FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

تھائی لینڈ کے رنگ

 

 

 

             ڈاکٹر الطاف یوسف زئی

 

 

 

 

 

 

 

 

 

دیباچہ

 

 

                   ڈاکٹر سفیان صفیؔ

 

 

 

ڈاکٹر الطاف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُن کی خوبروئی، صحت اور پاک دامنی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے H.E.C نے انھیں تھائی لینڈ کے لیے منتخب کیا۔ اُن کے ہمراہ پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں سے چوبیس مرد و خواتین اساتذہ تھے۔ ہمیں H.E.C کی کج فہمی پر تعجب ہوا۔ تھائی لینڈ کے لیے مرد اساتذہ کی منطق تو سمجھ میں آ گئی لیکن خواتین کو وہاں بھجوانے کا فیصلہ ہماری سمجھ سے باہر تھا، پھر خیال آیا کہ شاید خواتین اساتذہ کو وہاں بھیجنے کا مقصد تھائی لینڈ کے باسیوں کو یہ باور کرانا تھا کہ اُن کے ہاں حد سے بڑھی ہوئی نسوانی آزادی کو لگام دی جا سکے۔ ہماری خواتین جو پاکیزگی اور شرم وحیا کا سمبل ہیں اُن کو دیکھ کر شاید اہلِ تھائی لینڈ کو مشرقی تہذیب و اقدار سے آگاہی ہو۔ مگر پھر ہمیں احساس ہوا کہ ہم غلطی پر ہیں تھائی لینڈ تو مشرقِ بعید میں پایا جانے والا ملک ہے لہٰذا مشرق ہے۔ اس کے بعد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے وہاں کے باشندوں سے مشرقی تہذیب و ثقافت کی پاسداری کی توقع فضول ہے البتہ نوجوان مرد اساتذہ کی تھائی لینڈ یاترا کے حوالے سے ہم ایک گومگو کی کیفیت کا شکار تھے کہ کہیں تھائی لینڈ سے لوٹنے کے بعد ڈاکٹر الطاف سارا الزام H.E.C کے اربابِ اختیار پر دھرتے ہوئے یہ نہ کہیں :

حافظ بخود نہ پوشید ایں خرقۂ مے آلود

اے شیخِ پاک دامن معذور دار مارا

ڈاکٹر الطاف یاترا سے واپس لوٹے تو ہم نے مشکوک نظروں سے اُن کی جانب دیکھا مگر ڈاکٹر الطاف تو ایسے پوِتر دکھائی دیے کہ لگتا تھا ابھی گنگا جل سے اشنان کر کے لوٹے ہیں۔ الطاف نے ہماری آنکھوں میں چھپی استہزائیہ کیفیت کو بھانپ لیا اور گویا ہوئے :

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو

دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

در حقیقت تھائی لینڈ سے متعلق ہمارے تاثرات بنکاک کی رنگین راتوں کے حوالے سے پیدا ہوتے ہیں اور انگریزی زبان میں بنی ہوئی کچھ فلمیں بھی انہی رنگین خیالات کی جانب اِشارہ کرتی ہیں۔ تھائی لینڈ کا دارالخلافہ جہاں راتیں جاگتی ہیں، یہ اپنے اندر کئی رمزی پہلو رکھتا ہے یہی وہ اشتیاق تھا جس نے میرے تجسس کو مہمیز کرنے کا فریضہ سرانجام دیا اور جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب تھائی لینڈ کے حوالے سے ایک سفرنامہ لکھ رہے ہیں تو میری دلچسپی تھائی لینڈ کی تہذیب و ثقافت کے حوالے سے زیادہ بڑھ گئی۔ ڈاکٹر الطاف نے اس سفرنامے میں تھائی لینڈ کی تہذیب و ثقافت کو موضوع بنایا ہے وہیں اس ملک کی سیاست، معیشت اور مذہب کو بھی بطورِ خاص پیشِ نظر رکھا ہے۔ اس سفرنامے میں موضوعاتی اعتبار سے سب سے دلچسپ تذکرہ تھائی لینڈ کی تہذیب و ثقافت کا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد مشرقِ بعید کے ممالک ایک خاص نوع کی Transformation کے عمل سے گزرے جن میں کوریا، جاپان، انڈونیشیا، ملائشیا، فلپائن اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔ مذکورہ ممالک نے اپنے لیے نئے Taskکا انتخاب کیا اس حوالے سے مغربی استعمار کا انھیں قدم قدم پرسامنا کرنا پڑا۔ بعض ممالک مثلاً کوریا کے جغرافیائی خدوخال بھی تبدیل ہو گئے اور نئے چیلنجز نے انھیں بہت حد تک مغربی تہذیب کو اپنانے پر بھی مجبور کیا۔ اس طرح بہت سی قباحتیں جو صرف اہلِ مغرب کی پہچان تھیں۔ مشرقِ بعید کے ممالک میں بھی جڑ پکڑنے لگیں۔ اِس بقا کی جنگ میں تہذیبی و ثقافتی منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہوا اور جہد اللبقا کے فلسفے کے تحت نئی اقدار متعارف ہوئیں۔ اس مخصوص تناظر میں ڈاکٹر الطاف تھائی لینڈ کی تہذیب و ثقافت کو موضوع بناتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’تھائی لینڈ کی ایک مشہور سیرگاہ جو دریا کے ساحل پر واقع ہے میرے لیے دلچسپی کے نت نئے سامان پیدا کرنے کا سبب بنی۔ وہاں میری ملاقات ایک نیم برہنہ آسٹریلوی باشندے سے ہوئی جو ایک تھائی لڑکی سے محض چوما چاٹی میں مصروف تھا۔ دونوں عمروں کے فرق کی وجہ سے باپ بیٹی لگتے تھے۔ ‘‘

یہ وہ تھائی لینڈ ہے جہاں مغرب زدگی کے باعث اور بھوک سے تنگ آ کر تھائی لڑکیاں اپنا جسم بیچنے پر مجبور ہیں۔ پوری دنیا سے آئے ہوئے سیاحوں کے لیے تھائی لینڈ اور بنکاک میں کشش کا سب سے مستند حوالہ یہی جنسی اختلاط ہے جو بہت کم قیمت میں بآسانی میسر ہے۔ ڈاکٹر الطاف کے استفسار پر ایک تھائی لڑکی نے اس کاروبار کو با عزت قرار دیتے ہوئے یہ دلیل پیش کی:

’’اُس نے جواب دیا کہ اس جاب میں محنت کم اور محنتانہ زیادہ ہے باقی رہی بات با عزت روزگار کی تو مرکزی شاہراہ پر بھیک مانگنے والی ایک خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی:”I am better than her.”

در حقیقت یہ تمام صورتِ حال مغربی بے راہ روی کا وہ کڑوا پھل ہے جو سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت کی صورت میں ترقی پذیر ممالک میں بانٹا گیا اس طرح نہ صرف ترقی پذیر ممالک کی تہذیب و ثقافت کا جنازہ نکلا بلکہ بھوک اور افلاس نے کچھ اس طرح پنجے گاڑے کہ مشرقی تہذیب کا حسن اور چہرہ دونوں مسخ ہو کر رہ گئے۔ جب ڈاکٹر الطاف نے اس تہذیبی و معاشرتی بگاڑ کے حوالے سے اپنی استاد نیرومن سے استفسار کیا اور ان قحبہ خانوں اور فاحشاؤں کے حوالے سے بدھ مت مذہبی شخصیات کی رائے معلوم کی تو وہ بولیں :

’’ہماری تہذیب میں قحبائی سرگرمیوں پر اُنگلی نہیں اُٹھائی جاتی بلکہ ملکی ترقی میں ہم ایسی خدمات کے معترف ہیں۔ میں نے پوچھا آپ کا مذہب عورت کے بارے میں کیا کہتا ہے وہ بولیں مجھے نہیں معلوم مگر ہمارے مذہبی پیشوا ہم سے بات کرنا گناہ سمجھتے ہیں اور ہاتھ لگانا حرام۔ ہمارے لیے اُن کے سامنے جانا اور اُن سے اچھے موڈ میں گفتگو کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ‘‘

یہ اُس ملک کی تہذیب و ثقافت ہے جو بدھ مت کا ایک مرکز تصوّر کیا جاتا ہے جبکہ اس مذہب میں ترکِ دُنیا اور ترکِ تعیشات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے لیکن مغرب سے درآمد سرمایہ داری نظام نے جہاں بہت بڑے بڑے سرمایہ دار پیدا کیے وہیں انسانیت کی گلتی سڑتی لاش کو بھی اُن تاریک گوشوں میں چھپا دیا گیا جہاں بظاہر روشنی ہی روشنی ہوتی ہے اور جنسی لذت کا کاروبار عروج پر دکھائی دیتا ہے۔ بنکاک سے سوا گھنٹے کے فاصلے پر موجود پاتیہ کی ساحلی پٹی پر ہونے والی جنسی حظ اندوزی کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر الطاف لکھتے ہیں :

’’یہاں کی رنگین راتیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں عریانی کا اشتہار بنی دو شیزائیں سیاحوں کو غمزوں، عشووں اور اداؤں سے بوم بوم کی دعوت دیتی نظر آتی ہیں۔ دنیا بھر سے جسم فروش حسینائیں یہاں دولت لوٹنے اور عزت لٹانے آتی ہیں۔ ‘‘

بنکاک میں جنسی حظ اندوزی کا ایک اور حوالہ اُن مساج سینٹرز کو قرار دیا جا سکتا ہے جہاں بظاہر جسمانی چستی کا اہتمام کیا جاتا ہے مگر بالآخر یہی جسمانی چستی، دائمی سستی میں تبدیل ہو جاتی ہے ان مساج گاہوں میں جو مساج کے مختلف پانچ طریقے استعمال کیے جاتے ہیں، اُن میں جسمانی تسکین سے زیادہ شہوت خیز مساج کو ترجیح دی جاتی ہے۔ بنکاک میں مساج گاہوں کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر الطاف لکھتے ہیں :

’’شہر میں بے تحاشا مساج سینٹرز ہیں یہاں تک کہ ایئر پورٹ کے اندر بھی یہ سینٹر قائم ہیں جہاں تھائی دوشیزائیں گاہکوں کو بلا بلا کر مساج کرتی ہیں۔ دوسرے ممالک سے آئے سیاح شاید ہی تھائی لینڈ کی کسی اور چیز سے اس قدر لطف اندوز ہوتے ہوں جتنا مساج سے۔ ‘‘

بنکاک میں مساج کے بہت سے طریقے رائج ہیں جن میں پانچ طریقوں کو خاص طور پر شہرت حاصل ہے جن میں آئل مساج، اروما مساج، فش مساج، فٹ مساج اور باڈی ٹو باڈی مساج بہت مشہور ہیں۔

ڈاکٹر الطاف نے اس سفرنامے میں تہذیبی آثار کا بھی تعارف کروایا ہے نیز تھائی لینڈ کے مذہب، سیاست اور معیشت پر بھی مفصل بحث کی ہے اور بحث کا انداز اس وجہ سے زیادہ دلچسپی کا سبب بنتا ہے کہ یوں ہم تھائی لینڈ کی مذکورہ جہتوں کا تقابل پاکستان سے کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر الطاف یوسف زئی نے اس سفرنامے میں فلیش بیک کی تکنیک کا اچھا اِستعمال کیا ہے۔ بے ساختگی اور برجستگی کو قائم رکھتے ہوئے انتہائی سادہ اور مؤثر انداز میں اپنے نفسِ مضمون کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سفرنامے میں کثیر الجہتی موضوعات اپنے تمام تر تنوعات کے ساتھ ہمیں اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ مجھے دیگر موضوعات کی اہمیت سے اِنکار نہیں مگر مجھے اس سفرنامے کو پڑھ کر سب سے زیادہ دُکھ اس مغرب زدگی کے عمل سے ہوا ہے جس نے بدھا کی تعلیمات کے برعکس تھائی لینڈ کے معاشرے میں پائی جانے والی اخلاقی اور مذہبی اقدار کی گراوٹ کو جنم دیا ہے۔ میں ڈاکٹر الطاف کو اِس کامیاب اور مؤثر سفرنامہ لکھنے پر اس وجہ سے بھی مبارک باد دوں گا کہ انھوں نے جو دیکھا حقیقت نگاری کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے انھیں قاری کی امانت سمجھتے ہوئے اُسی طرح بیان بھی کر دیا۔

٭٭٭

البیلے سیاح

 

                   ڈاکٹر نذر عابد

 

سفرنامے کی صنف لکھنے والے سے گہرے مطالعے اور عمیق مشاہدے کا تقاضا کرتی ہے۔ گہرا مطالعہ مطلوب و مقصود شہر، ملک اور دیس کی تاریخ اور ماضی کے تناظر میں اور عمیق مشاہدہ اُس دیار کے حالیہ شب و روز اور اُس کے باسیوں کی بود و باش، تہذیب و ثقافت اور طرزِ احساس کے حوالے سے۔ ان دونوں بنیادی خصائص کی موجودگی کے باوجود کوئی لکھنے والا کامیاب سفرنامہ نگار ثابت نہیں ہو سکتا جب تک اُس کا اسلوبِ اظہار اور طرزِ تحریر بیان کردہ واقعات کو منطقی ترتیب دینے اور حاصل شدہ تاثرات کو جادوئی انداز میں قاری تک منتقل کرنے میں معاونت نہیں کرتا۔

اُردو سفرنامے کی توانا روایت میں یوسف کمبل پوش سے مستنصر حسین تارڑ تک ایسے بہت سے نمایاں سفرنامہ نگاروں کا نام لیا جا سکتا ہے جو مذکورہ معیار پر بخوبی پورا اُترتے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اُردو سفرنامہ نگاری کی اس تابندہ روایت میں ڈاکٹر الطاف یوسف زئی ایک خوش آئند اضافہ ہیں۔ انھوں نے تھائی لینڈ میں اپنے چند روز قیام کی خوشگوار یادوں کو اپنے سفرنامے میں انتہائی خوش اسلوبی سے سمویا ہے۔

ڈاکٹر الطاف اپنے اس سفرنامے میں ایک البیلے سیاح کے رُوپ میں نظر آتے ہیں جو تھائی لینڈ کے مناظر کو کھلی آنکھ سے دیکھتا ہے، وہاں کے لوگوں کا کھلی بانہوں سے استقبال کرتا ہے اور اُن کے خیالات اور احساسات و جذبات کو کھلے ذہن سے پڑھتا ہے۔ اُن کی اسی کشادہ نظری اور وسعتِ قلبی نے انھیں تھائی لینڈ کی تہذیب و ثقافت کو سمجھنے اور وہاں کے باسیوں کے باطن میں جھانکنے کا ظرف اور حوصلہ عطا کیا ہے۔ وہ اپنے رواں دواں اسلوب کے وسیلے سے اپنے مشاہدات و تجربات کے بعض مشکل مراحل کے اظہار و بیان میں بھی کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ اُمید ہے انھیں مزید سفراسفار کے مواقع بھی میسر آتے رہیں گے اور اُن کے قاری کے سامنے اُن کے مشاہدات و تاثرات کے نت نئے رنگ بھی بکھرتے رہیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

ساتھ ساتھ چل کے بھی، راستہ مسافر ہے

 

                    ڈاکٹر الطاف یوسف زئی

 

تھائی لینڈ جانے کا میرا بنیادی مقصد اپنی علمی استعداد کی بڑھوتری تھا۔ میری علمی استعداد اور تدریسی انداز میں کیا بہتری آئی اس کا اندازہ میرے شاگرد ہی لگا سکتے ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے اس سفر سے ایک فائدہ ہوا جس کو اگر بنیادی مقصد کا سائیڈایفیکٹ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا وہ ہے تھائی سماج اور تھائی لینڈ کی تہذیبی بو قلمونیوں سے آگاہی جس نے مجھے آخری وقت تک اپنے حصار میں رکھا۔ میری خوش بختی تھی کہ مجھے وہاں نیرومن ملی جن کے ساتھ تھائی تہذیب و معاشرت اور سماج پر مکالموں اور طویل بحثوں نے میرے لیے فہم و فراست کے نئے دَر وا کیے۔ میں معاشرے کو ایک کاروان سمجھتا ہوں۔ اس کاروان کو ہر وقت راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے جس کے ذریعے اس معاشرے کو درست نشان اور پتہ کے ساتھ ایک نئی راہ اور نئی منزل کی نوید ملے۔ تھائی معاشرہ بھی ایک کاروان ہے جس نے اپنے لیے نئی راہوں اور منزلوں کا تعین کیا ہوا ہے۔ میں نیرومن کے ساتھ انہی راہوں پر دُور تک گیا ہوں۔ جہاں ہم نے مٹتے اقدار کے نوحے بھی گائے ہیں اور نئی منزلوں کے گیت بھی۔ دیکھا جائے تو میرا یہ سفرنامہ انہی دو لفظوں کے گرد مُطَوِف ہے اقدار کی زبوں حالی کا نوحہ اور نئی منزلوں کی تلاش پر خوشی کے گیت۔ تھائی معاشرے میں نمو پانے والے نوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو مشہور ایرانی شاعر جلال آل احمد یاد آتے ہیں۔ اس جدید آزاد خیال، ترقی پسند دانشور نے خوب بات کہی ہے کہ:

’’ میں ان لوگوں میں سے نہیں جو تاریخ پر تکیہ کرتے اور اُمید کو شک میں بھر کر کاندھے پر اُٹھائے پھرتے ہیں۔ کل جس کی جو مرضی ہو کہے اور لکھے، آج ہماری مرضی ہو گی وہ جو ہم سوچیں گے لکھیں گے۔ ہمارے اخلاف نے اپنی زندگی بسر کی اور ہم اپنی جی رہے ہیں۔ بیتی زندگی ان کی ملکیت تھی اور آج وہ خود قبروں کی ملکیت ہیں۔ ہمارا مستقبل کیسا ہو گا ہمیں اس سے زیادہ یہ فکر ہے کہ آج کیسا ہو کیونکہ ہمارا مستقبل ہمیں کچھ بھی دینے سے عقیم ہے۔ کوئی حاملہ عورت ایسی نہیں جس کے بندِ ناف سے کسی شخص کو آج کے لیے خوراک حاصل ہو سکے۔ اُس کا کام آنے والی کل کی جنم ہے۔ امروز صرف اس شخص کی دسترس میں ہے جو آج سوچتا ہے اور آج کے لیے لکھتا ہے۔ ‘‘

تھائی معاشرہ بھی انھی خصائص کو لیے پروان چڑھ رہا ہے جو میرے اس سفرنامے کے مندرجات ہیں۔

ڈاکٹر الطاف یوسف زئی

ہزارہ یونی ورسٹی مانسہرہ

۲۴ دسمبر۲۰۱۵ء

٭٭٭

 

 

 

تھائی لینڈ کے رنگ

 

 

جب بھی رخت سفر باندھا مسافر کے لیے مختارمسعود کی تحریر زادِ راہ بنی کہ سفروحضر کی تفریق غلط، جادہ و منزل کی تقسیم بیکار، مسافر اور مقیم کا فرق محض فریب۔ ۔ ۔ راہ خود سفر میں ہے۔ منزل خود مقصود کی تلاش میں ہے۔ سکون بھی ایک مسافر ہے۔ بہت سے مسافر ایک دوسرے پر سوار بہ یک وقت مختلف سمتوں میں سرگرمِ سفر ہیں۔ ایک سفر سے دوسرا سفر یوں پیوست ہے جیسے روشنی، روشنی سے مِل کر روشن تر۔

اس سفرکا انتظام سرکاری تھا اور منزل مشرقِ بعید کا خوبصورت ملک تھائی لینڈ علم کی روشنی کو روشن تر کرنے کے لیے پاکستان بھر کی یونیورسٹیوں سے چوبیس جواں عمر مردو خواتین اساتذہ پر مشتمل ایک طائفہ تیئس دنوں کے لیے ہائرایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے خرچے پر تھائی لینڈ آیا تھا۔ جہاں سہولت کار کی ذمہ داری ایشین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی تھی۔ اس ملک کے حوالے سے مسافرکی معلومات تین لفظوں سے زیادہ نہ تھیں۔ بنکاک، بدھ مت اور بارش۔ بعض شہروں کی شہرت اپنے ملک سے زیادہ ہوتی ہے اور کبھی کبھار لوگ ملک کو نہیں جانتے شہر کا خوب شہرہ ہوتا ہے جیسے لندن، دبئی وغیرہ۔ بنکاک کا شمار بھی ایسے ہی مشہور شہروں میں ہوتا ہے۔

لاہور کے علامہ اقبال انٹر نیشنل ائیرپورٹ سے بذریعہ تھائی ائر لائن ہم نے بنکاک کے لیے عازمِ سفر ہونا تھا۔ قافلے میں شامل اکثر اساتذہ پہلی بار کسی بیرونی سفر پر روانہ ہو رہے تھے جبکہ بنکاک کے بارے میں تو حلفاً کہا جا سکتا ہے کہ ’’کیا جانیے تو نے اُسے کس آن میں دیکھا‘‘ یا کس کان سے سنا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ سفر سے پہلے اضطراب معمول سے زیادہ تھا۔ بہت سے معاملات کی جان کاری کے لیے دل بیتاب تھے۔ کیسا ملک ہے۔ ۔ ۔ لوگ کیسے ہوں گے۔ ۔ ۔ کیا سکھائیں گے۔ ۔ ۔ ان کی یونیورسٹیوں کی عالمی درجہ بندی کیا ہو گی۔ ۔ ۔ کوئی اور ملک نہیں ملا ایچ ای سی کو۔ ۔ ۔ تھائی لینڈ ہی کیوں۔ ۔ ۔ شاید اس لیے کہ وہاں خرچہ کم آتا ہے۔ ۔ ۔ نہیں بھئی! اچھا ملک ہے، محنتی لوگ ہیں۔ ۔ ۔ مگر یہاں کی جامعات کی عالمی درجہ بندی میں دور دور تک شمار نہیں۔ ۔ ۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔

ائیر پورٹ ہی پر ہم سب کے منہ میں پولیو کے قطرے ڈالے گئے اور یہ احساس دلایا گیا کہ دنیا کے معاملات پر اس قدر غور و غوص کی ضرورت نہیں ابھی آپ لوگ باقی مہذب دنیا کے لیے اپاہج بچے ہی ہو۔

جہاز چڑھتے ہی تھائی ائیرہوسٹس نے جان بچانے کے طریقے سکھانے کے لیے جن اشاروں اور کنایوں کا سہارا لیا اُسی سے ہماری جان نکل گئی۔ اُن کی تھائیوں سے نظر ہٹانا ہمارے لیے جان جوکھوں کا کام تھا۔ چار گھنٹے کی اس طویل مسحور کن مسافت کے بعد ہم ارضِ پاک کی فضاؤں سے دور تھائی سر زمین پر کھڑے تھے۔

ہمارے پروگرام کوآرڈینیٹر میر حسن نے اعلان کیا کہ اپنی اپنی گھڑیاں دو دو گھنٹے آگے کریں۔ اب آپ اور آپ کی گھڑی کے اوقات میں دو گھنٹے کا اضافہ ہو گیا ہے۔ سارے جب اپنی گھڑیوں کے اوقات بدلنے لگے تو مسافر کو نسیم عباسی کا شعر یاد آیا:

ہر کوئی اپنی گھڑی کرتا ہے آگے پیچھے

بیش و کم وقت کی رفتار نہیں کر سکتا

وہی ترقی یافتہ شہروں والا ماحول، بلند و بالا عمارتیں، فلک بوس مینار، کشادہ سڑکیں، انجنوں کا شور، بھانت بھانت کے لوگ اور قسم قسم کی زبانیں۔ زندگی اپنی پوری رعنائی کے ساتھ جلوہ گر تھی۔ اس ماحول میں ایک چیز ہم سب کے لیے بڑی حیرت کا سبب بنی کہ گاڑیوں کے اس قدر اژدحام کے باوجود ہارن کی آواز کہیں سنائی نہ دیتی تھی۔ میرے ایک ہم سفر دوست کا بے لاگ تبصرہ یہ تھا کہ شاید یہاں کی گاڑیوں میں ہارن ہوتے ہی نہیں۔ پچھلی نشست پر براجمان خاتون بولی ’’کلچر بھی تو نہیں ہے ‘‘ یہ برجستہ جملہ سب دوستوں کے ہونٹوں پر ہنسی بکھیر گیا۔ ایک ہوٹل کے قریب گاڑی رُکی اور خاتون گائیڈ گویا ہوئی چلو چلو!

"This is Ambassador Hotel. You will stay here.”

پست قد، چپٹی ناک، دھنسی ہوئی آنکھوں والی اس خاتون کی اردو ’’چلو چلو‘‘ سے آگے نہ بڑھی مگر ایک غیرملکی کے منہ سے اپنی قومی زبان کے ایک ہی لفظ کو دو بار سن کر سفر کی ساری تھکن دور ہو گئی۔ یہ اردو کا اعجاز ہے کہ پاکستان کی کسی بھی علاقے کی علاقائی زبان نہ ہوتے ہوئے بھی سب کی پسندیدہ زبان ہے اور قومی اتحاد کے لیے ایک شیرازہ بند قوت کی حیثیت رکھتی ہے۔

ایک زمانے میں پاکستان میں ایک اور زبان بھی بولی جاتی تھی جو اردو کی سہیلی تھی۔ پھر اس ملک میں بعد، بغض اور بے اعتباری کی ایسی وباء پھیلی کہ ملک دو لخت ہو گیا۔ اب یہی سہیلیاں ایک دوسرے کے خلاف دُشنام طرازی کرتے ہوئے گولیوں کی زبان بولنے لگیں۔ نصف صدی ہونے کو آئی مگر نفرت کی شادابی اور ہریالی میں کوئی کمی نہ آئی۔ ایمبسیڈر ہوٹل کے کانفرنس ہال میں جب افتتاحی تقریب منعقد ہوئی تو ہمارے ساتھ بنگلا دیش کے نمائندے بھی تھے جن کی شکلیں اور لباس تو ہماری طرح تھے مگر دل ہم سے بہت دُور تھے۔ نظریں ملانے سے زیادہ چرانے کی طرف مائل۔ ایشین انسٹی ٹیوٹ میں انسانی جسم کے معطل اعضاء کو کارآمد بنانے کی تربیت کے لیے آئے ان بنگالی مندوبین اور انسانی روح کی تربیت سیکھنے کے لیے آئے پاکستانی اساتذہ، ایک دوسرے سے بالکل بیگانہ اور نا آشنا تھے۔ جسم اور روح کا تو چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے مگر آج ایمبسیڈر ہوٹل میں ایک دوسرے سے بے زار کیوں ؟ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس بیزاری کی وجہ میں نے ہزارہ یونیورسٹی میں فارن فیکلٹی کے طور پر آئے ہوئے ایک بنگالی پروفیسر سے پوچھی تھی۔ موصوف کی آنکھوں میں شبنمی قطرے پھیل گئے کہنے لگے۔

وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن

اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا

ایسے مواقع پر فیض کی نظم بے طرح یاد بھی آتی ہے، اُداس بھی کر دیتی ہے :

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد

پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد

اس قومی سانحے کے برسوں بعد ڈھاکہ میں منعقدہ ایک میوزک شو میں معروف پاکستانی مغنیہ فریدہ خانم نے جب اطہر نفیس کی یہ غزل چھیڑی:

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اُس کا حال سنائیں کیا

کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا

اک آگ غمِ تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی

جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامنِ دل کو بچائیں کیا

تو پورے ہال میں ایک جذباتی کہرام کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ گانے والی رُندھی ہوئی آواز سے گا رہی تھی اور سننے والوں کی آنکھوں سے آنسو چھلکے پڑتے تھے۔ غزل بھی کیا غضب سخن ہے، ہر بدلتے ماحول میں نئی معنویت لیے طلوع ہوتی ہے۔ اس سانحے کے تناظر میں نذر عابد کی ایک نظم بھی مستقل طور پر میرے ذہن سے چپکی رہتی ہے۔ ’’سبزموسم‘‘ کے عنوان سے یہ نظم اُن کے پہلے شعری مجموعے ’’شہرِ صدا‘‘ میں شامل ہے۔ آپ بھی پڑھ لیں :

سنو پھر درد کے موسم کی ہریالی کے دامن میں

پنہ لے کر

وہی پسپائیِ لشکر کا منظر

ہاتھ میں تھامے ہوئے

شامِ سیہ آئی

میں اس شام سیہ کو

اِک خیالِ راہ گم کر دہ کی ’’مٹھی‘‘ میں

جکڑ کر

عجب حیرانیوں کی گرد میں

گم صم کھڑا ہوں

کہ پسپائی کے اسباب و علل کے باب میں

عالی دماغوں نے

کبھی جو عرق ریزی کی تھی

جن اوراق پر

وہ بھی

بہت بوسیدہ لمحے اوڑھ کر

اب زرد پڑتے جا رہے ہیں

مگر زخم ہزیمت ہے

کہ اب تک بھی ہرا ہے

سنا ہے

درد کاموسم

ہمیشہ سبز رہتا ہے

 

ایمبسیڈر ہوٹل کے ہال کے باہر Peony 6 کی تختی آویزاں تھی یہاں آج ہماری پہلی کلاس تھی۔ آج ہمیں مس ’’بی‘‘ نے تھائی لینڈ کے ماحول، تہذیب، بازاروں، سڑکوں، ٹرینوں، شہروں اور تجارتی مراکز کے بارے میں جان کاری دینی تھی۔ ساتھ ہی ہمارا ایک دوسرے سے تعارف کا اہتمام بھی تھا۔ ہماری حیرت میں اُس وقت مزید اضافہ ہوا جب پینٹ شرٹ میں ملبوس بولنے میں تیز اور قد میں کوتاہ سانولے رنگ کی ایک اور خاتون نے اپنا تعارف مس ’’اے ‘‘ (Ahe) کے نام سے کروایا۔ ایک دوست نے مذاقاً پوچھا مس سی کون ہے۔ تب محترمہ نے وضاحت کی کہ اُن کا اصل نام Ms. Narumon Wangnai ہے جبکہ Bee کے نک نیم سے جانی جاتی ہے جبکہ ’’اے ‘‘ در اصل Kanlaya Muongsonہے۔ مس نیرومن اس وضاحت کے بعد اور میٹھی لگنے لگی بلند قامت، زردی مائل سفید چہرہ، چہرے پر مسکراہٹ کا بسیرا دل میں جھانکنے والی مسکراتی آنکھیں، آواز کی بچ عام عورتوں سے قدرے مختلف اسی لیے جب بولتی تو منہ سے پھول جھڑتے تھے۔ اندر کی طرف دھنسے ہوئے کندھوں نے اُن کی متانت اور عاجزی کو اور اُبھارا تھا۔ نتھنے قدرے بھاری مگر چہرے کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے تھے۔ ساتھ بیٹھے ایک مندوب سے رہا نہ گیا بولا ’’اس خاتون میں کس قدر ممتائی محبت ہے ‘‘ میں نے کہا شاید اس لیے شادی بھی نہیں کی کہ اس کو روایتی ماں بننے کی ضرورت ہی نہیں۔

نیرومن ایشین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پروگرام سپیشلسٹ اور علمی و تربیتی ترویجی شعبے کی صدر نشین ہیں۔ جن کی بنیادی ذمہ داری تربیتی کورس کا انتظام و انصرام اور اس کے بہتر نفاذ کے لیے سہولت کار تھی۔ آٹھ سال سے اس ادارے سے منسلک نیرومن، امریکہ سے ہیومن ریسورس میں گریجویٹ ہیں۔ مزید برآں چنگ مائی یونیورسٹی تھائی لینڈ سے بی ایڈ اور چولا لونگ یونیورسٹی سے ایم ایڈ کی سندیں حاصل کر رکھی ہیں۔ ساتھ ساتھ امریکن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کا کورس ورک لرننگ ٹیکنالوجی کے خصوصی مطالعے کے ساتھ مکمل کیا ہے۔ نیرومن کو بدیسی زبانیں سیکھنے کا از حد شوق تھا۔ بنکاک سے چنگ مائی سفر کے دوران وہ مجھ سے اکثر پشتو زبان کے الفاظ سیکھتی رہیں۔ اُن کو پشتو لفظ ’’مننہ‘‘ بہ معنی تشکر خوب بھایا تھا۔ اس لیے دورانِ تربیت مجھ سے اُن کا مکالمہ ’’مننہ‘‘ پر ہی اختتام پذیر ہوتا۔

نیرومن کا لباس انتہائی سادہ ہوتا تھا۔ تیئس دنوں کی اس ٹریننگ میں انھوں نے صرف تین شرٹس تبدیل کیں جبکہ ہمارے ساتھ آئی ہوئی بعض خواتین ایک دن میں تین دفعہ لباس تبدیل کرتی تھیں۔ مسافر نے یہ سوال گورنمنٹ کالج برائے خواتین مانسہرہ کی جواں دل پروفیسر تہمینہ ناز کے سامنے اُٹھایا تو بولی ہر عورت کو خود نمائی کی خواہش ہوتی ہے اور جاذبِ نظر لگنے اور خوبصورت دِکھنے کے لیے عورت کو ایسا کرنا پڑتا ہے مگر بعض ایسی عورتیں بھی ہیں جو اس تکلف سے آزاد ہیں جو دِکھنے اور بکنے کے جنجال سے دور ہیں جن کی زندگیوں کے کچھ اعلیٰ مقاصد ہوتے ہیں۔ انسانی معاشرے کی اصلاح کے مقاصد سے معمور روز و شب گزارنے والی خواتین کا اندروں اتنا روشن اور شخصیت اتنی جاذبِ نظر ہوتی ہے کہ اُن کو ظاہری خود نمائی کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔

نیرومن ہی کی طرح ایک محنتی خاتون سے میری ملاقات ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے ذیلی ادارے لرننگ اینویشن ڈویژن میں ہوئی تھی اُن کا نام نور آمنہ ملک ہے جو اُس وقت ایچ ای سی کے اس ذیلی ادارے کی سربراہ تھیں۔ ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد یونیورسٹی کے اُن جواں سال اساتذہ کی تربیت تھی جن کی عمریں چالیس سال اور ملازمت کا دورانیہ پانچ سال سے کم ہو یعنی ’’جوانوں کو پیروں کا استاد کر‘‘ کا عملی مظاہرہ تھا۔ دراز قد، چھریرے بدن، کھلی اور مسکراتی آنکھوں بشاش چہرے اور بارُعب شخصیت کی مالک کئی مردوں پر بھاری اس خاتون نے اس ادارے کو بڑی حد تک فعال بنایا تھا۔ وقت کے ضیاع، بے جا گفتگو، کام میں لیت و لعل اور خوشامد سے انھیں چڑ تھی۔ میر حسن اویس ملغانی اور مہوش جبار پر مشتمل اپنی نپی تلی ٹیم سے شبانہ روز محنت کرواتیں۔ لیکچر کے دوران اپنی ماں کا ذکر خوب کرتیں یوں لگتا تھا جیسے ہر اچھی بات انھوں نے ماں سے سیکھی ہو مگر المیہ یہ تھا کہ خود ماں نہ تھیں۔ دنیا بھر کے مشاہیر کی نجی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو اکثریت کی ازدواجی زندگی خوش گوار نہیں گزرتی شاید اسی لیے نور آمنہ اس جھنجھٹ میں پڑیں ہی نہیں۔ اپنے کام میں مستعدی اور تکمیلیت پسندی کی خواہش میں دن رات مگن نیرومن اگر برف ہے تو نور آمنہ نار، ایک میں حدت ہے تو دوسری میں شدت، ایک طلائی تو دوسری نقرئی، ایک شعلہ فگن تو دوسری اُجلی اور نورانی۔ دونوں معمولاتِ زندگی کے لیے درکار اور کارآمد۔ انتہائی سادہ لباس میں ملبوس اتنی سادہ و پرکار اور با ہمت خواتین جلال، جمال اور کمال کی صفات سے مالا مال اور جہاد زندگانی میں یقین محکم، عمل پیہم اور محبت فاتح عالم کی شمشیروں سے لیس، زندہ ہوں تو مہان اور گزر جائیں تو تہہ خاک ’’از من و تو زندہ تر۔ ‘‘

پاک، بنگلا مشترکہ افتتاحی تقریب کی نظامت کی ذمہ داری Voravate Chonlasin نے نبھائی اور خوب نبھائی۔ ہنس مکھ، ملنسار اور جہاندیدہ شخصیت کے مالک کا نک نیم، ’’جو‘‘ تھا۔ موصوف نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا تھا اور ملکوں ملکوں گھومے تھے۔ دوسروں کی دلجوئی کا ہنر مسٹر جو خوب جانتے تھے۔ مس نیرومن اور ’’اے ‘‘، ’’جو‘‘ کی معاونت کرتی رہیں۔ اُن کا زیادہ وقت بنگلا دیشی ٹیم کے ساتھ گزرا مگر ہم پر بھی نظرِ کرم رہی۔ جو کی ہمہ جہت شخصیت کی سب سے بڑی خوبی اُن کی علمی استعداد تھی۔ وہ جیک آف آل ٹریڈ ہو کر بھی ماسٹر آف نن نہیں تھے، جو ذمہ داری دی جاتی، خوب نبھاتے، شہری اور دیہی منصوبہ بندی میں ملکہ حاصل تھا۔ مچھلی اور دیگر پالتو جانوروں کی صحت کے حوالے سے بھی کئی کورسز کی کامیاب تکمیل خود کر بھی چکے تھے اور اُن کے کامیاب کوارڈینٹر بھی رہے تھے۔ سول سروس کمیشن کی منصوبہ بندی ٹیم کا حصہ بھی رہے ہیں۔ قدرتی آفات میں دفاعی منصوبہ بندی ہو یا قائدانہ صلاحیتوں کو اُبھارنے کا تربیتی پروگرام، جو ہر جگہ صفِ اوّل میں کھڑے ہوتے۔ پاکستان کے حوالے سے بھی اچھی خاصی معلومات رکھتے تھے۔ پاکستانی عوام اور حکمرانوں کے نفسیاتی مسائل سے آگاہ تھے جس کا ذکر وہ گا ہے گاہے اپنی گفتگو میں کرتے رہتے۔ کنگ مانگ کٹ انسٹی ٹیوٹ کا معاشرتی علوم کا یہ سادہ گریجویٹ بہت سے ڈگری برداروں پر بھاری ہے۔

نیرومن نے تھائی لینڈ کے بارے میں چند ضروری باتیں بتائیں یہاں کی زبان، قومیت اور آب و ہوا کے حوالے سے باخبر کیا۔ اُن کی دی گئی معلومات کے مطابق تھائی لینڈ کی پچانوے فی صد آبادی بدھ مت کی پیروکار ہے۔ یہاں کی کرنسی باٹ ہے۔ مسلمانوں کی تعداد کل آبادی کا چار فی صد ہے۔ رقبے میں یہ ملک پاکستان سے تھوڑا کم لیکن آبادی کا تفاوت بہت زیادہ ہے۔ تھائی لینڈ کی آبادی سات کروڑ ہے۔ میں نے ساتھ بیٹھی ایک خاتون پروفیسر کے کان میں کہا ان کی آبادی تو ہمارے پنجاب کی آبادی سے کم ہے۔ بولیں اسی لیے تو ہم ترقی نہیں کر پا رہے۔ میں نے پوچھا کیا بچے جننا ترقی نہیں۔ ’’میرے نصیب میں تو یہ بھی نہیں ‘‘ محترمہ نے پھیکا سا منہ بنا کر روکا جواب دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ موصوفہ کو شادی کیے برسوں بیت گئے ہیں مگر آنگن میں کوئی ہریالی نہیں اس لیے جب دوا دارو سے کام نہ چلا تو پیری و پرہیز گاری میں پھنس گئی۔

نیرومن نے بتایا کہ تھائی لینڈ میں بادشاہت ہے۔ا س وقت نوویں راما کا دور ہے۔ بادشاہ کے زیرِ سایہ ایک پارلیمنٹ بھی کام کر رہی ہے۔ مگر آج کل معطل ہے۔ وزیرِ اعظم معز ول ہیں اور ملک میں فوجی حکومت قائم ہے نیرومن کو اپنی معز ول خاتون وزیرِ اعظم سے ہمدردی تھی جس نے کچھ فلاحی کام کیے تھے اور خواتین کے حقوق کے لیے بعض عملی اقدامات اُٹھائے تھے۔ عام شہریوں کے لیے قرضہ سکیم شروع کی جس سے عوام مستفید ہو رہی ہے۔ نیرومن کے بقول سابق وزیرِ اعظم جو معزول وزیرِ اعظم کا بھائی تھا اچھا حکمران نہیں تھا۔ وہ بدعنوانی میں ملوث رہا اور آج کل دبئی میں سیاسی پناہ لی ہوئی ہے۔ ہم میں سے کسی نے طنزاً کہا ان کے حکمران بھی ہمارے حکمرانوں کی طرح اپنے ملک میں کرپشن کر کے عربوں کے ہاں پناہ لیتے ہیں۔ دوسرا ساتھی بولا اسی لیے یہاں حکمران بھی فوج ہی ہے تیسرا دوست بولا ظاہر ہے تیسری دنیا کا المیہ یہی ہے کہ عوامی حکومتیں کرپشن کی بنیاد پر فارغ ہوتی ہیں اور فوجی حکومتیں کرپشن کے خاتمے کے نام پر قائم کی جاتی ہیں اور پھر خود اسی الزام کی وجہ سے اقتدار چھوڑتی ہیں۔ اس گرما گرم بحث کے دوران مسافر کو مشتاق احمد یوسفی کا ’’غنودیم غنودیم‘‘ یاد آیا جہاں وہ لکھتے ہیں ’’لیڈر خود غرض، علما مصلحت بین، عوام خوف زدہ اور راضی برضائے حاکم، دانش ور، خوشامدی اور ادارے کھوکھلے ہو جائیں تو جمہوریت آہستہ آہستہ آمریت کو راہ دیتی چلی جاتی ہے پھر کوئی طالع آزما آمر ملک کو غصب ناک نگاہوں سے دیکھنے لگتا ہے۔ تیسری دنیا کے کسی بھی ملک پر نظر ڈالیے، ڈکٹیٹر خود نہیں آتا، لایا یا بلایا جاتا ہے اور جب آ جاتا ہے تو قیامت اُس کے ہم رکاب ہوتی ہے۔ پھر وہ روایتی اونٹ کی طرح بدوؤں کو خیمے سے نکال باہر کرتا ہے باہر نکالے جانے کے بعد کھسیانے بدو ایک دوسرے کا منہ نوچنے لگتے ہیں۔ پھر ایک نایاب عنقا شے کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اپنے سے زیادہ غبی اور تابعدار اُونٹ تلاش کر کے اُسے دعوت دینے کے منصوبے بنانے لگتے ہیں تاکہ اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر اپنے خیمے میں رہ سکیں اور آقائے سابق الانعام یعنی پچھلے اونٹ پر تبرا بھیج سکیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈکٹیٹر سے زیادہ مخلص کوئی نہیں ہو سکتا اس معنی میں کہ وہ خلوص دل سے یہ سمجھتا ہے کہ ملک و ملت سے جس طرح ٹوٹ کر وہ محبت کرتا اور جیسی اور جتنی خدمت وہ تن تنہا کر سکتا ہے وہ پوری قوم کے بوتے کا کام نہیں وہ سچ مچ سمجھتا ہے کہ اس کے جگر میں سارے جہاں کا درد ہی نہیں درماں بھی ہے۔ نیز اس کی ذاتِ واحد خلاصہ کائنات اور بلا شرکتِ غیرے سرچشمہ ہدایت ہے لہٰذا اس کا ہر فرمان بمنزلہ صحیفہ سماوی ہے اس میں بھی شک نہیں کہ اس کے پاس ان لامسائل اور فرضی قضیوں کا نہایت اطمینان بخش حل ہوتا ہے جو وہ خود اپنی جودتِ طبع سے کھڑے کرتا ہے۔ رائے کی قطعیت اور اقتدار کی مطلقیت کا لازمی شاخسانہ یہ کہ وہ بندگانِ خدا سے اس طرح خطاب کرتا ہے جیسے وہ سب پتھر کے عہد کے وحشی ہوں اور وہ انھیں ظلمت سے نکال کر اپنے دورِ ناخدائی میں لانے اور بن مانس سے آدمی اور آدمی سے بن مانس بنانے پر مامور من اللّٰہ ہے۔ ‘‘

نیرومن نے جب کہا کہ اب ہمارے ملک میں مارشل لاء ہے تو خوف ان کی گفتگو اور آنکھوں سے عیاں تھا۔ وہ اس موضوع پر گفتگو سے قدرے گریز کر رہی تھی۔ جیسے کچھ بولیں گی تو نادیدہ ہاتھ اُن کا گلا دبا دیں گے اور وہ ایسی موت ماری جائیں گی جس میں قاتل کے دامن پر داغ ہو گا اور نہ خنجر پر چھینٹ۔ بقول یوسفی ’’آمر اپنے ذاتی مخالفین کو خدا کا منکر اور اپنے چاکر ٹولے کے نکتہ چینوں کو وطن کا غدار اور دین سے منحرف قرار دیتا ہے اور جو اس کے دستِ آہن پوش پر بیعت میں عجلت سے کام لیتا ہے اُس پر اللّٰہ کی زمین کا رزق، اس کی چھاؤں اور چاندنی حرام کر دینے کی بشارت دیتا ہے۔ ادیبوں اور تلامیذ الرحمن کو شاہی مطبخ کی بریانی کھلا کر یہ بتلاتا ہے کہ لکھنے والے کے کیا فرائض ہیں اور نمک حرامی کسے کہتے ہیں ؟ وہ جانتا ہے کہ ادب اور صحافت میں ضمیر فروش سے بھی زیادہ مفید مطلب ایک اور قبیلہ ہوتا ہے جسے ما فی الضمیر کہنا چاہیے۔ اُن سے تصدیق کراتا ہے کہ میرے عہد میں اظہار و ابلاغ پر کوئی قدغن نہیں۔ مطلب یہ کہ جس کا جی چاہے جس زمین اور جس بحر میں قصیدہ کہے۔ قطعاً کوئی روک ٹوک نہیں بلکہ وزن، بحر اور عقل سے خارج ہو تب بھی ہم حارج نہیں ہوں گے۔ ‘‘

تیسری دنیا کے تقریباً ہر ملک میں یہی ڈراما کھیلا جا رہا ہے۔ سیٹ، مکالمے اور ماسک کی وقتی اور مقامی تبدیلیوں کے ساتھ۔ اور شاید اسی لیے یوسفی جب اعوذ با اللّٰہ من الشیطان الرجیم کہتے ہیں تو جیسے رجیم سے یہی Regimeمراد لیتا ہو۔

نیرومن کی گفتگو سے اندازہ ہو رہا تھا کہ اُن کے بادشاہ بہت شفیق اور مہربان ہیں۔ وہ لوگوں کے دلوں میں بستا ہے۔ اُن کی اور اُن کے اولاد کے سالگروں پر عام عوام نئے کپڑے سلواتے ہیں اور اُن دنوں کو خوشی کے طور پر مناتے ہیں۔ میرے لیے یہ بات عجیب تھی کہ رعایا حاکم سے اس قدر محبت کس طرح کرتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں سے عوام کی محبت ایک سال سے زیادہ نہیں ہوتی۔ سال بعد ہم اُن سے بے زار ہو چکے ہوتے ہیں اُن کی بُری خصلتوں پر تبصرے عوام میں زدِ عام رہتے ہیں۔ اُن کی مالی بدعنوانیوں اور اقربا پروریوں پر مختلف نشریاتی ادارے صبح شام پروگرام چلاتی ہیں۔ جبکہ نیرومن کا بادشاہ ستر سال سے تاجِ حکمرانی سر پر سجائے بیٹھے ہیں اور عوام پھر بھی دل و جان سے چاہتی ہے۔ اتنی محبت تو مرزا غالب کی بھی اپنے بادشاہ سے نہیں تھی جن کی وجہ سے وہ اترا کے پھرتا تھا اور حج کا ثواب بھی اُن کی نذر کرنے میں خوشی محسوس کرتا تھا۔ عملداری انگریز کی تھی، بادشاہ بے بس تھا، دال روٹی پر گزارہ تھا جو کبھی کبھی غالب کو بھی تحفے میں بھجواتا۔ شعر اور لفظوں کے بادشاہ، سب پر غالب، مرزا اسد اللّٰہ خان غالب دین و دانش کی دال قرار دے کر اس پر رباعی کہتا اور قصیدے تحریر کرتا۔ بادشاہ کے لشکر کے جھنڈے اور منبر و مرتبہ بلند ہونے کی خواہش رکھتا اور دعا دیتا کہ ایسے شخص کی بادشاہت اس وقت تک سلامت رہے جب تک ہے طلسم روز و شب کا در کھلا۔ جس پر مختار مسعود کا یہ جملہ کتنا برمحل ہے کہ قصیدہ گو شاعر بھی در اصل بازی گر ہوتا ہے۔ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا۔ بادشاہ گرفتار ہوا مقدمہ چلا، جلاوطن کیا گیا۔ غالب نے ایک بغل میں بیاض اور دوسری میں درخواست دبائی اور کلکتہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے دفتر میں داد اور پنشن لینے پہنچ گئے۔

نیرومن کا بادشاہ بھی غالب کے بادشاہ کی طرح موسیقی کا رسیا ہے Saxophone کو مہارت کے ساتھ بجا سکتا ہے۔ اُنیس سال کے عمر میں کئی مشکل اور پکے راگوں کو پیانو اور گٹار پر آسانی اور روانی کے ساتھ بجا سکتا ہے۔ اُن کی بنائی ہوئی دھنوں پر گائے جانے والے نغمے۔ "Love at Sun downs”, "Blues”, "Candle Light” اور "Falling Rain” لوگ شوق سے سنتے اور محظوظ ہوتے ہیں۔ یہ ساری کہانی تو تاجوری سے پہلے کی ہے۔ بادشاہ بننے کے بعد بھی Jazz کے نام سے ایک بینڈ بنایا اور ریڈیو تھائی لینڈ پر باقاعدگی کے ساتھ پر فارم کرتے اور لوگوں کی ٹیلی فون کالز پر فرمائشیں پوری کرتے تھے۔

موسیقی کا شغف نیرومن اور غالب دونوں کے بادشاہوں کو تھا مگر نیرومن کے بادشاہ کی ایک انفرادیت ہے جو غالب کے بادشاہ کی نہیں۔ نیرومن کا بادشاہ اپنے ملک کی ترقی کو تعلیمی سرگرمیوں میں ڈھونڈتے ہیں۔ انھوں نے اپنے ملک میں متعدد یونیورسٹیاں اور دوسری علمی درس گاہیں تعمیر کی ہیں جہاں اُن کے عوام اُس علمی میراث کے حصول میں کوشاں ہیں جس کا ہم مومنین دعویٰ ہی کر سکتے ہیں۔ بادشاہ سلامت نے چار یونیورسٹیوں کے لیے ترانے (Anthem) بھی لکھیں ہیں۔ جن میں کسٹ سرٹ، تماسٹ اور چالولانگ جیسی بڑی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ مسافر کو ہزارہ یونیورسٹی کے چانسلر اور صوبہ خیبرپختونخواہ کے گورنر یاد آئے جن کی آمد پر یونیورسٹی کے اساتذہ کو چھٹی دی گئی اور اِدارے میں تعلیمی سرگرمیاں بند کر دی گئی کہ مبادہ چانسلر صاحب کی جان و مال خطرے میں پڑ جائے اور اس سے زیادہ مضحکہ خیز صورتِ حال سوات کے ایک تعلیمی درس گاہ میں اُس وقت پیش آئی جب جنگ سے متاثرہ لوگوں کو صوبے کا وزیرِ خزانہ جو خود اسی ادارے سے فارغ تحصیل تھا سرکاری امداد دینے آیا ساتھ میں علاقے کا کمانڈنٹ بریگیڈئر بھی تھا، ادارے کے پرنسپل، اساتذہ اور طلبہ کو کالج سے نکال باہر کیا گیا کہ صاحبان کو جان عزیز ہے نہ کہ تعلیمی ادارے اساتذہ اور جوان۔

نیرومن کے بادشاہ کی موسیقی کی ان خدمات کو ملک اور بیرونِ ملک سراہا گیا اور اُنیس سو چونسٹھ میں ویانا کی "University of Musicanel Preforming Arts” نے اعزازی ممبر شب عطا کی اور یالے سکول آف میوزک کی طرف سے ۲۰۰۰ء میں ’’سنیفرڈ میڈل‘‘ سے نوازہ گیا۔ موصوف پہلے ایشیائی ہیں جن کو موسیقی کا یہ اعزاز ملا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ۲۰۰۳ء میں یونیورسٹی آف ٹیکساس کالج آف میوزک نے بادشاہ سلامت کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی عنایت کی ہے۔

انسانی تاریخ میں ایک بادشاہ ایسا بھی گزرا ہے جس کی رحمدلی، نیک خوئی اور پارسائی کی دنیا معترف ہے۔ جس نے بدھا کی تعلیمات کے آگے زانوئے تلمذ طے کیے اور ان تعلیمات کو طول و عرض میں پہنچایا۔ نیرومن اور اُن کا بادشاہ آج بھی اُس بادشاہ کے احسانات کے معترف ہیں کہ وہ نہ ہوتا تو بدھ مت کی عظیم تعلیمات آج اُن تک نہ پہنچتی۔ اس بادشاہ کا نام اشوک ہے اس کی صلہ رحمی کی یہ حالت تھی کہ اس کے راج میں کسی جانور کو بھی مارنے کی اجازت نہ تھی اور اگر کوئی جانور کی ہتیا کرتا تو اُن پر قتل کا مقدمہ چلتا۔ کلنگہ کی لڑائی میں فتح یابی کے بعد دشمن فوج کی تباہی اور بربادی دیکھی تو اپنے فتوحات کا سلسلہ روک دیا اپنی سات لاکھ دس ہزار جنگی رتھ اور نو ہزار سدھائے ہوئے ہاتھی بے کار اور آوارہ چھوڑے۔ مسافر کو بادشاہ کے اس فیصلے پر اُس وقت تعجب ہوا جب معلوم ہوا کہ اتنی بڑی طاقت حاصل کرنے کے لیے انھوں نے سولہ ماؤں کے جنے ایک سو بھائیوں کو منصوبہ بندی کے ساتھ قتل کیا۔ اُن کی سلطنت میں یہ سو سوتیلے بھائی جانوروں سے بھی کمتر کہ ان کے ہتیا کا بدلہ کسی سے نہیں لیا گیا۔ ہر کوئی عمرِ فاروقؓ تو نہیں ہو سکتا جس کے سزائے یافتہ بیٹے کو جب کوڑے مارنے والا، ہاتھ ہولہ رکھتا ہے تو امیرالمومنین کو یہ انصاف کا قتل محسوس ہوتا ہے کوڑا خود ہاتھ میں لے کر وہ کوڑے برساتا ہے کہ مطلوبہ تعداد کے کوڑوں کو پہنچنے سے قبل بیٹا مر جاتا ہے امیرالمومنین حکم دیتا ہے کہ باقی کوڑوں کی تعداد بھی پوری کریں تاکہ انصاف میں کمی نہ ہو۔

انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ہر دور کے بادشاہ نے مختلف ترکیبیں نکالی مگر جو ترکیب کمبوجیہ نامی بادشاہ کو سوجھی شاید ہی کسی نے اس سے پہلے یا بعد میں اس پر عمل کیا ہو۔ اُن کے حکم کے مطابق بے انصاف اور بے ایمان جج کی کھال جیتے جی اُتاری جاتی اور اُس کھال سے سرکاری فرنیچر کی پوشیں بنائی جاتی۔ جج صاحب کے بعد اُن کے بیٹے کو قاضی کی کرسیِ جلیلہ و جلالی پر بٹھایا جاتا جس کی کرسی اور میز پر باپ کی کھال مڑھوا دی جاتی تاکہ بیٹا آغوش پدر کی تمازت و تپش محسوس کرے اور انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے۔ عرصے بعد میرے ذہن میں آئے اس سوال کا جواب کہ ہمارے ملک میں اس قانون کی جو اشد ضرورت ہے کیوں لاگو نہیں ہوتا، مجھے ’’لوحِ ایام‘‘ میں ملا جس کے مصنف نے لکھا کہ اگر Cambyses کا یہ قانون آج ہر سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں نافذ کر دیا جائے تو گودام بے انصاف اور بد دیانت حکمرانوں کی کھالوں سے بھر جائیں اور ملک میں صوفوں اور کرسیوں کی پوشش بنانے والے تمام کارخانے بند ہو جائیں۔

نیرومن کے بادشاہ نے ایک اقتصادی نظریہ دیا جس کو انھوں نے ’’سفیشنٹ اِکانومی‘‘ کا نام دیا۔ اپنی ماں سے اس نظریے کی بنیادی خصائص سیکھنے والے اس بادشاہ کا دعویٰ ہے کہ دُنیا بھر کی ڈکشنریوں میں اُسے اس کا متبادل لفظ نہیں ملا۔ اپنی ’’سفیشنٹ اکانومی‘‘ کی وضاحت ایک تقریر میں یوں کی:

Sufficiency means to lead a reasonably comfortable life, without excess, or overindulgence in luxury, but enough.

زندہ رہنے اور اچھی زندگی گزارنے کے لیے ہر ایک کو برابر موقعے ملنے کے اس نظریے میں میانہ روی اور کفایت شعاری پر زور دیا گیا ہے۔ اپنی ضروریات کے علاوہ چیزوں کو اجتماعی نفع میں شامل کرنا اور انفرادی کی بجائے اجتماعی ترقی کو نصب العین بنانا اس نظریے کے بنیادی اساس ہیں بادشاہ کے بقول انفرادی ترقی ہمیں پتھر کے زمانے میں لے جائے گی اور گلوبلائزیشن کا سونامی ہمیں بہا لے جائے گا۔

بادشاہ سلامت نے زرعی زمین اور پانی کی آمدن کی تقسیم کا بھی ایک فارمولا دیا ہے جس سے تھائی عوام اور حکومت کو معاشی طور پر فائدہ پہنچا ہے۔ یہ فارمولا (۱۰۔ ۳۰۔ ۳۰۔ ۳۰) کے نام سے موسوم ہے۔ یعنی ۳۰ فی صد پانی کی جمع آوری کے لیے ۳۰ فی صد اناج کی بوائی، ۳۰ فی صد ہارٹی کلچر اور جنیاتی تجربات کے لیے جبکہ ۱۰ فی صد اس کام سے منسلک کسانوں کی فلاح و بہبود، آباد کاری صحت اور منڈی سے کھیت تک کے شاہراہوں پر خرچ ہوں گے۔ اس کے علاوہ شاہی ترقیاتی پراجیکٹ کو بھی چھے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پانی، صحت، زراعت، عوامی بہبود، ماحولیات اور مواسلات کے شعبوں کی مدد سے عوام کی سفیشنٹ اکانومی کے نظریے کے تحت خدمات پہنچائی جا رہی ہیں۔

اولادِ نرینہ سے محروم چار میں سے دو طلاق یافتہ اور ایک غیر شادی شدہ بیٹیوں کے باپ تھائی لینڈ کے اس بادشاہ کو تھائی عوام چاؤ چیوٹ یعنی زندگی کا خدا اور پھارا چاؤ یو ہوا یعنی ان کے سروں پر سایہ مہربان تصوّر کرتے ہیں۔

تھائی اسلامک بنک کے مرکزی دفتر میں مالا کنڈ کے رہائشی فہد یوسف زئی وائس پریزڈنٹ پراڈکٹ ڈویلپمنٹ کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ پچھلے چار سال سے تھائی لینڈ میں مقیم متوازن قد و قامت کے اس خوش شکل پٹھان سے جب میں نے تھائی اور پاکستانی معیشت کے بارے میں سوال کیا تو ہونٹوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں شرارت لا کر نفی میں سرہلاتے ہوئے کہنے لگے کوئی تقابل نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ تھائی لینڈ کا شمار بھی تیسری دنیا میں ہوتا ہے جہاں سو شیو اکانومک گروتھ میں ابھی بہتری کی گنجائش بھی ہے مگر پاکستان سے اس کا موازنہ خام خیال ہو گی۔ جب میں نے احساسِ تفاخر کے ساتھ کہا کہ تھائی لینڈ ہم سے اتنا آگے تو نہیں ہمارے تین سوا تین روپے پر اِن کا ایک باٹ ہے۔ میں نے مذاقاً کہا اگر پاکستان کے گلی کوچوں میں ٹھیک طرح سے جھاڑو دی جائے تو تھائی لینڈ بن جائے تو انھوں نے ایک چھوٹی سی مثال دی اور میرا احساس تفاخر کا فور ہو گیا۔ کہنے لگے پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر جب دس بلین سے بڑھ گئے تو پاکستانیوں نے اس پر بغلیں بجائیں جبکہ عین اُس وقت تھائی زرِ مبادلہ کے ذخائر ۲۰۰ ارب ڈالر سے زیادہ تھے۔ میں سوچنے لگا کہ پاکستان سے تین گناہ کم افرادی قوت نے بیس گناہ زیادہ دولت کیسے جمع کر لی۔ خیر اس کا جواب تو مجھے بنکاک کی شینہ بازاری سے مل گیا جہاں صرف ایک شہر میں لاکھ سے زیادہ قحبائیں ہیں۔ ہر ایک کی اوسط آمدنی پانچ سے دس ہزار باٹ شبانہ ہے۔ جس میں سے آدھی حکومتی کاروبار اور آدھی مضروبہ کے آنگن کے کاروبار میں خرچ ہوتی ہے۔

بنکاک شہر کے کونے کونے میں ’’بوم بوم‘‘ کاوردسنائی دیتا ہے گلیوں، کوچوں، چوراہوں، بازاروں، ہوٹلوں، پلازوں، بسوں، ٹرینوں اور اس کے اڈوں میں تھائی حسینائیں بوم بوم کی صدائیں بلند کرتی نظر آتی ہیں۔ مسافر کو ن۔ م۔ راشد کی نظم ’’اس پیٹر پہ ہے بوم کا سایہ‘‘ یاد آ گئی۔ گو کہ نظم میں راشد کا اِشارہ اُلّو نما انسانوں کی طرف ہے مگر لگتا ہے یہی بوم مراد ہے کیونکہ تھائی حسینائیں اپنی اداؤں سے لوگوں کو اُلو ہی تو بناتی ہیں۔

ہاں ناف میں (یا ناف کے پاتال میں ) شاید

تجھ کو نظر آ جائے تجھی شہر کے آلام کا رعشہ

اس شہر میں اب دیکھنے کو آنکھ، نہ جینے کے لیے ہاتھ

نہ رونے کے لیے دل

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کیا چیز ہے برگد کے پرندے

کیا ان کی نیم آغوشی کا غل تم نے سنا ہے ؟

اور ان کی ہوس ناک نگاہوں نے

جوانی کے کئی ہار چرائے

یہاں کی راتیں سوتی نہیں بلکہ باٹ اور سونا اُگلتی ہیں شہر میں کوئی ایسا کونا نہیں جہاں مخصوص بے لباسی میں حسینائیں کھڑی نظر نہ آئیں۔ مرکزی شاہراہیں ہوں یا بغلی گلیاں یہ حسینائیں مردوں سے بغل گیر ہونے کے اشارے کرتی نظر آئے گی۔ ایک دوسرے سے چند قدم کے فاصلے پر یہ پری زادیاں ہر آنے جانے والے کو خاص جنسی رغبت کے پوز بناتے ہوئے دعوتِ باہ و بادہ دیتی ہیں۔ اس کھیل میں باہ گاہکوں کی اور بادہ ان پری زادیوں کے مرمریں جسموں کی استعمال ہوتی ہے۔ اس جنسی عمل کو یہ خواتین بوم بوم کہتی ہیں۔ یہ لفظ سنتے ہی مسافر کو انڈیا اور پاکستان کا وہ کرکٹ میچ یاد آیا جس میں ہندوستانی کمنٹیٹر روی شاستری نے زیادہ چوکے چھکے لگانے پر شاہد خان آفریدی کو بوم بوم آفریدی کہا تھا۔ روی شاستری اور تھائی حسیناؤں کے ہاتھ کے مخصوص اشاروں کے ساتھ بوم بوم بولنے سے اس لفظ کے معنی اور بھی واضح ہونے لگے۔

تھائی لوگوں کو انگریزی بہت کم آتی ہے۔ حالانکہ ان کا دعویٰ ہے کہ تھائی لینڈ بین الاقوامی سیرگاہ ہے جہاں دنیا کے کونے کونے سے سیاح آتے ہیں۔ بنیادی انگریزی سے بھی ناواقف تھائی قوم کس طرح عالمی برادری میں جگہ بنائی گی جب یہ سوال ہمارے ایک دوست معین الدین قریشی نے بڑھاپا یونیورسٹی کے پریزیڈنٹ سے کیا تو وہ برا مان گئے۔ فرمائے گلوبلائزیشن کا دور گزر چکا اب تو ریجنلائزیشن کا زمانہ ہے۔ اب ہم ’’آسیان‘‘ کو اہمیت دیتے ہیں۔ ہمیں انگریزی اور انگریزوں کی ضرورت نہیں۔ ہمیں اگر کوئی زبان سیکھنی ہے تو ہم چینی زبان سیکھیں گے کیونکہ چین کے ساتھ ہماری زیادہ لسانی، نسلی اور علاقائی قرابت داری ہے۔ بڑھاپا یونیورسٹی سے ہزاروں میل دور ہزارہ یونیوسٹی میں مجوزہ اُردو نصاب کی منظوری کی ایک نشست یاد آ گئی بورڈ میں شامل ایک خاص مکتبۂ فکر سے رابطہ رکھنے والے ایک بوڑھے پروفیسر کو جب معلوم ہوا کہ نصاب میں چینی زبان و ادب بھی اختیاری پرچے کے طور پر شامل ہے تو سیخ پا ہو گئے۔ اُن کو لاکھ سمجھایا گیا کہ یہ شاہراہ ریشم کے کنارے پاک چین بارڈر پر آخری یونیورسٹی ہے اور دوسری بات یہ کہ چینی سفارت خانہ فیکلٹی اور دوسری معاونت بھی مفت فراہم کرے گا۔ اس پر موصوف کہنے لگے کہ ایک سازش کے تحت اردو کے فارسی اور عربی سے روابط ختم کیے جا رہے ہیں۔ اُن کو سمجھایا گیا کہ فارسی بھی اختیاری پرچے کے طور پر پڑھائی جائے گی۔ مگر موصوف کو کوئی قائل نہ کر سکا۔ آئین نو سے ڈرنا اور طرزِ کہن پر اُڑنا شاید اسی کو کہا جاتا ہے۔

ہمارے اُردو دان طبقے کا مسئلہ یہ ہے کہ اردو کو لکھنؤ اور دلی کے فریم سے باہر تصوّر ہی نہیں کر سکتے۔ اُن کے خیال میں اردو کا دسترخوان فارسی مصالحہ جات کے بغیر نامکمل ہے ایک مذہبی جماعت کے خودساختہ سکالر نے تو اردو میں ساٹھ فی صد عربی الفاظ کا دعویٰ کیا ان کے خیال میں شاید اسی لیے اردو مارکیٹ کی زبان نہ بن سکی کہ ہمیں فارسی اور عربی نہیں آتی۔ حیرت ہے ! جس علاقے کی یہ زبان ہے اُس کا علاقائی زبانوں اور لہجوں سے رابطہ بنے گا تبھی اردو مارکیٹ میں جگہ بنائی گی۔ مشتاق احمد یوسفی نے اُردو کے لوک لہجوں سے روابط کا بھرپور نقشہ اپنی کتاب ’’آب گم‘‘ میں کھینچا ہے وہ لکھتے ہیں۔ ’’پشتون اُردو لہجے میں ایک تنک ایجاز اور تند و تازہ مہکار ہے جو کسی مگھم ذومعنی بات کی روادار نہیں۔ یہ کوندتا، للکارنا، لہجہ مشکوک سرگوشوں کا لہجہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح پنجابی اردو لہجے میں ایک کشادگی، گرم جوشی اور گھلاوٹ کا احساس ہوتا ہے۔ اس میں میدانی دریاؤں کا پاٹ اور دھِرج اور دل دریا پارگمک ہے اور سہج سہج راستہ بنانے کے لیے اپنی لہری کگر کاٹ پرپورا عتماد۔ بلوچ لہجے میں ایک ہوک سی ایک ہمکتی پہاڑی گونج اور دل آویز خشمگیں کیفیت کے علاوہ ایک چوکنا پن بھی ہے جو سنگلاخ کوہ اور دشت بے آب اپنے آزادوں کو بخش دیتے ہیں۔ سندھی اُردو لہجہ لہکتا لہراتا لریکل (Lyrical) لہجہ ہے۔ اُردو کے علاقائی لہجوں میں وہ لوک ٹھاٹھ، مٹھاس ہے جس کا ہمارے گھسے پٹے ٹکسالی اور شہری لہجے میں دُور دُور تک شائبہ نہیں ملتا لوک لہجے کی امیزش سے جو نیا اُردو لہجہ اُبھرا ہے اس میں بڑی تازگی، لوچ اور سیمائی ہے۔ ‘‘

بات ہو رہی تھی تھائی زبان میں مروج ایک اصطلاح بوم بوم کی۔ اس سلسلے میں URBAN ڈکشنری کی وضاحت درج ذیل ہے :

The term "boom boom” is most often associated with south East asian countries such as thailand, combodia or Laos and is used to describle the act of intercource usually that is purchased by male frequenting brotheles and whore houses in those locations. The term is thought to have been created by prostitutes possessing limited English language ability. It is easier for a non English speaking that prostitute to say "You go boom boom” then it is for her to say "would you like to go make completely unemotional and detached love with me.”

انگریزی زبان کے جاننے نہ جاننے کے حوالے سے بڑھاپا یونیورسٹی کے بوڑھے پریزیڈنٹ کے جواب سے شاید معین الدین قریشی زیادہ مطمئن نہ ہوں مگر اربن ڈکشنری کا جواب اطمینان بخش ہے کہ کام نکالنے والے کسی بھی زبان سے اپنے مقاصد پورے کر سکتے ہیں۔

تھائی لینڈ کی ایک مشہور سیر گاہ جو دریا کے ساحل پر واقع ہے میرے لیے دلچسپی کے نت نئے سامان پیدا کرنے کا سبب بنی۔ وہاں میری ملاقات ایک نیم برہنہ بوڑھے آسٹریلوی باشندے سے ہوئی جوایک تھائی لڑکی سے محض چوما چاٹی میں مصروف تھا۔ دونوں میں عمروں کا تفاوت باپ بیٹی جتنا تھا سے مسافر نے سوال کیا کہ کیا آپ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو دونوں نے نفی میں سر ہلایا۔ آسٹریلوی بوڑھا بولا میری بیوی کئی سال پہلے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ بچے اپنے اپنے گھروں اور کاروبار میں مصروف ہو گئے۔ مجھے حکومت سے جو ماہانہ گزارہ الاؤنس ملتا ہے اس پر وہاں گزر بسر مشکل ہے، میں یہاں آ جاتا ہوں۔ بیس دنوں کے لیے ایک لڑکی پندرہ سولہ ہزار باٹ پر بک کرتا ہوں وہ میرے ساتھ جگہ جگہ گھومتی ہے اس کا کھانا پینا میرے ذمے ہوتا ہے۔ اس کے بدلے یہ مجھ سے گپ شپ کرتی ہے خوش رکھتی ہے، مساج کرتی ہے اور بوم بوم بھی۔ اسی سوال کے جواب میں تھائی لڑکی نے کہا ہر رات نئی جاب کی تلاش سے بہتر ہوتا ہے کہ ایک ہی بندے کے ساتھ جاب کی جائے یوں ہمیں بر وقت پیسے بھی مل جاتے ہیں۔ جس سے ہمارے گھر کا دانہ پانی بھی آسانی سے نکل آتا ہے اور بچوں کی تعلیم بھی ہو جاتی ہے مجھے حیرت ہوئی جب اس نے کہا میرے دو بچے سکول میں پڑھتے ہیں۔ جب تک وہ پڑھ لکھ نہیں جاتے میں اس پیشے سے وابستہ رہوں گی۔ میں نے سوچا آسٹریلوی بابا کے بچوں کی بے اعتنائی اور تھائی ماں کی بچوں سے محبت نے ان دنوں کو کتنا قریب کر دیا تھا دونوں غرض مند بھی تھے اور ایک دوسرے سے لاتعلق بھی۔ عجیب لاتعلقی کا تعلق نبھائے چلے جا رہے تھے۔ میں نے خاتون سے پوچھا کہ کسی با عزت روزگار کے مقابلے میں تم نے اس جاب کو کیوں اپنایا ہے تو اس نے جواباً کہا اس جاب میں محنت کم اور محنتانہ زیادہ ہے۔ باقی رہی بات با عزت روزگار کی تو مرکزی شاہراہ پر بھیک مانگنے والی ایک خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیI am better than herساحل پر غیر مرد کے ساتھ نیم برہنہ لیٹی اس خاتون نے پہلی دفعہ مسافر کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ بھیک مانگنا جسم فروشی سے بھی بدتر اور معیوب فعل ہے۔

مسافر نے بنکاک سے چنگ مائی سفر کے دوران جب بہت ساری خواتین کو کھیتوں میں کاشتکاری کرتے دیکھا تو نیرومن سے پوچھا کہ آپ کے ملک کا سارا نظامِ معیشت عورت کی وجہ سے رواں دواں ہے مگر عورت کو صرف کمائی کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ وہ با عزت مقام جو کسی بھی مہذب معاشرے میں خواتین کو ملتا ہے یہاں کی عورت کو کیوں نہیں دیا جاتا۔ یہاں کی معاشرت عورت کے لیے ایک Black Widow کیوں ہے۔ نیرومن مجھ سے متفق نہ تھیں اُن کے خیال میں جو کچھ تھائی عورت کے ساتھ ہو رہا ہے وہ غلط نہیں۔ تھائی عورت کے بارے میں میرے مشاہدات کو وہ تہذیبی دوری سمجھتی تھیں۔ ان کے بقول تہذیبوں میں غلط رویے پروان نہیں چڑھتے اور اگر تھائی تہذیب اس کی اجازت دیتی ہے تو پھر درست ہے۔ اگر ہماری تہذیب میں قحبائی سرگرمیوں پر انگلی نہیں اٹھائی جاتی اور ملکی ترقی میں اُن کی ایسی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے اور اگر یہ سب کچھ تمہیں درست نظر نہیں آتا تو ہمارے درمیان تہذیبی اقدار کا بعد پایا جاتا ہے۔ میں نے پوچھا آپ کا مذہب عورت کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ وہ بولیں مجھے نہیں معلوم مگر ہمارے مذہبی پیشوا ہم سے بات کرنا گناہ سمجھتے ہیں اور ہاتھ لگانا حرام ہمارے لیے اُن کے سامنے جانا اور اچھے موڈ میں گفتگو کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ نیرومن کی باتیں سن کر مجھے پروفیسر اورنگ زیب کی وہ کتاب یاد آئی جس کا مطالعہ میں نے شانگلہ کے چکیسر کالج میں اس وقت کیا تھا جب آتش جوان بھی تھا اور لیکچر ر بھی۔ پروفیسر صاحب کے بقول پانچ سو سڑسٹھ قبل مسیح کو راجہ شدودھن کے ہاں پیدا ہونے والے گوتم بدھ کا اصل نام سدھارتھ تھا۔ ۲۹ سال کی عمر میں بیماری اور موت جیسے انسانی زندگی کے حسرت ناک پہلوؤں سے متاثر ہو کر جنگلوں کا رُخ کیا سخت قسم کی ریاضتوں سے اُن پر نروان کا دروازہ کھلا جس سے بدھ مت کی ابتدا ہوئی۔ سیاسی اور تاریخی طور پر اس مذہب کا پھیلاؤ اشوک اعظم کے دور میں زیادہ ہوا۔ برصغیر پاک و ہند میں ہندومت کی برتر ذاتوں کے استحصال، طبقاتی نظام اور غیر انسانی رویوں نے اس مذہب کو پنپنے کا موقع دیا جو دیکھتے ہی دیکھتے براعظم ایشیا کا بڑا مذہب بن گیا۔ ظلم اوراستحصال پر مبنی معاشرے میں بدھ مت کا ظہور یقیناً پسے ہوئے طبقے کے لیے نیک شگون تھا۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ اس مذہب میں اچھائی اور نیکی کو نیروان کا حاصل قرار دیا گیا ہے اس نروان کی پہلی سیڑھی ترک دنیا تھی۔ کسی بھی شخص کو نروان تب حاصل ہوتا جب وہ دنیاوی خواہشات پر قابو پالے اور ترکِ خواہشات میں پہلا وار عورت پر ہوا۔ دنیاوی خواہشات میں عورت کی قربت سے زیادہ خطرناک اور کچھ نہیں۔ پس عورت سے دوری ہی میں نجات ہے۔ گوتم نے صرف اقوال پیش نہیں کیے بلکہ خود عملی طور پر جوان بیوی اور بیٹی کو چھوڑ کر جنگل اور ویرانوں میں تپسیاکی۔

میں نے نیرومن کو کہا کہ ایک دفعہ بھکشو بدھا کے پاس آیا اور پوچھا یا حضرت جو شدمن لوگ ترک دنیا کر چکے ہیں اُن کا عورت کے بارے میں کیا رویہ ہونا چاہیے تو گوتم نے پتا ہے کیا جواب دیا؟ نیرومن نے نفی میں سرہلایا۔ میں نے کہا وہ جواب آج کے تھائی معاشرے کے بالکل برعکس تھا آپ کی موجودہ معاشرت میں عورت کی ہستی کا جواز مباشرت ہی ہے۔ نیرومن نے اپنی متجسس اُبھری ہوئی آنکھوں کو پپوٹوں میں ڈھانپ کر اپنے غصے کو پینے کی کوشش کی اور ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ لا کر پوچھا بدھا نے کیا کہا۔ میں نے کہا بدھا نے بھکشو کو بتایا کہ عورت پر نگاہ ڈالنے میں چوکس رہو اور اگر بہ امر مجبوری تمہیں اُن سے بات کرنی پڑے تو دل پاک رکھو۔ عورت کو صرف ماں کے روپ میں دیکھو اور بس۔ وہ شدمن جو عورت کو عورت کے طور پر دیکھتا یا چھوتا ہے سمجھ لو اب وہ شکیافتی کا چیلا نہیں رہا۔ جب مرد عورت کی رعنائی سے ڈگمگا جائے تو اُس وقت لذت بھرے خیالات دل میں لانے کے بجائے اپنی دونوں آنکھوں میں گرم سلاخ ڈالو۔ کسی عورت سے نفسیاتی و شہوانی خیالات ذہن میں لانے سے بہتر ہے اپنے آپ کو خون خوار شیر کے منہ میں ڈال دو۔ اس دنیا میں عورت اپنے آپ کو دکھانے کے لیے بے چین رہتی ہے۔ چلتے، پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے، سوتے، جاگتے ہر صورت میں وہ اپنی جلوہ گری چاہتی ہے۔ اس کے آنسوؤں اور مسکراہٹوں کو اپنا دشمن جانو۔

نیرومن نے کہا میں نہیں مانتی اتنے عظیم مذہب کے اتنے فرسودہ خیالات نہیں ہو سکتے۔ میں نے کہا اختلاف مجھے بھی ہے ہر اُس شخص سے جو عورت کو مرد کی مملوکہ قرار دیتا ہے مگر مجھے ادب کے طالبِ علم کے طور پر بدھا کے اس قول سے کوئی اختلاف نہیں کہ عورت کا جھکا ہوا جسم، اس کے لہراتے ہوئے بازو، اس کی پیچ دار زلفیں مردوں کے دلوں کے پھانسنے کے پھندے ہوتے ہیں۔ نیرومن نے کہا مجھے ادب خصوصاً شاعری بہت پسند ہے۔ میں نے کہا بدھا کو شاید اس پر بھی اعتراض ہوتا کیونکہ گوئٹے کا شیطان کہتا ہے ’’یہ طلسمی مشروب پینے کے بعد تمہیں ہر عورت ہیلن نظر آئے گی۔ ‘‘

اس ملک کے حکمران اور سماج، عورت کو جس بے دردی سے استعمال کر رہے ہیں شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ایسا ہو۔ یہاں ہر کام خواتین کرتی ہیں۔ نوکری، کاروبار، بچوں کی نگہداشت، گھر گرہستی ہر شعبہ عورت کے ذمے یہاں تک کہ حجامت اور زلف تراشی بھی عورت سے کرائی جاتی ہے۔ فہد یوسف زئی نے بتایا کہ ایک دفعہ میرے والد صاحب یہاں آئے، انھیں بال ترشوانے کی ضرورت ہوئی بولے نائی کی دکان کہاں ہے میں اُن کو ایک دکان پر لے گیا دیکھا تو نائین کھڑی تھی۔ نائی کوئی نہیں تھا والد صاحب نے صاف ان کار کیا کہ میں تو کسی لڑکی سے بال نہیں بنواؤں گا یہ تو صاف بے شرمی ہے۔

نیرومن سیاسی گفتگو سے پرہیز برت رہی تھیں۔ جبکہ پاکستانی پروفیسر اسی موضوع پر گفتگو کو آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ ہم پاکستانیوں کا سیاسی فشارِ خون دیگر اقوام سے بلند ہے۔ بات کو نیا رُخ دینے میں ماہر نیرومن نے کہا تھائی لینڈ ایک زرعی ملک ہے زراعت سے ہونے والی آمدنی باقی تمام شعبوں سے زیادہ ہے۔ نیرومن نے کئی زرعی اجناس کا ذکر کیا جو یہاں کاشت کی جاتی ہیں۔ سب سے زیادہ چاول کاشت ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگوں کی غذا کا بڑا حصہ سمندر سے آتا ہے۔ مچھلی اور دیگر سمندری جانوروں کو پانی میں اُبال کر کھاتے ہیں۔ چکنائی اور مصالحہ جات کو زیادہ پسند نہیں کرتے پھلوں کا استعمال بھی زیادہ ہے سیب، امرود، کیلا، خربوزہ، تربوز، ناریل اور سب سے بڑھ کر انناس بھی فروخت ہوتے دیکھے جب میں نے نیرومن سے پوچھا کہ آم تو ہمارے ہاں سندھ اور پنجاب میں بھی پیدا ہوتے ہیں تووہ چہرے پر خوشگوار مسکراہٹ لا کر کہنے لگیں ہاں وہ تو بہت میٹھے ہوتے ہیں ہمارے آم خوش شکل ہیں مگر زیادہ بیٹھے نہیں میں نے پوچھا اور یہاں کے انناس؟ ’’بولی لاجواب بہت ہی میٹھے۔ ‘‘

تھائی لینڈ میں انناس بکثرت ہوتے ہیں۔ بیس سے چالیس باٹ میں تقریباً آدھا کلو صاف ستھرا نناس ایسی ڈسپوزیبل پلیٹ میں ملتا ہے جس پر پلاسٹک کی تہہ چڑھی ہوتی ہے ساتھ میں بالشت برابر لکڑی کی دو سلائیاں بھی ہوتی ہیں۔ جن کی مدد سے با آسانی کھایا جا سکتا ہے۔ بارشیں زیادہ ہونے کے باعث نباتات بھی بکثرت ہیں بڑے شہروں میں بھی سڑک کے کنارے سبز پٹی موجود ہے جہاں ہرے بھرے درخت اور پودے نظروں کو تروتازہ اور شاداب کرتے ہیں۔

تھائی لینڈ جانے سے قبل اکثر دوست مشورہ دیتے تھے کہ پینٹ کوٹ سلوا لو تم بین الاقوامی سفر پر جا رہے ہو، لباس بھی بین الاقوامی ہونا چاہیے۔ میں کہتا مجھے پینٹ کوٹ سے بیر نہیں پر طبیعت ادھر نہیں جاتی۔ میں نے اس بات کا ذکر فہد یوسف زئی سے کیا تو کہنے لگے۔ یہاں ہر طرح کے لوگ آتے ہیں لہٰذا کوئی کسی کو اس نظر سے نہیں دیکھتا کہ کیا پہنا ہے، مجھے مولانا رومؒ کی بات یاد آ گئی کہ میں نے بہت سے انسان دیکھے ہیں جن کے بدن پر لباس نہیں ہوتا اور بہت سے لباس والے دیکھے ہیں جن کے اندر انسان نہیں ہوتا۔ دورانِ ٹریننگ میرے لباس کو منتظمین نے سراہا مجھے مس ’’اے ‘‘ اکثر کہتی کہ تمہارا قومی لباس کتنا آسان اور جاذبِ نظر ہے۔ ویر ویٹ جو سے جب بھی ملاقات ہوتی وہ شلوار قمیص اور واسکٹ دیکھ کے کہتا

What a graceful dress you wear, I like this very much.

لباس پہننے کی ضرورت انسان کو اس لیے ہے کہ جسم کے وہ حصے جو وہ چھپانا چاہتا ہے پردے میں رہے مگر ہمارے ساتھ ایک ایسی خاتون بھی تھی جو پابند صلوۃ تھی اور پردے کو زینتِ حیات سمجھتی تھی۔ دورانِ ٹریننگ کبھی سر سے دوپٹہ نہیں سرکا۔ بائیں بازو جس سے وہ اور بھی بہت سارے کام لیتی سے اپنی صراحی نما گردن (جس کو دیکھ کر ہمارے کوارڈنیٹر میر حسن کے رال ٹپکنے لگتے ) کو دوپٹے کے پلو پکڑ کر ڈھانپتی تھی مگر شلوار کی بجائے جو جراب نما پاجامہ موصوفہ نے زیبِ تن کیا ہوتا تھا۔ اس کی مستور اشیا اور نمایاں ہوتی اور جب بھی وہ پریزنٹیشن کے لیے کھڑی ہوتی تو سائیں عبدالجبار کی نظریں پاجامے سے اُوپر اُٹھتی ہی نہ تھی ہمارے ٹوکنے پر بولیں سائیں کیا کروں۔

 

روز کہتا ہوں نہ ’’دیکھوں‘‘ گا ادھر

روز یہ بات بھول جاتا ہوں

شلوار قمیص تھائی لوگوں کے لیے کوئی نیا لباس نہیں۔ یہاں صدیوں سے پٹھانوں کا آنا جانا ہے پٹھانوں کی ایک بڑی تعداد یہاں کی شہری ہے۔ یہاں تک کہ جنوبی تھائی لینڈ میں تو ایک صوبے کا نام بھی پٹھانی ہے۔ اسی طرح شمال میں چائنا کی طرف فٹ سانولوک اور چنگ مائی صوبوں میں کثیر تعداد میں پشتون آباد ہیں۔ فٹ سانو لوک کے امپریل میاؤپنگ ہوٹل کے سامنے ایک بہت بڑی پاکستانی مسجد ہے۔ مس اے نے کہا کہ مسجد کے سامنے حلال کھانا آسانی سے مل سکتا ہے۔ یہ عشاء کا وقت تھا میں ہوٹل سے مسجد کی طرف گیا تو مسلم کمیونٹی سے ملاقات ہوئی۔ مسجد کے صدر دروازے کے ساتھ ادھیڑ عمر کا تھائی کھڑا تھا۔ حجامت بڑھی ہوئی اور سر کے بال غائب چوڑی چکلی جسامت کے اس شخص کو میں نے سلام کیا تو وعلیکم السلام کہا۔

میں نے پوچھا ’’آپ مسلمان ہیں۔ ‘‘ تو اثبات میں سرہلایا، پھر انھوں نے مجھ سے استفسار کیا کہ تم پاکستانی ہو میں نے کہا ’’جی جی‘‘ ان کو میری جی جی سمجھ نہ آئی اور سوالیہ انداز میں پھر سے اشارہ کیا تو میں نے کہا:

Yes I belong to Pakistan.

وہ ایک قدم آگے بڑھے اور مجھ سے ہاتھ ملا کر کہا:

My father also belong to Pakistan, I am Silman.

میرے منہ سے بے اختیار نکلا زبردست۔ میں نے دوبارہ انتہائی گرم جوشی سے اس کا ہاتھ پکڑا۔ پوچھا پاکستان میں آپ کے والد کا تعلق کہاں سے ہے۔ انھوں نے کہا بٹگرام۔ میری حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ بٹگرام سے تھوڑے فاصلے پر ہزارہ یونیورسٹی ہے جہاں سے مسافر کا رزق وابستہ ہے۔ اس کے بعد وہ مجھے اپنے ہوٹل لے گیا جہاں اس کی بیوی اور بیٹی مسافروں کو کھانا پروس رہی تھیں۔ لکڑی کا بنا یہ پرانا ہوٹل تھا۔ استقبالیے پر بڑا بورڈ آویزاں تھا جس پر تھائی زبان میں کچھ لکھا تھا میں نے پوچھا تو کہا Fah-ke-hah-Halal Hotel یہ ہوٹل اس کو والد سے ترکے میں ملا تھا۔ جسے فوت ہوئے پانچ سال ہو چکے تھے۔ بہتر مستقبل کی تلاش میں بٹگرام سے آئے خان صاحب کو ایک تھائی خاتون سے شادی کرنی پڑی جس سے محبت کا ثمر انھیں سلمن کی شکل میں ملا۔ اس کے بعد وہ واپس نہیں گئے اور وفات کے بعد فٹ سانولوک ہی میں دفن کر دیے گئے۔

سِلمن نے بیٹی اور بیوی کو آواز دی دونوں ہماری طرف آئیں۔ وہ آپس میں تھائی زبان میں ہم کلام ہوئے میرے پلے کچھ نہ پڑا مگر ماں بیٹی کی آنکھوں میں خوشی اور محبت سے معمور چمک دیکھ کر کچھ اندازہ ہوا کہ کیا گفتگو ہوئی سلمان کو تھائی اور معمولی انگریزی کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں آتی تھی۔ یہ زندگی میں کبھی بٹگرام نہیں گیا تھا۔ ہوٹل میں کھانا لینے کے لیے آئے ہوئے چند اور لوگوں کو اس نے بلایا اور اُن سے میرا تعارف کرایا انھیں جب معلوم ہوا کہ میرا تعلق بھی اُسی پشتون علاقے سے ہے تو وہ دلچسپی لینے لگے۔ وہ غالباً اپنے علاقے کے بارے میں بات کرنا چاہتے تھے۔ جس کو انھوں نے کبھی دیکھا نہیں۔ صرف باپ داد سے نام سنا تھا مگر کیا کیجیے نہ مجھے تھائی آتی تھی اور نہ انھیں تھائی کے علاوہ کوئی اور زبان۔ ’’زبان یار من تھائی، ومن تھائی نہ نمی دانم‘‘، سِلمن کی ٹوٹی پھوٹی انگریزی سے مجھے پتا چلا کہ ان کی بیوی کے والد بفہ مانسہرہ سے آئے تھے میں نے خاتون سے پوچھا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے سِلمن کی طرح پاکستان کے سیاسی راہ نما عمران خان کی بیوی بفہ کی تھی جس کا نام ریحام خان ہے۔ ان کو میری گفتگو سمجھ نہ آئی وہ ہنسی اور پھر گاہکوں میں کھانا تقسیم کرنے لگی۔

سِلمن نے بتایا کہ جس مسجد کے دروازے پر ہماری ملاقات ہوئی اس کے امام مسجد بھی پاکستانی ہیں۔ امام مسجد سے میری ملاقات نہ ہو سکی مگر معلوم ہوا کہ صوابی کے زیدہ گاؤں کے رہنے والے ہیں اچھی تھا ئی بولتے ہیں اور یہاں کی کمیونٹی میں ہر دل عزیز ہیں۔

مسافر بنکاک کے مصروف علاقے نانا میں ایک پاکستانی ہوٹل میں کھانا کھا رہا تھا۔ ہوٹل کا ویٹر شیخوپورے کا تھا۔ سامنے ایک مصروف مساج سنٹر تھا۔ سنٹر کے باہر بہت سارے عرب مرد تھائی حسیناؤں کے ساتھ بارگین کر رہے تھے۔ مساج سنٹر پر جلی حروف میں Amina Massag Center لکھا تھا۔ میں پوچھا پاکستانی مساج سنٹر ہے ؟ لاہوریوں کا ہو گا۔

کہنے لگے جی نہیں عربوں کا ہے۔ بہت مشہور ہے اکثر عرب یہاں سے مساج کراتے ہیں۔ ہماری گفتگو جاری تھی کہ ایک خوش شکل عرب لڑکی، کالے رنگ کی عبا پہنے ہوئے دوڑتی ہوئی میرے قریب آئی۔ اس کے ساتھ ایک لڑکا بھی تھا مجھ سے پوچھا Are you Pathan? لڑکی خوش شکل تھی لہٰذا میں نے بھی بات کو طول دینے کی غرض سے سرہلایا اور پھر پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں پٹھان ہوں اُس نے میری لباس کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگی You wear Shalwar Qameez دوسرے ہی لمحے خاتون نے مطالبہ کیاHave you Naswar?  میں نے حیرت سے پوچھا جی۔ ۔ ۔ ؟ نس۔ ۔ ۔ وار۔ ۔ ۔ ؟۔ زندگی میں پہلی مرتبہ پٹھان ہونے کے باوجود نسوار کے عدم استعمال پر اپنے آپ کو خوب کوسا پھر اُن سے پوچھا آپ نے کیا کرنا ہے نسوار لے کر۔ عرب مرد نے جواب دیا ہم دوبئی سے آئے ہیں۔ ہماری والدہ بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ نسوار کے فراق میں ماں جی کی حالت غیر ہو گئی ہے۔ خدارا ہماری مدد کیجیے ہمیں کسی سے نسوار لا دیجیے ورنہ مجبوراً ہمیں کل یہاں سے واپس دبئی روانہ ہونا پڑے گا۔

ان عرب بہن بھائیوں کے علاوہ مجھے دبئی کے ایک اور عربی نے پریشان کیا تھا۔ موجودہ دور کے عربوں کے بارے میں میری رائے زیادہ اچھی کبھی نہیں رہی۔ میں ایک ماہ حرمین شریفین میں رہا یہ بتانے میں کوئی قباحت نہیں کہ مجھے نبی کریمﷺ اور صحابہ کی عظمت اور انسان دوستی نے جس قدر متاثر کیا عصرِ حاضر کے عربوں نے اتنا ہی شرمندہ کیا۔ ہماری واپسی میں چند دن تھے ایمبسیڈر ہوٹل سے چند قدم کے فاصلے پر مجھے احمد شیخ ملے، شلوار قمیص میں دیکھ کر بے تکلف معانقہ کیا کہنے لگے ’’کیف حالک‘‘ میں نے بھی آٹھویں میں پڑھی عربی کا فائدہ اُٹھایا اور کہا:

’’انا بخیراٍ وَانتَ‘‘

احمد شیخ نے شکر الحمد للّٰہ کہا پھر بولے میں پہلی دفعہ تھائی لینڈ آیا ہوں۔ میرے ساتھ میری بیوی بھی ہے سامنے ہوٹل میں ہم ٹھہرے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا میرا قیام بھی اسی ہوٹل میں ہے۔ انھوں نے لابی میں بیٹھنے کو کہا۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھ سے پوچھا کہ یہاں کی کرنسی کا نام کیا ہے اور کیا تمہارے پاس ہے۔ کیا میں دیکھ سکتا ہوں۔ میرے لیے یہ تینوں سوال مشکوک تھے۔ مجھے کچھ تذبذب میں دیکھ کر کہنے لگے ڈرو مت میں بہت مالدار ہوں، پھر انھوں نے اپنے وائلٹ سے ہزار ڈالر کی گڈی نکالی اور میرے ہاتھ میں تھما دی۔ میں نے جلدی سے اُن کی رقم واپس کر دی اور اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر دس پندرہ نوٹ باٹ کے اُن کے ہاتھ میں تھما دیے۔ جن کے درمیان میں سو سو کے چار نوٹ امریکی ڈالر کے تھے۔ یہ وہ رقم تھی جس سے میں نے کچھ دوستوں اور گھر کے لوگوں کے لیے تحفے خریدنے تھے۔ انھوں نے تاش کے پتوں کی طرح اُن نوٹوں کو ترتیب دیا اور پھر انھیں پھینٹ کر پوچھا ’’اچھا یہ سو باٹ ہیں۔ یہ ہزار باٹ کا نوٹ ہے اور یہ بیس باٹ۔ اس کے بعد انھوں نے پھر سے پھینٹا اور نوٹ میرے حوالے کر دیے۔ اچانک اُن کے فون کی گھنٹی بجی۔ بولے میری بیوی کا فون ہے وہ مجھے بلا رہی ہے۔ شام کو موقع ملے تو یہاں آ جاؤ اکٹھے گھومنے نکلیں گے۔ میں جب کمرے میں پہنچا تو سوچا گنتی کر لوں کہیں نوٹ کم نہ پڑ گئے ہوں۔ گننے کے بعد معلوم ہوا کہ سو ڈالر کے چار نوٹ غائب تھے۔ عصرِ حاضر کا ایک اور عرب میرے لیے ایک بار پھر شرمندگی کا باعث بنا تھا۔

تھائی لینڈ کے جنوب میں پانچ صوبے، نراتی وت، ہدجائے، ستون، یلہ اور پٹھانی خالص مسلم آبادی والے صوبے ہیں۔ پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا کی بہت بڑی آبادی یہاں مستقل آباد ہے۔ وہی بود و باش، اُسی طرح کے گھر، وہی حجرے، حجروں کے اندر دالان میں چار پائیاں لگتا ہے خیبر پختونخوا میں آ گئے ہیں۔ یلہ صوبے میں ایک بہت بڑی مسجد ہے۔ رویت ہلال کے حوالے سے یہاں سے ملنے والی شہادت پورے ملک میں معتبر سمجھی جاتی ہے۔ مسجد کا سارا انتظام پٹھان کمیونٹی کے پاس ہے۔ یہ زمین یلہ کے پٹھانوں نے خرید کر مسجد تعمیر کی اب اس کا انتظام تھائی حکومت چلا رہی ہے۔ یہاں کی معیشت، دستکاری، مچھلی فروشی اور چھوٹے کارخانوں کے رحم و کرم پر ہے۔ گوشت سمیت اکثر کاروبار پاکستانی نژ  راہ کتنا آسان اور جازاد تھائیوں کے ہاتھ میں ہیں۔

شمال میں چنگ مائی صوبے میں تین سو سالہ پرانی مسجد ہے جس کے ساتھ تھائی پٹھانوں کے گھر اور حجرے آباد ہیں یہاں بھی چار پائیوں پر بیٹھے پٹھان چائے اور قہوے کے دور چلاتے ہیں اور تھائی لینڈ کی سیاست پر گرما گرم بحث کرتے ہیں۔ ایک پاکستانی بنکار نے مسافر کو بتایا کہ میزان بنک جو پاکستان میں بلا سود بنکاری کے حوالے سے معتبر بنک ہے جب سالانہ حساب کتاب اور نئے سال کے لیے لائحۂ عمل طے کرتا ہے تو مختلف تاریخی مساجد میں یہ فریضہ انجام دیا جاتا ہے اس سال یہ لوگ ترکی کی مشہور مسجد میں گئے تھے جبکہ پچھلے سال چنگ مائی کی اسی مسجد میں متعلقہ عملہ آیا تھا۔

چنگ مائی نہ صرف تجارتی حوالے سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے بلکہ یہاں بہت سے تہذیبی آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ یہاں بدھ مت کے مشہور ٹیمپلز ہیں۔ ایک ٹمپل پہاڑی کی چوٹی پر بھی ہے۔ جہاں ملک کے کونے کونے اور قریبی ممالک سے زائرین اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کے لیے آتے ہیں۔ یہاں بنے سٹوپے کے گرد لوگ طواف بھی کرتے ہیں۔ ان کے طواف میں تین پھیرے ہوتے ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں کامیاب شادی اور بہتر مستقبل کے لیے اس طواف کے دوران ہاتھوں میں پھول لیے دعائیں مانگتے ہیں۔ سامنے ایک سادھو کا صدیوں پرانا چیلہ خانہ ہے جہاں بیٹھ کر وہ چیلہ کشی کرتا تھا۔ اب لوگ یہاں اپنے مستقبل کا حال جاننے کے لیے آتے ہیں۔ ایک لمبے صراحی دار گل دان میں بہت سی پلاسٹک کی لمبی لمبی چھڑیاں رکھی ہوتی ہیں۔ ان پر مختلف نمبر لکھے ہوتے ہیں۔ اچھی طرح ہلانے کے بعد جو چھڑی گل دان سے گرے اس نمبر کی پرچی سامنے طاقچے سے نکالیں جو اس میں لکھا ہو گا وہ بندے کا نصیب۔ میری اور نیرومن کی پرچی ایک جیسی نکلی۔ اس پر جو لکھا ہوا تھا اس پر ہم خوب ہنسے۔ نیرومن نے کہا اس پرچی کو یہاں چھوڑ دو کیونکہ ہم دونوں کے اعمال سے ہمارے خدا ناراض ہیں اور جو بلائیں اور مصیبتیں مستقبل قریب میں ہم پر نازل ہو گی ٹمپل کے یہ خدا اور بدھا اُن کو ختم کر دیں گے۔ میں نے نیرومن سے کہا میرا تو تمہارے خداؤں پر ایمان ہی نہیں ہے تو کیا وہ مجھے بھی ان آفتوں سے محفوظ رکھیں گے۔ کہنے لگی میں سفارش کر دوں گی۔

بنکاک سٹی کے اندر رام کم پینگ روڈ پر ایک چوڑی گلی میں تھوڑے فاصلے پر اسلامک سنٹر کی ایک عالی شان عمارت ہے جو وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ عمارت تھائی لینڈ میں مسلم آبادی کے اتحاد کی نشانی ہے۔ یہاں پانچ سے چھے ہزار آدمی آسانی سے نماز ادا کر سکتے ہیں۔ عام دنوں میں بھی نمازیوں کی اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے مگر جمعہ کے دن تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ کئی منزلہ اس خوبصورت سنٹر کے بالا خانے میں بین المذاہب ہم آہنگی پر اکثر پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مذہبی تہواروں اور عالمِ اسلام کے عصری مسائل پر اجتماعات اور سمینار ہوتے رہتے ہیں۔ مسجد کے ساتھ ہی ایک بڑی کار پارکنگ اور درختوں کی سرسبز پٹی ہے۔ ہر تین چار ماہ کے بعد یہاں حلال کھانوں اور مسلم ملبوسات کی ایک بڑی نمائش ہوتی ہے۔ نمائش میں سب سے بڑا سٹال پاکستانیوں کا ہوتا ہے۔ جس میں پاکستانی مصنوعات کے ساتھ ساتھ پاکستانی کھانوں کی تشہیر بھی کی جاتی ہے۔ مسجد کا موجودہ امام تھائی ہے۔ جنہوں نے مدینہ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی ہے۔ امام صاحب کو عربی، تھائی اور ملائی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ امام مسجد تھائی سرکار کا ملازم ہوتا ہے مسجد کی دیکھ بھال اور امام مسجد کی تنخواہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس مسجد کے امور چلانے کے لیے ایک بورڈ بھی قائم ہے۔ جس میں علمائے دین کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی شامل ہوتے ہیں۔

مسجد کے تہہ خانے میں ایک بڑا عوامی حال ہے جس میں شادی بیاہ کی تقریبات اور افطار اور عید ملن پارٹیاں منعقد ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی بغل میں ایک چھوٹا کمرہ ہے جس میں نکاح رجسٹرار بیٹھتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک لائبریری بھی ہے جہاں عربی، انگریزی اور تھائی زبان میں مذہبی کتب موجود ہیں۔ تھائی زبان میں ترجمہ شدہ مولانا مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن کے نسخوں کی ایک بڑی تعداد میں نے اس مسجد کے علاوہ تھائی لینڈ کے دوسرے مساجد میں بھی دیکھی۔

مسافر کو یہ جان کر خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی کہ یہاں ایک کلب ہے جو تھائی پٹھان کلب کے نام سے مشہور ہے۔ اس کلب کو تھائی لینڈ کے پٹھانوں کا ’’لویہ جرگہ‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ یہ کلب کب قائم ہوا یہ معلوم نہ ہو سکا۔ اس کلب کے ساتھ پشتونوں کی کثیر تعداد منسلک ہے۔ کلب کے یہ اراکین جمعہ، عید، بقر عید اور دوسرے مذہبی تہواروں پر جمع ہوتے ہیں۔ ان کی آواز تھائی لینڈ کی پارلیمنٹ میں بھی سنی جاتی ہے، اس کلب کے کئی ممبر تھائی لینڈ پارلیمنٹ کے بھی ممبر ہیں۔

تھائی پٹھان کلب کے ایک ممبر لالہ ڈینگ ہیں۔ تھائی زبان میں ڈینگ سرخ کو کہتے ہیں لالہ کی عمر ستر سال کے لگ بھگ ہو گی۔ پاکستان بننے سے قبل ان کا خاندان یہاں آباد ہوا۔ لالہ ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے منسلک ہیں ان کی تقریباً چار سو ڈبل ڈیکر گاڑیاں بنکاک سے مختلف صوبوں اور قریبی ممالک برما اور لاؤس وغیرہ میں چلتی ہیں۔ رمضان المبارک میں لالہ کی سخاوت اور فراخ دلی دیدنی ہوتی ہے۔ ہزاروں مسلمانوں کو روزانہ افطاری کرواتے ہیں۔ ۲۰۱۰ء کے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے لالہ پاکستان بھی آئے تھے۔ مونچھ داڑھی سے بے نیاز لالہ بنکاک کے ایک پوش علاقے میں رہائش پذیر ہے۔

بنکاک سے سوا گھنٹے کے فاصلے پر ایک مشہور ساحلی پٹی کا نام پاتیہ ہے۔ یہاں کا موسم معتدل اور ماحول جذباتی اور گرم ہوتا ہے۔ سمندر خشکی کا حصہ ہڑپ کر کے دُور تک اندر در آیا ہے مرکزی شاہراہ اور سمندر کے درمیان خاکستری ریت حائل ہے۔ جس پر سفید، پیلے، بھورے اور سیاہ، سیاح برہنہ و نیم برہنہ لیٹے ہوتے ہیں۔ سمندر بھی یہاں کئی رنگ دکھاتا ہے۔ بعض جگہوں پر پانی نیلا تو بعض جگہوں پر سبزی مائل خاکستری یا سیاہ ہوتا ہے۔ یہاں کی رنگین راتیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ عریانی کا اشتہار بنی دو شیزائیں سیاحوں کو غمزوں، عشوؤں اور اداؤں سے بوم بوم کی دعوت دیتی نظر آتی ہیں۔ دنیا بھر سے جسم فروش حسینائیں یہاں دولت لوٹنے اور عزت لٹانے آتی ہیں۔ پاتیہ کی رنگین زندگی سرِ شام شروع ہو جاتی ہیں اور صبح تک جاری رہتی ہے ہوٹلوں میں عریاں ڈانس پارٹیاں اور شراب کی محفلیں ساری رات چلتی ہیں پاتیہ میں حسینائیں سیاحوں سے لپٹ لپٹ کر ریٹ طے کرتی ہیں اور لڑکوں کو پٹاتی ہیں۔ یہاں ’’الگزار‘‘ کے نام سے شی میل شو بھی منعقد ہوتا ہے۔ جس میں من چلے خوب غل غپاڑا کرتے ہیں کہیں تالیا بجتی ہیں تو کہیں گالیاں بکی جاتی ہیں کہیں قہقہوں کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ مسافر کا قیام یہاں East inn ہوٹل میں تھا۔ حلال رزق کی تلاش میں اپنے ہمراہی کے ساتھ نکلا چند کشادہ گلیوں سے گزرا تو ہر طرف افرا اور تفری کا ماحول تھا۔ سامنے ایک قحبہ خانے میں بیٹھی چند حسیناؤں نے ہمیں گیرا اور کالی بلیاں بن کر رستہ روکنے لگیں۔ کالی بلیاں تو خیر میں نے محاورے کے طور پر کہا ورنہ ہر ایک سروقد، آہو چشم اور مرمر بدن تھیں ہر ایک نے زلفِ سیاہ کو رُخ پہ پریشاں کیا ہوا تھا۔ سُرمے سے تیز دشنہ مژگاں کیے ہوئے۔ قہقہوں اور مسکراہٹوں سے چہرے گلستاں کیے ہوئے وہ ہمیں اپنی اُن قحبہ خانوں کی طرف کھینچ رہی تھیں جہاں انھوں نے جوشِ قدح سے بزم کو چراغاں کیے ہوئے تھا اور ہم اپنی کیا حالت بتائیں، غالب کی طرح مدت ہوئی تھی یار کو مہماں کیے ہوئے۔ اسی حالت میں نظر چرانا اورجسم و جاں بجانا فیضؔ صاحب کی طرح ہمارے لیے بھی ممکن نہیں تھا۔ جگرِ لخت لخت کو خوب سمجھایا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں فردوس میں ان کے بدلے ہمیں کئی حوریں ملیں گی مگر دل ہے کہ مانتا نہیں اور ضدی بچے کی طرح بار بار سرہلاہلا کر کہتا ہے کہ حسنِ انسان سے نپٹ لوں تو اُدھر تک دیکھوں۔ خدا خبر ان بنا النعش کو سرِشام عریاں ہونے کی دھن کیوں سمائی تھی۔ میں نے ہمراہی سے کہا اس سے پہلے کہ ہم شکم خوری کے لیے نکلے ہیں کہیں حوّا خوری کا شکار نہ ہو جائیں اس لیے یہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت ہے۔ تھوڑی دور جا کر ہمیں ایک اچھا ریستوران نظر آیا جہاں پاکستانی کھانے بن رہے تھے۔ بنانے والا دیر کا گل زمان تھا۔ بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور پوچھا کیا کھائیں گے میں نے کہا جو اپنے لیے بنایا ہے وہی کھلاؤ کہنے لگا اپنے لیے بھنڈی بنائی ہے۔ مگر آپ کو دُنبہ کھلاتا ہوں۔ میرے ہمراہی نے کہا بھنڈی ٹھیک ہے۔ گل زمان خان سے میں نے پوچھا یہاں کب اور کیسے آئے ہو۔ کہنے لگے پانچ سال ہو گئے ہیں۔ بے روزگار تھا ایک رشتہ دار بنکاک میں دکان چلاتا ہے۔ اُس سے بات کی اور یہاں روزی لگ گئی میں نے پوچھا یہاں تنگ تو ہوتے ہوں گے۔ کوئی تمہارا ہم زبان جو نہیں۔ کہنے لگے نہیں میرے علاقے کے بہت سے لوگ ہیں۔ بعض نے تو شادیاں بھی کی ہوئی ہیں یہاں۔ دوسری بات یہ کہ اس علاقے کا مالک ہمارا پشتون بھائی ہے۔ الیاس خان نام ہے۔ بہت مالدار آدمی ہے۔ پاتیہ کی آدھی زمین اس کی ملکیت ہے۔ پندرہ سولہ سال کی عمر میں سوات سے رزق کی تلاش میں آئے یہاں نصیب جاگ اُٹھے اللّٰہ نے دولت، شہرت اور عزت تینوں کی فراوانی کر دی۔ گلہ بانی کا بہت بڑا کاروبار ہے ساتھ ہی اچھی خاصی جاگیر بھی بنائی ہے۔

میں نے فہد یوسف زئی سے الیاس خان کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے تصدیق کی اور کہا کہ صرف پاتیہ ساحل ہی نہیں وہاں سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر ایک اور سیاحتی مرکز ہے۔ جس کا نام واہن ہے یہاں تھائی نیول بیس بھی ہے۔ ساتھ ہی پہاڑی کی چوٹی پر بادشاہ کا محل بھی ہے۔ واہن میں الیاس خان کی زمینوں پر بڑے ہوٹل بنے ہیں۔ فہد یوسف زئی کے بقول الیاس خان ممبر پارلیمنٹ بھی رہے ہیں اور تھائی پٹھان ایسوسی ایشن کے صدر بھی۔

تھائی پٹھانوں میں ایک بڑی شخصیت بائی خان کے نام سے مشہور ہے جنوبی تھائی لینڈ کے رہائشی اس خان سے استادِ محترم ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کی اچھی دوستی تھی۔ ظہور اعوان صاحب اکثر ہماری کلاس میں بائی خان کا ذکرِ خیر کرتے تھے۔ وہ کہتے کہ اگر بندے میں صلاحیت ہو تو پردیس میں بھی بڑا نام پیدا کر سکتا اور بڑی دولت کما سکتا ہے۔ پختونخوا جہانگیرہ کے اس پٹھان کا ذکر مختار مسعود نے بھی اپنی کتاب ’’سفرنصیب‘‘ میں کیا ہے۔ مختارمسعود اُن سے اپنی ملاقات کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں ’’باہر کا دروازہ کھلا اور کسی نے بھاری اور اونچی آواز میں کہا، السلام علیکم، اس کے ساتھ ہی ایک بوڑھا پٹھان اندر داخل ہوا، خضابی داڑھی، سیاہ حلقوں میں دھنسی آنکھیں، ماتھے پر جھریاں سر پر ایک پرانی جناح کیپ جس کے گھنگھریالے قراقلی کے بال جھڑ چکے ہیں اور سطح گھسے ہوئے پائیدان کی طرح نکل آئی ہے۔ خان صاحب سے پتہ چلا کہ نصف صدی پہلے اس علاقے میں پانی اور چارہ کی بہتات کی وجہ سے مویشی بہت ہوا کرتے تھے اور بدھ مت کے ہند چینی پیرو جانور کو ذبح کرنے اور گوشت اور کھال کی تجارت کو معیوب جانتے تھے۔ بر عظیم سے چند مسلمان قصاب بلائے گئے۔ جو سارے علاقے میں پھیل گئے ان میں سے بائی خان سیام میں کروڑ پتی ہو گئے۔ ‘‘

بائی خان کے مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بادشاہ وقت خود اُن سے عید، بقر عید پر ملنے آتے ہیں۔ اپنی پشتون روایات سے باخبر خان بھی بادشاہ کو خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتا۔ ساتھ میں بہت سے تحائف جن میں کثیر تعداد میں دنبے بھی ہوتے ہیں بادشاہ سلامت کی نذر کرتا ہے۔ اولادِ نرینہ سے محروم نوشہرہ جہانگیر کے بائی خان کا شمار تھائی لینڈ کے چوٹی کے جاگیرداروں میں ہوتا ہے۔

ایمبسیڈر ہوٹل بنکاک سے پیدل دس منٹ کے فاصلے پر سوکوم وِت شاہراہ کی سوائے سام یعنی تیسری گلی میں پاکستانی سفارت خانہ ہے ساتھ ہی ایک بڑا ہوٹل ہے۔ جس کا نام گریس ہے۔ کئی منزلہ گریس کے سائے تلے ایک اور ہوٹل ہے۔ جس کا نام الف لیلیٰ ہے۔ مسافر کی نظر جب بھی الف لیلیٰ ہوٹل پر پڑتی تو خوشی محسوس ہوتی اور ایبٹ آباد کا وہ گیسٹ ہاؤس یاد آتاجس کے اشتہاری بورڈ حویلیاں سے ایبٹ آباد تک سڑک کنارے لگے ہیں، تاریخی آرمی برن ہال کا کالج کے عقب میں ہزارہ یونیورسٹی کے سابقہ ڈائریکٹر ہزارہ چیئر بشر احمد سوزؔ کا گھر ہے جہاں میں اور ڈاکٹر نذر عابد اکثر اُن سے ملنے جاتے تھے۔ سوزؔ صاحب کی بیگم کے ہاتھ کے بنے کڑی پکوڑے لاجواب ہوتے تھے۔ ایبٹ آباد کے الف لیلیٰ ہوٹل کے مالک کا پتہ تو سوزؔ صاحب کو ہو گا مگر تھائی لینڈ کے الف لیلیٰ کے مالک کا نام علی خان ہے۔ صوابی نژاد علی خان پیدائش تھائی ہیں۔ نسبتاً پست قد، گورے چٹے اور صحت مند جسم کے مالک علی خان کا ناک نقشہ بھی پٹھانوں کی طرح ہے۔ عمر جو بھی ہو مگر دکھتے پینتالیس سال کے ہیں۔ بنکاک کے علاوہ تھائی لینڈ کے طول و عرض کو گوشت سپلائی کرنے کا بیڑا علی خان نے اٹھایا ہے۔ علی خان کے بچے آج کل انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں زیرِ تعلیم ہیں۔ علی خان تھائی پٹھان کلب کے وائس پریزیڈنٹ بھی رہے ہیں۔

تھائی سر زمین پر اپنے نام کے جھنڈے گاڑنے والے ایک اور پاکستانی سپوت سلمان ہیں۔ سلمان کی کہانی کا مختلف رنگ ہے۔ سلمان کے دو نام ہیں۔ ددھیالی نام سلمان ہے جبکہ تھائی لینڈ میں دیراسک سوانی ایوس کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ سلمان کے والد کراچی سے تھائی لینڈ بہتر معاش کی تلاش میں گئے۔ وہاں ایک تھائی دوشیزہ کی زلفوں کے اسیر ہوئے اُس سے شادی کر لی۔ پاکستان میں گھر والوں کو معلوم ہوا۔ تو خوب ہنگامہ ہوا۔ بیٹے کو اس قدرِ مجبور کیا گیا کہ وہ واپس کراچی آ گیا۔ اس دوران سلمان کی پیدائش ہوئی۔ سلمان کو والد اپنے ساتھ لے آئے اور کراچی ہی میں سلمان کی تعلیم ہوئی۔ جامعہ کراچی سے ایم اے اکنامکس کی ڈگری لی۔ اس دوران سلمان کا اپنی والدہ اور ننھیال سے رابطہ بھی رہا۔ دورانِ تعلیم سلمان نے تھائی قونصلیٹ میں جزوقتی نوکری بھی کی یوں پاکستان میں رہتے ہوئے بھی وہ اپنی مٹی اور تھائی شناخت سے جڑا رہا۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ تھائی لینڈ چلے گئے اور دیراسک سوانی ایوس کے نام سے نئی زندگی شروع کی۔ جس طرح پاکستان میں اپنی تھائی شناخت اور تھائی مٹی سے محبت کو زندہ رکھا اسی طرح تھائی لینڈ میں اپنی پاکستانی شناخت کو کھونے نہیں دیا۔

دیراسک کی خوبصورتی اور جاذبیت نے تھائی عوام کو اس قدر متاثر کیا کہ اُن کو Handsome Guy کا لقب دیا گیا۔ باسٹھ سال کی عمر میں بتیس کے دِکھنے والے دیراسک تھائی لینڈ میں فیشن کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ لوگ دیراسک کی خوبصورتی کی وجہ سے پاکستانی مردوں کو خوبصورت بتاتے ہیں۔ تھائی خواتین کو پاکستانی مرد دوسری اقوام سے زیادہ متاثر کرتے ہیں۔ دیراسک مختلف مالیاتی اداروں میں فرائض انجام دینے کے بعد ۲۰۱۲ء میں تھائی اسلامک بنک کے صدر کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔ شستہ اُردو بولنے والے دیراسک آج ایک اچھے کاروباری کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اپنے آبائی علاقے چنگ مائی میں ہربل شیمپو اور بیوٹی سوپ کی فیکٹریاں قائم کی ہیں۔ ساتھ ساتھ تھائی سٹاک ایکسچینج میں DS (دیرا سک سوانی) کے نام سے ایک انوسٹمنٹ فرم چلا رہے ہیں اور جب بھی موقع ملتا ہے کراچی والد سے ملنے دوڑے چلے آتے ہیں۔

پاکستانی نژاد تھائیوں میں ایک اور کامیاب کاروباری عبدالغفار عرف گڈو بھائی ہیں۔ ساہیوال سے تعلق رکھنے والے گڈو بھائی ایک جہاندیدہ شخصیت ہیں۔ خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار گڈو بھائی، فلاحی تنظیم بھی چلاتے ہیں۔ پاکستان سے آئے ہوئے نووارد نوجوانوں کے مسائل ہوں یا اموات و حادثات میں اپنی کمیونٹی کی مدد، چودہ اگست کی تقریبات کو رنگین بنانا ہو یا عیدین اور دیگر مذہبی تہواروں پر محفلِ نعت اور علمی مجالس کا انعقاد گڈو بھائی ہر جگہ سرگرم نظر آتے ہیں۔ سانولے پنجابی نقوش، درمیانہ قد اور چہرے پر مخصوص مسکراہٹ رکھنے والے گڈو بھائی اُردو، پنجابی اور تھائی روانی سے بولتے ہیں۔ بنکاک کے مشہور کمرشل علاقے پراتو نام میں، پلاٹینم شاپنگ مال اور اندرا مارکیٹ کے قریب ’’ثناء‘‘ کے نام سے ایک بڑا ریسٹورنٹ چلا رہے ہیں ’’ثناء‘‘ کی کئی شاخیں پاتیہ اور دوسرے بڑے شہروں میں بھی ہیں۔

گڈو بھائی کی طرح تھائی لینڈ میں پاکستانیوں کی مدد کرنے والی ایک اور شخصیت پلانان ہے۔ ممکن ہے کہ پلانان لفظ فضل حنان کی بگڑی ہوئی شکل ہو۔ پشتون ناخواندہ طبقہ اکثر ناموں کو اسی طرح بگاڑ کر نئی شکل دے دیتے ہیں۔ پلانان کے سماجی نیٹ ورک سے تھائی مسلم اور پشتون کمیونٹی کو بڑی حد تک راحت ملتی ہے۔ جب بھی بڑی آفت پڑتی ہے پلانان مدد میں اپنا حصہ بھرپور طریقے سے ڈالتے ہیں۔ بٹگرام کے رہائشی یہ تھائی بھی اچھی پشتو اور اُردو میں گفتگو کرتے ہیں۔

لالہ ڈینگ کی طرح فردوس لالہ بھی تھائی پٹھانوں میں اچھی شہرت رکھتا ہے۔ دراز قد اور خوبصورت وضع قطع کے مالک فردوس لالہ کا تھائی نام بی کے خان ہے۔ لالہ اس وقت پاک تھائی چیمبر آف کامرس کے سربراہ ہیں۔ تھائی لینڈ میں طویل رہائش کے باوجود رواں پشتو میں جب گفتگو کرتا ہے تو جی چاہتا ہے دل میں سماؤں۔

تھائی لینڈ کے دو اور پاکستانی شہریوں کا ذکر ضروری ہے۔ دونوں اپنے فن کی بلندیوں پر ہیں۔ ایک علمی دنیا کے امام ہیں تو دوسرے فلمی دنیا کے ولن۔ دونوں تھائی زبان کے ساتھ ساتھ رواں پشتو بھی بول لیتے ہیں۔ ساٹھ کے پیٹے میں زندگی گزارنے والے دونوں کردار ریڈ اروچر اور باچا خان ہیں۔ باچا خان بنکاک میں دو تبلیغی مراکز کے انچارج ہیں جبکہ ریڈاروچر تھائی فلموں میں وِلن کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ پاک و ہند اور دوسرے ممالک سے تبلیغی مشنری جب مشرق بعید کے اسفار پر نکلتے ہیں تو بنکاک میں باچا خان اُن کا پر تپاک استقبال کرتے ہیں اور پھر ملک کے طول و عرض میں ان کی تشکیل کراتے ہیں۔ سادہ لباس، نحیف آواز لمبی داڑھی اور چھریرے بدن کے مالک باچا خان نے بنکاک کے پر تعیش ماحول میں ایک الگ رنگ کی دنیا بنائی ہے۔ اسی طرح بٹگرام کے ریڈارو چرنے فلمی دنیا کو روزی کمانے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ جس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہیں اور تھائی عوام میں نامور بھی۔ ریڈاورچر بنکاک کے تھائی اسلامک سنٹر میں جب اپنے چاہنے والوں سے ملتے ہیں تو وہ منظر دیدنی ہوتا ہے۔

بنکاک شہر سے کوئی پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک اور اسلامک سنٹر بھی ہے۔ اسے یہاں کے مسلمانوں کا سکرٹریٹ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ کئی سو ایکڑ پر مشتمل یہ سنٹر بہت سے مسلمان ملکوں کے لیے قابلِ رشک ہے کہ غیر اسلامی ملک میں اس قدر شاندار سنٹر جبکہ اسلامی ممالک میں ایسے سنٹر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں تھائی لینڈ کا مفتی اعظم بیٹھتا ہے جس کا عہدہ وزیر کے برابر ہوتا ہے۔ اس کے دفتر کا خرچہ، اس کی رہائش، گاڑی، سفری اخراجات اور اس کی تنخواہ تھائی حکومت برداشت کرتی ہے۔ یلہ کی پاکستانی مسجد سے چاند کی رویت کی خبر یہاں پہنچائی جاتی ہے اور پھر مفتی اعظم اسے نشر کرتا ہے۔ اسلامی شرعی قوانین کا تھائی عدالتوں کے ذریعے نفاذ اور مسلمانوں کے اجتماعی مسائل کے حل کا علمبردار یہ اسلامک سنٹر اپنی کارکردگی کے حوالے سے لاجواب ہے۔

تھائی میڈیا میں بھی مسلمان آبادی نے اپنا کردار بھرپور انداز میں ادا کیا ہے۔ یہاں تقریباً سترہ نجی مسلم ٹی وی چینلز ہیں۔ جن پر تفریح، ٹاک شوز، فتاویٰ، عصری مسائل اور ان کے حل تھائی زبان میں نشر ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ دیکھا جانے والا چینل Whiteہے۔ جس پر آنے والے علماء زیادہ تر مدینہ یونیورسٹی اور جامعہ الازہر سے فارغ ہوتے ہیں اُن کی رائے کو مستند سمجھا جاتا ہے۔

بنکاک شہر کی بڑی شاہراہ سو کومت پر ٹرمینل نمبر۲۱ کے قریب ایک بلند عمارت ہے جس کو Qہاؤس کہتے ہیں۔ تیئس منزلہ اس عمارت میں تھائی اسلامک بنک کا عملہ بھی بیٹھتا ہے۔

۲۰۰۲ء میں بنے اس بنک کی ڈیڑھ سو سے زائد شاخیں ملک کے طول و عرض میں کھل چکی ہیں۔ تھائی لینڈ کے کسی بھی بڑے بنک کے مقابلے میں بہتر بنکاری اس بنک کا خاصہ ہے۔ تھائی راہنما ٹاکسین جو آج کل دبئی میں سیاسی پناہ لیے ہوئے ہیں جب وزیرِ اعظم بنے تو اُن کے دو پاکستانی نژاد مسلمان مشیروں نے وزیرِ اعظم کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ تھائی لینڈ کی دوسری بڑی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے جن کی اکثریت سودی بنکاری سے اِجتناب برتتی ہے اور اپنا سرمایہ ملائشیا کے بنکوں میں رکھتی ہے۔ اگر ہم اپنے ملک میں اسلامی بنکاری شروع کریں تو ہمارا بہت سا سرمایہ دوسرے ملک میں منتقل ہونے سے بچ جائے گا۔ وزیرِ اعظم کو تجویز پسند آئی۔ انھوں نے اندرون اور بیرونِ ملک اسلامی بنکاری کے ماہرین طلب کیے اور ان کی مدد سے دو ہزار تین میں تھائی اسلامک بنک کی داغ بیل ڈالی۔ اس وقت یہ بنک تھائی اور برونائی حکومتوں کے اشتراک سے اپنی خدمات احسن طریقے سے انجام دے رہا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس میں غیر مسلموں نے بھی اکاؤنٹ کھولے ہیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ دوسرے مذاہب میں بھی سود حرام ہے مگر اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کے پاس بلاسود کاروبار کا کوئی جامع پروگرام نہیں۔ اسی لیے دوسری اقوام بھی سودی کاروبار سے بچنے کے لیے اسلامی بنکاری اپناتی ہے۔

بنکاک سے تھوڑے فاصلے پر چن برے صوبے میں ایک خوبصورت باغ ہے جو تقریباً باون سو ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس باغ کی مالکن ایک تھائی خاتون ہے اتنے وسیع رقبے پر اتنا دلکش اور جاذبِ نظر باغ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا۔ یہاں پودوں کو اس ہنر مندی سے کاٹا گیا ہے کہ اس سے بہت سے جانے انجانے جانوروں کی شبیہیں نمایاں ہوتی ہیں۔ شیر، زیبرا، گھوڑا، ہرن، ہاتھی، زرافہ آبی جانوروں اور پرندوں کی انواع و اقسام شکلیں پودوں کو خاص تراش خراش اور پیچ و خم دے کر پارک میں اس انداز سے ظاہر کی گئی ہیں کہ دور سے بعض جانور بالکل اصلی حالت میں نظر آتے ہیں۔ ہاتھی کو کمال مہارت سے چھوٹی اور بڑی شکلوں میں ان درختوں کی تراش خراش کی مدد سے نمایاں کیا گیا ہے۔ میں نے نیرومن سے پوچھا کہ آپ کے ہاں ہاتھی اور اژدھے سے زیادہ محبت کی جاتی ہے جہاں بھی جائیں چاہے شہر ہو یا قریہ ہاتھی اور اژدہوں کے دیو قامت مجسّمے لگے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک دوسروں کو تحفے کے طور پر دیئے جانے والے سونیئر پر بھی ہاتھی اور اژدھے کی شکلیں بنی ہوتی ہیں۔ نیرومن نے بائیں ہاتھ کی انگلیاں سکیڑ کر اس سے مکا بنایا اور کہا The are Symbol of power. میں نے کہا اچھا تھائی عوام بھی ہم پٹھانوں کی طرح جنگجو ہیں۔ انھوں نے ہنستے ہوئے پوچھاWhat is your Symbol of power? میں سوچ میں پڑ گیا۔ توپ، مزائل، بندوق، پستول، خنجر، بم، راکٹ لانچر، ہینڈ گرنیڈ، طالبان، ٹارگٹ کلر، بھتہ خور، انڈرورلڈ، دہشت گرد اور پتہ نہیں اور کیا کیا۔ مگر یہ ساری چیزیں کیا واقعی طاقت کی علامت ہے۔ اگر ہیں تو ہمارے ملک میں تو ان کے نہ دیو قامت مجسّمے لگے ہیں اور نہ اِن سے عوامی سطح پر محبت کا اظہار ملتا ہے بلکہ اِن چیزوں کو تو قابلِ نفرت سمجھا جاتا ہے۔

یہ چیزیں زورِ بازو کی علامت سے زیادہ بزدلی کی نشانیاں سمجھی جاتی ہیں۔ نیرومن کو میری خفت کا اندازہ ہوا تو بات خود ہی بدل دی اور پوچھا کیا تم نے ہاتھی دیکھا ہے ؟ میں نے کہا ہاں لاہور کے چڑیا گھر میں دیکھا ہے۔ وہ پھر ہنسی اور کہا وہاں تو چڑیاں ہوں گی ہاتھی کا ادھر کیا کام۔ انھوں نے کہا آؤ تمہیں ایسے ہاتھیوں سے ملاؤں جو انسانوں کی طرح جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ خوشی کے موقع پر جھوم اُٹھتے ہیں۔ غم میں خفگی اُن کے چہروں سے نمایاں ہوتی ہے۔ نانگ نوچ ٹراپیکل گارڈن کے اندر ہی ہاتھیوں کا سرکس لگا تھا۔ مہاوت نے ہاتھیوں کو کمال کی پٹی پڑھائی تھی۔ سائیکل چلاتے تھے۔ اگلے پاؤں سے باقاعدہ پیڈل مارتے سٹیرنگ کو دائیں بائیں گماتے۔ دوڑ کا مقابلہ کرتے، باسکٹ بال اور فٹ بال کھیلتے۔ گیند کو جب گول میں پھینکتے تو دوسرے ساتھی شاباش دینے کے لیے پاس آتے اور سونڈ سے تھپکی دیتے۔ رئن پن باؤلنگ کا مقابلہ کرتے اور بوتل گرانے پر چیخ چیخ کر خوشی کا اظہار کرتے، اگر بوتل زمین پر نہ گرے تو پاؤں زمین پر مار مار کر افسوس کا اظہار کرتے۔ کینوس پر پینٹنگ کرتے اور لوگوں سے داد وصول کرتے۔

چنگ مائی کے نائٹ بازار میں ایک جواں سال آسٹریلوی بساط بچھائے قیمتی پتھر فروخت کر رہا تھا۔ ساتھ بغل میں ایک پست قد بھدے نقوش والی تھائی دوشیزہ موبائل انٹرنیٹ پر ڈراما دیکھ رہی تھی۔ مجھے مذاق سوجھا اور آسٹریلوی سے پوچھا بھئی! اس چکا چوند اور پُر رونق بازار میں تم پتھر فروخت کر رہے ہو۔ اس نے ٹالسٹائی کا ناول وار اینڈ پیس سائڈ پر رکھ کر چہرے پر خوشگوار کیفیت لا کر کہا میرے پتھر قیمتی ہیں۔ میں نے اُس سے ناول لیا اور کہا ’’زبردست‘‘ شوق بھی قیمتی پال رکھا ہے کہنے لگے ہاں مجھے تہذیبوں کے مطالعے کا شوق ہے۔ اس لیے ناول پڑھتا ہوں میں نے مزید پوچھا تو کہنے لگے جس ناول میں تہذیبی مطالعہ نہ ہو بڑا ناول نہیں ہو سکتا۔ میں نے ساتھ کھڑے ہمراہی سے کہا ’’یار یہ بندہ تو اپنے پتھروں سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔ ‘‘ مگر میرے ہمراہی کا دھیان آسٹریلوی کی تھائی محبوبہ کی طرف تھا۔ اس لیے مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔ آسٹریلوی نے کہا مجھے مطالعے کا شوق ہے۔ یہاں چھے گھنٹے کے لیے بساط بچھا کر پتھر فروخت کرتا ہوں اور ساتھ ساتھ پڑھتا بھی ہوں۔ میں نے پوچھا کتنے صفحے دن میں پڑھ لیتے ہو۔ کہنے لگے چار پانچ سو صفحات پڑھ لیتا ہوں۔ میں نے پوچھا یہ پتھر آسٹریلیا سے لائے ہو یا یہاں سے خریدے ہیں۔ کہنے لگا نہیں مختلف ملکوں کے ہیں۔ تھائی لینڈ میں قیمتی پتھر کم ہیں۔ یہاں افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ سے آتے ہیں میں نے پوچھا پاکستان سے ؟ کہنے لگے وہاں سے بھی آتے ہیں، پھر انھوں نے تین چار اقسام کے پتھر دکھائے جو پشاور سے لائے تھے۔

بنکاک شہر میں بادشاہ کا محل ہے جو سیکڑوں ایکڑ پر مشتمل ہے۔ یہاں بھی بدھا کے مجسّمے اور ان کے سٹوپے کھڑے ہیں جو آبِ زر سے سجائے گئے ہیں۔ سٹوپا کے ساتھ ایک اور شخص کامجسمہ تھا۔ میں نے گائیڈ سے پوچھا۔ یہ کون ہیں تو اُس نے بتایا کہ یہ بدھا کے ڈاکٹر کا مجسمہ ہے۔ جس نے بیماری میں بدھا کا مساج کیا تھا اور وہ تندرست ہو گئے تھے۔ میں نے پوچھا یہ جو تھائی لینڈ میں مساج کی شہرت ہے اس کا ربط کہیں بدھا کے اس ڈاکٹر کے طریقۂ علاج سے تو نہیں۔ انھوں نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا جی بالکل ایسا ہی ہے۔ مسافر تھائی لینڈ آنے سے پہلے اس حوالے سے بہت کچھ سن چکا تھا۔ آنکھوں دیکھا حال بھی کچھ اس سے مختلف نہیں۔ شہر میں بے تحاشا مساج سنٹرز ہیں۔ یہاں تک کہ ایئرپورٹ کے اندر بھی یہ سنٹر قائم ہیں۔ جہاں تھائی دوشیزائیں گاہکوں کا بُلا بُلا کر مساج کرتی ہیں۔ دوسرے ممالک سے آئے سیاح شاید ہی تھائی لینڈ کے کسی اور چیز سے اس قدر لطف اندوز ہوتے ہوں جتنا مساج سے۔ مختلف سنٹرز میں خاندانوں کے خاندان باپ، بیٹی، ماں، بیٹا الگ الگ چارپائیوں پر ایک ہی ہال میں لیٹے تھائی دوشیزاؤں سے با جماعت مساج کروا رہے ہوتے ہیں۔ ویسے تو لاہور شہر میں بھی مساج کا روایتی طریقہ رائج ہے۔ مینارِ پاکستان شاہی قلعہ، ریلوے سٹیشن، جناح لائبریری اور دوسرے بڑے پارکوں میں گندے اور میلے ہاتھوں سے دوائی سے خالی بوتلوں میں سرسوں کا تیل ڈالے مالش مالش کی آوازیں لگانے والے غیر قبول صورت لڑکے نظر آئیں گے۔ لاہور کے ان پارکوں میں خدا کے ایسے بندے بھی دیکھے ہیں جو کپڑے اُتارے جانگیا پہنے کھلے آسمان تلے زمین پر لیٹے اپنے صاف و شفاف بدن پر ان گندے اور میلے ہاتھوں سے مالش کے نام پر میل مل رہے ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں تھائی لینڈ میں ماحول پاک وصاف اور رومانوی ہوتا ہے۔ لاہور میں تو مالش کا ایک ہی روایتی طریقہ ہے جبکہ تھائی لینڈ میں کئی طریقے مستعمل ہیں جن میں پانچ طریقے زیادہ مشہور ہیں ایک کو آئل مساج کہتے ہیں جس میں جسم پر تیل مَل کر خاص انداز میں مالش کی جاتی ہے۔ دوسراطریقہ ایرومامساج کا ہے جس میں جسم پر مخصوص اروما خوشبو کا عطر مَلا جاتا ہے۔ شبِ زفاف یا حبیبوں کی ملاقات سے پہلے یہ مساج کرایا جاتا ہے۔ تھائی مساج کا بھی ایک مخصوص طریقہ ہوتا ہے۔ جس کے بارے میں ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ مساج جس طریقے سے ہم تھائی کرتے ہیں دوسروں کو نہیں آتا۔ اسی طرح فش مساج بھی کروایا جاتا ہے جس میں پانی کے ٹب میں آدمی کو لیٹا کر یا اس کے جسم کا کوئی حصہ ٹب میں رکھ کر اس پر ایک خاص قسم کی کریم مَلی جاتی ہے پھر اُسی پانی میں سیکڑوں ہزاروں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں چھوڑی جاتی ہیں وہ مچھلیاں جسم پر لگی اس کریم کو چاٹتی رہتی ہیں۔ اس سے جسم کا خودبخود مساج ہو جاتا ہے۔ فٹ مساج بھی یہاں کا مشہور مساج ہے۔ اس مساج میں باقی جسم کے بجائے صرف پاؤں کا مساج کیا جاتا ہے۔ یہ مساج کرنے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ دورانِ مساج اگر نیند نہ آ جائے تو پیسے واپس۔ مساج کی اور ایک مشہور قسم Body to Bodyمساج ہے۔ اس مساج میں دوشیزائیں اپنے بدن پر تیل یا ایروما عطر مَل کر گاہک کے بدن میں اپنا بدن اس طرح پیوست کرتی ہیں جس سے وہ تیل یا عطر گاہک کے بدن میں جذب ہوتا چلا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ اس کو راحت اور سکون بھی مہیا ہوتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ من چلے شوقین جو ان ہی اس مساج سے لطف حاصل کرتے ہوں گے مگر میں نے بہت سے ایسے بوڑھے بوڑھیاں بھی دیکھے جو اپنے لرزہ بر اندام جسموں کو ان حسیناؤں کے جسم سے مَس کر کے اپنے جسم میں بجلی پیدا کرنے کی سعی لاحاصل کر رہے ہوتے ہیں۔

تھائی لینڈ میں ان باڈی سٹوریز کے علاوہ ایک باڈی لینگویج بھی رائج ہے۔ تھائی تہذیب اور بودو باش کے بارے میں اپنے لیکچر کے دوران نیرومن نے بتایا کہ تھائی بولی کے علاوہ ہماری ایک اور بولی بھی ہے جو دوسری اقوام کے پاس نہیں وہ ہے باڈی لینگوئج۔ انھوں نے کہا کہ ہم جب بات کرتے ہیں تو ہاتھ اور جسم کو خاص انداز میں جھکا اور اُٹھاتے ہیں مثال کے طور پر تھائی میں خوش آمدید کے لیے Swat di krap کہا جاتا ہے جبکہ خواتین Swat di Kha بولیں گی۔ ان الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ دونوں ہاتھ آپس میں جوڑ کر سامنے کی طرف جھکا جاتا ہے۔ اگر صرف الفاظ ادا کیے جائیں اور جسم کا جھکاؤ اور ہاتھ جوڑنے کا انداز اس کے مطابق نہ ہو تو یہ بے ادبی خیال کی جاتی ہے۔ نیرومن جب اس حوالے سے گفتگو کر رہی تھی تو میرے سامنے سندھ سے آئے پانچ مندوبین بیٹھے تھے۔ میر حسن، ڈاکٹر منصور احمد چنا، زوارسراج سومرو، سائیں عبدالجبار اور اشفاق احمد عباسی۔ پہلے تین سندھی دوستوں سے تو میں اس سفر سے پہلے واقف تھا جبکہ یہ دوسرے دوست اس سفر میں تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح وارد ہوئے تھے۔ سندھیوں کے بارے میں عام تصور یہ ہے کہ جسمانی طور پر کمزور دبلے پتلے ہوتے ہیں اور اپنی گوٹ سے باہر بہت کم وقت گزارتے ہیں۔ مگر یہ پانچوں اس عام تصور سے کوسوں دور تھے۔ میرحسن دراز قد وجیہ شکل گورے چٹے انسان ہیں۔ کشادہ سینے پر وی (V) شیپ کی واسکٹ پہن کر خالص پٹھان نظر آنے والے اس شخص کے سامنے مجھے اپنے آپ کو پٹھان کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ حضرت بلا کے چرب زبان ہیں جو بھی منہ میں آئے آسانی سے بلا تکلف کہہ جاتے ہیں نتائج کی پروا کیے بغیر۔ لطائف کے بادشاہ ہیں ویسے تو یہ خطاب یار دوستوں نے لاہو رہیلتھ سائنسز یونیورسٹی کے پروفیسر شاہ جہاں صاحب کو دیا تھا۔ خالص سرائیکی لہجے میں اُن کے لطائف اسلام آباد میں ہائرایجوکیشن کمیشن کے زیرِ اہتمام ٹریننگ کے دوران میں پیش آنے والی مشکلات میں انرجائزر سے کم نہ تھے۔ مگر میرحسن کی تو بات ہی اور ہے کہ اُن کے لطائف کم اور کثائف زیادہ ہوتے ہیں۔ اُن کے اکثر لطیفے پٹھانوں کے بارے میں ہوتے ہیں اور پٹھانوں ہی کو مخاطب کر کے سناتے بھی ہیں کثیفہ نما لطیفہ سنانے کے بعد موٹے فریم کی عینک کے پیچھے گول گول آنکھیں مٹکا کر سامنے بیٹھے کسی بھی خان صاحب کی حالت جانچتے ہوئے اور خان صاحب کی پریشانی دیکھتے ہوئے خوب محظوظ ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے میرے اکثر دوست پٹھان ہیں اور مجھے پٹھانوں سے بلا تکلف گفتگو میں مزہ آتا ہے۔ ڈاکٹر منصور چنا لرننگ انویشن ڈویژن اسلام آباد کی ٹریننگ میں مجھے ملے اور تب سے اب تک بچھڑنے کا نام نہیں لیتے۔ لیاقت ڈینٹل کالج سندھ کے یہ ڈاکٹر دوستی اور دشمنی میں قبر تک ساتھ نبھانے والوں میں سے ہیں۔ ہلے گلے، پکنک پارٹیاں (عام اور کاک ٹیل دونوں طرح کی)، سیرو تفریح کے دلدادہ اس سندھی سپوت کی یہ ادا کبھی نہیں بھلا سکا جب اس سے عمر میں چند سال بڑے بھائی اسلام آباد ان سے ملنے آئے تو سلام کرتے ہوئے دونوں ہاتھ آپس میں جوڑ کر اُن کے سامنے جھکا اور پھر اُن کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے۔ بدن بولی کا یہ اظہار عقیدت و محبت اس کو اپنی سندھ دھرتی سے خمیر میں ملا ہے۔ تھائی بدن بولی اور سندھی بدن بولی میں انداز یکساں ہو سکتا ہے مگر جو عقیدت محبت اور مٹھاس سندھ کی بولی اور بدن بولی میں ہے کم ہی زبانوں کو نصیب ہوتی ہے۔

زوار سراج سومرو بھی اسی سندھ دھرتی کا بیٹا ہے۔ سندھ کے اس سپوت نے جب چند سال پہلے ایران اور عراق میں زیارات کی یا ترا کی تو نام کے ساتھ زوار لکھنا شروع کر دیا۔ محفل میں دوستوں کے لیے بہتر ماحول پیدا کرنے والے زوار کا تخیل جانفزا اور سخنِ شیریں ہوتا ہے۔ دوستیاں بنانے میں کمال ملکہ حاصل ہے عجز اور جھکاؤ اس کی شخصیت کا حصہ ہے۔ اس لیے لوگ اُس سے کم ہی ناراض ہوتے ہیں۔

کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کرنے والے عبدالجبار مرنجان مرنج شخصیت کے مالک ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے ترکش میں مزاح کے سارے حربے موجود ہوتے ہیں۔ لفظی بازی گری صورت واقع، بات سے بات نکالنا خوب جانتے ہیں۔ ادھیڑ عمر کی عورت دیکھ کر رال ٹپکنے لگتی ہے اسی لیے جب ہندوستانی نژاد ریسورس پرسن مس کنو پریا کرنے والے عبدالجبار مرنجانِموہن ہمیں پڑھا رہی تھیں تو جبار صاحب کسی کو بولنے نہیں دے رہا تھا حتیٰ کہ خود پر یا کو  ثربھی۔ وہ اپنے سارے تجربات، مشاہدات، تصوّرات پریا کے قدموں میں رکھ کر اُن کی متاثر کرنے کی کوشش رہا تھا۔ پریا متاثر ہوئی یا نہیں یہ تو معلوم نہیں مگر ہماری کلاس اچھی خاصی متاثر ہوئی۔ پریا نے چھے گھنٹوں کے پچاس ہزار روپے لے کر ہمیں سمجھایا کہ ٹیچر، استاد، معلم، اتالیق، پروفیسر، نگران یہ ساری فرسودہ اور پرانی اصطلاحیں ہیں اب کوچ اور گائیڈ کا زمانہ ہے لہٰذا ہمیں یہ نام اپنانے چاہئیں۔ اس وقت بیٹھے بیٹھے میں نے ان پر ایک نظم لکھی جس کا آخری شعر دوستوں نے بہت پسند کیا:

اچھے خاصے ٹیچر تھے ہم

تو ہمیں کوچوان بنایا

ایک دفعہ ڈاکٹر منصور چنا نے خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی کے ڈین اور نوجوان بلکہ دل جوان پروفیسر ڈاکٹر سید مشتاق شاہ سے پوچھا کہ شاہ جی عبدالجبار صاحب تو آپ کے روم میٹ بھی ہیں۔ آپ اُن کو ان کی عادتوں کی وجہ سے کس طرح برداشت کرتے ہیں تو شاہ صاحب چھوٹی آنکھوں پر گھنی بھنوؤں کا ہالہ بنا کر اپنے چہرے پر دانشوری کے آثار پیدا کرتے ہوئے کہنے لگے۔ منصور بانچے ! جو چیزیں میں نے عبدالجبار صاحب سے ان چند دنوں میں سیکھی ہیں وہ میں نے پروفیسری تک پہنچ کر بھی نہیں سیکھی تھیں۔ ساتھ کھڑے ایک دوست نے کہا اچھا عبدالجبار صاحب سیکھاتے پڑھاتے بھی ہیں ؟ ہم سمجھے وہ تو صرف پروفیسر ہیں۔ تھائی لینڈ کی مختلف یونیورسٹیوں کے صدور کے ساتھ نشستوں میں جب اُن کی گفتگو ہو جاتی اور سوال و جواب کا مرحلہ شروع ہوتا تو سارے مندوبین سر پکڑ لیتے کیونکہ ضرورت ہو نہ ہو عبدالجبار صاحب سوال ضرور پوچھتے اُن کا سوال چار سے پانچ منٹ پر مشتمل وہ علمی گفتگو ہوتی جس کا اِدراک موصوف کے علاوہ باقی کسی کو نہ ہوتا وہ اپنے تجربات و مشاہدات اور کے جی سے لے کر پی ایچ ڈی تک کی علمیت کی بوچھاڑ فرماتے کہ سب کی حالت بُری ہو جاتی۔ اُن کے سوالات کے کلسٹر بموں سے ہمیں بچانے والے اگر کوئی تھے وہ شاہ صاحب تھے۔

سکر آئی بی اے میں لیکچر ر کے فرائض انجام دینے والے اشفاق عباسی ٹھیٹھ سندھی لہجے میں شستہ اُردو بولتے تو محفل کا رنگ ہی بدل جاتا۔ چھوٹے قد اور لمبی داڑھی والے اس مٹھے سائیں کی ٹائی کو داڑھی کی لمبان نے آنکھ اوجھل کیا ہوا ہوتا مگر موصوف پھر بھی باندھتے اور خود کو شاباش دیتے یعنی سائیں تو سائیں، سائیں کی ٹائی اور داڑھی بھی سائیں۔ موٹے فریم کی عینک استعمال کرتے، شکر ہے کہ اللّٰہ نے نتھنے بھی مضبوط دے رکھے تھے ورنہ اتنی وزنی عینک کو سہارنا مشکل تھا۔ اللّٰہ نے کیا آواز دی تھی پکے راگوں کے مشکل گانے بھی اتنی روانی سے گاتے کہ سارے دوست اور تھائی منتظمین جھوم اُٹھتے۔ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے آئے پروفیسر سعید بادشاہ کو اپنا گرو مانتے تھے۔ بلاشبہ سعید ایک مہا گرو تھے وہ صرف نام کے نہیں دل کے بھی بادشاہ تھے۔ کسی بھی دوست کو کہیں بھی کوئی مسئلہ پیش آتا۔ بادشاہ حل کرنے کے لیے موجود ہوتے پیادہ روی اور تیرا کی کے رسیا اس بادشاہ نے سب کے دلوں میں جگہ بنائی تھی۔ پست قد اور پھرتیلے جسم کے یہ ذہین و فطین بادشاہ صرف نام کے نہیں دلوں کے بھی بادشاہ تھے اللّٰہ ان کو نظرِ بد سے بچائے۔

نیرومن نے کہا ہمارے ہاں کسی کے سر اور کندھوں پر ہاتھ رکھنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ میں نے کہا سر پر ہاتھ رکھنا تو ہمارے ہاں عزت و تکریم، شفقت اور محبت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا ہمارے ہاں کوئی گلابی رنگ کا لباس نہیں پہنتا یہ امرد پرستوں کی نشانی ہوتی ہے۔ ہم جنس کے کندھوں پر ہاتھ ڈال کر ساتھ چلنے والوں کو بھی اسی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ البتہ مخالف جنس کے کندھوں پر ہاتھ ڈال کے ساتھ چلنے پر کوئی قدغن نہیں۔ میں نے کہا ہمارے ہاں تو معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی سے آئے مندوب بخت زادہ دانش سے رہا نہ گیا اور کہنے لگے یہاں تو جنسِ مخالف کے کندھے کیا گردن میں جھول جاؤ تب بھی کوئی قدغن نہیں۔ خاص اسلوبِ بیان رکھنے والے اور فرفر انگریزی بولنے والے اس پٹھان کی دنیا ہی الگ تھی۔ جو بات دل میں ہوتی بغیر لگی لپٹی کہتے۔ بلند قامتی ایسی کہ بقولِ شاعر تم کھڑے ہو تو قیامت ہو گی۔ کسی بھی حسینہ کو اپنی زلفوں (جن کی تعداد اُن کے سر پر بہت کم تھی) کا اسیر بنانا اُن کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ چنگ مائی ایئرپورٹ پر اس کا عملی مظاہرہ تب کیا جب ڈاکٹر منصور چنا اور بلوچستان یونیورسٹی کے خوبرو علی کا کڑ جس کو دوست سرخ و سفید ہونے کی وجہ سے رشئین کہتے تھے کو کھلا چیلنج دیا اور انتظار گاہ میں سامنے سیٹ پر بیٹھی بالی عمر یا کی ایک خوبصورت اور حسین و جمیل لڑکی کو دس منٹ میں دوست بھی بنایا۔ سیلفی بھی لی، موبائل نمبر کا تبادلہ کیا بیٹھے بیٹھے فیس بک فرینڈ لسٹ میں دوست بھی بنایا۔ حسیناؤں کو پٹانے کا یہ اولوالعزم پٹھان جب کرنے پر آتا تو سمندر بھی چیرتا اور کوہ سے دریا بھی بہاتا ہے۔ پہلی ہی ملاقات میں موصوف کا تعلق من تو  شدم تومن شدی سے دو قدم آگے بڑھ کر من تن شدم تو جاں شدی کی حدوں کو چھونے لگتا ہے۔

تھائی لینڈ کے لوگوں کا مزاج تنک ہے۔ بہت جلد اشتعال میں آتے ہیں معمولی باتوں پر ان کا دل دُکھی ہو جاتا ہے اور جواباً ناک بھوں ہی نہیں، آستینیں بھی چڑھا لیتے ہیں۔ باقی اقوام کے مقابلے میں خود کو افضل سمجھتے ہیں۔ خود ستائشی کے دِلدادہ تھائی لوگ غیر تھائی لوگوں کو ’’کھیک‘‘ پکارتے ہیں جس سے مراد کمتر لوگ ہیں۔ خواتین جس قدر محنتی اور وفادار ہیں مرد ایسے نہیں۔ اسٹیٹس اور برانڈ کے بارے میں فکرمند ہوتے ہیں چونکہ مہذب دنیا سے میل جول تہذیبی نہیں اس لیے اپنی شخصیت کے بارے میں کوئی منفی بات گوارا نہیں کرتے۔ دوسروں پر رُعب ڈالنے کے لیے بڑی گاڑی میں اکیلے سفر کرتے ہیں اور قیمتی موبائل، گھڑی اور گاڑی کی نمائش کرتے ہیں۔ فیشن کے معاملے میں جنوبی کوریا کو امام مانتے ہیں۔ سیؤل کے طرزِ زندگی کو شوق سے اپناتے ہیں لباس سے لے کر بال تراشنے تک اُن کا انداز اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

بنکاک کے شاہی محل میں گائیڈ خاتون سے میں نے پوچھا کہ تھائی لینڈ پر اس محل کی بادشاہت کب سے ہے۔ اُن کو میری بات سمجھ نہ آئی۔ یہ لوگ سیدھی بات بہ اندازِ دگر سمجھنے سے عاری ہیں۔ تب میں نے اپنا سوال دُہرایا یہاں بادشاہی نظامِ حکومت کب سے ہے۔ کچھ سوچنے کے بعد گائیڈ نے چار اُنگلیاں اُٹھا کر کہا چار سو سال سے ہے۔ اس سوال کے تشفی آمیز جواب کے لیے میں نے تاریخ سے رجوع کیا تاریخ کو سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ۔ ۔ تذبذب کا شکار بھی نہیں ہوتا جو بیت چکا ہوتا ہے فرفر سنانے لگتا ہے۔ تاریخ کے مطابق تھائی، چائنہ کے جنوب مغرب میں رہنے والی قوم ہے۔ اقوامِ عالم میں طویل عرصہ تک ’’سیام‘‘ کے نام سے پہچانی جاتی تھی۔ سیام سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے۔ ’’شوخ‘‘ یا ’’بھورا‘‘ مشرقِ بعید میں رہنے والی دوسری اقوام کے مقابلے میں ان کی رنگت شوخ اور بھوری ہوتی ہے۔ چینی سیام کو ’’سیان‘‘ بولتے ہیں۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اقوامِ عالم میں سب سے پہلے پرتگالیوں نے اس لفظ کا استعمال کیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح پرتگالیوں نے بھی سترھویں صدی کے اوائل میں سفارتی مشن بھیجا مگر جیسی سونے کی چڑیا ہندوستان انگریزی کے لیے ثابت ہوا، سیام سے پرتگالیوں کو کچھ نہ ملا۔

زمانۂ قدیم سے یہ علاقہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم رہا۔ چنگ سین ایوٹایا، چنگ مائی، لانا اور سوکھ تائی، یہ ریاستیں قدیم زمانے سے ایک دوسرے سے دست و گریباں رہیں اور قریبی ریاستوں ویٹ نام اور برما کے لیے درد سر بنی رہتی۔ ۱۷۶۷ء میں برمیوں نے ایوٹایا کی چارسو سال سے قائم ریاست پر حملہ کر دیا۔ دارالحکومت کو گویا آگ لگا دی۔

ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور اپنی عمل داری قائم کی۔ ۱۷۶۹ء میں جنرل تاکسن نے بچی کھچی ریاست کو دوبارہ منظم کیا۔ تون بری کو نیا دارالخلافہ بنایا اور خود جنرل تا کسن سے کنگ تاکسن دی گریٹ بنا تیرہ سالہ حکمرانی میں جنرل کو اندرونی خلفشار، بیرونی سازشوں اور مسلسل جنگی حالات نے ذہنی طور پر مفلوج کر دیا۔ پاگل پن کے دورے پڑنے شروع ہوئے اور آخر کار راہب کا لبادہ اوڑھ کر جنگل کی طرف بھاگ گیا اور اس کے بعد کہیں نظر نہ آیا۔

۱۷۸۲ء میں جنرل چکری نے اُن کی جگہ لی۔ خود کو راما کا خطاب دیا اور یوں چکری خاندان کی بادشاہت کی داغ بیل ڈالی۔ اسی سال چاؤ پریا نامی دریا کے دونوں کناروں کو پختہ کر کے نئی بستی بسائی اور پھر اس کو دارالحکومت کا درجہ دے کر بنکاک کے نام سے موسوم کیا۔ ۱۷۹۰ء میں برمیوں کو شکست دی اور اپنی بادشاہت قائم کر لی۔

ستارھویں اور اٹھارویں صدی میں جب مغربی اقوام نے باقی دنیا پر اپنی حکمرانی کے شکنجے کسے اور جگہ جگہ اپنی کالونیاں قائم کیں تو مشرق بعید بھی ان کے طوقِ غلامی سے محفوظ نہ رہا برطانوی اور فرانسیسی افواج نے جب یہاں کا رُخ کیا تو تھائی لینڈ پر قبضے سے دونوں نے اجتناب برتا اور اس کو بفر زون بنایا تاکہ دونوں افواج کی آپس میں مڈبھیڑ نہ ہو۔ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے تیس سال بعد ۱۹۷۳ء میں عوام کو حکومت بنانے کا موقع دیا گیا۔ جو دیرپا ثابت نہ ہو سکا اور اکتوبر ۱۹۷۶ء میں پھر فوجی آمروں نے حکومت سنبھال لی۔ اَسی کی دہائی میں جمہوریت پسند پرم ٹن سولی نان نے جمہوریت کی گاڑی پھر سے پٹری پر ڈال دی۔ مگر فوجی عمل دخل نہ رُکا۔ ۲۰۰۱ء میں ٹاکسن دیہات اور غیر شہری آبادی کا نمائندہ بن کر حاکم بنا مگر وہ بھی کرپشن کی بنیاد پر ملک بدر کر دیا گیا۔ ۲۰۰۷ء میں انتخابات کے نتیجے میں ٹاکسن کی بہن اکثریت کے ساتھ وزیرِ اعظم بنی مگر وہ بھی کالے بوٹوں کو پسندنہ آئی پروپیگنڈے شروع ہوئے جلسے اور جلوس نکلے اور سماک سدرواج کی جیت کو دھاندلی زدہ قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا گیا۔ اس دفع کالے بوٹوں کی مدد کالے کوٹوں نے بھی کی۔ ۲۰۰۷ء میں کرپشن دھاندلیوں اور اسلحہ کی خریداری میں خرد برد کے افواہوں نے دار العوام کے دروازے ابھی تک عوام کے لیے بند کیے ہوئے ہیں جبکہ بادشاہِ وقت رامانو اور فوجی جرنیل عوام کی محبت میں حکمرانی کر رہے ہیں۔

میں نے ویرویٹ جو کے سامنے جب تھائی لینڈ کا سیاسی منظر نامہ رکھا تو اپنے مخصوص انداز میں مسکرا کر کہنے لگے اس میں کوئی شک نہیں ہمارا اور پاکستان کا سیاسی منظر نامہ کچھ شاندار نہیں وردی پوشوں نے دونوں ممالک کے عوام کی گردنوں میں طوق ڈالے ہیں۔ آپ کے سیاستدانوں کی طرح ہمارے سیاستدان بھی کرپٹ اور نا اہل ہیں۔ سنا ہے کرپشن کے حوالے سے اس وقت پاکستان دنیا میں انتالیس نمبر پر ہے اور تھائی لینڈ تینتیسنمبر پر۔ فرق یہ ہے کہ آپ کے حکمران چوری کا پیسہ ملک سے باہر بھجواتے ہیں اور ہمارے حکمران ملک کے اندر لگاتے ہیں۔ ہم اپنے پرانے سرمائے کو بھی محفوظ کیے ہوئے ہیں اور آپ اپنی نئی املاک کو سرکاری کہہ کر اُن کی توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ بیسویں صدی کے اواخر میں پاکستانی ہنر مندوں نے ہمیں زندگی کی دوڑ میں عالمی برادری کے شانہ بشانہ چلنے میں مدد دی مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب ہم آپ لوگوں سے ترقی کی اس دوڑ میں بہت آگے ہیں۔

اقوام عالم مشرق بعید کے ممالک کو Sun rising state بھی کہتے ہیں۔ تھائی زبان میں سورج کی پہلی کرن کو سوارنا بومی کہتے ہیں بنکاک کے ایئرپورٹ کا نام بھی سوارنابومی انٹر نیشنل ایئرپورٹ ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ یہی ایئرپورٹ تھائی عوام کے لیے سورج کی پہلی کرن ہے جس کی وجہ سے باقی دنیا سے ان کا میل جول پیدا ہوا ہے۔ تھائی لینڈ کی ترقی میں بھی یہ ایئرپورٹ سورج کی پہلی کرن کی طرح ہے۔ بیرونی ممالک کے سیاح اور اُن کا پیسہ اسی ایئر پورٹ سے ہو کر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ستر کی دہائی کا ایک غریب ملک آج دو سو ملین سے زیادہ زرِ مبادلہ رکھتا ہے۔ ایک ایسا ملک جس کو اقوامِ عالم میں روشناس کرانے میں میرے ہم وطنوں کا بھی ہاتھ ہے۔ میں آج اسی ایئرپورٹ پر بیٹھا پاکستان واپسی کے لیے رختِ سفر باندھے جہاز کا انتظار کر رہا ہوں۔ دنیا کے کونے کونے سے یہاں ہوائی جہاز مختلف ممالک سے سیاحوں اور تاجروں کو لا رہے ہیں۔ اب تھائی لینڈ دنیا بھر میں معروف ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ معرفت اچھے معنوں میں ہے۔ پھر میں پاکستان کے بارے میں سوچتا ہوں تو سرجھکا لیتا ہوں کیونکہ دنیا والے ہمیں اتنے اچھے معنوں یاد نہیں کیا کرتے۔ میں ویرویٹ جو کی باتوں کو اپنے ذہن میں دہراتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ واقعی ہم نے نئی املاک اور اچھی ساخت کو تباہ و برباد کر دیا ہے تھائی عوام نے نئی دنیا کے ساتھ بہتر شناخت کے ساتھ قدم ملایا اور ہم سے آگے بلکہ بہت آگے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہو گئے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://punjnud.com/PageList.aspx?BookID=14089&BookTitle=Thailand%20Ke%20Rang

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید