فہرست مضامین
تابوت
اور دوسری کہانیاں
علی اکبر ناطق
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
پگڑی باندھ لی
مجھے فیصلے پر اعتراض نہیں تھا لیکن یہ بات نہ جانے کیوں میری سمجھ میں نہ آئی کہ جہاں بھی جرم ہو تا یہ دونوں موقع پر سب سے پہلے کیسے پہنچ جاتے۔ گاؤں میں ڈاکو آگھستا تو یہ پیچھا کرتے۔ چوری ہو جاتی تو کھوجی کے ساتھ سارا سارا دن یہ خوار ہوتے۔ ایسا کئی دفعہ ہوا کہ گاؤں والوں کے برے بھلے میں کام آئے۔ لو گ تحسین آمیز نظروں سے دیکھتے، مگر جانے کیوں میں ان سے حسد کرتا۔ یہ جب بھی کوئی اچھا کام کرتے میں جل اٹھتا۔ شاید اس لئے کہ وہ میری بالکل عزت نہیں کر تے تھے۔ یا پھر میں شکی مزاج تھا کہ ہر بات میں کیڑے نکالتا۔
بہرحال گاؤں کے معززین اور سکول کے اساتذہ نے باہمی اتفاق سے فیصلے پر دستخط کر دیے، کیوں کہ یہ گاؤں کی عزت کا معاملہ تھا۔ وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ ان کے گاؤں کی لڑکی کے ساتھ دوسرے گاؤں کا کوئی لڑکا عشق لڑائے۔ لہٰذا اب وسیم کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ یہاں پر اپنی تعلیم جاری رکھ سکے، بلکہ وہ شکر کرے کہ اسے صرف مار پیٹ کر فارغ کر دیا گیا۔ گاؤں کے تمام لوگوں نے اس فیصلے کو آفرین کہا اور اور شیدے کو شاباش دی جس نے اپنے دوست فیکے گجر کے ساتھ مل کر رانو اور لونڈے وسیم کو گنے کے کھیت میں جا دبوچا تھا اور پکڑ کے پنچایت کے آگے کر دیا تھا۔
اسکول سے فارغ کرنے کے علاوہ وسیم کے والدین کو یہ بھی بتا دیا گیا کہ آئندہ اسے اس گاؤں کے حدود میں دیکھا گیا تو ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔
باوجود اس کے کہ مجھے وسیم سے کوئی ہمدردی نہ تھی، پہلے کی طرح آج بھی ان کا یہ معرکہ اچھا نہ لگا۔یہی حالت علوی کی تھی۔ علوی کا گھر بالکل میرے سامنے تھا۔ کوئی تیس کے پیٹے میں ہو گا۔ تعلیم اچھی خاصی تھی۔ عورت کی جنسیت پر بولنے کا اتنا چسکا کہ شاید ہی کسی میں ہو۔اس معاملے میں اس کی ہمدردیاں وسیم اور رانو کے ساتھ تھیں ۔ شیدا اور فیکا گجر قابل نفرین تھے جنہوں نے بیچ کھیت کھنڈت ڈال دی۔
بہر حال کچھ دنوں میں یہ قضیہ آیا گیا ہو ا اور معاملات معمول پر آ گئے۔
ہائی سکول ہمارے گھر سے سو قدم کی راہ پر تھا اور سکول کی عمارت گاؤ ں کی آخری نکڑ پر تھی، جس کے آگے کھیت کھلیان شروع ہو جاتے۔ شام ڈھلے گاؤں کے مضافات کی فضا انتہائی رومانوی ہو جاتی۔ پرندے اندھیرا چھا جانے سے پہلے اپنے گھروں کو جانے لگتے۔ جب وہ سکول کے میدان کے اوپر سے قطار اندر قطار اڑتے اور افق میں آہستہ آہستہ گم ہو جاتے تو انہیں دیکھنے میں بہت مزہ آتا۔ میں اور علوی روزانہ یہ نظارہ کرنے کے لئے سکول کے گیٹ کے آگے آ کر کھڑے ہو جاتے اور گھنٹوں کھڑے ادھر ادھر کی مارتے رہتے، یہاں تک کہ عشاء کی اذانیں بھی وہیں پر سنائی دیتیں اور ہمارا یہ عمل اتنا متواتر ہو گیا کہ اگر کسی دن وہاں کھڑے نہ ہو سکتے تو یوں محسوس ہو تا گویا اہم فرض قضا ہو گیا۔
گاؤں کی اکثر عورتیں جن کے گھروں میں رفع حاجت کا انتظام نہ تھا شام کے جھٹ پٹے میں ٹولیوں کی شکل میں کھلیانوں کا رخ کرتیں ۔ رانو واقعے کے بعد غالباً ایک ماہ کسی کو نظر نہ آئی، حتیٰ کہ رفع حاجت کے لئے بھی باہر آتی جاتی ہم نے نہ دیکھی۔ پھر رفتہ رفتہ دیگر عورتوں کے ساتھ دیکھی جانے لگی۔ قریباً دو ماہ بعد توپوں چلنے پھر نے لگی گویا کوئی واقعہ ہی نہ ہوا تھا۔
اس کا گھر ہماری گلی سے دوسری والی گلی میں تھا۔ شیدے اور فیکے کا گھر بھی اسی گلی میں تھا۔ بلکہ فیکا تو عین اس کے سامنے والے گھر میں رہتا تھا۔ اس کی بیٹھک کے آگے نیم کا سایہ دار پیڑ تھا جس کے نیچے چارپائی پڑی رہتی۔ اب شیدے اور فیکے کا اکثر وقت اسی چارپائی پر گزرتا اور خوب قہقہے اڑتے۔ دن گزرنے کے ساتھ قہقہے فقرے بازی میں بدل گئے اور گاؤں کے لوگوں میں چہ می گوئیاں شروع ہو گئیں ۔ یہاں تک کہ بات اب پڑوسیوں سے نکل کر دیگر لوگوں میں بھی چلی گئی لیکن سامنے آ کر کوئی نہ ٹوکتا کہ دونوں جوان گاؤں کے چودھریوں میں سے تھے۔
ادھر رانو غضب کی خوبصورت تھی اور گھر میں کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ ایک بوڑھا باپ جو سارا دن بکریاں چراتا، شام تھکا ہارا سوجاتا، اور ماں کو مرے آٹھ سال ہوئے۔ چنانچہ کہاں تک بچتی، چند دنوں میں راہ پر آ گئی اور خفیہ اشارے ہونے لگے۔ پھر اشارے کھل کھیلنے میں تبدیل ہو گئے،لیکن گاؤں میں کو ئی ایسا بھونچال نہ آیا جس سے وہ محتاط رویہ اختیار کرتے۔ بلکہ رانو اب دونوں کے ساتھ بیچ بازار میں گپ مارتی اور کھلکھلا کر ہنستی۔ایک دفعہ تو میں نے خود اسے شیدا سے بات کرتے ہوئے دیکھا۔ بہت غصہ آیا اور میرا جی چاہا کہ اس کے خنجر گھونپ دوں ۔ سارے گاؤں سے آنکھ لڑاتی مگر ان سے دور رہتی۔ جب میں نے یہ بات علوی کو بتائی تو اس نے بھی بے حیا کو بہت کوسا۔ کہنے لگا،دیکھ بھا ئی عورت میں حیا رہے تو رہے، ورنہ یوں عقل سے جاتی ہے۔‘‘ خیر اس کے بعد ہم نے کبھی اس کا تذکرہ نہ کیا۔ شاید ہمارے پاس گفتگو کو اور بہت سے موضوع تھے، یا ویسے ہی وہ ہمارے خیال میں نہ آئی،حتیٰ کہ مہینے گزر گئے۔
ایک دن ہم سکول کے گیٹ کے سامنے کھڑے تھے اور معمول کے مطابق ہمیں کھڑے کھڑے رات دس بج گئے۔ گاؤں میں یہ وقت ہو تا ہے جب پچانوے فیصد دیہاتی سوئے ہوتے ہیں ۔ اچانک ہمارے پاس سے تین آدمی گزرے جن میں دو کو ہم نے بخوبی پہچان لیا۔ ایک شیدا اور دوسرا فیکا تھا۔ لیکن تیسرا آدمی جس کے سرپرپگڑی بندھی تھی اور ہاتھ میں کلہاڑی تھی، قد دونوں سے چھوٹا تھا، باوجودیکہ چاندنی رات تھی لیکن ہمارے پہچان میں نہ آیا۔ میں تو نظر انداز کر دیتا لیکن علوی کی متجسس آنکھیں بھانپ گئیں کہ ہو نہ ہو پگڑی والا مشکوک ہے۔ کہنے لگا، ’’آؤ ان کا پیچھا کریں ‘‘۔ اس وقت میری طبیعت بھی مہم جوئی پر آمادہ تھی، لہٰذا ہم نے انتہائی احتیاط سے ان کا پیچھا شروع کر دیا۔ انہیں محتاط فاصلے پر رکھتے فصلوں اور درختوں کی اوٹ سے تعاقب کرتے رہے۔ ہمیں ان کی باتیں سنائی نہ دیتی تھیں لیکن مبہم آوازیں ضرور آتیں جنہیں ہم نہ سمجھ سکتے تھے۔
اب ہم گاؤں سے قریب قریب دو کلو میٹر باہر آ گئے تھے اور سخت حیران تھے کہ گاؤں سے اتنا باہر آ جانے کے بعد بھی وہ کوئی عملی کارروائی نہیں کرتے بلکہ آگے ہی چلے جاتے ہیں ۔ ہم اکتا کر مڑنے ہی والے تھے کہ شیدا اور فیکا رک گئے اور نالے کی پگڈنڈی پر بیٹھ گئے جبکہ پگڑی والا کھڑا رہا۔ کچھ دیر آپس میں باتیں کرتے رہے جنہیں دور ہونے کی بنا پر ہم نہ سن سکے۔ پھر شیدے یا شاید فیکے نے اس کا بازو پکڑ کے کھینچا، جس پر اس نے مزاحمت کی اور اس کی پگڑی کی کھل گئی۔ ہمارا شک یقین میں بدل گیا۔لمبے بال اور روشن چہرہ نظر آ رہا تھا۔جب دونوں نے زبر دستی پکڑنے کی کوشش کی تو رانو نے چیخ ماری جس پر گھبرا کر دونوں نے چھوڑ دیا۔ پگڑی دوبارہ باندھ دی گئی اور پھر تینوں نے آگے بڑھنا شروع کر دیا۔ اب ہماری حیرانی دو چند ہو گئی کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ اگر آمادہ نہیں تو گھر سے ساتھ آئی ہی کیوں ؟مگر زیادہ تر ہمیں اپنی اشتیاق انگیز نگاہوں کی ناکامی پر افسوس تھا جو ابھی تک کچھ نہ دیکھ سکیں ۔ خیر، تجسس ہمیں ان کا پیچھا کرنے پر مجبور کرتا رہا۔یہاں تک کہ دوسرے گاؤں کی حدود میں داخل ہو گئے۔ جب پڑوسی گاؤں قریباً ایک فرلانگ کے فاصلے پر رہ گیا تو تینوں پھر رک گئے۔ میں اور علوی ایک جھاڑی کی اوٹ لے کر ان سے کوئی تیس قدم پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر رکنے کے بعد رانو اور شیدا تو وہیں بیٹھ گئے جبکہ فیکا آگے گاؤں کی طرف بڑھ گیا۔
فیکے کے جانے کے بعد شیدے نے دوبارہ رانو کے ساتھ ہا تھا پائی شروع کر دی جس پر رانو نے پھر سخت مزاحمت کی اور شیدے کو نزدیک نہ آنے دیا۔اب ہمیں رانو پر غصہ آنے لگا کہ یہ کیا چاہتی ہے، اور شیدے پر اس سے زیادہ کہ زنخا ہے، زبر دستی کر لیتا۔بہر حال ہماراتجسس اور حیرانی بڑھ گئی تھی۔شیدا اور رانو سکون سے بیٹھے ہوئے تھے۔کوئی آدھ گھنٹہ بعد (جس کے دوران مجھے اور علوی کو کو بہت کوفت ہوتی رہی کہ ناحق پیچھا کیا) فیکا واپس آ گیا اور ہم یہ دیکھ کر ہکا بکا رہے گئے کہ اس کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا، جسے ہم نہ پہچان پائے۔ بہر حال ہم سکون سے دیکھتے رہے کہ رانو (جس نے پگڑی اب اتار دی تھی اور اسے شیدے نے سرپر باندھ لیا تھا)اور وہ نیا آدمی قریب کے خشک نالے میں چلے گئے۔ شیدا اور فیکا باہر ہی بیٹھے رہے۔ کوئی نصف گھنٹہ بعد وہ دونوں باہر آ گئے اور نیا شخص اپنے گاؤں کو مڑ گیا۔اس کے جانے کے بعد شیدے نے رانو کو پکڑ لیا، مگر اب اس نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ اور شیدے کے بعد فیکا؟ میں اور علوی اپنے گھر کی طرف چلے آئے لیکن سارا رستہ اس گتھی کوسلجھانے کی کوشش کر تے چلے آئے کہ یہ اجنبی آدمی کون تھا۔ بہت غور کیا لیکن ہماری سمجھ میں نہ آیا۔ پوچھ ہم نہیں سکتے تھے کہ وہ دونوں گاؤں کے چودھریوں میں سے تھے۔
٭٭٭
نرینہ اولاد
’’بابا کانا ٹیم پیس ! بابا کانا ٹیم پیس!‘‘کے آوازے کستے ہوئے ہم اس سے دور بھاگ جاتے۔ وہ ہمارے پیچھے گالیاں دیتا ہوا کچھ فاصلے تک بھاگتا، پھر کوئی پتھر اٹھا کر پورے زور سے ہماری طرف پھینک دیتا جو کافی پیچھے رہ جاتا۔ ہم اس کی سخت مزاجی کو جانتے تھے لہٰذا ہمیشہ اس پر اس وقت آوازہ کستے جب ہمیں اطمینان ہو تا کہ پکڑے نہ جا سکیں گے یا اس کے پتھر کی زد سے دور رہیں گے۔
گاؤں کے بچوں کو اس سے کچھ زیادہ ہی چڑ تھی۔ کوئی بچہ ہی ایسا ہو گا جو اس سے مذاق کر کے نہ بھاگتا ہو۔ گاؤں کا یہ واحد نائی جس کی بچوں کے ساتھ یوں کھلے بندوں دشمنی چلی آتی تھی۔ بچے، جن میں میں خود بھی شامل تھا، نہ صرف اس پر آوازے کستے بلکہ شدید نفرت بھی کرتے۔
اس کی ایک آنکھ کانی تھی۔ایک ٹانگ سے لنگڑا کر چلتا اور ہر قدم کے ساتھ ساٹھ درجے کے زاویے تک دائیں طرف کو جھک جاتا۔ پاؤں میں ٹائر کے بنے ہوئے جوتوں کے سوا میں نے کوئی جوتا نہیں دیکھا۔ شکل انتہائی کریہہ جس سے دیکھنے والے کو گھن آتی۔ جہاں سے گزرتا، بد بو اور تعفن پھیلاتا جاتا۔ شاید عید بقر عید نہاتا ہو، لیکن اکثر یہی کہتا سنا گیا کہ جو بندہ نہانے کے لئے سواکلو پانی سے زیادہ استعمال کرے گا وہ خدا کا عذاب اٹھائے گا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس کی ایک لنگی اور ایک ہی کرتا تھا۔ گرمیوں میں جب وہ اپنی چارپائی باہر کھلی فضا میں رکھ کر سوتا تو وہی لنگی کمر سے کھول کر اوپر لے لیتا تا کہ مچھروں سے بچا رہے۔ گاؤں کے اکثر لوگوں نے اسے اس بات پر ٹوکا بھی، مگر وہ اپنی دھن کا پکا تھا۔ غالباً نیا کپڑا لینے یا پرانے کو اتار کر دھونے کے جھنجھٹ میں وہ کبھی نہیں پڑا۔ کپڑے دھونا تو دور کی بات، اس نے اپنے چائے اور ہانڈی روٹی کے برتن بھی شاید ہی کبھی دھوئے ہوں ، جو اس واحد جھونپڑی میں کھلے پڑے رہتے تھے جس کے آگے نہ کوئی صحن تھا، نہ صحن کی دیوار۔صبح چائے بناتے ہوئے راہ چلتوں کو نہ کبھی ان نے چائے کی دعوت دی اور نہ ہی کسی نے شریک ہونے کی خواہش کی۔ چائے پی کر اپنے اوزاروں کی پوٹلی کھولتا اور نو بجے تک وہیں بیٹھا دیوار کے سائے میں لو گوں کی حجامت بناتا جو اس کے دروازے پر چل کر آتے۔ اگر کوئی چائے پینے کے دوران آ جاتا تو ایسے فقیرانہ استغنا برتتا کہ آدمی رشک سے مر جائے۔ بال کترتے وقت زبان قینچی سے زیادہ چلاتا، اس لئے کہ سالوں بعد اگر کبھی موج میں آتا تو قینچی کا منھ لگوا لیتا۔ اس سے بھی بری حالت ٹِنڈ کرنے والی مشین کی تھی جس سے بچے تو بچے بڑوں کے بھی پسینے جھوٹ جاتے۔ بال کاٹنے سے زیادہ کھینچتی تھی۔ اس کے باوجود ہمارا سارا محلہ، جس میں قریب قریب دوسو گھر ہوں گے، سب کے سب اسی سے بال کٹواتے کیوں کہ ایک تو اس کا معاوضہ بہت کم تھا اور دوسرا بال کاٹنے یا یوں کہیں ٹنڈیں کرنے عین وقت پر آ جاتا۔ ہر گھر میں ٹنڈیں کرنے کی تاریخ اسے ہمیشہ یاد رہتی۔ بعض گھرانوں کی ٹنڈیں تو وہ بغیر معاوضے کے ہی، یعنی صرف روٹی اور چائے پر ہی کر دیتا۔ یوں اس کا زیادہ تر کام بارٹر سسٹم کے مطابق چلتا۔ بالوں کو بناتے ہوئے معتوب کا مشورہ سننا اپنی شان کے خلاف سمجھتا۔ فورا دھکا دے کر پر ے کر دیتا اور اپنی مشین گتھلی میں ڈال دیتا۔ لہٰذا ادھ خطے کو اپنے مشاورتی الفاظ اسی وقت واپس لینا پڑتے۔
میرے ساتھ اس کی دشمنی اس وقت شروع ہوئی جب میں نے اس سے ٹنڈ کروانے سے انکار کر دیا جو میرے باپ کو بہت برا لگا۔ اس نے چھڑیوں سے مار مار کر مجھے کانا ٹیم پیس کے آگے کر دیا۔اس دن ظالم نے میرے بال مشین کے ساتھ اتنے اکھیڑے کہ میرے سرکی جلد سوج گئی۔ میں کئی گھنٹے روتا رہا اور رات سوتے وقت کانے ٹیم پیس کے حق میں خلوص دل سے بد دعائیں کیں کہ یا اللہ صبح یہ زندہ نہ اٹھے۔ مگر وہ یونہی زندہ رہ کر میرے سینے پر مونگ دلتا رہا۔مجھے ٹنڈ کرانے پر کوئی اعتراض نہیں تھا، مگر کانے سے ٹنڈ کرانے میں قباحت یہ تھی کہ لوگ اور لڑکے پہچان جاتے کہ کانے ٹیم پیس کے ہاتھ لگے ہیں ۔ یہی بات میرے لئے پریشانی کا باعث تھی۔ اس نے اپنا ایک طبی فلسفہ خاص کر ہر والدین کو ازبر کرا دیا تھا کہ ٹنڈ کرائے رکھنے سے بچہ صحت مند رہتا ہے،خاص کر گردن موٹی رہتی ہے۔
اس کی ایک خصوصیت بہر حال، با وجود اس کے کہ مجھے اس سے شدید نفرت تھی، میں تسلیم کرتا ہوں ۔ وہ بغیر گھڑی کے بالکل صحیح وقت بتاتا۔ صرف سورج کو دو تین بار دیکھتا اور اپنا فیصلہ سنا دیتا کہ کتنے بجے ہیں ۔ غالباً پانچ سات منٹ سے زیادہ فرق نہ نکلتا۔ مگر یہی خصوصیت بچوں نے اس کی چھیڑ بنا دی۔ رفتہ رفتہ یہ چھیڑا اتنی زیادہ بن گئی کہ کوئی وقت بھی پوچھ لیتا تو یہ اینٹ اٹھا لیتا اور گالیاں دیتے دیتے گاؤں سے چلے جانے کی دھمکی بھی دے دیتا کہ میرے بعد تمہارے بال کوئی نہیں کاٹے گا،پھر سکھ بن جاؤ گے۔
میرے والد نے اکثر اسے کرید نے کی کوشش کی، ’’میاں شرفو (اصل نام شریف تھا)، آخر تمہارے کہیں بیوی بچے بھی ہوں گے، کوئی اصلی وطن ہو گا۔ کچھ تو خبر کرو۔کل کلاں خدا نہ کرے ایس ویسی کوئی بات ہو گئی، پھر ہم کس کا منہ دیکھیں گے۔‘‘
مجھے انتہائی خوشی اس بات کی ہو تی کہ شادی غمی میں کانے ٹیم پیس سے کوئی بھی دیگیں نہ پکواتا، نہ کوئی برتن دھلواتا۔ پھر بھی ایسا کمینہ تھا، خود بخود چلا آتا اور نائیوں کو مشورے دینے شروع کر دیتا: نمک یہ ڈالو، مرچ فلاں ڈالو، گھی کم ڈالو، وغیرہ وغیرہ۔ مگر نائی بھی اپنی ہی کرتے، فقط اس سے پیاز کٹوا لیتے۔
چونکہ شرفو کی جھونپڑی ہمارے گھر سے کوئی بیس قدم پر ہو گی، لہٰذا اکثر ٹاکر ا ہوتا۔ مجھے نہیں پتا کہ جب وہ بیمار ہوتا تو اس کی دیکھ بھال کون کرتا تھا۔ ہم نے یا اس کے پڑوس میں دو ایک گھر جو اور تھے انہوں نے تو کبھی نہیں کی۔ کوئی بال کٹوانے جاتا اور وہ کہہ دیتا کہ میں بخار میں ہوں یا سردرد ہے تو اس کا جواب سن کر واپس لوٹ آتا، یہ سوچے بغیر کہ اب اس کے دروازے کا ذمہ دار کون ہے۔ خیر، مجھے ان چیزوں سے کو ئی غرض نہیں تھی۔ میری اور دوسرے کئی بچوں کی خوشی تو اسی میں تھی کہ جتنی جلدی ہو سکے یہ مر جائے تاکہ ہماری ٹنڈوں سے جان چھٹے۔
رفتہ رفتہ ہم بڑے ہوتے گئے۔ وہ بوڑھا ہو تا گیا۔ اب وہ ہماری مرضی کے بغیر ہماری ٹنڈیں نہیں کر سکتا تھا۔ہم اسے نزدیک سے بھی آ کر چھیڑ سکتے تھے۔آوازہ کسنے کے ساتھ ساتھ پیچھے سے آ کر دھکا بھی دے دیتے اور بھا گ جاتے کیوں کہ اب ایک تو وہ بھاگ نہیں سکتا تھا، دوسرایہ کہ پتھر اٹھا کر ہمارے پیچھے پھینکنا بھی اب اس کے لئے آسان نہیں تھا، بس گالیاں دیتا رہ جاتا جن سے ہم مزید لطف اندوز ہوتے۔
ہمارے گھر سے چالیس قدم مغرب کی طرف ہائی سکول تھا جس میں شیشم، شہتوت اور نیم کے بے تحاشا درخت تھے۔ گاؤں کے اکثر لوگ گرمی سے بچنے کے لئے اپنی چارپائیاں دوپہر کو وہیں لے آتے کیوں کہ تین ماہ سکول بند رہتا۔ کانے ٹیم پیس کا بھی سارا دن اب وہیں گزرتا۔ وہیں حجامتیں ہوتیں ۔ حتیٰ کہ کانے ٹیم پیس کے آوازے بھی وہیں کسے جاتے، جس پر بہت ہنگامہ آرائی اور شغل رہتا۔ بعض اوقات گالیاں دیتے دیتے اسے کھانسی کا دورہ بھی پڑتا جس میں اسے کافی تکلیف ہوتی اور سانس ٹوٹنے لگ جاتا۔
سکول کھلتے ہی لوگ بکھر گئے۔ کانا ٹیم پیس اب بیمار رہنے لگا تھا۔سر مونڈ نا بھی کم کر دیے۔ لوگ مذاق کرنا بھی چھوڑ گئے کیوں کہ اس نے گالیاں دینا بند کر دیں تھیں ، فقط غصے سے دیکھ کر منہ دوسری طرف کر لیتا۔ یہاں تک کہ اب بچوں کے مذاق کو بھی سہہ جاتا۔لیکن بچے باز آنے والے کب تھے۔ جب دیکھتے کہ ہمارے آوازہ کسنے اور دھکا دینے پر بھی چپ رہا تو دور سے کنکر اٹھا کر مارنے شروع کر دیے۔ ادھر یہ کچھ دن تو گزارا کر تا رہا، آخر تنگ آ کر اپنی جھونپڑی میں ہی بیٹھ رہا، بازار میں آنا جانا چھوڑ دیا۔
اب کوئی اکا دکا اس سے حجامت کروانے جاتا ورنہ اکثر لوگوں نے دوسرے نائیوں کی طرف رجوع کر لیا۔سردیاں آئیں تو چارپائی پھر جھونپڑی میں چلی گئی۔
صبح کے وقت میں ادھر سے گزرتا۔ اب میں نے کبھی اسے چائے بناتے اور پیتے نہیں دیکھا۔شاید ناشتہ ترک کر دیا تھا۔ البتہ حجامت کرنے کا سلسلہ ابھی جاری تھا۔ایک دن میں صبح اپنے سکول جا رہا تھا کہ کچھ لوگ کانے ٹیم پیس کی جھونپڑی کے گرد کھڑے نظر آئے۔ میں بھی پاس جا کھڑا ہوا۔دروازہ اندر سے بند تھا ایک آدمی نے آگے بڑھ کر کہا، ’’یار، دروازہ تو ڑ کر دیکھو۔‘‘ دوسرے نے تائید کی۔
دروازہ توڑا گیاتو عین توقع کے مطابق ٹیم پیس مر دہ پڑا ہوا تھا۔انتہائی گندی رضائی جو سینے تک اوڑھی ہوئی تھی اور منہ پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں ۔ منہ اور آنکھیں کھلی تھیں ۔ چہرہ نہایت خوفناک ہو گیا تھا۔ لیکن عجیب بات یہ تھی کہ آج مجھے اس کے مرنے کی ذرہ برابر خوشی نہ ہوئی، اور شاید کوئی غم بھی نہیں تھا۔جھونپڑے میں ایک لوہے کا صندوق، اوزاروں کی گتھلی اور واحد چارپائی جس پر اس کی لاش پڑی تھی، ان کے سوا مجھے کوئی چیز نظر نہ آئی۔
خیر دو مصلی بلوائے گئے جنہوں نے اسے نہلایا۔ ایک آدمی نے کفن دے دیا اور شام سے پہلے ہی جنازہ کروا کر اسے دفنا دیا۔ زندگی میں شاید یہ واحد جنازہ تھا جس میں میں نے کسی کو روتے یا آنسو بہاتے نہیں دیکھا۔اتنی خاموشی سے دفن کر دیا گیا جیسے کوئی مرا ہی نہیں ۔ چوتھے دن ایک ادھیڑ عمر شخص آیا جس نے اپنے آپ کو شرفو ٹیم کا پیس کا بیٹا بتایا۔لو گوں نے فورا یقین کر لیا کیوں کہ اس کی شکل شرفو سے ملتی جلتی تھی۔وہ ٹیم پیس کا بستر،چارپائی، اور اوزاروں کی گتھلی اور صندوق ریڑھی پر رکھ چکا تھا اور دروازہ اکھیڑ رہا تھا تاکہ یہ سامان اپنے ساتھ لے جائے۔ آخر وہ ٹیم پیس کا بیٹا تھا، لہٰذا ترکے کا وارث اس کے سواکون ہو سکتا تھا کیوں کہ وہ بتا چکا تھا وہ اس کی واحد نرینہ اولاد ہے۔
٭٭٭
کمّی بھائی
حاجی عبدالکریم کے مرنے کی خبر سن کر عورتیں گھروں سے یوں نکلیں جیسے زلزلہ آ گیا ہو۔بازار میں گویا لوگوں کی ایک نہر تھی کہ حاجی صاحب کے گھر کی طرف رواں تھی۔بعض عورتیں تو بین کرتی جاتیں ۔ میں اس وقت کوئی سات برس کا ہوں گا۔ نہیں کہہ سکتا کہ حاجی صاحب سے میری شناسائی تھی، ہاں مگر صبح سویرے دادی اماں مجھے اٹھاتی کہ چلو مولوی جی سے قرات پڑھ کر آؤ، تو اس وقت مسجد میں میراسامنا پہلے حاجی عبدالکریم سے ہی ہوتا۔ وہ عین پیش امام کے پیچھے کھڑے تھے۔ کئی دفعہ یہ بھی ہوا کہ حاجی صاحب وقت پر نہیں پہنچے تو پیش امام نے انتظار کھینچا اور جماعت میں تاخیر کی۔ بہر حال، میرا ان سے یہی تعارف تھا۔ اس کے علاوہ نہ انہوں نے کبھی مجھے پوچھا نہ میں نزدیک ہوا۔
اب ان کے مرنے پر نہ تو مجھے غم تھانہ خوشی۔ البتہ قدم غیر ارادی طور پر بڑی حویلی کی طرف اٹھ گئے اور اب حویلی کے سامنے لوگوں کے ٹھٹھ میں کھڑا تھا۔ بین اٹھ رہے تھے۔
ارد گرد کے گاؤں میں دوڑا کر اعلان کروا دیے گئے تاکہ سلام دعا والے کندھا دے سکیں ۔ ہمارا گاؤں ، یا یوں کہیں کہ حاجی صاحب کا گاؤں ، کافی بڑا تھا جس کی آبادی پانچ ہزار ہو گی۔ بازار کھلے کھلے اور اونچے درختوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ گاؤں میں چار بڑی برادریاں تھیں ، لیکن چودھراہٹ حاجی صاحب کی تھی۔ اس کے علاوہ کوئی سو گھر کمیوں کا ہو گا۔ حاجی صاحب نے دس حج کئے، نماز روزے کی پابندی ہمیشہ کی۔ بھرواں جسم، لمبا قد اور لمبی سفید داڑھی تھی۔ میں نے ہمیشہ انہیں سفید ململ میں ہی دیکھا۔ہاتھ میں عصا رکھتے۔ گاؤں میں سب سے زیادہ زمین بھی انہیں کی تھی، لہٰذا پنچایت میں مرکزی حیثیت بھی ان کی ہوتی اور جو منھ سے نکل جاتا پتھر پر لکیر ہو تا، کسی کی کیا مجال کہ ان کے آگے دم مارے۔
میں لوگوں کا ہجوم چیر تا ہوا اس چارپائی تک جا پہنچا جہاں عورتوں کے رونے سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ رونے والیوں میں اکثر عورتیں کمیوں کی تھیں ۔ ایک دو منٹ حاجی صاحب کا منھ دیکھتا رہا جن کی ٹھوڑی کے نیچے سے سفید کپڑا باندھ دیا گیا تھا۔چہرے کا رنگ سیاہی مائل زرد ہو چکا تھا۔جبڑے اندر کو دھنسے ہوئے اور منھ کی ہڈیاں باہر نکلی ہوئی تھیں جنہیں دیکھ کر مجھے خوف آنے لگا اور میں فورا پیچھے ہٹ گیا۔ شاید پہلی بار کسی مردے کو دیکھا تھا اس لئے ڈر گیا۔باہر آ کر کھلی فضا میں کھڑا ہو گیا اور اس وقت حیران رہے گیا جب عورتیں یہ کہتے ہوئے گزریں ، ’’بھیناں حاجی صاحب پر آج کوئی روپ آیا۔اللہ بخشے کتنے نیک تھے۔‘‘ میں جلد ہی اپنے گھر چلا آیا اور شانی کے ساتھ گولیاں کھیلنی شروع کر دیں ۔ مغرب سے پہلے جنازہ اٹھ گیا۔ لوگ جنازہ گاہ کی طرف بھا گے جا رہے تھے لیکن مجھے ذرادلچسپی نہ تھی۔ رات البتہ سوتے میں ڈرتا ضرور رہا۔
دوسرے دن سویرے مسجد گیا تو مولوی جی نے ہم تمام بچوں سے مخاطب ہو کر کہا، ’’بیٹا،تمہیں پتا ہے کل حاجی عبدالکریم فوت ہو گئے۔ اللہ بخشے گاؤں کے لئے رحمت تھے۔آج گاؤں یتیم ہو گیا۔ کیا مجال تھی حاجی صاحب کے ہوتے کوئی گاؤں پر بری نظر ڈالتا۔ میرے ساتھ بھائیوں جیسا سلوک تھا۔‘‘
اس کے ساتھ ہی مولوی صاحب کے آنسو نکل آئے۔
تھوڑی دیر رک کر بولے۔
’’پتر،آج اپنے اپنے سپارے لے کر حاجی صاحب کی قبر پر چلو اور تلاوت کر کے اس کی روح کو ثواب پہنچاؤ۔ میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں ۔ وہاں شیرینی بھی ہو گی۔‘‘
شیرینی کے لالچ میں ہم سب حاجی صاحب کی قبر پر آ گئے۔ قبرستان گاؤں کے مشرقی کونے پر پانچ ایکڑ رقبے میں پھیلا ہوا تھا اور گاؤں کے ساتھ جڑا تھا۔ دوسری طرف نہر بہتی تھی لیکن نہر کا کوئی اثر قبرستان پر نہیں تھا۔ چاروں طرف مٹی گارے کی دیواریں تھیں ۔ قبرستان کے اندر گنی چنی قبریں تھیں ۔ کوئی سایہ دار درخت نہ تھا۔ البتہ جھاڑیاں بکثرت اگی ہوئی تھیں جن میں سانپ اور کیڑے مکوڑے رینگتے پھرتے۔ جگہ جگہ چوہوں نے کھڈیں بنا رکھی تھیں ۔ جس کی وجہ سے اکثر قبریں زمین میں دھنس گئی تھیں ۔ آوارہ گدھے اور کتے دن رات پھرتے رہتے۔ بوسیدہ ہڈیاں ادھر ادھر بکھری ہوئی تھیں ۔ ایسا لگتا کہ چڑیلوں کا یہی ٹھکانہ ہے۔
جب ہم قبرستان پہنچے تو حاجی عبدالکریم کا بڑا بیٹا حاجی سیف الرحمن اور چند دوسرے لوگ وہاں پہلے سے موجود تھے۔ ہم سب بڑے ادب سے قبر کے گرد بیٹھ گئے اور تلاوت شروع کر دی۔ قبر قبرستان کے درمیان میں تھی۔ تلاوت کے بعد مولوی جی نے ختم پڑھا اور شیرینی تقسیم کی گئی۔ ہماری اس مصروفیت کے دوران دینے گورکن نے ایک جامن کا پودا قبر کے بالیں کی طرف لگا کر اسے پانی دے دیا،جس پر سیف الرحمن نے خوش ہو کر دینے کو دس روپے کا نوٹ دیا۔ نوٹ لے کر دینا سیف الرحمن کو دعائیں دینے لگا۔رخصت کے وقت مولوی جی نے حاجی سیف الرحمن کے گلے مل کر اسے دلاسا بھی دیا۔ پھر ہم چل دیے۔ دوچار ہی قدم چل کر اچانک رک گئے اور سیف الرحمن کی طرف منہ کر کے کہنے لگے:
’’بیٹاسیف الرحمن !ایسا کر حاجی صاحب کی قبر کے گرد چھوٹی سی دیوار بنا دے اور قبر بھی پکی کر دے تاکہ بارش اور کتے بلے نقصان نہ پہنچائیں ۔ ‘‘ سیف الرحمن نے مولوی کی بات سن کر سر ہلا دیا۔ دینا گورکن بھی غور سے سن رہا تھا۔اس کے بعد ہم اپنے گھروں کو چلے آئے اور کھیل دھندوں میں لگ گئے۔ تیسرے دن مسجد میں قل ہوئے اور ساتویں کو ساتہ، جس میں پھل اور مٹھائیاں خوب تقسیم ہوئیں اور ہماری موجیں ہوئیں ۔ میں نے دل میں سوچا، کاش روز کوئی اسی طرح مرتا رہے۔
اس کے بعد ایک ماہ تک مکمل سکوت رہا۔ایسا لگا جیسے مولوی جی خود بھی حاجی صاحب کو بھول گئے ہوں ۔ لیکن ایک دن اچانک مولوی جی نے ہمیں فرمایا، ’’بیٹا، آج پھر حاجی صاحب کی قبر پر قرآن خوانی کرائی ہے کیوں کہ آج حاجی صاحب کا چالیسواں ہے۔‘‘ پچھلی بار کی شیرینی ہمیں یاد تھی لہٰذا ہم خوشی خوشی چل دیے۔ لیکن اس بار حاجی صاحب کا بیٹا وہاں موجو د نہ تھا اور نہ ہمیں وہاں کہیں مٹھائی دکھائی دی۔ ہم سب بد دل ہو گئے اور دل ہی دل میں مولوی کو کو سنے لگے۔ فقط دینا گورکن کھڑا تھا۔اس نے قبر پر تازہ چھڑکاؤ بھی کیا اور گلاب کی پتیاں بکھیر کر اگر بتیاں سلگارکھی تھیں جن کا خوشبودار دھواں ہمیں اچھا لگ رہا تھا۔سب سے الگ چیز جو نظر آئی وہ یہ کہ قبر کے گرد کافی کھلا صحن چھوڑ کے چھوٹی کچی دیوار کھڑی کر دی گئی۔ جامن کا پودا بھی ہرا ہرا لہلہا رہا تھا۔
گورکن نے آگے بڑھ کر مولوی صاحب کو سلام کیا جس کا مولوی صاحب نے بے نیازی سے جواب دیا۔کچھ دیر کھڑے رہنے کے بعد گورکن بڑے فخر سے بولا، ’’مولوی صاحب !پچھلی دفعہ آپ نے جو مشورہ دیا اسے حاجی سیف الرحمن نے میرے ذمہ لگا دیا تھا، کیوں کہ ان کو تو اور بھی سوکام ہوتے ہیں ، اور پھر حاجی صاحب کون سے بیگانے تھے۔ مجھے بھی اپنا بیٹا سمجھتے تھے۔ کچی اینٹیں پڑی تھیں ، میں نے سوچا قبر تو پکی میں بنا نہیں سکتا۔ چلو اس کے گرد کچی دیوار ہی کر دوں ۔ حاجی صاحب نیک آدمی ہیں ، مجھے بھی ثواب ہو گا۔‘‘ پھر آہستہ سے مولوی جی کے نزدیک ہو کر بولا، ’’مولوی صاحب، یہ صحن میں نے اس لئے کھلا رکھ دیا ہے کہ حاجی کی بیوی بیچاری بوڑھی ہو گئی ہے۔ اللہ نہ کرے، اونچ نیچ ہو جاتی ہے، اس کی قبر بھی حاجی صاحب کے ساتھ بن جائے گی۔ حاجی حاجن پھر اکٹھے ہو جائیں گے۔ ‘‘
مولوی نے یہ سن کر گورکن کو تھپکی دی اور حاجی صاحب کی قبر کے متعلق دو تین مشورے مزید دیے۔ اس کے بعد ہمیں قرآن خوانی کا حکم دیا۔ابھی قرآن خوانی کر ہی رہے تھے کہ حاجی سیف الرحمن اپنے نوکر کے ساتھ شیرینی لے کر آ پہنچا جسے دیکھ کر ہمارے چہروں پر ایک رونق سی آ گئی اور ہم نے زور شور سے قرآن پڑھنا شروع کر دیا۔جتنی دیر ہم قرآن خوانی کرتے رہے، حاجی سیف الرحمن مولوی جی اور گورکن آپس میں باتیں کر تے رہے جو قرآن پڑھنے کے شور کی وجہ سے ہمیں سنائی نہ دیں ۔
جب رخصت ہونے لگے تو میں نے دیکھا حاجی سیف الرحمن نے مولوی جی اور گورکن کو ایک ایک سو روپیہ دیا۔پھر ہم سب واپس چلے آئے اور حاجی عبدالکریم، جس سے میری پہلے بھی کوئی دلچسپی نہ تھی، میرے لئے ایک خواب ہو گیا۔اب گاؤں میں شاید ہی کوئی ہو گا جس نے کبھی حاجی صاحب کا ذکر کیا ہو۔ حتی کہ ایک سال گزر گیا۔پھر مزید کچھ ماہ بعد میں نے مولوی جی سے قرات پڑھنا بھی چھوڑ دیا اور مکمل طور پر اپنے کھیل اور اسکول کی طرف متوجہ ہو گیا۔
گاؤں کے بوڑھے مرتے رہے لیکن پھر نہ تو میں نے کسی کا جنازہ پڑھا اور نہ قبرستان کی راہ دیکھی۔ البتہ ایک دفعہ عید کی نماز پر جب مولوی صاحب نے گاؤں والوں کو قبرستان کی خستہ حالی پر شرم دلائی تو انہوں نے پکی چار دیواری کرنے کا ارادہ کیا جس میں تمام گاؤں نے بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیا اور چار دیواری کھڑی کر دی۔ اس کے علاوہ مجھے کچھ پتا نہیں ۔ یہاں تک کہ میں میٹرک میں جا پہنچا اور عمر کے پندرہویں سال میں ۔ پھر ایک دن اچانک چودھری خوشی محمد کے مرنے کا اعلان ہوا۔ میں زیادہ غور نہ کرتا لیکن چونکہ چودھری کا چھوٹا بیٹا امجد میرا کلاس فیلو تھا اس لئے نہ چاہتے ہوئے بھی جانا پڑا۔ کندھا دیا،جنازہ پڑھا، حتی کہ دفنانے تک شریک ہوا اور قبرستان میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آٹھ سال بعد نقشہ ہی بد لا ہوا ہے۔حاجی صاحب کی قبر پر ایک بڑے جامن کے درخت کے علاوہ اور بہت سے درخت قبرستان میں اگے ہوئے ہیں ۔ اکثر قبریں پکی ہو چکی ہیں اور بہت سوں کے گرد کھلی چار دیواریاں ، جن کے احاطے پانچ پانچ مرلے تک کھلے تھے اور قبروں پر نام نسب کے کتبے الگ۔ حاجی عبدالکریم کی قبر پر تو ایک گنبد بھی بن چکا تھا جس کے نیچے اب حاجی کی بیوی بھی دفن ہو چکی تھی جو دوسال پہلے فوت ہوئی۔ یہ گنبد غالباً اسی وقت بنایا گیا تھا۔لیکن قبرستان میں ابھی بہت سی جگہ خالی تھی۔ مجھے یاد ہے چودھری خوشی محمد کی قبر کی تیاری کے وقت بھی میں امجد کے ساتھ وہاں موجود تھا۔ہمارے جانے سے پہلے ہی دینے گورکن نے قبر ایک کھلی جگہ پر کھودی اور ارد گرد کی قریباً پانچ مرلے جگہ جھاڑجھنکارسے صاف کر دی جسے دیکھ ہم داد دیے بغیر نہ رہ سکے، بلکہ امجد نے دوسو روپے انعام بھی دیاجس پر دینے نے چودھری خوشی محمد کی تعریف کی اور کہا،’’چودھری صاحب، میں نے سوچا ہمارے چودھری خوشی محمد بڑے اچھے آدمی تھے۔قبر ذرا کھلی جگہ پر بنا دوں ، تاکہ فاتحہ کہنے میں آسانی رہے۔ جگہ میں نے صاف کر دی ہے۔ اب چودھری جی، کل پکی اینٹوں کی دیوار کروا دیں تاکہ یہ جگہ گھیرے میں آ جائے اور محفوظ ہو جائے۔ ‘‘
میٹرک کرنے کے بعد میں شہر چلا آیا تاکہ مزید پڑھ لوں ۔ گاؤں میں ہمارا ایک ہی گھر تھا جو یوپی سے مہاجر ہو کر آیا تھا اور نہ جانے کن حالات میں اس گاؤں میں آ بیٹھا۔عزیز و اقارب لاہور اور کراچی جابسے۔ اس لئے ہماری یہاں کوئی برادری نہیں تھی جبکہ گاؤں کی باقی آبادی مقامی تھی۔لہٰذا اثر رسوخ نہ ہونے کی بنا پر ہمارا شمار بھی کمیوں میں آتا۔
شہر میں میں نے ایک میڈیکل اسٹور پر رات کی نوکری کر لی جو دو بجے تک جاری رہتی۔ اڑھائی بجے سو جاتا۔ صبح نو بجے کالج نکل جاتا۔ اس طرح گاؤں میں میرے چکر ہفتے کی بجائے مہینے پر جا ٹھہرے۔ شہر میں کافی دوست بھی نکل آئے،لہٰذا گاؤں جاتا تو اگلے ہی دن واپس چلا آتا۔ یوں مدت تک قبرستان کی طرف گزر نہ ہوا اور شہر میں آئے چھ سال ہو گئے۔ اس عرصے میں محکمہ ڈاک میں کلر کی کرنے لگا اور ماہ بہ ماہ تنخواہ لے کر چلا جاتا۔ بلکہ اب کبھی کبھی تو ہفتے بعد ہی نکل جاتا کیوں کہ دادی اماں کی طبیعت اب ٹھیک نہیں رہتی تھی۔ایک دن دفتر میں ڈاک سیل کر رہا تھا کہ سپرنٹنڈنٹ نے آواز دی۔ پاس گیا تو اس نے ریسیور ہاتھ میں دے دیا۔ فون سن کر چکرا گیا۔والد صاحب نے دادی اماں کی موت کی خبر سنائی۔ دادی اماں سے میری جس قدر محبت تھی اس کا پہلا رد عمل تو یہ ہوا کہ میں پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ وہ مصیبتوں کی ماری جب سے انڈیا سے آئی، افلاس اور نکبت نے ساتھ نہ چھوڑا۔ دادا میاں آتے ہی چل بسے۔ ترکاریاں بیچیں ، سوت کاتے۔ خود بھوکوں جئی اور چھ اولادوں کو پالا۔ اب جو یہ موت کا پیغام آیا تو مجھے اس پر بڑا ترس آیا۔ خدا جانتا ہے آج تک اس سے تہجد قضا نہ ہوئی۔ مجلس کی استطاعت نہ تھی مگر گھر میں ائمہ طاہرین کی چھوٹی موٹی نیازیں دلوانا نہ بھولی۔
میں نے سپرنٹنڈنٹ سے چھٹی لی، کام چھوڑا، بھاگم بھاگ اڈے پر آیا،بس پکڑی اور شام سے پہلے گاؤں جا پہنچا اور اماں کی لاش سے خوب لپٹ کر رویا۔ اندھیرا چھا چکا تھا۔اماں کو نہلایا گیا اور کفن دے دیا۔ عشا ہو گئی لیکن میت نہ اٹھی پھر آٹھ بج گئے۔ نو بج گئے۔ جاڑے میں نو بھی آدھی رات جا بجتے ہیں ہمارے گھر میں رونے دھونے کے علاوہ چہ میگوئیاں بھی جاری تھی اور ابا میاں کچھ پریشان دکھائی دے رہے تھے۔
میں نے پوچھا،’’ابا جی، اماں کی میت نہیں اٹھی۔ اب کس کا انتظار ہے ؟‘‘
بولے، ’’انتظار تو کسی کا نہیں ، بس قبر کی دیر ہے۔‘‘
میں نے کہا،’’شام سے اب تک قبر کیوں نہ بنی؟‘‘
بولے، ’’قبرستان میں جگہ نہیں ۔ ‘‘
میں نے کہا،’’یہ کیا ہوا!اتنا بڑا قبرستان ہے۔ ابھی کل کی بات ہے اڑھائی قبریں تھیں ۔ ‘‘
بولے،’’لیکن اب جگہ نہیں رہی۔‘‘
اتنا سننا تھا کہ میں بھاگا قبرستان آیا۔ گورکن کے گھر کا دروازہ پیٹا جو قبرستان کے اندر ایک کونے میں تھا اور اب سارے کا سارا پکا ہو چکا تھا۔
گورکن باہر نکلا تو میں نے پوچھا،’’چاچا، کیا بات ہے قبر نہیں بناتے ؟اماں باہر پڑی ہے۔‘‘
کہنے لگا، ’’بھائی، کتنی دفعہ کہہ چکا ہوں ، بڑھیا کا کہیں اور بندوبست کرو۔قبرستان میں جگہ نہیں ۔ ‘‘
میں نے کہا، ’’چل دیکھتے ہیں جگہ کیسے نہیں ؟۔‘‘
بولا، ’’تیرے باپ کا نوکر ہوں آدھی رات قبریں پھلانگتا پھروں اورسانپ ڈسوالوں ۔ ‘‘
میں نے کہا،’’چل نہیں تو نہ سہی،میں خود جگہ ڈھونڈ لوں گا۔‘‘
جیسے ہی واپس مڑا اور قبرستان میں داخل ہو ا تواس نے پیچھے سے پھر آواز دی۔’’خبر دار اگر کسی دوسرے زمیندار کی قبروں کے احاطے میں جگہ بنائی، ورنہ صبح مردہ باہر نکال پھینکیں گے۔ پھر نہ کہنا یہ کیا ہوا۔‘‘
بہر حال جب میں قبرستان کے اندر آیا، جاڑے کی چاندنی رات تھی،گویا دودھ برس رہا تھا۔پورے قبرستان میں احاطے ہی احاطے تھے اور اندر دو دو تین تین قبریں ، باقی جگہ خالی۔ دو تین جگہ مجھے بڑے گنبد بھی نظر آئے۔ حیران کہ اب کیا کروں اور اماں کو کہاں دفن کریں ، کہ اتنے میں دور قبرستان کی آخری نکڑ پر لالٹین کی ہلکی روشنی دکھائی دی۔قریب گیا۔دیکھا تو میرے چچا زاد قبر کھود رہے تھے۔انہوں نے تھوڑی دیر پہلے ہی چار دیواری کے ساتھ ایک لا وارث جگہ ڈھونڈ نکالی تھی اور اب وہ قبر بنا رہے تھے۔
خیر، رات دو بجے اماں کو دفن کیا۔جنازے میں کوئی پندرہ لوگ تھے۔مولوی جاڑے کے ڈر سے نہ آسکے۔جنازہ باوا جان نے پڑھا۔
اگلے دن صبح نو بجے چوکیدار نے ابا کو آواز دی کہ حاجی سیف الرحمن یاد کرتے ہیں ۔ بابا نے مجھے ساتھ لیا۔ حویلی پہنچے تو کوئی سوآدمی بیٹھے تھے۔جس میں تمام برادریوں کے لوگ موجود تھے۔دینا گورکن بھی وہاں تھا۔مجھے دیکھتے ہی تیوری چڑھائی۔ ہم سلام کر کے بیٹھ گئے۔ ابا میاں حیران کہ خیر ہو، خدا جانے کیا بات ہے۔
جب سب بیٹھ گئے تو سیف الرحمن کی گرجدار آواز نے سکوت توڑا۔
’’میاں تقی محمد، رات تیرے چھوکرے نے دینے سے بد تمیزی کی۔ آدھی رات بڑھیا کی قبر بنواتا پھرتا تھا۔اور تمہیں پتا بھی ہے کمیوں کے لئے مزید جگہ نہیں ۔ رات کی بات تو ہم نے پی لی، مگر آئندہ کے لئے سارے کمی اپنا بندوبست کرو۔ قبرستان صرف ان کے لئے ہے جن کی گاؤں میں زمین ہے۔ آج تک کمیوں کی جو قبریں بن گئیں بن گئیں ، وہ بھی ہمارا احسان سمجھو۔اور سنو، دینے گورکن نے تمہارا کمیوں کا کوئی ٹھیکہ نہیں لیا کہ قبریں کھودتا پھرے۔ میرا پنچایت بلانے کا آج صرف یہی مقصد تھا۔‘‘
یہ کہہ کر حاجی سیف الرحمن اٹھ گیا۔کس کی مجال کہ دم مارے۔ ہم بھی اپنے گھر چلے آئے۔
دوسرے دن شام کمیوں نے خادم تیلی کے گھر اکٹھ کیا اور فیصلہ کیا کہ کمی برادری دو کنال جگہ قبرستان کے لئے الگ لے۔ ہر گھر کو اڑھائی سو روپیہ لگا دیا۔ پانچ دن میں پچیس ہزار روپیہ اکٹھا ہو ا اور گاؤں سے دو کلو میٹر دور رواؤ عبد الشکور سے دو کنال جگہ خرید لی گئی۔ اگر چہ شور زدہ تھی لیکن انہوں نے کون سا فصل بونا تھی۔ہاں البتہ کچھ دور تھی۔
اب جو کمی مرتا اس کے وارث خود قبر بنا لیتے، لہٰذا گورکن کی بھی ضرورت نہ رہی۔اور مولوی کی کمی اس لئے محسوس نہ ہوئی کہ ابا میاں جنازہ پڑھ دیتے۔
ادھر زمینداروں کا گورکن دینا تھا جس نے قبرستان کو جنت نشان بنا دیا۔پکی قبریں اور جگہ جگہ گنبد، ہر طرف سایہ دار درخت، پانی کی کمی درمیان سے گزرنے والا نالا پوری کرتا۔ اب قبرستان میں زمینداروں کے لئے کافی جگہ تھی جو مدتوں کام آتی اور ختم نہ ہوسکتی تھی کہ قبرستان میں ہر ایک نے اپنا قبضہ کر رکھا تھا۔
میں اب کبھی کبھار گاؤں جاتا تو اماں کی قبر پر ضرور جاتا اور ہر طرف سفید مرمریں قبریں دیکھتا۔ یوں دس سال اور بیت گئے۔ کوئی مسئلہ نہ بنا۔ میں نے دیکھا کہ دینا اب بوڑھا ہو چکا تھا مگر قبروں کی دیکھ بھال اسی محنت سے کرتا۔
اگلی دفعہ چھ ماہ بعد گاؤں گیا تو پتا چلا کہ آج صبح دینا گورکن مرگیا۔ میں نے یہ خبر فقط سن لی تھی،زیادہ دلچسپی نہ لی۔ حتیٰ کہ شام تک ویسے ہی بھول گیا۔دوسرے دن دس بجے اپنے گھر میں باوا جان کے ساتھ بیٹھا تھا۔گرمیوں کے دن اور سخت دھوپ چڑھ آئی تھی۔اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ میں اٹھ کے باہر آیا تو سامنے چوکیدار تھا۔
کہنے لگا، حاجی صاحب حویلی بلاتے ہیں ۔ میں باوا جان کو بتائے بغیر حویلی چلا آیا۔سامنے دیکھا تو حاجی صاحب بڑے موڈھے پر بیٹھے تھے۔ دوسرے لوگ اور کمی چارپائیوں پر بیٹھے تھے۔
مجھے دیکھ کر حاجی صاحب نے کہا، ’’میاں تقی نہیں آیا؟‘‘
میں نے کہا،’’چودھری صاحب، وہ ذرا بیمار ہیں ۔ آپ حکم کریں ۔ میں آ گیا ہو ں ۔ ‘‘
کچھ دیر حقہ گڑ گڑا نے کے بعد بولے:
’’تمہیں پتا ہے، کل دینا گور کن مرگیا اور لاش ابھی تک پڑی ہے۔ کفن دفن کسی نے نہیں دیا۔ گرمیوں کے دن ہیں اور دینے کی لاش بد بو چھوڑنے لگی ہے۔ تمہارا کمی بھائی تھا لیکن تمہیں ذرا خیال نہیں آیا۔ جاؤ اس کا بندوبست کرو۔‘‘ اچھے کمہار کی طرف دیکھتے ہوئے: ’’اچھے، تم قبر کھودو، اور طیفے، تو دینے کوغسل دے۔ کفن کابندوبست کر دیا ہے۔ ‘‘ اور میری طرف مخاطب ہو کر :’’علی حسین تو پڑھا لکھا ہے، ذرا جنازہ پڑھ دینا۔ مولوی آج فارغ نہیں ۔ ‘‘
اتنا کہہ کر حاجی صاحب کھڑے ہو گئے اور مڑتے ہوئے پھر رکے،
’’اور ہاں ، گاؤں کے قبرستان میں جگہ نہیں ، ادھر اپنی طرف ہی لے جانا۔‘‘
٭٭٭
شریکا
’’ یہ سِکھڑا اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے؟ حرامزادہ سوئر کی طرح اکڑ کے چلتا ہے، اُوپر سے گھورتا بھی ہے‘‘۔شوکا اس وقت غصے میں تھا۔
’’شوکے !ذرا تحمل سے کام لو اور ٹھنڈے دل سے سوچو‘‘۔ دارا بولا۔
’’ دارے خاں ! اب صبر نہیں ہوتا۔ بات حد سے نکل گئی‘‘۔جاگیرے نے اپنی مونچھ کو بل دیتے ہوئے کہا۔
’’ آخر یہ عاقل خاں ہماری ساری برادری سے طاقتور تو نہیں ؟ کل کھوہ سے آتے ہوئے ٹانگیں توڑ دو‘‘۔
’’ لیکن۔۔۔‘!‘
’’ لیکن ویکن کچھ نہیں ۔ ‘‘غفارے نے دارے کی بات کاٹتے ہوئے کہا، ابھی ہم اتنے بے غیرت بھی نہیں ہوئے کہ عاقل خاں دن دیہاڑے ہماری عزت پر ہاتھ ڈالے اور اب تو بات کمیوں کے منہ پر بھی آ گئی ہے‘‘۔
ڈیرے میں بیٹھا ہر شخص آج طیش میں تھا اس لئے بات دارے کے ہاتھ سے نکل گئی۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ لڑائی ہو اور بات آس پاس کے گاؤں میں بھی پھیل جائے۔ مگر رات کے بارہ بجے ایک فیصلہ ہو گیا۔
۔۔۔۔۔
سردار نتھاسنگھ کی قلعہ نما حویلی گاؤں کے مرکز میں تھی جس میں سکھوں کے پچاس گھر آباد تھے۔جن کی اکثریت زمین داروں کی تھی۔گاؤں میں زمین تو چودھری سردار محمد عرف دارے خاں اور سردار احمد بخش کی بھی کافی تھی لیکن رعب داب نتھا سنگھ کا ہی تھا۔سکھ، مسلمان کا تعصّب بالکل نہیں تھا۔گاؤں والے دکھ درد کے سانجھے اور صدیوں سے ایک دوسرے کے مدد گار تھے۔ الغرض زندگی امن سے چل رہی تھی کہ اچانک تقسیم کا عذاب آ پڑا۔ساری فاختائیں اُڑ گئیں ۔ نتھا سنگھ کو بھی حویلی چھوڑنا پڑی۔ چھکڑوں پر سامان لد گیا اور ساراقبیلہ لدھیانے کے لئے بیل گاڑیوں پر سوار ہو گیا۔ چلنے سے پہلے افراد گنے گئے تو معلوم ہوا کہ شیر سنگھ غائب ہے۔ہزار ڈھونڈا مگر پتہ نہ چلا۔ آخر کار نذیر ے تیلی نے خبر دی،
’’ سردار جی ! شیر سنگھ مسجد میں بیٹھا مولوی جان محمد سے کلمہ پڑھ رہا ہے‘‘۔
یہ سن کر سردار جی کے ہوش اُڑ گئے۔ خبر دھوئیں کی طرح اُٹھی تو مائی دھیراں نے دو ہتھڑ پیٹا اور بین کرنے لگی۔ نتھا سنگھ نے جلدی سے دلبیر کو بھیجا کہ بھائی کو لے کے آئے۔ اِس نے لاکھ منتیں کیں مگر اُس کو نہ آنا تھا، نہ آیا۔
قافلہ تین دن رکا رہا، مائی باپو نے کیا کیا نہ سمجھایا، مگر شیر سنگھ ٹس سے مس نہ ہوا۔ کیس کٹوا، کڑا کر پان نتھا سنگھ کے منہ پر ماری اور مُسلا ہونے کا اعلان کر دیا۔آخر سردار جی نے بیٹے کی ہٹ دھرمی کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔حویلی کی چابیوں کے علاوہ سو ایکڑ زمین کے کاغذات بھی اس کے حوالے کیے۔روتی پیٹتی دھیراں کے ساتھ باقی اولاد کو لیا اور لدھیانہ چلا گیا۔
ادھر گاؤں میں شادیانے بجنے لگے۔ مولوی جان محمد نے شیر سنگھ کا نام عاقل خاں رکھ دیا کہ اس نے مسلمان ہو کر بڑی عقل مندی کا ثبوت دیا ہے۔دوزخ اور ہجرت دونوں سے بچا۔
نتھا سنگھ کی حویلی جو اب عاقل خاں کے پاس تھی، کی دیوار دارے خاں کے چھوٹے بھائی جمال دین کے گھر سے ملی ہوئی تھی، شیداں اُسی جمال دین کی بیٹی ناک نقشے کی درست، بے باک طبیعت کی مالک تھی۔ ادھر یہ بیس سال کا خوب صورت جوان تھا لہٰذا کبھی یہ دیوار سے اُدھر کبھی وہ دیوار سے ادھر۔ تقسیم کو تین سال ہو گئے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ یوں آرام سے نبھ رہی تھی کہ ایک دن عاقل خاں نے جانے کیا سوچ کر جمال دین سے رشتہ مانگ لیا۔اُس وقت چودھری بِدکے اور انہیں معاملے کی سنجیدگی کا علم ہوا۔
فوراََ انکار کر دیا بلکہ لین دین بھی ختم کیا۔ اِس نے بڑا زور مارا لیکن کوئی بس نہ چلا۔ لاکھ زمینوں والا سہی، آخر ہے تو سکھ کا بیٹا۔ چودھری رشتہ دے کر زمانے کو کیا منہ دکھاتے۔
بالآخر شیداں دارے خاں کے بیٹے شوکے سے بیاہ دی گئی۔ مگر یہ بھی نچلا نہ بیٹھا، برابر ملتا رہا۔ پانچ سال ہونے کو آئے، اُس کے دو بچے ہو گئے مگر اِدھر وہی جذبہ بلکہ اب تو احتیاط بھی کچھ باقی نہ رہی اور بات دُور تک نکل گئی۔ کچھ لوگ تو یہاں تک کہنے لگے کہ بچے شوکت سے نہیں ، عاقل خاں سے ہیں ۔
شوکے نے شیداں کو لاکھ مارا پیٹا، کئی دفعہ عاقل خاں کو بھی دھمکایا لیکن نتیجہ سوائے بدنامی کے کچھ نہ نکلا۔کئی دفعہ چودھریوں کی نیت بدلی مگر عملی کارروائی نہ کر سکے۔ اس طرح کچھ وقت اور گزر گیا۔ آخر چودھری کہاں تک برداشت کرتے۔ اس لئے انہیں اب حتمی فیصلہ کرنا پڑا۔
۔۔۔۔۔
وہ کھوہ پر پہنچا تو شبیرا بھینسوں کو چارہ ڈال رہا تھا۔ اِس نے اپنی چھوی جس کادستہ چھ فٹ لمبے بانس کا تھا، شریہنہ کے تنے کے ساتھ لگا دی اور چارپائی پر لیٹ گیا۔ اس نے سوچا، میں بھی کوئی بزدل نہیں ۔ آدھ سیر دیسی گھی تو میری ایک دن کی خوراک ہے۔گاؤں میں بس یہ شبیرا ہی ایک ایسا ہے جو میرے مقابلے کا ہے۔لیکن یہ بھی میرا ہی آدمی ہے ویسے بھی جب یہ فیروز پور سے آیا تھا تو میں نے ہی اس کی مدد کی، رہنے کو اپنے کھوہ پر جگہ دی۔ آج سات سال ہو گئے، میری ہی زمین کاشت کرتا ہے۔
اُس نے سوچا یہ بھی اچھا ہی ہوا جوشبیرا میرے پاس ہی چلا آیا۔گاؤں میں کوئی تو ایسا ہے جو میرا اپنا ہے۔ انہیں خیالوں میں گم تھا کہ شبیراپاس آ بیٹھا۔ شبیرے کو دیکھ کر عاقل خاں اُٹھ بیٹھا۔کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔ آخر عاقل خاں کی طرف دیکھتے ہوئے شبیرا بولا، ’’ بھائی عاقل خاں ! آج کل چودھریوں کے تیور ٹھیک نظر نہیں آتے‘‘۔
’’ لگتا مجھے بھی کچھ ایسا ہی ہے، پھر کیا کیا جائے؟‘‘ عاقل خاں اُٹھتے ہوئے بولا۔
’’ کرنا کیا ہے ؟ میں تو کہتا ہوں شیداں کا پیچھا اب چھوڑ ہی دے، کہیں کوئی نقصان نہ ہو جائے‘‘۔شبیرے نے دھیمے سے کہا۔
’’ شبیرے یہ نہیں ہو سکتا‘‘۔ عاقل خاں بولا۔
’’آخر کیوں نہیں ہو سکتا؟‘‘ شبیرے نے پوچھا۔
’’ اس لئے کہ اسی بے چاری کی خاطر تو میں نے واہگرو سے بے وفائی کی۔ دین دھرم بدلا اور ساری برادری سے لعنتیں لے کرمُسلا ہوا۔ جب سارا قبیلہ لدھیانے چلا گیا تو میں نے اِسی کی خاطر گاؤں نہ چھوڑا اور شیر سنگھ سے عاقل خاں بنا، بے بے روتی پیٹتی چلی گئی‘‘۔
کچھ دیر رک کر بولا، ’’ پھر تو بھی تو میرے ساتھ ہے، ان کو پتا ہے کہ دو شیر سنبھالنے مشکل ہیں ‘‘۔
شبیر ا یہ سن کر کچھ دیر چپ رہا، پھر کہنے لگا، ’’بھائی عاقل خاں !ٹھیک ہے میں تیرے ساتھ ہوں ، آخر تجھے بڑا بھائی سمجھتا ہوں لیکن پھر بھی احتیاط سے‘‘۔
جب آٹھ دس دن فیصلے کو ہو گئے اور چودھریوں کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہوئی تو عاقل خاں پھر حوصلے میں آ گیا۔دوسرا غضب یہ ہوا کہ سردار احمد بخش نے پیغام بھیج دیا، جس کا دارے خاں سے شریکا تھا۔
’’ عاقل خاں ! کوئی بات نہیں ، حوصلہ رکھنا ہم تیرے ساتھ ہیں ۔ آخر سردار نتھا سنگھ کو میں نے بھائی کہا تھا، آج اس کے بیٹے کو اکیلا کیسے چھوڑ دوں گا‘‘۔
ان باتوں سے عاقل خاں پہلے سے بھی شیر ہو گیا اور کھل کھیلنے لگا۔ اور بات یہاں تک پہنچی کہ چودھریوں کے محلے سے گزرتے ہوئی اونچی اونچی کھانستا اور طرح طرح کے آوازے بھی کسنے لگا۔
’’ سن دے سی گے، میدان لگنا وا۔ پر چپ چاند ای ہو گئی آ۔بیبا! شیراں نال میدان لانے کوئی سوکھی گل آ۔ پن سیری کلیجہ چاہی دا، پن سیری‘‘۔
۔۔۔۔۔
آج نو چندی تھی۔ گاؤں کی غریب عورتیں اور بچے عاقل خاں کے کھوہ پر جمع تھے۔ عاقل خاں بھینسوں کا دودھ اُن میں تقسیم کر نے لگا۔ہر نوچندی کو دودھ تقسیم کرنے کی رسم اس کے دادے سردار موہن سنگھ سے چلی آتی تھی۔جب شام کا جھٹپٹا سا ہو گیا، عورتیں اور بچے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو عاقل خاں کچھ دیر بیٹھ کر حقہ پیتا رہا پھراُس نے ایک ہاتھ میں اپنی چھوَی اور دوسرے میں کتیا کی زنجیر پکڑ کر اُٹھ کھڑا ہوا اور جاتے جاتے شبیرے کو آواز دی( آج اُس نے رہٹ چلایا ہوا تھا)۔
’’ لے شبیرے رب راکھا، میں چلیا، تو اج کماد نوں پانی لا کے سونا‘‘۔
شبیرے نے ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا اور اپنے کام میں لگ گیا۔
اندھیرا چھا چکا تھا۔وہ بے فکری سے چلتا ہوا جیسے ہی چودھریوں کے محلے کے نکڑ پر پہنچا، کچھ جوانوں نے راستہ روک لیا۔
شوکا سب سے آگے تھا۔اس نے کہا، ’’ لے عاقل خاں ! ہم نے آج پن سیری کلیجہ کر لیا اور میدان میں بھی آ گئے، تو سنبھل لے‘‘۔
عاقل خاں ایک دفعہ تو گھبرا گیا لیکن جلد ہی خود کو سنبھالا۔ کتیا کی زنجیر کھول دی اور چھوَی کو مضبوطی سے پکڑ کر ڈٹ گیا۔
ڈانگو ں اور چھوَیوں کا مینہ برسنے لگا۔ عاقل خاں بے جگری سے لڑ رہا تھا۔ ڈانگوں کے کھڑکنے کی آواز دور تک سنائی دینے لگی۔ جس کی دھمک شبیرے کے کان میں بھی جا پڑی۔ اُس نے سوچا، ہو نہ ہو، چودھری، عاقل خاں سے بھڑ گئے ہیں ۔ اِس نے جلدی سے اپنی ڈانگ پکڑی اور امداد کو بھاگا۔
لڑائی تو دو منٹ میں ہی ختم ہو جاتی مگر عاقل خاں کی کتیا غضب کی نکلی۔ اُچھل اُچھل کر چودھریوں کو کاٹنے لگی۔ ادھر عاقل خاں کے ساڑھے چھ فٹ قد اور لمبے دستے والی چھوَی نے بھی بڑا کام کیا۔ دو تین چودھری زخمی کر کے گرا دیے مگر کہاں تک۔ آخر پانچ منٹ بعد ہی عاقل خاں بھی گر گیا۔ شبیرا پہنچا تو چودھری جا چکے تھے۔باقی خلقت موجود تھی۔ شبیرا چودھریوں کو گالیاں دیتے ہوئے جب عاقل خاں کے نزدیک آیا اور اُسے اُٹھانے کی کوشش کی تو وہ اُٹھ نہ سکا۔اِس نے دیکھا کہ دونوں ٹانگیں ٹوٹ چکی تھیں اور کتیا پاس کھڑی زخمی حالت میں شدت سے بھونک رہی تھی۔
خیر دس بجے کے قریب شبیرے نے عاقل خاں کو شہر کے ہسپتال پہنچایا۔ علاج شروع ہو گیا۔دوسرے دن رپٹ درج کرا دی اور مقدمہ چل پڑا۔
ادھر شبیرے کی توجہ اور گھی دودھ کی بدولت عاقل خاں کے زخم جلد ہی بھرنے لگے۔ یہاں تک کہ چند ماہ میں ہی دوبارہ چلنے پھرنے لگا مگر ٹانگوں میں ایک لنگ سا پیدا ہو گیا کہ دُور سے ہی عیب ظاہر ہو جاتا تھا۔یعنی وہ پہلی سی بات نہ رہی۔ پھر بھی اِس نے بد دلی ظاہر نہ ہونے دی اور بجائے پیدل چلنے کے گھوڑے پر بیٹھ کر کھوہ پر آنے جانے لگا۔
دوسری طرف چودھریوں نے ٹانگیں تو توڑ دیں مگر شبیرے اور احمد بخش نے انہیں کیس میں ایسا اُلجھا یا کہ جان چھڑانا مشکل ہو گئی۔مقدمہ طول پکڑ گیا حتیٰ کہ سالوں لمبا ہو گیا۔ادھر رفتہ رفتہ عاقل خاں کا عشق بھی سرد پڑ گیا۔کیونکہ ایک تو جسم میں وہ تاب نہ رہی اور دوسرا مقدمے کے اُلجھاوے نے توجہ بانٹ دی مگر ایک کسک سی دل میں اب بھی باقی تھی۔
پھر ایک دن کچھ لوگوں نے دونوں پارٹیوں میں صلح کرادی جس میں چودھریوں کو کچھ تاوان پڑ گیا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ نہ جانے کیوں عاقل خاں اب بُجھا بُجھا سا رہنے لگا۔وہ بات بھی کم کم ہی کرتا۔بڑی دفعہ شبیرے نے حوصلہ بھی دیا مگر اُس پر ایک اداسی چھائی رہتی۔اب وہ رات کو اکثر گاؤں آنے کے بجائے شبیرے کے پاس کھوہ پر ہی رہنے لگا تھا۔ کبھی کبھی چپکے سے رو بھی لیتا۔ اس طرح کئی سال مزید گزر گئے۔آخر ایک دن شبیرے سے کہنے لگا، ’’ شبیرے ! کچھ دنوں سے بے بے بہت یاد آ رہی ہے۔ اُس کا جاتے وقت کا روتا ہوا چہرہ آنکھوں سے نہیں ہٹتا۔جانے کیوں آج میرا دل کرتا ہے پھوٹ پھوٹ کر روؤں ۔ اب تو کئی سال خط آئے کو بھی ہو گئے پتا نہیں چھوٹی جیناں کا کیا حال ہو گا۔بختاں ماری بیاہ دی گئی ہو گی۔ جانے لگی تو میری ٹانگوں سے چمٹ گئی کہ ویرے کو ساتھ لے جاؤں گی۔واہگرو کی سونہہ، رات کو نیند نہیں آتی‘‘۔
کچھ دیر رک کر آنسوپونچھتے ہوئے پھر بولا، ’’ شبیرے ! کوئی سب کچھ مجھ سے لے لے پر مجھے باپو اور بے بے تک پہنچا دے‘‘۔
عاقل خاں کی باتیں سن کر شبیرے کے بھی آنسو بھی نکل آئے۔ اُسے بھی اپنے ماں باپ یاد آ گئے جو اٹھارہ سال پہلے فیروز پور سے آتے ہوئے بلوے میں مارے گئے تھے۔
پھر ایک دن عاقل خاں نے تحصیل جا کر دس ایکڑ زمین شبیرے کے نام کر دی۔اور لدھیانے جانے کا فیصلہ کر لیا۔سارے گاؤں میں یہ خبر پھیل گئی کہ عاقل خاں اپنی زمین بیچ کر لدھیانے جانا چاہتا ہے۔ بات جونہی احمد بخش کے کان تک پہنچی اُس نے زمین خریدنے کا ارادہ کر لیا کیونکہ اُسے معلوم تھا کہ اتنی اچھی اور نَے کی زمین ہاتھ آنے کا اِس سے اچھا اورسستا موقع پھر ہاتھ نہیں آئے گا۔ اُس نے عاقل خاں سے کہا، ’ ’عاقل خاں !سردارنتھا سنگھ میرا بھائی بنا تھا اِس لئے پہلا حق میرا ہے‘‘۔خیر عاقل خاں احمد بخش کے ہاتھ زمین بیچنے کو تیار ہو گیا۔اُدھر چودھریوں کو پتا چلا تو وہ پیچ و تاب کھانے لگے۔ احمد بخش کا عاقل خاں سے زمین خریدنا اُنہیں بالکل گوارا نہ تھا مگر مصیبت یہ تھی کہ عاقل خاں دارے خاں کو زمین کبھی نہ دیتا۔ یہ دارے خاں کو بھی پتہ تھا۔
مغرب کی نماز کے بعد تو مسجد کے دروازے پر اس زمین کے معاملے میں چودھری دارے خاں اور احمد بخش کے درمیان کافی لے دے بھی ہوئی اور دارے خاں نے احمد بخش کو یہاں تک دھمکی دے دی کہ تُو ہمیں نہیں جانتا۔ شریکے کے معاملے میں ہم کیا کر سکتے ہیں ۔ یہ زمین ہماری زمینوں کے ساتھ پڑتی ہے اِس لئے زمین اگر خریدیں گے تو ہم ہی۔اس پر سردار احمد بخش تمسخرانہ انداز میں ہنسا اور آگے بڑھ گیا۔ دوسرے دن احمد بخش رقم اور گواہ لے کر تحصیل پہنچ گیا کہ شام اُس کے ساتھ عاقل خاں کی بات پکی ہو گئی تھی لیکن اُس نے دیکھا کہ دارے خاں کچھ آدمیوں کے ساتھ پہلے سے وہاں موجود تھا۔وہ اُسے دیکھ کر حیران رہ گیا اور پھر یہ سُن کر تو بے ہوش ہوتے ہوتے بچا کہ عاقل خاں نے کچھ
ہی دیر پہلے زمین دارے خاں کے ہاتھ بیچ دی ہے۔ احمد بخش نے عاقل خاں کی طرف مڑ کر بگڑتے ہوئے پوچھا، ’’ یہ تو نے کیا کیا، تجھے حیا نہ آئی؟
اِس پر عاقل خاں نے سر جھکا کر کہا، ’’ چاچا احمد بخش ! رات دارے خاں کے ساتھ وہ آئی تھی۔۔۔ اب تو ہی بتا، میں شیداں کی بات کیسے ٹال دیتا ؟‘‘
٭٭٭
تابوت
مجھے دیکھتے ہی آفتاب بولا، یار علی دو منٹ پہلے آ جاتا تو کیا اچھا تھا۔اس کمینے نے آج مجھے تیسری دفعہ مات دی۔ یہ اتنا بڑا سوئر ہے (اگلا لقمہ ڈاکٹر نے اُچک لیا) کہ ایک کتے سے قابو نہیں آتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر منور بیگ ہم دونوں کی نسبت اچھا شاطر تھا۔ پھر بھی میں اور آفتاب مل کر اس پر حاوی ہو جاتے۔منور بیگ کا کلینک گاؤں کے چوک میں واقع تھا جس کے ایک طرف جامع مسجد اور سامنے پکی اور صاف ستھری سڑک گزرتی جس پر ٹریفک بالکل نہ تھامگرسارا دن اِکا دُکا آدمی ضرور گزرتے رہتے۔۔ سڑک کی دوسری طرف پارک تھی۔جس میں چھ سات کھجور کے اُونچے درخت بھی تھے جو دیکھنے والے کو بھلے لگتے۔سڑک اور پارک دونوں ویران تھے۔ غالباًََ گاؤں کے لوگوں کا ایسی چیزوں میں دھیان نہیں رہتا۔ میرا اور آفتاب کے دن کا بڑا حصہ کلینک پر ہی گزرتا۔ڈاکٹر اچھا شاطر ہونے کے علاوہ حاضر جواب اور بذلہ سنج آدمی تھا۔ اُس سے بات کر کے آسان نکل جانا مشکل تھا۔ہر فن مولا ایسا کہ گھر کا چولہا بنانے سے لے کر مریضو کی دوائیاں تک خود تیار کر لیتا۔
آفتاب کے پاس امریکہ کا گرین کارڈ تھا۔گرمیوں میں چلا جاتا۔ چھ سات مہینے مزدوری کرتا اور نومبر چڑھے لوٹ آتا۔پچھلے بیس سال سے یہ اس کا معمول تھا۔سرطان کا مریض بھی تھا۔لہٰذا ڈاکٹروں نے اسے سگریٹ منع کیے تھے۔ گھر سے باہر آتا تو بیگم چھوٹا لڑکا ساتھ کر دیتی کہ اباکا خیال رکھے اور سگریٹ پینے پر اُسے خبر کرے۔اِدھر اس نے بچے کو رشوت پر لگا دیا کہ ہر سگریٹ کے پانچ روپے لے لیا کرے مگر اپنی امی کو نہ بتائے۔
ہم آفتاب سے اکثر امریکی معاشرے پر بات کرتے۔ جسے وہ مزے لے لے کر سناتا کہ ایک دفعہ فلاں سے عشق کیا تو یہ گزری۔فلاں سے عشق ہوا تو یہ بیتی۔ ہمیں بتاتا کہ امریکیوں کا دل اتنا کھلا ہے کہ ایک لڑکے سے جو میرے ساتھ کام کرتا تھا اُسے میں نے کہا یار، تمہاری بہن کیا غضب کی خوبصورت ہے۔بولا آپ کی اُس سے بات کراؤں ؟
میں نے کہا، نیکی اور پوچھ پوچھ کر، بھلائی میں دیر کیسی؟ میاں جلدی کرو۔لیکن پتا چلا کہ پہلے ہی اُس کا ایک بوائے فرینڈ ہے۔جس کا ہم دونوں کو بہت افسوس ہوا بلکہ اُسے غیرت بھی آئی اور طیش کھا کر دو دن تک نہ بولا۔
امریکی قانون پر بات کرتے ہوئے اُس نے کہا قانون سخت ہے لیکن امریکی ڈاکو اِس سے بھی زیادہ سخت ہیں ۔ میں نے پوچھا اُدھر کبھی لٹنے کی سعادت ہوئی ؟بولا مجھے کسی نے نہیں لوٹا البتہ اُن کے ہاتھوں فائدہ ہوا۔ قصہ یہ کہ میں ایک پٹرول پمپ پر ملازم تھا۔ میرے پاس پٹرول کے تقریباً چار ہزار ڈالر جمع ہو گئے کہ اتنے میں ڈاکو آ گئے۔ اُنہوں نے تمام افراد کو لوٹ لیا۔خوش بختی سے میں پیسوں سمیت ٹائلٹ میں جا گھسا۔ڈاکو چلے گئے تو باہر نکل آیا اور لٹنے والوں میں شامل ہو گیا۔ افراتفری میں کسی کو پتہ نہ چلا یوں میں اُس رقم کا مالک بن گیا۔اُس دن خدا کی قسم مجھے پاکستانی ہونے پر فخر ہوا۔
ایک دن حسب معمول ہم شطرنج اور چائے میں مشغول تھے کہ ایک مریضہ کو اُس کے لواحقین تانگے پر لاد لائے۔مریضہ بے ہوش تھی اور لواحقین گھبرائے ہوئے۔ ڈاکٹر نے شطرنج جلدی سے میز کے نیچے چھپا دی اور مریضہ کو دیکھنے لگا۔میں اور آفتاب اُٹھ کر باہر آ گئے اور پارک میں آ کر کھجوروں کے نیچے کھڑے ہو گئے۔ ہم آپس میں باتیں کرنے لگے کہ مریضہ نے کام خراب کر دیا ورنہ اس گیم میں ڈاکٹر پھنس گیا تھا۔ڈاکٹر منور بیگ کچھ دیر مریضہ کو دیکھتا رہا لیکن اُس کی سمجھ میں غالباً کچھ نہیں آ رہا تھا۔ آخر پریشانی کے عالم میں اُس نے لواحقین کو جواب دے دیا۔ اُن سے کہا کہ مریضہ کو دل کا زبردست اٹیک ہوا ہے لہٰذا اِسے جلدی سے شہر لے جاؤ۔ڈاکٹر کے جواب دینے پر لواحقین گھبرا گئے۔ وہ اِس گومگو کی کیفیت میں تھے کہ اتنی جلدی کیا کیا جائے۔مریضہ کو دوبارہ تانگے پر رکھا گیا۔تانگہ چلنے ہی کو تھا کہ آفتاب نے بھاگ کر مریضہ کی نبض پکڑ لی۔ پھر ڈاکٹر کو اشارہ کیا۔ ڈاکٹر نے پاس آ کر مریضہ کو دوبارہ دیکھا اور سر جھکا لیا۔ اِس کیفیت میں مَیں دُور ہی کھڑا رہا۔ غالباً یہ میری نفسیاتی کمزوری ہے کہ کسی کی تکلیف کو قریب سے نہیں دیکھ سکتا۔خیر ڈاکٹر اور آفتاب کو پریشان دیکھ کر ورثا ء سمجھ گئے اور دھاڑیں مار کر رونے لگے۔دراصل مریضہ فوت ہو چکی تھی۔کچھ راہ چلتے بھی کھڑے ہو گئے اور دلاسے دینے لگے۔ بہرحال پانچ چھ منٹ میں تانگہ رخصت ہو گیا اور دس منٹ کے اندر لوگ بکھر گئے۔ یہاں تک کہ ہم تینوں رہ گئے اور سنجیدہ ہو کر بیٹھ گئے۔
کچھ توقف کے بعد ڈاکٹر نے مجھے دیکھا اور بولا، کیوں علی صاحب بندہ کس صفائی سے مرتا ہے۔میں چپ رہا مگر آفتاب نے سامنے سڑک کے اُس پار پارک میں بارش کے پانی میں تیرتی بطخوں کو دیکھتے ہوئے کہا، کم از کم مجھے اس طرح کا مرنا پسند نہیں ۔ یہ کیا کہ مریض کو پتہ بھی نہ چلے اور وہ مر جائے۔ وہ بھی سڑک کے عین بیچ۔ امریکہ میں انسان اور حیوان دونوں ہسپتال میں مرتے ہیں اور اِس صفائی اور آرام سے کہ تکلیف کا احساس نہیں رہتا۔ یوں تانگوں میں ذلیل نہیں ہوتے۔
اِس بات پر منور بیگ نے سرد آہ کھینچی اور میں نے فقط سر ہلا دیا۔
ہمیں متاثر ہوتے دیکھ کروہ مزید بولا۔ بس یار زندہ رہنے کا، مرنے کا اور مرنے کے بعد تک کا مزا امریکہ میں ہے۔یہاں تو ( ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے) نیم حکیم ہیں ۔ تانگے ہیں یا جوہڑ کے گندے پانی جن میں بطخیں تیرتی ہیں ۔ میں نے کہا اگر جینے مرنے کا مزا امریکہ میں ہے تو بالکل ہی اُدھر کیوں نہیں چلا جاتا؟ اِدھر کیا رکھا ہے ؟ بولا، سوچا تو میں نے بھی ہے لیکن میری دو بیٹیاں ہیں ۔ سوچتا ہوں گوروں سے آنکھ لڑا بیٹھیں تو کیا ہو گا اور قانون یہ ہے کہ والد تھپڑ مارے تو جیل جائے۔البتہ اُن کو بیاہ کر جاؤں گا اور نہ آؤں گا۔اِس گفتگو نے ہماری افسردگی دور کر دی اور ہم یہ بھی بھول گئے کہ ابھی ابھی ہمارے سامنے کسی کی موت واقع ہوئی ہے۔
کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے آفتاب کو پھر چھیڑا، یار یہ تو پتا چل گیا کہ جینے اور مرنے کا مزا مغرب میں ہے لیکن مرنے کے بعد تک کے مزے سے تمہاری کیا مراد ہے؟ یعنی یہ کہ امریکی خدا سے بھی ہاتھ کر گئے اور جنت بھی لے اُڑے۔
آفتاب میری طرف دیکھ کر ہنسا پھر بولا، جہاں تک جنت کا سوال ہے، امریکی تو ایک طرف ہم بھی فارغ ہیں ۔ دراصل بات یہ ہے کہ وہ کھاتے ہوٹل میں ہیں ، رہتے ٹھنڈ میں ، مرتے ہسپتال میں اور دفن تابوت میں ہوتے ہیں ۔ جب کہ یہاں کھاتے کچھ نہیں ، مرتے سڑکوں پر اور دفن نہیں ہوتے بلکہ دابے جاتے ہیں ۔
ڈاکٹر نے کہا، کیا تابوت مٹی میں نہیں جاتا؟
جاتا ہے، مگر تو نے تابوت نہیں دیکھا، آفتاب کہنے لگا۔ایک اعلیٰ پائے کی لکڑی کا صندوق جس کے اندر ایلومینم کا ایک اور صندوق، اس کے اندر شاندار کپڑا، جاڑے اور گرمی میں مردے کا محافظ۔بندہ صدیوں سوتا ہے اور مٹی کا منہ چڑاتا ہے۔مجال ہے کفن کا تار بگڑے۔
اور یہاں ؟خدا پناہ، مذہبی فوجدار، غسّال اور گورکن مردے سے گویا انتقام لیتے ہیں ۔ ایک تو وہ بے چارہ مرتا ذلت سے ہے اور رہی سہی کسر یہ نکالتے ہیں ۔ چھ فٹ گہرا گڑھا کھودا، زمین پر چت لٹایا اور اوپر مٹی بھر دی۔یعنی لاش اگر کل خراب ہونی ہے تو آج ہی ہو جائے۔گرمیوں میں پسینے چھوٹیں اور سردیوں میں جاڑا مار دے۔ بھائی میرا تو یہاں مرنے کو دل نہیں کرتا۔ جہاں تابوت نہیں وہاں بندہ کیا خاک مرا بلکہ ذلیل ہوا۔
بس کرو میاں ، ڈاکٹر کہنے لگا، ہمیں تو افسوس ہوتا ہے کہ ابا انگریز کیوں نہ ہوئے؟ کاش امریکی ہوتے۔ چاہے موچی ہوتے۔ اب تابوت سے بھی رہے اور خوف آنے لگا ہے کہ ابھی مرے، ابھی خاک ہوئے۔بھائی اب کے جاؤ تو دو تابوت بھجوا دینا ہم پر احسان ہو گا۔ اِسی چھیڑ چھاڑ میں مغرب کی اذان ہو گئی۔ میں اور آفتاب اُٹھ کر چلے آئے۔
دوسرے دن میں کسی ملازمت کے حصول کے سلسلے میں شہر چلا گیا وہاں دو ماہ رہا۔ اِس دوران ڈاکٹر اور آفتاب سے ملاقات نہ ہو سکی البتہ دو چار بار فون پر بات ضرور ہوئی۔ملازمت چونکہ اچھی نہ تھی اور دوسری وجہ یہ کہ گاؤں یاد آنے لگا۔ لہٰذا جلد ہی لَوٹ آیا۔چار بجے کلینک پر گیا تو دونوں گپیں ہانک رہے تھے۔ میرے جاتے ہی منور بیگ نے بساط پر مہرے لگا دیے۔
کھیل کے دوران ڈاکٹر بولا، چلو یار آج تمہیں جان بوجھ کر جتوا دیتا ہوں کیونکہ کل آفتاب چلا جائے گا۔ کیا کہے گا جاتے جاتے بھی ہار گیا۔
میں نے کہا بعض لوگ جا کر بھی ہار جاتے ہیں ۔
یہ لوگ (آفتاب کی طرف اشارہ کر کے) نہایت کمینے ہیں ، ڈاکٹر کہنے لگا، ہار کر بھی کچھ نہ کچھ لے اُڑتے ہیں ۔
اور آپ سیّد زادے ہیں ۔ آفتاب نے شاہ کو چیک دیتے ہوئے کہا کہ ہر طرف عنایات کی بارش ہے۔
بھڑوے تجھے شاطر کر دیا۔ سگریٹ، چائے اور کھانسی ہمارے لطف کا نتیجہ ہے۔ ڈاکٹر ہنستے ہوئے بولا۔ہماری صحبت میں ہی بیٹھنے سے تمہیں عقل آئی۔ اب لوگ تجھے اچھا بھلا دانشور سمجھتے ہیں ۔ گویا اب تُو چلتا پھرتا کامریڈ ہے۔
اس پر آفتاب ڈاکٹر کو ٹک ٹک دیکھنے لگا۔
یوں ہم سارا دن ہنستے رہے جب کہ گاہے گاہے ڈاکٹر مریض بھی دیکھتا رہا۔دوسرے دن ہم آفتاب کو ایئرپورٹ پر چھوڑ آئے کیونکہ یہ اُس کا امریکہ جانے کا دن تھا۔
آفتاب کے جانے کے بعد میں اور ڈاکٹر گاؤں میں ہم مجلس رہ گئے۔ چار پانچ دن بعد آفتاب کا فون بھی آ جاتا اور کافی دیر تک ہماری باتیں ہوتی رہتیں ڈاکٹر فون پر ہی اُس کی اچھی بھلی خبر لے لیتا۔ دو ماہ اِسی طرح نکل گئے۔ مگر پچھلے کوئی بیس دن سے اُس کا فون نہ آیا۔ہم تھوڑے سے پریشان ہوئے کہ ایسا بے مہر آدمی تو نہ تھا۔ خدا جانے کیا بنی۔
ایک دن میں نے آفتاب کے بیٹے شہزاد سے پوچھا۔ تیرے ابا کا فون نہیں آیا ؟اُس نے کہا وہ اُدھر ہسپتال میں داخل ہیں ۔ آج پندرہ دن ہو گئے، تکلیف اور بے ہوشی کی حالت میں ہیں ۔ وہ بات نہیں کر سکتے۔یہ بتاتے ہوئے وہ رو پڑا۔ میں نے اُسے دلاسا دیا اور ڈاکٹر کو آ کر بتایا۔لہٰذا اُس دن ہم باتیں ہی کرتے رہے۔ شطرنج کھیلنا ویسے ہی بھول گئے۔
پارک میں کھڑا بارش کا پانی اب خشک ہو چکا تھا اور بطخوں کی جگہ آوارہ کتوں نے لے لی جو ایک دوسرے کو غرا رہے تھے۔
اگلے دن رات کوئی ساڑھے گیارہ کا عمل ہو گا۔ اعلان ہوا کہ آفتاب امریکہ میں کسی ہسپتال میں داخل تھا۔ جو آج رات نو بجے فوت ہو گیا۔میں دوڑ کر آفتاب کے گھر کی طرف گیا۔ڈاکٹر پہلے ہی وہاں موجود تھا۔ آفتاب کے بیوی بچوں کے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں ۔ گھر میں داخل ہوئے تو آفتاب کے بچے ہم سے لپٹ گئے اور چیخ چیخ کر رونے لگے۔ ہمارے پاس دلاسا دینے کو الفاظ نہ تھے فقط آنسو نکل آئے۔دوسرے دن آفتاب کے بھائی اور رشتہ دار بھی آ گئے جن میں سے ایک ملک کا مشہور فلمی ایکٹر بھی تھا۔تیسرے دن لاش آ گئی۔جسے دیکھ کر ہم ایک دم چونک گئے۔
لاش ایک بڑے اور خوبصورت تابوت میں تھی۔میں اور ڈاکٹر نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔مگر چپ رہے۔لاش آنے پر پورا گاؤں اُمڈ آیا۔جونہی تابوت کھولا گیا ایک کہرام مچ گیا۔ رونے کی آوازیں درد ناک تھیں ۔ اُس کے بیوی بچے لاش سے لپٹ لپٹ کر رو رہے تھے۔ہم پر بھی رقت طاری ہو گئی اور آنکھیں پانی سے بھر گئیں ۔ فضا اس قدر بوجھل اور ماحول ایسادرد ناک تھا کہ ہم زیادہ دیر تک لاش کے قریب نہ ٹھہر سکے۔علاوہ ازیں رفتہ رفتہ عورتوں کا ہجوم بڑھنے لگا تھا۔ لہٰذا ہم لاش سے دور ہٹ کر کھڑے ہو گئے اور تعزیت میں آتے جاتے لوگوں کو دیکھنے لگے۔ جو پلٹتے ہوئے تابوت کا ذکر ضرور کرتے کہ کتنا خوبصورت اور چاندی سے زیادہ سفید ہے۔ عورتیں اُس کے اندر کے کپڑے پر تبصرہ کر رہی تھیں ۔
نوجوانوں اور بچوں کا الگ ہجوم فلمی اداکار کے گرد جمع ہو چکا تھا۔ وہ اتنے بڑے فلم سٹارکو پہلے سکرین پر ہی دیکھتے رہے لیکن آج اُسے عین آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے تھے۔ آفتاب کی لاش سے اُنہیں صرف اتنی دلچسپی تھی کہ اُس کی موت نے انہیں یہ موقع فراہم کیا۔
اِدھر آفتاب کے بھائیوں اور رشتہ داروں کو یہ فخر حاصل تھا کہ اُن کی وجہ سے امریکی تابوت اور معروف ادا کار کو لوگ دیکھ سکے۔اِس عالم میں آفتاب کے بیوی بچے ہی صرف وہ لوگ تھے جنہیں تابوت دکھائی نہ دیا۔ خاص کر پانچ روپے رشوت لینے والے بیٹے کو جو بالکل لاش کے اوپر لیٹا چیخ رہا تھا۔
شام چار بجے جنازہ اُٹھایا گیا۔جنازہ پڑھا گیا تو لوگوں نے باری باری آفتاب کا چہرہ دیکھا۔جب تمام لوگ چہرہ دیکھ چکے تو آفتاب کا بڑا بھائی ارشد اچانک کھڑا ہو گیا اور لوگوں سے مخاطب ہو کر بولا۔ اے گاؤں والو! تابوت چونکہ ہر ایک کو بہت پسند آیا ہے۔ لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ تابوت گاؤں والوں کو دے دیں تاکہ وہ اپنے مرنے والوں کو اِس میں ڈال کر قبرستان لے آیا کریں اور آفتاب کو بغیر تابوت کے دفن کرتے ہیں ۔ ارشد کے اِس اعلان پر تمام لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ اور اُسے تحسین آمیز نگاہوں سے دیکھا۔بلکہ مولوی صاحب نے اِس بات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے فرمایا، ارشد نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔کیونکہ ویسے بھی لاش کو ایلومینم کے تابوت میں دفن کرنا شرعاً جائز نہیں ۔ منکر نکیر کو دقت پیش آتی ہے۔ارشد کے اِس اعلان اور مولوی کے فتوے کی وجہ سے میرے اور ڈاکٹر کے سرپر گھڑوں پانی پڑ گیا۔جی چاہا کہ آگے بڑھ کر اِن کا منہ نوچ لیں مگر ایسا نہ کر سکے۔
خیر جنازہ پڑھنے کے بعد اکثر لوگ چلے گئے چند ایک رُکے رہے۔ یہاں تک کہ تابوت کو قبر کے نزدیک لے جا کر کھولا گیا۔ تین لوگوں نے مل کر آفتاب کی لاش باہر نکالی۔ دوسرے لوگوں نے کلمہ شہادت بلند کیا۔اُس کے بعد دو شخص قبر میں اُترے اور کلمہ شہادت کے ورد کے ساتھ قبر میں اُسے ننگی زمین پر لٹا دیا۔پھر مٹی ڈالے جانے لگی۔
اِس تمام عمل کے دوران مَیں اور ڈاکٹر تماشا بنے کھڑے رہے۔ ہم نے نہ تو کلمہ شہادت پڑھا، نہ لاش کو ہاتھ لگایا اور نہ ہی مٹی ڈالی۔ جیسے مرنے والا کوئی اجنبی ہو۔
http://pakistanica.com/writers/ali-akbar-natiq/
متولّی
آغا نجف کی اچانک موت نے مہرالنسا خانم کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ یعنی جودس ہزار کا مشاہرہ حویلی سے آتا تھا، اب اس کی بھی کوئی صورت نہ تھی۔ ادھر لاکھ سمجھانے پربھی شرف النسا کسی اور کی رکھیل بننے سے انکاری تھی اور خود وہ اس عمر میں دھندہ کرنے سے رہی جب کہ ثمینہ کی عمر ابھی اس قابل نہیں تھی کہ اس کی نتھ کھلوائی جاتی۔ پھر اس نے پچھلے دس سال سے کسی اورسے واسطہ بھی تو نہ رکھا کہ کوئی اس کی پرسش کو آتا۔ کہنے کوتو پینتیس سال سے اسی ہیرا منڈی میں اس کا کوٹھا تھا مگر ایرے غیرے کو منہ لگانا تو ایک طرف کسی دلال سے بھی تعلق نہ کیا۔یہاں تک کہ مجلس،ماتم داری اور منت و وظائف کی تمام رسوم بجائے محلے کے امام باڑے کے مرکزی امام بارگاہ میں جا کر ادا کرتی۔دراصل مہرو خانم کی نظر میں وہ تصویریں پھرتی تھیں جب وہ اپنی ماں کے ساتھ فیض آبادسے یہاں آئی تھی اور شاہی محلے میں ان کا کوٹھا گویا ایک دربار تھا جہاں ایک سے بڑھ کر ایک، بیسیوں رنڈیاں ان کے ہاں پناہ لیے ہوئے تھیں ۔ ہر وقت رقص و آواز کا سامان اور آٹھ پہر رونقیں تھیں ۔ اگرچہ فیض آباد کی طرح یہاں نواب نہ تھے مگر مہرو کی ماں خورشید آرا اب بھی اپنے ہاں کم نسب اور ذلیل کو پھٹکنے نہ دیتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اس کے ہاں آنے والا نواب نہیں تو نہ سہی کم سے کم شرفا میں تو ہو،مگر خورشید آرا کے مرنے کے بعد تو ایسی منحوس ہوا چلی کہ محلہ صرف لچّو ں لفنگوں کا اڈا بن کے رہ گیا۔ حکومت نے ایسے قانون بنائے کہ شرفا نے آنا بند کر دیا۔ البتہ آغا نجف،کہ پرانے ملنے والوں میں تھا جو ایک طرح سے مہرو خانم کا داماد بھی تھا،اس نے آخری دم تک ساتھ نبھایا۔ وہ خود تو نہ آتا تھا مگر دس ہزار ماہانہ بھیجتا رہا۔ اب جب کہ آغا نجف کا سہارا بھی نہ رہا تو اس کی نشانی خادم حسین کی کفالت کی فکر دامن گیر ہوئی۔کوئی چھ مہینے تو اسی حالت میں گذرے لیکن کب تک ؟ جب جمع شدہ سرمایہ آخری سانسیں لینے لگا تو مہر النسا خانم نے کوٹھے کے باہر پان سگریٹ کا کھوکھا لگا لیا اور کتھا چونا بیچنے لگی۔ چند دنوں میں کھوکھا چل نکلا اور دن میں دوچار سوآنے لگے یوں یہ فکر تو کسی حد تک کم ہوئی مگر وہ خادم حسین کے حال سے تشویش میں گُھلنے لگی جو ابھی تین ہی سال کا تھا۔اسے ثمینہ کی توایسی فکر نہ تھی کہ وقت آنے پر جیسے وہ نقش نین بنا رہی تھی، سو آدمی اس کے لیے تیار ہو جاتے لیکن وہ سمجھتی تھی کہ خادم حسین نواب کا لڑکا ہے، اسے محلے میں نہیں رہنا چاہیے۔ اسی شش و پنج میں ایک سال اور نکل گیا۔ ایک دن اس نے خادم حسین کو شرف النسا کی گود میں کھیلتے دیکھا تو اس کا جی بھر آیا۔ وہ یہ سوچ کر کُڑھنے لگی کہ ایسا چاند کا ٹکڑا محلے کے شہدوں اور لفنگوں میں کیو ں کر زندگی کاٹے گا۔بالآخر اس نے شرف النسا سے کہا "جس قدر جلدہوسکے لڑکے کو رنڈیوں کی صحبت سے دور کر دو۔ آج چھوکرے کی عمر ہی کیا ہے۔ ہوش لینے سے پہلے محلے سے ہٹاؤ گی تو پلٹ کر نہ آئے گا۔ "
"لیکن کہاں بھیجوں ؟ یہاں تو دور دور تک کسی شریف زادے سے تعلق نہیں ۔ البتہ آغا نجف زندہ ہوتے تو ضرور لے جاتے کہ خون کا کچھ تو خیال ہوتا ہے”،شرف النسا نے فکر مندی سے جواب دیا۔
"مگر یہاں محلے میں ضرور خراب ہو گا۔”مہرو خانم نے دوبارہ زور دیتے ہوئے کہا، ” ایک سے ایک بدمعاش رنڈی بیٹھی ہے۔ مسیں بھیگنے سے پہلے ہی لونڈے کو چاٹ لیں گی۔ دیکھ تو کیسے ہاتھ پاؤں نکال رہا ہے اور پھر میں تو کسی طرح نہ چاہوں گی کہ لڑکا محلے کے رذیلوں میں اٹھے بیٹھے۔”
"مگر کہاں بھیجوں ؟ کوئی ٹھکانہ بھی تو ہو۔”شرف النسا اکتائے ہوئے لہجے میں بولی۔
"میں نے ایک جگہ سوچی ہے۔” مہرالنسا نزدیک ہو کر کہنے لگی،” سید صادق تقی ہے نا، مرکزی حسینیہ امام بارگاہ کا متولّی، لڑکے کو اس کی کفالت میں دے دیتے ہیں ۔ خرچہ چپکے سے بھیجتے رہیں گے۔ وہیں سے مکتب میں جائے اور وہیں رہے۔ کانوں کان کسی کو خبر نہ ہو گی۔خود ہم بھی کم ہی واسطہ رکھیں گی۔ سیّد زادوں اور شریفوں میں رہے گا تو دنیا کی عزت اور دین کی دولت دونوں پائے گا۔”
"مگر اماں !”شرف النسا بولنے لگی پھر گویا دل ہی دل میں اپنی ماں کی عقل کو داد دیتے ہوئے چپ کر گئی۔ پھر اچانک تردّدسے بولی،” مگر اماں سیّد صادق کیوں کر ایک رنڈی کے بیٹے کو لے گا ؟اس کے تو جنموں میں بھی رنڈیوں سے واسطہ نہیں ۔ ایسا فرشتہ سیرت اور شب بیدار کیسے ہمارے پاپ کا ذمہ اٹھائے گا ؟ پھر خادم ابھی چار ہی سال کاتو ہے۔وہ تو اس کی ناک پونچھنے سے رہا۔”
"تو فکر نہ کر”، مہرالنسا فیصلہ کن لہجے میں بولی "سیّد تقی سے بات میں کروں گی۔ ہماری تو جو قسمت میں لکھا تھا بھوگ لیا، پر میں لڑکے کو ذلیل نہ ہونے دوں گی اور پھر اِسی عمر میں یہ یہاں سے نکلے تو اچھا ہے۔”
گذشتہ سال اس کڑاکے کی سردی پڑی کہ ہر شے سکڑ کے رہ گئی۔ مہرو خانم جو رات گئے تک کھوکھے پر بیٹھتی تھی اسی سردی سے نمونیے میں گرفتار ہو گئی۔ لاکھ دوا دارو کیے مگر افاقہ نہ ہوا۔ اگرچہ وہ ساٹھ سے اوپر نہ تھی مگر عمر کے اس حصے میں تھی جہاں دواؤں کے ساتھ دعاؤں کی بھی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ قبول نہ ہوئیں اور مہرو خانم دس دن کے اندر ہی قضا ہو گئی۔اِس اچانک موت نے شرف النسا کو ہلا کے رکھ دیامگراس نے چند ہی دنوں میں اپنے آپ کو بحال کیا اور کھوکھے کے کام کو سنبھال کر گھر چلانے کا بندوبست کر لیا۔ وہ خود تو کھوکھے پر بیٹھنے لگی جب کہ گھر کی دیکھ بھال ثمینہ کے حوالے کر دی۔ کئی مہینے اِسی طرح معاملہ چلتا رہا اس کے ساتھ ساتھ ثمینہ کی دلچسپیاں بھی بڑھتی گئیں ۔ حتیٰ کہ مہرو خانم کو مرے ابھی سال نہ ہوا تھا کہ اس نے پر نکالنے شروع کر دیے۔ شرف النساکے لاکھ سمجھانے پر بھی تانک جھانک سے نہ رکی بلکہ کچھ دنوں سے تو سر عام رنڈیوں کی صحبت پکڑ لی۔ شرف النسا نے یہ حالت دیکھی تو فکر میں پڑی۔فوراً کبیر دلال سے رابطہ کر کے سردار جہانگیر احمد کے ساتھ تین لاکھ کے عوض گانٹھ دی۔ سردار جہانگیر احمد ثمینہ کو اپنی زمینوں پر پتّوکی لے گیا جہاں اس کے بے شمار باغات تھے۔ اول تین ماہ تک تو ثمینہ کو اپنا کوٹھا یاد آتا رہا لیکن اب آہستہ آہستہ جہانگیر کی ناز برداریوں سے وہ اس جگہ کی عادی ہو گئی پھر اسے کچھ اور امید بھی بندھ گئی تھی کہ شاید جہانگیر اس سے شادی کر لے اور یہ ہو بھی جاتا کہ قسمت نے ایک اور پلٹا کھایا۔ انھی دنوں جہانگیر احمد کی ماں کو کسی طرح خبر ہو گئی کہ لاڈلے میاں نے گھر سے بالا بالا رنڈی رکھی ہوئی ہے۔ وہ انھی قدموں پتّو کی پہنچی اور ثمینہ کو میڈھیوں سے پکڑ کر دروازے سے باہر کر دیا۔جہانگیر نے اُف تک نہ کی۔ حالاں کہ ثمینہ کے پیٹ میں اس کا چار ماہ کا بچہ ہو چکا تھا جسے اس نے شادی کی امید پر جننے کا سوچا تھا۔دروازے سے باہر نکلتے ہوئے ثمینہ بار بار جہانگیر احمد کا منہ دیکھتی رہی کہ شاید ماں کو کھری کھری سنا دے مگر جہانگیر تو بھیگی بلی بنا کھڑا تھا اپنی ماں کے آگے جیسے کل کا بچہ ہو۔ ثمینہ نے یہ حالت دیکھی تو دونوں کو کوسنے دینے لگی۔اس نے ایسے مرد کہاں دیکھے تھے۔ بالآخر تین حرف بھیج کر کوٹھے پر آ گئی۔ ایک دو مہینے تو اسے یہ امید رہی کہ شاید جہانگیر رابطہ کرے لیکن جب ادھر سے کسی نے خبر نہ لی تو اِس نے دھندا کرنے کی ٹھان لی۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ پیٹ کا بچہ اب چھ مہینے کا ہو چکا تھا، لہٰذا مایوس ہو کر کھوکھے کے کام میں شرف النسا کا ہاتھ بٹانے لگی اور دن گذرتے گئے۔
لڑکا پیدا ہوا تو ثمینہ نے اپنے کام کا آغاز کر دیا اگرچہ رکھیل بنانے کو سینکڑوں تیار تھے لیکن اب وہ مستقل کسی کی ہوکے رہنے کو راضی نہ تھی۔ لہٰذا، آلات رباب سے گرد جھاڑ کر ایک سلیقے سے دھندہ شروع کر دیا۔ پھرتو چند ہی ماہ میں دور دور بات نکل گئی اور محلے میں ایک قسم کی جان آ گئی۔
ایسی عزاداری تو لوگوں نے اپنی ہوش میں دیکھی نہ تھی۔ خادم نے انتظامات کچھ ایسے ڈھب سے کیے کہ ہر آدمی واہ وا کر کے رہ گیا۔ عزا داروں کے لیے شامیانوں اور سبیلوں کا انتظام، ماتمیوں اور زنجیر زنوں کے لیے فرسٹ ایڈ سے لے کر مکمل میڈیکل سنٹر کا قیام اور چاک چوبند حفاظتی دستے کی عمل داری، ہر کام میں ایک سلیقہ تھا۔ اس کے علاوہ پہلی دفعہ پولیس انتظامیہ سے مل کر مرکزی امام باڑے سے لے کر گول چوک تک کا تمام رستہ دو طرفہ زنجیروں سے باندھ دیا گیا تاکہ جلوس اور ماتمیوں کو کوئی بیرونی رکاوٹ پیش نہ آئے اور وہ خطرے سے دور رہیں ۔ اگرچہ آمدنی سابقہ سے زیادہ نہ تھی مگر حسن انتظام ایسا تھا کہ کسی کو شکایت کی گنجائش نہ ہوئی۔ انھیں پیسوں میں ملک کے نامور ذاکرین، سوز خواں اور نوحہ خواں بلوائے گئے۔ عوام الناس کے لیے دودھ کی سبیلوں کا اہتمام الگ تھا۔ خیر یہ سب تو ایک طرف، اس دفعہ لوگوں نے بھی وہ جوش و خروش دکھایا گویا پورا شہر اثنا عشری ہو گیا ہو۔ عزا داروں کا ایسا جم غفیر پہلے کبھی دیکھنے میں نہ آیا تھا۔ دسویں کو زنجیر زنی اور کوئلوں پہ ماتم تو ایساہوا کہ کسی نے خواب میں بھی نہ دیکھا ہو گا۔جس شخص نے پہلے کبھی بغلوں سے ہاتھ نہ نکالے تھے، اب وہ بھی سینہ کوبی کرتے نظر آئے۔ ہر ایک کا خیال تھا یہ سب اسی وجہ سے ہوا کہ انتظام اب کے خادم کے ہاتھ میں تھا۔ یوں تو ہر شخص سیّد صادق کی وفات کے بعد خادم سے مشورے کے بغیر امام باڑے یا عزاداری کے متعلق کوئی کام نہ کرتا تھا مگر یہ اہمیت اعجاز رضوی کی شہادت پر اور بڑھ گئی۔ جب خادم نے اپنی جان پر کھیل کر قاتلوں کا پیچھا کیا اور ایک کو مار گرایا۔ اس عمل میں اس کی اپنی ٹانگ بھی زخمی ہو گئی جس کی وجہ سے مہینہ بھر ہسپتال میں رہا۔ اوراس دوران کوئی فرد ایسا نہیں تھا جو خادم کے لیے فکرمند نہ ہوا ہو۔سادات وغیرسادات سب نے اس کی صحت یابی کے لیے دعا کی اور تیمار داری میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ صحت مند ہو کر آیا تو ہر ایک کو بے پناہ خوشی ہوئی اور اس صلے میں کوثر شاہ نے عزاداری کے انتظامات اسے سونپ دیے جس کا نتیجہ توقع سے زیادہ اچھا نکلا۔ ذاکر جیسے ہی مصائب کی طرف پلٹتا سب سے پہلے اسی کا بین اٹھتا اور اس قدر روتا کہ امام باڑے کے در و دیوار لرز لرز اٹھتے۔ ہر نماز کے وقت رائفل لے کر دروازے پر بیٹھ جاتا اور جب تک ایک بھی فرد نماز میں ہوتا، محافظت نہ چھوڑتا۔ امام باڑے سے ملحقہ کمرہ اس کے جینے مرنے کا سامان تھا۔ چونکہ ہوش اِسی کمرے میں سنبھالے تھے، لہٰذا ایک قسم کا وہ اس کا اپنا گھر تھا اور کبھی یہ گمان بھی نہ رہا کہ یہ جگہ امام باڑے کی ہے۔ کمیٹی نے خادم حسین کا ماہانہ آٹھ ہزار مشاہرہ مقرر کر دیا جو اس سے پہلے سیّد صادق تقی کو ملتا تھا۔ خادم حسین کو اگرچہ کئی سبب سے یہ معلوم تھا کہ اس کا سلسلہ ہیرا منڈی سے ہے مگر اس نے کبھی شرف النسا کے ساتھ اس طرح کی بات نہ کی تھی اور نہ ہی شرف النسا نے اس موضوع کو کبھی چھیڑا۔ ماں بیٹے کے درمیان گویا ایک خاموش سمجھوتا تھا۔ البتہ ہر ماہ اپنی ماں کو ان آٹھ میں سے چار ہزار باقاعدگی سے دیتا تھا۔ خادم اپنی خالہ کی عزت بھی ویسے ہی کرتا جیسے شرف النسا خانم کی کرتا۔اسے شاید ان کے دھندوں سے کوئی غرض نہ تھی بلکہ ہر طرف سے بے نیاز ایک ہی دھُن تھی کہ امامِ مظلوم کی عزاداری اب کے کیسے زور شور سے کی جائے۔ وہ ہمیشہ انھی ذرائع پر غور کرتا جو عزاداری سے متعلق ہوتے۔خاص کر ذو الجناح کو سجانے اور زیور سے آراستہ کرنے میں توایساجگرکوخون کرتا کہ عزا داروں کو بھی رشک آنے لگا تھا۔اس نے اپنی تنخواہ کا ایک حصہ ذو الجناح کے زیورات کے لیے مخصوص کیا ہوا تھا۔ اگرچہ عشرے کے روز ذو الجناح کی باگ پکڑ کر چلنے کی اسے بہت حسرت تھی لیکن یہ کسی سیّدکا کام ہوتا تھا پھر بھی ہر حالت میں ذو الجناح کے ساتھ ساتھ چلتا۔ الغرض خادم کے بارے میں یہ طے تھا کہ اسے سوائے عزاداری کے کسی سے کچھ غرض نہیں تھی۔
ماخذ۔ اثبات، ممبئی
قائم دین
ہاں تو بول اس ڈبے کھری کا کیا لے گا؟ ویسے ایک بات کہوں ؟ چوری کا مال ہے سوچ کے مول لگانا۔
کل کلاں پُلس آ گئی تو اس کے ساتھ بھی مُک مکا کرنا پڑے گا۔
نور دین نے بھینس کی کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
دیکھ میاں نوری، پانچ ہزار سے ایک ٹکا نیچے نہیں لوں گا۔ اٹھارہ لیٹر دودھ سویرے شام باٹوں سے تول لینا۔قطرہ کم ہوا تو تھڑے پر مونچھ منڈواؤں گا۔ رہی پُلس کی بات ! اگر تجھے کوئی پوچھے، سیدھا میرے چھپر کی راہ دکھانا، میں جانوں اور پُلس۔ قمّے نے صاف روکھے پن سے مول بتاتے ہوئے کہا۔
پانچ ہزار، قہر خدا کا آخر بھینس ہی تو ہے، کوئی ہاتھی تھوڑی ہے۔ پھر تم کون سا مول لے کے آئے ہو۔ مفت کی مارہے۔ تین ہزار لو اور کمبل سے جان چھڑاؤ۔ نورا پھر بولا۔ مائی نذیراں کو تو پچھلے مہینے بیل برابر گائے ایک ہزار ہی میں دے دی اور مجھ سے پانچ ہزار مانگتے ہو۔
اے چل، مفت کی مار ہے۔ بارڈر پار سے مال چوری کر کے لانا تو ایک طرف، ذرا آدھی رات کو دریا پار کر کے ہی دکھا دے۔ ایسی تین بھینسیں مفت میں نہ دوں تو نظام دین کا نطفہ نہیں ۔ قمّا تلخی سے بولا، پوہ کی ٹھنڈی راتوں کو چڑھتا ستلج پار کر کے ڈِیلے کے جنگلوں میں کالے سانپوں کی سریاں پاؤں سے کچلنا اماں جی کا کھیل نہیں اور پھر بارڈر پار۔ یہ مال سِکھڑے کوئی ہتھیلی پر رکھ کر نہیں کھڑے ہوتے۔ موت کے منہ سے نکال کے لاتا ہوں ۔ اور تجھے مفت میں دے دوں اگر پانچ میں لینی ہے تولے، ورنہ اپنا رستہ ناپ، مائی نذیراں کا تجھے ٹھیکہ ہے کیا ؟ بچاری کا آگا نہ پیچھا، اکیلا دم۔ میں اُسے مفت میں دوں یا پیسے لوں ، تجھے کیا درد ؟
قمّے کی بات سن کر نور دین کھسیانا سا منہ لے کر باڑے سے باہر نکل آیا۔ ادھر قمے نے جلدی سے بھینسوں کو ٹرک پر لادنے کی تیاری کی۔ جو اس کا بھائی جلال دین رات ہی منڈی احمد آبادسے کرایے پر لایا تھا۔جس میں چھ بھینسیں اور دو گائے لاد کر لائلپور کی منڈی میں لے گیا۔
اُدھر جلال دین مال لے کر چلا۔ اِدھر قصّہ خوانیاں شروع ہو گئیں ۔ بھائی شادے خاں ، قمّے نے مونچھ پہ ہاتھ پھیر کر حُقّے کا ایک لمبا گھونٹ بھرا۔ جب میں دریا کے کنارے پہنچا تورات کے نو بجے تھے۔ رات گھُپ اندھیری ایسی کہ عزرائیل بچارے کے بھی ساہ نکل جائیں ۔ اُدھر ستلج کا ٹھاٹھیں مارتا ٹھنڈا پانی۔میں نے دل میں کہا۔ لے بھئی قمیا،تیرا رب راکھا اور سائیں چانن شاہ تیرا مددگار۔ مار دے چھلانگ دریا میں ۔ بس پھر ایک دو منٹ ٹھنڈ لگی۔ اس کے بعد تو میں دریا سے چیرتا ہوا گزرا۔ پندرہ منٹ میں رب سائیں کے کرم سے اگلے کنارے پر تھا۔
اور ڈِیلے کا جنگل کیسے پار کیا ؟ وہاں تو گلہریوں کی طرح سانپ ناچتے ہیں ۔ شمس علی نے حیرانی سے پوچھا،،
شمّے خاں ، ڈِیلے کا نہیں ، سانپوں کا جنگل کہو، سانپوں کا۔قمّا میٹھی دھوپ میں انگڑائی لیتے ہوئے بولا، اتنے موٹے ہیں کہ بندے کو ثبوتا کھا جائیں ، ڈکار لینا تو الگ بات، زبان تک نہیں چاٹتے۔ بس دو کروٹیں لیں بندہ ہضم۔
قسم چانن شاہ کی ان آنکھوں نے بیسیوں بندے ڈِیلے کے اس جنگل میں غائب ہوتے دیکھے۔ دوچار تو میرے سامنے نگل گئے۔
اب میں کوئی بچہ تھا ؟ جو اس کا توڑ نہ جانتا۔ پیر نظام بخش سے منتر اسی اوکھٹ کے لئے تو سیکھا۔ بس بھائی ادھر میں نے منتر پڑھا، اُدھر باشک ناگ، کل ساڑ،ارگن ناگ، پدم ناگ، کھپرا، کلچوڑیا، سنگچوڑ، کلہریا ایک ایک کر کے سلامی کو حاضر ہوئے۔ نیل بانیا منکر ہوا تو ایک پھونک مار کے دھواں کر دیا۔
لیکن سور پر تو منتر چلتے اور میں جانتا ہوں دس بیس نہیں ، سینکڑوں سور اس جنگل میں ہیں ۔ گویا ہندوستانی فوج کٹاریں منہ میں دبائے پھرتی ہو۔ اُن سے کیسے نبھی ؟ حامدی نے لقمہ دیا۔
واہ حامدی واہ، یہ تو نے خوب کہی، یہ دیوار سے لگی چھ پھلی برچھی کو دیکھو، کاٹتے وقت دشمن اور سور میں فرق نہیں کرتے۔ پندرہ سور کاٹ کے دیکھ کتنا آرام سے لیٹی ہے۔ جنم جنم کی ساتھی۔ بھاگ بھری نے رات کمال کر دیا۔
قصہ مختصر،قمّے نے داستان آگے بڑھاتے ہوئے کہا سوروں کو پھاڑتا اور سانپوں کو کچلتا ہوا، رات ایک بجے پھجا سیئاں کی بھینی پر پہنچا اور ایک ایک کر کے ساری بھینسیں کھول کر آگے کر لیں ۔ مونجی کے کھیت سے ہوتے ہوئے ایک گھنٹے میں بارڈر سے ادھر لے آیا۔
تو کیا سِکھڑا افیم کھا کے سویا تھا جو جاگا نہیں ؟ ارشاد علی نے پوچھا۔
سالا آدمی کہاں ؟ بھینس ہے، روزانہ چار جگ لسّی پی کے سوتا ہے۔ جو اتنی لسّی پی لے،پھر وہ تو کیا اس کے نصیب بھی سوجاتے ہیں ۔ قمّا سردیوں کی اس روشن دھوپ میں تھڑے پر بیٹھا گاؤں کے لوگوں کو اپنی اس واردات کے قصّے سنا رہا تھا کہ دور سے مولوی سراج دین تسبیح پھیرتا ہوا قریب آیا اور قمّے کو مخاطب کر کے کہنے لگا۔ قمّے مالِ غنیمت مبارک ہو۔ سنا ہے رات اللہ نے تیری بڑی مدد کی۔ پورے آٹھ مویشی لایا ہے۔ بس کافروں کے ساتھ جہاد کا آج کل یہی طریقہ ٹھیک ہے۔ اللہ نے چاہا تو تیری بخشش یقینی ہے۔
تمام لوگوں نے مولوی کی اس بات کو غور سے سنا اور قمّے کی طرف رشک سے دیکھا۔ جسے سن کر قمّا بھی فخر سے مونچھوں پر ہاتھ پھیرنے لگا اور مصنوعی عاجزی سے مولوی کی طرف جھکا۔پھر مولوی صاحب نے پندرہ بیس منٹ اسلام اور کفر پر واعظ کہا۔ اس کے بعد قمّے کے گھر سے تمام لوگوں کے لئے چائے بن کر آ گئی۔جسے سب مزے سے پینے لگے۔ چائے پینے کے بعد مولوی سراج دین اُٹھ کر جانے لگا تو سب کھڑے ہو گئے۔ دو قدم چل کر مولوی صاحب پھر رُکے اور قمّے کو مخاطب کر کے بولے۔ پُتر قمّے،مسجد کا حصّہ جلدی بھیج دینا۔ کہیں خدا ناراض نہ ہو جائے۔
بس مولوی صاحب جلال دین منڈی سے واپس آ جائے تو سب سے پہلے مسجد کا حصّہ آئے گا۔قمّے نے تڑ سے جواب دیا۔
لے بھئی قمّے آج سے تیسرے روز بھادوں کی سولہ ہے۔ خانو سیال نے بیٹھتے ہوئے کہا، میں نے تجھ پر دو ہزار کی جھنڈی رکھ دی۔ حمیدا گجر اس دفعہ کشتی میں جیت کے نہ جائے۔ شام دین اور فیضے نے اُس پر شرط لگائی ہے۔
چاچا خانو،تُو فکر نہ کر، حرامی کو ایسا دھوبی پٹڑا دوں گا کہ آئندہ دس پُشتوں تک کوئی کشتی نہ کھیلے گا۔ گینڈے کی اولاد نے پچھلے سال مائی جمن کے پُتر کی ٹانگ توڑ دی۔ اور پسلیوں پر بھی بلاوجہ زور دیتا رہا۔ قمّا تڑپ کو بولا،وہ تو کہو سردار نبی بخش نے کشتی چھڑا دی ورنہ تو یہ اس کو مارنے ہی لگا تھا۔ مگر یہ تو بتا کہا اتنے پیسے کہاں سے آ گئے ؟ جو پورے دو ہزار لگا رہے ہو۔ اور پھر کتوں کی لڑائی اور کبڈی پر بھی تو شرطیں بندھنا ہیں ۔
پُتر تو اس کی پروا نہ کر۔ خانو سیال بولا،اس دفعہ گنے اور مونجی کی فصل نے سارے دلدّر دور کر دیئے۔ پورے ایک لاکھ کی فصل ہوئی۔ قرضہ ورضہ دے کربیس ہزار اس کڑے وقت کے لئے بچا رکھا ہے۔ لیکن اس سال تو نے بھی تو تین چوریاں کیں ۔ وہ کیا ہوئیں ؟ جہاں تک مجھے پتا ہی، کم سے کم ڈیڑھ لاکھ کا مال ہو گا۔ جانو، شریفا، شمّا اور کالو نائی تو اسی کام میں لاٹوں کے مالک بن گئے اور تو وہی پھانگ کا پھانگ۔
چاچا کیا بتاؤں ، قمّا تاسّف سے بولا۔ جس دن چوری کر کے لاتا ہوں ۔ دوسرے دن ہی آدھا گاؤں ادھار لینے آ جاتا ہے۔ اور آج تک کسی نے ایک پائی واپس نہیں کی۔ پولیس تیسرا حصہ الگ مار لیتی ہے۔ اس کے علاوہ پندرہ لوگ گھر کے اور اللہ بخشے بھائی رحمت کا کنبہ الگ۔ بس سمجھو ادھر آیا اور ادھر
نکل گیا۔ خیر چاچا اس قصے کو چھوڑ۔ اس دو ہزار میں سے ایک ہزار میرا اور باقی کا تیرا۔ اللہ نے چاہا تو سولہ بھادوں کو چانن شاہ کا میلہ رنگ دوں گا۔
میلے میں ابھی تین دن تھے چک قاسم شاہ اور اردگرد کے دس پندرہ گاؤں جو دریا کی ٹھاڑ میں پڑتے تھے سب میلے کے علاوہ ہر چیز بھول گئی۔ پہلوانوں کو مالشیں ہو رہی ہیں ۔کتوں اور مرغوں کی خدمتیں دگنی ہو گئیں ۔ چانن شاہ کے مزار کے دائیں پہلو دریا کے کنارے اکھاڑے کی جگہ ہل چلا کر خوب نرم کر دی گئی۔ مزار پر جھنڈیاں اور رنگ برنگے دوپٹے لہرانے لگے۔ دُور دُور سے گاؤں کی عورتیں مزار پر گھی کے چراغ جلانے آئیں اور منتوں کا دودھ بٹنے لگا۔ ملنگوں نے بوٹی کے رگڑے اور حق علی کے نعرے اور تیز کر دیئے۔
توت اور نیم کے گھنے سایوں میں دھمالیں پڑیں تو ٹھاڑ میں گویا زندگی جاگ اُٹھی۔ بچوں سے بوڑھوں تک ہر کوئی مزار کی طرف رواں ہوا۔ مزار کے اردگرد کے بیسیوں ایکڑ کی زمین مٹھائی، جلیبی اور پکوڑوں والوں کی دکانوں سے بھر گئی۔
پندرہ کی رات دربار پر ہر طرف سے گھی، گیس اور تیل کے چراغ جل اُٹھے۔نقالوں بھانڈوں کی ٹولیوں نے اپنے اکھاڑوں کے لئے الگ الگ جگہوں پر قبضے جمائے۔ اور آدھی رات تک تیاریوں میں مصروف رہے۔ چاند کی چودہویں کا دودھ برس رہا تھا اور خوشی کا میلہ تھا کہ شفیع کمبوہ نے خبر دی،دریا کا پانی معمول کی سطح سے بلند ہو رہا ہے۔ اپنا اپنا بندوبست کر لو۔ تو اچانک لوگوں میں اضطراب پھیل گیا۔
رفیق جوئیہ گھر سے ریڈیو اُٹھا لایا۔ آٹھ دس دن سے وہ یہ خبر سن تو رہے تھے کہ دریا کا پانی چڑھنے والا ہے۔ مگر وہ اسے افواہ ہی سمجھے۔ کیونکہ ہرسال ایسی افواہیں اُڑتی تھیں لیکن پانی کبھی بھی خطرے کی حد تک نہ چڑھا۔ ہاں ، بیس سال پہلے ایک سیلاب آیا تھا۔ جس نے ان کا کافی نقصان کیا۔پھر اُس کے بعد ایسی کوئی مصیبت نہ آئی۔
رات ایک بجے تمام لوگ ریڈیو کے گرد بیٹھ گئے اور خبروں میں سیلاب کے بارے میں سننے کے لئے تیار ہوئے۔ مگر تمام خبروں میں سیلاب کا ذکر تک نہ تھا پھر حتیٰ کہ لوگ میلے کو بھول کر دریا کی طرف دیکھنے لگے۔ یہاں تک کہ پانی کی آواز دور تک سنائی دینے لگی۔ تقریباً تین بجے رات تک دریا نے اپنے پہلے کنارے ڈبو دیئے اور فصلیں چاٹنے لگا۔ اب تو خوف و ہراس ایسا پھیلا کہ خلقت میں بھگڈر مچ گئی۔ کچھ ہی دیر میں پانی جب مزار کے قریب آ گیا تو دکانوں والوں نے جلدی جلدی دکانیں بڑھائیں ۔ نقال اور بھانڈ اکھاڑے سمیٹنے لگے۔ اور لوگ اپنے اپنے گاؤں کی طرف بھاگے مگر ان کے پہنچنے سے پہلے دریا گاؤں کی کچی دیواریں کھا چکا تھا۔
رات کے سمے لوگ جو کچھ سمیٹ سکے، اسے سمیٹا باقی وہیں چھوڑ کر بڑے بند کی طرف جانے لگے۔ ٹرالیاں ، چھکڑے اور گدھی ریڑیاں جُت گئیں ۔ مگر دریا کی رفتار اِن سے کہیں زیادہ تیز تھی۔ تیز و تند شور اُٹھاتا دریا فیلِ مست کی طرح چڑھا آتا تھا۔ قمّے نے دیکھا تو اس نے اپنی بھینسوں اور کنبے کے علاوہ ہر شے وہیں چھوڑ دی اور انہیں ہانکتا ہوا بڑے بند کی طرف بڑھنے لگا۔
صبح پانچ بجے قمّا اور دریا برابر بند پر پہنچے۔ بند پر قمّے کی طرح اور بھی سینکڑوں لوگ دور تک کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ جنہوں نے عاقبت اندیشی سے کام لے کر جلدی ٹھاڑ چھوڑ دی تھی۔قمّے نے کنارے پر کھڑے ہو کر جب دریا کو دیکھا تو اسے ایسے لگا جیسے زمین کے اندر سے پانی کا بڑا اژدھا نکل آیا ہو۔
ہزاروں چھپر بہے چلے جاتے تھے۔ سینکڑوں بکریاں اور گائے بھینسیں تیرتی اور ڈوبتی ڈباتی بند کی طرف آنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ اچانک اس کی نظر ارشاد علی پر پڑی جو اپنے دو بچوں اور بیوی کو بمشکل سنبھالے،ہانپتا ہوا بند کی طرف بڑھ رہا تھا۔ قمّے نے جیسے ہی دیکھا چھلانگ لگا کر چیتے کی سی پھرتی سے ارشاد علی کے پاس پہنچ گیا اور دونوں بچے اُچک کر بند کی طرف بڑھا۔ ارشاد علی کی جان میں جان آئی۔ لیکن اب قمّے کو چین کہاں ادھر ادھر سے ڈوبتوں نے پکارنا شروع کر دیا۔ اور یہ دریا سے بند پر اور بند سے دریا میں کئی چکر لگا دیئے۔ بیسیوں کو کھینچ کھینچ کے باہر لایا۔ مولوی سراج دین، چوہدری نور دین،فیض چوہدری خان سیال اور سینکڑوں گاؤں والے بند پر بیٹھے لاچاری کے عالم میں ، مکئی، گیہوں اور باجرے کے غلوں کو پانی میں تیرتے دیکھ رہے تھے۔ اب دریا کا
پانی اتنا بلند تھا کہ بند کی آخری حدوں ں کو چھونے لگا۔ بڑے بڑے درختوں کی چوٹیاں ڈوبنے سے بچ گئیں ۔ جو پرندوں سے ڈھکی پڑی تھیں ۔ دریا نے کئی درخت بھی جڑسے اکھیڑ دیئے۔ ہزاروں مویشی ڈوب گئے۔ جنہیں پانی بہائے لئے جاتا تھا۔ اکا دکا انسانوں کی لاشیں بھی تیرتی نظر آئیں اور دریا کا پاٹ میلوں تک پھیل گیا۔ ایسی حالت میں قمّے نے دوپہر ڈھلتے تک اپنی ڈوبی ہوئی بستی سے بند پر خدا جانے کتنے چکر لگائے اور تھک کر نڈھال ہو گیا۔ اس کے باوجود ہر ایک کی نظر امداد کے لئے اسی پر پڑتی اور وہ ہر چکر میں بند پر پہنچ کر ایک تفاخرانہ انداز سے لوگوں پر نظر ڈالتا جیسے کہہ رہا ہو دیکھا ! میں جو تم کو اپنے کارنامے گنواتا تھا۔ اب تو ان پر یقین آیا کہ نہیں ؟ میرے علاوہ آج کون دریا کا سامنا کرنے والا ہے ؟ایسی نظر مار کر دوبارہ کسی مہم کے لئے بپھرے ہوئے پانی میں چھلانگ لگا دیتا۔ لیکن انسان آخر انسان ہے۔دوپہر تک تھک کر نڈھال ہو گیا۔ بیوی نے یہ حالت دیکھی تو روکنے لگی کہ اب نہ کودنا۔ آہستہ آہستہ اس کا اپنا جوش بھی کافی ٹھنڈا پڑ گیا۔ مگر وہ یہ سوچ کر کہ لوگ اسے نامردی کا طعنہ دیں گے۔ دوبارہ پانی میں کود جاتا۔ یہاں تک کہ سہ پہر ہو گئی۔پھر اچانک یہ دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی کہ لوگوں کی مدد کے لئے پاک فوج دریا میں اُتر آئی ہے۔ اب اس نے جلدی سے اپنے قبیلے کو لیا اور،،چک جندِّکا،، میں فوج کے لگائے ہوئے خیموں میں سے ایک خیمے میں جا بیٹھا۔ پھر ایسا سویا کہ دوسرے دن دوپہر ہونے پر آنکھ کھلی۔ وہ جلدی سے اُٹھا اور بند کی طرف بھاگا۔ دیکھا تو ہر طرف سکون تھا۔ رات تک ہر چیز یا تو ڈوب گئی یا بہہ چکی تھی۔ جدھر نظر جاتی سوائے پانی کے کچھ نظر نہ آیا۔ ہاں مگر پانی پر اُڑتے ہوئے چھوٹے چھوٹے پرندے ضرور
قلابازیاں لگا رہے تھے۔ جیسے ٹھاڑ کی بربادی پر خوشیاں مناتے ہوں ۔ اُنہیں دیکھ کر زندگی میں پہلی دفعہ اس کے آنسو نکلے۔ وہ شام تک بند پر کھڑا رہا۔ آج وہ اس قدر بوجھل تھا کہ کچھ بھی ہو جاتا وہ پانی میں داخل نہ ہوتا۔ سورج ڈوبنے لگا تو قمّے کومحسوس ہوا کہ اسے شدت سے بھوک لگی ہے۔ پھر اسے خیال آیا کہ اس نے توپرسوں شام سے کچھ نہیں کھایا۔ وہ اپنے خیمے کی طرف لوٹ گیا۔ اس کے بعد تو گویا اس کا معمول بن گیا۔ روزانہ صبح بند پر آ کر بیٹھ جاتا اور میلوں پر پھیلے ہوئے دریا کے پاٹ کو دیکھتا رہتا۔اور شام کے بعد خیمے کی طرف لوٹ جاتا۔ ساتویں روز اس نے دیکھا،پانی اپنی سطح سے نیچے اُتر رہا ہے۔ پہلے دو دن تو آہستہ آہستہ،پھر تیزی سے سمٹنے لگا۔ اور ہر روز تقریباً دو فٹ نیچے چلا جاتا۔غالباًَبیس دن کے اندر اندر دریا کا پانی اپنے پہلے کناروں میں سمٹ گیا۔ لیکن زمین میں نمی اور کیچڑ اس قدر تھا کہ لوگوں کا آباد ہونا ابھی ناممکن تھا۔ جگہ جگہ تالاب بن گئے۔ ادھر ادھر مردہ جانوروں کی ہڈیاں بکھری پڑی تھیں ۔ جنہیں سارا سارادن گدھیں اور کوے نوچتے رہتے۔سینکڑوں درخت زمین پر لیٹے تھے۔ جن میں کوڑا کرکٹ پھنسا ہوا تھا۔اسی حالت میں سیلاب کے بعد چار ماہ گزر گئے۔اِدھر اب لوگ خیموں کی زندگی سے تنگ آ چکے تھے۔وہ چاہتے تھے کہ جلدی سے اپنے ٹھاڑ میں جابسیں ۔ مگر جدھر دیکھتے، گڑھوں میں کھڑے پانی سے تعفن اُٹھ رہا تھا۔ ہر طرف طرح طرح کی جھاڑیاں اُگ آئیں جن کی اوٹوں میں ہزارہا بلّیات نے جنم لے لیا۔کیڑے مکوڑوں اور سانپوں کی بہتات ہو گئی۔اس عالم میں خیمے سے نکلنے والا پہلا شخص قمّا تھا۔ جو اپنی بستی کیلئے بے چین تھا۔ اس کے بعد لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔
قمّے نے جیسے ہی دریا بُرد گھر میں قدم رکھا۔ اس کے جسم میں ایک بجلی سی کوند گئی۔تمام گھر والوں کو ساتھ لیا،کیچڑ اور مٹی گارے سے دیوار بنانی شروع کی۔جسے دیکھتے ہوئے سارا گاؤں حوصلے میں آ گیا۔ حتٰی کہ دو مہینے میں بستی دوبارہ بس گئی۔ زمین آہستہ آہستہ تعفن اور غلاظت نگلنے لگی۔ لوگوں نے مردہ ہڈیاں اور انجر پنجر دفن کر دیئے۔ اپنی اپنی زمینوں کی دوبارہ حد بندیاں کی گئیں ۔ اور چھ ماہ کے اندر ہی ہل پھر چلنے لگے۔ بستی کے بہت سے درخت اُکھڑ چکے تھے۔ لوگوں نے سائے کے لئے اپنے اپنے گھروں میں دوبارہ پودے لگا دیئے۔ قمّے کے گھر میں بھی تین کیکر اور ایک بیری کا درخت تھا۔ جس پر سارا دن کوے اور چڑیاں شور مچاتے۔ جن کی آواز کانوں میں ایک قسم کا رس گھولتی تھی۔ سیلاب اُن درختوں کو بھی بہا کر لے گیا۔ لہٰذا قمّے نے بھی بند کے اوتاڑ سے ایک بیری کا پودا لا کر گھر میں لگا دیا۔جو دریا کی زرخیز زمین میں خوب پنپنے لگا۔ دن گزرتے گئے۔ حتیٰ کہ تین سال بعد تو ایسے ہو گیا،جیسے سیلاب کبھی آیا ہی نہ ہو۔ قمّے نے دوبارہ اپنا کاروبار شروع کر دیا۔
اب دریا کے پارکا آٹھ کلو میٹر میں پھیلا ہوا ڈِیلے کا جنگل پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک اور گھناؤنا ہو چکا تھا۔ جنگل میں پانی جو کبھی ٹخنوں کے برابر تھا۔ وہ گھٹنوں گھٹنوں ہو گیا۔ بِچھو، سانپ، نیولے اور نہ جانے کون کون سے حشرات الارض رینگتے پھرتے۔کئی اژدھے لوٹیں مارتی، گیڈروں ، سوروں کی گڑ گڑاہٹیں ،اُلُوؤں اور چڑبلوں کا شور کانوں کی سماعت چھین لیتا۔ ایسی خوفناک صورت حال میں آدمی رات تو کیا دن کو بھی وہاں سے نہیں گزرتا تھا۔ مگر قمّے کے لئے یہ کوئی عجیب بات نہ تھی۔ اس نے جنگل میں کئی ایک جگہیں اپنے ٹھکانے کے لئے بنائی تھیں ۔ بچپن ہی سے وہ جنگل کی اونچ نیچ سے واقف تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کون سی جگہ زیادہ خطرناک ہے اور کون سی کم۔ اگر کوئی بلا سے واسطہ پڑے تو کیسے بچا ؤ کرنا ہے ؟ وہ اپنے پاس آگ کا بندوبست ضرور رکھتا۔اُسے آگ نے کئی دفعہ خطرناک صورتِ حال سے نکالا تھا۔ دن ڈھلنے سے پہلے ہی قمّا دریا پار کر کے ڈِیلے کے جنگل میں آ جاتا اور بیچو ں بیچ آٹھ کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے ہندوستان کی سرحد پر پہنچ جاتا۔ رات کے پچھلے پہر بارڈر کراس کر کے گائے، بھینس، بیل یا بھیڑ بکریاں جو کچھ ہاتھ لگتا ہانک کر ڈِیلے کے اسی جنگل سے ہوتا ہوا دریا پر آتا اور صبح دس بجے سے پہلے اپنے گاؤں پہنچ جاتا۔ قمّا ہر چوری میں کم از کم دو ماہ کا وقفہ ضرور رکھتا۔ ہندوستانی رینجر سے کئی دفعہ پاکستانی رینجر کو شکایات بھی وصول ہوئیں ۔ لیکن ڈِیلے کا جنگل دونوں کے لئے مشکل پیدا کئے ہوئے تھا۔ جب کہ قمّے کے لئے وہی جنگل نعمت تھا۔ سیلاب کے بعد دس سال گزر گئے اس عرصے میں قمّے نے خدا جانے کتنے لمبے ہاتھ مارے۔اس نے اپنے گاؤں کو مویشیوں سے بھر دیا۔ سیلاب میں غارت ہونے والے کئی
لوگوں کے چولہے مفت میں جلائے۔بہت سوں کو سستے داموں بیچتا رہا۔
پہلے پہل تو پاکستانی رینجر اسے نظر انداز کرتی رہی لیکن اب صورتِ حال زیادہ بگڑ گئی تھی کیونکہ ہندوستانی رینجر کا دباؤ مسلسل بڑھ رہا تھا۔ لہٰذا پاک رینجر نے سنجیدگی سے چوروں کو پکڑنے کے بارے میں سوچا۔ دریا سمیت ڈِیلے کے جنگل کی خفیہ ناکہ بندی کر دی گئی۔ جگہ جگہ چھاپے مارے گئے۔ جس میں پہلے مہینے ہی شمّا اور کالو پکڑے گئے لیکن قمّا ہاتھ نہ آیا۔ جس کی خاص وجہ یہ تھی کہ وہ ہمیشہ چوری کرنے سے پہلے پورے علاقے کی جاسوسی کرتا۔ تاکہ حالات کا جائزہ لے سکے۔ اس نے اپنے والد کے ساتھ کام کرتے ہوئے بہت سے تجربات حاصل کئے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ اسے کس طرح مشکل حالات کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس کے باپ نے اسے بہت سے گر بتائے تھے۔ لہٰذا اس سال اس نے صرف دو کامیاب چوریاں کیں ۔
دوسری چوری اس نے دسمبر کی انتہائی سرد رات میں کی۔ جس میں وہ پوری گیارہ بھینسیں ہندوستانی علاقے سے تین کلو میٹر اندر جا کر لے آیا تھا۔ یہ چوری ایسی نہ تھی کہ جسے نظر انداز کر دیا جاتا۔ دو طرفہ رینجر ز میں ایک بھونچال آ گیا۔ اور افسرانِ بالا سے انتہائی سرزنش ہوئی۔ ان حالات میں رینجرز نے اپنی سرگرمیاں انتہائی سخت اور تیز کر دیں ۔ لیکن مصیبت یہ تھی کہ مال جنگل سے ہوکے نکلتا۔ پھر بھی رینجرز نے تہیہ کر لیا، چاہے کچھ بھی ہو اب چور ضرور پکڑا جائی، مخبر تیار کئے گئے اور مکمل بندوبست انتہائی خفیہ طریقے سے کیا۔
پندرہ فروری کی سہ پہرقمّا دریا پر پہنچا تو اسے ارشاد علی سامنے سے آتا دکھائی دیا۔ قمّے کے ہاتھ میں چھَوی دیکھ کر ارشاد مسکرایا اور دور ہی سے ہاتھ ہلا کر گاؤں کی طرف مڑ گیا۔ قمّے نے سوچا ارشاد کتنا حرامی ہے،میری دو بھینسوں کے پیسے کھا گیا۔ چھ ماہ ہو گئے ایک ٹکا نہیں دیا۔ اب نزدیک آ کر سلام لینے سے بھی گیا۔ اُس نے سوچا اب میں سارا مال منڈی میں ہی بھیجا کروں گا۔ گاؤں والوں کو کسی جانور کی دُم بھی نہیں دوں گا۔ اتنے مشکل حالات میں موت کے منہ سے جانور نکال کر لاتا ہوں اور یہ گاؤں والے بیٹھے بٹھائے مفت میں لے جاتے ہیں ۔ خبیث بعد میں پیسے بھی نہیں دیتے۔
خیررات دو بجے قمّا جیسے ہی ڈِیلے کے جنگل سے نکلا اور ہندوستان میں داخل ہونے لگا۔پاک رینجر نے اچانک دبوچ لیا۔ قمّے کو اتنا موقع بھی نہ مل سکاکہ وہ جنگل میں دوبارہ داخل ہو جائے۔ وہ حیران ہوا کہ انہیں کیسے پتہ چلا۔وہ اسی تذبذب میں تھا کہ اس کی مشکیں کَس دی گئیں اور رینجر ہیڈ کوارٹر میں لے جا کر مار پیٹ شروع کر دی۔ قمّے نے اپنی زبان ایسی بند کی کہ رینجر کا ہر طریقہ فیل ہو گیا۔ دو مہینے تک قمّے کو اتنی مار پڑی کہ زمین ہل جاتی تھی۔ روزانہ مار کھانے کے بعد قمّا مسلسل سوچتا،آخر اس کی مخبری کرنے والا ہے کون ؟ چھ ماہ تک رینجر نے قمّے سے اُگلوانے کا ہر حربہ استعمال کیا۔ شلوار میں چوہے چھوڑے گئے، اُلٹا لٹکایا گیا، پانی میں غوطے دیئے۔ اور مار تو اتنی دی کہ خود رینجر والوں کو اس پر ترس آنے لگا۔جب وہ کسی طرح بھی نہ مانا تو شراب کا کیس بنا کراسے منڈی احمد آباد تھانے بھیج دیا۔ لیکن ان چھ ماہ کے دوران قمّا جسمانی اور دماغی طور پر بالکل نڈھال ہو چکا تھا۔ کیونکہ رینجر کے خوف سے ایک تو گاؤں میں سے کسی نے آ کر اُس کی خبر نہ لی اور دوسرا یہ کہ اُس کا بھائی جلال دین رینجر کی مار برداشت نہ کرتے ہوئے چار ماہ پہلے مرگیا۔ اُسے ہلکا ہلکا بخار رہنے لگا۔ قمّے کو منڈی احمد آباد تھانے میں چھ ماہ تک رکھا گیا۔ اور ہلکی پھلکی دوائیاں بھی دیتے رہے مگر بخار نہ اُترا۔ آخر ایک دن تھانے دار نے اُسے بلایا اور تھوڑی بہت سرزنش کر کے چھوڑ دیا۔
حوالات سے نکلتے ہی اُس نے ہلکی سی انگڑائی لی اور تھوڑی دیر کے لئے تھانے کی بیرونی دیوار کے ساتھ کیکر کے سائے میں بیٹھ گیا۔ یہ سردیوں کی ایک ٹھنڈی دوپہر تھی۔ اُس کے اُوپر کوئی کپڑا بھی نہ تھا۔ ہوا کی ایک سر د لہر اُس کے سینے کو چیر تی ہوئی نکل گئی۔ منڈی احمد آباد کے تھانے سے اس کا گاؤں بائیس کلو میٹر دُور تھا۔ اُس نے باجرے کے کھیت کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیا۔ بخار سردی کی وجہ سے زیادہ تیز ہوتا چلا گیا اور سر میں شدید درد بھی ہونے لگا۔ لیکن وہ چلتا گیا۔ رات ایک بجے کے قریب اُسے ایک چکر سا آیا اور وہ گِر پڑا۔
صبح سات بجے شریف حسین نے قمّے کے بیٹے طفیل کو بتایا کہ تیر ا باپ خربوزوں کے کھیت میں بے ہوش پڑا تھا۔میں بڑی مشکل سے اُسے ہوش میں لایا تو وہ اُس وقت سے کچھ اُلٹی سیدھی مار رہا ہے۔ اُس نے ہمیں پہچانا بھی نہیں ۔ خدا خیر کرے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اُس کا دماغ چل گیا ہے۔ اُسے بہت تیز بخار بھی ہے۔ مجھے لگتا ہے بخار اُس کے سر کو چڑھ گیا ہے۔
یہ 1998 ء کی بات ہے۔ قمّے کو پاگل ہوئے اٹھارہ سال ہو گئے۔ شروع شروع میں تو بہت علاج کرا یا۔ گاؤں کے حکیم کے دیسی نسخوں سے لے کر پیر چراغ شاہ کے تعویذ آزمائے۔ مگر پاگل پن بڑھتا ہی گیا۔ اس عرصے میں وہ کبھی کبھی تندرست بھی ہو جاتا مگر یہ حالت چند دنوں سے زیادہ نہ رہتی۔ پچھلے دس سال سے تو وہ ایک لمحے کے لئے بھی ٹھیک نہ ہوا۔ اب اُس نے گاؤں والوں کو گالیاں بھی دینا شروع کر دیں ۔ جو سامنے سے گزرتا اسے بیہودہ گالیاں دیتا۔ رفتہ رفتہ حالت یہاں تک پہنچی کہ وہ لوگوں کو ڈھیلے اُٹھا کر مارنے لگا۔ یہ حالت دیکھ کر لوگ اُس سے کترا کر گزرنے لگی۔ ادھر یہ اُن کی اِس حرکت سے مزید اشتعال میں آ کر گالیاں دیتا ہوا پیچھے بھاگنے لگا۔ جسے لوگوں نے کچھ عرصہ تو برداشت کیا۔ مگر اب وہ تنگ آ گئے اور قمّے کے بیٹے کو شکایتیں آنے لگیں ۔ جب شکایات شدت اختیار کر گئیں تو ایک دن طفیل نے قائم دین کو ایک چھوٹی سی زنجیر سے اُسی کی چارپائی کے ساتھ باندھ دیاتاکہ گھر سے نہ نکلے۔ قائم دین دو تین دن تو اسی حالت میں رہا۔ مگر ایک رات چارپائی سمیت باہر نکل کر گاؤں کے چوک میں بیٹھ گیا اور پھر وہی گالیاں دینے لگا۔ یہ دیکھ کر طفیل نے اُس کی چارپائی گھر میں کھڑے بیری کے درخت سے باندھ دی۔اب قائم دین گھر کے افراد کوسارا سارا دن کوستا اور زنجیر پٹختا رہتا۔ یوں دو تین ماہ اِسی طرح گزر گئے۔ ایک دن خدا جانے کیسے زنجیر ٹوٹی اور قائم دین آزاد ہو گیا۔ قدرت خدا کی، طفیل گھر پر نہیں تھا۔ عورتوں سے پکڑا نہ گیا۔ وحشت عروج پر تھی۔ شام تک کئی ایک کو زخمی کر دیا۔ اور بہت سوں کو بیہودہ گالیاں دیں ۔ گاؤں میں بہت ہنگامہ ہوا۔ کم بخت نے ارشاد علی کی بیٹی کو تو ایسی اینٹ ماری، بیچاری سیدھی ہسپتال جا پہنچی۔دوئم، مسجد میں گھس کر تمام نمازیوں کے سروں پر خاک ڈال دی اور جوتے اُٹھا کر کنویں میں پھینک دیئے۔ اُس کی اِس حرکت سے طفیل عتاب میں آ گیا۔ مولوی صاحب نے بُرا بھلا کہا۔ چوہدری عاشق علی نے طفیل کو بلا کر کہہ دیا،اگر تمہارے باپ نے آئندہ کوئی ایسی حرکت کی تو گاؤں سے اپنا بستر گول کر جانا۔ بڈھے نے بیس سال سے سب کو پاگل بنا رکھا ہے۔ یا تو اِسے باندھ کے رکھو ورنہ زہر دے کر قصہ پاک کرو۔ تاکہ روز کی چخ چخ سے جان چھوٹے۔ لہٰذا طفیل نے قائم دین کو اب جو زنجیر مارا۔ وہ ایک مست ہاتھی کے لئے بھی کافی تھا۔ اُس نے آتے ہی لوہار سے پندرہ کلو کا ایک لوہے کا زنجیر اور دو کلو کا دیسی تالا بنوا کر قائم دین کو بیری کے موٹے تنے سے باندھ دیا۔پاس ایک چارپائی رکھ دی۔ کہ چاہے تو چارپائی پر لیٹ جایا کری، ورنہ زمین تو ہے۔
قائم دین کی بہو صبح و شام کھانا اُس کے سامنے رکھ دیتی کہ وہ سگی بھتیجی بھی تھی۔ کوئی اور نزدیک جاتا تو وہ کھانا بالکل نہ کھاتا تھا۔قائم دین کو اس زنجیر سے بندھے آج چھ ماہ ہو چکے تھے۔ بائیں ٹخنے پر گہرے زخم واضح دکھائی دینے لگے۔ پچھلے چھ ماہ سے بہو برابر اُس کا صبح و شام گند بھی صاف کرتے۔ یہ اُس کے معمول میں شامل تھا۔
پچھلے اکیس برسوں میں بیری کا درخت اس قدر پھیل گیا کہ پورے احاطے کو اپنے گھیرے میں لے آیا۔ ہری بھری لچکیلی شاخوں پر گلہریاں اور طوطے چڑیاں چہکتیں رہتیں ۔ بعض اوقات قائم دین کے سر پر بھی آ کر بیٹھ جاتیں ۔اور چوں چوں کا شور اس قدر بلند کرتیں کہ قائم دین کی پوری توجہ ادھر ہو جاتی۔ اب وہ سارا سارا دن بیری کی شاخوں پر پُھدکتی گلہریوں ،رس چوستی شہد کی مکھیوں اور ہرے پتوں کے درمیان چہکتی چڑیوں کو دیکھتا رہتا۔ آہستہ آہستہ اُن سے اتنا مانوس ہو گیا کہ کسی اور طرف توجہ بھی نہ کرتا۔اب گالی دینا تو الگ بات اُس نے بولنا ہی بند کر دیا۔ بس ٹُک ٹُک بیری کی شاخوں کو دیکھتا اور چہکتے ہوئے پرندوں میں ہی مگن رہتا۔
غالباَ بیس جون 1999کا دن تھا۔طفیل اپنی بیوی کے ساتھ حجرہ شاہ مقیم فوتگی پر گیا ہوا تھا۔ وہ قائم دین کی ذمہ داری اپنے پڑوسی نذیرے کو سونپ گیا۔ کیونکہ اسے حجرہ میں دو چار دن لگ جانے تھے۔ انہی دنوں یہ خبر اُڑی کہ ہندوستان نے ستلج کا پانی چھوڑ دیا ہے۔ خبر اس وقت پہچی جب پانی بالکل نزدیک پہنچ گیا۔اس خبر نے سارے ٹھاڑ میں ہراس پھیلا دیا۔ پھر بھی ٹھاڑ والوں کے پاس بچنے کے لئے کچھ وقت تھا۔ لوگوں کو بتیس سال پہلے کا سیلاب یاد تھا۔ اُنہوں نے جلدی جلدی اپنے بوریا بستر لپیٹے اور بند کی طرف بھاگے۔ ہر ایک کی یہی کوشش تھی کہ جو وقت ملا ہے اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی ہر ایک چیز بچا لے جائیں ۔ لہٰذا ہر آدمی کام میں اس قدر مصروف تھا کہ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی۔ جسے دیکھو اپنا سامان گڈ اور چھکڑوں پر لادے بند کی طرف بھاگا جاتا ہے۔ مکانوں کی چھتوں سے شہتیر نکال لئے گئے اور ایک ایک چیز سمیٹ لی۔ نذیرے نے بھی جلدی سے اپنا سامان باندھا۔ وقت بہت کم تھا جب کہ پانی تیز رفتاری سے ٹھاڑ کی طرف بڑھ رہا تھا۔اُس نے اپنے تمام مویشی اور سامان دو تین چکر میں بند پر پہنچا دیئے۔ اتنے میں پانی گھر میں داخل ہو کر تخنوں سے اوپر اُٹھنے لگا۔ طفیل کو جب سیلاب کی خبر ہوئی تو وہ جلدی سے منڈی احمد آباد آنے والی بس پر بیٹھا تاکہ وقت پر پہنچ سکے۔وہ منڈی احمد آباد پہنچا تو شام کے پانچ بج رہے تھے۔ اگلا رستہ اس نے پیدل طے کرنا تھا۔ کیونکہ ان علاقوں میں بس یا تانگے وغیرہ نہیں جاتے تھے۔ اُدھر گاؤں میں پانی گھٹنوں سے اُوپر آ چکا تھا۔ شام چھ بجے تک دریا نے بچی کھچی دیواریں اور مکان بھی برابر کر دیئے۔قائم دین کی چارپائی پانی میں ڈوب چکی تھی۔ لیکن وہ بے فکری سے پریشانی میں دوڑتے ہوئے لوگوں کو دیکھنے میں مگن تھا۔ ہر ایک کو اپنی پڑی تھی۔ لوگ قائم دین کوزنجیرسے بندھا ہوا دیکھتے اور گزر جاتے۔ نذیرے نے بند پر پہنچ کرسُکھ کا سانس لیا۔اور سوچا،شُکر ہے،ہر چیز سلامت پہنچ گئی۔ مگر اچانک اس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اُسے خیال آیا کہ طفیل نے قائم دین کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی تھی۔ مگر افراتفری میں کچھ یاد نہ رہا۔ اُس نے چاہا کہ واپس گاؤں جائے مگر پانی کے شور اور اندھیرے سے ڈر گیا۔سوچنے لگا پانی تو بہت بلند ہو چکا ہے۔ اور زنجیر کی چابی بھی میرے پاس نہیں ،لہٰذا اب جانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔
پانی جب قائم دین کے گھٹنوں سے اُوپر اُٹھا تو وہ بیری کے تنے سے لپٹ گیا۔ اور بیری پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن پاؤں میں بندھا زنجیر رکاوٹ بن گیا۔ طفیل ابھی تک آٹھ کلو میٹر اپنے گھر سے دور تھا۔ کبھی بھاگتا اور کبھی چلتا۔ مگر اتنا فاصلہ چند گھنٹوں میں طے کرنا آسان بات نہ تھی۔ جب کہ ٹھاڑ میں پانی بھی گھٹنوں سے اُوپرہوچکا ہو۔ رات نو بجے کے قریب پانی جب قائم دین کے کاندھوں تک پہنچا تو اُس نے شدت سے اپنے پاؤں جھٹکنے شروع کئے۔ کبھی ہاتھوں سے زنجیر کھینچتا اور زور سے ہاتھ پاؤں مارتا۔کبھی بیری پر چڑھنے کی کوشش کرتا لیکن پھر زنجیر آڑے آ جاتا۔ آخر ستّرسال کا بڈھا پندرہ کلو وزنی لوہے کے زنجیر سے کہاں تک زور آزمائی کرتا، نڈھال سا ہو گیا اور جس قدر اُوپر اُٹھ سکتا تھا،اُٹھ کر بیری کے تنے سے چمٹ گیا۔مگر پانی تھا، کہ تھوڑی دیر بعد مزید بلند ہو جاتا۔ اب قائم دین کوئی پانچ فٹ کی بلندی تک زنجیر سمیت بیری کے تنے سے چمٹا ہوا تھا۔ اُس کے ہاتھ پاؤں اِس قدر وزنی زنجیر کو اُٹھا کر چھپکلی کی طرح مسلسل چمٹے رہنے سے شل ہو گئے۔ اُس پر ستم یہ کہ پانی نے اپنی سطح اور بلند کر لی۔رفتہ رفتہ پانی اتنا بلند ہو گیا کہ قائم دین غوطے کھانے لگا۔ وہ بار بار زنجیر سے پاؤں پٹختا اور غوطے کھاتا رہا۔ مگر سب کچھ بے سود تھا۔ اندھیری رات میں سوائے پانی کے اُسے کوئی چیز دکھائی نہ دیتی تھی۔ یہاں تک کہ رات دس بجے اچانک پانی کا پہلا گھونٹ اُس کے منہ میں داخل ہوا۔پانی اس قدر زیادہ تھا کہ قائم دین سانس نہ لے سکا۔ بے بسی کے عالم میں اُس کے منہ سے ایک زور کی چیخ نکلی۔ جس کی آواز سے پورا ٹھاڑ سہم گیا۔ پھر پانی کے اندر کچھ دیر تک ایک بھر پور ہلچل ہوئی پھر ایک خاموشی چھا گئی۔ ایسی خاموشی جس میں موت کی سی وحشت ہو۔طفیل ابھی تک اپنے گاؤں سے چار کلومیٹر دور تھا۔
٭٭٭
جیرے کی روانگی
قصبے اوردریا کے بیچ قبرستان پڑتا تھا لیکن اب یہ دریا وہ نہیں تھا جس کا پاٹ کبھی چار کلومیٹر کا تھا۔اب تو یہ ایک نہر سے کچھ ہی بڑا تھا۔ جس کے بارے میں کئی ایک روایتیں مشہور تھیں ۔ مثلاً ایک دفعہ یعنی آٹھ نو سو سال قبل پیر جتی شاہ دریائے بیاس کے کنارے بیٹھا تین دن تک ملاحوں کی منتیں کرتا رہا کہ اُسے پار اُتار دیں لیکن ملاح مان کے نہ دیے اور کہا کہ جب پار اُتاریں گے جب پیسے دو گے۔ لیکن اللہ والوں کے پاس پیسے کہاں سے آئے۔ آخر تیسرے دن حضرت کو جلا ل آ گیا۔دھوتی گھٹنوں سے اوپر کر لی اور دریا میں یہ کہہ کر قدم ڈال دیے کہ لو بھائی نہ آج سے دریا رہے اور نہ تم کشتیاں چلاؤ۔ بس پھر جیسے جیسے پیر جتی شاہ دریا میں آگے بڑھتے گئے پانی گھٹنوں گھٹنوں ہوتا گیا اور جب پار اُترے تو دریا نہر کے جتنا رہ گیا۔پھر تو ملاحوں نے باباجی کے آگے بہت ناکیں رگڑیں ہزار منتیں کیں مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا۔تو بھائی تب سے وہ دریائے بیاس نہر سی بہتی ہے۔ جس کا پاٹ دوسو میٹر رہ گیا اور گہرائی فقط سات آٹھ فٹ کی۔ مگر یہ سات آٹھ فٹ گہری اور دو سو میٹر چوڑی نہر بھی اطراف کے باسیوں کے لئے کم غنیمت نہیں تھی۔مثلاً ہمارے ہی قصبے کو لیجئے ہر طرف باغ و بہار ی کا عالم تھا۔ جدھر نظر پڑتی سبزہ اور چراگاہیں ہرا ہرا بکھیرتی جاتیں ۔ زمینداروں نے بڑے بڑے چوڑے پائپ نہر میں پھینک رکھے تھے اور کناروں پر پیٹر انجن نصب تھی۔ وہیں سے پانی اُٹھا اُٹھا کر زمینوں کو دیتے۔ جس کے سبب دونوں کناروں پر دور تک سرسبزوشاداب کھیت،ٹھنڈی زمینیں اور ہرے بھرے باغات پھیلے ہوئے تھے۔ دو طرفہ کنارے اونچے اونچے سایہ دار درختوں سے ڈھکے رہتے۔شیشم، نیم، شرینہیہ، پیپل اور برگد کے پیڑوں کا تو کوئی حساب ہی نہیں تھا۔یعنی ٹھنڈے سائے اور سُریلی ہوائیں غنودگی پھیلاتی۔پورے قصبے کا انحصار زراعت پر تھا اور جس کے پاس جتنا قطعہ تھا وہی گلزار تھا۔ روشوں پر قطار در قطار سینکڑوں جامنوں کے درخت چلے جاتے تھے۔ مال مویشی بے انت تھا۔ جو آٹھوں پہر نہر میں غوطے لگاتے۔ مچھلی کا شکار ایسا کہ جس کاجی چاہا دریا میں جال ڈال کر ڈمرا پکڑ لائے۔ بعضوں نے کوشش کر کے چھوٹی چھوٹی نہریں نکال لیں اور دور تک کی زمینوں کو سیراب کرنے لگے۔ قصبے کی عورتیں کپڑے بھی وہیں آ کر دھوتیں اور کھلے پانی میں خود بھی نہاتیں ۔ جمعہ کے جمعہ تو کناروں پر ناریوں کی ڈاریں جاتیں اور ارد گرد سے بے نیاز تھپا تھپ کپڑے دھوتی نظر آتیں جن کی کسی ہوئی سارھیاں بھیگ کر عجب بہار بناتیں لڑکوں بالوں کی تفریح تو گویا دریا کے سبب ہی تھی۔ نیکریں پہنے ہر وقت دھما دھم ڈبکیاں لگانے میں مگن۔ الغرض دریا کیا تھا نہرِ شداد تھی کہ بہے جاتی ہے اور سیراب کئے جاتی ہے مگر ایک قباحت اس میں ضرور تھی کہ ہرسال دو ایک آدمی ڈوب کر مر جاتے۔کم از کم میرے ہوش میں تو کوئی ایسا سال نہیں گزرا تھا جس میں ایک یا دو آدمی ڈوب کر نہ مرے ہوں ۔ دریا پر اگرچہ کسی زمانے میں ایک پل بنا دیا گیا تھا لیکن وہ پل فقط ایک پگڈنڈی تھا اور اس پگڈنڈی کے نیچے پانی بہت گہرا تھا۔ کوئی نہ کوئی بے احتیاطی میں ضرور گر جاتا اور اللہ کو پیارا ہو جاتا۔ ساون بھادوں کے دنوں میں تو اکثر پل بھی ڈوب جاتا پھر دو ڈھائی مہینے کشتیاں چلتیں ۔ ہم لڑکے بالے یا بھینسیں وغیرہ نہلانے والے جن کا ہر وقت دریا سے واسطہ رہتا وہ تو اس کی اونچ نیچ سے واقف تھے لیکن سال میں ایک دو اجنبی ضرور پھنس جاتے جو ڈوب کر دریا کا لقمہ بنتے۔ اس لئے یہ بات مشہور ہو گئی کہ بیاس سال میں ایک دو انسانوں کی قربانیاں لیتا ہے۔یہ گویا آس پاس کے باسیوں سے اس کے پانی کا معاوضہ ہے۔ پھر رفتہ رفتہ تویہ ہر ایک کا عقیدہ بن گیا۔ بعض اوقات سال کا سال خیریت سے گزر جاتا مگر سال کے عین آخری دن کوئی نہ کوئی ڈوب کے مر جاتا۔ان واقعات نے قربانی کا عقیدہ لوگوں کے دلوں میں مزید راسخ کر دیا لیکن ایک سال جب نہر نے پوری دس قربانیاں لیں تو ایک قسم کا زلزلہ آ گیا اور پورے علاقے میں کہرام مچ گیا۔ ہر طرف تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ بات یہ تھی کہ ہمارے قصبے میں ایک بڑا سکول تھا۔ اس میں پڑھنے والے لڑکوں کی تعداد کوئی پانچ سوکے لگ بھگ تھی۔جس میں قصبے والوں کے علاوہ اردگرد کے گاؤوں سے بھی لڑکے آ کر پڑھتے تھے۔ ساون بھادوں کے دن تھے۔ بارشیں اتنی ہوئیں کہ بیاس کا پاٹ دوسومیٹر سے بڑھ کر تین سو تک ہو گیا اور گہرائی بھی دس بارہ فٹ تک چلی گئی۔ پار گاؤں کے لڑکے کشتی میں سوار چلے آتے تھے کہ اچانک کشتی اُلٹ گئی اور دس لڑکے ڈوب کر مر گئے۔ اس حادثے نے سب کو لرزا کے رکھ دیا اور اردگرد کے باسیوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا بات پھیلی تو حکومت نے فوری اقدام کے ذریعے ایک بڑے پل کی منظوری دے دی۔ جو ساڑھے تین سو میٹر لمبا اور پچیس فٹ اونچا تھا۔یہ پل دوسال میں بن کر مکمل ہو گیا جس نے دو کناروں پر بسنے والوں کو بالکل ایک کر دیا۔ اس طرح اس پل کے بننے سے حادثات میں کمی ہو گئی۔ حتی کہ ساون بھادوں میں بھی پانی کبھی اتنا نہ ہو سکا کہ پل کی نچلی سطح کو چھو لیتا۔ یوں وقت خیریت سے گزرنے لگا اور حادثے نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔ یہاں تک کہ پچھلے چھ سال میں کسی کی موت بھی ڈوب کر مرنے سے واقع نہ ہوئی۔
٭
پورے قصبے میں ڈھنڈورا پٹ گیا کہ آج چاچا جیرا جانی چور کا قصہ سنائے گا۔ گلی گلی خبر ہو گئی۔ لوگ سنتے گئے اور خوشی خوشی اپنے شام کے طے شدہ پروگرام اگلی شام تک ملتوی کرتے گئے کیونکہ سال پہلے جیرے کی لن ترانیاں آنکھوں میں گھوم گئی تھیں ۔ راجہ نرسلطان کی بپتا اور جانی چور کے معرکے ان آنکھوں نے بیچ چوراہے دیکھے مگر ایک بات سب کی سمجھ میں نہ آئی۔ آخر جیرا قصہ جانی چور سنانے پہ تیار کیسے ہوا کہ اس سے پہلے سینکڑوں کی آفریں کیں لیکن اُس کی اپنی ایک ہی ’’نہ‘‘ تھی جو کسی صورت ’’ہاں ‘‘ میں نہ بدلی تھی۔ چائے خانوں سے لے کر جوا خانوں تک میں حیرانی کا دورہ تھا۔طمبو کے ہوٹل میں تو دوپہر سے ہی یہی ذکر تھا۔
طمبو حلوائیا دودھ میں کڑچھا ہلاتے ہوئے، بھائی سیف دین میں تو ایک جانتا ہوں جیرے میں لاکھ عیب سہی مگر ہے وہ ہیرا خالص ہیرا۔ میں نے تو خدا گواہ ہے اس سے کبھی چائے کے پیسے نہیں لیے۔
تُو کیسے پیسے لے ؟ سیف الدین چائے کی چسکی لیتے ہوئے بولا ‘‘ جب تک جیرا تیرے ہوٹل پر بیٹھا رہتا ہے اتنی دیر رونقیں لگی رہتی ہیں ۔ چائے کے بیسیوں کپ ویسے ہی بک جاتے ہیں پھر ایک کپ اگر جیرے کو مفت میں پلا دیتا ہے تو تجھے موت تو نہیں پڑ جاتی۔
طمبو حلوائیا بات بدلتے ہوئے، سیف الدین یہ انقلاب کیسے آیا کہ جیرا قصہ سنانے پر راضی ہو گیا۔
بس جی من موجی ہے۔ نہ سنائے تو سردار کمال احمد اور ڈپٹی صاحب کے ڈرانے پر بھی نہ سنائے اور اگر جی میں آئے تو بغیر کہے مجمع لگا دے۔
نہ بھائی یہ بات نہیں ، پاس بیٹھے غلام بھٹی نے بات کاٹی۔
پھر کیا بات ہے ؟ سیف الدین تلخی سے بولا۔ کیا اس نے تیرے ابا کاح کم مان لیا۔ جس کی دھوتی ہمیشہ کھونٹی سے بندھی رہتی ہے۔
حضور یہ سب پیر مودے شاہ کی کرامت ہے، بھٹی نے پہلو درست کرتے ہوئے کہا،کل سب بیٹھے تھے۔ باتوں باتوں میں جیرے کی قصہ خوانی پر بات چھڑ گئی۔ مودے شاہ نے کہا بھئی اُسے تو ہم بھی سُنیں گے۔ ہم نے کہا حضور جیرا قصہ سنانے پر راضی نہیں ہو گا۔ باباجی کو اُسی وقت جلال آ گیا۔ آنکھیں سرخ انگارہ ہو گئیں اور تھر تھر کانپنے لگے۔ بولے، جیرے کی کیا اوقات ہمیں قصہ نہ سنائے، جلا کر راکھ کر دیں گے۔ بس کل شام قصہ خوانی کا انتظام کرو۔ اللہ جانتا ہے میں وہیں تھا۔ دس منٹ میں جیرا بھاگا بھاگا آیا۔ بولا حضرت میں آپ کے حضور قصہ جانی چور پڑھنا چاہتا ہوں ۔ اتنی سی بات ہے۔
اچھا تو یوں کہو پیر مودے شاہ کا کمال ہے۔ طمبو حلوائیا جلیبیاں میٹھے میں پھینکتے ہوئے بولا۔ میں بھی کہوں یہ انہونی کیسے ہو گئی۔ ہوں ! تو یہ بات ہے بھئی پیر مودے شاہ کی کرامت میں تو کوئی شک نہیں ۔ دن کورات کہے تو فوراَ ہو۔ بس پھر یہی بات ہے۔ سیف دین کی تلخی فوراَ دور ہو گئی۔
لو بس بھئی بات کھل گئی۔ میں بھی کہتا تھا کہ کچھ کہیں پر راز ہے۔ اب کہانی صاف ہوئی جمال کان سے میل نکالتے ہوئے بولا۔
افضال نے گفتگو میں حصہ لیا،لو بھائی اب کس کو بھول ہے۔ تمہیں یاد نہیں ؟ دین محمد کے گھر اولاد نہیں ہوتی تھی۔ اُنہوں نے مودے شاہ سے عرض کی۔ حضرت نے کہا اگلے برس تمہارے بیٹا ہو گا۔ قدرت خدا کی دیکھو اُسی رات حمل ہو گیا۔ اب ایک اور تماشا ہوا دین محمد کی بیوی کہنے لگی یہ تو میرے پیر کی دعا سے ہوا۔ مودے شاہ کا کوئی کمال نہیں ۔ دین محمد نے لاکھ سمجھایا، اللہ کی بندی ایسی باتیں منہ سے نہ نکالو۔ یہ سب مودے شاہ کی کرامت ہے۔ وہ نہ مانی۔ آخر دین محمد نے یہ بات مودے شاہ کو بتا دی۔ حضرت کو فوراَ جلال آ گیا۔ فرمانے لگے۔ اگر حمل اُس کے پیر کی دعا سے ہوا ہے تواُسے کہہ کہ اب وہ پیدا کر کے دکھائے۔پھر خدا گواہ ہے تین سال تک بچہ پیدا نہ ہوا۔بیچاری حمل اُٹھائے اُٹھائے پھرتی تھی۔ آخر قدموں میں آ گری۔تب جا کر لڑکا پیدا ہوا۔ بھئی اللہ والوں کو ناراض کرنے سے یہی کچھ ہوتا ہے۔ القصہ اسی طرح کی خیال آرائیاں پورے قصبے میں عشاء تک ہوتی رہیں ۔
اُدھر شام ہی سے یونین کونسل کے بڑے ہال میں کوئلے دہکا کر انگیٹھیاں روشن کر دی گئیں ۔ پیر مودے شاہ کی چارپائی شاہی تخت کی طرح لگ گئی۔ جس پر سفید چادریں بچھی تھیں اور ریشمی تکیہ سنہری موج مارتا تھا۔ بڑے ہال میں چونکہ صرف تین سوکرسیاں تھیں اس لئے کرسیاں باہر نکال کر ہال میں زمین پر پیال بچھا دی گئی تاکہ کم از کم پانچ سو آدمیوں کی گنجائش پیدا ہو جائے۔ ہر آدمی اتنا پر جوش تھاجیسے سونے کی کان ہاتھ آ گئی ہو۔خیرسب انتظام مکمل ہو گئے۔ ہال میں ایک سناٹے کا راج ہو گیا کہ اچانک چاچے جیرے کی آواز گونجی۔۔
سارو ماتا ایشری کرت نمو کئی بار
ہاتھ جوڑ کے عرض کراں لیو ہماری سار
اور پھر
آن کھڑے میدان وچ سورمے ہتھ وچ کمان تے بان پھڑکی
لیّاں پکڑکٹاریاں جُودھیاں نے پئے گرجدے وچ میدان کھڑکی
ہنو وانگ للکاردے کھڑے سارے سُور بیر جو میگھنے وانگ گھڑکی
مارو مار میدان دے وچ ہوئی جانی چورٹا گیا سی پھیر چڑھ کی
سارے ہوئی قتلام کشور چندا سور بیر کھڑو گئے کل اَڑ کی
جیرے نے کچھ دیر تو اسی طرح اشعار میں آہستہ روی سے قصے کو آگے بڑھایا۔ مجمع ہمہ تن گوش واقعات کے پلٹنے کا منتظر تھا۔ لوگ جانتے تھے کہ قصہ جیرے کی زبان پر کیسے قلابازیاں کھاتا ہے کہ میدان ِ جنگ اُٹھا کر مجمعے کے بیچ میں رکھ دیتا ہے۔ لہٰذا ہر شخص اس موقعے کا انتظار کرنے لگا کہ اچانک چاچے جیرے نے اپنے لہجے کے تیور بدلے اور بدھ سنگ کی فوج کو راجپوتوں سے بھڑا کر جانی چور کے بیان کو اُٹھا لیا۔
بدھ سنگھ دی فوج دا رتن سنگھ سی جوان
پکڑ کٹاری ہاتھ میں وڑیا وچ میدان
پہلا ہتھ آن جانی تے اُٹھا لیا۔۔۔ چورٹے نے انگ آپدا بچا لیا
پیندے للکارے اندر میدان دے۔۔ کٹ گئے نے سر سینکڑے جوان دے
پھر جانی چورٹا چلاوے سٹ نوں ۔۔۔ مارکے کٹاری کھول دا ہے پھٹ نوں
ہو گئی ہے گرد موہرے آن بھان دی۔۔۔ کٹ گئے نے سر سینکڑے جوان دی
بھوندیاں پھرن اُتے کل جوگنا ں ۔۔۔ اج راجپوتاں نوں پوے گا بھوگنا ں
اندرکھڑک کرن نہ میان دے۔۔۔ کٹ گئے نے سر سینکڑے جوان دے
اکھاں وچوں چل گئے پرنالے رت دے۔۔۔ اُڈنے نے سیس جی سمان پت دے
سورمے گرج رہے سلطان دے۔۔۔ کٹ گئے نے سر سینکڑے جوان دے
چھپڑ اُٹھائی پھر دی ہے کالکا۔۔۔بوندی گڑھ وچ چھڈنا نی بالکا
چار پُت مارے رحمت پٹھان دی۔۔۔ کٹ گئے نے سر سینکڑے جوان دی
الغرض مجمعے کے درمیان میں بانس کی چھڑی پکڑے جیرا کبھی اس طرف اور کبھی اس طرف چلتا اور آواز کے نشیب و فراز سے کہانی کو پلٹے دیتا رہا۔ کبھی عین جانی چور بن جاتا اور کبھی راجہ نرسلطان کی نقل میں شاہی حکم صادر کرتا۔ اسی طرح رات تین کا عمل ہو گیا۔ مجال ہے جو کسی نے ہلنے اور کان پر کُھجلی کرنے کی بھی ہمت کی ہو۔ حتیٰ کہ تین بجے جیرے نے اچانک داستان روک دی۔ مجمع طلسم سے باہر نکلا اور پیر مودے شاہ بھی ہوش میں پلٹا۔ چاچا جیرا ابھی سنبھل کے اور ہاتھ باندھ کے کھڑا ہی تھا کہ اسی وقت پیر مودے شاہ کی آواز گونجی جیرے مانگ کیا مانگتا ہے ؟
جیرے نے ویسے ہی ہاتھ باندھ کے کہا،حضور یہ قصہ تو آپ کی محبت میں عرض کیا۔ زر کی حاجت نہیں ۔
پھر بھی آج جو مانگے گا، دیں گے۔ مودے شاہ دوبارہ گرجا۔
سرکار اگر انکار کر دیں گے تو پھر منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گا۔جیرا تھوڑا سا جھجکا۔
جیرے ہماری توہین مت کر ہم میں خدا کی صفات ہوتی ہیں ۔پیر صاحب جلالی لہجے میں دھاڑے۔
حضور صاحب کرامات ہیں ، اب جیرا نزدیک ہو کر محکم آواز میں بولا، باباجی گدھے پر سواری کرتے کرتے اُکتا گیا ہوں ۔ اگر ایسے ہی اصرار ہے تو آپ کی سفید گھوڑی دل کو بھا گئی۔ آپ کی تو کرامت سے بیسیوں ایسی گھوڑیاں اور آ جائیں گی پر مجھے آپ یہ دے دیجئے۔
جیرے کا گھوڑی مانگنا تھا کہ مودے شاہ سمیت سارے مجمعے کو سانپ سونگھ گیا۔ بلکہ مودے شاہ کے چہرے پر تو ایک قسم کی سیاہی پھر گئی اور وہ ہونّقوں کی طرح جیرے کو دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو کہ پورے قصے کا مزہ کرکرا کر دیا۔لوگوں میں ڈر کے مارے آہستہ آہستہ کھسر پھسر ہونے لگی اور وہ جیرے کی اس قدر بد تہذیبی اور دیدہ دلیری سے ڈرنے لگے۔لیکن وہ استقلال سے کھڑا ہوا تھا اور ذرا بھی اپنی اس جسارت سے شرمندہ نہیں تھا۔ دوسری طرف مودے شاہ کے لئے اب گھوڑی دیے بغیر کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا کیونکہ پورا مجمع مودے شاہ کی سخاوت کی للکار سُن چکا تھا۔بالآخر کچھ دیر سوچ کر مودے شاہ نے جیرے کو گھوڑی دینے کا اعلان کر دیا۔ تب قصبہ والوں کو جیرے کی چال کا پتہ چلا اور وہ اس بات پر حیران ہوئے کہ آخر اُس نے پیر صاحب کو بھی نہیں چھوڑا۔
اصل میں جیرے کے بارے میں قطعی تو کسی کو بھی پتہ نہیں تھا کہ کس قبیلے کا ہے۔ہاں مگر بیس سال سے وہ اسی قصبے میں تھا۔
سنا ہے کہ اُس کا والد گجرات میں چھوٹا موٹا زمیندار تھا۔ جس نے اِس کے برے کرتوتوں اور آوارگی کے سبب عاق کر دیا تھا۔تب سے گھر سے نکلا اور پھر نہ گیا۔ سواری کے لئے اس کے پاس گدھا تھا۔ جس کی بدولت اس نے دور و نزدیک کی منزلیں طے کیں اور قصبہ قصبہ پھرا۔ پورے چھ چھ مہینے غائب رہتا مگر پھر لوٹ آتا اور جیسے ہی قصبے میں داخل ہوتا ایک قسم کی رونق پیدا ہو جاتی کیونکہ جیرے کو بہت سی داستانیں اور قصے کہانیاں یاد تھیں جنہیں وہ ایسے سلیقے سے سناتا کہ لوگ سردُھنتے رہ جاتے۔ڈھول بادشاہ،قصہ شاہ داؤد، داستان امیر حمزہ اور قصہ جانی چور تو اُس کی دل پسند کہانیاں تھیں ۔جو اُس نے قصبے والوں کو سنا کر اپنا گرویدہ کر لیا تھا۔علاوہ ان داستانوں کے جیرا اپنے سفر کے واقعات بھی سچا جھوٹا تڑکا لگا کراِس طرح لوگوں کو سناتا کہ ہر شخص اپنا قرض بھول کر چاچے جیرے سے سفر کے واقعات سننے میں دلچسپی رکھتا۔ دراصل اس کا قصبے سے نکلنے کا سبب بھی وہ دوچار سوروپے قرض ہوتا تھا جو وہ قصبے کے کسی آدمی سے لے لیتا مگر جب تقاضے بڑھتے تو وہ کسی دوسرے سے لے کر پہلے آدمی کا چکتا کر دیتا اور اگر یہ نہ کر سکتا تو قصبہ چھوڑ دیتا پھر جب تک چاچے جیرے کی واپسی ہوتی قرض خواہ اپنے قرض سے دست بردار ہو چکا ہوتا۔اوّل اوّل تو قصبہ والوں کو حیرانی ہوتی کہ جیرا آخر لوگوں سے اتنا قرض کیوں لیتا ہے لیکن تھوڑے ہی عرصے میں یہ معمہ حل ہو گیا۔ بات یہ تھی کہ آدھا قصبہ خود چاچے جیرے کا مقروض تھا یعنی کسی کوسو پچاس کی ضرورت پڑتی تو وہ چاچے جیرے کو ڈھونڈتا ہوا آ پکڑتا۔ ادھر یہ بندہ خدا اُسے خالی لوٹانے میں توہین خیال کرتا اور ادھر ادھر سے مانگ کر اس کے حوالے کر دیتا۔
جیرے کو پہلے پہل تو ان کاموں میں کوئی دقت نہ ہوئی کہ لوگ باتوں کے چٹخارے میں آ جاتے تھے۔ مگر آہستہ آہستہ اعتماد خراب ہو گیا لیکن جیرا بھی کب نچلا بیٹھنے والا تھا۔ ادھار کے معاملے میں ایک عجیب ایجاد نکالی مثلاً حاجی عبداللہ اپنے باڑے میں بیٹھا حقہ پی رہا تھا، جیرا آرام سے جا کرعبدا للہ کے دائیں طرف بیٹھ گیا، حقے کے دو تین کش لگائے اور بولا، میاں کیا بتاؤں وہ گائے تو خدا جانتا ہے صالح کی اونٹنی کی نسل سے ہے۔ اللہ قسم ایسے ہڈ کاٹھ کی گائے تو نیلی کے پانیوں میں نہیں دیکھی۔ یہ اتنا (دونوں بازوؤں کو پھیلاتے ہوئی) چٹورے کے برابر تو بھاگ بھری کا حوانہ ہے اور قد تو میاں ایسا ہے کہ دو آدمی اوپر نیچے کھڑے کر لو تب بھی اونچی لگے۔ گلابی رنگت ناریوں کے رخساروں کو پچھاڑے۔ میں تو جانوں یہودیوں کو اسی گائے کے ذبح کا حکم تھا۔بس بھائی عبداللہ آپ کے یہ سب جانور ایک طرف اور وہ گائے ایک طرف۔
میاں جیرے وہ گائے چل کے ابھی دیکھنا چاہئے۔حاجی عبداللہ نے بے قراری سے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔ ایسی گائے تو میرے باڑے میں ہونی چاہئے۔
نہ حاجی صاحب، جیرے نے بے نیازی سے کہا۔ اسے خریدنے کا خیال دل سے نکال دیں ۔ گلزار محمد جان دے دے گا مگر گائے کا بال کھینچ کر نہ دے گا۔میرے سامنے منظور دوآبیہ نے دس ایکڑ زمین کے کاغذسامنے رکھ دیے۔ گلزار نے مڑ کر نہیں دیکھا اور اُٹھ کر گائے کی تھوتھنی چومنے لگا۔
دودھ کی کیفیت کیا ہے ؟ حاجی نے رشک سے پوچھا۔
واہ یہ بھی اچھی ہی پوچھی آپ نے، جیرا بولا۔ میں وہاں پورے دس دن رہا اور انہی آنکھوں نے دیکھا کہ تین تین آدمی اسے دن میں تین دفعہ دوہتے ہیں ۔ بھئی واللہ ایک چھٹانک اوپر نیچے بتاؤں تو دوزخ میں جاؤں ۔ پورا پچاس لیٹر ایک دن میں دیتی ہے۔ بس بھائی ایسے ہی ہے جیسے کنویں سے مشکیں بھر بھر نکالتے جاؤ۔
حاجی انتہائی بے چینی کے عالم میں کڑھتے ہوئے بولا جیرے میں تو تب مانوں گا جب آنکھوں سے دکھاؤ گے۔
ٹھیک ہے کل تیار ہو جاؤ۔ سویرے تاروں کی اوٹ میں ہی نکل چلیں گے اور دس ’’چک مراد کی‘‘ میں جا کر گلزار کے ڈیرے پر بجائیں گے۔ یہ کہہ کر جیرا اُٹھ کھڑا ہوا پھر رُک کر کہا، مگر ؟
مگر کیا ؟ حاجی نے بے چینی سے پوچھا۔
لیکن میں نے تو کل صبح شہر جا کر برکت سے تین سو روپیہ لینا ہے اور نیک دین کو دینا ہے ورنہ وہ میری جان کو آلے گا۔
تو پرسوں لے کر دے دینا۔ کون سی قیامت آ گئی ہے۔ حاجی نے کہا۔
نہ بھائی نہ ! نیکا تو دھوتی اُتارنے پر تیار ہے۔ میں تو اس بجو کے منہ پر کل ہی پیسے ماروں گا۔جیرا بولا۔
حاجی عبداللہ نے دیکھا کہ شکار ہاتھ سے نکلتا ہے یعنی اگر یہ کل مجھے گائے دکھانے نہ لے گیا تو پھر کبھی نہ جائے گا۔ فوراَ جیب سے تین سو روپے نکال چاچے جیرے کی جیب میں ٹھونس دیے اور کہا کہ پرسوں برکت سے لے کر مجھے دے دینا۔
ٹھیک ہے میاں عبداللہ اگر تمہاری ضد ہے تو یونہی سہی ( جیرے نے ایک قسم کی بیزاری سی ظاہر کی) لیکن دیکھ ! کل سویرے کا سورج ہم کلاسن کے پل پر دیکھیں اور بگھی میں دو گھوڑے بہت ہوں گے۔ یہ کہہ کر جیرا سیدھا رفیق تیلی کے ہاں پہنچا اور دو سو اُس کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کہا، جا بھائی سسر کا جنازہ بھگتا اور جان لے یہ ِاسی مہینے یہ واپس کرنے ہیں ۔مگر سب کو پتا تھا کہ کون سا اُدھار اور کہاں کی واپسی ؟ پھر دوسرے دن جیرے کو صبح سے پہلے ہی قصبے سے نکلنا پڑا مگر حاجی عبداللہ کے ساتھ دو گھوڑوں کی بگھی پر نہیں بلکہ اپنے گدھے پر کیونکہ ایسی گائے تو جیرے نے خواب میں بھی نہ دیکھی تھی۔ حاجی عبداللہ کو کہاں سے دکھاتا۔
کچھ اسی پر موقوف نہیں تھا کہ شرفا ہی اس کی باتوں سے پٹ جاتے بلکہ کبوتر باز، کتے لڑانے والی، رنڈی باز اور لُچوں لفنگوں تک اس کے ہاتھوں ٹھگے جا چکے تھے۔ وجہ صاف تھی کہ جیرے اور اس کے گدھے نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا تھا۔اور اب سائیں مودے شاہ جو خود پورے قصبے کا پیر تھا اور ایسی کرامات والا کہ دلوں پہ لکھا پڑھ لیتا۔ لوگ ہزاروں کی پونجی خوشی خوشی اس کی جھولی میں اُلٹ دیتے۔ وہ چاچے جیرے کے دل کی تختی نہ پڑھ سکا اور پِٹ گیا۔دراصل واقعہ یہ ہوا کہ صادق ماچھی کی بکری رات چوری ہو گئی۔ کم سے کم بھی کہوں تو پانچ سو سے کم نہ ہو گی۔ کھوجی بلوایا تو اس نے شادے تیلی کا نام لیا۔ حالانکہ ہر کوئی جانتا تھا کہ آج چودھری الہٰ یار نے پیر مودے شاہ کی دعوت کی ہے مگر بڑوں کے جوتے بڑے۔ نام کون لے؟ اس پر ستم یہ ہوا کہ سو روپے اُلٹے کھوجی نے مانگ لیے۔ صادق ماچھی شام تک کا وعدہ کر کے جیرے کے پاس چلا آیا۔ یوں اس واقعے کی گانٹھ پڑی اور جیرے نے قصہ جانی چور سنا کر پیر صاحب کی گھوڑی ہتھیا لی۔کیونکہ جیرا مودے شاہ کی بڑھوں سے واقف تھا اور اپنا گدھا صادق ماچھی کو دے کراُسی وقت قصبے سے نکل گیا کہ کہیں صبح دوبارہ نہ چھین لیں اور پیر صاحب منہ دیکھتے رہ گئے۔
٭
اب دریائے بیاس پچھلے دوسال سے محض ایک ندی کے برابر رہ گیا۔ خدا ہی جانتا تھا سب پانی کدھر گیا۔ اکثر بار اطلاع آئی کہ ہندوستان نے پانی روک لیا لیکن بزرگوں نے اس کی سختی سے تردید کر دی کہ کبھی دریا پر بھی بند باندھے جا سکے ہیں ۔یہ ضرور کوئی خدا کا قہر ہے۔ قربانیاں دینے میں بخل سے کام لیا گیا اُسی سبب سے دریا ناراض ہو گیا اور اُس نے اپنا پانی بند کر لیا۔قصبے کے مضافات میں جو تباہی آ رہی تھی وہ آنکھوں سے نہ دیکھی جاتی تھی۔ پانی کی قلت سے ہر شے مرجھا چکی تھی۔ فصلیں چوتھائی بھی نہ رہ گئیں اور اکثر میدانوں میں خاک اُڑنے لگی۔ مال مویشی الگ پریشان اور بدحال تھے۔بارشوں پر دارومدار بڑھ گیا جو سال سال نہ ہوتیں ۔ برگد اور پیپل کے پیڑ تو کسی طرح محفوظ تھے لیکن شیشم شرینہہ اور پاپلر تو اس طرح سوکھنے لگے جیسے کوئی آگ لگاتا چلا گیا ہو۔ اگلے دوسال میں بگولوں نے پورے علاقے میں ناچ شروع کر دیا۔ ہواؤں میں جو ایک طرح کی خنکی تھی وہ جاتی رہی اور خشکی لُو دینے لگی۔ اس سب کچھ کی بنا پر لوگوں کی معیشت کو ایک بڑا دھچکا لگا۔ جن کا انحصار ہی زراعت پر تھا اور زراعت دریا کے سبب تھی۔پہلے پہل تو لوگ عبادت پر مائل ہوئے اور دعائیں مانگتے رہے لیکن جب مسئلہ حل نہ ہو اتو آہستہ آہستہ عبادت چھوڑ دی اور مسجدوں میں وہی رہ گئے جو پرانے نمازی تھے۔ لوگوں کی طبیعتوں میں ایک قسم کا چڑچڑا پن آتا گیا۔ موسم میں اعتدال کے بجائے شدت پیدا ہو گئی یعنی سخت گرمی اور سخت سردی۔پھر جب دوسال سے بارش کا ایک قطرہ نہ ہوا تو ندی کا بقیہ پانی بھی سوکھ گیا۔ حکومت نے جو نہریں دوسرے دریاؤں سے نکالی تھیں وہ نہایت ناکافی تھیں اور پھر اِن کو تو کھلے پانیوں کی عادت تھی اس چلّو بھر پانی پر کیا اکتفا کرتے۔اس سارے سوکھے نے خاص کر باغات تو بالکل بھسم کر دیے۔ حتیٰ کہ پانچ سال کے اندر قصبہ کے مضافات ویران ہو گئے اور قصبے والے کمال پریشانی میں مبتلا ہوئے۔ چاچا جیرا بھی اب زیادہ عرصہ قصبے سے باہر ہی رہتا تھا کیونکہ ایک تو لوگوں نے اُس کی داستانوں میں دل چسپی لینا چھوڑ دی دوم قصبے کی حالت اُس سے دیکھی نہ جاتی تھی۔علاوہ ان باتوں کے اب گھوڑی ہاتھ لگ گئی تھی۔ لہٰذا دور دور نکلنے لگا۔لیکن سال میں مہینے مہینے کے لئے دوچار پھیرے ضرور لگا لیتا۔ پچھلے مہینے جیرا پورے سال بعد قصبے میں داخل ہوا اور یہ دیکھ کرسخت متعجب ہوا کہ دوچار آدمیوں کے علاوہ کسی نے بھی جیرے پر خاص توجہ نہ دی۔ایسے لگتا تھا کہ لوگوں کے مزاج میں کچھ زیادہ ہی چڑ چڑا پن آ گیا تھا۔یہ حالت دیکھ کراُس کے دل کو ایک ٹھیس سی لگی اوراُس نے سوچا کہ وہ پرسوں ہی قصبے سے چلا جائے گا اور پھر کبھی نہ آئے گا۔
دوسرے دن اتفاق سے پیر مودے شاہ بھی قصبے میں آ گیا۔لوگوں کواُس کی آمد کا پتہ چلا تو حاضری کے لئے دوڑے۔ اور پریشان حال عوام اِلتجائیں لے لے کر حضور میں پہنچے۔
شہاب دین گڑ گڑایا،سرکار لُٹ گئے، کھیت اُجڑ گئے۔ حضور فصلوں میں جھاڑو پھر گئی۔
حضور باباجی باغات کو لُو کھا گئی۔ اب تو بھوکوں مرتے ہیں ۔ واسطہ شادے سرکار کا کوئی معجزہ کرو۔جمال رونے لگا۔
شیر علی نے پگڑی مودے شاہ کے قدموں میں رکھتے ہوئے کہا، حضرت دریا روٹھ گیا۔ ہم سے بھول ہو گئی۔جب سے ہم نے اُسے قربانیاں دینی بند کر دیں اُس نے ہمارا رزق بند کر دیا۔ ساری زمینیں راجھستان ہو گئیں ۔
نذیر بانسری والا، باباجی کوئی ایسی کرامات کرو کہ دریا ٹھاٹھیں مارتا نکل آئے۔پھرسے ہر طرف ایسا ہرا ہراہو کہ آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں ۔
پیر مودے شاہ کچھ دیر سب تحمل سے سنتا رہا آخر گرجدار آواز سے بولا، اللہ کے کاموں میں دخل دینے سے یہی کچھ ہوتا ہے۔ تم نے بڑے بڑے پُل بنا دیے اور دریا کو قربانیاں نہ دیں پھر وہ کیوں تمہیں رزق دے۔ اب بھگتو اپنے کئے کی سزا۔
ناں باباجی ناں ، آپ تو ہمارے رکھالو ہیں ۔ آپ کی خدا کبھی نہ موڑے گا۔ حضور کچھ نہ کچھ ضرور کریں ۔ہم یہ پُل شُل ابھی زمین کر دیں گی۔ جو ہمارے سینوں پر اب سانپ کی طرح کھڑا ہے۔ شریف محمد زار زار رونے لگا۔
باباجی ہم عہد کرتے ہیں ۔ آپ جو کہیں گے وہی کریں گے۔ بال برابر ادھر نہ اُدھر۔ چاہے خراس میں پسوا دو مگر دریا بہنا چاہئے۔ کمال احمد بھی تقریباً رو پڑا۔
اسی طرح آہ و زاری کرتے جب آدھی رات نکل گئی تو آخر پیر مودے شاہ نے کہا ٹھیک ہے۔ ہم آج تمہارے لئے کچھ کرتے ہیں ۔ تم اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔ ہم چلّہ کھینچتے ہیں ۔ جو حکم ملا صبح کو بتا دیں گے۔ اور خبردار اگر اُس حکم کے بجا لانے میں ذرا بھی سرتابی کی تو پھر تمہیں مکمل تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ہر صورت وہی کرنا ہو گا جو ہم کہیں گے، اللہ اکبر۔
مودے شاہ کا حکم پا کر تمام لوگ اپنے گھروں کو چل دیے۔ بابا جی کمرے میں تنہا رہ گئے۔ اور اندر سے کنڈی چڑھا کر چلّے میں مصروف ہو گئے۔
اِدھر قصبے والوں کی آنکھوں سے نیند بالکل اُڑ گئی۔ وہ سخت بے چینی سے صبح کا انتظار کرنے لگے کہ دیکھیں باباجی کو کیا حکم ملتا ہے۔ جس کے بجا لانے کے لئے وہ اپنے آپ کو تیار کر چکے تھے۔صبح ہوئی تو باباجی نے دروازہ کھولا۔ لوگوں کا بڑا مجمع ٹھٹھ لگا کر کھڑا تھا۔ مودے شاہ نے ان میں سے چارسرکردہ افراد کو چن لیا۔ اور انہیں دوبارہ کمرے میں لے گیا۔ باقی لوگوں کو اپنے اپنے گھروں کو جانے کا حکم ہو گیا۔
پھر اُسی دن، رات دس بجے کے قریب چھ لوگ چاچے جیرے کی کوٹھڑی میں داخل ہوئے اور اُسے پیر مودے شاہ کے حکم کے بارے میں اطلاع دی۔جسے سن کر چاچا جیرا سکتے میں آ گیا اور بہت رویا پیٹا لیکن اب خدا کے کاموں میں دخل دینے کی قصبے والوں میں ہمت نہیں تھی کیونکہ اگر وہ اس حکم کو ٹال دیتے تو اُنہیں مزید تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔ لہٰذا جیرے کو دریا کے عین بیچ لے جا کر خشک ریت پر لٹا دیا گیا۔ جہاں چند ہی منٹو ں میں اُس کے گلے سے نکلتے ہوئے گرم خون کو پیاسی ریت پی گئی۔ اگلی صبح پیر صاحب سحر پھوٹنے سے پہلے ہی قصبہ چھوڑ کر جا چکے تھے۔
٭٭٭
انٹر نیٹ کے مختلف مآخذ سے
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید