FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اطاعت رسولﷺ  دخول جنت کی بنیادی شرط

عمیر الیاس

 

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیّد الانبیاء والمرسلین ، امّا بعد، قال اللہ تعالیٰ و ما اٰتاکم الرسول فخذوہ و ما نھاکم عنہ فانتھوا (الحشر آیت ۷)

اللہ تعالیٰ کا انسان پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس کی ہدایت و راہنمائی کے لئے وقتاً فوقتاً اپنے پیغمبر اور رسل بھیجے تاکہ وہ صراطِ مستقیم کی طرف اس کی راہنمائی کر سکیں۔

جو شخص بھی انبیاء کرام ورسل عظام کی اتباع کرے گا تو وہ جنت کا وارث بنے گا ، بصورتِ دیگر قیامت والے دن اس کا محاسبہ ہو گا۔ قرآنِ مقدس میں اللہ تعالیٰ نے رسولوں کی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ :

وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ (النساء آیت ۶۴)

ترجمہ: ہم نے رسولوں کو اسی لئے بھیجا کہ اللہ کے حکم کے مطابق ان کی اطاعت کی جائے

لیکن ہر رسول کی رسالت اور ہر نبی کی نبوت ایک خاص اور محدود وقت تک کے لئے تھی، جبکہ ہمارے نبیﷺ  کی نبوت و رسالت دائمی ہے،کیونکہ ان پر انبیائے کرام کی بعثت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے، اب تمام انسانوں کی دنیاوی اور اخروی کامیابی کا دار و مدارسیدنا محمدﷺ  کی اتباع پر ہے جبکہ ان کی مخالفت کرنا سراسر گھاٹے اور خسارے کا سودا ہے۔

سیدنا محمدﷺ  کی اتباع قرآن و حدیث کی روشنی میں

فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا   (الاحزاب:۲۱)

(مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے، جو بھی اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہو۔

نمونہ اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کو اپنے سامنے رکھ کر اس کے سانچے میں دوسری چیز کو ڈھالا جائے، تو رسول اللہﷺ  کے نمونہ ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہﷺ  کی حیات مبارکہ کو اپنے سامنے رکھ کر اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالا جائے اور ہر معاملے میں ان کی فرمانبرداری کی جائے۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا    ؀( النساء۵۹)

’’اے ایمان والو! اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان حاکموں کی بھی جو تم میں سے ہوں۔ پھر اگر کسی بات پر تمہارے درمیان جھگڑا پیدا ہو جائے تو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس معاملہ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو۔یہی طریق کار بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے۔‘‘

اطاعتِ رسول کی اہمیت اور اس کی فضیلت کا اندازہ اسی بات سے ہی ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی اطاعت کو در حقیقت اپنی اطاعت قرار دیا ہے۔

من یطع الرسول فقد اطاع اللہ، (النساء۸۰)

’’جس نے رسول کی اطاعت کی، تو در حقیقت اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘

ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے پیغمبر کی اطاعت کرنے والوں کی جزا کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ

وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِیْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕکَ رَفِیْقًا    (النساء:۶۹)

اور جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرتا ہے تو ایسے لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ اور رفیق ہونے کے لحاظ سے یہ لوگ کتنے اچھے ہیں۔‘‘

رسول اللہﷺ  کی اطاعت اللہ کی محبت اور جنت حاصل کرنے کا نسخہ

باری تعالیٰ نے قرآن مقدس میں اپنی محبت کو اپنے رسول محمدﷺ  کی اتباع و فرمانبرداری کے ساتھ مشروط کر دیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ۭوَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ

آپ کہہ دیجئے: کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ خود تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘(اٰل عمران:۳۱)

لہٰذا جو شخص بھی اللہ کے نبیﷺ کی اطاعت کرے گا تو اس کو اللہ کی محبت تو حاصل ہو ہی جائے گی، اس کے ساتھ ساتھ دوسرا انعام بھی مل جائے گا اور وہ ہے گناہوں سے بخشش، جیسا کہ مذکورہ آیت میں ہے۔

 اور رسول اللہﷺ  کا فرمان ہے کہ :

کل امتی یدخلون الجنۃ، الا من ابیٰ، فقیل ومن یابیٰ یا رسول اللہ؟ قال من اطاعنی دخل الجنۃ ومن عصانی فقد ابیٰ(صحیح البخاری)

’’میری پوری امت جنت میں ہو گی سوائے جس شخص نے انکار کیا ، پس کہا گیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ  بلا کون شخص جنت میں جانے سے انکار کرسکتاہے ۔ فرمایا : جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو گیا اور جس نے میری نافرمانی کی گویا اس نے (جنت میں جانے سے ) انکار کر دیا۔‘‘

اس حدیث میں نبی کریمﷺ  نے جنت جانے والوں کی پہچان بتلائی ہے کہ جنت میں صرف وہی شخص داخل ہوسکے گا جو رسول اللہﷺ  کا تابع اور فرمانبردار ہوا، رسول اللہﷺ  کی اطاعت کئے بغیر جنت کی امید رکھنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے سامنے پانی کا گلاس رکھے اور پھر خواہش کرے کہ یہ گلاس خود بخود ہی اس کے منہ تک آ جائے، جس طرح یہ کام محال اور ناممکن ہے بالکل اسی طرح نبی کریمﷺ  کی اتباع کئے بغیر جنت کا حصول ناممکن ہے۔

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ  نیند کی حالت میں تھے، کہ آپﷺ  کے پاس چند فرشتے حاضر ہوئے، اور آ کر کہنے لگے کہ محمدﷺ  کیلئے کوئی مثال بیان کرو، (یعنی مثال کے ذریعے ان کی اہمیت اور حقیقت کو بیان کرو) ایک فرشتے نے کہا یہ تو سوئے ہوئے ہیں۔ تو ایک فرشتے نے جواب دیا کہ ان کی آنکھیں  اگرچہ بند ہیں لیکن دل بیدار ہے۔ پھر انہوں نے مثال بیان کی کہ ان کی مثال ایسے ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس میں انواع و اقسام کے کھانوں کا دسترخوان چُن دیا گیا۔ پھر اس نے ایک آدمی کو بھیجا کہ وہ لوگوں کو اس گھر کی طرف دعوت دے، اب جو شخص بھی اس دعوت دینے والے کی پکار پر لبیک کہے گا، تو وہ اس گھر میں داخل ہو گا اور دسترخوان سے کھا بھی سکے گا۔ لیکن جو اس کی بات نہ مانے گا وہ نہ ہی اس گھر میں داخل ہو گا اور نہ ہی دسترخوان سے کچھ کھا پی سکے گا۔ پھر ان فرشتوں نے اس مثال کی تعبیر یوں بیان کی کہ اس گھر سے مراد جنت ہے اور اس گھر کی طرف دعوت دینے والے محمدﷺ ہیں۔ لہٰذا جس نے ان کی طاعت کی، تو گویا اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے  ان کی نافرمانی کی تو در حقیقت اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔(صحیح بخاری)

رسول اکرمﷺ کے طریقے کے برعکس کوئی عمل قبول نہیں

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَکُمْ   (محمد :۳۳)

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کر لو۔‘‘

درج بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے وہاں اپنے پیغمبر کی اتباع اور فرمانبرداری کا حکم بھی دیا اور ساتھ ہی فرمایا کہ اپنے اعمال کو باطل نہ کرو، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ  اور اس کے رسولﷺ  کی اطاعت نہ کرنا ، اپنے اعمال کو باطل کر لینا ہے۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تین آدمی آپ کی عبادت کا حال پوچھنے آئے، جب ان سے بیان کیا گیا تو انہوں نے اپنی عبادت بہت کم خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کی برابری کس طرح کرسکتے ہیں، آپ کے تو اگلے پچھلے گناہ سب معاف ہو گئے ہیں، ایک نے کہا میں رات بھر نماز پڑھا کروں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، تیسرے نے کہا میں نکاح نہیں کروں گا اور عورت سے ہمیشہ الگ رہوں گا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا تم لوگوں نے یوں یوں کہا ہے؟ اللہ کی قسم! میں اللہ تعالیٰ سے تمہاری بہ نسبت بہت زیادہ ڈرنے والا اور خوف کھانے والا ہوں، میں روزہ رکھتا ہوں، اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور ساتھ ساتھ عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، یاد رکھو

فمن رغب عن سنتی فلیس منی

جو میری سنت سے روگردانی کرے گا، وہ میرے طریقے پر نہیں۔(بخاری، کتاب النکاح)

یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ نیک عمل بھی وہی مقبول ہو گا جو نبی کرمﷺ  کے طریقے کے مطابق اور آپﷺ  سے ثابت شدہ ہو، اپنی طرف سے کوئی بھی عمل مشروع کر کے اسے ثواب کا باعث قرار دینا، فی الحقیقت سنت رسولﷺ  سے اعراض کے زمرے میں آتا ہے جیسا کہ ربیع الاول کے مہینے میں میلاد کی محفلیں قائم کی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ ثواب کا کام اور رسول اللہﷺ  سے محبت کا ثبوت ہے۔

جس طرح نبی کریمﷺ  نے مذکورہ حدیث میں تین آدمیوں کے عمل کو رد کر دیا تھا کیونکہ ان کا یہ عمل رسول اکرمﷺ   کے طریقہ سے مطابقت نہیں رکھتا تھا، حالانکہ نماز پڑھنا، روزہ رکھنا اور عبادت میں ہی مگن رہنا بظاہر خود نیک عمل ہے لیکن نبی کریمﷺ  کے طریقہ کار کے موافق نہ ہونے کی وجہ سے اس نیک کام کو بھی آپﷺ  نے سنت سے متصادم قرار دیا اور انہیں سخت تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ میری سنت سے بے رغبتی ہے لہٰذا جو میری سنت سے اعراض کرے گا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، بالکل اسی طرح کوئی بھی ایسی عبادت یا ثواب کا کام جس کی کوئی نظیر آپﷺ  کی زندگی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرزِ حیات اور تابعینِ عظام رحمہم اللہ کے دور میں کوئی نمونہ تک نہ ہو اسے عبادت یا ثواب کا کام سمجھ کر کیا جائے تو اس کا حکم بھی ایک طرح سے سنتِ رسولﷺ سے بے رغبتی کے زمرے میں آتا ہے اگرچہ وہ اپنے گمان میں ایک نہایت مقدس عبادت سمجھتا رہے، لیکن اس شخص کے اعمال ضائع ہو جائیں گے۔

فرمان باری تعالیٰ ہے :

قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا   اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا

کہہ دیجئے کہ اگر (تم کہو تو) میں تمہیں بتا دوں کہ با اعتبار اعمال سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟وہ ہیں کہ جن کی دنیاوی زندگی کی تمام تر کوششیں بےکار ہو گئیں اور وہ اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔ (الکہف102-103)

مخالفینِ رسولﷺ  کا انجام

سیدنا ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اس دین کی مثال جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرما کر مبعوث فرمایا ہے اس آدمی کی طرح ہے کہ جو اپنی قوم سے آ کر کہے اے قوم میں نے اپنی آنکھوں سے دشمن کا ایک لشکر دیکھا ہے اور میں تم کو واضح طور پر ڈراتا ہوں تو تم اپنے آپ کو دشمن سے بچاؤ اور اس کی قوم میں سے ایک جماعت نے اس کی اطاعت کر لی اور شام ہوتے ہی اس مہلت کی بناء پر بھاگ گئی اور ایک گروہ نے اس کو جھٹلایا اور وہ صبح تک اسی جگہ پر رہے تو صبح ہوتے ہی دشمن کے لشکر نے ان پر حملہ کر دیا اور وہ ہلاک ہو گئے اور ان کو جڑ سے اکھیڑ دیا یہی مثال ہے جو میری اطاعت کرتا ہے اور میں جو دین حق لے کر آیا ہوں اس کی اتباع کرتا ہے اور مثال ان لوگوں کی جو میری نافرمانی کرتے ہیں اور جو دین حق لے کر آیا ہوں اسے جھٹلاتے ہیں۔(صحیح مسلم، کتاب الفضائل)

قیامت والے دن اطاعتِ رسولﷺ  کی خلاف ورزی کرنے والوں کی آہ و فغاں کو قرآن کریم نے اس انداز میں بیان کیا :

 یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْہُہُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰہَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا  ؀ وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا  ؀ رَبَّنَآ اٰتِہِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْہُمْ لَعْنًا کَبِیْرًا  ؀

اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے (حسرت اور افسوس سے) کہیں گے کاش ہم اللہ تعالٰی اور رسول کی اطاعت کرتے۔ اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی مانی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکا دیا ۔پروردگار تو انہیں دگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت نازل فرما۔(الاحزاب66-68)

ایک اور مقام پر فرمایا:

 یَوْمَىِٕذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُـسَوّٰى بِہِمُ الْاَرْضُ ۭ وَلَا یَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیْثًا     ؀

جس روز کافر اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نافرمان آرزو کریں گے کہ کاش! انہیں زمین کے ساتھ ہموار کر دیا جاتا اور اللہ تعالٰی سے کوئی بات نہ چھپا سکیں گے۔(النساء:42)

مزید فرمایا:

وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا       ؀یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا      ؀لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَاۗءَنِیْ  ۭ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا  ؀ (الفرقان27-29)

اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول اللہ کی راہ اختیار کی ہوتی۔ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آ پہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے والا ہے۔

اطاعتِ رسول بجا لانے والوں کی صفات

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا  ۭ  وَاُولٰۗىِٕکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ   ؀وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ فَاُولٰۗىِٕکَ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ ؀

ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ان میں فیصلہ کر دے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا ،یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔(النور51-52)

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں متبعِ رسولﷺ  بنائے اور حوضِ کوثر پر آپﷺ  کے ہاتھوں جامِ کوثر پینے والوں میں شامل فرمائے، کیونکہ اس مقام پر کچھ لوگوں کو دھتکار دیا جائے گا جس کی واحد وجہ یہ ہو گی کہ انہوں نے دینِ محمدیﷺ  میں بگاڑ پیدا کی ہو گی اور خود ساختہ طریقے رائج کئے ہونگے، اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے محفوظ رکھے اور شفاعت محمدی اور جنت کا حصول ہمارے لئے آسان فرمائے ۔آمین

٭٭٭

ماخذ:

http://www.usvah.org/index.php/component/content/article/42-2011-04-25-08-33-38/156-2012-08-26-07-41-24

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید