FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

حجۃ اللہ البالغہ میں شاہ ولی اللہ کا منہج واسلوب

 

 

                غازی عبدالرحمن قاسمی

 

 

 

 

ای میل:gaqasmi@yahoo.com

 

 

 

 

                تعارف

 

اس کائنات کی رنگ و بو میں بہت سے افراد و اشخاص پید ا ہوئے اور اپنی مقررہ زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہو گئے، ان کی وفات کے بعد ان کا ذکر کچھ عرصہ ہوا اور پھر گزرتے وقت کے ساتھ ان کے تذکرے ختم ہو گئے ، مگر کچھ ہستیاں اور شخصیات ایسی بھی گزر ی ہیں جن کی علمی کاوشوں ، مجتہدانہ صلاحیتیوں اور بلند پایہ استنبا ط واستدلال سے مزین کتب کی بدولت وہ آج بھی اہل علم کے حلقہ میں زندہ ہیں۔ ان کے بیان کردہ تحقیقی مضامین اسلامیات کے محقق کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں نمایاں نام مجد د الملت ، حکیم الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا ہے۔ آپ ۱۷۰۳ء میں پیدا ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو جو اطراف عالم میں شہرت عطا فرمائی اس کی ایک اہم وجہ آپؒ کی علمی جلالت ہے۔

آپ کی تحریروں میں اتقان و ثقاہت اور تحقیقی و علمی نکات پائے جاتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ عوام الناس کی خیرخواہی، ان کی دینی اصلاح اور روحانی و اخلاقی تربیت کا سامان بھی ملتا ہے۔ آپ اپنے زمانہ کے بہترین عالم و معلم تھے اور اتباع نبوی ﷺ کے جذبہ سے سرشار تھے۔ شب و روز دین متین کی تبلیغ کے لئے وقف کر رکھے تھے۔ بلا شک و شبہ آپ اپنے وقت کے مجدد اعظم، مصلح اعلی اور حکیم دانا تھے۔ جو نہ صرف شریعت کے رمز شناس تھے بلکہ اپنے زمانہ کی عوام کے بھی نبض شناس تھے۔ آپ کے علمی و عملی کمالات کے اتنے گوشے ہیں کہ ہرایک مستقل تصنیف کا محتاج ہے۔ شریعت اسلامیہ کی خدمت اور عوام الناس کی بہبود و اصلاح کے لیے آپؒ نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا اور نہایت قیمتی و تحقیقی تصانیف بطور یادگار کے چھوڑیں۔ جن میں سے شہرہ آفاق اور معرکۃ الآرا تصنیف’’ حجۃ اللہ البالغہ ‘‘ہے۔ اس کتاب میں آپؒ کا منہج واسلو ب کیا تھا۔ ؟اس پر تفصیلی بحث مابعد السطور میں آ رہی ہے۔

 

                حجۃ اللہ البالغہ کاموضوع

 

’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کا بنیادی موضوع احکام شریعت کی مصالح و حکمتیں اور ان کے اسرار ہیں۔

 

                حجۃ اللہ البالغہ کے مضامین

 

’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں فنی لحاظ سے آپ نے متعدد مضامین کو بیان کیا ہے۔ جس میں تعلیمات ربانی ، عقائد، احادیث ، فقہ، اصول فقہ، عبادات و معاملات ، اخلاقیات، تمدن و تہذیب ، سیاسیات، کسب معیشت کے طریقے ، تدبیر منزل ، خلافت و قضا ، جہاد ، آداب صحبت ، معاشرت ، فتن ، حوادث مابعد ، اور علامات قیامت وغیرہ کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اور ان مختلف موضوعات و ابواب کے اسرار و مقاصد اس طرح بیان کیے ہیں کہ ان مسائل کا تعلق انسانی زندگی سے مربوط نظر آتا ہے۔ اور احکام شرعیہ کی حکمتیں اور اسر ار و بھید عقلی و نقلی دلائل سے بیان کیے ہیں۔

 

                کتاب کی تقسیم

 

یہ کتاب دو بڑے حصوں میں منقسم ہے پہلا حصہ اوامر و نواہی کے مفید اصولوں پر محیط ہے اور اس میں سات مباحث ہیں اور ان میں بھی ہر بحث متعدد ابواب میں بیان ہوئی ہے۔ اور دوسرے حصہ میں اسلامی احکام کی عقلا تعبیر و تشریح کی گئی ہے جن میں پیش نظر فقہی موضوعات کی ترتیب ہے۔

 

                حجۃ اللہ البالغہ کی خصوصیات

 

شاہ صاحبؒ کی یہ عظیم الشان تصنیف اپنے موضوع پر جدت اور ندرت کا عنصر لیے ہوئے ہے۔ اس کے صرف ادبی اسلوب کو اگر زیر بحث لایا جائے تو اس پر مستقل ایک مقالہ کی ضرورت ہے۔ اور جن دلائل و براہین سے آپ نے استدلال کیا ہے اگر صرف اس استنباط واستدلال پر غور و فکر کیا جائے تو یہ بھی بڑے اعلی درجے کا کام ہو گا۔ اور دینی واسلامی فکر کو جس انداز میں آپ نے پیش کیا ہے اگر اس پر بات کی جائے تو آپؒ کا یہ ایساکارنامہ ہے جو آپؒ کو عالم اسلام کی ان شخصیات میں شامل کرتا ہے جن پر تاریخ اسلام کو فخر ہے۔

جب سے یہ کتاب منصہ شہود پر آئی ہے ہر دور میں اس کی درس وتدریس کے سلسلے جاری رہے اور اس سے راہنمائی حاصل کی جاتی رہی۔ جو عربی زبان و ادب سے شغف رکھنے والوں کے لیے نہ صرف ذوق تسکین کا باعث ہے بلکہ اہل علم کے لیے بھی ایک ایسی دوا ہے جو فکری اور عقلی راستوں میں شکوک و شبہات کے زہریلے کانٹوں بھرے میدانوں سے گزرتے وقت تریا ق کا باعث ہے۔ تشنگان علوم اسلامیہ کے لیے ایک ایسا جام ہے جو ایک دفعہ اس کا ذائقہ چکھ لیتا ہے وہ اس کی حلاوت سے مخمور نظر آتا ہے۔

 

                اسلوب کتاب

 

’’حجۃ اللہ البالغہ ‘‘میں اک نیا اسلوب اور منفرد طرز تحریر سامنے آیا ہے ، جو جامعیت ، زور بیان ، تحکم و اعتماد اور فصاحت و بلاغت کا شاہ کار ہے۔ جس میں انشاء کا ایک خاص انداز ہے جو پوری کتاب پر چھا یا ہوا ہے۔ مختصر اور جامع کلمات کے استعمال کے ساتھ ایسی خوبصورت تراکیب و محاورات اور استعارات و تشبیہات اور تمثیلات سے کام لیا گیا ہے جن میں اک خاص توازن و اعتدال ہے۔

حجۃ اللہ البالغہ کے مطالعہ سے شاہ صاحبؒ کا جو منہج واسلوب بیان سامنے آتا ہے اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

۱۔         متعدد مقامات پر بصیغہ امر استعمال کرتے ہوئے ’’ اِعْلَم‘‘ (جان لیجئے )سے بات شروع کرتے ہیں۔ ۲۰۰سو سے زائد مقامات پر’’ اِعْلَم‘‘ کو لائے ہیں۔ جس کا مقصد مخاطب کو متوجہ کر کے اہم فوائد و نکات بیان کرنا ہوتا ہے۔

عصر حاضر میں تحقیق کرنے والے محقق کو نگران مقالہ کی طرف سے یہ ہدایت ہوتی ہے کہ وہ مقالہ لکھنے سے پہلے اپنا میدان منتخب کرے، کہ کس شعبہ میں اسے مناسبت ہے اور وہ زیادہ بہتر کام کرسکتا ہے۔ اسی کے مطابق وہ موضوع کا انتخاب کرے اور مسائل کو زیر بحث لاتے ہوئے مقالہ تحریر کرے۔ یہی بات شاہ صاحب نے اپنے خاص انداز اِعْلَم (جان لیجئے )سے شروع کی ہے۔

مثال:

فاعلم ان لکل فن خاصۃ ولکل موطن مقتضی فکما انہ لیس لصاحب غریب الحدیث ان یبحث عن صحۃ الحدیث وضعفہ ولا لحافظ الحدیث ان یتکلم فی الفروع الفقھیہ وایثار بعضھا علی بعض فکذالک لیس للباحث عن اسرار الحدیث ان یتکلم بشئی من ذلک انما غایۃ ھمتہ ومطمح بصرہ ھو کشف السر الذی قصدہ النبی ﷺ فیما قال سواہ بقی ھذاالحکم محکما او صار منسوخا او عارضہ دلیل آخر فوجب فی نظر الفقیہ کونہ مرجوحا نعم لا محیص لکل خائض فی فن ان یعتصم باحق ما ھنالک بالنسبۃ الی ذالک الفن (۱)

’’جان لیجئے ہر فن کی ایک خاصیت اور ہر جگہ کا کوئی مقتضی ٰ ہوتا ہے۔ پس جس طرح یہ بات کہ فن غریب الحدیث کے مصنف کے لیے مناسب نہیں کہ وہ حدیث کی صحت و ضعف کو زیر بحث لائے ، اور نہ حافظ الحدیث کے لیے مناسب ہے کہ وہ فقہی مسائل کے بارے میں اور بعض احادیث کو بعض پر ترجیح دینے کے لیے کلام کرے ، پس اسی طرح حدیث کے اسرار سے بحث کرنے والے کے لیے مناسب نہیں کہ وہ ان میں سے کسی بھی چیز کے بارے میں کلام کرے ، اس کی پوری توجہ اور اس کے پیش نظر اس راز کو ہی کھولنا چاہیے جس کا نبی کریم ﷺ نے اپنے ارشاد میں قصد فرمایا ہے۔ عام ازیں وہ وہ حکم محکم باقی ہو ، یا منسوخ ہو گیا ہو ، یااس کے معارض کوئی اور دلیل آ گئی ہو جس کی وجہ سے مجتہد کی نظر میں وہ روایت مرجوح قرار پائی ہو البتہ یہ ضروری ہے کسی بھی فن میں داخل ہونے والے کے لیے کہ وہ اس چیز کو پکڑے جو اس فن میں سب سے زیادہ قابل اعتماد ہے۔ ‘‘

شاہ صاحب نے ایک بہت اہم فائدہ بیان کیا ہے کہ ہر فن کی ایک خاصیت ہوتی ہے اور ہر مقام کا اپنا تقاضا ہوتا ہے۔ اسی کے مطابق مسائل کو زیر بحث لانا چاہیے۔ یعنی محد ث کا کام ہے احادیث بیان کرنا اگر وہ فقیہ نہیں ہے اور فتوی نویسی کے فرائض سرانجام دینا شروع کر دے تو اس کا نتیجہ ٹھیک نہیں ہو گا۔ اور اسی طرح فقیہ کا کام مسائل کااستخراج اور احکام کااستنباط ہے وہ اپنا کام چھوڑ کر غریب الحدیث پر توجہ شروع کر دے تو اس کا بھی فائدہ نہیں ہو گا۔ علی ہذاالقیاس احکام اسلام کی مصالح اور حکمتیں بیان کرنے والے کو بھی اپنے موضوع پر توجہ کرنی چاہیے۔ اور اسی طرح اگر کوئی کسی فن پر کام کر رہا ہو اور دوسرے فن کی طرف مراجعت کی نوبت آئے تو اس فن کی قابل اعتماد اور راجح باتوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ مثلاً فقہ پر کام کرتے ہوئے حدیث نقل کرنی ہے تو ان احادیث کا انتخاب کیا جائے جو صحیح اور قابل اعتماد ہیں۔

۲۔        شاہ صاحب کئی مقامات پر صیغہ متکلم استعمال کرتے ہوئے ’’اَقُولُ ‘‘(میں کہتا ہوں)سے کلا م کرتے ہیں۔ اور۲۴۶سے زائد مقامات پر اس کو لائے ہیں۔

جس کے متعدد مقاصد ہوسکتے ہیں تاہم چند مقاصد کا ذکر کیا جاتا ہے۔

۱۔         آیات قرآنیہ کی تفسیر۔

۲۔        احادیث کی تشریح۔

۳۔        آیات میں مطابقت۔

۴۔        فقہی مسالک کے درمیان قرب پیدا کرنا۔

 

                آیت قرآنیہ کی تفسیر کی مثال

 

ارشاد باری تعالی ہے:

{ ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ } (۲)

’’وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں اور وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہہ ہیں۔ ‘‘

شاہ صاحب اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

اقول الظاہر ان المحکم مالم یحتمل الا وجھا واحد مثل:{ حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّھٰتُکُمْ وَ بَنٰتُکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ}(۳) والمتشابہ ما احتمل وجوھا وانما المراد بعضھا کقولہ تعالی:{ لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰت}(۴)حملھا الزائعون علی اباحۃ الخمر ما لم یکن یعنی او افساد فی الارض والصحیح حملھا علی شاربھا قبل التحریم (۵)

’’ میں کہتا ہوں آیت کے ظاہر اور واضح معنی یہ ہیں کہ محکم آیت وہ ہے جس کے اندر صرف ایک ہی وجہ کا احتمال ہو۔ مثلاً حرام کر دی گئیں تم پر تمہاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں۔ ‘ اور متشابہہ آیت وہ ہے جس میں چند وجوہ کا احتمال ہو اور مقصود و مراد ان میں سے بعض وجوہ ہوں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ’جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان پر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھا چکے جب کہ انہوں نے پرہیز کیا اور ایمان لائے اور نیک کام کئے۔ ‘اس آیت سے بعض کج فہموں نے خمر و شراب کی اتنی مقدار مباح کر دی جو زمین میں فساد اور شر و فتنہ کے درجہ کو نہ پہنچے اور صحیح مطلب یہ ہے کہ یہ حکم ان لوگوں کے حق میں ہے جو خمر و شراب کی حرمت سے پہلے شراب پیا کرتے تھے ۔ ‘‘

شاہ صاحب نے’’ اَ قُولُ‘‘ سے بات کا آغاز کیا اور محکم و متشابہ کی مع مثال وضاحت فرمائی اور ساتھ ہی ان لوگوں کی غلطی پر متنبہ کیا جنہوں نے آیت سے غلط مفہوم نکالا۔

دوسری مثال:

ارشاد باری تعالی ہے :

{وَمَنْ قَتَلَ مُوْمِنًا خَطًَا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّوْمِنَۃٍ }(۶)

’’اور جس نے کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دیا تو ایک مومن غلام آزاد کرے۔ ‘‘

شاہ صاحب اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

اقول انما وجب فی الکفارۃ تحر یر رقبۃ مومنۃ او اطعام ستین مسکینا لیکون طاعۃ مکفرۃ لہ فیما بینہ وبین اللہ فان الدیۃ مزجرۃ تورث فیہ الندم بحسب تضییق الناس علیہ والکفارۃ فیما بینہ وبین اللہ تعالی (۷)

’’میں کہتا ہوں اس قتل کے کفارہ میں مومن غلا م آزاد کرنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا اس لیے واجب کیا گیا تاکہ اس کے اور اللہ کے درمیان یہ طاعت اس کے لیے گناہ مٹانے والی عبادت بن جائے ، بے شک دیت زجر کا ذریعہ ہے وہ اس پر ندامت پیدا کرتی ہے لوگوں کی تنگی کے اعتبار سے اور کفارہ اس کے اور اللہ کے درمیان ندامت پیدا کرتا ہے۔ ‘‘

شاہ صاحب کے مذکورہ کلام سے معلوم ہوا کہ شریعت نے قتل خطا میں مومن غلام کا آزاد کرنا یا دو ماہ کے روزے رکھنا بطور کفارہ اس لیے مقرر کیا تاکہ اس نیکی سے اس کا گناہ مٹ جائے ، کفارہ بندے اور اللہ کے درمیان ندامت کا معاملہ ہوتا ہے۔ اور دیت اس لیے واجب کی کہ اس کا ادا کرنا عاقلہ کے ذمہ ہوتا ہے اور وہ اس کے ساتھ خوب ڈانٹ ڈپٹ کا معاملہ کریں گے کہ تمہاری وجہ سے ہم سب مشکل میں پڑ گئے ہیں۔ اس سے اسے شدید ندامت کا سامنا ہوتا ہے اور وہ آئندہ ایسی غلطی نہیں کرے گا۔

 

                تسامح

 

واضح رہے کہ شاہ صاحب نے قتل خطا ء کے کفارہ میں جو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا ذکر کیا ہے یہ ان سے تسامح ہوا ہے اس لیے کہ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۹۲میں صرف اتنا ہے کہ مومن غلام آزاد کرے یا ساٹھ روزے رکھے۔

 

حدیث کی تشریح کی مثال :

حضورﷺکا ارشاد عالی ہے :

مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا یُبْتَغَی بِہِ وَجْہُ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ لَا یَتَعَلَّمُہُ إِلَّا لِیُصِیبَ بِہِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْیَا، لَمْ یَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَعْنِی رِیحَہَا (۸)

’’جس شخص نے وہ علم کہ جس سے اللہ تبارک تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے اس لیے سیکھا کہ اس کے ذریعہ اسے دنیا کا کچھ مال و متاع مل جائے تو ایسا شخص جنت کی خوشبو کو بھی نہیں پا سکے گا قیامت کے دن، یعنی جنت کی ہوا۔ ‘‘

شاہ صاحب اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

اقول یحرم طلب العلم الدینی لاجل الدنیا ویحر م تعلیم من یری فیہ الغرض الفاسد لوجوہ :منہا ان مثلہ لا یخلوغالبا من تحریف الدین الدنیا بتاویل ضعیف فوجب سد الذریعۃ ومنھا ترک حرمۃ القرآن والسنن وعدم الاکتراث بھا (۹)

’’ میں کہتا ہوں دنیا کے لیے دینی علم حاصل کرنا حرام ہے۔ اور اس شخص کو سکھانا بھی حرام ہے جو فاسد غرض رکھتا ہے۔ اور ان میں سے یہ کہ اس طرح کا آدمی عام طور پر دنیا کمانے کے لیے کمزور تاویلات کے ذریعے دین کی تحریف سے باز نہیں آتا ، پس اس راستہ کا بند کرنا ضروری ہوا۔ اور ان حرمت کے اسباب میں سے دوسرایہ کہ ایسے شخص کو تعلیم دینا قرآن وسنت کا احترام نہ رکھنا ہے اور ان کی پروا ہ نہ کرنا ہے۔ ‘‘

معلوم ہوا حصول دنیا کے لیے دینی علم حاصل کرنا حرا م ہے اس لیے کہ ایسا شخص اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے باطل تاویلوں کا سہارا لے گا۔ اور ایسے شخص کو تعلیم دینا قرآن وسنت کے احترام میں کمی کا باعث ہے۔

دوسری مثال :

حضوراکرم ﷺنے فرمایا :

مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَہُ ثُمَّ کَتَمَہُ اُلْجِمَ یَوْمَ القِیَامَۃِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ ( ۱۰)

’’جس شخص سے ایسا سوال کیا گیا جس کو وہ جانتا ہے اور اس نے اسے چھپایا تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔ ‘‘

شاہ صاحب اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

اقول یحرم کتم العلم عند الحاجۃ الیہ لانہ اصل التھاون وسبب نسیان الشرائع واجزیۃ المعاد تبنی علی المناسبات فلما کان الاثم کف لسانہ عن النطق جوزی بشبح الکف وھو اللجام من نار(۱۱)

’’میں کہتا ہوں ضرورت کے وقت علم چھپانا حرام ہے۔ اس لیے کہ وہ لاپروائی اور سستی کی جڑ ہے اور احکام شرعیہ کو بھولنے کا سبب ہے اور اخروی جزائیں مناسبتوں پر مبنی ہیں۔ پس جب بولنے سے زبان کو روکنا گناہ تھا تو وہ سزا دیا گیا روکنے کی شکل و صورت کے ذریعے اور وہ آگ کی لگام ہے۔ ‘‘

شاہ صاحب کی اس تشریح سے تین اہم باتیں معلوم ہوئیں۔

(الف) علم چھپانا دین کی اشاعت سے لاپروائی برتنا ہے۔ اس لیے کہ ایسی صورت حال میں لوگ علم حاصل کرنا چھوڑ دیں گے۔

(ب)   باتیں دہرانے سے یاد رہتی ہیں جب علم کو چھپایا جائے گا ، خرچ نہیں کیا جائے گا تو وہ رفتہ رفتہ بھول جائے گا۔ احکام شرعیہ کو بھلانا نقصان عظیم کا باعث ہے۔

(ج)     اخروی جزاؤں کے بارے میں ضابطہ بیان کیا ہے کہ وہ عمل کی جنس سے ہوتی ہیں یعنی عمل اور اس کی جزا میں مناسبت ہوتی ہے۔

چونکہ اس نے علم بیان کرنے کی بجائے زبان کو روکا اور منہ بند کیا ہے۔ جو کہ شریعت کی نظر میں گناہ ہے اس لیے آخرت میں اسی کی شکل و صورت میں بدلہ دیا جائے گا اور وہ یہی ہے کہ اس کے منہ پر آگ کی لگام چڑھائی جائے جس سے اس کا منہ بند ہو گا۔

 

قرآنی آیات میں مطابقت کی مثال:

قرآن کریم میں عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم ہے۔ ارشاد ربانی ہے :

{ یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَاء ِ الْمُوْمِنِیْنَ   یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ذٰلِکَ   اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ   فَلَا یُوْذَیْنَ }(۱۲)

’’اے نبی!اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکایا کریں۔ اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر ستائی نہ جائیں گی۔ ‘‘

اسی طرح دوسرے مقام پر ارشاد ربانی ہے:

{ وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسَْلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَاء ِ حِجَابٍ }(۱۳)

’’جب تم ازواج مطہرات سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔ ‘‘

اور سورۃ النور میں ارشاد ربانی ہے :

{قُلْ لِّلْمُوْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ }(۱۴)

’’ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں۔ ‘‘

اس آیت میں مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ نگاہیں نیچی رکھیں ، اگر عورتوں کے لیے پردہ اور حجاب کا حکم ہے تو پھر نگاہیں نیچی رکھنے کا کیا مطلب ؟

چنانچہ آیات کے درمیان موافقت پیدا کرتے ہوئے شاہ صاحب لکھتے ہیں :

اقول:۔ ۔ ۔ ۔ واذاامر الشارع احد بشئی اقتضی ذلک ان یومر الاخر ان یفعل معہ حسب ذالک ، فلما امرت النساء بالتستر وجب ان یرغب الرجال فی غض البصر ، وایضاً فتہذیب نفوس الرجال لا یتحقق الا بغض الابصار ومواخدۃ انفسہم (۱۵)

’’اور جب شارع کسی کو کسی بات کا حکم دیتا ہے تو وہ حکم تقاضا کرتا ہے کہ دوسرے کو بھی حکم دیا جائے کہ وہ اس کے ساتھ اس حکم کے موافق معاملہ کرے پس جب عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دیا گیا تو ضروری ہوا کہ مردوں کو ترغیب دی جائے نظریں نیچی رکھنے کی اور نیز مردوں کے نفوس کا سنورنا متحقق نہیں ہوتا مگر نظریں جھکانے سے اور اپنے نفوس کو پکڑنے سے اس چیز کے ساتھ۔ ‘‘

شاہ صاحبؒ نے شریعت اسلامیہ کا ایک بہت اہم اصول بیان کیا ہے۔ جب کسی معاملہ کا تعلق دو افراد سے ہو اور شریعت اسلامیہ جب ایک شخص کو کسی بات کا حکم دیتی ہے تو اس حکم کا مقتضی یہ ہوتا ہے کہ دوسرے فرد کو بھی ویسا حکم دیا جائے تاکہ وہ پہلے فرد کو دیے گئے حکم کے موافق عمل کرے۔ جب عورتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ مردوں سے پردہ کریں تو ساتھ ہی مردوں کو حکم دیا گیا کہ وہ بھی اپنی نظریں نیچی رکھیں۔ نیز مردوں کے اپنے نفس کی تہذیب کا بھی اسی پر انحصار ہے کہ وہ عورتوں کو بلاوجہ نہ دیکھیں اور غض بصر کی پابندی کریں۔ اور اپنے نفوس سے مواخذہ و باز پرس کریں۔

اور اس قسم کی اور مثالیں بھی شریعت اسلامیہ میں موجود ہیں۔ جیسا کہ عورتوں کو حکم دیا کہ وہ اپنا نکاح خود نہ کریں اولیاء کی وساطت سے تمام امور سرانجام ہونے چاہییں تو ساتھ ہی اولیاء کو بھی حکم دے دیا کہ عورتوں کی پسند وناپسند اور رضامندی معلوم کیے بغیر ان کا نکاح نہ کریں۔ جیسا کہ آگے بحث آ رہی ہے۔ اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے مردوں کے حقوق بیان کیے تو ساتھ ہی عورتوں کے حقوق بیان کیے۔

ارشاد نبوی ﷺ ہے :

اَلَا إِنَّ لَکُمْ عَلَی نِسَائِکُمْ حَقًّا، وَلِنِسَائِکُمْ عَلَیْکُمْ حَقًّا، فَاَمَّا حَقُّکُمْ عَلَی نِسَائِکُمْ فَلَا یُوطِئْنَ فُرُشَکُمْ مَنْ تَکْرَہُونَ وَلَا یَاْذَنَّ فِی بُیُوتِکُمْ لِمَنْ تَکْرَہُونَ اَلَا وَحَقُّہُنَّ عَلَیْکُمْ اَنْ تُحْسِنُوا إِلَیْہِنَّ فِی کِسْوَتِہِنَّ و َطَعَامِہِنَّ (۱۶)

’’جان لو کہ تمہارا تمہاری بیویوں پر اور ان کا تم پر حق ہے تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر ان لوگوں کو نہ بٹھائیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو بلکہ ایسے لوگوں کو گھر میں داخل نہ ہونے دیں اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہیں بہترین کھانا اور بہترین لباس دو۔ ‘‘

 

فقہی مسالک کے درمیاں تقریب کی مثال :

فقہاء کے درمیان یہ مسئلہ بڑ ی شد و مد سے زیر بحث رہا ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر عاقلہ و بالغہ اپنا نکاح خود کرسکتی ہے یا نہیں۔ ؟

حنفیہ کا موقف:

اس مسئلہ میں حنفیہ کا موقف یہ ہے کہ عاقلہ و بالغہ عورت ولی کی اجازت کے بغیر اپنا نکاح کفو میں کرسکتی ہے۔ (۱۷)امام مالکؒ کے نزدیک اس قسم کا نکاح جو ولی کی اجازت کے بغیر کیا جائے وہ سرے سے منعقد ہی نہیں ہو گا۔ (۱۸)اور دیگر جمہور فقہاء کے نزدیک ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہو گا تاہم اگر کسی عورت نے ایسا کر لیا تو وہ ولی کی اجازت پر موقوف ہو گا۔ اگر اس نے اجازت دے دی تو نکاح صحیح ہو گا وگرنہ جائز نہ ہو گا۔ (۱۹)

حنفیہ کے موقف سے معلوم ہوتا ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر عاقلہ و بالغہ عورت اپنا نکاح کرسکتی ہے۔ جبکہ جمہور فقہاء کے موقف سے معلوم ہوا ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہو گا۔ احناف اور جمہور کے موقف میں بہت فاصلہ ہے۔ فقہاء کرام کی مذکورہ بالا بحث کے بعد اب شاہ صاحب کی کلام کو مد نظر رکھا جائے تو احناف اور جمہور فقہاء کی رائے میں فاصلہ کم ہوتا نظر آئے گا۔ جیسا کہ یہ بات پیچھے گزر گئی ہے کہ شاہ صاحب جب کوئی اہم بات یا فائدہ بیان کرتے ہیں تو ’’اِعْلَم‘‘ سے بات شروع کرتے ہیں۔ چنانچہ اس معرکۃ الاراء مسئلہ میں ’’ لانکاح الابولی‘‘ کے تحت لکھتے ہیں:

اعلم انہ لایجوز ان یحکم فی النکاح النساء خاصۃ لنقصان عقلھن وسوء فکرھن فکثیرا مالا یھتدین المصلحۃ ولعدم حمایۃ الحسب منہن غالبا ، فربما رغبن فی غیر الکف ء وفی ذلک عار علی قومھا ، فوجب ان یجعل للاولیاء شیئی من ھذا الباب لتسدالمفسدۃ (۲۰)

’’جان لیجئے نکاح میں صرف فیصلہ کرنے کا اختیار عورتوں کو دے دیا جائے تو یہ جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ ان کی عقل ناقص اور سوچ ادھوری ہوتی ہے۔ کئی مرتبہ ان کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان کے لیے کونسا قد م اٹھا نا بہتر ہے۔ اور عام طور پران خاندانی خصوصیات کا لحاظ بھی نہیں کرتیں جو خاندانوں میں اہم ہوتی ہیں چنانچہ وہ کبھی غیر کفو میں نکاح کر لیتی ہیں جو ان کے خاندان کے لیے شرمندگی بنتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ یہ تمام معاملات اولیاء کے ہاتھوں سرانجام ہوں تاکہ ہرقسم کی خرابی اور فساد سے بچا جا سکے۔ ‘‘

آگے شاہ صاحب مزید لکھتے ہیں جس کا خلاصہ درج ذیل ہے :

’’اور عام طور پر فطرت کی طرف سے لوگوں میں رائج طریقہ یہی ہے کہ مرد عورتوں کے ذمہ دار ہوں ، اور ان کے ہاتھ میں ہی معاملات کو کھولنا اور لپیٹنا ہو ، ان کے ذمہ مصارف ہوں ، اور عورتوں کے نکاح میں اولیا ء کا ہونا مردوں کی شا ن بڑھاتا ہے اور عورتوں کا خود نکاح کرنا بے شرمی کی بات ہے جس کا سبب حیاء کی کمی ہے اور اس میں اولیاء کی حق تلفی ہوتی ہے جو ان کی بے قدری کا باعث ہے۔ اور اہم بات یہ ہے کہ نکاح کی تشہیر بھی ضروری ہے تاکہ نکاح اور بدکاری میں فرق ہو جائے اور شہرت کا بہترین طریقہ ہے کہ اولیاء کو نکاح میں شامل کیا جائے۔ ‘‘(۲۱)

آخر میں شاہ صاحب نے ایک اور اہم بات کی طرف اپنے مخصوص انداز ’’اَقُولُ ‘‘کے ساتھ مخاطب کیا ہے :

اقول لایجوز ایضاً ان یحکم الاولیاء فقط لانہم لایعرفون ما تعرف المراۃ من نفسھا ولان حار العقد وقارہ راجعان الیھا والاستئمار طلب ان تکون ھی الآمرۃ صریحا ، والاستئذان طلب ان تاذن ولاتمنع وادناہ السکوت (۲۲)

’’میں کہتا ہوں یہ بھی جائز نہیں کہ صرف اولیاء کو ہی حاکم بنا کر عورتوں کے نکاح کا پورا اختیار دے دیا جائے ، اس لیے کہ وہ نہیں جانتے اس بات کو جسے عورت اپنی ذات کے بارے میں جانتی ہے۔ اور اس لیے کے عقد کا نقصان اور نفع عورت کی طرف لوٹنے والا ہے۔ اور استمار اس بات کی طلب ہے کہ وہ ہی صراحتاً حکم دینے والی ہو۔ اور استیذان اس بات کی طلب ہے کہ وہ اجازت دے اور وہ انکار نہ کرے اور اجازت کا ادنی درجہ خاموشی ہے۔ ‘‘

شاہ صاحب کے اس محققانہ کلام سے احناف اور جمہور دونوں کی رائے قابل عمل ہو گئیں کہ نہ تو بالکلیہ صرف عورت کے ہاتھ میں شادی و بیاہ کا اختیار ہو اور نہ ہی اولیاء کو مکمل طور پر اختیار ہو بلکہ آپس کی مشاورت سے ، عورت کی اجازت و رضامندی سے شادی و بیاہ کا یہ مسئلہ حل ہونا چاہیے تاکہ بعد میں کسی قسم کی تلخیاں اور لڑائی جھگڑے سکون زندگی برباد نہ کرسکیں۔

مذکورہ مثالوں سے واضح ہوا کہ ’’ اقول‘‘سے شاہ صاحب عمدہ فوائد و نکات بیا ن کرتے ہیں۔

۳۔        بسااوقا ت ’’ وَالْاَصْل ‘‘کہہ کر اپنے دعوی کا اثبات کرتے ہیں۔ اور اسے۵۰ سے زائد مقامات پر لائے ہیں۔ جو بنیادی دلیل کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ کہیں تو ’’والاصل‘‘ کہہ کر آیت کریمہ لاتے ہیں اور کبھی حدیث رسول ﷺ نقل کرتے ہیں اور کہیں عقلی دلیل پیش کرتے ہیں۔

آیت کی مثال :

شاہ صاحب نے باب قائم کیا :

باب اسباب نزول الشرائع الخاصۃ بعصر دون عصر وقوم دون قوم (۲۳)

’’وہ اسباب جن کی وجہ سے مخصوص زمانوں میں مختلف قوموں کے لیے خاص شریعتیں نازل ہوئیں۔ ‘‘

اس کے بعد شریعتوں کے مختلف ہونے کے وجوہ اسباب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

والاصل فیہ قولہ تعالی { کُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِلا لِبَنِی إِسْرَائِیلَ إِلا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلَی نَفْسِہِ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزِّلَ التَّوْرَاۃُ قُلْ فَاْتُوا بِالتَّوْرَاۃِ فَاتْلُوہَا إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ }(۲۴)

اوربنیاداس میں اللہ تعالی کا قول، بنی اسرائیل کے لیے سب کھانے کی چیزیں حلال تھیں مگر وہ چیز جو اسرائیل نے تورات نازل ہونے سے پہلے اپنے اوپر حرام کی تھی کہہ دو تورات لاؤ اور اسے پڑھو اگر تم سچے ہو۔ ‘‘

ا س کے بعد شاہ صاحب نے باب سے متعلقہ بحث کی ہے اور اس پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔

اور اسی طرح شاہ صاحب نے باب قائم کیا :

باب اسباب النسخ (۲۵)

’’نسخ کے اسباب کا بیان۔ ‘‘

اس کے بعد لکھتے ہیں:

والاصل فیہ قولہ تعالی{مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا}(۲۶)

’’اور بنیادی دلیل اس میں اللہ تعالی کا قول ہم جو کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس کے برابر لاتے ہیں۔ ‘‘

حدیث کی مثال :

لوگوں کی جبلت اور فطرت کے بارے میں کلام کرتے ہوئے شاہ صاحب نے ایک باب قائم کیا :

باب اختلاف الناس فی جبلتھم المستوجب لاختلاف اخلاقہم واعمالہم ومراتب کمالہم (۲۷)

’’جبلت میں لوگوں کے مختلف ہونے کا بیان جو ان کے اخلاق و اعمال اور کمال کے مرتبو ں کے مختلف ہونے کا سبب ہے۔ ‘‘

مذکورہ باب کے قائم کرنے سے شاہ صاحبؒ کا مقصد لوگوں کے اخلاق و اعمال اور کمال میں مختلف ہونے کی وجہ بیان کرنا ہے۔ کہ اس کا سبب لوگوں کی جبلت اور فطرت کا مختلف ہونا ہے جس کی وجہ سے ان کے کمالات و اخلاقیات اور عملیات میں یکسانیت نہیں ہے۔

اس بات کو مزید مدلل کرنے کے لیے شاہ صاحب لکھتے ہیں :

والاصل فیہ ماروی عن النبی ﷺ انہ قال اذا سمعتم بجبل زال عن مکانہ فصدقوہ ، و اذا سمعتم برجل تغیر عن خلقہ فلا تصدقوا بہ فانہ یصیر الی ما جبل علیہ (۲۸)

’’اور بنیادی دلیل اس میں وہ روایت ہے جو نبی کریم ﷺ سے مروی ہے آپ ﷺ نے فرمایا جب تم کسی پہاڑ کے بارے میں سنو کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹ گیا ہے تو اس کو مان لو اور جب تم کسی آدمی کے بارے میں سنو کہ اس کی فطرت بدل گئی ہے تو اس کو مت مانو پس بے شک وہ لوٹنے والا ہے اس فطرت کی طرف جس پر وہ پید ا کیا گیا ہے۔ ‘‘

اسی طرح متعدد مقامات پر شاہ صاحب احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ مگر احادیث کے نقل کرنے کے بعد ان کی صحت وسقم پر بالکل کلام نہیں کرتے ، بلکہ بسا اوقات احادیث ضعیفہ سے بھی استدلال کرتے ہیں۔ مثلاً شاہ صاحب نے ایک حدیث نقل کی :

لَا نِکَاح إِلَّا بولِی (۲۹)

’’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ ‘‘

جبکہ محققین نے اس حدیث کی صحت پر کلام کیا ہے۔ امام علاء الدین کاسانی (م- ۵۸۷ھ)لکھتے ہیں :

لا نکاح إلا بولی مع ما حکی عن بعض النقلۃ ان ثلاثۃ احادیث لم تصح عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وعد من جملتہا ہذا ولہذا لم یخرج فی الصحیحین( ۳۰)

’’لا نکاح إلا بولی کے بارے میں بعض اہل علم نے نقل کیا ہے کہ تین احادیث نبی کریم ﷺسے صحیح روایت نہیں کی گئیں اور ان میں ایک یہی حدیث ہے اسی لیے صحیحین میں اس کی تخریج نہیں ہے۔ ‘‘

شیخ جمال الدین رومی البابرتی (م-۷۸۶ھ)لکھتے ہیں :

روی عن یحیی بن معین رحمہ اللہ انہ قال: الاحادیث الثلاثۃ لیست بثابتۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احدہا قولہ علیہ الصلاۃ والسلام   لا نکاح إلا بولی وشاہدی عدل (۳۱)

’’یحی بن معین سے روایت کی گیا کہ تین احادیث حضور اکرم ﷺسے ثابت نہیں ہیں ان میں سے ایک لا نکاح إلا بولی وشاہدی عدل ہے۔ ‘‘

امام بدرالدین عینی (م- ۸۵۵ھ)لکھتے ہیں :

وقال یحیی بن معین واسحاق بن راہویہ تنسب إلیہ ثلاثۃ احادیث لم تثبت عن رسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ احدہا لا نکاح إلا بولی (۳۲)

’’یحی بن معین اور اسحاق بن راھویہ نے کہا تین احادیث کی نسبت حضورﷺ کی طرف کی جاتی ہے مگر وہ آپ ﷺسے ثابت نہیں ہیں ان میں سے ایک ہے۔ لا نکاح إلا بولی ‘‘

علامہ ابن نجیم (م-۹۷۰ھ)نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (۳۳)اور یہی رائے علامہ شامی(م-۱۲۵۲ھ)کی ہے(۳۴)

اسی طرح شرک کی صورتیں بیان کرتے ہوئے ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے شاہ صاحب لکھتے ہیں :

فی الحدیث اَن حَوَّاء سمت وَلَدہَا عبد الْحَرْث وَکَانَ ذَلِک من وَحی الشَّیْطَان وقد ثبت فی احادیث لاتحصی ان النبی ﷺ غیر اسماء اصحابہ عبدالعزیز وعبدشمس ونحو ھما الی عبداللہ وعبدالرحمن وما اشبھھما فھذہ اشباح وقوالب للشرک نھی الشارع عنھا لکونھا قوالب لہ واللہ اعلم (۳۵)

’’اورحدیث میں آیا ہے کہ حضرت حواء نے اپنے بیٹے کا نام عبد الحارث رکھا اور یہ نام رکھنا شیطان کے اشارے سے تھا اور بے شمار احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کے ناموں کو بدل دیا اور عبد العزی، اور عبدالشمس اور ان کے مانند ناموں کی جگہ عبداللہ ، عبدالرحمن اور ان سے ملتے جلتے نام رکھے۔ غرض یہ شرک کی صورتیں اور سانچے ہیں شریعت نے ان سے اس لیے منع کیا کہ شرک ان سانچوں میں ڈھل کر تیار ہوتا ہے۔ باقی اللہ بہتر جانتے ہیں۔ ‘‘

شاہ صاحب نے حضرت حواء کے واقعہ والی جو حدیث نقل کی ہے اس کو محققین نے ضعیف اور اسرائیلات میں شمار کیا ہے۔

امام بن کثیر (م- ۷۷۴ھ )لکھتے ہیں :

والغرض ان ہذا الحدیث معلول من ثلاثۃ اوجہ احدہا ان عمر بن إبراہیم ہذا ہو البصری وقد وثقہ ابن معین، ولکن قال ابو حاتم الرازی لا یحتج بہ، ۔ ۔ ۔ الثانی انہ قد روی من قول سمرۃ نفسہ لیس مرفوعا، کما قال ابن جریر:حدثنا ابن عبد الاعلی، حدثنا المعتمر عن ابیہ، حدثنا بکر بن عبد اللہ بن سلیمان التیمی عن ابی العلاء بن الشخیر عن سمرۃ بن جندب قال: سمی آدم ابنہ عبد الحارث. الثالث ان الحسن نفسہ فسر الآیۃ بغیر ہذا، فلو کان ہذا عندہ عن سمرۃ مرفوعا لما عدل عنہ قال ابن جریر حدثنا ابن وکیع حدثنا سہل بن یوسف عن عمرو عن الحسن جعلا لہ شرکاء فیما آتاہما قال کان ہذا فی بعض اہل الملل ولم یکن بآدم(۳۶)

’’اور خلاصہ یہ کہ یہ حدیث کئی وجہوں سے معلول (کمزور )ہے۔ پہلی وجہ اس حدیث کے راوی عمر بن ابراہیم کو اگرچہ ابن معین نے ثقہ کہا ہے مگر ابوحاتم رازی نے کہا اس کی روایت قابل حجت نہیں ، دوسری وجہ یہی روایت حضرت سمرۃ سے موقوفاً روایت کی گئی ہے۔ جیسا کہ ابن جریر نے کہا کہ سمرہ بن جندب کہتے ہیں کہ حضرت آدم نے اپنے بیٹے کا نام عبد الحارث رکھا۔ اور تیسری وجہ اس حدیث کے راوی حضرت حسن بصری نے اس کے علاوہ تفسیر کی ہے۔ اگر یہ حضرت سمرہ نے مرفوعاً بیان کی ہوتی تو یہ اس سے اعراض نہ کرتے۔ ابن جریر نے کہا کہ حضرت حسن فرماتے ہیں کہ یہ حضرت آدم کا واقعہ نہیں بلکہ دیگر مذاہب والوں کا واقعہ ہے۔ ‘‘

امام ابن کثیرؒ کے کلام کا حاصل نکات کی صورت میں درج ذیل ہے۔

۱۔         اس حدیث کے راوی عمر بن ابراہیم کی روایت کو امام ابو حاتم رازیؒ نے ناقابل حجت قرار دیا ہے۔

۲۔        حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے یہ روایت موقوفاً نقل کی گئی ہے۔

۳۔        اس حدیث کے راوی حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں یہ حضرت آدم ؑ کا واقعہ نہیں ہے بلکہ دیگر مذاہب والوں کا واقعہ ہے۔

ان وجوہ کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔

اس مقام پر ایک وزنی سوال ہے کہ شاہ صاحب جیسے جلیل القدر عالم جن کی پہچان ہی محدث دہلوی کے نام سے ہے ان سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ صحیح احادیث کے ساتھ ضعیف احادیث بھی نقل کریں اور ان سے استدلال کریں۔ ؟

 

                علامہ زاہد الکوثریؒ کے شاہ صاحب پر اعتراضات

 

علامہ زاہد الکوثریؒ(م -۱۳۶۸ھ)نے شاہ صاحب پر جو اعتراضات کیے ہیں ان میں سے ایک یہی ہے ’’کہ آپ کی نظر صرف متون حدیث کی طرف ہے ، اسانید کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ ‘‘علامہ کوثریؒ نے شاہ صاحب کی علمی خدمات کو کھلے دل سے سراہا ہے مگر اس کے بعد چند مقامات پر آپ کے بعض افکار پر کڑی تنقید کرتے ہوئے گرفت بھی کی ہے۔

علامہ کوثریؒ لکھتے ہیں :

ولہ رحمۃ اللہ خدمۃ مشکورۃ فی انھاض علم الحدیث فی الھند، لکن ھذا لایبیح لنا السکوت عما ینطوی علیہ من اعمال تجافی الصواب(۳۷)

’’آپؒ کی ہندوستان میں علم الحدیث کی اشاعت میں قابل تشکر خدمات ہیں۔ لیکن محض اس بات کی وجہ سے ہم آپ کی بیان کردہ ان باتوں پر خاموشی نہیں اختیار کرسکتے جو درستگی سے دور ہیں۔ ‘‘

اس کے بعد علامہ کوثریؒ نے جو مباحث شروع کی ہیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

۱۔         شاہ صاحب اعتقادی اور فروعی مسائل میں حنفی مذہب پر تھے۔ اور مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ کے موقف’’ توحید شہودی ‘‘کے قائل تھے۔ مگر جب آپؒ حجاز تشریف لے گئے تو شیخ ابو طاہرؒ بن ابراہیم سے صحاح سۃ کی تعلیم حاصل کی ، اور ان کے والد ابراہیمؒ کی کتب کا گہر ا اثر قبو ل کیا جب کہ ان کی کتب میں ہرقسم کی آراء موجود تھیں۔ چنانچہ آپؒ فقہ اور تصوف میں ان کی طرف مائل ہو گئے۔ اور جب ہندوستان لو ٹ کر آئے تو اپنے گھر والوں اور خاندان کے مذہب سے انحراف کیا۔ یعنی فقہ ، تصوف اور اعتقادی مسائل میں خاندانی مذہب(مسلک ) کو چھوڑ دیا اور’’ توحید شہودی ‘‘کی جگہ’’ توحید وجودی ‘‘کے قائل ہو گئے۔

۲۔        شاہ صاحبؒ اللہ تعالی کے شکل و صورت میں تجلی فرمانے کے قائل ہیں۔ اوراس کے بھی کہ اللہ تعالی کا مظاہر میں ظہور ہوتا ہے اور آپؒ کے خیال میں یہ اکابر کا عقیدہ ہے۔ جبکہ یہ بات تو ان لوگوں کے مطابق ہے جو حلول کے قائل ہیں۔ جید علماء کے نزدیک اس قسم کا قول قابل ترک ہے۔

۳۔        صحاح ستہ کی احادیث کے متون کی طرف آپؒ کی خاصی توجہ ہے اسانید کی طرف نہیں ہے۔ جبکہ اہل علم کے ہاں صحیحین کی اسانید پر بھی نظر کی جائے گی۔ اور اسی طرح جب فروعی (فقہی )مسائل میںاسناد کو پرکھا جاتا ہے جیسا کہ اہل علم کا طریقہ کار رہا ہے۔ تو اعتقادی مسائل میں کس طرح اسناد کی طرف نظر نہ کرنے کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ ؟جبکہ شاہ صاحب نے فقہی مسائل ہوں یا اعتقادی مسائل ہوں صرف متون حدیث کی طرف توجہ کی ہے اسانید کو نظرانداز کیا ہے۔ اور محض صحاح ستہ کے متون پر اکتفاء کرنا اور اسناد کو نظرانداز کرنا یہ مذاہب فقہا ء اور ائمہ کی مسانید میں تحکم پر بڑی جرات ہے۔ تاریخ کے امام اور ماہر محقق پر یہ بات عیاں ہو جاتی ہے۔

۴۔        شاہ صاحبؒ کا’’ شق قمر‘‘ کے بارے میں موقف یہ ہے کہ چاند دو ٹکڑے نہیں ہوا تھا بلکہ دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہوا تھا۔ یہ رسولوںؑ کی شان میں سے نہیں ہے کہ وہ لوگوں کی آنکھوں پر جادو کریں۔ یہ موقف شاہ صاحب کا تفرد ہے۔

۵۔        حدیث کے مشکل مقامات کی تشریح کرتے ہوئے آپ عالم مثال کے قائل ہیں جس میں معانی (وہ چیزیں جن کا دنیا میں جسم نہیں ہے۔ )جسم کی شکل پاتے ہیں۔ جیسا کہ بعض صوفیہ اس کے قائل ہیں۔ جبکہ شرعاً اور عقلاً اس قسم کے کسی عالم کا وجود ثابت نہیں ہے۔ اور کسی چیز کو ایسی حالت پر محمول کرنا جس کو قرون اولی کے لوگ نہ سمجھتے ہوں وہ محض ایک خیال اور گمراہی ہے۔ چنانچہ اسناد، رجال اور وجوہ دلالت پر نظر کیے بغیر جو کہ ائمہ صالحین کے ہاں معتبر ہے ، حدیث کے مشکل مقامات کی تشریح کرنے کی کو ئی گنجائش نہیں ہے۔

۶۔        آپؒ کا مطالعہ کتب محدود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات آپؒ متقدم علماء کے اقوال و موقف پر جو تبصرہ کرتے ہیں وہ ادھورا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ان کی اصل کتب کی طرف آپ نے مراجعت نہیں کی ہوتی جس کی وجہ سے ان علماء کے اصول مذہب اور موقف میں اختلاف محسوس ہوتا ہے۔ مثلاً آپؒ نے فقہ حنفی کے بعض فقہی اصولوں پر جو کلام کیا ہے وہ اسی قبیل سے ہے۔ اگر متقدمین حنفیہ کی کتب اصول مثلاً عیسی بن ابان کی الحجج الکبیر ، الحجج الصغیر ، ابو بکر رازی کی فصول ، اتقانی کی شامل ، ظاہر الروایت کی کتب کی شروح کا مطالعہ کیا ہوتا تو یہ صورتحال نہ ہوتی۔

۷۔       آپؒ اس بات کے قائل ہیں کہ عالم قدیم ہے جب کہ جمہور کے ہاں عالم حادث ہے۔ اور سنن ترمذی میں ابو رزین کی حدیث ’’فی العما‘‘سے آپ نے اپنے موقف کو ثابت کیا ہے جبکہ اس کے راوی نے جو اس کی تشریح کی ہے اس کو آپؒ نے نظر انداز کر دیا ہے۔ اور اس میں حماد بن سلمہ اور وکیع بن حدس متکلم فیہ راوی موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ امام بخاریؒ ومسلمؒ نے اس حدیث کو نہیں لیا۔ اللہ تعالیٰ کے لیے مکان کا اثبات یا عالم کو قدیم ثابت کرنا یہ قرآنی تعلیمات کے منافی ہے ، جس شخصیت کی حدیث میں ایسی صورت حال ہو تو احکام کے دلائل میںاسے کیسے منصف مان لیا جائے۔ (۳۸)

علامہ کوثریؒ کے مذکورہ اعتراضات کے جوابات تفصیل کے متقاضی ہیں ، ان شا ء اللہ تعالی کسی اور مقالہ میں اس پر تفصیلی قلم اٹھایا جائے گا۔ اگر کوئی اور صاحب علم بھی اس پر کام کرنا چاہے تو میدان خالی ہے۔ بہرکیف ان اعتراضات میں سے تین کا تعلق زیر نظر مقالہ کے مباحث سے ہے۔ ان کا اجمالی جواب شاہ صاحبؒ کے کلام سے ہی پیش کیا جائے گا۔ علامہ کوثریؒ کا یہ اعتراض کہ ’’شاہ صاحب کی نظر صرف متون حدیث تک ہے اسنادپر توجہ نہیں ہے۔ ‘‘

اس سوال کا جواب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کی ہی ایک عبارت سے پیش کیا جاتا ہے۔

شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں :

وانما الاقرب من الحق با عتبار فن الحدیث ماخلص بعد تدوین احادیث البلاد وآثار فقھا ئھا ومعرفۃ المتابع علیہ من المتفرد بہ والاکثررواۃ والاقوی روایۃ مما ھو دون ذالک علی انہ ان کان شئی من ھذا النوع استطرادا فلیس البحث عن المسائل الاجتہادیہ وتحقیق الاقرب منھا للحق بدعا من اھل العلم ولا طعنا فی احد منھم(۳۹)

’’اور فن حدیث کی رو سے وہ احادیث حق سے زیادہ قریب ہیں جو ممالک اسلامیہ میں مدون ہوئیں اور ان میں سے قابل اعتماد ہو کر سامنے آئیں اور فقہاء نے جن کی تائید کی اور متابعات نے ا ن کے تفرد کو دور کیا جن کے راوی بکثرت رہے اور اسانید و روایات قوی تر رہیں اس قسم کی احادیث حق کے زیادہ قریب ہیں بہ نسبت ان احادیث کہ جن میں یہ صفات نہیں ہیں البتہ اگر اس قسم کی کوئی حدیث تبعاً بطور تائید پیش کی جائے تو کوئی مضائقہ بھی نہیں ، کیونکہ مسائل اجتہادیہ میں بحث کرنا اور جو حق سے قریب تر اسے ثابت کرنا علماء کرام کے نزدیک کوئی بدعت نہیں ہے نہ اس کی وجہ سے ان علماء کی شان میں کوئی طعن ہوسکتا ہے۔ ‘‘

شاہ صاحب کے مذکورہ کلام سے معلوم ہوا کہ شاہ صاحب’’ حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں احادیث پر اس لیے کلام نہیں کرتے کہ آپ نے ان احادیث کوہی ذکر کیا ہے جن کو مشہور محدثین نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔ اور وہ قابل اعتماد روایات ہیں۔ لہذا مذکورہ اعتراض کا جواب ہو گیا کہ شاہ صاحب اس لیے احادیث کی صحت وسقم پر کلام نہیں کرتے کہ آپ کی تحقیق کے مطابق یہ روایات صحیح ہیں۔ اور اگر تسلیم کر لیا جائے کہ یہ روایات ضعیف ہیں تواس کا جواب بھی شاہ صاحب کے کلام سے ملتا ہے۔ کہ ایسی احادیث کو ضمناً و تبعاً بطور تائید کہ پیش کیا جا سکتا ہے اس لیے کہ اجتہادی مسائل میں بحث کرنا اور احق کی معرفت اہل علم کے نزدیک بدعت نہیں ہے۔

باقی آپؒ کے تفردات اور مطالعہ کتب کے محدود ہونے کا پس منظر کیا ہے۔ ؟ان اعتراضات کے جوابات آگے آرہے ہیں۔

 

عقلی دلیل کی مثال:

شاہ صاحبؒ تدبیر منزل کے بیان میں فرماتے ہیں :

وھو الحکمۃ الباحثۃ عن کیفیۃ حفظ الربط الواقع بین اھل المنزل علی الحد الثانی من الارتفاق وفیہ اربع جمل الزواج ، والولادۃ والملکۃ والصحبۃ (۴۰)

’’اور تدبیر منزل وہ حکمت ہے جو ارتفاق کی حد ثانی پر ایک گھر کے باشندوں میں پائے جانے والے ربط و تعلق کی کی نگہداشت کی کیفیت سے بحث کرنے والی ہے۔ اس فن میں چار جملے ہیں۔ ازدواج ، ولادت ، ملکیت اور رفاقت۔ ‘‘

مرد و عورت کے درمیان قربت و رفاقت کی وجہ جماع کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔ اسی بات کو بیا ن کرتے ہوئے شاہ صاحب لکھتے ہیں :

و الاصل فی ذالک ان حاجۃ الجماع اوجبت ارتباطا واصطحابابین الرجل والمراۃ(۴۱)

’’اور بنیادی دلیل اس ازدواج میں یہ ہے کہ جماع کی ضرورت نے مرد اور عورت کے درمیان باہمی تعلق اور رفاقت ثابت کی ہے۔ ‘‘

۴۔        کئی مقامات پر اجمالا بات کرنے کے بعد وَمِنْہَا(اور ان میں سے )کے تحت اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ اور اسے ۲۵۰سے زائد مقامات پر لائے ہیں۔

مثال:

شاہ صاحب دین اسلام کے دیگر مذاہب پر غلبہ کے اسباب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

وغلبۃ الدین علی الادیان لھا اسباب (۴۲)

’’اور دین اسلام کو عالم کے تمام ادیان پر غالب اور بلند و بالا کرنے کے چند اسباب ہیں۔ ‘‘

اس کے بعد’’ وَمِنْہَا ‘‘سے اس اجمال کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔

چنانچہ لکھتے ہیں :

منھا اعلان شعائرہ علی شعائر سائر الادیان وشعائر الدین امر ظاھر یختص بہ یمتاز صاحبہ بہ من سائر الادیان کالختان وتعظیم المساجد والاذان والجمعۃ والجماعات(۴۳)

’’اور ان اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ ، اسلامی شعائر کو دیگر ادیان کے شعائر پر ظاہر کرنا۔ اور دین کا شعار وہ ظاہری معاملات ہیں جو اس کے ساتھ خاص ہیں۔ جس کے ذریعے صاحب شعار تمام ادیان سے ممتاز ہوتا ہے۔ جیسے ختنہ کرانا ، مساجد کی تعظیم کرنا ، اذان ، جمعہ اور جماعتیں۔ ‘‘

اور آگے لکھتے ہیں :

ومنھا ان یقبض علی ایدی الناس الا یظھروا شعائر سائر الادیان(۴۴)

’’اور ان میں سے یہ کہ امام لوگوں کے ہاتھوں کو پکڑ لے کہ وہ دیگر ادیان کے شعائر کو ظاہر نہ کریں۔ ‘‘

یعنی دیگر ادیان کے شعائر کے ظاہر کرنے پا بندی عائد کر دی جائے۔

اور آگے مزید لکھتے ہیں :

ومنھا الایجعل المسلمین اکفاء للکافرین فی القصاص والدیات ولافی المناکحات ولافی القیام بالریاسات لیلجئھم ذالک الی الایمان الجاء (۴۵)

’’اور ان اسباب میں سے ، کہ مسلمان اور کافروں کو قصاص و دیت میں برابر نہ رکھا جائے اور نہ نکاح کے معاملوں میں ، اور ریاست کے انتظام و انصرام میں تاکہ یہ امتیاز ان میں ایمان کی رغبت پیدا کرے۔ ‘‘

اور آگے لکھتے ہیں :

ومنھا ان یکلف الناس باشباح البر والاثم ویلزمھم ذالک الزاما عظیما(۴۶)

’’اور ان میں سے یہ کہ لوگوں کو نیکی اور گناہ میں ظاہری اعمال کا حکم دیا جائے اور تاکید کے ساتھ ان کو لازم کیا جائے۔ ‘‘

شاہ صاحب کے مذکورہ کلام ’’دین اسلام کو دیگر مذاہب پر غالب کرنے کے اسباب ‘‘کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

۱۔         دین اسلام کے شعائر کو دنیا کے تمام ادیان اور مذاہب کے شعائر سے بلند و بالا رکھا جائے اور یہ شعائر بالکل واضح ہوں اور انہی کے

لیے مخصوص ہوں کہ ان شعائر کو اختیار کرنے والے دیگر مذاہب سے الگ ہو جائیں۔ مثلاً ختنہ، مسجدوں کی تعظیم ، اذان ، جمعہ اور جماعتیں وغیرہ۔ اس سے دیگر ادیان پر دین اسلا م کا غلبہ ہو گا۔

۲۔        دیگر مذاہب والوں کو ممانعت کر دی جائے کہ وہ اپنے مذہبی شعائر کو ظاہر اور برملا اختیار نہ کریں۔

۳۔        قصاص ، دیت ، نکاح اور دیگر ریاست کے اہم عہدوں پر کافروں کو مسلمانوں کے برابر نہ کیا جائے تاکہ وہ ایمان کی طرف رغبت کریں۔

۴۔        امام وقت لوگوں کو نیکی اور بدی کی ظاہری صورتوں کا پابند کرے کہ اس قسم کے ظاہری کام نیکی ہیں جو کرنے ہیں اور اس قسم کے کام گناہ ہیں جن سے بچنا ہے۔

واضح رہے کہ مسلمان اور کافر کی دیت میں جو فرق شاہ صاحب نے کیا ہے۔ احناف کا موقف اس سے مختلف ہے۔ شاہ صاحب کے نزدیک مسلمان کو قصاصا ً کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا اور کافر کی دیت بھی مسلمان کی دیت سے آدھی ہے۔

شاہ صاحب حدیث نقل کرتے ہیں :

لَا یقتل مُسلم لکَافِر (۴۷)

’’ کافر کے بدلہ مسلمان کو قتل نہ کیا جائے۔ ‘‘

اس حدیث کی تشریح میں شاہ صاحب لکھتے ہیں :

اقول والسر فی ذالک ان المقصود الاعظم فی الشرع تنویہ الملۃ الحنیفیۃ ولایحصل الا بان یفضل المسلم علی الکافر ولایسوی بینھما(۴۸)

’’میں کہتا ہوں اس میں یہ حکمت ہے کہ شریعت اسلامیہ کا عظیم ترین مقصد یہ ہے کہ ملت حنیفیہ کی عظمت و شوکت قائم کی جائے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ کافر کے مقابلہ میں مسلمان کی فضیلت و برتری قائم کی جائے اور کافرومسلمان کے درمیان مساوات نہ رکھی جائے۔ ‘‘

اسی طرح دیت کے مسئلہ میں شاہ صاحب حدیث نقل کرتے ہیں :

دِیَۃ الْکَافِر نصف دِیَۃ الْمُسلم (۴۹)

’’کافر کی دیت مسلمان کی دیت سے آدھی ہے۔ ‘‘

اس حدیث کی تشریح میں شاہ صاحب لکھتے ہیں :

اقول السبب فی ذالک ما ذکرنا قبل انہ یجب ان ینوہ بالملۃ الاسلامیۃ وان یفضل المسلم علی الکافر ولان قتل الکافر اقل افساد ا بین المسلمین واقل معصیۃ فانہ کافر مباح الاصل یندفع بقتلہ شعبۃ من الکفر وھو مع ذالک ذنب وخطیئۃوافساد فی الارض فناسب ان تخفف دیتہ (۵۰)

’’میں کہتا ہوں اس کا سبب وہی ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اس سے ملت اسلامیہ کی شان و شوکت اور عظمت مقصود ہے نیز یہ بھی وجہ ہے کہ مسلمان کو کافر کے مقابلہ میں برتری دی جائے۔ نیز یہ کہ کافر کا قتل مسلمانوں کے درمیان فساد پیدا کرنے کے لحاظ سے کم ہے۔ اور کافر کو قتل کرنے کا گناہ بھی بہت کم ہے کیونکہ کافر مباح الاصل ہے۔ اس کے قتل کرنے سے کفر کی ایک شاخ دور ہو جاتی ہے لیکن پھر بھی کافر کو قتل کرنا گناہ، خطا اور زمین میں فسا د پھیلانا ہے اس لیے دیت میں تخفیف ہی مناسب ہے۔ ‘‘

کافر اور مسلمان کے قصاص و دیت میں فرق کے لحاظ سے شاہ صاحب کا موقف بڑی وضاحت کے ساتھ سامنے آ گیا کہ اس میں شریعت اسلامیہ کا مقصود ملت اسلامیہ کی شان و شوکت ہے۔ مالکیہ کا موقف بھی یہی ہے کہ کافر ذمی کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف ہے۔ (۵۱)اور اسی طرح کافر کے بدلے مسلمان کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ (۵۲)مگر احناف کے ہاں کافر کی دیت مسلمان کی دیت کے برابر ہے۔ اور اگر کسی مسلمان نے کافر ذمی کو قتل کیا تو اس کے بدلے میں اس مسلمان کو قتل کیا جائے گا۔

امام محمد بن حسن الشیبانی (م-۱۸۹ھ)نے اس مسئلہ پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے وہ لکھتے ہیں:

والاحادیث فی ذالک کثیرۃ عن رسول اللہ ﷺ مشہورۃ معروفۃ انہ جعل دیۃ الکافر مثل دیۃ المسلم وروی ذالک افقھھم واعلمھم فی زمانہ واعلمھم بحدیث رسول اللہ ﷺ ابن شہاب الزھری فذکر ان دیۃ المعاھد فی عھد ابی بکر وعمر وعثمان رضی اللہ عنھم مثل دیۃ الحر المسلم (۵۳)

’’اور اس بارے میں بہت سی مشہور و معروف احادیث رسول اللہﷺسے مروی ہیں کہ آپ ﷺ نے کافر کی دیت کو مسلمان کی دیت کے مثل مقرر کیا۔ اور یہ روایت کرنے والے اپنے زمانہ میں ان سے زیادہ حدیث رسولﷺ کے افقہ و اعلم ہیں۔ امام ابن شہاب زہری نے ذکر کیا کہ معاہد کی دیت حضرت ابو بکر و حضرت عمر و حضرت عثمان کے زمانہ میں آزاد مسلمان کی دیت کے مثل تھی۔ ‘‘

شیخ جمال الدین ابو محمد علی بن ابی یحی (م -۶۸۶ھ )نے بھی اس مسئلہ پر تفصیلی بحث کی ہے۔ (۵۴)اسی طرح امام زیلعی نے بھی تفصیلی کلام کیا ہے۔ (۵۵)اور مسلمان کو کافر کے بدلے قتل کرنے کے بارے میں صاحب ہدایہ نے تفصیلی بحث کی ہے۔ (۵۶)

۵۔        قرآن وسنت کی تفسیر و تشریح اور شریعت اسلامیہ کی تعبیر کرتے وقت شاہ صاحب جو رائے قائم کرتے ہیں وہ اکثر ان کی اپنی ہوتی ہے۔ ایسا شاذ و نادر ہے کہ آپ اپنے سے پہلے گزرنے والے اہل علم کی کتب سے اقتباس اور حوالہ دیں۔ جہاں یہ بات آ پ کی علمیت کی دلیل ہے وہیں پر حجۃ اللہ البالغہ کا مطالعہ کرنے والے کے لیے بہت بڑ ا مشکل مرحلہ ہے۔ اس لیے کہ اکثر مقامات پر آپ کی ذاتی رائے ہوتی ہے اور سابقہ کتب سے آپ نے وہ بات نقل نہیں کی ہوتی بلکہ آپ پر القاء یا الہام ہوتی ہے اور اس کا ماخذ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے مضامین کاسمجھنا دشوار ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اگر وہ رائے کسی سابقہ کتب سے لی گئی ہو تو اس کتاب سے مراجعت کر کے اس کا سمجھنا آسان ہے۔ مگر چونکہ ایسا نہیں ہے اس لیے بہت سے مضامین تک اچھے خاصے علم رکھنے والے کی رسائی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی اس کتاب میں دیگر اہل علم کے حوالے اوراقتباس ہیں مگر بہت کم تعداد میں ہیں۔ شاہ صاحب کی اس کتاب میں دیگر اہل علم کے زیادہ حوالے کیوں نہیں ملتے۔ ؟یا بقول علامہ کوثری ’’ آپ کا مطالعہ محدود تھا‘‘اس کی کیا وجہ ہے۔ ؟

اس کا جواب بھی شاہ صاحبؒ کے کلام سے نقل کیا جاتا ہے :

وانہ لایتاتی منی الامعان فی تصفح الاوراق لشغل قلبی بمالیس لہ فواق ولا یتیسر لی التناھی فی حفظ المسموعات لاتشدق بہا عند کل جاء وآت وانما انا المتفرد بنفسہ المجتمع(۵۷)

’’اور میرے لیے کتابوں کی ورق گردانی آسان نہیں ہے کیوں کہ میرا دل ایسے معاملہ میں مشغول ہے جس سے مجھے بالکل فرصت نہیں ہے۔ اور میرے لیے اساتذہ سے سنی ہوئی باتوں کو یاد رکھنے میں آخری حد تک پہنچنا بھی آسان نہیں کہ میں ہر آنے اور جانے والے کے سامنے انہیں بیان کروں ، میں اپنی ذات کے ساتھ تنہا ہونے والا ہوں۔ ‘‘

چونکہ شاہ صاحب ہر وقت اللہ کی یاد میں مصروف و مشغول رہتے تھے اس لیے زیادہ کتابوں کی طرف مراجعت نہیں کرتے تھے۔ ان کے زیادہ تر علوم کسبی و القائی ہیں۔ اس لیے آپ کی کتابوں میں کتب متقدمین کی عبارات واقتباسات بہت کم ہیں۔

۶۔        شاہ صاحب کا انداز تحریر اور الفاظ کااستعمال فصاحت و بلاغت کے لحاظ اس قدر بلند ہے کہ عام قاری کی اس تک رسائی نہیں ہوسکتی اور بعض مقامات پر عبارت اس قدر مغلق اور دقیق ہے کہ متعدد الفاظ کا مفہوم لغت کا سہارا لیے بغیر سمجھ میں نہیں آتا اور یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوتا ہے کہ یہاں پر یہ لفظ کن معنوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ اس لیے کتاب سے کماحقہ استفادہ کے لیے عربیت و ادبیت میں اعلی استعداد کی ضرورت ہے۔

۷۔        شاہ صاحب اس قدر مختصر انداز میں مضامین کو تحریر کرتے ہیں کہ بڑی طویل بحثوں کو چند جملوں میں سمیٹ دیتے ہیں۔ بعض اوقات اسی حد سے زیادہ اختصار کی وجہ سے مضامین گرفت میں نہیں آتے۔

۸۔        شاہ صاحب نے’’ حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں ایسا اسلوب اختیار کیا ہے جس سے اجتہاد و تحقیق پر طاری جمود کا خاتمہ ہو گیا کہ ہر بات میں وہی حق ہے جو سلف نے کہہ دیا ہے مزید تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ وہ غیر منصوص فروعی مسائل جن میں علماء کی بحثیں ہوئی ہیں اگر مجبوری اور ضرورت کے وقت اس قسم کے مسائل میں مزید توضیح و تشریح کی ضرورت پیش آئے تو شاہ صاحب کا موقف یہ ہے کہ ہم پر لازم نہیں کہ ہم ان پہلے علماء کی ہر اس بات میں موافقت کریں جو انہوں نے کہی ہے۔ چنانچہ اس بارے میں آپ نے جو تفصیلی کلا م کیا ہے وہ بعینہ نقل کیا جاتا ہے۔

شاہ صاحب لکھتے ہیں :

فلیس کل ما استنبطوہ من الکتاب والسنۃ صحیحا او راجحا ولاکل ما حسبہ ھولاء متوفقا علی شئی مسلم التوقف ولا کل ما اوجبوا ردہ مسلم الرد ولا کل ما امتنعوا من الخوض فیہ استصعا با لہ صعبا فی الحقیقۃ ولا کل ما جاوا بہ من التفصیل والتفسیر احق مما جاء بہ غیرھم (۵۸)

’’یہ ضروری نہیں کہ جو کچھ ان علماء نے کتاب وسنت سے مستنبط کیا ہے وہ بالکل صحیح اور راجح ہو ، اور نہ یہ ضروری ہے کہ ان علماء نے کسی مسئلہ کوکسی چیز پر موقوف سمجھا وہ حقیقت میں بھی اس پر موقوف ہو ، یا جس چیز کی انہوں نے تردید واجب سمجھی اس کی تردید واجب سمجھی جائے ، یا جن امور پر غور و خوض انہوں نے دشوار خیال کیا اور واقعہ میں بھی وہ دشوار ہی ہوں، یا جو تفصیل وتفسیر انہوں نے پیش کی وہ دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ صحیح ہو۔ ‘‘

شاہ صاحب کی مذکورہ رائے کو نکات کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔

ٍ۱۔         یہ بات ضروری نہیں کہ سابقہ علماء کے قرآن و حدیث سے اخذ کیے ہوئے مسائل صحیح اور راجح ہوں جو لوگ ان کے بعد آئے ان کی تحقیقات بھی صحیح اور راجح ہوسکتی ہیں۔

۲۔        متقدم علماء نے کسی مسئلہ کو کسی دوسری چیز پر موقوف سمجھا ، یہ ضروری نہیں کہ نفس الامر میں ایسا ہی ہو ، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی رائے غلط ہو۔

۳۔        سابقہ علماء نے جس چیز کی تردید کرنا لازمی سمجھی، ضروری نہیں کہ بعد میں آنے والے لوگوں پر بھی اس کی تردید واجب ہو۔ اس لیے کہ

یہ ان کی رائے ہے جس کی اتباع کرنی دوسروں کے لیے ضروری نہیں ہے۔

۴۔        ہر وہ معاملہ جس پر غور و فکر کرنے کے بعد سابقہ علماء نے سمجھا کہ یہ مشکل اور حل نہ ہونے والا مسئلہ ہے، ضروری نہیں کہ وہ مسئلہ یا معاملہ

حقیقت میں بھی حل نہ ہوسکتاہو عین ممکن ہے بعد والے لوگ زیادہ اچھے طریقے سے اس کا حل پیش کر دیں۔

۵۔        علماء متقدمین نے جن آیات و احادیث کی تفسیر و تفصیل بیان کی ہے، ضروری نہیں کہ وہ دیگر بعد میں آنے والے اہل علم کی بیان کردہ

تفسیر و تشریح سے زیادہ قبولیت کی حقدار ہو۔ عین ممکن ہے کہ بعد والے لوگ ان پر سبقت لے جائیں۔

آخر میں شاہ صاحب لکھتے ہیں :

اما ھولاء الباحثوں بالتخریج والاستنباط من کلام الاوائل المنتحلون مذھب المناظرہ والمجادلۃ فلا یجب علینا ان نوافقہ فی کل ما یتفوھون بہ ونحن رجال وھم رجال والامر بیننا وبینھم سجال(۵۹)

’’بہر حال وہ لوگ جو متقدمین کے اقوال و کلام سے اخذ واستنباط کے ذریعہ بحث کرنے والے ہیں۔ مناظرہ اور مجادلہ جن کا مذہب ہے۔ ان کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات سے موافقت کرنا ہمارے لیے واجب نہیں ہے۔ کیونکہ اگر وہ آدمی ہیں تو ہم بھی آدمی ہیں۔ اور معاملہ ہمارے اور ان کے درمیان کنویں کا ڈول ہے۔ ‘‘

شاہ صاحب نے اپنا موقف واضح کر دیا کہ وہ لوگ جن کا کام ہی مناظرہ و مجادلہ ہے ان کی ہر بات کو ہم کیوں تسلیم کریں وہ بھی انسان ہیں توہم بھی انسان ہیں۔ ان کے اور ہمارے درمیان معاملہ بالکل ایسے ہے جیسے کنویں پر لٹکا ہوا ڈول جو بھی پہلے آئے گا وہ پانی بھر لے گا۔

۹۔         چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بعض مقامات پر شاہ صاحب نے ایسا موقف اختیار کیا ہے جس کا جمہور علماء و فقہاء میں کوئی قائل نہیں ہے۔ ان باتوں کے بیان کرنے میں شاہ صاحب منفرد ہیں اور اس قسم کی آراء کو آپ کے تفردات میں شمار کیا جائے گا۔

شاہ صاحب لکھتے ہیں :

وستجدنی اذا غلب علی شقشقۃ البیان وامعنت فی تمھید القواعد غایۃ الامعان ربما اوجب المقام ان اقول بما لم یقل بہ جمہور المناظرین من اھل الکلام کتجلی اللہ تعالی فی مواطن المعاد بالصور والاشکال وکاثبات عالم لیس عنصر یا یکون فیہ تجسد المعانی والاعمال باشباح مناسبۃ لھا فی الصفۃ وتخلق فیہ الحوادث قبل ان تخلق فی الارض وارتباط الاعمال بھیآت نفسانیہ وکون تلک الھیآت فی الحقیقۃ سببا للمجازاۃ فی الحیات الدنیا وبعد الممات والقو ل بالقدر الملزم ونحو ذالک (۶۰)

’’اور عنقریب آپ مجھے پائیں گے جب مجھ پر زور بیان کا غلبہ ہو گا ، اور میں نہایت غور خوض سے قواعد و ضوابط تیار کروں گا ، بسا اوقات اس مقام کا تقاضا ہو گا کہ میں وہ بات کہوں جو علمائے کلام میں سے کسی نہیں کہی ہو گی، مثلاً اللہ تعالی کا آخرت میں شکل و صورت میں تجلی فرمانا، اور ایک ایسے عالم کو ثابت کرنا جس کا وجود ترکیب عنصری سے بالا تر ہے۔ جن میں معانی اور اعمال مختلف حالات میں مختلف قالبوں میں مناسب شکل و صورت میں مجسم اور متشکل ہو کر ظاہر ہوتے ہیں۔ اور اس عالم مثال میں وہ تمام حوادث و واقعات جو بعد میں جا کر زمین پر ظاہر اور رونما ہونے والے ہیں ، پہلے سے ہی رونما ہو جاتے ہیں۔ اور اعمال انسانی کا قلبی کیفیات سے ایک خاص تعلق اور ربط اور انہی حالتوں کا در حقیقت دنیا و آخرت میں جزا وسزا کا موجب ہونا ہے۔ اور تقدیر ملزم کا قائل ہونا اور اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں۔ ‘‘

شاہ صاحب کے تفردات کو نکات کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔

۱۔         آخرت میں اللہ تعالی کا شکل و صورت میں تجلی فرمانا جبکہ جمہور علماء اللہ تعالی کو شکل و صورت سے پاک قرار دیتے ہیں۔

۲۔        علماء نے دو عالم بیان کیے ہیں۔ عالم دنیا اور عالم آخرت ، جبکہ شاہ صاحب کے نزدیک ایک عالم مثال بھی ہے جس کا وجود ترکیب عنصر ی سے بالاتر ہے یعنی وہ غیر مادی جہاں ہے اور اس میں معنوی چیزوں اور اعمال کو بھی جسم ملتا ہے اور پہلے اس عالم میں واقعات و حوادث کا ظہور ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ دنیا میں رونما ہوتے ہیں۔

۳۔        علماء نے جزا وسز اکا سبب اعمال انسانی کو قرار دیا ہے جب کہ شاہ صاحب کے نزدیک قلبی کیفیات (نیت وغیرہ)جزا وسزا کا اصل سبب ہیں کیونکہ ان کے ساتھ ہی اعمال کا ربط وتعلق ہوتا ہے۔

۴۔        علماء کے نزدیک تقدیر دو قسم کی ہے۔ تقدیر معلق اور تقدیر ملز م ، جبکہ شاہ صاحب کے نزدیک صرف تقدیر ملزم ہی ہے۔

 

                شاہ صاحبؒ کے تفردات کا پس منظر

 

شاہ صاحبؒ کے مذکورہ تفردات محض ان کے وجدانی خیالات کا مجموعہ نہیں ہیں بلکہ قرآن وسنت اور آثار صحابہ و تابعین سے آپ نے یہ مسائل اخذ کر کے اپنا موقف پیش کیا ہے۔ چنانچہ علامہ کوثریؒ کا شاہ صاحبؒ کے ’’تفردات ‘‘پر اعتراض کا جواب بھی شاہ صاحب کے کلام سے نقل کیا جاتا ہے۔

شاہ صاحب لکھتے ہیں:

فاعلم انی لم اجتری علیہ الابعد ان رایت الآیات والاحادیث وآثار الصحابۃ والتابعین متظاھرۃ فیہ ورایت جماعات من خواص اھل السنۃ المتمیزین منھم بالعلم اللدنی یقولون بہ ویبنون قواعدھم علیہ(۶۱)

’’جاننا چاہیے کہ میں نے اس پر لکھنے کی تبھی جرات کی جب میں نے قرآنی آیات ، احادیث نبویہ اور آثار صحابہ و تابعین کو اپنا موید پایا، نیز علماء اہل سنت میں سے مخصوص علماء کو جو علم لدنی کی وجہ سے دیگر علماء سے ممتاز ہیں اس میں کلا م کرتے اور ان پر قواعد کی بنیاد رکھتے ہوئے دیکھا ہے۔ ‘‘

مذکورہ بحث کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاہ صاحبؒ کے تفردات بلا دلیل نہیں ہیں بلکہ نصوص پر گہرے غور و فکر کے بعد آپؒ نے وہ رائے قائم کی ہے۔ اور ان تفردات کے کے پیچھے عقلی نقلی دلائل ہیں جو آپ کے موقف کے موید ہیں۔

شاہ صاحبؒ سے اختلاف رائے کرتے ہوئے بعض مقامات پر علامہ کوثریؒ کا قلم زیادہ ہی کاٹ دار واقع ہوا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ عرض ہے کہ محض تفردات سے نہ کسی شخصیت کی علمیت کا انکار کیا جا سکتا ہے اورنہ اس کے افکار کی بالکلیہ تردید واجب ہوتی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو شاید ہی تاریخ اسلام میں کوئی ایسا نامور عالم یا فقیہ ملے جس کے تفردات نہ ہوں تو کیا ان اکابر کی تحقیقات کو ان کے بعض تفردات کی وجہ سے ترک کر دیا جائے گا۔ اس پر بھی اگر کوئی اہل علم کام کرنا چاہے تو میدا ن خالی ہے۔ اور کیا خوب ہو گا اگر وہ یہ عنوان رکھ لے ’’مشاہیر امت کے تفردات اور ان کا پس منظر ایک تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ‘‘اس پر کام کے بعد معلوم ہو گا کہ تفردات کا آغاز کب ہوا۔ اور کتنی بڑی بڑی علمی شخصیات کے تفردات ہیں جن کو علماء امت نے قبول بھی نہیں کیا مگر ان اہل علم کے احترام میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

۱۰۔       شاہ صاحب کو اللہ تعالی نے جن خصوصیات سے نواز تھا وہ کسی بھی اہل علم سے مخفی نہیں ہیں۔ اتباع شریعت کا جذبہ اس قدر راسخ تھا کہ قرآن سنت کی خلاف ورزی تو ایک طرف اس کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور کس قدر عاجزی وانکساری کے ساتھ لکھ گئے ہیں کہ اگر میری کوئی بات قرآن وسنت یا قرون اولی کے اجماع کے خلاف تو میں اس سے برا ء ت کا اعلان کرتا ہوں اظہار لاتعلقی کرتا ہوں۔

شاہ صاحب لکھتے ہیں :

وھا انا بری من کل مقالۃ صدرت مخالفۃ لآیۃ من کتاب اللہ او سنۃ قائمۃ عن رسول اللہﷺاو اجماع القرون المشہود لھا بالخیر او ما اختارہ جمہور المجتدین ومعظم سوا د المسلمین فان وقع شیی من ذالک فانہ خطا رحم اللہ تعالی من ایقظنا من سنتنا او نبھنا من غفلتنا(۶۲)

’’اور یاد رہے کہ میں ہر اس قول سے بری ہوں کہ جو کتاب اللہ کے خلاف ہو یا رسول اللہﷺ کی معمول بہاسنت کے خلاف ہو ، یا ان قرون کے اجماع کے خلاف جن کے لیے خیر کی گواہی دی گئی ، یا اس رائے کے خلاف جس کو جمہور مجتہدین اور مسلمانوں کے سواد اعظم نے اختیار کیا ہے ، پس اگر ایسی کوئی بات واقع ہو گئی ہے تو یہ خطا ہے۔ اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو ہمیں اونگھ سے بیدار کرے اور ہماری غفلت پر تنبیہ کرے۔ ‘‘

شاہ صاحب اپنے بعد میں آنے والے محققین کو ایک اچھا اسلوب اور منہج دے گئے ہیں۔ کہ وہی تحقیق معتبر ہو گی جو قرآن وسنت کے مطابق ہواس کے خلاف نہ ہو اور نہ خیرالقرون کے اجماع کے خلاف ہو۔ اور نہ ہی وہ ایسی تحقیق ہو جو جمہور مجتہدین اور مسلمانوں کی اکثریت کے راستہ سے ہٹا دے۔ اور اگر میرے قلم سے کوئی ایسی بات نکل گئی ہو تو میں اس سے براءت کا اعلان کرتا ہوں۔ اور کمال عظمت دیکھیے کہ دوسرے محققین کو دعوت دے رہے ہیں کہ اگر میری کوئی قابل گرفت بات ہو تو وہ ضرور مطلع کریں اور ساتھ ہی دعا بھی دے رہیں کہ اللہ ایسے شخص پر رحم فرمائے۔

 

                خلاصہ بحث

 

حضرت شاہ صاحبؒ علوم و معارف کا بحر بیکراں تھے۔ آپ کی تمام تصانیف اس کا بین ثبوت ہیں۔ ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں آپ نے احکام شریعت کے اسرار و بھید کی دل نشین اور موثر تشریح کی ہے۔ مصالح و حکم کو بیان کرنے میں آپ نے جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ بے مثال ہے خاص طور پر ان حالات کے تناظر میں جب زمانہ نئی کروٹ لے رہا تھا ، مسلم اقتدار کا سورج غروب ہونے کو تھا اور عقلیت پرستی کا دور شروع ہو رہا تھا۔ آپ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں جو منہج طے کیا اس کے مطابق شروع سے لے کر تا آخر التزام کیا۔ قران و حدیث کے مطابق اپنا موقف پیش کیا اور فہم قران و حدیث میں جو عوارض مانع تھے ان کے تدارک کی تدابیر بیان کیں۔ زندگی کے تمام شعبوں اور پہلووں پر قرآن وسنت کی روشنی میں محققانہ کلام کیا ہے۔ اور بعض مقامات پر آپ کی تحقیق ورائے جمہور علما ء سے مختلف ہو گئی ہے تو اس میں کسی نفسانی خواہش کا دخل نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے بھی قرآن وسنت سے اخذ کیے ہوئے دلائل ہیں جن کی وجہ سے آپؒ نے یہ موقف اختیار کیا۔ اور اپنے بعد میں آنے والے محققین کو ایک واضح پیغام دیا کہ اسلامی تحقیق اسی عالم کی معتبر ہو گی جو قرآن وسنت اور خیر القرون کے اجماع کی خلاف ورزی نہ کرے اور نہ ہی کوئی ایسی بات بلا دلیل کہے جو اس کو جمہور مجتہدین اورمسلمانوں کی اکثریت کے راستہ سے الگ کر دے۔

٭٭٭

 

 

 

حوالہ جات

 

(۱)      شاہ ولی اللہ، احمد بن عبدالرحیم، حجۃ اللہ البالغہ، کراچی ، نور محمد کارخانہ تجارت کتب آرام باغ ، س ن ، جلد۱، صفحہ۱۰

(۲)      القرآن، آل عمران:۷

(۳)     القرآن، النساء :۲۳

(۴)     القرآن، المائدہ:۹۳

(۵)     شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ، جلد ۱، صفحہ ۱۷۲

(۶)      القرآن، النساء :۹۲

(۷)     شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ، جلد ۲، صفحہ ۱۵۳

(۸)     ابو داؤد ، سلیمان بن الاشعث، السجستانی، السنن، بیروت، المکتبۃ العصریہ، س ن ، جلد۳، صفحہ۳۲۳

(۹)      شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ، جلد ۱، صفحہ ۱۷۱

(۱۰)    ایضاً ، جلد ۱، صفحہ ۱۷۱

ابو داؤد، السنن ، جلد۳، صفحہ۳۲۱

(۱۱)     ایضاً، جلد ۱، صفحہ ۱۷۱

(۱۲)    القرآن، الاحزاب :۵۹

(۱۳)    القرآن، الاحزاب:۵۳

(۱۴)    القرآن، النور:۳۰

(۱۵)    حجۃ اللہ البالغہ، جلد۲، صفحہ۱۲۶

(۱۶)    الترمذی، ابو عیسی محمد بن عیسی ، السنن، مصر ، مطبعہ مصطفی البابی الحلبی ، ۱۳۹۵ھ، جلد۳، صفحہ۴۵۹

(۱۷)   الزیلعی ، فخرالدین، تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق، قاہرہ ، المطبعۃ الکبری الامیریۃ، ۱۳۱۳، جلد۲، صفحہ۱۱۷

(۱۸)    ابن رشد ، محمد بن احمد ، ابو الولید ، بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد ، قاہرہ، دار الحدیث ، ۱۴۲۵ھ، جلد۳، صفحہ۳۶

(۱۹)    ابن قدامہ المقدسی، عبداللہ بن احمد ، المغنی ، مکتبۃ القاہرہ، ۱۳۸۸ھ، جلد۷، صفحہ۷

(۲۰)   شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ، کراچی ، جلد ۲، صفحہ ۱۲۷

(۲۱)    حجۃ اللہ البالغہ، جلد۲، صفحہ۱۲۷

(۲۲)   ایضاً، جلد۲، صفحہ۱۲۷

(۲۳)   ایضاً، جلد۱، صفحہ۸۸

(۲۴)   القرآن، آل عمران:۹۳

حجۃ اللہ البالغہ ، جلد۱، صفحہ۸۸

(۲۵)   حجۃ اللہ البالغہ ، جلد۱، صفحہ۸۸

(۲۶)   ایضاً، جلد۱، صفحہ۸۸

القرآن، البقرہ:۱۰۶

(۲۷)   حجۃ اللہ البالغہ ، جلد۱، صفحہ۲۶

(۲۸)   ایضاً، جلد۱، صفحہ۲۶

احمد بن حنبل ، الامام، المسند، موسسۃ الرسالۃ، ۱۴۲۰ھ، جلد۴۵، صفحہ۴۹۱

(۲۹)    حجۃ اللہ البالغہ، جلد۲، صفحہ۱۲۷

ابوداود، جلد۲، صفحہ۲۲۹

(۳۰)   الکاسانی، علاء الدین، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۰۶ھ، جلد۲، صفحہ۲۴۹

(۳۱)    البابرتی، جمال الدین، محمد بن محمد، العنایہ شرح الہدایۃ، دارالفکر، س ن ، جلد۱۰، صفحہ۹۳

(۳۲)   العینی، بدرالدین، محمود بن احمد، البنایہ شرح الہدایہ، بیروت ، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۲۰ھ، جلد۵، صفحہ۷۶

(۳۳)   ابن نجیم ، زین الدین ابراہیم، البحرالرائق شرح کنزالدقائق، دارالکتاب الاسلامی، س ن، جلد۳، صفحہ۱۱۷

(۳۴)   شامی، ابن عابدین، محمد امین، ردالمحتار علی الدرالمختار، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۲ھ، جلد۳، صفحہ۵۶

(۳۵)   حجۃ اللہ البالغہ ، جلد۱، صفحہ۶۳

الترمذی، السنن، جلد۵، صفحہ۲۶۷

(۳۶)   ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، ابوالفداء ، تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۹ھ، جلد۳، صفحہ۴۷۵

(۳۷)  الکوثری ، محمد زاہد، حسن التقاضی فی سیرۃ الامام ابی یوسف القاضی ، مصر، دارالانوار للطباعۃ والنشر، س ن ، صفحہ۹۶

(۳۸)   ایضاً، صفحہ۹۶تا ۹۹

(۳۹)   حجۃ اللہ البالغہ ، جلد۱، صفحہ۱۰

(۴۰)   ایضاً، جلد۱، صفحہ۴۱

(۴۱)    ایضاً ، جلد۱، صفحہ۴۱

(۴۲)   ایضاً، جلد۱، صفحہ۱۱۹

(۴۳)   ایضاً، جلد۱، صفحہ۱۱۹

(۴۴)   ایضاً، جلد۱، صفحہ۱۱۹

(۴۵)   ایضاً، جلد۱، صفحہ۱۱۹

(۴۶)   ایضاً، جلد۱، صفحہ۱۱۹

(۴۷)  ایضاً، جلد۲، صفحہ۱۵۲

(۴۸)   ایضاً، جلد۲، صفحہ۱۵۲

(۴۹)   ایضاً، جلد۲، صفحہ۱۵۴

(۵۰)   ایضاً، جلد۲، صفحہ۱۵۴

(۵۱)    ابن رشدالحفید، بدایۃ المجتھدونہایۃ المقتصد، جلد۴، صفحہ۱۹۸

(۵۲)   ابن رشدالجد، محمد بن احمد، ابو الولید، المقدمات المھدات، دار الغرب الاسلامی، ۱۴۰۸ھ، جلد۳، صفحہ۲۸۴

(۵۳)   الشیبانی، محمد بن حسن ، الامام، الحجہ علی اھل مدینہ، بیروت عالم الکتب ، ۱۴۰۳ھ، جلد۴، صفحہ۳۵۱

(۵۴)   المنجبی ، الخزرجی، علی بن ابی یحی ، ابو محمد، اللباب فی الجمع بین السنۃ والکتاب، بیروت، دارالقلم، ۴۱۴۱ھ، جلد۲، صفحہ۷۲۹

(۵۵)   الزیلعی ، تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق، جلد۶، صفحہ۱۲۸

(۵۶)   المرغینانی، علی بن ابی بکربن عبدالجلیل، الہدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی، بیروت ، داراحیاء التراث العربی، س ن، جلد۴، صفحہ۴۴۴

(۵۷)  حجۃ اللہ البالغہ ، جلد۱، صفحہ۴

(۵۸)   ایضاً، جلد۱، صفحہ۱۰

(۵۹)   ایضاً، جلد۱، صفحہ۱۱

(۶۰)   ایضاً، جلد۱، صفحہ۹

(۶۱)    ایضاً، جلد۱، صفحہ۹

(۶۲)   ایضاً، جلد۱، صفحہ۱۰، ۱۱

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید