FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

اسلام میں مذہب کا تصور اور حسن عمل او ر اخلاقیات کی بنیادیں

 

                نقیب العطاس

ملیشیا

 

 

 

 

 

’دین‘ کی اصطلاح سے مذہب کا جو تصور ابھرتا ہے وہ اس سے کہیں مختلف ہے جو مغرب کی مذہبی تاریخ میں پایا جاتا ہے۔ جب ہم اسلام کو انگریزی میں مذہب یا religion کے نام کے حوالہ سے تعارف کراتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اس کے معنی دین یعنی اس اصطلاح میں شامل وہ تمام تفصیلات1؎   اور معنی کی وہ تمام پرتیں شامل ہوتی ہیں جن کا اظہار قرآن کریم سے اور عربی زبان سے ہوتا ہے۔

لفظ دین عربی کے دی ن سے نکلا ہے اور اس کے متعدد ابتدائی مفاہیم پائے جاتے ہیں جو حالانکہ بظاہر متضاد نظر آتے ہیں لیکن نظریاتی اعتبار سے باہم منسلک ہیں اور اس طرح ان تمام سے جو حتمی معنی ابھرتے ہیں وہ اس لفظ کو ایک شفاف اور ہم آہنگ مجموعہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مجموعہ سے میری مراد اسلام ہے جس میں تصور دین کے تمام متعلقہ امکانات اور راسخ معنی شامل ہیں۔ اسلام کیونکہ ایک فعال حقیقت کے روپ میں حیات انسانی میں ہونے والی ایک واردات قلبی اور ذہن کی گہرائی میں موجود ایک بنیادی حقیقت بن کر جلوہ گر ہوتا ہے اس لئے اس کے معنی میں محسوس ہونے والا یہ تضاد کسی ابہام کی بنا پر نہیں بلکہ خود فطرت انسانی میں پائے جانے والے اس تضاد کی بنا پر جس کا اظہارانسان اپنی فطرت کے عین مطابق کرتا ہی رہتا ہے۔ اپنی اس فطرت کے اس وفا دارانہ اظہار پر ان کا مکمل اختیار سچ کے اظہار میں انسان کی معقولیت پسندی اس کی معتبری اور ایمانداری پر بھی دال ہے۔

دین کی اصطلاح میں مضمر ابتدائی مفاہیم چار ہوسکتے ہیں (۱) احسان مندی (۲) عاجزی یا اطاعت شعاری   (۳) قوت ادراک (۴) فطری جھکاؤ یا میلان۔ اب جو کچھ پیش کیا جائے گا اس میں میری کوشش ان کے متعلقہ پس منظر میں رکھ کر ان کو واضح کرنے کی ہو گی۔ اور وہ اس طرح کہ ان کے وہ مطلوب اور مربوط حتمی معنی جو ان کے ایمان و یقین اور عمل و تعلیمات کی وضاحت کرتے اور جن سے مسلمانوں کی انفرادی اور بحیثیت ایک گروہ کے ان کی اجتماعیت ممتاز ہوتی ہے اور تکمیلی شکل میں جسکے اظہار کو ہم مذہب اسلام کہتے ہیں۔

فعل دانََ جو جو دین سے مشتق ہے اپنے اندر متعدد معنی سموئے ہوئے ہے جس میں مقروض ہونا، منت کش اور رہین منت ہونا، احسان مندی ممنونیت اور شکر گزاری کے معنی شامل ہیں۔اس میں احسان اور قرض کے دوسرے مختلف معنی بھی شامل ہیں جن میں کچھ باہم متضاد بھی ہیں۔مقروض یا احسان مند ہونے کی حالت میں ایک شخص یعنی دائن اپنے آپ کو قرض کے معاملات سے متعلق قوانین اور اصولوں کے سامنے اپنے آپ کو زیر کر دیتا اور ان کی وفاداری اور ماتحتی کو تسلیم کر لیتا ہے۔ اور ایک طرح سے یہی رویہّ قرض دینے والے کے تئیں بھی ہوتا ہے اور اسے بھی دائن ۲؎ ہی کے مقام پر فائز کیا جاتا ہے۔ مذکورہ صورتحال میں ایک مقروض شخص پابند اور احساس ذمہ داری کے تحت ہے یا دَین ہے۔ مقروض ہونے یا پابند اور احساس ذمہ داری کے تحت ہونے میں حالات کے مطابق فہم و بصیرت یعنی دَینُنہ اور ایقان و اثبات جرم یعنی ادَنہ بھی شامل ہیں۔ اس لفظ کے یہ تمام مفاہیم بشمول تضادات وہ عملی امکانات ہیں جو کسی ایسے منظم معاشرہ میں بھی ممکن ہیں جہاں شہروں جیسی تجارتی سرگرمیں ہوتی ہوں اور اور جن کا اظہار مُدُن یا مدائن سے ہوتا ہے۔ کسی شہر میں یعنی مُدینہ میں ایک قاضی، حکمراں یا گورنردَ یّان ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ محض دَانَ جیسا فعل ہمارے ذہن میں ایک ایسی تصویر لا کھڑی کر دیتا ہے جو ایک ایسے مہذب معاشرہ کی ہے جس میں قانون، انصاف اور حکمرانی ہے اور order پایا جاتا ہے۳؎۔ یہ لفظ کم از کم تصوراتی اعتبارسے ایک دوسرے کے فعل مدّنَ ۴؎ سے بھی بڑی گہری مناسبت رکھتا ہے جس کے معنی تعمیر کرنا یا شہروں کی بنیاد ڈالنا، تہذیبی رنگ یعنی نظم و ضبط عطا کرنا، نفاست پید ا کرنا اور خواص انسانی سے آراستہ کرنا ہوتے ہیں۔ اس سے ایک اور اصطلاح تمدّن نکلی ہے جس کے معنی تہذیب اور معاشرتی ثقافت کو شائستگی اور نفاست سے آراستہ کرنے کے ہیں۔ اس طرح مقروض ہونے کے ابتدائی مفہوم سے ہم نے متعّدد دوسرے باہم متعلق مفاہیم اخذ کیئے ہیں۔مثلاً اپنے آپ کو مقام و منصب سے گھٹانا، مالک کی خدمت کرنا، اور غلامی یا بندگی اختیار کر لینا۔ اس طرح دوسرا مفہوم جو منصف، حکمراں، اور گورنر سے ماخوذ معنی میں طاقت ور ہونا، قوت کا حامل اور مضبوط کے علاوہ مالک، مرتبہ میں بلند ہونے والا اور شاندار ہونا شامل ہیں۔ مزید معنی میں فیصلہ، تلافی، اور بدلہ اور کسی متعیّنہ وقت پر حساب کتاب کے معنی بھی شامل ہیں۔یہ بات بھی واضح ہے کہ ایک تصور دین سے نکلنے والے، قانون، نظام، عدل و اختیار، معاشرتی و ثقافتی نفاست اور شستگی کے اصول کے ہمراہ انھیں عملی جامہ پہنانے کے طریقے بھی ان کے معنی میں مستور ہونا چاہئیں اور یہ طریقے بھی یقیناً اس قانون نظام، عدل، ا اختیار اور ثقافتی و معاشرتی نفاست کا عکس اور ہم مزاج ہونا چاہئیں۔ یعنی جو مزاج قانون کا ہو عمل میں بھی اسی مزاج کا اظہار ہونا چاہئے۔ یعنی ’’ہونے کی حالت‘‘ مزاج اور عادت کی شکل میں ہو۔ اس تفہیم کے نتیجہ میں دین کے دوسرے مفاہیم سمجھ میں آتے ہیں۔مثلاً دین بمعنی رواج، عادت، میلان، اور فطری مزاج۔ اس بحث کے نتیجہ میں سمجھناچندا ں مشکل نہیں کہ دین کے بنیادی اور حقیقی مفہوم میں انسان کے اس فطری میلان کا اظہار ہوتا ہے جس کے تحت وہ ایک اجتماعی معاشرہ بنا کر قوانین کی پابندی اور عدل پر مبنی حکومت کا خواہاں ہوتا ہے۔دین سے جس نوع کی بادشاہت اور عالمی شہر کا جو تصور ابھرتا ہے اس کا سمجھنا اس لئے انتہائی ضروری ہے کہ انسانی کے مذہبی اور روحانی تجربات کے اظہار کے حوالوں اور تذکروں کے دوران اس لفظ کا بار بار اعادہ ہوتا رہے گا۔

ابھی تک ہم نے دین کا بنیادی تصور ہی بیان کیا ہے اور اسے چار ابتدائی مفاہیم کی شکل میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔یہ چاروں مفاہیم انسان کے ان رشتوں کے پس منظر میں بیان کئے گئے ہیں جو اس کی فطرت کا جز ہیں اور وہ کسی بیرونی اثر سے متاثر ہو کر ظاہر نہیں ہوتے۔ البتہ مذہبی تناظر یعنی انسان کا خدا سے تعلق اور انسانوں کے مابین تعلق کے سلسلہ میں خدائی تعلیمات کی روشنی میں یہ مفاہیم اپنے ابتدائی معنی کو بدلے بغیر ایک بڑے گہرے بنیادی اور شدید امتزاج سے گذرتے ہیں۔ اور یہ امتزاج ایک طرف تو ہمارے تجربی احساسات سے متغائر نہیں ہوتا تو دوسری طرف مذہب اسلام کے بیان کردہ عقائد، تعلیمات اور اعمال کے لئے بھی اجنبی نہیں ہوتا جو انفرادی یا اجتماعی طور پر مسلمانوں کے کردار کا جز ہیں۔

مقروض ہونے کے تصور کو ہم مذہبی اور روحانی پس منظر میں کس طرح بیان کرسکتے ہیں یہ خاصا دلچسپ سوال ہے۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ قرضہ کی نوعیت کیا ہے۔ اور یہ قرض کس سے لیا گیا ہے؟ ہمارا جواب یہ ہے کہ آدم در اصل اس خدا کا مقروض ہے جو اس کا خالق ہے۔ رزق عطا کرنے والا ہے اور جو اس کو وجود میں لایا اور اس وجود کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ اولاً آدمی کچھ بھی نہ تھا اس کا وجود ہی نہ تھا لیکن اب وہ ہے اور موجود ہے۔

یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا۔ پھر نطفہ کو ہم نے جما ہو ا خون بنا دیا، پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کر دیا۔ پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں، پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا، پھر دوسری بناوٹ میں اس کو پیدا کر دیا۔ برکتوں والا ہے وہ اﷲ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے۔۵؎

اپنے وجود پر سنجیدگی سے غور کریں تو سمجھ میں آئے گا کہ چند سال قبل ہمارا وجود بھی نہ تھا۔ آج موجود پوری انسانیت نہ تو موجود تھی اور نہ ہی اسے موجودہ وجود کے امکان کا ہی پتہ تھا۔ ابتدائے آفرینش سے یہی حقیقت حال رہی ہے۔ چنانچہ ہر وہ شخص جو غور و خوض کرتا ہے اسے وجدانی طور پر اس کا علم ہے کہ وہ اپنے وجود کے لئے اپنے والدین کا رہین منت ہے۔ کیونکہ وہ خود بھی اپنے خالق و رازق کے ذریعہ اسی عمل سے گذرتے ہوئے وجود میں آئے تھے۔ خون کی ایک منجمد پھٹکی جو نمو و ارتقا کے مراحل سے گذرتے ہوئے مکمل انسان کے روپ کھڑی ہے یہ خود سے اس مقام تک نہیں پہنچی۔ اس مقام پر پہنچ کر بھی وہ اپنے حواس خمسہ کے ارتقاء پر اسے کوئی اختیار حاصل نہیں اور نہ ہی اسے اپنی ابتدائی جنینی حالت میں کسی بھی نوع کی اختیاری حرکت میں کوئی عمل دخل ہے۔ چنانچہ قرآن نے کہا

اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں ! ہم سب گواہ بنتے ہیں۔ ۶؎

ہدایت یافتہ انسان کو اس کا مکمل فہم ہوتا ہے کہ اس کی ذات اور اس کی روح پہلے ہی بلکہ خود اپنے وجود میں آنے سے قبل خدائے واحد کو دنیا کا مالک اور آقا تسلیم کر چکی ہیں۔ اسطر ح ایک انسان اپنے خالق اپنے پالن ہار اور اپنے رازق کو ابتداء ہی سے پہچانتا ہے۔ اپنی تمام تر قوتوں اور صلاحیتوں کے لئے وہ اپنے خالق کا منت کش ہونے کی بنا پر وہ قرضِ تخلیق اور قرضِ وجود میں اس طرح مکمل طور پر گُندھا ہوا ہوتا ہے اور پیدا ہوتے ہی اور عالم وجود میں آتے ہی اتنے عظیم قرض تلے دبا ہوتا ہے کہ اس کے پاس اپنا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ دیکھتا ہے کہ ہر وہ چیز جو اس کے لئے ہے، اس میں موجود ہے یا اس کے ذریعہ ہے۔ اس کا مالک بھی خالق ہی ہے وہی خالق جس کی ہر شئے ملکیت ہے۔ قرآن کریم کے درج ذیل الفاظ اسی منشا کا اظہار کرتے ہیں۔

بیشک (بالیقین) انسان سر تا سر نقصان میں ہے۔۷؎

اس قرض کی ادائیگی کے لئے اس کے پاس اپنا کچھ بھی نہیں سوائے اس کے کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ اس کی ذات ہی اس قرض کا اصل جوہر ہے اور قرض کی ادائیگی خدا کی طرف اس کی مراجعت ہی کے ذریعہ ممکن ہے جو اس کا مالک حقیقی ہے۔ خود اس کی ذات ہی وہ قرض ہے جسے مالک حقیقی کی طرف پلٹنا چاہئے۔ قرض کی واپسی کا   مطلب ہے خدا کے لئے اپنے آپ کو تیا گ دینا یعنی اپنے مالک اور آقا کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دینا۔ اس کے سامنے اپنے آپ کو حقیر کر دینا۔ اس لئے رُشد و ہدایت سے منّور شخصیات پورے اخلاص اور زندہ ضمیری کے ساتھ اپنے آپ کو خدا کی غلامی میں دے دیتے ہیں اور اس طرح اس کے احکام کی پابندی کرتے اور اس کے حرام و حلال کی پیروی کرتے اور اس کے قوانین کی ہدایات کو زندگی کا جز بنا تے ہیں۔مراجعت یا واپسی کا یہ مذکورہ بالا تصور لفظ ’دین‘ کے تصوراتی ڈھانچہ سے ہی ظاہر ہے کیونکہ جیسا کہ میں واضح کرونگا کہ اس کے معنی ایک ایسی مراجعت کے ہیں جو فطرت کی طرف ہو اور فطرت روحانی فطرت ہے نہ کہ طبعی۸؎ ۔ یہ بھی واضح رہے کہ بقول قرآن کریم۔

بارش والے آسمان کی قسم !۔۹؎

اس آیت میں لفظ ’’رجع‘‘ کی تشریح بارش سے کی گئی ہے اس کے لفظی معنی واپسی کے ہیں ۱۰؎ ۔ یہ تشریح اس لئے اختیار کی گئی ہے کہ خدا اسے بار بار واپس لاتا ہے۔ اسے اچھی واپسی، منافع، فائدے اور حاصل کے معنی میں لیا گیا ہے۔ رجع کو ربح کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔۱۱؎ جس کے معنی حاصل کے ہوتے ہیں جو ’خسر‘ یعنی نقصان کے متضاد ہے۔ مذکورہ بالا بحث میں اس کا حوالہ دیا جا چکا ہے۔ اب یہ مناسب ہے کہ ’دین‘ کا ایک ایسا بنیادی معنی جس کا ابھی تک ذکر ہو ا ہے اس کی بھی وضاحت کر دی جائے اور وہ معنی ہے ’’بار بار ہونے والی بارش‘۔ چنانچہ لفظ دین ایسی بارش کے معنی بھی دیتا ہے جس کے نتیجہ میں فائدہ اور حاصل (ربح) کی تکرار ہوتی ہے۔ چنانچہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ’قرض‘ کی ادائیگی کے لئے انسان کو چاہیے کہ وہ خدا کی یعنی اپنے مالک کی طرف پلٹے تو یہ پلٹنا دراصل پلٹ پلٹ کر آنے والی بارش کے مانند ہے۱۲؎ جو انسان کے لئے فائدہ کا ذریعہ ہے۔ درجہ ذیل قول کے معنی یہی ہیں۔

من دانَ نفسہ ر بح (جو اپنے آپ کو غلامی میں دے دیتا ہے وہ کچھ حاصل کرتا ہے)

اپنے آپ کو’’ غلامی میں دینے ‘‘۱۳؎   کی ترکیب ( دانَ نفسہہُ)کے معنی اپنے آپ سے دست بردار ہو جانے یعنی جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے اپنے اصل مالک کی طرف پلٹ جانے کے ہیں ۱۴؎۔ یہی معنی نبی کریم کے درج ذیل قول سے جھلکتے ہیں۔

[عقل مند وہ ہے جو اپنے آپ کو غلامی میں دے دیتا ہے اور اس کے لئے کام کرتا ہے جو بعد موت کے آنے والا ہے۱۵؎۔

وہ جو’ موت کے بعد کا ہے‘سے مراد وہ ہے جو اچھا شمار ہو، جزا یا اچھا بدلہ۔ یہ اچھا بدلہ اس باربار آنے والی بارش کی مانند ہے جو زمین کے لئے نفع کی پیامبر ہوتی ہے، اسے زندگی عطا کرتی اور اسے ایسی روئیدگی عطا کرتی ہے جو حیات بخش اور سودمند ہوتی ہے۔ زمین کو یہ زندگی عطا نہ ہو تو وہ مردہ اور بے جان ہی رہے۔ اسی طرح ’دین‘ انسان کو زندگی عطا کرتا ہے جن کے بغیر انسان بھی ویساہی رہے گاجیسا کہ وہ پہلے تھا یعنی مردہ اور بے حیات، قرآن کریم اس حقیقت کو بڑے بہترین پیرایہ میں بیان کرتا ہے۔

۔۔۔ آسمان سے پانی اتار کر، مردہ زمین کو زندہ کر دینا۔۔۔۱۶؎

اپنے مالک اور آقا کی طرف مراجعت میں وفاداری اور ایمانداری سے احکام خداوندی کی پیروی مناہی سے اجتناب اور اس کے احکام اور قوانین کی پابندی شامل ہے۔ جو شخص اس طرح عمل کرے گا اسے اس کا صلہ ملے گا۔ اور یہ صلہ کئی گنا ہو گا۔ اس سلسلہ میں قرآن کہتا ہے۔

ایسا بھی کوئی ہے جو اﷲ تعالیٰ کو اچھا قرض دے پس اﷲ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے گا۔۱۷؎

ایک قابل غور بات یہ ہے کہ یہاں قرض کی اہمیت بڑھانے کے لئے جس فعل کا استعمال کیا گیا ہے یعنی یُقرضوجو قَرَضَ اور قرض سے نکلا ہے اس کی تعبیر اس جیسی نہیں ہے جو دَین کی جگہ ہم استعمال کرتے رہے ہیں۔ اصل میں یہ لفظ صرف آدمی کے لئے مستعمل ہے جبکہ مذکورہ بالا قرض اس چیز کی واپسی کی طرف اشارہ ہے جسے اس کا اصل مالک اب واپس مانگ رہا ہے اور جو اصل میں اس کے پاس واپس جانی ہی ہے۔ آدمی یعنی انسان در اصل خدا کی ملکیت ہے اور اسے وجود ی شکل محض ایک وقت متعینہ کے لئے عطا کی گئی ہے۔ دوسری قَرَضن حَسنن کی اصطلاح کا تعین انسان سے ہے اور اس کی استعاراتی اہمیت ہے۔ اس کے اعمال صالحہ اور خدا کی غلامی ‘ جیسے اعمال دراصل اس کی اپنی ذات سے متعلق ہیں جن کی ادائیگی کی بناپر اسے اجر عظیم سے نوازا جائے گا۔ خدا جزا عطا کرنے والا اور بڑا ہی منصف یعنی الدیاّن ہے۔ وہ بادشاہ یعنی مالک ہے انصاف اور بدلے کے دن،یوم الحساب کا۔۱۸؎ خدا بادشاہ ہے اور بقیہ تمام پر اس کی بادشاہت اور اقتدار قائم ہے۔ مَلَکوت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اس کی مملوک ہے۔ یعنی مذہبی معنی میں دین غلامی کی حالت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۱۹؎۔ چند سطور قبل ہم نے آدمی کی اپنی ذات کی واپسی کو بمعنی خدا کے لئے یعنی اس کی خدمت کی خاطر تیاگ دینے کے لئے استعمال کیا تھا۔ اب یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ خدمت عام طرح کی کوئی خدمت نہیں جیسے کے دوسرے انسانوں اور اداروں کے لئے کی جاتی ہے۔اس کا تصور یہ ہے کہ جو بھی اس قسم کی خدمت دیتا ہے وہ آزاد ہے اور زر خرید یا بندہ بے دام نہیں بلکہ اپنی ذات کے اعتبارسے وہ اپنا مالک ہے۔ البتہ مملوک کا تصور خدمت گذارکو خدمت کی جانے والے کی ملکیت قرار دیتا ہے۔ یہ تصور اس اصطلاح میں محذوف ہے۔ مملوک دراصل مالک کا حامل ہے۔ چنانچہ خدا کی خدمت کرنے والے کو ہم خادم بمعنی غلام نہیں لیتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ وہ خدا کا عابد ہے اور صحیح معنی میں وہ خدا کا عبد ہے یعنی اس کا غلام ہے اور اس اصطلاح کی تعبیر میں یہ مضمر ہے کہ جس کی خدمت کی جائے اسے مالکانہ اختیار حاصل ہے۔ اس طرح مذہبی پس منظر میں ’عبد‘ ہی وہ صحیح اور مناسب اصطلاح ہے جو ایک ایسے شخص کے لئے استعمال ہونی چاہئے جس کو یہ معلوم ہو جائے کہ وہ مکمل طور پر خدا ہی کا مقروض ہے تو وہ خدمت خداوندی میں اپنے آپ کو خوار کر دے۔ خوار کر دینے کا عمل ’عبادہ‘ اور یہ خدمت ’عبادت‘ کہلاتی ہے۔ یہ ایسا شعوری اور برضا و رغبت عمل ہے جو صرف خدائے واحد کے لئے انجام دیا جاتا ہے اور وہ بھی اس شکل میں جو خدا ہی کی طرف سے متعین کی گئی ہو بشمول وہ عبادتیں جو اس نے تجویز کر دی ہیں۔ اس طرح خدا کی عبادت انجام دیکر در اصل انسان اس مقصد کی تکمیل کرتا ہے جو اس کی پیدائش اور اس کے وجود کے متعلق خدا نے واضح کیا ہے۔ قرآن کہتا ہے۔

میں نے جنات اور انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔۲۰؎

جب ہم کہتے ہیں کہ انسان اپنے وجود اور اپنی پیدائش کا مقصد پورا کر رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدائے کریم کی خدمت کا فریضہ اس کے نزدیک ایک عام عمل ہے کیونکہ ایسا کرنا اس کا فطری میلان ہے۔ خدا کی عبادت کرنے کا یہ فطری میلان بھی ’دین‘ کہلاتا ہے۔اس کا تذکرہ ہم نے ابتدائی بحث کے دوران دین کی تعبیر بطور رواج، عادات اور میلانات کے ذریعہ کیا تھا۔ البتہ مذہبی معنی میں یہ مخصوص طور پر اس فطری حالت یا وجود کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے ’فطرہ ‘ کہتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ دین کے معنی بھی فطرہ ہی کے ہیں۔۲۱؎   فطرہ دراصل وہ نقش ہے جس پر خدا نے ہر شئے کو پیدا کیا ہے۔ پیدا کرنے کا یہ خدائی طریقہ یعنی سنت اﷲ ہے۔ہر چیز اپنے لئے بنائے گئے نقش میں فٹ ہو جاتی اور اپنی مناسب جگہ پر متعین ہو جاتی ہے۔ یہ قانون خداوندی ہے۔ اس قانون کے سامنے سپر ڈال دینے سے یگانگت اور ایک رنگی اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ یہ دراصل اپنی جبلّت اور فطرت کو پہچان لینے کے مترادف ہے۔ اس کے برخلاف کرنے پر اختلاف،نزاع اور عدم اتفاق کی کیفیت پیداہوتی ہے اس لئے کہ اس طرح ہم اس چیز سے اپنی شناخت قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں جو خارجی ہے اور ہماری اصل فطرت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔یہ کائنات بمقابلہ خلائے بسیط ہے۔ یہ مجسم ہم آہنگی کے بر خلاف بد نظمی اور انتشار ہے۔ یہ عدل بمقابلہ نا انصافی ہے۔ جب خدا نے کہا ’’ کیا میں تیرا آقا نہیں ہوں ؟ ‘‘ تو فطرت انسانی کا جواب حقیقت حال کے مطابق یہی تھا۔’’ہاں ‘‘ یہ جواب خدا کے مطلق العنانی کو تسلیم کرنا تھا اور اس کے ساتھ ایک میثاق باندھنا تھا۔ جب اس دنیاوی حیات میں ہدایت یافتہ انسان اپنے ہر عمل کے دوران اس میثاق کو یاد رکھے گا تو اس طرح اس کی ہر عبادت اور راستبازی پر مشتمل کام اس کی زندگی اور اس کی موت گویا سب کچھ صرف اور صرف خدائے واحد کے لئے ہو گا۔ دین یعنی’ فطرہ ‘ کا ایک پہلو اس انسان کا میثاق کو عمل میں لانے سے متعلق ہے۔ مذکورہ بالا معنی میں سپردگی دراصل شعوری سپردگی ہے۔ سوچ سمجھ کر اور یہ جانتے ہوئے سپردکرنا ہے کہ یہ سپردگی اسے حاصل آزادی کے نقصان کا باعث نہیں ہوتی کیونکہ آزادی کے اصل معنی فطری ضرورت کے تحت عمل کرنے کے ہیں۔ ایک انسان جب اسطرح اپنے آپ کو سپرد کرتا ہے تو وہ اصل میں اپنے ’دین‘ کی بجا آوری کر رہا ہوتا ہے۔۲۲؎

سپردگی کا مفہوم در اصل سوچ سمجھ کر اور برضاء و رغبت اور شعوری سپردگی ہے۔ اگر اس کے برخلاف صورتحال ہو تو وہ حقیقی سپردگی نہ ہو گی۔ سپردگی کا تصور شاید ہر مذہب میں مشترک ہے بالکل اسی طرح جس طرح ایمان اور یقین پر ہر مذہب کی اساس ہوتی ہے۔ البتہ ہمارے خیال میں مذہب میں یہ سپردگی اپنے حقیقی معنی میں جلوہ گر نہیں ہوتی۔ یہ بھی واضح ہے کہ سپردگی نہ تو بعض لمحوں کی ہے اور نہ ہی ڈانوا ڈول۔حقیقی سپردگی تو ایک مسلسل عمل ہے اور زندگی میں ہر کردار کو محیط ہے۔ اور نہ ہی سپردگی محض ایک ایسی قلبی کیفیت کا نام ہے جس کا اظہار خارجی عمل میں نہ ہو۔ سپردگی کا مطلب قوانین خداوندی کی فرمانبرداری ہے۔ لفظ اَسلَم َ دراصل اسی مفہوم کا غماز ہے اور قرآن اسی مفہوم کی ادائیگی کرتے ہوئے کہتا ہے۔

باعتبار دین کے اس سے اچھا کون ہے؟ جو اپنے کو اﷲ کے تابع کر دے۔ ۲۳؎

یہاں دین سے مراد صرف اور صرف اسلام ہے۔ یقیناً دین کی اور شکلیں بھی موجود ہیں لیکن جہا ں سپردگی مکمل اور صرف خدا کے کے لئے ہے وہی دین بہترین اور خدا کو مقبول بھی ہے۔

جو شخص اسلام کے سوا اور دین کی تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا۔ ۲۴؎

قرآن کہتا ہے۔

بے شک اﷲ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔۲۵؎

قرآن کے مطابق ایک انسان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ دین کے بغیر رہ سکے اس لئے کہ خدا کی مرضی کے آگے ہر ایک کو سپرڈالنا اَسلَمَ ہی ہے۔ چنانچہ ’دین‘ اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اسلام جس بنیاد پر دوسرے مذاہب سے مختلف ہے وہ اس کا تصور سپردگی ہے جو خلوص پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ خدا کی مرضی کے تئیں قطعی اور کامل ہے۔ اس سپردگی کا عملی اظہار اس قانون کے تئیں وفاداری اور کلّی فرمانبرداری سے ہوتا ہے۔ جو وحی کے ذریعے انسان تک پہنچتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کا ضمناً اظہار قرآن کریم میں اس طرح سے ہے۔

کیا وہ اﷲ تعالیٰ کے دین کے سوا اور دین کی تلاش میں ہیں ؟ حالانکہ تمام آسمانوں والے اور سب زمیں والے اﷲ تعالیٰ ہی کے فرمانبردار ہیں خوشی سے ہوں یا ں ناخوشی‘ سے سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ ۲۶؎

سپردگی کی شکل ہی دراصل دین کی شکل متعین کرتی ہے اور اس شکل کی بنیاد پر ایک دین دوسرے دین سے ممتاز ہوتا ہے۔۲۷؎ یہی شکلیں دراصل ایمان و یقین کو متاثر کرتی ہیں۔ اصولوں او ر قوانین میں ظاہر ہوتی ہیں۔ یہی مذہبی رویوں اور اخلاقی صورتحال کی صورت گری کرتی ہیں۔ اور مجموعی طور پر ہم اپنی زندگی کو جس طرح خدا کے سپرد کرتے ہیں اس کا مکمل اظہار در اصل تصور ملّت سے ہوتا ہے۔ اسلام ملت ابراہیم کی پیروی ہے جو دوسرے انبیاء کرام کی پیروی بھی ہے۔ یہی ملّت در اصل دین کی صحیح شکل یعنی دین القیم ہے کیونکہ بقیہ ملتوں کے درمیاں انھیں حضرات کی ملت صحیح معنوں میں دین حنیف یعنی الا سلام کی طرف مائل تھی۔مذہبی ایمان اور یقین اور قانون اور شعائر میں اسلام ان کی آرزوؤں اور توقعات کا اظہار تھا اور اس طرح وہ مسلمان تھے۔البتہ اپنے خارجی اظہار میں اسلام رسول اﷲ کے ذریعہ تکمیل کو پہنچا۔ دوسرے مذاہب میں سپردگی کی شکلیں اپنی ثقافتی روایتوں کی روشنی میں پنپی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ان کا تعلق ملت ابراہیمی سے ہی ہو۔ اس طرح اہل کتاب کے دین میں ان کی اپنی ثقافتی روایت اور وحی کا ایک ملغوبہ پایا جاتا ہے۔ سطور بالا میں سپردگی کی مختلف شکلوں کے درمیاں غیر مخلصانہ سپردگی کا اشارہ در اصل اس صورتحال کی طرف ہے۔۲۸؎

صحیح معنوں میں فرمانبرداری اور سپردگی کا جس طرح مختصر تذکرہ یہاں کیا گیا ہے اس کے نتیجہ میں دین کی جو شکل ابھرتی ہے وہ ایک زندہ حقیقت کے روپ میں اسلام میں پائی جاتی ہے۔اسلام ہی حقیقی اور مکمل دین کی شکل ہے کیونکہ مکمل خود اظہاری اور تخلیقی ذرائع کا مکمل اظہار اسلام ہی میں ہے۔ اسلام حقیقی معنوں میں اسی نقش اور نمونہ کا اظہار ہے جس کے تحت خدا اس کائنات کو قائم کئے ہوئے ہے۔ یہ در اصل اس کائناتی نظم کا دنیاوی اظہار ہے جو معاشرتی اور سیاسی سطح پر کارفرما نظر آتا ہے۔ اسلام کا معاشرتی نظام انسانی زندگی کے طبعی مادّی اور روحانی پہلوؤں کو اس طرح محیط ہے کہ فرد و اجتماع دونوں کے لئے عدل و انصاف کو یقینی بناتا ہے۔فرد اپنے طبعی وجود میں اور اپنے روحانی وجود میں بھی اس عدل و انصاف کے تجربہ سے گذرتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں ایک مسلمان بیک وقت اپنی ذات بھی ہے اور اپنی برادری بھی اور یہ برادری فردِ واحد بھی ہے۔ کیونکہ اس فرد کی طرح ہر انفرادی رکن زندگی کے ایک ہی مقصد اور نصب العین کے حصول کے لئے کوشاں ہوتا ہے۔ اسلام کا معاشرتی نظام دراصل اس زمین پر اﷲ کی بادشاہت ہے جو تمام بادشاہوں پر محیط ہے اور جس کی مرضی،قانون، فرامیں اور احکام و مناہی کو مکمل اقتدار حاصل ہے۔ آدمی محض اس کا خلیفہ ہے جسے حکومت اور اختیار بطور امانت عطا ہوئے ہیں اور یہ حکومت اُسے خدا کی مرضی کے تحت اور اس کی خوشی کے لئے کرنا ہے۔لفظ حکومت یہاں موجودہ معاشرتی سیاسی پس منظر میں نہیں ہے۔اس کے ایک معنی بلکہ زیادہ بنیادی معنی دراصل کسی کی ذات کا اپنی ذات ہی کے ذریعہ حکمران ہونا ہے۔ کیونکہ امانت کے تصور میں ایک ذات کی اپنی ذات پر عدل قائم کرنے کی ذمہ داری اور آزادی کا تصور شامل ہیں۔ اس نقط نظر کی ہم مزید وضاحت کرینگے۔ کیونکہ اس میں اسلامی اخلاقیات کا بنیادی مآخذ پنہاں ہے۔ اسلام جیسا کہ ہم بار بار کہتے آئے ہیں ایک معاشرہ اور ضابطہ کا نام ہے۔البتہ اس میں فرد بڑا اہم ہے کیونکہ یہاں ہر فرد خدا کی عطا کی گئی صلاحیتوں اور قوتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی اس     ذمہ د اری کے احساس کے تحت مکمل آزادی کے ساتھ اپنے مقصود کے لئے اس راستہ میں ۲۹؎ تگ و دو کرتا ہے جس کی نشاندہی وحی الٰہی نے کی ہے۳۰؎ اور جن کی پیروی برادری کا ہر فرد کرتا ہے۔ چنانچہ جہاں ہر مسلم خدا کا خلیفہ ہے وہیں وہ اس کا غلام یعنی عبد بھی ہے جو اپنی خدمت اور جذبہ پرہیزگاری اور پرستش یعنی عبادت کی تکمیل کی جدو جہد اس طریقہ پر کرنا چاہتا ہے جو اس کے مالک یعنی خدا کے یہاں پسندیدہ ہے اور کیونکہ یہاں ہر فرد صرف خدا کو ہی جوابدہ ہے اس لئے اس معاشرتی ضابطہ بندی میں صحیح اور حقیقی وفاداری یعنی اطاعت بھی خدا یعنی بادشاہ حقیقی کے لئے ہے۔

ہم یہ بتا چکے ہیں کہ تصور ’دین ‘ ایک بادشاہت بالفاظ دیگر ایک عالمی شہر کا تاثرّ بھی پیش کرتا ہے اور تجارت اور خرید و فروخت کیونکہ شہروں کی زندگی ہے ا س لئے اس نوع کی سرگرمیاں بھی دین کے تصور میں شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن کریم بھی دنیاوی زندگی کو مثل تجارت پیش کرتا ہے۔ عالمی شہر یا بادشاہت کا جو تصور دین سے نکل رہا ہے اس میں روز افزوں تجارتی آمدو رفت کی سرگرمیوں کا اظہار ہوتا ہے۔ آدمی دراصل ایک بڑی ہی کڑی التجارہ میں مشغول ہے۔ ایک ایسی تجارت جس میں مال بھی وہ خود ہی ہے اور خریدار بھی خود ہی ہے۔ وہ خود ہی اپنی متاع ہے۔ اور اس تجارت میں اس کا نفع و نقصان خود اس کے احساس ِ ذمہ داری اور آزادی کو بروئے کار لانے پر منحصر ہے۔ وہ خرید و فروخت بیعہ اور تبادلۂ ما ل یعنی اِشترا تو کرتا ہے لیکن حقیقت میں وہ اپنی ذات کو خریدتا اور فروخت کرتا ہے۔ البتہ اس کی تجارت کی ترقی کا دارومدار تجارت کے متعلق اس کے معاہدوں، اس کے ارادوں اور خواہش پر بھی ہوتا ہے اور ارتقاء یعنی       ربیحعل التجارۃ اور نقصان ماربیحعل التجارۃ اس کے اپنے ارادوں اور خواہش پر منحصر ہے۔ اس صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کی ان سرگرمیوں میں شمولیت ایک انتہائی سنجیدہ عمل ہے۔اور کیونکہ یہ شمولیت اس نے جان بوجھ کر حاصل کی ہوتی ہے۔۳۱؎ وہ ایک محض کھانے پینے سونے اور نفسی خواہشات سے تمتع حاصل کرنے والا کوئی وحشی اور درندہ جانور نہیں ۳۲؎جس نے اپنے وجود سے عہدہ بر آ ہونے کی خاطر اپنی عظیم ذمہ داریوں اور آزادی کی حقیقت کو تسلیم کیا ہو وہ تو ایسا ہے کہ جس نے اپنی ذات کو اپنی حقیقی ذات سے بدلہ کر لیا ہے۔ یہ حقیقی ذات وہی ہے جس کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے۔

بلاشبہ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ا ن کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو خرید لیا ہے۔۳۳؎

اسلام سے مزّین آدمی کے تصور کے حوالے سے تصور دین در اصل ایک ایسے عظیم تر آدمی کی۳۴؎   آمد کا پیام دیتا ہے ذاتی ارتقاء کے تئیں جس کی تمنّائیں اور آرزوئیں بڑی بلند ہیں۔ یہ ذاتی ارتقاء اس کے علاوہ اور کیا ہے کہ اس کی مخفی طاقتیں اور صلاحیتیں حقیقی روپ میں ڈھل جائیں اور وہ انسان کامل بن جائے۔ یعنی اسلام کا ایک مدنی فرد، ایک عالمی شہری،ایک ایسی مذہبی و مہذّب زندگی گذارنے والا جس کے معاشرتی اور عملی ضابطوں کی بنیادیں واضح ہوں یعنی ایک ایسی شخصیت جس کے نزدیک قوانین الٰہی کی اپنی فرمانبرداری، عدل حقیقی کے حصول کی راہ میں جدّوجہد اور علم حقیقی کی جستجو، بنیادی فضائل ہوں۔ ایسی شخصیت کے عمل کا بنیادی مقصد، لافانی رحمتوں سے فیضیابی اور اعلیٰ ترین سلامتی کے مرحلے میں داخلہ ہے۔ حصول کی ان کیفیات سے پیشگی لطف اندوزی اس کے لئے شاید یہاں بھی ممکن ہے لیکن ان عنایات سے اس کی عزت افزائی تب ہی کی جائیگی جب وہ دوسرے عظیم شہر کے دروازے پر پہنچ کر اس کی سکونت اختیار کر کے اس بادشاہت کی شہریت حاصل کرے گا جہاں کی حتمی اور بنیادی نعمت بس بادشاہ کی جلوہ افروزیوں کا مشاہدہ ہی ہو گا۔جہاں اسلام الٰہی کائناتی سلسلہ کا نچوڑ ہے وہیں اس کا پیرو جسے اپنے مقام یعنی تقدیر کا شعور حاصل ہے اپنے طبعی وجود میں اس کا سموس کا نچوڑ ہے اور عالم کبیر کا نمائندہ ایک عالمِ صغیر ہے۔

لہٰذا جس طرح اسلام ایک مملکت کے مانند ایک معاشرتی یا سماجی نظام ہے اسی طرح دین اسلام کا آدمی (مسلمان) یہ جانتا ہے کہ وہ ایک چھوٹی سی مملکت کی شکل ہے اور کیونکہ خدانے انسان کی بعینہٖ خود اپنی شبیہہ پر تخلیق کی ہے اس لئے جملہ بنی نوع انسان کی طرح اس کے اندر بھی خالق کائنات کی صفات پائی جاتی ہیں۔ اب انسان جسم اور روح دونوں ہے، وہ بیک وقت جسمانی اور روحانی وجود رکھتا ہے اور اس کی روح اس کے جسم پر اسی طرح حکمرانی کرتی ہے جس طرح ا ﷲ تعالیٰ کائنات پر حکمرانی کرتا ہے۔ انسان اپنی دُہری فطرت کے مماثل دو روحیں یا نفوس رکھتا ہے ایک نفسِ اعلیٰ یعنی نفسِ ناطقہ (النفس الناطقہ) اور دوسرا نفس ادنیٰ یعنی نفسِ حیوانیہ (النفس الحیوانیہ)۔ دین کے تصوری ڈھانچے میں جس کا اطلاق موضوعی، ذاتی اور انفرادی معاملے پر ہوتا ہے، انسان کا نفس ناطقہ حکمران ہے اور اسے اپنے اقتدار کو عمل میں لاکر نفس حیوانیہ پر حکمرانی کرنا چاہئے اور کیونکہ نفس حیوانیہ اس کا محکوم ہے لہٰذا اسے اطاعت شعار اور فرماں بردار بنانا چاہئے۔ نفس حیوانیہ پر نفس ناطقہ کی مکمل اطاعت اور فرماں برداری اختیار کرنے سے قائم شدہ رشتے کو دراصل موضوعی، ذاتی اور انفرادی معنی میں دین یا اسلام سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس سیاق و سباق میں یہ نفس حیوانیہ ہی ہے جو خود اپنے آپ کو اطاعت اور بندگی کا پابند بناتا ہے اور اس طرح وہ اپنے آپ کو نفس ناطقہ کے اقتدار و اختیار کی طرف لوٹا دیتا ہے۔ جب رسول اکرمؐ نے فرمایا :

مو تو قبل ان تموتو

ّ                                             (مر جاؤ اس سے قبل کہ تم مرتے ہو)

یہ اسی قسم کا قول ہے کہ ’’ لوٹ جاؤ اس سے قبل کہ تم فی الحقیقت لوٹ جاؤ‘‘۔ اور یہ اپنے نفس کو اپنے نفس کی حقیقی یعنی نفس ناطقہ کا تابعدار بنانے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور یہ اِس نفس کی معرفت سے متعلق ہے کہ جب یہ کہا جاتا ہے :

من عرف نفسہٰ فقد عرف ربہٗ

ّ                              (جس نے پہچانا اپنے نفس کو پس پہچانا اس نے اپنے رب کو)

مزید برآں جب اﷲ تعالیٰ نے نسلِ آدم کے سامنے اپنی ربوبیت کا اعلان کیا تو اس نے انسان کے نفس ناطقہ یعنی روح سے ہی خطاب کیا۔ لہٰذا ہر ایک روح نے یہ الفاظ سُنے ’’ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ہر ایک نے جوا ب دیا ’’ ہاں ‘‘’’ کیوں نہیں ‘‘ اور اس طرح ہر ایک نے بذات خود اس کی شہادت دی۔ لہٰذااسلام میں داخل آدمی (مسلمان) جس کو ہدایت ملی ہے وہ ایسا عمل اختیار کرتا ہے جو خدا کے سچے بندے (عبد) کے شایان شان ہوتا ہے۔ ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں کہ انسان کی تخلیق اور زندگی کا مقصد خدا کی بندگی کرنا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ انسان کی طرف سے بندگی کا یہ عمل عبادت کہلاتا ہے اور اس طرح کی عبادت بندگی کے ان جملہ شعوری اور بہ رضا و رغبت اعمال و افعال کی طرف اشارہ کرتی ہے جو صرف خدا کے واسطے کئے گئے ہوں اور جن کو اﷲ تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے، ان میں مجوزہ عبادت بھی آ جاتی ہے۔ فی الواقعہ اب ہم مزید کہتے ہیں کہ مسلمان کے لئے اس کی پوری اخلاقی زندگی ایک مستقل عبادت ہے کیونکہ اسلام خود ایک مکمل طرز حیات ہے۔جب کسی شخص نے عبادت کے ذریعے سے اپنے حیوانی اور شہوانی جذبات کو دبانے میں کامیابی کر لی اور اس نے اپنے نفس حیوانیہ کو اپنے نفس ناطقہ کا مطیع و فرمانبردار بنا لیا تو اس شخص نے اپنی تخلیق اور زندگی کے مقصد کو پورا کر لیا اور اس معاملے میں آزادی کی تکمیل کو پہنچ گیا اور اعلیٰ درجے کا اطمینان حاصل کر لیا۔۳۵؎   اس طرح اس کا نفس ناطقہ، بے رحم قسمت، فسادی تنازع اور انسانی برائیوں کے جہنم سے آزاد ہو کر نفس مطمئنہ بن گیا۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ایسی کیفیت والے نفس ناطقہ کے لئے النفس المطمئنّہ کہا گیا ہے۔ یہی وہ نفس ناطقہ (روح) ہے جو بہ رضا و رغبت اپنے رب کی طرف لوٹ جاتا ہے اور اسی سے اﷲ تعالیٰ اپنے ان الفاظ میں مخاطب ہو گا:

’’(دوسری طرف ارشاد ہو گا ) اے نفس مطمئن چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے ) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں ‘‘ ۳۶؎

یہ نفس ناطقہ (روح) اس بندے (عبد) کا ہے جس نے اپنے رب کے ساتھ کئے ہوئے وعدے اور اپنے عہد کی مستقل طور پر پابندی کی ہے اور کیونکہ سچے اور وفادار عبد سے بہتر کوئی اپنے رب کو نہیں پہچانتا جو اپنی بندگی یا عبادت کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف قربت حاصل کر لیتا ہے۔ لہٰذا اپنی ارتقائی اور آخری منازل عبادت کا مطلب معرفت ہے۔ ۳۷؎

میں نے یہاں مذہب اسلام کے بنیادی بطن البطون کا محض ایک خاکہ پیش کیا ہے اور اس کا ایک عمومی جائزہ لیا ہے جس کو اگر چہ اس کی اُن دقیق ترین منطقی تفصیلات اور اس کی محیط کل ماہئیت کی حیثیت میں مفصل بیان کیا جا سکتا ہے جو فرد اور معاشرے میں بھی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ میں نے کہا ہے کہ اسلام فرد کا موضوعی اور ذاتی مذہب ہے نیز ملّت یا معاشرے کا بھی بلا شک وہی مذہب ہے۔۔۔۔ یہ ایک ہی مذہب کی حیثیت سے فر د کی منفرد ذات اور ایسی ہی منفرد ذاتوں پر مشتمل معاشرے میں بھی عمل درآمد کرتا ہے۔۳۸؎   ہماری اس تشریح میں یہ بات مضمر ہے کہ اسلام عقیدہ اور ایمان نیز بندگی میں امرو نہی کی اطاعت ہے، یہ زبان سے توثیق کی ہوئی قلب و عقل دونوں کی تسلیم و رضا اور عمل و فعل ہے ۳۹؎ یہ روح اور جسم کے درمیان قائم شدہ ہم آہنگ رشتہ ہے ؛ یہ خدا اوررسول اکرمؐ دونوں کی فرماں برداری اور اطاعت ہے؛ یہ کلمۂ شہادت کی صداقت کو دل و جاں سے تسلیم کر لینا ہے کہ سوائے اﷲ کے کوئی معبود نہیں ہے اور محمدؐ اﷲ کے رسول ہیں۔۔۔۔۔۔ہر مسلمان کی ذات نیز ملت کے اندر بحیثیت مجموعی عقیدے اور عمل میں ان سب باتوں کا معہ ان کے لوازمات کے یک جا ہونا اسلام ہے۔ اس طرح قائم شدہ ربط و اتحاد کے باہمی آہنگ اجزائے ترکیبی کے درمیان نہ تو کوئی تفریق ہوسکتی ہے اور نہ کوئی تقسیم۔ لہٰذا اسلام کے نزدیک بندگی میں ا طاعت گذار اور فرماں بردار (مسلم) ہوئے بغیر نہ تو کوئی سچا معتقد ہو سکتا ہے اور نہ مومن، نہ بغیر عمل اور فعل کے قلب و عقل کی زبانی توثیق سے حقیقی تسلیم و رضا ہوسکتی ہے، نہ رسول اکرمؐ کی اطاعت اور فرماں برداری کے بغیر اﷲ کی سچی اطاعت و فرماں برداری ہوسکتی ہے، نہ محمدؐ کو اﷲ کا رسول تسلیم کیے بغیر کلمۂ شہادت کی حقیقی معنی میں قبولیت ہو سکتی ہے کیونکہ آپؐ ہی نے سب سے پہلے کلمۂ توحید کا اعلان کیا ہے۔ میں نے خدا کی ربوبیت کے لحاظ سے خدا کے ساتھ روح کے عہد و پیماں کی قرآنی وحی کی بنیادی ماہئیت اور کائنات اور کائنات پر خدا کی حکم رانی کے مظہر کی حیثیت سے دین کے تصور کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، اور دین کے اس تصور اور عالم کبیر کے تصور اور انسان کے عالم صغیر ہونے کی حیثیت سے اس کے ساتھ متوازی اس رشتے کے مابین موازنہ کیا ہے جس میں انسان کا نفس ناطقہ (روح) اس کے نفس ِ حیوانیہ اور جسم پر اسی طرح حکمرانی کرتا ہے جس طرح خدا اپنی سلطنت پر حکمرانی کرتا ہے۔ روح کا خدا کے ساتھ عہدو پیماں اور اس رشتے کی ماہیت جس کا اظہار اس میثاق میں کیا گیا ہے دراصل تصورِ دینِ کی مرکزی حیثیت کا حامل ہے اور اسلام کی اصل بنیاد ہے، جس کی میں ابھی مزید تشریح کرونگا۔ خدا کے ساتھ یہ میثاق یا عہد نسل آدم کی جملہ روحوں کے ذریعے کیا گیا اور خدا نے ان سے مجموعی اور انفرادی دونوں طریقے سے خطاب کیا۔ یہ وہ میثاق تھا جس کو روحوں نے انفرادی نیز اجتماعی طور پر خدا کی ربوبیت کو تسلیم کرنے کے لئے کیا۔ خدا کو رب تسلیم کرنے کا مطلب خدا کو مالک،صاحب، حاکم، آقا، خالق، مربّی، معاون اور دست گیر تسلیم کرتا ہے کیونکہ یہ تمام معانی رب کے تصور میں موجود ہیں۔ خدا کے تعلق سے سب روحوں کا ایک ہی رُتبہ ہے یعنی وہ خدا کی رعیت، محکوم، مملوک، مقبوض، مخلوق، مربوب اور پروردہ ہیں۔اور کیونکہ اس میثاق کا تعلق بیک وقت منفرد روح اور بحیثیت مجموعی تمام روحوں سے ہے، لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ جب یہاں بحیثیتِ انسان ان کا ظہور دائرہ اسلام میں ہوا تو یہ تمام روحیں اجتماعی طور پر اس میثاق کی تعمیل کرنے کی غرض سے اپنی کوشش میں متحد ہو جاتی ہیں اور اسی طرح انفرادی طور پر کوشش کرتی ہیں۔ یعنی جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ اسلام ذاتی اور موضوعی نیز معاشرتی اور معروضی بھی ہے ۴۰؎   یہ فرد اور معاشرے کا ایک ہم آہنگ اور مربوط امتزاج ہے۔ وہ جو ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے ساتھ اخوت کے حیرت انگیز اور بے مثل اُس رشتے میں منسلک کرتا ہے جو نسل، قوم، زماں و مکاں کی قیود سے بالا تر اور خاندانی قرابت داری کے رشتے سے بھی زیادہ پائدار ہے سوائے اس میثاق کے اور کچھ نہیں کیونکہ وہ روحیں جو یہاں بحیثیت انسان ہیں جو اس میثاق کے پابند ہیں اور ایک دوسرے کو روحانی رشتے سے مثل بھائی کے جانتے ہیں۔ عالم بالا میں وہ (روحین )ایک دوسرے کی ہم سرشت تھیں اور یہاں وہ (بحیثیت انسان) ہم مشرب ہیں اور ایک دوسرے سے خدا کے لئے پیار کرتے ہیں۔ اگر چہ ایک مشرق میں ہوا ور دوسرا مغرب میں پھر بھی وہ ایک دوسرے کی بات سے راحت اور مسّرت محسوس کرتے ہیں اور جو بعد میں آنے والی نسل میں زندگی بسرکرتا ہے اس کو اپنے بھائی کے الفاظ سے ہدایت اور تشفی ملتی ہے۔ اس دنیا میں آنے سے بہت پہلے وہ ہم قسمت بھائی بھائی تھے اور اس دنیاوی قرابت داری میں پیدا ہونے سے قبل وہ حقیقی قرابت دار تھے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی اخوت کی بنیاد ہی میثاق ہے۔ مستحکم روحانی بنیادوں پر قائم مسلمانوں میں حقیقی جذبۂ اخوت ایسا ہوتا ہے جس کو دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کرسکتی اور جو فرد کو اسلامی معاشرے کے ساتھ اس طرح مربوط کرتا ہے کہ نہ تو فرد کی انفرادیت اور شخصیت کو کوئی نقصان پہنچتا ہے اور نہ معاشرے کے نظم سیاست اور اقتدار کو۔

اسلام کی سیاسی اور معاشرتی تنظیم میں خواہ وہ ایک شکل میں ہو یا دوسری میں وہی میثاق ان کی حقیقی بنیاد ہو جاتا ہے۔ مسلمان معاہدۂ عمرانی یا سماجی معاہدے کا پابند نہیں ہوتا اور نہ وہ معاہدۂ عمرانی یا سماجی معاہدے(Social Contract) کے نظریے کی وکالت کرتا ہے۔در اصل، اگر چہ وہ معاشرتی نظام ِ سیاست و اقتدار کی حدود کے اندر رہتا ہے اور کام کرتا ہے اور سماجی فلاح و بہبود کے کاموں میں شریک رہتا ہے، اور اگر چہ وہ ایسا طرز عمل اختیار کرتا ہے گویا ایک معاہدۂ عمرانی نافذ ہو، مگر پھر بھی اس کا انفرادی معاہدہ اس میثاق کا مظہر ہوتا ہے جو اس کی روح نے خدا کے ساتھ کیا ہے۔ کیونکہ یہ معاہدہ یا میثاق، فرداً فرداً ہر ایک روح کے ساتھ کیا گیا ہے اس لئے اسلام میں اخلاقیات کی غرض و غایت بنیادی طور پر فرد کے لئے ہے۔ جو کچھ مسلمان یہاں کرتا ہے وہ اُس کو اس طریقے سے کرتا ہے جس کو وہ اچھا سمجھتا ہے کیونکہ خدا اور اس کے رسولؐ نے اُس کو ایساہی بتایا ہے اور وہ امید کرتا ہے کہ اس کے اعمال و افعال کو خدا کی حمایت حاصل ہو گی۔ اس کے لئے نہ تو مملکت اور نہ معاشرہ اس کی وفاداری اور فرماں برداری کے حقیقی اور درست معروضات ہیں کیونکہ اس کے نزدیک مملکت اور معاشرے کے اس حد تک امتیازی حقوق نہیں کہ ایسا طرز عمل اختیار کرنا ان کے حق کی حیثیت سے اس پر واجب ہوتا ہو اور اگر وہ ایک اسلامی مملکت اور معاشرے میں رہتا ہے اور مملکت اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے کوشش کرتا ہے تو صرف اس لئے کہ وہ معاشرہ مسلم افراد پر مشتمل ہے اور ان کے ذریعے سے قائم کی ہوئی مملکت نے اپنی منزل مقصود کی حیثیت سے ایک اسلامی غرض و غایت کو برقرار رکھا ہے ورنہ وہ مملکت کی مخالفت کرنے کے لئے مجبور ہو جاتا ہے اور گمراہ معاشرے کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتا ہے اور معاشرے کے افراد کو ان کے اصل مقصدِ حیات کی یاد دہانی کراتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ آخری تجزیہ کی صورت میں انسان کی تلاش مسرت۔۔ ۔۔۔۔۔۔جیساکہ اخلاقیات کے سلسلے میں فلسفے میں کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔ ہمیشہ فرد کی اپنی ذات کے لئے ہوتی ہے یہ مجموعی وجود (یعنی گروہ یا جماعت) کی مسرت نہیں ہوتی جو انفرادی مسرت سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ فی الحقیقت ہر ایک انسان کو واقعی اپنی نجات کے لئے غور و فکر اور عمل کرنا چاہئے کیونکہ کسی دوسرے شخص کو اس کے اعمال کے لئے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا جب کہ ہر ایک انسان اپنی ذمہ داری کے بار کا متحمل خود ہوتا ہے۔۴۱؎ ؎ یہ’ مسرت ‘یا سعادت نہ تو انسان کے مادّی وجود سے متعلق ہوتی ہے اور نہ اس کی روح حیوانیہ یا جسم سے اور نہ یہ کوئی ذہنی کیفیت ہے۔۔۔۔۔۔ اس کا تعلق صداقت ِ مطلق کے ایقان اور اس عمل کی تکمیل سے ہوتا ہے جو اُس ایقان کی توثیق کے لئے کیا جاتا ہے اور ایقان ایک استمراری کیفیت ہے جو انسان کے اندر کی مستقل کیفیت سے وابستہ ہوتی ہے اور جس کو اس کا روحانی عضو، قلب، محسوس کرتا ہے۔ یہ قلب کا اطمینان اور سکون ہے؟ یہ علم ہے اور علم سچا اعتقاد ہے، یہ کائنات میں اپنے صحیح اور موزوں مقام اور خالق کے ساتھ اپنے حقیقی رشتے کو جانتا ہے، یہ وہ کیفیت ہے جس کو ’عدل‘ یا انصاف کہا جاتا ہے۔

اسلام میں جملہ نیکی مذہبی ہوتی ہے کیونکہ مذہب پوری زندگی کا مکمل طور پر احاطہ کرتا ہے۔ اس کا تعلق نفس ناطقہ کی اُس آزادی سے ہے جس کا مطلب اپنی ذات کے ساتھ عدل کرنے کی قوت ہے اور یہ نفس حیوانیہ اور جسم پر نفس ناطقہ کی حکم رانی، برتری، رہبری اور خبرگیری کو عمل میں لانے کے لئے بار بار رجوع کرتی ہے۔ اپنی ذات کے ساتھ عدل کرنے کی قوت خدا کے ساتھ کئے ہوئے میثاق کے ساتھ توثیق اور تعمیل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اسلام میں عدل کا وہ تصور نہیں ہے جس کا عمل در آمد دو فریقوں کے درمیان، یا معاشرے اور مملکت کے درمیان، یا حاکم اور محکوم کے درمیان،یا بادشاہ اور اس کی رعایا کے درمیان ہوتا ہے۔ ’’ کیا ایک شخص اپنی کے لئے غیر منصف ہو سکتا ہے؟‘‘ دوسرے مذاہب اور فلاسفہ نے اس سوال کا کوئی مستقل اور معقول جواب نہیں دیا ہے۔ مغربی تہذیب میں مثال کے طور پر اگر چہ یہ درست ہے کہ ایک شخص جو خود کشی کرتا ہے اس کو ایک غیر منصفانہ عمل کرنے کا مرتکب قرار دیا جا سکتا ہے لیکن ایسا صرف اس لئے سمجھا جاتا ہے کہ اس کی خود کشی مملکت کو ایک مفید شہری کی خدمات سے محروم کرتی ہے۔لہٰذا اس کا یہ غیر منصفانہ عمل اس کی اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ مملکت اور سماج کے لئے ہے۔ ہم نے کئی بار اس تصور کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ’عدل‘ کا مطلب ایسی مربوط کیفیت یا معاملات کی صورت حال سے ہے جس کے ذریعے ہر شے اپنے صحیح اور موزوں مقام پر ہوتی ہے جیسے کہ کائنات یا اسی طرح کی تعادل و توازن کی کیفیت خواہ اس کا تعلق غیر ذی روح اشیاء سے ہو یا ذی روح اشیاء سے۔ انسان کے تعلق سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ عدل کا بنیادی مطلب اس صورت حال سے ہے جس کے ذریعے سے وہ اپنے صحیح اور موزوں مقام پر ہوتا ہے۔ یہاں ’مقام‘ سے مراد محض دوسرے لوگوں کے لحاظ سے اس کی مجموعی کیفیت یا موقع و محل ہی سے نہیں بلکہ اپنے نفس کے لحاظ سے اس کی اپنی ذاتی کیفیت یا موقع و محل سے بھی ہے۔ لہٰذا اسلام میں عدل کا تصور توازن اور تعادل کے ان باہمی حالات کو نہیں بتاتا جو ایک شخص اور دوسرے شخص کے درمیان یا معاشرے اور مملکت کے درمیان ، یا حاکم و محکوم کے درمیان، یا بادشاہ اور اس کی رعایا کے درمیان ہوتے ہیں، بلکہ بدرجہ غایت اور بنیادی طور پر اصلی صورت میں یہ اس متوازن اور متنا سب تعلق کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ایک شخص اور اس کی ذات یا نفس کے درمیان ہوتا ہے اور ثانوی صورت میں وہ صرف اس کے اور دوسرے شخص یا اشخاص کے درمیان نیز اس کے اور اس کے ہم جنسوں، حاکم، بادشاہ، مملکت اور معاشرے کے درمیان موجود تعلق کی طرف اشارہ کرتا ہے۔’’ کیا کوئی شخص اپنے نفس کے لے ظالم ہوسکتا ہ‘‘؟ (یعنی کیا وہ اپنے نفس پر ظلم کرسکتا ہے؟)۔ ہم اس کا جواب اثبات میں دیتے ہیں اور مزید کہتے ہیں کہ دراصل عدل اور ظلم کا آغاز اور انجام نفس کے ساتھ ہوتا ہے۔ قرآن پاک بار بار اس بات پر زور دیتا ہے کہ جب کوئی شخص غلط کام کرتا ہے تو وہ اپنے نفس کے لئے ظالم ہو جاتا ہے اور اس طرح نفس پر جو کیفیت وہ طاری کرتا ہے وہی ظلم ہے۔۴۲؎   اس بات کو سمجھنے کے لیے پھر ہمیں خدا کے ساتھ نفس ناطقہ (روح) کے کیئے ہوئے میثاق اور اس عقیدے کی طرف اشارہ کرنا ہو گا کہ انسان اپنے دو نفوس اور جسم کے لحاظ سے دوہری فطرت کا حامل ہے۔ در اصل انسان کا نفس ناطقہ ہی حقیقی انسان ہوسکتا ہے۔ اگر بحیثیت انسان اپنی زندگی میں وہ اپنے نفس حیوانیہ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اس کو زک پہنچائے اور جس کے نتیجے میں وہ ایسے کام کرتا ہے جن کو اﷲ تعالی ٰ نے منع فرمایا ہے اور اﷲ کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں یا وہ خدا کے وجود سے بالکل انکار کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے خدا کی ربوبیت کی اپنی اس توثیق کو رد کر دیا جس کا عہد اس کے نفس ناطقہ نے خدا کے ساتھ کیا تھا۔ وہ خدا کے ساتھ کئے ہوئے اپنے ذاتی میثاق اور انفرادی معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ لہٰذا جس طرح کوئی شخص اپنے معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اپنے اوپر آفت لاتا ہے بالکل اسی طرح جو شخص کوئی غلط کام یا برائی کرتا ہے، خدا کی نافرمانی کرتا ہے یا خدا کے وجود سے انکار کرتا ہے تو وہ اپنے نفس ناطقہ کے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے جو اس نے خدا کے ساتھ کیا تھا، اس طرح وہ اپنے نفس ناطقہ پر ظلم کرتا ہے اور ظالم ہے۔ اور ایسا کر کے اس نے اپنے نفس ناطقہ کے ساتھ جھوٹ بھی بولاجس کے لئے قرآن پاک میں لفظ کذب آتا ہے۔ اس مختصر جائزے کی روشنی میں یہ بات جاننا بھی نہایت اہم ہے کہ اسلام میں اجسام کے حشرو نشور کا عقیدہ اس لئے بنیادی ہے کہ قیامت کے دن نفس ناطقہ (روح) اپنے سابقہ جسم میں آ کر اُن افعال سے انکار نہیں کرسکے گا جو اس کے جسم نے کئے ہیں کیونکہ اس کی آنکھیں، زبان، ہاتھ، پیر یا اخلاقی فعل اور حسن عمل کے اعضائے جسمانی اس کے اس ظلم کی گواہی دیں گے جو اس نے اپنی ذات پر کئے ہیں۔۴۳؎ اگر چہ اسلام میں بظاہر ظلم کا تعلق انسان اور خدا کے درمیان، انسان اور انسان کے درمیان، انسان اور اس کے نفس کے درمیان ہے، مگر فی الحقیقت اول دو صورتوں میں بھی اس کا اطلاق انسان کی ذات پر ہی ہوتا ہے۔ اسلامی فلسفۂ حیات و کائنات اور روحانی بصیرت کے اعتبار سے خواہ انسان خدا کو نہ مانتا ہو یا خدا کی نافرمانی کرتا ہو یا کسی دوسرے پر ظلم کرتا ہو اصل میں یہ صرف اس کی اپنی ذات ہی ہے جس پر وہ ظلم کرتا ہے۔ عدل کا متضاد ظلم ہے جس کا مطلب ہے کسی چیز کو ایک ایسے مقام پر رکھنا جو اس کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ کسی چیز کو بے محل یا غلط موقع پر رکھنا ظلم ہے، بدسلوکی کرنا یا تشدد کرنا ظلم ہے، حدِ اعتدال یا حد سے کم و بیش تجاوز کرنا ظلم ہے، نقصان اٹھانا یا خسارے میں رہنا ظلم ہے، راہ مستقیم سے انحراف ظلم ہے۔ اس طرح جب کوئی شخص ظلم کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے اپنے نفس ناطقہ پر ظلم کیا کیونکہ اس نے اپنے نفس ِ ناطقہ کو ایسے مقام پر رکھ دیا جو اس کا نہیں ہے، اس نے اُس کے ساتھ بُرا برتاؤ کیا، اس نے اُس کو اپنی اصلی فطرت سے کم و بیش تجاوز کرنے پر مجبور کیا، اس نے اس کو راہ مستقیم سے منحرف کیا، جھوٹ بُلوایا اور اُس کو نقصان برداشت کروایا۔ اس طرح اس نے جو کچھ بھی کیا اس سے کسی نہ کسی طرح خدا کے ساتھ کئے ہوئے اس کے اپنے میثاق کی خلاف ورزی عائد ہوتی ہے۔ جو کچھ ظلم کے بارے میں کہا گیااس سے یہ واضح ہے کہ ’عدل‘ میں کسی شخص یا چیز کے صحیح اور مناسب مقام کا، غلط کے مقابلے میں درست کا، حد اور حد اعتدال کا، نقصان کے برخلاف روحانی مفاد کا، اور کذب کے برعکس صدق کا علم مضمر ہے۔ یہی سبب ہے کہ اسلام میں علم (العلم، معرفۃ) کو اہم ترین حیثیت حاصل ہے۔ قرآن پاک میں ہمیں آٹھ سو سے زائد علم کے حوالوں کا پتہ چلتا ہے۔ علم کے معاملے میں بھی انسان کو علم کے ساتھ عدل کرنا ہے یعنی اس کی افادیت کی حد کو جاننا اور اس کی حد سے کم و بیش تجاوز نہ کرنا، اپنی ذات کے لئے اس کی افادیت کے سلسلے میں اس کے مختلف ترجیحی مدارج کو جاننا، یہ جاننا کہ کہاں رُک جانا اور کیا حاصل کیا جا سکتا ہے اور علم کے ہر ایک معلوم کو اس کے صحیح مقام پر اس طرح رکھنا کہ جو کچھ معلوم کیا ہے وہ جاننے والے کے اندر ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔یہ جان لینا کہ کونسا علم کہاں رکھا جائے ’حکمت ‘ہے۔ اس کے برعکس علم بغیر کسی نظم و ضبط کے اور اس کی تلاش بغیر کسی دستور العمل کے انتشار اور اپنی ذات پر ظلم کرنے کی طرف جاتا ہے۔۴۴؎

علم جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک وہ جو انسان کو اﷲ کی طرف سے عطا کیا جا تا ہے۔ اور دوسرا وہ جو تجربے اور مشاہدے پر مبنی انسان اپنی عقلی تحقیق کی ذاتی کوشش کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔۴۵؎ اوّل قسم کا علم انسان کو صرف خدا کی بندگی اور عبادات کے اعمال اور افعال کے وسیلے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے جس کا انحصار خدا کے رحم و کرم، انسان کی اپنی بالقوہ موجود روحانی قوت اور اس (علم) کو حاصل کرنے کی اس کی خدا داد صلاحیت پر ہوتا ہے، انسان اس کو براہ راست روحانی ذوق اور کشف کے ذریعے سے حاصل کرتا ہے۔ اس قسم کے علم (معرفت) کا تعلق انسان کے نفس یا روح کے ساتھ ہوتا ہے، اور ایسا علم۔۔۔۔۔۔۔جیساکہ ہم کائنات اکبر اور کائنات اصغر کے درمیان پائے جانے والے مماثل رشتے کا سرسری طور پر ضمناً ذکر کر چکے ہیں خدا کی معرفت کی بصیرت عطا کرتا ہے، اور یہی سبب ہے کہ یہ سب سے اعلیٰ اور افضل علم ہے۔ چونکہ اس قسم کا علم قطعی طور سے خدا کے رحم و کرم پر منحصر ہوتا ہے اور اس کے امکانی حصول کے لئے خدا کی بندگی اور عبادت کے اعمال اور افعال واجبات کی حیثیت سے عائد ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان شرائط اولین سے واقفیت لازمی ہو جاتی ہے، اور اس میں اسلام کے ارکان (ارکان اسلام اور ارکان الایمان) کا علم، ان کے معانی، مقاصد اور صحیح ادراک نیز روزمرہ کی زندگی اور معمول میں ان کا نفاذ شامل ہے۔ ہر ایک مسلمان کو ان واجبات کا علم ہونا چاہئے اور اسلام کے بنیادی ارکان اور توحید، کو سمجھنا چاہیے اور اس علم کو خدا کی بندگی اور عبادت کے افعال و اعمال میں عملی جامہ پہنانا چاہیے تاکہ ہر مسلمان پہلے ہی سے فی الواقعہ پہلے قسم کے علم کی ابتدائی منزل میں داخل ہو کر خدا کی طرف جانے والی صراط مستقیم پر گامزن ہونے کے لیئے کمر بستہ ہو جائے۔ اس مقدس سفر حیات کے راستہ پر اس کی آئندہ ترقی اس کی ذاتی کارکردگی اور مقصد کے خلوص پر منحصر ہے۔ کیونکہ کچھ تو خدا کی بندگی اس طرح کرتے ہیں گویا وہ خدا کو دیکھتے ہیں اور دوسرے اس کی بندگی اس طرح کرتے ہیں گویا خدا ان کو دیکھتا ہے، اول الذکر کے مقدّس سفر حیات کی ترقی بہَ نسبت موخرا لذکر کے وہ ہے جو افضل ترین نیکی (احسان) کی تشکیل کرتی ہے۔ اب رہا دوسرے قسم کا علم تو یہ علم تجربے اور مشاہدے سے حاصل کیا جاتا ہے اور یہ بدیہی نیز استخراجی ہوتا ہے اور یہ عملی قدر کے معروضات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ان دونوں قسم کے علم کے درمیان فرق کو ایک مثال سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ فرض کیجئے ایک شخص جو کسی کے پڑوس میں ابھی آ کر سکونت پذیر ہوا ہے تو پہلے پہل وہاں کا رہنے والا شخص ہمسایہ کو محض تعارف کے ذریعے سے جانتا ہے۔ اس کے بعد وہ محلے میں اس کو شکل و شباہت سے پہچان سکتا ہے، پھر وہ اس کے نام، ازدواجی حیثیت، اس کے بچوں کی تعداد اور اسی طرح کی دیگر تفصیلات کے بارے میں بذریعہ مشاہدہ معلوم کرسکتا ہے، دوسروں کی معلومات اور اپنی نجی تفتیش کے ذریعے سے اُسے اپنے ہمسایہ کے پیشے، کام کرنے کی جگہ اور منصب کے بارے میں پتا چل سکتا ہے اور مزید تحقیق سے وہ اس کی آمدنی کا بھی پتہ لگا سکتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے ہمسایہ سے براہ راست کوئی رابطہ قائم کیئے بغیر اس کے بارے میں اپنی تحقیقات کو جاری رکھ سکتا ہے اور اس کے بارے میں د وسری معلومات فراہم کرسکتا ہے مگر پھر بھی اس کی معلومات جان پہچان کی سطح تک ہی ہو گی بے تکلفی کی سطح تک نہیں چاہے وہ اپنے ہمسایہ کے بارے میں اس طرح سے حاصل کی ہوئی کتنی ہی زیادہ تفصیلات کا اضافہ کیوں نہ کر لے کیونکہ بہت سی ایسی اہم ذاتی تفصیلات ہوں گی جن کا اس کو کبھی پتا نہیں چل سکے گا۔ مثلاً اس کے دوست و احباب، اس کے اندیشے، اس کی پہچان، امیدیں، اس کے عقائد، موت و زندگی کے بارے میں اس کے خیالات، اس کے مخفی جذبات و تاثرات، اس کی نیک صفات اور ایسی ہی دوسری مزید تفصیلات۔ اب ہم فرض کریں کہ وہ شخص اُسی آدمی کے بارے میں براہ راست جاننے کا فیصلہ کرتا ہے اور خود کو اس سے متعارف کراتا ہے، اس سے اکثر و بیشتر ملاقات کرتا ہے اور اس کے ساتھ کھاتا، پیتا اور ہنسی مذاق کرتا ہے تب کہیں برسوں پرانی سچی دوستی اور پُر خلوص اختلاط کے بعد ہی شاید وہ اپنے دوست اور رفیق کے براہ راست اور بے تکلف اظہار کے ذریعے سے چشم زدن میں اس کی بہت سی ذاتی تفصیلات اور اس کے بہت سے خیالات اور جذبات و تاثرات میں سے کچھ کا پتا لگا سکے جن کے بارے میں وہ عمر بھر کی تحقیق و تفتیش اور مشاہدے کے ذریعے جاننے سے قاصر رہے گا۔ بے تکلفی اور گہرے مراسم کے نتیجے میں حاصل کی ہوئی یہ واقفیت بھی ہر گز مکمل نہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ آدمی اور اس کے دوست۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا بھائی یا بیوی بچوں، یا والدین، یا اس کے چاہنے والے کے درمیان کتنا ہی قریبی اور گہرا تعلق کیوں نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ اس کے سامنے راز کا وہ پردہ پڑا رہے گا جو چین کے مدّور ہاتھی دانت پر نقش در نقش اور پیچ در پیچ بنے ہوئے لامتناہی زنجیر کے مانند اس شخص کے اردگرد لپٹا رہتا ہے جس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہے۔ صرف اس شخص کے براہ راست انکشاف کے ذریعے سے یہ پردہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اور وہ شخص بھی بذات خود نفس کی اس بے پایا ں فطرت کے بارے میں بڑے غور و فکر کے بعد جو اس کی عرفانی تفتیش سے ہمیشہ گریز کرتی رہتی ہے تھوڑی بہت واقفیت حاصل کرے گا۔ لہٰذا وہ بھی سوائے اس کے جو کچھ اسے معلوم ہے کوئی اور انکشاف نہیں کرسکتا۔ ہر ایک انسان اس جزیرے کے مانند ہے جو انتہائی گہرے سمندر کے اندر اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے اور وہ تنہائی جو اس کا نفس محسوس کرتا ہے اس لئے قطعاً قائم بالذات ہوتی ہے کیونکہ وہ خود بھی اپنے نفس کے بارے میں مکمل طور پر نہیں جانتا۔ اس مثال سے ہم پہلے قسم کے علم سے مماثلت رکھنے والی متحقق بنیادی شرائط اخذ کرسکتے ہیں۔ اول اس شخص کے معروف ہونے کی خواہش جو اپنے بارے میں معلومات بہم پہنچاتا ہے۔ دوم اس طرح کا معلومات بہم پہنچانا ہم رتبہ وجود سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ اسی وجہ سے خیالات و جذبات کا تبادلہ ممکن ہے اور ان کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ سوم جو شخص کسی کے بارے میں جاننا چاہتا ہے تو اس کو اس شخص تک رسائی حاصل کرنے اور اس کو سمجھنے کے لئے حُسن اخلاق و آداب کے ان قواعد و ضوابط کی پابندی کرنی چاہئے جو اس شخص کو بھی قابل قبول ہوں جو معروف ہونے کا خواہش مند ہے۔ چہارم اپنے بارے میں اس کا معلومات بہم پہنچانا کافی عرصے تک دوسرے کے خلوص، وفاداری، محبت اور یقین لانے کی صلاحیت کو پرکھنے کے بعد پیداہونے والے اعتماد پر مبنی ہوتا ہے۔ یعنی وہ عرصہ جس میں دونوں کے مابین بے تکلفی اور گہری دوستی کا رشتہ مستحکم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ خدا کے ذریعے عطا کیے ہوئے علم کے معاملے میں ہے۔ پہلی شرط کے لحاظ سے اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے کہ اس نے انسان کو صرف اپنی بندگی کے لئے پیدا کیا ہے اور بندگی اپنے عمیق ترین مفہوم میں قطعاً معرفت ہے۔ لہٰذا اس کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ اس کی مخلوق اس کو پہچانے جیسا کہ حدیث قدسی میں اس کا ارشاد ہے:

کنت کنز ا مخفیااقاحببت ان اعرف فخلقت الخلق لکی اعرف

’’ ایک چھپا ہوا خزانہ تھا اور میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں لہٰذا میں نے مخلوق کو پیدا            کر دیا تاکہ میں اچھی طرح پہچانا جا سکوں ‘‘۔

اس طرح اﷲ تعالیٰ الہام کے ذریعے خود کو نفس ناطقہ پر ظاہر کرتا ہے جو روحانی ابلاغ اور معرفت کے اعضاء کا حامل ہے مثلاً قلب جو خدا کو پہچانتا ہے، روح جو اس سے محبت کرتی ہے، اور روح کا باطن(السَّر ) جو خدا کے دھیان میں غرق ہو جاتا ہے۔ اگر چہ نفس ناطقہ خدا کے وجود کی سطح کا نہیں ہوتا لیکن پھر بھی اس کے اندر ربّانی مبداء کی وہ چنگاری ہوتی ہے جو اس کو عالم بالا سے نازل ہونے والی اطلاع کو پانے اور ملنے والی اطلاع کو سمجھنے کا اہل بناتی ہے۔ اس سے ہم دوسری شرط کے لئے قیاسی تمثیل اخذ کرسکتے ہیں۔ تیسری شرط کی صور ت میں ہم کہتے ہیں کہ مشیت ایزدی کی سچی اطاعت اور قانون الٰہی کی مکمل فرماں برداری کے ذریعے انسان خدا تک رسائی حاصل کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ کے او امر و مناہی اور قوانین و ضوابط کی اپنے اندر شعوری عمل پذیری اور اﷲ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے مطابق فرائض و نوافل ادا کر کے عبادت کے ذریعے سے انسان اس منزل کو حاصل کر لیتا ہے جس میں خدا کی رحمت کے عطیہ کے طور پر عطا کئے ہوئے اس علم کے ذریعے سے خدا کے اعتماد اور دوستی کا مستحق قرار دیا جا سکتا ہے جس علم کو حاصل کرنے کی صلاحیت خدا نے اس کے اندر پیدا کی ہے حدیث قدسی میں اﷲ تعالیٰ کے یہ الفاظ ہیں :

لا یزال عبدی یتقرب الی باالنوافل

حتی احبہ فاذا احببتہ کنت سمعہ

الذی یسمع بہ و بصرۃ الذی یبصربہ

والسانہ الذی ینطق بہ و یدہ التی یبطش بھا

’’ میر ا بند ہ نوافل عبادت کے ذریعے میرے نزدیک آنے سے اس وقت تک نہیں رکتا جب تک میں اس سے محبت کرتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان ہوں اور وہ میرے ذریعے سنتا ہے، میں اس کی آنکھیں ہوں وہ میرے ذریعے دیکھتا ہے، میں اس کی زبان ہوں اور وہ میرے ذریعے بولتا ہے، میں اس کے ہاتھ ہوں اور وہ میرے ذریعے پکڑتا ہے۔‘‘۔

جہاں تک اعتماد کی چوتھی شرط کا تعلق ہے تو یہ تیسری شرط کا ہی ایک حصہ ہے جس کو پہلے ہی واضح کیا جا چکا ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح حاصل کیا ہوا علم دوسری قسم کے حاصل ہوئے علم کے مقابلے میں اعلیٰ ترین درجے کا اعتماد اور یقین عطا کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق انسان کے نفس ناطقہ یا اس کی روح اور اس کے اس میثاق کی تعمیل سے ہے جو اس نے خدا کے ساتھ کیا ہے۔ اس کے واجبات کا علم، جو دراصل اس عطا کردہ علم پر مبنی ہے، لاینحل طور پر اسلامی اخلاقیات اور حسن عمل (نیکی ) سے وابستہ ہے۔ اس قسم کے علم اور عمل سے ہم پر یہ عائد ہوتا ہے کہ ہم اس کی روشنی میں اپنے روز مرہ کے معمول اور زندگی کی اقتدار کو متعین کریں اور خود کو راہ راست پر لائیں۔ پہلے قسم کا علم و جود اور موجودات کے راز کو بے نقاب کرتا ہے اور انسان اور اس کے رب کے درمیان رشتے کو عیاں کرتا ہے، اور چونکہ انسان کے لئے ایسے علم کا تعلق واقفیت حاصل کرنے کے بنیادی مقصد سے ہوتا ہے جس سے یہ نکلتا ہے کہ اس کے واجبات کا علم دوسری قسم کے علم کے لئے لازمی بنیاد ہے کیونکہ دوسری قسم کا علم پہلی قسم کے علم کی رہنمائی کے بغیر زندگی میں صحیح طور پر انسا ن کی رہبری نہیں کرسکتا بلکہ اس کو پریشانی میں مبتلا کرتا ہے اور لامحدود بے مقصد جستجو کی بھول بھلیوں میں پھنسا دیتا ہے۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اول قسم کے اور اعلی ٰ ترین علم کے لئے بھی انسان کے واسطے ایک حد ہوتی ہے جبکہ دوسری قسم کے علم میں ایسی کوئی حد مقرر نہیں۔ لہٰذا تشکیک اور جستجو میں عقلی فریب اور توہم کے سبب متواتر بھٹکتے رہنے کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ اس دنیا میں اپنے چند روزہ قیام کے دوران کسی کے پاس ضائع کرنے کے لئے وقت نہیں ہوتا اور ایک صحیح ہدایت یافتہ شخص جانتا ہے کہ دوسری قسم کے علم کواس کی انفرادی جستجو اور اس کی عملی ضرورت تک ہی محدود رہنا چاہئے اور اس کی فطرت اور صلاحیت کے مطابق ہوتا کہ وہ اپنے نفس حقیقی کے لحاظ سے علم اور خود کو ان کے صحیح مقامات پر رکھ کر عدل کی حالت کو قائم رکھے۔اسی وجہ سے اور عدل کو بحیثیت نتیجے کے حاصل کرنے کی غرض سے اسلام دونوں قسم کے علم کی جستجو کے درمیان امتیاز کرتا ہے۔ ایک تو جملہ مسلمانوں کے لئے لازمی فرض عین کے واجبات کے علم کا حصول دوسرے چند مسلمانوں کے لئے لازمی فرض کفایہ کے واجبات کے علم کا حصول اور اُن لوگوں کے سلسلے میں موخرالذکر کے فرض کو اول الذکر کے زمرہ میں یقینا منتقل کیا جا سکتا ہے جو اپنی ذاتی فلاح و بہبود کے لئے اس کی جستجو کرنے کا خود کو پابند سمجھتے ہیں۔ علم کی واجب جستجو کو دو زمروں میں تقسیم کرنا بذات خود علم اور علم کی جستجو کرنے والے کے ساتھ عدل کرنے کا ایک طریق کار ہے کیونکہ پہلی قسم کے علم کے واجبات کی سب کی سب معمولات انسان کے لئے اچھی ہے جب کہ دوسری قسم کے علم کی سب کی سب معلومات اس کے لئے اچھی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شخص جو اُس موخرالذکر علم کی جستجو کرتا ہے جو اس کے سیکولر عمل اور شہری کی حیثیت سے اس کے مقام کو متعین کرنے میں کافی اثرانداز ہو گا تو ضروری نہیں ہے کہ وہ ایک نیک آدمی بھی ہوسکے۔ بالعموم مغربی تہذیب میں چونکہ اس کے عدل کا تصور سیکولر بنیادوں پر قائم ہوتا ہے لہٰذا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس علم کا تصور بھی اسی طرح کی بنیادوں یا ان بنیادوں پر قائم ہے جو انسان کو ایک جسمانی وجود اور حیوان ِ ناطق کی حیثیت سے نمایا کرتی ہیں اور یہاں تک کہ اسی علم کو جائز تسلیم کیا جاتا ہے جس کو ہم نے علم کی دوسری قسم سے تعبیر کیا ہے۔ نتیجتہً مغربی تہذیب میں نیچے اوپر تک علم کی جستجو کا مقصد جستجوکرنے والے کو ایک اچھا شہری بنانا ہے۔ بہر حال ا س معاملے میں اسلام اس سے بالکل مختلف ہے کیونکہ اسلام میں علم کی جستجو کرنے والے کو ایک نیک آدمی بنانا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک اچھا شہری بنانے کے مقابلے میں ایک نیک آدمی بنانا زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک نیک آدمی ایک اچھا شہری بھی ہو گا لیکن یہ ضروری نہیں ہے ایک اچھا شہری ایک نیک آدمی بھی ہو۔ ایک لحاظ سے ہم کہتے ہیں کہ اسلام میں بھی علم کی جستجو کرنے کا مقصد جستجو کرنے والے کو ایک اچھا شہری بنانا ہے۔ صرف بات یہ ہے کہ یہاں شہری سے ہمارا مطلب دوسری مملکت (خدا کی مملکت) کے شہری سے ہے چنانچہ وہ یہاں بھی ایک نیک آدمی کی حیثیت سے عمل کرتا ہے۔ اسلام میں نیک آدمی، کا تصور صرف اس بات کو ظاہر نہیں کرتا کہ اس کو عام سماجی مفہوم میں نیک ہونا چاہئے بلکہ اس کواپنی ذات کے لئے بھی نیک ہونا چاہئے۔ اسی کے لئے اس کواس طرح نا انصاف نہیں ہونا چاہئے جیساکہ ہم واضح کر چکے ہیں کیونکہ اگر وہ اپنی ذات یا اپنے نفس کے لئے نا انصاف ہو تو پھر وہ دوسروں کے ساتھ کیسے انصاف کرسکتا ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ زندگی میں علم کے بنیادی تصور کے لحاظ سے اسلام مغربی تہذیب سے بالکل مختلف ہے کیونکہ اسلام میں (ا) علم،عقیدے اور ایمان صادق پر مشتمل ہے (ب) علم کی جستجو کا مقصد انسان میں بحیثیت انسانی اور منفرد ذات کے نیکی یا عدل پیدا کرنا ہے نہ کہ انسان کو صرف ایک شہری یا معاشرے کا جزو لاینفک بنانا ہے، (اسلام میں ) حقیقی انسان اور روح کی حیثیت سے انسان کی قدر و قیمت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے نہ کہ اس کی قدر و قیمت کو بحیثیت جسمانی وجود کے مملکت، معاشرے اور دنیا کے لئے اس کی فائدہ مندی کے عملی یا افادی لحاظ سے پرکھا جاتا ہے۔

میں وہ باتیں بیان کر رہا ہوں جو اسلام کا بطن البطون یا اس کی روح و رواں ہیں۔ میں نے یہاں اسلام میں دین، عقیدے اور ایمان کے تصور کی مختصر مگر جامع طریقے سے سادہ الفاظ میں وضاحت کی ہے۔میں ا سلامی فلسفۂ حیات و کائنات سے بھی مختصر طور پر بحث کی ہے اور خدا کے ساتھ انسان کے میثاق کے قرآنی تصور کی غیر معمولی اہمیت دکھاتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ میثاق کس لازمی نوعیت کا ہے۔ اسلام کے تصور ِ دین میں یہی نقطۂ آغاز ہے اور اس سے وابستہ تمام دیگر اسلامی تصورات میں یہی ایک غالب عنصر ہے، مثلاً آزادی، فرضِ منصبی، جواب دہی، عدل، علم، نیکی، اخوت، فرد اور معاشرے کے کار منصبی اور کردار، نیز مملکت اور اجتماعی زندگی میں ان کی باہمی شناخت وغیرہ کے تصورات، میں نے اس بیان میں فرد اور فرد کے نفس یا اس کی روح کے کار منصبی اور خدا کی طرف لوٹنے کے اس کے سفر کی اہمیت کو بھی نمایا کیا ہے۔ اب میں حقیقت یعنی عالمِ موجودات (واقعی یا خارجی) کے اسلامی شہود کا خاکہ پیش کرنا مناسب سمجھتاہوں جو اسلام کے اُس فلسفیانہ بطن البطون کے سوا اور کچھ نہیں جس سے اس کا فلسفۂ حیات و کائنات متعین ہوتا ہے۔ اسلام حقیقت کے اپنے مذہبی اور فلسفیانہ شہود اور اپنے فلسفۂ حیات و کائنات کو وجود پر مرکوز کرتا ہے اور وجود اور اس کے موجود عناصر العقود کے درمیان، وحدت اور کثرت کے درمیاں، بقا و فنا کے درمیاں امیتاز قائم کرتا ہے۔ حقیقت کا یہ شہود مذہبی تجربے کے وسیلے سے الہامی علم پر مبنی ہوتا ہے اور معروضی، ما بعد الطبیعاتی اور وجودیاتی حقیقت نیز موضوعی، باطنی اور اس حقیقت کے نفسیاتی تجربے کو اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ مظہر یاتی طور سے اسلام تصدیق کے معاملے میں آئندہ وجود میں آنے والے کے مقابلے میں موجود وجود کی توثیق کرتا ہے کیونکہ اس کے شہود کا معروض واضح، مستحکم، مستقل اور غیر متغیر ہے لہٰذا اسلام میں بھی اسی کی طرح معہ اپنے طرز حیات، طریق عمل و اقدار کے معروض حقیقی کے مثل ہے اور اس حیثیت میں وہ اس کی قائم و دائم وجودیاتی ماہئیت کی تقلید کرتا ہے۔اور اسی لئے وہ خود اپنے کامل اور مکمل ہونے کی توثیق کرتا ہے جیسے کے اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس کی توثیق کی ہے ۴۶؎ اور اپنی اکملیت کے لئے کسی بھی ارتقاء یا تکمیل کی ضرورت کے امکان سے انکار کرتا ہے۔ اور ایسے تصورات جیسے کہ ارتقاء، ترقی پذیری اور تکمیل کا اطلاق حیات انسانی، تاریخ اور منزل مقصود پر کیا جائے تو اسلام میں در اصل ان کا اشارہ انسان کی روحانی اور اصل فطرت کی طرف ہونا چاہئے۔ اگر ایسا نہیں تو اسلام کے لئے اس کا اصل مطلب حقیقی ارتقاء، ترقی پذیری اور تکمیل سے ہر گز نہیں ہوسکتا جیسے کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ اس کا مطلب صرف انسان کے اندر حیوان کے ارتقاء، ترقی پذیری اور تکمیل سے ہو گا اور یہ کہ حقیقی ارتقاء اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک کہ اس کے اندر اس کی اصل فطرت کو بحیثیت روح کے بروئے کار نہیں لا یا جاتا۔

اسلامی نقطۂ نظر سے تغیر، ارتقاء اور ترقی پذیری اس حقیقی اسلا م کی جانب لوٹنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کو نبی اکرمؐ نے پیش کیا اور جس پر خود آپؐ نے، آپؐ کے صحابۂ کرامؓ نے آپ ؐ کے مقلدین نے عمل کیا اور ا ن کے بعد سچے مسلمانوں کا دین و ایمان رہا۔ اور یہ نفس کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں اور ان کا مطلب نفس کا اپنی اصل فطرت اور اسلام کی طرف مراجعت کرنا ہے۔ یہ تصورات ان پیش فرضی حالات سے تعلق رکھتے ہیں جن میں مسلمان خود کو بھٹکا ہوا اسلام سے ناواقف، پراگندہ اور اپنے نفسوس کے لئے نا انصاف پاتا ہے۔ ایسے حالات میں اپنے نفوس کو راہ راست اور صراط مستقیم کی طرف لانے اور صحیح اسلام کی طرف لوٹنے کی کوشش۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسی کوشش جو تبدیلی کو عائد کرتی ہے ارتقاء ہے اور ایسی مراجعت جو ارتقاء پر مشتمل ہو ترقی پذیری ہے۔ اسلام کے نزدیک اسلام سے بھٹکے ہوئے مسلمانوں کا حقیقی اسلام کی طرف قدم بڑھانا ارتقاء ہے اور اسی قسم کے ارتقاء کو صحیح معنی میں ترقی پذیری سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ترقی پذیری نہ تو ایک حالت بدل کر دوسری حالت اختیار کرنا ‘‘ یا ’’معروض وجود میں آنا‘‘ ہے اور نہ اس کی طرف بڑھنا ہے ’’جو معرض وجود میں آنے والا ہے اور وہ بھی ’وجود‘ کی حالت میں نہیں آتا۔ ’’ترقی پذیری‘‘ کے تصور میں موجود ’منزل مقصود‘ کا خیال اس وقت ہی صحیح معنی میں با مقصد ہوسکتا ہے جب وہ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے جو پہلے سے واضح اور مستقل طور پر قائم اور پہلے سے وجود میں آیا ہوا ہو۔ لہٰذا جو پہلے سے واضح اور مستقل طور پر قائم اور پہلے سے وجود کی حالت میں ہے وہ تبدیل نہیں ہو سکتا، نہ وہ حصول کی گرفت سے لگا تار بچ کر نکلنے والا ہوتا ہے اور نہ حصول سے علی الاتصال دور بھاگنے والا۔ لفظ ’’ترقی پذیری‘‘ اس واضح اور مقررہ سمت کی عکاسی کرتا ہے جو اُس آخری اور قطعی مقصد کی سیدھ میں ہوتی ہے جس کو زندگی میں حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اگر مطلوبہ سمت مبہم ہے یا ابھی وجود میں ہی نہیں آئی ہے تو اس کی سیدھ میں آیا ہوا مقصد بھی آخری اور قطعی نہیں ہے لہٰذا اس کے جال میں پھنسا دینا کس طرح حقیقی معنی میں ترقی پذیری ہوسکتا ہے۔ وہ لوگ جو اندھیرے میں ٹٹولتے ہیں انھیں ترقی کرنے والا نہیں کہا جا سکتا اور وہ جو یہ کہتے ہیں کہ ایسے لوگ ترقی کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے ترقی پذیری کے حقیقی معنی اور مقصد کے بر خلاف صریحاً جھوٹ بولا ہے اور انھوں نے اپنے نفوس کو بھی دھوکا دیا ہے۔

’’ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اور جب اس نے سارے ماحول کو روشن کر دیا تو اﷲ نے ان کا نور بصارت سلب کر لیا اور انھیں اس حال میں چھوڑ دیا کہ تاریکیوں میں انھیں کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں،اندھے ہیں یہ اب نہ پلٹیں گے یا پھر ان کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹا اور کڑک اور چمک بھی ہے۔ یہ بجلی کے کڑاکے سُن کر اپنی جانوں کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں اور اﷲ ان منکرین حق کو ہر طرف سے گھیرے میں لیئے ہوئے ہے۔ چمک سے ان کی یہ حالت ہو رہی ہے کہ گویا عنقریب بجلی ان کی بصارت اچک لے جائیگی، جب ذرا کچھ روشنی انھیں محسوس ہوتی ہے تو اس میں کچھ دور چل لیتے ہیں اور جب اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں۔اﷲ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل ہی سلب کر لیتا، یقیناً وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ ۴۷؎

اسلامی فلسفۂ حیات و کائنات سے مراد ثنویت نہیں ہے کیونکہ اگر چہ یہ دو عناصر پر مشتمل ہے لیکن پھر بھی ایک خود مختار اور حقیقی ہے جب کہ دوسرا اس پر منحصر اور اس کا دست نگر ہے، ایک قائم بالذات ہے اور دوسرا اضافی، ایک موجود بالذات یا حقیقی ہے اور دوسرا اس حقیقت کا مظہر۔ لہٰذا حق اور حقیقت صرف ایک ہی ہے اور جملہ اسلامی اقدار قطعی طور پر اس سے تعلق رکھتی ہیں لہٰذا مسلمانوں کے لئے انفرادی اور اجتماعی طور سے تغیّر، ارتقاء ترقی پذیری اور تکمیل کی تمام کوشش ہمیشہ اس فلسفۂ حیات و کائنات سے متعین کی جاتی ہے جو واحد حقیقت کی بصیرت کو پیش کرتا ہے اور اسی حق کی توثیق کی تائید کرتا ہے۔ اس طرح مسلمان عملی طورسے اس عقیدے کے مطابق بغیر کسی اس تغیّر کے جو اسلام اور ان کے نفوس کی ہم آہنگی میں خلل پذیر ہو، اور وقت کی بے رحمیوں نیز دنیاوی زندگی کی نیرنگیوں میں موجود چنوتیوں (Challenges) سے مغلوب ہوئے بغیر اپنی زندگی گذارنے کے اہل رہے ہیں۔ مسلمان کے پاس قرآن پاک ہے جو بذات خود غیر متغیّر تو ہے ہی اور ناقابل تغیّر بھی ہے۔ یہ خدا کے اپنے پیغمبر نبی آخرالزماں حضرت محمدؐ پرا پنی مکمل اور قطعی شکل میں نازل کیا ہوا خدا کا کلام ہے۔ یہ وہ واضح ہدایت ہے جس کو مسلمان اپنے ساتھ ہر جگہ لے جاتا ہے محض لغوی معنی میں ہی نہیں بلکہ اس سے زیادہ اپنی زبان، اپنے ذہن اور اپنے دل میں ہر جگہ لے جاتا ہے اور اس طرح یہ واضح ہدایت اس کی وہ حیاتی قوت بن جاتی ہے جو اس کے انسانی قالب کو متحرک کرتی ہے۔ میں نے اس سے قبل آدمی کے اپنے نفس کے بارے میں غور و فکر کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کس طرح ہر ایک آدمی چاروں طرف سے اندھیرے میں گھرے ہوئے ا تھاہ سمندر میں واقع تنہا جزیرے کے مانند ہے، اس کی وہ تنہائی یا خلوت جو اس کا نفس محسوس کرتا ہے وہ قطعی طور پر مطلق ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنے نفس کو بھی پوری طرح سے نہیں جانتا۔ میں مزید کہنا چاہوں گا کہ ایسی قطعی خلوت بنیادی طور پر آدمی کے اپنے اس اندرونی مستقل سوال کا جواب دینے کی نا اہلی سے پیدا ہوتی ہے کہ ’’میں کون ہوں ‘‘؟ اور میری منزلِ مقصود کیا ہے؟‘‘ ہم کہتے ہیں کہ قطعی خلوت کا ایسا احساس بہرحال اس آدمی کے دل کو زیادہ ستاتا ہے جو خدا کا منکر ہے یا اس پر شک کرتا ہے۔ یا خدا کے ساتھ کیے ہوئے اپنی روح کے میثاق کو تسلیم نہیں کرتا کیونکہ اس میثاق کا دوبارہ اعتراف کرنا اور اس کی تصدیق کرنا ضروری ہے جس نے انسان کے لئے وجود اور ہستی کے سلسلۂ نظام میں اس کی شناخت کو مسلّم کیا۔ وہ مسلمان جو نفس کے باطن سے اس میثاق کی تصدیق و توثیق کرتا ہے وہ کبھی تنہا نہیں ہوتا کیونکہ عبادت کے وسیلے سے جس میں مسلسل تلاوت کلام پاک اور کلام پاک میں اﷲ کے الفاظ پر غور و خوض کرنا بھی شامل ہے جب وہ اپنے نفس کے بارے میں سوچتا ہے تو اسے وجدانی طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا نفس اﷲ تعالیٰ، اپنے خالق اور رب کے ساتھ کتنا قرب ہے۔جس کو وہ ذکر میں ہمیشہ یاد کرتا ہے اور جس کے ساتھ مناجات میں بے تکلفی سے ہم کلام ہوتا ہے۔ ایسا شخص اپنے تئیں اپنے نفس کو پہچان چکا ہوتا ہے اور وہ اپنی منزل مقصود کو جان لیتا ہے اور مطلق تنہائی کی بھیانک بازگشت صداؤں اور خاموش خوف کی ساکن گرفت سے آزاد ہوتا ہے۔ وجود کی تصدیق میں، قرآن پاک، اسلام کا مآخذ، اسلامی فلسفۂ حیات و کائنات کا مخترع اور حقیقت مطلق و صداقت کی بصیرت، وجود کے اتمام و اکمال کا اظہار اسی طرح ہے جس طرح اسلام وجود کی مظہریاتی تصدیق ہے۔ اور وہ شخص جس نے قرآن پاک کو بذات خود بنی نوع انسان تک پہنچایا وہ انسان میں وجود کے اتمام اور اکمال کی نمائندگی کرتا ہے۔حضور اکرمؐ خاتم الانبیا۴۸؎ اور بنی نوع انسان کے لئے خدا کے بھیجے ہوئے عالم گیر اور نبی آخرالزماں ۴۹؎   ہیں۔ آپؐ انسانوں کو ظلمت سے نکال کر نور کی طرف لے جاتے ہیں ۵۰؎   آپؐ بذات خود نور پھیلانے والی مشعل ہدایت ہیں ۵۱؎۔ آپؐ تمام مخلوق کے لئے خدا کی رحمت ہیں۔۵۲؎   اور ان لوگوں پر آپؐ کا لطف و کرم ہے جو آپؐ پر اور جو کچھ آپؐ لائے اس پر یقین کرتے ہیں ۵۳ ؎ اور آپ ان اہل کتاب کے لئے بھی خدا کا لطف و کرم ہیں ۵۴؎۔ جوا ٓپؐ پر ایمان لے آئیں۔ آپؐ وہ بشر ہیں جس کو اﷲ تعالیٰ نے ایسی بلند سیرت کے ساتھ پیدا کیا جو تمام بنی نوع انسان کے لئے قابل تقلید ہے۔۵۵؎۔ آپؐ انسان کامل اور اسوۂ حسنہ ہیں ۵۶؎۔ آپ ؐ کی ذات و ہ ذات مقدس ہے جس کو خدا اور اس کے فرشتے بھی عزت بخشتے ہیں اور انسانوں میں افضل ترین ہونے کی حیثیت سے درود بھیجتے ہیں ۵۷؎۔ اور تمام سچے عقیدت مند اور مومنین خدا کے حکم کی تعمیل اور اس کے فرشتوں کی تقلید میں اسی طرح درود بھیجتے ہیں اور جب تک خدا کی مرضی ہے وہ اس دنیا اور دوسری دنیا میں ایساہی کرتے رہیں گے اور آخرت میں اﷲ تعالیٰ آپؐ کو مقام محمود عطا فرمائے گا۵۸؎     حضور اکرم رسول خدا حضرت محمدؐ وہ بشر ہیں جن کی نام وری قبولیت کا ایک معجزہ ہے کیونکہ بنی نوع انسان میں آپؐ ہی کی تنہا ذات ایسی ہے جس کی آپؐ کے بعد ہر زمانے اور ہر نسل میں مسلسل مدح و ثنا ہوتی رہے گی۔ اگر آپؐ سے پہلے کے زمانوں اور نسلوں پر غور کیا جائے تو صرف آپ ہی کی ذات ایسی ٹھہرے گی جس کے لئے ایسی مدح و ثنا واجب ہے۔ ظلمت سے نکال کر روشنی میں لانے کے احسان کے سبب ہم سچی عقیدت مندی، محبت اور عزت کے ساتھ آپ کی مدح و ثنا کرتے ہیں۔منجملہ ہمارے تمام انسانوں سے بالا تر آپؐ سے محبت کی جاتی ہے۔ آپؐ کے لئے ہماری محبت اور عزت ایسی ہے جس کو نہ تو وقت اور نہ حافظہ بھُلا سکتا ہے کیونکہ آپؐ ہماری ذات میں ہر زمانے اور ہر نسل میں موجود ہیں۔۔۔۔۔ نہیں آپ ہماری جانوں (نفوس) سے بھی زیادہ قریب تر ہیں ۵۹؎۔ ہم آپؐ کے قول، فعل اور آپ کی معلوم عادتوں کی تقلید کرتے ہیں۔ قرآن پاک کے بعد آپ ہماری زندگی میں ہمارے ممتاز اور کامل رہنما ہیں۔ آپؐ ہر مسلمان مرد، عورت، بالغ، نوجوان اور بوڑھے کے لئے ایک کامل نمونہ ہیں اس طرح کہ مسلمان اپنی شناخت کے بحران سے کبھی دو چار نہیں ہوتے۔ آپؐ کے سبب مسلم معاشرے کا ڈھانچہ نسلوں کے بعدسے اس طرح منقسم نہیں ہوتا جیسا کہ ہم مغربی معاشرے میں مروج پاتے ہیں۔ مغربی تہذیب متواتر تبدیل ہو رہی ہے اور ’وجود‘ کو حاصل کئے بغیر ایک شکل کو بدل کر دوسری شکل اختیار کرتی جا رہی ہے بجز اس کے کہ اس کا ’وجود‘ مستقل طور پر ’ایک حالت سے دوسری حالت‘ میں گذرتا جا رہا ہے۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ مغربی تہذیب اپنی بصیرت کے تعین کے لئے کسی واحد اور مسلّمہ حقیقت کو تسلیم نہیں کرتی، نہ اس کے پاس کوئی ایسا واحد با ضابطہ صحیفہ ہے جس کی زندگی میں توثیق و تصدیق کی جائے اور نہ کوئی ایسا فرد واحد رہبر ہے جس کے اقوال، اعمال، افعال اور کامل طرز حیات کو زندگی میں تقلید کرنے کا نمونہ بنایا جا سکے بلکہ ہر مرد اور ہر عورت کو اپنی شناخت، زندگی کے مفہوم اور اپنی منزل مقصود کو خود تلاش کرنا پڑتا ہے۔مغربی تہذیب حقیقت کے فنا کے پہلو کی تصدیق کرتی ہے اور اس کی اقدار زندگی کے سیکولر، مادّی اور جسمانی حقائق سے تعلق رکھتی ہیں۔ مغربی معاشرہ تین نسلوں میں منقسم ہے۔ نوجوان، اَدھیڑ(درمیانہ عمر والے) اور بوڑھے۔ ہر ایک نسل کے لوگ الگ الگ اپنے نفس یا اپنی ذات اور زندگی کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے اِن مستقل سوالوں کے جواب کی مسلسل جستجو میں اپنی اپنی کوششوں کی حدود کے اندر سرگرم عمل ہوتے ہیں کہ ’’میں کون ہوں ؟‘‘ اور ’’میری منزل مقصود کیا ہے؟‘‘نوجوان جو اس منزل میں آ کر زندگی میں تبدیلی محسوس کرتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جو اقدار انھیں اپنے آبا و اجداد اور درمیانہ عمر والوں سے ملی ہیں وہ نہ تو ان کے لئے مفید ہیں اور نہ ان کے طرز زندگی سے ہی میل کھاتی ہیں۔ نتیجتاً وہ درمیانہ عمر والوں کو اپنی زندگی میں رہبری کے لئے قابل تقلید نمونوں کے طور پر قبول نہیں کرتے۔ لہٰذا وہ اپنی منزل مقصود کا انتخاب کرنے کے لئے ان سے اپنی خود مختاری کے طالب ہوتے ہیں۔درمیانی عمر والے یہ جان کر ان کی اقدار بھی جب وہ عالم شباب میں تھے زندگی میں ان کی رہنمائی کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں اور اب وہ جانتے ہیں کہ وہ بذات خود اپنی اولاد کو ضروری رہنمائی فراہم کرنے کے اہل نہیں ہیں اور اس امید میں کہ جہاں وہ ناکام ہوچکے ہیں وہاں نوجوان شاید کامیاب ہو جائیں وہ اس خود مختاری سے وہ دست بردار ہو جاتے ہیں جس کو وہ اپنی منزل مقصود کا انتخاب کرنے کی غرض سے حاصل کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ اب نوجوان بھی اپنی منزل مقصود کے انتخاب کی غرض سے خود مختاری کی طلب میں جانتے ہیں کہ انھیں رہنمائی کی ضرورت ہے جو بدقسمتی سے نایاب ہے کیونکہ وہ اپنے درمیان بھی کوئی ایسا رہنما وجود میں لانے سے قاصر ہیں جو ایک قابل تقلید کامل نمونے کا رول ادا کرسکتا ہو اور جس کی تقلید نوجوان کرسکتے ہوں۔ یہ اضطرابی صورتحال نوجوانوں میں بے یقینی اور مستقبل کے بارے میں بہت زیادہ شکوک پیدا کر دیتی ہے اور وہ مایوس کن طریقے سے یہ امید لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب وہ درمیانہ عمر کو پہنچیں گے تو اس وقت وہ دنیا کو اپنی دلی خواہش کے قریب تر ڈھال لینے کے اہل بن جائیں گے۔ لیکن درمیانہ عمر والے جو اپنی حالت معاشرے اور دنیا کو ڈھالنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں و ہ اپنی جوانی کے تجربے سے یہ جانتے ہیں کہ ان کی سابقہ اقدار اب کافی نہیں اور زندگی میں ان کا کوئی مطلب نہیں ہے اور کیونکہ تشخیص کے لئے ان کی سابقہ جستجو ناکام ہو چکی ہے اس لئے ان کی موجودہ زندگیاں تکمیل کے اطمینان کی عکاسی نہیں کرتی ہیں اور مسرت سے سراسر خالی ہیں۔ اس طرح وہ اقدار جن کا وہ احترام کرتے ہیں یعنی وہ اقدار جو ان کی انفرادی زندگیوں میں معنی کی تلاش میں ان کی کامیابیوں کے ان کے لیے پیمانے بن جاتی ہیں وہ صرف مملکت اور معاشرے سے متعلق سیکولر اور مادی کامرانیوں کو ترقی دینے والی اقدار ہوتی ہیں۔ لہٰذا وہ سماجی ترقی میں اعلیٰ مقامات، یا دولت یا طاقت یا عالمی شہرت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے جی توڑ کر آپس میں مقابلہ کرتے ہیں۔ اس قسم کی جد جہد میں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی دماغی صلاحیتیں اور ذہانت کمزور ہونا شروع ہو گئی ہیں اور جسمانی طاقت نیز قوت حیات رو بہ زوال ہوتی جا رہی ہے۔ قومی خدمت کی زندگی سے سبکدوش ہو کر بڑھاپے کی تنہائی میں داخل ہونے کا تصور جب ان کے ذہنوں کے سامنے آتا ہے تو خوف وہراس، سراسیمگی، افسوس اور افسردگی ان کے نفسوس کو اپنی گرفت میں لینا شروع کر دیتے ہیں۔لہٰذا وہ نوجوانوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور قوی امید رکھتے ہیں کہ نوجوان مطلوبہ قابل تقلید نمونہ اور ایسا اُسوہ وجود میں لا سکتے ہیں جس کی پورا معاشرہ تقلید کر سکے۔نوجوانوں کی طرف یہ رویہ اسی جوان پرستی کا خاص بطن البطون ہے جو عہد قدیم سے مغربی تہذیب کی غالب خصوصیات میں سے نمایاں خصوصیات رہی ہے۔ درمیانہ عمر والوں کے ذریعے محسوس کیا ہوا تشخص کا بحران کچھ اسی طرح کا ہوتا ہے جیسا کہ نوجوان محسوس کرتے ہیں سوائے اس کے کہ درمیانہ عمر والوں کے لئے اپنی منزل مقصود کا انتخاب کرنے کی خود مختاری بتدریج محدود ہوتی چلی جاتی ہے کیونکہ وقت بے دردی کے ساتھ یونانی المیہ کی طرح انجام کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں بوڑھے لوگ معاشرے کے ذریعے فراموش کردہ مخلوقِ محض ہوتے ہیں کیونکہ ان کا مخصوص وجود نوجوانوں اور درمیانہ عمر والوں کو یہ یاد دلاتا ہے کہ وہ بھی اسی طرح کے ہو جائیں گے جس کو نوجوان اور درمیانہ عمر والے بھولنا چاہتے ہیں۔ بوڑھے لوگ ان کو ہلاکت اور موت کی یاد دلاتے ہیں۔ بوڑھے اپنی جسمانی طاقت اور قوت ِ حیات کھو چکے ہوتے ہیں۔ ان کی کامیابی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ اپنی شہرت ما بعد اور معاشرے میں افادیت سے محروم ہو چکے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے دوست و احباب، خاندان اور مستقبل سے ہاتھ دھو چکے ہوتے ہیں۔ جب کوئی معاشرہ اپنے فلسفۂ زندگی کو سیکولر بنیادوں پر قائم کرتا ہے اور زندگی گذارنے کے لئے مادّی اقدار کی حمایت کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس معاشرے میں ہر شہری کی زندگی کے معنی، قدر اور وصف کو ایک شہری کی حیثیت سے ہی بیان کیا جاتا اور پرکھا جاتا ہے۔ اس کے پیشے، اس کی افادیت، اس کے کام کرنے کی صلاحیت اور آمدنی کو مملکت کے تعلق سے دیکھا جاتا ہے۔ جب بڑھاپے میں یہ سب کچھ چلا جاتا ہے تو اسی طرح اس کا تشخص بھی جس کی تشکیل اس کے سیکولررول کو ادا کرنے سے ہوتی ہے ختم ہو جاتا ہے۔ یہ تینوں نسلیں جن پر مغربی معاشرہ مشتمل ہے ہمیشہ سے تشخص اور زندگی کے معنی کی تلاش میں مشغول رہی ہیں اور ہمیشہ نا کامی کے ناقص دائرے میں پہلو بدلتی رہی ہیں۔ ہر نسل زندگی کی اپنی ذاتی اقدار سے غیر مطمئن رہی ہے۔ ہر ایک نسل اپنے آپ کو نا اہل قرار دیتی رہی۔ اور یہ کیفیت ہم وثوق سے کہتے ہیں، وہی ہے جس سے ہم ظلم مراد لیتے ہیں۔ یہ اس بات سے اور شدت اختیار کر لیتی ہے کہ مغربی معاشرے میں مردوں اور عورتوں کے درمیان بھی تشخص کا بحران ہے جس میں عورتیں بحیثیت عورتوں کے اپنے الگ تشخص کی تلاش میں مصروف ہیں۔ اسلامی معاشرہ ایسی کیفیت میں مبتلا نہیں ہے۔ نسلوں کے اندر افراد نے خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں اپنے تشخص کو پہلے ہی سے مسلّم کر لیا ہے اور اپنی اصلی منزل مقصود کو پہچان لیا ہے۔ خدا کے ساتھ کیئے ہوئے میثاق کے اقرار اور اس کی توثیق کے وسیلے سے اپنے تشخص کو مسلّم کیا اور مشیّت ایزدی کی سچی اطاعت اور اسلامی شریعت کی پابندی کے ذریعے اس میثاق کی تصدیق اور عمل پذیری کے وسیلے سے اپنی اصلی منزل مقصود کو پہچانا۔ وہ شخص جو ہمارے لئے وہ قرآن پاک لایا جو خدا کی طرف سے اس پر نازل ہوا تھا اور اس طرح جس نے ہمارے لئے تشخص اور ہماری اصل منزل ِ مقصود کے علم کو ہم تک پہنچایا، جس کی اپنی زندگی قرآن پاک کی عمدہ ترین اور مکمل تفسیر ہے، اس کی زندگی ہمارے لئے تقلید اور رشدو ہدایت کا مرکز ہو جاتی ہے۔ وہ رسول پاکؐ کی ذات مقدس ہے۔ آپ نے اپنی تعلیمات اور مثال سے اسلام کے صحیح اور حقیقی معمول و دستور اور اسلام کی اخلاقی خوبیوں کو پیش کیا ہے۔ آپؐ صرف ایک نسل نہیں بلکہ جملہ نسلوں کے لئے اور نہ صرف ایک زمانے بلکہ ہر زمانے کے لئے قابل تقلید کامل نمونہ ہیں۔ واقعی ہم کہتے ہیں کہ جس شخص پر قابل تقلید ’’کامل نمونے‘‘ کا تصور صحیح معنی میں صادق آتا ہے وہ صرف حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں جن کی ذات ِ اقدس کے اندر وہ تمام مستقل انسانی اور روحانی اقدار موجود ہیں جو زندگی میں انسان کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے ضروری ہیں اور جن کی معقولیت ایسی ہے کہ وہ نہ صرف انسان کے انفرادی عرصۂ زندگی تک مفید اور کارآمد ہیں بلکہ اس وقت تک کے لئے   مفید اور کار آمد ہیں جب تک انسان اس دنیا میں رہتا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کی ہر ایک نسل آپ کی مثال کی تقلید کرتے ہوے طرز زندگی کے نمونے کو دوسری نسل میں اس طرح منتقل کر دیتی ہے کہ ان کے درمیان تشخص کے لئے کوئی بُعد اور بحران پیدا نہیں ہونے پاتا بلکہ ہر ایک سابقہ نسل اپنی زندگیوں میں آپؐ کی مثال کی توثیق و تصدیق اور عمل پذیری سے آئندہ آنے والی نسل کی رہنمائی کرتی ہے۔

٭٭

 

 

 

 

 

حواشی و مراجع

 

۱۔        یہاں دین کی اصطلاح سے متعلق میں نے جو کچھ کہا ہے اس کا انحصار ابن منظور کی کلا سک لسان العرب (Beyrouth, 1968, 15v) پر ہے۔اس صفحہ اور اس سے آگے جو کچھ کہا گیا ہے اسے لسان العرب میں جلد ۱۳:۱۶۶، کالم۔۱۷۱۔۲، کالم ۲ میں دیکھیں

۲۔       لفظ داِعن مقروض اور قرض دینے والے دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس بظاہر تضاد کو دور کرنے کے لئے ان دونوں معنی کو اس طرح ادل بدل کر دیکھیں کہ یہ انسان کی دو فطری حالتوں ایک روح عقلی اور دوسری روح حیوانی کی طرف اشارہ کریں۔

۳۔       تصور دین اور اس سے مشتق لفظ مدینہ کے باہمی تعلق پر غور کرنا اور اسے سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ایک فرد کا ر شتہ ’دین‘ کے تئیں اور اجتماعیت کا رشتہ مدینہ کے تئیں کیا ہے۔اس طرح یثرب کا نام بدل کر المدینہ یعنی شہر رکھنے کی معنویت بھی سمجھ میں آ سکے گی۔مدینہ جس کو دراصل مدینۃ النبی یعنی نبی کا شہر واقعہ ہجرت کے بعد کہا گیا تھا۔اہل ایمان کی یہ پہلی برادری اور آبادی تھی اور اس واقعہ ہجرت سے تاریخ انسانی میں ہجری سن کا آغاز ہوا۔ واضح رہے کہ اس آبادی کو اس لئے المدینہ کہا گیا تھا کہ اس جگہ انسانوں کے لئے پہلی بار دین اپنی حقیقی شکل میں ظاہر ہوا۔اس مقام پر اہل ایمان نے اپنے آپ کو نبی کریم کی قانونی اور حکمرانی کی پابندی میں پیش کر دیا تھا۔ جو اس کے دَیّان تھے۔ اس مقام پر اﷲ کے تئیں انسان کا مقروض ہونا اپنی صحیح شکل میں واضح ہوا۔اور اس قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں صحیح اور اﷲ کے منظور شدہ طور طریقے اور واضح ہونا شروع ہوئے۔ اﷲ کے شہر کی اہمیت یہ تھی کہ یہاں نبی کریم کی نگرانی اور قانونی حکمرانی میں دین عملی جامہ پہننے لگا۔ یہی شہر اسلامی برادری کے لئے اسلام کے معاشرتی و سیاسی نقشہ کا خلاصہ اور لب لباب بن کر ابھر اور اس طرح انفرادی طور پر یہ اہل ایمان کے جسم اور ان کے مادّی وجود کی علامت ہے جس میں اس کی روح عقلی اس عظیم ہستی کی جس پر اﷲ کی رحمتیں ہوں پیروی کرتے ہوئے اقتدار کو عملی جامہ پہناتے ہوئے عدل قائم کرتی ہے۔

۴۔       لسان العرب جلد۔ ۱۳: ۴۰۲، کالم ۴۰۳۔۲،   کالم۔۱

۵۔       المومنون ۲۳ : ۱۴۔۱۲

۶۔       الا عراف ۷:۱۷۲

۷۔       العصر ۱۰۳:۲

۸۔       مراجعت کا تصور عُوّدَ کی اصطلاح میں ماضی بمعنی روایت کی طرف لوٹنے سے ہی مراد لیا گیا ہے۔اور اسطرح ’دین‘ یعنی رواج اور عادات کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اور اس پس منظر میں اس کے معنی ہوتے حضرت ابراہیم کی روایت کی طرف واپسی۔ یہ بات واضح رہے کہ یہاں روایت (tradition) سے مراد اس روایت سے نہیں ہے جس کا انسانی تاریخ اور کلچر میں ارتقاء ہوا اور جس کا سر چشمہ ذہن انسانی تھا۔ یہ در اصل وہ تعلیم اور احکامات تھے جو خدا کی طرف سے اس کے نبیوں اور رسولوں پر وحی کئے گئے تھے جو تاریخ کے بظاہر مختلف اور غیر متعلق ادوار میں ظاہر ہوئے لیکن ان کا اظہار و عمل اس حقیقت کا پتہ دیتا ہے کہ وہ ایک ہی روایت اور سلسلہ و ترتیب کا حصہ تھے۔

۹۔        الطارق ۸۶:۱۱،   لسان العرب ۸: ۱۲۰ کالم ۲

۱۰۔      فعل ’’رَجَعَ‘‘ کی مختلف شکلیں جو قرآن کریم میں انسان کی خدا کی طرف مراجعت کے باب میں بیان ہوئی ہیں اور یہاں جو تصور بیان ہوا ہے۔ ان میں گہرا ربط پایا جاتا ہے۔

۱۱۔      لسان العرب جلد ۲: ۲۴۲ ، کالم ۴۴۵۔۲، کالم ۲

۱۲۔   صحیح ’دین‘ انسانوں کے مردہ جسم کو اسی طرح زندگی عطا کرتا ہے جس طرح آسمانوں کی طرف سے آنے والی بارش کے ذریعہ خدا مردہ زمیں کو زندگی دیتا ہے۔(دیکھو سورہ البقرہ ۲ : ۱۶۴)

۱۳۔     لسان العرب ۱۳:۱۶۷:، کالم ۱

۱۴۔   واضح طور پر یہ اس آدمی کی طرف اشارہ ہے جو یہ سمجھ چکا ہے کہ اپنے خالق مالک اور رازق خدا سے اس نے خود          اپنی ذات کے لئے قرض لیا ہے اور اس طرح وہ اپنے آپ کو اپنی ذات کے حوالے کر کے اپنے مالک کی طرف لوٹ کر اس قرض کی ادائیگی کرتا ہے۔

۱۵۔     لسان العرب جلد ۱۳: ۱۶۹، کالم ۲

۱۶۔      البقرہ ۲:۱۶۴

۱۷۔     البقرہ ۲:۲۴۵

۱۸۔     دین کے ایک معنی صحیح طریقہ سے شمار کرنے کے لئے یعنی حساب الصحیح کے بھی ہیں۔یہ کسی شئے یا گنتی کو صحیح صحیح اس طر ح ناپنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے کہ یہ اپنی جگہ پر صحیح فٹ ہو جائے اس کو عربی میں عددالمُستَوَ کہتے ہیں۔ ریاضی کی یہ جھلک اُس قانونی ضابطہ کی طرف اشارہ ہے جو صحیح معنوں میں توازن قائم کیئے ہوئے ہے۔(دیکھولسان العرب جلد ۱۳:۱۶۹، کالم ۱

۱۹۔      لسان العرب جلد ۱۳:۱۷۰ ، کالم ۱

۲۰۔     الذاریات ۵۱:۵۶

۲۱۔      لسان العرب جلد   ۵: ۵۸، کالم ۱ اور ۲، مزید دیکھو الروم ۳۰:۳۰

۲۲۔لسان العرب جلد ۵: ۵۶، کالم ۲، ۵۷، کالم ۱

۲۳۔     النساء ۴: ۱۲۵

۲۴۔     آلِ عمران ۳: ۸۵

۲۵۔     آلِ عمران ۳:۱۹

۲۶۔     آلِ عمران ۳:۸۳

۲۷۔    اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فرق بینُ المذاہب محض شکلوں کے فرق کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ شکلوں کا فرق در اصل تصور خدا، اس کی ماہیت، اس کی صفات، اس کے نام اور کام میں فرق کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ تصور کے اسی فرق کی طرف اسلام کا تصور توحید اشارہ کرتا ہے۔

۲۸۔     ایک اعتبار سے قرآن کے الفاظ لا اکراہ فی الدین یعنی دین میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ (البقرہ۲:۲۵۶) اس کی تائید کرتے ہیں جس کی وضاحت اوپر کی گئی ہے۔ یعنی سچے دین میں زبردستی کا عنصر نہیں ہونا چاہئے۔ محض اس معنی میں نہیں کہ دین کو تسلیم کرنے میں زبردستی نہیں بلکہ اس معنی میں بھی ہے کہ خود اپنی سپردگی بھی مکمل اور پوری رضا و تسلیم کے ساتھ ہونا چاہئے۔ یہ اس طرح ہو کہ اس سپردگی میں عشق کی کیفیت ہو اور زندگی لطف و لذّتوں کا منظر نامہ بن جائے۔ بے دلی کے ساتھ سپردگی در اصل غرور نا فرمانبرداری اور بغاوت کے عناصر سے مرتب ہے اور کفر کے قریب پہنچا دیتی ہے۔ یہ سمجھنا کہ محض خدائے واحد پر ایمان لے آنا ہی صحیح دین تسلیم کر لینے کے لئے کافی ہے اور نجات کا حصول اس طرح ممکن ہے، صحیح نہیں ہے۔شیطان بھی اﷲ واحد میں یقین رکھتا او ر اسے ہی وہ خالق رازق اور رب جانتا ہے لیکن اس کا شمار کفر کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ شیطان نے اپنے آپ کو خدا کے سپرد تو کیا ہے لیکن یہ بادلِ نا خواستہ سپردگی تھی۔ اس کا کفر اس کے غرور، نا فرمانبرداری اور بغاوت کی بنا پر ہے۔ چنانچہ تامّل کے ساتھ سپردگی حقیقی ایمان کی علامت نہیں اور یہ ہوسکتا ہے کہ کافر بھی خدائے واحد میں ایمان کا اظہار کرے لیکن وہ صحیح معنی میں اپنے آپ کو سپرد نہیں کرتا۔ دراصل اپنے خود تراشیدہ طریقے سے سپردکرتا ہے جو نہ تو وحی سے ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی نبی کریم کے عمل میں اس کا کوئی حوالہ ملتا ہے۔ اصل سپردگی تو دراصل وہی ہے جو نبی کریم سے ثابت ہو اور جس کا ثبوت آپ کی سیرت میں موجود ہے۔ سپردگی کا یہی طریقہ تمام انسانیت کے لئے بھی ہے کیونکہ اسی طرح تمام انبیاء کرام نے بھی سپردگی کی تھی اور اسی شکل کو خدا کی منظوری بھی حاصل ہے۔ اس طرح صحیح دین کی بنیاد ایمان یا یقین نہیں بلکہ اس سے زیادہ بنیادی سپردگی کا عمل ہے۔ کیونکہ یہ سپردگی ہی ہے جو یقین اور ایمان کی صحت اور معیار کی علامت ہے۔

۲۹۔     ’طریقہ ‘ سے مراد میرے نزدیک احسان یعنی اخلاق کی تکمیل ہے۔

۳۰۔     قانون وحی یعنی شریعہ ہی خدا کا قانون ہے۔

۳۱۔     الا حزاب ۳۳:۷۲

۳۲۔     الا عراف ۷:۱۷۹

۳۳۔    التوبہ ۹:۱۱۱

۳۴۔    اسلام کا آدمی یعنی مسلمان۔

۳۵۔    جب بھی ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا مطلب ’’اطمینان قلب‘‘ ہے تو در اصل ہمارا اشارہ اس اطاعت و فرماں برداری کے انجام کی طرف ہوتا ہے جس کو فعل ’ اسلمَ سے ظاہر کیا گیا ہے۔

۳۶۔   الفجر ۸۹: ۳۰۔۲۷

۳۷۔   ہمارا اس سے قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ عبادت اس وقت معرفت کے مثل ہو جاتی ہے، اول الذکر(عبادت) بحیثیت عمل یابندگی بشمول صلوٰۃ۔ یعنی مجوزہ فرض، سنت اور نوافل۔۔۔۔ اس کے لئے اب فرض نہیں جو موخرالذکر (معرفت) کو حاصل کر لیتا ہے۔ یا یوں کہئیے اس کے لئے صلوٰۃ کا مطلب محض ذہنی استغراق ہے جیساکہ کچھ حکماء و فلاسفہ نے تصور کیا ہے۔ معرفت، بحیثیت ـ’علم‘ کے صحیح علم اور درست روحانی کیفیت(حال) دونوں ہی پر دلالت کرتی ہے۔ عبادت روحانی ’مقامات‘ کی آخری منازل کی نشاں دہی کرتی ہے جو معرفت سے مقدم ہوتی ہے۔اور معرفت روحانی کیفیات، احوال کے آغاز کی نشان دہی کرتی ہے۔لہٰذا ’معرفت‘ روحانی مقام اور روحانی کیفیت کے درمیان نقطۂ تغیّر کی علامت کا اظہار کرتی ہے۔ اس حیثیت سے، کیونکہ یہ وہ علم ہے جو خدا کی طرف سے قلب میں وارد ہوتا ہے اور اس کا انحصار پوری طرح سے خدا پر ہے، لہٰذ ا یقینی طور پر یہ کیفیت اس وقت تک دیر پا نہیں ہوتی جب تک کہ مسلسل عبادت کے ذریعے سے اس کو حاصل کرکے مستحکم نہ بنا یا جائے۔ صاحب بصیرت جانتا ہے کہ اس شخص کی صورت میں جو خدا کا علم خدا سے حاصل کرتا ہے اپنی عبادت کو پوری طرح سے ذہنی استغراق میں بد ل دینا فضول ہے کیونکہ عارف اس امر سے بخوبی واقف ہوتا ہے کہ ایسا جزوی طورسے اس کی اپنی عبادت کے سبب ہی ہے جو وہ وسیلہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنے رب سے قربت حاصل کرتا ہے۔

۳۸۔     دراصل موضوعی اسلام اور معروضی اسلام جیسی کوئی چیز اس لحاظ سے نہیں ہے کہ اول الذکر میں بہ نسبت موخر الذکر کے اس حد تک حقیقت و صداقت کم ہے کہ اول الذکر کو مؤخر الذکر کے مقابلے میں کم معتبر اور کم مستند سمجھاجاتا ہے یا یہ کہ مؤ خر الذکر اول الذکر کے مقابلے میں ایک آزاد حقیقت و صداقت ہے جب کہ اولا الذکر مؤخر الذکر کے تجربے کی متعدد تاویلات و توضیحات جیسا ہے۔ ہم یہ وثوق سے کہتے ہیں کہ جو کچھ بحیثیت اسلام انفرادی طور پر ہر مسلمان کے ذریعے موضوعی طریقے سے سمجھاجاتا ہے وہی معروضی طریقے سے اسلام ہے اور ہم یہاں لفظ ’موضوعی‘ اور معروضی ‘ ایک دوسرے میں تفریق کرنے سے زیادہ ان میں امتیاز کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان امتیاز کا تعلق ایک مسلمان اور دوسرے مسلمان کے درمیان موجود فہم کی سطح اور درجۂ بصیرت و عمل کی حیثیت سے ہے۔ اس طرح یہ امتیاز اسلامی تجربے کے مخصوص پہلو ’احسان‘ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایک مسلمان اور دوسرے مسلمان کے درمیان موجود فہم کے معیاروں، بصیرت و ادراک اور عمل کے درجات کے فطری اختلاف کے باوجود سب مسلمان ہیں اور اسلام صرف ایک ہے اور جو کچھ ان سب میں مشترک ہے وہ وہی اسلام ہے۔

۳۹۔     یعنی عبادت اور عبادت کے اعمال و افعال

۴۰۔     ملاحظہ کیجیے فٹ نوٹ نمبر۳۸

۴۱۔     ملاحظہ کیجیے الانعام ۶ : ۱۶۴

۴۲۔     النساء ۴ : ۱۲۳، یوُنُس ۱۰ :۴۴

۴۳۔    تمثیلاً   habeas   corpus(ملزمین پر باقاعدہ مقدمہ چلانے کی غرض سے ان کو عدالت یا حاکم کے سامنے اصالتاً یعنی بہ نفس نفیس پیش کرنے کا حکم نامہ) کا قانونی تصور عدل کی بنیادی کاروائی کی حیثیت سے شاید (روز حشر) آئندہ ہونے والی نا قابل تردید اور پُر جلال کاروائی کا ناقص پَرتو ہے۔ نفس ناطقہ ظلم کے افعال و اعمال سے انکار بھی کرسکتا ہے یہ بات سور ہ الاعراف۷ : ۱۷۳۔۱۷۲ میں مضمر ہے۔ان آیات میں واضح طور پر پر دیکھا جا سکتا ہے کہ نفسِ ناطقہ (روح) اچھے یا برے کاموں کی طرف راغب کرنے کی قوت کو عمل میں لانے کی صلاحیت (وُسع) رکھتا ہے جن کا نتیجہ نیکی یا بدی کا حصول (کَسَبَ۔ اِکتَسَبَ) ہوتا ہے۔ اسلام میں عدل اور ظلم کے تصور کا جو خاکہ اوپر پیش کیا گیا ہے اس میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ انسا ن کے نیک و بد اعمال کا شاہد اس کا نفس بذات خود ہے۔ ملاحظہ کیجئے النور۲۴:۲۴

۴۴۔     ’نظم و ضبط‘ اور ـدستورالعمل‘ سے اشارہ موجود ہ یونیورسٹیوں اور اسکولوں میں پائے جانے والے علم کے با قاعدہ نظم و ضبط اور دستورالعمل سے نہیں ہے بلکہ جو تلاش علم کرتا ہے اس کے ذریعے خود علم کو ترتیب دینے اور نفس کو بذات خود اس ترتیب کی تربیت دینے سے ہے۔

۴۵۔    مزید تشریح کے لئے ملاحظہ کیجئے اصل انگریزی کتاب کے صفحات ۱۴۳ تا ۱۴۸

۴۶۔     المائدہ ۵ :۴

۴۷۔    البقرۃ ۲ :۲۰۔۱۷

۴۸۔    الاحزاب ۳۳ : ۴۰

۴۹۔     سَبا ۳۴ : ۲۸

۵۰۔     ا لطلاق ۶۵: ۱۱

۵۱۔     الاحزاب۳۳:۴۶، ا لطلاق ۶۵ : ۱۱

۵۲۔     الانبیآء   ۲۱ : ۱۰۷

۵۳۔    آ لِ عمران ۳ :۱۶۴ ؛ النسآء۴ : ۱۷۰

۵۴۔    المآئدۃ ۵ :۲۱

۵۵۔    القلم ۶۸ : ۴

۵۶۔     الاحزاب ۳۳ : ۲۱

۵۷۔    الاحزاب ۳۳ : ۵۶

۵۸۔    بنی اسرآئیل۱۷ : ۷۹

۵۹۔     الاحزاب ۳۳ : ۶

٭٭٭

ماخذ: آیات، علی گڑھ، شمارہ ۲، ۲۰۱۴

تشکر: عارف مصباحی اور ذکی کرمانی جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید                      .11 Plurar