FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

انتخابِ کلام صہبا اختر

 

 

                صہبا اختر

جمع و ترتیب: قرۃ العین طاہرہ

 

 

 

 

 

 

                اقراء

 

آرزو

 

جمالِ کتابِ خدا سامنے ہو

چراغ رُخِ مصطفیؐ سامنے ہو

خموشی ہو آہنگ سازِ تفکر

تو ہر نقش صورت و صدا سامنے ہو

قلم جب ہو مصروف نعت محمدؐ

تو دریائے آبِ بقا سامنے ہو

چراغ شبِ فکر جب جھلملائے

تو صبحوں کا پرچم کشا سامنے ہو

ملے وہ بلندی، خیال و نظر کو

سرِ فرش، عرش علیٰ سامنے ہو

ملے مستجابی، وہ حرف دعا کو

دعا جب بھی مانگو صلا سامنے ہو

نظر جب اٹھاؤں سوئے شہر معنی

وہ قبلہ وہ قبلہ نما سامنے ہو

خدا یا یہ توفیق مجھ کو عطا کر

کہ اقراء لکھوں تو حرا سامنے ہو

٭٭٭

 

 

 

 

وظیفہ کائنات

 

گریز و اجتناب ہے نہ بعد و فاصلہ ہے تُو

محبتوں کا سلسلہ، دِلوں کا رابطہ تُو

بلندیوں پہ جس کا ذکر ہے وہ مجتبیٰؐ ہے تُو

صفات کیوں نہ ہوں تُو تیرے نثار، مصطفیؐ ہے تُو

ابد ہے جس کا منتظر، ازل کی وہ دعا ہے تُو

کہ تاجدارِ ہر زمان و شان دوسَرا ہے تُو

مہ و بخوم و کہکشاں پہ بارش ضیا ہے تُو

فضا میں جس کا نور ہے وہ آسماں قبا ہے تُو

جہاں سحابِ نور کی طرح برس رہا تُو

وہیں اذان کی طرح دلوں میں گونجتا تُو

نوائے خاک ہے کبھی، ترانہ سما ہے تُو

مثال ساز زندگی، ہزار زمزمہ ہے تُو

جہانِ حَرف وصَوت کی صدائے حق رسا ہے تُو

زمین وآسمان کے درمیان مکالمہ ہے تُو

بنامِ کاروانِ وقت نغمۂ درا ہے تُو

طلوعِ بے غروب کی طرح سحر نما ہے تُو

سرِ بطونِ خاک مثلِ دھڑک رہا ہے تُو

تمام کائنات کا وظیفۂ بقا ہے تُو

٭٭٭

 

 

 

خیر مقدم کا گیت

 

 

وہ نغمہ ہے جسے بنی نجار کی لڑکیوں نے سرکارصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خیر مقدم کے طور پر اس وقت گایا تھا جب آپ پہلی بار مکے سے ہجرت فرما کر مدینے تشریف لائے تھے۔ میں نے اس کو کچھ قیاسی مصرعوں کے ساتھ نغمے کے طور پر ہی تحریر کیا ہے۔

 

آئے سرکارِؐ مدینہ

آئے انوارِ مدینہ

ہیں قدم بوسِ رسالت

گل و گلزارِ مدینہ

کندنی رنگ ہے گہرا

ہے لباس آج سنہرا

چاندنی رات نے پہنا

طلع البدرُ عَلینا

لوگو آواز دو سب کو

دیکھ لو قاصدِ ربّ کو

روشنی غارِ حرا کی

مل گئی پردۂ شب کو

بارشِ نجم و قمر ہے

آج سے حکمِ سحر ہے

رات کو رات نہ کہنا

طلع البَدرُ عَلینا

ہاشمیؐ، مطلبی ہیں !

فخرِاُمّی وابی ہیں !

آپ ہی حق کے نبیؐ ہیں

دافعِ تیرہ شبی ہیں

مژدہ ہو نوعِ بشر کو

اب تمنا سحر کو

کشتۂ شب نہیں رہنا

طلع الَبدرُ عَلینا

دِل نے پائی ہیں مرادیں

اُن کی راہوں کو سجادیں

گل بچھائے ہیں صبا نے

آؤ ہم آنکھیں بچھا دیں

چاند ابھرا ہے لیے تاج

من ثینات وداع آج

وَجَب الَشکر علینا

طلع الَبدرُ عَلینا

٭٭٭

 

 

 

 

                مِشعل

 

یا رب مرے وطن کا پرچم بلند رکھنا

 

یا رب مرے وطن کا پرچم بلند رکھنا

اپنے کرم کا یونہی، احسان مند رکھنا

O

سایہ پڑے نہ کوئی، اس کی تجلیوں پر

نازاں رہیں ستارے، اس کی بلندیوں پر

دنیا کی ظلمتوں کو، زیرِ کمند رکھنا

یا رب مرے وطن کا، پرچم بلند رکھنا

O

مشکل کی وادیوں میں ، راحت کی جستجو میں

تاریک راستوں پر، منزل کی آرزو میں

ملت کے قافلوں کو، شعلہ پسند رکھنا

یا رب مرے وطن کا، پرچم بلند رکھنا

O

مہکے رہیں اندھیرے ہنستے رہیں سویرے

آقا تجھے خبر ہے، ہم ہیں غلام تیرے

ہم کو جہاں کی قوموں میں ارجمند رکھنا

یا رب مرے وطن کا، پرچم بلند رکھنا

اپنے کرم کا یونہی، احسان مند رکھنا

O

٭٭٭

 

 

 

وطن کو ہم عظیم سے، عظیم تر بنائیں گے

 

 

وطن کو ہم عظیم سے، عظیم تر بنائیں گے

ہم اپنے ملک کا وقار، روز و شب بڑھائیں گے

O

چمک ہے ہر نگاہ میں ، دمک ہے ہر خیال میں

جو روشنی ہے پرچم ِستارہ و ہلال میں

اس کے نور سے ہر اک چراغ کو جلائیں گے

وطن کو ہم، عظیم سے عظیم تر بنائیں گے

O

مہ و نجوم کی صفیں قریب ہوں گی ایک دن

خلاؤں کی بلندیاں نصیب ہوں گی ایک دن

ہمارے راستے میں بھی ستارے جگمگائیں گے

وطن کو ہم عظیم سے، عظیم تر بنائیں گے

O

محبتوں کی راہ میں ، بس اتحاد چاہیے

ہزار مشکلیں سہی، بس اعتماد چاہیے

ہماری ضرب ضرب سے پہاڑ ٹوٹ جائیں گے

وطن کو ہم عظیم سے، عظیم تر بنائیں گے

٭٭٭

 

 

 

ہم ارضِ پاکستان کی ہَوائی فَوج کے عُقاب ہیں

 

O

ہم ارضِ پاکستان کی ہَوائی فَوج کے عُقاب ہیں

یقیں میں بے مثال ہیں ، وفا میں لا جواب ہیں

O

ہم اپنے آسمان پر، محبتوں کی کہکشاں

ہما کے شہپروں کے سائے میں ہمارے آشیاں

ہم اپنے شہر شہر میں

وفا کی لہر لہر میں

مثالِ نغمۂ اذاں … صدائے شُعلہ تاب ہیں

ہم ارضّ پاکستان کی ہَوائی فَوج کے عُقاب ہیں

گرج گرج کے جھومنا، جل کے گرد گھومنا

ہمارا فرض دشمنوں کے لشکروں پہ ٹوٹنا

عُدو سے جنگ جنگ میں

لَہوسے رنگ رنگ میں

کَڑَکتی بجلیوں کی طرح، آگ ہیں ، عذاب ہیں

ہم ارضِ پاک کی ہَوائی فَوج کے، عُقاب ہیں

O

وطن ہماری زندگی، وطن ہماری اَبرو

وطن نہیں تو کچھ نہیں ، نہ یہ جہاں ، نہ کَاخ و کُو

کہیں یہ سر نہ ہوں گے خم

ہر اک شہید کی قسم

ہم اپنے ہر شہید کے، کفن کی آب و تاب ہیں

O

ہم ارضّ پاک کی ہوائی فوج کے عقاب ہیں

یقین میں بے مثال ہیں ، وفا میں لا جواب ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ساقی نامہ

 

 

لیے سست آنکھوں میں کاجل چلے

وہ پنڈی سے خوشیوں کے بادل چلے

گھٹا سے گھٹا کو لپیٹے ہوئے

خوشی کے خزانے سمیٹے ہوئے

وہ برسے، تھمے، وہ برس کر چلے

چلے ساقیا دورِ ساغر چلے

…O…

 

ہے کوثر سے اتری شرابِ طہور

کرم چشمِ رحمت کا ہے یہ سرور

زبانوں پہ جھومے محمدؐ کا نام

یہ بزمِ تشکر ہے ہر دورِ جام

بنامِ خداوندِ اکبر چلے

چلے ساقیا دورِ ساغر چلے

…O…

 

سبودرسبو کِھل اٹھے ہیں کنول

گیا آتشِ ہے سے لوہا پگھل

محبت طلب ہے یہ ساعت یہ بل

بھلا دے انھیں ، آبگینوں پہ کل

رقیبوں کے گھر سے جو پتھر چلے

چلے ساقیا دورِ ساغر چلے

…O…

 

مبارک یہ آئینِ فتحِ عوام

وطن کو وقارِ وطن کا سلام

گئے ظلم کی شعلہ کاری کے دن

جو دہقان ہے اب رہے مطمئن

جو مزدور ہے سراٹھا کے چلے

چلے ساقیا دورِ ساغر چلے

 

…O…

یہ آئین خوشحال کا ساز ہے

بھٹائی کے نغموں کی آواز ہے

یہ آئین اقبال کا خواب ہے

اسی میں دل جوش بیتاب ہے

نہ کیوں طنطنا کر گرج کر چلے

چلے ساقیا دردِ ساغر چلے

 

…O…

ملے میری ملت کو عمرِ دراز

سلامت رہیں میرے آئین ساز

خدا ان کو بخشے بہارِ مراد

مجھے مصرعۂ میر آیا ہے یاد

’’میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے‘‘

چلے ساقیا، دردِ ساغر چلے

 

…O…

یہ آئین روح عدالت بھی ہے

یہ آئین، حق کی صداقت بھی ہے

یہ آئین صدیوں کا وہ قرض ہے

بہرحال جس سے وفا فرض ہے

رہے جان یا جان دے کر چلے

چلے ساقیا درد ساغر چلے

 

…O…

یہ افواج قومی کا سنگم بھی ہے

یہ افواج ملت کا پرچم بھی ہے

یہ غربت کے زخموں کا مرہم بھی ہے

یہ خوش حال زدا کا ہمدم بھی ہے

نہ کیوں رنجِ ماضی بھلا کر چلے

چلے ساقیا درد ساغر چلے

٭٭٭

 

 

 

میں خواب دیکھتا ہوں

 (چودہ اگست کی ایک شام)

 

اے عید دلربائی، اے جشن کج کلاہی

آزادی وطن کی، انجم بکف گواہی

اے روحِ حکمرانی، اے جانِ پادشاہی

اے خواب شب زدہ کی، تعبیرِ خوش نگاہی

میں تیری طلعتوں کا ہر باب دیکھتا ہوں

میں خواب دیکھتا ہوں

 

O

وہ خواب جو اجالے، دل میں اتارتے ہیں

جو غم کی ظلمتوں میں ، سورج تراشتے ہیں

سانسوں میں جھومتے ہیں ، آنکھوں میں ناچتے ہیں

مجھ کو جگاجگا کے، جو خود بھی جاگتے ہیں

کیا خواب ہیں کہ جن کو بے خواب دیکھتا ہوں

میں خواب دیکھتا ہوں

 

O

میں دیکھتا ہوں میرے، صحرا جگر جگر ہیں

غنچے چمن چمن ہیں ، سائے شجر شجر ہیں

میری زمیں کے سارے دریا گہر  گہر ہیں

تارے گلی گلی ہیں ، سورج نگر نگر ہیں

ہر گوشہ، وطن کو، منو تاب دیکھتا ہوں

میں خواب دیکھتا ہوں

 

O

گردِ گماں نہ ہو گی، جب چہرۂ یقیں پر

خونِ سحر نہ ہو گا، سورج کی آستیں پر

اک رقصِ نور ہو گا، ہر عارضِ حسیں پر

ہر شب طلوع ہوتے، اس پاک سرزمیں پر

ان دیکھے آسماں کے مہتاب دیکھتا ہوں

میں خواب دیکھتا ہوں

 

O

یہ ملک ہے ہمارے، اسلاف کی امانت

یہ ملک ہے سلامت، تو ہم بھی ہیں سلامت

اللہ اس کو رکھے، موجود تا قیامت

اس کی بقا کے نغمے، میرے لیے عبادت

ہر مصرعہ سخن کو محراب دیکھتا ہوں

میں خواب دیکھتا ہوں

 

O

جانے مری زمیں پر، کتنے نجوم ٹوٹے

سورج ہزار ابھرے، سورج ہزار ڈوبے

کتنے ہی سال گزرے، یہ خواب ہیں ادھورے

کس چودھویں کو ہوں گے، مولا یہ خواب پورے

ہر چودھویں میں جن کو نایاب دیکھتا ہوں

میں خواب دیکھتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

ترانہ

 

تو تو میری آن ہے، تو تو میری جان، تو میرا ایمان ہے

میں بھی پاکستان ہوں ، تو بھی پاکستان ہے

کہتی ہے یہ راہ عمل، آؤ ہم سب ساتھ چلیں

مشکل ہو یا آسانی، ہاتھ میں ڈالے ہاتھ چلیں

دھڑکن ہے پنجاب اگر، دل اپنا مہران ہے

میں پاکستان ہوں ، تو بھی پاکستان ہے

گلشن ہوں یا پربت ہوں ، ہم سے کوئی دور نہیں

کس کس کی تعریف کرے، ہر گوشہ ہے آپ حسیں

سورج ہے سرحد کی زمین، چاند بلوچستان ہے

میں بھی پاکستان تو بھی پاکستان ہے

پاکستان عقیدہ بھی، پاکستان یقیں بھی ہے

پاکستان نظریہ بھی، پاکستان زمیں بھی ہے

رنگ برنگی دنیا میں ، اس کی یہ پہچان ہے

میں بھی پاکستان ہوں ، تو بھی پاکستان

٭٭٭

 

 

 

لوری

 

(یہ نظم میں نے۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد تحریر کی تھی۔ یہ ایک ایسی بیوہ ماں کی لوری ہے جس کا مجاہد شوہر محاذ جنگ پر شہید ہو چکا ہے۔ وہ یہ لوری اپنے شیر خوار بچے کو سنارہی ہے۔ )

 

میری آنکھوں کی روشنی مت سو

میری خوابوں کی زندگی مت سو

چاند تاروں کی طرح تو بھی جاگ

میرے زخموں کی طرح تو بھی جاگ

میری لوری کے رس میں نیند کہاں

میری پلکوں پر آنسوؤں کا دُھواں

میرے دل میں الاؤ شعلوں کے

مری نس نس میں گھاؤ شعلوں کے

اک جہانِ سکوں ہے تیرے ساتھ

میرے سینے پہ رکھ یہ ٹھنڈے ہاتھ

اے مسیحا میں بستہ غم ہوں

میں تری ماں ہوں تیری مریم ہوں

روع عیسیٰ ؑ کی دلبری مت سو

میری آنکھوں کی روشنی مت سو

 

آدمیت کے اس ضمیر کو دیکھ

میرے سینے میں جوئے شیر کو دیکھ

جس کی موجیں ہیں مضطرب دن رات

جس کی ہر بوند ہے پیام حیات

جس میں رقصاں ہے پیار کی خوشبو

جس میں ہنستا ہے مامتا کا لہو

جس پہ ہر دم ربوبیت طاری

جس میں ہے نورِ امرِ رب جاری

جس میں تخلیق مسکراتی ہے

جس میں تقدیر گنگناتی ہے

آ، یہ آب حیات پی، مت سو

میری آنکھوں کی روشنی مت تو

 

ہر طرف خون خون کی للکار

ہر طرف، موت موت کی آواز

اس فضا میں بھی قوم کے وہ دلیر

نام سے جن کے کانپتے ہیں شیر

بن گئے غیرتِ وطن کی شان

ایک ناقابلِ شکست چٹان

جان نثاری کی خود ہی کھا کے قسم

اپنے سینوں سے باندھ باندھ کے بم

کھو گئے سر فروش دستو میں

بچھ گئے ٹینکوں کے رستوں میں

جس سے شعلوں کے تیز دھار مڑے

ٹینک ٹکڑے ہوئے، پہاڑ اُڑے

حوصلہ سرکشوں کا چھوٹ گیا

دشمنوں کا طلسم ٹوٹ گیا

ایسے ماؤں کے ہوں گے لال کہاں

ایسے شیروں کی ہے مثال کہاں

میرے معصوم، میرے ننھے شیر

ہے ترے جسم میں بھی خون دلیر

یاد رکھنے ہیں سب ستم تجھ کو

ماں کی ناموس کی قسم تجھ کو

جاگ اے خون کے افق کی لکیر

جاگ فردا کے خواب کی تعبیر

جاگ اے شعلۂ لب تقدیر

جاگ اے انتقام کی شمشیر

جاگ اے لوحِ عصر کی تحریر

جاگ، جس طرح جاگتا ہے ضمیر

میری آنکھوں کی روشنی مت سو

میرے خوابوں کی زندگی مت سو

٭٭٭

 

 

 

سقوط ڈھاکہ

 

یہ اس فی البدیہہ نظم کا عکس ہے جسے میں نے پی۔ ٹی۔ وی کراچی کے اس وقت کے جنرل منیجر۔ جناب اسلم اظہر کے اصرار پر ٹی۔ وی کے ایک کمرے میں بیٹھ کر اپنے خون جگر اور آہوں سے، ارتجالاً تحریر بھی کیا اور پاکستان کی تاریخ کی اُس منحوس ترین شام کو، اپنے وطن کو سنایا بھی۔ اس نظم کا تذکرہ مشعل کے دیپاچے میں بطور خاص موجود ہے۔

 

سنو میری بہنو، سنومیری ماؤ

نہ گریہ کرو اور نہ آنسو بہاؤ

تماشائے گلشن، بہار و خزاں ہے

کہ ہر ابتلائے وطن، امتحاں ہے

جو مختار ٹھہرے، وہ مجبور بھی ہے

یہی زندہ قوموں کا دستور بھی ہے

کہانی نشیب و فرازِ جہاں کی

ہمیشہ سے قسمت ہے ہر کارواں کی

کبھی اک ازل ہے، کبھی اک ابد ہے

سر بحرِ ہستی، عجب جزر و مد ہے

کبھی سر بلندی، کبھی روسیاہی

بہت کچھ دکھاتی ہے یہ کج کلاہی

کبھی خون پیتی ہیں شادابیاں بھی

کہ سر مانگتی ہیں ، سرافرازیاں بھی

تباہی تو صدقہ ہے آبادیوں کا

اسیری تبسم ہے آزادیوں کا

شکستیں بھی ہوتی ہیں جنگوں کا حاصل

نہ مقتول رہتے ہیں زندہ، نہ قاتل

عبث ہیں یہ آنسو، غلط ہے یہ ماتم

گواہی یہ دیتی ہے تاریخ عالم

جو جانیں وطن کے لیے وارتے ہیں

کبھی جنگ بھی وہ جری ہارتے ہیں

کہاں دشمنوں نے مٹایا ہے ہم کو

فقط سازشوں نے ہرایا ہے ہم کو

ڈُبویا محبت کے خوابوں نے کیا کیا

ڈسا آستینوں کے سانپوں نے کیا کیا

کہیں میر جعفر، کہیں کوئی صادق

جلایا ہے سینے کے داغوں نے ہم کو

ہمیشہ سے ہیں فتنہ و شر کے خالق

بجھایا ہے گھر کے چراغوں نے ہم کو

ہمارے دلوں میں خنجر ہیں اُترے

کہ جو خود ہمارے لہو سے ہیں اُبھرے

وہی آج خوش ہیں ، جو ننگِ چمن تھے

کہ قاتل وطن کے، مرے ہم وطن تھے

سنو میری بہنو، سنو میری ماؤ

ہر اک، اشک غم میں ، وہ شعلے جگاؤ

جو اس شام ماتم کو سورج بنا دیں

شکستِ وطن کو بھی طاقت بنا دیں

اگر دیدہ و دل میں ہمت ہے باقی

اگر حوصلوں کی تمازت ہے باقی

شکست اس تمازت سے ظلمت کو دیں گے

جو آج ہارے ہیں کل جیت لیں گے

سنو میری بہنو، سنو میری ماؤ

نہ گریہ کرو اور نہ آنسو بہاؤ

٭٭٭

 

 

 

 

اعتراف

 

عزیز ان وطن!میں ایک دنیا گھوم آیا ہوں

کہیں رویا، کہیں نوع بشر پرمسکریا ہوں

مجھے پھولوں کی خواہش تھی، مگر میں زخم لایا ہوں

مرا ہر زخم کہتا ہے، وطن والوں کو سمجھا دو

کہ پاکستان سے باہر، ہمارا کچھ نہیں یارو

سرمغرب بہت انسانیت پر بولنے والے

کہاں انصاف کا در، غیر پر ہیں کھولنے والے

یہ رنگت کی ترازو میں بشر کو تولنے والے

تمھیں انصاف کیا دیں گے، بشر کے حق کے متوالو

کہ پاکستان سے باہر ہمارا کچھ نہیں یارو

پرائے تو پرائے ہیں ، سوال اپنوں کے غم کا ہے

اگرچہ سب کو دعویٰ امتِ خیر الامم کا ہے

عرب اہل عرب کا ہے، عجم اہلِ عجم کا ہے

کہاں ہے ملتِ اسلامیہ، ملت کے دیوانو

کہ پاکستان سے باہر، ہمارا کچھ نہیں یارو

یہ گلشن، یہ بہاروں کا سماں ، کوئی نہیں دے گا

یہ سورج یہ ستاروں کا جہاں ، کوئی نہیں دے گا

زمیں کھوئی تو تم کو بھی اماں ، کوئی نہیں دے گا

وطن پہ مٹ گیا تو تم بھی مٹ جاؤ گے نادانو

اسی کو زندگی سمجھو، اسی پر زندگی وارو

کہ پاکستان سے باہر، ہمارا کچھ نہیں یارو

(خاکم بدہن)

٭٭٭

 

 

 

 

                خزینہ

 

٭

جسے میں زندگی سمجھوں وہ ساعت کیوں نہیں آتی

قیامت کو ملو گے تو قیامت کیوں نہیں آتی

 

غموں کی گرد شاید چھا گئی ہے دل پہ بھی ورنہ

نظر اس آئینے میں تیری صورت کیوں نہیں آتی

 

نہ جانے کانچ کے اس جسم میں پتھر کا دل کیوں ہے

تمہیں نفرت ہی آتی ہے، محبت کیوں نہیں آتی

 

خوشی بھی بانٹتا ہے حسبِ قسمت بانٹنے والا

کسی کے ہاتھ یہ حسب ضرورت کیوں نہیں آتی

 

کبھی ہمت ہوئی تو وضعداری سے یہ پوچھیں گے

جو دل میں ہے لبوں تک وہ شکایت کیوں نہیں آتی

 

خدایا سخت منکر ہیں محبت کے یہ زہرہ وش

تری جانب سے کچھ ان کو ہدایت کیوں نہیں آتی

 

بہت محدود ہے رقصِ ہوائے گل بھی اے صہبا

یہ رقاصہ ضرورت بے ضرورت کیوں نہیں آتی

٭٭٭

 

 

 

٭

شریک محفل آئندگاں ہوں

میں اپنی عمر سے آگے رواں ہوں

 

میں اپنے ہاتھ بھی شاید نہ آؤں

کہ میں اک تیر جستہ از کماں ہوں

 

جسے فردا کا سورج سن ہی لے گا

میں اس صحرائے شب کی وہ اذاں ہوں

 

غبار خاک کا ذرہ ہوں لیکن

فلک سے پوچھتا ہوں میں کہاں ہوں

 

گریباں گیر تاریکی میں صہبا

ستاروں کے تعاقب میں رواں ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

ہمہ سکوت جو صہبا دکھائی دیتا ہے

غزل سنائے تو دریا دکھائی دیتا ہے

 

یہ مجھ کو کیا سرِ دنیا دکھائی دیتا ہے

تماشا ہوں کہ تماشا دکھائی دیتا ہے

 

یہ کون دل کے اندھیروں سے شام ہوتے ہی

چراغ لے کے گزرتا دکھائی دیتا ہے

 

جو ظلمتوں سے گزرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں

نظر نہ آئے تو کیا کیا دکھائی دیتا ہے

 

کہاں ہے تو، تری زلفوں کا آبشار مجھے

ہزار خواب برستا دکھائی دیتا ہے

 

ازل سے اب تک زمانہ کچھ بھی کہے

مجھے تو ایک ہی لمحہ دکھائی دیتا ہے

 

صبا سے پھر ہوئیں باتیں جنابِ صہبا کی

پھر اس گلی کا ارادہ دکھائی دیتا ہے

٭٭٭

تشکر: مصنفہ جنہوں نے فائل فراہم  کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید