FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

تفسیرِ قرآن سے متعلق چند اہم فوائد

               شیخ الاسلام امام ابن قیم رحمہ اللہ

فصل: علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نکرہ سیاقِ نفی میں عمومیت کا فائدہ دیتا ہے یہ اصول اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے مستفاد ہے۔ {وَلَا یَظلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا} (الکھف:۴۹) ’’آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ ‘‘ {فَلَا تَعلَمُ نَفسٌ مَّآ اُخفِیَ لَھُم مِّن قُرَّۃِ اَعیُنٍ} (السجدہ: ۱۷) ’’کوئی جان نہیں جانتی کہ ان کے لیے کیا آنکھوں کی ٹھنڈک چھپائی گئی ہے۔ ‘‘

نکرہ سیاق استفہام میں عمومیت کا فائدہ دیتا ہے۔ یہ اصول اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ماخوذ ہے۔ {ھَل تَعلَمُ لَہٗ سَمِیّاً} (مریم:۶۵) ’’کیا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو؟‘‘

نکرہ اسلوبِ شرط میں عمومیت کا فائدہ دیتا ہے۔ یہ اصول اللہ تعالیٰ کے مندرجہ ذیل ارشادات سے مستفاد ہے۔ {فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ البَشَرِ اَحَدًا} (مریم:۲۶) ’’اگر تو کسی آدمی کو دیکھے‘‘{وَاِن اَحَدٌ مِّنَ المُشرِکِینَ استَجَارَکَ} (التوبہ: ۶) ’’اگر کوئی مشرک تجھ سے پناہ کا طلب گار ہو۔ ‘‘

نکرہ سیا ق نہی میں عمومیت کا فائدہ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {وَلَا یَلتَفِت مِنکُم اَحَدٌ} (ہود: ۸۱) ’’تم میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے۔ ‘‘

نکرہ سیاق اثبات میں عموم علت اور مقتضی کا فائدہ دیتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {عَلِمَت نَفسٌ مَّآ اَحضَرَت} (التکویر:۱۴) ’’تب ہر شخص کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔ ‘‘

جب نکرہ کے ساتھ (کُلُّ) کو مضاف بنا لیا جائے تو اس سے عمومیت مستفاد ہوتی ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَجَآ ئَ ت کُلُّ نَفسٍ مَّعَھَا سَآئِقٌ وَّشَھِیدٌ} (ق: ۲۱) ’’ہر شخص کے ساتھ ایک ہانکنے والا اور ایک گواہی دینے والا (فرشتہ) ہو گا۔ ‘‘

نکرہ کی عمومیت، عموم مقتضیٰ کا فائدہ دیتی ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَنَفسٍ وَّمَا سَوّٰھَا} (الشمس : ۷) ’’اور انسان کی قسم اور اس کی جس نے اسے نک سک سے درست کیا۔ ‘‘

فصل: اگر مفرد کے ساتھ لام معرفہ ہو تو وہ عموم کا فائدہ دیتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اِنَّ الاانسَانَ لَفِی خُسرٍ} (العصر:۲) ’’بے شک انسان خسارے میں ہے۔ ‘‘ اور فرمایا: {وَیَقُولُ الکٰفِرُ} (النبا:۴۰) ’’اور کافر کہے گا۔ ‘‘ اور اگر مفرد مضاف ہو تو اس سے عموم مستفاد ہوتا ہے مثلاً فرمایا: {وَصَدَّقَت بِکَلِمٰتِ رَبِّھَا وَکُتُبِہٖ} (التحریم: ۱۲) ’’اور ایک دوسری قرأت کے مطابق (وکتابہ) ’’اس نے اپنے رب کی تمام باتوں کی تصدیق کی اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی‘‘ … دیگر قرأت کے مطابق … اس کی کتاب کی تصدیق کی۔ ‘‘امام حفص رحمۃ اللہ علیہ اور بصرہ کے قاریوں نے اسے جمع  (وکتبہ) پڑھا ہے اور دیگر قاریوں نے اسے واحد {وکتابہ} ’’پڑھا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {ھٰذا کِتٰبُنَا یَنطِقُ عَلَیکُم بِالحَقِّ} (الجاثیہ:۲۹) ’’یہ ہماری کتاب ہے جو تمھارے بارے میں ٹھیک ٹھیک بیان کر دے گی‘‘ اس سے مراد وہ تمام کتابیں ہیں جن میں انسانوں کے اعمال محفوظ کیے گئے ہیں۔

جب جمع کے ساتھ لام معرفہ شامل ہو تو وہ عموم کا فائدہ دیتی ہے مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {اِذَا الرُّّسُلُ اُقِّتَت} (المرسلات:۱۱)’’جب رسول مقرر کیے جائیں گے۔ ‘‘ اور فرمایا: {وَاِذ اَخَذنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیثَاقَھُم} (الاحزاب: ۷) ’’اور جب ہم نے تمام نبیوں سے ان کا عہد لیا۔ ‘‘ مثلاً فرمایا: {اِنَّ المُسلِمِینَ وَالمُسلِمٰتِ} (الاحزاب: ۳۵) ’’تمام مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں۔ ‘‘

مضاف عموم کا فائدہ دیتا ہے مثلاً {کُلٌّ اٰمَنَ بِاللٰہِ وَمَلٰٓئِکَتَہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ} (البقرہ:۲۸۵) ’’ہر ایک ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر۔ ‘‘

ادوات شرط سے عموم مستفاد ہوتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {وَمَن یَّعمَل مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَھُوَ مُؤمِنٌ فَلَا یَخٰفُ ظُلماً وَّ لَا ھَضماً} (طٰہٰ: ۱۱۲) ’’پس جو کوئی نیک کام کرے گا اور وہ مومن بھی ہو گا تو اسے کسی ظلم کا ڈر ہو گا نہ کسی نقصان کا خدشہ۔ ‘‘ ارشاد ہے: {فَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ خَیرًایَّرَہٗ} (الزلزال:۷) ’’جو کوئی ذرہ بھر بھلائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا۔ ‘‘ اور فرمان ہے: {فَاِنِ انتَھَوا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ} (البقرۃ:۱۹۲) ’’تم جو نیکی بھی کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {اَینَ مَاتَکُونُوا یُدرِککُّمُ المَوتُ} (النساء:۷۸) ’’تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تم کو پالے گی۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {وَحَیثُ مَاکُنتُم فَوَلُّواوُجُوھَکُم شَطرَہٗ} (البقرہ: ۱۴۴، ۱۵۰)’’اور جہاں کہیں بھی تم ہو اس کی طرف منہ پھیر لو۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَاِذَا رَاَیتَ الَّذِینَ یَخُوضُونَ فِیٓ اٰیٰتِنَا فَاَعرِض عَنھُم} (الانعام:۶۸)’’جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیتوں کے بارے میں بے ہودہ باتیں کرتے ہیں تب آپ ان سے الگ ہو جائیں۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَاِذَا جَآ ئَکَ الَّذِینَ یُؤمِنُونَ بِاٰیٰتِنَا فَقُل سَلٰمٌ عَلَیکُم کَتَبَ رَبُّکُم عَلیٰ نَفسِہِ الرَّحمَۃَ} (الانعام:۵۴) ’’جب وہ لوگ جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں آپ کے پاس آئیں تو ان سے کہہ دیں تم پر سلامتی ہو تمھارے رب نے اپنی ذات پر رحمت لازم کر لی ہے۔ ’’یہ اس وقت ہے جب جواب طلب کرنے کے طور پر ہو اگر شرط کا جواب ماضی میں ہو تب عموم لازم نہیں ہوتا مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَاِذَا رَاَوا تِجَارَۃً اَولَھوًا انفَضُّوٓا اِلَیھَا} (الجمعہ:۱۱) ’’جب یہ لوگ کوئی تجارت یا کوئی کھیل تماشہ دیکھتے ہیں تو اس کی طرف بھاگ جاتے ہیں۔ ‘‘ فرمایا: {اِذَا جَآئَکَ المُنٰفِقُونَ قَالُوا نَشھَدُ اِنَّکَ لَرَسُولُ اللّٰہِ} (المنافقون:۱)’’جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں۔ ‘‘جب شرط کا جواب مستقبل میں ہو تو عموم کی طرف لوٹانے کو لازم قرار دیا ہے مثلاً {وَاِذَا کَالُوھُم اَو وَّزَنُوھُم یُخسِرُونَ} (المطففین:۳)’’ جب وہ لوگوں کو ناپ کریا تول کر دیں تو کم دیں۔ ‘‘ ارشاد ہے: {وَاِذَا مَرُّوابِھِم یَتَغَامَزُونَ} (المطففین:۳۰) ’’وہ جب ان کے پاس سے گزرتے تو حقارت سے اشارے کرتے۔ ‘‘ {اِذَا قِیلَ لَھُم لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یَستَکبِرُونَ} (الصافات:۳۵) ’’بے شک جب ان سے کہا جاتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو وہ تکبر کرتے ہیں۔ ‘‘ اور کبھی کبھی یہ اسلوب عموم کا فائدہ نہیں دیتا۔ {وَاِذَا رَاَیتَھُم تُعجِبُکَ اَجسَامُھُم} (المنافقون: ۴) ’’جب آپ ان کو دیکھتے ہیں تو ان کے جسم آپ کو اچھے لگتے ہیں۔ ‘‘

فصل: امرِ مطلق سے وجوب اس صورت میں مستفاد ہوتا ہے کہ اس امر کی مخالفت کرنے والے کی مذمت کی گئی ہو، ایسے شخص کو نافرمان گردانا گیا ہو اور اس امر کی مخالفت پر کوئی دنیاوی سزا یا اخروی عذاب مرتب ہوتا ہو۔ ‘‘

نہی مطلق سے تحریم اس صورت میں مستفاد ہوتی ہے کہ اس کے مرتکب کی مذمت کی گئی ہو، اسے نافرمان گردانا گیا ہو اور اس کے ارتکاب پر عذاب مرتب ہوتا ہو۔

وجوب کبھی تو محض امر سے مستفاد ہوتا ہے کبھی وجوب، فرضیت اور لزوم کی تصریح سے اخذ ہوتا ہے اور کبھی لفظ ’’عَلٰی‘‘ اور کبھی ’’حَقٌّ عَلَی العِبَادِ وَعَلَی المُؤمِنِینَ‘‘ جیسے الفاظ وجوب کا فائدہ دیتے ہیں۔

تحریم، نہی سے مستفاد ہوتی ہے نیز تحریم و حرمت کی تصریح، فعل حرام پر وعید، فاعل کی مذمت اور اس فعل کا کفارہ تحریم کا فائدہ دیتے ہیں۔

(لَایَنبَغِی) کا فقرہ قرآن اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لغت میں عقلا ً اور شرعاً ممانعت کے لیے ہے۔ اسی طرح {مَاکَانَ لَھُم کَذَا وَکَذَا، لَم یَکُن لَھُم} فعل پر حد کا مرتب ہونا، {لَایَحِلُّ) اور لَایَصلُحُ} کا فقرہ، فعل کو فساد سے متصف کرنا نیز یہ کہ فعل مذکور شیطان کی طرف سے آراستہ کیا گیا اور شیطانی فعل ہے، اللہ تعالیٰ کا اس فعل کو پسند نہ کرنا، بندوں کے لیے اس فعل پر راضی نہ ہونا، اس کے فاعل کو پاک نہ کرنا، اس کے ساتھ کلام نہ کرنے اور اس کی طرف نہ دیکھنے کی وعید سنانا اور اس قسم کے تمام اسالیب تحریم کے لیے ہیں۔

فعل کے ارتکاب کی اجازت و اختیار، اس کو حرام ٹھہرانے کے بعد اس کے فعل کا حکم دینا، اس فعل پر گناہ، حرج اور مواخذے کی نفی، اس بات کی خبر کہ اللہ تعالیٰ اس کے مرتکب کو معاف کر دیتا ہے، زمانہ وحی میں مرتکب کو اس فعل پر باقی رکھنا، اس شے کو حرام ٹھہرانے والے کا انکار کرنا، اس بات کی خبر دینا کہ یہ تمام اشیاء ہمارے لیے تخلیق کی گئی ہیں اور انھیں ہمارے لیے بنایا گیا ہے اور ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا اپنے احسان کا ذکر کرنا، سابقہ امتوں کے کسی فعل کی اس کے مرتکب کی مذمت کیے بغیر خبر دینا … اباحت کا فائدہ دیتا ہے۔

اگر اس کی خبر کسی ایسی مدح کے ساتھ مقرون ہو جو اس کے راجح ہونے پر دلالت کرتی ہو تو استحباب اور وجوب کا فائدہ دیتی ہے۔

فصل:ہر وہ فعل جس کی اللہ اور اس کے رسول نے تعظیم کی ہویا اس کی مدح کی ہو یا اس فعل کی وجہ سے اس کے فاعل کی مدح کی ہو یا اس فعل پر فرحت کا اظہار کیا ہو یا اس فعل کو پسند کیا ہو یا اس کے فاعل کو پسند کیا ہو یا اس فعل اور اس کے فاعل پر رضا کا اظہار کیا ہو یا اس فعل کو پاک، بابرکت اور اچھا ہونے کی صفت سے متصف کیا ہو یا اس فعل کو دنیا و آخرت میں اللہ کی محبت اور ثواب کا سبب قرار دیا ہویا اس فعل کو اس بات کا سبب قرار دیا ہو کہ اللہ تعالیٰ اس فعل پر اپنے بندے کو یاد کرتا یا اس کا قدردان ہوتا ہے یا وہ اسے اپنی ہدایت سے نوازتا ہے یا اس کے فاعل کو راضی کرتا ہے یا اس فعل کے فاعلین کو پاکیزگی کی صفت سے موصوف کرتا ہے یا اللہ اس فعل کا یہ وصف بیان کرتا ہے کہ یہ معروف ہے یا اس کے فاعل سے حزن و خوف کی نفی کرتا ہے یا اس فعل پر امن کا وعدہ کرتا ہے یا اس فعل کو اپنی ولایت وسرپرستی کا سبب قرار دیتا ہے یا وہ اس فعل کے بارے میں اس بات کی خبر دیتا ہے کہ انبیاء ورسل نے اس فعل کے حصول کی دعا مانگی ہے یا اس کو تقرب الٰہی کا ذریعہ قرار دیا ہے یا اللہ تعالیٰ نے اس فعل یا اس کے فاعل کی قسم کھائی ہو مثلاً اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے گھوڑوں اور ان کے گرد اڑانے کی قسم کھائی ہے یا یہ بات بتائی گئی ہو کہ اللہ تعالیٰ اس فعل کے فاعل پر ہنسا یا اللہ تعالیٰ کو یہ فعل اچھا لگا … یہ تمام امور اس کی مشروعیت کی دلیل ہیں اس میں وجوب اور ندب دونوں مشترک ہیں۔

فصل: ہر وہ فعل جس کو ترک کرنے کا شارع نے مطالبہ کیا ہو یا اس کے فاعل کی مذمت کی ہو یا اس کو معیوب قرار دیا ہو یااس کے فاعل پر ناراضی کا اظہار کیا ہو یا اس پر لعنت بھیجی ہو یا اس سے اور اس کے فاعل سے اپنی محبت کی نفی کی ہو یا اس سے اور اس کے فاعل سے اپنی رضا کی نفی کی ہو یا اس کے فاعل کو جانوروں سے تشبیہ دی ہو یا اس فعل کو ہدایت سے مانع قرار دیا ہو یا اس کو برائی اور کراہت سے موصوف کیا ہو یا انبیائے کرام نے اس فعل سے پناہ مانگی ہو یا اسے برا سمجھا ہو یا اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو فلاح کی نفی کا سبب قرار دیا ہو یا دنیا و آخرت کے عذاب کا باعث قرار دیا ہو یا اسے کسی مذمت و ملامت یا گمراہی و نافرمانی کا ذریعہ بتایا ہو یا اس کو خبث، رجس اور نجس کے اوصاف سے متصف کیا ہویا اسے فسق اور گناہ کہا ہو یا اسے گناہ اور جس یا لعنت اور غضب یا زوال نعمت کا سبب قرار دیا ہو یا اسے اللہ تعالیٰ کی ناراضی، کسی حد یا قساوت اور رسوائی یا کسی جان کے مقید ہونے یا اللہ تعالیٰ کی عداوت، اس کے ساتھ جنگ یا اس کے ساتھ تمسخر واستہزاء کا باعث قرار دیا ہو یا اسے فاعل کے نسیان کا سبب بتایا ہو یا اللہ تعالیٰ نے اس فعل پر اپنے آپ کو صبر، حلم اور درگزر کی صفت سے متصف کیا ہو یا بندے کو اس فعل سے توبہ کرنے کے لیے کہا ہو یا اس کے فاعل کو خبث اور حقارت کے اوصاف سے موصوف کیا ہو یا اس فعل کو شیطان یا اس کی زینت کی طرف منسوب کیا ہو یا اس کے فاعل کے بارے میں یہ بتایا ہو کہ اس کا سرپرست شیطان ہے یا اسے کسی قابل مذمت صفت سے متصف کیا ہو مثلاً اسے ظلم و زیادتی، بغاوت یا گناہ کہا ہو‘‘یا  انبیاء ورسل نے اس فعل اور اس کے فاعل سے برأت کا اظہار کیا ہو اور اللہ تعالیٰ کے پاس اس کے فاعل کا شکوہ کیا ہو یا انھوں نے اس کے فاعل کے ساتھ عداوت کا اعلان کیا ہو یا اللہ تعالیٰ نے اسے اس کے فاعل کے لیے دنیا و آخرت میں ناکامی کا سبب گردانا ہو یا اللہ تعالیٰ نے اسے جنت سے محرومی کا باعث قرار دیا ہو یا اس کے فاعل کو اس وصف سے موصوف کیا ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے یا اللہ تعالیٰ اس کا دشمن ہے یا اس کے فاعل کے خلاف اللہ اور اس

کے رسول نے اعلان جنگ کیا ہو یا اس کے فاعل کو دوسروں کے گناہ کے بوجھ کا حامل بتایا گیا ہو یا اس فعل کے بارے میں (لَا یَنبَغِی) ’’یہ مناسب نہیں۔ ‘‘ یا(لَایَصلُحُ) ’’ٹھیک نہیں۔ ‘‘ کا فقرہ استعمال کیا گیا ہو یا اس فعل کے بارے میں سوال کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حکم دیا گیا ہو یا اس فعل سے متضاد فعل کا حکم دیا گیا ہو یا اس کے فاعل سے علاحدگی کا حکم دیا گیا ہو (یا اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہو)کہ اس فعل کے فاعلین قیامت کے روز ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور ایک دوسرے سے برأت کا اظہار کریں گے یا اللہ تعالیٰ نے اس کے فاعل کو ضلالت و گمراہی کی صفت سے موصوف کیا ہو یا اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے (لَیسَ مِنَ اللّٰہِ فِی شَیئٍ) ’’یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں۔ ‘‘ فرمایا ہو یا اس کے بارے میں کہا گیا ہو کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے نہیں یااسے کسی ایسی حرام چیز سے مقرون کیا گیا ہو جس کی تحریم کا حکم واضح ہو اور خبر واحد میں اس کو بیان کیا گیا ہو یا اس سے اجتناب کو فوز و فلاح کا سبب گردانا گیا ہو یا اسے مسلمانوں کے مابین عداوت اور بغض پیدا کرنے کا سبب بتایا گیا ہو یا اس کے فاعل کے بارے میں کہا گیا ہو (ہَل اَنتَ مُنتَہٍ) ’’کیا تو باز آئے گا؟‘‘ یا انبیاء ورسل کو اس کے فاعل کے لیے دعا کرنے سے روکا گیا ہو یا اس پر اللہ کی رحمت سے دوری مرتب ہوتی ہو یا اس کے بارے میں (قُتِلَ مَن فَعَلَہُ) اور (قَاتَلَ اللّٰہُ مَن فَعَلَہُ)’’وہ ہلاک ہوا جس نے یہ کام کیا۔ اللہ اسے ہلاک کرے جس نے یہ کام کیا‘‘ یا اللہ تعالیٰ نے اس کے فاعل کے بارے یہ خبر دی ہو کہ (لَایُکَلِّمُہُ اللّٰہُ یَومَ القِیَامَۃِ وَلَا یَنظُرُ اِلَیہِ وَلَا یُزَکِّیہِ) ’’قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس سے کلام کرے گا نہ اس کی طرف دیکھے گا اور نہ اسے پاک کرے گا۔ ‘‘ یا یہ خبر دی گئی ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کے عمل کی اصلاح نہیں کرے گا اور اس کے مکر کو راہ یا ب نہیں کرے گا یا اس کے بارے میں کہا گیا ہو کہ اس کا فاعل فلاح نہیں پائے گا اور قیامت کے روز وہ گواہوں اور سفارشیوں میں سے نہ ہو گا یا اس فعل کے بارے میں کہا گیا ہو کہ اللہ تعالیٰ کو اس پر غیرت آتی ہے یا اللہ تعالیٰ نے اس فعل میں فساد کے کسی پہلو پر متنبہ فرمایا ہو یا اس کے بارے میں یہ خبر دی ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کے فاعل سے کوئی فدیہ قبول نہیں فرمائے گا یا اس کے فاعل کے بارے میں یہ خبر دی ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے شیطان مقرر کر دیتا ہے جو اس کا ساتھی ہوتا ہے یا اس فعل کو فاعل کے دل کی کجی کا سبب قرار دیا ہو یا اس فعل کو آیاتِ الٰہی کے فہم اور اس کی نعمتوں سے دور ہٹانے کا سبب بتایا گیا ہو یا اللہ تعالیٰ نے فاعل سے فعل کی علت کے بارے میں سوال کیا ہو مثلاً {لِمَ فَعَلَ} ’’کیوں کیا؟‘‘ مثلاً: {لِمَ تَصُدُّونَ عَن سَبِیلِ اللّٰہِ مَن اٰمَنَ } (آل عمران: ۹۹) ’’تم اس شخص کو اللہ کے راستے سے کیوں روکتے ہو جو ایمان لایا ؟‘‘ {لِمَ تَلبِسُونَ الحَقَّ بِالبَاطِلِ} (آل عمران:۷۱) ’’تم حق کو باطل کے ساتھ کیوں گڈمڈ کرتے ہو؟‘‘ {مَامَنَعَکَ اَن تَسجُدَ} (صٓ : ۷۵) ’’تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا؟‘‘ {لِمَ تَقُولُونَ مَا لَاتَفعَلُونَ} (الصف:۲) ’’تم وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے؟‘‘

یہ اسلوب صرف اس صورت میں ہے کہ اس کا جواب ساتھ نہ دیا گیا ہو اگر جواب موجود ہو تو اس کی اہمیت جواب کے مطابق ہو گی۔

یہ اور اس قسم کے دیگر اسالیب فعل کی ممانعت پر دلالت کرتے ہیں اور یہ اسلوب کسی فعل کی مجرد کراہت سے زیادہ اس کی تحریم پر دلالت کرتا ہے۔

لفظ (یَکرَھُہُ اللّٰہُ وَرَسُولُہ) ’’اسے اللہ اور اس کا رسول ناپسند کرتے ہیں۔ ‘‘ اور (مکروہ) ہو تو یہ اکثر حرام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور کبھی کبھی کراہت تنزیہی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔

یہ فقرہ (وَاَمَّا اَنَا فَلَا اَفعَلُ) ’’اور رہا میں تو میں یہ کام نہیں کرتا۔ ‘‘ تو اس بارے میں تحقیق یہ ہے کہ یہ کراہت کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے (اَمَّا اَنَا فَلَا اٰکُلُ مُتَّکِئاً)  ’’رہا میں تو میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا۔ (‘‘(تصنیف بدائع الفوائد)

لفظ(مَایَکُونُ لَکَ)اور(مَایَکونُ لَنَا ) ہو تو اس کا عام استعمال حرام امور کے بارے میں ہوتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{فَمَا یَکُونُ لَکَ اَن تَتَکَبَّرَ فِیھَا} (الاعراف:۱۳) ’’تیرے شایاں نہیں کہ تو اس کے اندر تکبر کرے۔ ‘‘{وَمَا یَکُونُ لَنَآ اَن نَّعُودَفِیھَآ} (الاعراف:۸۹) ’’ہمارے شایاں نہیں کہ ہم اس کے اندر دوبارہ لوٹیں۔ ‘‘ {مَایَکُونُ لِیٓ اَن اَقُولَ مَا لَیسَ لِی بِحَقٍّ} (المائدہ:۱۱۶) ’’میرے شایاں نہیں کہ میں وہ بات کہوں جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہیں۔ ‘‘(ماخوذ: تیسیرالکریم الرحمٰن فی تفسیر کلام المنان )

فصل: لفظ (اِحلَال) ’’حلال ٹھہرانا‘‘ (رَفعُ الجُنَاح) ’’گناہ نہ ہونا‘‘ (اَلاِذن) ’’اجازت‘‘ (اَلعَفو) ’’معاف کرنا‘‘ (اِنشِئتَ فَافعَل وَاِن شِئتَ فَلَا تَفعَل) ’’اگر تو چاہے تو کر لے اور اگر نہ چاہے تو نہ کر۔ ‘‘بعض اشیاء کے فوائد پر احسان کا ذکر اور بعض افعال سے متعلق منافع کا تذکرہ مثلاً {وَمِن اَصوَافِھَا وَاَوبَارِھَا وَاَشعَارِھَآ اَثَاثاً وَّ مَتَاعاً اِلیٰ حِینٍ} (النحل:۸۰) ’’ان بھیڑوں کی اون، اونٹوں کی پشم اور بکریوں کے بالوں سے تم سامان اور گھر میں استعمال کی چیزیں بناتے ہو جو ایک مدت تک کام دیتی ہیں۔ ‘‘ اور {وَبِالنَّجمِ ھُم یَھتَدُونَ} (النحل:۱۶) ’’اور وہ ستاروں کے ذریعے سے راہ پاتے ہیں۔ ‘‘ اس قسم کے اسلوب سے اباحت مستفاد ہوتی ہے۔ کسی چیز کی تحریم کے بارے میں خاموشی اور زمانہ وحی میں کسی فعل کے مرتکب کو اس فعل پر برقرار رکھنا وغیرہ بھی اباحت کا فائدہ دیتے ہیں۔

فائدہ: کسی فعل پر اللہ تعالیٰ کا اظہار تعجب کرنا جہاں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس فعل کو پسند کرتا ہے جیسے (عَجِبَ رَبُّکَ مِن شَابٍّ لَیسَت لَہٗ صَبوَۃٌ  ماخوذ: تیسیرالکریم الرحمٰن فی تفسیر کلام المنان)

 ’’تیرا رب اس نوجوان سے بہت خوش ہوتا ہے جس میں جوانی کی نادانی نہ ہو۔ ‘‘ وہاں کبھی کبھی اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدگی پر بھی دلالت کرتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {وَاِن تَعجَب فَعَجَبٌ قَولُھُم} (الرعد:۵) ’’اگر تو تعجب کرے تو تعجب والی بات یہ ہے کہ ان کا سوال ہی عجیب ہے۔ ‘‘ فرمایا: {بَل عَجِبتَ وَیَسخَرُونَ} (الصّٰفّٰت : ۱۲) ’’بلکہ تو تعجب کرتا ہے اور یہ مذاق اڑاتے ہیں۔ ‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد {وَکَیفَ تَکفُرُونَ وَاَنتُم تُتلیٰ عَلَیکُم اٰیٰتُ اللّٰہِ وَفِیکُم رَسُولُہٗ}(آل عمران:۱۰۱) ’’تم کیسے کفر کرتے ہو حالاں کہ تمھارے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں اور اس کا رسول تمھارے اندر موجود ہے۔ ‘‘ اور کبھی یہ امتناع حکم اور عدم حسن پر بھی دلالت کرتا ہے مثلاً فرمایا: {کَیفَ یَکُونُ لِلمُشرِکِینَ عَھدٌ عِندَ اللّٰہِ} (التوبہ:۷) ’’بھلا مشرکوں کے لیے اللہ کے نزدیک عہد کیوں کر ہو سکتا ہے۔ ‘‘ اور کبھی تقدیری طور پر حسن ممانعت پر دلالت کرتا ہے نیز یہ کہ اس کا یہ فعل اس کے لائق ہی نہیں مثلاً فرمایا : {کَیفَ یَھدِی اللّٰہُ قَوماً کَفَرُوا بَعدَ اِیمَانِھِم} (آل عمران:۸۶) ’’اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو کیسے ہدایت دے جنھوں نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا؟۔ ‘‘

فائدہ : قرآن مجید میں عدم مساوات کا ذکر کبھی تو دو افعال کے مابین ہوتا ہے مثلاً فرمایا: {اَجَعَلتُم سِقَایَۃَ الحَآجِّ وَعِمَارَۃَ المَسجِدِ الحَرَامِ کَمَن اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالیَومِ الاٰخِرِ} (التوبہ:۱۹) ’’کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کو آباد کرنے کو اس شخص کے اعمال کی مانند سمجھ لی ہے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لایا؟۔ ‘‘

عدم مساوات کا ذکر کبھی فاعلوں کے مابین ہوتا ہے مثلاً: { لَا یَستَوِی القٰعِدُونَ مِنَ المُؤمِنِینَ غَیرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالمُجٰھِدُونَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ } (النساء: ۹۵) ’’مومنوں میں سے جو لوگ جہاد سے جی چراکر گھر بیٹھ رہتے ہیں اور عذر نہیں رکھتے اور جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ ‘‘

عدم مساوات کا ذکر کبھی دو افعال کی جزا کے مابین ہوتا ہے مثلاً : {لَایَستَوِیٓ اَصحٰبُ النَّارِوَاَصحٰبُ الجَنَّۃِ} (الحشر:۲۰) ’’جہنم والے اور جنت والے برابر نہیں ہو سکتے ہیں۔ ‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے تینوں چیزوں کے مابین عدم مساوات کا ذکر ایک ہی آیت میں جمع کر دیا ہے مثلاً {وَمَا یَستَوِی الاَعمٰی وَالبَصِیرُ وَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّورُ} (فاطر:۱۹۔ ۲۰) ’’اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں ہوتا اور نہ اندھیرے اور روشنی برابر ہوتے ہیں۔ ‘‘

فائدہ : قرآن مجید میں مذکور ضرب الامثال سے مندرجہ ذیل امور مستفاد ہوتے ہیں :

تذکیر، وعظ و نصیحت، کسی فعل پر آمادہ کرنا، زجر و توبیخ، عبرت، کسی فعل پر برقرار رکھنا، مراد کو عقل کے قریب کرنا، مراد کو محسوس صورت میں اس طرح پیش کرنا کہ عقل سے اس کی نسبت ایسے ہی ہو جیسے محسوس کی نسبت حس سے ہوتی ہے۔

قرآن مجید میں ایسی ضرب الامثال بھی وارد ہوئی ہیں جو تفاوت اجر، مدح و ذم، ثواب، کسی معاملے کی تعظیم یا تحقیر اور کسی معاملے کی تحقیق یا اس کے ابطال پر مشتمل ہوتی ہیں۔

فائدہ: سیاق کلام مجمل کو واضح کرنے، محتمل کو متعین کرنے، غیر مراد معنی کے عدم احتمال کو قطعی بنانے کے لیے عام کی تخصیص، مطلق کی تقیید اور تنوع دلالت پر راہ نمائی کرتا ہے۔ سیاق کلام متکلم کی مراد پر دلالت کرنے والاسب سے بڑا قرینہ ہے جو سیاق کلام کو مد نظر نہیں رکھتا وہ اپنے فکر و نظر میں غلطی کرتا ہے اور اپنی بحث میں مغالطے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں غور کیجیے! {ذُق اِنَّکَ اَنتَ العَزِیزُالکَرِیمُ} (الدخان:۴۹) ’’اب تو مزا چکھ! تو بہت با عزت اور بڑا سردار ہے۔ ‘‘ آپ اس کلام کا وہ سیاق کیسے پاتے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ بڑا ذلیل اور حقیر ہے؟

فائدہ : محسوس اور واقع چیز کے بارے میں رب تعالیٰ کی خبر متعدد فوائد کی حامل ہوتی ہے، مابعد امور کے ابطال کو آسان کرنے اور اس کے مقدمے کے طور پر اس کا نصیحت اور یاددہانی کا باعث ہونا، اس کا توحید الوہیت، صداقت رسول اور زندگی بعدِ موت کی خبر کا گواہ ہونا، اللہ تعالیٰ کے احسانات کے تذکرے کے طور پر، ملامت اور زجر و توبیخ کے طور پر مدح یا مذمت کے طور پر یہ خبر دینے کے لیے کہ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور اسی نوع کے بعض دیگر فوائد۔ (ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کا اقتباس ختم ہوا)

یہ انتہائی نفیس کلام ہے اور علم تفسیر سے متعلق بہت سے اصول و ضوابط پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کو جزائے خیر دے۔

میں کہتا ہوں کہ قرآن مجید متعدد علوم پر مشتمل ہے جن کا اس میں بار بار اعادہ کیا گیا ہے مثلاً

(۱) ضرب الامثال جن کا ذکر علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے ان فوائد میں کیا ہے جنھیں ہم گزشتہ صفحات میں نقل کر چکے ہیں۔

(۲) اہل سعادت اور اہل شقاوت کا تذکرہ۔ اس کے متعدد فائدے ہیں :

الف: وہ اوصاف جن سے اہل خیر متصف ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا پر دلالت کرتے ہیں نیز یہ اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ اوصاف حمیدہ ہیں۔

ب: وہ اوصاف جن سے اہل شر متصف ہیں، وہ اس حقیقت کی طرف راہ نمائی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان اوصاف کو سخت ناپسند کرتا ہے اور یہ اوصاف قابل مذمت ہیں۔

(۳) اس میں ثنائے حسن کا بیان ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دنیا میں نوازتا ہے۔ اس ثنائے حسن کی

حیثیت دنیاوی ثواب کی سی ہے اور (قرآن کے اندر) ان اوصاف قبیحہ کا بیان ہے جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو رسوا کرتا ہے اور ان اوصافِ قبیحہ کی حیثیت دنیاوی عذاب اور سزا کی سی ہے۔

(۴) قرآن مجید میں ایسے امور کا تذکرہ ہے جو نفوس انسانی کو اہل خیر کی پیروی کرنے پر ابھارتے ہیں، بھلائیوں  میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں، اصحاب اعمال کو اعمال بجا لانے کے لیے چست اور ہشاش بشاش رکھتے ہیں اور اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ جو ان اعمال کو بجا لاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا دوست ہے۔

(۵) قرآن مجید میں اصحاب شر کے افعال سے ڈرایا گیا ہے اور ان گناہوں کو ناپسند ٹھہرایا گیا ہے جن کی تاثیر گناہ گاروں کے لیے بہت بری ہے۔

(۶) قرآن مجید میں اصحاب خیر اور اصحاب شر کی صفات کا ذکر اعتبار کے طور پر کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو کوئی ان جیسے فعل کا ارتکاب کرے گا وہ ان جیسے ثواب و عتاب کا مستحق ہو گا۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک سے زیادہ مقامات پر اعتبار پر زور دیا ہے اور ’’اعتبار ‘‘ کا معنی ہے ایک چیز سے گزر کر دوسری چیز تک پہنچنا اور کسی چیز کو اس کی نظیر پر قیاس کرنا۔

(۷) بندہ جب اصحاب خیر کے اعمال پر نظر ڈالتا ہے پھر اپنی کوتاہی کو دیکھتا ہے کہ وہ ان اعمال کو بجا لانے سے قاصر ہے تو اپنے نفس کو اس کوتاہی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور اسے حقیر سمجھتا ہے یہ زاویہ نظر اس کے لیے عین بھلائی ہے جیسے اپنے آپ کو خود پسندی او ر تکبر کی نظر سے دیکھنا عین فساد ہے۔

(۸) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور افعال کا ذکر اور اس بات کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام نقائص سے پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور اس کی تقدیس کے ذکر میں عظیم فوائد ہیں :

الف: یہ علم یعنی اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور افعال کا علم علی الاطلاق دیگر تمام علوم سے زیادہ شرف کا

حامل اور جلیل تر ہے پس اس علم کے فہم کے حصول میں مشغول ہونا اور اس کی تحقیق کرنا اس کے بلند ترین مطالب میں مشغول ہونا ہے اور بندے کے لیے اس کا حاصل ہو جانا اللہ تعالیٰ کی خصوصی نوازشات میں سے ہے۔

ب: معرفت الٰہی اللہ تعالیٰ سے محبت، اس سے خوف، اس پر امید اور اس کے لیے اخلاص کی دعوت دیتی ہے۔ اس معرفت کا حصول بندہ مومن کی عین سعادت ہے اور معرفت الٰہی کے حصول کا اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی معرفت حاصل کی جائے اور ان کے معانی کو سمجھنے کے لیے جدوجہد کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء صفات کی جو تفاصیل، توضیحات، ان صفات کی معرفت اور معرفتِ الٰہی کے جو اصول قرآن میں پائے جاتے ہیں وہ کہیں اور نہیں پائے جاتے، تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں۔

ج: اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ وہ اسے پہچان لے اور اس کی عبادت کرے اور یہی چیز ان سے مطلوب و مقصود ہے۔ پس اسماء و صفات کی معرفت میں مشغول ہونا گویا اس امر میں مشغول ہونا ہے جس کے لیے بندے کی تخلیق کی گئی ہے اور ان کی معرفت کے حصول کو چھوڑ دینا گویا اس امر کو مہمل اور بے فائدہ قرار دینا ہے جو بندے کا باعث تخلیق ہے اور بندہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے متواتر فیض یاب ہو اور ہر پہلو سے اس پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہو تو یہ بہت ہی قبیح بات ہے کہ بندہ اپنے رب کے بارے میں جاہل رہے اور اس کی معرفت حاصل کرنے سے گریز کرے۔

د: اللہ تعالیٰ پر ایمان، ایمانیات کا سب سے بڑا رکن ہے بلکہ تمام ارکان سے افضل اور ان کی بنیاد ہے اور ایمان معرفت الٰہی کے بغیر (اٰمَنتُ بِاللّٰہِ) کہنے کا نام نہیں ہے بلکہ ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی معرفت حاصل کرے جس پر وہ ایمان رکھتا ہے اور اس کے اسماء و صفات کی معرفت حاصل کرنے کی جدوجہد کرے تاکہ وہ علم الیقین کے درجہ تک پہنچ جائے۔ بندہ اپنے رب کی جس قدر زیادہ معرفت رکھے گا اسی قدر اس کا ایمان زیادہ ہو گا اور جب کبھی رب تعالیٰ کی معرفت میں اضافہ ہو گا ایمان میں بھی اضافہ ہو گا اور جب معرفت رب میں کمی ہو گی تو ایمان میں بھی کمی واقع ہو جائے گی اور ایمان باللہ کی منزل تک پہنچنے کا قریب ترین راستہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں واقع اس کے اسماء و صفات میں غور و فکر کیا جائے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب کبھی اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے کسی اسم مبارک پر اس کا گزر ہو تو وہ کامل طور پر عمومیت کے ساتھ اس اسم کے معانی کا اثبات کرے اور اس کے متضاد معانی سے اللہ تعالیٰ کو پاک اور منزہ جانے۔

اللہ تعالیٰ کے بارے میں علم حاصل کرنا تمام اشیاء کی بنیاد ہے وہ عارف باللہ جو اللہ تعالیٰ کی حقیقی معرفت رکھتا ہے اللہ تعالیٰ کی صفات و افعال کی معرفت سے ان کاموں پر استدلال کرتا ہے جو اس سے صادر ہوتے ہیں اور ان احکام پر استدلال کرتا ہے جو اس نے مشروع کیے ہیں کیوں کہ اس سے صرف وہی فعل صادر ہوتا ہے جو اس کے اسماء و صفات کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔ پس اس کے تمام افعال عدل، فضل اور حکمت پر مبنی ہیں۔ اسی طرح وہ تمام احکام جو اس نے مشروع کیے ہیں ان کی مشروعیت صرف اس کی حمد و حکمت اور اس کے فضل و عدل کے تقاضے پر مبنی ہے۔ اس کی تمام اخبار حق و صداقت اور اس کے اوامر و نواہی عدل اور حکمت ہیں۔ یہ علم اتنا عظیم اور مشہور ہے کہ اس کی وضاحت کے لیے تنبیہ کی ضرورت ہی نہیں۔ بقول شاعر

وَکَیفَ یَصِحُّ فِی الاَذھَانِ شَیئٌ اِذَا احتَاجَ النَّھَارُ اِلیٰ دَلِیلٍ

’’ذہنوں میں کسی چیز کا صحیح ہونا کیسے قرار پاسکتا ہے جب دن (اپنے وجود کے اثبات کے لیے) کسی دلیل کا محتاج ہو۔ ‘‘

(۹) قرآن مجید میں انبیاء ومرسلین اور ان کی تعلیمات کا ذکر ہے اور اس بات کا ذکر ہے کہ ان کے ساتھ اور ان کی امتوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا گیا۔ اس کے درج ذیل فوائد ہیں :

الف: انبیاء ومرسلین، ان کی صفات اور ان کی سیرت و احوال کی معرفت ان پر ایمان کی تکمیل ہے۔ بندہ مومن انبیاء کی صفات اور امور سیرت و احوال کی جس قدر زیادہ معرفت حاصل کرے اسی قدر انبیاء پر ایمان زیادہ مضبوط ہو گا اور اسی قدر (اس کے دل میں ) ان کی محبت اور ان کی تعظیم و توقیر ہو گی۔

ب: انبیاء ومرسلین خصوصاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم پر کچھ حقوق ہیں ان کی معرفت اور ان کے ساتھ سچی محبت کی معرفت کا صرف یہی ذریعہ ہے کہ ہم ان کی سیرت و احوال کی معرفت حاصل کریں۔

ج: انبیاء ومرسلین کی معرفت اللہ تعالیٰ کے شکر کی موجب بنتی ہے کہ اس نے مومنین میں اپنا ایک رسول بھیج کر ان پر احسان فرمایا۔ یہ رسول ان کو پاک کرتا ہے انھیں قرآن اور سنت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے قبل وہ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔

د: انبیاء ورسل ہی اہل ایمان کے حقیقی مربی ہیں۔ اہل ایمان کو جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اور جو برائی ان سے دور کی جاتی ہے تو وہ انبیاء ہی کے ہاتھوں اور انھی کے سبب سے ہے لہٰذا مومن کے لیے یہ بہت ہی بری بات ہے کہ وہ اپنے مربی اور اپنے معلم کے حالات سے جاہل رہے۔ جب کسی انسان کے بارے میں یہ بات تسلیم نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنے والدین کے حالات کے بارے میں جاہل ہو گا تو اس کے بارے میں یہ بات کیسے تسلیم کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے نبی کے حالات سے آگاہ نہ ہو حالاں کہ نبی اہل ایمان پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں۔ نبی اہل ایمان کا حقیقی باپ ہے جس کا حق حقوق اللہ کے بعد تمام حقوق پر مقدم ہے۔

ہ: اللہ تعالیٰ نے جس فتح و نصرت سے انبیائے کرام علیہم السلام کو سرفراز فرمایا اور راہ حق میں جن مصائب کا ان کو سامنا کرنا پڑا اس میں اہل ایمان کے لیے ایک نمونہ ہے جس سے ان کے قلق و اضطراب میں تخفیف ہوتی ہے کیوں کہ اہل ایمان کو خواہ کتنی ہی تکالیف و شدائد کا سامنا کرنا پڑا ہو وہ ان شدائد و مصائب کا عشر عشیر بھی نہیں جو انبیائے کرام علیہم السلام کو پیش آئیں۔ ارشاد فرماتا ہے: {لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (الاحزاب:۲۱) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

کی سیرت میں تمھارے لیے ایک اچھا نمونہ ہے۔ ‘‘ اور ان کی سب سے بڑی پیروی ان کی تعلیمات کی پیروی، لوگوں کے حسب مراتب ان کو تعلیم دینے کی کیفیت میں ان کی پیروی، لوگوں کو تعلیم دینے میں صبرواستقامت، اچھی نصیحت اور حکمت و دانائی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی طرف

دعوت دینا اور احسن طریقے سے لوگوں کے ساتھ بحث کرنا ہے۔ اس بنا پر اور اس قسم کے دیگر امور کی بنا پر اہل علم کو انبیاء کا وارث کہا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت سے آیات قرآن کی معرفت اور ان کے معانی کا فہم حاصل ہوتا ہے۔ آیات قرآن کی مراد کا فہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصول، اپنی قوم، اپنے اصحاب اور دیگر لوگوں کے ساتھ آپ کی سیرت کی معرفت پر موقوف ہے کیوں کہ زمان و مکان اور اشخاص میں بہت زیادہ اختلاف ہوتا ہے پس اگر انسان، ان مذکورہ امور کی معرفت حاصل کیے بغیر قرآن کے معانی کی معرفت حاصل کرنے کے لیے اپنی پوری کوشش صرف کر دے تو وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے کلام سے اس کی مراد سمجھنے میں بہت زیادہ غلطیاں کرے گا اور اس کو وہی شخص جان سکتا ہے جو جانتا ہے کہ اکثر تفاسیر میں ایسی اغلاط قبیحہ ہیں جن سے اللہ کا کلام پاک ہے۔ اس کے علاوہ اس کے اور بہت سے مفید فوائد اور درست نتائج ہیں۔

(۱۰) علوم قرآن میں اوامر و نواہی کا ذکر ہے جن کے خطاب کا رخ اس امت اور دیگر امتوں کی طرف ہے۔ ان اوامر و نواہی پر عمل پیرا ہونا ان سے مطلوب ہے۔ ان امور کی معرفت میں متعدد فوائد ہیں :

الف: اللہ تعالیٰ نے ان حدود کو پہچاننے کی بہت تاکید کی ہے جو اس نے اپنے رسول پر نازل فرمائی ہیں اور اس شخص کی سخت مذمت فرمائی ہے جس نے ان حدود کو نہ پہچانا۔

ب: اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود میں سے سب سے بڑی حد جس کی معرفت حاصل کرنا واجب ہے اس کے اوامر و نواہی ہیں جن پر عمل پیرا ہونے کا ہمیں مکلّف ٹھہرایا گیا ہے اور ان کو قائم کرنا ان کو سیکھنا اور سکھانا ہم پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ احکام کی تعمیل اور منہیات سے اجتناب صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اوامر و منہیات کی معرفت حاصل کی جائے تاکہ ترک و فعل کے احکام پر عمل ہو سکے کیوں کہ جب مکلف کو کسی چیز کا حکم دیا جاتا ہے تو اولین چیز جو اس پر واجب ٹھہرتی ہے وہ اس بات کی معرفت ہے کہ وہ کیا چیز ہے جس کو بجا لانے کا حکم دیا گیا ہے، کیا کیا امور اس میں داخل ہیں اور کون کون سے امور اس سے باہر ہیں ؟جب بندہ مکلف کو اس بات کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے تو وہ اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد کا طلب گار ہوتا ہے اور حتی الامکان اور مقدور بھر اس پر عمل کرنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔

اسی طرح جب اسے کسی امر سے روک دیا جاتا ہے تو اس امر ممنوع اور اس کی حقیقت کی معرفت حاصل کرنا اس پر واجب ہو جاتا ہے پھر وہ اپنے رب سے مدد طلب کرتے ہوئے اپنی پوری کوشش صرف کر دیتا ہے، اللہ تعالیٰ کے حکم کو بجا لاتے ہوئے اور اس کی منہیات سے اجتناب کرتے ہوئے اس امر ممنوع کو ترک کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور منہیات سے اجتناب دونوں واجب ہیں اور ہر وہ امر جس کے بغیر واجب مکمل نہ ہو وجوب کے زمرے میں آتا ہے پس اس سے تجھے معلوم ہو گیا ہو گا کہ عمل سے پہلے حصول علم ضروری ہے اور علم عمل سے متقدم ہے۔

(۱۱) علوم قرآن میں خیر کی طرف دعوت، نیکی کا حکم اور برائیوں سے ممانعت شامل ہے۔ اس چیز کا حصول خیر کی معرفت حاصل کرنے کے بعد ہی ممکن ہے تاکہ اس کی طرف دعوت دی جا سکے اسی طرح معروف کا حکم دینے اور منکرات سے روکنے کے لیے معروف اور منکر کی معرفت ضروری ہے۔ قرآن مجید احسن انداز سے ان مضامین پر مشتمل ہے نیز وہ انھیں مکمل طور پر اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔

(۱۲) علوم قرآن میں آخرت کے احوال کا تذکرہ بھی شامل ہے کہ مرنے کے بعد کیا ہو گا، یہ وہ امور ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں خبر دی ہے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے موت، قبر، میدان حشر کی ہولناکیوں، جنت اور جہنم کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے۔ ان امور کے علم میں بہت سے فوائد ہیں:

الف: یوم آخرت پر ایمان، ایمانیات کے ان چھ ارکان میں شمار ہوتا ہے جن کے بغیر ایمان کی تصحیح نہیں ہوتی۔ ان کی تفاصیل کی جتنی زیادہ معرفت حاصل ہو گی اتنا ہی زیادہ بندہ مومن کے ایمان میں اضافہ ہو گا۔

ب: ان امور کی حقیقی معرفت انسان پر خوف و رجاء کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ اگر خوف ور جاء سے انسان کا دل خالی ہو جائے تو وہ مکمل طور پر ویران ہو جاتا ہے۔ اگر دل خوف و رجاء سے معمور ہو تو خوف انسان کو گناہوں کے ارتکاب سے روکتا ہے اور رجاء (امید) اس کے لیے نیکی اور اطاعت کو سہل اور آسان بنا دیتی ہے اور یہ چیز ان امور کی معرفت سے حاصل ہوتی ہے جن سے بچا اور ڈرا جاتا ہے مثلاً قبر کے احوال اور ان کی سختی، میدانِ حشر کی ہولناکیاں اور جہنم کے بدترین اوصاف۔

جنت اور اس کی دائمی نعمتوں، مسرتوں، خوشیوں، قلبی، روحانی اور جسمانی نعمتوں کی مفصل معرفت کے سبب سے ایسا اشتیاق پیدا ہوتا ہے جو انسان کو اپنے محبوب و مطلوب کے حصول میں مقدور بھر جدوجہد کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔

ج: اس ذریعے سے بندے کو اللہ تعالیٰ کے فضل، عدل اور اچھے برے اعمال کی جزا اور سزا کی معرفت حاصل ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی کامل حمد و ثنا کی موجب ہے اور ثواب و عتاب کی تفاصیل کے علم کی مقدار کے مطابق بندہ مومن کو اللہ کے فضل و عدل اور اس کی حکمت کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔

(۱۳) علوم قرآن میں اہل باطل کے ساتھ مجادلہ، اہل ظلم کے شبہات کا رد اور دلائل نقلیہ کی تائید میں براہین عقلیہ کا تذکرہ بھی شامل ہے۔ علوم قرآن میں سے اس فن سے خواص علمائے ربانی، راسخ العلم ماہرین اور عقلمند اصحاب بصیرت ہی بہرہ مند ہوتے ہیں۔ قرآن مجید جن دلائل عقلیہ اور براہین قاطعہ پر مشتمل ہے اگر ان تمام دلائل صحیحہ کو جمع کر لیا جائے جو متکلمین کے پاس ہیں تو ان دلائل کی قرآنی دلائل و براہین کے سامنے وہی حیثیت ہے جو ایک بحر بیکراں کے سامنے چڑیا کی چونچ میں پانی کے قطرے کی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن ہی حق ہے اور حق، صدق  و عدل، میزان عدل و انصاف اور صلاح و فلاح پر مشتمل ہے اگر اس نے توحید اور شرک کا ذکر کیا ہے تو اول الذکر کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور دوسرے سے روکا ہے۔ توحید کی صحت، اس کے حسن کے اثبات اور اسے نجات کا راستہ قرار دینے کے لیے براہین قائم کی ہیں۔ شرک کی قباحت اس کے بطلان اور ہلاکت کی راہ ثابت کرنے کے لیے دلائل دیے ہیں۔ بصیرت کے لیے ان کی حیثیت دوپہر کے وقت سورج کی سی ہے۔

اگر قرآن اوامر شرعیہ کا حکم دیتا ہے، آداب اور مکارم اخلاق کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ وہ عقل روشن کو ان ضروری مصلحتوں سے آگاہ کرتا ہے جن پر یہ اوامر شرعیہ مشتمل ہوتے ہیں اور انسان اپنی معاش و معاد میں جن کے محتاج ہوتے ہیں۔ جن کے بارے میں اس کا فیصلہ ہے کہ ان سے بہتر کوئی اور اصول نہیں ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ان اوامر شرعیہ کا شدید تقاضا کرتی ہے۔

اگر قرآن نے حرام چیزوں، برے کاموں اور دیگر خبائث سے روکا ہے تو اس نے اس کے فساد، ضرر اور شر سے آگاہ کیا ہے جن پر یہ خبائث اور محرمات مشتمل ہوتی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی انسانوں پر نعمت ہے کہ اس نے خبائث کو ان پر حرام ٹھہرایا۔ ان کو ان خبائث سے پاک کر کے عزت و تکریم سے نوازا۔ ان کو ان برائیوں میں ملوث ہونے سے محفوظ رکھنا ہر نعمت سے بڑی نعمت ہے پس واضح ہوا کہ تمام مامورات شرعیہ مصالح پر مشتمل ہیں اور تمام محرمات شرعیہ مفاسد کو متضمن ہیں۔

اگر قرآن نے اہل باطل کے ساتھ مناظرہ کیا، اہل تشکیک کے شبہات کا تار پود بکھیر ا اور اہل ضلالت کے نظریات کا ابطال کیا تو آپ کہہ دیجیے کہ اس نے حق کو حق ثابت کیا، باطل کا رد کیا، کسی گمراہ کو راستہ دکھایا، معاندین حق کے خلاف حجت قائم کی اور واضح کر دیا کہ باطل کے اندر ذرہ بھر بھی حق نہیں ہوتا بلکہ باطل اپنے نام کی طرح فاسد ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ چند نام ہیں جن سے انھوں نے باطل کو موسوم کر کے سجارکھا ہے اگر ان کو ہٹا دیا جائے تو معلوم ہو گا یہ باطل نظریات گرد و غبار کے سوا کچھ بھی نہیں۔

آپ دیکھیں گے کہ قرآن مجید عقلی دلائل و براہین کو واضح ترین اور مختصر عبارت میں پیش کرتا ہے۔ یہ دلائل اعتراضات، تناقض اور ابہام سے محفوظ ہیں۔ وہ ایک ہی کلمہ میں ایجاز و اختصار کے طور پر عقلی اور نقلی دلائل کو جمع کر دیتا ہے اور مطلوب و مقصود میں خلل واقع نہیں ہونے دیتا اور کبھی کبھی تفصیل سے کام لیتا ہے اور پے درپے اس طرح دلائل بیان کرتا ہے کہ اس کا کچھ حصہ ہی وضاحت کے لیے کافی ہوتا ہے۔ فَلِلّٰہِ الحَمدُ وَالشُّکرُ

ان شاء اللہ یہ بہت ہی مفید مقدمہ ہے۔ مسلمان کے لیے مناسب ہے کہ اس کے اہم مقامات پر تتبع اور استقراء سے کام لے اور جب مذکورہ مطالب اس کے سامنے آئیں تو تفصیلاً ان پر توجہ دے لہٰذا جو کوئی اس مقدمہ میں شامل اصولوں کو آیات کے سمجھنے میں استعمال کرے گا تو وہ ان سے بہت فائدہ اٹھائے گا۔ {ذٰلِکَ فَضلُ اللّٰہِ یُؤتِیہِ مَن یَّشَآءُ وَاللّٰہُ ذُوالفَضلِ العَظِیمِ} (الجمعہ:۴)

٭٭٭

ماخوذ:تفسیر سراج البیان، حضرت مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ

ٹائپنگ: ام ثوبان

http://siratulhuda.com/forum

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید