FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

بین السطور

پروفیسر رحمت یوسف زئی


آسمان میں  کمیں  گاہیں  ……..ایک مطالعہ

            شاید دوسال گزر گئے  اس واقعے  کو……. جب ایک سرد صبح یوسف کمال صاحب میرے  غریب خانے  پر تشریف لائے۔ ان کے  ساتھ چار پیاری پیاری نظمیں  تھیں  اور وہ چاہتے  تھے  کہ میں  ان نظموں  کو خوشخط لکھ دوں۔ مجھے  حیرت ہوئی اب تک تو یہ ہوتا تھا کمال صاحب کوئی نظم تخلیق کرتے  تو اسے  سنانے  چلے  آتے  …..کبھی کسی افسانے  کا انگریزی ترجمہ کیا تو مجھے  اسکا سب سے  پہلا سامع ہونے  کا افتخار حاصل ہوتا…..اسی کلیہ کے  تحت انھیں  پہلے  تو نظمیں  سنانی چاہئے  تھیں … میں  استفہامیہ نگاہوں  سے  ان کی طرف دیکھتا رہا۔ میری آنکھوں  میں  تھرکتے  سوالوں  کو غالباً انھوں  نے  پڑھ لیا اور کہا … ’’یہ نظمیں  میری نہیں ‘‘  ’’پھر ‘‘…. میں  نے  مزید حیرت میں  ڈوب کر پوچھا…..

’’یہ کمار صاحب کی نظمیں  ہیں ‘‘……

            کمار صاحب …….؟ کون کمار صاحب….؟ میں  نے  سمندر میں  غوطے  لگائے ! ’’ارے  بھئی کمار صاحب ……..؟ شیو کے  کمار ‘‘ اوہ …. مرے  ذہن میں  ایک جھماکہ ہوا۔ شیو کے  کمار، انگریزی ادب کے  پروفیسر ….عثمانیہ یونیورسٹی بلکہ حیدر آباد یونیورسٹی کے  بھی ایک مایہ ناز ہستی ……وہ استاد جو اپنے  شاگردوں  میں  برسوں  تک انگریزی ادب کے  رنگین قمقمے  بانٹتا رہا۔ روشنی پھیلاتا رہا….. کمار صاحب ادب کے  نقاد بھی ہیں  اور تخلیق کار بھی …ناول، ڈرامے، شاعری ….سب کچھ ہے  ان کے  پاس ….! اس یونیورسٹی میں  آنے  سے  قبل میں  جس کمپنی میں  ملازم تھا، وہاں  میرے  ایک دوست تھے  مسٹر سی این وٹھل راؤ … یہ پروفیسر کمار کے  شاگرد رہ چکے  تھے  اور بیشتر اوقات جب ادب اور شاعری پر بات چلتی تو پروفیسر کمار کا ذکر ضرور آتا…..وٹھل راؤ بڑی عقیدت سے  ان کا تذکرہ کرتے  تھے  اور اسطرح مجھ پر بھی پروفیسر کمار کا رعب چھا گیا تھا….!

پھر کچھ یوں  ہوا کہ بعد از خرابیِ بسیار میں  نے  ۱۹۸۰ء میں  یونیورسٹی آف حیدر آباد کے  شعبۂ اردو میں  داخلہ لیا۔ ایک دن گولڈن تھریشولڈ کی سیڑھیوں  سے  میں  ایک بہت ہی با وقار شخصیت کو اتر تے  دیکھا۔ کسی نے  بتایا کہ یہ پروفیسر شیو۱ کے  کمار ہیں …. میں  تو بس انہیں  دیکھتا ہی رہ گیا….. ایک عجیب سا رعب طاری ہوا…. ہمت ہی نہ پڑی کہ آگے  بڑھ کر ان سے  ملتا …. طبیعت کی جولانی جیسے  غائب ہو گئی تھی اور میں  اپنے  آپ کو ایک تنکے  کی طرح محسوس کر رہا تھا….. کمار صاحب نے  اپنے  ساتھی اساتذہ سے  ہاتھ ملایا …. کار میں  بیٹھے  اور چلے  گئے  ….جیسے  ایک ہوا کا جھونکا…..اور مجھ سے  اتنا بھی نہ ہو سکا کہ انھیں  سلام ہی کر لیتا …. پھر ان کے  بارے  میں  ان کی شاعری کے  بارے  میں  مختلف لوگوں  سے  تبصرے  سنتا رہا۔ غالباً اس وقت تک کمار صاحب ریٹائرڈ ہو چکے  تھے  لیکن کبھی کبھی شعبہ انگریزی میں  تشریف لایا کرتے  تھے۔ اور پھر بعد میں  جب کبھی وٹھل راؤ سے  میری ملاقات ہوتی تو کمار صاحب کا ذکر شدومد سے  ہوتا۔ اور اب مجھے  بھی یہ افتخار حاصل تھا کہ جس یونیورسٹی میں  کمار صاحب تھے  وہاں  کا میں  بھی طالب علم تھا اور اس طرح میں  بھی ان کا بالواسطہ شاگرد تھا…. اسی لئے  جب کمار صاحب کا ذکر ہوتا تو ایک عجیب سی اپنائیت کا احساس مجھ میں  ابھرتا تھا۔ دس سال بعد جب یوسف کمال نے  کمار صاحب کا نام لیا تو ساری باتیں  ذہن میں  لوٹ آئیں …. میں  نے  نظمیں  ہاتھ میں  لیں  اور انھیں  دیکھنے  لگا ……یہ نظمیں  یوسف کمال نے  انگریزی سے  اردو میں  ترجمہ کی تھیں۔ احساس ہوا کہ یہ تو بہت اعلیٰ سطح کا شعری اظہار ہے ….لیکن یہ بھی خیال آیا کہ یہ تو محض ترجمہ ہے …. کیوں  نہ اسے  انگریزی میں  دیکھا جائے۔ میں  نے  انگریزی نظم کا مطالبہ کیا اور کمال صاحب نے  جب نظمیں  دیں  تو میں  ان میں  کھوسا گیا ….میرے  احباب کا خیال ہے  کہ میری انگریزی اچھی ہے …..لیکن ایاز خود بشناسد کے  مصداق میں  جانتا ہوں  کہ پہلی نظر میں  انگریزی نظم کے  مفاہیم اور اس کے  اندر پوشیدہ استعاراتی نظام تک رسائی ایک مشکل امر ہے۔ کمال صاحب نے  میری رہنمائی کی …..ہم دونوں  نے  بیٹھ کر ان نظموں  کا تفصیلی مطالعہ کیا….ترجمے  پر بحث ہوئی …. کہیں  اختلاف ہوا تو ڈکشنریاں  نکال لی گئیں …. ہم نے  ایک ایک لفظ پر بڑی وحشیانہ بحثیں  کیں  ….. (Wild discussion)کے  لئے  میرے  پاس کوئی لفظ فی الحال نہیں  ہے۔ ایک ایک نظم پر اتنا جھگڑا کیا کہ خدا کی پناہ …. کمال صاحب چاہتے  تھے  کہ میں  نظموں  کو خوشخط لکھ دوں  لیکن میں  تو ان کے  ترجمے  کے  عمل میں  دخیل ہو گیا تھا …! وہ تو خیر گزری کہ کمال صاحب نے  برا نہیں  مانا بلکہ الٹے  خوش ہوئے ……میں  یہ تونہیں  جانتا کہ ترجمے  کی سطح میں  کچھ اضافہ ہوا یا نہیں  لیکن مجھے  یہ فائدہ ضرور ہوا کہ میری انگریزی نظموں  کی تفہیم کی سطح قدرے  بلند ہو گئیں۔ اور میں  نے  شیو کے  کمار کی نظموں  میں  پوشیدہ لطیف احساس کو کچھ حد تک سمجھنے  کی صلاحیت پیدا کر لی۔

            ایک، دو، تین، چار ……یہاں  تک کہ جملہ سینتالیس نظمیں  دیکھی گئیں  …… لفظ بدلتے  رہے  …..کاغذ چاک کئے  جاتے  رہے  اور تقریباً چھ ماہ کے  عرصے  میں  ان کے  ترجمے  کو آخری شکل دی گئی۔ پھر مسودہ ساہیتہ اکیڈیمی بھیج دیا گیا…. بات آئی گئی ہو گئی…… ایک دن میں  کسی کام سے  عثمانیہ یونیورسٹی گیا تو یوسف کمال سے  بھی ملا۔ انھوں  نے  بتایا کہ کمار صاحب کچھ عرصہ دہلی میں  گزار نے  کے  بعد اب پھر حیدر آباد میں  ہیں۔ خواہش پیدا ہوئی کہ ان سے  ملوں  …. لیکن میرے  کہنے  سے  قبل ہی کمال صاحب نے  کہا ’’چلو گے ……‘‘  ’کیوں  نہیں ‘ میں  نے  بلا کسی تامل کے  جواب دیا…… اور ہم دونوں  کمار صاحب کی رہائش گاہ پہنچے۔ اور جس انداز میں  کمار صاحب مجھ سے  ملے  وہ میرے  ذہن پر ہمیشہ نقش رہیگا….. انھیں  میرے  بارے  میں  پوری طرح علم تھا…. وہ جانتے  تھے  کہ میں  یونیورسٹی آف حیدر آباد کے  شعبہ اردو سے  وابستہ ہوں۔ انھیں  یہ بھی معلوم تھا کہ ترجمے  کے  عمل میں  میں  بھی شامل رہا ہوں۔ اور پھر بہت سی باتیں  ہوئیں  ….غالب پر، اقبال پراور فیض پر …..تب مجھے  پتہ چلا کہ فیض ان کا محبوب شاعر ہے۔ اور یہ کہ انھوں  نے  فیض کو براہ ترجمہ نہیں  پڑھا …. میرا مطلب ہے  انھوں  نے  فیض کو انگریزی میں  نہیں  بلکہ اردو میں  پڑھا تھا۔ وہ اردو بہت اچھی طرح جانتے  ہیں  اور پھر انھوں  نے  فیض کا مجموعہ کلام نکالا اور اس کی مشہور نظم ’’تنہائی ‘‘ سنائی اور میں  بس عقیدت سے  انھیں  تکتا رہا…..

            کچھ مہینے  اور گزر گئے۔ جب کتاب بے  حد خوبصورت چھپ کر آئی تو کمال صاحب اسے  لے  کر سیدھے  میرے  پاس تشریف لائے۔ کتاب بے  حد خوبصورت چھپی تھی۔ اس وقت میں  نے  کمال صاحب سے  کہا تھا کہ بھئی اس پر مجھے  حق ہے  لکھنے  کا ….. اور میں  لکھوں  گا….. تو آیئے  آسمان کی ان کمیں  گا ہوں  کی سیر کریں  جہاں  سے  کمار صاحب اس سارے  کرہ ارض کو دیکھ رہے  ہیں ….. کبھی اپنے  وطن میں  رہ کر، کبھی اپنے  وطن سے  باہر …. انگریزی کتاب Traofalls in the skyمیکملن نے  چھاپی ہے۔ قیمت پینتیس روپیہ ہے۔ گٹ اپ کچھ نہیں  …. پیپر بیک پر چھپی ہے۔ اوراس کا ترجمہ ’’آسمان میں  کمیں  گاہیں ‘‘ ساہیتہ اکیڈیمی نے  شائع کیا ہے۔ قیمت چالیس روپیہ ہے  مجلد، ڈسٹ کور کے  ساتھ ….اور بے  حد خوبصورت ٹائٹل….. انگریزی کتاب کو ساہیتہ اکیڈیمی نے  انعام سے  نوازا تھا پھر اس کے  ترجمے  کو شائع کیا۔ کتاب تین حصوں  میں  تقسیم ہے۔ پہلا حصہ ہے  ’’اپنی دھرتی پر‘‘ جس میں  وہ نظمیں  ہیں  جن کا موضوع ہندوستان کے  کچھ مقامات کچھ واقعات اور کچھ حادثات کے  علاوہ خود کمار صاحب کی اپنی شخصیت ہے …. یا پھر وہ شخصیتیں  ہیں  جن کا تعلق کمار صاحب سے  ہے۔ ان مقامات، واقعات اور شخصیتوں  کو کمار صاحب نے  اپنے  فن کی آنکھ سے  دیکھا ہے۔ ایک کیمرہ وہ ہوتا ہے  جو جوں  کا تو توں  تصویر کھینچ دیتا ہے۔ لیکن ساری دنیا جانتی ہے  کہ کیمرہ کسی فن کار کے  ہاتھ میں  آتا ہے  تو تصویر میں  بے  پناہ حسن پیدا ہو جاتا ہے ….. اسی طرح ایک کیمرہ ادیب اور شاعر کا بھی ہوتا ہے  جو نظر آنے  والے  منظر کے  اندر سے  کچھ ایسی چیزیں ، کچھ ایسی باتیں  کھوج نکالتا ہے  جو کبھی روح کو بالیدگی بخشتی ہیں  تو کبھی احساس کی پرتوں  کو تہہ و بالا کر دیتی ہیں .. …

            اس مجموعہ کی سب سے  پہلی نظم ’’مدرٹریسا‘‘ ہے ……. کیا کہنا چاہتے  ہیں  کمار صاحب اس نظم میں۔ ……؟ کیا صرف اس شخصیت کی توصیف مقصود ہے  یا اس عمل کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے  جس سے  مدرٹریسا کی شخصیت لافانی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ وہ دیکھ رہے  ہیں  کہ اداس کھوپڑیاں  جو نحیف گردنوں  پر ٹکی ہوئی ہیں  …….وہ بڑھے  جو جہد کا حوصلہ کھو چکے  ہیں  …..وہ دیکھ رہے  ہیں  ایک دبیز شعاع مہر کو جوان مردی جسموں  کو زندہ رہنے  کا حوصلہ عطا کر رہی ہے …. یہ دبیز شعاع مہر کو ئی اور نہیں  مدر ٹریسا ہے …… جس کا مخملیں لمس برگ نخیل کے  سایوں  سے  گھرے  نخلستان کی طرح ہے۔ یہ منظرنامہ سڑک کی ایک جانب کا ہے  اور دوسری طرف ایک مندر ہے  جس میں  منتروں  کا جاپ ہو رہا ہے ، گھنٹیاں  بج رہی ہیں  اور جہاں  پتھر میں  تراشا ہوا ایک دیوی کا بت ہے  ….. جس کی آنکھیں  خوں  رنگ ہیں  اور جو اپنا داہنا ہاتھ اٹھائے  ایک کہنہ رسم کی ادائیگی کے  لئے  آمادہ ہے۔ شاید یہ تقابل ہے  مذہبی رسومات کا اور خدمت خلق کا …. اور کونسی شئے  عظیم ہے  ….خدمت خلق….یا عبادتیں  اور قربانیاں …..؟ کیا وہ دیوی عظیم ہے۔ جس نے  مردہ جسموں  کو جینے  کی توفیق دی یا وی دیوی عظیم ہے  جس کے  درپرقربانی دی جا رہی ہے  اور جو قربانیاں  قبول کرتی رہتی ہے …..؟ ایک طرف وہ دیوی ہے  جس کا خوش کرنے  کے  لئے  منتروں  کے  جاپ اور گھنٹیوں  کی آوازیں  گونج رہی ہیں  اور دوسری طرف وہ دیوی ہے  جو ایسے  لوگوں  کو مسرت بخش رہی ہے  جو زندہ رہنے  کی لگن کھو چکے  ہیں …. یہ وہ دیوی ہے  جو نیم فانی ہے  جیسے  کنول…. کمار صاحب مذہب بیزار نہیں  ہیں …… وہ دہریے  بھی نہیں  ہیں  …. وہ مذاہب کا احترام کرنا جانتے  ہیں  لیکن مذہب کو اپنے  آپ پر اس طرح لادنا نہیں  چاہتے  کہ وہ نفرت اور تعصب کو ہوا دینے  لگے … ان کے  ہاں  محبت اور خدمت کی اہمیت ہے  …. اور شاید یہی جھلک ہم کو اس نظم میں  نظر آتی ہے۔ دوسری نظم ’’لمحۂ سپردگی‘‘ ایک ماں  کی نصیحت ہے  اپنی بیٹی کے  لئے۔ ایک خوش گوار زندگی گزارنے  کے  لئے  ہر ماں  اپنی بیٹی کو نصیحتیں  کرتی ہے۔ لیکن یہ نصیحت کچھ عجیب و غریب ہے۔ جس میں  کچھ خاص لمحات کو اسیر کر لینے  کی ہدایت ہے …. اس میں  بحث سے  بچنے  کی نصیحت ہے۔ خود کو محسوس کرنے  کا درس ہے  اور شوہر کو اپنے  گیسوؤں  کے  جال میں  اسیر کرنے  کے  فن کے  نفسیاتی نکات ہیں۔ کمار صاحب یہ بات جانتے  ہیں  کہ عورت کے  لئے  سب سے  قیمتی لمحہ کونسا ہوتا ہے  اور مرد کا سب سے  کمزور لمحہ کونسا ہے۔

’’پہلے  اسے  گرم ریت پر تپانا

کچھ دیر کے  لئے

کہ یہی وقت

کچھ پانے  کا بھی ہے

محض دینے  کا نہیں ……!‘‘

            اور کمار صاحب یہ بھی جانتے  ہیں  کہ تمام تر بے  راہ روی کے  باوجود، دور تاریکیوں  میں  مچھلیوں  کے  شکار کے  باوجود، مرد کی آخری پناہ گاہ اس کا گھر ہی ہوتی ہے …… شرط یہی ہے  کہ اس کو پہلے  لمحۂ سپردگی میں  ہی یہ احساس دلا دیا جائے  کہ سیر جو جانے  کے  بعد چٹان کی طرح بے  حس ہو جانے  کا یہ مطلب نہیں  ہے  کہ قصہ تمام ہوا۔ اور اسی لئے  کمار صاحب تجربہ کار ماں  کی زبانی بیٹی پر یہ راز حیات افشا کر رہے  ہیں  کہ مرد کو حاصل کرنے  کا لمحہ وہی ہے  جب پہلی بار خود کو کھو دینا پڑے ……!

            تیسری نظم کا عنوان ’’سورج گہن کے  سائے  لہو میں ‘‘ ہے  جو بجائے  خود بے  حد شاعرانہ ہے۔ بلکہ یوں  لگتا ہے  کہ وہ اصلی عنوان سے  بہت آگے  نکل گیا ہے  انگریزی عنوان ہے۔ "To a friend who dies of cancer bequeathing his body for research” لیکن اردو عنوان انگریزی نظم ہی کے  ایک مصرعے  کا ترجمہ ہے  جو یوں  ہے۔

 Needles in your bones, shadows of a solar eclipse in

your blood

         اس نظم میں  کمار صاحب نے  اپنے  ایک دوست کی وصیت پر اپنے  احساسات کو پیش کیا ہے …. اس دوست کی موت کینسر سے  ہوئی تھیں  اوراس نے  وصیت کی تھی کہ اس کی لاش کو جلانے  کی بجائے  تحقیقی مقاصد کے  لئے  استعمال کیا جائے  …. اس نظم کا آخری حصہ دیکھئے  جس میں  ایک بھرپور تاثر موجود ہے۔

’’اور کھنگال ڈالو

بھول بھلیاں  مری جوڑ جوڑ ہڈیوں  کی

تاکہ تم پر کھل جائے

اصل مرے  درد کی

میرے  جوئے  خوں  میں  کہیں  نہ کہیں

اس مردہ مچھلی نے  کوئی سراغ تو چھوڑا ہو گا ضرور!‘‘

اور پھر یہ نظم ہے  جس کا عنوان کے  ’’تلاش‘‘ …….انگریزی عنوان ہے۔ "A Tibetan refugee woman on a Delhi pavement” یہ نظم دہلی کے  فٹ پاتھ پر پناہ گزیں  عورت کو دیکھ کر لکھی گئی ہے۔

            کمار صاحب کہتے  ہیں

’’بدن تمہارا

سیاہ پتھر میں

ڈھل گیا ہے ‘‘

            تبتی سیاہ فام نہیں  ہوتے  بلکہ کچھ زردہ مائل سیاہ ہوتا ہے۔ لیکن یہاں  کمار صاحب نے  Black stoneلکھا ہے  ….. اور یہ قصداً ہے۔ دہلی کی جھلس دینے  والی تیز دھوپ اس تبتی عورت کے  جسم کو سیاہی مائل کر گئی تھی….. اس تبتی عورت کے  بال بکھرے  بکھرے  ہیں  جن میں  جوئیں  رینگ رہی ہیں …. میلے  کچیلے  کپڑے  … لیکن اس کے  ہاں  ایک بہت قیمتی شئے  ہے۔ اس کی آنکھ میں  اداس موتی ہیں  ….. جن کی قیمت کا تعین مشکل ہے  ….. اس کے  بازو پر بندھا ہوا سنگ سلیمان کا تعویذ (Onyx amulet) بظاہر ایک معمولی سی چیز لیکن اس کے  پیچھے  عقیدے  کی علامت ہے  یہ تعویذ کس کی حفاظت کے  لئے  ہے  ….؟ اداس موتیوں  کی حفاظت کے  لئے  ….؟ کیا یہ تعویذ اس تبتی عورت کی عصمت کی حفاظت کے  لئے  ہے ….؟ کیا یہ تعویذ تبتی تہذیب کی حفاظت کی علامت بن رہا ہے  …..؟ سوالات اٹھتے  چلے  جاتے  ہیں  … جواب آپ دیجئے  ….غور کیجئے …. اور پھر جہاں  بھی آپ کی فکر عمیق آپ کو لے  جائے  …!! اور یہی شاعری کا حسن ہے ….. بس ایک بات قطعی طور پر کہہ دی گئی ہے  کہ مقدس لاما کی منت بھری التجائیں  بھی، زرد آدمی کو تمہاری قبر میں  داخل ہونے  سے  نہیں  روک سکتیں۔

Not even the lama’s supplication

can turn the yellow man

away from your grave

اس کے  بعد وہ نظم ہے  جس کا عنوان ہے  ’’عنفوان شباب‘‘ …….. "Adolescence” اور یہ احساس ہے  ایک باپ کا ….. جو اپنے  بیٹے  کو نصیحت کر رہا ہے  …..یا نصیحت کرنا چاہتا ہے  اور اس کائنات کا تہہ و بالا کر دینے  والے  جذبے  کو محسوس کرتا ہے  ….

            کمار صاحب کہتے  ہیں

اب تم محسوس کرنے  لگے  ہو

دانہ سنگ کی قوت نمو

لبوں  سے  اوپر بڑھتا ہوا رواں

اور زانوؤں  میں  مچلتا ایک نیا خطرہ

            کمار صاحب نظم کا آغاز اس قبل اس طرح سے  کرتے  ہیں  کہ

میں  خود کہاں  کا بے  گناہ

کہ تمہارا احتساب بھی کر سکوں

            کیونکہ وہ جانتے  ہیں  کہ شاید یہ نصیحت بے  اثر ثابت ہو اور اگر ایسا ہوا تو لڑکے  کی انگلیاں  گٹار کے  تاروں  پر پھسلنے  کی بجائے

اتر جائیں  سانپ کی دم سے  زیادہ گہری گہرائیوں  میں  تو چرچر بھونے  کباب کی مانند جل جائیں  گی ……

            وہ اپنے  باپ کا حوالہ دیتے  ہیں  جنھوں  نے  کچھ اسی طرح کی نصیحت کی تھی کہ

اگر ابھرتی قوت کے  اس عفریت کو رام کر لو

تو اہرام کے  سارے  اسرار

تم پر کھل جائیں  گے

اور چاند کے  آتش فشانی دہانوں  سے

امرت دھارائیں  پھوٹ پڑیں  گی…….

            اور پھر وہ بڑی حسرت سے  خود اپنا محاسبہ کرتے  ہیں

’’لیکن کون سنتا ہے ‘‘

اور اس محاسبہ میں  یہ آرزو پوشیدہ ہے  کہ میں  نے  تو اس عفریت کو رام نہیں  کیا لیکن میرے  بیٹے  میری خواہش ہے  کہ تم اس کو رام کر لو….. اور وہ یہ بھی جانتے  ہیں  کہ یہ خواہش بے  سود ہے  ….لیکن بہرحال کہنا تو چاہئے  …… اس ایک آخری سطر میں  نوجوانی کا تجزیہ بھی ہے  اور تجربہ کار باپ کی نصیحت بھی جو خود اپنے  باپ کی نصیحت پر عمل کر کے  زندگی کی امرت دھارا تک پہنچ نہ سکا اور اگر بیٹا بھی ’’کون سنتا ہے ‘‘ یا Who caresکہہ کر صرف نظر کر دے  تو اسے  کوئی نہیں  روک سکتا ……لیکن کاش وہ رک جائے  …….کاش اس کا خوش آئند خواب کا بوس میں  نہ بدلے …….

            اس کے  بعد کمار صاحب قحبہ خانے  کی سیر کراتے  ہیں  لیکن اپنے  مخصوص انداز میں  …. قحبہ خانے  کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے  کہ کسی طرح روپیہ کمایا جائے  ….یہ نہیں  کہ زندگی کے  حسین سفر کا لطف لیا جائے۔ بس چابی لگی اور کام تمام ہوا …لیکن راز و نیاز ا اور اجنبی راگ سے  لئے  ملانے  کا عمل … یہ سب ممکن ہی نہیں  …..کیونکہ بہرحال چند لمحوں  کا سودا ہے  اور اس نے  صرف چابی نگلنے  کا معاہدہ کیا ہے  …..لالہ دہن سے  شیرینی چکھا نے  کا وعدہ تو ہر گز نہ تھا …خود احتسابی کی کیفیت میں  یہ یاد آتا ہے  کہ ہاں ! یہ سودا تو ہوا ہی نہیں  تھا … اور پھر ذہن کے  تمام فاسد خیالات دور ہو جاتے  ہیں  ……ذہن میں  معصومیت بھر جاتی ہے  …. ایک ایسے  بچے  کی معصومیت جو انکو بیٹر میں  ہانپ رہا ہو…. ! اس کا سفر ناتمام اس اعتبار سے  ہے  کہ جسمانی اعتبار سے  تو وہ اس حد تک درست ہے  کہ ہانپ رہا ہے ….. لیکن اس میں  کمی ہے ….. کمی ہے  اس فطری گرمی کی ….اس محبت کی …..جو صرف اسی وقت نشو و نما پا سکتی تھی جب اجنبی راگ سے  لئے  ملانے  کا عمل ہوا ہوتا ……یہ بچہ روتا نہیں  کیونکہ روتا تو زندگی کی علامت ہے …… یہ صرف ہانپ رہا ہے  ….. کیونکہ اسے  عدم تکمیل کا احساس ہے  … اس نظم کے  ایک ایک لفظ کے  اندار مفاہیم کی ایک وسیع دنیا آباد ہے۔ اور اس اعتبار سے  یہ ایک بے  حد کامیاب نظم ہے ….. !

            اور پھر طلاق ….. Divorce…… علیٰحدگی کا ایک ایسا لمحہ جب سفید ننھے  پرندے  کی طرح خوشی سے  گنگناتا گاتا آزاد انسان اپنے  تمام بوجھ کو سر سے  جھٹک کر نئی زندگی کی تلاش میں  نکل کھڑا ہوا ہے ….

            اس نظم میں  کچھ سوالات جاگتے  ہیں …..

بے  بسی میں  پکڑے  ہوئے

آسماں  کا سر

رات دروازہ سے

کراہتی رہی……

 The night moaned in labour

 pain, clutching at the sky’s bed head.

            یہ آسمان کون ہے  .. رات کونسی شخصیت ہے .. ہم سوچ سکتے  ہیں  اور شائد ان کی اصلیت تک پہنچ بھی جائیں  …لیکن کیوں  سوچیں  …جس استعارے  کو استعمال کیا گیا ہے  وہ خود اتنا طاقتور ہے  کہ اس کے  پیچھے  شخصیتوں  کی تلاش عبث ہے …… ہم ذاتیات میں  کیوں  الجھیں ، مونچھوں  والی چمگاڈر ہو یا کوئی اور …. جب ہم نے  ریت میں  ایک لکیر کھینچ کر اپنی اپنی راہیں  الگ کر لیں  تو پھر کسی اور چیز کی فکر نہیں  ہونی چاہئے …..!

            اگلی نظم دوپہر کے  وقفہ میں  اپنے  بچے  کو دودھ پلاتی مزدور عورت پر لکھی گئی ہے …… انگریزی میں  اس کا عنوان ہے۔

۔۔ "A woman labourer, breast feeding her child, during lunch break”.

            اس کا ترجمہ دیکھئے  کس قدر شاعرانہ ہے  ’’بدن کے  دو موسم‘‘

            کیونکہ یوسف کمال نے  نظم کا عنوان تجویز کرتے  ہوئے  اس بات کو ملحوظ رکھا کہ اس میں  نظم کی روح سمٹ آئے  …..! سچ تو یہ ہے  کہ یہ عنوان خود ایک مکمل نظم ہے …….! اس نظم میں  ایک عجیب سے  کیفیت کو، ایک بے  حد مقدس قسم کے  لمحے  کو اسیر کر لیا گیا ہے۔ ایک ماں، محنت و مشقت کے  سخت لمحات کے  بعد جب وقفہ پاتی ہے  تو سیدھے  اپنے  بچے  کے  پاس جا کر اس کے  منھ میں  اپنی چھاتی دے  کر ایک بے  حد سرور آگیں  سکون محسوس کرتی ہے۔ چاروں  طرف سے  نور کی بارش ہونے  لگی ہے  ….. اور چر چر دودھ پیتے  ہوئے  بچے  کے  دل کی دھڑکنیں  محسوس کرنے  کے  لئے

’’شجر و حجر اور شیشے  کو

بے  تکان کرنے  والے  وقت نے  بھی

اپنے  کان کھڑے  کر دیئے  ہیں ‘‘

            اب ایک اور اہم نظم پر گفتگو کرنا چا ہوں  گا۔ یہ نظم ہے  ’’آگ کا بپتسمہ‘‘ یا Baptism of Fire

            Baptism یا بپتسمہ ایک عیسائی رسم ہے ….. جس کی ادائگی کے  بعد بچہ مکمل عیسائی بن جاتا ہے۔ کچھ اسی طرح کی رسم برہمنوں  میں  بھی ہوتی ہے  جسے  دھاگے  کی رسم، یا جنیؤں  کی رسم یا Thread Marriageکہتے  ہیں ….. اس رسم میں  برہمن بچہ کو زنا ر یا جنیؤ پہنایا جاتا ہے  اور گرہیں  لگائی جاتی ہیں ….. کمار صاحب نے  گرہ دینے  کے  انہی لمحات کو اپنی نظم میں  جامد کر دیا ہے  ……انھوں  نے  ایک ایک گرہ کو ایک نیا مفہوم دیا ہے  …. وہ خاندانی رسم کی ادائیگی کے  لئے  مجبور ہیں …..لبوں  پر منتروں  کا جاپ ہے  لیکن دل شیلا کے  جوبنوں  میں  کھویا ہوا ہے  …. ان تینوں  گرہوں  کا مطلب ہے  ضبط نفس، تیاگ اور ہمدردی …… لیکن دیکھئے  شاعر ان تین گرہوں  کو کس طرح محسوس کر رہا ہے …. پہلی گرہ ضبط نفس کی ہے۔ لیکن شاعر کہتا ہے۔

یہ رہی زنار کی پہلی گرہ (یہاں  کاتب نے  غلطی سے  سالگرہ لکھ دیا)

جوئے  خوں  میں  رواں

شیروں  کو لگام دے  کر

یہ تمہیں  لے  جائے  گی

بحر آفاق کے  کناروں  تک

            پھر دوسری گرہ کی نوبت آتی ہے  جو تیاگ کی ہے  اور شاعر سوچتا ہے

مگر اب میرے  پاس رہا ہی کیا ہے

پیش کرنے  کو

میں  خود عشق پیچاں  کی طرح

لپٹ گیا ہوں  اپنی نال سے  آپ…..

            اور پھر تیسری گرہ ہمدردی کی ہے  ….. جس کے  لئے  شاعر کہتا ہے

اور آگ سدھا نے  والے

کاش کہ تو میری حسرتوں  کو سمجھتا

میں  نے  کبھی چاہا تھا

افق تا افق قوس و قزح پر جھول جاؤں

لب ساحل نہنگوں  کے  ساتھ دھوپ سینکوں

یا کشمیر کی بلند وسعتوں  کے  پار اسپانِ تازی کا تعاقب کروں

اور حسرت بھرے  لہجے  میں  شاعر کے  یہ الفاظ سننے  والوں  کے  ذہن میں  ہمدردی کی ایک لہر بیدار کر دیتے  ہیں  ……. لیکن شاعر کو صرف رسم کے  ختم ہونے  کا انتظار ہے  اور جب رسم ختم ہوتی ہے  تو……..

اور دوڑ پڑتا ہوں

اسی چاند سے  چہرے  کی جانب

آم کے  پیڑ کے  تلے

تاکہ کھول دوں  ساری گرہیں  زنار کی

            اور یہاں  نظم اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اور ایک عجیب سا سناٹا چھوڑ جاتی ہے  …. ایک بولتا ہوا سناٹا جو شاعر کی بقیہ ان کہی باتوں  کو دہرا رہا ہے  کہ۔ پہلی گرہ ضبط نفس کی کھولوں  اور شیلا کے  جوبنوں  میں  کھو جاؤں ، تیاگ کی دوسری گرہ کھولوں  اور اس نوجوان تنفس کی گرمی حاصل کر لوں  اور تیسری گرہ ہمدردی کی کھول کر شیلا کے  ساتھ قوس قزح پر جھولوں  …..! یہ سب کمار صاحب نے  نہیں  کہا لیکن کچھ اس طرح یہ نظم ختم ہوتی ہے  کہ ایک ایک لفظ قاری کے  ذہن پر نازل ہونے  لگتا ہے۔ ایک ایک گرہ کھلنے  لگتی ہے  اور قاری کمار صاحب کے  ہمراہ مفہوم کے  اسپان تازی کے  تعاقب میں  نکل پڑتا ہے ……

            اگر اس مجموعہ کی تمام نظموں  کا احاطہ کیا جائے  تو بجائے  خود ایک کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ کہنا ناگزیر ہے  کہ کمار صاحب کے  موضوعات بندھے  ٹکے  نہیں  ہیں۔ اردو شاعری ہے  محبوب و رقیب، گل و بلبل، برق و آشیاں  کے  فرسودہ موضوعات ان کے  ہاں  نہیں۔ وہ زندگی کی ہمہ جہتی کیفیات کو، رنگینیوں  کو تلخیوں  کو اور کرب کو محسوس بھی کرتے  ہیں  اور انہیں  لفظوں  کے  روپ میں  دینے  کا سلیقہ جانتے  ہیں۔ بچپن کی معصوم وادیوں  سے  نوجوانی کی سنگلاخ چٹانوں  کے  سفر کے  دوران کئی اہم واقعات ہر شخص کی زندگی میں  آتے  ہیں  لیکن کتنے  ہمیں  جو ان تجربات کو شعری سانچے  میں  اس ندرت کے  ساتھ پیش کر سکتے  ہیں ……! شاعر کے  لئے  ہر نظر آنے  والی چیز ایک موضوع کس طرح بن سکتی ہے  اس کا ایک نمونہ ہمیں  کمار صاحب کی شاعری میں  نظر آتا ہے  تاج محل دیکھ کر تو ہر ایک کا جی چاہے  گا کہ وہ نظم کہے  لیکن قحبہ خانے  کے  تلخ تجربے  پر یا مرد و عورت کو دوپہر کے  وقفہ میں  اپنے  بچے  کو دودھ پلاتے  دیکھ کر یا سڑک پر نظر آنے  والے  ہجڑے  یا بھٹکتی ہوئی گائے  یا عدالت یا گنگا کے  گھاٹ پر نظم کہنا ہر ایک کے  بس کی بات نہیں۔ کمار صاحب زندگی کے  ہر اہم  موڑ کو نظم کا روپ دیتے  ہیں  … ان کے  ہاں  بظاہر غیر اہم چیز بھی اہم بن کر نظم کا موضوع بن جاتی ہے۔ کمار صاحب کی نظمیں  پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے  کہ تخلیق کار اسی لئے  عظیم ہوتا ہے  کہ اس کی سوچ کا تعاقب کرنا ممکن نہیں …. اور جب قاری تخلیق کار کے  تعاقب میں  نکلتا ہے  تو راہ میں  اس کے  چھوڑے  ہوئے  نشان نظم یا شعری صورت میں  راستہ روک لیتے  ہیں ….. کما ر صاحب کی خصوصیت یہ ہے  کہ وہ زنار بندی کی رسم میں  شیلا کے  جوبنوں  کا تصور کر سکتے  ہیں  اور قحبہ خانے  میں  انھیں  انکوبیٹر میں  ہانپتے  ہوئے  بچے  کی یاد آ جاتی ہے … بظاہر یہ ایک تضاد محسوس ہوتا ہے  لیکن شعور کی رو پر کون پہرے  لگا سکتا ہے ؟

            اس کتاب کا دوسرا حصہ ’’اجنبی آسمانوں  تلے ‘‘ ہمیں  کمار صاحب کی آنکھوں  سے  کرہ ارض کے  اس حصہ کی سیر کراتا ہے  جو متمدن کہلاتا ہے …. ایک دوڑتی ہوئی امریکی لڑکی کو دیکھ کر کمار صاحب کی رگ شعری پھڑک اٹھتی ہے  …. کبھی وہ ٹریفل گر اسکوائر کے  کبوتروں  کو گٹھیا میں  مبتلا پاتے  ہیں  …. وہ کبھی ہتھ رو ایر پورٹ پر ہونے  والے  احتساب کو لفظوں  کا پیراہن دیتے  ہیں  تو کبھی ایک یاد کی شکل میں  انہیں  وہ دن گھیر لیتے  ہیں  جب وہ کیمبرج سے  فارغ التحصیل ہونے  کے  بعد لندن کی سڑکوں  پر اشتہار اس تعفن سے  نجات نہیں  دے  سکتے  جو اپنے  سایوں  سے  بھاگتے  انسانوں  کے  پسینے  سے  پیدا ہو رہا ہے  …. زنار بندی کی رسم میں  یاد آنے  والی شیلا انہیں  کسی اور روپ میں  پھر سے  یاد آتی ہے ….. اوکلا ہاما یونیورسٹی میں  ہونے  والے  شیکسپیر کے  فن پر بات ہو رہی ہے …. وہاں  شاعر کسی اور خیال میں  گم ہے  اور پھر شاعری کی نظریں  ایک گوشہ میں  جا پڑتی ہیں  جہاں  لکۂ ابر کے  سایہ کا انتظار کئے  بغیر لذت آغوش کے  لمحے  چرائے  جا رہے  ہیں ….. ایک اور اہم بات ….انگریزی کے  مشہور شاعر کیٹس کے  ہاں  فینی یا اردو کے  رومانیت پسند شاعر اختر شیرانی کے  ہاں  سلمیٰ، عذرا اور ریحانہ کے  کردار نظر آتے  ہیں  اور ان شعرا نے  ان کرداروں  کو اپنا محور بنا کر اظہار کو قوت بخشی تھی…… کمار صاحب کے  یہاں  بھی ایک کردار ہے  …..سیلا کا کردار…. یہ کردار اپنی مثال آپ ہے  اس کردار کے  پردے  میں  کمار صاحب نے  اپنا دل کھول کر رکھ دیا ہے  اور یوں  ان کا اظہار بے  حد طاقتور بن جاتا ہے۔

            ’’آسمان میں  کمیں  گاہیں ‘‘ کا سب سے  اہم حصہ آفرینش صرف چھ نظموں  سے  مزین ہے  اور یہ چھ اس آفاقی موضوع پر کہی گئی ہیں  جس پر ہر بڑے  شاعر نے  طبع آزمائی کی ہے …. دانتے  کی ڈیوائین کامیڈی ہو یا اقبال کا جاوید نامہ، شاعر نے  عبد اور رب کے  تعلق کو ہمیشہ سے  سمجھنے  کی کوشش کی ہے  …. کمار صاحب نے  ان نظموں  میں  ایک بہت دلچسپ پیرایہ اختیار کیا ہے  …. میلاد آدم اور میلاد حوا میں  خدا کی خود کلامی ہے۔ تیسری نظم میں  سانپ کی شکل میں  شیطان حوا سے  مخاطب ہے۔ چوتھی نظم میں  آدم حوا سے  مخاطب ہو کر آگہی کی طرف بڑھتے  ہوئے  فنا ہو جانے  کی تمنا کرتا ہے۔ پانچویں  نظم میں  حوا آدم کو جواب دے  رہی ہے  اور پھر چھٹی نظم خدا کی خود کلامی کی شکل میں  ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے  جب آدم اور حوا کو زمیں  پر پھینک دیا گیا ہے۔

            مندرجہ بالا سطور میں  صرف موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ مناسب نہیں  کہ یہاں  کمار صاحب کے  فن پر بہت زیادہ تفصیل سے  بات کی جائے۔ شاید انگریزی نظموں  کا تجزیہ کرتے  ہوئے  ہی ان نظموں  کے  محاسن پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔ یہ نظمیں  ڈاکٹر یوسف کمال نے  اردو کے  قالب میں  ڈھالی ہیں  اس لئے  صرف ترجمہ شدہ متن پر ہی بات کی گئی ہے۔ ترجمہ کرتے  ہوئے  مترجم کو سخت مشکل اس وقت پیش آتی ہے  جب وہ نظم کا ترجمہ کر رہا ہو۔ کیونکہ نظم کا معاملہ کسی سائنسی مضمون یا دوسرے  علوم پر مبنی مقالے  کی طرح کا نہیں  ہوتا کہ اس میں  دو  اور دوچار کی طرح کی بات ہو …. نظم میں  تو شاعر علامتوں، استعاروں، تلمیحوں  اور تشبیہوں  سے  اپنے  ایوان سجاتا ہے  اور ان کے  ذریعہ موضوع پر اپنی گرفت کو مضبوط کرتا ہوا قاری کے  ذہن تک رسائی حاصل کرتا ہے …. تخلیق کا ر جب کسی زبان میں  اپنے  خیالات کو پیش کرتا ہے  تو وہ اس زبان کی وسعت کا سبب بنتا ہے۔ وہ اپنی تخلیق کو پیش کرنے  کے  لئے  جن لفظوں  کا سہارا لیتا ہے  وہ اپنے  لغوی مفہوم سے  ہٹ کر بہت کچھ کہتے  ہیں …. اور لفظوں  کی اس گنگناہٹ کو صرف اسی زبان میں  سننا ممکن ہے  جس زبان میں  تخلیق کی گئی ہو ….. اگر تخلیق کو دوسری زبان میں  منتقل کیا جائے  تو بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے  کہ تشبیہات، محاورے ، علامتیں  اور استعارے  بجنسہ پیش نہیں  کئے  جا سکتے  کیونکہ یہ عناصر زبان کے  تہذیبی سرمایہ سے  مربوط ہوتے  ہیں  اور ہر زبان کا تہذیبی سرمایہ مختلف ہوتا ہے۔ اسی لئے  کسی شہ پارہ کو دوسری زبان میں  منتقل کرنا ہو تو اسے  گوں  ناگوں  مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

            ترجمہ ایک مقدس گناہ ہے  جو عوامی مفاد کے  مد نظر کیا جاتا ہے۔ مقدس اس لئے  کہ اس کے  ذریعے  انسانی جذبات، تجربات اور افکار کی بڑے  پیمانے  پر تفہیم تحسین و تبلیغ کی جا سکتی ہے  اور گناہ اس لئے  کہ کوئی ترجمہ خواہ کتنا ہی عمدہ کیوں  نہ ہو اصل مفہوم کے  ساتھ انصاف نہیں  کر سکتا۔ اس خیال سے  کچھ حد تک اختلاف کرنے  کی گنجائش یوں  پیدا ہو جاتی ہے  کہ ہمارے  سامنے  ’’آسمان میں  کمیں  گاہیں  ‘‘ موجود ہے  جہاں  مترجم نے  اس بات کی بھرپور کوشش کی ہے  کہ اصل متن کے  ساتھ انصاف کیا جائے۔ دراصل تخلیق سے  ترجمہ تک سفر میں  کئی منزلیں  آتی ہیں۔ پہلے  تو اصل متن کی زبان پر اور ترجمہ کی جانے  والی زبان پر عبور بے  حد ضروری ہے۔ پھر اصل متن کی تفہیم بھرپور انداز سے  اور مختلف جہتوں  سے  ہونی چاہئے  اور وہ بھی اس طرح کہ شاعر کے  ما فی الضمیر تک رسائی ہو سکے۔ پھر شاعر کے  اسلوب کا ادراک بھی ضروری ہے  اور تب عمل شروع ہوتا ہے  ترجمہ کا …… اور پھر کئی بار نظر ثانی کرنے  اور دوسرے  ماہرین سے  تبادلۂ خیال کے  بعد ہی ترجمہ اس قابل ہو سکتا ہے  کہ اسے  پیش کیا جا سکے۔ یوسف کمال اس سارے  عمل (Process) سے  گزرے  ہیں۔ انھیں  اردو پر تو عبور ہے  ہی وہ انگریزی زبان پر بھی ماہرانہ قدرت رکھتے  ہیں ….. اور اسی لئے  جب انھوں  نے  Trap falls in the sky کا ترجمہ ’’آسمان میں  کمیں  گاہیں ‘‘ کے  نام سے  کیا تو تفہیم کے  اہم مرحلے  کو انھوں  نے  روا روی میں  طے  نہیں  کیا۔ انہوں  نے  ایک ایک لفظ پر محنت کی اور تب ترجمہ کی ایک شکل بنی۔

            ترجمہ کے  ساتھ ایک اور مشکل ہوتی ہے۔ مصنف کی حیثیت کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ وہ مبتدی ہو سکتا ہے ….. اس بات کا بھی امکان ہے  کہ وہ نرا جاہل ہو…. لیکن مترجم جاہل نہیں  ہو سکتا اور نہ ہی مبتدی ….. اسے  تو تمام جہتوں  کو نظر میں  رکھنا ضروری ہوتا ہے  اس لئے  جہالت کا سوال ہی نہیں  پیدا ہوتا۔ یہاں  بصیرت کی بے  پناہ ضرورت ہوتی ہے۔ کمال صاحب کے  لئے  یہ بات بھی ایک مسئلہ تھی کہ مصنف خود ایک مستند عالم ہے  …. لفظ کے  مختلف پہلوؤں  سے  واقف ہے …. اس کے  ہاں  لفظ کی روایتی سطحیں  بھی ہیں  اور اس کی اپنی تراشیدہ جہتیں  بھی موجود ہیں  اور اسی لئے  یوسف کمال کے  لئے  کچھ زیادہ ہی مشکل درپیش تھی اور کسی نے  کہا ہے۔

جن کے  رتبے  ہیں  سوا، ان کو سوا مشکل ہے

لیکن یوسف کمال نے  اس مشکل کو جس خوبی سے  حل کیا ہے  اس کا اندازہ تو ’’آسمان میں  کمیں  گاہیں ‘‘ کا مطالعہ کر کے  ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ مترجم کا فرض ہے  کہ وہ مصنف یا شاعر کے  عندیے  کا احترام کر کے  اور اسے  ضائع نہ ہونے  دے۔ یوسف کمال نے  اس بات کو پوری طرح ملحوظ رکھا ہے  کہ نہ صرف کمار کے  شعری رویہ کو محفوظ رکھا جائے  بلکہ ساتھ ہی ساتھ انہوں  نے  انگریزی زبان کی شعریت کو اردو کی مترنم شعریت میں  اس طرح منتقل کیا ہے  کہ یہ نظمیں  ترجمہ کی بجائے  خود تخلیق کا درجہ حاصل کر گئی ہیں۔ اس کا کریڈٹ خود کمار صاحب کو بھی جاتا ہے ……. اس لئے  وہ اردو شاعری سے  بہت قریب ہیں۔ فیض اور غالب کے  مداح اور مترجم ہونے  کی وجہ سے  اردو شعری روایات سے  کماحقہ واقف ہیں  اور ان کی انگریزی شاعری میں  بھی کہیں  کہیں  اردو مزاج سر نکال کر جھانکتا ہوا نظر آتا ہے۔ یوسف کمال نے  ان سارے  مقامات کو اپنی گرفت میں  لیا اور کمار صاحب کے  ذہن کو نہایت کامیابی کے  ساتھ اردو کے  قالب میں  منتقل کر دیا۔ چونکہ کمار صاحب نے  بھی اس ترجمہ کو خود دیکھا ہے  اس لئے  ما فی الضمیر سے  انحراف کی گنجائش کم ہی ہے۔

            آخر میں  ’’آسمان میں  کمیں  گاہیں ‘‘ کے  بارے  میں  صرف اتنا عرض کر دینا کافی ہے  کہ جو انگریزی میں  Trap falls in the sky نہیں  پڑھ سکتا، یا جسے  یہ احساس ہو کہ وہ انگریزی شاعری کی بخوبی تفہیم و تحسین سے  قاصر ہے  یا جسے  انگریزی کتاب ملی ہی نہ ہو وہ اگر ’’آسمان میں  کمیں  گاہیں ‘‘ پڑھ لے  تو یقیناً اس لطف و انبساط کو محسوس کر سکتا ہے  جو اسے  انگریزی نظموں  کو پڑھتے  ہوئے  حاصل ہوا ہوتا…. ! انگریزی مجموعہ کے  لئے  تو کمار صاحب کو ساہتیہ اکیڈیمی نے  انعام سے  نوازا اور اس کی قدر کی….. کاش اردو ترجمہ کو بھی اس کا مستحقہ مقام مل جائے ……!!!

————————-٭٭————————-

 

ادب اور آفاقیت

            مفکرین عالم نے  ادب کو فنون لطیفہ میں  سب سے  اعلیٰ درجہ کا حامل قرار دیا ہے۔ فن لطیف احساسات کے  مستحسن اظہار کا نام ہے۔ چنانچہ ادب کے  لئے  یہ دیکھنا ضروری ہے  کہ کہیں  وہ راہ سے  ہٹ تو نہیں  رہا۔ لیکن ادب کے  ساتھ یہ دشواری رہی ہے  کہ اسے  ہمیشہ مختلف عینکوں  سے  دیکھا جاتا رہا ہے۔ ادب کی افادیت کی پیش نظر جب یہ محسوس کیا گیا کہ ادب، انسانی فکر پر انداز ہو سکتا ہے  تو مختلف تحریکوں  نے  اسے  اپنا آلۂ کار بنا لیا اور اپنے  مقاصد کی تکمیل کے  لئے  ادب کو ایک ہتھیار کے  طور پر استعمال کرنے  لگے۔ ’’کبھی فن برائے  فن‘‘ کے  نظریے  نے  اتنی سخت گیری اختیار کی کہ سماج بے  معنی ہو کر رہ گیا۔ زندگی اور اس کے  تجربات پش پشت ڈال دیئے  گئے۔ دوسری طرف ’’فن برائے  زندگی‘‘ کا نظریہ بھی افراط و تفریط کا شکار ہو گیا۔ مقصد کی تکمیل کے  لئے  ادب کا استحصال کرنے  والوں  نے  تخلیق کو پروپگنڈے  کی سرحدوں  میں  داخل کر دیا۔ سماج کی معنویت سے  صرف نظر کر کے  اپنے  نظریات کی تبلیغ کے  لئے  اقدار حیات کو بھلا دیا گیا۔ جب جہت اور سمت جاتی رہی تو بے  سمتی کے  احساس نے  اپنے  وجود کا ادراک کرانا چاہا۔ اور وجودی فلسفہ کی گھن گرج نے  ادب کو اپنی لپیٹ میں  لے  لیا۔ اور پھر ترقی پسندی اور جدیدیت کے  درمیان جو مناظرے  ہوئے  ان میں  ایک ہی بات کو کئی طریقوں  سے  کہہ کر صفحات سیاہ کئے  گئے۔

            جب ہم سماج کی بات کرتے  ہیں  تو یہ محسوس ہوتا ہے  کہ سماج تو انسان کے  لئے  ناگزیر ہے ….. لیکن یہ بھی صحیح ہے  کہ اس کی کچھ اپنی قدریں  ہوتی ہیں …. اس کے  پیچھے  روایات کا ایک تسلسل ہوتا ہے  اور بقول ڈاکٹر احمد سجاد۔

’’ادب کو سماج میں  رہ کر اپنی راہ بنانی پڑتی ہے۔ وہ کارواں  کے  ساتھ بھی ہوتا ہے  اور کارواں  کی رہبری بھی کرتا ہے۔‘‘

            جہاں  ہر سماج کی اپنی قدریں  ہوتی ہیں  وہیں  کچھ قدریں  ایسی ہیں  جو ہر جگہ مساوی طور پر اہمیت کی حامل ہیں ….. جیسے  آزادی، ہمدردی، حسن، صداقت خیز ……یعنی ہر سماج کا ایک متعین رخ ہے  اور چونکہ ادب انسانی زندگی کا آفریدہ ہے  اس لئے  ادب میں  بھی سمت اور جہت کا ہونا ازبس ہے۔ بے  سمتی اور لادینیت کی فضاء میں  ادب تخلیق نہیں  ہو سکتا۔ ہاں  لفظوں  کا گورکھ دھندہ ضرور بن سکتا ہے۔ جدیدیت کا لبادہ اوڑھ کر ہمارے  دانشوروں  نے  جو ادب تخلیق کیا اس میں  ابہام اس حد تک در آیا کہ تفہیم کا سراہی نہ مل سکا۔ جب ادب میں  ہپی ازم داخل ہو تو اس کا نتیجہ بھی ظاہر تھا……. نہ رشتے  باقی رہے  نہ محبت کا معیار …..درون خانہ گفتگو اور بستر کی ہر شکن بازار تک پہنچ گئی …..سورج کو مرغ کی چونچ میں  لٹکا کر دن اور رات کا تعین صرف اس بات پر ہونے  لگا کہ کھڑکی کے  پردے  کھینچ دیئے  جائیں …….!لیکن ہر دور میں  ایسا ادب بھی ملتا ہے  جو صالح ہے  …..جسے  آپ بلا تکلف چھوٹوں  اور بڑوں  کی محفل میں  پیش کرتے  ہوئے  حجاب محسوس نہیں  کرتے  ……یہ وہ ادب ہے  جسے  کبھی زوال نہیں  وجہی و غواصی، انشاء و مصحفی، میرو سودا، غالب و مومن پھر ترقی پسند شعراء اور پھر جدیدیت کے  علمبرداروں  کے  کلام کو چھان پھٹک کر دیکھا جائے  تو محسوس ہوتا ہے  کہ ہر وہ شعر جس میں  زندگی کی آنچ ہے  …….جس میں  تجربے  کی کسک ہے ……. جس میں  احساس کی فراوانی ہے  …….وہ زبان زد خاص و عام ہے۔ باقی تمام چیزیں  صرف دواوین کی زینت ہیں  یا تذکروں  کے  صفحات میں  گم …… ! ابھی جن اساتذہ کا ذکر کیا گیا وہ متفقہ طور پر بڑے  شاعر تسلیم کئے  گئے  ہیں  لیکن ان کی ساری کی ساری شاعری قابل اعتبار نہیں  سمجھی گئی۔ صرف وہی اشعار قبول عام کی سند حاصل کر سکے  جن میں  انسانی جذبات کی بھرپور عکاسی تھی……وہی تخلیقات پسند کی گئیں  جن میں  ایک آفاقی فکری عنصر موجود تھا۔

            اس ساری گفتگو کا ماحصل یہ ہے  کہ ہر دور میں  ایک خاص نہج سے  جو ادب تخلیق ہوا، اس میں  وہ بات موجود تھی جو انسانی فکر کو مہمیز کرتی ہے۔ یہ ادب صرف اسی دور کے  لئے  محدود نہیں  تھا۔ یہ ادب ہر دور کے  لئے  تھا اور ہے۔ یہی فکر کو مہمیز کرنے  والا ادب اپنے  اندر آفاقیت لئے  ہوئے  ہے  اور یہ آفاقیت ہی اسے  لازوال اور زندہ جاوید بناتی ہے۔ جس ادب میں  آفاقیت نہیں  وہ وقت کی پیداوار ہے  اور وقت کے  ساتھ ہی دھند لا جاتا ہے۔ لیکن صرف مقصد اور فکر ہی سب کچھ نہیں ……. اور نہ ہی صرف فن ادب انتہا ہے  جب تک ان دونوں  میں  توازن نہیں  ہو گا، آفاقیت پید نہیں  ہو گی۔ آفاقی ادب کے  لئے  افراط و تفریط نہیں  بلکہ توازن کی راہ چاہئے  اور یہی وہ راہ ہے  جس پر گامزن ہو کر ادب لافانی ہو سکتا ہے …. !!!

 

ادبی صورت حال

            اردو کے  ایک اہم نقاد ڈاکٹر احمد سجاد نے  ادب کی موجودہ صورت حال پر غور و فکر کی دعوت دیتے  ہوئے  تحریکات اور رجحانات کے  پس منظر میں  کچھ سوالات اٹھائے  ہیں …… ان کا کہنا ہے  کہ ادھر کچھ دنوں  سے  افق پر جمود سا طاری ہے۔ اشتہارات (پروپگنڈہ)، اجتماعات اور دہریت کے  خلاف جدیدیت کے  رجحان نے  ناوابستگی کو اپنایا…..پھر علامتی اور اساطیری اظہار نے  جگہ پائی…… لیکن اب بھی ادبی مسائل جوں  کے  توں  ہیں۔

            یہ بات صحیح ہے  کہ ہمارے  ناقدین اور تخلیق کار بے  سمتی اور بے  یقینی کا شکار ہو گئے  ہیں۔ اس زمرے  میں  محقق کو شامل رکھا جا سکتا …. اس لئے  کہ محقق کا منصب یہ نہیں  ہے  کہ وہ ادب کی جہتوں  کو متعین کرنے  میں  معاون ہو۔ وہ تو حقائق کھوجتا ہے۔ گمشدہ کڑیوں  کو معلوم کنے  کی کوشش کرتا ہے  اور بس۔

            ہمارے  ناقدین کا المیہ یہ ہے  کہ انہوں  نے  جب فکری سطح پر ادب کو پرکھنے  کی کوشش کی تو مختلف النوع تصورات میں  ایسے  الجھے  کہ نتیجہ بے  سمتی کی شکل میں  ظاہر ہوا….. جسے  جدیدیت سے  تعبیر کیا گیا۔ کر کے  گارڈ اور سارتر جیسے  وجودی فلسفہ کے  ناخدا کشتی کو موجوں  کے  حوالے  کر گئے۔ عدم وابستگی نے  فروغ پایا تو قدروں  کی شکست و ریخت کا ایک عجیب و غریب سلسلہ شروع ہوا۔ لیکن اگر غور کیجئے  تو جدیدیت کا وہ رجحان جس پر عدم وابستگی غالب ہو اصل میں  خود بھی ایک طرح کی وابستگی ہے ….. عدم وابستگی کے  نظریہ سے  وابستگی…..! اور پھر یہ بات سامنے  آئی کہ بہرحال وابستگی از بس ہے۔ رہیں  علامتیں  تو ان کا محور بھی ایک کھونٹ تک سفر کرتا رہتا ہے۔ اور یوں  علامتیں  بھی مختلف زمروں  میں  تقسیم ہو کر رہ گئیں۔ جہاں  تک اساطیریت کا تعلق ہے ، دلچسپ بات یہ ہے  کہ اساطیر کا مذہبی روایات سے  گہرا تعلق ہے ….. چاہے  وہ یونانی دیومالاؤں  سے  ماخوذ ہوں  یا ہندوستانی دیومالاؤں  سے ، ان پر عہد نامۂ قدیم کا پرتو ہو یا قصص القرآن کی جھلکیاں  دکھلائی دیں ……. ایسے  کردار چنے  جاتے  ہیں  جو کسی نہ کسی اعتبار سے  اہم کہے  جا سکتے  ہیں۔ غرض مدعا یہ ہے  کہ ادب کی کوئی بھی سمت مقرر ہو، اس میں  علامتیں ، استعارے ، اساطیری انداز سب کچھ ممکن ہے۔ لیکن یہ ممکن نہیں  کہ تخلیق کار چپ رہے۔ وہ اپنے  کرب کو چھپا نہیں  سکتا کبھی کبھی جھلاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے  جو ایک فطری بات ہے  …..لیکن اگر فکر کی تہذیب کی جائے  تو پھر یہ جھلاہٹ بھی فلاحی رخ اختیار کر سکتی ہے۔

            انسان کسی دور میں  مشینی نہ تھا……؟ پتھر کے  زمانے  سے  لیکر کمپیوٹر کے  دور تک انسانوں  کا ایک بڑا طبقہ مشینی رہا ہے۔ اور مشینی زندگی کو ادب سے  کیا سروکار ….؟ زندگی کی ڈور یہاں  نہ الجھتی ہے  نہ سلجھا نے  کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ بس جس حال میں  ہیں  جئے  جا رہے  ہیں۔ کسی دیہات میں  نکل جایئے ، کسی بھی شہر پر نظر ڈالئے  ……ہزارہا انسان ایسے  نکل آئیں  گے  جن کا مقصد صرف زندہ رہنا ہے ….. ان کے  پاس کوئی خواہش اور نہ کوئی عزم …. … اصل میں  انہیں  کسی نے  روشنی بتلائی ہی نہیں  …. وہ جانتے  ہی نہیں  کہ فلاح کیا ہے …. انہیں  یہ بھی علم نہیں  کہ دوسرے  کا درد کس طرح محسوس کیا جا سکتا ہے  اور اس میں  شامل کیسے  ہوا جا سکتا ہے  ….روز و شب کے  مشینی عمل کے  درمیان آپسی یگانگت کو کیونکر فروغ دیا جا سکتا ہے  …..ارتکاز فکر کیوں  کر ممکن ہے …. ان سوالات پر بیشتر انسانوں  نے  نہ غور کیا اور نہ ہی مشینی عمل نے  انہیں  غور کرنے  کی فرصت دی۔ وہ کچھ نہیں  جانتے۔ اس لئے  بھی کہ انہیں  کسی نے  بتلایا ہی نہیں۔ نقاد ادیب کو پڑھتا ہے  اور ادب کو ایک سمت دینے  کی کوشش کرتا ہے  اور بعض اوقات ادیب اپنے  آپ میں  اس قدر گم ہوتا ہے  کہ اسے  عام انسان کے  قریب جانے  یا اسے  سمجھنے  کی طرف توجہ دینے  کا خیال ہی نہیں  رہتا۔ نتیجہ یہ کہ وہ اس شخص کے  بارے  میں  نہیں  سوچتا جو اس کے  تخلیق کی روح رواں  ہے۔ وہ کبھی اشتراکیت سے  بغل گیر ہوتا ہے  تو کبھی وجودیت کو گلے  لگا کر یہ سوچتا ہے  کہ شاید اسی میں  نروان ہے۔ لیکن حقیقی نروان تواسی وقت ممکن ہے  جب ادیب اعلیٰ ترین اقدار کو اپنائے  اور نہ صرف اپنائے  بلکہ انہیں  قلم کے  ذریعہ عام انسانوں  اپنے  قاری اور سامع تک پہنچائے ….. انہیں  بتائے  کہ صحیح اقدار حیات کے  ساتھ جینے  کا نام ہی زندگی ہے۔

            جہاں  تک ہیئتوں کا تعلق ہے  یہاں  صرف یہ عرض کرنا ہے  کہ ہیئت کے  پیچھے  لٹھ لے  کر دوڑنے  سے  کچھ حاصل نہیں  …..اینٹی پوئٹری ہو یا اینٹی افسانہ، آزاد غزل ہو یا نثری نظم…..ان سب میں  ایک بات تو مشترک ہے  اور وہ یہ ہے  کہ فن کار مروجہ فنی جکڑ بندیوں  کو توڑ کر نئے  افق تلاش کرنا چاہتا ہے۔ اس میں  کوئی خرابی نہیں۔ ہیئت اہم نہیں  ہوتی …..موضوع اہم ہوتا ہے۔ محض قافیہ پیمائی یا مسجع و مقفیٰ کلام ہی اعلیٰ ادب نہیں  …..موضوع کی انفرادیت اور اس میں  پیش کردہ قدریں  ہی اس کو اعلیٰ ادب کی سطح تک پہنچانے  میں  معاون ہو سکتی ہیں۔ پابند غزل میں  کیا کچھ نہیں  ہوا۔ کس کس طرح جسم کی ایک ایک پور، ایک ایک مسام پر چٹخارے  بھر بھر کر اظہار خیال ہوا۔ تو یہ نہیں  ہے  کہ ہیئت ٹوٹنے  سے  قدریں  بھی ٹوٹ جائیں گی۔ یہ دیکھنا ضروری ہو گا کہ کیا کہا گیا ہے۔ یہ نہیں  کہ کون سا سانچہ استعمال ہوا ہے۔

            یہ بات بھی بالکلیہ درست نہیں  ہے  کہ اس عہد کے  قلمکار اور ادیب کا رشتہ معاشرے  اور تہذیب سے  منقطع ہو رہا ہے۔ سچ بات تو یہ ہے  کہ آج کا فنکار اپنے  معاشرے  اور تہذیب کے  بارے  میں  زیادہ سوچنے  لگا ہے۔ یہ اور بات ہے  کہ فکری انحطاط پذیری کی وجہ سے  بے  سمتی اور بے  یقینی آ گئی ہے۔  لیکن ایک طبقہ ہے  جو یہ سوچتا ہے  کہ اعلیٰ قدروں  کے  بغیر ادب کا سفر جاری نہیں  رہ سکتا۔ اسے  یہ احساس ہو گیا ہے  کہ عظیم ادب وہی ہے  جو نصب العین رکھتا ہو۔ محبوبہ کے  انگ انگ کی تعریف میں  زمین و آسمان کے  قلابے  ملا دینے  والے  ادب سے  لے  کر شور شرابے ، اشتہار بازی اور انقلاب زندہ باد کے  نعروں  تک کا ادبی سفر اور خون کی بارش، بارود کے  کھرنڈ اور جنگوں  کی دہشت ناکی سے  لے  کر بے  چینی، بے  یقینی اور بے  سمتی تک کی ذہنی قلابازیاں  کچھ عرصہ تک تو تابناک نظر آتی رہیں۔ لیکن ہر چیز جب انتہا کو پہنچی تو پھر شکست کا شکار ہوئی۔ وجودی طرز فکر نے  ازدواجی تعلقات کو یوں  طشت از بام کیا کہ بستر کی ہر شکن چیخنے  لگی….. اور گاڑی کے  گزرنے  سے  پہلے  سگنل کے  گر جانے  کا ماتم کیا جانے  لگا۔ علامتوں  نے  مرغ کی چونچ میں  سورج لٹکا دیا۔ لیکن ہر دور کے  ادب میں  ایک چیز مسلسل متحرک رہی ہے  اور وہ ہے  مطہر جذبہ، روحانی اقدار، بلند و اعلیٰ نصب العین، سچائی، ہمدردی، محبت….. یہ جذبات کسی بھی دور میں  ادیب و فنکار سے  دور نہ ہو سکے۔ یہ اور بات ہے  کہ باضابطہ انداز میں  اس بارے  میں  نہیں  سوچا گیا۔ اصل میں  یہ احساس ادیب اور شاعر کے  ذہن میں  ہمیشہ جاگزیں  رہا ہے  کہ بے  سمتی میں  بھی ایک سمت ہے ….. وہ واضح انداز میں  اس بات پر سوچ نہ سکا ….. لیکن درون ذہن اعلیٰ قدروں  کا احترام ضرور کرتا رہا۔ ہوا میں  چپو چلانے  کی کوشش اس لئے  تھی کہ پیروں  تلے  زمین ہی نہ تھی۔ لیکن اب تبدیلیاں  آ رہی ہیں …دھیرے  دھیرے  معاشرہ کروٹ لے  رہا ہے  ….زمین انگڑائیاں  لے  رہی ہے  اور ادیب واضح انداز میں  یہ سوچنے  پر مجبور ہے  کہ کشتی کے  لئے  لنگر ضروری ہے ….. بادبان ناگزیر ہیں  ورنہ نہ روک رہے  گی اور نہ سمت باقی ہو گی۔ اور پھر یہ طوفان بدتمیزی کشتیِ حیات کے  پرخچے  اڑا کر رکھ دے  گا۔

            یہ خیال بالکل لایعنی معلوم ہوتا ہے  کہ سائنسی نظریات کی پیوند کاری یا جدید ادبی نظریات کی گرافٹنگ GRAFTINGسے  بھی اعلیٰ تخلیق ممکن ہے۔ گویا ہم نے  تخلیق کو بھی مشینی بنا لیا۔ کمپیوٹر کے  بٹن دبا دیئے  ….غزل تیار ہو گئی…نظم وجود میں  آ گئی….افسانہ بن گیا…..!! اصل میں  تخلیقی عمل کا کوئی طریقہ کار متعین نہیں  ہوتا۔ یہ سائنس کا فارمولہ یا حسابی فارمولہ نہیں  ہے  کہ اسے  استعمال کر کے  ادب تخلیق کیا جا سکے۔ فن فارمولے  پر نہیں  بلکہ جہت پر انحصار کرتا ہے  …نصب العین پر انحصار کرتا ہے …..پھر یہ بھی ہے  کہ سائنسی نظریات نے  نصب العین کی تکذیب کبھی بھی نہیں  کی۔ سائنس نے  اعلیٰ انسانی اخلاقی اقدار پر کبھی ضرب نہیں  لگائی …. سائنس تو اعلیٰ اقدار کی توثیق کرتی ہے  …… صرف سمجھنے  کا ڈھنگ بدلنے  کی ضرورت ہے۔ اب آیئے  مذہبی اقدار کی طرف…… کیا کوئی مذہب ایسا ہے  جہاں  برائی کو، جھوٹ کو، حرام کاری کو فروغ دیا گیا ہے ……؟ اگر بظاہر کہیں  ہے  تو اصل میں  یہ ان ٹھیکیداروں  کی تاویلات ہیں  جنہوں  نے  اپنے  ذاتی مفاد کے  لئے  مذہب کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ انہی تاویلات نے  مذہب کو ایک ہوا بنا ڈالا۔ مفاد پرستانہ افہام و تفہیم کے  نتیجے  میں  مذہب بیزاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ اور ملحدانہ تصورات نے  جنم لیا۔ پھر مذہب دشمنوں  نے  بھی اپنے  مفادات حاصلہ کے  لئے  ایسی باتیں  اچھالیں  کہ بات بگڑ گئی۔ مذہب پابندی لگاتا ہے  تو اس کے  پیچھے  پوری انسانی تاریخ کا تجربہ پوشیدہ ہے۔ اور یہ بھی ممکن نہیں  کہ پلک جھپکنے  میں  سارے  مراحل طے  ہو جائیں۔ اور ایک خوشگوار صبح ہم جاگیں  تو دیکھیں  کہ ساری دنیا کے  انسان ایک ڈور میں  بندھے  ہوئے  ہیں …. سچائی اور راست بازی شعار بن گئی ہے ….. اس لئے  تو صدیوں  کی جدوجہد درکار ہے۔ بشرطیکہ یہ جدوجہد بھی منضبط انداز میں  کی جائے۔ ڈارون اور مارکس اور فرائڈ  اور اڈلر اور یونگ اور کر کے  گارڈ اور سارتر کے  نظریات پر بحث کر کے  ہی بتوں  کو نہیں  توڑا جا سکتا انہیں  توڑنے  کے  لئے  انہیں  نظرانداز کرنے  کا حربہ بھی کار گر ہو سکتا ہے۔ جسارت کے  لئے  معاف کیا جائے  ’’وژموں ‘‘کا بت بنا کر بات کرنا بھی ٹھیک نہیں  ہے۔ یہ احساس ہی غلط ہے  کہ ہم مغرب کے  بغیر اپنے  آپ کو واضح نہیں  کر سکتے۔

            اب رہا یہ سوال کہ اہم کیا کریں۔ تو  فنکار اور ادیب اور شاعر اور نقاد معاشرے  کے  وہ حساس اور ذہین افراد ہیں  جو قوموں  کی تقدیر بگاڑتے  اور سنوارتے  ہیں۔ انہیں  ایک واضح سمت کی ضرورت ہے۔ پھر یہ بھی ہے  کہ ایسا راستہ اختیار کرنا پڑے  گا جو عوام کے  ذہن میں  ہو کر گزرتا ہے۔ ان نوجوان فنکاروں  کی ہمت افزائی کی ضرورت ہے  جو اعلیٰ نصب العین کو فروغ دینے  میں  معاون ہوں  اور آگے  چل کر پتوار اپنے  ہاتھ میں  لے  سکیں۔ دانشورانہ سطح پر کام کرنے  کے  ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی فنکارانہ صلاحیتوں  کو جلا  دینے  اور صیقل کرنے  کی ضرورت ہے  تاکہ آج کا انسان اور آنے  والے  کل کا انسان احساس جمال کی تسکین کے  ساتھ ساتھ ذہنی ترفع بھی حاصل کر سکے ……!!!

 ————————-٭٭————————-

 

نابغۂ روزگار  علامہ اعجاز فرخ

            علامہ اعجاز فرخ کی شخصیت ہمہ جہات کی حامل ہے۔ شعر و ادب  ان کا اوڑھنا بچھونا، ذا کری ان کا محبوب مشغلہ، ہوائی جہاز کو آسمانوں  میں  اڑانا ان کا سابق ذریعۂ معاش، تنظیمی امور میں  بے  پناہ مہارت ان کی خصوصیت، ایکسپورٹ ان کا ضمنی شغل،مختلف زبانوں  اور بیشمار علوم و فنون پر ان کی دسترس …..کن کن باتوں  کا ذکر کیا جائے …. یہ اور ایسے  بے  شمار گوشے  ہیں  جن میں  اتمام حجت کا وسیلہ تلاش کرنا ہو تو علامہ اعجاز فرخ کی رائے  سب سے  زیادہ مدلل اور دل کو چھو لینے  والی ہو گی۔

            کئی سال گزرے  …. شائد 1962 یا 1963 کی بات ہے  جب میں  نے  اعجاز فرخ کو پہلی بار دیکھا۔ منڈی میر عالم کے  قریب کسی حویلی کی دوسری منزل پر ایک مشاعرہ تھا جس میں  میں  نے  بھی شرکت کی تھی۔ اس مشاعرے  میں  اگر کسی شاعر نے  بے  حساب داد بٹوری تو وہ اعجاز فرخ تھے۔ لہجہ استاد شعراء کا ہم پلہ، اسلوب نیا اور عصری  حسیت سے  معمور… اب یہ تو یاد نہیں  کہ انہوں  نے  کون سی غزل سنائی تھی لیکن غزل کی چاشنی اور انداز غزل گوئی نے  مجھے  ایسا مسحور کیا تھا کہ آج تک ان کا اسیر ہوں۔ بارہا میں  نے  ان سے  ان کی شاعری کے  بارے  میں  دریافت کیا مگر وہ نہ جانے  کیوں  ٹال گئے۔ اگر کوئی علامہ کے  کاغذات میں  سے  ان کا کلام ڈھونڈ نکالے  تو میں  دعوے  کے  ساتھ کہہ سکتا ہوں  کہ وہ اردو شاعری میں  ایک بیش بہا اضافہ ثابت ہو گا۔

            ان کے  حافظے  پر کسی کو بھی رشک آ سکتا ہے۔ استاذی  پروفیسر سید مجاور حسین رضوی خود بھی بے  پناہ حافظے  کے  مالک ہیں  لیکن وہ بھی علامہ اعجاز فرخ کا لوہا مانتے  ہیں۔ ایک واقعہ یاد آیا۔ کچھ برس قبل علامہ سے  میری ملاقات اردو مجلس کے  ایک جلسے  میں  ہوئی جو آغا حیدر حسن مرحوم کی یاد میں  منعقد ہوا تھا۔ اس جلسے  میں  مختلف اکابرین نے  مضامین پیش کیے  اور تقریریں  کیں۔ آخر میں  جب میں  نے  حاضرین کو اظہار خیال کی دعوت دی تو علامہ اعجاز فرخ نے  اشارہ کیا۔ میں  تو خود ہی یہ چاہتا تھا۔ فوراً انھیں  مائیک پر بلا لیا۔ انھوں  نے  تقریباً آدھا گھنٹہ تقریر کی اور تقریر کے  دوران آغا حیدر حسن کے  کئی اقتباسات زبانی سنا ڈالے۔ ساری محفل ان کی تقریر کے  جادو میں  کھو گئی اور داد و تحسین کی صداؤں  سے  ہال گونج اٹھا۔ سچ پوچھیے  تو علامہ کی تقریر اس محفل کا حاصل رہی۔

            علامہ اعجاز فرخ کی تحریر اور تقریر تو مسحور کن ہے  ہی لیکن ان کے  ساتھ گفتگو کا لطف کچھ اور ہی ہے۔ جب ان سے  گفتگو کا موقع ملتا ہے  تو ذہن میں  فکر کے  نئے  دروازے  وا ہونے  لگتے  ہیں، ایک نئی فضا میں  سانس لینے  کا لطف محسوس ہوتا ہے  اور اک جہانِ نو کی خوشبو وجود کو منور و معطر کر دیتی ہے۔ ندرتِ خیال ان کا ایک اہم وصف ہے  اور اس پر ندرت زبان و بیان سونے  پر سہاگہ کا کام کرتے  ہیں۔ ان چیزوں  کا امتزاج دیکھنا ہو تو علامہ اعجاز فرخ سے  مل لیجیے۔

            میں  سمجھتا ہوں  کہ دس کتابوں  کو پڑھ کر جو علم حاصل ہوتا ہے  وہ کسی عالم سے  کچھ دیر گفتگو کے  نتیجے  میں  حاصل ہونے  والے  علم سے  بدرجہا کم ہوتا ہے۔ مجھے  یہ شرف حاصل ہے  کہ کبھی کبھی وہ مجھے  ملاقات کا موقع عطا کرتے  ہیں۔ اور جب کبھی ملاقات ہوتی ہے  یا فون پر گفتگو ہوتی ہے  تو سرور سا چھا جاتا ہے۔ ذہن و دل انبساط میں  ڈوب جاتے  ہیں۔

            میں  نے  علامہ اعجاز فرخ کا کوئی مضمون سیاست کے  علاوہ کسی اور رسالے  یا اخبار میں  نہیں  دیکھا۔ ان کی تحریریں  صرف اور صرف سیاست کے  صفحات کی زینت بنتی رہی ہیں  اور اس طرح وہ سیاست خاندان کے  ایک اہم رکن کی حیثیت رکھتے  ہیں۔ غالباً 70، 71 سے  وہ سیاست کے  لیے  لکھ رہے  ہیں۔ اگر ان مضامین کو جمع کر کے  شائع کیا جاتا تو کئی کتابوں  کے  مصنف ہو گئے  ہوتے۔ لیکن ان کی قلندرانہ طبیعت اور بے  نیازی نے  یہ سب کچھ نہیں  کیا۔ دراصل علامہ خود ایک کتاب ہیں  اور شائد کوئی کتاب اپنی ذات میں  اضافے  کی متحمل نہیں  ہو سکتی۔ بہرحال ان کے  چاہنے  والے  بہت ہیں  اور سب کی یہ خواہش ہے  کہ ان کے  مضامین کتابی شکل میں  دستیاب ہوں۔ دیکھتے  ہیں  وہ اپنے  چاہنے  والوں  کے  اصرار کو کب تک ٹالیں  گے۔

            پچھلے  دو تین مہینوں  سے  اخبار سیاست میں  علامہ اعجاز فرخ نے  مضامین کا ایک اہم سلسلہ شروع کیا ہے۔ ان مضامین میں حیدر آباد کی تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کو بڑی خوبصورتی سے  سمیٹا گیا ہے۔ قطب شاہی فرماں  رواؤں  سے  شروع ہونے  والے  ان مضامین کا تسلسل ابھی نظام ششم میر محبوب علی خان تک پہنچ پایا ہے  اور میرے  اندازے  کے  مطابق علامہ اعجاز فرخ کی زنبیل میں  اس قدر مواد ہے  کہ مزید دس بارہ قسطیں  تو ہو ہی سکتی ہیں۔ ان مضامین کو پڑھیے  تو محسوس ہوتا ہے  کہ یہ سطحی جائزہ نہیں ، صرف لفظوں  کی بازی گری   نہیں  بلکہ علامہ اعجاز فرخ نے  ناقابل تردید حقائق پیش کیے  ہیں  اور پھر زبان کی چاشنی نے  تحریر کو ایسا حسن عطا کیا ہے  کہ بائد و شائد۔  پچھلے  تین چار ہفتوں  سے  یہ مضامین شائع نہیں  ہو پائے۔ جس کی وجہ سے  شائقین میں  قدرے  مایوسی ہے۔ دراصل علامہ کو ماریشس کا سفر کرنا پڑا اور پھر کچھ اور مصروفیات بھی رہی ہوں  گی۔ اب شائد اگلی قسطیں  ایام عزا کے  بعد ہی لکھی جائیں گی۔

            اس سلسلے  کا پہلا مضمون ’’ مرا شہر لو گاں  سوں  معمور کر‘‘ ہے  جو 19 ستمبر 2007 کو شائع ہوا۔ جس میں  شہر حیدر آباد کے  بانی محمد قلی قطب شاہ کا ذکر مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ قطب شاہی سلطنت کے  پہلے  حکمران سلطان قطب شاہ سے  لے  کر ابراہیم قطب شاہ تک کے  عہد کا مختصر احاطہ بھی ہے  لیکن اتنا جامع ہے  کہ تشنگی کا احساس نہیں  ہوتا۔ ابراہیم قطب شاہ کے  بارے  میں  وہ رقم طراز ہیں  کہ  ’’ حقیقت میں  دیکھا جائے  تو حیدر آباد کی موجودہ تہذیب اور ثقافت کا نقطۂ آغاز ابراہیم قطب شاہ کا دور ہے۔ اس دور میں  ہندو مسلم اتحاد کو فروغ حاصل ہوا اور گولکنڈہ  ترکستان اور عرب تاجرین کے  لیے  ایک بین الاقوامی منڈی (کی شکل) اختیار کر گیا۔ اگرچہ شہر حیدر آباد کی بنیاد قلی قطب شاہ نے  رکھی لیکن اس کا منصوبہ دراصل ابراہیم قطب شاہ کا ہے  چنانچہ حسین ساگر کی تعمیر اسی منصوبے  کا ایک حصہ ہے۔ ‘‘

            حیدر آباد کا دامن ہمیشہ ہی سے  سب کے  لیے  سہارا بنا رہا۔ قطب شاہی دور ہو، نظام ششم اور نظام ہفتم کا زمانہ ہو کہ آج کا حیدر آباد … یہ شہر دنیا بھر کے  لوگوں  کی آماجگاہ بلکہ پناہ گاہ رہا ہے۔ سب نے  یہاں  سے  بے  پناہ فائدے  حاصل کیے۔ اس شہر نے  بلا تفریق مذہب و ملت ہر ایک کو نوازا اور اتنا نوازا جس کا وہ تصور بھی نہیں  کر سکتے  تھے۔ علامہ لکھتے  ہیں  ’’ ہندوستان تو کیا دنیا بھر میں  جہاں  کسی پر وطن کی زمین تنگ ہوئی، اس نے  بوریا سمیٹ کر حیدر آباد کا رخ کیا۔ آئے  تو خالی ہاتھ تھے، وطن میں  تو زندگی بھر پاؤں  چادر سے  باہر تھے، لیکن دکن کی سوندھی مٹی نے  یوں  اسیر کیا کہ یوں  جاتے  ہوئے  سکندر نے  کفن سے  ہاتھ باہر رکھ دیئے  تھے، لیکن جب یہ دنیا سے  گئے  تو اولادوں  کے  لیے  نام و نشان، خطاب، منصب، تام جھام، نوکر چاکر، ڈیوڑھی، حویلی، زمین، جاگیریں ، سب اولادوں  کے  لیے  چھوڑ گیے  ‘‘

            حیدر آباد کی تہذیب و ثقافت پر علامہ کا دوسرا مضمون ’’ چار مینار نے  کیا کیا نہیں  منظر دیکھے ‘‘ 16 ستمبر کو شائع ہوا۔ جس میں  انھوں  نے  چکسہ، مہندی، سہاگ مصالحہ، لاک اور نگینے  جڑے  چوڑیوں  کے  جوڑے ، عطر وغیرہ کے  ساتھ حیدر آباد کی قدیم عمارتوں  محلات عاشور خانوں  اور عالمی شہرت کے  حامل چار مینار کی تفصیلات بیان کر دی ہیں۔ اس مضمون میں  ان کے  دل کا درد بھی نمایاں  نظر آتا ہے۔ چند ہی دن قبل مکہ مسجد کے  صحن میں  جو بم دھماکہ ہوا اور اس کے  بعد پولس نے  قانون کے  نام پر جس وحشیانہ اور ظالمانہ انداز سے  خون ریزی کی اس کے  بارے  میں علامہ اپنی مرحوم اہلیہ کو یاد کرتے  ہوئے  لکھتے  ہیں  ’’ اچھا ہوا نہ رہی، مر گئی۔ نہ مرتی تو یہ سن کر مر جاتی کہ مسجد میں  دعا کے  لیے  اٹھے  ہوئے  ہاتھ اٹھے  ہی رہ گئے  اور مصلے  سے  سیدھے  خدا کے  حضور پہنچ گئے۔ جو باہر نکلے  تو پولیس کی گولیوں  نے  بھون کر رکھ دیا‘‘۔ خون دل سے  لکھے  گئے  اس مضمون کی آخری سطریں  یوں  ہیں   ’’ جس چار مینار کی آنکھوں  نے  ایک پوری تاریخ، تہذیب، تمدن، یکجہتی اور ہمیشہ شہر کو شاد دیکھا ہے، اس نے  سڑکوں  پر مکہ مسجد کے  نمازیوں  کو خون میں  غلطاں  بھی دیکھا۔ احساس کی نظروں  میں  چار مینار کی بوڑھی آنکھوں  سے  جوئے  خوں  جاری ہے۔ شب کے  سناٹے  میں  گولکنڈے  کے  پتھر سے  درد بھری آواز آتی ہے۔ ایک سسکی سی ابھرتی ہے   مرا شہر لو گاں  سے  معمور کر  مرا شہر لو گاں  سے  معمور کر۔  شائد اس شہر میں  اب درندے  در آئے  ہیں  ‘‘

            تیسرا مضمون ’’ ہمارے  تاج عجائب گھروں  میں  رکھے  ہیں ‘‘  اس بات کا مدلل ثبوت ہے  کہ قطب شاہی سلطنت ہیروں  کی کان کنی میں  نمایاں  حیثیت رکھتی تھی اور دنیا کے  بیشتر مشہور ہیرے  دکن کی سرزمین کی دین ہیں۔

            ’’ کیا زمانے  گئے  کیا لوگ زمانے  سے  گئے ‘‘ کے  زیرِ عنوان مضمون سے  پتہ چلتا ہے  کہ قطب شاہی حکمران کس قدر روا دار تھے۔ ایک ایسا علاقہ جہاں  کی عوامی زبان تلگو ہو وہاں فارسی اور ترکی بولنے  والے  ترکی النسل حکمرانوں  کو یوں  ہی سر  آنکھوں  پر نہیں  بٹایا گیا۔ یہ حکمران رعایا کی آنکھوں  کے  تارے  یوں  ہی نہیں  بن گئے۔ تلگو کے  عالموں  اور فاضلوں  کا اس سلطنت میں  ایک اہم مقام تھا۔ تلگو کے  متعدد شعراء کو بادشاہوں  کی سرپرستی حاصل تھی اور انھیں  جاگیریں  عطا کی گئی تھیں۔ دفتری کام کاج میں  تلگو کا بڑا دخل تھا۔ یہاں  تک کہ فرامین بھی تلگو میں  جاری کیے  جاتے  تھے۔ اس مضمون میں  بھی علامہ نے  اپنے  پچھلے  مضامین کی طرح ماضی اور حال کا تقابل اس طرح کیا ہے  کہ پتھر کے  بھی آنسو نکل آئیں۔

            اگلے  مضمون ’’ اس پہ انسان کو ہے  خواہشِ دنیا کیا کیا‘‘ میں  قطب شاہی سلطنت کے  آخری دور اور اورنگ زیب کے  تسلط اور پھر اس کے  انتقال کے  علاوہ اس ساری دولت کا بھی ذکر ہے  جو اورنگ زیب نے  دکن سے  سمیٹی تھی۔

            یہاں  ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ ابوالحسن تانا شاہ ایک درویش صفت بادشاہ تھا۔ شاہی خاندان سے  تعلق رکھنے  کے  باوجود وہ شاہ راجو قتال کا عقیدت مند تھا اور ان ہی کی خانقاہ سے  وابستہ تھا۔ لا ولد عبداللہ قطب شاہ کو بستر مرگ پر اپنے  جانشین کی تلاش ہوئی تو قسمت نے  ابو الحسن کے  سر پر تاج شاہی رکھ دیا۔ دکنی میں  تانا کا مطلب ہے  لاڈلا۔ لیکن وقت کی ستم ظریفی دیکھیے۔ اس درویش صفت، نازک مزاج اور سیدھے  سادے  بادشاہ کا نام ہندی بولنے  والے  ظلم کی علامت کے  طور پر دھڑلے  سے  استعمال کرتے  ہیں۔ تانا شاہی نہیں  چلے  گی،تانا شاہی بند کرو کے  نعرے  بلند کرنے  والے  یہ نہیں  جانتے  کہ ان نعروں  پر تانا شاہ کی روح کتنا تڑپتی ہو گی۔ دراصل صحیح روزمرہ نادر شاہی ہے۔ یہ بات سب جانتے  ہیں  کہ نادر شاہ نے   مغلیہ سلطنت کے  آخری دور میں  دلی پر حملہ کیا تھا اور وہاں  خون کے  دریا بہا دیے  تھے، ظلم کی انتہا کر دی تھی اور دلی کو لوٹ کر تباہ و تاراج کر دیا تھا۔ اس کے  بعد دلی کے  روزمرہ میں  نادر شاہی ظلم کے  کیے  استعمال ہونے  لگا۔ آزادیِ ہند کے  بعد نہ جانے  کس بد بخت نے  نادر شاہی کو تانا شاہی سے  بدل دیا اور پھر ہندی میں  اس کا رواج عام ہو گیا۔ افسوس اس بات کا ہے  کہ اب تو اردو بولنے  والے  بلکہ دکن کے  اردو بولنے  والے  بھی اس روزمرہ کو بغیر سوچے  سمجھے  استعمال کرنے  لگے  ہیں۔

            علامہ اعجاز فرخ کا اگلا مضمون ’’ زمیں  کھا گئی آسماں  کیسے  کیسے ‘‘ مغل سلطنت کے  عروج و زوال کا جائزہ اور نادر شاہ کے  دلی پر حملے  کے  بارے  میں حقائق پیش کرتا ہے۔ اور ساتھ ہی اس میں دکن میں  آصفیہ حکومت کے  بانی آصف جاہ اول کا تذکرہ ہے۔ اس کے  بعد ’’ بازیچۂ اطفال ہے  دنیا مرے  آگے ‘‘  اور ’’ میر محبوب علی خان کو نہیں  جانتے  کیا‘‘ کے  زیرِ عنوان دو مضامین میں  نظام دوم سے  نظام ششم تک کا عہد سمیٹا گیا ہے۔ میر محبوب علی خان ریاست حیدر آباد کے  سب سے  محبوب فرماں  روا تھے۔ میں  نے  اپنے  بچپن میں  کہن سالہ بزرگوں  اور بڑی بوڑھیوں  کو ’’محبوب علی پاشا‘‘ کے  لیے  رطب اللساں  دیکھا ہے۔ ان کی سخاوت اور داد و دہش اپنی مثال آپ تھی۔ بیحد کم عمری میں  یعنی صرف ڈھائی سال کی عمر میں  ان کے  سر پر سلطنت کا بوجھ آ پڑا تھا۔ ظاہر ہے  کہ مشیرانِ سلطنت نے  ساری ذمہ داری سنبھالی لیکن پوری وفاداری سے۔ نہ کوئی سازش نہ عہدے  کا ناجائز استعمال۔

میر محبوب علی خان پر لکھے  گئے  اس مضمون کے  بعد مضامین کا یہ سلسلہ عارضی طور پر رک گیا ہے۔ یہ بھی ہے  کہ اس کے  بعد میر عثمان علی خان کا دور شروع ہوتا ہے  جو ریاست حیدر آباد کا سنہری دور ہے۔ یہی وہ دور ہے  جب عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں  آیا، ہائی کورٹ قائم ہوئی، مجلس مقننہ وجود میں  آئی، باب الحکومت کی تنظیمِ نو ہوئی،متعدد کارخانے  قائم ہوئے، دواخانے  اور تالاب بنے، بے  شمار فلاحی کام انجام دئیے  گئے، پولس ایکشن کا سانحہ ہوا اور ریاست حیدر آباد ہند یونین میں  ضم کر لی گئی۔ آنے  والے  مضامین اس دور کا احاطہ کس طرح کرتے  ہیں  یہ تو آنے  والا وقت ہی بتائے  گا۔ میں  تو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں  کہ علامہ اعجاز فرخ کے  قلم میں  جو جادو ہے  اس کا جواب نہیں۔ جن مضامین کا میں  نے  بالائی سطور میں  ہلکا سا ذکر کیا ان میں  مستند حوالوں  سے  مدد لی گئی ہے  اور یہ مضامین تحقیق کے  معیار پر کھرے  اترتے  ہیں۔ انہوں  نے  شیشے  کو شیشے  کی طرح اور ریشم کو ریشم کی طرح برتا ہے۔ وہ شیشہ صفت بھی ہیں  اور تیشہ بدست بھی۔ یہ علامہ اعجاز فرخ کا مزاج ہے۔ وہ کوئی بات یوں  ہی نہیں  لکھتے، پوری جانچ اور پرکھ کے  بعد ہی ان کا قلم چلتا ہے۔ وہ پکے  حیدر آبادی ہیں  اور حیدر آباد کی تہذیب ان میں  رچی بسی ہے۔ اس مٹی کی سوندھی خوشبو ان کے  رگ و پئے  میں  سمائی ہوئی ہے۔ وہ آگہی کے  عذاب سے  آشنا اور ناآگہی کے  کرب سے  آگاہ ہیں۔ اسی لیے  انھوں  نے  اپنے  غم زدہ دل کے  درد کو قرطاس پر بکھیر دیا ہے  تاکہ آگہی کو وسعت ملے، آنے  والی نسلیں  اس آگہی سے  روشناس ہوں  اور آنے  والا مورخ ان حقائق سے  بہر ہ ور ہو سکے۔ ان مضامین کے  لیے  وہ خود کو بھلا بیٹھے  ہیں، ایک بے  چینی سی ان میں  نہاں  بھی ہے  اور عیاں  بھی۔ اکثر سوچتا ہوں ….

جانے  کیا گزرے  ہے  قطرے  پہ گہر ہونے  تک

 

اکبر الٰہ آبادی

ایک نصابی مضمون

1.1                  تمہید

1.2                  مختصر حالاتِ زندگی

1.3                  اکبر کی ابتدائی شاعری

1.4                  اکبر کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری

1.5                  خلاصہ

1.6                  نمونہ  امتحانی سوالات

1.7                  فرہنگ

1.8                  سفارش کردہ کتابیں

1.1      تمہید

            1857ء کا خونیں  انقلاب جسے  انگریزوں  نے  غدر کا نام دیا تھا، ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ انگریزوں  کے  استبداد کے  خلاف ہندوستانیوں  نے  متحدہ طور پر جدوجہد کی لیکن ہندوستان کو انگریزوں  کے  چنگل سے  آزاد کرانے  کی یہ کوشش ناکام ثابت ہوئی۔ اس کے  بعد تو انگریز حکمرانوں  نے  اس قدر ظلم و ستم ڈھائے  کہ جس کی مثال نہیں  ملتی۔ جس کسی پر یہ شبہ ہوا کہ اس نے  انگریزوں  کے  خلاف ہتھیار اٹھائے  اسے  توپ سے  اڑا دیا گیا یا پھانسی دیدی گئی۔ دہلی کے  اطراف سولیوں  پر کئی دن تک لاشیں  لٹکتی رہیں  جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ عوام میں  خوف پید ا ہو جائے  اور وہ انگریزوں  کے  خلاف آواز اٹھانے  کی ہمت نہ کر سکیں۔  عام مسلمانوں  کی ہمتیں  پست ہو چکی تھیں  اور انھیں  کچھ سوجھائی نہیں  دے  رہا تھا۔ آہستہ آہستہ کچھ بیداری آئی۔ عوام کو یہ احساس ہونے  لگا کہ اگر وہ زمانے  کے  ساتھ نہیں  چلیں  گے  تو پھر ان کا نام و نشان مٹ جائے  گا۔

            1857ء کے  بعد ہندوستان کے  افق پر جو تبدیلیاں  آئیں  ان کا گہرا اثر یہاں  کی سماجی اور معاشرتی زندگی پر بھی پڑا۔ ایک گروہ نے  یہ سوچنا شروع کیا کہ نئی تہذیب کو اپنائے  بغیر اور مغربی علوم کو حاصل کئے  بغیر ترقی ممکن نہیں۔ چنانچہ سر سید احمد خان اور ان کے  ساتھیوں  کی کاوشیں  رنگ لائیں  اور اینگللو محمڈن کالج کا قیام عمل میں  آیا جہاں  مسلمانوں  کو جدید علوم کی طرف راغب کیا گیا۔  ایک گروہ کا خیال تھا کہ صرف مذہبی علوم کے  حصول سے  ہی ہندوستانیوں  کی فلاح ممکن ہے۔ ان لوگوں  کو سر سید احمد خان کی کوششیں  پسند نہ تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح مسلمان دین سے  دور ہو جائیں  گے  چنانچہ کٹر مذہبی علماء نے  سر سید کی مخالفت پر کمر باندھ لی۔ ایک گروہ ایسا تھا جو ہندوستانیوں  کی تہذیبی شناخت کو اہم جانتا تھا۔ یہ گروہ تعلیم کا مخالف نہ تھا لیکن اقدار کی شکست و ریخت اس کے  لیے  ناقابل برداشت تھی۔ لسان العصر خان بہادر اکبر حسین  اکبر الٰہ آبادی اسی گروہ کے  علم بردار تھے۔ اکبر الٰہ آبادی نے  سنجیدہ شاعری بھی کی ہے  لیکن ان کی شناخت ظریفانہ اور طنزیہ شاعری سے  ہے۔ اودھ پنچ اردو کا وہ اہم رسالہ ہے  جس نے  لندن سے  نکلنے  والے  پنچ کی طرح طنز و مزاح کے  پیرائے  کو اپنایا۔اور  اردو کو ایک ایسا اسلوب دیا جس میں  تلخی، طنز، شوخی اور مزاح بنیادی حیثیت کے  حامل تھے۔ اس رسالے  نے  اپنی تیکھی اور طنزو مزاح میں  ڈوبی ہوئی تحریروں    کے  ذریعے  ہندوستانیوں  کی تہذیبی اقدار کو ٹوٹنے  اور بکھرنے  سے  روکنے  کی کوشش کی۔ اکبر الٰہ آبادی اسی دور کی پیداوار ہیں۔ اودھ پنچ کے  ایک اہم قلم کار کی حیثیت سے  انہوں  نے  اس دور کی ایک اہم ضرورت کو پورا کیا۔

 

1.2      مختصر حالاتِ زندگی

            اکبر الٰہ بادی کا پورا نام سید اکبر حسین تھا۔ ان کے  والد تفضل حسین رضوی نائب تحصیل دار کے  عہدے  پر فائز تھے۔ اکبر 16 نومبر 1846ء کو قصبہ بارا میں  پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش کے  کچھ ہی سال بعد والد کا انتقال ہو گیا اور ان کے  تایا سید وارث علی نے  پرورش کی۔ معمولی سی تعلیم کے  بعد 17 برس کی عمر میں  مجبوراً انہیں  پندرہ روپئے  ما ہوار کی ملازمت کرنی پڑی پھر انہوں  نے  ریلوے  کے  دفتر میں  محرر کی حیثیت سے  کام کیا۔ اسی دوران انھوں  نے  انگریزی میں  استعداد حاصل کی اور 1857ء میں  وکالت کا امتحان کامیاب کر کے  وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ 1869ء میں  وہ نائب تحصیل دار مقرر ہوئے۔ اس کے  بعد داروغۂ آبکاری کا عہدہ سنبھالا۔ پھر وہ ہائی کوٹ میں  ملازم ہو گئے۔ 1873ء میں  انھوں  نے  ہائی کوٹ کی وکالت کا امتحان کامیاب کیا اور منصف کے  عہدے  پر فائز ہوئے۔ 1888ء میں  انھیں  نائب جج بنایا گیا پھر عدالت حفیفہ کے  جج بنے  اور اس کے  بعد سیشن جج ہو گئے۔ 1905ء میں  اکبر ملازمت سے  سبکدوش ہوئے۔ 1907ء میں  برطانوی حکومت نے  ان کی خدمات کے  پیش نظر خان بہادر کے  خطاب سے  نوازا جس کے  بعد الٰہ آباد یونیورسٹی نے  انھیں  فیلو مقرر کیا۔ 9 ستمبر 1921ء کو اکبر نے  75 برس کی عمر میں  وفات پائی۔

1.3   اکبر کی ابتدائی شاعری

            اکبر نے  تقریباً پچپن برس تک اقلیم شعر پر حکمرانی کی ……ابتدائی شاعری میں  وہ قدیم روش نمایاں  طور پر نظر آتی ہے  جو شعرائے  لکھنؤ کی نازک خیالیوں  کی آوردہ تھی۔

الفت گیسو نے  آخر دی میرے  دل کو شکست

ہائے  کیا انمول شیشہ تھا مگر بال آ گیا

            انہوں  نے  غزل کی قدیم روایت کی پاسداری میں  جو اشعار کہے  ہیں  ان میں  ایسے  ہی مضامین کی بہتات نظر آتی ہے  جو اس دور کی شاعری کا خاصہ رہے  ہیں۔

پھر گئی آپ کی دو دن میں  طبیعت کیسی

یہ وفا کیسی تھی صاحب یہ مروت کیسی

آپ بوسہ جو نہیں  دیتے  تومیں  دل کیوں  دوں

ایسی باتوں  میں  میری جان مروت کیسی

یاد قیامت سے  جو اس دن مل گئی فرصت ہمیں

دیکھ لیں  گے  دور سے  ہم بھی تماشہ حشر کا

             غزل میں  اکبر نے  جو گل کھلائے  ہیں  ان سے  فکری سطح پر بھی کہیں  کہیں  مشامِ جاں  معطر ہوتے  ہیں  اور یہ فیض غزل کی ہمہ جہتی کیفیت کا ہے۔

دارِ فنا سے  لے  نہ چلے  کچھ تو غم نہیں

فرمایئے  تو، لائے  تھے  ملک بقا سے  کیا

مداوائے  رہنمائے  گمرہاں  اس دشتِ غربت میں

مسافر ہوں  پریشان حال ہوں  گم کردہ منزل ہوں

توقع رہتی ہے  ہر دم کہ دم لینے  کی مہلت ہے

معاذاللہ اپنی موت سے  کس درجہ غافل ہوں

میں  دیتا جاؤں  یاران وطن کو کیا پتہ اپنا

خدا جانے  مجھے  لے  جائے  وحشت کس بیاباں  میں

خانۂ دل کو کیا عشق بتاں  نے  برباد

کیا سے  کیا ہو گئی اللہ کے  گھر کی صورت

اب کہاں  اگلے  سے  وہ راز و نیاز

مل گئے  صاحب سلامت ہو گئی

            اور یہ مشہور شعر ان ہی کا ہے۔

ہم آہ بھی کرتے  ہیں  تو ہو جاتے  ہیں  بدنام

وہ قتل بھی کرتے  ہیں  تو چرچا نہیں  ہوتا

            اس کے  باوجود اکبر کی عظمت تو اس شاعری سے  ہے  جس میں  طنز کی کاٹ اور مزاح کی چاشنی غالب عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔

1.4      اکبر کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری

            اکبر الٰہ آبادی سرکاری ملازم بھی رہے  اور شاید اسی لیے  ان کے  لیے  یہ ممکن نہ تھا کہ راست لب و لہجہ میں  انگریزی استبداد کے  خلاف آواز بلند کرتے  لیکن شعری زبان کی وسعت اور ظرافت آمیز اظہار نے  اس کمی کو پورا کر دیا۔ چنانچہ وہ کہتے  ہیں۔

شاہد معنی نے  اوڑھا ہے  ظرافت کا لباس

            اور اس طرح اکبر نے  اپنے  موقف کی وضاحت کر دی ہے  کہ ظرافت کے  پیچھے  جو معنی چھپے  ہوئے  ہیں  ان کی تلاش کرنے  پر در مقصود مل سکتا ہے۔

اکبر کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری اودھ پنج کی مرہون منت ہے۔ بقول ڈاکٹر وزیر آغا

’’اودھ پنج نہ صرف اردو کا پہلا مزاحیہ اخبار تھا بلکہ اس نے  پہلی بار اردو میں  مغربی طنز و مزاح کے  حربوں  کو بھی استعمال کیا۔ ‘‘ (اردو ادب میں  طنز و مزاح  صفحہ 192)

            اس اخبار کے  ایڈیٹر منشی سجاد حسین نے  سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل پر بے  خوف و خطر طنز و مزاح کے  پیرائے  میں  نکتہ چینی کی اور یہی حال اودھ پنج کے  تمام معاونین کا تھا۔ برج نارائن چکبست لکھتے  ہیں  :

’’ظریفانہ نظم کے  میدان میں  حضرت اکبر سب سے  دس قدم آگے  ہیں۔ عموماً سوشل، پولیٹکل اور مذہبی مسائل کے  ظرافت آمیز پہلو جس خوبی کے  ساتھ اکبر نے  نظم کئے  ہیں  وہ دوسرے  کو نصیب نہیں ‘‘

(گلدستۂ پنج صفحہ  14)

            سچ بات تو یہ ہے  کہ اکبر کے  مزاج میں  ظرافت اور مزاح کا مادہ بدرجۂ اتم موجود تھا۔ مزاح ان کی طبیعت کا خاصہ تھا اور اسی لئے  سرکاری ملازمت کے  باوجود وہ اودھ پنج کے  لئے  لکھتے  رہے۔  ان کی فطری شوخی، ظرافت اور قلم کی کاٹ نے  جب شعر کی زبان میں  سماج، تعلیم، سیاست، معاشرت اور بدلتی اقدار پر چوٹ کی تو فکری سطح پر تیزی سے  فروغ پاتی ہوئی بے  راہ روی کو ایک رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔

            ان کی شاعری میں  چھپے  ہوئے  قومی جذبے  کا جائزہ لیا جائے  تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں  کہ وہ انگریزوں  کی استعماریت اور ہندوستانی تہذیب پران کے  تسلط کے  ہمیشہ شاکی رہے۔ سرکاری ملازمت نے  ان کے  اظہار کی راہ میں روڑے  ضرور اٹکائے  لیکن وہ دل سے  قومی تحریک اور آزادی وطن کے  قائل تھے۔ گاندھی جی کے  لئے  وہ کہتے  ہیں۔

مدخولۂ گورنمنٹ اکبر اگر نہ ہوتا

پاتے  اسے  بھی اک دن گاندھی کی گوپیوں  میں

            مغربی تعلیم کے  سیلاب سے  اکبر بیزار تھے۔ یہ نہیں  ہے  کہ وہ تعلیم کے  خلاف تھے۔ خود اپنے  لڑکے  عشرت حسین کو انہوں  نے  اعلیٰ تعلیم کے  لیے  لندن بھیجا تھا۔ اور جب انہیں  محسوس ہوا کی لندن کی فضا ء نے  عشرت کو اسیر کر لیا ہے  تو وہ مشہور نظم مکمل ہوئی کہ

کھا کے  لندن کی ہوا عہد وفا بھول گئے

            ان کے  نزدیک وطن اور وطن کی تہذیبی اقدار کی بڑی اہمیت تھی۔ وہ مغربی تعلیم کے  اس خطرناک پہلو سے  قوم کو بچانا چاہتے  تھے  جس سے  ہندوستانیوں  کی شناخت ختم ہو سکتی تھی۔

حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے  جب بے  گانہ تھی

اب ہے  شمعِ انجمن پہلے  چراغِ خانہ تھی

ہم ایسی کل کتابیں  باعث ضبطی سمجھتے  ہیں

کہ جن کو پڑھ کے  بیٹے  باپ کو خبطی سمجھتے  ہیں

اے  فلک انگلش و جرمن ہو مبارک تجھ کو

ہم کو تو اردو و ہندی میں  بسر کرنا ہے

علم مغرب پڑھ کے  ہوں  گی ایسی خود سر بی بیاں

بی بیاں  شوہر بنیں  گی اور شوہر بی بیاں

            . وہ اس دور کی فیشن پرستی پر وار کرتے  ہوئے  کہتے  ہیں۔

مریدِ دہر ہوئے  وضع مغربی کر لی

نئے  جنم کی تمنا میں  خود کشی کر لی

            ایک اور جگہ کہتے  ہیں۔

نئی مخمل کی نکٹائی تو گویا طوقِ گردن ہے

وہی بت خانہ بہتر تھا وہی زنار اچھی تھی

            ان کے  خیال میں  تعلیم کا مقصد یہ نہیں  ہے  کہ صرف ملازمت حاصل کر لی جائے  اور بس۔

ہم کیا کہیں  احباب کیا کارِ نمایاں  کر گئے

بی اے  ہوئے  نوکر ہوئے  پنشن ملی پھر مر گئے

            وہ تجارت کو طرۂ افتخار مانتے  ہیں۔ اگرچہ وہ خود ملازم رہے  لیکن ملازمت سے  نالاں  نظر آتے  ہیں۔ انہوں  نے  مغربی اقوام کی سربلندی کا سبب تجارت بتایا ہے۔

پاتی ہیں  قومیں  تجارت سے  عروج

بس یہی ان کے  لئے  معراج ہے

ہے  تجارت واقعی اک سلطنت

ناز یوروپ کو اس کا آج ہے

            اکبر کی ابتدائی شاعری میں  جو نازک خیالی نظر آتی ہے  اس کا پرتو ان کی ظریفانہ شاعری میں  نظر نہیں  آتا۔ اپنے  مخصوص ظریفانہ رنگ میں  شعر کہتے  ہوئے  اکبر نے  نازک خیالی کے  لبادے  کو اتار پھینکا لیکن رعایت لفظی سے  فائدہ اٹھانے  کی خو نہ گئی۔

پا کر خطاب ناچ کا بھی ذوق ہو گیا

سر ہو گئے  تو بال کا بھی شوق ہو گیا

زلف نے  پرتوِ دیں  نام کو رہنے  نہ دیا

آخر اس لام نے  اسلام کو رہنے  نہ دیا

            اکبر نے  اردو شاعری کو نئی لفظیات سے  روشناس کرایا اور دوسری زبانوں  کے  الفاظ خصوصاً انگریزی کے  الفاظ کا استعمال کر کے  مزاج کی ایسی کیفیت پیدا کی جو اہل نظر کے  لئے  تازیانے  کا کام کرتی ہے۔

شیخ آنر کے  لئے  آتے  ہیں  میدان کے  بیچ

ووٹ ہاتھوں  میں  ہے  اسپیچ قلمدان کے  بیچ

کیا کہوں  اس کو میں  بدبختی نیشن کے  سوا

اسکو آتا نہیں  اب کچھ امٹیشن کے  سوا

            ان کے  قلم کے  نشتر سے  کوئی نہ بچ سکا …….سیاسی جماعتیں ، فلاحی ادارے  اور ان کے  سربراہ، مذہبی علماء سبھی کو اکبر نے  نشانہ بنایا ……ایسے  لیڈر جنہوں  نے  اپنے  فائدے  کے  لئے  قوم کا نعرہ لگایا، ان کے  لئے  اکبر کے  شعر ایک نشتر کی طرح ہیں۔

گردن ریفا رمر کی اک سمت تن گئی

بگڑی ہو قوم و ملک کی ان کی تو بن گئی

تمام قوم ایڈیٹر بنی ہے  یا لیڈر

سبب یہ ہے  کہ کوئی اور دل لگی نہ رہی

کیا عذر قوم کو ہے  ترقی کی بات میں

رغبت کے  ساتھ خود سے  وہ لیڈر کے  ہات میں

زندگی کو ضرور ہے  اک شغل

خیر بالفعل لیڈری ہی سہی

سروس میں  میں  داخل نہیں ، ہوں  کا خادم

چندوں  کی فقط آس ہے  تنخواہ کہاں  ہے

            جہاں  تک نئی روشنی، مغربی علوم کے  حصول اور سائنس اور ٹکنالوجی کی طرف بڑھتے  ہوئے  رجحان کا تعلق ہے  یہ کہا جا سکتا ہے  کہ اکبر الٰہ آبادی نے  اپنے  کان بند کر لئے  تھے۔ وہ آنے  والے  دنوں  کی آہٹ محسوس نہیں  کر سکے۔ قدامت پرستی نے  انہیں  نئی روشنی کے  خلاف کہنے  پر اکسایا تھا۔ مصلحان قوم کے  عظیم کارنامے  ان کے  سامنے  ہیچ تھے۔ حصول علم کے  بدلتے  ہوئے  رجحان پر نشانہ بازی کرتے  ہوئے  انہیں  اس بات کا اندازہ نہیں  تھا کہ زمانے  کی کروٹیں  کیا گل کھلانے  والی ہیں۔ لیکن اس بات سے  بھی انکار نہیں  کیا جا سکتا کہ اکبر نے  اپنے  اشعار میں  چھپے  ہوئے  تیر و نشتر سے  ان ناسوروں  کو کریدا تھا جو آنے  والے  زمانے  کے  لئے  تکلیف دہ ثابت ہو سکتے  تھے۔ انہوں  نے  اپنے  لفظوں  کی کمندوں  سے  بے  راہ روی کی طرف بڑھتی ہوئی قوم کو روک کر اپنی تہذیبی شناخت باقی رکھنے  پر زور دیا تھا انہوں  نے  توازن کی راہ اختیار کرنے  کی طرف توجہ دلائی تھی۔ ایک طرف تو اکبر نے  اردو شاعری میں  طنزو مزاح کے  ملے  جلے  اسلوب کو فروغ دے  کر زندگی کی تنقید کا اہم فریضہ انجام دیا تھا تو دوسری طرف آنے  والے  زمانے  کے  طنز و مزاح پر مشتمل سرمائے  کے  لئے  ایک مشعل روشن کر گئے  اور یہی اکبر کا کارنامہ ہے۔

1.5      خلاصہ

            اکبر الٰہ آبادی کا پور انام سید اکبر حسین تھا۔ 1857ء میں  قصبہ بارا میں  پیدا ہوئے۔ معمولی ملازمت سے  آغاز کیا اور اپنی تعلیمی قابلیت بڑھاتے  رہے۔ 1905ء میں  سیشن جج کی حیثیت سے  وظیفہ پر سبکدوش ہوئے۔ برطانوی حکومت نے  ان کی خدمات کے  پیش نظر انھیں  خان بہادر کے  خطاب سے  نوازا۔ 75 برس کی عمر میں  1925ء میں  اکبر نے  وفات پائی۔ ان کی شاعری کا ابتدائی دور لکھنوی رنگ کا ہے  کافی عرصہ تک وہ سنجیدہ شاعری کرتے  رہے۔ چونکہ ان کی فطرت میں  ظرافت کا مادہ تھا اس لئے  وہ ظریفانہ شاعری کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں  مسلمانوں  کے  سیاسی، سماجی و معاشرتی مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ وہ اگرچہ سرکاری ملازم تھے  لیکن اپنی ظریفانہ طبیعت اور شاعرانہ مزاج کی بدولت سماج اور بدلتی ہوئی قدروں  پر چوٹ کرتے  رہے۔ وہ آزادی وطن کے  قائل تھے  اور مغربی تہذیب کی بڑھتی ہوئی یلغار کے  مخالف تھے۔ انھوں  نے  اپنی شاعری میں  انگریزی الفاظ کو بھی بڑی خوبی سے  پیش کیا۔ ان کے  قلم کے  نشتر سے  کوئی بچ نہ سکا سیاسی جماعتی، فلاحی ادارے ، مذہبی علماء، لیڈر سبھی کو اکبر نے  اپنے  طنز کا نشانہ بنایا۔ اکبر کو بلاشبہ اردو طنز و مزاح کا سب سے  اہم شاعر کہا جا سکتا ہے۔

1.6      نمونہ امتحانی سوالات

1۔ 1857ء کا ہندوستانی معاشرے  پر کیا اثر پڑا؟

2 ۔ اکبر الٰہ آبادی کے  حالات زندگی مختصراً بیان کیچئے۔

3۔اکبر الٰہ آبادی کی سنجیدہ شاعری کے  بارے  میں  کیا جانتے  ہیں ؟

4 ۔ اکبر الٰہ آبادی کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کے  بارے  میں  اپنی مدلل رائے  تحریر کیجئے۔

1.7      فرہنگ

            استبداد                 ظلم

            کاوش                  کوشش

            بدرجہ اتم             بے  حد

            استعماریت                       ظالمانہ اقتدار

            ٍٍٍٍٍٍٍقدامت پرستی         پرانے  رواج سے  لگاؤ

            خبطی                   پاگل

1.8      سفارش کردہ کتابیں

.1   اردو ادب میں  طنزو مزاح                       ڈاکٹر وزیر آغا

2 .  انتخاب اکبر الٰہ آبادی               مکتبہ جامعہ دہلی

3 . بزم اکبر                                             قمر الدین احمد بدایونی

4 . کلیات اکبر الٰہ آبادی                             اکبر الٰہ آبادی

5 . اردو ادب میں  طنز و مزاح کی روایت          ڈاکٹر خالد محمود

—————————٭٭——————————

 

علی باقر

            حیدر آباد میں ہر دور میں طرح طرح کے  پھول کھلتے  رہے  اور دنیا بھر میں  اپنی خوشبو بکھیرتے  رہے۔ یہ اور بات ہے  کہ حیدر آبادی مزاج میں  پی آر شپ، اپنے  آپ کو بڑھ چڑھ کر منوانے  کی خصوصیت اور دوسروں  کو گرانے  کا رویہ نہ ہونے  کے  برابر ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ اپنے  افسانوی انکسار کے  سبب حیدر آباد کے  ادیب، شاعر، فن کار اور عالم پردۂ گمنامی میں  میں  رہے۔ کسی نے  نام لے  لیا تو لے  لیا، خود سے  آگے  بڑھ کر حیدر آبادی فن کاروں  نے  خود کو کبھی نہیں  منوایا۔

            علی باقر کی پیدائش حیدر آباد میں  تو نہیں  ہوئی لیکن چونکہ ڈیڑھ دو برس کی عمر میں  انہیں  گنڈی پیٹ کا پانی پلا دیا گیا تھا اس لیے  حیدر آباد ان کے  رگ و پئے  میں  بس گیا۔ جو اصحاب حیدر آباد سے  ناواقف ہیں  ان کی اطلاع کے  کیے  عرض کر دوں  کہ گنڈی پیٹ ایک وسیع و عریض تالاب کا مقامی نام ہے  جس کا پانی سارے  شہر کو پینے  کے  لیے  سربراہ کیا جاتا تھا۔ سرکاری طور پر اگرچہ اسے  عثمان ساگر کا نام دیا گیا ہے  لیکن عوام اسے  گنڈی پیٹ ہی کہتے  ہیں  جو دراصل اس دیہات کا نام تھا جہاں  یہ تالاب بنایا گیا۔ اب تو اس تالاب کی ہڈیاں  نکل آئی ہیں، اس کا حسن مدھم پڑ چکا ہے  لیکن آج بھی لوگ جوق در جوق تفریح کے  لیے  وہاں  جانا نہیں  بھولتے۔ اور کہا جاتا ہے  کہ جو ایک بار گنڈی پیٹ کا پانی پی لے  وہ حیدر آباد کو کبھی بھلا نہیں  پاتا۔ علی باقر نے  تو زندگی کی دو دہائیاں  اسی پانی کے  بل پر گزاری تھیں۔

            بہر حال علی باقر کی پیدائش تو 1937ء  میں ایبٹ آباد میں  ہوئی لیکن ان کے  والد نے  ترک وطن کر کے  حیدر آباد کو اپنا وطن ثانی بنا لیا۔  یہ وہ دور ہے  جب ترقی پسند تحریک نے  اردو کے  وسیلے  سے  ہندوستان میں  پہلی بار اپنی آنکھیں  کھولی تھیں  اور کچھ ہی برس بعد حیدر آباد میں  ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس بھی منعقد ہوئی۔ ظاہر ہے  کہ اس زمانے  میں  علی باقر بہت کم سن رہے  ہوں  گے۔ لیکن جب انہوں  نے  ابتدائی تعلیمی مراحل طئے  کرنے  کے  بعد عثمانیہ یونیورسٹی میں  داخلہ لیا تو ان کے  تخلیقی جوہر کھلنے  لگے۔ شعر و ادب سے  دلچسپی تو پہلے  ہی سے  تھی، عثمانیہ یونیورسٹی کے  ماحول نے  سونے  پر سہاگے  کا کام کیا۔ انہوں  نے  اظہار کے  لیے  افسانے  کا کینوس اپنایا اور بائیس برس کی عمر میں  انھوں  نے  پہلا افسانہ لکھا۔ یہ افسانہ 1959ء میں  ماہنامہ شمع میں  شائع ہوا اور بھی کسی ترمیم یا تصیح کے  بغیر۔ شمع اس زمانے  میں  سب سے  مقبول اور سب سے  زیادہ چھپنے  والا پرچہ تھا اور اس کی مقبولیت کا سبب صرف یہ نہ تھا کہ وہ ایک فلمی رسالہ تھا بلکہ اس میں  مشہور افسانہ نگاروں  اور شعرا کی تخلیقات بھی شائع ہوتی تھیں  اور ادب کے  شائقین کے  لیے  اس میں  کافی مسالہ ہوا کرتا تھا۔ یہ اور بات ہے  کہ بعض خود پرست افسانہ نگاروں  اور شاعروں  نے  شمع کو بظاہر کوئی اہمیت نہیں  دی۔ کبھی کبھی یوں  بھی ہوتا ہے  کہ کوئی تخلیق کار اپنی نا پختہ تخلیق کسی رسالے  کو بھیج دیتا ہے  اور اگر ایڈیٹر نے  اپنا ’ایڈیٹرانہ حق‘ استعمال کرتے  ہوئے  کہانی یا نظم یا غزل نہیں  چھاپی تو تخلیق کار کو اس رسالے  سے  ایک کد سی ہو جاتی ہے۔ تخلیق کار کی نرگسیت اور خود پسندی اس کے  اندر ہی اندر ایک آگ سی بھڑکا دیتی ہے  جو زندگی بھر اس کے  وجود کو جلاتی رہتی ہے  اور وہ اس رسالے  میں  شامل ہونے  والے  فن کاروں  کو تیسرے  درجے  کے  فن کار قرار دے  دیتا ہے۔ اگر کچھ افسانہ نگاروں  نے  علی باقر کو محض اس وجہ سے  قابل اعتنا نہ سمجھا کہ وہ شمع میں  چھپتے  رہے  ہیں  تو یہ ان کی اپنی کج روی ہے  یا پھر خود پسندی کی آگ ان کو  جھلسائے  دیتی ہے۔ دوسرے  ادبی رسالوں  میں  شائع ہونا اتنا اہم نہیں  ہے  جتنا کہ ہندوستان کے  سب سے  دیدہ زیب اور سب سے  زیادہ چھپنے  والے  رسالے  میں  شائع ہونا۔ خیال رہے  کہ شمع کے  لاکھوں  قارئین میں  ہر طرح کے  لوگ تھے۔ فلموں  سے  دلچسپی رکھنے  والے  نوجوانوں  کے  علاوہ ادیب، شاعر اور افسانہ نگار شمع کا مطالعہ بڑے  شوق سے  کرتے  تھے۔ اس اعتبار سے  اگر میں  یہ کہوں  تو غلط نہ ہو گا کہ علی باقر نے  اپنی پہلی ہی تخلیق کے  ذریعے  شمع کے  لاکھوں  قارئین کے  علاوہ افسانے  کے  قاری کو بھی اپنی گرفت میں  لے  لیا۔

            1959 سے  1978کا عرصہ کافی طویل ہوتا ہے۔ ان انیس برسوں  میں  علی باقر نے  متعدد کہانیاں  لکھیں اور پھر ان کے  افسانوں  کا پہلا مجموعہ  ’خوشی کے  موسم‘  1978 ء میں  شائع ہوا اور اس مجموعے  کے  مشمولات کے  بارے  میں  یہ قیاس کیا جا سکتا ہے  کہ ’خوشی کے  موسم‘ میں  علی باقر نے  اپنے  منتخب افسانے  شامل کیے  ہوں  گے۔ ان کا دوسرا مجموعہ  ’جھوٹے  وعدے  سچے  وعدے ‘ 1984 میں  منظر عام پر آیا۔ پھر 1987 میں ان کے  افسانوں  کا تیسرا مجموعہ  ’بے   نام رشتے ‘شائع ہوا۔ 1993 میں ’ مٹھی بھر دل‘ اور بعد ازاں        میں  پانچواں  مجموعہ ’ لندن کے  دن رات‘  زیورِطبع سے  آراستہ ہوا جو ان کے  پچھلے  چار مجموعوں  کے  منتخب افسانوں  کا احاطہ کرتا ہے۔

            عثمانیہ یونیورسٹی سے  گریجویشن کی تکمیل کے  بعد علی باقر1960 میں  جینیوا گئے  پھر وہاں  سے  لندن چلے  گئے  اور وہیں  سے  سوشیالوجی میں  ایم اے  کیا لیکن صرف پڑھنے  پڑھانے  کی حد تک نہیں  بلکہ وہ پریکٹیکل سوشل سائنٹسٹ تھے۔ ذہنی اور جسمانی معذورین کے  لیے  انھوں  نے  جو کام کیا وہ بھلایا نہیں  جا سکتا۔ اور چوں  کہ وہ ایک تخلیقی فن کار تھے  اس لیے  اظہار کے  لیے  افسانے  کے  ساتھ ساتھ فلم کا میڈیم بھی اختیار کیا اور اس میڈیم کے  ذریعے   انھوں  نے  ذہنی اور جسمانی معذوروں  کے  لیے  گراں  قدر کارنامے  انجام دیئے۔

            علی باقر یورپ میں  رہے  تو وہاں  کی رنگینیوں  کو دیکھنے، برتنے  اور محظوظ ہونے  کے  ساتھ ساتھ انھوں  نے  وہاں  کا ماحول، مسائل، پیچیدگیاں ، نفسیاتی گتھیاں   بہت قریب سے  دیکھیں ، ان پر غور کیا، اور پھر انھیں  اپنے  افسانوں  میں  سمیٹ کر قاری کو نئے  جہانوں  سے  آشکار کیا۔ تارکینِ وطن کے  مسائل بالکل مختلف ہوتے  ہیں ، خصوصاً  وہ تارکین جن کا تعلق خود اپنے  وطن میں  اقلیت سے  ہو۔ سب سے  پہلے  تو وطن سے  دور رہنے  کا غم، عزیز اقربا دوست احباب سے  جدائی کا ملال، تنہائی کا احساس، جہاں  وہ مقیم ہیں  وہاں  کے  رہنے  والوں  کا متعصبانہ رویہ، غیر یقینی حالات  ……  یہ کچھ ایسے  بچھو ہیں  جو ذہن کے  اندر بیٹھ کر ہر وقت ڈنک مارتے  رہتے  ہیں ، اپنا زہر منتقل کرتے  رہتے  ہیں  اور سوزش میں  مبتلا کرتے  رہتے  ہیں۔ اور پھر ان سب پر مستزاد، مصروف ترین زندگی، طول طویل فاصلے  جن میں  تارک وطن پستا رہتا ہے۔ علی باقر نے  ان سارے  احساسات کو کامیابی سے  اپنے  افسانوں  میں  منتقل کیا۔ تارکینِ وطن کے  علاوہ علی باقر نے  یورپ کے  سلگتے  مسائل کو بھی اپنا موضوع بنایا، ان پر بھی کہانی لکھی جو کبھی ہندوستان میں  حکمران تھے  اور جنھوں  نے  اپنی عزت بچانے  کے  لیے  مقامی لوگوں  کی عزت سے  کھلواڑ کیا، حالاں  کہ قصور ان کا اپنا تھا۔ علی باقر کی کہانیوں  کے  کردار دودھ کے  دھلے  ہوئے  نہیں ، وہ انسان اور صرف انسان ہیں ، ان میں  کمزوریاں  بھی ہیں  اور اچھائیاں  بھی، ان میں  کمینگی بھی ہے  اور شرافت بھی، وہ سنجیدہ مزاج کے  حامل بھی ہیں  اور کھلنڈرے  بھی …. کیوں  کہ یہی دنیا کی روش ہے ، دنیا میں  ہر جگہ ہر طرح کے  لوگ موجود ہوتے  ہیں۔ جس روئیے  کو علی باقر نے  شدت سے  محسوس کیا اسے  کردار کا روپ دے  کر اپنی کہانی کا حصہ بنا دیا۔ علی باقر کے  کردار سماج کی مختلف سطحوں  سے  جنم لیتے  ہیں  جن سے  فن کار کے  گہرے  مشاہدے  کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

            علی باقر نے  چودہ برس کا بن باس جھیلا۔ لیکن یہ چودہ برس وہ صرف روپیہ کمانے  کی مشین بنے  نہ رہے۔ لندن کی مصروف ترین زندگی کے  باوجود علی باقر کے  اندر بیٹھا ہوا فن کار خاموش نہ رہ سکا۔ آتش فشاں  کے  اندر کلبلاتا لاوا  وقتاً فوقتاً  افسانے  کی شکل میں  بکھرتا رہا  یہاں  تک کہ ہندوستان واپس آتے  آتے  علی باقر کے  دو مجموعے  منظرِ عام پر آ گئے۔ اظہار کے  دوسرے  وسائل بھی علی باقر نے  کامیابی سے  ا استعمال کیے۔ ان کے  اندر کا فن کار کبھی آرٹسٹ کی شکل میں  سامنے  آیا تو کبھی اداکاری کے  واسطے  سے  پردۂ سیمیں  پر پیش ہوا۔  اچھے   فن کار کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے  کہ اسے  ہمیشہ عدم تکمیل کا احساس رہتا ہے۔ علی باقر بھی اس کیفیت سے  دوچار رہے  ہیں  لیکن اس کے  باوجود وہ خود شناس تھے  اور اپنی رنگارنگی سے  خوش تھے۔   اپنی بھانجی ڈاکٹر قرۃالعین حسن کے  نام خط میں  وہ لکھتے  ہیں

’’ بعض لوگ یہ ضرور سوچیں  گے  کہ علی باقر نے  اپنی پست قامتی کو زندگی بھر ڈھانکنا چاہا اور ناکام رہا، تصویریں  بنائیں  مگر ایم ایف حسین نہ بن سکا، کہانیاں  لکھیں  مگر کرشن چندر نہ بن سکا، سیاحت کی مگر کولمبس نہ بن سکا، سوشل سائنس پڑھی مگر این سرینواسن نہ بن سکا اداکاری کی مگر دلیپ کمار تو کیا جتیندر بھی نہ بن سکا، بین الاقوامی اداروں  میں  کام کیا مگر عابد حسین نہ بن سکا مگر عینی بیٹی  میں  تم سے  اتنا ضرور کہوں  گا کہ میں  اس رنگارنگی میں  بہت خوش رہا …..‘‘

                                     (مٹھی بھر دل  ص 37)

یاد رہے  کہ یہ سطور دل کے  پیچیدہ آپریشن سے  صرف ایک دن پہلے  لکھی گئی ہیں۔ کل نہ جانے  کیا ہو …. تو پھر آج کیوں  نہ دل کی ہر بات کاغذ پر بکھیر دی جائے۔ مزاج کی یہ رنگارنگی صرف اس لیے  ہے  کہ علی باقر کو زندگی بھرپور انداز میں  جینے  کا ہنر معلوم تھا۔ کامیابی نے  ہمیشہ علی باقر کے  قدم چومے  اور اہم بات یہ ہے  کہ علی باقر نے  کامیابی کے  حصول کے  لیے  کبھی ضمیر کا گلا نہیں  گھونٹا۔ وہ سب کو چاہتے  رہے  اور اپنی چاہت کے  بل پر سب کو مجبور کرتے  رہے  کہ وہ بھی انھیں  ٹوٹ کر چاہیں۔ مایوسی کبھی ان کے  قریب نہ آ سکی۔ شدید بیمار ہونے  کے  باوجود وہ مایوس نہیں  رہے۔ علی باقر تخلیقی فن کار تھے۔ اظہار پر انھیں  قدرت حاصل تھی  اس لیے  انھوں  نے  ایسی حالت میں  بھی قلم کا ساتھ نہ چھوڑا اور اپنے  وقت کو صحیح اور مناسب طریقے  سے  استعمال کیا۔ جس خط کا اوپر اقتباس پیش کیا گیا اس کا پہلا حصہ 20مارچ 1992ء کو لکھا گیا ہے  اور اگلے  حصے  21، 22، 23، 24  اور 25 کو لکھے  گئے۔ یہ وہ زمانہ ہے  جب علی باقر کو تین ہارٹ اٹیک ہو چکے  تھے  اور وہ آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف مڈیکل سائنس میں  کارڈیالوجی ڈپارٹمنٹ کے  آئی سی سی یو میں  بستر پر دراز تھے۔ وہ لکھتے  ہیں

’’ میں  نے  اس دوران نسیمہ کو ایک خط، ایک کہانی، ایک مضمون اور ایک نظم لکھ ڈالے  پھر بھی لگتا ہے  کہ تجربے  کی شدت، جذبات کی ندرت، زندگی بچانے  والے  کی قدرت، ڈاکٹروں  کی حکمت، ٹیکنالوجی کی جدت کے  بارے  میں  کچھ نہ لکھ سکا۔ موت اور زندگی، امید اور نا امیدی، اندھیرے  اور اجالے  کی آنکھ مچولی ذہن کو ایک نئے  انداز سے  جگاتی اور نظر کو ایک نئی گہرائی عطا کرتی ہے۔ ‘‘

                                     (مٹھی بھر دل)

            لیکن علی باقر کے  اندر اس بات کا احساس ضرور  رہا کہ اردو کے  جغادری نقادوں  نے  علی باقر کو وہ مقام نہیں  دیا جس کے  وہ مستحق تھے۔ اپنے  تیسرے  مجموعے  ’بے  نام رشتے ‘  کے  دیباچے  میں  علی باقر ناقدینِ کرام کے  روئیے  کے  بارے  میں  لکھتے  ہیں

’’ اردو ادب کے  موجودہ حالات نہایت تکلیف دہ ہیں۔ لکھنے  والوں  اور پڑھنے  والوں  کے  درمیان ناقدوں  کی ایک بڑی فوج آ کر کھڑی ہو گئی ہے  اور ان کی وجہ سے  ہر طرف انتشار کا موسم ہے ، لڑائی جھگڑے  کا موسم ہے  گروپ بندی کا موسم ہے۔ ناقد اصرار کرنے  لگے  ہیں  کہ انھیں  اور صرف انھیں  ادب کی پہچان ہے ، ادیب اور شاعر کی پہچان ہے  اور چونکہ اکثر ناقد حضرات با رسوخ ہیں، وہ جس کو چاہتے  ہیں  عزت دیتے  ہیں  اور جس کو چاہتے  ہیں  ذلیل کرتے  ہیں۔ یہ لوگ خود ادب تخلیق نہیں  کرتے  لیکن ادب کی دنیا میں  اپنی آواز بلند رکھتے  ہیں  تاکہ اس آواز کو وہ خود اور ان کے  حواری سن سکیں۔ ‘‘

            علی باقر نے  یہ سطور 1987ء میں  لکھی تھیں  لیکن اگر غور کریں  تو یہ صورتِ حال ہر زمانے  میں  یونہی رہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔****۔۔۔۔۔۔۔

 

برق یوسفی، شخص اور شاعر

            سادہ دلی، معصومیت، خلوص، محبت اور حوصلہ مندی کے  آمیزے  کا کوئی نام دیا جا سکتا ہے  تو میرا خیال ہے  اسے  برق یوسفی کہا جائیگا ……. برق یوسفی صرف شاعر ہے  ………سیدھا اور سچا شاعر ……. مقصدیت سے  بھرپور تازگی اور ولولے  سے  معمور………برق یوسفی کہتے  ہیں  کہ انھیں  کالی شئے  میں  بھی خوبصورت نظر  آتی ہے۔ لیکن پھر وہ کھرے  اور کھوٹے  کی پہچان کو قلب و نظر کے  اطمینان کا سبب بتاتے  ہیں  اور جب قلب و نظر کی بات کرتے  ہیں  تو انہیں  احساس ہوتا ہے  کہ دل کی خصوصیت اضطراب ہے  اور نظر کی خصوصیت ہے  بے  چین رہنا۔ شاید اس طرح انھوں  نے  اپنی شاعری کے  اندر چھپی ہوئی اضطرابی کیفیت کو ایک نام دینے  کی کوشش کی ہے …… اور اس طرح شاید اس اضطراب کی وضاحت کرنے  کی کوشش کی ہے  جو ان کی شاعری کی اندرونی تہوں  میں  موجود ہے  اور بے  چین ہو کر کہہ اٹھتے  ہیں  کہ

مرے  اندر بڑی آندھی اٹھی ہے  (اضطراب ۹۵)

ٍ            سچ پوچھئے  تو شاعری خود ایک اضطرابی کیفیت ہے …… ایک مسلسل تلاش ……. اور یہی تلاش برق یوسفی کو شاعری کے  در پر لے  آئی ہے  …. اور وہ ایک لامتناہی سلسلے  کی کڑیاں  توڑنے  اور جوڑنے  کا عمل دہراتے  ہوئے  جدت کی طرف پرواز کرتے  ہیں …… روایت سے  بغاوت کرنے  کی شعوری کوشش انہیں  ترقی پسندی کی طرف لے  آتی ہے۔ اس طرح ان کی زندگی اور شاعری کا مطمع نظر رہ جاتا ہے  کہ سماج میں  استحصال کرنے  والی کالی قوتوں  کو برباد کر دیا جائے۔ ترقی پسندی سے  برق کا اس لئے  ربط بڑھا کہ انہیں  مخدوم کی رفاقت نصیب ہوئی۔ ابتداء میں  برق یوسفی نے  ترقی پسندی کو صرف اس لئے  گلے  لگایا کہ یہ اس عہد کا فیشن تھا۔ لیکن روایت سے  بغاوت کرنے  کی خواہش نے  برق یوسفی کو ترقی پسندی کے  معنی سمجھا دیئے۔ اور پھر حالات نے  بھی انہیں  ایک ایسا ماحول دیا جہاں  ترقی پسندی صرف سرخ پرچم کو سلام کرنا ہی نہیں  تھا بلکہ اپنے  مقصد کے  حصول کے  لئے  سامراجی قوتوں  سے  ٹکرا جانے  کا حوصلہ بھی ان کے  خیال میں  اسی آئیڈیالوجی سے  ممکن تھا۔ اور برق یوسفی کامریڈ ہو گئے ….. باضابطہ طور پر مزدوروں  کا نیتا۔ لیکن ان کے  اندر چھپا ہوا شاعر اس پر  آشوب دور میں  بھی گنگناتا رہا……نظمیں  ……غزلیں ……لیکن برق یوسفی نے  کبھی سمجھوتہ نہیں  کیا۔ انھوں  نے  کبھی اپنے  ذاتی مقصد کے  حصول کے  لئے  اصولوں  کی قربانی نہیں  دی۔ اور اگر برق یوسفی نے  یہ کیا ہوتا تو شاید وہ ایک کامیاب انسان رہے  ہوتے  …..مگر برق نے  وفا کا سودا نہیں  کیا…….اور بس یہی کہتے  رہے۔

اے  خرید ار وفا، تو نے  کبھی سوچا ہے

جسم بکتا ہے  محبت تو نہیں  بک سکتی

عشق کی روح لطافت تو نہیں  بک سکتی

            برق کی زندگی غم سے  عبارت ہے۔ حالات کا غم، سماج کا غم، محبت میں  ناکامی کا غم،یہ نظم دیکھئے  …… اس نظم میں  برق کی داستان معاشقہ کا کیسا خوبصورت اظہار ہے  ……صرف چند لفظ اور ان چند لفظوں  نے  ایک زمانے  کو سمیٹ لیا ہے …… یہ نظم ہے  ’’درپن‘‘ ملاحظہ کیجئے

’’درپن‘‘

وہ دروازہ کھلا تھا

اس کے  آگے  ایک آنگن تھا

شجر شہتوت کا تھا

موتیا کی بیل ہنستی تھی

اسی آنگن کے  آگے

ایک کمرہ خوبصورت تھا

جہاں  پر ایک الماری تھی

اس میں  ایک درپن تھا

اسی درپن میں  ہم تم مسکرا کر دیکھ لیتے  تھے

کبھی ایک دوسرے  کو منھ چڑا کر دیکھ لیتے  تھے

کہا تھا میں  نے  آئینے  کے  آگے  آدمی پاگل

کہا تھا تم نے  آئینہ ہے  میرے  روپ سے  بسمل

وہی کمرہ ہے  میں  ہوں  اور درپن مجھ پہ ہنستا ہے

مرا ہی عکس مجھ سے  پوچھتا ہے  کون بسمل ہے

بتاؤ حسن دانشمند ہے  یا عشق پاگل ہے

مرے  لب کانپ جاتے  ہیں  مرا دل بیٹھ جاتا ہے

وہ دروازہ کھلا ہے

اس کے  آگے  ایک آنگن ہے

شجر شہتوت کا ہے، موتیا کی بیل ہنستی ہے

            نظم کی ابتدائی حصے  میں  ماضی اور آخری حصے  میں  حال کی تصویر کشی ہے  منظر وہی ہے  …….. ماحول سارا جوں  کا توں  ہے۔ مگر صرف ایک چیز درمیان حائل ہو گئی ہے  اور وہ ہے  بے  وفائی، اور حسن کی بنیاد دانشمندی پر ہے۔ جہاں  فیصلہ بہت سوچ کر کیا جاتا ہے  عشق کی بنیاد پاگل پن پر ہے۔ جہاں  فیصلہ کرتے  ہوئے  یہ نہیں  سوچا جاتا کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔

            حادثے  برق یوسفی کے  ساتھی رہے  ہیں۔ اور ہر حادثے  کو برق یوسفی نے  بڑی معصومیت سے  برداشت کیا ہے۔ ان کی سادہ دلی نے  انہیں  بھلے  ہی ریشم و کمخواب سے  محروم کر رکھا ہو لیکن یہی سادہ دلی ان کا سرمایہ حیات ہے۔ برق کے  ہاں  صرف محبت ہے …… وہ نفرت کرنا نہیں  جانتے  اور ان کے  ہاں  دشمنی کا کوئی تصور نہیں۔ درحقیقت برق یوسفی ایک بے  حد معصوم شخصیت کا نام ہے۔ اور یہی کیفیت برق کی شاعری کا طرۂ امتیاز ہے …… ایک بہت مختصر نظم درج ہے  جو شاید برقی کی شخصیت پوری طرح عکاسی کرتی ہے۔

ماں  باپ سے  لے  کر بھائی تک

معشوق سے  لے  کر بیوی تک

ہر اک پہ بھروسہ ہم نے  کیا

معلوم ہوا اس دنیا میں

بے  لوث محبت مہنگی ہے

بے  نام شرافت مہنگی ہے

رشتوں  کا سمجھنا مشکل ہے

جذبوں  کا سمجھنا مشکل ہے

لے  ڈوبا ہے  ہم کو بھولاپن

جل بجھ ہی گیا اپنا تن من

            اور اس نظم کا عنوان ہے  ’’تجربے  کی چوٹ‘‘ ….. برق تجربے  کی چوٹ کھاتے  ہیں  اور بڑی معصومیت سے  اس چوٹ کو سہلاتے  ہوئے  دوسری چوٹ کے  لئے  تیار ہو جاتے  ہیں  ….. مگر دلچسپ بات یہ ہے  کہ انھیں  جینے  کا فن بھی آتا ہے۔ وہ تنہائی کے  غم سے  نبرد آزما نہیں  ہوتے  بلکہ چپکے  سے  سرگوشی کرتے  ہیں۔

اکیلے  پن کو کوئی خواب دے  دوں

شب دیجور کو مہتاب دے  دوں

            برق کی شاعری میں  تشبیہات اور استعارات کی بہتات نہیں۔ انھوں  نے  اپنی شاعری کو صناعی اور کرافٹ مین شپ یا کاریگری سے  نہیں  سجایا۔ انھوں  نے  زبان و بیان اور عروض کی نزاکتوں  کو خواہ مخواہ اپنے  گلے  کا ہار نہیں  بنایا۔ برق کی شاعری میں  جو سادگی ہے  وہی ان کا طرۂ امتیاز بن جاتی ہے۔ چاہے  وہ ایک مزدور کے  لبوں  ہر مچلتا ہوا نغمہ ہو، یا رومانی ماحول میں  بہتے  ہوئے  سبک خرام جھرنے  کی طرح ہلکا پھلکا اظہار ……..سادگی اور معصومیت اس کا اہم پہلو ہیں۔ یہی سادگی اور معصومیت برق کی شخصیت کا حصہ بھی ہے  اور ان کے  فن اور ان کی شاعری کا جزو بھی…….. زندگی کی تمام تر کلفتوں  کے  باوجود برق کے  ہاں  مایوسی نہیں  بلکہ زندگی کی امنگ ہے۔ باتیں  بہت کی جا سکتی ہیں۔ ایک ایک نظم، ایک ایک غزل بلکہ ایک ایک شعر پر دفتر کے  دفتر سیاہ کئے  جا سکتے  ہیں۔ لیکن پھر بھی شاید ایک سچے  شاعر کا حق ادا نہ کیا جا سکے۔ میں  آخر میں صرف دو سطریں  اپنی آپا، اپنی زینت آپا، ہم سب کی زینت آپا کی تحریر سے  پیش کرنا چا ہوں  گا جو انھوں  نے  برق کے  بارے  میں  لکھا ہے  وہ لکھتی ہیں …….

            ’’برق کو مشکلات کا بھی اندازہ ہے  اور غموں  کا احساس بھی، مگر وہ ان سے  مغلوب نہیں  ایک نئی سحر کا آرزومند ہے۔ اس لئے  تھکن،تنہائی، غم کی فراوانی، ناکامی و نامرادی کے  باوجود اس کی نظموں  میں  ایک بہترین زندگی اور شریفانہ انسان دوستی موجود ہے  اور اچھے  مستقبل کی امید بھی۔ ‘‘

 ————————-٭٭————————-

 

دکنی قصائد میں  نعت گوئی

            یہ تو سب جانتے  ہیں  کہ قصیدہ  عربی صنفِ سخن ہے  اور فارسی کے  راستے  سے  اردو میں  داخل ہوئی۔ فرق صرف یہ ہے  کہ عربی شعراء نے  صرف قافیے  پر اکتفا کیا جب کہ فارسی شعراء نے  عربی شعراء کی اتباع میں  مقفیٰ قصیدے  لکھنے  کے  علاوہ اس میں  ردیف شامل کر کے  بھی قصائد لکھے۔ اردو کے  شاعروں  نے  بھی اسی طریقے  کو اپنایا۔

            ابتدائی عربی شاعری میں  قصیدے  ہی کا سانچہ استعمال کیا جاتا تھا اور اس میں  ہر طرح کے  موضوعات باندھے  جاتے  تھے  لیکن بعد میں  مدحیہ مضامین بھی باندھے  جانے  لگے  اور انعام و ا کرام کے  لیے  رئیسوں  کی مدح میں  قصیدے  لکھے  گئے۔ پھر جب فارسی میں  قصائد لکھے  گئے  تو ان کا مقصد بھی امراء کی مدح کر کے  ان سے  انعام و ا کرام حاصل کرنا تھا۔ اس طرح قصیدہ مدح سرائی کے  لیے  مخصوص ہو گیا۔ کبھی یہ بھی ہوا کہ شعراء نے  اپنے  دل کی بھڑاس نکالنے  کے  لیے  ہجو لکھی اور قصیدے  کے  سانچے  کو ہی وسیلہ بنایا۔ چناں  چہ قصیدے  میں  مدحیہ اور ہجویہ دونوں  طرح کے  مضامین باندھے  گئے۔ ویسے  عام طور پر قصیدے  کا اطلاق مدح پر ہی ہوتا ہے  جو ہمارے  روزمرہ میں  بھی داخل ہے۔ زندہ افراد کے  علاوہ اہم شخصیتوں  خصوصاً حضور نبی کریم ؐ اور دیگر بزرگانِ دین کی مدح میں  قصائد لکھے  گئے۔

            کئی دوسری اصناف کی طرح اردو قصیدہ نگاری کا آغاز دکن سے  ہوتا ہے۔

نصیر الدین ہاشمی نے  محمد شاہ بہمنی کے  دور کے  شاعر مشتاق اور لطفی کا ذکر کیا ہے  اور ان دونوں  کے  قصائد کے  نمونے  بھی دئیے  ہیں۔ لیکن یہ قصائد نعتیہ نہیں  ہیں  اور نہ ہی ان میں  کوئی نعتیہ شعر ہے۔ چونکہ اس مضمون کا موضوع نعت سے  متعلق ہے  اس لیے  ان شعرا کے  قصائد سے  مثالیں  پیش کرنے  سے  گریز کیا گیا ہے۔

            عادل شاہی سلطنت کا بادشاہ علی عادل شاہ شاعری سے  گہرا شغف رکھتا تھا اور شاہی تخلص کرتا تھا۔ ڈاکٹر زینت ساجدہ نے  کلیات شاہی کے  عنوان سے  اس کا کلام مرتب کر کے  شائع کر دیا ہے۔ اس کلیات میں  چھ قصیدے  ہیں  جن میں  سے  ایک قصیدہ نبی کریم ؐ کی مدح میں  ہے۔ اس قصیدے  کا مطلع یہ ہے

دیکھو نوروز چنچل یو بہارستاں  دکھایا ہے

بَرک بِن پُھل و پھولاں  تیں  پون کے  ہتھ کھلایا ہے

شاہی نے  تشبیب میں  بیس شعر کہے  ہیں  اور اس کے  بعد گریز یوں  ہے

گلابی پھول پر دعویٰ لگیا کرنے  سمن سینتی

کھیا مالی نہ کر دعویٰ بڑا و و ناؤں  پایا ہے

و و بولیا باغ مالی سوں  بڑا ہے  ناؤں  سو کس کا

کھیا وہ اسم احمد ا کا جنے  دیں  اَپ نپایا ہے

محمد شاہ مرسل کا لگیا جب نعت کہنے  میں

میٹھائی پاکے  کے  من میرا یو مضموں  چن کے  لیایا ہے

            اور اب یہاں  سے  مدحِ رسول ؐ کا آغاز ہوتا ہے۔ مدح کے  دو شعر ملاحظہ ہوں

محمد سا نہیں  پیدا کیا کرتار تِر جگ میں

اوسی کے  عشق تے  سونسار تِر جگ کا بھرایا ہے

شریعت ہور حقیقت کا عنایت سب کیا سائیں

بڑا رتبہ دے  عالم میں  کرم اپنا جتایا ہے

            اس قصیدے  کے  آخری تین شعر یہ ہیں

لکھیا ہوں  نعت یو سارا طبع مجھ روشنی پانے

رسن کوں  کاں  اچھے  طاقت تْہیں  حق کا سرایا ہے

مضامیں  کے  بھریا موتی چتر پُن کے  لے  چو سیتے

قصیدیاں  میں  مرصع کر قصیدہ یو بنایا ہے

تمارے  عشق کا نس دن دندھا دل میں  دھریا شاہی

چرن تل سیس لا اپنا دعا منگنے  کو دھایا ہے

            قطب شاہی دور میں  جو قصائد لکھے  گیے  ان کے  بارے  میں  نصیر الدین ہاشمی لکھتے  ہیں

’قصائد اپنی شوکت لفظی ‘ طمطراق اور تخیل کی بلند پروازی کے  لحاظ سے  تعریف و ستائش کے  مستحق ہیں  ‘

(دکن میں  اردو۔  ص 80)

فیروز قطب شاہی دور کا ایک اہم شاعر گزرا ہے  جس کی شاعرانہ صلاحیتوں  کا وجہی اور ابن نشاطی نے  کیا ہے۔ لیکن اس کا کوئی قصیدہ نہ مل سکا۔ اور نہ ہی محمود ملا خیالی وجہی وغیرہ کے  قصائد دستیاب ہو سکے۔ مگر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے  کہ ان شاعروں  نے  قصائد یقیناً لکھے  ہیں۔ اس بات کی تصدیق پروفیسر سیدہ جعفر کی تحریر سے  بھی ہوتی ہے  وہ لکھتی ہیں

’’  دکن میں  بیجا پور کے  عادل شاہی حکمرانوں  اور گول کنڈے  کے  قطب شاہی سلاطین نے  دوسری اصنافِ سخن کے  ساتھ قصیدہ نگاری کی بھی حوصلہ افزائی کی اور ان کی قدردانی اور سرپرستی نے  اس صنف کو پروان چڑھایا۔ ‘‘

(دکنی ادب میں  قصیدے  کی روایت۔ ص 44)

            محمد قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس نے  قصائد بھی لکھے  ہیں  جو اس کے  کلیات میں  شامل ہیں۔  عید میلاد النبی پر محمد قلی قطب شاہ کے  قصیدے  کا مطلع یوں  ہے  :

نبی مولود لیایا ہے  خبر سر تھے  خوشی کا

سدا صلواۃ بھیجو سب محمد ہور علی کا

بڑای ہے  بہوت اس دیس کوں  عیداں  میں  سارے

سعادت میں  سعادت ہے  سعادت اس گھڑی کا

سو ساعت کی سعادت میں  دعا منگے  جو کوئی

لکھیں  بخشیش کا خط اس پیشانی پر جلی کا

نبی مولود ہے  دیباچہ سب مولود میانے

سو ہے  نوروز عیداں  میں  انند یے  سروری کا

            کلیات محمد قلی قطب شاہ مرتبہ ڈاکٹر سیدہ جعفر میں  اس قصیدے  کا عنوان ’عید میلاد النبی‘ دیا گیا ہے۔ (ص 711)۔ لیکن یہ قصیدہ بیک وقت نعت بھی ہے  اور منقبت بھی‘ کیوں  کہ اس کے  زیادہ تر اشعار میں  سرکارِ دو عالم ؐ کی مدح کے  ساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہ‘ کی مدح بھی ملتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے  کہ محمد قلی قطب شاہ اثنائے  عشری عقائد کا پیرو تھا۔ کلیات میں  ’بعثت نبی صلی اللہ علیہ و سلم‘ کے  عنوان سے  ایک قصیدے  کے  صرف دو شعر درج کیے  گئے  ہیں  اور نیچے  نوٹ دیا گیا ہے  کہ اس کے  بعد کے  صفحات موجود نہیں  ہیں۔ وہ دو اشعار یہ ہیں :

حضرت نبی پیغمبری حق تھے  سو اس دن پائے  ہیں

جبرئیل کھن تھے  مصطفی کن وحی لے  کر آئے  ہیں

سارے  نبیاں  پر  سروری دیتا خدا حضرت کوں  تو

قدرت تھے  چتّر ہوئے  کر سر پر ابھالاں  چھائے  ہیں

            محمد قلی کے  قصیدوں  میں  تشبیب اور گریز نہیں  ملتے۔ اس نے  صرف مدح اور دعا لکھی ہے۔

            ان نعتیہ قصائد کے  علاوہ محمد قلی نے  نعتیں  بھی لکھی ہیں۔ کلیات محمد قلی قطب شاہ مرتبہ ڈاکٹر سیدہ جعفر میں  پانچ نعتیں  ملتی ہیں  جن کے  مطلعے  پیش ہیں۔

تج مکھ اٰجت کی جوت تھے  عالم دٖیپن ہارا ہوا

تج دین تھے  اسلام لے  مومن جگت سارا ہوا

اسم محمد تھے  ا ہے  جگ میں  سو خاقانی مجھے

بندہ نبی کا جم رہے  سُہتی ہے  سلطانی مجھے

چاند سورج روشنی پایا تمارے  نور تھے

آب کوثر کوں  شرف تھڈی کے  پانی پور تھے

دیا بندہ کوں  حق نبی کا خطاب

حکم دے  دیا نور جوں  ماہتاب

خدا منج مہر سوں  اٰپی نبی صدقے  کیا رافع

منجے  تختِ سلِماں  جوں  وہی آپی دیا رافع

            ان میں  سے  تیسری نعت کے  تین اشعار ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے  اپنے  مضمون ’دکھنی قصائد‘(مشمولہ مجلہ عثمانیہ 1963-64دکنی ادب نمبر) میں  درج کیے  ہیں۔ متن کی غلطیوں  سے  قطع نظر یہ اشتباہ ہوتا ہے  کہ یہ اشعار بھی صنفِ قصیدہ سے  تعلق رکھتے  ہیں  جب کہ ڈاکٹر سیدہ جعفر نے  انھیں  نعت کے  زمرے  میں  رکھا ہے  اور یہی درست ہے۔ قصیدے  کی بظاہر خصوصیت یہ ہے  کہ اس کے  ہر شعر میں  مطلع کے  قوافی کی پابندی کی جاتی ہے۔ غزل کی ہیئت بھی یہی ہے  لیکن غزل کا ہر شعر ایک مکمل اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ قصیدے  کی سب سے  اہم شرط مدح ہے  اور مدح تک پہنچنے  کے  لیے  شاعر تشبیب اور گریز کی راہ اختیار کرتا ہے۔

اس مضمون کا اختتام ہم ولی کے  نعتیہ قصیدے  پر کرتے  ہیں۔ اس قصیدے  کا آغاز حمدِ باری سے  ہوتا ہے  جس کا مطلع یوں  ہے

عشق میں  لازم ہے  اول ذات کوں  فانی کرے

ہو فنا فی اللہ دائم یاد یزدانی کرے

چودہ حمدیہ اشعار کے  بعد نعت کے  اشعار یوں  ہیں  :

زندگی پاوے  ابد کی جگ منیں  و و خضرِ وقت

جو اپس کوں  فدویء محبوبِ سبحانی کرے

یا محمد دو جہاں  کی عید ہے  تجھ ذات سوں

خلق کوں  لازم ہے  جیو کوں  تجھ پہ قربانی کرے

وہ اچھے  آزاد جو بازار میں  تجھ حسن کے

بندگی میں  آپ کوں  جیوں  ماہِ کنعانی کرے

زیّنُوْ اِ لْحَانَکَمْ کا گر سنے  داود ناد

ہو وے  خوش دربار پر تیرے  خوش الحانی کرے

نوح تجھ رحمت کی کشتی باج کیئں  پاوے  نہ تھاہ

تجھ غضب کا گر سمندر جوشِ طوفانی کرے

رتبۂ عالی میں  دیکھے  حق نزیک اپنا کلام

گر کلیم اللہ آ تیری ثنا خوانی کرے

جسم کوں  سٹ روح سوں  آوے  بہت مشتاق ہو

گر تری امت خلیل اللہ کی مہمانی کرے

تب مسیحا فقر کے  خط کو سکھے  گا تجھ نزیک

مشق کرنے  فقر کی جب لوح پیشانی کرے

جس مکاں  میں  ہے  تمھاری فکرِ روشن جلوہ گر

عقل اول آکے  وھاں  اقرارِ نادانی کرے

حکمتاں  کی سب کتاباں  دھو سٹے  یک بارگی

گر فلاطوں  تجھ دبستاں  میں  سبق خوانی کرے

تجھ قدم پر جو اپس کا سیس راکھے  جیوں  سُرج

وہ قیامت لگ اپس چہرے  کو ں  نورانی کرے

کیا ملک کیا انس و جن یوجگ میں  کس کوں  ہے  سکت

خط بنا تجھ مکھ کے  جو تفسیرِ قرآنی کرے

دیکھ طوبیٰ قد ترا جنبش میں  آوے  شوق سوں

جب گلستانِ ارم کی تو خرامانی کرے

عارفاں  بولیں  گے  جان و دل سوں  لاکھوں  آفریں

جب ولی تیری مدح میں  گوہر افشانی کرے

            درج بالا قصیدہ مکمل طور پر نعتیہ ہے۔ اس کے  علاوہ ولی کے  کلیات میں  ایک اور قصیدہ ملتا ہے  جس کا عنوان ہے   ’ در حمد و نعت و منقبت و موعظت ‘۔ جیسا کہ نام سے  ظاہر ہے ، اس قصیدے  میں  حمد باری کے  بعد نعتِ محمدؐ اور پھر منقبت خلفائے  راشدین و امام حسن و امام حسین ہے۔ آخر میں  دنیا کے  بارے  میں  تفصیلی اور نصیحت سے  معمور بیان ہے۔ یہاں  صرف نعت کے  اشعار درج کیے  جا رہے  ہیں۔

بعد حمدِ خدا ے  بے  ہمتا

یاد کر نعتِ سیدِ مرسل

جس کی ہمت کی ہے  ترازو میں

دو جہاں  مثلِ دانۂ خردل

اس کی مجلس میں  آہوا ہے  کھڑا

صفِ آخرمیں  جوہر اول

گر ہو و و آفتاب گرمِ عتاب

ٓآسماں  جائیں  مثلِ موم پگھل

دیکھ اس کے  جلال و عظمت کوں

بادشاہاں  کا دنگ ہے  دنگل

گر کرے  بحر پر غضب کی نظر

ماہیاں  جائیں  جل کے  بھیتر جل

اْس فصاحت اگے  دِسے  مج کوں

نطقِ سحباں  عبارتِ مہمل

کاملاں  سوں  سنا ہوں  یہ نکتہ

عشق اس کا ہے  ہادی اکمل

نام اس کا ہے  حرزِ ہر مومن

یاد اس کی ہے  واقعِ کلول

دیکھ اس زلف و مکھ کوں  بے  جا ہے

بحر و بر میں  عنبر و صندل

ان اشعار میں  جو صنعتیں  ہیں  ان میں  سے  چند کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔ تیسرے  شعر میں  اول اور آخر استعمال ہوا ہے  جو صنعتِ تضاد ہے۔ پانچویں  شعر میں  دنگ اور دنگل آیا ہے۔ یہ تجنیسِ مطرف زائد الآخر ہے۔ چھٹے  شعر میں  جل دو مرتبہ الگ الگ معنوں  میں استعمال کیا گیا ہے۔ یہ تجنیسِ تام مستوفی ہے۔

            ولی کے  ان دو قصائد میں  ایک بات بری طرح کھٹکتی ہے  اور وہ یہ ہے  کہ ولی نے  حضور نبی کریم ؐ کے  عتاب اور غضب کا بھی ذکر کیا ہے  جب کہ حضورؐ کی ذاتِ با برکات رحمت اللعالمین تھی۔

   ***

 

دکن میں  اردو ناول کا ارتقا

            ادبی تخلیق دراصل انسانی ذہن کی ہمہ جہت کیفیات کے  منضبط اظہار کا نام ہے۔ تخلیق کار اپنے  کھوئے  ہوئے  خوابوں  کو تخلیق میں  سمو دیتا ہے۔ یہی وہ خواب ہیں  جو انسانی ذہن کو ہمیشہ متحرک اور فعال بنائے  رکھتے  ہیں۔ اور ناول وہ صنف ادب ہے  جس میں  زندگی متحرک اور فعال نظر آتی ہے۔ لمحہ بہ لمحہ تغیر پذیر زندگی کی عکاسی کے  لئے  ناول سے  بہتر اور کوئی وسیلہ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے  کہ ناول نگار اپنا ناطہ اس عہد اور اس سماج سے  نہیں  توڑ سکتا۔ جس میں  وہ نہتا ہے  اور ساتھ ہی اس کا اہنا نظریۂ حیات بھی اس کی تخلیق کے  اندار ایک زیریں  لیر کی طرح رواں  دواں  نظر آتا ہے۔ ناول نگار کی یہ خوبی ہے  کہ وہ اپنے  معاشرے  کو زندہ اور متحرک حالت میں  پیش کرنے  پر قادر ہوتا ہے۔ وہ اپنے  عہد کے  سیاسی، سماجی، معاشی، تہذیبی، نفسیاتی، اخلاقی اور معاشرتی مسائل کا تجزیہ کرتے  ہوئے  اگر حل نہیں  پیش کر سکتا تو  کم از کم ان کے  گھناؤنے  پن ہی کو پیش کر کے  اپنے  فرض سے  سبک دوش ہونے  کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے  کہ ناول نگار کا مشاہدہ کس حد تک پختہ ہے۔ اگر ناول نگار کے  مشاہدے  میں  پختگی نہ ہو گی تو حیات کی حقیقتوں  کی صحیح عکاسی ممکن نہ ہو سکے  گی۔ کیونکہ تفریح، دلچسپی اور تحیر سے  حظ و نشاط کی کیفیتوں  کو پیدا کرنے  کے  ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہوتا ہے  کہ ناول نگار زندگی کے  گوں  ناگوں  مسائل کا اپنے  مخصوص انداز سے  تجزیہ کرے۔ سچ بات تو یہ ہے  کہ زندگی کے  مسائل ہی ناول میں  دلچسپی اور تحیر کا سبب بنتے  ہیں  اگر انہیں  صحیح انداز میں  پیش کیا جائے۔

            جہاں  تک اردو میں  ناول نگاری کا تعلق ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کو پہلا ناول نگار قرار دیا جاتا ہے  اور مرأۃ العروس کو پہلا ناول ……. جو ۱۸۶۹ء میں  لکھا گیا۔ اس کے  اٹھائیس سال بعد حیدر آباد میں  مہاراجہ سرکشن پرشاد نے  ’’مطلع خورشید‘‘ تحریر کیا جس کو دکن میں  لکھا گیا پہلا ناول کہا جا سکتا ہے۔ یہ ناول ۱۳۱۵ھ یعنی ۱۸۹۷ء میں  لکھا گیا۔ اس ناول کی تکمیل پر داغ نے  قطعہ تاریخ لکھا تھا۔ کہتے  ہیں

اے  مہاراجہ بہادر شاد

شاد آباد تجھ کو رکھے  خدا

خوب ناول نیا کہا دلچسپ

ایسے  کہنے  کا واہ کیا کہنا

نام اس کا ہے  ’’مطلع خورشید‘‘

اس کی تاریخ تھی یہی زیبا

داغ نے  یہ کہا ہے  مصرع سال

آفتاب سخن بھی اب نکلا

            اس ناول میں  ایک شریف گھرانے  کی لڑکی خورشید آرا کا ذکر ہے  جو اتفاق سے  مرزا مخمور کو دیکھ کر اس کے  عشق میں  مبتلا ہو جاتی ہے۔ اس ناول میں  شاد نے  عورتوں  اور خصوصاً گھروں  میں  کام کرنے  والی عورتوں  کی زبان، محاورے  اور روزمرہ کو بڑی خوبی سے  پیش کیا ہے۔ اس دور کے  ناولوں  کے  پلاٹ اور مرکزی خیال کو ملحوظ رکھتے  ہوئے  ’’مطلع خورشید‘‘ کو کسی اعتبار سے  بھی کمتر نہیں  کہا جا سکتا۔ ویسے  خود مہاراجہ کشن پرشاد اپنی فطری انکساری کی وجہ سے  اس ناول بہت معمولی سمجھتے  ہیں۔ ایک خط میں  لکھتے  ہیں۔

’’مطلع خورشید آپ کے  پاس بھیجتا ہوں  چپ چاپ نظر ے  گوش گزرے۔ بائے  بسم اللہ سے  تائے  تمت تک دیکھ جاؤ مگر کہیں  اعتراض نہ جڑ دینا۔ مجھے  خود ہنسی آتی ہے  کہ میں  ٹوٹے  پھوٹے  قصے  کو ناول کہہ کر ناول نویسوں  کے  زمرے  میں  گویا لہو لگا کر شہیدوں  میں  داخل ہوتا ہوں۔ یا یوں  کہو کہ اس فنِ ناول نویسی کو دھبہ لگاتا ہوں۔ الغرض جو کچھ ہو مگر بک تو دیا ہے  ……..‘‘

(رقعات شاد بحوالہ ڈاکٹر حبیب ضیائی)

            اسی انکسار نے  شاد پر یہ الزام عاید کرنے  میں  مدد کی کہ شاد خود نہیں  لکھتے  بلکہ سرشار سے  لکھواتے  ہیں۔ شاد کے  دوسرے  ناول ’’چنچل نار‘‘ کے  بارے  میں  تو یہ باتیں  بڑے  شدومد سے  کہی گئیں  اور شاد کی زندگی ہی میں  ان پر الزام عائد کیا گیا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ شاد طبقہ امرا سے  تعلق رکھتے  تھے  اور امرا کے  بارے  میں  یہ شہرت رہی ہے  کہ وہ فن اور علم خریدتے  ہیں۔ چنانچہ عبدالماجد دریابادی اور ڈاکٹر حکم چند نیر نے  اس کی تردید کی اور ڈاکٹر حبیب ضیاء نے  بھی تفصیلی بحث کر کے  اس خیال کو غلط بتایا۔ اور انداز بیان میں  لکھنوی لہجہ کی وجہ سرشار کے  اسلوب کا تتبع قرار دیا۔

            شاد کا  تیسرا ناول بزم خیال ہے۔ جس میں  مشرقی و مغربی تہذیب کا ٹکراؤ بھی ہے  اور مذاہب کی اصل پر بحث بھی ! ساتھ ہی شاد نے  اس بات کی بھی کوشش کی ہے  کہ تہذیب و تمدن اور معاشرت کا نقشہ کھینچنے  میں  کوئی کمی نہ رہ جائے  چنانچہ ہولی، عید، تہوار، شادی بیاہ، جشن وغیرہ کی مختلف رسومات کو اس ناول میں  محفوظ کر دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں  اس عہد کی ایک اہم تحریک ترقیِ نسواں  کا پرتو بھی اس ناول میں  نظر آتا ہے  اور شاد نے  عورت کی اہمیت ثابت کرتے  ہوئے  تعلیم نسواں  پر زور دیا ہے۔ اس ناول میں  منظر نگاری اپنے  عروج پر ہے۔ منظر نگاری کا یہ انداز شرر کے  یہاں بھی ملتا ہے۔ تخیل کی رنگ آمیزی اور بیان کا پر شکوہ انداز جو شرر کے  یہاں  ہے  وہی شاد کے  ہاں  بھی نظر آتا ہے۔ غنیمت یہ ہے  کہ ناقدان ادب نے  محض اس وجہ سے  یہ نتیجہ اخذ نہیں  کیا کہ بزمِ خیال شرر کی تصنیف ہے۔ شاد کے  بعد حیدر آباد کی ناول نگاری میں  سناٹا نظر آتا ہے۔ البتہ سرشار اور رسوا کے  ناول دنیائے  ادب میں  مہرِ تاباں  کی طرح چمکتے  نظر آتے  ہیں۔ لیکن چوں  کہ دونوں  کا تعلق حیدر آباد سے  نہیں  رہا بلکہ یہ صرف ملازمت کے  لئے  حیدر آباد میں  رہے  تھے  اس لئے  ان کے  ذکر سے  گریز کیا جا رہا ہے۔

            ۱۹۲۵ء اور ۱۹۳۰ء کے  درمیان حیدر آباد کی ایک خاتون طیبہ بیگم نے  ’’حشمت النسا‘‘ اور ’’انوری بیگم‘‘ نام سے  دو ناول لکھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ترقیِ نسواں  کی تحریک حیدر آباد میں  ایک لہر کی طرح ذہن و دل کو متاثر کر رہی تھی اور عورت کے  حقوق کے  لئے  دنیا بھر میں  احتجاج کیا جا رہا تھا۔ طیبہ بیگم نے  اپنے  ان ناولوں  میں  عورت کے  گھریلو مسائل اور تعلیم کے  فقدان کی وجہ سے  درپیش مسائل کو پیش کرنے  کے  ساتھ ساتھ حیدر آباد کی مخصوص تہذیب و معاشرت کا بھی کامیاب نقشہ کھینچا ہے۔ طیبہ بیگم کے  بعد جو نام سامنے  آتا ہے  وہ بیگم صغریٰ ہمایوں  مرزا کا …… جن کے  ناول زہرا یا مشیرِ نسواں  میں  عورت کا یک نیا روپ پیش کیا گیا۔ صغریٰ ہمایوں  مرزا کے  اس ناول میں  عورت نئے  زمانے  اور نئی تہذیب کی آنکھ بند کر کے  تقلید نہیں  کرنا چاہتی بلکہ انہیں  پرکھنے  کی کوشش کرتی ہے۔ اور مشرقی و مغربی تہذیب کے  تمام اچھے  اصولوں  کو اپنے  اندر جذب کر کے  ایک مثالی معاشرے  کی تشکیل چاہتی ہے۔ وہ یہ چاہتی ہے  کہ مغربی تہذیب کی خوبیوں  کو اس طرح اپنایا جائے  کہ مشرقی تہذیب کی تمام اعلیٰ قدریں  باقی رہیں۔ صغریٰ ہمایوں  مرزا کا یہ متوازن رویہ ان کے  دوسرے  ناول ’’سرگزشتِ ہاجرہ‘‘ میں  بھی نظر آتا ہے۔ جس کے  نسوانی کردار مشرقی تہذیب کا نمونہ بھی ہیں  اور مغربی تہذیب سے  آراستہ بھی۔

            پرسی لیوبک کہتا ہے

’’ناول کے  بارے  میں  کوئی کارآمد بات نہیں  کہی جا سکتی جب تک کہ ہم نے  اس کی تعمیرو تنظیم کے  سوال پر غور اور فکر نہ کی ہو۔ اور کسی خاص مقصد سے  کسی نتیجہ پر پہنچنے  کے  لئے  اس کی چھان بین نہ کی ہو ………..ناول کے  اس خاص پہلو سے  عدم واقفیت کی بنا پر جسے  ہم میکا نکی پہلو اور نتیجتاً وہ پہلو کہہ سکتے  ہیں  جس کا سامنا اور محاکمہ ناگزیر ہے ، ناولوں  کے  بارے  میں  ہمارے  گفتگو ادھوری رہ جاتی ہے۔ ‘‘

(شب خون فروری  ۶۸)

            اور چارلس نیومن کا خیال ہے  کہ

’’ناول کے  علاوہ کوئی ایسی صنف سخن نہیں  ہے  جس سے  ایسے  رد عمل برآمد ہوتے  ہیں  جو عام طور پر انسانی رشتوں  سے  متعلق ہوں۔ اور کوئی ایسی صنف سخن نہیں  ہے  جو اپنے  جمالیاتی وجود کے  بارے  میں  اس قدر بے  اطمینانی اور بے  یقینی کا اظہار کرتی ہو………‘‘

(شب خون اپریل مئی  ۸۱ء)

            ان دو مفکروں  کی آرا کی روشنی میں  اگر اردو ناول نگاری کا جائزہ لیا جائے  تو حیدر آباد کے  ایک اہم ناول نگار عزیز احمد کا نام سامنے  آتا ہے  جس کا پہلا ناول ہوس ۱۹۳۲ء میں  سامنے  آیا اور جس نے  دنیائے  ادب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ دلچسپ بات یہ ہے  کہ عزیز احمد اس زمانے  میں  ابھی طالب علم تھے۔ ۳۲ء ہی میں  ان کا دوسرا ناول مرمر اور خون منظر عام پر آیا۔ ۴۲ء میں  گریز، ۴۶ء میں  آگ، ۴۷ء میں  ایسی بلندی ایسی پستی اور ۴۹ء میں  شبنم لکھی گئیں۔ ہوس چونکہ ابتدائی عہد کی پیدا وار ہے  اس لئے  اس میں  فنی اور فکری گہرائی نظر نہیں  آتی۔ اور اس کی تلاش بھی نہیں  کرنی چاہئے۔ پھر بھی اس ناول کی اہمیت اس لئے  بڑھ جاتی ہے  کہ بابائے  اردو مولوی عبدالحق نے  اس کا دیباچہ لکھا تھا۔ عزیز احمد کا دوسرا ناول مرمر اور خون ہے  جس کے  بارے  میں  خود عزیز احمد کا خیال ہے  کہ وہ ان کا بدترین ناول ہے۔ عزیز احمد کا سب سے  معرکۃ الآرا ناول گریز ہے  جس کا مرکزی کردار نعیم، زندگی اور اس کی تلخ حقیقتوں  سے  گریز کرتا ہے  اور اس گریز سے  شرمندہ بھی ہے۔ یہ کردار اپنے  عہد کا ایک نمائندہ کردار ہے  جس میں  عصری آگہی بھی ہے  اور زندگی کے  بارے  میں  ایک بھرپور رویہ بھی۔ اس ناول میں  صیغہ واحد متکلم استعمال ہوا ہے  جس کی وجہ سے  نعیم کی باطنی کیفیات کی بہتر عکاسی ممکن ہو سکی۔ اور اس کی داخلی کیفیات، ذہنی انتشار اور نفسیاتی الجھنوں  کو کھل کر سامنے  لایا جا سکا۔ عزیز احمد پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے  کہ انہوں  نے  جنس کو اپنے  ناولوں  میں  اس لئے  برتا کہ سستی شہرت حاصل کی جا سکے۔ لیکن بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے  تو محسوس ہو گا کہ جنس ہماری زندگی کا ایک اہم جزو ہے  اور ہم چاہیں  یا نہ چاہیں  اس سے  فرار حاصل نہیں  کر سکتے۔ اس سے  گریز گویا زندگی سے  گریز ہے۔

            عزیز احمد کے  دوسرے  ناولوں  ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ اور ’’شبنم‘‘ میں  بھی حقیقت نگاری ہے  لیکن گریز کے  مقابلے  میں  کم۔ ان ناولوں  میں  عزیز احمد نے  قدرے  احتیاط سے  کام لیا۔ اسلم آزاد کے  مطابق عزیز احمد جنسی اور ذہنی طور پر مریض نہیں  ہیں  اس لئے  ان کے  یہاں  عریانی تو ہے  لیکن فحش نگاری نہیں۔ اور پروفیسر یوسف سرمست کے  خیال میں  عزیز احمد کی ناول نگاری کو صرف جنس کی کسوٹی پر کس کر رد کر دینا صحیح نہیں۔ وہ کہتے  ہیں کہ

’’جدید نفسیاتی علم نے  انسانی زندگی کی حقیقت شعارانہ عکاسی کے  لئے  جنسی کیفیات کے  اظہار کو لازمی اور ضروری قرار دیا تھا۔ اس لئے  عریاں  نگاری اور جنس سے  دلچسپی پورے  جدید عالمی ادب کی امتیازی نشانی بن گئی تھی……… ‘‘

            ویسے  بھی نئے  زمانے  کی آہٹ نہ سننا بصیرت کے  فقدان کی علامت ہے  یہی وجہ ہے  کہ مولوی عبدالحق نے  عزیز احمد کے  پہلے  ناول پر دیباچہ لکھ کر اس نوجوان مصنف کی ہمت افزائی کی تھی۔ اور نئے  زمانے  نئے  ادب اور نئے  رجحانات کی پذیرائی کی تھی۔ آزادی سے  قبل کا اور اہم ناول ابراہیم جلیس کا چور بازار ہے  جو ۴۶ء میں  منظر عام پر آیا۔ اس ناول میں  جلیس نے  تعلیم یافتہ مگر بے  روزگار نوجوانوں  کے  مسائل، اس کی ذہنی کیفیات اس کی الجھنیں  اور اس کی نفسیات کو پیش کرتے  ہوئے  ہندوستان کے  نچلے  متوسط طبقے  کی معاشی مسائل کا احاطہ کیا ہے۔ اس ناول کے  کردار مہندر، ظفر، نوح اور جلیل خوابوں  کی دنیا میں  رہتے  ہیں۔ تعلیم مکمل کرتے  ہی زندگی کی ساری آسائشوں  کو اپنے  دامن میں  سمیٹ لینے  کی تمنا لئے  جب وہ عملی زندگی میں  داخل ہوتے  ہیں  تو بے  روزگاری کا عفریت ان کے  سارے  خواب بکھیر دیتا ہے۔ ان کرداروں  میں  صرف نوح ایسا ہے  جو ایک سفارش سے  ملازم ہو جاتا ہے  لیکن باقی کرداروں  میں  مہندر مرد طوائف بننے  پر مجبور ہو جاتا ہے  ظفر کی بہن پیشہ کرنے  لگتی ہے  اور وہ خود تنگ آگر خودکشی کر لیتا ہے۔ جلیل نوح کے  گھر رہتا ہے  لیکن اس کی بیوی جلیل کو برداشت نہیں  کر سکتی۔ نتیجہ میں  وہ گاؤں  چلا جاتا ہے  پھر فوج میں  ملازمت اختیار کر لیتا ہے۔ چار دوستوں  کی اس دردناک سرگذشت کو کرشن چندر نے  بیسویں  صدی کا قصۂ چہار درویش قرار دیا تھا۔

            آزادی کے  بعد ناول نگاروں  میں  عفت موہانی، واجدہ تبسم، جیلانی بانو، آمنہ ابوالحسن اور رفیعہ منظورالامین اہم ہیں۔ عفت موہانی نے  زندگی کے  مسائل کا گھریلو انداز میں  جائزہ لیا ہے۔ ان کے  ناولوں  میں  معاشرت کو اہمیت دی گئی ہے  اور چھوٹے  چھوٹے  مسائل سے  ناول کا ڈھانچہ تیار کیا گیا ہے۔ آمنہ ابوالحسن کا ناول سیاہ سرخ اور سفید ایک اہم ناول ہے۔ جس کا موضوع جنسی نفسیات ہے  اور نا آسودگی کے  نتیجے  میں  پیش آنے  والی صورت حال کا تجزیہ کیا گیا ہے ……..واجدہ تبسم نے  حیدر آباد کے  نوابی معاشرے  کو پس منظر کے  طور پر استعمال کرتے  ہوئے  جو ناول لکھے  وہ کچھ لوگوں  کو برے  ضرور لگتے  ہیں۔ لیکن ان تلخ حقائق سے  انکار بھی ممکن نہیں۔ واجدہ تبسم کے  قلم میں  بے  پناہ قوت ہے  اور وہ چٹخارے  دار زبان میں  جنسی معاملات کو پیش کرتے  ہوئے  اچانک نشتر چبھو دیتی ہیں  تو جنس پس منظر میں  چلی جاتی ہے  اور قاری ایک کسک میں  مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہی ان کا کمال ہے۔

            جیلانی بانو کا ایوان غزل ایک اہم ناول ہے  جسے  اردو ناول نگاری کا ایک سنگ میل کہنا چاہئے۔ اس ناول میں  تین نسلوں  کی الجھنیں  پیش کی گئی ہیں۔ جیلانی بانو کی خوبی یہ ہے  کہ وہ جیتے  جاگتے  انسانوں  کو کردار کی شکل دے  دیتی ہیں  اور ایک عام آدمی کے  عمل اور رد عمل کو بڑی خوبی سے  اپنے  ناولوں  میں  سمو دیتی ہیں۔ اس لئے  ان کی تحریر میں  وہ خواب آلود کیفیت نہیں  ملتی جو قرۃ العین کی خصوصیت ہے۔ جیلانی بانو حقائق کو ان کے  اصلی روپ میں  پیش کرتی ہیں۔ دکن میں  ناول نگاری کے  اس مختصر تجزیہ سے  یہ بات واضح ہوتی ہے  کہ اگر چہ دکن میں  ناولوں  پر زیادہ توجہ نہیں  دی گئی لیکن جن لوگوں  نے  اس فن کو اپنایا انہوں  نے  اپنا خون جگر جلا کر نئی راہیں  بنائیں۔ دکن کی ناول نگاری کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے  کہ یہاں  روایت بنائی گئی۔ روایت کی اندھا دھند تقلید نہیں  کی گئی ……. اس سلسلے  کا آخری نام مظہر الزماں  کا ہے  جس کا صرف ایک ناول سامنے  آیا ہے۔ اور مستقبل میں  اس نوجوان سے  توقع وابستہ کی جا سکتی ہے  کہ وہ نئے  ناول کی را ہوں  کا نقیب ہو گا۔

***

—————————————–٭٭—————————————-

فیض الحسن خیال: ایک درد مند شاعر

            فیض الحسن خیال حیدر آباد کے  ان شعرا میں  ہیں  جو زائد از چالیس برس سے  تقریباً ہر محفل شعر کی رونق رہے  ہیں۔  روایت اور ترقی پسندی کے  امتزاج کے  ساتھ ساتھ اپنے  مخصوص ترنم کے  ذریعہ فیض الحسن خیال نے  نہ صرف حیدر آباد بلکہ بیرون حیدر آباد بھی اپنی مقبولیت کے  سکے  جمائے۔ ان کے  اب تک چار مجموعے  منظر عام پر آ چکے  ہیں۔ پہلا مجموعہ ’ موجِ صبا‘  1965 میں  شائع ہوا۔ اور پھر دوسرا مجموعہ  ’ صبح کا سورج‘  1972 میں  زیور طبع سے  آراستہ ہوا۔  اس کے  بعد 1979 میں  ان کا تیسرا مجموعہ ’کانچ کا شہر‘ منصۂ شہود پر آیا۔  پھر ان کا چوتھا مجموعہ ’قندِ ہند ‘ 1995 میں  اشاعت پذیر ہوا۔

            فیض الحسن خیال کا چوتھا مجموعہ اس اعتبار سے  ندرت کا حامل ہے  کہ اس میں  فیض الحسن خیال کے  اردو منتخب کلام کے  ساتھ انگریزی، ہندی اور تلگو میں  ترجمہ بھی شامل ہے  جو بالترتیب پروفیسر پی وی شاستری، عزیز بھارتی اور خواجہ معین الدین نے  کیا۔ کسی شعری مجموعے  کو چار زبانوں  میں  ایک ہی جلد میں  ایک ساتھ شائع کرنے  کی یہ پہلی مثال ہے۔ اور اب ان کا چوتھا مجموعہ’           ‘ کے  عنوان سے  شائع ہو رہا ہے۔

            فیض الحسن خیال سیدھے  سادے  انداز میں  اپنی بات کہنے  کے  قائل ہیں۔ ان کے  ہاں  ناقابل فہم استعارے  اور لاینحل قسم کی تراکیب نہیں  ملتیں۔ وہ   عوامی مزاج کے  شناسا ہیں  اور یہ جانتے  ہیں  کہ مشکل زبان اور تراکیب سے  عوامی ترسیل کامیاب نہیں  ہو سکتی۔ ان کا یہ شعر دیکھئے

اسی کا ذکر گلشن میں  نہیں  ہے

لہو جس نے  بہاروں  کو دیا ہے

آزادی کے  بعد وہی متوالے  سرے  سے  بھلا دئیے  گئے  جنھوں  نے  وطن کی خاطر اپنا لہو بہایا۔ یہ ان ہی آزادی کے  جنون سے  سرشار جیالوں  کا فیض ہے  کہ ہندوستان نے  آزادی کی فضا میں  سانس لی۔ لیکن جب آزادی ملی تو کیا ہوا، یہ سب جانتے  ہیں۔ فیض الحسن خیال نے  اسی حقیقت کو شعر کا پیراہن دے  کر عوامی احساس کو بیدار کرنے  کی کوشش کی ہے۔ اسی خیال کو ایک اور غزل میں  انھوں  نے  اس طرح پیش کیا ہے۔

جنھوں  نے  امن و آزادی کے  میخانے  سجائے  ہیں

انہی کو عصرِ نو  نے  زہر کے  ساغر پلائے  ہیں

لیکن فیض الحسن خیال کو اس بات کا یقین ہے  کہ وقت سب سے  بڑا مصنف ہے  اور جس شقاوت کا مظاہرہ  بردارانِ وطن نے  کیا ہے  انھیں  اس کی سزا ضرور ملے  گی۔ وہ کہتے  ہیں

بدل دیا ہے  جو تو نے  نظام میخانہ

زمانہ تجھ کو ضرور ایک دن سزا دے  گا

            فسادات کے  زہر نے  انسانیت کو داغ دار کر دیا۔ کوئی شہر ایسا نہیں  بچا جہاں  فسادات کے  عفریت نے  تباہی نہ پھیلائی ہو۔ دیکھیے   فیض الحسن خیال کیا کہتے  ہیں

کس طرح آندھی چلی بجلی گری گھر جل گیا

کیا کرو گے  سن کے   تم یہ غم بھرا افسانہ ہے

لطف یہ ہے  کہ جو ہنگاموں  کے  واقعی ذمہ دار ہیں  وہ تو سنگھاسنوں  پر براجمان ہیں  اور بجائے  اس کے  کہ مظلوموں  کو انصاف ملتا الٹے  ان ہی کو مجرم قرار دیا جاتا رہا۔ یہ شعر دیکھیے

جرم کس کا ہے  یہاں  اور سزا کس کو ملی

فیصلے  میں  یہ عبارت نہیں  دیکھی جاتی

            فیض الحسن خیال ایک درد مند شاعر ہیں۔ انھوں  نے  جو کچھ محسوس کیا اسے  لفظوں  میں  ڈھال دیا۔ یہ دیکھنا ضروری نہیں  ہے  کہ شاعر نے  کیسے  کہا۔ لیکن یہ ضرور دیکھنا چاہیے  کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اس کا مطمحِ نظر کیا ہے، اس کے  خوابوں  کی بنیاد کیا ہے  اور یہ خواب کس طرح شکست و ریخت کے  مراحل سے  دوچار ہیں۔ یہ سوچنا شاعر کا کام نہیں  ہے  کہ مسائل کا حل کیا ہے۔ کیوں  کہ مسائل کو حل کرنے  کے  لیے  ہر شخص کے  پاس اس کا اپنا نظریہ ہے۔ شاعر تو صرف نشاندہی کرتا ہے۔ فیض الحسن خیال نے  یہ کام بڑی خوبصورتی سے  سر انجام دیا ہے۔

            یہ تو سبھی جانتے  ہیں  کہ آج کے  دور میں  شعری مجموعوں  کی پذیرائی کم ہی ہوتی ہے۔ جب قاری ہی کم سے  کم ہوتے  جائیں  تو شاعر کی آواز دیمک زدہ صفحات میں  قید ہو کر رہ جاتی ہے۔ پھر بھی کچھ لوگ ایسے  ہیں  جو اپنے  اظہار کو مصلحتوں  کے  غلاف میں  چھپا کر زندگی کے  حقائق سے  آنکھیں  نہیں  چراتے  بلکہ حسب المقدور آواز بلند کرتے  رہتے  ہیں۔ فیض الحسن خیال ایسے  ہی ایک فن کار ہیں۔

            خدا کرے  کہ ان کا یہ مجموعہ مقبول ہو۔

 

غالب کا فلسفۂ غم

            غم اور جذباتِ الم انسانی زندگی کا اہم جزو ہیں۔ سوز اور رقت کے  بغیر انسان نامکمل ہے  لیکن غم ہے  کیا……؟ اگر غور کیا جائے  تو اندازہ ہوتا ہے  کہ ہرانسان کی کچھ تمنائیں  اور آرزوئیں  ہوتی ہیں۔ اس کے  ساتھ ساتھ زندگی کی کچھ بنیادی اور دوامی قدریں  بھی وابستہ ہوتی ہیں …….. جب یہ قدریں  تمناؤں  کے  روپ میں  ذہنِ انسانی اور فکر پر چھا جاتی ہیں  تو انسان حسرت میں  ڈوب کر نطشے  کے  فوق البشر سے  قریب تر ہونے  کی کوشش کرنے  لگتا ہے۔ لیکن جب یہی قدریں  تمناؤں  کا روپ دھارنے  کے  بعد شکست و ریخت کا شکار ہونے  لگتی ہیں  تو انسان اس عجیب کیفیت میں  ڈوب جاتا ہے  جسے  ہم غم کہتے  ہیں۔ غمِ زندگی ہو کہ غمِ دوراں ، غمِ کائنات ہو کہ غمِ حیات، غمِ محبوب ہو کہ غمِ روزگار غم کسی نہ کسی شکل میں  انسان کے  قریب ہوتا ہے۔ یعنی انسان غم سے  چھٹکارا نہیں  پاسکتا۔ دنیا کا کوئی شخص ایسانہیں  ہے  جس سے  کوئی غم وابستہ نہ ہو …….انسان کو ہمیشہ اپنی بے  اطمینانی کا احساس رہا۔ اپنی بے  مائگی پر انسان ہمیشہ سے  سوچتا رہا ہے  وقتی طور پر وہ اپنی بے  مائگی کے  احساس کو کم کرنے  کے  لئے   تمنا کا سہارا لیتا ہے …… لیکن ضروری نہیں  ہے  کہ ہر تمنا تکمیل کے  درجے  تک پہنچ جائے۔ ہر خواب کا پیکر میں  تبدیل ہونا ضروری نہیں۔ اور جب تمنا اور خواب ٹوٹتے  ہیں  تو کبھی کبھی زندگی اپنی تمام نشتریت کو لئے  ایک خوفناک ہیولے  کی شکل میں  نمودار ہوتی ہے  اور یہی قنوطیت کی ابتداء ہے۔ غم کو اپنے  آپ پر اس حد تک طاری کر لیا جائے  کہ وہ قنوطیت کی سرحدوں  میں  داخل ہونے  لگے  تو پھر زندگی بوجھ بن جاتی ہے۔ دل گرفتگی کا احساس موت کی وادیوں  میں  پناہ تلاش کرنے  لگتا ہے۔ ایک ایسا انسان جس کے  اعصاب کمزور ہوں  اور جس کی قوتِ ارادی کو استحکام نہ ہو وہ معمولی صدمے  کو بھی برداشت نہیں  کر سکتا۔ معمولی ساغم بھی اس کے  لئے  جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ برخلاف اس کے  ایک ایسا شخص جو ایک تربیت یافتہ ذہن کا مالک ہے ، جس کی قوت ارادی مضبوط اور فکر سلجھی ہوئی ہے  یہی غم اسکی صلاحیتوں  کو جلا بخشتا ہے۔ وہ صلاحیتیں  جن سے  حیات و کائنات کے  مسائل سلجھانے  میں  مدد ملتی ہے  …..بصیرت اور ادراک کی روشنی سے  راہِ حیات منور ہونے  لگتی ہے  یہ غم ہی تو تھا جس نے  سدھارتھ کو ’’بدھ‘‘ بنایا اور یہ بھی غم ہی تھا جس نے  مجنوں  کو صحرائی دیوانہ بنا دیا……ماضی قریب میں  جھانکئے  تو علی گڑھ تحریک کی بنا بھی اس غم کی وجہ سے  پڑی ہے۔ اسی غم نے  سر سید کو قوم کی حالت سدھارنے  اور نوجوانانِ قوم کو زیور تعلیم سے  آراستہ کرنے  کی طرف راغب کیا۔

            دنیا کا ہر ادب غم اور الم سے  متصف ہے  اور شاعری اس سے  مستثنیٰ نہیں۔ اردو ادب کا ایک اہم عنصر غم اور الم سے  معمور شاعری ہے۔ کہیں  غم تنہائی کی شکل میں  نمودار ہوتا ہے  تو کہیں  غمِ عشق اور غمِ روزگار کا روپ لے  کر ہمارے  احساسات کو جلا بخشتا ہے۔ غالب بھی اس جذبے  سے  بچ نہ سکے۔ ان کی شاعری میں  غم ایک نمایاں  مقام رکھتا ہے۔ لیکن چونکہ غالب بے  حد ذہین تھے  اور ان میں  فلسفیانہ فکر اور بصیرت کی کمی نہ تھی اس لئے  ان کی حرماں  نصیبی نے  اپنا ایک علیٰحدہ معیار قائم کیا۔ غالب نے  اپنے  تجربات، مشاہدات اور فکر کے  ذریعے  اظہار کو اتنا منظم اور مربوط کر دیا کہ جہاں  ان کا غم ذہن کے  لئے  تحریک اور امنگ کا باعث بنتا ہے  وہیں  ایک دبی دبی خوشی کا احساس بھی ابھرتا ہے۔

            شیخ محمد ا کرام لکھتے  ہیں :۔

’’غالب کا غم اس صحت مند آدمی کا حزن و ملال ہے  جسے  دنیا کی اچھی چیزوں  سے  محبت ہے  لیکن جب وہ مسلسل سعی کے  باوجود انہیں  حاصل نہیں  کر سکتا تو غمگین ہو جاتا ہے۔ غالب کے  اشعار میں  حزن وافسردگی کی جھلک ہے  لیکن غالب کی افسردگی عام قنوطیوں  کی طرح دنیا کی مذمت کے  باعث نہیں  بلکہ دنیا کی دلفریب چیزوں  سے  لگاؤ کی وجہ سے  ہے۔ غالب کی انتہائی مایوسی میں  بھی ترک دنیا، رہبانیت یا مردم بیزاری کا شائبہ تک نظر نہیں  آتا۔ بلکہ یہ حزن و افسردگی اس آدمی کی ہے  جو زندگی کی قدر و قیمت پہچانتا ہے  اور جسے  اس سے  محروم رہنا ناگوار ہے۔ ‘‘

(غالب نامہ صفحہ  ۲۹۰)

            شیخ محمد ا کرام غالبیات کے  بہت بڑے  ماہر سمجھے  جاتے  ہیں لیکن پتہ نہیں  کیوں  انہوں  نے  غالب کی مردم بیزاری سے  انکار کرتے  ہوئے  مندرجہ بالاسطور لکھیں  …… حالانکہ کہیں  کہیں  غالب کے  پاس مردم بیزاری بھی ملتی ہے۔

پانی سے  سگ گزیدہ ڈرے  جس طرح اسد

ڈرتا ہوں  آدمی سے  کہ مردم گزیدہ ہوں

            غالب کے  ہاں  تنہائی پسندی، ترک دنیا اور رہبانیت کا تصور بھی موجود ہے۔

رہئے  اب ایسی جگہ چل کر جہاں  کوئی نہ ہو

ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں  کوئی نہ ہو

بے  در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہئے

کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں  کوئی نہ ہو

پڑیئے  گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار

اور اگر مر جایئے  تو نوحہ خواں  کوئی نہ ہو

            لیکن ایسی مثالیں  خال خال ہی نظر آتی ہیں ……. مجموعی طور پر ہمیں  شیخ محمد ا کرام کی اس رائے  سے  اتفاق کرنا پڑے  گا کہ غالب زندگی کی قدو قیمت سے  آگاہ تھے۔ کیونکہ غالب نے  اتنے  مصائب اٹھائے  اور ایسے  ایسے  انقلابات دیکھے  کہ ان پر زندگی کی تلخ حقیقتیں  واضح ہو چکی تھیں۔ تبھی تو وہ یہ شعر کہنے  کے  مکلف بھی ہیں  کہ

رنج کا خوگر ہوا انساں  تو مٹ جاتا ہے  رنج

مشکلیں  مجھ پر پڑیں  اتنی کہ آساں  ہو گئیں

            اس لئے  شیخ محمد ا کرام لکھتے  ہیں :۔

’’مرزا نے  قلزم خوں  میں  شناوری کی تھی قیامت حقیقی تو خیر کس نے  دیکھی ہے  لیکن مرزا نے  اپنی آنکھوں  سے  دہلی کا سارا نظام روز حشر کی طرح تہہ و بالا ہوتے  دیکھا تھا اور ان مصیبتوں  سے  دوچار ہوئے  تھے  جنہیں  قیامت صغریٰ کہنا کسی طرح مبالغہ نہیں  ہے۔ ‘‘

(غالب نامہ صفحہ  ۲۹۵)

            غالب کے  خطوط کا مطالعہ کیا جائے  تو محسوس ہو گا کہ وہاں  بھی غم کی ایک زیریں  لہر موجود ہے۔ غالب کی انسانیت دوستی، ان کی الجھنیں ، لغزشیں، وضع داری کے  لئے  جدوجہد، کنبہ پروری، اپنی خامیوں  پر ہنسنے  کا جذبہ، زندگی سے  دم آخر تک لڑنے  اور مایوسی کے  بجائے  عزم تازہ پیدا کرنے  کا حوصلہ، یہ تمام ایسے  عوامل ہیں  جو غالب کو ’’غالب ‘‘ بناتے  ہیں۔ عام طور پر غالب کے  خطوط کو سادگی اور ظرافت کا مرقع کہا جاتا ہے  لیکن اس کے  ساتھ ساتھ ان خطوط میں  شوخی اور ظرافت کا لباس اوڑھے  ہوئے  شدید غم بھی پنہاں ہے  جو مکتوب نگار کی ذہنی کیفیت کا آئینہ دار ہے۔ دہلی کی بربادی غالب کی زندگی کا وہ سانحہ تھا جس نے  ان کے  دل پر بہت گہرا اثر کیا۔ ایک خط میں  وہ لکھتے  ہیں۔

’’کیا پوچھتے  ہو،کیا لکھوں ، دلی کی ہستی منحصر کئی ہنگاموں  پر تھی، قلعہ، چاندنی چوک، پر روز بازار جامع مسجد کا، ہر ہفتہ سیر جمنا کے  پل کی، ہرسال میلہ پھول والوں  کا، یہ پانچوں  باتیں  اب نہیں  پھر کہو، دلی کہاں  ؟ ہاں  کوئی شہر قلمرو ہند میں  اس نام کا تھا۔ ‘‘

            اس کے  باوجود غالب نے  مایوسی سے  کام نہیں  لیا۔ وہ اس ویرانی میں  بھی نشاط کا پہلو نکال لیتے  ہیں۔

ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے  گھر کی رونق

نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی

            ڈاکٹر عبداللہ لکھتے  ہیں۔

’’غالب کا غم حقیقی ہے ، مگر وہ زخم کو گہرا ہونے  نہیں  دیتے، اس سے  عہدہ بر آ ہونے  کی کوشش کرتے  ہیں ، اس کو عیش بنانے  کی اہلیت رکھتے  ہیں۔ چنانچہ اس کے  لئے  وہ ہنگامہ زنگی کو نوش دار بناتے  ہیں۔ اس ہنگامے  پر ان کی زندگی کا انحصار ہے۔ نوحۂ غم یا نغمۂ شادی، اس سے  انہیں  کوئی بحث نہیں  ہے۔ یہ سب انسان کی فکری صحتمندی کا کرشمہ ہے  جو غم کو بھی نشاط میں  بدل دینے  کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ‘‘       (نقد میر صفحہ  ۲۵۱)

            غالب جانتے  تھے  کہ موت برحق ہے  ……… لیکن اس کے  ساتھ ساتھ زندگی کے  ساتھ غم کی وابستگی بھی یقیناً ہو گی۔ چنانچہ وہ کہتے  ہیں۔

قید حیات و بند غم اصل میں  دونوں  ایک ہیں

موت پہلے  آدمی غم سے  نجات پائے  کیوں

            یہاں  یہ تسامح ہو سکتا ہے  کہ غالب موت کی تمنا کر رہے  ہیں  لیکن حقیقتاً ایسا نہیں۔ غالب صدموں  کو برداشت کرنے  کی بے  پناہ صلاحیت رکھتے  تھے  اور سخت پریشانی اور رنج کے  علام میں  بھی وہ اپنے  آپ کو سنبھالے  رکھنے  کے  قائل تھے۔ غم سے  چھٹکارا پانا ممکن نہیں  لیکن زندگی بھی کچھ قیمتی نہیں  ہے …. وہ کہتے  ہیں۔

تاب لاتے  ہی بنے  گی غالب

واقعہ سخت ہے  اور جان عزیز

            وہ زندگی کو عزیز رکھتے  تو ہیں  لیکن ساری دنیا اور مسائل کائنات کو اپنے  آگے  ہیچ سمجھتے  ہیں۔ وہ انسان کی ان قوتوں  سے  واقف ہیں  جو اسے  تسخیر کائنات پر آمادہ کر سکتی ہے۔ اس لئے  دنیا کے  غموں  کو وہ اہمیت ن ہیں  دیتے  اور اسے  تماشے  سے  تعبیر کرتے  ہیں۔

بازیچۂ اطفال ہے  دنیا میرے  آگے

ہوتا ہے  شب و روز تماشا میرے  آگے

            ڈاکٹر عبد اللہ رقمطراز ہیں

’’شوپن ہار جس نے  فلسفۂ غم کی شاید مکمل ترین تشریح کی ہے ، غم کو زندگی کی مستقل کیفیت یا حالت قرار دیتا ہے  اور مسرت کو ایک سلبی کیفیت بتاتا ہے  یعنی اس کے  نزدیک غم کے  عارضی فقدان کا نام مسرت ہے۔ ‘‘

     (نقد میر صفحہ  ۸۲)

            اور غالب اپنے  اشعار میں  اس خیال کی تائید کرتے  نظر آتے  ہیں۔

عشرتِ قتل گہِ اہل تمنا مت پوچھ

عید نظارہ ہے  شمشیر کا عریاں  ہونا

            ڈاکٹر عبداللہ نے  اپنے  مضمون ’’غالب، معتقدِ میر ‘‘میں  غالب اور میر کے  کلام کا جائزہ لیتے  ہوئے  ان اہم باتوں  کی طرف اشارہ کیا ہے  جن کی وجہ سے  غالب میر کے  معتقد ہو سکے  تھے۔ لیکن حیرت ہے  کہ انہوں  نے  میر کے  غم اور غالب کے  غم کا تقابل نہیں  کیا۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے  تو محسوس ہو گا کہ میر کے  فلسفہ غم سے  غالب نے  بہت کچھ استفادہ کیا اور اپنے  آپ کو ناسخ کے  خیال سے  متفق ظاہر کرتے  ہوئے  یوں  کہا ہے۔

غالب اپنا یہ عقیدہ ہے  بقول ناسخ

آپ بے  بہرہ ہے  جو معتقدِ میر نہیں

            یہ اور بات ہے  کہ میر کے  غم میں  جو کیفیات ہیں  غالب کے  پاس ان ہی کیفیات نے  نسبتاً فلسفیانہ انداز اختیار کر لیا۔ جس کی وجہ سے  ان کی آفاقیت میں  اضافہ ہو گیا۔ غالب اور میر دونوں  بے  حد نازک مزاج اور زود رنج تھے  لیکن غالب میر کی بہ نسبت زیادہ شگفتہ مزاج تھے  اور اپنے  مزاج کی اس خصوصیت کی بنا پر عوام و خواص میں  یکساں  مقبول ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ رنج و ملال کو دل میں  جگہ دینے  کی بجائے  اطمینان اور سکون سے  کام لینا چاہئے۔

غم نہیں  ہوتا ہے  آزادوں  کو بیش از یک نفس

برق سے  کرتے  ہیں  روشن شمعِ ماتم خانہ ہم

            ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کے  الفاظ میں۔

’’مرزا غالب ان تابوت بردوش فلسفیوں  میں  نہیں  ہیں  جو زندگی کو ماتم خانہ اور اہل دنیا کو اصل جنازہ خیال کرتے  ہیں۔ وحدت الوجود کے  فلسفہ کا پہلا سبق یہی ہے  کہ ماسوا او خدا صرف عارضی طور پر جدا ہیں  ……..اور بعد الموت یہ جدائی ختم ہو جاتی ہے۔ ‘‘

   (محاسن کلام غالب)

            چنانچہ غالب موت سے  خوفزدہ نہیں  ہوتے۔ وہ توا پنی جان جاں  آفریں  کے  حوالے  کرتے  ہوئے  مسرت محسوس کرتے  ہیں  بلکہ انہیں  تو اس بات کا صدمہ بھی ہوتا ہے  کہ انہوں  نے  زندگی کا حق ادا نہیں  کیا۔

جان دی،دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یہ ہے  کہ حق ادانہ ہوا

            غالب کا فلسفۂ غم کئی شعوری اور غیر شعوری عوامل کا پروردہ ہے۔ ان کی فکر کا مبدا زندگی اور ان کی فکر کی انتہا بھی زندگی ہی ہے۔ انہوں  نے  ہر چیز کو زندگی کے  پیمانوں  پر جانچا …… زندگی کی خارجی کیفیات کو انہوں  نے  اپنے  داخلی جذبات سے  محسوس کیا۔ اپنی ہستی کی پائیداری کا انہیں  ہمیشہ احساس رہا۔ غالب کا سماجی رویہ ان کے  اپنے  انفرادی تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہے۔ لیکن جب وہ اپنے  ان تجربات اور مشاہدات کا اظہار کرتے  ہیں  تو یوں  محسوس ہوتا ہے  کہ

’’گویا یہ بھی میرے  دل میں  ہے ‘‘

کیونکہ انہوں  نے  اپنے  اظہار میں  آفاقیت کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا اور نوع انسانی کے  سماجی اور تاریخی شعور کو متحرک کرنے  کی کوشش کی۔ غالب نے  موت کی تمنا بھی کی تو اس تمنا کے  پیچھے  جینے  کی خواہش موجود ہوتی ہے۔ اور جینے  کا لطف اٹھانے  کی آرزو رکھتے  ہوئے  وہ اپنے  مخصوص فلسفیانہ انداز میں  موت کی لذت کا ذکر کرتے  ہیں۔

ہوس کو ہے  نشاط کار کیا کیا

نہ ہو مرنا تو جینے  کا مزا کیا

            مگر اس کے  باوجود غالب کو ہمیشہ یہ گلہ رہا کہ انہیں  لوگوں  نے  سمجھا نہیں  اپنی داخلی کیفیات کا اظہار کرتے  ہوئے  وہ کس حسرت سے  کہتے  ہیں۔

ہوں  گرمیِ نشاط تصور میں  نغمہ سنج

میں  عندلیبِ گلشنِ ناآفریدہ ہوں

            کہا جاتا ہے  کہ ہر درد کی دوا ہے  لیکن غالب اس بات پر یقین رکھتے  ہیں  کہ غم کا کوئی علاج نہیں  ہے۔ اور اس طرح انہوں  نے  اس کلیہ کو باطل قرار دیا ہے  کہ ہر درد کی دوا موجود ہے  وہ کہتے  ہیں۔

پیدا ہوئی ہے  کہتے  ہیں  ہر درد کی دوا

یوں  ہو تو چارۂ غم الفت ہی کیوں  نہ ہو

            غم سے  نشاط اور سرور کی کیفیت حاصل کرنا غالب کا خاص انداز ہے۔ جب غم سے  نجات نجات ممکن نہیں  تو پھر اس کا غم کیوں  کیا جائے۔ اسی غم سے  نشاط کا پہلو پیدا کیا جا سکتا ہے۔ بجائے  اس کے  کہ غم کا رونا روئیں۔ اسی غم سے  سرور بھی تو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ غالب کہتے  ہیں۔

کیجئے  بیاں  سرورِ تپِ غم کہاں  تلک

ہر مو مرے  بدن کا زبانِ سپاس ہے

            ایک اور جگہ لکھتے  ہیں۔

نشاطِ داغِ غمِ عشق کی بہار نہ پوچھ

 شگفتگی ہے  شہیدِ گلِ خزانی شمع

            غالب کے  متداول دیوان اور نسخہ حمیدیہ کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے  تو معلوم ہو گا کہ انہوں  نے  لفظ ’’غم‘‘ کو (۶۶) بار استعمال کیا ہے۔ ان اشعار سے  ہٹ کر جہاں  لفظ ’’غم ‘‘ کے  ذریعے  اپنے  فلسفہ غم کو پیش کیا ہے ، ایسے  اشعار بے  شمار ہیں  جن میں  غالب نے  غم کے  تعلق سے  اپنا خیال ظاہر کیا ہے۔ غم کی جو تشریح غالب نے  کی ہے  ان میں  سے  چند اشعار درج ذیل ہیں۔

تو وہ بد خو کہ تحیر کو تماشہ جانے

غم وہ افسانہ کہ آشفتہ بیانی مانگے

ازبسکہ سکھاتا ہے  غم ضبط کے  اندازے

جو داغ نظر آیا ایک چشم نمائی ہے

غم آغوشِ بلا میں  پرورش دیتا ہے  عشق کو

چراغ روشن اپنا قلزمِ صرصر کا مرجاں  ہے

            غالب غم کو انسانی زندگی کے  لئے  ضروری سمجھتے  ہیں۔ ان کا خیال ہے  کہ زندگی میں  اگر غم نہ ہو تو پھر کچھ بھی نہ رہ جائے  گا…… اس لئے  موت سے  پہلے  غم سے  جو کچھ فیض حاصل ہو سکتا ہے  وہ حاصل کر لینا چاہئے۔ وہ کہتے  ہیں

نغمہ ہائے  غم کو بھی اے  دل غنیمت جانئے

بے  صدا ہو جائے  گا یہ ساز ہستی ایک دن

            وہ اپنے  غم کی بے  پناہ قوتوں  سے  واقف ہیں  …….. کہتے  ہیں

میں  نے  روکا رات غالب کو وگر نہ دیکھتے

اسکے  سیل گریہ میں  گردوں  کفِ سیلاب تھا

            آگے  ایک اور جگہ لکھتے  ہیں

غالب ہمیں  نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے

بیٹھے  ہیں  ہم تہیۂ طوفاں  کئے  ہوئے

            ان کا خیال ہے  کہ غم ہی سب کچھ ہے۔ اور گم نہ ہو تو پھر زندگی بے  کیف ہو کر رہ جائے  گی۔ پھر غم کے  ساتھ غم کے  لوازمات نہ ہوں  تو پھر زندگی زندگی نہ رہے  گی، موت سے  بدتر ہو جائے  گی۔ وہ غم کی اہمیت کا اظہار کرتے  ہوئے  کہتے  ہیں۔

دلا یہ درد و الم بھی تو مغتنم ہے  کہ آخر

نہ گریۂ سحری ہے  نہ آہ نیم شبی ہے

            ان کا ایقان ہے  کہ ہر نشیب کے  بعد فراز لازمی ہے۔ اگر غم سے  نجات پانا ہو تو پھر خوشی سے  ہاتھ دھونا پڑے  گا……… اور اس طرح غم سے  کنارہ کشی کر کے  انسان اس مسرت سے  ہاتھ دھو بیٹھے  گا جو اس کی منتظر ہے  …….وہ لکھتے  ہیں۔

شادی سے  گزر کہ غم نہ ہودے

اردی جو نہ ہو تو دے  نہیں  ہے

            بہرحال غالب کا فلسفہ ایک زندہ انسان کی نشاندہی کرتا ہے  ایسا انسان جو ہنگاموں  کا پروردہ ہے …… وہ انسان جو سماجی حیوان ہے ، وہ انسان جس کو غم کی دولت میسر ہے۔ اور اس طرح انسان تمام مخلوقات سے  بڑھ کر ہے  ……. اسی لئے  اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے۔

***

 

ہائیکو اور اردو شاعری

            جب وقت بدلتا ہے  تو اس کے  ساتھ ہر شئے  بدلتی ہے۔ انسانی فکر کے  زاویئے  بدلتے  ہیں ، خیالات اور رجحانات بدلتے  ہیں  فیشن بدلتا ہے۔ اور جب یہ تبدیلی ادب میں  رونما ہوتی ہے  تو اظہار کے  پیرائے  اسکوب کے  سانچے  بھی بدلتے  ہیں۔ بیسویں  صدی کے  آغاز میں  اردو شاعری کو ایک نیا موڑ دیا۔ چونکہ موضوعات بدل رہے  تھے  اس لئے  اسلوب میں  تبدیلی آنا ایک لازمی امر تھا۔ لہجہ میں  ایک آہنگ کا پیدا ہونا ضروری تھا۔ عالمی شعر و ادب سے  آگہی کے  نتیجے  میں  نئی ہئیتوں  کا وجود میں  آنا بھی ایک یقینی بات تھی چنانچہ دوسرے  ممالک کی زبانوں  میں  مروجہ اصناف کو اردو میں  برتنے  کی تجربے  کئے  گئے  ’’ہائیکو‘‘ اسی طرح کا ایک تجربہ ہے۔ ’’ہائیکو ‘‘ اصل میں  جاپانی صنف سخن ہے  وہاں  ابتدائی دور ہی سے  مختصر نظمیں  قبول رہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے  ہندوستان میں  دوہے  یا ایران میں  رباعی اور غزل کے  اشعار یا قدیم عربی ادب میں  قصائد کے  دور عروج سے  قبل ارجوزۃ یا اراجیز قبول عام کی سند رکھتے  تھے۔

            جاپان کی ابتدائی شاعری میں  ’’رینگا ‘‘ یا ’’تنکا‘‘ ایک مشہور و مقبول صنف سخن تھی۔ جس کے  آثار آٹھویں  صدی سے  نظر آئے  ہیں۔ یہ صنف آج بھی مقبول ہے  لیکن قدیم دور میں  یہ جاپانی شاعری کا طرہ امتیاز تھی اس نظم میں  ۳۱ صوتی اجزا ہوئے  تھے  اور ۵، ۷، ۵، ۷، ۷ کی ترتیب میں  پانچ مصرعے  کہے  جاتے  تھے  یعنی پہلے  مصرعے  میں  پانچ اجزاء، دوسرے  میں  سات، تیسرے  میں  پانچ اور آخری دو مصرعوں  میں  سات سات صوتی اجزاء ہوئے  تھے  سترھویں  صدی کی شاعری میں  مزید اختصار سے  کام لیا گیا۔ صرف تین مصرعوں  میں  سب کچھ کہہ دینے  کے  جذبے  نے  ’’ہائی کائی ‘‘ یا ’’ہائیکو‘‘ کو جنم دیا۔ جس میں  صرف سترہ صوتی اجزا ۵، ۷، ۵ کے  تناسب سے  استعمال ہوتے  تھے۔ مشہور جاپانی شاعر باشو (۱۶۴۴۔ ۱۶۹۴) نے  اس صنف کو اپنی شاعری میں  پہلی مرتبہ اختیار کیا اور یوں  ’’ہائی کو‘‘ وجود میں  آئے۔ ’’ہائیکو ‘‘ اصل میں  ’’ہوکو ‘‘(Hukku) کی بدلی ہوئی شکل ہے  جس کا مطلب جاپانی نظم کا ابتدائی حصہ ہے  چنانچہ جاپانی شاعری کی دوسری اصناف جیسے  رینگا(Renga)یا تنکا (Tanka)کے  ابتدائی تین مصرعے  ہوکو کہلاتے  تھے  اور ان میں  بھی وہی پانچ صوتی اجزا کی ترتیب موجود ہوتی تھی، بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے  پاس غزل کے  پہلے  دو مصرعے  جو ہم قافیہ وہم ردیف ہوں  مطلع کہلاتے  ہیں۔ جاپانی شاعری میں  جب ’’ہوکو‘‘ یا نظم کے  مطلع کو علیٰحدہ نظم کی شکل دی گئی تو اسے  ’’ہائی کائی‘‘ اور پھر ’’ہائیکو‘‘ کہا جانے  لگا۔ ذیل میں  باشو کا ایک جاپانی ہائیکو اس لئے  پیش کیا جا رہا ہے  کہ اس کے  صوتی اجزاء کو سمجھا جا سکے۔

Kawazu tobe

Komu Furu lkeya

mizu mu oto

اس کا ترجمہ انگریزی میں  ہیرالڈجی اینڈرسن نے  یوں  کیا ہے۔

Old pond

Frog jump – in

Water sound

اردو میں  اس کا ترجمہ شاید اس طرح سے  ہو

            ایک بوڑھا جوہڑ

            جس میں  مینڈک کو دے  اور

            پانی جوں  کا توں

            جاپانی زبان کے  مصرعوں  کو پڑھنے  سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ پہلے  مصرعے  کے  پانچ صوتی اجزاء ہیں  دوسرے  مصرعے  کے  سات اور تیسرے  کے  پانچ صوتی اجزاء ہیں  اور اس طرح پوری نظم میں  سترہ صوتی اجزاء ہیں۔ اردو ترجمہ کرتے  ہوئے  راقم الحروف نے  یہی بات پیش نظر رکھی۔ چنانچہ یہ ترجمہ بھی سترہ سبب حفیف پر مبنی ہے۔ اصل میں  دوہے  ہوں  یا رباعی، غزل کا شعر ہو یا ہائیکو۔ ان سب میں  ایک بات مشترک ہے۔ اور وہ ہے  دریا کو کوزے  میں  بند کرنے  کا فن….. جس طرح غزل کے  دو مصرعوں  میں  شاعری تخیل کی ایک کائنات سمودیتا ہے۔ اسی طرح ہائیکو میں  بھی صرف سترہ صوتی اجزاء پر مشتمل تین مصرعوں  میں  سب کچھ کہہ دینے  کی کوشش کی جاتی ہے۔

            اردو ہائیکو کہنے  کا رواج اس وقت شروع ہوا جب ۱۹۳۶ء میں  شاہد احمد دہلوی نے  رسالہ ساقی کا ’’جاپان نمبر ‘‘ شائع کیا۔ اس رسالے  میں  فضل حق اور تمنائی نے  جاپانی ہائیکو کے  اردو تراجم پیش کئے۔ فضل حق کا ترجمہ نثر میں  تھا جبکہ تمنائی نے  تین مصرعوں  میں  ترجمہ کیا جس کا حوالہ ڈاکٹر عنوان چشتی کی کتاب ’’اردو شاعری میں  ہیئت کے  تجربے ‘‘ میں  بھی ملتا ہے۔ تمنائی کا ترجمہ یہ ہے۔

یہ دنیا شبنم کے  قطرے  جیسی ہے

بالکل شبنم کے  قطرے  جیسی

پھر بھی کوئی حرج نہیں

            لیکن تمنائی نے  جہاں  آہنگ کو پیش نظر رکھا وہیں  سترہ صوتی اجزاء کی پابندی کو نظر انداز کر دیا۔ یہاں  یہ بحث مقصود نہیں  کہ اردو کا پہلا ہائیکو کس نے  لکھا……؟ یہاں  تو صرف یہ عرض کرنا ہے  کہ اگرکسی خاص طرز کی پابندی کی جائے  یا کسی خاص ہیئت میں  نظم لکھنے  کی کوشش کی جائے  تو فنی لوازمات کو بھی نظر رکھنا چاہئے۔ یہ بات اس لئے  کہی گئی کہ اردو میں  ہائیکو کے  نام سے  جو نظمیں  ملتی ہیں  ان میں  تقریباً سبھی نظمیں  ایسی ہیں  جنہیں  ہائیکو کہنے  میں  ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے  کیونکہ ان میں  سترہ صوتی اجزاء کی پابندی اور پانچ سات پانچ کی ترتیب کو نظر انداز کر دیا گیا ہے  اور یہاں  ان اصولوں  کی پابندی نظر آتی ہے  وہاں  اردو کے  مزاج کو پیش نظر نہیں  رکھا گیا۔

            ہندوستان میں  علیم صبا نویدی اور پاکستان میں  محمد امین نے  ہائیکو کے  مجموعے  شائع کئے۔ پاکستان ہی میں  ’’جاپانی ثقافتی مرکز‘‘ کے  زیر اہتمام ’’ہائیکو مشاعرے ‘‘ بھی منعقد ہوئے  جن میں  جاپانی ہائیکو کے  تراجم کے  علاوہ شعراء نے  طبع زاد ہائیکو بھی سنائے۔ اور ان مشاعروں  کے  چند گلدستے  بھی شائع ہوئے۔ ہندوستان میں  علیم صبا نویدی کے  علاوہ قاضی سلیم سے  لے  کر شارق جمال اور قطب سرشار تک ہائیکو کہنے  والوں  کا ایک طویل قافلہ نظر آتا ہے  لیکن ان تمام میں  وہی ایک بات کھٹکتی ہے۔ کہاں  ترجمہ پیش کیا گیا وہاں  تو خیر ایک جواز پیدا ہو سکتا ہے۔ لیکن جہاں  شاعر کی اپنی کاوش ہے  وہاں  یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے  کہ اس صنف کو اپنانے  میں  کسی اصول کو مد نظر نہیں  رکھا گیا۔ سوائے  اس کے  کہ تین مصرعے  ہوں  اور بس! انہیں  یا تو سہ سطری نظمیں  کہا جا سکتا ہے  یا زیادہ سے  زیادہ مثلث یا ثلاثی……!

            قاضی سلیم بہت اچھے  شاعر ہیں  اور فنی اعتبارات پر بھی نظر رکھتے  ہیں۔ رسالہ تحریک جولائی ۱۹۶۶ ء میں  ان کی چند مختصر نظمیں  شائع ہوئی تھیں  جن کے  بارے  میں  ان کا خیال ہے  کہ یہ نظمیں  ہائیکو کے  فارم کی سختی سے  پابندی کرنی ہیں  بقول ان کے  انہوں  نے  سترہ مسلسل کی پابندی کی ہے  اور یہ سترہ صوتی اجزاء ہندی کے  لگھو اور گرد ماتراؤں  کے  اتصال پر مبنی ہیں۔ ان کی ایک نظم پیش ہے۔

عکس جو ڈوب گیا

آئینوں  میں  نہیں

آنکھوں  میں  اتر کر دیکھو

            اس نظم میں  ہندی چھند کے  اعتبار سے  پہلے  مصرعے  میں  پانچ دوسرے  مصرعے  میں  پانچ اور تیسرے  میں  سات جڑواں  ماترائیں  آئی ہیں ……. اگر عروضی اعتبارسے  تجزیہ کیا جائے  تو معلوم ہو گا کہ پہلے  مصرعہ میں  تین سبب خفیف ایک سبب ثقیل اور ایک وتد مجموع ہے۔ دوسرے  مصرعے  میں  چار سبب خفیف، اور ایک وتد مجموع آیا ہے۔ تیسرے  میں  چھ سبب خفیف اور ایک وتد مجموع ہے  کیا ہم اسے  ہائیکو کہہ سکتے  ہیں۔ علیم صبا نوید ی نے  ’’ترسیلے ‘‘ کے  عنوان سے  ہائیکو کا جو مجموعہ شائع کیا اس میں  بقول کیا کرامت علی کرامت دو طرح کے  ہائیکو ہیں۔ ایک پابند ہائیکو اور دوسرے  نثری ہائیکو۔ جس نظم کا کرامت علی کرامت نے  پابند ہائیکو قرار دیا اس کا ہر مصرع فاعلاتن مفاعلن فعلن کے  وزن پر ہے۔ اور پہلے  اور تیسرے  مصرعے  میں  قافیہ کی پابندی کی گئی ہے۔ یہ نظم پیش کی جا رہی ہے۔

معتبر منزلوں  کا راہی وہ

ہیں  سمندر پناہ میں  اس کی

ہے  صدف آشنا سپاہی وہ

            اب حمایت علی شاعر کا ایک ’’ثلاثی ‘‘دیکھئے  جس کا عنوان ’’زاویہ نگاہ‘‘ ہے۔

یہ ایک پتھر ہے  جو راستے  میں  پڑا ہوا ہے

اسے  محبت تراش لے  تو یہی صنم ہے

اسے  عقیدت نواز دے  تو یہی خدا ہے

            اس ثلاثی میں  اور علیم صبا نویدی کی نظم میں  ہیئت کے  اعتبار سے  کوئی فرق نہیں۔ بحر البتہ مختلف ہے۔ دونوں  میں  پہلا اور تیسرا مصرع ہم قافیہ وہم ردیف ہے  اور ہر نظم کے  تینوں  مصرعے  ایک ہی وزن کے  ہیں۔ تو پھر علیم صبا نویدی کی نظم کو ثلاثی کیوں  نہ کہا جائے۔ ایک ہی ہیئت کے  آخر دو نام کیوں ….؟ البتہ اسی کتاب یعنی ترسیلے  کے  مقدمے  میں  کرامت علی کرامت نے  اپنا بھی ایک ہائیکو پیش کیا ہے  جو راقم الحروف کے  خیال میں  ہائیکو کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔ یہ ہائیکو پیش کیا جا رہا ہے۔

لمحوں  کی تتلی

میرے  من کے  آنگن میں

جانے  کیوں  آئی

            اس نظم میں  سترہ سبب خفیف ۵، ۷، ۵ کی ترتیب میں  استعمال کئے  گئے  ہیں  کرامت علی کرامت نے  ’’ترسیلے ‘‘ کے  مقدمے  میں  ایک بڑی خوبصورت بات کہی ہے، جس سے  کسی کو انکار نہیں  ہو سکتا کہ

            ’’کسی زبان کی مخصوص صنف کو دوسری زبان میں  برتتے  وقت اس کے  فارم میں  کچھ تبدیلیاں  ناگزیر ہو جاتی ہیں ……..‘‘

            اس بات میں  کچھ اضافہ ہو سکتا ہے  کہ تبدیلیاں  ایسی ہوں  جن کے  باوجود اس صنف کی انفرادیت باقی رہے  اور دوسری اصناف کے  ساتھ خلط ملط ہونے  کا خدشہ نہ رہے۔ اور ساتھ ہی فنی لوازمات اور زبان کے  مزاج کا بھی خیال رکھا جائے …..یعنی ہیئت یا موضوع کے  لحاظ سے  کوئی بات تو ایسی ہو جس سے  صنف کا تعین ہو سکے۔ اگر ہم کسی نظم کو ہائیکو کہیں  تو اس کے  کچھ اصول ہوں۔ ثلاثی کہیں  تو اس کے  کچھ ضوابط بنیں اور سہ سطری ہیں  تو اس کا تعین بھی کسی قاعدے  کی بنیاد پر ہو۔ ورنہ ان تین ناموں  کی کیا ضرورت ہے …..؟ قرعہ ڈال کر کسی ایک نام کا انتخاب کر لیا جائے  یہ کیا بات ہوئی کہ جس کے  جو جی میں  آئے  وہی نام استعمال کرے۔ جیسا کہ پہلے  عرض کیا گیا، جاپانی ہائیکو کی پابندی خصوصیات میں  سب سے  اہم اختصار ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے  کہ صرف سترہ صوتی اجزاء سے  پانچ، سات، پانچ کی ترتیب میں  تین مصرعے  تشکیل دیئے  جاتے  ہیں۔ اب اردو شاعری جاپانی یا انگریزی شاعری سے  مختلف ہے۔ وہاں  سلیبل یا صوتی اجزاء کے  ذریعے  Scanningکی جاتی ہے  اور یہاں  سبب اور وتد کے  ذریعے  ارکان بنا کر تقطیع ہوتی ہے  …… تو پھر کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ سبب یا وتد کو ہائیکو کے  لئے  بھی بنیاد بنایا جائے …….!

            راقم الحروف کے  خیال میں  اردو ہائیکو کے  لئے  بھی یہی طریقہ کار اختیار کرنا چاہئے ….. یعنی سب سے  پہلے  تو یہ کہ تین مصرعے  ہوں  اور دوسری بات یہ کہ ۵، ۷، ۵ کی ترتیب کا خیال رکھا جائے۔ یعنی پہلے  مصرعے  میں  پانچ ہم وزن ٹکڑے  دوسرے  میں  سات اور تیسرے  میں  پانچ ٹکڑے  استعمال کئے  جائیں۔ یہ ہم وزن ٹکڑے  سبب خفیف یا وتد مجموع کے  ہو سکتے  ہیں۔ البتہ قافیہ اور ردیف کی قید کو ضروری نہ رکھا جائے ….. کیوں  کہ جاپانی میں  بھی یہ قید نہیں  ہے۔ ویسے  اگر مزید حسن پیدا کرنے  کے  لئے  پہلے  اور تیسرے  مصرعے  ہم قافیہ ہوں  تو اور بھی بہتر ہو گا۔

فعلن فعلن فع

فعلن فعلن فعلن فع

فعلن فعلن فع

            اور سترہ وتد مجموع کے  لئے  یہ شکل بنے  گی۔

مفاعلن مفاعلن فعل

مفاعلن مفاعلن مفاعلن فعل

مفاعلن مفاعلن فعل

            یہاں  ایک تجویز یہ بھی ہو سکتی تھی کہ کیوں  نہ کسی سالم یا محذوف رکن کو سترہ بار استعمال کیا جائے۔ راقم الحروف کے  خیال میں  یہ درست نہیں  ہے۔ اس لئے  کہ ہائیکو نظم کی سب سے  اہم خصوصیت اختصار ہے۔ سالم یا محذوف رکن استعمال کرنے  سے  جو طوالت پیدا ہو گی وہ ہائیکو کی روح یعنی اختصار کو مجروح کر دے  گی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے  کہ سبب ثقیل وتد مفروق اور فاصلہ صغریٰ و کبریٰ کو بھی استعمال ہونا چاہئے۔ لیکن شاید اردو کا مزاج اس کا متحمل نہ ہو سکے۔ بہرحال اگر سترہ سبب خفیف یا ستروتد مجموع کی بحور کو اپنا کر اردو میں  ہائیکو کہے  جائیں  تو بات یقین سے  کہی جا سکتی ہے  کہ یہ صنف نہ صرف مقبول ہو گی بلکہ اس کی اپنی ایک ہیئت بھی ہو گی۔ اور اس کے  اصول بھی ہوں  گے۔ نمونے  کے  طور پر راقم الحروف کے  کچھ ہائیکو درج ہیں۔

آنسودیتا ہے

لمحہ تیری یادوں  کا

چٹکی لیتا ہے

میری باتوں  سے

سہماسہما ہے  سورج

کتنی راتوں  سے

اک اک پل جوڑے

زندہ رہنے  کی خواہش

پیچھا کب چھوڑے

گلشن بلبل گل

چنداسورج یا تارے

سب لفظوں  کے  پل

تنہائی میری

دھندلا دیتی ہے  اکثر

بینائی میری

——————–٭٭——————–

 

امام الدین فدا اور ان کی شاعری

            شاعر اپنے  عہد کا مؤرخ بھی ہے  اور نقاد بھی۔ زمانے  کے  انقلاب کا پرتو شاعری ہر پڑنا ایک لازمی امر ہے  کیونکہ ہر وہ چیز جو ذہن میں  ارتعاش پیدا کرے  فن کے  پیکر میں  ڈھل جاتی ہے۔ جناب امام الدین فدا کا بھی یہی معاملہ ہے۔ فدا صاحب کی زندگی مسلسل ہنگاموں  سے  عبارت ہے۔ انہوں  نے  ۷۰ گرم وسرد موسم جھیلے  ہیں  اور ان کی نگاہوں  نے  نہ صرف حیدر آباد کی سیاست کے  بدلتے  ہوئے  روز شب دیکھے  ہیں  بلکہ سطح پر بھی رونما ہونے  والے  تغیرات سے  وہ آشنا رہے  ہیں۔

            امام الدین فدا کے  والد نظم جمعیت کے  جمعدار تھے  اور نانا تحصیل دار۔ اس لئے  ان کا بچپن کافی آسائش میں  گزرا۔ ان کی ابتدائی تعلیم ورنگل میں  ہوئی اور پھر حیدر آباد منتقل ہو گئے  اور جامعہ عثمانیہ میں  تعلیم حاصل کی۔ جس دور میں  امام الدین فدا کی ذہنی نشو ونما ہوئی وہ ۱۹۳۰ء سے  لے  کر ۱۹۴۵ء تک دور ہے۔ وہ دور ہے  جب دوسری جنگ عظیم کے  بھیانک اثرات ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں  لئے  ہوئے  تھے۔ اور ادھر ہندوستان میں  سیاسی طور پر پختگی پیدا ہو چکی تھی، سیاسی جماعتیں طاقتور ہو رہی تھیں۔ مختلف تحریکیں  اپنے  عروج پر تھیں۔ لیکن حیدر آباد پر چونکہ شخصی حکومت تھی اس لئے  یہاں  ہندوستان بھرمیں  موجود سیاسی بیداری کے  اثرات پوری طرح پہنچ نہیں  پائے۔ پھر بھی عثمانیہ یونیوسٹی کے  فارغ التحصیل طلبا کی وجہ سے  عوام میں  بھی سوچنے  کے  ڈھنگ میں  تبدیلی ہو رہی تھی۔ کیونکہ یہ نوجوان نی صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھرمیں  ہونے  والی تبدیلیوں  سے  بڑی حد تک آگاہ تھے ……. اور انھیں  اس بات کا احساس تھا کہ بنیادی ضروریات کے  اعتبارسے  ریاست حیدر آباد کس قدر پس ماندہ ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ ۱۹۳۰ء سے  ۱۹۴۵ء تک تعلیم حاصل کرنے  والا نوجوان ایک عجیب قسم کے  تذبذب میں  مبتلا تھا۔ اسے  یہ سمجھ میں  نہ آتا تھا کہ وہ پورے   کے  دائرے  میں  رہ کر مسائل پر غور کرے  یا پھر اپنے  آپ کو صرف حیدر آباد تک محدود کر لے۔ امام الدین فدا بھی شاید اسی طرح کے  ایک نوجوان تھے۔ انھوں  نے  مسائل کو عوام تک پہنچانے  کا ارادہ کیا اور سن ۱۹۴۶ء میں  ماہنامہ ’’مضراب‘‘ جاری کیا۔ اسی سال انھوں  نے  بزم اقبال سجائی جس کے  پہلے  صدر نواب حسن یار جنگ تھے۔ وہ انجمن صحافت ریاست حیدر آباد سے  بھی وابستہ رہے۔ اور ساتھ ہی حضرت علی اختر، مولانا ماہر القادری، عبد القیوم خان باقی، علامہ نجم آفندی اور شاہد صدیقی جیسے  شعراء کے  ساتھ بزم آرائیاں  بھی ہوتی رہیں۔ ماہرالقادری سے  فدا صاحب بہت قریب تھے  چنانچہ ’’مضراب‘‘ کے  لئے  مولانا ماہر القادری نے  یہ شعر عطا کیا تھا۔

لمس مضراب فقط خالق نغمہ ہی نہیں

لرزش تار سے  ہوتا ہے  شرر بھی پیدا

            پھر فدا صاحب نے  سقوط حیدر آباد کا عبرت ناک منظر دیکھا اور اس کے  نتیجے  میں  پیدا ہونے  والی سیاسی، سماجی، تہذیبی اور علمی افراتفری کے  عینی شاہد بنے۔ ان حالات نے  فدا صاحب کی شاعری میں  ایک نشتریت پیدا کر دی۔ لیکن اس تلخی اور تندی میں  ایک ٹھہراؤ تھا…..ایک بالغ نظری تھی….. روایت اور ترقی پسندانہ فکر دور کے  اہم رجحانات تھے۔ فدا صاحب کی شاعری کی جڑیں  روایت میں  پیوست رہیں۔ وہ نئے  زمانے  کے  تقاضوں  کو محسوس کر رہے  تھے۔ لیکن کبھی اپنے  اشہب قلم کو بے  قابو ہونے  نہ دیا۔ ۱۹۷۵ء میں  مرکزی اردو محاذ کی بنا ڈالی گئی۔ فدا صاحب اس کے  پہلے  نائب صدر تھے۔ حیدر آباد کی علمی سرگرمیوں  میں  اس محاذ نے  خاطرخواہ اپنا کردار ادا کیا۔ مشاعرے ، انجمنیں، صحافت ان تمام میں  فدا صاحب یکساں  طور پر حسب مقدور شریک تھے۔ اس کے  باوجود ان میں  قدرے  کم آمیزی رہی۔ وہ گروہی سیاست سے  دور رہنا چاہتے  تھے  جبکہ حیدر آباد کے  ادبی حلقے  گروہی سیاست کا شکار تھے۔ اسی لئے  انھوں  نے  اپنے  آپ کو کچھ حد تک سیاست سے  الگ رکھا۔

            فدا صاحب سے  میری ملاقات مرکزی ادبی محاذ کے  قیام کے  ضمن میں  ہوئی تھی۔ مجھے  اس بات کا اعزاز حاصل ہے  کہ میں  بھی اس انجمن کا تاسیسی رکن تھا۔ اس زمانے  میں  وہ وقف بورڈ سے  وابستہ ہو گئے  تھے۔ اردو محاذ کی کسی نشست کے  بعد انھوں  نے  اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ مجموعہ کلام کو مرتب کر کے  شائع کرنا چاہئے …….اس سلسلے  میں  انھوں  نے  مجھ سے  بھی تعاون کی خواہش کی تھی۔ لیکن حالات نے  انھیں  اس بات کی اجازت نہ دی کہ وہ اپنا مجموعہ شائع کرتے۔ ایک عرصے  بعد جب زندگی کی شام کے  سائے  طویل ہوئے  تو انہوں  نے  پھر سے  مجموعہ کی اشاعت کے  بارے  میں  سوچا …… مولوی مظفر علی صاحب نے  کتابت و طباعت کی ذمہ داری اپنے  سرلی……. اور یوں  ’’مضراب‘‘ کی صورت گری ممکن ہو سکی۔ ’’مضراب ‘‘ وہ شئے  ہے  جس سے  تار چھیڑے  جاتے  ہیں۔ اسی بات کو ذہن میں  رکھ کر فدا صاحب نے  اپنے  ماہنامے  کا نام ’’مضراب‘‘ رکھا تھا۔ اور اس بات کی کوشش کی تھی کہ ادب، تہذیب اور سیاست کے  تار چھیڑ کر زندگی کو نئے  اور حسین نغموں  سے  آشنا کریں۔ امتداد زمانہ نے  اس مضراب کو تو ختم کر دیا لیکن فدا صاحب کی روح میں  پوشیدہ مضراب نے  وقتاً فوقتاً زندگی کے  تاروں  میں  جو ارتعاش پیدا کیا وہی ان کی شاعری کا محور بنا۔

            ’’مضراب‘‘سے  فدا صاحب کو بے  حد محبت تھی اسی کی بنا پر انہوں  نے  اپنے  مجموعہ کلام کا نام بھی ’’مضرات‘‘ رکھا۔ فدا صاحب نے  زندگی کے  مختلف پہلوؤں  کو اپنی شاعری میں  جگہ دی ہے۔ ان کے  ہاں  زندگی کا کرب بولتا ہوا نظر آتا ہے۔ لیکن چونکہ شاعری کی نغمگی اور روایت کی اعلیٰ قدروں  سے  ان کی گہری وابستگی تھی اس لئے  ان کے  فن میں  وہ کھردرا پن پیدا نہ ہو سکا جو بعد میں  آنے  والے  فنکاروں  کے  کلام جزو بنا۔ وہ نئے  عہد، نئی مزاج کو محسوس کر رہے  تھے۔ کہتے  ہیں۔

خدا نئے  ہیں، خدائی نئی، نئے  جلوے

نئے  حرم، نئے  ایماں ، نئے  صنم خانے

            اور اس ’’نئے  پن‘‘ کے  نتیجے  میں  جو صورت حال پیدا ہوئی، اس کے  بارے  میں  یوں  اظہار خیال فرماتے  ہیں۔

نہ مستیاں  ہیں  نہ کیف وسرور ہے  ساقی

بھری بہار میں  رسوا ہوئے  ہیں  میخانے

            اور اسی غزل میں  ایک شعر یہ بھی ہے۔

سفردراز ہے، زخموں  سے  چور چور حیات

غموں  کی چھاؤں  میں  بیٹھے  ہوئے  ہیں  سستانے

            جمہوری نظام کا ایک تحفہ یہ بھی ہے  کہ ہر شخص رہنما بننے  کی سوچتا ہے۔ اور اس طرح گلی گلی میں  قائدین کی ایک فوج تیار ہو جاتی ہے۔ اس صورت حال پر طنز کرتے  ہوئے  فدا صاحب کہتے  ہیں۔

ہر گلی میں  ہیں  قیادت کے  ابلتے  چشمے

جس طرف دیکھئے  جئے  کار ہے  کیا عرض کروں

            خزاں  بہار کا روپ دھارے  چمن کو برباد کرنے  کے  درپے  ہو جائے  اور اس طرح عظمت وطن خطرے  میں  پڑ جائے  تو دل شاعر کانپ اٹھتا ہے۔ فدا صاحب کہتے  ہیں۔

چمن کی خیر نشیمن کی خیر ہویا رب

بہار شعلہ بداماں  ہیں  کیا کیا جائے

            ’’کیا کیا جائے ‘‘ کے  پیچھے  جو تڑپ ہے  اسے  صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ لفظوں  میں  بیان نہیں  کیا جا سکتا۔ بھوک انسانی فکر کا محور آج سے  نہیں  بلکہ ابتدائے  آفرینش سے  ہے، بھوک علامت کے  جدوجہد حیات کی۔ فدا صاحب نے  بھوک کے  عنوان پر ایک نظم تحریر کی ہے  یہ نظم ماہنامہ سویرا کے  ’’بھوک نمبر‘‘ میں  بھی شامل ہے  اس نظم کے  دو شعر ملاحظہ ہوں۔

بھوک فطرت کی امانت، بھوک راز کائنات

بھوک آدم کی شریعت، بھوک انعام حیات

بھوک خوابوں  کا اجالا، بھوک دنیا کا سہاگ

بھوک آزادی کا نغمہ، بھوک طوفان بھوک آگ

            اس طرح فدا صاحب نے  ذہن انسانی میں  بھوک کی عظمت کے  چراغ روشن کر دیئے  ہیں۔ افلاطون نے  اپنی خیالی ریاست سے  شاعروں  کو نکال باہر کیا تھا۔ کیونکہ اس کا خیال تھا کہ شاعر احساسات کو برانگیختہ کرتا ہے  اور سماج میں  ابتری کا سبب بنتا ہے۔ اسی لئے  افلاطون کی ریاست میں  ہر طرح کے  فنکاروں  کی گنجائش تھی، صرف شاعر کو خارج کر دیا گیا تھا۔ لیکن ارسطو نے  اپنے  استاد کے  خیال سے  اتفاق نہیں  کیا اور شاعری کو ایک الوہی جذبہ بتایا جو انسانی فکر کی تطہیر Catharsis) اور سماج میں  ابتری کا سبب بنتا ہے ) کرتا ہے۔ فدا صاحب ’’شاعر‘‘ نظم کے  عنوان سے  کہی گئی نظم میں  شاعر کے  بارے  میں  کہتے  ہیں۔

پیکر اخلاص، عرفان وفا کا تاجدار

آشنائے  لذتِ غم، درد کا سرمایہ دار

خلد زار آدمیت، جس کے  ہیں  سینے  میں  داغ

سوزناطن سے  جلا جاتا ہے  محبت کے  چراغ

            ۱۹۵۶ء میں  جڑچرلہ کے  قریب ایک ندی میں  سیلاب آیا جس کے  نتیجے  میں  ریل کا ایک بھیانک حادثہ وقوع پذیر ہوا۔ اس حادثے  میں  سینکڑوں  جانیں  تلف ہوئیں ……. اس حادثے  کی اطلاع جب حیدر آباد پہنچی تو ایک کہرام برپا ہو گیا۔ دل شاعر اس حادثے  سے  متاثر ہو کر یوں  چلا اٹھتا ہے …

بیکسی، بے  چارگی، چیخیں، کراہیں ، اضطراب

آ گیا چشم تصور میں  قیامت کا سماں

کتنی آنکھوں  کا اجالا، کتنی امیدوں  کا نور

چھین کر تو لے  گئی ہے  آہ مرگ ناگہاں

دام صیاد اجل نے  راستے  میں  رکھ دیئے

اور نظم ونسق پر طاری ہے  ایک خواب گراں

            حیدر آباد اپنی مخصوص تہذیبی قدروں  کے  لئے  شہرت رکھتا ہے۔ لیکن نئی ہوا نے  اس تہذیب کے  پرخچے  اڑا دیئے  تھے۔ تہذیبی اقدار کی شکست و ریخت پر برانگیختہ ہو کر فدا صاحب کہہ اٹھتے  ہیں۔

تہذیب کے  دعویداروں  نے  بنیاد کے  پتھر توڑ دیئے

تعمیر کے  نقشے  بدلے  ہیں ، معمار بدلنے  والے  ہیں

            اور یہ مطلع بھی دیکھئے

ہر جنبش  نظر ہے  خطا کیا بیاں  کریں

ہرسانس بن گئی ہے  سزا کیا بیاں  کریں

            زمانۂ حال کی تہذیبی گراوٹوں  کو دیکھ کر دل شاعر کانپ اٹھتا ہے  اسے  یاد آتا ہے  کہ اس نے  زندگی کو امید کے  چراغوں  سے  روشن کر رکھا تھا اور آج کی نسل تو تبسم کے  نام سے  بھی ناآشنا ہے۔

            فدا صاحب کہتے  ہیں۔

ہم نے  ماضی میں  جلائے  تھے  امیدوں  کے  چراغ

عصر حاضر میں  تبسم کی بھی سوغات نہیں

            اس دور کی ایک دین یہ بھی ہے  کہ علم و ہنر کے  خزانوں  پر قزاقوں  نے  قبضہ کر لیا ہے۔ آج نہ علم سربلند ہے  اور نہ عالم۔ اور اگر کوئی عالم سربلندی حاصل کرتا ہے  تو اپنے  علم کی بدولت نہیں  بلکہ اس لئے  سربلند ہوتا ہے  کہ اس کی سرپرستی ایسے  لوگ کرتے  ہیں  جن کے  خمیر میں  صرف جہل ہوتا ہے۔

            فدا صاحب کہتے  ہیں۔

متاع علم و ہنر  رہزنوں  کے  لمس میں  ہے

خرد کا جہل سے  رشتہ مرے  گماں  میں  نہ تھا

            حیات کا سفر کبھی یکساں  نہیں  ہوتا۔ یہ سفر کبھی روشن وادیوں  کی سیر کراتا ہے  اور کبھی ظلمتوں  کے  نہاں  خانوں  سے  ہمکنار کرتا ہے۔ اسی نشیب و فراز کا نام زندگی ہے  جس سے  فراز ممکن نہیں۔ حیدر آباد کی خواب ناک فضاؤں  سے  نکل کر فدا صاحب نے  عروس البحر جدہ میں  اپنا آشیانہ بنایا۔ جہاں  زاغ و زغن بھی شاہین و ہما کے  ہم سرنظرآتے  ہیں۔ فدا صاحب اس کرب کو جھیل رہے  ہیں۔ اور یہ کرب جب لفظوں  میں  ڈھلتا ہے  تو یہ رباعی تخلیق ہوتی ہے۔

غم ناک فضاؤں  میں  جی رہا ہوں  لوگو

ماحول کا زہر پی رہا ہوں  لوگو

صد شکر جہالت کے  اندھیروں  میں  فدا

پیراہن حیات سی رہا ہوں  لوگو

            اور یوں  فدا صاحب جہالت کے  اندھیروں  میں  زندہ رہنے  اور آگہی کے  چراغوں  کو جلا کر ان کی روشنی میں  حیات کے  بوسیدہ ہوتے  ہوئے  پیراہن سینے  کا فریضہ انجام دے  رہے  ہیں۔ خدا کر کے  کہ یہ عمل ہمیشہ جاری رہے  ……’’مضراب‘‘ زندگی کے  تار کو چھیڑتا رہے ……. نغمے  ابلتے  رہیں، تلخ و تند نغمے ، ملائم و شیریں  نغمے ، حیات آفریں  نغمے، خیال آگیں  نغمے ………!!!

————————-٭٭————————-

 

کلام اقبال میں  صناعی

            اقبال کے  فکری پہلوؤں  پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ شاعر اقبال کو نظر انداز کر کے  فلسفی اقبال پر ہزاروں  صفحات سیاہ کر دیئے  گئے  ہیں۔ خود اقبال نے  بھی متعدد جگہ اپنی شاعری کو صرف افکار کو پیش کرنے  کا ذریعہ بتایا ……میری نوائے  پریشاں  کو شاعری نہ سمجھ یا ’’نغمہ کجا و من کجا ساز سخن بہانہ ایست‘‘ کہہ کر اقبال نے  بظاہر اپنی شاعری کو زیادہ اہمیت نہ دی……. لیکن یہ اقبال کا انکسار تھا۔

            مولاناسید سلیمان ندویؔ اور اقبال کے  درمیان جو خط و کتابت ہوئی تھی اور اس میں  زبان اور شعر کے  مسائل پر جو بحثیں  ہوا کرتی تھیں  ان کی روشنی میں  یہ بات حتمی طور پر کہی جا سکتی ہے  کہ اقبال نہ صرف لفظ اور اس کے  استعمال پر قدرت رکھتے  تھے  بلکہ زبان کے  معاملے  میں  بھی وہ کافی محتاط تھے۔ وہ فارسی اور اردو شاعری کے  کلاسیکی سرمایہ اور روایات سے  کماحقہٗ واقف تھے۔ لیکن اس کے  ساتھ ساتھ اقبال شاعری کی اثر انگیزی سے  بھی آگاہ تھے۔ وہ جانتے  تھے  کہ شعر و ادب اصلاح قوم کے  لئے  بہترین ذریعہ ہیں۔ اس لئے  شاعری کو انہوں  نے  اپنے  افکار پیش کرنے  کے  لئے  استعمال کیا۔ اقبال کی ابتدائی شاعری میں ، خصوصاً وہ کلام جو انہوں  نے  منسوخ کر دیا صنائع اور بدائع کی بہتات نظر آتی ہے۔ لیکن انہوں  نے  شعری کمالات کو معراج شاعری نہ سمجھا۔ استاذی پروفیسر گیان چند جین نے  بڑی عرق ریزی سے  اقبال کے  ابتدائی عہد کا غیر متداول اور منسوخ کلام جمع کیا، جس کو دیکھنے  کے  بعد حیرت ہوتی ہے  کہ اقبال صناعی ہر کس قسدر قادر تھے۔ سچ تو یہ ہے  کہ صناعی صرف وہ نہیں  جو محض آرائش شعر کے  لئے  کی جایے ، کیونکہ صناعی مقصود بالذات نہیں  ہوتی بلکہ وہ بات اہم ہے  جو شاعر کہنا چاہتا ہے۔ اور اگر صناعی اس نکتہ پر غالب آ جائے  تو اصل بات دور جا پڑتی ہے۔ لیکن اگر صناعی محسوس طریقے  پر شعر کی اثر آفرینی میں  اضافہ کر کے  تو یہی صناعی حسن بن جاتی ہے۔ تاثیر شعر سے  واقف ہونے  کی وجہ سے  اقبال نے  اپنے  افکار کی ترسیل کے  لئے  شعر کا وسیلہ تلاش کیا تھا اور وہ اس میں  کامیاب بھی رہے۔ چونکہ اقبال شعر کے  فن سے  واقف تھے  اور تلمیحات، استعارات، علائم اور صنائع و بدائع کے  استعمال پر بھی انہیں  قدرت حاصل تھی، اسی لئے  ان کی شاعری میں  دل کو چھو لینے  والی کیفیت ملتی ہے۔ اہم بات یہ ہے  کہ ان کی شاعری میں  آورد نہیں  آمد ہے۔ اسی لئے  اقبال ہاں  جو صنائع ملتے  ہیں  وہ شعوری کوشش کا نتیجہ نہیں۔ ویسے  انہوں  نے  جہاں  شعوری کوشش کی ہے۔ ایسے  اشعار کو خود ہی خارج کر دیا۔ عبد الواحد  معینی نے  باقیات اقبال میں  تین شعر درج کئے  ہیں :

دیکھ اے  غافل! یہ دنیا جائے  آسائش نہیں

اس ختن سے  کر گیا ہے  آہوئے  آرام رم

ہائے  اپنا ہی نظر آیا نہ کچھ انجام اسے

دیکھتا تھا جام میں  ہر چیز کا انجام جم

دم میں  جب تک دم ہے  گردوں  تک رسائی ہے  محال

گلشن ہستی میں  ہے  سودا م کا اک دام دم

            ان اشعار کے  قوافی پر غور کیجئے۔ آرام، رم، انجام، جم اور دام،دم میں  بالالتزام تجنیس ناقص رکھی گئی ہے۔ (تجنیس ناقص میں  ایک حرف کم کر دیا جاتا ہے ) اور یہاں  صنعت ذوالقافیتین بھی موجود ہے  ……گویا لزوم مالا یلزم، تجنیس ناقص اور ذوالقافیتین تین صنعتیں  اس میں  موجود ہیں  …… پھر تیسرے  شعر میں  ردالعجز علی الصدر بھی ہے  یعنی دم مصرعے  کے  آغاز میں  ہے  پھر قافیہ ہے  طور پر بھی استعمال ہو ا ہے۔ لیکن ان اشعار کو اقبال نے  اپنے  مجموعے  میں  شامل نہیں  کیا، کیونکہ انہیں  اندازہ تھا کہ ان اشعار میں  صناعی غالب ہے  اور جو بات کہنے  کی تھی وہ صناعی کے  پردے  میں  چھپ گئی ہے۔ لیکن ذیل کے  اشعار دیکھئے، ان میں  صناعی ہونے  کے  باوجود گراں  نہیں  گزرتی، شاید اسی لئے  انہیں  مجموعہ میں  جگی دی گئی ہے :

آشنا اپنی حقیقت سے  ہو اے  دہقاں  ذرا

دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں  بھی تو، حاصل بھی تو

آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے  تجھے

راہ تو، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو

کانپتا ہے  دل ترا اندیشۂ طوفاں  سے  کیا

ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو

دیکھ آ کر کوچۂ چاک گریباں  میں  کبھی

قیس تو، لیلیٰ بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تو

وائے  نادانی کے  تو محتاج ساقی ہو گیا

مئے  بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو

            ان اشعار میں  لزوم مالایلزم ہے  اور مراعات النظیر کے  علاوہ صنعت جمع بھی موجود ہے۔ لکھنو اسکول نے  تخلیق برائے  صناعی کا تصور پیش کیا تھا۔ اقبال اس کے  خلاف تھے۔ وہ تو دلکشا صدا کے  قائل تھے۔ اسی لئے  انہوں  نے  کہا تھا

نہ زباں  کوئی غزل کی، نہ زباں  سے  باخبر میں

کوئی دلکشا صدا ہو، عجمی ہو یا کہ تازی

            جب انہوں  نے  منکسرانہ انداز سے  زبان سے  اپنی بے  خبری کا اعلان کیا تو اس کا مطلب یہی تھا کہ وہ تخلیق برائے  صناعی کے  قائل نہیں۔ لیکن وہ صناعانہ تخلیق کے  ضرور قائل ہیں  اور یہ تصور ان کے  پورے  نظام فکر سے  ہم آہنگ نظر آتا ہے۔

            اقبال کی شاعری میں  صناعی کا جائزہ لیتے  ہوئے  دو پہلو قابل غور ہیں۔ ایک متداول صنعتوں  کا استعمال غیرمحسوس طریقے  پر کیا گیا ہے  اور دوسرے  نظم یا غزل کی معنویت اور اندرونی ساخت کو ملحوظ رکھتے  ہوئے  مناسب صنعتوں  کا انتخاب ہوا ہے۔ یہ پہلو ایسا ہے  جو ایک بڑے  شاعر کو دوسرے  شعراء سے  ممیز کرتا ہے  اور یہی پہلو اقبال کے  ہاں  غالب ہے۔ اقبال کا یہ شعر نہ جانے  کتنی مرتبہ پڑھا اور سنا گیا ہے  لیکن اس شعر میں  بھی صناعی نظر آئے  گی۔ :

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے  پہلے

خدا بندے  سے  خود پوچھے  بتا تیری رضا کیا ہے

            اب اس شعر میں  تین لفظوں  پر غور کیجئے ، خودی، خدا، خود …..ان سے  جو مثلث بنتا ہے  وہ اقبال کی فکر کا حاصل ہے۔ لیکن اس سے  قطع نظر خود اور خودی میں  تجنیس زائد و ناقص ہے  صرف ایک حرف کی کمی بیشی سے  صنعت بھی پیدا ہو گئی اور بات بھی بلند ہو گئی۔ علاوہ ازیں  خدا اور بندے  میں  صنعت تضاد ہے۔ خدا اور خودی میں  شبۂ اشتقاق ہے  یعنی یہ شبہ ہوتا ہے  کہ ان کا مادہ ایک ہی ہے ، جب کہ ایسا نہیں  ہے۔ اب اس شعر میں  استعمال ہونے  والے  حروف کو دیکھئے۔ ر، خ اور ق کا استعمال ایک خاص ترنم پیدا کرتا ہے۔ شعر کا آخری حصہ سوالیہ ہے  ’’بتا تیری رضا کیا ہے ؟‘‘ ……. اس سوال میں  تحکم نہیں  بلکہ محبت کی کیفیت ہے۔ اس میں  قرآن سے  بھی استفادہ موجود ہے۔ سورۂ دہر کی یہ آیت دیکھئے۔ وَمَاتَشَاؤُنَ اِلّاَ أَن یَّشَا ے  تراجم کے  علاوہ شعراء نے  طنءَ اللّٰہ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیماً حَکِیماًoکچھ باتیں  ایسی ہوتی ہیں  جو بعید از فہم ہوتی ہیں۔ خدا بندے  سے  کیوں  پوچھے ، لیکن اس کی دلیل بھی دی گئی ہے  کہ اگر خودی کو بلند کیا جائے  تو یہ ممکن ہے  اور اس طرح حضرت موسیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے  رب العزت سے  کلام کرنے  پر بھی مہر تصدیق ثبت ہوتی ہے  اور دوسری طرف یہ بات بھی آشکارا ہوتی ہے  کہ پیغمبری یا نبوت منصب ہے  جسے  اللہ نے  عطا فرمایا ہے  اس کے  ساتھ ہی بندے  میں  اگر صلاحیت ہو تو وہ بلند منصب پر فائز ہو سکتا ہے۔ یہ صنعت مذہب کلامی ہے۔ یہ تو ایک مثال تھی۔ کلام اقبال سے  کوئی شعر اٹھایئے ، یہی صورت ہو گی کہ اس میں  صناعی تو ہو گی لیکن اس قدر خفی کہ غور کرنے  پر ہی پتہ چلے  گا کہ اس میں  صنعت موجود ہے۔ یہ شعر دیکھئے  :

 چپ رہ نہ سکا حضرت یزداں  میں  بھی اقبال

کرتا کوئی اس بندہ گستاخ کا منہ بند

            اس شعر میں  بندہ اور بند پر غور کیجئے  صنعت نکل آئے  گی۔ یہ تجنیس زائد و ناقص ہے ، اب ذرا یہ شعر بھی دیکھئے :

تونے  یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا

میں  ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں

            کیا؟ اور کیا میں  تجنیس تو ہے  ہی ……. لیکن ایک بہت دلچسپ صنعت اس میں  موجود ہے  اور وہ ہے  صنعت مقلوب…… ان دو لفظوں  پر غور کیجئے۔ ایک اور کیا …… دونوں  حروف یکساں  ہیں  صرف ترتیب الٹ گئی ہے  یہ شعر بھی ہم نے  کئی بار پڑھا ہے :

پھو ل کی پتی سے  کٹ سکتا ہے  ہیرے  کا جگر

مردِ ناداں  پر کلامِ نرم و نازک بے  اثر

            اب اگر اس شعر کو ایک خاص انداز سے  پڑھا جائے  تو مفہوم بدل جاتا ہے۔ یہ صنعت متحمل الضدین ہے۔ پہلے  مصرعے  کو اثباتیہ انداز میں  پڑھئے  تو ایک مفہوم نکلتا ہے  …..اور اگر سوالیہ انداز سے  پڑھا جائے  تو دوسرا مفہوم نکلتا ہے۔ یعنی اثباتی انداز سے  پڑھا جائے ، تو یہ مطلب ہوتا ہے  کہ پھول کی پتی نرم و نازک ہوتی ہے  لیکن اس میں  یہ صلاحیت ہوتی ہے  کہ ہیرے  کا جگر بھی کاٹ سکتی ہے ، جبکہ مردِ ناداں  پر نرم و نازک کلام کا کوئی اثر نہیں  ہوتا۔ اور اگر شعر کا پہلا مصرعہ سوالیہ انداز سے  پڑھا جائے  تو مفہوم نکلتا ہے  کہ …..کیا پھول کی پتی سے  ہیرے  کا جگر کٹ سکتا ہے۔ ؟ نہیں  ……! اور جس طرح یہ بات ممکن نہیں  ہے  اسی طرح مردِ ناداں  پر بھی نرم و نازک کلام کا کوئی اثر نہیں  ہوتا۔ اب یہ شعر دیکھئے :

عشق کی گرمی سے  معرکۂ کائنات

علم مقات صفات، عشق تماشائے  ذات

            اس میں  علم اور عشق کا تقابل ہے۔ لیکن اس سے  ہت کر بھی ایک صنعت ہے  اور وہ ہے  فو ق النقاط۔ یعنی اس شعر میں  کوئی لفظ ایسا نہیں  ہے  جس مکے  نقطے  نیچے  لگے  ہوئے  ہوں۔ (ماہرین کے  نزدیک ’’ے ‘‘ کو تحت النقاط حرف مانا گیا ہے۔ لیکن چونکہ یہ نقطے  تحریر میں  نہیں  آتے  اس لئے  راقم الحروف کو اس بات سے  اختلاف ہے۔ )

            اس شعر میں  کئی صنعتیں  یکجا ہو گئی ہیں :

خودی کی جلوتوں  میں  مصطفائی

خودی کی خلوتوں  میں  کبریائی

            اس میں  صنعت ترصیع ہے۔ یعنی پہلے  مصرعے  کے  ہر لفظ کے  مقابلہ میں  دوسرے  مصرعہ میں  لفظ موجود ہے۔ اس کے  علاوہ اس میں  تجنیس خطی ہے۔ جلوتوں  اور خلوتوں  میں  صرف نقطے  کا فرق ہے  اور اس میں  ذوالقافیتین بھی ہے۔ فن تاریخ گوئی میں  صنعتیں  مشکل ہوتی ہیں۔ جسٹس میاں  شاہ دیں  ہمایوں  کی وفات پر اقبال نے  اس مصرعہ سے  تاریخ نکالی تھی

علامہ فصیح زہر چارسو شنید

علامہ فصیح کے  اعداد ۳۳۴ ہیں۔ مصرعہ میں  زہر چارسو شنید کا اشارہ موجود ہے  یعنی اگر ۳۳۴ کو چار سے  ضرب دیا جائے  تو سال وفات ۱۳۳۶ھ برآمد ہوتا ہے۔ یہ صنعت ضرب یاتضارب ہے  اور اس سے  ما قبل کے  کمالِ فن کا اندازہ ہوتا ہے۔

            لیکن اقبال کی عظمت اس میں  ہے  کہ انہوں  نے  شاعری کو صرف لفظوں  کا گورکھ دھندہ نہیں  بنایا بلکہ اس میں  سوزو فکر کے  امتزاج سے  نوع انسانی کے  لئے  پیغام حیات بھی پیش کیا……… کیونکہ اقبال جانتے  تھے  کہ اعلیٰ شاعری کا کیا مقام ہے۔

یہ چیز وہ ہے  کہ پتھر کو بھی گداز کرے

————————-٭٭————————-

 

منجو قمر بحیثیت شاعر

            منجو قمر کا پورا نام سید نجی اللہ ید اللہی تھا۔ آغا حشر کی طرح آپ کا نام اردو ڈرامے  کے  ساتھ جڑا ہوا ہے۔ لیکن ان کی علمی زندگی کا آغاز شاعری سے  ہوا۔ میرے  خیال میں  شاعری اور موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے   اور چوں  کہ منجو قمر کو موسیقی سے  بے  پناہ لگاؤ تھا اسی لیے  شاعری بھی ان کی روح میں  بسی ہوئی تھی۔ چودہ برس کی عمر ہی سے  ان کے  اندر چھپے  ہوئے  شاعر نے  اپنی جولانیاں  دکھانی شروع کیں۔ اور آہستہ آہستہ مقامی مشاعروں  میں  انہیں  مدعو کیا جانے  لگا۔ شاعر کی حیثیت سے  انہیں  دنیا کے  سامنے  روشناس کرانے  کا سہرا قائد ملت نواب بہادر یار جنگ کے  سر جاتا ہے۔ ان کا ایک شعری مجموعہ ’تجلیاتِ قمر ‘ شائع ہو چکا ہے۔ دوسرا مجموعہ’ رنگ و رباب ‘ کے  عنوان سے  وہ اپنی زندگی ہی میں  ترتیب دے  چکے  تھے  لیکن حیاتِ ناپائدار نے  ساتھ نہ دیا۔ ان کے  صاحب زادے  ممتاز مہدی نے  اس مجموعے  کو شائع کرنے  کا بیڑا اٹھایا جس کے  نتیجے  میں  یہ مجموعہ منظرِ عام پر آ سکا ہے۔

            ممتاز مہدی نے  منجو قمر پر میری ہی نگرانی میں تحقیقی کام کیاجس پر یونیورسٹی آف حیدر آباد نے  انھیں    سے  بے  پناہ لگاؤ تھا۔ ان کے  مقالے  کا عنوان ’اردو ڈرامے  کے  فروغ میں  منجو قمر کا حصہ ‘ ہے   جس پر یونیورسٹی آف حیدر آباد نے  انھیں  پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی۔ موضوع چوں  کہ ڈرامے  سے  متعلق تھا اس لیے  ممتاز مہدی نے  اپنے  کام کو اسی دائرے  میں  محدود رکھا اور ادبی کارناموں  کا ذکر کرتے  ہوئے  منجو قمر کی شعری صلاحیتیوں  پر مختصراّّ ذکر کر دیا۔ اور اب اس کمی کو انھوں  نے  اس مجموعے  کی اشاعت کے  ذریعے  پورا کیا ہے  جس کے  لیے  وہ مبارک باد  کے مستحق ہیں۔

            منجو قمر بنیادی طور پر اردو شاعری کی ان پائدار روایات سے  جڑے  ہوئے  ہیں  جن کا سکہ آج تک چل رہا ہے۔ یہ روایات کوئی کھوٹا سکہ نہیں  اور نہ ہی اصحاب کہف کے  سکوں  کی طرح ہیں۔ روایت نے  اردو شاعری کے  ہر دور میں  اپنا اثر قائم رکھا ہے۔ منجو قمر اسی جاری و ساری روایت کے  پاسدار ہیں۔

            سردار جعفری ترقی پسندی کے  اہم ستون تھے۔ غزل کو انھوں  نے  بظاہر زیادہ اہمیت نہیں  دی لیکن ان کی نظموں  میں  غزل کا آہنگ نمایاں  ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت منجو قمر کے  ہاں  بھی نظر آتی ہے۔ انھوں  نے  اپنی تخلیقات پر عنوان قائم کیے  جس کی وجہ سے  شائد ان کو نظموں  میں  شمار کیا جائے۔ لیکن اگر عنوان ہٹا دیا جائے  تو پھر چند ایک کو چھوڑ کر انھیں  غزل ہی کہا جائے  گا کیوں  کہ ہر شعر اپنی جگہ مکمل ہے  جو غزل کی ایک اہم خصوصیت ہے۔

            کچھ شعر دیکھیے  :

اہلِ گلشن سے  نہ کہنا کہیں  رودادِ قفس

روز کا بادِ صبا ہے  ترا آنا جانا

جو بھی گزری گزر گئی دل پر

فائدہ کیا ہے  اس کہانی سے

معیشت کا یہاں  خدشہ وہاں  پرسش کا اندیشہ

تفکر سے  بری شائد نہ واں  ہوں گے  نہ یاں  ہوں گے

نہ راستے  کی خبر ہے  مجھے  نہ منزل کی

رواں  دواں  ہے  بہر طور کارواں  میرا

آج زاہد کو بھی تڑپا جائے  گی ماضی کی یاد

باتوں  باتوں  میں  نکل آئی ہے  مئے  خانے  کی بات

چشمِ پرنم کی شعلہ سامانی

گویا جلتی ہے  آگ پانی سے

            منجو قمر نے  اسانذہ کی زمینوں  میں  بھی شعر کہے  ہیں۔ غالب کی غزل ہے

کسی کو دے  کے  دل کوئی نوا سنجِ فغاں  کیوں  ہو

منجو قمر کہتے  ہیں

                                    قمر دن رات کے  شکوے  گلے  کیا خوب کیا کہنے

                        ستم گر ہو لقب جس کا بھلا وہ مہرباں  کیوں  ہو   ( نظیرِ شعلہ فشاں)

            جلیل مانک پوری کی ایک مشہور غزل ہے

بات ساقی کی نہ ٹالی جائے  گی

کر کے  توبہ توڑ ڈالی جالے  گی

منجو قمر یوں  گل افشانی کرتے  ہیں

جب نقابِ رخ ہٹا لی جائے  گی

عشق کی بنیاد ڈالی جائے  گی

            اقبال کی ایک غزل کا مطلع ہے  :

گیسوئے  تابدار کو اور بھی تابدار کر

ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر

            اس زمین میں  منجو قمر نے  بھی طبع آزمائی کی۔ یہ دراصل اقبال سے  ان کی گہری عقیدت کا نتیجہ ہے۔ بہادر یار جنگ بھی تو اقبال کے  مداح تھے  تو پھر منجو قمر اقبال کے  چاہنے  والوں  میں  کیوں  کر نہ ہوتے۔ اقبال کا فلسفۂ مردِ مومن منجو قمر کے  درج ذیل شعر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

ہے  یہی رازِ زندگی  ہے  یہی رازِ بندگی

موت سے  تو نہ ڈر کبھی موت کا انتظار کر

اور واقعہ یہ ہے  کہ ایک سچا مومن موت سے  کبھی خوف زدہ نہیں  ہوتا۔ وہ جانتا ہے  کہ موت برحق ہے  اور کسی وقت بہی آ سکتی ہے۔

            اس مجموعے  کے  آخر میں  ایک اور باب شامل کیا گیا ہے  جو منجو قمر کی فنِ موسیقی سے  گہری وابستگی کا مظہر ہے۔ ممتاز مہدی نے  جامع انداز میں  منجو قمر کی موسیقی سے  آگہی کا ذکر کیا ہے۔ اس کے  علاوہ ممتاز مہدی نے  منجو قمر کی کچھ ایسی تخلیقات بھی شامل کر دی ہیں  جو انھوں  نے  مختلف ڈراموں  کے  لیے  تحریر کی تھیں۔ اہم بات یہ ہے  کہ بیشتر تخلیقات کے  ساتھ راگ اور طبلے  پر سنگت کی وضاحت کر دی گئی ہے۔

            ممتاز مہدی بے  اس مجموعے  کو مرتب اور شائع کر کے  ایک کارنامہ انجام دیا ہے۔ اولاد کا فریضہ ہے  کہ وہ اپنے  بزرگوں  کے  پردۂ خفا میں  پڑے  علمی کارناموں  کو محفوظ کرے۔ اس کے  لیے  میں  ممتاز مہدی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ میری دعا ہے  کہ ان کی یہ کاوش مقبولِ عام ہو۔

***

 

مولوی عبدالحق اور انکے  عزیز شاگرد شیخ چاند

            محمد تغلق نے  دہلی سے  دولت آباد پایہ تخت کی منتقلی کا فیصلہ کیا تھا تو شاید اسے  یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ خطۂ زمین مردم خیز بھی ہے  اور علم و ادب کی آبیاری کے  لئے  موزوں  بھی …. اس عہد سے  لے  کرآج تک اور رنگ آباد اردو کا گہوارہ رہا ہے  اور یہاں  کی خاک سے  ایسی ایسی نامی گرامی ہستیاں  اٹھیں  جن پر اردو زبان کو ناز ہے۔ ایسی ہی ایک شخصیت مولوی شیخ چاند کی ہے۔ اورنگ آباد کے  قریب ایک قصبہ ہے  جس کا نام پٹن۔ یہیں  کے  ایک کاشتکار گھرانے  میں  شیخ چاند ۱۵ اپریل ۱۹۰۵ء کو پیدا ہوئے۔ چونکہ پٹن میں  صرف مڈل تک تعلیم کا انتظام تھا۔ اس لئے  مڈل کے  بعد شیخ چاند مزید تعلیم کے  لئے  اورنگ آباد آ گئے  اور۱۹۲۳ء میں  انہوں  نے  میٹرک کامیاب کیا۔ اورنگ آباد میں  بھی صرف میٹرک تک ہی سہولت تھی۔ چنانچہ حصول علم کی خواہش انہیں  کشاں  کشاں  حیدر آباد لے  آئی جہاں  انہوں  نے  انٹرمیڈیٹ میں  داخلہ لیا۔

            یہ وہ زمانہ ہے  جب حکومت آصفیہ تعلیم کو عام کرنے  کے  لئے  نئے  نئے  کالج قائم کر رہی تھی۔ اورنگ آباد میں  اسی سال انٹرمیڈیٹ کا کالج قائم کیا گیا تھا۔ شیخ چاند کو اس کا علم ہوا تو وہ حیدر آباد سے  پھر اورنگ آباد منتقل ہو گئے  اور ۱۹۲۵ء میں  ایف اے  (انٹرمیڈیٹ ) کامیاب کیا۔ لیکن بہرحال انہیں  حیدر آباد آنا ہی تھا کیوں  کہ اس کے  آگے  تعلیم کی سہولت صرف حیدر آباد میں تھی۔ ۱۹۲۸ء میں  شیخ چاند نے  عثمانیہ یونیورسٹی سے  بی اے  کرنے  کے  بعد ۱۹۳۰ء میں  اردو سے  ایم اے  کیا۔ دیہی معاشرے  میں  سب سے  اہم تعلیم وکالت کی مانی جاتی تھی اور وکیل کو بڑی عزت کی نگاہ سے  دیکھا جاتا تھا۔ شیخ چاند نے  سوچا کہ وہ ایل ایل بی کا امتحان پاس کر لیں۔ ۱۹۳۲ء میں  انہوں  نے  پریویس کامیاب کیا اور پھر مجلس تحقیقات علمیہ سے  وابستہ ہوئے  جہاں  مولوی عبدالحق اردو تحقیق کے  نئے  باب وا کرنے  میں  ہمہ تن مصروف تھے۔

            مولوی عبدالحق سے  شیخ چاند کی ملاقات بہت پہلے  ہو چکی تھی۔ اورنگ آباد میں  انٹرمیڈیٹ کرنے  کے  دوران وہ مولوی صاحب سے  قریب آ چکے  تھے۔ حیدر آباد آئے  تو مولوی صاحب سے  اور بھی قربت بڑھی۔ چنانچہ رسالہ اردو میں  شیخ چاند کے  مضامین اور تبصرے  شائع ہونے  لگے۔ ان تبصروں  نے  ساری اردو دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ اگر چہ ان کا انداز قدرے  جارحانہ تھا لیکن خود مولوی صاحب ذاتی طور پر اس انداز تحریر کو پسندکرتے  تھے  اور اس بات کا امکان ہے  کہ یہ انداز تحریر مولوی صاحب کی ایماء پر ہی اپنایا گیا تھا۔ مگر سخت تنقیدی طرز نگارش کے  باوجود شیخ چاند کی نکتہ سنجیاور  تحقیقی بصیرت کی وجہ سے  ان کی تحریروں  میں  علمی وقار موجود تھا اور شیخ چاند کی عمیق نگاہی کی وجہ سے  ہی مولوی صاحب انہیں  بے  حد عزیز رکھتے  تھے۔

            ’’مجلس تحقیقات علمیہ‘‘ عثمانیہ یونیورسٹی کا ہی ایک ادارہ تھاجس کا مقصد یہ تھا کہ موزوں  اور لائق طلباء سے  تحقیقی کام کروایا جائے ، طلباء کو ایم اے  کے  بعد یہاں  تحقیقی کام پر معمور کیا جاتا تھا اور انہیں  وظائف دیئے  جاتے  تھے۔ اس زمانے  میں  عثمانیہ یونیورسٹی میں  اردو میں  پی ایچ ڈی کی ڈگری نہیں  دی جاتی تھی….. لیکن مجلس علمیہ کے  تحت تحقیقی کام کرنے  کا طریقہ کار وہی تھا جو پی ایچ ڈی کا ہو سکتا ہے۔ یہاں  تک کہ کام کے  محاسبہ کے  لئے  پی ایچ ڈی کی طرح ممتحن سے  رائے  طلب کی جاتی تھی۔ مولوی صاحب شیخ چاند کی صلاحیتوں  سے  واقف تھے  اسی لئے  انہیں  وہاں  وظیفہ دے  کر تحقیقی کام پر مامور کیا۔ یہیں  شیخ چاند نے  اپنا اہم مقالہ ’’سودا‘‘ لکھا جو ان کی موت کے  بعد ۱۹۳۷ء میں  انجمن ترقی اردو اور نگ آباد سے  شائع ہوا۔

            ’’سودا‘‘ شیخ چاند کا وہ معرکۃ الآرا تحقیقی مقالہ ہے  جس کی وجہ سے  ان کی شہرت میں  اضافہ ہوا۔ بعض لوگوں  کا خیال ہے  کہ یہ مقالہ ایم اے  کے  لئے  لکھا گیا تھا جو درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے  کہ ایم اے  کے  بعد شیخ چاند نے  یہ مقالہ مجلس علمیہ کے  تحت مولوی عبدالحق کی نگرانی میں  تحریر کیا تھا۔ خود مولوی صاحب کو بھی اس مقالے  پر ناز تھا اور اس مقالے  کی وجہ سے  شیخ چاند پر بھی انہیں  ناز تھا۔ لیکن بہت کم لوگ اس بات سے  واقف ہیں  کہ جب یہ مقالہ لکھا جا رہا تھا اس وقت شیخ چاند سخت بیمار تھے  اور جگر کے  عارضے  میں  مبتلا ہونے  کی وجہ سے  فریش تھے۔ مقالے  کے  لئے  اگر چہ سارا مواد اکٹھا کیا جا چکا تھا لیکن شیخ چاند اپنی صحت کی وجہ سے  ترتیب دے  کر تحریری صورت دینے  سے  قاصر تھے۔ مولوی صاحب کی پریشانی یہ تھی کہ حکومت نے  وظیفہ دے  کر شیخ چاند کو تحقیقی کام کے  لئے  مقرر کیا تھا۔ دوسال کی مدت گزری تھی اور اگر کام مکمل نہ ہوتا تو اس میں  مولوی صاحب کی سبکی تھی۔ اسی لئے  وہ شیخ چاند پر سختی کرتے  رہے  کہ مقالہ جلد از جلد مکمل ہو جائے۔ مجبوراً شیخ چاند کو اپنے  ایک دوست غلام محمد طیب سے  مدد لینی پڑی۔ اور اپنی شدید علالت کے  باوجود شیخ چاند بستر پر لیٹے  لیٹے  غلام محمد طیب کو مقالہ تحریر کرواتے  رہے  اور اس طرح دو مہینے  میں  اس مقالے  کی صورت گری ممکن ہو سکی۔ اس مقالے  کیلئے  مولوی صاحب نے  شیخ چاند کا نام اسی وقت سوچ لیا تھا جب وہ ایم اے  کے  طالب علم تھے۔ شیخ چاند نے  مولوی صاحب کی سفارشی رپورٹ سے  چند سطریں  ’’سودا‘‘ کے  دیباچے  میں  درج کی ہیں۔

’’شیخ چاند صاحب کو میں  نے  (منتخب کر کے ) ان کے  مقالے  کے  لئے  سودا کا کلام تجویز کیا ہے۔ ایم اے  میں  جتنے  طالب علم ہیں  ان سب میں  شیخ چاند صاحب اس کام کے  لئے  نہایت موزوں  ہیں۔ سودا کے  کلام کے  متعلق اب تک کوئی مقالہ یا کتاب تحقیق و تنقید کے  اعتبار سے  نہیں  لکھی گئی۔ یہ کام اگر دوسال میں  پورا ہو گیا تو بہت قابل قدر ہو گا۔ شیخ چاند صاحب یہ کام میری نگرانی میں  کریں  گے۔ اور مجھے  یقین ہے  کہ وہ بہت جلد اور سلیقے  سے  انجام دیں  گے۔ کیونکہ ادب سے  ان کو خاص ذوق ہے  اور تنقید کی اور تحقیق کی صلاحیت بھی رکھتے  ہیں۔ ‘‘

            مولوی صاحب کی امیدوں  کو شیخ چاند نے  بھرپور انداز میں  پورا کیا۔ اپنی شدید علالت کے  باوجود انہوں  نے  اس مقالے  میں  داد تحقیق دی۔ اس کے  بارے  میں  اس مقالے  کے  ممتحن مولوی حبیب الرحمن شیروانی کی رائے  درج ذیل ہے۔

’’پورے  مقالے  کے  مطالعے  کے  بعد میری یہ پختہ رائے  ہے  کہ شیخ چاند صاحب مقالہ نگار نے  فراہمی مواد، مطالعہ، بحث ترتیب اور بیان مطالب میں  پوری کاوش اور محنت کی ہے۔ اس طرح پوری تیاری کے  بعد مقالہ لکھا ہے۔ اظہار رائے  میں  تحقیق و آزادی دونوں  سے  کام لیا ہے۔ ان کی رائے  صاف ظاہر کرتی ہے  کہ ان کا ذوق ادبی عمیق اور سلیم ہے۔ فہرست مطالب شاہد و عادل ہے  کہ مقالہ نگار نے  اپنے  مضمون کے  تمام پہلو بحث کے  وقت پیش نظر رکھے  ہیں۔ مقالے  کے  مطالعے  نے  برابر اس خیال کی تائید کی جو ابتدائی فہرست مطالب دیکھنے  سے  وسعت بحث کی بابت قائم ہوا تھا۔ یہ مقالہ اس قابل ہے  کہ جامعہ عثمانیہ کو مبارکباد دی جائے  کہ اس کی معارف پروری اور تربیت سے  ایسا تحقیق پسند مقالہ نگار پیدا ہوا ہے۔ میں  اپنی محدود واقفیت کے  بنا پر یہ کہنے  کی جرأت کر سکتا ہوں  کہ پی ایچ ڈی کی ڈگری پانے  والوں  میں  بھی کمتر ایسا مقالہ لکھنے  پر قادر ہو سکے  ہوں  گے۔ ‘‘

            مولوی حبیب الرحمن شیروانی کی اس رائے  سے  شاید ہی کو ئی اختلاف کر سکے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے  کہ اس کا شہرا مولوی عبدالحق کے  سر جاتا ہے  جنہوں  نے  ایسے  مقالے  نگار کی تربیت کی اور اس سے  کام لیا۔

            شیخ چاند کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے  کہ وہ پہلے  طالب علم ہیں  جنھوں  نے  مولوی عبدالحق کی نگرانی میں  تحقیقی مقالہ لکھا۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ اعزاز بھی حاصل ہے  کہ وہ جامعہ عثمانیہ کے  پہلے  اردو ریسرچ اسکالر تھے۔ مقالے  کی تکمیل کے  چند ماہ بعد ہی مولوی سید سجاد کی جگہ عارضی طور پر پڑھانے  کی ذمہ داری سونپی گئی۔ جس کے  بارے  میں  خود مولوی صاحب کا ارشاد ہے  کہ یہ اپنے  لکچر بڑی محنت اور تحقیق سے  تیار کرتے  تھے۔ مولوی صاحب کو یہ اندازہ تھا کہ معاشی فراغت تحقیقی کام کے  لئے  کتنی ضروری ہے۔ اسی لئے  وہ شیخ چاند کی ملازمت کے  لئے  متفکر رہا کرتے  تھے۔ نواب ذوالقدر جنگ کے  نام ایک خط میں  وہ شیخ چاند کی سفارش کرتے  ہوئے  تحریر فرماتے  ہیں۔

’’عالی جناب نواب ذوالقدر جنگ بہادر معتمد عدالت و کوتوالی  و تعلیمات و امور عامہ سرکارعالی میں  جناب کی توجہ اپنے  لائق شاگرد اور جامعہ عثمانیہ کے  نہایت قابل و تعلیم یافتہ نوجوان شیخ چاند صاحب ایم اے  ایل ایل بی سابق ریسرچ اسکالر عثمانیہ کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔

            شیخ چاند صاحب اصلی اور ٹھیٹ ملکی اور قصبہ پٹن (ضلع اورنگ آباد) کے  قدیم باشندے  ہیں، انہوں  نے  انٹرمیڈیٹ تک اورنگ آباد میں  تعلیم پائی۔ بی اے ، ایم اے  اور ایل ایل بھی کے  امتحانات میں  جامعہ عثمانیہ سے  کامیابی حاصل کی۔ چونکہ ایم اے  میں  خاص امتیاز کے  ساتھ کامیاب ہوئے  تھے  اس لئے  ان کا انتخاب ریسرچ میں  ادبی تحقیق کا کام کیا۔ اس دوسال میں  انھیں  ۴۵ روپیہ ماہانہ سرکاری وظیفہ ملتا رہا۔ ان کا تحقیقی مقالہ ’’سودا‘‘ کی حیات اور کلام پر تھا۔ یہ مقالہ اظہار رائے  کے  لئے  ریسرچ بورڈ کی جانب سے  نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن شیروانی کی خدمت میں  بھیجا گیا انہوں  نے  مطالعہ کے  بعد اس کے  متعلق اعلیٰ درجہ کی رائے  ظاہر کی اور در حقیقت یہ مقالہ ادبی تحقیق کے  لحاظ سے  خاص حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں  مؤلف نے  سودا کی زندگی اور ان کے  کام کے  متعلق بعض جدید تحقیقات کی ہیں  اور بعض ایسی غلط فہمیوں  کا ازالہ کیا ہے  جو اب تک اردو ادب کی تاریخ میں  ہوتی چلی آ رہی تھیں۔

            میں  با وثوق کہہ سکتا ہوں  کہ جامعہ عثمانیہ کے  جن طلباء اور پروفیسروں  نے  السنہ مشرقیہ میں  یوروپ سے  پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کیں  اگر ان کے  مقالوں  کا اس سے  مقابلہ کیا جائے  تو اس مقابلے  میں  یہ کسی طرح کم نہ پایا جائے  گا۔ بلکہ اکثر سے  افضل نکلے  گا۔ یہ مقالہ یونیورسٹی کی طرف سے  زیر طبع ہے۔ اس کے  علاوہ انھوں  نے  دو اور کتابیں  بھی تالیف کی ہیں۔ ایک ملک عنبر پر جس میں  اس کی حیات اور اس کے  ملکی و مالی انتظامات و اصلاحات وغیرہ کے  حالات بڑی محنت اور تحقیق سے  لکھے  ہیں۔ اس پر بعض اہل الرائے  نے  بڑی اچھی رائیں  ظاہر کی ہیں۔ دوسری کتاب مرہٹی کے  بہت مشہور شاعر ایک ناتھ پر ہے  جو اردو میں  بالکل نئی چیز ہے  اور یہ متواتر پانچ سال سے  میرے  ساتھ کام کر رہے  ہیں۔ اور انگریزی اردو لغات جو زیر طبع ہے  اور اردو زبان کی لغات جو زیر تر ریب ہے  ان دونوں  کی ترتیب میں  انہوں  نے  بڑے  شوق اور محنت سے  کام کیا ہے۔ نیز انجمن ترقی اردو کی تالیفات میں  مجھے  ان سے  بہت مدد ملی ہے۔ ان کا تجربہ کسی طرح ایک تجربہ کار پروفیسرسے  کم نہیں۔ رسالہ اردو میں  ان کے  بعض محققانہ مضامین شائع ہوئے  ہیں  جو عام طور پر بہت پسند کئے  گئے۔ ۱۹۳۰ء کی آل انڈیا اورینٹل کانفرنس میں  جس کا انعقاد بڑودہ میں  ہوا انہوں  نے  ایک تحقیقی مقالہ پڑھا جو کانفرنس کی رپورٹ میں  شائع کیا گیا۔ طالب علمی کے  زمانے  سے  ان میں  ادبی ذوق پایا جاتا ہے۔ چنانچہ جب وہ ایم اے  کے  طالب علم تھے  تو مجلہ عثمانیہ کی ایڈیٹری پر ان کا انتخاب کیا گیا۔ اس زمانے  میں  وہ منصرمانہ طور پر سید سجاد صاحب کی جگہ کام کر رہے  ہیں۔ اور مجھے  یہ معلوم کر کے  بہت ہی خوشی ہوئی کہ وہ اپنے  لکچر بڑی محنت اور تحقیق سے  تیار کرتے  ہیں۔

            ان حالات سے  ظاہر ہے  کہ شیخ چاند کی حیثیت ایک نا تجربہ کار تعلیم یافتہ کی نہیں  بلکہ وہ مسلسل چھ سال سے  قابل قدر ادبی اور علمی کام کر رہے  ہیں۔ میں  انہیں  اپنے  سے  کبھی جدا نہ کرتا لیکن کچھ ماہ بعد ان کی عمر تیس سال ہو جائے  گی اور پھر ان کا سرکاری ملازمت میں  داخل ہونا دشوار ہو جائیگا۔ اس لئے  میری التماس ہے  کہ عالی جانب از راہ قدردانی } میرا یہ عریضہ……{ جناب ناظم صاحب تعلیمات میں  (جس کے  لئے  یہ خاص طور پر موزوں  ہیں ) یاکسی ایسی خدمت پر کریں  جس کا مشاہرہ کم سے  کم دو سو روپیہ ہو۔ اگرچہ میری رائے  میں  بلحاظ اپنی قابلیت اس سے  زیادہ کے  مستحق ہیں۔

           (عبدالحق)

            اس طویل خط سے  یہ محسوس کیا جا سکتا ہے  کہ مولوی عبدالحق اپنے  لائق شاگرد کے  بڑے  مداح اور ان کی ملازمت کے  لئے  متفکر تھے۔ ظاہر ہے  اس کے  پیچھے  ایک ہی جذبہ تھا اور وہ تھا اردو ادب کی خدمت۔ اس لئے  وہ یہ نہیں  چاہتے  تھے  کہ شیخ چاند ان سے  جدا ہوں  لیکن اس کے  لئے  وہ شیخ چاند کے  مستقبل کو برباد ہوتے  نہیں  دیکھ سکتے  تھے۔ کیونکہ عمر کی وجہ سے  ان کو سرکاری ملازمت ملنے  کے  امکانات موہوم ہو سکتے  تھے۔ اسی لئے  وہ چاہتے  تھے  کہ شیخ چاند پہلے  معاشی فراغت پالیں  تاکہ تن من سے  اپنے  تصنیفی و تالیفی مشاغل جاری رکھ سکیں۔ مولوی صاحب کا مندرجہ بالا خط خاصا طویل ہے  لیکن جس تفصیل سے  انھوں  نے  شیخ چاند اور ان کے  علمی اکتسابات کے  بارے  میں  تحریر کیا ہے  اس سے  مولوی صاحب کے  تعلق خاطر کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ پھر ان کا آخری جملہ کہ ’’مشاہرہ کم سے  کم دوسوروپیہ ہو اگر چہ میری رائے  میں  وہ بلحاظ اپنی قابلیت کے  اس سے  زیادہ کے  مستحق ہیں۔ اس بات پر دلالت کرتا ہے  کہ علمی اعتبار سے  مولوی صاحب شیخ چاند کے  بے  حد قائل تھے۔ انھیں  اندازہ تھا کہ اس خاکستر میں  کیسی چنگاریاں  ہیں  اور اگر شیخ چاند کو معاشی فراغت نصیب ہو جائے  تو وہ اور بھی بہت کچھ کر سکتے  ہیں۔ دراصل شیخ چاند کا مزاج تحقیقی تھا اور مولوی صاحب ان میں  کچھ اپنی ہی سی صفات پاتے  تھے۔ اس لئے  وہ یہ بھی چاہتے  تھے  کہ شیخ چاند کو ایسی جگی ملازمت مل جائے  جس کی وجہ سے  وہ مولوی صاحب کے  قریب رہ سکیں۔ محکمہ تعلیمات کے  ناظم کو سفارشی کلمات لکھنے  کے  لئے  انہوں  نے  نواب ذوالقدر جنگ سے  درخواست کی تھی جو تعلیمات کے  علاوہ کئی اور محکموں  کی باگ ڈور سنبھالے  ہوئے  تھے۔ جس سے  ان کے  اثرو رسوخ کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ پھر بھی مولوی صاحب کی تشفی نہیں  ہوئی۔ چند روز کے  وقفہ سے  انھوں  نے  پھر ایک خط ناظم تعلیمات خان فضل محمد کے  نام لکھا۔ وہ تحریر فرماتے  ہیں۔

جناب مخدوم بندہ تسلیم۔

            تیر کے  مہینے  میں  آپ کے  سر رشتہ میں  بہت کچھ رد و بدل ہو گا۔ اس میں  شیخ چاند کا ضرور خیال رکھئے  گا۔ اگر کوئی صورت نکل آئے  کہ ان کا تقرر بلدیہ حیدر آباد یا اورنگ آباد میں  ہو سکے  تو میں  نہایت ممنون ہوں  گا۔ کیونکہ ایسی حالت میں  وہ میرا بھی تھوڑا بہت کام کرتے  رہیں  گے  اور مجھے  اپنے  کام میں  سہولت ہو جائے  گی۔

                                                                 نیاز مند

                                                                 عبدالحق

                                                             ۳۰ اپریل ۳۶ء

            اور اس طرح شیخ چاند اورنگ آباد کے  انٹرمیڈیٹ کالج میں  مستقل طور پر ملازم ہو گئے۔ تیر یعنی مئی کے  مہینے  میں  گرمی کی چھٹیاں  ہوا کرتی تھیں۔ جون میں  جب کالج کھلا تو شیخ چاند وہاں  رجوع ہو گئے۔ لیکن قدرت کا کچھ اور ہی منظور تھا صرف چھ ماہ بعد چار جنوری ۳۷ء کو ۳۲ برس کی عمر میں  جالنہ کے  ایک مشن ہسپتال میں  ان کا انتقال ہو گیا اس طرح دنیا ایک بالغ نظر محقق سے  محروم ہو گئی۔

            مولوی صاحب سے  شیخ چاند کی قربت کی وجہ ان ک شوق مطالعہ اور انہماک تھا۔ ان کے  قریبی دوست صدیق احمد مرحوم لکھتے  ہیں  کہ کم عمری کے  باوجود شیخ چاند نے  محض اپنے  شوق مطالعہ کی وجہ سے  مولوی صاحب سے  قربت حاصل کی تھی۔ جوہرشناسی مولوی صاحب کا خاص وصف تھا اور انہوں  نے  شیخ چاند میں  وہ گوہر آب دار تلاش کر لیا تھا۔ جو خال خال ہی پایا جاتا ہے  صدیق احمد صاحب نے  ایک دفعہ کا ذکر کیا ہے  جب مولوی عبدالحق اور شیخ چاند گہرے  انہماک کے  عالم کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے  تھے  وہ لکھتے  ہیں :۔

’’خانہ باغ سے  گزر کر میں  برآمدے  میں  پہنچا تو ایک مسہری پر مولوی عبدالحق قبلہ لیٹے  ہوئے  تھے۔ سامنے  ایک پرانی کتاب کھلی پڑی تھی۔ ایک ہاتھ میں  پنسل کا ٹکڑا تھا اور دوسرے  ہاتھ میں  حقہ کی نالی تھی۔ ایک کونے  پر شیخ چاند مرحوم بیٹھے  ہوئے  تھے  سامنے  میز پر چند کتابیں  کھلی پڑی ہوئی تھیں۔ میں  کوئی پندرہ منٹ کھڑا رہا مگر کسی نے  بھی میری طرف نہ دیکھا۔ میں  بھی باہر آ گیا۔ بڑی دیر تک انتظار کرتا رہا کہ شاید ان میں  سے  کوئی اپنی ضرورت سے  باہر آئے  مگر کامیابی نہیں  ہوئی۔ پھر ہمت کر کے  اندر گیا شیخ چاند مرحوم نے  مجھے  دیکھا، قریب بلایا اور ہم دونوں  بازو کے  کمرے  میں  چلے  گئے ………‘‘

            پرانی کتاب سے  صدیق احمد مرحوم کی مراد قدیم مخطوطہ ہے۔ اور تحقیق کے  بحر ذخار میں  غواصی کرنے  والے  اس بات سے  بخوبی واقف ہیں  کہ جب کوئی مخطوطہ سامنے  ہو تو محقق کے  انہماک کا کیا عالم ہوتا ہے۔ شیخ چاند کا ایک اور اہم کارنامہ مولوی صاحب کے  تحریر کردہ شخصی خاکوں  کو جمع کرنا ہے۔ مولوی صاحب کی مشہور کتاب ’’چند ہم عصر‘‘ ہرگز وجود میں  نہ آتی اگر شیخ چاند نے  ان سارے  مضامین کو اکٹھا کر کے  کتابی صورت نہ دی ہوتی۔ انہوں  نے  ان کو ترتیب دے  کر فہرست بھی تیار کر دی تھی۔ اور مولوی عبدالحق سے  فرمائش کی تھی کہ کچھ اور مشاہیر پر مضامین لکھیں  تاکہ اس کتاب میں  شامل کیا جا سکے۔ لیکن مولوی صاحب کی مصروفیت نے  انہیں  فرصت نہ دی کہ مزید مضامین لکھے  جا سکیں۔ یہاں  تک کہ شیخ چاند چل بسے۔ مگر مولوی صاحب نے  ان مضامین کو شائع کیا اور اپنے  مرحوم شاگرد کی ترتیب کو بھی جوں  کا توں  رکھا۔ ذیل میں  وہ دیباچہ درج ہے  جس کا عنوان ’’التماس‘‘ ہے  اور جس کے  اسلوب سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ یہ مولوی صاحب کی تحریر ہے  حالانکہ نام منیجر کا دیا گیا ہے۔

التماس

’’یہ مضامین مرحوم شیخ چاند ایم اے  ایل ایل بی ریسرچ اسکالر جامعہ عثمانیہ نے  مختلف رسالوں  کتابوں  اور تحریروں  سے  بڑی محنت اور تلاش کے  بعد جمع کئے  تھے۔ ان میں  کچھ تحریریں  تو ایسی ہیں  جو بعض بزرگوں  کی وفات پر لکھی گئی تھیں  اور کچھ کتابوں  کے  تبصرے  کے  ضمن میں  آ گئی تھیں۔ یہ سب مرحوم نے  ایک جگہ جمع کر لی تھیں۔ مرحوم کی ایک اور فرمائش مولوی عبدالحق صاحب سے  یہ تھی کہ سر سید احمد خاں  نواب عمادالملک اور مولانا حالی پر بھی اس قسم کی تحریریں  لکھ دیں۔ کیونکہ مولوی صاحب کے  ان بزرگوں  سے  خاص تعلقات تھے۔ مولانا حالی پر تو ایک مضمون لکھ دیا۔ لیکن باقی دو مضمون لکھنے  کی فرصت نہ ملی۔ اگر طبع ثانی کی نوبت آئی تو امید ہے  کہ اس کی تکمیل ہو جائے  گی۔ ایک خیال یہ بھی تھا کہ ہر تحریر کے  ساتھ فوٹو بھی لگائے  جائیں  لیکن اس کا بھی موقع نہ مل سکا۔ اسے  بھی آئندہ کے  لئے  اٹھا رکھا ہے۔ ان مضامین کی ترتیب بھی وہی رکھی گئی ہے  جو مرحوم شیخ چاند نے  رکھی تھی۔ افسوس وہ اسے  اپنی زندگی میں  طبع نہ کراسکے  اور اس سے  پہلے  ہی چل بسے۔ اب جواں  مرگ کی یاد میں  یہ کتاب طبع کی جاتی ہے۔

               منیجر

            حیرت ناک بات یہ ہے  کہ ’’چند ہم عصر‘‘ کے  جو ایڈیشن بعد میں  چھپے  ان میں  شیخ چاند کا تذکرہ تک نہیں  ہے۔ اور نہ ہی مندرجہ بالا نوٹ ملتا ہے۔ جب کہ پہلے  ایڈیشن کے  سرورق پر شیخ چاند کا نام بحیثیت مرتب درج ہے۔ اس ضمن میں  شیخ چاند کے  ایک ہونہار شاگرد، ان کے  مداح اور نامور محقق جناب اکبر الدین صدیقی نے  راقم الحروف سے  ایک مرتبہ بات چیت کے  دوران بتایا کہ انجمن کے  کارکنان میں  کچھ ایسے  بھی تھے  جو شیخ چاند اور مولوی صاحب کی قربت سے  حسد کرتے  تھے۔ یہ ہو سکتا ہے  کہ ان ہی لوگوں  کی سازش کہ وجہ سے  دیباچے  کے  اس صفحے  کو اور سرورق سے  شیخ چاند کے  نام کو نکال دیا گیا ہو۔

            جو کچھ بھی ہو ایک بات یقیناً یہ طے  ہے  کہ اگر شیخ چاند نے  شخصی دلچسپی لے  کر ان مضامین کو اکٹھا نہ کیا ہوتا اور ’’چند ہم عصر‘‘ کی صورت گری میں  شیخ چاند کا خون جگر بھی شامل نہ ہوتا تو فن خاکہ نگاری کے  ایک سنگ میل سے  اردو دنیا واقف نہ ہوئی ہوتی۔

کتابیات:۔

   ۱۔   شیخ چاند حیات اور کارنامے۔  خسروجہاں  (غیر مطبوعہ مقالہ برائے  ایم فل)

۲۔   پنج سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو۔ سید ہاشمی فرید آبادی

۳۔  سودا۔  شیخ چاند

۴۔  رسالہ اردو کے  مختلف نمبر

۵۔  مجلہ عثمانیہ۔ جلد 1۔ شمارہ  ۴

————————-٭٭————————-

 

مقدمہ شعر و شاعری اور حالی

            ۱۸۹۳ء میں  حالی نے  اپنا دیوان شائع کیا تو اس پر ایک جامع مقدمہ بھی تحریر کیا۔ جس میں  انہوں  نے  اردو شاعری کے  معیار کو بلند کرنے  کی طرف توجہ دلائی اور شعر کی اعلیٰ سطحوں  کی نشاندہی کی۔ انھوں  نے  اس دور کی اردو شاعری پر کڑی تنقید کرتے  ہوئے  ان غیر اخلاقی عناصر کی شدت سے  مذمت کی۔ جن سے  قدماء کی شاعری بھری پڑی تھی۔ انھوں  نے  اردو شاعری کو قومی اصلاح کے  لئے  ایک ذریعہ قرار دینے  کی کوشش کی اور اس طرف دوسروں  کو بھی راغب کیا کہ شعر اگرسچائی اور اخلاقی اقدار سے  محروم ہو تو وہ معاشرے  کے  لئے  سخت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ یہ مقدمہ جو بعد میں  ’’مقدمہ شعر و شاعری ‘‘ کے  نام سے  مشہور ہوا اردو ادب میں  اپنی نوعیت کی پہلی آواز تھی اور ساتھ ہی ساتھ اردو ادب میں  با ضابطہ تنقید کا پہلا لائحہ عمل۔ حالی مغربی تنقید سے  پوری طرح واقف تو نہ تھے  اور انھوں  نے  مغربی تنقید کا راست مطالعہ بھی نہیں  کیا تھا۔ لیکن مختلف ذرائع سے  ان تک جو افکار پہنچے۔ ان پر حالی نے  اردو شاعری کے  پش منظر میں  غور کیا اور ایسی راہیں  متعین کیں  جو اردو کے  لئے  بالکل نئی تھیں۔

            مقدمہ شعر و شاعری میں  حالی نے  کہا ہے  کہ شاعری کے  لئے  موزونیِ طبع ضروری ہے  جو ایک خداداد بات ہے۔ شاعری زوال پذیر معاشرے  کی دین ہوتی ہے  اور شعر جس قدر جہل و تاریکی کے  زمانے  میں  ظہور کرتا ہے  اسی قدر زیادہ رونق پاتا ہے۔ انہوں  نے  اس بات زور دیا کہ شعرسے  بہت سارے  اسیسے  کام لئے  جا سکتے  ہیں  جو عام لوگوں  کے  بس کے  نہیں  ہوتے۔ غیرت انگیز اشعار قوموں  کے  مزاج کو بدل دیتے  ہیں  اور انھیں  مفتوح سے  فاتح بنا دیتے  ہیں۔ حالی کہتے  ہیں  کہ شاعری سماج کے  تابع ہوتی ہے  اور جیسے  جیسے  خیالات سماجی عادتیں  اور مذاق بدلتا ہے  ویسے  ویسے  شاعری بھی بدلتی جاتی ہے ….. کبھی ہجو گوئی تو کبھی مدح اور کبھی مبالغہ، یہ چند چیزیں  اردو شاعری میں  بہت زیادہ مقبول رہی ہیں لیکن یہ ساری چیزیں  سماج کو نقصان پہنچانے  کا باعث بھی بنتی ہیں  اس لئے  کہ عوام جھوٹ مبالغہ اور بے  سروپا باتوں  سے  مانوس ہو جاتے  ہیں جس کے  نتیجے  میں  سوسائٹی کے  مذاق میں  زہر گھلتا جاتا ہے  اور حقائق سے  دور ہونے  کی وجہ سے  قومی اخلاق کو گھن لگ جاتا ہے۔

            شاعری کے  لئے  قوت متخیلہ کو اہمیت دیتے  ہوئے  حالی نے  بتایا کہ یہ وہ طاقت ہے  جو شاعر کو زمانے  اور وقت کی قید سے  آزاد کر دیتی ہے  اور اس قوت کی بدولت وہ ایک لفظ سے  مفہوم کا ایک بڑا خزانہ پیدا کر دیتا ہے۔ دوسری بات جو حالی نے  شاعروں  کے  لئے  ضروری قرار دی، وہ کائنات کا مطالعہ ہے۔ جو باتیں  مشاہدے  میں  آئیں  ان پر غور  و فکر میں  مشق و مہارت سے  ایسی طاقت پیدا کرنا ضروری ہے  جن سے  صلاحیتوں  میں  اضافہ ہو۔ تیسری شرط انھوں  نے  تفحص الفاظ کی رکھی۔ یعنی ایسے  الفاظ استعمال کئے  جائیں  جو موقع اور محل کے  اعتبار سے  اپنا صحیح مفہوم ادا کریں  اور سمجھنے  میں  دشواری نہ ہو۔ شعر کی خوبیوں  میں  حالی نے  سادگی، اصلیت اور جوش کو ضروری قرار دیا سادگی سے  ان کی مراد یہ تھی کہ خیال بلند ہونے  کے  باوجود اظہار پیچیدہ نہ ہو۔ اور جو الفاظ استعمال کئے  جائیں  وہ روزمرہ کی بول چال سے  قریب ہوں۔ اصلیت سے  ان کا مفہوم یہ تھا کہ شعر میں  راستی کی جھلک ہو، مبالغہ و مباہات سے  کریز کیا جائے۔ جوش کا مطلب ان کے  نزدیک یہ تھا کہ نرم و ملائم اور دھیمے  الفاظ اور بے  ساختہ پیرایہ اختیار کیا جائے۔ حالی نے  شعر میں  جذبہ کی اہمیت و افادیت کو واضح کرتے  ہوئے  کہا کہ شدت تاثر شاعر کے  لئے  ضروری ہے۔ اور وہ اس وقت ممکن نہیں  جب تک حسن خیر اور صداقت کو صحیح انداز سے  شاعری کا جزو نہ بنایا جائے۔ انہوں  نے  غزل کے  عشقیہ مضامین سے  انحراف تو نہیں  کیا لیکن ان کا خیال ہے  کہ ان مضامین کو اس طرح پیش کیا جائے  کہ ان سے  محبت، دوستی، اخلاص اور روحانی اقدار کی توسیع ہو سکے۔

            مقدمہ شعر و شاعری کے  دو حصے  ہیں۔ مقدمہ شعر و شاعری کے  پہلے  حصے  میں  حالی نے  تنقیدی اصول پیش کئے  اور دوسرحصے  میں  انھوں  نے  ان ہی اصولوں  کی روشنی میں  مثنوی، قصیدہ، مرثیہ اور دوسری اصناف کا جائزہ لیا۔ غزل کے  بارے  میں  حالی کا خیال ہے  کہ غزل صرف عشق اور ہوس آمیز جذبات کے  لئے  نہیں  ہے۔ غیرمانوس الفاظ اور ثقیل تراکیب بھی خیالات کو عمدگی سے  ادا کرنے  میں  مانع ہوتی ہیں۔ قصیدے  کے  لئے  وہ کہتے  ہیں  کہ اس کی بنیادی تقلید ی مضامین کی بجائے  سچے  جوش اور ولولے  پر ہونی چاہئے۔ مدح میں  بھی یہ ضروری ہوتا ہے  کہ ممدوح کی خوبیوں  کو اس طرح پیش کیا جائے  وہ آنے  والی نسلوں  کے  لئے  ایک مثال ثابت ہو سکے۔ مرثیہ کے  بارے  میں  حالی کا کہنا یہ تھا کہ اسے  بھی اخلاقی نقطۂ نظرسے  دیکھنے  کی ضرورت ہے  ….. مرثیہ کا مقصد صرف رونے  رلانے  کی بجائے  صبر، استقلال، شجاعت، ہمدردی، وفاداری، غیرت، حمیت وغیرہ کا اظہار ہونا چاہئے۔ مثنوی کے  لئے  وہ کہتے  ہیں  کہ مطلب صفائی سے  ادا ہو۔ ہر بیت دوسری بیت سے  اور ہر معرکہ دوسرے  معرکے  سے  پیوست ہو …… اس کی بنیاد ناممکن اور فوق العادت باتوں  پر نہ ہو۔ مبالغہ سے  گریز کیا جائے ، کلام کو مقتضائے  حال کے  مطابق رکھتی ہوں۔ اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے  کہ ایک بیان کی دوسرے  بیان سے  تکذیب نہ ہو۔ اس کے  علاوہ جن اہم اور ضروری باتوں  پر قصے  کی بنیاد رکھی گئی ہو ان کا وضاحت کے  ساتھ بیان کرنا ضروری ہے۔ جبکہ ضمنی باتوں  کو رمزو کنایہ میں  کہا جا سکتا ہے۔ حالی نے  مقدمہ شعر و شاعری میں  اردو شاعری پر عملی تنقید کرتے  ہوئے  پہلی مرتبہ ایک مکمل اور منظم نظریۂ تنقید پیش کیا۔ اس سے  قبل اردو کی تنقید کی راہیں  متعین نہ تھیں۔ تذکروں  میں  جو تنقید ملتی ہے  اس کا انحصار شخصی پسند وناپسند پر ہے۔ تذکرہ نگار زبان  و بیان کی نزاکتوں  پر زور دیتے  تھے۔ حالی نے  تنقیدی نظریات پیش کرتے  ہوئے  شاعری کو انسانی زندگی کی بلند اقدار سے  اہم آہنگ کرنے  پر زور دیا۔

            حالی نے  جب ان خیالات کو پیش کیا تو اس کے  پیچھے  ملک اور قوم کے  لئے  دل سوزی کا جذبہ تھا جو یقیناً قابل تعریف ہے۔ حالی کے  افکار نے  اردو شاعروں  پر بڑا اثر ڈالا…… اور لوگ یہ سمجھنے  لگے  کہ شعر کو مخرب اخلاق نہیں  ہونا چاہئے  اور شاعری کو با مقصد  ہونا چاہئے۔ شاعری کے  ذریعے  قومی زندگی کی تعمیر ہونی چاہئے  اور اخلاقی تربیت میں  بھی اس کو اہم کردار کرنا چاہئے۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ قدیم شعری کارناموں  کے  ایک بڑے  حصے  کو صرف فنی کمالات کا مظہر سمجھ کر انہیں  رد کر دیا گیا۔ یہاں  تک کہ ایک گروہ ایسا پیدا ہوا جس نے  شاعری اور خصوصاً غزل کو نیم وحشی صنف سخن کا نام دیا۔ یہ بھی بھلا دیا گیا کہ قدیم ادب میں  بھی شعور کی بالیدگی اور فکر کی نمو کیلئے  کافی سامان موجود ہیں  اور نئے  ادبی تجربوں  کی طرف قدم اٹھانے  کے  لئے  یہ ضروری ہے  کہ ہماری شعری روایات اور ان کی صداقتوں  پر غور کیا جائے۔

———————٭٭———————

 

یوسف ناظم کا فن

            انسانی زندگی سے  اگرہنسی چھین لی جائے  تو یہ دنیا شاید جہنم بن جائے۔ ویسے  ہنسی کئی قسم کی ہو سکتی ہے  …… کھسیانی ہنسی، استہزائی ہنسی، طنزیہ ہنسی، مصنوعی ہنسی، دوسروں  کو ذلیل کرنے  والی ہنسی وغیرہ …..وغیرہ…… ! لیکن سب سے  زیادہ منزہ ہنسی وہ ہے  جس سے  کسی دوسرے  کے  دل پر چوٹ نہ لگے ، جو بے  پناہ مسرت و حظ کے  اظہار کے  طور پر دل کی گہرائیوں  سے  نکلنے  اور اس ہنسی میں  دوسرے  لوگ بھی بلا کسی استکراہ کے  یکساں  طور پر شریک ہو سکیں۔ یہ ہنسی انسان کے  لئے  ایک انتہائی اہم اور ضروری چیز ہے  کیونکہ یہ خوش دلی کی علامت ہے۔ یہ ہنسی زندگی ہے  دشوار گزار اور خاردار صحراء کو رنگ و نکہت سے  معمور گلستانوں  میں  تبدیل کر دیتی ہے۔ اور مزاج اسی بے  پناہ مسرت کا سرچشمہ ہے  جو انسان کی زندہ رہنے  کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ مزاج کے  ساتھ ساتھ ایک اور چیز اسی طرح پہلو بہ پہلو نظر آتی ہے  جس طرح پھول کے  ساتھ کانٹا موجود ہوتا ہے  یہ چیز ہے  طنز اور طنز…… طنز کی اعلیٰ ترین قسم وہ ہے  جس میں  خوش دلی کی کیفیت موجود ہو۔ بقول وزیر آغا طنز سماج کے  رستے  ہوئے  زخموں  کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ لیکن رستے  ہوئے  زخموں  کی طرف متوجہ کرنے  اور ان پر نشتر زنی کے  لئے  بے  حد مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوسف ناظم کے  ہاں  مزاج اور طنز کے  دونوں  رخ بے  حد متوازن انداز میں  موجود ہیں۔ وہ اپنے  اپنے  طنز کے  نشتروں  کو کسی کے  دل میں  ترازو نہیں  کرتے  اور نہ ہی مزاج سے  ان کے  ہاں  پھکڑ پن کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ وہ سماج کے  رستے  ہوئے  ناسوروں  پر نہایت مہارت سے  نشتر رکھتے  ہیں  اور ان پر مزاج کا مرہم لگا کر لطیف جذبات کو مہمیز کرتے  ہیں۔ انھوں  نے  اپنی تحریروں  میں  ذاتیات کو کبھی نشانہ نہیں  بنایا۔ وہ خود اپنی ذات کو ہدف ملامت بناتے  ہیں  اور نہ ہی اپنے  ہم عصروں  کی ذات پر کیچڑ اچھالنے  کی کوشش کرتے  ہیں۔ اسی لئے  آفاق حسین صدیقی نے  لکھا تھا اور بالکل درست لکھا تھا کہ۔

’’ان کا (یوسف ناظم کا) طنز ان کی خود کی ذات کی الجھنوں  اور ذاتی معاملات کی تلخیوں  کا نتیجہ نہیں  ہے  اور نہ ہی انہوں  نے  اپنی تحریروں  میں  ذاتی معاملات یا نجی زندگی کی ناہمواریوں  کو طنز کا نشانہ بنایا ہے  اور نہ ہی ان کے  طنز و مزاح کی اساس ذاتی اغراض و مقاصد پر ہے۔ بلکہ اپنی تحریروں  میں  انہوں  نے  اپنے  عہد کے  مختلف النوع معاملات اور گوناگوں  ناہمواریوں  اور عام زندگی کے  بے  ڈھنگے  پن کو طنز  و مزاح کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا معاشرہ ان کے  طنز و مزاح کا موضوع ہے  اور اسی عہد اور معاشرے  سے  ہی انھوں  نے  طنز و مزاح کا مواد حاصل کیا ہے۔ ‘‘

(مضمون ’’طنز و مزاح اور یوسف ناظم ۲۲ ماہنامہ شاعر جنوری، فروری  ۸۰ء)

            یوسف ناظم جس معاشرے  کے  فرد ہیں  اس کی ناہمواریاں  ان کے  حساس دل کو مجبور کر دیتی ہیں  کہ وہ اس پر لکھیں۔ بمبئی میں  جگہ کی قلت سے  کون واقف نہیں …… یہاں  جگہ کی قلت کا رونا تو ہر مصنف نے  رویا ہے۔ یوسف ناظم بھی روتے  ہیں  بلکہ سسکیاں  لے  لے  کر روتے  ہیں  ….. یہ اور بات ہے  کہ یہ سسکیاں  آسانی سے  سنائی دینے  والی نہیں  ہیں  وہ خود بھی روتے  ہیں  اور ہم سب کو رلاتے  ہیں۔ لیکن انداز عجیب و غریب ہے۔ بنیان کی ضرورت بیان کرتے  ہوئے  لکھتے  ہیں۔

’’بمبئی کا آدمی اس میں  اپنا فونٹن پن لگاتا ہے  بلکہ وہ بنیان پہنتا ہی اس لئے  ہے  کہ اگر نہ پہنے  تو فونٹن پن کہاں  رکھے  ہم نے  بہتوں  کو تو کتابیں  اور فائیلیں  تک بنیان میں  رکھے  دیکھا ……بمبئی میں  جگہ کی بڑی قلت ہے …….‘‘

(پردیسی کا سفرنامہ ہندوستان۔  مشمولہ البتہ  ۱۰)

            اور آگے  پلیٹ فارم کا ذکر کرتے  ہوئے  تحریر فرماتے  ہیں

’’ہر ریلوے  پلیٹ فارم پر نیرے  کا ایک اسٹال ضرور ہوتا ہے۔ جس پر بعد میں  وہ جگ سوسکتے  ہیں  جنھیں  بنچوں  پر سونے  کے  لئے  جگہ نہ ملی ہو۔ ریلوے  پلیٹ فارم پر جتنے  بھی بنچ ہوتے  ہیں  برسوں  سے  چند خاص لوگوں  کی رہائش کے  لئے  ریزرو ہو چکے  ہیں۔ خود پلیٹ فارم اور بالائی پلوں  پر بھی قیام و طعام کی اجازت ہے۔ جو لوگ یہاں  مستقل طور پر رہنا نہ چاہیں  وہ چار چھ گھنٹے  کے  لئے  اپنی دوکان لگا سکتے  ہیں۔ بظاہر اس کا کوئی کرایہ نہیں ہے …….‘‘

            اس ’’بظاہر ‘‘ کا لطف لیجئے  اورسر دھنئے۔ یہ یوسف ناظم کا فن ہے  کہ ایک آدھ لفظ کے  استعمال سے  یا ایک آدھ فقرے  کے  ذریعے  طنز و مزاح کا ایک طوفان برپا کر دیتے  ہیں۔ وہ کبھی ایک آدھ لفظ کے  مفہوم کو مزید وسیع کر دیتے  ہیں  اور اس سے  ایک کیفیت پیدا کرتے  ہیں۔ آج کل اسکولوں  میں  جو کچھ ہوتا ہے  وہ ہر ایک پر روز روشن کی طرح عیاں  ہے۔ اسکول جاتے  ہوئے  ننھے  ننھے  بچے  ایک ایسا گدھا نظر آتے  ہیں  جس پر اس کی بساط سے  کئی گناہ زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا ہو۔ یوسف ناظم کے  مشاہدے  کا کیمرہ اس تصویر کو بھی اپنے  اندر جذب کرتا ہے۔

            دیکھئے  وہ ایک بچے  کی تصویر کھینچ رہے  ہیں  جو اسکول جا رہا ہے۔ لکھتے  ہیں

’’دیکھو وہ لڑکا اسکو جا رہا ہے  (کتنا غمگین ہے ) اس کی پیٹھ پر خاکی رنگ کا ایک بستہ ہے۔ اس بستے  میں  بیس عدد ایکسرسائز بک ہیں۔ ان بیاگوں  کو اٹھائے  اٹھائے  پھرنے  سے  اچھی خاصی ورزش ہو جاتی ہے۔ جب ہی تو انہیں  ایکسرسائز بک کہا جاتا ہے۔ ‘‘

            اردو کی پہلی کتاب جدید کے  چند سبق (دوسراسبق) مشمولہ ’’فی الحال ‘‘ ایکسرسائز بک کا یہ نیا مفہوم یوسف ناظم کے  ذہن رسا کا کمال ہے  … اور واقعی جب ان نوٹ بکس کو ایکسرسائز بک کہا گیا ہو گا تو یہ ہرگز نہ سوچا ہو گا کہ ایکسرسائز بک کا یہ مصرف بھی ہو سکتا ہے۔ سبک خرامی یوسف ناظم کی تحریر کا ایک اہم وصف ہے۔ اگر آپ ان کی تحریر دریاؤں  میں  روانی کو محسوس کرنا چاہیں  جیسے  مشتاق احمد یوسفی کے  ہاں  نظر آتی ہے  تو شاید آپ کو مایوسی ہو۔ کیونکہ یوسف ناظم رک رک کر لکھنے  کے  عادی ہیں۔ تھم تھم کر بہنے  کے  قائل ہیں۔ پچھلے  پچاس برسوں  میں  انھوں  نے  صرف لفظوں  کے  پل نہیں  باندھے  اور نہ پہاڑی ندی کی طرح اچھل کود کی ہے۔ وہ زندگی کو برتتے  ہیں  اس کے  مختلف پہلوؤں  کا بڑی گہرائی کے  ساتھ مطالعہ کرتے  ہیں  اور بے  حد محتاط انداز میں  اپنے  قلم کو حرکت میں  لاتے  ہیں۔ اسی لئے  پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے  یوسف ناظم کے  فن پر لکھا ہے  کہ۔

’’ان کا فن اپنے  پڑھنے  والوں  سے  ایک خاص معیار کا مطالبہ کرتا ہے  ایک اونچے  نکھرے  ستھرے  علمی و ادبی ذوق کا …اردو ادب کی روایات سے  آگہی کا …. یوسف ناظم، لگتا ہے  جتنا وقت لکھنے  میں  صرف کرتے  ہیں  اس سے  زیادہ وقت ’’کیا لکھیں  اور کیسے  لکھیں ‘‘ پر غور کرنے  میں  صرف کرتے  ہیں  وہ ضبط و احتیاط کا دامن ہاتھ سے  نہیں  چھوڑتے …….‘‘

(مضمون’’یوسف ناظم ایک مطالعہ‘‘ مشمولہ ماہنامہ شاعر جنوری و فروری ۸۰ء)

            ابھی میں  نے  عرض کیا تھا کہ یوسف ناظم روتے  بھی ہیں  اور رلاتے  بھی ہیں۔ بلکہ مجھے  یہ کہنے  میں  کوئی تامل نہیں  کہ وہ رلانے  کا فن بہت اچھی طرح جانتے  ہیں  شاید اسی لئے  وہ رونے  کے  بائی پروڈکٹ یعنی آنسو کے  ذائقے  سے  نہ صرف واقف ہیں  بلکہ اس ذائقے  سے  دوسروں  کو واقف کروانا بھی اپنا فرض اولین سمجھتے  ہیں۔ ان کا خیال ہے  کہ آنسو اگر اصلی ہوں گے  تو نمکین ضرور ہوں گے …. وہ لکھتے  ہیں۔

’’آدمی کے  آنسو ذائقے  میں  نمکین ہوتے  ہیں  شرط یہ ہے  کہ یہ آنسو اصلی ہوں …..مگر مچھ کے  آنسو نہ ہوں  …… آنسوؤں  کے  نمکین ہونے  کا فائدہ یہ ہے  کہ آدمی جب بھی اپنے  منھ کا مزہ بدلنا چاہتا ہے ، اپنے  آنسو پی لیتا ہے  (آدمی کتنا خود مکتفی ہے)

(مضمون ’’حق نمک کا‘‘  مشمولہ فی الحال…. ص ۱۵)

            ٍٍآخری جملہ قوسین میں  ہے۔ دیکھئے  وہ اس جملے  سے  کیسی زبردست چوٹ کر گئے  ہیں۔ اس طرح کے  قوسینی جملے  یوسف ناظم کی اہم خصوصیت ہیں۔ وہ اپنے  ہر اہم نثر پارہ کے  اختتام پر ایک چھوٹاساجملہ قوسین میں  داغ دیتے  ہیں  ان کا کوئی مجموعہ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ ایسے  قوسینی جملے  جگہ جگہ نظر آئیں  گے۔ استاذی پروفیسر مجاور حسین رضوی نے  ایسے  جملے  کو نثر میں  مستزاد کہا تھا۔ میں  اسے  قوسینی جملے  اس لئے  کہہ رہا ہوں  کہ قوسین کی عدم موجودگی میں  ایسے  جملے  کی قلب ماہیت ہو جانے  کا خدشہ لگا رہتا ہے۔ یوسف ناظم میں  قوسینی جملے  لکھنے  کی بڑی پرانی عادت ہے  جس سے  اردو کا ہر ادیب، شاعر، نقاد، قاری بلکہ میرا خیال ہے  کہ وہ بنیا تک واقف ہے  جو کبھی کبھی یوسف ناظم کے  چھپے  ہوئے  مضامین میں  نمک مرچ اور دھنیا باندھ دیا کرتا ہے۔ ان کے  قوسینی ادب کے  چرچے  چار دانگ عالم میں  پھیلے  ہوئے  ہیں۔ یہاں  تک کہ حیدر آباد کے  ایک مزاح نگار مسیح انجم نے  انہیں  ’’یوسف قوسین‘‘ کا خطاب دے  رکھا ہے  بلکہ اس عنوان کے  تحت ان پر ایک خاکہ بھی لکھ مارا ہے۔ اس کے  باوجود وہ قوسینی ادب سے  سبک دوش نہیں  ہوئے  بلکہ اب تو قوسین کی تعداد میں  اضافہ اور قوسینی جملوں  کے  درمیانی فاصلے  میں  کمی ہو رہی ہے۔ دراصل یوسف ناظم کو یہ اندازہ ہو گیا ہے  کہ لوگ اب ان کے  قوسینی جملوں  پر زیادہ داد دیتے  ہیں  اس لئے  وہ قوسین کی تعداد بڑھاتے  جا رہے  ہیں۔ خدشہ یہ ہے  کہ یوسف ناظم کے  آئندہ مضامین کا ہر جملہ قوسین میں  نہ ہو……!!!

            یوسف ناظم اپنے  اطراف سے  بے  خبر نہیں  رہتے  وہ خوابوں  کی دنیا کے  ادیب نہیں  …..وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں  کے  درمیان جیتے  ہیں  اور انہیں  تلخ حقیقتوں  کو طنز و مزاح کا روپ دے  کر ہمارے  سامنے  پیش کر دیتے  ہیں۔ عرصہ گزرا جب مرار جی ڈیسائی وزیر خزانہ تھے  تو انہوں  نے  گولڈ کنٹرول آرڈر نافذ کیا تھا اور سونے  کے  استعمال پر کچھ پابندیاں  عائد کر دی تھیں۔ ایک حساس فن کار اس قانون کے  بطن سے  اپنے  مطلب کی باتیں  کیسے  ڈھونڈ نکالتا ہے  اس کا نمونہ آپ کو یوسف ناظم کی اس تحریر میں  نظر آئے  گا۔ یہ بھی انداز ہ کیا جا سکتا ہے  کہ وہ دو تین موضوعات کو ایک چھوٹے  سے  نثر کے  ٹکڑے  میں  پیش کرنے  پر کتنی قدرت رکھتے  ہیں  ….ایک طرف گولڈ کنٹرول آرڈر تھا تو دوسری طرف بھارت کی شہرۂ آفاق ہاکی ٹیم کا سورج رو بہ زوال تھا۔ وہ ٹیم جو اولمپک میں  ہمیشہ گولڈ میڈل حاصل کرتی تھی اب چوتھے  پانچویں  نمبر پر آنے  لگی تھی۔ یوسف ناظم کہتے  ہیں۔

’’ہندوستان میں  جب سے  گولڈ کنٹرول آرڈر نافذ ہوا ہے  ہماری ہاکی ٹیم نے  اولمپک میں  گولڈ میڈل حاصل کرنا ترک کر دیا ہے۔ کون قانون شکنی کرے  اور اپنے  آپ کو مصیبت میں  ڈالے۔ اب طالب علم بھی اس قانون کی پابندی کرنے  لگے  ہیں ……‘‘

(ادبی نوشاہ مشمولہ شگوفہ اپریل  ۷۷ء  ص ۴۶)

            آخری جملے  میں  یوسف ناظم نے  طالب علموں  کو بھی گھسیٹ لیا جن کا تعلیمی معیار روز بروز گھٹتا جا رہا ہے۔ اکیسویں  صدی کی آمد کا غلغلہ ایک عرصے  سے  ہے۔ ہرکس وناکس اکیسویں  صدی کا انتظار کر رہا ہے  اور ہر ایک کا انداز مختلف ہے۔ سربراہان مملکت نے  اکیسویں  صدی کی آمد کو اپنے  لئے  ایک نشانہ Targetبنا لیا ہے۔ کوئی کہتا ہے  کہ اکیسویں  صدی میں  کوئی جاہل نہ رہنے  پائے۔ کسی ملک کا سربراہ چاہتا ہے  کہ کوئی زندہ ہی نہ رہنے  پائے …. کوئی سائنسی ترقیوں  کی باتیں  کرتا ہے  کوئی قحط اور بھوک کے  خاتمے  پر زور دے  رہا ہے  ….غرض جتنے  منھ اتنی باتیں  بلکہ جتنے  ذہن اتنے  ہی ہتھکنڈے  ……! لیکن ایک درد مند فنکار آنے  والی صدی کے  بارے  میں  کیا رائے  رکھتا ہے  ؟ اسے  آنے  والی صدی کے  خدوخال کیسے  نظر آتے  ہیں …….؟ یوسف ناظم کی یہ تحریر اس بات کا جواب ہے  وہ لکھتے  ہیں  ………

’’آنے  والی صدی بھی شکل و صورت اور ہیئت کے  اعتبار سے  ویسی ہی صدی ہو گی جیسی کہ اب تک ہوتی آئی ہیں۔ لیکن صدی بہرحال صدی ہوتی ہے۔ اس لئے  سوچا جا رہا ہے  کہ اس کا استقبال کس طرح کیا جائے۔ ہینڈ بجا کر یا بغلیں  بجا کر…..فضا میں  فاختائیں  اڑائی جائیں  یا زمین پر ایک آدھ خوبصورت بم چھوڑا جائے۔ ویسے  چھوٹے  موٹے  پیمانے  پر کیمیکل اشیاء بنانے  والے  کارخانوں  سے  گیس کا اخراج بھی عمل میں  لایا جاتا ہے  کیوں  کہ اس گیس کو بھی مفاد عامہ کے  لئے  استعمال کئے  جانے  کا رواج مقبول ہو رہا ہے  اور لوگ ہنسی خوشی اس پر دل و جان سے  فدا ہو رہے  ہیں۔ (سرکاری اعداد پر بھی بھروسہ کیا جائے  تو تعداد اچھی خاصی معلوم ہوتی ہے)

(مضمون ’’وہ آ رہی ہے ‘‘ مشمولہ شگوفہ  جنوری ۸۶ء)

            اکیسویں  صدی پر بات کرتے  کرتے  یوسف ناظم کے  ذہن پر بھوپال گیس اوراس کے  بعد مختلف سانحات چھا جاتے  ہیں  اور ان کے  مزاج میں  کرب جھلکنے  لگتا ہے۔ اسی لئے  تومیں  نے  کہا تھا کہ یوسف ناظم رونے  اور رلانے  کے  فن سے  اچھی طرح واقف ہیں ……خدا کرے  کہ ان کے  فن میں  ان کے  اسلوم میں  ان کے  انداز تحریر میں  اسی طرح سورج اگتے  رہیں  ……..روشنی اور تمازت سے  بھرپور سورج……….!!!

————————-٭٭————————-

 

مشاعرے  اور اساتذہ کی اصلاحیں

            ہر تخلیق کار کی خواہش ہوتی ہے  کہ اس کی تخلیق کو دوسرے  لوگ بھی دیکھیں ، اس جذبہ کو محسوس کریں  جو ا س کی تخلیق کے  رگ و پے  میں  لہو بن کر دوڑ رہا ہے۔ اس احساس پر غور کریں  جس نے  اس تخلیق کو پیکر عطا کیا ہے۔ سنگ تراش ہو یا مصور، معمار ہویا مغنی یا موسیقار سبھی یہ چاہتے  ہیں  کہ ان کا فن عوام تک پہنچے  اور اسے  پسند کیا جائے۔ شاعر اور ادیب بھی اس خواہش سے  مبرا نہیں  ہیں۔ وہ بھی یہی خواہش رکھتے  ہیں  کہ ان کی تخلیق کو لوگ سنیں  اور فن کار کی صلاحیتوں  کی داد دیں۔ جب انسان نے  شعر کہا ہو گا اور اس کو احساس ہوا ہو گا کہ یہ ایک اچھوتا خیال ہے ، تواس کو دوسروں  کو سنانے  کے  لئے  دوڑ پڑا ہو گا۔ اور جب اس کی داد ملی ہو گی تو نہ صرف خوش ہوا ہو گا بلکہ اس داد سے  اس کا حوصلہ بھی بڑھا ہو گا یوں  اس کے  دل میں  خوب سے  خوب تر شعر کہنے  کی خواہش نے  جنم لیا ہو گا۔ ابتدائی زمانے  میں  نشر و اشاعت کی سہولتیں  نہیں  تھیں۔ لوگ ایک جگہ جمع ہوتے  تھے  اور اپنی اپنی شعری تخلیقات سنایا کرتے  تھے  اور سامعین ان تخلیقات کو سن کر کبھی داد دیتے  تھے  اور کبھی ان پر تنقید بھی کی جاتی تھی۔

            وہ مجلس جہاں  شعراء اپنا کلام سناتے  ہیں  مشاعرہ کہلاتی ہے۔ مشاعرے  کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ نشر و اشاعت کی تمام تر سہولتوں  کے  فروغ کے  باوجود مشاعرے  کی اہمیت اسی طرح برقرار ہے۔ کیونکہ اس میں  شاعر اور سامع کے  درمیان راست ربط ہوتا ہے  …….کاغذ پر چھپے  ہوئے  اشعار ہوں  یا  ریڈیو اور ٹی وی پر سنایا جانے  والا کلام ……ان میں  شاعر سامع کے  خیالات سے  محروم رہتا ہے  جبکہ مشاعرے  میں  سامع کا رد عمل  شاعر کو اپنے  شعر کے  حسن و قبح کی طرف توجہ دینے  پر مجبور کرتا ہے  اور جب شاعر کو اس کے  کلام پر داد ملتی ہے  تو اسے  ایسا محسوس ہوتا ہے  جیسے  ہفت اقلیم کی دولت مل گئی ہو۔ عرب میں  عکاظ کے  مقام پر ہرسال ایک میلہ لگا کرتا تھا۔ اس میلے  میں  عرب کے  تقریباً تمام قبائل شریک ہوا کرتے  تھے  اور ہر فن کے  ماہر اپنی ہنر مندی کا مظاہرہ کرتے  تھے  …. دوسری تفریحات کے  علاوہ یہ مقام شاعروں  کے  لئے  اپنے  علم و فن کے  اظہار کا ایک اہم ادارہ تھا جہاں  عرب کے  کونے  کونے  سے  سخن گو اور سخن شناس جمع ہوتے  تھے۔ اس میلے  میں  شاعر اپنا قصیدہ پیش کرتا تھا اور جس قصیدہ کو سب سے  بہتر قرار دیا جاتا اسے  سونے  کے  پانی سے  تحریر کر کے  کعبہ کی دیوار پر لٹکا دیا جاتا تھا۔ اس سلسلے  میں  کئی قصیدہ نگاروں  کے  نام لئے  جاتے  ہیں۔ جن کو یہ مرتبہ حاصل ہوا تھا۔ ان قصیدوں  کو ’’سبعہ معلقہ‘‘ کے  نام سے  یاد کیا جاتا ہے۔ اگر غور کریں  تو اندازہ ہوتا ہے  کہ مشاعرہ تنقید کی ابتدائی منزل ہے۔ یہیں  اس بات کا اندازہ ہوتا ہے  کہ کلام کیسا ہے  اور سامعین کو کس حد تک متاثر کر سکتا ہے۔ شاعر اپنا کلام پیش کرتا ہے  اور سامع اس سے  اثر قبول کرتا ہے  تو بے  ساختہ اس کی زبان سے  وہ نکل پڑتی ہے  …..’’واہ۔ واہ‘‘ اور ’’سبحان اللہ‘‘ یا اسی طرح کے  فقرے  اس بات کی دلیل ہیں  کہ سامع نے  اس شعر کو پسند کیا۔ تحسین کا یہ بے  ساختہ اظہار داد کہلاتا ہے۔

            کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے  کہ شعر پسند نہیں  آتا …..ایسی صورت میں  بھی ردعمل ہوتا ہے۔ کبھی سامعین سکو اختیار کرتے  ہیں  اور کبھی شور برپا ہوتا ہے  جس سے  اندازہ کرنا مشکل نہیں  ہوتا کہ سامعین کے  نقطہ نظر سے  یہ شعر اہمیت نہیں  رکھتا۔ چنانچہ زمانۂ قدیم سے  آج تک داد ہی وہ پیمانہ ہے  جس کے  ذریعے  سے  یہ اندازہ کیا جاتا ہے  کہ عوام نے  اس شعر سے  کیا تاثر قبول کیا ہے  اور شاعر کو یہ اندازہ ہوتا ہے  کہ اس کے  کلام میں  کیا خوبی یا خامی ہے۔ مشاعروں  کی اپنی ایک مخصوص تہذیب اور اس کی اپنی روایات ہوئی ہیں۔ پرانے  زمانے  میں  جب مشاعرہ منعقد ہوتا تواس کے  لئے  خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا….میر مشاعرہ یا صدر مشاعرہ ایسے  شخص کو بنایا جاتا تھا جو عمل و فضل میں  سب سے  سوا ہوتا اور فن شعر پر مکمل دسترس رکھتا …..جو شاعر کلام سناتا اس کے  آگے  شمع رکھ دی جاتی تھی …. اور جب وہ سنا چکا تو میر مشاعرہ کی ہدایت پر یہ شمع دوسرے  شاعر کے  سامنے  رکھی جاتی تھی….شمع اس طرح گردش کرتی ہوئی میر مشاعرہ کے  سامنے  آتی تھی جس کے  بعد مشاعرہ کا اختتام عمل میں  آتا تھا……ایک اور خاص بات یہ تھی کہ یہاں  حفظ و مراتب کا خیال رکھا جاتا تھا۔ مبتدی شعرا کو مشاعرے  میں  پہلے  پڑھنے  کے  لئے  کہا جاتا تھا اس کے  بعد نسبتاً تجربہ کا ر شاعر اپنا کلام سناتے  تھے۔ جب کوئی شاعر اپنا کلام سناتا اور اساتذہ فن اس کی تعریف کرتے  تو یہ تعریف اس شاعر کے  لئے  سند بن جاتی تھی۔ چنانچہ میر وسودا کے  عہد میں  ایک مشاعرہ ہوا جہاں  ایک نو عمر لڑکے  نے  غزل پڑھی جس کا مطلع تھا۔

دل کے  پھپھولے  جل اٹھے  سینے  کے  داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے  چراغ سے

            اس شعر کو سن کر سودا بے  ساختہ چونک پڑے  اور بہت تعریف کی تھی۔ اسی طرح اقبال نے  اپنی نو عمری میں  کسی مشاعرے  میں  غزل سنائی تھی جس کے  ایک شعر پر انھیں  بڑی داد ملی اور مرزا ارشد گورگانی نے  انھیں  بہت سراہا تھا شعر یہ تھا۔

موتی سمجھ کے  شان کریمی نے  چن لیا

قطرے  جو تھے  مرے  عرقِ انفعال کے

            اور اس کے  بعد اقبال کی شعری صلاحیتوں  کا اندازہ ہوا اور لوگ ان کے  کلام کی طرف متوجہ ہوئے۔ مشاعروں  میں  مزاح، نکتہ چینی اور طنز بھی ہوا کرتا تھا ….لیکن اس پر لوگ ناراض نہیں  ہوتے  تھے  بلکہ یہ ان کی اصلاح کے  لئے  ممد و معاون ثابت ہوتا تھا۔ انشا نے  نوجوانی کے  زمانے  میں  ایک غزل سنائی تھی اس مشاعرے  میں  سودا بھی شریک تھے۔ شعر یہ تھا۔

گر نازنیں  کہے  سے  برا مانتے  ہو تم

میری طرف تو دیکھئے  میں  نازنیں  سہی

            سودا نے  مسکرا کر کہا ’’دریں  چہ شک‘‘ یہ فقرہ شعر کے  آخری حصے  کی وجہ سے  کہا گیا تھا جہاں  ’’میں  نازنیں  سہی‘‘ کے  الفاظ آئے  تھے  ….اس لطیفے  کے  پس منظر میں  اہم بات یہ تھی کہ انشا بہت خوبرو تھے۔ مشاعرے  میں  اردو کی شعری روایات میں  بڑی اہمیت کے  حامل ہیں۔ اردو کے  علاوہ ہندوستان کی کسی دوسری زبان میں  مشاعرہ کا تصور موجود نہیں  البتہ ہندی شاعری میں  کوی سمیلن کی روایت نے  جنم لیا ہے  جو اردو کا براہ راست اثر ہے۔

            مشاعرے  ایک خاص سماجی نظام کی پیدا وار ہیں۔ بادشاہوں ، امراء، نوابوں  اور رئیسوں  نے  جب مشاعروں  کی سرپرستی کی تو اس کے  پیچھے  یہ خواہش بھی چھپی ہوئی تھی کہ علم دوست اور ادب نواز سمجھاجائے۔ اس طبقے  نے  جب فن شعر کی سرپرستی کی تو شعر گوئی کو مزید فروغ ہوا اور شاعری کو عزت اور شہرت حاصل کرنے  کا ایک وسیلہ بنا لیا گیا۔ اس کے  علاوہ قدیم زمانے  میں  سنیما تھا نہ اسٹیج، نہ تھیٹر اور نہ ریڈیو نہ ٹی وی، عوام الناس کے  لئے  تفریح کا ذریعہ پتنگ بازی، بٹیربازی، مرغ بازی، گانا بجانا اور اسی قبیل کی دوسری چیزیں  تھیں ….. لیکن ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو شعری تخلیق کو اپنے  جذبات کی تسکین کا ذریعہ سمجھتا تھا۔ مشاعرے  اسی لئے  اہمیت حاصل کر گئے  کہ یہ ذہنی مسرت حاصل کرنے  کا ایک اہم وسیلہ تھے ….یہاں  نہ صرف ادب اور نزاکت شعر کے  بارے  میں  معلومات ہو سکتی تھیں  بلکہ اعلیٰ ادبی ذوق کی تربیت بھی ممکن تھی۔ مشاعروں  نے  خود شعراء کی ذہنی نشو و نما میں  بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ مشاعروں  کی بدولت ہی شعراء کو یہ محسوس ہوا کہ مبہم اور غیر واضح خیالات سے  عوام کے  ذہنوں  تک رسائی ممکن نہیں …….اور پھر یہ بھی ضروری ہے  کہ کوئی اچھوتی بات ایسی انوکھے  انداز میں  کہی جائے  جس سے  عوام کا دل جیتا جا سکے  اور خود شاعر کی شعری عظمت کا اظہار بھی ہو سکے۔ اسی لئے  مشاعرے  میں  شاعر اپنی بہترین تخلیق پیش کرتا تھا۔ اور اس بات کی کوشش کرتا تھا کہ اس کی کاوش سامعین پر اثر انداز ہو۔ ساتھ ہی وہ اس بات کا بھی لحاظ رکھتا تھا کہ زبان و بیان کے  اعتبار سے  شعر میں  کوئی خامی نہ رہنے  پائے۔ مشاعرے  میں  لفظ کے  غلط استعمال پر بھی گرفت ہو سکتی تھی اور شاعر کی بات اسی وقت تسلیم کی جاتی تھی جب وہ اساتذہ فن کے  کسی شعر سے  سند دے  سکے۔ اس طرح سے  سند دینے  کے  لئے  ضروری تھا کہ وہ اساتذہ کے  کلام سے  بھی بخوبی واقف ہو۔

            سامعین جب شعر پر داد دیتے  ہیں  توا س کا مطلب یہ ہے  کہ ان کے  پاس شعر کا کوئی پیمانہ موجود ہے۔ یہ پیمانہ یا معیار اصل میں  سامعین کے  ذوق اور وجدان سے  وابستہ ہوتا ہے۔ وہ تنقیدی شعور جس کی بنا پر سامع کسی شعر پر داد دیتا ہے ، یونہی نہیں  پیدا ہوتا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے  جب سامع بھی شعر کی ظاہری و باطنی خصوصیات پر سنتے  ہیں  غور کر سکے۔ اور اگر شاعر میں  یہ صلاحیت ہو اور وہ اپنا خیال اسطرح سے  پیش کرے  کہ سنتے  ہی اثر کر جائے  تو وہ کامیاب ہو گا……. جس کے  نتیجے  میں  شاعر اور سامع کے  درمیان ایک ذہنی ہم آہنگی ہو گی اور ترسیل کی راہ کھل جائے  گی۔ لیکن اگر شاعر شعر سنائے  اور اس پر خاموشی اختیار کی جائے  تو لامحالہ یہ مفہوم نکالا جائے  گا کہ یا تو شاعر نے  مہمل بات کہی ہے  یا پھر سامعین کا ذوق اتنا تربیت یافتہ نہیں  ہے  کہ شاعر کی ذہنی سطح تک پہنچ سکے۔ دونوں  صورتوں  میں  شعر ناکام ہو گا۔ اردو کی ترقی و ترویج میں  بھی مشاعروں  کی بڑی اہمیت ہے۔ عوام کو زبان و ادب کی طرف متوجہ کرنے  اور فن کی باریکیوں  کے  ذریعہ ان کے  ذہن کو متاثر کرنے  میں  مشاعرے  بہت ممد و معاون ثابت ہوتے  ہیں۔ مشاعرے  خیال کی مختلف جہتوں  کو بھی سامنے  لانے  میں  مددگار ثابت ہوتے  ہیں۔ طرحی مشاعروں  میں  ایک مصرع طرح دیا جاتا ہے۔ اور شریک ہونے  والے  تمام شعراء اسی ’’طرح‘‘ پر غزل سناتے  ہیں۔ یہاں  اس بات کا اندازہ کرنے  میں  آسانی ہوتی ہے  کہ کون قادر الکلام ہے  اور کس نے  لفظ کو اس کی تمام معنوی نزاکتوں  کے  ساتھ استعمال کیا ہے۔ اس طرح یہ طرحی مشاعرے  شاعر کی شعری صلاحیتوں  کا امتحان بھی بن جاتے  ہیں۔ غیر طرحی مشاعرے  وہ ہوتے  ہیں  جن میں  کسی خاص طرح پر لکھنے  کی ضرورت نہیں  ہوتی….. کسی بھی طرح میں  غزل کہی اور سنائی جا سکتی ہے۔ ان مشاعروں  میں  خیال و فکر کی گہرائی اور اظہار کا منفرد انداز سامنے  آتا ہے  ….اور خود شاعر کے  ذہنی میلان کا بھی بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔

            مشاعروں  میں  جہاں  مبتدی شعراء موجود ہوتے  ہیں  وہاں  اساتذہ فن بھی ہوتے  ہیں  اور مبتدی شعراء کو جہاں  تعریف کے  پھول ملتے  ہیں  وہیں  اعتراض کے  خار زار میں  بھی گھسیٹا جاتا ہے …. یہی وجہ ہے  کہ مبتدی شاعر جب تک کسی اساد سے  اصلاح نہیں  لیتا مشاعروں  میں  شعر سنانے  کی ہمت نہ کرتا ……اور اگر شاگرد کے  کسی شعر پر اعتراض کیا جاتا تو پھر استاد اس کی وضاحت کرتا ….. اور اگر شاگرد کے  کسی شعر پر اعتراض کیا جاتا تو پھر استاد اس کی وضاحت کرتا اور اعتراض کا جواب دیتا تھا۔ لیکن صرف مبتدی شعرا پر ہی اعتراض نہیں  ہوتا تھا بلکہ اساتذہ فن کو بھی اعتراض کا سامنا کرنا پڑتا تھا….. خواجہ حیدر علی آتش اپنے  زمانے  کے  مسلم الثبوت استاد تھے  اور ان کے  کئی شاگرد تھے۔ آتش نے  ایک بار کسی مشاعرے  میں  غزل سنائی جس میں  یہ شعر بھی تھا۔

دختر رز مری مونس ہے  مری ہم دم ہے

میں  جہاں  گیر ہوں  وہ نورجہاں  بیگم ہے

            بعض لوگوں  کے  قریب ’’دم‘‘ کا قافیہ بیگم درست نہیں  کیونکہ بیگم ترکی لفظ ہے  اور ’’گ‘‘ پر  ضمہ ہے  جب کہ ’’دم‘‘ کی دال پر فتحہ ہے  لیکن اردو والے  بیگم کی ’’گ‘‘ کو بالفتح ہی کہتے  آئے  ہیں۔ اس لئے  آتش نے  جواب دیا کہ اگر ترکی میں  شعر کہا جائے تو بیگُم کہیں  گے  …..میں  نے  تو اردو میں  کہا اور اردو میں  بیگَم رائج ہے۔ عوام میں  جو رائج ہو گا وہی فصیح ہو گا…..اس لئے  اس میں  کوئی غلطی نہیں  ہے  …..لیکن یہ تو اساتذہ فن کی بات ہے۔ یہ لوگ تھے  جنھوں  نے  زبان کو نکھارا اور اپنے  خون جگر سے  اردو کی آبیاری کی۔ مبتدی شعراء کے  لئے  اسی وجہ سے  یہ ضروری تھا کہ وہ پہلے  اصلاح لیں  اور اپنے  کلام کو کسی استاد کے  پاس پیش کر کے  اپنی غلطیاں  درست کرائیں۔

            اصلاح کا مفہوم ہے  درست کرنا …. فن شعر میں  اس لفظ سے  مراد یہ ہے  کہ مبتدی شاعر اپنے  کلام پر کسی استاد فن کی رائے  لے  اور غلطیوں  کو دور کرے۔ یہ غلطیاں  عروض کی بھی ہو سکتی ہیں  اور زبان و بیان کی بھی ….عروضی غلطیوں  کا مطلب یہ ہے  کہ شعر وزن سے  گر جائے  یا مصرعے  کی بحر بدل جائے، استاداس قسم کی غلطیوں  کی نشاندہی کرتا ہے  اور اسی غلطیوں  کو ٹھیک کر کے  شعر کو موزوں  بناتا ہے۔ زبان و بیان کی غلطیاں  بھی مبتدی شعراء کے  پاس ہو سکتی ہیں  جیسے  مذکر و مونث کا استعمال علامت فاعل یعنی ’’نے ‘‘ کی غلطی اور غیر واضح انداز وغیرہ۔ اساتذہ چوں  کہ فن کے  ماہر ہوتے  ہیں  اس لئے  ان سے  ایسی تمام غلطیوں  پر اصلاح لی جاتی ہے  تاکہ جب شعر مشاعرے  میں  پیش کیا جائے  تو اس پر اعتراضات نہ کئے  جائیں۔ یہ اصلاحیں  جہاں  شعر کو سڈول بناتی ہیں  ان سے  ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے  کہ مبتدی شاعر ایسی غلطی دوبارہ نہیں  کرتا اور شعر کہنے  کے  بعد خود ہی اس پر نظر ڈال کر اپنی خامی تلاش کر سکتا ہے۔

——————٭٭——————–

 

’’قند ہند‘‘ ایک ہمہ لسانی سفر

            عرصہ ہوا پٹنہ کالج میں  تقریر کرتے  ہوئے  آل احمد سرور نے  اردو ادب کو تہی مایہ کہا تھا۔ لیکن یہ اس وقت کی بات تھی جب آتش جوان بلکہ نوجوان تھا۔ اردو ادب نہ آزادی سے  قبل تہی مایہ تھا اور نہ اس کے  بعد تہی مایہ رہا۔ بلکہ پچھلی نصف صدی میں  تو اردو کے  سرمایہ میں  کافی گراں  قدر اضافے  ہوئے  ہیں۔ لہجے  بدلے  ہیں۔ اظہار کے  اسالیب بدلے  ہیں  اور صنف کے  اعتبار سے  بھی کئی تبدیلیاں  رونما ہوئی ہیں مگر ایک چیز جو ابتدائی دور سے  آج تک اردو ادب پر حاوی ہے  وہ ہے  غزل، جس کا جادو سرچڑھ کر بولتا ہے۔ غزل کی اہم خصوصیت یہ بھی ہے  کہ وہ اپنے  عصر کی ترجمان ہوتی ہے۔ اس صنف میں  اپنے  عہد سے  انسلاک کی بے  پناہ صلاحیت ہے  اسی لئے  چندربھان برہمن سے  لے  کر اس عہد تک غزل یکساں  طور پر مقبول رہی ہے۔ زمانے  نے  انداز بدل ڈالے ، لہجوں  میں  تیکھا پن پیدا کیا اور کہیں  کھردرا پن اس حد تک داخل ہو گیا کہ غزل کی لطافت بظاہر متاثر ہوئی۔ لیکن اس کے  کھردرے  پن میں  بھی اگر خون جگر اور جذب دروں  کی آمیزش ہوئی تو وہاں  ایک کیفیت ابھری۔

            روایت پسندی سے  ترقی پسندی تک اور ترقی پسندی سے  جدیدیت، وجودیت وغیرہ وغیرہ تک اردو شاعری نے  جو سفر طے  کیا ہے  اس کا جائزہ لیا جائے  تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں  کہ روایت اور جدت کے  امتزاج سے  جو تخلیقات وجود میں  آئیں  ان کا بانکپن کچھ اور ہی رہا۔ فکری مسلک چاہے  کچھ ہو جذبہ کی شدت ہو تو احساسات کا سمندر موجزن نظر آتا ہے۔ ایسے  شعراء جنھوں  نے  روایت پسندی کے  باوجود جدت کو شعار بنایا، ان کے  ہاں  عصری آگہی کا کرب بھی کروٹیں  لیتا نظر آتا ہے  ایسے  ہی شعراء میں  فیض الحسن خیال کا نام بھی لیا جا سکتا ہے۔ فیض الحسن خیال کوئی چالیس برس سے  شعر کہہ رہے  ہیں۔ ان کے  اب تک تین مجموعے  شائع ہو چکے  ہیں۔ پہلا مجموعہ ’’موج صبا‘‘ ۱۹۶۵ء میں ، دوسرا مجموعہ ’’صبح کا سورج‘‘ ۱۹۷۲ء میں  اور تیسرا مجموعہ ’’کانچ کا شہر‘‘ ۱۹۷۹ء میں  شائع ہوا۔ زیر نظر مجموعہ فیض الحسن خیال کا چوتھا مجموعہ ہے  لیکن اس کی حیثیت بالکل مختلف ہے  کیونکہ اس میں  فیض الحسن خیال کی اردو شاعری ساتھ ساتھ اس کا انگریزی، تلگو اور ہندی میں  ترجمہ بھی شامل ہے  اور اس طرح فیض الحسن خیال نے  ایک نئی روایت کی بنا ڈالی ہے۔ ویسے  تو اکثر شعراء کے  کلام کے  تراجم دوسری زبانوں  میں  شائع ہوتے  رہتے  ہیں  لیکن بیک وقت تین زبانوں  میں  ترجمہ اصل کلام کے  ساتھ شائع کرنے  کی یہ بالکل پہلی مثال ہے  اور اگر کوئی ہے  تو میری نظر سے  نہیں  گزری۔

            فیض الحسن خیال نے  چالیس سال قبل سے  شعر کہنے  شروع کئے  تھے ، تب سے  اب تک کئی نقادوں  نے  ان کے  کلام پر اظہار رائے  کیا ہے۔ اور سب نے  ایک بات ضرور کہی ہے  کہ خیال کے  ہاں  اخلاص کی ایسی گرمی ہے  جو تجربہ کی آنچ میں  جلنے  کے  بعد پیدا ہوتی ہے۔ خیال نے  زندگی کے  تجربات سے  جو کچھ حاصل کیا اور محسوس کیا اس کو شعر کے  سانچے  میں  ڈھال دیا۔ فیض الحسن خیال نے  انسان کی بے  بضاعتی کو بھی محسوس کیا ہے  اور انہیں انسان کی خلاقانہ صلاحیتوں کا بھی درک ہے۔ زندگی کی اخلاقی قدریں  ان کی شاعری کا محور ہیں۔ سماج میں  جب کبھی ان قدروں  سے  صرف نظر کیا گیا تو ایسے  گھاؤ پیدا ہوئے  جن سے  زندگی کا مواد رسنے  لگا۔ خیال نے  مختلف اصناف میں  سخن آرائی کی ہے  لیکن ان کے  کلام کا غالب عنصر غزل ہے۔ انھوں  نے  جذبات اور کیفیات کو غزل کے  سانچے  میں  ڈھال کر شاعری کو فکر اور احساس سے  مربوط کر دیا ہے۔ غزل کے  علاوہ خیال نے  حمد، نعت اور منقبت بھی لکھی ہے ….. ’’قند ہند‘‘ میں  یہ سبھی چیزیں  موجود ہیں۔ لیکن بنیادی حیثیت غزل کو حاصل ہے۔ خیال کے  مترجمین نے  ترجمہ کرتے  ہوئے  اس بات کا بھی پیش نظر رکھا ہے  کہ اس انتخاب سے  خیال کی شخصیت اور ادبی مقام کا کچھ حد تک ہی سہی تعین ہو سکے۔ سچ بات تو یہ ہے  کہ صرف چند منتخب تخلیقات کو سامنے  رکھ کر پوری ادبی شخصیت کو سمجھا نہیں  جا سکتا۔ اس کے  لئے  خیال کے  مکمل شعری سرمائے  کو سامنے  رکھنا ضروری ہے  تاکہ خیال کے  کلام، اسلوب اور شعری سفرکاجائزہ لیا جا سکے  لیکن چونکہ مقصد صرف یہ ہے  کہ زبانوں  کے  درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کیا جائے۔ اسی لئے  اس مجموعہ میں  ایسی تخلیقات کا انتخاب کیا گیا ہے  جن کا یا تو ترجمہ ہو چکا تھا یا جنھیں  مترجمین نے  ترجمہ کرنے  کے  قابل سمجھا۔

            فیض الحسن خیال نے  جب شاعری شروع کی تھی تو ترقی پسندی اور روایت پسندی کے  درمیان ایک کشمکش سی ہو رہی تھی۔ روایت کے  چاہنے  والے  ادب کے  ترقی پسندانہ رجحانات سے  ناخوش تھے۔ جبکہ ترقی پسندوں  نے  روایتی علائم اور اظہار کے  سانچوں  پر ضرب لگانی چاہی تھی۔ حیدر آباد کے  شعری روایتوں  میں  یہ بات بہت اہم تھی کہ فن سے  صرف نظر نہ کیا جائے۔ اور اسی لئے  فیض الحسن خیال نے  پہلے  حضرت قدر عریضی سے  اور پھر حضرت اوج یعقوبی سے  مشورہ سخن کیا۔ خیال ایک با شعور شاعر ہیں …….ان کے  ہاں  اپنے  عہد کے  تجربے  بھی ہیں  اور اظہار میں  عصری آگہی کا عنصر بھی موجود ہے۔ اکثر و بیشتر انہوں  نے  سادہ زبان استعمال کی اور پیچیدہ تراکیب اور علائم سے  گریز کرتے  ہوئے  عام فہم لب و لہجہ اختیار کیا…… خیال کی شاعری کا ذائقہ کچھ میٹھا، کچھ تیکھا اور کچھ چبھتا ہوا سا ہے۔ ان کے  ہاں  گل و بلبل، آشیاں ، گلستاں، چمن، بہار، صیاد وغیرہ جیسی روایتی علامتوں  کے  ساتھ ساتھ آگ، کشکول، آنگن، پتھر،پرندے  اور سمند جیسی پہلو دار علامتیں  بھی ہیں۔ اسی لئے  ان کی شاعری میں  رس بھی ہے  اور زہر کا کڑوا پن بھی۔ اور یہ دونوں  چیزیں  توازن کے  ساتھ موجود ہیں۔ جذباتی، ذہنی اور تہذیبی کشمکش کی وجہ سے  اردو ادب میں  جو تموج اٹھا، اس کا عکس بھی خیال کے  ہاں  نظر آتا ہے۔ لیکن روایت کی پاسداری اور اس کے  ساتھ ساتھ سچے  تجربے  کی اساس نے  خیال کی شاعری پر کوئی مخصوص چھاپ نہیں  لگنے  دی۔ انہوں  نے  جس چیز کو محسوس کیا اسے  اپنی شاعری میں  سمودیا۔ سیاسی اعتبار سے  ملک میں  تبدیلیاں  آتی رہیں۔ حکومتیں  بدلتی رہی ہیں  رہنما آتے  اور جاتے  رہے  ہیں۔ لیکن سیاسی حالات بدلنے  کے  باوجود عام آدمی کو کبھی فائدہ نہیں  پہنچ سکا۔ ایک عام آدمی کا احساس یہی تھا کہ استبداد پر مبنی نظام میں  کبھی کوئی تبدیلی نہیں  آ سکی ہے۔ اور اسی لئے  فریاد کا دم گھٹ کر رہ جاتا ہے  ایسے  ہی عام انسان کی نمائندگی کرتے  ہوئے  خیال کہتے  ہیں۔

چارہ گر بھی وہی قاتل وہی حاکم بھی وہی

کیسے  فریاد مری نوکِ زباں  تک پہنچے

            آج کے  سیاسی نظام میں  رہنماؤں  نے  نقابیں  پہن رکھی ہیں۔ اور ان کے  ساتھ ساتھ حکومت کی مشنری کے  کل پرزے  بھی نقاب پوش ہو گئے  ہیں۔ بظاہر امن کے  رکھوالے  پس پردہ غارت گری کی پشت پناہی کرتے  ہیں۔ خیال اسی بات کو یوں  کہتے  ہیں۔

ہیں  جس کے  چہرے  پر امن و اماں  کی تحریریں

اسی کا دست ہنر قاتلوں  کے  سر پر ہے

            پٹرو ڈالر کے  نتیجے  میں  ہندوستان میں  جو انقلاب آیا اسے  خیال نے  بھی محسوس کیا۔ اس انقلاب کے  روشن پہلو پر ان کی نظر پڑتی ہے۔ بیروز گاری سے  تنگ آئے  ہوئے  نوجوانوں  نے  جب ریت پھانکی تو سونے  کی بارش ہونے  لگی من وسلویٰ اتر نے  لگا۔ خیال ان تبدیلیوں  کو یوں  پیش کرتے  ہیں۔

رزق ان کے  بال و پر ہیں ، روشنی ان کی اڑان

کتنی پیاری ہے  پرندوں  کی کہانی دیکھئے

            یہ چند مثالیں  اس لئے  پیش کی گئیں  کہ خیال کے  لہجے  کا اندازہ ممکن ہو سکے۔ مثالیں  اور بھی دی جا سکتی تھیں  لیکن طوالت مانع ہے۔ خیال کی شاعری کا تجزیہ کیا جائے  تو یہ محسوس ہوتا ہے  کہ ان کے  لہجے  میں  سپاٹ پن نہیں ، کھردرا پن نہیں  بلکہ ایک کیف، لطافت اور شیرینی کے  امتزاج کے  ساتھ ساتھ خلوص کی شدت اور دردمندی بھی ہے  اسی لئے  ان کی شاعری میں  ایک دلنوازی پیدا ہو گئی ہے۔ یہی دلنوازی جسکی وجہ سے  خیال مشاعروں  میں  بہت مقبول رہے  ہیں۔

            ’’قند ہند ‘‘ کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے  کہ اسے  چار زبانوں  میں  پیش کیا گیا ہے۔ سخت قسم کا ناقد شاید یہ کہہ بیٹھے  کہ ’’قند ہند‘‘ کا انگریزی سے  کیا تعلق، اس سلسلے  میں  یہ جواز دیا جا سکتا ہے  کہ یہ انگریزی، ہندوستانی انگریزی ہے  جو آکسفورڈ اور کیمبرج کی زبان سے  متاثر توہے  لیکن اپنی الگ ایک شناخت بھی رکھتی ہے۔ اس کا اپنا لہجہ اور اپنا انداز ہے۔ انگریزی کا ترجمہ شری پی وی شاستری نے  کیا ہے۔ ترجمہ کا بنیادی مسئلہ یہ ہے  کہ کسی زبان میں  تخلیق کئے  گئے  فن پارے  میں  کچھ ایسی خصوصیات ہوتی ہیں  جن سے  اسی زبان میں  لطف اندوز ہونا ممکن ہے …….ان خصوصیات کا ترجمہ ممکن نہیں  ہوتا۔ خصوصاً ایسی زبان میں  بہتر ترجمہ نہیں  کیا جا سکتا جس کا تہذیبی ماحول بالکل مختلف ہو۔ البتہ تہذیبی ماحول میں  یکسانیت ہو تو کچھ حد تک انصاف ممکن ہے۔ اور اس بات کا امکان پیدا ہو سکتا ہے  کہ فن پارے  میں  پیش کی گئی نزاکتوں  سے  لطف اندوز ہوا جا سکے۔ شری پی وی شاستری کے  ترجمے  میں  مشکل درپیش ہو سکتی تھی۔ لیکن چونکہ شاستری جی ہندوستانی ہیں  اور اردو بھی ایک ہندوستانی زبان ہے  اس لئے  اس زبان کے  تہذیبی عوامل شاستری جی کے  لئے  نئے  نہیں  ہیں۔ یہی وجہ ہے  کہ ان کے  ترجمے  میں  اجنبیت کا احساس نہیں  ہوتا۔ البتہ ترجمے  میں  ’’بائبل پن‘‘ کی ضرور جھلک نظر آتی ہے  جس کی وجہ غالباً یہ ہے  کہ شاستری جی نے  بائبل کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔ اس کے  باوجود شاستری جی نے  چونکہ اصل متن کی روح تک پہنچ کر در مقصود حاصل کیا ہے  اس لئے  ترجمہ مسخ نہیں  ہو پایا۔ یہ اور بات ہے  کہ اس ترجمے  میں  تخلیق کی سی شان پیدا ہو گئی ہے  ایک مثال پیش ہے۔ خیال کہتے  ہیں۔

آئینہ بن کے  ترے  شہر میں  جب آؤں  گا

ہر نئے  ذہن کا تری طرح چمکاؤں  گا

            اب ترجمہ ملاحظہ کیجئے

I emerge as the blazing mirror of the scene

I shall bestow on every heart the radiance of new lights

             اس ترجمے  میں  ندرت ہے۔ بندش کی چستی اور نزاکت شعری کو پوری طرح ملحوظ رکھا گیا ہے۔ لفظی ترجمے  میں  یہ عیب ہوتا ہے  کہ کبھی کبھی دل ’’گارڈن گارڈن‘‘ بھی ہو جاتا ہے۔ شاستری جی کے  ترجمے  میں  یہ بات نہیں۔ انھوں  نے  تخلیق کی روح کو اپنے  اندر جذب کیا ہے۔ ہو سکتا ہے  کہ ترجمے  کے  ماہرین کو یہ بات پسند نہ آئے  کیونکہ ترجمے  کے  ضمن میں  جو مختلف نظریات کام کرتے  ہیں  ان میں  ایک یہ بھی ہے  کہ مترجم کو مصنف کے  ذہن تک پہنچنے  کی کوشش نہیں  کرنی چاہئے  بلکہ جو سامنے  ہے  اسی پر اکتفا کرنا چاہئے۔ ان کے  خیال میں  ایسی کوشش ایک نئی تخلیق کا سبب بنتی ہے۔ ایماندارانہ ترجمہ ممکن نہیں  ہو سکتا …….لیکن کچھ سرپھر (مجھ جیسے ) مترجمین سمجھتے  ہیں  کہ اگر ترجمہ پھیکا اور سیٹھا قسم کا ہو خصوصاً شعری تخلیقات کا ترجمہ تو ایسے  ترجمے  سے  بہتر ہے  کہ ترجمہ کیا ہی نہ جائے۔ شری شاستری قابل مبارکباد ہیں  کہ انھوں  نے  ڈوب کر ترجمہ کیا ہے۔ اور اس طرح خیال کی شاعری کا انگریزی داں  اصحاب تل پہنچانے  میں  معاون ثابت ہوئے  ہیں۔ اس کتاب میں  شامل تلگو ترجمہ ڈاکٹر خواجہ معین الدین کی کاوشوں  کا نتیجہ ہے۔ انھوں  نے  ترجمہ کرتے  ہوئے  اس بات کو ملحوظ رکھا کہ خیال جو کچھ کہہ رہے  ہیں  وہ جوں  کا توں  تلگو کے  قالب میں  پیش کر دیا جائے۔ اور چونکہ یہ ترجمہ ایک ہندوستانی زبان سے  دوسری زبان میں  کیا گیا ہے  اس لئے  قاری کو اجنبیت کا احساس نہیں  رہتا۔ یہ شعر دیکھئے۔

قدم قدم پہ ہیں  سورج کے  آئینے  لیکن

ترس رہا ہے  زمانہ کرن کرن کے  لئے

            تلگو ترجمہ یوں  ہے۔

            اچھے  ترجمے  کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے  کہ اس میں  شاعر یا فن کار کا جذبہ کسی آمیزش کے  بغیر پیش کیا جاتا ہے۔ اور ڈاکٹر خواجہ معین الدین کے  ترجمے  میں  یہ خصوصیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ ہندی میں  فیض الحسن خیال کا جو کلام پیش کیا گیا ہے۔ اسے  ترجمہ کہنا مناسب نہیں  کیونکہ اس میں  صرف رسم الخط بدل دیا گیا۔ اور جو الفاظ قدرے  مشکل محسوس ہوئے  ان کے  ہندی میں  معنی لکھ دیئے  گئے  ہیں تاکہ تفہیم میں  دشواری نہ ہو۔ اگر معنی نہ دیئے  گئے  ہوتے  تو شاید ہو سارے  مسائل درپیش ہوتے  ہیں  جن کا ذکر رسم الخط کی تبدیلی کے  ضمن میں  کیا جاتا رہا ہے۔ اردو کا حسن اسکے  رسم الخط کے  ساتھ ہے۔ لیکن ایسے  لوگ جو اردو رسم الخط سے  واقف نہیں  ہیں  ان کے  لئے  یہ طریقہ زیادہ مؤثر ہے۔ پھر بھی اس بات کا امکان ہے  کہ اگر اس کتاب میں  شامل ہندی رسم الخط میں  خیال کا کلام اردو مزاج اور اردو تلفظ سے  ناواقف فن کاروں  نے  گایا تو بوالعجبیاں  سرزد ہو سکتی ہیں۔

            خیال کے  اس تازہ مجموعہ میں  جو کلام ہے  اس کی مقدار کم سہی لیکن کمیت کے  اعتبار سے  اسے  کسی طرح کم تر نہیں  کہا جا سکتا۔ خصوصاً جب اس کلام کو دیگر تین زبانوں  میں  بھی پیش کیا گیا ہو تو اس مجموعہ کی اہمیت اور فزوں  ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اس واسطے  سے  خیال نے  دوسری زبانوں  کے  اہل علم احباب اور اردو ادب کے  شائقین تک اپنی بات پہنچائی ہے۔ اردو شاعری کے  بارے  میں  غیر اردو داں  حلقوں  میں  یہ غلط فہمی عام ہے  کہ اس زبان کی ساری شاعری یا تو معشوق کی تعریف میں  ہے  یا پھر شراب کی توصیف میں۔ غزلیں  گانے  کے  لئے  گلوکار جب اردو غزلوں  کا انتخاب کرتے  ہیں  تو وہ خاص طور پر ایسی غزلوں  کو ڈھونڈتے  ہیں  جن میں  یہ دو عناصر غالب طور پر موجود ہوں۔ اور پھر ان غزلوں  کو سننے  والے  ’’انٹلکچوئیلز‘‘ سرہلاہلا کر داد دیتے  ہیں۔ غزل کو ’’گجل‘‘ کہہ کر ’’کیامت‘‘ مچانے  والے  صرف اپنے  آپ کو مہذب ثابت کرنے  کے  لئے  اردو غزل سنتے  ہیں۔ اور گلو گار پر داد کے  ڈونگرے  برساتے  ہوئے  اتنے  بے  قابو ہو جاتے  ہیں  کہ خود ہی آداب بجا لاتے  ہیں …… کیونکہ وہ یہ نہیں  جانتے  کہ شاعر کے  کلام پر داد دی جائے  تو وہ از راہ انکسار آداب بجا لاتا ہے۔ اس لاعلمی کی وجہ سے  وہ جب داد دیتے  ہوئے  ہاتھ اٹھا اٹھا کر آداب بجا لاتے  ہیں  تو مجسم احمق نظر آتے  ہیں۔ خیال کی شاعری چاہے  وہ انگریزی میں  ترجمہ کی جائے  یا تلگو میں  یا پھر دیوناگری رسم الخط میں  لکھی جائے ، اپنے  پڑھنے  والوں  پر یہ تو یقیناً روشن کر دیتی ہے  کہ اردو شاعری صرف شراب اور محبوب کی توصیف نہیں  بلکہ اس میں  مسائل حیات بھی ہیں۔ انسانی اقدار بھی ہیں  زمانے  کی چاپ بھی ہے  اور لطیف پیرائے  میں  نشتر بھی ہیں۔

————————-٭٭————————-

 

سودا، تضحیک روزگار اور دہلی

            اورنگ زیب عالمگیر کے  انتقال کے  بعد مغل سلطنت کو زوال آنا شروع ہوا اور یہ عظیم سلطنت جو شمال سے  جنوب تک پھیلی ہوئی تھی ٹکڑے  ٹکڑے  ہو گئی۔ شاہ علم، بہادر شاہ اور جہاں  دار شاہ کے  بعد فرخ سیربادشاہ ہوا۔ اس کے  زمانے  میں  سید عبداللہ اور سید حسین علی نے  اپنی سازشوں  کے  جال پھیلائے  یہاں  تک کہ اسے  قتل کر دیا(۱۷۱۹ء)۔ اس کے  بعد رفیع الدرجات، رفیع الدولہ اور پھر محمد شاہ بادشاہ ہوا۔ اس زمانے  میں  سیاسی حالات انتہائی پستی کو پہنچ چکے  تھے۔ سازشوں  کا دور دورہ تھا۔ نچلے  طبقے  کے  لوگ بادشاہ کے  مزاج میں  دخیل ہوتے  جا رہے  تھے۔ لوٹ کھسوٹ اور رشوت کا بازار گرم تھا۔ اسی زمانے  میں  مرہٹہ سرداروں  نے  سراٹھایا اور شاہی زمانے  میں  نادر شاہ نے  دلی پر حملہ کیا اور خون کی ندیاں  بہا دیں۔ دلی کو لوٹ کر تباہ و تاراج کر دیا۔ محمد شاہ کے  بعد احمد شاہ تخت پر بیٹھا۔ اس زمانے  میں  دہلی کا برا حال تھا۔ دہلی گویا لوٹ مار کرنے  کرنے  والوں  کے  لئے  ایک نشانہ بن گئی تھی۔ ہرکس وناکس کی نظر دلی پر تھی۔ سلطنت بیحد کمزور اور سمٹ کر رہ گئی تھی۔ روہیلوں  کا ہنگامہ فرد کرنے  کے  لئے  جاٹوں  اور مرہٹوں  کو بلایا گیا تو اس سے  شاہی خزانہ پر زبردست بار پڑا۔ ۱۷۴۹ء میں  احمد شاہ ابدالی نے  حملہ کیا ……. اور ایک گرانقدر رقم (۱۴ لاکھ سالانہ ) بطور خراج ادا کرنی پڑی۔ احمد شاہ  کے  وزیر اعظم صفدر جنگ نے  ۱۷۵۳ء میں  بغاوت کر دی۔ اسی سال یعنی مئی ۱۷۵۳ء  میں  پرانی دلی پر جاٹوں  نے  یلغار کی اور اس کو تہس نہس کر دیا۔ ۱۷۵۴ء میں  احمد شاہ کو معزول کر کے  اندھا کر دیا گیا۔ اس بادشاہ میں  انتظامی صلاحیت مطلق نہ تھی۔ جادو ناتھ سرکار اپنی کتاب "The Fall of Mogal Empire” میں  لکھتے  ہیں  کہ نچلے  طبقے  کے  افراد محل شاہی میں  دخیل تھے …… طوائفوں  کو ملکہ بنایا گیا تھا اور ان کے  افراد خاندان کو اعلیٰ عہدے  دیئے  گئے  تھے۔ بادشاہ کو کاروبار مملکت سے  کوئی دلچسپی نہ تھی۔ خواجہ سراوں  اور معمولی نوکروں  کے  ہاتھ کاروبار شاہی آ گئے  تھے۔ اور بادشاہ ان کے  ہاتھ کٹھ پتلی بن گیا تھا۔ یا تو وہ عورتوں  میں  گھرا عیاشی سے  دل بہلاتا یا کھیل تماشے  میں  وقت صرف کرتا…… شاہی ملازمین، فوج کے  سپاہیوں  اور افسروں  کو تنخواہیں  وقت پر نہیں  ملتی تھیں۔ ہر طرف افراتفری اور لوٹ مار مچی ہوئی تھی۔ احمد شاہ کے  بعد عالمگیر ثانی بادشاہ ہوا جس کے  زمانے  میں  احمد شاہ ابدالی نے  پھر دلی کا رخ کیا اور لوٹ مار مچائی۔ اس کے  جانے  کے  بعد عمادالملک عالمگیر ثانی کا دشمن ہو گیا اور دہلی پر حملہ کر کے  دہلی کی اینٹ سے  اینٹ بجا دی….. عالمگیر ثانی کو عمادالملک نے  قتل کروا دیا اور شاہ جہاں  ثانی ۱۷۵۹ء میں  تخت پر بیٹھا۔ ۱۷۶۰ء میں  احمد شاہ ابدالی نے  پھر حملہ کیا اور دہلی میں  قتل عام کر ڈالا۔ اس کے  جاتے  ہی مرہٹے  اور جاٹ دہلی میں  گھس آئے۔ عمارتیں  ڈھا دی گئیں اور دہلی کو تباہ و تاراج کر دیا گیا۔

            اس طویل تمہید کا مقصد یہ ہے  کہ اٹھارویں  صدی کی چھٹی دھائی کے  حالات کا ایک مختصر جائزہ لیا جائے  تاکہ سودا کے  قصیدہ تضحیک روزگار کا مطالعہ کیا جا سکے۔ کیونکہ یہی وہ حالات تھے  جن کا اثر دلی کی عام زندگی پر بھی پڑا اور یہی وہ دور تھا جب سودا مملکت شعر پر حکمران تھے  اورع دور دور تک ان کے  نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔ ان کا ہجو یہ قصیدہ تضحیکِ روزگار اسی زمانے  کی دہلی کے  حالات پیش کرتا ہے  جس میں  سودا نے  سماج میں  پھیلی ہوئی افراتفری، معاشرے  کے  انحطاط، مصائب اور محرومیوں  کا بڑی خوبی سے  ذکر کیا ہے۔ تضحیک روزگار ایک دوست کے  گھوڑے  کی ہجو ہے  لیکن اس کے  پس پردہ ساراسماج اور فوجی نظام ہے  جو ابتری کا شکار ہے۔ چنانچہ اس قصیدہ کا نام خود اس بات کا غماز ہے  کہ سودا اپنے  ماحول کو پیش کر رہے  تھے۔ انہوں  نے  اس قصیدے  میں  بے  شمار علامتیں  استعمال کی ہیں۔ مکھیوں  کا بھنبھنانا، خرس کا خیال آنا، لڑکوں  کا ستانا، دھوبی اور کمہار کا اس گھوڑے  پر اپنا حق جتانا…… یہ سب اپنے  اندر گہری معنویت رکھتے  ہیں۔

ہے  چراغ جب سے  ابلقِ ایام پر سوار

یہ کہہ کر سودا نے  قاری کے  ذہن کو اپنے  زمانے  کی طرف منتقل کیا ہے  جہاں  ہر طرف ایک افراتفری کا عالم ہے  اور پھر وہ امرا اور فوجی عہدہ داروں  کی کسمپرسی کا حال یوں  بیان کرتے  ہیں۔   ع

جن کے  طویلے  بیچ کوئی دن کی بات ہے

ہرگز عراقی و عربی کا نہ تھا شمار

اب دیکھتا ہوں  میں  کہ زمانے  کے  ہاتھ سے

موچی سے  کفشِ پاکو گٹھاتے  ہی وہ ادھار

            اس کے  بعد وہ کنجوسی کی مذمت کرتے  ہوئے  کہتے  ہیں  کہ دہر یعنی زمانہ کی افتاد کی وجہ سے  نہ صرف عالم خراب ہے  بلکہ اکثر نے  کنجوسی کی وجہ سے  ننگ و عار اٹھایا ہے۔ یہاں  اس بات کا اظہار ضروری ہے  کہ عتیق احمد صدیقی نے  قصائد سودا مرتب کرنے  کے  لئے  انجمن ترقی اردو علی گڑھ کے  نسخے  سے  استفادہ کیا۔ لیکن انہوں  نے  دوسرے  نسخوں  کا حوالہ دیتے  ہوئے  حاشیہ میں  اس بات کا اظہار کیا ہے  کہ رام پور اور  پٹنہ کی لائبریریوں  میں  جونسخہ ہے  اس میں  شعر یوں  ہے۔

تنہا ولے  نہ دہرسے  عالم خراب ہے

خست نے  اکثروں  نے  اٹھایا ہے  ننگ و عار

            لیکن انجمن ترقی اردو علی گڑھ کے  نسخہ میں  یوں  ہے  اور یہی عتیق احمد صدیقی نے  بھی درج کیا ہے۔

تنہا ولے  نہ دہر سے  عالم خراب ہے

خست سے  اکثروں  نے  اٹھایا ہے  ننگ و عار

            اور یہی شعر موضوع اور عبارت کے  اعتبارسے  درست معلوم ہوتا ہے ……. کیونکہ خست کا ننگ و عار اٹھانا بے  معنی سی بات ہے  …… اس کے  علاوہ اگلا شعر یوں  ہے۔

ہیں  گے  چنانچے  ایک ہمارے  بھی مہرباں

پاوے  سزا جو ان کا کوئی نام لے  نہار

            ’’چنانچہ‘‘ کہہ کر سودا نے  اپنے  پچھلے  شعر کے  مفہوم کو آگے  بڑھایا ہے  کہ یہ جو مہربان دوست ہیں  وہ اتنے  کنجوس اور منحوس ہیں  کہ کوئی ان کا نام صبح میں  لے  تو اسے  اس دن سزا ضرور ملے  گی……دلچسپ بات یہ ہے  کہ ان کی آمدنی کچھ کم نہیں  بتلائی ہے۔

نوکر ہیں  سوروپے  کے  دنانت کی راہ سے

گھوڑا رکھے  ہیں  ایک سو اتنا خراب و خوار

            اب یہاں  ایک بات قابل غور ہے  کہ سوروپے  وہ اٹھارویں  صدی میں  اور اگر سالانہ ہو تب بھی کوئی معمولی رقم نہ تھی لیکن ’’دنانت کی راہ سے ‘‘ کہہ کر سودا نے  اس بات کا اظہار کر دیا ہے  کہ اگر چہ بادی النظر میں  سوروپے  کے  نوکر ہیں  مگر یہ سوروپے  تنخواہ ملتی ہی کب تھی۔ وجہ ظاہر ہے  …….نظام فوج پورا ابتر تھا ……تنخواہیں  کہاں  سے  دی جاتیں جب کہ خزانہ ہی خالی تھا۔ بیرونی حملہ آوروں ، مرہٹوں  اور باغیوں  نے  دہلی کو لوٹ لوٹ کر ساراخزانہ خالی کر دیا تھا۔ چنانچہ ان صاحب کے  پاس جو گھوڑا تھا، نہ اسے  دانہ ہی میسر تھا نہ گھاس، نہ اس کی کوئی دیکھ بھال ہوتی تھی اور نہ ہی اس کے  لئے  کوئی سائیس تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے  کسی دودھ پیتے  بچے  کے  پاس مٹی کا گھوڑا ہو…….دودھ پیتا بچہ ظاہر ہے  کہ کسی بڑے  اور بالغ انسان کی طرح اپنی چیز کی دیکھ بھال نہیں  کر سکتا۔ گرنے  اور ٹوٹنے  پھوٹنے  کی وجہ سے  مٹی کے  گھوڑے  کا جو حال ہو سکتا ہے ، کچھ ایسا ہی حال سودا نے  اپنے ’’ ممدوح ‘‘گھوڑے  کو بتایا ہے۔

            اگلے  شعر میں  نا طاقتی کا ذکر کرتے  ہوئے  گھوڑے  کی کمزوری کی وجہ مسلسل فاقے  بتائے  ہیں۔ جس کا مطلب یوں  نکلتا ہے  کہ جب گھوڑا فاقوں  میں  زندگی گذار ہا ہو تو اس کا یہ حال کیوں  نہ ہو…… اور گھوڑے  کا فاقہ کرنے  کی وجہ یہ محسوس ہوتی ہے  کہ مالک کے  پاس دانہ کھلانے  کو کچھ نہ تھا۔ اس کے  بعد اگلے  اشعار میں  سودا نے  اس گھوڑے  کی نا طاقتی اور بھوک سے  بے  چینی کی کیفیات کو پیش کیا ہے۔ اور یہیں  اندازہ ہوتا ہے  کہ گھوڑا دراصل ایک علامت ہے  ……. اس سماج کی علامت جو افراتفری کا شکار تھا…. اس نظم ونسق کی علامت جہاں  فوجیوں  کا یہ حال تھا کہ وہ گھوڑا رکھنے  پر تو مجبور تھے  لیکن تنخواہیں  نہ ملنے  اور آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہ ہونے  کی وجہ سے  اس کی دیکھ بھال نہ کر سکتے  تھے۔ یہ وہ سماج ہے  جس کے  افراد بھوکے  ہیں  اور ہر کھانے  پینے  کی چیز کو للچاتی نظروں سے  دیکھتے  ہیں۔ گھوڑے  کو دیکھ کر قصاب اور چمار اس آس میں  ہیں  کہ جلد ہی گوشت اور چمڑہ مل جائے  گا۔ قصاب اس فکر میں  ہے  کہ اس کو ذبح کر کے  گوشت حاصل کرے۔ چمار کو یہ امید ہے  کہ گھوڑے  کے  مرتے  ہی چمڑہ اسے  مل جائے  گا۔ یہ قصاب اور چمار اور کوئی نہیں ، وہ لٹیرے ، غدار اور سلطنت کے  دشمن ہیں  جو ہر طرف لوٹ مار مچائے  ہوئے  تھے  ……اور یہ چاہتے  تھے  کہ اپنے  شکار کی کھال تک کھینچ لیں۔  ع

ہر زخم پر زبس کہ بھنکتی ہیں  مکھیاں

کہتے  ہیں  اس کے  رنگ کو مگسی اس اعتبار

زخم پر مکھیوں  کا بھنکنا اس معاشرے  کے  زخمی بدن اور اس زخمی بدن سے  چمٹے  ہوئے  حملہ آوروں  کی طرف اشارہ کرتا ہے  جو اس معاشرے  کے  بدن سے  آخری قطرۂ خون بھی حاصل کر لینا چاہتے  تھے۔

            اس حصہ کے  بعد سودا نے  گھوڑے  کے  مالک کے  پاس خود کے  جانے  اور اس گھوڑے  کو مانگنے  کی روداد کے  بارے  میں  لکھا ہے  ……سودا کے  دوست جو جواب دیتے  ہیں  وہ دلچسپی سے  خالی نہیں ……گھوڑے  کا مالک اپنے  گھوڑے  کی برائیوں  سے  آگاہ ہے  اور ان کو متنبہ کرتا ہے  کہ یہ گھوڑا تو گدھے  سے  بدتر ہے۔ سلطنت دہلی کی اس زمانے  کی حالت کی اس سے  بہتر تشبیہ اور کیا دی جا سکتی ہے۔ گھوڑے  کا مالک اس گھوڑے  کی خوبیوں  کا ذکر کرتے  ہوئے  ایک اور اہم بات کہتا ہے ……   ع

دلی تک آن پہنچا تھا جس دن کہ مرہٹہ

مجھ سے  کہا نقیب نے  آ کر ہے  وقت کار

            عجیب بات یہ ہے  کہ مرہٹے  شہر میں  در آئے  ہیں  اور اس وقت فوجیوں  سے  یہ کہا جا رہا ہے  کہ اب ’’وقت کار‘‘ ہے۔ یعنی اس وقت تک سب خواب غفلت میں  پڑے  تھے  اور جب جان پر آ بنی تو ادھر ادھر بکھرے  ہوئے  فوجیوں  کی یاد آئی اور پھر نقیب سے  یہ اندازہ ہوتا ہے  کہ غالباً منادی کی گئی ہو گی کہ جتنے  فوجی ہیں  وہ تمام آئیں  اور دلی کو بچائیں۔ باقاعدہ فوج کا تصور نہیں  ملتا۔ حالانکہ اس سے  پہلے  باقاعدہ فوج بھی تھی اور بے  قاعدہ فوج میں  چھوٹے  چھوٹے  کماندار ہوتے  تھے  جن کے  تحت کچھ فوجی اور ان کا سازوسامان ہوتا تھا۔ یہ فوجی اہم ضرورت کے  وقت طلب کئے  جاتے  تھے  ورنہ وہ اپنے  کاروبار میں  مشغول رہتے۔ کسی اہم مہم کے  وقت جب یہ محسوس کیا جاتا کہ باقاعدہ فوج کم ہے  تو اس صورت میں  بے  قاعدہ فوج کے  کمان داروں  کو طلب کر کے  ان کے  تحت کے  آدمیوں  کو بھی حاصل کر لیا جاتا تھا۔ اس دور کی دلی میں  باقاعدہ فوج کی بجائے  صرف بے  قاعدہ فوج نظر آتی ہے  جس کو اس وقت طلب کیا جا رہا ہے  جب دشمن سرپر آ پہنچے  ہیں ….. اس بات سے  حکمران کی لاپرواہی اور امرائے  سلطنت کا غیر ذمہ دارانہ رویہ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔ ایک اور بات اس شعر کی روشنی میں  یہ بھی معلوم ہوتی ہے  کہ جن فوجیوں  کو طلب کیا جا رہا ہے  ان میں  نہ تو مادرِ وطن کو بچانے  کے  لئے  جذبہ تھا اور نہ ہی ہمت، جفا کشی اور بہادری کے  جوہر ….. گھوڑا ناقص ہونے  کی وجہ سے  وہ میدان جنگ تک پہنچ نہیں  سکتے  تھے۔ درحقیقت ناکارہ سازوسامان کا تو بہانہ تھا لوگ عیش و عشرت کاہلی اور لہو و لعب میں  اس قدر گرفتار تھے  کہ انہیں  جوہر مردانہ دکھانے  کا حوصلہ ہی نہ تھا ….. جب سارے  کا سارا معاشرہ ہی ایسا ہو تو دلی پر جو کچھ بھی ستم ڈھائے  جائیں  وہ کم ہیں۔

            سودا کی خوبی یہ ہے  کہ ان کے  کلام کے  مطالعہ سے  اس دور کے  معاشی اور معاشرتی حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے ….. چنانچہ تضحیک روزگار کے  علاوہ سودا کے  کہے  گئے  شہر آشوب اس کی عمدہ مثال ہیں …… اور یہ کہا جا سکتا ہے  کہ سودا ایک دردمند دل رکھتے  تھے  اور ایک حساس ذہن کا مالک جب کسی چیز کو اپنے  اندرون میں  محسوس کرتا ہے  تو بے  ساختہ اس کا اظہار بھی کر دیتا ہے۔ یہ اور بات ہے  کہ اظہار اس کی اپنی فکر، مشاہدے  اور تجربے  کے  دائرے  میں  ہی ہو گا۔ اور اظہار کا مخصوص اسلوب اس کا طرۂ امتیاز بن جائے  گا۔ سودا نے  قصیدوں  کو اپنے  دل کے  درد کے  اظہار کے  لئے  نہایت خوبی سے  استعمال کیا اور وہ اپنے  اظہار میں  کامیاب بھی رہے ………!!!

————————٭٭————————

 

دکن کا بانکا، سلیمان خطیب مرحوم

            دکن شاعری اور خصوصاً مزاحیہ دکنی شاعری کا جب بھی ذکر آئے  گا، سلیمان خطیب کا تذکرہ ضرور ہو گا۔ اور نہ صرف تذکرہ ہو گا بلکہ یہ بھی ضرور کہا جائے  گا کہ سلیمان خطیب کا لب و لہجہ تو خیر منفرد ہے  ہی، ان کا انداز بھی نرالا ہے۔ دکنی شاعری کو ہندوستان بھر میں  بلکہ دنیا بھر میں  آج کل صرف مزاح کی چیز سمجھ لیا گیا ہے۔ وہ لو گ جو اس زبان کے  لوچ سے  واقف نہیں ، اس کی نزاکتوں  سے  آگاہ نہیں جب دکنی سنتے  ہیں  تو فصیح اور غیر فصیح، متروک اور غیر متروک کے  چکر میں  پڑ کر شاعری کی روح تک پہنچنے  سے  قاصر رہتے  ہیں۔

            سلیمان خطیب کو کمال یہ ہے  کہ انہوں  نے  الفاظ اور محاورے  ایسے  استعمال کئے  جو بالکل مقامی رنگ لئے  ہوئے  ہوتے  تھے۔ لیکن موضوعات اتنے  گمبھیر ہوتے  تھے  کہ وہ لوگ جو دکنی مزاج نہیں  رکھتے  وہ بھی ان کی تخلیقات کی سحرآفرینی سے  بے  پناہ متاثر ہوتے  تھے۔ یہی وجہ ہے  کہ ہندوستان کے  شمال سے  لے  کر جنوب تک جہاں  جہاں  سلیمان خطیب کا کلام پہنچا لوگوں  نے  واہ بھی کی اور ان کی نشتریت سے  متاثر ہو کر آہ بھی کی۔ دکنی زبان میں  مٹھاس ہونے  کی سب سے  بڑی وجہ یہ ہے  کہ اس میں  تصنع نام کی کوئی چیز نہیں  جو دہلی اور لکھنؤ کی زبان کا طرۂ امتیاز ہے۔ دہلی اور لکھنؤ کی زبان میں  بلاشبہ شستگی ہے۔ لیکن یہ شستگی اختیار کردہ Adoptedہے۔ جب کہ دکنی سیدھے  سادے  لوگوں  کی سیدھی سادی زبان ہے۔ آج ہم جس زبان میں لکھتے  اور پڑھتے  ہیں  بلکہ یوں  کہنا چاہئے  کہ جس اردو دنیا بھر میں  لکھا اور پڑھا جاتا ہے  وہ صرف علمی زبان ہے۔ یا پھر دہلی اور لکھنؤ کے  صرف چند گھرانوں  میں  بولی جاتی ہے۔ چند گھرانے  اس لئے  کہنا پڑتا ہے  کہ وہاں  کے  عام لوگوں  کی زبان میں  کھری بولی اور پوربی کا اثر ہے۔ اسی طرح ہندوستان بھر میں  ہر علاقے  کی زبان یا بولی علیٰحدہ ہے۔ دکنی کا صحیح لطف اس کے  لہجے  میں  اور اس کی لٹک میں  ہے۔ وہ لوگ جو دکنی سے  اس کے  مزاج اور اس کی نزاکتوں  سے  واقف نہیں  ہوتے  ان کے  نامۂ اعمال میں  بڑی بڑی اور موٹی موٹی کتابیں  صرف اس لئے  درج ہو جاتی ہیں  کہ کسی اور نے  یہ کام نہیں  کیا۔ تدوین متن ایک بہت اہم اور عرق ریزی کا کام ہے۔ لیکن ’’دکنی کے  ماہرین‘‘ دوسروں  کی محنت کو خرید کر یا  ہڑپ  کر اور صرف مقدمے  کی بنیاد پر اپنے  سرمایہ تحقیق میں  اضافے  کرتے  چلے  جاتے  ہیں۔ ایسے  ’’ماہرین دکنیات‘‘ کی بجائے  دکنی مزاج رکھنے  والا محقق ہو تو کام کا معیار اور اس کی نوعیت دوسری ہوتی۔

            دکنی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے  کہ اس میں  لفظوں  کی آسان ترین ادائیگی کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی مشکل ہو تو دکن والے  اس تلفظ بدل کر آسان کر لیتے  ہیں  گویا لفظ دکنیا لیا جاتا ہے۔ دکنی کے  تلفظ میں  پھسل کر ادا ہوتے  ہیں۔ اور ایک نامحسوس طریقے  سے  ایک مصوتے  سے  دوسرے  مصوتے  تک ادائیگی منتقل ہوتی ہے۔ جیسے  ’’بولا‘‘ کے  لئے  دکنی میں  ’’بولیا‘‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر ’’بولیا ‘‘ کہا جائے  تو یہ دکنی کا قتل ہے۔ اکثر ’’ماہرین دکنی ‘‘ کے  ساتھ یہی مسئلہ ہے  کہ وہ لفظ صحیح دکنی تلفظ کے  ساتھ ادا نہیں  کر سکتے۔ یہ مسئلہ صرف ان محققین کے  ساتھ ہی نہیں  جو غیر دکنی ہیں  بلکہ ان کے  ساتھ بھی ہے  جو دکن میں  رہتے  ہیں  مگر دکن کا مزاج نہیں  رکھتے۔ اپنے  آپ کو ’’مہذب‘‘ ظاہر کرنے  کے  لئے  یہ لو گ اس مزاج سے  ہم آہنگ نہیں  ہو پاتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے  کہ ان میں  شستگی ہوتی ہے  اور نہ ہی دکن کا لہجہ پوری طرح دکھائی دیتا ہے۔ اور جب یہ لوگ دکنی الفاظ کا غلط تلفظ ادا کرتے  ہیں  تو شمالی ہند کے  عالم اور محققین جو حقیقت سے  آگاہ نہیں  ہوتے  ایسے  لوگوں  کے  علمی رعب سے  متاثر ہو کر اسی تلفظ کو درست مانتے  ہیں  اور نہ صرف درست مانتے  ہیں  بلکہ اگر کوئی شخص ان کے  سامنے  دکنی لفظ کہے  تو اس کی بزعم خود تصحیح بھی فرماتے  ہیں۔

            یہ کچھ باتیں  برسبیل تذکرہ اس لئے  لکھ دی گئیں  کہ دکنی کے  بارے  میں  غلط فہمیوں  کا ازالہ ہو سکے  سچ بات تو یہ ہے  کہ دکنی میں  مراٹھی کی لچک، تلگو کی چھنک اور کنٹری کی لٹک موجود ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ دکنی ہندوستان کی تمام زبان اور بولیوں  سے  مختلف ہے۔ سلیمان خطیب کا خمیر دکنی ہے ، ان کا مزاج دکنی ہے  ان کا لہجہ اور ان کا اسلوب دکنی کی نزاکتوں  سے  سجا ہوا ہے۔

            ڈاکٹر عابد علی خان مرحوم نے  خطیب کے  مجموعہ کلام ’’کیوڑے  کا بن‘‘ کے  پیش لفظ میں  لکھا تھا کہ

’’خطیب کی مقبولیت کی بڑی اور بنیادی وجہ دکھنی زبان کا استعمال اور اس میں  عوامی مسائل کا اظہار ہے۔ وہ عوام کے  مسائل کے  ترجمان شاعر ہیں اور روزمرہ زبان میں  عوام سے  مخاطبت عوام پر گہرا اثر چھوڑتی ہے ……….‘

            مندرجہ بالا اقتباس سے  یہ بات واضح ہو جاتی ہے  کہ سلیمان خطیب کا رشتہ راست عوام سے  تھا۔ ان کی شاعری عوام کے  لئے  تھی۔ میر نے  کہا تھا کہ….

گو مرے  شعر ہیں  خواص پسند

پر مجھے  گفتگو عوام سے  ہے

لیکن سلیمان خطیب عوام ہی کے  لئے  ہیں۔ انھیں  خواص سے  کوئی مطلب نہیں۔ یہ اور بات ہے  کہ خواص بھی اس عوامی شاعری کے  رس سے  اسی طرح لطف اندوز ہوتے  ہیں  جس طرح عوام…… سلیمان خطیب کی شاعری کا بنیادی وصف لوک گیتوں  کا انداز ہے۔ دیہات کی عورتیں  جس بولی میں  گفتگو کرتی ہیں ، اور دیہات کے  بھولے  بھالے ، سیدھے  سادے  کسان جس بولی میں  بات کرتے  ہیں  وہی بولی، وہی تلفظ اور وہی انداز سلیمان خطیب کا ہے۔ انھوں  نے  کھیت کی مینڈوں  کا دیکھا ہے۔ انھیں  الانگا ہے۔ کیچڑ میں  لت پت پیر لئے  گاؤں  کی سخت اور کنکریلی زمین پر انہوں  نے  اپنی زندگی کا سفر جاری رکھا۔ یہاں  تک کہ سلیما خطیب ہر اردو والے  کا عمومی طور پر اور دکن والوں  کا خصوصی طور پر محبوب شاعر بن گیا۔ سلیمان خطیب کی ہر نظم معرکۃ الآرا ہے۔ ان کی ہر تخلیق میں  یہ وصف ہے  کہ اس پر گھنٹوں  بحث کی جا سکتی ہے۔ ہر ملازم کے  لئے  پہلی تاریخ بڑی اہم ہوتی ہے۔ اس دن پچھلے  مہینے  کی ساری کمائی یکمشت ملتی ہے۔ اور اسی پر آنے  والے  مہینے  کا دارومدار ہوتا ہے۔ ایک کم معاش ملازم کے  لئے  تو اور بھی مشکل ہوتی ہے  کہ اس نے  مہینہ بھر قرض لے  لے  کر دن گزارے  تھے۔ اور ہر ایک سے  پہلی کا وعدہ کیا تھا۔ ایک ایسے  ہی ملازم کی خوشیاں  دیکھئے  جو اپنی بیوی سے  مخاطب ہو کر کہتا ہے

تجھے  معلوم ہے ،کی اِتا خوشی سے  آیوں

منجے  آتے  سوبی، نیں  آتے  سو گانے  گایوں

آدی بریانی بی ہوٹل میں  دبا کو کھایوں

دیکھ جیبق میں  ترے  واسطے  کیا کیا لایوں

آج تنخواہ ہے  مری، آج ہے  چاندی سونا

بول گلے  میں  ترے  واسطے  کیا کیا ہونا

            مگر بیوی کے  ذہن میں  سیٹھ کا خیال مسلط ہے۔ کہتی ہے

کی شرم نئیں  سو کتئیں، بات کو تنخواہ آریئے

آنے  کی دیر بی نئیں  سیٹھ کے  گھر یو جاریئے

            شوہر بار بار خوشی کا اظہار کرتا ہے۔ اور بیوی اس کو ہر بار سچائی کا آئینہ دکھاتی ہے  شوہر کو غصہ آ جاتا ہے۔

گھر کو آتیچ لگی آکو مصیفت ماروں

دیچ رونے  کی پلانے  کی ہے  عادت ماروں

تجے  کتابی کرو سب ہے  اکارت ماروں

اچھی لپٹی یہ مجے  کاں  کی نحوست ماروں

            بیوی سہم کر کہتی ہے ………

تمے  سونچو تو ذرا کیا میں  کما کو  لونگی

کیابھکاریاں  کے  سری کامیں  گھرے  گھر جونگی

            شوہر کا پارہ چڑھا ہوا ہے۔ بار بار اپنی مصیبتوں  کا ذکر کرتا ہے  اور بیوی جھگڑا کرتا ہے  ادھر بیوی بھی اپنی پریشانیوں  کا اظہار کرتی ہے۔ دونوں  کا درد ایک ہے۔ دونوں  جانتے  ہیں  کہ کم آمدنی سے  کیا مسائل پیدا ہوتے  ہیں۔ شوہر جب یہ جملے  کہتا ہے  تو کون ہے  جس کے  سینے  پر نشتر نہیں  چلتے ……

اری ناداں  میں  جو کچھ بی کما کو لاتوں

کتا مر کھپ کو میں  جیو جان کھپا کو لاتوں

ایک عزت کی یہ روٹی کے  لئے  کیا بولوں

کتے  جوتے  میں  کمینوں  کے  اٹھا کو لاتوں

            اور یہی سلیماخطیب کا کمال ہے  کہ وہ ایسی چٹکی لیتے  ہیں  کہ اس سے  ایک دائمی کسک پیدا ہو جاتی ہے۔ سلیمان خطیب کی شاعری پر ہر زاویہ سے  اظہار خیال کرنے  کے  لئے  تو پورا دفتر چاہئے۔ صرف اتنا ضرور عرض کرنا ہے  کہ سلیمان خطیب نے  نہ صرف دکنی شاعری کو ایک نئی روح دی بلکہ مزاح کو طنز کی طرف موڑ کر وہی کام انجام دیا جو ایک عمدہ قسم کا سرجن یا جراح کرتا ہے۔ انہوں  نے  ماحول میں  بکھرے  ہوئے  تمام زہر کو بوند بوند میں  بند کیا لیکن اس زہر پر مزاح کی شکر لپیٹ دی۔ آہستہ آہستہ شکر گھل جاتی ہے  اور زہر کی تلخی روح کے  اندر ایک کرب پیدا کر دیتی ہے۔ سلیمان خطیب کے  ہاں  مزاح میں  پھکڑپن نہیں۔ ایک نرم آہنگ ہے  جو دلوں  میں  انبساط بھر دیتا ہے۔ اور پھر طنز کی تلخیاں  اس انبساط کو درد میں  بدل دیتی ہیں۔ سلیمان خطیب کی شاعری کا یہ وصف انہیں  ہمیشہ زندہ رکھے  گا۔ جب تک دکنی کی مخصوص لچک اور لٹک باقی رہے  گی۔ سلیمان خطیب کی شاعری رنگ و نور بکھیرتی رہے  گی………..

————————-٭٭————————-

 

تنقید کا منصب

            تنقید کے  بارے  میں  ارسطو سے  لے  کر آج تک دنیا کے  مختلف مفکرین نے  مختلف النوع خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اور اردو تنقید کا المیہ یہ ہے  کہ یا تو اسے  قابل اعتنا ہی نہیں  سمجھا گیا اور معشوق کی موہوم کمر یا  اقلیدس کا نقطۂ خیالی جیسے  خطاب سے  سرفراز کر کے  اپنی انا کی تسکین کے  سامان فراہم کئے  گئے  یا مغربی نظریات تنقید کو اردو تنقید کے  سرپر لاد دیا گیا۔ مختلف تنقیدی افکار پر سرسری جائزہ ڈالنے  سے  یہ بات سامنے  آتی ہے  کہ بہرحال تنقید کسی فن پارے  کے  احتسابی جائزہ کا نام ہے۔ اب کسی نے  فن کو تاریخی سماجی اور معاشرتی تناظر میں  دیکھنے  پر روز دیا تو کسی نقاد نے  نفسیاتی تحلیل کے  طریقۂ کار کو اہمیت دی۔ کسی نے  جمالیاتی نقطۂ نظر کو اہم قرار دیا تو کسی نے  وجودی فلسفہ کو اپنے  تنقیدی افکار کا محور بنایا۔

            ادب احساس، مشاہدہ اور فکر کو اظہار کا پیکر عطا کرنے  کا نام ہے  اور اظہار کا سلیقہ عطیۂ خداوندی ہے۔ اظہار کے  تفہیم اور فن کے  اندر چھپی ہوئی بصیرت کی تلاش وہ اہم کام ہے  جو تنقید انجام دیتی ہے۔ اس طرح نقاد قاری اور فن کار کے  درمیان ایک رابطہ کا کام بھی کرتا ہے  اور آنے  والے  ادب کے  لئے  راہیں  متعین کرنے  کا اہم فریضہ بھی انجام دیتا ہے  لیکن حیرت ناک بات یہ ہے  کہ یوروپی مفکرین کے  عطا کردہ نسخہ ہائے  کیمیاء یعنی تنقیدی نظریات نے  کسی عظیم ادب پارے  کی تخلیق میں  کوئی معاونت نہیں  کی…. اور ایسا ادب وجود میں  نہیں  آ سکا جس کے  ذریعہ اعلیٰ انسانی اور اخلاقی اقدار کو فروغ مل سکے۔ اس طرح تنقید صرف نکتہ چینی اور تنقیص کا ذریعہ بنی اور تنقید کے  اس اہم پہلو کو نظرانداز کر دیا گیا کہ نقاد کو تعمیری رخ اختیار کرتے  ہوئے  ادب کے  لئے  ایسی راہیں  متعین کرنی چاہئیں  جن سے  انسانی سماج، سماجی اور معاشرتی اعتبار سے  بہتری کی طرف قدم بڑھا سکے۔ بظاہر اس وقت معرض وجود میں  آتی ہے  جب فن کا ظہور ہو چکا ہوتا ہے  لیکن حقیقت یہ ہے  کہ تنقید مستقبل کی تخلیق کے  لئے  مشعل راہ ثابت ہوتی ہے۔ تنقید ادب کی را ہوں  کو متعین کرتی ہے  اور ایک اعلیٰ ادب کو تخلیق کرنے  میں  فن کار کی ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔ فنکار تنقید ہی سے  روشنی حاصل کر کے  اپنے  فن کو سنوار تا اور نکھارتا ہے  اور اس طرح یہ توقع پیدا ہوتی ہے  کہ ایک مہتم بالشان ادب وجود میں  آئے  گا….. دراصل ہر فن کار میں  ایک تنقیدی شعور کا ہونا لازمی امر ہے۔ اگر کوئی فنکار تنقیدی شعور سے  عاری ہو تو پھر اس کا فن بھی کج مج بیانی اور خامیوں  سے  بھرپور ہو گا۔ لیکن اگر فن کا ر خود ایک تنقیدی ذہن کا حامل ہو تو تخلیق سرزد ہونے  سے  قبل یا تخلیق کے  دوران غیر محسوس طریقہ پر تخلیق کی خوبیوں  اور خامیوں  کا محاسبہ وہ خود ہی کر لے  گا۔ اب اگر فن کا ر اعلیٰ انسانی اقدار کو اہمیت دینے  کی صلاحیت رکھتا ہے  تو پھر اس کا فن بھی ان ہی اوصاف سے  متصف ہو گا۔ اس طرح ادب اور زندگی کا رشتہ مضبوط تر ہوتا جائیگا۔ کیونکہ ادب، ماضی، حال اور مستقبل کے  درمیان ایک ایسی کڑی ہے  جو انسانی فکر کو صحیح راہ پر گامزن ہونے  میں  مدد دیتی ہے۔

            دنیائے  تنقید مختلف نظریات کو اپنا کر آگے  بڑھنے  کی کوشش کرتی رہی ہے  لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ نظریات کے  رد  و اختیار کے  طولانی عمل نے  ادب کی را ہوں  کلو گنجلک بنا دیا ہے۔ اور بار بار یہ احساس ہوتا ہے  کہ ہر وقت ایک قسم کا نظریاتی خلا موجود ہے۔ ایسے  ہی لمحوں  کے  دوران وسیع کائنات کے  تناظر میں  انسان جب اپنے  آپ کا جائزہ لینے  کی کوشش کرتا ہے  تو وہ محسوس کرتا ہے  کہ اس کی روح پیاسی ہے۔ وہ یہ جاننا چاہتا ہے  کہ تصورات کی شکست و ریخت کے  درمیان اس کا اپنا مقصد وجود کیا ہے۔ اب اگر یہ فکر صحیح راستہ اختیار کر لے  تو عرفان کی منزل تک جا پہنچتی ہے  اور گمراہی کا شکار ہو جائے  تو لایعنیت کے  بھیانک غار میں  گر کر  غاعون کہلاتی ہے۔ حالی نے  جب ادب کو اخلاق کا نائب منائب بتایا تو اس کا مفہوم یہ سمجھا گیا کہ ادب کو ثانوی حیثیت دے  دی گئی ہے۔ لیکن حالی کا مقصد یہ تھا کہ ادب کو انسانیت کی فلاح و بہبود کے  لئے  ہونا چاہئے  اور ایسی تحریر جو جذبات میں  ہیجان برپا کرے  اور راہ روی کو فروغ دے۔ وہ ادب نہیں  کہلائی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے  کہ زمانہ جاہلیت میں  دھوم مچا دینے  والے  قصیدوں  کو جنھیں  سبعہ معلقہ کے  نام سے  یاد کیا جا تا ہے۔ اسلام کی روشنی نے  ماند کر دیا اور اپنے  وقت کے  یہ عظیم قصائد پس منظر میں  چلے  گئے۔ اس لئے  کہ اسلام نے  جذبات کی تہذیب کا سبق دیا۔ ہمدردی، خلوص اور اخلاقی اقدار کو اہمیت دی ……. اور بے  راہ روی اور ہیجان انگیزی کو یکسرمسترد کر دیا۔

            اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے  کہ صحیح راستہ کیا ہے  …….؟ اصل میں  ادب ہنگامی ضرورتوں کے  تحت پیدا نہیں  ہوتا۔ دوسرے  لفظوں  میں  ہنگامی ضرورتوں  کے  تحت تخلیق کیا جانے  والا فن ادب کے  معیارات پر پورا نہیں  اترتا۔ کیونکہ ہنگامی ضرورتیں  اور وقتی مصلحتیں  کسی نہ کسی عمومی مقصد کے  تحت ہوتی ہیں۔ اعلیٰ ادب تو وہی ہے  جس میں  بنیادی انسانی اقدار موجود ہوں۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے  جب ادیب اپنا رشتہ فکری اور روحانی طور پر اخوت، محبت اور خلوص سے  استوار کرے۔ کیونکہ یہی وہ اقدار ہیں  جو راہ نجات کی طرف رہنمائی کرتے  ہیں  اور اس طرح تنقید کا منصب یہ بھی ہو جاتا ہے  کہ ادیب کے  لئے  وہ کھرے  اور کھوٹے  کی پہچان کے  سلسلے  میں  کسوٹی پیش کرے۔ قاری کی کمزوری ہے  کہ وہ صرف تخلیق کے  سہارے  آگے  بڑھتا ہے  اور اسی سے  تاثر قبول کرتا ہے۔ جبکہ نقاد تخلیق کا ر کی انفرادیت تک پہنچ کر اس کے  محسوسات کی نشاندہی کرتا ہے  اور ان عوامل کی وضاحت کرتا ہے  جہاں  قاری کا ناپختہ ذہن نہیں  پہنچ سکتا۔ یوں  نقاد پر ایک بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے  کہ وہ حق اور باطل میں  تفریق کے  مسئلے  کو قاری کے  لئے  آسان کر دے۔ قاری ہر خوبصورت نظر آنے  والی شئے  کے  پیچھے  بھاگنے  کی جبلت کا شکار ہوتا ہے۔ نقاد کا فرض یہ ہے  کہ وہ خوبصورت نظر آنے  والی شئے  کی اصلیت کو قاری پر واضح کر دے۔ اس وضاحت کی ضرورت اس لئے  پیش آتی ہے  کہ فنی اظہار میں  لفظوں  کی پیکر تراشی سے  ایسی سحر کارانہ کیفیت پیدا کی جا سکتی ہے  جو ذہن کو مسحور کر لے  اور پھر فن کارانہ اظہار میں  جو تباہ کن مقصد چھپا ہوا ہے  اس چشم سے  پوشی کر لی جائے  اور وہ تباہ کن مقصد غیر محسوس طریقہ پر قارئین کی ایک جماعت کو متاثر کرے۔ مثال کے  طور پر ناگن خوبصورت دکھائی دیتی ہے۔ لیکن یہ ممکن نہیں  ہے  کہ ہم خوبصورتی کی ستائش کرتے  ہوئے  ناگن کو آستین میں  رکھ لیں۔ ظاہر ہے  کہ خوبصورت نظر آنے  والی ناگن کا ایک عیب یہ بھی ہے  کہ وہ ڈس لیا کرتی ہے۔ نقاد کا کام یہ ہے  کہ خوبصورتی میں  پوشیدہ زہر کو عیاں  کرے  تاکہ کمزور ذہن متاثر نہ ہونے  پائے۔ بظاہر چمکدار نظر آنے  والے  ہیجان انگیز اظہار اور دنیا  میں  پھیلنے  والی بے  راہ روی کے  مضر اثرات سے  بچانے  کے  لئے  یہ ضروری ہو جاتا ہے  کہ نقاد بے  باکی اور جرأت سے  کام لیں  اور ادب کو ایسی راہ پر گامزن کرنے  کے  لئے  آگے  بڑھیں  جو فلاح کی راہ ہے۔

****

 

تلگو شاعری میں  نئے  رجحانات

            ہر زندہ زبان کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے  کہ وہ اپنے  عہد سے  ہم آہنگ ہوتی ہے۔ اس میں  یہ صلاحیت ہوتی ہے  کہ اپنے   عصر کی ادبی، سیاسی اور سماجی ضرورتوں  کی تکمیل کر سکے ، اور ترسیل و ابلاغ میں  اہم کردار ادا کر سکے۔ ہر زبان کی اپنی کچھ روایات بھی ہوتی ہیں  اور جیسے  جیسے  زمانہ گزرتا جاتا ہے  ان روایتوں  کی جڑیں  نہ صرف مضبوط ہوتی ہیں  بلکہ نئی روایتیں  بھی جنم لیتی ہیں ، اور ایسی روایتیں  جو اپنے  عصر کے  ساتھ ہم آہنگ نہ ہو سکیں ،آہستہ آہستہ دم توڑ دیتی ہیں۔ یہی صورت حال موضوعات کے  ساتھ بھی ہے۔ جیسے  جیسے  زمانہ سفرکرتا ہے  نت نئے  موضوعات فن کار کا دامن تھام کر اپنی طرف متوجہ کرتے  ہیں۔ اور جب فن کار ان پر اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے  تو ایسے  ادب پارے  جنم لیتے  ہیں  جن میں  عصری روح ہوتی ہے۔

            ہر عہد میں  دنیا کے  مختلف حصوں  میں  فکر کے  جوالا مکھی پھٹتے  رہے  ہیں۔ اور ان کا اثر دور دور تک پھیلتا رہا ہے۔ فکری اعتبار سے  جب کوئی نیا رجحان پیدا ہوتا ہے  تو ہر زندہ زبان اس کا اثر قبول کرتی ہے۔ اور خصوصاً آج کے  دور میں  کیونکہ آج ترسیل بہت زیادہ تیزی سے  ممکن ہو گئی ہے ، نئے  رجحانات کا سفر تیز ہو گیا ہے  اور ترجمے  نے  تو رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے  آج دنیا کے  کسی حصے  میں  کوئی نئی بات ہوتا وہ منٹوں  میں  کرہ ارض کو محیط کر لیتی ہے  اوعر اس کا اثر لازمی طور پر تخلیقی سوتوں  پر بھی پڑتا ہے۔ مختلف زبانوں  کے  ادب کا مطالعہ کرتے  ہوئے  ایک بہت اہم اور دلچسپ پہلو سامنے  آتا ہے  …. دو مختلف مقامات پر رہنے  والے  ادیب جن میں  آپس میں کوئی ربط نہیں  ہوتا، کبھی کبھی بالکل یکساں  طور پر سوچتے  ہیں۔ ان ادیبوں  کی زبانیں  الگ ہو سکتی ہیں ، ان کا تہذیبی سرمایہ مختلف ہو سکتا ہے  لیکن کبھی کبھی ان کے  خیالات حیرت ناک حد تک یکسانیت رکھتے  ہیں۔ اس کو زیریں  لہر یا Under currentکے  نام سے  تعبیر کیا جاتا ہے۔ جو کچھ بھی ہو ……ایک بات یقینی ہے  کہ حساس انسان چاہے  وہ کرۂ ارض کے  کسی حصے  میں  ہوں  ان کا درد مشترک ہو گا …..اور جب یہ زیریں  لہر حساس ذہنوں  کو متحرک کرتی ہے  تو فکر کے  سوتے  پھوٹ پڑتے  ہیں  …… زندہ زبان کی یہ بھی خصوصیت ہے  کہ وہ فکری سطح پر ارتعاش پیدا کرتی ہے  اور اگر ان تمام پیمانوں  پر دیکھا جائے  تو تلگو زبان بھی بلاشبہ ایک زندہ زبان ہے  کیونکہ اس میں  ساری خصوصیات موجود ہیں  جن کا ابھی ذکر کیا گیا ……!

            تلگو زبان کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ بنیادی طور پر یہ دراویڈی زبان ہے  لیکن اس پر سنسکرت کا غلبہ زیادہ رہا۔ اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ  تلگو زبان میں  اخذ و اکتساب کی بے  پناہ صلاحیت موجود ہے  اور اسی لئے  یہ نئے  افکارسے  اپنے  آپ کوبڑی تیزی سے  ہم آہنگ کر سکتی ہے۔ علم زبان کے  ماہرین نے  تلگو کو مشرق کی اِٹالین قرار دیا ہے  کیونکہ اس میں  لفظ کا اختتام Vowelپر ہوتا ہے۔ اور شاید اسی وجہ سے  اس میں  شیرینی اور موسیقیت کا عنصر غالب ہے۔ تلگو کے  قدیم شعری سرمایہ پر نظر ڈالی جائے  تو ایک مثلیت نظر آتا ہے  جسے  کوی ترائم کہا جاتا ہے  یہ مثلث Tikkanna, Nannaya اور Erranna پر مشتمل تھا۔ ان تینوں  نے  مل کر تلگو زبان میں  سنسکرت کا عظیم رزمیہ مہابھارتم تحریر کیا۔ اس مہابھارتم کے  ڈھائی ابواب گیارھویں  صدی میں  Nannayyaنے  تحریر کئے، پندرہ ابواب تیرھویں  صدی میں  Tikkannaنے  لکھے  اور آدھا باب جو پچھلے  شعرا نے  چھوڑ دیا تھا چودھویں  صدی میں  Erranna نے  لکھا۔ سب سے  اہم بات تو یہ ہے  کہ ابتدائی عہد کے  اس کارنامے  کا ّج بھی کوئی جواب نہیں  ہے۔ Nannayaہی نے  تلگو کی سب سے  پہلی قواعد بھی لکھی تھی۔

            تلگو کے  لئے  کرشن دیو رائے  کا زمانہ ایک سنہری دور ہے۔ اظہار کے  مختلف پیرایوں  اور اسالیب کو اس دور میں  بڑی اہمیت حاصل رہی یہ پر بندھ کویتوم کا دور ہے  جس میں  ایک لفظ اور اس کے  اجزاء سے  نکلنے  والے  مختلف مفاہیم کے  امکانات کو روشن کیا گیا۔ اور اس دور کے  شعرا ء نے  ایسے  ایسے  کارنامے  تخلیق کئے  جن پر دنیا آج بھی عش عش کرتی ہے۔ پربندھ کویتوم کا باوا آدم سری ناتھ کو مانا جاتا ہے۔ پربندھ کویتوم کے  ساتھ ایک اور رجحان بھی اپنی جڑیں  مضبوط کرتا رہا تھا۔ یہ تھا Veera Shaiva Kavitwam ……. ویراسیواکویتوم میں  عوامی لفظیات اور دھنوں  کے  ذریعے  عقیدت مندانہ شاعری کو پیش کیا گیا۔ اس رجحان کے  اہم شاعر Palakori, Nannachora Pandita Raksha, Krishnanatha, ہیں۔

            کویترائم نے  جو شاعری کی اس کا غالب عنصر کلاسیکیت ہے  اور ویراشیوا شاعری میں  عوامی انداز تھا…… جبکہ Bammera Potannaنے  جو Andhra Mahabhagwathamتحریر کیا تھا، اس میں  یہ دونوں  عنصر موجود تھے۔ پوتنا کے  اس کارنامے  کو devotionalیا عقیدت مندانہ شاعری کی عمدہ مثال کہا جا سکتا ہے۔ عصر جدید تک پہنچتے  پہنچتے  اس زبان نے  کئی مراحل طے  کئے۔ اور اس زبان میں  جو شاعری ہوتی رہی اسے  عوامی شاعری کہنا زیادہ مناسب ہو گتا کیونکہ ویراشیوا کویتوم کا اثر بہت دور تک رہا۔

            دنیا کے  مختلف حصوں  میں  پیش کئے  جانے  والے  افکار، تحریکات اور رجحانات سے  بھی تلگو متاثر ہوتی رہی۔ اور خصوصاً انیسویں  صدی اور بیسویں  صدی میں  نئے  رجحانات نے  تلگو پر اپنا اثر جما لیا۔ تلگو نثر میں  انقلاب برپا کرنے  والی شخصیت تھی Kandakuri Veereshalingam…..جنہوں  نے  اصلاح پسندانہ رجحان کو فروغ دیا، بیواؤں  کی شادی کی تائید کی اورذات پات کے  خلاف جدوجہد شروع کی ……تلگو ادب کو ناول سے  روشناس کرنا بھی ان کا کارنامہ ہے۔ اسی زمانے  میں  Gurujada Appa Raoنے  اصلاحی شاعری Reformist Poetryپیش کی۔ اس شاعری کو ہاتھوں  ہاتھ کیا گیا کیونکہ گیت کی مقبولِ عام ہیئت کی وجہ سے  اس کی پہنچ عوام اور خواص دونوں  میں  تھی۔ اس کے  علاوہ چار مصرعوں  پر مشتمل Mutyala Sarralu اپنے  اختصار کی وجہ سے  اور ساتھ ہی ساتھ فکر انگیز اور سبق آموز ہونے  کی وجہ سے  بہت مقبول ہوئے۔ Gurujada Appa Raoنے  کلاسیکل چھند  سے  ماترا چھند کی طرف رجوع کیا اور تلگو شاعری کو آسان اور قابل فہم بنا دیا۔ جبکہ اس سے  قبل صرف مخصوص کلاسیکی ہیئت ہی استعمال کی جا سکتی تھی۔ اصلاح پسندانہ رجحان یا Reformist Poetryکے  ساتھ ساتھ رومانیت پسندی بھی ایک اہم رجحان کی حیثیت سے  تلگو پر اثر انداز ہوئی۔ مغرب میں  ورڈزورتھ، بائرن اور شیلی نے  جس طرز کو فروغ دیا تھا اس سے  تلگو رومانیت قدرے  مختلف ہے  ….. یہ رومانیت ٹیگور سے  ملتی جلتی ہے  جسے  تلگو میں  Raiprolu Subba Raoنے  پیش کیا۔ اور شاعری میں  انسانی موڈ یا جذبات کو اہمیت دی ….بھاوکویتوم نے  تلگو شاعری کو رومانیت سے  آشکار کیا اور چھایا واد کی طرح تلگو میں  بھی ایک ایسی رومانیت کو فروغ ملا جس کے  ڈانڈے  انسانی جذبات واحساسات کے  لطیف اظہار سے  جام لتے  ہیں ……. رد عمل، تصادم، مسرت وغم، جذباتی ہیجان اور سکون کی تلاش کو اہمیت دی گئی ……اور اس طرح Veyoga Shrungaramکے  لئے  راستہ صاف ہو گیا جہاں  محبت ہی سب کچھ تھی …….یہ وہ زمانہ ہے  جب شمالی ہند میں  جدوجہد آزادی اپنے  شباب پر تھی چنانچہ تلگو میں  بھی ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے  اثرات نظر آنے  لگے  اور سرفروشانہ جذبات کو ابھارنے  کے  لئے  شیوا جی  چرترا اور اسی طرح کی تاریخی نظمیں  لکھی گئیں۔

            اس کے  ساتھ ہی Vishwanatha Satyanarayanaنے  تلگو نو کلاسیکیت کو فروغ دینے  کی کوشش کی۔ انہوں  نے  پیکر تراشی کو اہمیت دی اور لفظ کے  ذریعے  شعری اظہار کو طاقتور بنانے  کی راہ کو اختیار کیا۔ Devalapalli Krishana Shastry نے  عوامی گیت بھی لکھے  اور اپنی شاعری میں  کلاسیکیت کے  ساتھ ساتھ فکر انگیزی کو بھی پیش کیا۔ اور جب فلمی گیتوں  نے  مقبولیت حاصل کی تو انہوں  نے  فلمی سچویشن کے  پروردہ رومان میں  مسائل کی آمیزش سے  فکری سطح پر ذہنوں  کو مہمیز کیا۔ بیسویں  صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں  ہندوستانی شعر و ادب ترقی پسندی سے  با ضابطہ طور پر روشناس ہوئے۔ تلگو میں  سری سری نے  اپنی انقلابی شاعری کے  ذریعے  امنگ اور جہدمسلسل کا پیغام دیا۔ سری سری کے  گیتوں  میں  خواب بھی تھے  اور ان خوابوں  کی تعبیر حاصل کرنے  کے  لئے  جدوجہد کی طرف توجہ بھی دلائی گئی تھی۔ رومانیت سے  انقلاب کی طرف سری سری کا یہ شعری سفر ایک بسیط مطالعے  کا طالب ہے۔ سری سری کی انقلابی شاعری اصل میں  بنگالی کے  مشہور شاعر ’’نذرل اسلام‘‘ (نذرالاسلام) سے  متاثر تھی۔ اور یوں  سری سری کے  ہاں  ادبی قدروں  سے  زیادہ موضوعاتی قدروں  کو اہمیت حاصل ہوئی اور جب رائٹرس فورم کمیونسٹ پارٹی کا حصہ بنا تو موضوعات ہی سب کچھ قرار پائے  اور شعری اظہار بے  معنی ہو کر رہ گیا۔

            ہندوستان کی آزادی کے  آس پاس ایک اور نام اہمیت کا حامل ہے، یہ ہے  بال گنگا دھر تلک۔ ہندوستان کے  قومی رہنما بال گنگا دھر تلک کا ہم نام یہ شاعر تلگو میں  تحریک آزادی کے  گیت گنگنا رہا تھا جو وقت کی ضرورت تھے۔ ترقی پسند تحریک کے  زیر اثر جن شعرا نے  سماج کو بدل ڈالنے  کی جدوجہد کو اپنی شاعری سے  مضبوط ومستحکم کرنا چاہا، ان میں  داسرتھی اور Kaloji Narayana Raoبھی اہم ہیں۔ کالو جی نارائن راؤ نے  تلنگانہ میں  اپنی مہم کو جاری رکھا اور داسرتھی آندھرا علاقے  میں  سرگرم رہے۔ داسرتھی کا ایک اہم کارنامہ تلگو میں  رباعی کو پیش کرنا بھی ہے۔ تلگو شاعری میں  ایک اور رجحان اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ہے  انسانیت پسندی یا Humanist Poetryکا رجحان …… یہ انسانیت پسندی یوروپ کے  Humanismسے  مختلف ہے  ….. اس فکر و فلسفہ کے  علمبرداروں  میں  C.Narayan Reddy  مادلار نگاراؤ اور ششدر شرما کے  نام کافی اہم ہیں۔ C. Narayan Reddy نے  ادبی اقدار کی پاسداری بھی کی اور عوامی مزاج کو مد نظر رکھتے  ہوئے  اپنا شعری رویہ متعین کیا۔ انہوں  نے  تلگو زبان کو اردو کی ایک اہم صنف شاعری یعنی غزل سے  روشناس کرایا۔

            انسانیت پسند شاعری کے  شانہ بہ شانہ باغیانہ انقلابی شاعری کا رجحان بھی پرورش پاتا رہا۔ جس میں  جارحیت اور تشدد کا عنصر غالب تھا اور مسائل کو حل کرنے  کے  لئے  ہتھیار ا۔ ٹھانے  کی ترغیب بھی تھی۔ اس کے  لئے  عوامی دھنوں  اور Folkگیتوں  کے  اسلوب کو اپنایا گیا۔ چنانچہ اس سلسلے  کا اہم شاعر غدر Gadarہے۔ شیوا ساگر نے  نظم معریٰ اور آزاد نظم کی ہیئت اختیار کی اور متوسط طبقہ کو متاثر کیا۔ Vangapanduاور Vangapathi Prasada Rao نے  عام فہم عوامی زبان اور عوامی دھنوں  کا ستعمال کر کے  ذہنوں  کو متحرک کیا۔ ساتویں  دہائی کے  آخر میں  ایک اور رجحان نے  زور پکڑا تھا۔ لیکن چند ہی برسوں  میں  یہ رجحان شکست و ریخت کا شکار ہو گیا …… یہ وہ گروہ تھا جو فلسفۂ وجودیت یا  Existentialismسے  متاثر تھا اور پھر اس سے  بھی آگے  بڑھ کر Gay Societyکی طرف مراجعت کرنا چاہتا تھا۔ یہ اپنے  اکتائے  ہوئے  ذہنی رویہ کی وجہ سے  شعری اظہار کو عریانیت کے  بغیر نامکمل تصور کرتا تھا اور فحش لفظیات کو بے  محابہ استعمال کرتا تھا۔ یہ شاعری ڈگمبر شاعری کہلائی۔ اس شعری رجحان کے  زیراثر لکھنے  والوں  نے  تمام پرانی قدروں  کو توڑنا بلکہ انہیں  پامال کرنا اپنا نصب العین بنا رکھا تھا۔ تلگو کے  ایک اہم نقاد جی وی سبرامنیم نے  انہیں  Telugu Angry Menجوالا مکھی اور نکھلیشور کے  نام اہم ہیں ……. یہ دور ۶۶ سے  ۶۹ ء تک کا ہے۔ ۶۶ ء سے  کچھ پہلے  بالکل ایسی ہی صورت حال اردو میں  بھی پیدا ہوئی تھی اور فرد کی تنہائی کے  احساس سے  آگے  بڑھ کر شدید مایوسی نے  فحش علامتوں  کو شعری پیراہن عطا کیا تھا… ..لیکن آہستہ آہستہ اردو میں  یہ رجحان اپنی موت آپ مرگیا۔ اور پھر تلگو میں  بھی ڈگمبرکویتوم بھی از کار رفتہ قسم کی چیز ہو گئی کیونکہ اسے  عوامی مقبولیت کا درجہ حاصل نہ ہو سکا۔

            تلگو کا ایک اور رجحان بہت اہم ہے  یہ ہے  ناوبستگی کا رجحان، جہاں  یہ سوچا جانے  لگا تھا کہ شاعری کیا ہے  …….؟ کیا یہ صرف نعرہ بازی ہے  یا فن سے  اس کا کوئی تعلق ہے  ……. چنانچہ شعریت کو اہمیت دی جانے  لگی اور سیاست سے  صرف نظر کیا گیا۔ ششدر شرما نے  ۷۰ ء کے  بعد جو شاعری کی اس میں  ناوابستگی کا عنصر خاصا قوی ہے۔ اس رجحان کے  تحت کی جانے  والی شاعری نے  ادبی خوشبو سے  مشام جاں  کو معطر کرنے  کا ایک اہم فریضہ انجام دیا جو اس عہد میں  خال خال تھا۔ کسی پارٹی، کسی تحریک یا کسی خاص فکر سے  ناوابستگی کا اظہار اس رجحان کا ایک لازمی عنصر تھا۔ اس کے  باوجود یہاں  بھی ہتھیاروں  پر یقین اور تشدد کا عنصر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ آج کا دور Anubhuiti Kavitwamکا دور ہے۔ آج شاعری نئے  نئے  تجربات سے  اپنے  آپ کو ہم آہنگ کر رہی ہے  ……. اپنی جڑوں  کی تلاش اور ایک بین الاقوامی معاشرے  میں  فرد کی شناخت کو اہمیت دی جانے  لگی ہے۔ قدیم علامتوں  کو نئے  تجربات کی روشنی میں  نئے  مفاہیم دئے  جانے  لگے  ہیں۔ اظہار میں  ادبی قدروں  کو پھر سے  اہمیت حاصل ہونے  لگی ہے … اور یہ ادبی قدریں  جدید طرز فکر سے  ہم آہنگ بھی ہیں اور اپنا ایک علیٰحدہ وجود بھی رکھتی ہیں۔ مغرب سے  مستعار فکر کو مقامی رنگ دے  کر اسے  اس طرح اپنایا جا رہا ہے  کہ ہندوستانی خوشبو ختم نہ ہو اور ذات کے  تجربات بھی باقی رہیں۔ ایک وسیع تر معاشرے  میں  ایک بین الاقوامی سماج میں  تلگو تہذیب کے  عنصر کو برقرار رکھنا آج کی تلگو شاعری کا ایک اہم رجحان ہے …….!

            رجحانات اور افکار کے  اس سیلِ بے  پایاں  کی شناوری کرتے  ہوئے  یہ احساس پیدا ہوتا ہے  کہ آج ہرچیز کو عالمی تناظر میں  دیکھنے  کی کوشش تلگو ہی میں  نہیں  بلکہ ہر ہندوستانی زبان میں  یکساں  طور پر پرورش پا رہیک ہے۔ آج موضوع بھی اہم ہے  اور پیش کش بھی ……. لفظ اور اس کا استعمال ادب میں  دوبارہ اہمیت حاصل کر رہا ہے۔ اور آج زندگی سمجھاجا رہا ہے ، صرف آلۂ کار نہیں ………!!!

————————-٭٭————————

 

اردو افسانہ اور یوسف ساجد

            یہ سن ۱۹۸۲ء کی بات کے ، جب میں  نے  سنٹرل یونیورسٹی آف حیدر آباد کے  شعبہ اردو میں  ایم اے  کے  بعد ایم فل میں  داخلہ لیا تھا….. کچھ عجیب سا لگا تھا کہ نوجوان لڑکے  لڑکیوں  کے  درمیان ایک ڈھلتی عمر کا شخص درس گاہ میں  زانوئے  ادب طے  کر رہا ہے۔ لیکن جب میں  نے  اپنے  ساتھیوں  کا جائزہ لیا تو ایک میں  ہی نہیں ، وہاں  اور بھی کچھ لوگ ایسے  تھے  جن کے  درمیان مجھے  عمر کے  تفاوت کا احساس نہ رہتا……. ایسے  ہی ساتھیوں  میں  یوسف ساجد بھی شامل تھے۔ ہمیشہ چہرے  پر مسکراہٹ لئے ، موٹے  شیشوں  کی عینک چڑھائے  یہ موصوف مجھے  اچھے  لگے۔ ان کی سب سے  اہم خوبی یہ تھی کہ وہ کسی کی برائی نہیں  کرتے  تھے۔ بس اپنے  کام سے  کام…….یونیورسٹی آئے  …..کلاس اٹنڈ کی ….پھر استاذی مجاور حسین رضوی کے  ’’تکئے  ‘‘ پر چلے  آئے  …..وہیں  ہماری پھر جمتی تھی۔ خوب ہاہا ہو ہو مچتی…… یوسف ساجد کسی کونے  میں  پیٹھے  مسکرایا کرتے  تھے۔ کبھی کبھی قہقہوں  سے  چھت اڑنے  لگتی تو وہ بھی ان قہقہوں  میں  حسب مقدور اپنا حصہ لگاتے  …… ایم فل میں  یوسف ساجد نے  شفیق الرحمن پر مقالہ تحریر کیا تھا۔ اور پھر عثمانیہ یونیورسٹی سے  انھوں  نے  اسی موضوع کو لے  کر پی ایچ ڈی بھی کیا۔ مقالہ تحریر کئے  جانے  کے  دوران ان سے  اکثر ملاقاتیں  ہوا کرتی تھیں۔ جب بھی جگتیال سے  حیدر آباد تشریف لاتے  اپنے  ساتھ کتابوں  اور رسالوں  کا انبار لئے  غریب خانے  پر ضرور طلوع ہوتے  تھے۔ شفیق الرحمن کو یوں  تومیں  نے  بہت پڑھا تھا اور وہ میرے  پسندیدہ مزاح نگار تھے۔ لیکن سچ بات یہ ہے  کہ شفیق الرحمن کو تفصیل سے  ناقدانہ انداز سے  پڑھنے  کا موقع مجھے  صرف یوسف ساجد کی وجہ سے  مل پایا۔

            مقالے  کی تکمیل کے  بعد ان سے  صرف عید اور نئے  سال کے  موقع پر تار یا تہنیت نامہ کے  ذریعہ ملاقات ہوتی رہی…..پھر اخبارات سے  پتہ چلا کہ ان کے  افسانوں  کا مجموعہ شائع ہونے  جا رہا ہے  …..خوشی ہوئی …..ویسے  توقع تو یہ تھی کہ یوسف ساجد کے  ایم فل یا پی ایچ ڈی کے  مقالے  کی طباعت عمل میں  آئے  گی……. پھر اچانک ایک محفل میں  ان سے  ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ ’’ساتواں  پھیرا‘‘ ہو چکا ہے …… یعنی چھپ چکا ہے …..اور اس کی رسم اجراء میں  مجھے  بھی شریک ہونا ہے ….مزید خوشی ہوئی کہ انھوں  نے  اب تک مجھے  یاد رکھا۔ افسانہ چاہے  روایتی ہو یا علامتی انداز میں  تحریر کیا گیا ہو ….. اس کی سب سے  اہم خصوصیت اسکا ایجاز و اختصار ہے۔ افسانہ طوالت کا متحمل نہیں  ہو سکتا…… اس کے  علاوہ افسانے  میں  وجد تاثر کا ہونا بے  حد ضروری ہے  اگر وحدت تاثر نہ ہو تو کہانی پن ختم ہو جائے  گا۔ افسانے  میں  ایک اور چیز ہے …. اور وہ ہے  قاری کی توجہ کو اپنی طرف مرکوز کرنے  کا فن۔ مرکزی اور ثانوی کردار، منظر نگاری واقعات کے  بہاؤ اور گٹھے  ہوئے  پلاٹ کی مدد سے  ایک کامیاب افسانہ نگاری قاری کی توجہ کو بٹنے  نہیں  دیتا۔ اچھے  افسانے  کی پہچان یہ بھی ہے  کہ اگر اسے  شروع کیا جائے  تو ختم ہونے  تک توجہ ادھر ادھر ہٹنے  نہ پائے۔

            عالمی ادب میں  افسانہ انیسویں  صدی میں  داخل ہوا۔ اور اسی صدی کی آخری دہائیوں  میں  اردو میں  افسانے  کی چاپ محسوس کی جانے  لگی۔ لیکن صحیح معنوں  میں  مختصراردوافسانے  کا بانی سجاد حیدر یلدرم کو کہا جا سکتا ہے۔ یلدرم کے  یہاں  زندگی کے  رومانی پہلوؤں  کو اہمیت دی گئی تھی۔ نیاز فتحپوری نے  تخیل کے  شاداب مرغزاروں  میں  اپنے  قلم کی جولانیاں  دکھائیں۔ مجنوں  گورکھپوری نے  انگریزی مختصر افسانے  کے  زیر اثر قنوطیت اور فلسفہ کی آمیزش سے  سماجی بندھنوں  اور محبت کے  ٹکراؤ کو موضوع بنایا…..سلطان حیدر جوش، راشد الخیری، سدرشن، حامد اللہ افسر وغیرہ نے  اردو افسانے  میں  رومانیت کے  ساتھ ساتھ مسائل کی طرف توجہ کی اور مقصد کو اپنی تحریروں  میں  داخل کر کے  افسانے  کو ایک نیا رخ دیا۔ پریم چند نے  اردو افسانے  کو وقار عطا کیا۔ رومانی اور تخیلی فضا پر مبنی افسانے  لکھتے  ہوئے  جب پریم چند نے  حقیقت نگاری کی طرف قدم بڑھائے  اور سماج کے  ناسوروں  پر نشتر لگانے  کا اہم کام انجام دیا تو اردو افسانہ اپنے  عروج کی طرف گامزن ہوا۔ اور پھر ترقی پسند تحریک نے  اسے  اتنی ترقی دی کہ اردو افسانے  کو ترقی پسند تحریک کی دین مان لیا گیا…… کرشن چندر، عصمت، بیدی، منٹو، سجادظہیر اور دوسروں  نے  افسانے  کو چار چاند لگا دیئے۔ سن ساٹھ کے  بعد افسانے  نے  ایک نئی کروٹ لی اور علامت کے  توسط سے  تجریدی دور میں  داخل ہوا۔ یہ تجربات ایک طرف ہاتھوں  ہاتھ لئے  گئے  تو دوسری طرف افسانے  کے  روایتی اسلوب کو برقرار رکھنے  کی شعوری کوشش کی جانے  لگی….. یوسف ساجد اسی شعور ی کوشش کے  غیر شعوری مقلد کہے  جا سکتے  ہیں۔

            یوسف ساجد نے  ہائی اسکول ہی سے  افسانہ لکھنے  کی کوششیں  شروع کر دی تھی۔ ان کا پہلا افسانہ ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘‘ ۵۶ء میں  ایک اسکول میگزین میں  شائع ہوا تھا۔ یہ افسانہ ان کے  مجموعے  کا بھی پہلا افسانہ ہے۔ اور اگر یہ افسانہ جوں  کا توں  رکھا گیا ہے  تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں  کہ نو عمری میں  ہی یوسف ساجد کی تخلیقی صلاحیتوں  نے  رنگ دکھانا شروع کر دیا تھا۔ اس افسانے  کا پلاٹ ایک ایسے  شخص کے  گرد گھومتا ہے  جس کی لڑکی بیمار ہے  لیکن اس کے  پاس چونکہ ڈاکٹر کو دینے  کے  لئے  فیس کے  پیسے  نہیں  ہیں  اس لئے  اسے  دھتکار دیا جاتا ہے۔ پھر وہ اپنی بچی کو بچانے  کے  لئے  چوری کر بیٹھتا ہے  لیکن جب ڈاکٹر آتا ہے  تو لڑکی مر چکی ہوتی ہے۔ اس شخص نے  لڑکی کو بچانے  کے  لئے  اپنی شرافت کو تیاگ دیا تھا …..پھر بھی وہ اس کی جان نہیں  بچا سکا اور اس طرح افسانے  کے  عنوان کو Justificationمل جاتا ہے۔ اس افسانے  میں  کچھ جھول بھی ہیں  جیسے  کہانی کا مرکزی کردار ڈاکٹر کے  یہاں  سے  نکل کر چوری کرنے  کے  لئے  ایک عالیشان عمارت کے  کمپاؤنڈ میں  داخل ہو جاتا ہے  ……اور تھوڑی دیر بعد جب باہر نکلتا ہے  تو اس کے  ہاتھوں  میں  نوٹوں  کی گڈی ہوتی ہے  …..گویا اس مکان میں  اس شخص کے  لئے  نوٹوں  کی گڈی اس طرح تیار رکھ دی گئی تھی کہ وہ آئے  اور اس گڈی کو اٹھا لے  جائے۔ ریکارڈ کے  حساب سے  یوسف ساجد نے  ۱۹۵۹ء میں  میٹرک کیا تھا۔ اس اعتبارسے  جب انھوں  نے  یہ افسانہ لکھا ہو گا تو وہ ساتویں  یا آٹھویں  میں  پڑھ رہے  ہوں گے۔ اس لئے  اس طرح کا جھول کوئی ایسی بات نہیں  کہ ان سے  بازپرس کی جا سکے  بلکہ اس بات کا اعتراف ضروری ہو جاتا ہے  کہ اس نو عمری کے  باوجود ان کی اس تخلیق میں  موجودہ سماج سے  بغاوت کی وہ لہریں  نظر آتی ہیں  جو ترقی پسند افسانے  کی ایک اہم اور نمایاں  خصوصیت تھی۔

            اس کہانی کے  مرکزی کردار کے  اندرون میں  جو کشمکش ہے  اس کو یوسف ساجد نے  مکالموں  کی شکل دے  دی ہے۔ کردار کے  کانوں  میں  ڈاکٹر کے  الفاظ گونجتے  ہیں  ’’چوری کرو ڈاکہ ڈالو……‘‘ اور اس کا ضمیر کہتا ہے  ’’نہیں  نہیں یہ پاپ ہے ‘‘ پھر اس کے  اندر سے  ایک دوسری آواز سوال کرتی ہے  ’’یہ پاپ ہے ؟قوم کے  بڑے  بڑے  سرمایہ دار جو غریبوں  کا خون چوستے  ہیں  کیا وہ سب پاپی کہلائیں  گے ….. ؟ نہیں ……وہ پاپی نہیں  کہلاتے ، انہیں  تو لوگ خدا سمجھتے  ہیں …..انہیں  اوتار کا درجہ دیتے  ہیں  سماج میں  ان کی بڑی عزت ہے  ……اونچا مقام ہے ….. پھر تم کیوں  پاپی کہلاؤ گے۔ ؟‘‘

            ان مکالموں  میں  سرمایہ داری کے  خلاف جو گھن گرج ہے  وہ کم عمر یوسف ساجد کے  قلم سے  یقیناً اچھی لگی ہو گی اور اسی وقت یوسف ساجد کو سننے  اور پڑھنے  والوں  نے  محسوس کر لیا ہو گا کہ ایک ہونہار افسانہ نگار کے  پاؤں  پالنے  میں  سے  نظر آنے  لگے  ہیں۔ یوسف ساجد کے  پہلے  مجموعہ ’’ساتواں  پھیرا‘‘ میں  ۱۹ کہانیاں  ہیں …. ۳۸ برس کے  ادبی سفر میں  ۱۹ کہانیوں  کا مطلب یہ ہے  کہ اوسطاً دوبرس میں  یوسف ساجد نے  ایک کہانی لکھی ہے …… اس طرح تھم تھم کے  لکھنے  کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے  کہ غم روزگار نے  انہیں  اپنے  ترکش سے  تیر نکالنے  کا موقع نہ دیا ہو ……یا پھر یہ کہ وہ غالب کے  اس مصرعے  کے  قائل ہوں  کہ۔

رکتی ہے  مری طبع تو ہوتی ہے  رواں  اور

            ایسی صورت میں  نالوں  کے  چڑھ جانے  کی توقع ضرور کی جا سکتی تھی۔ یوسف ساجد کے  فن کے  بارے  میں  ڈاکٹر یوسف سرمست لکھتے  ہیں  کہ ’’ان کی کہانی کے  موضوعات عام زندگی ہے  تجربات ہیں ‘‘اور یہ بات بڑی حد تک درست ہے  ……. جہاں  محض تخیل کار فرما ہے  ان مقامات سے  درگزر کیا جائے  تو یوسف ساجد کے  افسانوں  میں  سرمایہ داری کے  خلاف جدوجہد، محبت، نفرت، پیار، قربانی اور ایثار کے  جذبات کے  ساتھ فسادات، رویت ہلال جیسے  موضوعات موجود ہیں۔ ان سب میں  اہم کہانی ’’ساتواں  پھیرا‘‘ ہے  جس میں  ایک انوکھی کیفیت انگریزی کے  مشہور استاد اور شاعر پروفیسر شیو کے  کمار کی ایک نظم میں  موجود بھی ہے ….. اس بات سے  قطع نظر کہ یوسف ساجد کے  افسانے  کا اختتام کیسے  ہوتا ہے۔ ہر پھیرے  کے  دوران کئے  جانے  والے  عہد کے  ساتھ ساتھ ماضی کے  اوراق الٹنے  سے  افسانے  میں  ایک ندرت پیدا ہو گئی ہے۔ دولہن کی نفسیاتی کیفیت اور اس کا رد عمل ایک جھٹکا یا شاک ساپیدا کرتے  ہیں …… اسی طرح کا ایک اور افسانہ ’’نیا تماشہ‘‘ ہے …. جس میں  لڑکی اپنی ماں  سے  بغاوت کرنے  پر اتر آتی ہے  …… اس لڑکی کی منگنی پہلے  ایک کم تعلیم یافتہ نوجوان کے  ساتھ کی گئی تھی……لیکن جب زیادہ تعلیم یافتہ یعنی گریجویٹ نوجوان کا رشتہ آیا تو سابق منگنی کو توڑ کر نئی منگنی کی تیاریاں  ہونے  لگیں تھیں  ایسی صورت حال میں  لڑکی مقابلہ کی ٹھان لیتی ہے  اور کھل کر انکار کر دیتی ہے۔ اس طرح یوسف ساجد نے  آزادی نسواں  یا پھر یوں  کہئے  کہ خواتین کے  ساتھ بھیڑ، بکریوں  کی طرح سلوک کرنے  کے  خلاف آواز اٹھائی ہے۔

            اس مجموعہ میں  ایک اور اچھا افسانہ ’’ہوتا ہے  شب و روز تماشہ مرے  آگے ‘‘ کے  عنوان سے  ملتا ہے  ……جس میں  فسادات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار فسادات کی خبریں  پڑھ پڑھ کر انسانیت کا ماتم کر رہا ہے۔ دریں  اثنا ریڈیو سے  خون کے  عطیہ کی اپیل نشر کی جاتی ہے ….. اور یہ کردار جب خون کا عطیہ دینے  کے  لئے  ہسپتال کی طرف جانے  لگتا ہے  تو راستے  ہی میں  فسادیوں  کا نشانہ بن جاتا ہے۔ یوسف ساجد نے  افسانہ اس لئے  نہیں  لکھا کہ اردو کے  بڑے  افسانہ نگاروں  کی صف میں  شامل ہونا تھا ……انھوں  نے  افسانہ اس لئے  لکھا کہ انھیں  اپنے  احساسات کو اپنے  تجربات کو اظہار کا روپ دینے  کے  لئے  افسانے  سے  بہتر وسیلہ نہ مل سکا۔ یوسف ساجد کی افسانہ نگاری کی خصوصیت یہ ہے  کہ انھوں  نے  مقصدیت کو سامنے  رکھتے  ہوئے  زندگی کی تلخ حقیقتوں  کو موضوع بنایا ہے ……. ان کے  پلاٹ کہیں  گٹھے  ہوئے  ہیں  اور کہیں  بکھرے  بکھرے  …..لیکن اس سے  کوئی فرق نہیں  پڑتا۔ دیکھنا یہ چاہئے  کہ افسانہ نگار کیا کہنا چاہتا ہے  ….. اور اس کے  پیش نظر جو مقصد ہے  اس میں  کتنی آفاقیت ہے …… اس اعتبار سے  اگر یہ کہا جائے  کہ یوسف ساجد ایک کامیاب افسانہ نگار ہیں  تو بے  جا نہ ہو گا۔

————————-٭٭————————-

 

اردو ترجمہ…… اصول ومسائل

            قوموں  کی تہذیبی تاریخ میں  ترجمے  کو اہم مقام حاصل ہے۔ کیونکہ ترجمہ دونوں  زبانوں  کے  درمیان رابطہ کا ایک ذریعہ ہے۔ باہمی میل جول اور آپسی لین دین کے  ذریعے  ہی انسان نے  ترقی کی منزلیں  طے  کی ہیں۔ خصوصاً علمی ترقی کے  لئے  یہ بھی ضروری ہے  کہ دیگر زبانوں  میں  موجود علوم و فنون سے  آگہی حاصل کی جائے  جس کے  لئے  دوسری زبانوں  سے  کماحقہ‘ واقفیت ضروری ہے۔ لیکن ہر ایک کے  لئے  یہ ممکن نہیں  کہ وہ اپنی مادری زبان کے  علاوہ دوسری زبان سے  بھی واقف ہو۔ ایسے  ہی موقعہ سے  ترجمہ مدد دیتا ہے  اور دوسری زبانوں  سے  ناواقف قاری کو اسی زبان میں  موجود علوم و فنون سے  آشنا کرتا ہے۔ ترجمہ زندہ قوم کا عمل ہے۔ تصنیف اور تخلیقی کاموں  کے  ساتھ ساتھ یہ ضروری ہے  کہ دوسری اقوام کی کوششوں  کو بھی مد نظر رکھا جائے  تاکہ وہ غلطیاں  سرزد نہ ہوں  جو دوسروں  سے  ہو چکی ہیں  اور ان تمام باتوں  کی کھوج میں  وقت ضائع نہ کیا جائے  جنہیں  بہت پہلے  ہی معلوم کیا جا چکا ہے  یا ان کا حل پہلے  ہی تلاش کیا جا چکا ہے۔ ترجمے  کے  ذریعے  ساری دنیا میں  ہونے  والی تحقیق سے  آگہی ممکن ہے ……اور اس طرح نئی را ہوں  کی تلاش کا عمل آگے  بڑھ سکتا ہے  اور یوں  ترجمہ انسانی تہذیب کے  لئے  ایک جست کا کام کرتا ہے ……! عربوں  نے  اس نکتے  کو بہت پہلے  جان لیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ عباسی خلفا نے  با ضابطہ طور پر ایک ایسا محکمہ قائم کر دیا تھا جہاں  دنیا کی اہم زبانوں  سے  علوم و فنون عربی میں  منتقل کئے  جاتے  تھے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ عربی کا دامن دنیا کے  تمام علوم و فنون سے  مالا مال ہو گیا……..!

            اردو کے  ابتدائی تراجم کو دیکھنے  سے  یہ بات واضح ہوتی ہے  کہ یہاں  ترجموں  کی روایت کا آغاز مذہبی تراجم سے  ہوا…….اسکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عوام عربی اورفارسی سے  ناواقف تھے ، اور اس دور میں  یعنی سترہویں  صدی تک مذہبی نوعیت کی تحریریں  فارسی یا عربی میں  تھیں  جبکہ عوام الناس کی زبان ہندوی یا قدیم اردو تھی۔ چنانچہ اس دور کے  عالموں  اور بالخصوص صوفیائے  کرام نے  یہ محسوس کیا کہ ترجمہ ایک اہم ضرورت ہے  تاکہ عوام کو مذہب کے  اہم نکات سے  واقف کرایا جائے۔ اور اسی لئے  انہوں  نے  ترجموں  کا سلسلہ شروع کیا۔ ترجمے  کے  لئے  کوئی بندھے  ٹکے  اصول نہیں  ہیں  بالکل اسی طرح جس طرح تخلیقی عمل کے  لئے  کوئی ضابطہ نہیں  بنایا جا سکتا …….کیونکہ تخلیقی عمل کی طرح ترجمے  کا تعلق انسانی ذہن اور اس کے  اندر پوشیدہ صلاحیتوں  سے  ہے۔ جس میں  جتنی زیادہ صلاحیت ہو گی اتنا ہی بہتر ترجمہ ہو گا۔ ترجمے  کا اصل مقصد یہ ہے  کہ جس متن کا ترجمہ کیا جا رہا ہے  اس کے  صحیح مفہوم تک قاری کی رسائی ہو سکے۔ اور اگر یہی چیز موجود نہ ہو تو ایسا ترجمہ کار لاحاصل کے  سوا کچھ نہیں۔

            ترجمہ کرنے  والوں  کے  لئے  چند صلاحیتوں  کا حامل ہونا بے  حد ضروری ہوتا ہے  …… سب سے  پہلی بات تو یہ ہے  کہ جس زبان سے  ترجمہ کیا جا رہا ہے  ان دونوں  زبانوں  پر مترجم کو یکساں  قدرت ہونی چاہئے  تاکہ اصل مفہوم کو اس طرح منتقل کرے  کہ زبان کے  مزاج کے  خلاف بھی نہ ہو اور آسانی سے  سمجھ میں  آ سکے۔ مترجم کے  لئے  یہ بھی ضروری ہے  کہ وہ اس موضوع سے  واقف ہو جس کا ترجمہ مقصود ہے۔ موضوع سے  واقف ہونے  کی صورت میں  مترجم اس موضوع سے  متعلق روزمرہ استعمال کئے  جانے  والے  الفاظ سے  واقف ہو گا، اور ترجمہ زیادہ بہتر ہو سکے  گا۔ اگر مترادف الفاظ موجود نہ ہوں  مترجم کو اصطلاح سازی کرنی پڑتی ہے  ……یہاں  بھی مترجم کو یہ خیال رکھنا ضروری ہے  کہ نئی اصطلاح اتنی ثقیل نہ ہو کہ عوام کے  لئے  آسانی سے  قابل قبول نہ ہو ….. کبھی کبھی اصل لفظ ہی اس طرح زبان زد خاص و عام ہو جاتا ہے  کہ نئی اصطلاح مقبول نہیں  ہو پاتی …… ٹیلی فون، ٹی وی جیسے  الفاظ اب زبان کا ایک حصہ بن چکے  ہیں،ان کے  لئے  آلۂ گفتگو اور عکس بین جیسی اصطلاحیں  تراشی جا سکتی ہیں  لیکن انگریزی الفاظ اتنے  عام ہو گئے  ہیں  کہ اب ان کے  لئے  نئی اصطلاحیں  تراشنا بے  سود معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اگر نئی اصطلاحوں  کا بار بار استعمال کیا جائے  تو عوام بھی ان سے  مانوس ہوں  گے  اور اس بات کا امکان ہے  کہ ایسی اصطلاحیں  ہماری زبان میں  داخل ہو جائیں۔

            دوسری زبانوں  سے  ترجمہ کرتے  ہوئے  اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے  کہ اصل مفہوم کے  ساتھ لطف بیان بھی باقی رہے  اور ایسا اسلوب اختیار کیا جائے  جو اجنبی نہ محسوس ہو…………

            ترجمے  کی تین قسمیں  ہیں۔ لفظی ترجمہ، با محاورہ ترجمہ اور آزاد ترجمہ……. لفظی ترجمے  میں  ہر لفظ کا ترجمہ اس طرح کیا جاتا ہے  کہ وہ ترجمہ شدہ زبان میں  اجنبی نہ محسوس ہو اور مفہوم میں  پیچیدگی بھی نہ پیدا ہونے  پائے۔ با محاورہ ترجمہ میں  اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے  کہ اپنی زبان میں  موجود مناسب اور مترادف محاروں  کے  ذریعے  اصل متن کے  مفہوم کو واضح کیا جائے  اور زبان کے  روز مرہ کا خیال رکھتے  ہوئے  ایسے  محاورے  استعمال کئے  جائیں  جن سے  لطف پیدا ہو جائے۔ آزاد ترجمے  میں  صرف مفہوم سے  غرض ہوتی ہے۔ یہاں  مرکزی خیال کو پیش نظر رکھتے  ہوئے  اپنی زبان کے  مزاج کے  مطابق موضوع کو ڈھال لیا جاتا ہے  ایسے  ترجموں  میں  کبھی کبھی اشخاص، مقامات اور رسوم و رواج کو بھی اس طرح بدل دیا جاتا ہے  کہ اجنبیت کا احساس مٹ جائے۔

            سچ بات یہ ہے  کہ ترجمے  کی مندرجہ بالا تین اقسام میں  خطِ فاصل کھینچنا ممکن نہیں  ہے۔ لفظی ترجمے  اگرچہ دیانت داری کا تقاضہ ہے  لیکن صحیح مترادف لفظ ملنا بسا اوقات مشکل ہو جاتا ہے  پھر بھی اگر مترجم زبان پر قدرت رکھتا ہو تو اس کے  لئے  یہ کو مشکل بات نہیں۔ اس کے  باوجود اکثر و بیشتر لفظی ترجمہ کرنے  کی بجائے  وہ اس پر مجبور ہو جاتا ہے  کہ ایسا مترادف تلاش کرے  جو مفہوم کو بہتر انداز میں  پیش کر سکتا ہو ……اگر ill fitted dressکا ترجمہ کرتے  ہوئے  illکے  لئے  بیمار کا لفظ استعمال ہو تو ایسا ترجمہ مضحکہ خیز ہو جائے  گا جب کہ اس کا بہتر ترجمہ بھدا لباس ہو سکتا ہے۔ یہاں  لفظی ترجمہ کرنے  کی بجائے  ایسامترادف لفظ رکھا گیا ہے  جو ill fittedمیں  پوشیدہ مفہوم کو واضح کرتا ہے۔

            با محاورہ ترجمہ کرنے  کے  لئے  مترجم کو اور زیادہ محتاط رہنے  کی ضرورت ہے  ورنہ سر سید کی طرح اگر عامیانہ قسم کے  محاورے  استعمال کئے  جائیں  اور محل وقوع کا خیال نہ رکھا جائے  یا شخصیت سے  متعلق آداب کو ملحوظ نہ رکھا جائے  تو کئی مسائل پیدا ہو سکتے  ہیں۔ سر سید کی نیک نیتی پر شبہ نہیں  کیا جا سکتا انہیں  لفظوں  کے  انتخاب نے  رسوا کر دیا۔

            انگریزی کا یہ جملہ دیکھئے۔

                            All were blowing hot but his smile turned the table.

            اس کا مناسب ترجمہ یہ ہو سکتا ہے  کہ ’’تمام لوگ سخت برہم تھے  مگر اس کی مسکراہٹ نے  نقشہ بدل دیا…….‘‘ اگر انگریزی جملے  کا لفظی ترجمہ کیا جاتا تو مضحکہ خیز ہو جاتا …..خصوصاً Turned the table  کا محاورہ …….لیکن ’’نقشہ بدل دیا‘‘ میں  وہی کیفیت ہے  جو انگریزی محاورے  میں  ہے۔

            آزاد ترجمہ اس اعتبار سے  منفرد ہوتا ہے  کہ اس میں  مترجم کو زبان و بیان کے  معاملے  میں  پوری آزادی ہوتی ہے۔ اصل متن کے  مرکزی خیال یا بنیادی نکتہ کو سامنے  رکھتے  ہوئے  مترجم اپنے  الفاظ میں  مفہوم کو پیش کرتا ہے۔ ایسا ترجمہ آسان بھی ہے  اور وقت بھی بہت کم لگتا ہے۔ اسی لئے  اخبار، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے  لئے  خبروں  کے  ترجمہ کی ضرورت پیش آتی ہے  تو لفظی ترجمہ یا با محاورہ ترجمہ کرنے  کی بجائے  آزاد ترجمہ کیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہاں  قاری یا سامع کو اصل متن کے  اسلوب اور اظہار کے  پیرایہ سے  دلچسپی نہیں  ہوتی۔ وہ تو صرف اصل بات جاننے  کا خواہش مند ہوتا ہے۔ آزاد ترجمہ میں  با محاورہ زبان بھی استعمال کی جا سکتی ہے  لیکن صرف اس حد تک کہ صحیح ترسیل ممکن ہو سکے۔ ترجمے  سے  نئی اصطلاحیں  فروغ پاسکتی ہیں  اور زبان کی وسعت میں  اضافہ ہوتا ہے  جیسے  Nationalizeکے  لئے  ’’قومیانا‘‘ کی اصطلاح اب اردو زبان کا حصہ بن چکی ہے۔ انگریزی کی خوبی یہ ہے  کہ اس میں  فعل Verbسے  بھی اسم بنا لیا جاتا ہے  اسی طرح اسم سے  بھی فعل بنانا ممکن ہے  جیسے  Beautyسے  Beautifyاردو میں  بھی اس طرح کی کوششیں  ہوئیں  کچھ کامیاب ہوئیں  اور کچھ ناکام، لیکن بہرحال یہ سلسلہ جاری ہے  اور اسے  جاری رہنا چاہئے۔

            آزاد ترجمے  کے  ضمن میں  ایک بات یہ بھی اہم ہے  کہ جہاں  مترجم یہ آزادی ہے  کہ وہ زبان میں  تصرف سے  کام لے  وہیں  یہ پابندی بھی ضروری ہے  کہ ترجمہ زبان کے  مزاج کے  خلاف ہو……..اور تاثر بھی برقرار رہے۔

            منشی تیرتھ رام فیروزپوری نے  Oh Dearکا ترجمہ ’’آہ پیارے ‘‘ اور ’’آہ پیاری‘‘ کیا تھا لیکن یہ ترجمہ طبع نازک پر کس قدر گراں  گزرتا ہے  اسے  اہل ذوق اچھی طرح سمجھ سکتے  ہیں …….!

            ترجمے  کے  عمل کے  دوران خصوصاً جہاں  محاوروں  کا ترجمہ کیا جائے  تو مترجم کو بہت زیادہ چوکنا رہنا ضروری ہے۔ کیونکہ محاوروں  ایک اپنا تہذیبی وسماجی پس منظر ہوتا ہے۔ یہ ضروری نہیں  کہ ہر محاورہ کا متبادل مل جائے۔ ایسے  موقعوں  پر یا تو قریبی مفہوم کے  محاورے  سے  کام چلایا جائے  گا یا مفہوم کو اس طرح بیان کیا جائیگا کہ اصل محاورہ کی لطافت موجود رہے۔ کبھی یہ ہوتا ہے  کہ ایک اصطلاح کے  لئے  دو یا دو سے  زیادہ متبادل اصطلاحات بن جاتی ہیں۔ جیسے  ابتداء میں  Acidکے  لئے  ترشہ اور تیزاب دونوں  استعمال ہوئے۔ بعد میں  تیزاب مقبول ہوتا گیا اور آہستہ آہستہ ترشہ فراموش کر دیا گیا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے  کہ اصطلاح کو درجۂ قبولیت عطا کرنے  والے  عوام ہیں۔ چنانچہ X Rayکا ترجمہ لا شعاعیں  کیا گیا لیکن مقبول نہ ہو سکا اور X Ray ہی چل نکلا اور اب X Rayزبان کا حصہ بن چکا ہے۔ کبھی یہ بھی ہوتا ہے  کہ لفظ کو اپنی زبان کے  مزاج کے  مطابق تبدیل کر لیا جاتا ہے  جیسے  اسٹیشن، گلاس، ماچس وغیرہ۔ بعض لفظوں  کے  لئے  جہاں  دو الفاظ ہیں  وہاں  یہ بھی ہوتا ہے  کہ ان کا محل استعمال بھی دیکھنا ہو گا۔ School of thoughtکے  لئے  مکتبۂ خیال یا مکتب فکر کہا جائے  گا، مدرسۂ فکر یا مدرسۂ خیال کہنا درست نہ ہو گا۔

            ثقیل ترجمے  سے  گریز ہی بہتر ہوتا ہے۔ لاؤڈ اسپیکر کے  لئے  آلہ مکبّرالصوت کی اصطلاح تراشی گئی تو عوام نے  اسے  رد کر دیا اور لاؤڈ اسپیکر ہی استعمال کیا جانے  لگا۔ اصل میں  ایک آدھ زبان پر اکتفاء کرنے  کی بجائے  مترجم کو چاہئے  کہ وہ ان تمام زبانوں  کے  ذخیرۂ الفاظ پر نظر رکھیں  جن سے  ترجمہ ہونے  والی زبان کا قریبی تعلق ہو اور ایسے  لفظ کو چنا جائے  جس کی ادائیگی آسان ہو اور مفہوم بھی پوری طرح ادا ہو سکے۔ چنانچہ انگریزی ترجمہ کرتے  ہوئے  جہاں  لاطینی Latinالفاظ کے  لئے  متبادل لفظ کی ضرورت محسوس ہوئی وہاں  جرمن یا فرانسیسی الفاظ سے  بھی استفادہ کیا گیا اور کبھی لاطینی لفظ کو ہی انگریزی کے  مزاج کے  مطابق ڈھال لیا گیا۔ یہی صورت حال اردو پر بھی صادق آتی ہے۔ طرز تحریر یا اسلوب کا ترجمہ کرنا ایک بہت ہی مشکل امر ہے۔ لیکن یہ مترجم کی صلاحیت پر موقوف ہے۔ اگر مترجم دونوں  زبانوں  سے  پوری طرح واقف ہو اور اظہار پر بھی قدرت رکھنے  کے  علاوہ مختلف اسالیب بیان سے  آگہی رکھتا ہو تو اس کے  لئے  مناسب اسلوب اختیار کرنا مشکل نہ ہو گا۔

            آج کے  اس دور میں  جب کہ زمانہ بہت آگے  بڑھ چکا ہے  انسان کی ضرورتوں  میں  اضافہ ہو گیا ہے  اور علوم و فنون کے  میدان میں  تشنگی کے  احساس نے  انسان کو یہ سوچنے  ہر مجبور کر دیا ہے  کہ دوسری زبانوں  سے  استفادہ کرے  اور بلا تاخیر نئی معلومات سے  بہرہ ور ہو۔ اب تو سائنس اور ٹکنالوجی اس حد تک ترقی کر چکی ہے  کہ کمپیوٹر کے  ذریعے  ترجمے  کئے  جا رہے  ہیں  اور بیک وقت کئی زبانوں  میں  ترجمہ ممکن ہے  لیکن اس کے  ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہے  کہ مشینی ترجمہ بہرحال مشینی ہوتا ہے۔ کیونکہ لفظ کی جگہ لفظ تو رکھ سکتی ہے  اس میں  وہ احساس اور جذبہ نہیں  پیدا کر سکتی جو اصل میں  پوشیدہ ہوتا ہے۔ اسی لئے  مشینی ترجمے  کا دور آ جانے  کے  باوجود انسانی ذہن کی اہمیت بہرحال اپنی جگہ قائم ہے  اور مترجم آج بھی اتنا ہی اہم ہے  جتنا پہلے  تھا۔ اور کوئی بھی قوم چاہے  کتنی ہی ترقی یافتہ کیوں  نہ ہو، مترجم کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے۔ تاکہ دوسری اقوام سے  مسابقت میں  پیچھے  نہ رہ جائے  کیونکہ ترجمہ بہرحال ایک زندہ قوم کا عمل ہے  اور اردو ایک زندہ قوم کی زندہ زبان ہے۔

***

 

اردو زبان کا تمدنی پس منظر

            زبان کسی قوم کی شناخت ہے  اور اس قوم کی تمدنی اور تہذیبی تاریخ کو سمجھنے  کے  لئے  ایک اہم وسیلہ بھی ……اردو اس اعتبار سے  منفرد زبان ہے  اس کا دائرہ کسی خاص گروہ تک محدود نہیں  بلکہ یہ زبان ہندوستان کی سرزمین پر پنپنے  والی ایک عظیم مشترکہ تہذیب کی میراث ہے۔ وہ عظیم مشترکہ تہذیب جو پنجاب کے  لہلہاتے  کھیتوں  میں ، گنگ و جمن کے  شاداب میدانوں  میں  اور گجرات و دکن کے  زرخیز علاقوں  میں  پروان چڑھتی رہی، جس نے  عظیم ہندوستان کے  طول و عرض میں  محبت، رواداری اور یگانگت کے  جذبے  کو بیدار کیا…….

            اس محبت اور یگانگت کے  جذبے  نے  جہاں  ایک دوسرے  کے  رسوم و رواج اپنانے  کی طرف متوجہ کیا، وہیں  لسانی بنیادوں  ہر بھی لین دین ہوا اور ایک ایسی زبان وجود میں  آئی جو وقت کی ضرورت تھی اور ہندوستان کے  طول و عرض میں  استعمال کئے  جانے  کی صلاحیت رکھتی تھی۔ لہجے  ضرور مختلف رہے ، انداز بھی مختلف رہا، علاقائی اثرات کی وجہ سے  ایک مقام کی بولی اور دوسرے  مقام کی بولی میں  نمایاں  فرق نظر آیا…….لیکن زبان کی تشکیل و فروغ میں  نہ علاقہ حائل ہوا اور نہ قواعد کے  سخت گیر اصول ……اردو اپنے  طور پر بڑھی، اپنے  طور پر اس نے  دوسری زبانوں  سے  اثرات قبول کئے  اور آہستہ آہستہ اس قابل ہوئی کہ اس میں  ادبی کارنامے  ظہور پذیر ہو سکیں۔

            ماہرین لسانیات نے  جب اردو کے  آغاز کے  نظریوں  پر غور کرنا شروع کیا تو ان کے  لئے  ہندوستان کے  مخصوص تمدنی اور تہذیبی پس منظر کا مطالعہ بھی ضروری بن گیا۔ آغاز کے  مختلف نظریوں  کو پیش کرنے  والے  کچھ لوگ ایسے  بھی تھے  جو با ضابطہ طور پر لسانیات کے  طالب علم نہیں  رہے۔ میر امّن اور محمد حسین آزاد کو ماہرین لسانیات میں  شمار نہیں  کیا جا سکتا۔ لیکن اس میں  کوئی شک نہیں  کہ باہمی میل جول کو دونوں  نے  اہمیت دی اور اردو زبان کے  آغاز کے  سلسلے  میں  ان کا پیش کیا ہوا نظریہ کہ یہ زبان برج بھاشا سے  نکلی ہے  اور اسکے  آس پاس کے  علاقوں  میں  پروان چڑھی ….بہت دنوں  تک جوں  کا توں  مانا گیا۔

            نصیرالدین ہاشمی نے  اردو کے  تمدنی پس منظر پر غور کیا تو انہیں  ملا بار کے  ساحلوں  پر عربوں  اور ہندوستانیوں  کا باہمی میل جول بہت اہم نظر آیا۔ چنانچہ انہوں  نے  دکن کو اس زبان کا مولد قرار دیا۔ سلیمان ندویؔ نے  سندھ کو بنیاد مانا اور اردو کے  آغاز کو محمد بن قاسم کے  سندھ پر حملے  سے  جوڑ کر ملی جلی تہذیب کے  نقطۂ اولین کو متعین کرنے  کی کوشش کی۔ حافظ محمود شیروانی نے  پنجاب کے  سر اس زبان کے  آغاز کا سہرا باندھا…… گریرسن نے  بھی اردو کو ملی جلی تہذیب کا پرتو قرار دیا تھا ……. اس نے  اردو کو کسی خاص علاقے ، بولی یا پرا کرت سے  متاثر ثابت کرنے  کی بجائے  کئی بولیوں  اور زبانوں  سے  متاثر بتایا۔ لیکن بعد میں  اس نے  اردو کے  آغاز کو دوآبہ اور روہیل کھنڈ کے  علاقے  تک محدود کر دیا…..شوکت سبزواری نے  اختلاط یا باہمی میل جول کے  نظریے  کو سرے  سے  رد کر دیا ان کا خیال تھا کہ زبان پہلے  سے  موجود ہوتی ہے  اور دوسری زبانوں  کے  اثر سے  وہ طاقتور اور بہتر اظہار کی حامل بن سکتی ہے  ….. لیکن دوسری زبانوں  کے  اثر سے  ایک نئی زبان کا وجود میں  آنا ممکن نہیں  ہے۔ شوکت سبزواری اور سہیل بخاری نے  اردو کو کھڑی بولی کا بدلا ہوا روپ قرار دیا۔ اورپروفیسر گیان چند نے  بھی اسی نظریہ کو اہم قرار دیا۔ اور اردو کے  آغاز کو دلی، بجنور اور مرادآباد کے  علاقوں  تک محدود کر کے  کھڑی بولی سے  اس زبان کا ناطہ جوڑ دیا۔ جبکہ عبدالحق نے  کھڑی بولی کا مفہوم گنواروں  کی بولی لیا……کھڑی میں  روٹی کو رٹیّ کہنے  یا درمیان کے  حروف علت کو دبانے  رواج عام ہے۔ شایداس وجہ سے  انہوں  نے  اسے  گنواروں  کی یا جاہلوں  کی زبان قرار دیا ……جبکہ حقیقت یہ ہے  کہ کھڑی بولی کا بھی اپنا ایک پس منظر ہے ….. مشرقی انبالہ، سہارنپور، میرٹھ، مظفر نگر وغیرہ کھڑی بولی کے  علاقے  ہیں۔ اور مسعود حسین کان کے  مطابق ان علاقوں  میں  بولی جانے  والی زبان کے  علاوہ ہریانی میں  بھی لفظ کے  درمیانی حروف علت گرانے  اور مشدد الفاظ استعمال کرنے  کا رواج تھا اور ہے ……گویا یہ خاص انداز جغرافیائی اثرات کا تابع بھی ہو سکتا ہے  …..لیکن آہستہ آہستہ دلی کے  بازاروں  اور محلوں  میں  اردو زبان نے  نزاکت اپنائی۔ کرخت لہجہ اور مکروہ انداز خارج کر دیا گیا۔ لکھنؤ نے  اس کی نزاکت میں  اور اضافہ کیا اور ایک مخصوص لوچ سے  اردو کو سنوارا جو صرف اسی زبان کا حصہ تھا اور اس زبان کے  لکھنوی دبستان سے  تعلق رکھتا تھا۔

            قبل ازیں  گوالیار ایک عرصے  تک بلاغت اور فصاحت کے  معاملے  میں  اہم مانا جاتا رہا۔ ’’سب رس‘‘میں  وجہی نے  ’’گولیار کے  چاتراں ‘‘ کا ذکر کر کے  اور ان کے  زباں  و بیان کے  انداز کو سراہتے  ہوئے  خود اپنے  طرز انشا کی بھی ستائش کی ہے  کہ اس طرح نظم و نثر کو آپس میں  ملا کر کسی نے  نہیں  لکھا۔ گولیار کے  فصحاء کی افضلیت خان آرزو سے  بھی ثابت ہوتی ہے  اور وہ بھی گوالیاری کو مستند جانتے  ہیں۔ لیکن محمد شاہ رنگیلا کے  عہد میں  دہلی کے  قلعہ معلیٰ کی زبان اور امرا اور شرفاء کی زبان مستند قرار دی گئی کیونکہ اب اس زبان میں  نکھار آ چکا تھا۔ اس زبان کے  محاورے  اور روز مرہ میں  جھٹکے  دار گنوار انداز کے  بجائے  لوچ اور مٹھاس کو اہمیت دی جانے  لگی……. اور پھر لکھنؤ نے  اس زبان کی تزئین کا کام اپنے  سر لیا تو اور بھی نکھار آ گیا۔

            ان تمام باتوں  کے  باوجود اس ایک حقیقت سے  انکار ممکن نہیں  کہ اردو زبان کی بنیاد یگانگت اور آپسی محبت پر قائم ہے۔ کئی فرقوں  اور لسانی گروہوں  میں  بٹا ہوا ہونے  کے  باوجود ہندوستان کا تمدنی مزاج ایک با ضابطہ سماج کا پروردہ ہے۔ یہاں  رشتوں  کا اعتبار بھی ہے  اور پڑوسی، ہم محلہ، ہم وطن اور اسی طرح کے  دوسرے  سماجی رشتوں  کی بھی اہمیت ہے۔ ایک دوسرے  کے  دکھ سکھ میں  شریک ہونا اپنے  ذاتی مفاد سے  زیادہ اہم مانا جاتا ہے۔ اس طرح کے  سماجی رشتوں  کو مضبوط کرنے  اور ترسیل و ابلاغ کی اہم خدمت انجام دینے  کے  لئے  جس زبان کی ضرورت ہو سکتی ہے  اس میں  یہ قوت بھی ہونی چاہئے  کہ بنیادی طور پر اس میں  تنگ نظری نہ ہو….. دوسری تہذیبوں  سے ، دوسرے  علاقوں  اور سماجوں  کے  تمدنی اثرات سے ، دوسری زبانوں  کے  لسانی تنوع سے  آسانی کے  ساتھ گھل مل سکے۔ اور یہ خصوصیات اگر کسی زبان میں  بدرجہ اتم موجود نظر آئیں  تو وہ صرف اردو تھی اور اردو ہی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ یہ زبان آسانی سے  مقبول ہوتی گئی۔ اس کی بنیاد کھڑی بولی ہے  یا برج، سندھی ہے  یا پنجابی، یہ بحث تو لسانیات کے  علماء نے  تقریباً ختم کر دی اور حتمی طور ہر کھڑی بولی کو اردو کا ابتدائی روپ قرار دیا ….. لیکن اہم بات یہ ہے  کہ کھڑی بولی پر بھی دوسرے  علاقوں  کی بولیوں  کے  اثر پڑے ، عربی وفارسی نے  بھی اثر جمایا، باہمی تعلقات نے  زبان کو تجارتی ضرورت سے  آگے  بڑھا کر سماجی ضرورت بنا دیا اور اردو میں شکل بنتی گئی۔ ملا وجہی نے  دکن میں  سب رس لکھی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ بادشاہ نے  اس سے  قصۂ حسن و دل کو عام فہم زبان میں  بیان کرنے  کی خواہش کی تھی۔ ادھر شمال میں  فضلی نے  کربل کتھا لکھی تو اس کے  پیچھے  یہ جذبہ کارفرما تھا کہ ان عورتوں  کے  لئے  واقعات کربلا موثر انداز میں  لکھے  جائیں  جو فارسی سے  واقف نہ ہوں  …..گویا عوام کی گھریلو بول چال کی زبان سب رس اور کربل کتھا کی زبان تھی۔ یعنی اردو کا جو ابتدائی روپ ہے  وہ کم پڑھے  لکھے  عوام کی بول چال بلکہ گھریلو خواتین کی گفتگو سے  مستعار ہے  اور دلچسپ نکتہ یہ ہے  کہ اس زبان میں  شاعری کرنا گویا ایک طرح سے  پوچ بات تھی۔ وہ تو ولی نے  شمالی ہند کو بتایا کہ اس زبان میں  بھی وہی اتنی صلاحیت ہے  کہ فارسی شاعری کے  کندھے  سے  کندھا ملاسکے  …….اپنی زبان کے  ساتھ تحقیر کا یہ رویہ اس وقت ختم ہو گیا جب اس زبان کو سرکاری سرپرستی مل گئی۔ لیکن وہی رویہ آج پھر سے  لوٹ آیا جب یہ محسوس ہوا کہ معاشی طور پر یہ زبان اتنی معاون ثابت نہیں  ہو سکتی جتنی کہ علاقائی زبان یا بین الاقوامی زبان …….!

            کبھی وہ دور بھی تھا کہ انگریزوں  کو اپنی حکومت برقرار رکھنے  کے  لئے  اردو زبان کا سیکھنا ضروری تھا۔ فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات کو کون نظرانداز کر سکتا ہے  ….. اور اردو ادب کو جو سلیس پیرایۂ اظہار ملا اس کی افادیت اور اثر آفرینی کو کیسے  فراموش کیا جا سکتا ہے  ……! لیکن انگریزی کا غلبہ رفتہ رفتہ اتنا بڑھ گیا کہ ہماری روزمرہ کی گفتگو میں  سینکڑوں  ایسے  الفاظ در آئے  جو انگریزی کے  تھے  اور ہم نے  ان کا اردو متبادل ڈھونڈ نے  کی بجائے  بہتریہی سمجھا کہ ان الفاظ کو جوں  کا توں  قبول کر لیا جائے۔ اردو کے  تمدنی پس منظر کی بازیافت کرتے  ہوئے  جب ہم آج کے  دور تک پہنچتے  ہیں  تو یہ محسو ہوتا ہے  کہ اس سکڑتی ہوئی دنیا میں  خالص زبان کی کوئی اہمیت نہیں  رہی ہے۔ اس بات کی بھی کوئی اہمیت نہیں  ہے  کہ کس زبان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اہمیت اس بات کی ہے  کہ ترسیل و ابلاغ کے  ذرائع استعمال کرتے  ہوئے  کسی زبان کو زبردستی سرپر تھوپنے  کی کوشش کی گئی، وہاں  اس عمل کے  خلاف بیزاری کا جذبہ بھی نشو ونما پاتا رہا ہے۔ کیونکہ زبان کا مقصد صرف ادبی تخلیقات پیش کرنا نہیں  ہے۔ زبان کا مقصد یہ بھی نہیں  کہ بھاری بھرکم غیرمانوس قسم کے  الفاظ استعمال کر کے  اپنی علمیت کا احساس پیدا کیا جائے۔ زبان تو ہمارے  سماج کی ایک اہم ضرورت ہے  جس کے  بغیر تعلقات کو فروغ دینا تو کجا ان کو باقی رکھنا بھی ممکن نہیں  اور اردو زبان آج کل ایسی ہی کشمکش سے  دوچار ہے۔

***

 

ذوق کی قصیدہ نگاری

            قصیدہ عربی زبان کا لفظ ہے  جس کے  اصطلاحی معنی ہیں  سات یا دس اشعار کے  زائد نظم۔ اردو میں  قصیدہ اس نظم کو کہتے  ہیں  جو کسی کی مدح یا ذم کے  لئے  لکھی جائے، یا وعظ و نصیحت، پند و موعظت یا تعریف بہار یا شکایت روزگار وغیرہ کے  مضامین باندھے  جائیں۔ جب تک شاہی دور رہا شعراء کی قدرو منزلت رہی انھیں  خطابوں  سے  نوازا گیا….جس شاعر نے  قصیدہ گوئی میں  کمال حاصل کیا اسے  استاد تسلیم کیا گیا۔ ویسے  یہ صورت حال آج بھی ہے  لیکن قصیدہ کی نوعیت میں  تھوڑی سی تبدیلی ہو گئی ہے۔ ہیئت کو بدل کر ملکی، سماجی اور سیاسی حالات کی عکاسی کرتے  ہوئے  آج بھی قصیدہ نگاری کا سلسلہ جاری ہے  اور خطابوں  کا رواج بھی چل پڑا ہے ……..!

            مولانا شبلیؒ لکھتے  ہیں۔

’’ہمارے  خیال میں  عربی قصیدہ صلہ اور انعام کی توقع پر مبنی نہ تھا جیسا کہ مشہور شعرائے  جاہلیت کے  قصائد سے  پتہ چلتا ہے  ان کے  قصائد حصول تفوق و ناموری اور سیادت وسرداری کے  امتیاز کے  لئے  ہوتے  تھے۔ عربی قصائد زیادہ تر فخریہ رجزیہ ہوتے  تھے  یا کسی واقعہ کا بیان۔ ان چیزوں  سے  صلہ اور انعام کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔ ‘‘

            قصیدہ کا رواج عربی سے  فارسی اور پھر فارسی سے  اردو میں  منتقل ہوا۔ اردو میں  قصیدہ گوئی بادشاہوں  امراء وغیرہ کی مدح کے  لئے  یا پھر کسی کی ہجو کے  لئے  کی جاتی رہی۔ لیکن اردو قصیدہ گوئی فارسی قصیدہ گوئی سے  پیچھے  نہیں  رہی ……علمی اصطلاحات، فنی اور مذہبی تلمیحات، پیچیدہ مسائل، فلسفہ، ادب و معنی، تلازمہ، صنعتیں  ان تمام سے  قصائد کا دامن مالامال ہے۔ قصیدہ کا ایک عیب یہ ہے  کہ اس میں  آمد کی جگہ اکثر آورد کو دخل ہوتا ہے  لیکن ماہر فن قصیدہ گو آورد میں  بھی آمد کی کیفیت پیدا کر لیتے  ہیں۔ شیخ ابراہیم ذوق اس کی عمدہ مثال ہیں۔ ذوق قصائد میں  سوداکے  پیرو ہیں۔ محمد حسین آزاد نے  آب حیات میں  لکھا ہے۔

’’جاننے  والے  جانتے  ہیں  کہ اصلی میلان ان کی طبیعت کا سودا کے  انداز پر زیادہ تھا۔ نظم اردو کی نقاشی میں  مرزا ئے  موصوف نے  قصیدہ پر دستکاری کا حق ادا کر دیا ہے۔ ان کے  بعد شیخ مرحوم کے  سواکسی نے  اس پر قلم نہیں  اٹھایا۔ اور انھوں نے  مرقع کو ایسی اونچی محراب پر سجایا کہ جہاں  کسی کے  (کا ) ہاتھ نہیں  پہنچا۔ ‘‘

            ذوق انیس برس ہی کے  تھے  کہ انھیں  اکبر ثانی نے  ان کے  ایک قصیدہ پر خوش ہو کر خاقانی ہند کا خطاب عطا کیا۔ اس قصیدہ میں  نہ صرف انواع و اقسام کے  صنائع بدائع صرف کئے  گئے  تھے  بلکہ کئی زبانوں  میں  اشعار لکھ کر شامل کئے  گئے  تھے۔ اس قصیدہ کا مطلع یہ تھا۔

جبکہ سرطان واسد مہر کا  ٹھہرا مسکن

آب و ایلولہ ہوئے  نشونمائے  گلشن

            ذوق کی خوش قسمتی یہ تھی کہ ان کے  زمانے  تک اردو زبان کافی نکھر چکی تھی۔ اور اس کا بھاشا آمیز لہجہ مٹ چکا تھا اور پھر ان سے  پہلے  سودا جیسا مسلم الثبوت استاد گزر چکا تھا جس نے  اردو قصیدہ گوئی کو چار چاند لگا دیئے  تھے۔ اس لئے  ذوق کے  قصیدوں  میں  زبان و بیان کے  عمدہ نمونے  نظر آتے  ہیں۔ اس کے  ساتھ ساتھ ذوق کے  قصائد میں  روانی، فارسی کی آمیزش، نگینے  کی طرح جڑے  ہوئے  الفاظ، شوکت لفظی، صنائع لفظی و معنوی، علمیت غرض ہر وہ خوبی جو شعر کے  بارے  میں  سوچی جا سکتی ہے  ذوق کے  قصائد میں  موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ محسوس ہوتی ہے  کہ انھوں  نے  متقدمین سے  کافی استفادہ کیا۔ شاہ نصیر، مصحفی، انشا ان سب کا رنگ ذوق کے  پاس موجود ہے۔ اور سودا کا انداز تو گویا ذوق کی شاعری اور بالخصوص قصائد میں  رچ بس گیا ہے۔ شاہ سلیمان ذوق کے  قصائد پر یوں  تبصرہ کرتے  ہیں۔

’’ذوق کے  پائے  کا قصیدہ کہنے  والا اردو زبان میں  اب تک کوئی شاعر نہیں  گزرا۔ مرزا رفیع سوداپر بھی ترجیح دینا بے  جا نہیں۔ ‘‘

            لیکن ذوق کی طبیعت قصائد میں  مشکل پسند ہے۔ جس کی وجہ سے  شاعری متاثر ہو جاتی ہے۔ ذوق نے  اپنی شاعری کی قدرت کے  اظہار کے  لئے  ایسی زمینیں  بحور اور ردیفیں  تلاش کر کے  اپنا کمال دکھایا جن تک شعراء کی رسائی نہیں  تھی مقصد محض یہ تھا کہ وہ اپنے  حریفوں  پر چھا جائیں۔ ذوق چونکہ بہادر شاہ ظفر کے  استاد تھے  اس لئے  ان کے  حریفوں  کی تعداد بھی کم نہ تھی۔ انھیں  حریفوں  کو نیچا دکھانے  کے  لئے  ذوق نے  قصیدہ اور ان میں  ایسی ایسی صنعتیں  استعمال کیں  جن کا استعمال ہرکس وناکس کے  بس کا روگ نہ تھا۔ ان کا قصیدہ نکال لیجئے  اور اس میں  سے  کسی بھی شعر کا انتخاب کر لیجئے  کوئی نہ کوئی صنعت اس میں  ضرور ملے  گی۔ ذوق کے  ہاں  روانی بے  حد ہے  لیکن معنویت نسبتاً کم اور پھر ذوق نے  اپنے  قصائد میں  مدح کرتے  ہوئے  اس قدر غلوسے  کام لیا کہ مذہبی اعتبار سے  قابل اعتراض حدوں  تک داخل ہو گئے۔ ایک قصیدہ کا حسن مطلع یہ ہے۔

یوں  کرسی زر پر ہے  تری جلوہ نمائی

جس طرح سے  مصحف ہو سر رحل طلائی

            ذوق کے  قصائد میں  جہاں  ان کی زبان دانی کا ثبوت ملتا ہے  وہیں  ان کی مختلف علوم سے  واقفیت بھی معلوم ہوتی ہے۔ ذوق کے  قصیدہ ’’زہے  نشاط اگر کیجئے  اسے  تحریر‘‘ میں  ایک جگہ حمل اور حوت کا تذکرہ ملتا ہے۔ جس سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ انہیں  علم نجوم سے  بھی لگاؤ تھا۔

حمل سے  حوت تلک جا ملی ہیں  تصویریں

            مضامین حکمت و طب، فلسفہ و منطق، موسیقی غرض کوئی میدان ایسانظر نہیں  آتا جہاں  وہ بندر ہے  ہوں۔ اور لطف یہ ہے  کہ ذوق ان علوم کی اصطلاحات کے  برجستہ استعمال سے  شعر کو چار چاند لگا دیتے  ہیں۔ ذوق کی زمینیں  سنگلاخ ضرور ہیں  لیکن رواں  اور شگفتہ بحور استعمال کی گئی ہیں۔ اور ترنم وموسیقیت نے  شعر کو نیا لباس دیا ہے۔ ذوق الفاظ کے  انتخاب میں  بڑی احتیاط سے  کام لیتے  ہیں۔ اور اچھوتی ترکیبوں  کو استعمال کرنے  میں  انھیں  ملکہ حاصل ہے۔ انھوں  نے  غیر مادی اشیا کو مشخص کر کے  بھی ایک عجیب سامنظر پیدا کیا ہے۔ اسی قصیدہ میں  ایک جگہ کہتے  ہیں

کہ ہے  ہجوم نشاط وسرورجم غفیر

            ایک اور قصیدہ میں  لکھتے  ہیں  کہ

’’ہوں  دیکھ غرق حیا نور سحر رنگ شفق‘‘

            موسیقی سے  ان کو لگاؤ تھا اور وہ موسیقی کی اصطلاحات سے  بھی بخوبی واقف تھے۔ ان اصطلاحات کا استعمال بھی انھوں  نے  اپنے  قصائد میں  جا بجا کیا ہے۔

’’نفس کے  تارسے  آواز خوشتر از بم وزیر‘‘

            ایک اور قصیدہ میں  لکھتے  ہیں۔

اس قدر ساز طرب ساز کی آواز بلند

چھیڑیں  گر  تار کھرج کا تو ہو پیدا دھیوت

            طرب، کھرج اور دھیوت موسیقی کی خاص اصطلاحیں  ہیں۔ اسی قصیدہ میں ایک شعر یہ ہے۔

لے  کے  انگڑائی کہیں  ہنسنے  لگی رام کلی

اٹھی ملتی ہوئی آنکھوں  کو کہیں  اپنی للت

رام کلی اور للت یہ دونوں  راگنیوں  کے  نام ہیں۔

            ایک قصیدہ میں  ذوق نے  مختلف میدانوں  میں  اپنی دسترس کے  بارے  میں  تقریباً ۵۰ اشعار میں  اظہار کیا ہے۔ اس قصیدہ کا مطلع یہ ہے۔

شب کو میں  اپنے  سربستر خواب راحت

نشۂ علم میں  سرمست غرور نخوت

اور اپنی معلومات کا اظہار کرتے  ہوئے  آخر میں  یوں  لکھتے  ہیں۔

فائدہ کیا جو ہر اک علم کی جانی تعریف

فائدہ کیا جو ہر ایک فن کی کھلی ماہیت

            ذوق نے  تقریباً ہر قصیدہ میں  یہی رویہ رکھا ہے۔ وہ مشاقانہ انداز میں  اصطلاحات کا انبار لگاتے  چلے  جاتے  ہیں  اور یوں  محسوس ہوتا ہے  کہ گویا وہ اس فن میں  کامل ہیں۔

            محمد حسین آزاد لکھتے  ہیں

’’تاریخ کا ذکر آئے  تو وہ اک صاحب نظر مؤرخ تھے۔ تفسیر کا ذکر آئے  تو ایسا معلوم ہوتا تھا گویا تفسیرکبیر دیکھ کر اٹھے  ہیں۔ خصوصاً تصوف میں  ایک خاص شغف تھا۔ جب تقریر کرتے ، یہ معلوم ہوتا تھا کہ شیخ شبلی یا با یزید بسطامی بول رہے  ہیں  …… رمل و نجوم کا ذکر آئے  تو وہ نجومی تھے ……

            ذوق نے  صحت یابی پر جو قصائد لکھے  ہیں  ان میں  صحت یابی کی رعایت سے  موسم کی معتدل کیفیات کا ذکر بھی کیا ہے۔ لیکن ان کے  بہاریہ مضامین میں  مبالغہ بہت زیادہ ہے۔ اور تخیل کا رنگ اس حد تک غالب ہے  کہ کبھی کبھی طبع نازک کو ناگوار گزرتا محسوس ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے  کہ کبھی وہ صوفی بن کر تصوف کا درس دیتے  ہیں  تو کبھی درویش بن کر ترک دنیا و ترک عیش کی تلقین کرتے  ہیں  ….اور کہیں  دنیا کی بے  ثباتی کا ذکر کر کے  عشق و نشاط پر اکساتے  ہیں …….! ان کے  قصائد کا مطمح نظر محض یہ ہوتا تھا کہ ہر ممکنہ انداز سے  ممدوح کی مدح کی جائے۔ اور اس کے  ساتھ ساتھ اپنی علمیت کی دھاک بیٹھائی جائے۔ اس میں  وہ اکثر بے  اعتدالیوں  کا شکار بھی ہوئے  ہیں۔ لیکن پر شکوہ الفاظ اور تراکیب کے  طلسم نے  ان خامیوں  پر پردہ ڈال دیا ہے۔

            قصیدہ میں  سب سے  زیادہ نازک مقام گریز ہے۔ ذوق نے  گریز کے  موقعوں  پر اپنی مہارت کا بے  پناہ ثبوت بہم پہنچایا۔ وہ اس خوبی سے  بہاریہ سے  مدح کی طرف پلٹتے  ہیں  کہ بے  ساختگی محسوس ہوتی ہے۔ ’’زہے  نشاط……..‘‘ میں  وہ اس طرح گریز کرتے  ہیں۔

شمیم عیش سے  ہے  یہ زمانہ عطر آگیں

کہ قرض عنبر اگر ہے  زمیں  تو گرد عبیر

            اور پھر ہجوم نشاط اور عیش و عشرت کا تذکرہ کرتے  ہوئے  غسل صحت پر آتے  ہیں

’’دیا ہے  رنج کو دھو  تیرے  غسل صحت نے ‘‘

            ذوق اپنے  قصائد میں  مضمون آفرینی کو خاص اہمیت دیتے  ہیں  حسن تعلیل، تلمیحات، تشبیہوں  اور استعارات کے  ذریعے  مضمون کو بلند کرنے  کا کوئی دقیقہ نہیں  اٹھا رکھتے۔ ان کے  مضامین تنوع بھی پایا جاتا ہے۔ لیکن اس کا دائرہ سودا کی طرح ہمہ گیر اور وسیع نہیں۔ ذوق کے  قصیدوں  کی ایک اور کمزوری یہ ہے  کہ سودا کی طرح ان کے  قصائد میں  ملکی و معاشرتی حالات کا پتہ نہیں  چلتا۔ بس ایسا محسوس ہوتا ہے  کہ عیش و عشرت کا بازار گرم ہے  اور ممدوح سے  زیادہ بہادر، حسین، علم، سخی اور کوئی نہیں ….. جس کی وجہ سے  تصنع کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے …. لیکن ان کی بلند آہنگی، ذہنی اپج، طباعی، تخیل کی ندرت، طرز ادا کی تازگی ان عیوب کو چھپا لیتی ہے۔

            ڈاکٹر ابو محمد سحر لکھتے  ہیں۔

’’ذوق کا فن تقلیدی ہونے  کے  باوجود صناعی اور فنکاری کا ایک کامیاب نمونہ ہے۔ ‘‘

            ذوق کے  قصائد ان کی پر گوئی اور زبان و بیان پر قدرت کا اظہار ہیں۔ سودا کی پیروی کرنے  کے  باوجود ان میں  سودا کی خصوصیات نہیں  ہیں۔ البتہ انہیں  سودا کے  بعد کے  درجہ کا قصیدہ نگار کہا جا سکتا ہے ……..!!!

———————٭٭———————

***

مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ جن سے مضامین کی فائلوں کا حصول ہوا

ترتیب: اعجاز عبید

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید