیب سے پورے پیسے نکال کے اسے دے دیتی اور بولتی۔۔

’’ تو بہت گھپلا کرتا ہے حساب میں۔ کل سے تیرے ٹھیلے پر نہیں آؤں گی۔ ‘‘

مگر دوسرے دن وہ پھر آ جاتی۔ اسے چندرو کو چھیڑنے میں مزہ آتا تھا اور اب چندرو کو بھی مزہ آنے لگا تھا۔ جس دن وہ نہیں آتی تھی۔ حالانکہ اس دن بھی اس کی گاہکی اور کمائی میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا مگر جانے کیا بات تھی چندرو کو وہ دن سونا سونا سا سلگتا تھا۔

جہاں پر اس کا ٹھیلا رکھا تھا وہ اس کے سامنے ایک گلی سے آتی تھی۔ پہلے پہل چندرو کا ٹھیلہ بالکل یونین بینک کے سامنے ناکے پر تھا۔ ہولے ہولے چندرو اپنے ٹھیلے کو کھسکاتے کھسکاتے پارو کی گلی کے بالکل سامنے لے آیا۔ اب وہ دور سے پارو کو اپنے گھر سے نکلتے دیکھ سکتا تھا۔ پہلے دن جب اس نے ٹھیلہ یہاں لگایا تھا تو پارو ٹھیلے کی بدلی ہوئی جگہ دیکھ کر کچھ چونکی تھی۔ کچھ غُصّے سے بھڑک گئی تھی۔

’’ ارے تو ناکے سے ادھر کیوں آ گیا گونگے ؟‘‘

گونگے چندرو نے ٹیلی فون ایکس چینج کی عمارت کی طرف اِشارہ کیا۔ جہاں وہ اب تک ٹھیلا لگاتا آرہا تھا۔ ادھر کیبل بچھانے کے لیے زمین کھودی جا رہی تھی اور بہت سے کالے کالے پائپ رکھے ہوئے تھے۔

وجہ معقول تھی پارو لاجواب ہو گئی۔ پھر کچھ نہیں بولی۔ لیکن جب کیبل بچھ گئی اور زمین کی مٹّی ہموار کر دی گئی تو بھی چندرو نے اپنا ٹھیلا نہیں ہٹایا۔ تو بھی وہ کچھ نہیں بولی۔ ہاں اس کے چنچل سبھاؤ میں ایک عجیب تیزی سی آ گئی۔ وہ اسے پہلے سے زیادہ ستانے لگی۔

پارو کی دیکھا دیکھی اس کی دوسری سہیلیاں بھی چندرو کو ستانے لگیں اور کئی چھوٹے چھوٹے لڑکے بھی۔ مگر لڑکوں کو تو چندرو ڈانٹ دیتا اور وہ جلدی سے بھاگ جاتے۔ ایک بار اس نے پارو کی سہیلیوں سے عاجز آ کر انھیں بھی ڈانٹ پلائی۔ تو اس پر پارو اس قدر ناراض ہوئی کہ اس نے ا گلے تین چار دنوں تک چندرو کو ستانا بند کر دیا اس پر چندرو کو ایسا لگا کہ آسمان اس پر ڈھے پڑا ہو۔یا اس کے پیروں تلے زمین پھٹ گئی ہو۔ یہ پارو مجھے ستاتی کیوں نہیں ہے ؟طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے اس نے چاہا کہ پارواسے ڈانٹ پلائے۔ لیکن جب اس پر بھی پارو کے انداز نہیں بدلے اور وہ ایک مہذب، متمدن، لیکن چاٹ بیچنے والے چندرو ایسے چھوکروں کو فاصلے پر رکھنے والی لڑکی کی طرح، اس سے چاٹ کھاتی رہی تو چندرو اپنی گونگی حماقتوں پر بہت نادم ہوا۔

ایک دفعہ اس نے بجائے پارو کے خود سے حساب میں گھپلا کر دیا۔ سواروپیہ بنتا تھا اس نے پارو سے پونے دو روپئے طلب کیے، جان بوجھ کر۔ خوب لڑائی ہوئی۔ جم کے لڑائی ہوئی۔ بالآخر سر جھکا کر چندرو نے اپنی غلطی تسلیم کر لی اور یہ گویا ایک طرح پچھلی تمام غلطیوں کی بھی تلافی تھی۔ چندرو بہت خوش ہوا کیونکہ پارو اور اس کی سہیلیاں اب پھر اسے ستانے لگی تھیں۔ بس اسے اتنا کچھ ہی چاہیے۔ ایک پازیب کی کھنک اور ایک شریر ہنسی جو پھلجھڑی کی طرح اس کی گونگی سنسان دنیا کے ویرانے کو ایک لمحے کے لیے روشن کر دے۔ پھر جب پارو کے قدم سہیلیوں کے قدموں میں گڈ مڈ ہوکے چلے جاتے۔ وہ اس پازیب کی کھنک کو دوسری پازیبوں کی کھنک سے الگ کر کے سنتا تھا۔ کیونکہ دوسری لڑکیاں بھی چاندی کی پازیبیں پہنتی تھیں مگر پارو کی پازیب کی موسیقی ہی کچھ اور تھی۔ یہ موسیقی جو اس کے کانوں میں نہیں اس کے دل کے کسی تنہا تاریک اور شرمیلے گوشے میں سنائی دیتی تھی۔ بس اتنا ہی کافی تھا اور وہ اسی میں خوش تھا۔

اچانک مصیبت نازل ہوئی ایک دوسرے ٹھیلے کی صورت میں۔ کیا ٹھیلہ تھا یہ ! بالکل نیا اور جدید ڈیزائن کا۔ چاروں طرف چمکتا ہوا کانچ لگا تھا اوپر نیچے دائیں بائیں چاروں طرف لال پیلے، اودے اور نیلے رنگ کے کانچ تھے۔ گیس کے دو ہنڈے تھے۔ جن سے یہ ٹھیلہ بقعۂ نور بن گیا تھا۔ پتل کی جگہ چمکتی ہوئی چینی کی پلیٹیں تھیں۔ ٹھیلے والے کے ساتھ ایک چھوٹا سا چھوکرا بھی تھا جو گاہک کو بڑی مستعدی سے ایک پلیٹ اور ایک صاف ستھری نیپکن بھی پیش کرتا تھا اور پانی بھی پلاتا تھا۔ چاٹ والے کے گھڑے کے گرد موگرے کے پھولوں کا ہار بھی لپٹا ہوا تھا اور ایک چھوٹا ہار چاٹ والے نے اپنی کلائی پر بھی باندھ رکھا تھا اور جب وہ مصالح دار پانی میں گول گپّے ڈبو کر پلیٹ میں رکھ کر گاہک کے ہاتھوں کی طرف سرکاتاتو چاٹ کی کراری خوشبو کے ساتھ گاہک کے نتھنوں میں موگرے کی مہک بھی شامل ہو جاتی اور گاہک مسکرا کر نئے چاٹ والے سے گویا کسی تمغے کی طرح اس پلیٹ کو حاصل کر لیتا۔

اور نیا چاٹ والا گونگے چاٹ والے کی طرف تحقیر سے دیکھ کر پر نخوت آواز میں زور سے کہتا۔ ’’ چکھیے !‘‘

 

ایک ایک دو دو کر کے چندرو کے بہت سے گاہک ٹوٹ کر نئے ٹھیلے والے کے گرد جمع ہونے لگے تو بھی چندرو کو زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔ پھر آ جائیں گے، یہ اونچی دُکان پھیکے پکوان والے کب تک چندرو کی سچی اصلی اور صحیح مصالحوں رچی ہوئی چاٹ کا مقابلہ کریں گے؟ ہم بھی دیکھ لیں گے۔ اس نے دو ایک گاہکوں کو نئے چاٹ والے کی طرف جاتے ہوئے کنکھیوں سے دیکھ بھی لیا تھا اور اسے یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ چکنی چمکتی پلیٹوں اور ہوٹل نما سروس کے باوجود انھیں نئے چاٹ والے کی چاٹ زیادہ پسند نہیں آ رہی ہے۔

وہ پہلے سے بھی زیادہ مستعد ہو کر اپنے کام میں جٹ گیا۔ یکایک اس کے کانوں میں پازیب کی ایک کھنک سنائی دی، اس کا دِل زور زور سے دھڑک گیا۔ اس نے نگاہ اُٹھا کے دیکھا۔ گلی سے پارو پازیب کھنکاتی اپنی سہیلیوں کے سنگ بر آمد ہو رہی تھی، جیسے چڑیاں چہکیں، ایسے وہ لڑکیاں بول رہی تھیں۔ کتنی ہی بڑی بڑی اور شوخ نگاہیں تھیں۔ فضا میں ابابیلوں کی طرح تیرتی ہوئیں اور سڑک پار کر کے اس کے ٹھیلے کی طرف بڑھنے لگیں۔

اچانک پارو کی نگاہیں نئے ٹھیلے والے کی طرف اُٹھیں۔

وہ رُک گئی۔

اس کی سہیلیاں بھی رُک گئیں۔

وہ سانس لیے بغیر پارو کی طرف دیکھنے لگا۔

پارو نے ایک اچٹتی سی نگاہ چندرو کے ٹھیلے پر ڈالی۔ پھر نخوت سے اس نے منھ پھیر لیا۔ اور اک ادائے خاص سے مڑ کر اپنی سہیلیوں کو لے کر نئے ٹھیلے والے کے پاس پہنچ گئی۔ ’’ تم بھی ؟ تم بھی ؟ پارو تم بھی ؟‘‘

چندرو کا چہرہ غُصّے اور شرم سے لال ہو گیا۔ رگوں اور نسوں میں خون گونجنے لگا۔ جیسے اس کا حلق خون سے بھر گیا ہو۔ وہ کچھ بول نہیں سکا۔ مگر اسے دیکھ کر لگتا تھا جیسے وہ بولنے کی کوشش کر رہا ہو۔ وہ اس موٹی دیوار کو توڑ دے گا جو اس کی روح کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔ اس کے چہرے کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے وہ ابھی چیخ کر کہے گا۔ ’’ تم بھی۔۔۔! تم بھی ؟ پارو۔۔۔تم بھی !!‘‘ مگر خون اس کے حلق میں بھر گیا تھا۔ اس کے کان کسی بڑھتے ہوئے طوفان کی آوازیں سن رہے تھے اور اس کا سارا بدن تھر تھر کانپ رہا تھا گویا کوئی آخری کوشش کسی لوہے کی دیوار سے ٹکرا کر ٹوٹ گئی تھی۔ اور وہ سر جھکا کر اپنے گاہکوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔

مگر اس بے چین پازیب کی کھنک ابھی تک اس کے دِل میں تھی۔ پارو اور اس کی سہیلیاں نئے ٹھیلے والے کے گرد جمع انواع و اقسام کی چاٹیں کھائے چلی جا رہی تھیں اور بیچ بیچ میں تعریفیں کرتی جا رہی تھیں۔ ان سب میں پارو کی آواز سب سے اونچی تھی۔

’’ ہائے کیسی لذیذ چاٹ ہے۔ کیسے برابر کے مصالحے ہیں۔ اس موئے  (نام نہ لے کر محض اشارہ کر کے ) پرانے ٹھیلے والے کو تو چاٹ بنانے کی تمیز ہی نہیں ہے۔ ‘‘ ’’ اب تک جھوٹی پتلوں میں چاٹ کھلاتا رہا ہے۔ ‘‘

’’اری اس کے ہات تو دیکھو۔۔۔‘‘ پارو نے چمک کر چندرو کی طرف اِشارہ کیا۔

’’کیسے گندے اور غلیظ۔۔۔معلوم ہوتا ہے سات دن سے نہایا نہیں۔۔۔‘‘

’’ایک نیپکن تو نہیں اس کے پاس۔ جب ہاتھ پونچھنے کے لیے مانگو وہی اپنا گندا میلا تولیہ آگے کر دیتا ہے۔ ‘‘

’’ اونھ۔۔۔‘‘ پارو کے پتلے پتلے ہونٹ نفرت سے خم ہو گئے۔ میں تو کبھی اس چاٹ والے کے ٹھیلے پر تھوکوں بھی نا۔ ‘‘

اس کے آگے چندرو کچھ سن نہ سکا۔ ایک لال آندھی اس کی آنکھوں میں چھا گئی۔ وہ گونگوں کی سی ایک وحشت زدہ چیخ کے ساتھ اپنا ٹھیلہ چھوڑ کر آگے بڑھا اور اس نے نئے ٹھیلے والے کو جالیا اور اس سے گتھم گتھا ہو گیا۔ لڑکیاں چیخ مار کر پیچھے ہٹ گئیں۔ چندرو نئے ٹھیلے والے اور اس کے چھوکرے دونوں پر بھاری ثابت ہوا۔ چندرو ایک وحشی جانور کی طرح لڑ رہا تھا۔ اس نے نئے ٹھیلے والے کو مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا۔ اس کے ٹھیلے کے سارے کانچ توڑ ڈالے۔ چھوکرے کی پٹائی کی۔ نیا ٹھیلہ مع اپنے سازو سامان کے سڑک پر اوندھا دیا۔ پھر سڑک کے بیچ کھڑا ہو کر زور زور سے ہانپنے لگا۔

پولیس آئی اور اسے گرفتار کر کے لے گئی۔

عدالت میں اس نے اپنے جرم کا اقبال کر لیا۔ عدالت نے اسے دو ماہ قید کی سزادی اور پان سو روپیہ جرمانہ اور جرمانہ نہ دینے پر چار ماہ قید با مشقت۔

سُدّھو حلوائی نے جرمانہ نہیں بھرا۔

اور دوسرا کون تھا جو جرمانہ ادا کرتا ؟

چندرو نے پورے چھ ماہ کی جیل کاٹی۔

جیل کاٹ کر چندرو پھر سُدّھو حلوائی کے گھر پہنچ گیا۔ کوئی دوسرا اس کا ٹھکانہ بھی نہیں تھا۔ سُدّھو حلوائی پہلے تو اسے دیر تک گالیاں دیتا رہا اور اس کی حماقت پر اسے بے نقط سناتا رہا اور دیر تک چندرو سر جھکائے خاموشی سے سب کچھ سنتا رہا۔ اگر وہ گونگا بھی نہ ہوتا تو کس سے کہتا۔ اس کا جرم یہ نہیں تھا کہ اس نے ایک ٹھیلے والے کو مارا تھا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے ایک پازیب کی کھنک سنی تھی۔

جب سُدّھو حلوائی نے خوب اچھی طرح گالیاں دے کر اپنے دِل کی بھڑاس نکال لی تو اس نے اسے پھر کام پر لگا لیا۔ آخر کیا کرتا ؟ چندرو بے حد ایماندار محنتی اور اپنے کام میں مشاق تھا۔ اب جیل کاٹ کے آیا ہے تو تھوڑی سی عقل بھی آ گئی ہو گی کہ قانون کو اپنے ہات میں لینے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس نے خوب اچھی طرح سمجھا سمجھا کے دو تین دن کے بعد پھر سے چند روکو اسی اڈے پر ٹھیلہ دے کر روانہ کر دیا۔

چندرو کی غیر حاضری میں سُدّھونے ایک اچھا کام کیا تھا۔ اس نے چندرو کے ٹھیلے پر نیا رنگ روغن کرا دیا تھا۔ کانچ بھی لگا دیا تھا۔ پتلوں کی جگہ کچھ سستی قسم کی چینی کی پلیٹیں اور کچھ چمچے بھی رکھ دیے تھے۔

چندرو چھ ماہ بعد پھر سے ٹھیلہ لے کر روانہ ہوا۔ آٹھویں، دسویں اور گیارہویں سڑک پار کر کے لنکنگ روڈ کے ناکے پر آیا۔ یونین بنک سے گھوم کر ٹیلی فون ایکس چینج کے پاس پہنچا۔ اس نے دیکھا جہاں پر پہلے اس کا ٹھیلہ تھا اب اس جگہ اس نئے ٹھیلے والے نے قبضہ کر لیا تھا۔ وہی چھوکرا ہے، وہی ٹھیلے والا ہے۔ اس ٹھیلے والے نے گھور کر چندرو کو دیکھا۔ چندرو نے اپنی نظریں چرا لیں۔ اس نے نئے ٹھیلے واسے سے کچھ فاصلے پر ایکس چینج کے ایک طرف اپنا ٹھیلہ روک دیا اور گاہکوں کا انتظار کرنے لگا۔

چار بج گئے، پانچ بج گئے، چھ بج گئے۔ کوئی گاہک اس کے پاس نہیں پھٹکا۔ دو ایک گاہک آئے مگر وہ نئے تھے اور اسے جانتے نہیں تھے۔ چار چھ آنے کی چاٹ کھا کر چل دیے۔ افسردہ دِل چند رو سرجھکائے اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ کبھی تولیہ لے کر کانچ چمکاتا۔ ڈوئی ڈال کر گھڑے میں مصالحے دار پانی کو ہلاتا۔ انگیٹھی میں آنچ ٹھیک کرتا۔ ہولے ہولے آلو کے بھرتے میں مٹر کے دانے اور مصالحے ڈال کر ٹکیاں بنا تا رہا۔

پھر یکایک اس کے کانوں میں پازیب کی کھنک سنائی دی۔ دِل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ خون رخساروں کی طرف دوڑنے گا۔ وہ اپنے جھکے ہوئے سر کو اوپر اُٹھانا چاہتا تھا۔ مگر اس کا سر اوپر نہیں اُٹھتا تھا …پازیب کی کھنک اب سڑک پر آ گئی تھی۔

پھر جسم و جاں کا زور لگا کر اس نے اپنی گری ہوئی گردن کو اوپر اُٹھایا اور جب دیکھا تو اس کی آنکھیں پارو پر جمی کی جمی رہ گئیں۔ اس کے ہاتھ سے ڈوئی گر گئی اور تولیہ اس کے کاندھے سے اُتر کر نیچے بالٹی میں بھیگ گیا اور ایک گاہک نے قریب آ کر کہا۔

’’مجھے دو سمو سے دو۔ ‘‘

مگر اس نے کچھ نہیں سنا۔ اس کے بدن میں جتنے حواس تھے جتنے احساس تھے جتنے جذبات تھے سب کھنچ کر اس کی آنکھوں میں آ گئے تھے۔ اب اس کے پاس کوئی جسم نہ تھا۔ صرف آنکھیں ہی آنکھیں تھیں۔

یہ اس کا ٹھیلہ تھا۔ وہ چند قدم پر دو سرا ٹھیلہ تھا اور وہ تکے جا رہا تھا۔ پارو کدھر جائے گی؟ ہولے ہولے سرگوشیوں میں بات کرتے ہوئے گاہے گاہے اس کی طرف دیکھتے ہوئے لڑکیاں سڑک پر چلتے ہوئے ان دونوں ٹھیلوں کے قریب آ رہی تھیں۔ زیرِ لب بحث دھیرے دھیرے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔

یکایک جیسے اس بحث کا خاتمہ ہو گیا۔ لڑکیوں نے سڑک پار کر کے نئے ٹھیلے والے کے ٹھیلے کو گھیر لیا۔

مگر چندرو کی نگاہیں نئے ٹھیلے والے کی طرف نہیں پھریں۔ وہ اس خلا میں دیکھ رہا تھا، گلی اور سڑک کے سنگم پر، جہاں آج چھ ماہ کے بعد اس نے پارو کو دیکھا تھا۔ وہ سر اُٹھائے دُنیا  و ما فیہا، گرد و پیش سے بے خبر ادھر ہی دیکھتا رہا۔

وہ پتھر کی طرح کھڑا صرف خلا میں دیکھ رہا تھا۔

یکایک بڑی تیزی سے اکیلی پارو اپنی سہیلیوں سے کٹ کر اس کے ٹھیلے پر آ گئی اور چپ چاپ اس کے سامنے ایک مجرم کی طرح کھڑی ہو گئی۔

اسی لمحہ گونگا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

وہ آنسو نہیں تھے۔ الفاظ تھے …. شکرانے کے۔ دفتر تھے شکایتوں کے ….ابلتے ہوئے آنسو… فصیح اور بلیغ جملوں کی طرح اس کے گالوں پر بہتے آرہے تھے اور پارو سر جھکائے سن رہی تھی۔

آج پارو گونگی تھی اور چندرو بول رہا تھا۔ ارے وہ کیسے کہے اس پگلے سے کہ پارو نے بھی تو چھ ماہ انھیں آنسوؤں کا انتظار کیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

دو بَیل

 

                (پریم چند)

 

جھوری کا چھی کے پاس دو بیل تھے۔ ایک کا نام تھا ہیرا اور دوسرے کا موتی۔ دونوں دیکھنے میں خوب صورت، کام میں چوکس، ڈیل ڈول میں اونچے۔ بہت دِنوں سے ایک ساتھ رہتے رہتے، دونوں میں محبت ہو گئی تھی۔ جس وقت یہ دونوں بیل ہَل یا گاڑی میں جوتے جاتے اور گردنیں ہِلا ہِلا کر چلتے تو ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی کہ زیادہ بوجھ میری ہی گردن پر رہے۔ ایک ساتھ ناند میں مُنھ ڈالتے۔ ایک منھ ہٹا لیتا تو دوسرا بھی ہٹا لیتا اور ایک ساتھ ہی بیٹھتے۔

ایک مرتبہ جھوری نے دونوں بیل چند دنوں کے لیے اپنی سُسرال بھیجے۔ بیلوں کو کیا معلوم وہ کیوں بھیجے جا رہے ہیں۔ سمجھے مالک نے ہمیں بیچ دیا۔ اگر اِن بے زبانوں کی زبان ہوتی تو جھوری سے پوچھتے :’’ تم نے ہم غریبوں کو کیوں نکال دیا؟ ہم نے کبھی دانے چارے کی شکایت نہیں کی۔ تم نے جو کچھ کھِلایا، سر جھکا کر کھا لیا، پھر تم نے ہمیں کیوں بیچ دیا۔ ‘‘

کسی وقت دونوں بیل نئے گاؤں جا پہنچے۔ دِن بھر کے بھوکے تھے، دونوں کا دِل بھاری ہو رہا تھا۔ جسے اُنھوں نے اپنا گھر سمجھا تھا، وہ اُن سے چھوٹ گیا تھا۔ جب گاؤں میں سوتا پڑ گیا، تو دونوں نے زور مار کر رسّے تڑا لیے اور گھر کی طرف چلے۔ جھوری نے صبح اُٹھ کر دیکھا تو دونوں بیل چرنی پر کھڑے تھے۔ دونوں کے گھٹنوں تک پاؤں کیچڑ میں بھرے ہوئے تھے۔ دونوں کی آنکھوں میں محبت کی ناراضگی جھلک رہی تھی۔ جھوری اُن کو دیکھ کر محبت سے باؤلا ہو گیا اور دوڑ کر اُن کے گلے سے لپٹ گیا۔ گھر اور گاؤں کے لڑکے جمع ہو گئے اور تالیاں بجا بجا کر اُن کا خیر مقدم کرنے لگے۔ کوئی اپنے گھر سے روٹیاں لایا، کوئی گُڑ اور کوئی بھوسی۔

جھوری کی بیوی نے بیلوں کو دروازے پر دیکھا تو جل اُٹھی، بولی :’’ کیسے نمک حرام بیل ہیں۔ ایک دن بھی وہاں کام نہ کیا، بھاگ کھڑے ہوئے۔ ‘‘

جھوری اپنے بیلوں پر یہ اِلزام برداشت نہ کرسکا، بولا: ’’ نمک حرام کیوں ہیں ؟ چارہ نہ دیا ہو گا، تو کیا کرتے۔ ‘‘

عورت نے تک کر کہا :’’بس تمھیں بیلوں کو کھِلانا جانتے ہو، اور تو سبھی پانی پِلا پِلا کر رکھتے ہیں۔ ‘‘

دوسرے دِن جھوری کا سالا جس کا نام گیا تھا، جھوری کے گھر آیا اور بیلوں کو دوبارہ لے گیا۔ اب کے اُس نے گاڑی میں جوتا۔ شام کو گھر پہنچ کر گیا نے دونوں کو موٹی رسّیوں سے باندھا اور پھر وہی خشک بھوسا ڈال دیا۔

ہیرا اور موتی اِس برتاؤ کے عادی نہ تھے۔ جھوری اُنھیں پھول کی چھڑی سے بھی نہ مارتا تھا، یہاں مار پڑی، اِس پر خشک بھوسا، ناند کی طرف آنکھ بھی نہ اُٹھائی۔ دوسرے دِن گیا نے بیلوں کو ہل میں جوتا، مگر اُنھوں نے پاؤں نہ اُٹھایا۔ ایک مرتبہ جب اُس ظالِم نے ہیرا کی ناک پر ڈنڈا جمایا، تو موتی غُصّے کے مارے آپے سے باہر ہو گیا، ہل لے کے بھاگا۔ گلے میں بڑی بڑی رسیّاں نہ ہوتیں تو وہ دونوں نکل گئے ہوتے۔ موتی تو بس اینٹھ کر رہ گیا۔ گیا آ پہنچا اور دونوں کو پکڑ کر لے چلا۔ آج دونوں کے سامنے پھر وہی خشک بھوسا لایا گیا۔ دونوں چُپ چاپ کھڑے رہے۔ اُس وقت ایک چھوٹی سی لڑکی دو روٹیاں لیے نکلی اور دونوں کے منھ میں ایک ایک روٹی دے کر چلی گئی۔ یہ لڑکی گیا کی تھی۔ اُس کی ماں مر چکی تھی۔ سوتیلی ماں اُسے مارتی رہتی تھی۔ اُن بیلوں سے اُسے ہمدردی ہو گئی۔

دونوں دِن بھر جوتے جاتے۔ اُلٹے ڈنڈے کھاتے، شام کو تھان پر باندھ دیے جاتے اور رات کو وہی لڑکی اُنھیں ایک ایک روٹی دے جاتی۔

ایک بار رات کو جب لڑکی روٹی دے کر چلی گئی تو دونوں رسیّاں چبانے لگے، لیکن موٹی رسّی منھ میں نہ آتی تھی۔ بے چارے زور لگا کر رہ جاتے۔ اتنے میں گھر کا دروازہ کھُلا اور وہی لڑکی نکلی۔ دونوں سرجھکا کر اس کا ہاتھ چاٹنے لگے۔ اُس نے اِن کی پیشانی سہلائی اور بولی :’’کھول دیتی ہوں، بھا گ جاؤ، نہیں تو یہ لوگ تمھیں مار ڈالیں گے۔ آج گھر میں مشورہ ہو رہا ہے کہ تمھاری ناک میں ناتھ ڈال دی جائے۔ ‘‘ اُس نے رسّے کھول دیے اور پھر خود ہی چلاّئی :’’ او دادا ! او دادا ! دونوں پھوپھا والے بیل بھاگے جا رہے ہیں۔دوڑو__دوڑو!‘‘

گیا گھبرا کر باہر نکلا، اُس نے بیلوں کا پیچھا کیا وہ اور تیز ہو گئے۔ گیا نے جب اُن کو ہاتھ سے نکلتے دیکھا تو گاؤں کے کچھ اور آدمیوں کو ساتھ لینے کے لیے لوٹا۔ پھر کیا تھا دونوں بیلوں کو بھاگنے کا موقع مِل گیا۔ سیدھے دوڑے چلے گئے۔ راستے کا خیال بھی نہ رہا، بہت دور نکل گئے، تب دونوں ایک کھیت کے کِنارے کھڑے ہو کر سوچنے لگے کہ اب کیا کرنا چاہیے ؟ دونوں بھوک سے بے حال ہو رہے تھے۔ کھیت میں مٹر کھڑی تھی، چرنے لگے۔ جب پیٹ بھر گیا تو دونوں اُچھلنے کودنے لگے۔ دیکھتے کیا ہیں کہ ایک موٹا تازہ سانڈ جھومتا چلا آ رہا ہے۔ دونوں دوست جان ہتھیلیوں پر لے کر آگے بڑھے۔ جوں ہی ہیرا جھپٹا، موتی نے پیچھے سے ہَلّہ بول دیا۔ سانڈ اُس کی طرف مڑا تو ہیرا نے ڈھکیلنا شروع کر دیا۔ سانڈ غُصّے سے پیچھے مڑا تو ہیرا نے دوسرے پہلو میں سینگ رکھ دیے۔ بے چارہ زخمی ہو کر بھاگا دونوں نے دور تک تعاقب کیا۔ جب سانڈ بے دم ہو کر گِر پڑا، تب جا کر دونوں نے اُس کا پیچھا چھوڑا۔

دونوں فتح کے نشے میں جھومتے چلے جا رہے تھے۔ پھر مٹر کے کھیت میں گُھس گئے۔ ابھی دو چار ہی منھ مارے تھے کہ دو آدمی لاٹھی لے کر آ گئے اور دونوں بیلوں کو گھیر لیا۔ دوسرے دن دونوں دوست کانجی ہاؤس میں بند تھے۔

اُن کی زندگی میں پہلا موقع تھا کہ کھانے کو تِنکا بھی نہ ملا۔ وہاں کئی بھینسیں تھیں، کئی بکریاں، کئی گھوڑے، کئی گدھے، مگر چارہ کسی کے سامنے نہ تھا۔ سب زمین پر مردے کی طرح پڑے تھے۔ رات کو جب کھانا نہ ملا تو ہیرا بولا :’’ مجھے تو معلوم ہوتا ہے کہ جان نکل رہی ہے۔ ‘‘ موتی نے کہا :’’ اتنی جلدی ہمّت نہ ہارو،بھائی یہاں سے بھاگنے کا کوئی طریقہ سوچو۔‘‘ ’’ باڑے کی دیوار کچّی تھی۔ ہیرا نے اپنے نکیلے سینگ دیوار میں گاڑ کر سوراخ کیا اور پھر دوڑ دوڑ کر دیوار سے ٹکرّیں ماریں۔ ٹکرّوں کی آواز سُن کر کانجی ہاؤس کا چوکیدار لالٹین لے کر نکلا۔ اُس نے جو یہ رنگ دیکھا تو دونوں کو کئی ڈنڈے رسید کیے اور موٹی رسّی سے باندھ دیا ہیرا اور موتی نے پھر بھی ہمّت نہ ہاری۔ پھر اُسی طرح دیوار میں سینگ لگا کر زور کرنے لگے۔ آخر دیوار کا کچھ حِصّہ گر گیا۔ دیوار کا گرنا تھا کہ جانور اُٹھ کھڑے ہوئے۔ گھوڑے، بھیڑ، بکریاں، بھینسیں سب بھاگ نکلے۔ ہیرا، موتی رہ گئے صبح ہوتے ہوتے منشیوں، چوکیداروں اور دوسرے ملازمین میں کھَلبَلی مچ گئی۔ اُس کے بعد اُن کی خوب مرمّت ہوئی۔ اب اور موٹی رسّی سے باندھ دیا گیا۔

ایک ہفتے تک دونوں بیل وہاں بندھے پڑے رہے۔ خدا جانے کانجی ہاؤس کے آدمی کتنے بے درد تھے، کسی نے بے چاروں کو ایک تنکا بھی نہ دیا۔ ایک مرتبہ پانی دکھا دیتے تھے۔ یہ اُن کی خوراک تھی۔ دونوں کمزور ہو گئے۔ ہڈّیاں نکل آئیں۔

ایک دِن باڑے کے سامنے ڈگڈگی بجنے لگی اور دوپہر ہوتے ہوتے چالیس پچاس آدمی جمع ہو گئے۔ تب دونوں بیل نکالے گئے۔ لوگ آ کر اُن کی صورت دیکھتے اور چلے جاتے اِن کمزور بیلوں کو کون خریدتا ! اتنے میں ایک آدمی آیا، جس کی آنکھیں سُرخ تھیں، وہ منشی جی سے باتیں کرنے لگا۔ اس کی شکل دیکھ کر دونوں بیل کانپ اُٹھے۔ نیلام ہو جانے کے بعد دونوں بیل اُس آدمی کے ساتھ چلے۔

اچانک اُنھیں ایسا معلوم ہوا کہ یہ رستہ دیکھا ہوا ہے۔ ہاں ! اِدھر ہی سے تو گیا اُن کو اپنے گاؤں لے گیا تھا، وہی کھیت، وہی باغ، وہی گاؤں __ اب اُن کی رفتار تیز ہونے لگی۔ ساری تکان، ساری کمزوری، ساری مایوسی رفع ہو گئی۔ ارے ! یہ تو اپنا کھیت آ گیا۔ یہ اپنا کنواں ہے، جہاں ہر روز پانی پیا کرتے تھے۔

دونوں مست ہو کر کُلیلیں کرتے ہوئے گھر کی طرف دوڑے اور اپنے تھان پر جا کر کھڑے ہو گئے۔ وہ آدمی بھی پیچھے پیچھے دوڑا آیا۔ جھوری دروازے پر بیٹھا کھانا کھا رہا تھا، بیلوں کو دیکھتے ہی دوڑا اور انھیں پیار کرنے لگا۔ بیلوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

اُس آدمی نے آ کر بیلوں کی رسیاں پکڑ لیں۔ جھوری نے کہا :’’ یہ بیل میرے ہیں۔‘‘ ’’تمہارے کیسے ہیں۔ میں نے نیلام میں لیے ہیں۔ ‘‘ وہ آدمی زبردستی بیلوں کو لے جانے کے لیے آگے بڑھا۔ اُسی وقت موتی نے سینگ چلایا، وہ آدمی پیچھے ہٹا۔ موتی نے تعاقب کیا اور اُسے کھدیڑتا ہوا گاؤں کے باہر تک لے گیا۔ گاؤں والے یہ تماشا دیکھتے تھے اورہنستے تھے۔ جب وہ آدمی ہار کر چلا گیا تو موتی اکڑتا ہوا لوٹ آیا۔

ذراسی دیر میں ناند میں کھلی، بھوسا، چوکر، دانا سب بھر دیا گیا۔ دونوں بیل کھانے لگے۔ جھوری کھڑا اُن کی طرف دیکھتا رہا اور خوش ہوتا رہا___بیسیوں لڑکے تماشا دیکھ رہے تھے۔ سارا گاؤں مُسکراتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔

اُسی وقت مالکن نے آخر دونوں بیلوں کے ماتھے چوم لیے۔

٭٭٭

 

 

امراؤ جان ادا

 

                ( مرزا ہادی رسوا )

 

سن چکے حال تباہی کا مری، اور سنو

اب تمھیں کچھ مری تقریر مزا دیتی ہے

بوندی سے بیگم صاحب اور برجیس قدر نیپال کو روانہ ہوئے۔ سیّد قطب الدین لڑائی میں مارے جا چکے تھے۔ میں بہ ہزار مشکل فیض آباد آئی۔ پہلے سرائے میں اُتری۔ پھر ترپولیے کے پاس ایک کمرا کرایہ کو لے لیا تھا میراثی رکھ لیے، گانا بجانا شروع کر دیا۔ فیض آباد میں رہتے ہوئے اب مجھے چھے مہینے گزر چکے ہیں، وہاں کی آب و ہوا طبیعت کے بہت موافق ہے، دل لگا ہوا ہے، آٹھویں دسویں دن کوئی نہ کوئی مُجرا آ جاتا ہے، اسی پر بسر ہے۔ تمام شہر میں میرے گانے کی دھوم ہے۔ جہاں مُجرا ہوتا ہے، ہزاروں آدمی ٹوٹ پڑتے ہیں۔ میرے کمرے کے نیچے لوگ تعریفیں کرتے ہوئے نکلتے ہیں۔ میں دِل میں خوش ہوتی ہوں کبھی کبھی خواب و خیال کی طرح بچپن کی باتیں یاد آجاتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی دل میں ایک جوش سا پیدا ہوتا ہے مگر انتزاعِ سلطنت، غدر، برجیس قدر، یہ سب سانحے آنکھوں کے سامنے گزر چکے ہیں، کلیجا پتھر کا ہو گیا ہے۔ ماں باپ کے تصّور کے ساتھ ہی یہ خیال آتا ہے :’’ خدا جانے اب کوئی زندہ بھی ہو یا نہ ہو اور اگر ہو تو ان کو مجھ سے کیا مطلب وہ اور عالم میں ہوں گے میں اور عالم میں ہوں، خون کا جوش سہی مگر کوئی غیرت دار آدمی مجھ سے ملنا گوارا نہ کرے گا۔ اب اُن سے ملنے کی کوشش کرنا اُن کو رنج دینا ہے۔ ‘‘ گھر کا خیال آتے ہی وہ باتیں دل میں آتی تھیں پھر طبیعت اور طرف متوجہ ہو جاتی تھی۔ لکھنؤ کی یاد اکثر ستاتی تھی، مگر جب انقلاب کا خیال آتا تھا، دل بھر جاتا تھا۔ اب وہاں کون ہے کس کے لیے جاؤں۔ خانم جیتی ہیں تو کیا ہوا، اُن سے اب کیوں کر بنے گی۔ وہ اگلی حکومت جتائیں گی۔ مجھے اب اُن کی قید میں رہنا کسی طرح منظور نہ تھا۔ جو مال میر صاحب کی بہن کے پاس امانت تھا وہ اب کیا ملے گا۔ تمام لکھنؤ لُٹ گیا، میر صاحب کا گھر بھی لُٹ گیا ہو گا۔ اس کا اب خیال ہی بے کار ہے۔ اگر نہیں لٹا تو ابھی اس کی ضرورت ہی کیا ہے۔ میرے ہاتھ گلے جو کچھ موجود ہے وہ کیا کم ہے۔ ایک دن میں کمرے میں بیٹھی ہوں، ایک صاحب شریفانہ صورت ادھیڑ سے تشریف لائے۔ میں نے پان بنا کر دیا۔ حقّہ بھروایا۔ حالات دریافت کرنے پر معلوم ہوا بہو بیگم صاحبہ کے عزیزوں سے ہیں، وثیقہ پاتے ہیں۔ میں نے باتوں باتوں میں مقبرے کی روشنی کی تمہید اٹھا کے پُرانے ملازموں کا ذکر چھیڑا:

میں: اگلے نوکروں میں اب کون کون رہ گیا ہے ؟

نواب صاحب : اکثر مر گئے۔ نئے نئے نوکر ہیں۔ اب وہ کارخانہ ہی نہیں رہا بالکل نیا انتظام ہے۔

میں: اگلے نوکروں میں ایک بڈّھے جمعدار تھے۔

نواب: ہاں تھے مگر تم انھیں کیا جانو۔

میں: غدر سے پہلے میں ایک مرتبہ محرم میں فیض آباد آئی تھی،مقبرے پر روشنی دیکھنے گئی تھی، اُنھوں نے میری بڑی خاطر کی تھی۔

نواب: وہی جمعدار نا، جن کی ایک لڑکی نکل گئی تھی ؟

میں: مجھے کیا معلوم  (دل میں ) ہائے افسانہ اب تک مشہور ہے۔

نواب: یوں تو کئی جمعدار تھے اور اب بھی ہیں، مگر روشنی وغیرہ کا انتظام غدر سے پہلے وہی کرتے تھے۔

میں: ایک لڑکا بھی اُن کا تھا۔

نواب: تم نے لڑکے کو کہاں دیکھا ؟

میں: اُس دِن اُن کے ساتھ ایسی بھی شکل ملتے کم دیکھی ہے، بِن کہے میں پہچان گئی تھی۔

نواب: جمعدار غدر سے پہلے ہی مر گئے، وہی لڑکا اُن کی جگہ نوکر ہے۔ اس کے بعد بات ٹالنے کے لیے میں نے اور کچھ حالات اِدھر اُدھر کے پوچھے۔ نواب صاحب نے سوز پڑھنے کی فرمائش کی۔ میں نے دو سوز سنائے۔ بہت محظوظ ہوئے۔ رات کچھ زیادہ آ گئی تھی گھر تشریف لے گئے۔ باپ کے مرنے کا حال سن کے مجھے بہت رنج ہوا۔ اُس دِن رات بھر رویا کی۔ دوسرے دن بے اختیار جی چاہا بھائی کو جا کے دیکھ آؤں۔ دو دِن کے بعد ایک مُجرا آ گیا، اُس کی تیّاری کرنے لگی۔ جہاں کا مُجرا آیا تھا وہاں گئی۔ محلّے کا نام یاد نہیں۔ مکان کے پاس ایک بہت بڑا پُرانا املی کا درخت تھا،اُسی کے نیچے نمگیرا تانا گیا تھا۔ گِرد قناتیں تھیں، بہت بڑا مجمع مگر لوگ کچھ ایسے ہی ویسے تھے قناتوں کے پیچھے اور سامنے کھپریلوں میں عورتیں تھیں۔ پہلا مُجرا کوئی 9بجے شروع ہوا، بارہ بجے تک رہا۔ اس مقام کو دیکھ کے دہشت سی ہوتی تھی، دِل امڈا چلا آتا تھا کہ یہیں میرا مکان ہے، یہ املی کا درخت وہی ہے جس کے نیچے میں کھیلا کرتی تھی۔ جو لوگ محفل میں شریک تھے، اُن میں سے بعض آدمی ایسے معلوم ہوتے تھے جیسے اُن کو میں نے کبھی دیکھا ہے۔ شبہ مٹانے کے لیے میں قناتوں کے باہر نکلی۔ گھروں کی قطع کچھ اور ہو گئی تھی، اِس سے خیال ہوا شاید یہ وہ جگہ نہ ہو۔ ایک مکان کے دروازے کو غور سے دیکھا کی۔ دِل کو یقین ہو گیا تھا کہ یہی میرا مکان ہے۔ جی چاہتا ہے کہ مکان میں گھسی چلی جاؤں۔ ماں کے قدموں پر گروں، وہ گلے لگا لیں گی مگر جرأت نہ ہوتی تھی، اِس لیے کہ میں جانتی ہوں دیہات میں رنڈیوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ دوسرے باپ بھائی کی عزّت کا خیال تھا۔ نواب صاحب کی باتوں سے معلوم ہو چکا تھا کہ جمعدار کی لڑکی کا نکل جانا لوگوں کو معلوم ہے پھر جی کہتا تھا :’’ ہائے کیا غضب ہے! صرف ایک دیوار کی آڑ ہے۔ اُدھر میری اماں بیٹھی ہوں گی اور میں یہاں اُن کے لیے تڑپ رہی ہوں۔ اک نظر صورت دیکھنا بھی ممکن نہیں کیا مجبوری ہے !‘‘ اِسی ادھیڑ بن میں تھی کہ ایک عورت نے آ کے پوچھا :’’ تمھیں لکھنؤ سے آئی ہو؟‘

ہاں (اب تو میرا کلیجا ہاتھوں اچھلنے لگا) میں:

عورت: اچھّاتو ادھر چلی آؤ، تمھیں کوئی بلاتا ہے۔

میں: اچھّا کہہ کے اُس کے ساتھ چلی۔ ایک ایک پاؤں گویا سو سو من کا ہو گیا تھا۔ قدم رکھتی تھی کہیں اور پڑتا تھا کہیں۔

وہ عورت اُس مکان کے دروازے پر مجھ کو لے گئی جسے میں اپنا مکان سمجھے ہوئے تھی۔ اُس مکان کی ڈیوڑھی میں مجھ کو بٹھایا۔ اندر کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑا ہوا تھا، اُس کے پیچھے دو تین عورتیں آ کے کھڑی ہوئیں۔

ایک :لکھنؤ سے تمھیں آئی ہو؟

میں: جی ہاں۔

دوسری: تمھارا نام کیا ہے ؟

میں: (جی میں آیا کہ کہہ دوں مگر دِل کو تھام کے ) امراؤ جان۔

پہلی: تمھارا وطن خاص لکھنؤ ہے ؟

میں :(اب مجھ سے ضبط نہ ہو سکا آنسو نکل پڑے) اصلی وطن تو یہی ہے جہاں کھڑی ہوں۔

پہلی: تو کیا بنگلے کی رہنے والی ہو؟

میں: (آنکھوں سے آنسو برابر جاری تھے، بہ مشکل جواب دیا ) جی ہاں۔

دوسری: کیا تم ذات کی پتریا ہو؟

میں: ذات کی پتریا تو نہیں ہوں، تقدیر کا لکھا پورا کر رہی ہوں۔

پہلی (خود رو کے ) اچھّا تو روتی کیوں ہو ؟ آخر کہو تم کون ہو ؟

میں: (آنسو پونچھ کے ) کیا بتاؤں کون ہوں، کچھ کہتے بن نہیں پڑتا۔ (اتنی باتیں میں نے بہت دِل سنبھال کے کی تھی اب بالکل تابِ ضبط نہ تھی، سینے میں دم رُکنے لگا تھا ) اتنے میں دو عورتیں پردے سے باہر نکلیں۔ ایک کے ہاتھ میں چراغ تھا اُس نے میرے مُنھ کو ہاتھ سے تھام کے کان کی لَو کے پاس غور سے دیکھا اور یہ کہہ کے دوسری کو دکھایا اور کہا :’’ کیوں ہم نہ کہتے تھے وہی ہے۔ ‘‘

!دوسری: ہائے میری امیرن یہ کہہ کے لپٹ گئی۔ دونوں ماں بیٹیاں چیخیں مار مار کے رونے لگیں ہچکیاں بندھ گئیں۔ آخر دو عورتوں نے آ کے چھڑایا، اس کے بعد میں نے اپنا سارا قِصّہ دُہرایا۔ میری ماں بیٹھی سناکی اور رویا کی۔ باقی رات ہم دونوں وہیں بیٹھے رہے۔ صبح ہوتے ہی رخصت ہوئی۔ ماں نے چلتے وقت جس حسرت بھری نگاہ سے مجھے دیکھا تھا، وہ نگاہ مرتے دم تک نہ بھولے گی مگر مجبوری۔ روزِ روشن نہ ہونے پایا تھا کہ سوارہو کر اپنے کمرے پہ چلی آئی تھی۔ دوسرا مجرا صبح کو ہوتا مگر میں نے گھر پر آ کے کُل روپیہ مجرے کا واپس دیا اور بیماری کا بہانہ کہلا بھیجا۔ دولھا کے باپ نے آدھا روپیہ پھیر دیا۔ اُس دن دن بھر جو میرا حال رہا، خدا ہی پر خوب روشن ہے کمرے کے دروازے بند کر کے دن بھر پڑی رویا کی۔ دوسرے دن شام کو کوئی آدھی گھڑی رات گئے ایک جوان سا آدمی، سانولی رنگت، کوئی بیس بائیس کا سِن، پگڑی باندھے، سپاہیوں کی ایسی وردی پہنے میرے کمرے پر آیا۔ میں نے حقّہ بھروا دیا۔ پان دان میں پان نہ تھے، ماما کو بلا کے چپکے سے کہا :’’ پان لے آؤ۔‘‘ اتفاق سے اور کوئی بھی اُس وقت نہ تھا کمرے میں میں ہوں اور وہ ہے۔ کل تمھیں مجرے کو گئی تھیں ؟ ( یہ اس تیور سے کہا کہ میں جھجک گئی)

میں: ہاں۔

اتنا کہہ کے اُس کے چہرے کی طرف جو دیکھا یہ معلوم ہوتا تھا جیسے آنکھوں سےخون ٹپک رہا ہے۔

جوان: (سر نیچا کر کے ) خوب گھرانے کا نام روشن کیا۔

میں: اب سمجھی کہ یہ کون شخص ہے ) اس کو تو خدا ہی جانتا ہے۔

جوان: ہم تو سمجھے تھے کہ تم مر گئیں مگر تم اب تک زندہ ہو۔

میں: بے غیرت زندگی تھی نہ مری، خدا کہیں جلد موت دے۔

جوان: بے شک اس زندگی سے موت لاکھ درجہ بہتر تھی۔تمھیں تو چُلّو بھر پانی میں ڈوب مرنا تھا، کچھ کھا کے سورہتیں

میں: خود اتنی سمجھ نہ تھی، نہ آج تک کسی نے نیک صلاح دی۔

جوان: اگر ایسی ہی غیرت دار ہوتیں تو اس شہر میں کبھی نہ آتیں اور آئی بھی تھیں تو اُس محلّے میں مجرے کو نہ آنا تھا، جہاں کی رہنے والی تھیں۔

میں: ہاں اتنی خطا ضرور ہوئی مگر مجھے کیا معلوم تھا ؟

جوان: اچھّا اب تو معلوم ہو گیا۔

میں :اب کیا ہوتا ہے ؟

جوان: (بہت ہی غُصّے ہوکے ) اب کیا ہوتا ہے ! اب کیا ہوتا ہے ! اب (چھُری کمر سے نکال کے مجھ پر جھپٹا۔ دونوں ہاتھ پکڑ کے گلے پر چھری رکھ دی ) ’’ یہ ہوتا ہے۔ ‘‘ اتنے میں ماما بازار سے پان لے کے آئی۔ اس نے جو یہ حال دیکھا، لگی چیخنے : ’’ ارے دوڑو، بیوی کو کوئی مارے دیتا ہے۔ ‘‘ ,

جوان: (چھُری گلے سے ہٹا کے، ہاتھ چھوڑ دیے ) عورت کو کیا ماروں اور عورت بھی کون ؟ بڑی۔۔۔؟

اتنا کہہ کے دہاڑیں مار مار رونے لگا۔ میں پہلے سے رو رہی تھی، جب اس نے گلے پر چھری رکھی تھی، جان کے خوف سے ایک دھچکا سا کلیجے پر پہنچا تھا۔ اس سے دم بخود ہو گئی تھی جب وہ چھوڑ کر رونے لگا میں بھی رونے لگی۔ ماما نے دو ایک چیخیں ماری تھی۔ جب اُس نے یہ حال دیکھا، کچھ چپ سی ہو رہی۔ ادھر میں نے اِشارے سے منع کیا، ایک کنارے کھڑی ہو گئی۔ (جب دونوں خوب رو دھو چکے )

جوان: (ہاتھ جوڑ کے ) اچھّا تو اس شہر سے کہیں چلی جاؤ۔

میں :کل چلی جاؤں گی، مگر ایک دفعہ ماں کو اور دیکھ لیتی۔

ہوا، نہیں تو اسی وقت وارا نیا را ہو جاتا۔ محلّے بھر میں چرچے ہو رہے ہیں۔

جوان: بس اب دِل سے دور رکھّو، معاف کرو۔ کل اماں نے تمھیں گھر پر بلا لیا۔

تم اپنے بچوں پر سلامت رہو۔ خیر اگر جیتے رہے تو کبھی نہ کبھی خیرو عافیت سن لیں گے

لیا کریں گے۔

میں :تم نے دیکھ لیا، جان سے تو میں ڈرتی نہیں مگر ہائے تمھاری جان کا خیال ہے

جوان: برائے خدا کسی سے ہمارا ذکر نہ کرنا۔

میں: اچھّا

وہ جوان تو اٹھ کے چلا گیا، میں اپنے غم میں مبتلا تھی۔ ماما نے اور جان کھانا شروع کی : ’’ یہ کون تھے ؟‘‘

میں: رنڈی کے مکان پہ ہزاروں آدمی آتے ہیں، کوئی تھے، تمھیں کیا ؟

بہرطور ماما کو ٹال دیا۔ رات کی رات سو رہی، صبح کو اُٹھ کے لکھنؤ چلنے کی تیّاری کی۔ شاموں شام شکرم کرایہ کر کے روانہ ہو گئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

مُحلّے کی ہولی

 

                ( اطہر پرویز )

 

پہلاسین

 

(پردہ اُٹھتا ہے۔ لالا تیج رام کے گھر کی عورتیں دروازے پر خاں صاحب سے گھر والوں کا استقبال کرتی ہیں۔ خان صاحب کی بیوی اور اُن کی بیٹی خالدہ داخل ہوتی ہیں۔ )

سوشیلا: آؤ خالدہ آؤ ! دو دِن سے تمھارا انتظار ہو رہا ہے۔ آنکھیں پتھرا گئیں ڈیوڑھی دیکھتے دیکھتے۔

خالدہ: ارے کیا بتاؤں ! اِس سوئٹر میں لگی ہوئی ہوں، اس لیے نکلنا نہیں ہوا۔

سوشیلا: کس کا سوئٹر بُن رہی ہو؟

خالدہ: اِس وقت میں اِسی کام سے تو آئی ہوں، کہاں ہیں لالا چچا؟

لالا جی:( اندر سے نکلتے ہوئے ) ارے بھائی یہ کس کی آواز ہے ؟ کہیں خالدہ تو نہیں

خالدہ کی امّی: ہاں آپ ہی کا تو ذکر تھا۔ آپ کی بڑی عمر ہو، ابھی خالدہ آپ کو یاد کر رہی تھی۔

خالدہ: جی چچا، سوئٹر کا ناپ لینے آئی ہوں۔ ( خالدہ سوئٹر کے ایک پلّے کو لالا جی کے پاس آ کر ناپتی ہے۔

لالا جی: ارے بیٹی یہ کیا کر رہی ہو؟ ہم بوڑھے آدمی روئی کی بنڈی پہننے والے ہیں۔

خالدہ: کل سے آپ روئی کی بنڈی نہیں پہنیں گے۔ارے جس کی بھتیجی اِتنا اچھّا سوئٹر بُنتی ہو، وہ روئی کی بنڈی کیوں پہنے لالا جی کی بیوی:

خالدہ کی امّی: اور کیا! بڑے شوق سے بُن رہی ہے۔ کہہ رہی ہے کہ اِس رنگ کا ابّا کا سوئٹر بھی بُنوں گی، تاکہ دونوں بھائیوں کے سوئٹر ایک رنگ کے ہو جائیں۔

لالا جی: اچھّا یہ بات ہے ! جیسے بیلوں کی جوڑی پر ایک ہی رنگ کی جھولی ڈالی جاتی ہے۔

خالدہ کی امّی: بھائی صاحب آج وہ کہہ رہے تھے۔۔۔

لالا جی کی بیوی: وہ کون بھابی ؟

خالدہ کی امّی: تمھارے بھیّا سب ہنستے ہیں

لالا جی: ہاں تو شہباز خاں کیا کہہ رہے تھے ؟

خالدہ کی امّی: کل اتوار ہے، نہر پر پکنک کے لیے جانا ہے، تیّار ہو جایئے گا۔

لالا جی: یہ شہباز خاں کی اتوار والی پکنک بھی خوب ہے۔ آندھی آئے، طوفان آئے اس کی پکنک کوئی ٹال نہیں سکتا۔ مجھے تو کام ہے اس بار میرا جانا مشکل ہے۔

لالا جی کی بیوی: بس اپنے نخرے چھوڑو، بڑا کام ہے ! اب بھیّا تمھارے کام کی وجہ سے پکنک پر بھی اکیلے جائیں گے۔ خالدہ ! کہہ دینا بھیّا سے کہ تمھارے چچا ضرور جائیں گے۔

لالا جی: اچھا بھیجنا ہے تو پوری ترکاری ضرور بنا دینا۔

لالا جی کی بیوی:وہ تو میں بنا ہی دوں گی، مجھے خود خیال ہے۔

خالدہ: ابّا کو آپ کے ہاتھ کی ترکاری اِتنی پسند ہے کہ جب آپ بھیج دیتی ہیں، تو وہ اور کچھ کھاتے ہی نہیں۔

خالدہ کی امّی: بھابی کے ہاتھ کی ترکاری تو خیر اچھّی ہوتی ہے، لیکن سب سے مزے کی چیز تو اچار ہے۔ ہاں ہم لوگوں نے کتنی بار اچار ڈالا،پروہ مزہ نہ آیا۔

سوشیلا: بس بس خالدہ رہنے دو۔ اِتنا رائی کا پربت نہیں بناتے۔

ننھا بچہ: تتلاتے ہوئے ) اَچال میں لئی تو پَلتی ہے۔ سب لوگ ہنستے ہیں۔

خالدہ بچے کو گود میں اُٹھا کر پیار کرتی ہے۔

 

دوسراسین

 

(پردہ اُٹھتا ہے ____لالا تیج رام کا گھر)

 

لالا تیج رام :ارے سوشیلا ! وہ میرا سوئٹر نہیں ملا؟

سوشیلا: یہاں تو دکھائی نہیں دیتا۔

لالا تیج رام :ارے تجھے کیوں ملنے لگا! ارے بھئی سنتی ہونا! ذرا دیکھنا میرا سوئٹر کہاں رکھا ہے؟

لالا جی کی بیوی: اے لو وہ سامنے ہی تو پڑا ہے۔ تمھاری آنکھیں ہیں کہ کیا ! ٹھیک سے دیکھو تو ملے بھی۔

لالا جی:تم تو بھاشن دینے لگیں، یہاں کام سے جانا ہے۔ لالا جی سوئٹر پہنتے ہیں۔(اس درمیان میں کوئی دروازہ کھٹکھٹا تا ہے)

لالا جی: (باہر نکلتے ہوئے ) ارے سنتی ہو___ میں آج ذرا دیر سے لوٹوں گا۔

ارے! میر صاحب! تم کہاں ؟ مجھ سے کچھ کام ہے ؟ اِس وقت کہاں نکل پڑے !

میر صاحب: ارے لالا جی، کیا بتاؤں ؟ تمھارے لنگو ٹیا یار شہباز خاں سے ٹھن گئی ہے۔ اُس کو بھیک نہ منگوا دوں تو میرا نام میر فراست علی نہیں۔ بڑا پٹھان بنا پھرتا ہے

لالا جی: ارے بھئی ! چھوڑو اس جھگڑے کو۔ آپس کے تعلقات کو ٹھیک کر لو۔

میر صاحب: اب تو معاملہ عدالت میں طے ہو گا، کہہ دینا شہباز خاں سے۔

لالا جی: ارے بھائی ! شہباز خاں سے ہمارے بڑے گہرے تعلقات ہیں۔ وہ بہت شریف آدمی ہے، تم بلاوجہ اُس کے پیچھے پڑ ہو گئے۔

میر صاحب: یہ تو میں ہی کیا سارا محلہ جانتا ہے کہ آپ کے اُس سے گہرے تعلقات ہیں اور آپ کو شہباز خاں نے شیشے میں اُتار لیا ہے۔

لالا جی ! آپ ٹھہرے سیدھے سادے آدمی، اُس کی گھات سے واقف نہیں۔ اب یہ مرزا صاحب آرہے ہیں ؛اِن سے پوچھ لیجیے۔

مرزا صاحب داخل ہوتے ہیں

مرزا صاحب: کیا بات ہے لالا جی !آج بڑا زوردار سوئٹر نکالا ہے۔

لالا جی: ارے بھئی وہ ہماری بچی خالدہ ہے نا، شہباز خاں کی بیٹی، اُسی نے بنا ہے۔ اب تم جانو،بچی کا شوق ہے اور اُس کی ضد ہے کہ قمیض کے اوپر پہنوں بچوں کی ضد تو رکھنی ہی پڑتی ہے۔

مرزا صاحب: ہاں ہاں کیوں نہیں _____لیکن یہ میر صاحب سے کیا باتیں ہو رہی ہیں۔

میر صاحب: مرزا صاحب! سچ سچ کہنا کہ شہباز خاں کیسا آدمی ہے ؟

لالا جی: بھئی میر صاحب! میں شہباز خاں کے خلاف ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتا۔

میر صاحب: ہاں ہاں کیوں سننے لگے۔ وہ بھی تمھارے خلاف کب سُنتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ پان والے سے تمھارے بارے میں کہہ رہا تھا۔

لالا جی: پان والے سے کہہ رہا تھا ! کیا کہہ رہا تھا ؟

میر صاحب: اب چھوڑو بھی۔ وہ تمھارا دوست ٹھہرا ؛ تمھارے بارے میں جو جی چاہے کہے۔

لالا جی: تمھیں بتانا پڑے گا میر صاحب!

میر صاحب: اماں چھوڑو بھی۔ تم جاؤ اپنے کام پر لالا جی۔

لالا جی: نہیں، میں سُننا چاہتا ہوں کہ کیا کہتے ہیں شہباز خاں ؟ ہم تو ایک دِن میں مزا چکھا دیں

میر صاحب: بتا دوں؟ وہ کہتا ہے کہ ___لالا جی !___تم ہی ہو جو برداشت کرتے ہو،

لالا جی: بتاؤ گے بھی یا یوں پہیلیاں ہی بجھاؤ گے۔

میر صاحب: وہ کہتا ہے کہ لالا تیج رام کے گھر کا آدھا خرچ برداشت کرتا ہوں۔

لالا جی: میرے گھر کا خرچ!

میر صاحب: اور کیا اُس کے تعلقات میرے گھر سے ہیں ؟ میرے گھر کی عورتیں اُس کے گھر جاتی ہیں ؛ میں اُن کے گھر اچار کے گھڑے بھجواتا ہوں، اور میں سوئٹر۔ خیر چھوڑو بھی۔ مجھے کیا پڑی ہے کہ تمھارے معاملات میں دخل دوں۔

لالا جی: ارے یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟

میر صاحب: ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ یاد رکھّو _____زیادہ میٹھے ہی میں کیڑے پڑتے ہیں، اور وہ آدمی اچھا نہیں۔

لالا جی: مجھے شہباز خاں سے یہ اُمید نہ تھی۔ میں نے ہمیشہ اُسے اپنا بھائی سمجھا۔

میر صاحب: میں کہتا ہوں لالا جی ! تم تم گائے ہو گائے، ورنہ مجال ہے کہ وہ کسی اور کو ایسی بات کہہ کر نکل جائے اور یہ بھی ہماری بے وقوفی ہے جو کہہ دیا، ورنہ محلّے میں کسے دِلچسپی ہے جو تم سے کہے اور بھلا تم کیوں یقین کرنے لگے !

لالا جی: اگر بات سچّی ہو گی تو کیسے یقین نہ کروں گا۔

میر صاحب: لالا جی ! تمھارا چُپ رہنا بھی تو ہمارے حق میں زہر کا کام کرتا ہے۔ تم بولتے نہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ جہاں گڑھا ہوتا ہے، وہیں پانی مرتا ہے۔

لالا جی: مجھے آج بہت دُکھ ہوا۔ میں شہباز خاں کو ایسا آدمی نہیں سمجھتا تھا۔ اب مرزا صاحب تم ہی کہو، برسوں کا ساتھ ہے، تم نے کبھی ہماری زبان سے شہباز خاں کے خلاف ایک لفظ بھی سُنا؟

مرزا صاحب: لالا جی ! مجھے اِسی لیے تو حیرت ہے۔ جب میر صاحب نے مجھے بتایا، تو مجھے بھی یقین نہیں آیا۔ اس محلّے میں آپ دونوں کی دوستی تو ایک مثال ہے۔

میر صاحب: ارے مرزا صاحب! آپ کو کیا خبر! شہباز خاں تو مل کر گلا کاٹنے والوں میں سے ہیں۔

تو بھائی میں آج کہیں نہیں جاؤں گا۔ (لالا جی گھر کے اندر چلے جاتے ہیں)

میر صاحب: (قہقہہ لگاتے ہوئے ) اب معلوم ہو گا شہباز خاں کو _____ابھی وہ میر فراست علی کے ہتھکنڈوں سے واقف نہیں۔

مرزا صاحب: میر صاحب! ذرا میں جلدی میں ہوں، مگر یہ قِصّہ کیا ہے ؟

میر صاحب: پھر بتاؤں گا۔

 

تیسراسین

 

( چہرے سے پریشانی ظاہر ہو رہی ہے، گھر میں سنّاٹا ہے۔پردہ اُٹھتا ہے، لالا جی کا گھر____لالا جی غُصّے میں ٹہل رہے ہیں )

لالا جی کی بیوی: ارے کیا بات ہے، کیسی طبیعت ہے ؟

لالا جی: کچھ نہیں۔

بیوی: تم تو کام سے جا رہے تھے۔

لالا جی: آج نہیں جاؤں گا۔

بیوی: کیا بات ہے، کچھ طبیعت خراب ہے ؟

لالا جی: ہاں خراب ہے سمجھو ( کچھ ٹھہر کر) سوشیلا کی ماں ! بڑے دُکھ کی بات ہے کیا بتاؤں

بیوی: ارے جلدی بتاؤ، تُم تو اور دہلائے دے رہے ہو۔

لالا جی :ارے کیا بتاؤں ! شہباز خاں نے ایسی بات کہہ دی کہ بس کچھ کہہ نہیں سکتا۔

بیوی: ارے کہتے بھی ہو یا یوں ہی پہیلیاں بُجھاؤ گے۔ اُنھوں نے کیا کہہ دیا؟

لالا جی: مجھ سے کیا کہے گا ! مجھ سے کہتا تو مزہ چکھا دیتا۔ سارے محلّے میں کہتا پھرتا ہے کہ لالا جی کے گھر کا آدھا خرچ میں برداشت کرتا ہوں۔

بیوی: اوں ہوں ___تو اب وہ ہمارے گھر کا خرچ بھی برداشت کریں گے !

سوشیلا: امّاں ! چاچا ایسی بات نہیں کہہ سکتے۔ مجھے تو کسی کی لگائی بُجھائی معلوم ہوتی ہے۔

لالا جی: بس تو چُپ رہ۔ ہم نے تو اپنے کان سے سُنا ہے۔ میں نے بھی اُسے محلّے بھر میں ذلیل نہ کیا تو میرا نام بھی تیج رام نہیں۔ (دروازے پر کسی کے کھٹکھٹانے کی آواز آتی ہے۔) ارے بھائی آیا ! دیکھنا تو باہر کون ہے ؛ کہیں پنڈت جی تو نہیں، صبح آنے والے تھے۔ (سوشیلا سرجھکائے جاتی ہے )

سوشیلا :(باہر آتی ہے ) ہاں پنڈت جی ہی آئے ہیں۔کہتے ہیں کہ اگر وقت ہو تو آج ہولی کے چندے کے سلسلے میں دو چار جگہ ہولیں۔

لالا جی: اچھّا بھائی ___یہ ہولی کمیٹی کا سکریٹری ہونا بھی مصیبت ہو گیا۔ پانچ سال سے کہہ رہا ہوں کہ کسی دوسرے کو چُن لو، مگر لوگ مانتے ہیں نہیں۔

پنڈت جی: لالا جی ! رام رام ___بھئی اگر آپ کو تکلیف نہ ہو، تو دو چار آدمیوں سے مل لیں۔

لالا جی: ہاں ہاں ضرور ___اچھا ہوا تم آ گئے، تم سے کچھ بات بھی کرنی ہے۔

پنڈت جی: لالا جی ! ذرا دیر ٹھہرو، میں خاں صاحب کو بُلا لاؤں ؛ تینوں ساتھ چلیں گے۔

لالا جی: خاں صاحب کو بُلانے کی کوئی ضرورت نہیں، اُن کے بغیر کوئی کام نہیں رُکتا۔ بڑا آیا سیٹھ ساہوکار کہیں کا ! میرے گھر کا خرچ برداشت کرتا ہے۔ اس کو مزہ نہ چکھا دوں تو لالا شیو رام کی اولاد نہیں۔

پنڈت جی: کیا بات ہو گئی ؟

لالا جی: چلو، ابھی سب بتائے دیتا ہوں۔

(پردہ گرتا ہے )

٭٭٭

ماخذ:

http://www.ncpul.in/urdu/Anthology/Prose/Prose_list.html

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید