FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

اُردو دَوہے کا ارتقائی سفر

 

جلد اول

 

 

خاور چودھری

 

 

 

 

 

 

 

 

 

انتسابِ اوّل

 

والدِ گرامی قبلہ: محمد علی صاحب

استاذِ مکرم:      پروفیسرڈاکٹرسیداشفاق حسین بخاری صاحب

رفیقِ مہرباں :    زیبارسول صاحبہ

 

انتسابِ دوّم

 

مہان دوہا کوی:  پروفیسر ڈاکٹرطاہرسعید ہارون

برگیڈئیر (ر)غلام علی (اسلام آباد)

سلیمان زوہیر فرزندِ شیر افضل جعفری

پروفیسر محمد یاسین مرزا

لیاقت حیات خان (جلالیہ)

صاحبزادہ محمد محمود احمد(دریا شریف)

محمدحامدسراج______محمد خالد خان (حضرو)

ملک مشتاق احمد عاجز

عافیت خان(اسلام آباد)

میجراسدمحمودخان___پروفیسرسیدنصرت بخاری

 

 

 

 

کوائف نامہ

 

قلمی نام:               خاور چودھری

خاندانی نام      :       غلام رسول

والدین:               محمد علی____گُلِ زہرا

پیدائش:               15؍اپریل1972حضرو، ضلع اٹک

تعلیم:          ایم فِل اُردو۔ ایم ایس سی ماس کمیونی کیشن

وسیلۂ معاش:    صحافت۔ درس وتدریس

رابطہ:  [0334 – 1154456] 9سکندرپلازہ، حضرو، ضلع اٹک (43440)

تصانیف:       ٭     خواب، کرچیاں اور مسافر  [مضامین۔ 2001]

٭     ٹھنڈاسورج             [شاعری۔ 2006]

٭       چراغ بہ کف         [مضامین۔ 2007]

٭       چیخوں میں دبی آواز           [افسانے۔ 2008]

٭       دی کولڈ سن    [ٹھنڈاسورج کا انگریزی ترجمہ۔ 2012]

٭       اُردو دوہے کا ارتقائی سفر [تحقیق۔ 2016 ]

٭       مئے خاور                    [شاعری۔ 2016]

غیر مطبوعہ:    ٭       گفتگوئے یار                 [مکالمے ]

٭       پریم جل                           [دوہے ]

صحافتی خدمات:

چیف ایڈیٹر روزنامہ ـ ’’ تعلّم‘‘، ایڈیٹر روزنامہ ’’شالیمار‘‘ چیف ایڈیٹر ہفت روزہ ’’ حضرو‘‘، چیف ایڈیٹر ہفت روزہ ’’ تیسرارُخ‘‘، مدیرمسؤل[اعلیٰ] ’’سحرتاب‘‘، مدیر اعلیٰ ’’اُسوہ ‘‘، کالم نگار روزنامہ ’’اسلام‘‘

زتدریسی خدمات:ویلکن گرامر ہائی اسکول حضرو۔ گورنمنٹ کالج حضرو۔ راولپنڈی کالج آف کامرس، کامرہ کینٹ۔ اُسوہ کیڈٹ کالج اسلام آباد۔ پنجاب دانش اسکول چشتیاں

٭       اعزاز:       حدیثِ دیگراں __مرتب: سید نصرت بخاری [2008]

 

 

 

 

 

اُردُو دَوہے کا ارتقائی سفر

 

                پروفیسرڈاکٹرسیداشفاق حسین بخاری

 

 صدر شعبہ اُردو ناردرن یونی ورسٹی [نگران مقالہ]

 

 

دوہا قدیم ہندی صنف ہے۔ اس کی جڑیں پراکرت اور اَپ بھرنش بولیوں میں ملتی ہیں۔ عمومی طور پر اس کا پہلا شاعر چندربردائی کوتسلیم کیا جاتا ہے، جس نے راجا پرتھوی چوہان پر ’’پرتھوی راج راسو‘‘ نامی اڑھائی ہزار صفحات پر مشتمل کتاب لکھی تھی۔ اسی کتاب میں اُس نے راجکمار پرتھوی راج چوہان اور راجکماری سنجوگتاکی محبت کے قصے میں جہاں ہجر و وصال کا ذکر آتا ہے، وہاں دوہے کی صنف کو اختیار کیا ہے۔

اُردو زبان یا برج بھاشا میں اس کاپہلاشاعرامیرخسروکوتصور کیا جاتا ہے، مگر اُن سے بھی پہلے صوفیائے عظام نے اس صنف کو عامۃ الناس کی اصلاح اور بہتری کے لیے اختیار کیا تھا۔ طویل زمانے تک اس صنف کو اولیائے اللہ، بھگتوں، سنتوں اور سادھوؤں نے پند و نصیحت کے لیے وسیلۂ ابلاغ کے طور پراستعمال کیا۔ بعد میں اس خطے پر انگریزوں کے طویل تسلط کے باعث یہ صنف پیچھے چلی گئی۔

قیامِ پاکستان سے پہلے پوری صدی میں اس کا کوئی نامور شاعر دکھائی نہیں دیتا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد اس صنف میں معروف ریاضی دان اور دانشور خواجہ دل محمد کا پہلا مجموعہ ’’پیت کی ریت‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ گویا انھوں نے اس صنف کا احیاء کیا۔ پھر ایک طویل کہکشاں ہے۔ خصوصاً جمیل الدین عالی مرحوم نے اپنے مخصوص مزاج اور خاص اسلوب کی بنا پر اسے نئی جہت عطا کی۔ اُن کی تتبع میں ایک فضا قائم ہوئی۔ جسے تحریک کا نام دیا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ جس طرح دوسری اصنافِ اَدب پر تواتر کے ساتھ اور بار بار کام ہوا، اس کے مقابلے میں دوہا پر وہ توجہ نہیں دی گئی جواس کا حق تھا۔ اس لیے لازم تھا کہ دوہا نگاری پر کام کیا جائے۔ اسی خیال کے پیش نظراسکالرکو یہ عنوان دیا گیا۔

غلام رسول [خاور چودھری ]چوں کہ خود بھی دَوہے کا شاعر ہے، اس لیے اس نے موضوع پر دل جمعی اور لگن سے کام کیا۔ یہ مقالہ ایک طرح سے اُردو دَوہے کی تاریخ ہے۔ اس مقالے میں جہاں کلاسیکی شعرا کا تذکرہ ہے، وہاں دوبارہ احیاء کرنے والوں کے ذکرسمیت آج کے دوہا نگاروں کا بھی ذکر ہے۔ اس لیے اس کی اہمیت و افادیت کا سلسلہ قائم رہے گا۔

 

 

 

 

 

 

دوہا بانی سے شغف کا انعام

 

 

 

تحقیق کے لیے انگریزی میں استعمال ہونے والا لفظ Re-searchہے۔ اُردو میں اس سے عمومی طور پر ’’دریافت‘‘ اور ’’بازیافت‘‘ کے معنی مراد لیے جاتے ہیں۔ تحقیق ایک نامیاتی عمل کا نام ہے۔ کائنات کی تسخیر کا یہ جاری عمل تحقیق ہی کے رہینِ منت ہے۔ انسانی تجسس نے نئی نئی دُنیاؤں کا کھوج لگانے اور انھیں مسخر کرنے کی جستجوپیدا کی اور پھر تحقیقی عمل نے اس کے لیے راہیں ہموار کیں۔ آج دُنیا ایک منطقے میں مفہوماً سمٹی ہوئی ہے۔ ایک جست کسی دوسرے مقام اور نا آشنا جگہ تک پہنچا سکتی ہے، تو یہ تحقیق کاہی قرینہ اور حاصل ہے۔ سیٹلائٹ کی دریافت اور انٹرنیٹ کی ایجاد ایسے انقلابات ہیں، جنھوں نے انسان کے لیے جامِ جمشید کی تمثیلیں تو الگ رہیں، حقیقت میں ان سے کہیں زیادہ آسانیاں اور رغبتیں پیدا کر دی ہیں۔ اب امریکا کا کوئی ڈاکٹر ہمارے بلتستان کے کسی گاؤں خپلو، روندو یا شیگر میں موجود کسی مریض کا ٹیلی میڈیسن کے ذریعے علاج کر سکتا ہے۔ افریقی دُنیاؤں میں موجود کوئی سیاہ فام ہمارے کسی شہر، جنگل، حتیٰ کہ صحرا میں بیٹھے کسی شخص سے Skypeکے ذریعے نہ صرف ہم کلام ہو سکتا ہے، بلکہ اس کی صورت دیکھ سکتا ہے۔ اُس کے ارد گرد کے ماحول سے آشنا ہو سکتا ہے۔ اُس کی حرکات وسکنات کا جائزہ لے سکتا ہے۔ ٹیلی کانفرنسنگ کے ذریعے بیک وقت کئی ملکوں میں لوگ باہمی مکالمہ کر سکتے ہیں۔ یہی نہیں ایک دوسرے کی شبیہ بہ خوبی دیکھ سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے تاثرات اور باڈی لینگویج جان سکتے ہیں۔ یہ کل تک کرشماتی باتیں تھیں، مگر آج ان سے ایک عام آدمی بھی پوری طرح واقف ہی نہیں، انھیں برت بھی رہا ہے۔ کیمرے اور انٹرنیٹ کے اس امتزاج اور اتصال نے انسان کے لیے ایسی آسانیاں پیدا کر دی ہیں، جنھیں ماضی میں حیطۂ خیال میں بھی نہیں لایا جا سکتا تھا۔ پھر موبائل فون پر موجود سہولیات نے تو ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ صحیح معنوں میں یہ آلہ ’’جامِ جمشید‘‘ کی جگہ بلکہ اُس سے بڑھ کر مقام لے چکا ہے۔

خلاؤں کی تسخیراوردوسرے سیاروں تک جورسائی ممکن ہوئی ہے اور وہاں جو زندگی کے اثرات پیدا کیے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں، ان کے سوتے در اصل تحقیق کے بطون سے ہی پھوٹے ہیں۔ ان چشموں نے جہاں اس کائنات کی پوشیدہ حکمتوں اور خزانوں کی تلاش کی لگن اور شوق پیدا کیا، وہاں منظر نامے پر موجود اشیا اور ایجادات کی ہیئتوں اور بنیادی ڈھانچوں میں مزید تبدیلیوں کا رجحان بھی بڑھایا ہے۔ یہ سب تحقیق کے ہی مرہونِ منت ہے۔

دوسرے لفظوں میں تحقیقی عمل انسانی زندگی کے لیے آسانیاں، وسعتیں اور انقلابات کاوسیلہ ہے۔ اس کے اثرات سے معاشروں اور معاشرتی زندگی میں زبردست تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ سائنسی میدان میں ہونے والی ان تحقیقات اور محققین کے کارناموں نے یہ ثابت کر دیا ہے، کہ اس کائنات کی تسخیرممکن ہے۔ ذرّے کے راز کوا گر جانا جا چکا ہے، تو باقی موجودات کی اصلیت اور پرکھ بھی ہو سکتی ہے۔

دوسرے علوم اور خصوصاً ادبیات میں بھی تحقیق کا اہم مقام ہے۔ اس کے بغیر انسانی معاشرے کی جُڑت اور کار گذاری میں رخنے کا اندیشہ ہے۔ ایک کڑی کے چھوٹ جانے سے بات کچھ کی کچھ ہو جاتی ہے۔ صدیوں کی تاریخ سے ہماری شناسائی اسی تحقیق کے وسیلے سے ہے۔ اگر آج ہم ہزاروں سال پُرانی کہانیوں کے مجموعے ’’پنج تنتر‘‘ سے واقف ہیں یا ’’جاتک کہانیاں ‘‘ کے عنوان سے واقف ہیں۔ ’’الف لیلیٰ‘‘ یا ’’ہزارفسانہ‘‘ سے واقفیت رکھتے ہیں یا پھر افلاطون، سقراط، ارسطو اور دوسرے یونانیوں کی تعلیمات اور نظریات سے واقف ہیں۔ قدیم عرب شاعروں امراؤ القیس، زہیر بن ابی سلمیٰ، نابغہ ذبیانی، طرفہ بن العبد، حاتم طائی، عمرو بن کلثوم، عنترہ بن شداد، حارث بن حلزہ،ا میہ بنا بیا لصلت، قس بن ساعدہ یا میمون بن قیس الاعشی کے ناموں اور شاعری کے نمونوں سے واقف ہیں، تو ان سب کے پیچھے یہی تحقیقی عمل کارفرما ہے۔

شعری نمونوں میں تلمیحات، تمثیلیں، واقعات اور حکایات بیان کیے گئے ہوتے ہیں۔ ان کی جانچ پرکھ اور ان تک رسائی بھی ایک کارِ لازم ہے۔ اس کے لیے بھی تحقیقی عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں دو مثالیں دی جاتی ہیں۔ اقبالؒ نے کہا تھا:

اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے !

کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

تو یہاں تحقیق کی کارفرمائی شروع ہو جاتی ہے۔ ایک محقق کے لیے یہ سوال ہے، آخر عثمانیوں پر کیا گذری؟ ایسی کیا اُفتاد اُن پر آ پڑی کہ علامہ اقبالؒ نے انھیں موضوعِ سخن بنایا۔ پھر ’’خونِ صد ہزار انجم‘‘ کیوں کر ممکن ہے ؟ کیا سائنس اس بات کی شہادت عطا کرتی ہے، کہ ستارے مر جاتے ہیں یا اُن کا خون ہوتا ہے ؟

یا پھرمیرانیس یوں کہتے ہیں :

چلاتی تھی بکھرائے ہوئے بالوں کو مادر

دولت مری لٹتی ہے، اُجڑتا ہے مرا گھر

فریاد ہے اے لختِ دل ساقیِ کوثر

آنکھیں بھی جھپکتے نہیں اب تو علی اصغر

 

کیا ہو گیا اس صاحبِ اقبال کو میرے

ہے ہے لیے جاتی ہے اجل، لال کو میرے

یہاں کربلا کی دردناک اور روح کو چھلنی کرنے والی ساعتوں میں سے ایک ساعت کا بیان ہے۔ منظر کشی ایسی ہے، کہ کلیجہ منھ کو آتا ہے۔ یہاں بھی ایسے ہی سوالات ہیں۔ آخر یہ منزل کیوں آئی؟ کیوں مخالفین نے خانوادۂ رسولؐ کی زندگیاں چھینیں ؟ اور کیا واقعی خاندانِ رسولؐ کی بیبیوں نے یوں آہ و زاری کی تھی ؟ جس طرح شاعر نے کہا۔ ایک محقق ان سوالات کا جواب چاہتا ہے اور اس کے لیے اسے تحقیق کی کٹھالی سے گذر کر کندن ہونا ہوتا ہے۔ خام بات مؤثر ہو نہیں سکتی اور نہ تحقیق خیالی اورقیاسی بنیادوں پراُستوار کسی چیز کا نام ہے۔ ان دونوں متذکرہ بالا واقعات کی جان کاری کے لیے تاریخی شواہد تک جانا ضروری ہے۔ اس کے لیے مربوط اور فعال تحقیقی عمل کی ضرورت ہے۔ یہیں سے تحقیق کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

قرآن کریم کی سورۃ الحجرات کی آیت چھے تحقیق کی اہمیت یوں واضح کرتی ہے، مفہوم ہے :

اے ایمان والو!اگر کوئی شریر آدمی تمھارے پاس کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو، مبادا کسی قوم کو تم نادانی سے کوئی ضر ر پہنچا دو، پھر اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔

گویا تحقیق لازمۂ حیات ہے۔ اس کا دائرۂ عمل محض سائنس یا ادب کو محیط نہیں، بلکہ انسانی زندگی، اس کے تمام متعلقات اور جزئیات اسی کے زیرِ اثر ہیں۔ دوسرے لفظوں میں لمحہ لمحہ اور نفس نفس تحقیق کی عمل داری ہے۔ اس کی ضرورت ہے، اس کی اہمیت ہے۔ زیرِ نظر مقالہ اَدبی تحقیق کی ایک کوشش ہے۔ یہ کوشش ہے، درست سمت اختیار کرنے کی۔ اَب سوال یہ ہے، میں اس موضوع کی جانب کیوں آیا؟

بچپن میں کہیں قتیل شفائی کی شاعری پڑھی تھی، اُس نے پاؤں باندھ لیے۔ زبان کی حلاوت ایسی تھی، کہ دل میں گھر کرتی گئی۔ غالباً۱۹۸۶ء میں کامرہ سے پشاور جاتے ہوئے پنکج اُدہاس کی سُریلی آواز میں:

چاندی جیسا رنگ ہے تیرا، سونے جیسے بال

ایک تُو ہی دھنوان ہے گوری، باقی سب کنگال

سُناتو یہ طرز بھی دل کو بھا گیا۔ زبان کی نغمگی نے بجائے خود کانوں میں رس گھولا۔ اُس وقت معلوم نہیں ہو سکاکہ یہ کلام قتیل صاحب کا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس گیت کو موجودہ صورت ممتاز راشد صاحب نے دی ہے، البتہ کلام شفائی صاحب کاہی ہے۔ شعر و اَدب سے علاقہ ہوا تو یہی بانی دل کو کھینچتی تھی، لیکن مشکل یہ تھی، کہ اپنے یہاں اس کا چلن نہیں تھا۔ آٹھ دس سال بعد جب حلقہ بڑھا توسیکھنے کا موقع بھی ملا۔

جب خود دوہا کہنا شروع کیا تو میرے سامنے صرف پروفیسرڈاکٹر طاہر سعید ہارون صاحب کا نام تھا۔ اشتیاق بڑھا تو دوسرے بزرگوں سے بھی تعارف ہوا۔ خصوصاً جمیل الدین عالی صاحب اور خواجہ دل محمد صاحب سے شناسائی ہوئی۔ دونوں کے کلام سے خوب حظ اُٹھایا۔ بلواسطہ ان سے سیکھا بھی۔ یوں سفر جاری رہا۔ اپنے تئیں ایک خیال یہ بھی دل میں رکھتا تھا، کہ اپنے حلقے میں منفردسمت میں بڑھ رہا ہوں۔ کیوں کہ اپنے اردگرد غزل کا غلغلہ تھا۔ پاکستان سے باہر خصوصاً بھارت میں پذیرائی ہوئی اور گوروں کے دیس سے جناب نصر ملک صاحب نے حوصلہ افزائی کی تو ہمت مزید فراخ ہوئی۔ اس عرصے میں تسلسل کے ساتھ دوہا کہا اور تقریباً تمام رائج مضامین پر طبع آزمائی کی۔ اندازہ نہیں تھا، کبھی اس صنف کے بارے میں لکھنے کا بھی موقع ملے گا۔

ناردرن یونی ورسٹی نوشہرہ میں ایم فِل اُردو میں داخلہ لیا، تو بعض ساتھیوں کے برعکس میں کسی خاص عنوان پر کام کا تمنائی تھا۔ دوستوں کا اصرار تھا: ’’مصروف زندگی میں تحقیق کے لیے وقت کہاں ملتا ہے، کسی شخصیت پر لکھ لو، ڈگری مل جائے گی۔ ‘‘ یہ بات میرے مزاج کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ میں محنت سے جی چرانے والوں میں سے نہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت ہے، کہ اُس نے مجھے پروفیسرڈاکٹر سید اشفاق حسین بخاری صاحب کی نگرانی میں کام کرنے کا موقع دیا۔ اُنھوں نے خوب حوصلہ بڑھایا اور راہ نمائی کی۔

حضرو جیسے چھوٹے اور اَدبی مرکز سے کٹے ہوئے قصبے میں رہ کر یہ مرحلہ سر کرنا بجائے خود ایک مشکل کام تھا۔ عنوان کے حوالے سے تو مجھے معمولی سی مدد کی بھی اُمید نہیں تھی۔ اس کے باوجود کام شروع کر دیا۔ انڈیا کی طرف نگاہیں تھیں، کہ وہاں سے کتب مل جائیں گی۔ اسی طرح کراچی سے بھی کچھ اُمیدیں تھیں۔ لیکن سوال یہ تھا، کہ آخر کس طرح اتنی دُور تک رسائی ہو پائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور انعام کیا، کہ مجھے اسلام آباد میں رہنے کا موقع مل گیا۔ سچ کہوں تواسلام آباد کے لیے مہاجرت کا سبب یہی مقالہ بنا۔ مقالے کی تکمیل کے فوراً بعد وہاں سے دانہ پانی بھی اُٹھ گیا۔

تحقیق مسلسل عمل ہے۔ سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے اور استفادے کی صورتیں بھی۔ اس لیے میں نے پہلے سے موجود تحقیق میں اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ مقالہ طالب علمانہ ضرورت کے لیے لکھا گیا اور ظاہر ہے اس میں وقت کی پابندی بھی موجود تھی۔ ایسے میں موضوع کا مکمل احاطہ ممکن نہیں تھا۔ پھر اپنی کم مائے گی کا احساس بھی ہے، کہ بعض نئے لکھنے والوں اور بعض ماخذوں تک رسائی نہیں ہو سکی اور بعض سینئرلکھنے والوں سے متعلق مناسب معلومات بھی نہ حاصل کر سکا۔ وجوہ تو کئی ایک ہیں، لیکن دو بنیادی ہیں :اول وسائل کی کمیابی، ثانیاً وقت کی کمی۔

مقالہ ۲۰۱۴ء میں منظوری کے لیے پیش کیا گیا اور۲۰۱۴ء میں ہی یونی ورسٹی نے زبانی امتحان لے کر کام یاب قرار دیا۔ مقالے میں خصوصیت کے ساتھ میں نے اس بات کی کوشش کی ہے، کہ دوہا نگاری کے باب میں جدید رجحانات کی نشان دہی کی جائے اور کچھ تاریخی مغالطوں پر بھی بات ہو جائے۔ بھارت میں اس صنف پر خوب آری چلائی گئی ہے۔ لاحقوں اور سابقوں کے انبار نے اسے بوجھل کر کے رکھ دیا ہے۔ کچھ بحثیں اپنے یہاں بھی موجود تھیں، اُن پر بھی بات کی گئی ہے۔ میں نے کوشش کی ہے، کہ دوہا نگاروں کا فنی تجزیہ کیا جائے۔ یہ میرا مطالعہ ہے اور دوہا کے فن پر رائے دینا میرا حق بھی۔

چندربردائی کو ہندی شاعری کا باوا آدم کہا جاتا ہے اوراسی تناظر میں دوہا کا بنیاد گزار بھی اُنھی کو خیال کیا گیا۔ اگر وہ پہلے دوہا کوی ہیں تواس شمار میں خود کو میں اَب تک آخری کوی کہتا ہوں۔ اس لڑی کے درمیان جتنے بھی نام وَر دوہا نگار آئے اُن کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ عہد جدید کے شعرا کا تذکرہ اور اُن کے فن کا تجزیہ زمانی اعتبار سے کیا گیا۔ یعنی شاعروں کی تاریخ پیدائش پیشِ نظر رہی ہے، نہ کہ دوہا گوئی میں تقدیم۔ اس تناظر میں دوہا کی تاریخ کھنگال آیا ہوں۔ یہ ایک طرح سے غواصی کا عمل تھا۔ یقیناً اس مطالعے کے دوران بہت قیمتی باتیں بھی ہاتھ آئی ہیں۔ اگر میں یہ مقالہ نہ لکھتا تو دوہا کے باب میں میرا شغف تو موجود رہتا، لیکن استفادے کی صورتیں کم ہوتیں۔ یہ بھی اللہ کی خاص حکمت ہی ہے، کہ ’’پریم جل‘‘ کے نام سے دوہوں کا مجموعہ آٹھ دس سال پہلے مرتب کر ڈالا تھا مگر اشاعت آشنا نہ ہو سکا۔ اب خواہش ہے کہ نئے سرے سے اپنے تمام دوہوں کا جائزہ لوں۔

میں حقیر جانتا ہوں کہ اس کرم کامستحق نہیں تھا، لیکن علیم و خبیر نے احسان کیا۔ والد محترم جنابِ محمد علی مرشد و آقا ہیں۔ ٹھنڈے سائبانوں جیسے بھائی شیر بہادر کی محبتیں کیوں کر بھولیں گی۔ استاذی پروفیسر ڈاکٹر سید اشفاق حسین بخاری کی شفقت بے بدل ہے، سو شکریہ جیسے الفاظ ان کے سامنے ہیچ ہیں۔ استاذی ڈاکٹر مبارک بقاپوری مرحوم، استاذی ڈاکٹر گوہر نوشاہی، چودھری غلام محمد نذر صابری مرحوم، بھائی لیاقت حیات خان(جلالیہ)، برگیڈئیر غلام علی، سیدمحمد نوید حیدر، پروفیسرمحمد یاسین مرزا، ملک حق نواز خان(پیرزئی)، پروفیسرسلمان زوہیر، پروفیسر سیدحسن حامد، سید محسن رضوی، صاحبزادہ محمد محمود احمد (دریا شریف)، محمد خالد خان(حضرو)، ڈاکٹر عبدالعزیزساحر، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد، پروفیسرمحمداعظم خالد، ملک مشتاق عاجز، توقیر علی زئی مرحوم، ڈاکٹر محمد عمر فاروق، ملک ارشد خان (بن گئی)، محمدسلطان خان طارق، پروفیسر محمد زکریا، جاوید مجید خان، سیدشاکرالقادری، محمد حامد سراج، ملک محسن عباس، سید کفایت بخاری، راشد علی زئی، پروفیسر نواز شاہد، فہیم احمد، پروفیسرسید نصرت بخاری، پروفیسرشوکت محمود شوکت، اشرف خان اشرف، احسان بن مجید، حسین امجد، طاہر اسیر، میجراسد محمود خان، ڈاکٹر مسعود اختر، ماسٹر جاوید اقبال، ادریس خان، خرم رفیع، ناصر محمود بھٹی، خالد محمود صدیقی، مولانا حافظ ہارون الرشید، قاری محمد ابراہیم حضروی، نثار علی خان، ملک لطف الرحمان، عمران خان حضروی، عزیر عاصم، حاجی پیر محمد خان (حضرو)، ممتاز ملک(علی پور)، ارشاد علی (اٹک) نصرت محمود (ہری پور)، عبدالمجید قریشی (مانسہرہ)، خالد عمر ملک(کامرہ کینٹ )، آصف منیر (بہاول پور)، منظور اعوان (ظاہر پیر)، جواد اقبال (جھنگ)، نزاکت خان (بن گئی)، خالد قیوم تنولی(واہ کینٹ)، نذیر احمد ناگی اور صفدر بھٹی سے زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر مجھے روشنی ملی ہے۔ ان تمام کا ممنون ہوں۔ شاعر علی شاعر (کراچی) کا بھی شکرگزار ہوں، جنھوں نے بعض نایاب کتب عنایت کیں۔

بھائیوں غلام محمد، سجاد علی، غلام مرتضیٰ اور بھتیجوں فضل ربی، فہیم سعدی، محسن محمد علی اور بھانجوں بابر خان، سمیع الحق، جان محمد، نعیم اللہ، نورالسلام اوراَنس زیب سمیت بہنوں کی محبتوں کا بدل میرے پاس کہاں ؟ میرا بال بال ان کا مقروض ہے۔ اللہ تمام کو شاد و آباد رکھے۔ آمین

رفیقِ حیات نہیں اصل حیات زیبارسول کی سپاس گزاری میرے بس کی بات نہیں۔ پچیس سالہ رفاقت کا جیسے کل ہی آغاز ہوا ہو۔ اللہ عز و جل کی بارگاہ میں سربہ سجود رہتا ہوں، کہ میری محبتوں کو گھن نہ لگ جائے۔ صدف رسول! راحتِ جاں ہو۔ تمھارا شکریہ کہ تم نے کئی رتجگے میرے لیے سہے۔ چِتری! تمھیں کیسے بھول جاؤں، تم تو میری شیرین ژن ہو زندگی ہو۔ شاد و آباد رہو۔ آمین

 

خاور چودھری

 

 

 

 

دوہے کاپس منظر

 

 

 

اشپنگلر کا قول ہے کہ: ’’ انسانی تہذیب ایک زندہ نظام ہے، جو ہر جان دار کی طرح نشو و نما پا کر جوان ہوتی ہے اور پھر بوڑھی ہو کر مر جاتی ہے۔ ‘‘ یہ نتیجہ لازمی طور پر مختلف تہذیبوں کی ظاہری موت کی وجہ سے نکالا گیا ہے۔ اس کائنات میں انسان کے موجود ہونے کی باقاعدہ تاریخ ابھی تک سامنے نہیں آئی اور معلوم تاریخیں اندازوں سے مرتب ہوئی ہیں۔ کائنات کے بارے میں بھی قیاس کیا جاتا ہے، کہ اربوں سال پہلے یہ وجود میں آئی۔ اس ضمن میں مذاہب کچھ معلومات فراہم کرتے ہیں، لیکن تفصیلات وہاں بھی نہیں۔ ایسے میں جن تہذیبوں کا حال ظاہر ہوا، یقینی طور پروہ ایک مقام پر آ کر ظاہری موت کا شکار ہوئیں اور اُن کی جگہ دوسری تہذیبوں نے لے لی۔ پھر اُن تہذیبوں کی بھی موت واقع ہو گئی تو ایک نئی تہذیب نے جنم لے لیا۔ فراعنۂ مصر اور اُن کی یادگاریں تاریخ کا حصہ ہیں۔ موہن جو دڑو، ہڑپہ اور گندھارا تہذیبوں کے نشانات بھی تاریخ کے طاقچوں میں دھرے ہیں۔ یونانیوں، عربوں، ترکوں اور چینیوں کے حالات اور اُن کی تہذیب و تمدن میں تغیرات و ارتقا ہمارے سامنے ہے۔

ٹائن بی نے اشپنگلرسے مختلف خیال ظاہر کیا، اس کے بہ قول: ’’ کسی ایک تہذیب کی موت لازمی نہیں۔ یہ قانونِ قدرت نہیں اور تہذیب کو ایک جان دار نظام نہیں کہا جا سکتا۔ ‘‘ یہ ایک اور زاویہ ہے، جس طرح قُقنس ایک اور قُقنس پیدا کرنے پر ختم ہو جاتا ہے، بہ ظاہر مر جاتا ہے، لیکن اپنی اصل میں زندہ رہتا ہے۔ اُسی طرح ایک نئی تہذیب پُرانی تہذیب کی راکھ پر اُستوار ہوتی ہے۔ ٹائن بی کا قول اس مثال سے بہ خوبی واضح ہوتا ہے۔ ان دو بہ ظاہر متصادم اقوال کا کہیں نہ کہیں اتصال اور امتزاج ضرور ہے اور ان کا حاصل یہ ہے، کہ تہذیبوں کی زندگی انسانی حیات اور خصوصاً فکری حیات سے جڑی ہوئی ہے۔

انسان تہذیبیں بناتا ہے اور تہذیبیں انسان بناتی ہیں۔ ان دونوں کا باہمی تعامل اگر ٹکراؤ کی صورت اختیار کرتا ہے، تو ایک تخریبی عمل شروع ہو جاتا ہے۔ یہ ایسا عمل ہے، جسے تقلیب کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ اس لیے کہ یہ ٹوٹ پھوٹ کا عمل انہدام جیسا نہیں ہے، بلکہ شکست کے بعد ریخت کاسلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ دائرۂ تہذیب میں شامل ہوئے بغیر کوئی انسان نہیں رہ سکتا اور اگر کوئی ایسی کوشش کرتا ہے، تو معاشرے میں اُسے وحشی کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے۔ اس لیے جب وہ دائرے میں داخل ہوتا ہے، تو اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے تجسس اور تحیرات کو پھٹی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ زندگی، اس کے متعلقات اور ان کی حقیقتوں کے بارے میں اُس کے دماغ میں سوالات کلبلاتے ہیں۔ ان کی کُرلاہٹ اسے ششدر و مضطرب تو کرتی ہے، ساتھ ہی ان سوالات کی تفہیم اور وضاحت پر بھی اُکساتی ہے۔ انھی سوالات کی پرکھ اور ان کے جوابات تک رسائی کے لیے مذہب، فلسفہ اور سائنس کو مضبوط بنیادیں فراہم ہوئیں۔ یہاں انسان کو دو طرح کی محسوسات کاسامنا ہوا۔ اولاً اُس کے تجسس نے چیزوں کے ضمن میں پیدا ہونے والے تعجب کی تخلیق کردہ اُلجھنوں کوسلجھانے کی کوشش کی۔ ثانیاً اس کی اپنی ذات میں موجود متغیرات کی پرکھ کے لیے اس نے جستجو کی۔ یہ جستجوتب بھی جاری تھی، جب وہ اس دائرے میں داخل ہوا۔ اب بھی جاری ہے اور تب تک رہے گی، جب تک وہ اس کائنات کے کسی بھی سیارے یا منطقے میں موجود ہے۔ اسی طرح اُس کے متحیر رہنے کے سلسلے بھی۔

شعر کی تاریخ کا حال بھی ایسا ہی ہے، جیسے انسانی تہذیب کی بنیاد گذاری کا۔ یہاں تو بنیادی سوال یہ بھی موجود ہے، کہ شعر بجائے خود کیا ہے ؟آج تک جتنی ممکنہ تعریفیں ماہرین سے ہو سکتی تھیں، انھوں نے کیں، لیکن حق یہ ہے، ابھی تک اس کی کوئی جامع تعریف منطقی اورسائنسی اُصولوں پر استوار نہیں ہو سکی۔ جتنی آرا سامنے ہیں، اُن میں بہت زیادہ بُعد اور اختلافات ہیں اور رہیں گے۔ البتہ شعر کے لیے قائم کردہ اصطلاحات کوسمجھنے میں باوجود اختلافات کے کسی کو رکاوٹ نہیں۔ پھر شعر کے منفی اور مثبت رُخوں کی بحثیں اور اعتراضات بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ افلاطون کے ’’عالمِ مثال‘‘ سے شاعروں کو دیس نکالا دینے کی باتیں کون نہیں جانتا؟پھر مذہب میں شاعری کے استعمال کے باوجود خوداس کے وجود کے لیے جارحانہ رویہّ موجود ہے۔ اچھی اور بُری شاعری کی تفریق سے وضاحتیں ہوتی رہتی ہیں۔ یہی نہیں خود مذہب، فنون لطیفہ کی دوسری شاخوں سمیت فلسفہ اورسائنس پربھی اشکالات موجود ہیں اور جواب دینے والے توضیح کرتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود کہیں کہیں ابہام، تضاد اور تصادم کی صورتیں موجود ہیں۔ اور رہیں گی۔

شاعری کے ضمن میں کچھ اہم سوالات یہ بھی ہیں، کہ اس سے ہمارے ادراکات، محسوسات اور جذبوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ کیا ہماری سماعتوں میں سمانے والے لفظ اپنی حقیقت کے ساتھ داخل ہوتے ہیں یا اُن سے وابستہ تصورات؟ اور کیا ہماری بصارتیں اُن لفظوں سے تخلیق ہونے والی صورتوں کی شناخت کر لیتی ہیں ؟ اور یہ کہ اس شناخت کے بعد پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا ہماری بیرونی دُنیا پرکیا اثر پڑتا ہے ؟ان کا جواب تلاش کرنا تضیعِ اوقات نہیں ہو سکتا، بلکہ یہ عمل ہماری تہذیبی زندگی کے لیے ناگزیر ہے۔ سائنس کے ارتقا پر پہلے سے موجود نظریہ شاید اُتنا اہم نہیں رہتا، اگرچہ تاریخی طور پراُسے یاد رکھنا اوراُس کا مطالعہ کرنا اور بات ہے، لیکن شاعری کے ضمن میں ایسا نہیں ہے۔ آج اگر ہزاروں سال پہلے کہے گئے کسی شعرکودُرست ماحول اور مناسب تناظر میں سمجھ لیا جائے تواُس سے ملنے والا لطف اور تازگی سائنسی تحریر کے برعکس زیادہ تاثیر کی حامل ہو گی۔ گویا شعر پر ٹائن بی کے نظریے کا اطلاق ہوتا ہے، ایک امتیاز کے ساتھ۔ اس لیے کہ ٹائن بی تہذیب کو جان دار نہیں سمجھتا۔ جب کہ الفاظ زندہ رہتے ہیں۔

شعر بامعنی لفظوں کا ایسا مرکب ہے، جس کی لذت سماعتوں کومحسوس ہوتی ہے اور جس کی تاثیر دل پر پڑتی ہے۔ا س لیے کہ جب لفظ اپنی تصوریت کے ساتھ سننے والے کے دل میں جگہ بناتے ہیں، تب شعر شعر کے مرتبے پر فائز ہوتا ہے اور یہی شاعر کا ہنر ہے۔ لفظ محض محسوسات کا نام نہیں، بلکہ اُن محسوسات کے پیچھے موجود تصوریت کا نام ہے۔ جو ایک تجریدی واسطے سے ہم تک پہنچتی ہے۔ جب یہ تصوریت ہمارے ذہن کے پردے پر پوری طرح روشن ہو جاتی ہے، تو یقینی طور پر ہمارے اندر موجود متغیرات میں حرکت پیدا کرتی ہے۔ یہاں ارسطو کا نظریۂ المیہ اور طربیہ دونوں موجود نظر آتے ہیں۔ جب اندر تبدیلی پیدا ہوتی ہے، تواس کا اگلا قدم باہر کی دُنیا میں واپس پڑتا ہے، ایک الگ اثر کے ساتھ۔ شعر کی تاثیریت اور اہمیت کا اندازہ اس پر عائد کی جانے والی بندشوں سے بھی ہوتا ہے۔

پہلا شعر کب، کس نے، کہاں اور کس زبان میں کہا؟ اس ضمن میں تاریخ اندھیروں میں ہے۔ پھر شعر کب ’’شعر‘‘ ہوا اس پر بھی اجماع نہیں ملتا۔ مختلف آرا ہیں اور مختلف نظریات۔ یہی صورتِ حال دوہا کو درپیش ہے۔ ناقدینِ فن نے کھینچ تان کر اس کا سلسلہ اَپ بھرنش زبانوں سے جوڑتے ہوئے اسے آٹھ نو سوسال ماضی سے وابستہ بتا یا ہے۔ پیشتراس کے کہ دوہا کے فن پر بات کی جائے، پہلے اس کی زبان اورقیاسی تاریخ کاسراغ لگا لیا جائے۔

 

 

 

دوہا بانی

 

 

دوہا قدیم ہندی صنف ہے۔ اس کی زیادہ تر شہرت صوفیوں، بھگتوں، سنتوں کے اپدیشوں، وعظوں اور مذہبی بھاشنوں کی وجہ سے ہے۔ مؤرخینِ اَدب نے اس کاسلسلہ پراکرت سے اوراس میں بھی خصوصاً برج بھاشا سے جوڑا ہے۔ جس طرح بہت سی دُوسری اصنافِ سخن دوسری زبانوں سے اُردو میں رائج ہوئیں، اسی طرح دوہا تدریجاً موجودہ اُردو میں راسخ ہوا۔ اس بات پر بہت زیادہ اختلاف کی گنجائش موجود ہے، کہ برج بھاشا کو عمداً یا فہم کی کمی یا پھر ہٹ دھرمی کی وجہ سے محض ہندی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ تب اُردو ہندی الگ وجود نہیں رکھتی تھیں۔ یہ تو فورٹ ولیم کالج کی کارگذاری نے ان دونوں زبانوں کو دو الگ قوموں کے لیے بعض مستعمل الفاظ کی وجہ سے الگ الگ کر دیا۔ جس بھاشا میں سنسکرت کا غلبہ ہوا، وہ  ہندی کہلائی اورجس میں عربی فارسی نے زور پکڑا، وہ اُردو ٹھہری۔ جب اُردو کاسلسلہ یمین الدین خسروسے جوڑا جاتا ہے اور فخر محسوس کیا جاتا ہے، تو یہ تسلیم کر لینے میں کیا عار ہے، کہ وہ زبان برج بھاشا ہی تو تھی جو پراکرت کی ایک شاخ ہے۔ پھر یہ بھی ہمیں تسلیم ہے، کہ اُردو کا پُرانا نام ’’ہندی اور ہندوی‘‘ بھی رہا ہے، تو پھر بہت سے اعتراضات بلا جواز دکھائی دیتے ہیں۔ اسی زبان کی شاعری سے متعلق ڈاکٹر اعظم کُریوی کا کہنا ہے :

’’قدیم ہندوستان میں سنسکرت رائج تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ یہ زبان بلند طبقہ کے اصحاب کے لیے مخصوص ہو گئی اور عوام کے لیے سنسکرت کی ایک بگڑی ہوئی شکل ’’پراکرت‘‘ ایجاد ہوئی جس سے اندازاً سمبت ۷۰۰ بکرمی میں ہندی بھاشا نے جنم لیا۔ متھرا اور مغربی علاقوں کی پراکرت کا نام ’’برج بھاشا‘‘(متھرا کی زبان) اور مشرقی علاقوں (اودھ) کی زبان کا نام ’’پوربی بھاکا‘‘ پڑا۔

افسانوی عہد پر کہنگی کا غبار چھایا ہوا ہے۔ اس لیے صحیح طور پر معلوم کرنا ذرا دُشوار ہے، کہ ہندی شاعری کی کب ابتدا ہوئی۔ پنڈتوں کا خیال ہے، کہ ’’پشے ‘‘ یا ’’پنڈ‘‘ نام کا ایک شاعر ۷۱۴ء میں ہوا ہے۔ نیز ۱۰۸۶ء میں بھی ’’اردپیڑا‘‘ شاعر کا ہونا بیان کیا جاتا ہے، لیکن آج اُن کا کوئی کلام ہمارے سامنے نہیں ہے۔ اصل میں ’’چندر بردائی‘‘ ہندی شاعری کے بابا آدم ہیں۔ بھاشا شاعری میں اولیت کا سہرا انھی کے سر پر باندھا گیا ہے۔ ‘‘ (۱)

دوہا بانی پراکرت ہے اور برج بھاشا اور پوربی بھاکا دونوں اس کی بیٹیاں۔ ان دونوں بولیوں میں دوہا کہا گیا ہے۔ چندر بردائی کے حوالے سے ڈاکٹر کُریوی نے اطلاع دی ہے، کہ یہ قوم کے بھاٹ تھے اور لاہور میں سنہ ۱۱۲۶ء میں پیدا ہوئے، لیکن ان کی شاعری نے مشرقی علاقوں میں نمو پائی۔ بعد میں واردِ اجمیر ہوئے اور دربار تک رسائی حاصل کر لی۔ یوں ’’پرتھی راج راسو‘‘ نامی ایک کتاب تقریباً ً ڈھائی ہزار صفحے کو محیط لکھی۔ اس کتاب میں اگرچہ عربی اور فارسی کے کچھ الفاظ بھی کام آئے ہوں گے، لیکن غالب رنگ سنسکرت اور پراکرت کا ہے۔ نمونۂ کلام دیکھیے :

سرس کاویہ رچنا رچوں جن سنن ہسنت

جیسے سیندھور دیکھ مگ سو ان سو بھاؤ بھسنت

 

تو پتی سوجن نمنت گن رچئے تن من پھول

جو کا بھے جئے جان کے کیوں تارئے دو کول(۲)

اگرچہ یہ زبان ہمارے یہاں آج مشکل سے سمجھ آتی ہے، لیکن قیام سے پہلے اسے سمجھاجا سکتا تھا۔ اب بھی تھوڑی بہت رَس جَس رکھنے والا شخص اس سے مفہوم کشید کر سکتا ہے۔ پہلے شعر میں شاعر کہتا ہے کہ: ’’ میری شاعری بامعنی ہے، لیکن مخالفین ہنستے ہیں۔ ہاتھی کو دیکھ کرجس طرح عادتاً کتے بھونکتے ہیں، ان کا بھی یہی حال ہے۔ دوسرا شعر بھی اسی مفہوم سے جڑا ہوا ہے۔ شاعر کہتا ہے جس طرح جوؤں کے ڈر سے کوئی اپنا قیمتی ریشمی دوپٹہ پھینک نہیں دیتا، اسی طرح اچھے لوگوں کو اپنے اوصاف نہیں چھوڑنے چاہییں۔ اپنے تن من پر اخلاق کے پھول کھلاتے رہنا چاہیے۔ ‘‘

خوب صورت تشبیہات اور استعارات سے سجا یہ مقفیٰ کلام ظاہر کرتا ہے، کہ چندربردائی کے یہاں فکرو بیان کا قرینہ تھا، ورنہ شروع کے ایام میں اتنی پختگی کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ یہ چندربردائی ہی ہیں، جن کے بعد ایک کہکشاں شاعروں کی نظر آتی ہے۔

برج بھاشا کے ضمن میں ناصر شہزاد کی اطلاع ہے، کہ: ’’ قدیم دوہا کی زبان زیادہ تر برج بھاشا کے ایوان سے با پہچان رہی ہے۔ ’’برج‘‘ شریمتی رادھا جی کے گاؤں کا نام ہے اور ’’بھاشا‘‘ اس کی بولی کو کہتے ہیں۔ ‘‘      (میگھ ملہار۔ص ۱۱)

ہندی شاعری پر بحث کے دوران اعظم کُریوی بھاشا کے شاعروں کے باب میں کہتے ہیں :

’’جس طرح اُردو میں شاعروں کی بھرمار ہے، وہی حال ہندی شاعری کا بھی ہے۔ لیکن مستند اور مشہور صرف چند ہیں، جن میں سے ’’چندربردائی ‘‘ کے علاوہ خسرو، ملاداؤد، کبیر، سعد، ملک محمدجائسی، میرابائی، تلسی داس، کیشو داس، رحیم، رس خان، نر ہر، گنگ، مبارک، عالم شیخ، سیناپت، بہاری، بھوشن، متی رام لال، دیودت، بھارتند، ہریش چندر، سید غلام نبی بلگرامی، عبدالرحمن، پریمی، سید عبدالجلیل بلگرامی، سریتایک بلگرامی، سیدرحمت اللہ بلگرامی، سردار گنیش پرشاد، للو لال خاص طور سے مشہور ہیں۔ ہندی شاعری کی یہ وہ باکمال ہستیاں ہیں، جوآسمانِ ادب پر آفتاب و مہتاب بن کر چمکیں۔ ‘‘(۳)

ان شعرا میں سے بیش تر وہ ہیں، جو دوہا کوی کی حیثیت سے بھی مشہور ہیں۔ یوں ہمیں یہ نشان مل جاتا ہے، کہ دوہا بانی کی بنیاد کے وقت کون سی زبان تھی۔ ممتاز شاعر ناصر شہزاد کی معلومات اس بیان کی تائید کرتی ہے، وہ کہتے ہیں :

’’دوہا یہاں کی شعری بوطیقا میں تب وثیقہ ہوا جب اجمیر کا جنگ جُو اور خُرم خُو جوان حکمران مہاراج پرتھوی راج چوہان اپنی منوہر مُو  اور خوبرو محبوبہ قنوج کی راج کماری سنجوگتاکو سوئمبر سے اٹھا کر اجمیر لایا۔ پرتھوی راج کے ایک ممتاز درباری شاعر چندر بردائی نے گیارہویں صدی عیسوی کے وسط میں اُس کے لیے ایک کتاب ’’پرتھوی راج راسو‘‘ لکھی جس میں پرتھوی راج کے دیگر جنگی کارناموں کے ساتھ ساتھ پرتھوی اور سنجوگتا کی لافانی محبت کے سنجوگ اور بجوگ کو ایک کہانی کے ہنگاموں اور سرناموں سے گذارا۔ اس کہانی کا احاطہ کرنے کے لیے چندربردائی نے برصغیر کی کئی ایک اصناف سخن کو اپنے فنی غرناطہ کے طور پر برتا۔ دوہا وہاں استعمال ہوا جہاں راجکماری سنجوگتا اور راجکمار پرتھوی راج کے مابین فراق اور وفاق کے مناظر کو ناظر کرنا تھا۔ اگرچہ ان دوہوں کی زبان بڑی گنجان اور بے نردبان ہے اور جدید ہندی ودوانوں کی پہچان سے بھی باہر۔ مگر اس سے یہ معمہ ضرور حل ہو گیا ہے کہ دوہا گیارہویں صدی عیسوی کے وسط میں دستور ہوا۔ چندربروائی نے ’’پرتھوی راج راسو‘‘ میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ پنکتیاں [مصرعے ]کہیں۔ ‘‘(۴)

اس سلسلے میں ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا کا یہ بیان بھی توجہ طلب ہے :

’’اکثر کلاسیکی اصناف کی جڑیں فوک ادب میں تلاش کرنی چاہییں۔ دوہا بھی انھی اصنافِ سخن میں شامل ہے۔ جس نے کسی نہ کسی شکل میں اپنی ابتدا عوامی ادب سے کی۔ ہندوستان میں سنسکرت ایک طویل عرصے تک دفتری اور سرکاری بھاشا رہی۔ ہندوؤں کی مقدس کتابیں اسی زبان میں لکھی گئیں اوراس میں اعلیٰ ترین ادب تخلیق کیا گیا۔ لیکن اسی زمانے میں پراکرتیں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں عوامی زبان کی حیثیت سے زندہ تھیں۔ سنسکرت بالائی طبقات کی زبان تھی، جب کہ پراکرتیں عوامی زبانیں تھیں۔ جواُترسے دکن اور پورب سے پچھم تک بولی جاتی تھیں۔ ‘‘ (۵)

اسی بحث میں آگے جا کر لکھتے ہیں :

’’اب تک کی تحقیق کے مطابق سنسکرت میں دوہے دستیاب نہیں ہو سکے۔ سنسکرت کا بہت سا لٹریچر موجود ہے اور ہندوستان میں اس سے آگاہی گذشتہ نصف صدی سے خاصی بڑھ چکی ہے۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر دوہے کی صنف کو سنسکرت میں لکھا گیا ہوتا تو اب تک اس کا سراغ مل چکا ہوتا۔ البتہ پراکرتوں میں اس کی ابتدائی شکلیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ کہیں ’’آلہا  اودل‘‘ جیسی منظوم داستانوں کی بحر دوہا چھند کی یاد دلاتی ہیں اور کہیں بارہ ماہ، سہ حرفی، وغیرہ اس کے موضوعات سے اشتراک کا پتہ دیتے ہیں۔ سندھی، پنجابی اور راجستھانی میں دوہا اور اس سے ملتی جلتی اصناف کا سراغ آٹھ نو سوسال سے مل جاتا ہے۔ خصوصاً پنجابی میں بابا فرید کے دوہے، برج بھاشا میں امیر خسروکے دوہے اور راجستھانی کے فوک دوہے نہ صرف موجودہ دوہے کے پیشرو ہیں، بلکہ اس روایت کو صدیوں سے مضبوط بنیاد فراہم کر چکے ہیں، جنھیں بعد کے دوہا نگاروں نے اپنایا۔ اور ان میں رنگ رنگ کے اضافے کیے۔ کبیر، تلسی داس، سور داس، رحمن(عبدالرحیم خانِ خاناں )، بہاری لال، میرا بائی وغیرہ در اصل دوہے کو ایک مقبول صنفِ سخن بنانے والے ہیں۔ جن کے دوہوں نے اس صنفِ سخن کو مقبولیت کے ساتھ ساتھ ایسی فکری اور فنی خصوصیات عطا کی ہیں، جو دوہے کی حقیقی پہچان بن گئی ہیں۔ ‘‘(۶)

ان بیانات سے جہاں دوہا بانی کا سُراغ ملتا ہے، وہاں دوہا کی قیاسی تاریخ بھی سامنے آ جاتی ہے۔ ایک تو چندر بردائی کے حوالے سے اور دوسرا خواجہ محمد ذکریا کے بیان سے۔ اگرچہ انھوں نے یہ وضاحت پنجابی زبان کے سلسلے میں بابا فریدؒ کے دوہوں کے باب میں کی ہے، لیکن اُسی زمانے میں برج بھاشا اور پوربی بھاکا میں بھی اس کا چلن معلوم ہوتا ہے۔ اسی سلسلے میں رفیق شاہین یوں اظہارِ خیال کرتے ہیں :

’’دوہا چھند ہندی زبان و اَدب کی سب سے زیادہ مقبولِ عام صنف ہے، جس کی جڑیں اُس اَپ بھرنش زبان و ادب میں پیوست ہیں جو آٹھویں صدی سے لے کر تیرہویں صدی تک دراز ہے۔ ہندی نے بھی اسی زبان سے جنم لیا ہے اور ان دونوں زبانوں کے مابین بیٹی کا رشتہ مستحکم ہے۔ ‘‘ (دوہا رنگ، ودّیاساگرآنند، ص۲۳)

جس طرح شروع میں کہا گیا، کہ لفظ زندہ ہوتے ہیں اور اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ اسی طرح زبانیں بھی وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا کی منزلیں طے کرتی ہیں۔ اپنے ارد گرد موجود زبانوں اور بولیوں سے کچھ لیتی اور کچھ دیتی اپنا سفر جاری رکھتی ہیں۔ اس ادلتی بدلتی صورت میں زبانوں میں نئے لفظوں کا ذخیرہ آتا ہے، تو ایک نیا رنگ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ دوہا بانی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ صدیوں کی مسافت کے بعد آج دوہا وہاں نہیں ہے، جہاں چندربردائی، حضرت مسعود گنج شکرؒ یا پھر یمین الدین خسرو کے زمانے میں تھا۔ البتہ کچھ لوگوں نے اُس رنگ اور مزاج کو آج بھی برقرار رکھا ہوا ہے۔ اور بہ قول انتظار حسین:

’’بات یہ ہے کہ ہر شاعری اپنا ایک تہذیبی رنگ بھی رکھتی ہے۔ دوہے کی صنف نے جس تہذیب کی کوکھ سے جنم لیا ہے، وہ خالص ہندی ہونے کے ناتے ہندو دھرم سے زیادہ مانوس ہے۔ سو بجھن کیرتن تو اس کی گھٹی میں پڑے ہیں۔ ‘‘        (پریم رس۔ص ۸)

پاکستان میں اس رنگ کو نبھانے والوں میں پہلا نام خواجہ دل محمد کا ہے، ان کے بعدڈاکٹرالیاس عشقی، جمیل عظیم آبادی، ناصر شہزاد، پرتو روہیلہ، تاج قائم خانی اور ڈاکٹر طاہر سعید ہارون نے خصوصیت کے ساتھ اس طرف توجہ کی۔ جمیل الدین عالی اور ان کی پیروی کرنے والوں کے یہاں بھی اس زبان کارَس جَس بہ ہر حال موجود ہے، لیکن ان کے یہاں اُردو، عربی اور فارسی کی لفظیات کا ذخیرہ نسبتاً زیادہ ہے۔ دوہے کی زبان کے سلسلے میں کسی قدر وضاحت خواجہ دل محمد، الیاس عشقی، جمیل الدین عالی، عرش صدیقی اورڈاکٹرطاہرسعید ہارون کے بیان میں آئے گی۔

خواجہ دل محمد نے جو زبان استعمال کی، اصل میں دوہا کی روایتی زبان وہی ہے۔ اس پر یہاں بہت لے دے ہوئی، خصوصاً اُس وقت، جب جمیل الدین عالی نے ایک الگ وزن سرسی چھند میں دوہا نگاری کا آغاز کیا۔ معترضین نے ان کے کلام کو دوہا تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ جواباً بہت سے لوگ عالی صاحب کی تقلید میں نکل آئے اور انھوں نے روایتی دوہا کے خلاف باقاعدہ محاذ بنا لیا۔ دوہا کے مخصوص وزن کی تردید سمیت اُس کی بانی پر اعتراضات ہوئے۔ اس لے دے میں ڈاکٹر عرش صدیقی صاحب پیش پیش رہے، انھوں نے تو ایک طویل مضمون دوہا کی زبان اور وزن پر لکھ ڈالا۔ حقیقتاً یہ ان کا ایک علمی کارنامہ ہے، لیکن اس کا محرک صرف اور صرف جمیل الدین عالی صاحب کے دوہوں کا تحفظ تھا۔ یوں ایک علمی اور مفید بحث کا آغاز ہوا۔ حالاں کہ خود ’’پیت کی ریت‘‘ (مصنفہ خواجہ دل محمد ) کے دیباچے میں اُن کی زبان کے حوالے سے وضاحتیں موجود تھیں۔ مولاناعبدالمجیدسالک نے یوں اظہار کیا تھا:

’’دوہوں کی زبان نہایت نرم و نازک، ہلکی پھلکی ہندوستانی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ دوہوں کے لیے یہی زبان موزوں تھی۔ عنوانات عربی فارسی کے ہیں، تاکہ پاکستانی ان کے مطالب کوآسانی سے سمجھ سکیں۔ اگر یہ عنوانات ہندی میں ہوتے تو ہمارے لیے نہایت غریب و نامانوس ثابت ہوتے۔ ان دوہوں کو پڑھ کرمحسوس ہوتا ہے کہ شاعر عمر بھر ہندی شاعری کا دلدادہ رہا ہے۔ حالاں کہ ہمارے خواجہ صاحب اُردو کے نہایت کہنہ مشق سخنور ہیں۔ اور انھیں ہندی سے کوئی دور کاواسطہ بھی نہیں رہا ہے۔ بہرکیف میں تو ان دوہوں کی زبان کو ہندی کہنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ زبان لازماً اور اساساً اُردو ہے۔ ‘‘(۷)

جب کہ یہ رائے بھی اسی مجموعے پر ظاہر ہوئی تھی:

’’یہ عجیب بات ہے، جن دنوں دوہا ہندی شاعری میں اپنا اصل مقام کھو بیٹھا تھا۔ پنجاب کا ایک کہنہ مشق شاعر اُسے اُردو کی ایک صنفِ سخن کی حیثیت سے دُنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش میں تھا۔ ‘‘(۸)

پہلی رائے میں اگرچہ مبصر نے ڈرتے ڈرتے اس زبان کو اُردو تسلیم کیا ہے اور اپنے شکوک بھی واضح کیے ہیں، جب کہ دوسری رائے تو دو ٹوک ہے اور اس زبان کو اُردو ہی خیال کرتی ہے۔ جمیل عظیم آبادی کا کہنا ہے :

’’اُردو دوہے کی زبان عموماً برج بھاشا ہے۔ بھاشا کو ادبی مقصد کے لیے سب سے پہلے اُردو شعرا نے استعمال کیا ہے۔ ہندی شعرا کے نزدیک یہ زبان گنوار بولی سمجھی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے، کہ دوہے کو صوفیائے کرام، سادھوؤں، سنتوں اور درویشوں نے پروان چڑھایا۔ ان کا مقصد عوام کو تلقین کرنا تھا۔ ‘‘        (رنگِ ادب۔ص ۱۲۱)

ڈاکٹر عرش صدیقی صاحب نے اس بات کو قدرے وضاحت سے بیان کرتے ہوئے اپنے بیان کی تائید کے لیے ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے مضمون مشمولہ ’’ہندی شاعری نمبر‘‘ سے ہندو علمائے ادب کے بیانات کو بھی شامل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:

۱…     عوامی زبان کے ادب کی تخلیق اس امداد و اقتصادی خوش حالی کا ثمرہ تھا، جو عوام کو دہلی کی مسلم سلطنت سے حاصل ہوئی۔                (جادو ناتھ سرکار)

۲…    بھاشا کو ادبی مقاصد کے لیے سب سے پہلے مسلمانوں نے ہی استعمال کیا، ورنہ برہمنوں کے نزدیک وہ ایک گنواری بولی تھی، جس میں لکھنا پڑھنا درکنار کوئی بات کرنا بھی پسند نہ کرتا تھا۔    (ڈاکٹر لچھمی دھر)

ان بیانات کواقتباس کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں :

’’برج بھاشا اور مگدھی بھاشا کا رسم الخط دیوناگری تھا اور مزاج عوامی۔ برج بھاشا وہ بولی تھی، جو راجہ بھرت کے زمانہ سے پہلے یعنی گیارہویں صدی بکرمی سے پہلے برج کے علاقے میں بطور ایک پراکرت کے رائج تھی اور اسی طرح ایک علاقائی زبان تھی، جس طرح پنجاب میں پنجابی، بنگال میں بنگالی، سندھ میں سندھی اور گجرات میں گجراتی رائج ہے۔ بعد میں متھرا اس بھاشا کا مرکز بنا۔ ‘‘ (پاکستان میں اُردو دوہا۔ مشمولہ کملی میں بارات، ص۳۹)

لسانی سطح پرپاکستان میں اُردو دوہا کو سب سے زیادہ ثروت مند کرنے والے شاعر ڈاکٹر طاہر سعید ہارون ہیں۔ انھوں نے اب تک قریباً بارہ ہزار کے قریب دوہے کہے ہیں۔ ان کے گیارہ مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ خصوصاً اسلامی رنگ کے حامل دوہوں میں انھوں نے عربی اورفارسی زبانوں کے الفاظ کثرت سے استعمال کیے ہیں۔ انھوں نے بڑی تعداد میں حمدیہ، منا جاتیہ، نعتیہ اور قرآنی آیات کے تراجم پر مشتمل دوہے کہے ہیں۔ ان دوہوں میں یہ دونوں زبانیں پوری طرح جلوہ دکھاتی ہیں۔ اس کے علاوہ وطن کی محبت میں لکھی گئی شاعری میں بھی یہ زبانیں پورے قد کے ساتھ موجود نظر آتی ہیں۔ البتہ انھوں نے حسن و عشق اور علم و عرفان کے باب میں قدیم بھاشا کو مقدم رکھا ہے۔ اسی طرح تاج قائم خانی کے یہاں بھی جدید اُردو ہی زیادہ ترمستعمل ہے۔ جمیل الدین عالی صاحب اور ان کی تقلید کرنے والوں کے یہاں بھی یہی رنگ ہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے تو  باقاعدہ دوہا کی روایتی بانی سے احتراز کیا اور عبدالعزیز خالد صاحب نے عربی کے ثقیل ترین الفاظ دوہوں میں استعمال کر کے ایک نئی طرح ڈالی۔ اس رنگ کے وہی موجد اور وہی خاتم بھی ہیں۔ ہندوستان میں اور یہاں پاکستان میں البتہ نئے لکھنے والوں نے بھاشا کے ساتھ ساتھ جدید زبان کو بھی اپنا رکھا ہے۔ حق یہ ہے، کہ یہی زیادہ مناسب صورت ہے۔ اس لیے کہ جہاں روایت کو زندہ رکھنا لازم ہے، وہاں اس میں بڑھوتری اور ترقی کی راہیں ہموار کرنا بھی ضروری ہے۔ ڈاکٹر عرش صدیقی صاحب نے کیا خوب صورت بات کی ہے :

’’نیا موضوع یا خیال اپنے ساتھ نئی زبان اور نیا پس منظر اور نیا ماحول لاتا ہے اور نئی زبان کے الفاظ بھی اسی طور اپنی تاریخ اور تہذیبی صورت حال سے معانی اور فضا تبدیل کر دیتے ہیں … ہندی شاعری کا ایک بڑا حصہ عاشقانہ ہے یا ناصحانہ معتقدات سے متعلق ہے۔ اس میں ایک ہی موضوع پر بہت کچھ لکھا ہوا تو ملتا ہے، لیکن تنوع نہیں ہے۔ اب اگر اس صنف میں اُردو الفاظ اور نئے موضوعات شامل کیے جائیں گے، بلکہ از خود ایک فطری عمل کے تحت بھی ہوں گے، تو نمایاں تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ ‘‘ (۹)

عرش صدیقی صاحب کی یہ رائے سائنسی اُصولوں پراُستوار ہے۔ اُسلوبیات اورلسانیات کا علم بھی سائنس ہے۔ زبانوں کے ارتقا کے ضمن میں دوسری رائے نہیں ہو سکتی۔ اسی سے ملتی جلتی بات ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے کی ہے، مگر ایک اور زاویے سے، ملاحظہ ہو:

’’اُردو شاعری میں ہندی آمیز شاعری کی ایک محدود روایت بھی چلی آ رہی تھی، جس میں اندرجیت شرما، میرا جی اور مقبول احمد رائے پوری کے نام اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی کی بات ہے، کہ اس رنگِ سخن نے لوگوں کو کسی قدر اپنی طرف متوجہ کیا۔ گیتوں کے ذریعے ان شعرا نے ایسی فضا تخلیق کی، جس میں ہندی ذخیرۂ الفاظ کو مرکزی اہمیت حاصل تھی اور فکری فضا گنگا جمنا کی وادی کے قدیم تجربات پر مشتمل تھی، تاہم اُردو شاعری کی عام روش کو یہ متاثر نہ کر سکی۔ ‘‘(۱۰)

عام روش کو متاثر نہ کرنے کاسبب یہی ارتقائی عمل ہے۔ زبان دوسری زبانوں کے ساتھ الفاظ ادلتی بدلتی رہتی ہے۔ آج کی بول چال حتیٰ کہ لکھنے کی زبان بھی تبدیل ہو چکی ہے۔ وہ اُردو رائج نہیں رہی ہے، جو قیام پاکستان کے دنوں میں یا اُس سے کچھ پہلے یہاں موجود تھی۔ اگراُس وقت کی تحریروں سے موازنہ کیا جائے تو بڑا فرق اور واضح خلیج دکھائی دیتی ہے۔ لیکن یہ بات بہ ہر حال اپنی جگہ موجود ہے، کہ اگر گیتوں کی اساسی فضا زائل کر دی جاتی یا جائے تو یہ ایسا ہی ہے، کہ جسم سے روح نکال دی جائے۔ اگر غزل میں ہم تغزل کی بات شدت اور اصرار کے ساتھ کرتے ہیں اور قُدری کرتے ہوئے ہماری زبان نہیں تھکتی تو پھر ہندی اصناف میں سے ہندی کی واشناؤں کو کھرچ ڈالنا انصاف کے منافی ہو گا۔ یہ بات اَدب کی روح کے بھی خلاف ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا لفظوں کی قبولیت کے باب میں کہتے ہیں :

’’کلیشوں کے دست برد سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے، کہ نئے الفاظ کی کمک کا انتظام کیا جائے، بشرطیکہ یہ الفاظ اپنی صوتی مناسبت کے علاوہ معنی آفرینی کے عمل میں بھی معاون ہوں۔ ‘‘(۱۱)

یہاں ایک اُصول وضع کر دیا گیا ہے۔ یعنی الفاظ تو لازماً لیے جائیں، لیکن وہ الفاظ جو صوتی آہنگ کے ساتھ ساتھ فصیح و بلیغ بھی ہوں۔ محض خانہ پُری یا شوقِ ہندی میں لفظوں کے پہاڑ نہیں اُٹھانے چاہییں۔ اسی بات کو دوہا نگاری کے تناظر میں ڈاکٹر سلیم اختر نے ایک جگہ یوں بیان کیا ہے :

’’دوہا(اور گیت بھی) محض ہندی الفاظ کے استعمال کا نام نہیں، دوہا مخصوص طرزِ احساس اور اس سے جنم لینے والے طرزِ اظہار کا نام ہے، محض ہندی الفاظ کی مالا جپنے کا نہیں۔ ‘‘(۱۲)

ایک اور مقام پر کہتے ہیں :

’’اصناف کے اس میلے میں صرف دوہا اور گیت ہی دو ایسی اصناف ہیں، جو ہندی زبان اور اساطیر پر اُستوار ہیں، چنانچہ لسانی اور تہذیبی تغیرات، سیاسی ماحول اور ادبی مذاق میں تبدیلیوں کے باوجود ان کا ہندی پن برقرار ہے۔ اس حد تک کہ اگرمفرس دوہا کہیں تو وہ دوہا نہ رہے گا، بلکہ غزل کا مطلع بن جائے گا۔ ‘‘(۱۳)

ان دونوں علمائے ادب کے بیانات سے بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے۔ دوہا بانی کی روایت اور تاثیریت اور زبانِ اُردو کے باب میں ڈاکٹرالیاس عشقی کا نظریہ بھی بہت اہم ہے، وہ کہتے ہیں :

’’میں اُردو زبان کے متعلق اپنے عقیدے کی وضاحت کر دوں، میرے نزدیک اُردو زبان کے تین روپ ہیں۔ ان میں سب سے پہلا روپ امیر خسرو کی زبان ہے۔ جسے عام طور پر لوگ پوربی زبان کہہ دیتے ہیں۔ لیکن پوربی کوئی زبان نہیں۔ وہاں کئی زبانیں، جن میں مماثلت ہے، رائج ہیں۔ ان میں سے ہر زبان کو لوگ پوربی کہہ دیتے ہیں۔ مگر امیر خسرو کی زبان برج بھاشا ہے نہ اودھی نہ بھوجپوری نہ بُندیلی، بلکہ اس میں ان سب سے مماثلت ہے۔ اگر غور سے دیکھیں تو امیر خسرو کی پہیلیاں، مکرنیاں، دوسخنے، انمل، ڈھکوسلے، گیت اور راگوں کے بول اور بعض دوہے، جوان کے نام سے مشہور ہیں۔ اپنی خصوصیات میں کھڑی بولی سے قریب تر ہیں۔ جس سے اُردو پیدا ہوئی۔ اور جو اُردو کا اولین عوامی اور وسیع روپ ہے۔ امیرخسروکواُردو اور ہندی دونوں زبانوں کا اولین شاعر سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے کہ یہ دونوں زبانیں بنیادی طور پر ایک تھیں۔ بعد میں سیاسی اغراض و مقاصد کے تحت علیحدہ زبانیں ہو گئیں۔

کھڑی بولی کا عام ادبی روپ بھارتیندو ہرش چندر کی زبان ہے۔ ان کی زبان اور اُردو میں فارسی، عربی اور سنسکرت الفاظ کے تناسب کا فرق ہے۔ کھڑی بولی کے اس دور تک اُردو کا یہ دوسرا رُوپ ہے۔ تیسرا رُوپ وہ ہے، جو اُردو کا ادبی روپ ہے اور حسن شوقی، نصرتی اور محمد قلی قطب اور ولی سے ہوتا ہوا مظہر جانِ جاناں اور خان آرزو کو شامل کرتے ہوئے میر، سودا اور خواجہ میر درد تک آتا ہے۔ اور جواَب تک اُردو زبان کا ادبی روپ ہے۔ یہ روپ بھارتیندو ہرش چندر کی زبان سے علیحدہ ہو گیا ہے۔ ‘‘(۱۴)

یہ رائے ایک طرح سے دوہا بانی کے ساتھ ساتھ اُردو کی ابتدا، مسافرت اور آج کو محیط ہے اور میرے نزدیک یہ بڑی حد تک معتبر رائے ہے۔ اگر زبانوں کوسیاسی تعصب کی عینک اُتار کر دیکھا جائے تو بہت سی باتیں اور اعتراضات خود ہی رفع ہو جاتے ہیں۔

دوہا بانی پر پڑنے والے اثرات دوہا نگاروں کے باب میں سامنے آئیں گے۔ اور خصوصاً دوہوں میں عربی، فارسی، پنجابی زبانوں کے اثرات اچھی طرح واضح ہوں گے۔ ڈاکٹر وحید قریشی کے یہاں مقامیت اور عبدالعزیز خالد کے یہاں عربیت کا رجحان دکھائی دے گا۔ ڈاکٹرطاہرسعید ہارون کے حمدیہ، نعتیہ اوراسلامی تعلیمات کے حامل دوہوں میں ان تینوں زبانوں کی جھلک بھی نظر آئے گی۔ دوہا بانی میں ان تمام متغیرات کے داخل کیے جانے کے باوجود کمال یہ ہے، کہ وہی دوہا نگار کامیاب دکھائی دیتا ہے، جس نے دوہے کے روایتی مزاج کی پاس داری کی۔

پاکستانی دوہا نگاروں نے اپنے دوہوں میں جو الفاظ شامل کیے، ان میں عربی فارسی الفاظ پر مشتمل ایک فہرست ڈاکٹر عرش صدیقی صاحب نے مرتب کی ہے، جو در اصل دوہے کی زبان کے ارتقا کا ثبوت ہے۔ ان دوہا نگاروں میں اکثریت اُن لوگوں کی ہے، جنھوں نے جمیل الدین عالی صاحب کی بحر اور رنگ کی تقلید کی۔ اس فہرست سے قبل وہ دوہا کے حوالے سے ایک تاریخی شہادت بھی بیان کرتے ہیں، ملاحظہ ہو:

’’مغلیہ دور کے بعد مدت تک دوہے میں کوئی بڑا نام سامنے نہیں آیا۔ پاکستان کے قیام تک جو شاعری اور اَدب تخلیق ہوا وہ زیادہ اُردو ہی میں تھا، لیکن پاکستان کے قیام کے بعد بھارت میں اُردو کے ساتھ ساتھ ہندی میں بھی بڑے پیمانے پر لکھا جانے لگا۔ بھارت میں قدیم برج بھاشا اور سنسکرت کی لغت کو زندہ کرنے کی کوشش جاری ہے۔ پاکستان میں اُردو کو برج بھاشا یا درواوڑی زبان سے ملنے والے الفاظ کو نکال باہر کرنے کا کبھی خیال نہیں آیا، بلکہ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے، گیتوں اور دوہوں کے ذریعے بھارت کی زبانوں سے فطری طور پر آنے والے الفاظ کے لیے راستہ کھلا رکھا گیا ہے، تاہم یہ ضرور ہوا ہے، کہ مجموعی طور سے دوہوں کی زبان پاکستان میں رائج عوامی زبان کے قریب تر ہو رہی ہے اور اُردو دوہوں کی زبان میں رائج اُردو الفاظ کاتناسب مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اور در اصل یہی زبان کا فطری ارتقا ہوتا ہے۔ ‘‘(۱۵)

اس بیان سے جو بات ظاہر ہوئی ہے، وہ یہ کہ رائج اُردو نے اپنے اندر نمایاں تبدیلیاں پیدا کی ہیں اور دوسرا یہ کہ اُس نے برج بھاشا یا دراوڑی زبان کے الفاظ کو باہر نہیں نکالا۔ سچی بات تو یہ ہے، کہ اُردو کی روح یہی زبانیں ہیں اور اس کے خمیر میں یہ شامل ہیں۔ اگر کوئی ایسی کوشش کرتا، تو اُردو کاحسن تو تباہ ہو کر رہ جاتا۔ باوجود اس کے کہ عوامی سطح پر پراکرتوں کی لفظیات کی جگہ بڑی حد تک عربی اورفارسی لفظ لے چکے ہیں، پھر بھی برج بھاشا اور پوربی بھاکا کے اثرات رہیں گے۔ بھارت سے نئے الفاظ کیا آئیں گے اور انھیں کیاسمویا جائے گا؟ وہ لفظ تو پہلے سے ہی اُردو کے دامن میں موجود تھے، جنھیں رفتہ رفتہ ترک کیا گیا۔ خیر!رائج اُردو کے لفظوں کی وہ فہرست دیکھیے، جو دوہوں میں شامل ہوئے۔ یہ فہرست دوہا نگاروں کے تعارف کے ساتھ دی جا رہی ہے :

خواجہ دل محمد:

خودی، کعبہ، دہر، کنشت، روح، دوزخ، بہشت، قطرہ، طوفان، جہان، نازنین، عاشق، خوشبو، غش، شبنم، فطرت، مشعل، ترازو، عقل، لباس، دفنانا، سبزہ، الہام، فانی، آزاد، غلام، نادار، اُصول۔

جمیل الدین عالی:

ویران، انجام، طرہ، تاثیر، برقعہ پوش، ثابت، طوفان، استاد، نور، صدیاں، انبار، شہرت، رنگ، کاہکشاں، احوال، قربان، مشک، ضمیر، آزادی، احباب، حقیقت، محفل، تصویر ، مضمون، جزیرے، حرام، پیغام، خاک، بیزار، ترکیبیں، وظیفہ، ظاہر، باطن، قدیم، مہجور، مغرور، ضرور۔

عادل فقیر(عرش صدیقی):

دلگیر، حاصل، خلقت، عادل، عظمت، طور، تاجِ شہی، حیران، مولا، تقدیر، وکیل، دشوار، رسول، مقبول، حرمت، تحقیر، نخچیر، مجہول، قدریں، جذبے، آوارہ گردی، بخت، سکندر، پرواز، نصیب، عجیب، خواہش، خواب، گمان، تدبیر، یخ چہرہ، نفرت، کہسار، درہم، دینار، گلزار، منظور، مجبور، کمال، مثال، انصاف، فیصل، قول زریں، نصیر، زیب، بیداد، مسرور، فساد، قطرہ، طوفان، ویران، ابلیس، بشیر، نذیر، عجز، لحاظ، نیاز، فخر، غرور، تکبر، روزہ، نماز، نایاب، تقصیر۔

مشتاق چغتائی:

تعریف، عاجز، مخلوق، جلوے، پردہ نشیں، حسیں کائنات، ظاہر، باطن، کارِ دُنیا، دراز، منکر، ہویدا، غفلت، شمار، دلیل، زندہ دل، عقبیٰ، کرب و بلا، رضا، غلامی، نزول، قربان، کشف، کرامات، والایت، محروم، مختار، جہاں پناہ، عید، روشن، ضمیر، بے نظیر، وحی، قلب، غوث، حقیقی، اصلی، تصوف، نقش و نگار، تسبیح، شہرت، گردش، الف، خانۂ خدا، صنم کدہ، نمایاں فرق، ظرف، شمع، سنگ مرمر، سنگ لرزاں، حروف، اعتماد، عابد، رحمان، تراشنا، صنم، کافر، محسن، محتاط، علم، دشوار، فضل، حقیقت، پازیب، صحرا، جلوہ، شوہر، راز، غرور، مرقد، مقدر، عذاب، سخن فہم، شرافت، نعمت وغیرہ۔

قتیل شفائی:

غرور، شخص، عکس، آئینہ۔

عبدالعزیز خالد:

بزمِ کون وفساد، تلاشِ کنجِ سکوں، دیدۂ آغشتہ بخوں، محال است جنوں، آہنگ سرخوشی، مجذوب، بین السطور، اہل تملق، درجات، شوق، مقبول عام، کمند۔

بھگوان داس اعجاز:

معاوضہ، تاج پوش

کاوش پرتاب گڑھی:

ہجر، حرف، سخنوری، جسم

رشید قیصرانی:

چسپاں، صرف، حرف، مطلب، سنگ میل، تحویل، سراب، منظر، تعبیر، سحر۔

نصیر احمد ناصر:

خواب، سفر، ہجر، شبنم، قرب، حالات

افضل پرویز:

نمایاں، پریشاں

سلطان اختر:

پہلو، مہتاب، خواب، چہرے، منقول، معصوم، مقبول، مشعل، خانہ بدوش۔ (۱۶)

الیاس عشقی صاحب کے ضمن میں عرش صدیقی صاحب نے قدرے تجاہل عارفانہ سے کام لیا، ورنہ اُن کے یہاں بھی ایسے الفاظ کی کمی نہیں، ملاحظہ ہو:

ابتدا، خلق، خود، انجام، تشبیہ، مثال، حقیقت، خیال، معمور، سمندر، ساحل، وہم، گمان، ظلمت، مستور، نور، ظہور، خزانہ، دم، عیاں، ظاہر، نہاں، ازل، ابد، دور، پاک نبی، لمحہ، مجسم، شکل، شان، رب، حرف، نشان، نوری، خاک، سرلولاک، سرداری، کونین، زیبا، لباس، افلاک، گواہی، حشر، مختیار، آبِ حیات، شفاعت، وجہ نجات، ایمان، مومن، طور، چاندنی وغیرہ۔

لطف کی بات یہ ہے کہ یہ فہرست صرف شروع کے دو صفحوں سے بنائی گئی ہے، جو حمد و نعت کے مضامین پر مشتمل ہیں، البتہ باقی دوہوں میں ایسے الفاظ کم کم ہیں۔ ہو سکتا ہے عشقی کا یہ کلام عرش صدیقی کے انتخاب کے بعد کا ہو۔

ڈاکٹر طاہر سعید ہارون:

ان کے یہاں سب سے زیادہ رائج اُردو کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ ان کے دوہوں کی تعداد ہے۔ اب تک سب سے زیادہ بارہ ہزار دوہے، انھی نے کہے ہیں۔ کچھ الفاظ دیکھیے :

بخشے، رب، لوگ، دھوپ، مولا، ذلت، عزت، عطا، قادر، عظمت، ذرہ، نور، مسحور، سرچشمہ، حاکم، روزی، رزّاق، رحمت، جنگل، منزل، روشن، مشرق، مغرب، ہوائیں، معبود، برف، حسین، قالین، خالق، شہکار، شبنم، قطرے، جلوہ، بھوک، کاغذ، تکیہ، رسی، سیرت، مسند، تاج، شاہی، معراج، نفرت، دروازے، آقا، رتبہ، کوثر، شافع، طیبہ، روضہ، جنت، گلزار، خدا، فیضان، اعمال، خوشحال، میزان، دوزخ، عالی ذات، سچاسلطان، عرش، رحمان، ایمان، خوشبو، جگنو، عش عش، بادل، وادی، کلیاں، چاند، کہسار، جھنڈا، احسان، قرض، شاداب، گلاب، کندن، ہشیار، زلفیں، انوکھا، چہرہ، ہزاروں، پھول، جھیل، موتی، خواب، آغاز، نماز، بندگی، قائم، موجود، عرفان، غافر، ستار، حباب، بیتاب، بھوکا، نہال، وجود، نمود، نصیب، خیر، کلام، عادل، نزدیک، شیطان، برباد، جھولی، رحیم، کریم، تقدیس، دہلیز، وحدانیت، تاثیر، تنویر، برکت، منبع، کرنیں، ذات، غافل، تقدیر، بصیر، ریت، قہار، متکبر، جبار، رشتہ، دوستی، آن وغیرہ۔

یہ لفظوں کا انتخاب دو کتابوں میں شامل حمد و نعت کے باب سے کیا گیا ہے۔ ڈاکٹرطاہرسعید ہارون کی گیارہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ موجودہ عہد میں انھوں نے صحیح معنوں میں دوہا بانی کو ثروت مند کر کے وقار بخشا ہے۔

 

 

 

 

 

دوہا بھید

 

 

 

دوہا کے فن پر گفتگو سے پہلے ضروری ہے کہ لفظ ’’دوہا‘‘ کے مفاہیم سے آگاہی حاصل کر لی جائے۔ دوہا ہندی لوک اَدب کی ایسی صنف ہے، جس میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں دوہے کہے گئے۔ صرف ایک شاعر کیسو داس نے اس میں پچھتر ہزار دوہے کہے۔ مختلف لغات نے دوہا کو کیا جامہ پہنایا ہے، ذیل میں دیا جا رہا ہے :

قاعد الغات:

بیت۔ (ع)شعر۔ فرد۔ دوہا

شعر۔ (ع)…نظم۔ فرد۔ بیت۔ گیت۔ دوہا

فرد۔ (ع) ایک شعر۔ دوہا(۱۷)

ہندی اُردو لغت:

دوہا ایک ہندی نظم ہے، جس میں چار چرن ہوتے ہیں۔ (۱۸)

علمی اُردو لغت:

دوہا/دوہڑا(ہ۔ امذ) ہندی نظم کی ایک قسم۔ (۱۹)

قدیم اُردو لغت:

دوہا، دو مصرعوں کی ایک نظم، جس میں چار چرن ہوتے ہیں۔ (۲۰)

فرہنگ آصفیہ:

دوہا یا دوہرا۔ ہ۔ اسم مذکر۔ جوڑا۔ بیت۔ فرد۔ دو مصرعوں کا ہندی شعر۔ (۲۱)

اعجاز اللغات:

دوہا(دو۔ ہا)ہ۔ امذ۔ دو مصرعوں پر مشتمل ہندی شعر۔ (۲۲)

آکھیا بابافرید:

دوہے کا ہر مصرع دو چرنوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ پہلے چرن میں ۱۳ ماترائیں پھر وسرام۔ اگلے چرن میں ۱۱ ماترائیں ہوتی ہیں۔ اسی طرح دونوں مصرعوں کی ۴۸ماترائیں ہوتی ہیں۔ (۲۳)

وڈی پنجابی لغت:

دوہا۔ مذکر ہندی پنجابی شاعری دی اک صنف جیہدوچ دو مصرعے ہوندے نیں۔ (۲۴)

فیروز الغات:

دوہے (دو۔ ہا)[ہ۔ مذکر] دو مصرعوں کا ہندی شعر۔ (۲۵)

نور الغات:

دوہا۔ دوہرا۔ ہندی نظم کا بیت۔ (۲۶)

جامع الغات:

دوہا ہندی بیت ہے۔ (۲۷)

اُردو لغت:

دوہا۔ا مذ۔ دوہرا… دوپد(مصرعوں ) اور چار حصوں پر مبنی ۴۸ ماترا کا بیت۔ یہ صنف سخن ہندی سے اُردو میں آئی۔ [س۔ دوِدہا]

پلیٹس ڈکشنری:

S.M an old popular prakrit and Hindi meter; a couplet , distich ( the two verses of which rhyme ) ; each verse consists of 24 matras which are distributed into feet of 6+4+3 matras respectively , with a ceasura at the end of each first hemstich.(28)

آکسفورڈ ڈکشنری:

Doha : duidha , duipatha , Ap duvahaam, A rhyming couplet , in which each line consist of half lines made up of feet of 6+4+3 and 6+4+1 matras respectively.(29)

بھارگوا ڈکشنری:

Doha: n-mas a couplet (in Hindi) (30)

 

اب علمائے ادب نے جو تعریفیں کی ہیں، وہ ملاحظہ ہوں :

عارف منصور:

یہ وہ صنف سخن ہے جو ایک بیت یا ایک شعر پر مشتمل ہوتی ہے۔ لیکن اس شعر کے ہر مصرعے کے دو حصے ہوتے ہیں، جن کے بیچ میں ٹھہراؤ(بسرام یا وشرام) ہوتا ہے۔ اس طرح پورا شعر چار ٹکڑوں پر مبنی ہوتا ہے۔ اس کو اُردو میں بیت کا مترادف کہہ سکتے ہیں اور مفہوم کے اعتبار سے مکمل ہونے کے باعث اسے رباعی کا ہم پلّہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ (۳۱)

جمیل یوسف:

دوہا برصغیر پاک و ہند کے لوک گیتوں سے ملتی جلتی ایک صنف ہے، جس کا ہر شعر غزل کے اشعار کی طرح معانی و مطالب کے لحاظ سے اپنی جگہ مکمل اور غزل کے مطلع کی طرح ہم قافیہ ہوتا ہے، مگر دوہا غزل کے اشعار کی طرح مختلف اوزان اور مختلف بحروں میں نہیں ہوتا۔ رباعی کی طرح اس کی ایک دو مخصوص بحریں ہیں۔ (۳۲)

محمدسالم:

دوہا ایک قدیم صنفِ سخن ہے، لیکن اس کی روایت نہ سنسکرت میں ملتی ہے اور نہ ہی عربی اور فارسی میں۔ اس کو دو مصرعوں والا چھند کہا جاتا ہے۔ اس کی شکل غزل کے مطلع سے ملتی جلتی ہے۔ دونوں مصرعے آپس میں مقفیٰ ہوتے ہیں۔ ہیئت کے اعتبار سے دونوں میں مماثلت ہے، لیکن غزل اپنے شعری مذاق، مزاج اور جمالیات میں جداگانہ طرز کی حامل ہے۔ اسلوبیاتی اعتبار پر دونوں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ (۳۳)

ڈاکٹر محمد محفوظ الحسن:

دوہا ہندی شاعری کی ایک اہم صنف ہے۔ دوہے کی روایت اُردو شاعری میں بھی شروع سے ہی رہی ہے، اس کی ابتدا کا سہرا بھی امیر خسروؒ کے سر بندھتا ہے۔ (۳۴)

جمیل عظیم آبادی:

دوہا کے لفظی معنی ہیں ’’دو مصرعوں کا ہندی شعر‘‘ جس طرح غزل گوئی کا فن فارسی سے اُردو میں آیا، اسی طرح دوہا نگاری کا فن ہندی سے اُردو میں آیا۔ (۳۵)

پروفیسر افتخار اجمل شاہین نے اپنے ایک مضمون میں ’’ادبی اصناف‘‘ سے ڈاکٹر گیان چند جین کی یہ رائے نقل کی ہے :

ڈاکٹر گیان چند جین:

’’یہ عروضی صنف ہے، جو ایک شعر کے برابر ہوتی ہے۔ اس کے ہر مصرعے میں ۲۴ ماترائیں ہوتی ہیں۔ مصرعے کے پہلے جزو میں ۱۳ ماترائیں ہوتی ہیں، اس کے بعد وقفہ اور دوسرے جزو میں ۱۱ماترائیں۔ ‘‘(۳۶)

اصنافِ سخن اور شعری ہیئتیں :

اس کے نام سے ہی ظاہر ہے، کہ دوہا دو مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ اس بنا پر غزل کے مطلعے کا ہم صورت ہوتا ہے۔ دوہوں کے دونوں مصرعے دو حصوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ پہلا حصہ ۱۳ ماتراؤں کا ہوتا ہے اور سم کہلاتا ہے۔ دوسرا حصہ گیارہ ماتراؤں پر مشتمل ہوتا ہے اسے وشم کہتے ہیں۔ (۳۷)

تاریخِ ادبیاتِ مسلمانانِ پاکستان و ہند:

دوہا ہندی شاعری کی ایک اہم صنف ہے اور عربی کے بیت کے مترادف ہے۔ اس میں دو مصرعے ہوتے ہیں، جن کا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے۔ ہر مصرع کئی حصوں میں تقسیم ہوتا ہے، جنھیں چرن یا پد کہتے ہیں۔ (۳۸)

ابواللیث صدیقی:

دوہا برج بھاشا میں شاعری کی ایک مقبول صنف ہے اور متقدمین میں آج تک کسی قدر اس کا رواج پایا جاتا ہے۔ (۳۹)

جابر علی سید:

ہندی دوہا ہماری بیت کے مماثل ہے۔ دونوں کی ہیئت اور مضامین میں بڑی حد تک مماثلت ہے۔ (۴۰)

مخدوم الطاف حسین:

دوہا کی صنف اپ بھرنش یعنی وی بھاشا پاوی بھرشٹ کی صنف ہے۔ لفظ ’’دوہا‘‘ در اصل سرائیکی کا لفظ ڈوڈہا ہے، جس کا مطلب کسی چیز یا کپڑے کو دو تہوں میں لپیٹنا یا پھر ڈبل(دو) کے مفہوم میں بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ مگر انگریزی کی طرح جو فرق سیکنڈ اور ڈبل میں ہے، وہی سرائیکی ڈو اور ڈوڈہا میں ہے۔ اوبرائن کی گلوسری آف ملتانی لینگوئج سے ایک انگریزی اقتباس صفحہ X۷۔ ماخوذ ملتانی زبان اور اس کا(کذا) صفحہ نمبر۳۷۴

The most popular form of literature is the Doha , which in verse containing two lines , whenever a collection of jats take place for pleasure or for work, they begin to sign Dohra.۔ .. thy joys and pains of love , separation from home , immutability of fate and matters connected with agriculture life for the topics of ninety out of hundred Dohras.               (۴۱)

راج پال :

چار حرفوں والا شدھ چھند(جیسے بہاری کا دوہا) اور جہاں تک بہاری کے دوہوں کا تعلق ہے، وہ مستند بحر 11+13پرمشتمل ہیں۔ (۴۲)

ڈاکٹر ضیاء الحسن:

دوہا بھی غزل کے شعر [مطلع]کی طرح دو مصرعوں کی مکمل نظم ہوتا ہے۔ دوہا غزل سے مزاجاً بہت قریب ہے اور غزل کی طرح موضوعاتی تسلسل کی طرف مائل ہوا ہے۔ (۴۳)

شہناز پروین:

اس [دوہا] کی بنیاد ہندی زبان اور اساطیر پر اُستوار ہے اور اس کی فضا میں بر صغیر ہند و پاک کی مٹی کی مخصوص خوشبو ہے۔ (۴۴)

بشریٰ اعجاز:

دوہا اَپ بھرنش یا سنسکرت سے نکلا ہے۔ ہندی شاعری میں دوہے کو ’’شلوک‘‘ کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے : شاہ کا کلام۔ دوہا بیت، یا فرد کی طرح دو مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ دوہے کا شاعر انھی دو مصرعوں میں ایک خیال، ایک مضمون یا ایک جذبے کو بیان کرتا ہے۔ (۴۵)

ڈاکٹر محمد طہور خان، پارس:

دوہا ہندی کا ایک معروف چھند ہے، جو ہندی کی پہچان بھی ہے، یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے کہ دوہا اَپ بھرنش کا اپنا مخصوص وزن ہے … در اصل دوہا فرد کی طرح تنہا ہوتا ہے۔ دوہے کا ہر شعر اپنے آپ میں معنوی اعتبار سے مکمل ہوتا ہے۔ (۴۶)

ان دو درجن سے زائد مفاہیم اور تعریفوں سے یہ واضح ہوتا ہے، کہ دوہا فرد کی طرح ہوتا ہے، غزل کے مطلع جیسا ہم قافیہ ہوتا ہے۔ مضامین کے اعتبار سے دو مصرعوں پر مشتمل یہ ایک مکمل یونٹ ہے، جس طرح غزل کاشعر۔ ہندی صنف سخن ہے اوراس کا آغاز پراکرتوں سے ہوتا ہے۔ یہی زیادہ تر علمائے اَدب کی رائے ہے۔ اس کا مخصوص وزن ’’دوہا چھند‘‘ ہے جو ماترائی نظام اور پنگل کا حامل ہوتا ہے۔ اس کی ہر پنکتی (مصرع) دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ پہلے حصے میں تیرہ ماترائیں آتی ہیں، پھر بسرام(وقفہ) ہوتا ہے اور پھر گیارہ ماتراؤں پر پنکتی ختم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح دوسری پنکتی ہوتی ہے۔

اگرچہ یہ غزل کے مطلع سے مماثل صنفِ سخن ہے، لیکن اصلاً اور مزاجاً اس سے بہت مختلف ہے۔ اس کی زبان، بحر، مضامین اور خاص اُسلوب اسے ہر دوسری صنف سے جُدا کرتے ہیں۔ محض برج بھاشا یا پھر ہندی الفاظ پر مشتمل کوئی شعر دوہا نہیں کہلاسکتا اور نہ اس کے بنیادی آہنگ تبدیل کر کے کی گئی شاعری دوہا ہو سکتی ہے۔ دوہا کے ثقہ بند کوی اس کے مخصوص اوزان اور اُن میں بھی خاص مہارت کو ہی اہم سمجھتے ہیں۔ بسرام ہمیشہ مکمل لفظ پر ہی دُرست تسلیم کیا جاتا ہے، شکستِ لفظی یہاں جُرم خیال کی جاتی ہے۔ ماہرین کی آرا میں اس کا آہنگ، وزن یا بحر دیکھنا لازم ہے۔

 

                دوہے کا آہنگ / دوہا چھند:

 

بنیادی طور پر دوہا کو عروضی صنفِ سخن تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس میں بڑی مہارتیں درکار ہوتی ہیں۔ ماہرینِ دوہا نے اس کے لیے بنیادی آہنگ ’’ دوہا چھند‘‘ موزوں قرار دیا ہے۔ اسی وزن میں بیشتر کلاسیکی دوہا کہا گیا ہے۔ اکا دُکا مثالیں اس سے باہر نکلتی ہوں گی۔ اس چھند کے تحت دوہا چار حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ پہلا اورتیسرا حصہ تیرہ تیرہ ماتراؤں کو محیط ہوتا ہے اوردوسرا اور چوتھا گیارہ گیارہ ماتراؤں کو۔ ایک پنکتی(مصرع) چوبیس ماتراؤں کی حامل ہوتی ہے اور پورے دوہے میں اڑتالیس ماترائیں ہوتی ہیں۔ ہندی کے اس عروضی نظام کو ’’پنگل‘‘ کہا جاتا ہے۔ اساتذۂ فن نے جو معیارات مقر ر کیے ہیں، انھیں درج کرنے سے پہلے ذرا ’’پنگل‘‘ کی کتھا دیکھ لینی چاہیے :

انسانی تاریخ کے کسی عہد میں پنگل نامی سانپ نے زمین پر از حد ظلم کیا۔ اس کا ظلم گروڑ[نیولا] سے برداشت نہیں ہوا۔ ویسے بھی گروڑ اور سانپ کی ازلی دشمنی ہے۔ گروڑ سانپ کو ختم کرنے پر آمادہ ہوا۔ سانپ نے جب موت کوسامنے پایاتواس نے گروڑ سے کہا کہ میرے پاس ایک علم(ودیا)ہے۔ مجھے مارنے سے پہلے وہ آپ لے لیجیے۔ گروڑ سے مہلت پا کروہ پنگل نامی سانپ چھند ودیا(علم عروض) لکھنے لگا۔ اس طرح چھند ودیا یا پنگل شاستر کا جنم ہوا۔ (۴۷)

ہندی مذہب کی اساس داستانوں پراُستوار ہے، پھر اَدب میں ایسی مضحکہ خیزیاں در آنا کچھ عجب نہیں۔ آج شاید ہی کوئی اس بات کوتسلیم کرے، لیکن یقیناً اُن کے یہاں اسے قبول کیا گیا، اس لیے آج تک نقل ہو رہا ہے۔ یہاں اگر کوئی پختہ شہادت، منطقی دلائل اور شعور و عقل کی کوئی بات ہو تو تسلیم بھی کی جائے۔ لیکن پنگل کا یہی پس منظر ہے۔

اب دوہا کے وزن سے متعلق مثالیں دیکھیے :

رفیق شاہین:

اَپ بھرنش بھاشا بحر و وزن اور ساخت و ہیئت کے استحکام پر زور دیتی تھی، لہٰذا دوہا چھند کے خد و خال اسی دور میں واضح ہو گئے تھے اور دورِ ابتدا میں اگرچہ الگ الگ اوزان اور جدا جدا ماتراؤں میں دوہے تخلیق کیے جاتے تھے، لیکن جلد ہی۱۳+۱۱=۲۴ماتراؤں میں دوہا کی موزونیت کو صحیح الوزن قرار دیا گیا ہے۔ (۴۸)

ڈاکٹر ظفر  عمر قدوائی:

اس کا ہر مصرعہ دو ارکان وشم چرن اورسم چرن میں منقسم ہوتا ہے۔ دونوں چرنوں کے درمیان ہلکا سا توقف ضروری ہے۔ پہلے چرن میں تیرہ اور دوسرے چرن میں گیارہ ماترائیں ہوتی ہیں، یعنی اس کا ہر مصرعہ چوبیس ماتراؤں کا ہوتا ہے۔ (۴۹)

ڈاکٹر جمیلہ عرشی:

دوہے کی بحر ویسے بھی لنگڑی بحر کہلاتی ہے، کیونکہ اس کا ہر مصرعہ تیرہ اور گیارہ ماتراؤں کے دو ٹکڑوں سے بنتا ہے۔ (۵۰)

ڈاکٹر وزیر آغا:

دوہے کی ہر لائن دو لخت ہوتی ہے اور دوہا نگار کا کمال یہ ہے، کہ وہ دوہے کی ہر لائن میں بسرام کا اہتمام تو کرے مگراس خوبصورتی کے ساتھ کہ لائن کے دولخت ہونے کا احساس تک نہ ہو۔ (۵۱)

ڈاکٹرسلیم اختر:

غالباً آغاز میں دوہا بھی لوک کتھا اور لوک گیت کی مانند صرف لوک بانی ہو گا۔ لیکن بعد میں باقاعدہ صنف کی صورت اختیار کر لی، اس کے لیے ’’پنگل‘‘ مخصوص ہوا اور۲۴ ماتراؤں پر مخصوص دوہا چھند طے پا گیا۔ (۵۲)

عارف منصور:

ماتراؤں کے اعتبار سے اس کے مصرعوں کی تقسیم کچھ یوں ہوتی ہے، کہ پہلا ٹکڑا ۱۳ ماترائیں، دوسراٹکڑا ۱۱ ماترائیں، اسی طرح دوسرے مصرعے کا پہلا ٹکڑا ۱۳ ماترائیں اور دوسرا ٹکڑا ۱۱ ماترائیں، گویا ایک مصرعے میں ۲۴ ماترائیں اور پورے دوہے میں ۴۸ ماترائیں ہوتی ہیں۔ (۵۳)

محمدسالم:

اس[دوہا] کو دو مصرعوں والا چھند کہا جاتا ہے۔ عروضی اعتبار سے یہ ایک مشکل فن ہے، اگر اس کے مخصوص چھند کے تعلق سے کہیں سہو ہو جائے تووہ دوہا نہیں کہلائے گا بلکہ کچھ اور ہو جائے گا۔ (۵۴)

ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی:

دوہے کی شرائط میں یہ بھی ہے، کہ پہلے اور تیسرے جز میں جگن یا فعول نہیں آنا چاہیے اور دوسرے اور چوتھے جز کے آخر میں لگھو ماترا آنا ضروری ہے، یعنی فاع کے وزن پر مصرع ختم ہونا چاہیے یاجگن(فعول) پر۔ (۵۵)

جمیل عظیم آبادی:

دوہا نگاری کے لیے ہندی میں ’’دوہا چھند ‘‘کے نام سے ایک مخصوص چھند ہے … چھند کا ہر مصرعہ[مصرع] دو حصوں میں منقسم ہوتا ہے۔ پہلے کو سم اوردوسرے کووشم کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ چھند کے کچھ بنیادی اُصول ہیں، جن پر کاربند ہونا ضروری ہے، جس کو چھند کی اصطلاح میں ’’ورام‘‘ یعنی وقفہ کہتے ہیں۔ ورام پورے لفظ پر ہونا چاہیے۔ دوہے کے مصرعوں میں شکست ناروا کی اجازت نہیں۔ (۵۶)

شفیق احمد شفیق:

دوہے کا مصرعہ چوبیس ماتراؤں پر محیط ہوتا ہے۔ جس کا پہلا جز بڑا یعنی تیرہ ماتراؤں پر مشتمل ہے، درمیان میں وقفہ اوردوسرا جز جو نسبتاً چھوٹا ہوتا ہے، اُس میں گیارہ ماترائیں ہوتی ہیں۔ بالکل اسی طرح دوسرے مصرعے میں تیرہ ماترائیں، وقفہ اور گیارہ ماترائیں ہوتی ہیں۔ (۵۷)

شارق بلیاوی:

دوہے کو دوہے کی صنفی ہیئت میں لکھا جائے تو بہتر ہے۔ جو ۲۴۔ ۲۴ یعنی اڑتالیس ماتراؤں پر مشتمل ہوتا ہے اور ہر مصرع کا پہلا جز۱۳ ماتراؤں اور دوسرا جز گیارہ ماتراؤں اور مکمل وقفہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ ساتھ ہی پہلے اور تیسرے جز کے آخر میں سبب خفیف اور دوسرے اور چوتھے جز میں وتد مفروق(فاع) آنا ضروری ہے۔ (۵۸)

ڈاکٹر فراز حامدی:

دوہے کا ایک مخصوص وزن ہے، ایک مخصوص بحر ہے (۱۳+۱۱= ۲۴ ماترائیں ) اور ایک مخصوص آہنگ ہے۔ مزید وضاحت کے لیے خاکساریہاں اپنا ایک دوہا پیش کرنا ضروری سمجھتا ہے، تاکہ شائقین اَدب اس دوہے کی روشنی میں دوہے کی سیدھی سادی اورآسان تعریف سے واقف ہو سکیں :

تیرہ گیارہ ماترا، بیچ بیچ وشرام(۵۹)

دو مصرعوں کی شاعری، دوہا جس کا نام

ڈاکٹرساغرجیدی:

ہندی پنگل میں دوہے کے وزن کا یہ اصول بیان کیا گیا ہے ’’جان وشم تیرہ کلا، سم شودوہامول‘‘… یہ لازمی ہے کہ دوہے کا ہر مصرعہ تیرہ ماتراؤں +گیارہ ماتراؤں پر مشتمل ہو۔ جس طرح کے شجرۂ اخرب، شجرۂ اخرم کے اوزان کی پابندی رباعی کے مصرعوں پر ہے، بعینہٖ دوہے کے لیے بھی مذکورہ بالا ارکان کی ترتیب و تعداد کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے جس سے مفر ممکن نہیں۔ (۶۰)

بشریٰ اعجاز:

دوہے کے ایک مصرعے میں ۲۴ماترے ہوتے ہیں۔ ۱۳پہلے حصے میں اور۱۱ ماترے دوسرے حصے میں۔ (۶۱)

ڈاکٹر محمد طہور خان پارس:

دوہا ہندی کا ایک معروف چھند ہے جو ہندی کی پہچان بھی ہے، یہ بات تسلیم شدہ ہے، کہ دوہا اَپ بھرنش کا اپنا مخصوص وزن ہے … ہندی میں تواس کا نام بھی ’’دوہا چھند ‘‘ ہے اُردو میں ابتدائی دور ہی سے اس کے لیے مخصوص بحر(فعلن فعلن فاعلن، فعلن فعلن فاع) میں دوہے کہے جاتے رہے ہیں۔ (۶۲)

ڈاکٹر گیان چند جین:

دوہا ہندی کا یہ وزن ۲۴ ماترا کا ہوتا ہے، جس میں دو جز ہوتے ہیں۔ پہلا۱۳ ماترا کا، دوسرا ۱۱ ماترا کا۔ اس کے آخر میں ’’فاع ‘‘ کا آنا ضروری ہے۔ اُردو میں اس کے جزو اول اور جزو دوم کے یہ ارکان ہو سکتے ہیں :

جزو اول                               جزو دوم

۱…     فعلن فعلن فاعلن                ۱…     فعلن فعلن فاع

۲…    فعلن فعلن فاعلن                ۲…    فعلن فعل فعول

۳…    فعلن فعولن فاعلن               ۳…    فعلن فعلن فاع

۴…    فعل فاعلن فاعلن               ۴…    فعلن فعل فعول

۵…    فعل فعولن فاعلن                       ۵…    فعل فعولن فاع

۶…    فعل فاعلن فاعلن               ۶…    فعل فعولن فاع

۷…    فعل فعول فعول

۸…    فعل فاعلن فاع

یہ ترتیب دینے کے بعد ڈاکٹر گیان چند جین یوں رقم طراز ہیں :

جزوِ اول کے کوئی سے ارکان اور جزوِ دوم کے کوئی سے ارکان کا اجتماع کر دیجیے۔ اس طرح دوہے کے ۵۴ اوزان حاصل ہوں گے۔ (۶۳)

ڈیڑھ درجن علمائے اَدب کی آرا یہ ظاہر کرتی ہیں، کہ روایتی اور صحیح وزن ۲۴ ماتراؤں کا حامل ہے۔ تیرہ ماترائیں گذر جائیں تو وقفہ لازم ہے۔ پھر گیارہ ماترائیں ہوں گی اور آخر میں ’’فاع‘‘ کا التزام لازم ہے۔ اگر یوں وزن کا اہتمام نہیں کیا جاتا تو دوہا اپنی بحر سے ہٹ جائے گا۔ دوہا کو عروضی صنف اسی لیے کہا جاتا ہے، کہ اس میں پنگل کے نظام کا پورا دھیان رکھا جاتا ہے۔ جس کی طرف مناظر عاشق ہرگانوی نے اشارہ کیا ہے۔ اگر معمولی سہو بھی سرزد ہوتا ہے، تو دوہا دوہا نہیں رہتا کچھ اور ہو جاتا ہے۔

ہندوستان میں عمومی طور پراسی وزن کی پاس داری کی جاتی ہے۔ پاکستان میں سینئرشعرا میں خواجہ دل محمد، ڈاکٹر الیاس عشقی اور چند ایک دوسروں نے اس کی مکمل پابندی کی۔ نئے لکھنے والوں میں تاج قائم خانی نے اسی وزن کو اختیار کیا، جب کہ ڈاکٹر عرش صدیقی نے منھ کا ذائقہ بدلنے کے لیے اس میں اٹھارہ دوہے کہے، جوان کی کتاب ’’کملی میں بارات ‘‘ میں شامل ہیں۔ ڈاکٹرطاہرسعید ہارون نے بھی اس وزن کو برتا ہے، اور بڑی تعداد میں دوہے کہہ کر الگ مجموعے بھی شائع کروائے مگراس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ’’سرسی چھند‘‘ بھی اختیار کیا۔ راقم نے اب تک البتہ اسی وزن کی پاس داری کی ہے۔ لیکن اس چھند کو ماضی میں بھی چھوڑنے والے موجود تھے اور آج بھی ہیں۔ پاکستان میں تو ایک بڑی تعداد نے ’’سرسی چھند‘‘ میں ہی دوہا کہا۔ اس قبیلے کے سرخیل جناب جمیل الدین عالی ہیں۔ انھوں نے سب سے پہلے اس چھند کو اختیار کیا ا ور جب اس پر اعتراضات ہوئے تو ان کے مقلدین نے اسے ’’عالی چال‘‘ قرار دیا۔ اس وزن کی موافقت اور مخالفت میں بہت کچھ لکھا گیا، جس کی وضاحت آگے ان شعرا کے باب میں آئے گی۔ اس سے پہلے کہ سرسی چھنداوردوسرے رائج اوزان کا مطالعہ کیا جائے، ایک اور عروضی تجزیہ دیکھ لیا جائے۔

پنگل کی اصطلاح میں ’’لگھو‘‘ یک حرفی اور ’’گرو‘‘ دو حرفی آوازوں کے لیے مستعمل ہے۔ رویندر سہائے ورما نے اپنی کتاب ’’پراکرت پینگلم‘‘ میں ان آوازوں سے بننے والی بحر کو۲۳ صورتیں دی ہیں، جو کلی طور پر ۴۸ ماتراؤں کاہی احاطہ کرتی ہیں، ان کو الگ ناموں سے سجا کر ایک طرح سے انھیں دوہا کی الگ قسم بنا دیا گیا ہے، ملاحظہ ہو:

۱…     بھر مر          = ۲۲ گرو+ ۴ لگھو             = ۴۸ ماترائیں

۲…   سبھرامر               =۲۱گرو       +۶ لگھو        =۴۸ ماترائیں

۳…    مشربھ         =۲۰گرو      +۸ لگھو        =۴۸ماترائیں

۴…    شین           =۱۹گرو       +۱۰ لگھو               =۴۸ماترائیں

۵…    منڈوک               =۱۸گرو       +۱۲ لگھو               =۴۸ماترائیں

۶…    مرکٹ         =۱۷گرو       +۱۴ لگھو               =۴۸ماترائیں

۷…    کربھ          =۱۶گرو       +۱۶ لگھو               =۴۸ماترائیں

۸…    نر             =۱۵گرو       +۱۸ لگھو               =۴۸ماترائیں

۹…     ہنس           =۱۴گرو       +۲۰ لگھو              =۴۸ماترائیں

۱۰…   گیند           =۱۳گرو       +۲۲ لگھو              =۴۸ماترائیں

۱۱…    پیودھر         =۱۲گرو       +۲۴ لگھو              =۴۸ماترائیں

۱۲…   چل/بل               =۱۱گرو       +۲۶ لگھو              =۴۸ماترائیں

۱۳…   بانر            =۱۰گرو       +۲۸ لگھو              =۴۸ماترائیں

۱۴…   ترکل          =۹گرو +۳۰ لگھو              =۴۸ماترائیں

۱۵…   کچھپ         =۸گرو + ۳۲لگھو             =۴۸ماترائیں

۱۶…   مچھ/تیسہ               =۷گرو        +۳۴ لگھو              =۴۸ماترائیں

۱۷…   شاردول               =۶گرو +۳۶ لگھو              =۴۸ماترائیں

۱۸…   اہیو            =۵گرو +۳۸ لگھو              =۴۸ماترائیں

۱۹…    ویال           =۴گرو +۴۰ لگھو              =۴۸ماترائیں

۲۰…   وڈال          =۳گرو +۴۲ لگھو              =۴۸ماترائیں

۲۱…   شوان          =۲گرو +۴۴ لگھو              =۴۸ماترائیں

۲۲…   اُدر            =۱گرو +۴۶ لگھو              =۴۸ماترائیں

۲۳…   سُرپ           = oگرو      ۴۸+ لگھو       =۴۸ماترائیں (۶۴)

۲۴ماتراؤں پر مشتمل وزن میں قدما میں سے بعض کے دوہے بہ طورسند ملاحظہ ہوں :

کبیر:

چلتی چکی دیکھ کر، دیا کبیرا روئے

دو پاٹن کے بیچ میں، ثابت رہا نہ کوئے

 

کال کرے سو آج کر، آج کرے سو اَب(۶۵)

پل میں پرلے ہوئے گی، پھیر کرے گا کب

بہاری:

پیتم یہ مت جانیو، توہے بچھڑت موہے چین

گیلے بن کی لاکڑی، سلگت ہوں دن رین (۶۶)

رحیمن:

بگڑی بات بنے نہیں لاکھ کرو کن کوئے

رحیمن بگڑے دودھ کو متھے نہ ماکھن ہوئے (۶۷)

لیکن اس احتیاط کے باوجود قدما کے کلام میں بھی ارکان کی کمی بیشی اور دوسرے اوزان کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ پھر ایک اور بات بھی ہے، جو وزن عربی بحور میں سے نکال کر دوہا پر منطبق کیا گیا ہے، وہ بعض جگہوں پرکلاسیکی شاعری کے ماتراؤں کو ٹھیک طرح نہیں پرکھ پاتا یا اُن کی جگہ لے سکتا۔ اس لیے ہندی ماترائی نظام سے جب تک پوری آشنائی نہ ہو بات نہیں بنتی۔ ایسا نہیں ہے، کہ قدیم شاعراس بات سے واقف نہیں تھے، بلکہ تب اسے شاید جائز سمجھا جاتا تھا۔ عارف منصور نے اس باریکی کو ایک جگہ یوں واضح کیا ہے :

’’سُر یا ماترا ایک حرکت ہے۔ یوں ایک ماترائی سُر لگھو کہلاتا ہے اور دو ماترائی سُر کو گرو کہتے ہیں۔ آگے زیادہ ماتراؤں کے مرکب سُروپرگھ کہلاتے ہیں۔ اب لگھو، گرو وغیرہ کی بنیاد پر ہندی عروض میں ایک نظام بنایا گیا ہے جسے ’گن‘ کہتے ہیں۔ اس میں لگھو اور گرو کے ملاپ کے فرق سے مختلف بحریں جگہ پاتی ہیں۔ مختصراً ہم ان کے بارے میں یوں سمجھ سکتے ہیں :

۱…     پگن۔ اس میں پہلے لگھو ہے پھر گرو۔ گویا اسے پڑھیں گے … پگانا

۲…    مگن۔ اس میں تین گرو ہیں، اسے پڑھیں گے … ماگانا

۳…    بھگن۔ اس میں پہلے گروپھر دو لگھو ہیں اور اسے پڑھا جائے گا…بھاگن

۴…    نگن۔ اس میں تین لگھو یکجا ہیں یعنی یہ نگن ہی پڑھا جائے گا۔

۵…    جگن۔ اس میں پہلے لگھو پھر گروپھرلگھو…اوراسے پڑھیں گے …جگان

۶…    رگن۔ اس میں پہلے گرو پھر لگھو پھر گرو اور پڑھا جائے گا… راگنا

۷…    سگن۔ اس میں پہلے دو لگھو پھر ایک گرو اور پڑھیں گے … سگنا

۸…    تگن۔ اس میں پہلے دو گرو پھر ایک گرو اوراسے …تاگان… پڑھیں گے۔

ہندی عروض کے شاستری اس بات پر مصر ہیں کہ ہندی دوہے کے بے شمار اوزان ہیں مگر ان میں سے ۲۳ اوزان دوہے کے شاعروں میں زیادہ مروج ہیں۔ ان سب میں ایک خاص بات یہ ہے، کہ لگھو یا گرو کی تعداد میں فرق پڑسکتا ہے مگر کل ماترائیں ۴۸ ہی رہتی ہیں۔ ‘‘(۶۸)

’’پراکرت پینگلم‘‘سے ان اوزان یا ماترائی ترتیب کی فہرست پہلے ہی وضاحت سے دی جا چکی ہے۔ پنگلوں کی اسی گنجلک اور اُلجھنوں کی وجہ سے ڈاکٹر عرش صدیقی نے یوں کہا تھا:

’’بابا فرید کے بیشتر دوہوں کا آغاز ’’فریدا‘‘ سے ہوتا ہے۔ ’’کرشن ‘‘ کی طرح پنگل میں شاید ’ر‘ تخفیف میں آ جائے۔ میں نہیں سمجھتا کہ فریدا کی ’ر‘ کو کسی بھی اصول کے تحت اُردو میں ساکن قرار دیا جا سکے یا اسے حذف کیا جا سکے۔ اس لیے میرا خیال ہے، کہ ان دوہوں کے پہلے مصرعوں کی تقطیع دوہا چھند کے حساب سے تو کی جا سکتی ہے، لیکن فریدا کو ’’فعلن‘‘ میں نہیں لایا جا سکتا۔ یعنی جو لفظ ہندی عروض کے حساب سے درست ہوں، لازم نہیں کہ اُردو میں تقطیع کے نظام میں آ سکیں …… پنگل ہماری آج کی شاعری کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ ‘‘(۶۹)

یہ بیان در اصل ہندی پنگل کے نظام اور بجائے خود ہندی زبان سے نا آشنائی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ جہاں تک اس کے عربی بحروں پر اطلاق کا سوال ہے تو عرش صدیقی کی بات حرف بہ حرف دُرست ہے۔ لیکن شاعری پر اس بات کو یوں نہیں منطبق کیا جا سکتا۔ ڈاکٹر اعظم کُریوی نے ہندی اوراس کے اوزان سے دُوری پر طویل بحث کے بعد اپنا دُکھ یوں ظاہر کیا تھا:

’’حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک ہم نے ہندی شاعری سے اُردو دُنیا کو بخوبی واقف نہیں کیا۔ ایران توران اور انگلستان تک ہماری دوڑ دھوپ رہی ہے لیکن اپنے وطن کی جیسی چاہیے ہم نے خبر نہیں لی۔ ہماری نظر سیفی و ناصر کے عروض پر ر ہی، ان کی تقلید کا شوق رہا لیکن ہندی ’’پنگل‘‘(فن عروض)، ’’انتراس‘‘(فن قافیہ) اور ’’کابیہ‘‘ (فن شعر) سے شناسائی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہمیں فارسی، عربی کے ساتھ ساتھ ہندی ذخیروں سے بھی کام لینا چاہیے۔ ‘‘(۷۰)

انھوں نے یہ بات ۱۹۳۱ء سے پہلے کہی تھی، کیوں کہ اس سال تو ان کی کتاب شائع ہو چکی تھی، جس میں یہ ذکر موجود ہے۔ قاعدہ ہے، جب ہم نے غزل کے لیے تغزل سمیت اُس کے جملہ موضوعات، ہیئت اور فن کو اپنایا ہے تو اسی قاعدے کے مطابق ہمیں دوہا کے باب میں بھی رجوع کرنا چاہیے۔ غزل غزل ہی رہی ہے، اُسے کوئی نیا نام نہیں دیا گیا، بعینہٖ دوہا بھی دوہا ہی رہنا چاہیے، اس کے ساتھ سابقوں لاحقوں کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم اپنے عجز یا پھر بے رغبتی کو اصناف کی بُرائیوں کی صورت میں دیکھیں گے تواس سے ہمارے بیمار ذہن آشکار ہوں گے۔

اس سے پہلے کہ پاکستان میں عمومی رائج ’’سرسی چھند‘‘ کی وضاحت کی جائے، لازم ہے، کہ پہلے دوہوں کی رائج اقسام دیکھ لی جائیں۔ یوں سرسی چھند تک رسائی اوراس کی تفہیم اور قبولیت میں آسانی ہو جائے گی۔ یہ اقسام اور بحوری امتیاز بجائے خودسرسی چھند کو تسلیم کر لینے کا بڑا جواز ہیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے، کہ ہمارے یہاں اس بحث نے نزاع کی صورت اختیار کر لی تھی، زیادہ تر لکھنے والوں نے دوہا کے مضامین، اُسلوب اور جذبات واحساسات کو نظرانداز کر کے سارا زور اس کی ہیئت اور وزن پر ہی خرچ ڈالا۔ ذرا یہ اقسام دیکھیے :

 

چوالیس حرفی دوہا:

(دوہرا)

قدیم دوہوں میں ایک ایک ماترا کم کر دی جائے تووہ ’’دوہرا‘‘ کہلاتا ہے۔ البتہ بہاری لال نے دوہا اور دوہرا ایک ہی معنی میں استعمال کیا ہے۔ اُردو میں بھی یہ دونوں ایک ہی مفہوم میں مستعمل ہیں۔ بہاری سے منسوب یہ دوہا ملاحظہ ہو:

ست سیا کے دوہرا، جیوں ناوک تیر

دیکھت ات چھوٹے لگیں، گھاؤ کریں گمبھیر

(بہاری رتناکر، ضمیمہ ۲، دوہا۹۵،ص ۴۱)

چھیالیسی حرفی دوہا:

(وِدوُہا یابِدوَہا)

اڑتالیس حرفی دوہے کے دوسرے اور چوتھے مصرعوں کے آخر میں آنے والے لگھو حرف کو حذف کر کے ہر حصہ میں ۲۳ ماترائیں رکھنے سے دوہا بن جاتا ہے۔ مثال دیکھیے :

محمد سرور پریم کا رحمت اللہ بھریا

بابن جیوڑا وار کر، سرآگیں دھریا

(بحوالہ چھند پربھاکر،ص ۸۷)

 

پچاس حرفی دوہا:

(مکتافن)

اڑتالیس حرفی دوہے کے طاق مصرعوں کے آخر میں آنے والے لگھو ماترا کی جگہ گرو ماترا رکھی جائے اور اس طرح فی سطر۲۵ ماترائیں ہوں تواس کو مکتافن دوہا سمجھا جاتا ہے۔ مثال ملاحظہ ہو:

میرا مجھ میں کچھ نہیں /جو کچھ ہے سو تیرا

تیرا تجھ کو سونپتا/کیا لاگے ہے میرا

(کبیر  گرنتھاولی،ص ۱۴)

باون حرفی دوہا:

(دوہی)

اڑتالیس حرفی دوہے کے پہلے اور تیسرے مصرعوں میں تیرہ تیرہ ماتراؤں کی بجائے پندرہ پندرہ ماترائیں رکھنے سے ’’دوہی‘‘ بن جاتا ہے۔ مثال دیکھیے :

سب کے حسن میں کھوٹ ہے /سب کی کھوئی چال

کون لگاوے جیا آپنا / ان لوگاں دے نال

(دیوان ظفر، جلدسوم، لکھنو۱۸۷۲ء،ص ۲۱۶)

 

چون حرفی دوہا:

(ہری پد)

اڑتالیس حرفی دوہے کے طاق مصرعوں میں تین تین ماتراؤں کا اضافہ کر کے چون حرفی دوہا بنا لیا جاتا ہے۔ پرتو روہیلہ کے دوہوں سے مثال ملاحظہ ہو:

ساجن تم جھوٹے نکلے /جھوٹی تمھاری پیت

برہ نے میرا ساتھ نہ چھوڑا/کیسی سچی میت

(رین اجیارا)

 

چھپن حرفی دوہا:

(دودَے )

ہندی پنگل میں اسے ’’سارچھند‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے ہر مصرعے میں اٹھائیس ماترائیں ہوتی ہیں اور ہر مصرعے کے درمیان سولہویں ماترا کے بعد نیم وقفہ ہوتا ہے۔ مصرعے کے آخر میں اگر گرو ماترا آئے تو آہنگ خوشگوار ہوتا ہے۔ بہادر شاہ ظفر کا یہ دوہا دیکھیے :

جن کے پیچھے جگ وچ ہم نے /اپنا سب کچھ کھویا

انت سمے ان اپنوں میں سے /اپنا کوئی نہ ہویا

(دیوان سوم)

 

غیر مساوی الوزن یا آزاد دوہا:

اس میں ہر دوسطریں الگ الگ ماتراؤں کی حامل ہوتی ہے۔ پہلا مصرع اگر چوبیس ماتراؤں پر ہے تو دوسرا ستائیس کا ہو سکتا ہے۔ پہلاچھبیس اور دوسراتیس ماتراؤں کاہو سکتا ہے۔ الگ الگ ماتراؤں کی یہ مثال دیکھیں :

فریدا کالے مینڈے کپڑے / کالا مینڈا ویس

گنہی بھریا میں پھراں، لوک کہن درویس

 

پچ کھنیا دوہا:

(مستزاد دوہا)

پچ کھنیا کا مطلب ہے پانچ ٹکڑوں والا۔ عموماً دوہا چار ٹکڑوں میں لکھا جاتا ہے۔ اس کے دو طاق اور دو جفت حصے ہوتے ہیں۔ا گر دوہے کے آخر میں جفت مصرعے کے ہم وزن اور ہم قافیہ مصرع بڑھا دیا جائے تو وہ پچ کھنیا دوہا کہلاتا ہے۔ اس کو مستزاد دوہا بھی کہا جا سکتا ہے۔ مثال دیکھیے :

طوفانی دریا ہے اور، مہینوال اس پار

کچے گھڑے کا ساتھ ہے، سُہنی اور منجدھار

کون لگائے پار

(دوہا ہزاری۔ ص۱۹۴)

 

چھے کھنیا دوہا:

(مستزاددوہا)

یہ چھے ٹکڑوں پر مشتمل دوہا ہے اورمستزاد کی صورت میں ہے۔ ہر دو بڑے ٹکڑوں کے بعد ایک مستزاد کا ٹکڑا لگا دیا جاتا ہے۔ الیاس عشقی کے یہاں اس کی مثال ملاحظہ ہو:

مت پوچھو کیسا لگا، گئی رات بازار

جمع تھے سب زردار

بڑھی نہ بولی بک گئی، سستی سُندر نار

ضائع گئی پکار

(دوہا ہزاری۔ ص۱۹۶)

 

تونبیری دوہا:

اگرچہ دوہوں کی یہ قسم اڑتالیس ماتراؤں کو ہی محیط ہے، لیکن اس میں خاص امتیاز یہ ہے کہ اس کادوسرا اور تیسرا جزو ہم قافیہ ہوتے ہیں، جب کہ عموماً دوسرا اور چوتھا جزو ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ یہ دوہا دیکھیے :

سہنا تیز ہواؤں کا، مانجھی پوت کی ریت

گئی ’’عمریا بیت‘‘ بادبان کرتے رفو

(دوہا ہزاری۔ص ۱۸۹)

 

بڑا دوہا:

یہ بھی اڑتالیس ماتراؤں پر مشتمل دوہا ہے، لیکن یہ روایتی دوہے سے یوں مختلف ہے کہ اس کا پہلا اور چوتھا جزو ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ مثال یہ ہے :

پیا جب آئے پاس، کیا کیا سوچے دل میرا

بھول نہ جاؤں ملن سے پیا درشن کی آس

(دوہا ہزاری۔ ۱۹۱)

 

کھرا دوہا:

یہ بھی اڑتالیس ماتراؤں پر مشتمل ہے، لیکن اس کا خاص وصف چاروں اجزا کا ہم قافیہ ہونا ہے۔ پہلا اور تیسرا، دوسرا اور چوتھا جزو آپس میں ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ یہ دوہا دیکھیے :

یہ کجرارے سے نین / باس اُبٹن کیسر ملی

کر کے من بے چین/بن ٹھن میلے میں چلی

(دوہا ہزاری۔ ص۱۹۳)

ان مثالوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے، کہ دوہے کی بحر ایک چھند کی پابند نہیں رہ سکی، جہاں اُسے پابند بھی کیا گیا، وہاں اُس نے اندرونی تجربات کیے جو آخری تینوں مثالوں سے واضح ہیں۔ اسی طرح پچ کھنیا  اور چھے کھنیا دوہوں میں بھی اس نے مستزاد کی صورت میں نئی راہ بنائی۔ اب سرسی چھند (پاکستان میں عالی چال) کے ضمن میں معروضات پیش کی جائیں گی، پہلے ڈاکٹرسمیع اللہ اشرفی کی یہ رائے دیکھ لی جائے :

’’دوہا ہندی کا ایک قدیم چھند ہے، جس کی مثالیں پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی کی پراکرت شاعری میں بھی مل جاتی ہیں، لیکن اپ بھرنش میں اس کا باقاعدہ آغاز نویں صدی عیسوی کے آغاز میں ملتا ہے۔ جن میں ماتراؤں کی ترتیب وہی ہے، جن کاذکر ابھی کیا جا چکا ہے۔ یعنی پہلے اور تیسرے مصرعے میں تیرہ تیرہ اور دوسرے اور چوتھے مصرعے میں گیارہ گیارہ ماترائیں۔ مگر ہندی کے کچھ قدیم شعرا نے اس ترتیب سے انحراف بھی کیا ہے۔ ملک محمد جائسی کے بعض دوہوں میں پہلے اور تیسرے مصرعوں میں بارہ بارہ اوردوسرے اور چوتھے مصرعوں میں گیارہ گیارہ ماترائیں ہیں۔ تلسی داس کے یہاں بھی دوہے کی کچھ ایسی مثالیں ملتی ہیں، جن کے طاق مصرعوں میں بارہ بارہ اور جفت مصرعوں میں گیارہ گیارہ ماترائیں ہیں۔ (۷۱)

 

سرسی چھند:

اس کی ابتداپاکستان میں اگرچہ جمیل الدین عالی کے دوہوں سے ہوئی مگراس کے استرداد اور قبولیت میں بہت سے لوگوں نے حصہ لیا۔ خصوصاً اس کے حق میں اور دوہا چھند کی نفی میں جناب ڈاکٹر عرش صدیقی نے طویل مضمون ’’پاکستان میں اُردو دوہا‘‘ لکھا۔ ممکن ہے اُن کی دوہا چھند سے یہ پرخاش حقیقت میں جمیل الدین عالی کے اپنائے گئے وزن کے دفاع کا نتیجہ ہو۔ وہ اپنے مضمون کے باب ’’اُردو دوہے کی بحر‘‘ کا آغاز یوں کرتے ہیں :

’’جمیل الدین عالی کے دوہوں کی مقبولیت کے استحکام کے برسوں بعد اعتراض ہوا کہ عالی نے دوہے نہیں کچھ اور لکھا ہے۔ اعتراض یہ تھا کہ عالی نے دوہے کی وہ ’’مخصوص بحر‘‘ استعمال نہیں کی جس میں ۴۸ ماترائیں ہوتی ہیں، بلکہ سرسی چھند میں شاعری کی ہے جس میں ۵۴ ماترائیں ہوتی ہیں۔

آگے چل کر کہتے ہیں :

’’پھر یہ اعتراض تحریر میں آ گیا۔ لیکن اس وقت تک اس بحر میں دوہا کہنے والے کئی صاحبان علم اور معروف شاعر سامنے آ چکے تھے اور دوہوں کے مجموعے بھی شائع کروا چکے تھے اور دوسرے بہت سے شعرا ان کی تقلید کر رہے تھے۔ بھارت کے ڈاکٹر عنوان چشتی نے اپنی کتاب ’’اُردو شاعری میں ہیئت کے تجربے ‘‘ میں یہ اعتراض واضح طور سے کیا۔ یہ کتاب عالی کے دوہوں کی روایت پوری طرح مستحکم ہونے کے طویل عرصہ بعد چھپی تھی۔ ڈاکٹر عنوان چشتی نے کتاب کے چوتھے باب میں ’’اُردو میں ہندی کے چھند‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت لکھا تھا:

جمیل الدین عالی نے سرسی چھند میں بہت خوبصورت مطلعوں کی تخلیق کی ہے۔ مگر ڈاکٹر عبدالوحید (یقیناً ڈاکٹر وحید قریشی) نے سرسی چھند کو دوہے کہا ہے۔ یہ دوہے نہیں بلکہ سرسی چھند ہیں۔

پاکستان میں یہ اعتراض تحریری طور پر عالی کے دوہوں کی اشاعت کے چھبیس برس بعد ہوا جب عالی کے دوہوں کی بحر میں لکھنے والوں کی تعداد خاصی ہو چکی تھی۔ کیا ربع صدی سے زیادہ عرصہ آج کے زمانے میں کسی ادبی روایت کو مستحکم کرنے اور قبول بنانے کے لیے کافی نہیں ؟ یہ تو وہ دور ہے جب تحریکیں چند برس سے زیادہ کم ہی چلتی ہیں۔

سیدقدرت نقوی نے اپنے مضمون ’’دوہا‘‘ مطبوعہ ماہنامہ تخلیق شمارہ ۵/۶سال۱۹۸۴ء میں دوہا چھند کی روایتی خصوصیات کو تفصیلی طور پر دہرانے اور۲۴ ماتراؤں کی شرط کو لازمی قرار دینے کے بعد امیر خسرو سے لے کر خواجہ دل محمد اور خود سیدقدرت نقوی تک مختلف شعرا کے دوہے مثال کے طور پر پیش کیے اور لکھا کہ:

یہ سب دوہے اس عام روش کے مطابق ہیں جو بابا فرید شکر گنج سے لے کر اب تک مروج ہے اور مستند مانی جاتی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اس صنف کو اپنے دل کی بات اور جذبات عوام تک پہونچانے کا ذریعہ بنایا۔ اس کے متوازی ایک اور روش بھی پائی جاتی ہے۔ جس کو کہا تو دوہا جاتا ہے۔ مگر فی الحقیقت وہ دوہا نہیں ہے۔ اس دوسری روش میں بھی دوہے کی طرح چار ٹکڑے اور بسرام ہوتا ہے۔ مگر ماتراؤں کی تعداد دوہے کے مطابق نہیں ہوتی۔ ٹکڑے اور بسرام کو اور اصناف میں بھی ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ مگر ان میں بھی ماتراؤں کی قید ہوتی ہے۔ دوسری روش جسے دوہا کہا گیا ماتراؤں کے اعتبار سے کسی بھی صنف میں شمار نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس میں یکسانیت نہیں۔ ماتراؤں کی کمی بیشی کی وجہ سے دوہا کہلانے کی مستحق نہیں ہے۔ آج کل کے معروف دوہا نگار زیادہ تراسی روش کے مطابق دوہا لکھ رہے ہیں۔ ان کو دوہا نہیں بلکہ شعر یا فرد کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ متقدمین اور متاخرین نے تو غالباً دو مصرعوں کی بنا پر دوہا یا دوہرا کہہ دیا۔ ان کی تحریر پر بغیر غور کیے ہوئے بعض محققین نے بھی ایسے اشعار کو دوہا کہہ کر غلط روش کی تائید کر دی۔ ہم نے جب غور کیا تو ہمیں اپنی رائے بدل کر یہ رائے قائم کرنا پڑی کہ انھیں دوہا نہیں بلکہ شعر یا فرد کہا جائے تو مناسب ہو گا۔ ‘‘

اس اقتباس کے بعد دوہا کے لغوی مفہوم دیے گئے ہیں اور نتیجہ یہ نکالا گیا ہے دوہا، فرد، شعر اور بیت کی ہی ایک صورت ہے۔ ڈاکٹر عرش صدیقی کے بہ قول:

’’ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہندی اسم ’’دوہا‘‘ کو عربی (اور اب فارسی اُردو) اسماء بیت، شعر اور فرد کا متبادل کیوں نہیں سمجھا جاتا حالانکہ درست معنے صرف یہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے تو کوئی بتائے کہ دوہا اگر ایک مخصوص صنف کا نام ہے تو ہندی اور برج بھاشا میں شعر، بیت اور فرد کے لیے کون سا نام استعمال ہوتا ہے۔ ‘‘(۷۲)

یہ وہ فضا تھی، جس نے سرسی چھند اور دوہا چھند کی بحث چھیڑی۔ اس بحث کا حاصل یہ نکلا کہ اساتذہ کے دوہوں کو کھنگالا گیا اور بہت سے مقامات سے یہ ثابت ہوا کہ دوہا کا مخصوص وزن بعد میں کہیں طے ہوا ہے اوراس سے قبل شعرا مختلف اوزان میں دوہا کہتے رہے۔ خود سید قدرت نقوی صاحب کے بیان سے بھی یہی بات واضح ہے۔

 

سرسی چھند ہے کیا؟

سرسی چھند کے لیے جو عربی ارکان مستعار لیے گئے ہیں، وہ یوں ہیں :

فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فاع (فع)

جمیل الدین عالی نے اسی وزن کو اختیار کیا اور پھر اُن کی پیروی کرنے والوں بھی اسے اپنا لیا۔ پاکستان میں چند ایک کو چھوڑ کر زیادہ تر لوگوں نے اسی وزن میں شاعری کی۔ چوں کہ اس وزن میں وقفہ کی روایتی سہولت نہیں ہے اور ارکان یا ماتراؤں کی وہ تعداد نہیں جو دوہا چھند سے مخصوص ہے، اسی لیے اس پر بحث ہوئی۔ سیدقدرت نقوی کے علاوہ بھی کئی ایک علمائے ادب نے یہ تسلیم کیا ہے، کہ دوہادوسرے اوزان میں بھی کہا جاتا رہا ہے۔ نامور دوہا نگار جمیل عظیم آبادی یوں رقم طراز ہیں :

’’دوہا چھند کے علاوہ سرسی چھند اور دیگر چھند میں بھی دوہے کہے گئے ہیں اور کہے جاتے رہیں گے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جہاں ہر صنفِ سخن میں تبدیلیاں آئی ہیں، وہاں دوہے کی چھند میں بھی تغیر و تبدل ہوا ہے۔ اُردو میں زیادہ تر دوہے سرسی چھند میں کہے گئے ہیں۔ دوہا چھند اور سرسی چھند میں سوائے ماتراؤں کی تعداد کے اور کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ ‘‘(۷۳)

شاہد جمیل :

’’میں دوہا رنگ کے دیباچے میں مثالوں کے ساتھ اس امر کی نشان دہی کر چکا ہوں کہ عالی سے صدیوں قبل بابا فرید کے دوہے سرسی چھند میں مل جاتے ہیں اور بعد کے دور میں بھی دوسرے شعراء مثلاً جانم اور میراں جی وغیرہ نے سرسی چھند میں دوہے لکھے ہیں۔ یہی نہیں عالی صاحب اس غلط فہمی کا شکار ہیں، کہ ہندوستان میں سرسی چھند میں جو دوہے لکھے جا رہے ہیں، وہ سب عالی چال کے ہی مرہونِ منت ہیں۔ جبکہ عالی چال جیسی کسی ترکیب سے ہندوستانی دوہا نگاروں کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، سرسی چھند میں ہر مصرعے میں کل ۲۷ ماترائیں ہوتی ہیں اور۱۶:۱۱ ماتراؤں کے درمیان(چرنوں میں ) کوئی وشرام یابسرام نہیں ہوتا۔ ‘‘(۷۴)

محمدسالم:

’’اُردو میں بھی سرسی چھند کی روایت ملتی ہے۔ سرسی چھند میں کل ۲۷ ماترائیں ملتی ہیں۔ اس کے پہلے چرن میں ۱۶ ماترائیں ہوتی ہیں اور دوسرے میں ۱۱ ماترائیں۔ اُردو میں اس کا وزن:      فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فاع ہے۔ ‘‘(۷۵)

حمایت علی شاعر:

سرسی چھند جو صرف عشقیہ موضوعات تک محدود تھے۔ (۷۶)

ڈاکٹر وحید قریشی:

عموماً سرسی چھند میں وقفے کا التزام نہیں ہوتا۔ (۷۷)

ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا:

دوہے کی روایت کا عروضی مطالعہ کیا جائے تو ہر دور میں سرسی چھند اور دوہا چھند دونوں اوزان دوہوں میں برابر استعمال کیے گئے ہیں۔ اگرچہ سرسی چھند نسبتاً کم مستعمل رہا ہے تاہم اس کے نمونے معدوم نہیں۔ (۷۸)

کوثر صدیقی:

ہندی شاعری میں دوہے کے پچیسوں اوزان ہیں، لیکن وہاں بھی اور اُردو میں بھی عام طور پر سرسی چھند میں دوہے کہے جاتے ہیں۔ (۷۹)

ان معروضات کو دیکھنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے، کہ دوہا سرسی چھند اور دوہا چھند دونوں میں لکھا جاتا رہا ہے۔ دوہا چھند کی ایک پنکتی ۲۴ ماتراؤں کا احاطہ کرتی ہے اور سرسی چھند کی ۲۷ ماتراؤں کو محیط ہوتی ہے۔ البتہ سرسی چھند کے مقابلے میں دوہا چھند کو زیادہ قبولیت ملی۔ شاید یہی بات بحث کا سبب بنی۔ بادی النظر میں جس کا فائدہ اُردو اَدب کے طالب علموں کو تاریخ کے مطالعے کی صورت میں ہوا۔ بہت ممکن ہے، جمیل الدین عالی کے دوہوں پر اعتراضات نہ اٹھتے تو دوہا تحریک کی صورت کبھی اختیار نہ کرتا۔

 

 

 

 

 

 

دوہا رنگ

 

 

 

دوہے کے موضوعات متنوع ہیں، ان کی بوقلمونیاں کا مکمل احاطہ قدرے مشکل ہے۔ بنیادی طور پر دوہا اپدیشی صنف ہے۔ صوفیوں، بھگتوں، سادھوؤں اور سنتوں نے عامۃ الناس کی ہدایت کے لیے اس سے کام لیا۔ اس لیے اس کا بڑا موضوع تو مذہبی و اخلاقی تعلیمات پر منحصر ہے۔ دوسرے درجے میں اس سے حسن و عشق کے بیان کا کام لیا گیا۔ رفتہ رفتہ اس میں موضوعات داخل ہوتے گئے اور آج یہ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس کی حدود لامحدود ہو چکی ہیں۔ انسان اوراس کائنات سے متعلق جتنے موضوعات ہو سکتے ہیں، وہ اس کی عمل داری یا حدوں میں سماسکتے ہیں۔

ڈاکٹر وزیر آغا نے دوہا بانی، اس کے مزاج، ہیئت، مضامین اور تاثیریت پر کچھ یوں اظہار خیال کیا ہے :

’’دوہے کی ایک اپنی فرہنگ اور ایک اپنا کلچر ہے، جواس برصغیر کے ہزاروں برس پر پھیلے ہوئے ماضی کا ثمر بھی ہے اور مظہر بھی۔ شاید ہی کوئی شعری صنف بیک وقت اتنی رجعت پسند اور جدے دیت نواز ہو جتنی دوہے کی صنف، جو اپنے قدیم لہجہ اور مزاج سے دستبردار ہوئے بغیر جدید دور کے لہجہ اور مزاج کو خود میں سمونے پر ہمہ وقت مستعد دکھائی دیتی ہے۔ دوہا شاید واحد صنفِ شعر ہے، جس نے برصغیر کے بطون میں موجود نمایاں ثقافتی میلانات کو اپنی ہیئت اور فارم میں اس طرح منعکس کیا ہے کہ یہ ہیئت بجائے خود مثنویت کی ایک درخشاں مثال بن گئی ہے۔ ‘‘(۸۰)

ڈاکٹرسلیم اختر یوں خامہ فرسائی کرتے ہیں :

’’دوہے کے متنوع موضوعات دو حصوں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں، دل اور دماغ… عشق و محبت، ہجر و وصال او ان سے متعلق جزئیات کا باعث دل ہے۔ ہندی گیت کی روایت میں بعض اوقات اظہارِ تمنا عورت کی جانب سے بھی ہوتا ہے اور بالعموم رادھا اور کرشن کے حوالہ سے بات کی جاتی ہے۔

دل کے برعکس دماغ عقل و خرد کے نکات اجاگر کرتا ہے، تاہم دوہے کی کو ملتا فلسفیانہ موشگافیوں اور فکر کی مابعدالطبیعات کے بوجھل پن کی متحمل نہیں ہو سکتی، بس صاف اور کھری زندگی بسر کرنے کی تلقین… سادہ اسلوب میں۔ بلحاظِ اسلوب دیکھیں تو دوہے میں شاید ہی کہیں استعارے کا استعمال ہے۔ صرف تشبیہیں اور مثالیں ملتی ہیں اور وہ بھی عام مشاہدہ پر مبنی سادہ۔ غزل کا شعرجس ایما اور گہری رمزیت کا حامل ہو سکتا ہے، دوہے کی فضا اس سے مانوس نہیں۔ ‘‘(۸۱)

مہاکوی بہاری لال نے دوہا کے مضامین کو عنوانات کے تحت پابند کیا تو ایک زمانے تک دوہا نگاروں نے پیروی کی، حتیٰ کہ اس کے اثرات قیام پاکستان کے بعد کے شعرا کے یہاں بھی واضح نظر آتے ہیں۔ یہ عنوانات اپنے موضوعات کے نشان دار ہیں : ’’شرنگار رس، شانت رس، کانت رس، انگ ارپن، رنگ درپن، وچتر وید، نائیکہ بھید، نک سک، مایا موہ، یوگ، پریوگ، راس بودھ، راس پنچ اور چھایاوادی۔ ‘‘

ان عنوانات کی وضاحت ڈاکٹر الیاس عشقی نے اپنی کتاب ’’دوہا ہزاری ‘‘ میں خوبی کے ساتھ کی ہے۔ ڈاکٹرطاہرسعید ہارون کے باب میں دوہوں کے موضوعات قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کیے جائیں گے۔ اس لیے کہ انھوں نے موجودہ عہد میں سب سے زیادہ موضوعات پر دوہے کہے۔ ان مضامین میں روایتی بھی ہیں اور اُن کے اپنے اختراعی بھی۔

اصغر ندیم سید دوہا کے مضامین اور ان کے اسباب کے بارے میں کہتے ہیں :

’’بر صغیر چونکہ بے شمار مذاہب، روحانی اکائیوں، مختلف النوع عقیدوں، متنوع ثقافتوں اور علاقائی روایات کی حامل ایسی سرزمین ہے، جہاں فراق، وصال اور ملال کے لیے مخصوص طرزِ زیست اور طرزِ احساس موجود رہا ہے۔ اس زمینی کلچر نے ہر علاقے، زبان اور ثقافت پر یکساں اثرات مرتب کیے ہیں۔ برصغیر کی تمام زبانوں میں صوفیانہ کلام، بھگتی اظہار، عارفانہ فکر اور مذہبی روایات پر مشتمل شاعری کی مختلف اصناف مقبول ہی نہیں رہیں، غزل کی مقبول صنف سے زیادہ گہری رمزیت اور معنویت کی حامل بھی رہی ہیں۔ دوہے کی صنف کا شمار بھی اُن میں ہوتا ہے۔ دوہے کی فلاسفی یہ ہے کہ انسان اللہ کی بنائی ہوئی کائنات کی ایک ایک رگ سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ ‘‘(۸۲)

’’دوہے کے موضوعات کا شمار ممکن نہیں۔ تمام دوہا نگاروں نے اس صنف کو اپنے ذوق اور ظرف کے مطابق استعمال کیا ہے۔ اخلاقیات اور پند و نصائح کے ساتھ ساتھ ارضیت دوہے کے مزاج میں شامل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندی دوہے میں عورت کے حسن و غمزہ، عادات و اطوار اور بھید بھاؤ کو جو بنیادی حیثیت حاصل ہے، اُسے اُردو دوہے نے بھی بہ تمام و کمال قبول کیا ہے۔ ‘‘(۸۳) ’’اگر قدیم راجستھانی اور ہندی دوہوں کا ایک طائرانہ جائزہ لیا جائے تو یہ بات بخوبی ظاہر ہو گی کہ دوہوں کے خالقوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کو دو مصرعوں میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ پند و نصائح کو مثالیں دے کر واضح کیا ہے، تو اخلاقی پہلو کو بھی اچھی طرح اُجاگر کیا ہے۔ اسی طرح تمام دوہے اقوالِ زرین کی نمائندگی کرتے ہیں اور پڑھنے والے کو عبرت اور نصیحت کی سیکھ دیتے ہیں۔ ‘‘(۸۴) ’’بات یہ ہے کہ ہر شاعری اپنا ایک تہذیبی رنگ بھی رکھتی ہے۔ دوہے کی صنف نے جس تہذیب کی کوکھ سے جنم لیا ہے، وہ خالص ہندی ہونے کے ناتے ہندو دھرم سے زیادہ مانوس ہے۔ سوبھجن کیرتن تواس کی گٹھی میں پڑے ہیں۔ ‘‘(۸۵) ’’ دوہا میں دہقانی جذبات کی بہترین عکاسی ملتی ہے۔ یہاں دہقانی سے میری مراد وہ سادہ اور پُر خلوص جذبات ہیں، جن پر شعری ملمع کاری، تہذیبی تصنع یا صارفی سماج کا غلاف چڑھا نہ ہو۔ ‘‘(۸۶)

گویا دوہا کی سادہ بیانی اس کی معجز نمائی ہے۔ اس کے مضامین کی واضح صورتوں میں مذہب، اخلاقیات، تصوف، علم، عرفان، عشق، محبت، حسن، ہجر، ملن، جوانی، بڑھاپا، مظاہرِ فطرت، پرندے، موسم، معاشرتی جبر، عدمِ مساوات، لالچ سمیت متعدد موضوعات اور ان کی جزئیات شامل ہیں۔ اس کے موضوعات کی بو قلمونیوں کا احاطہ اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اس لیے کہ اپنے آغاز سے اب تک اس نے بیسیوں منزلیں دیکھی ہیں اور سیکڑوں پڑاؤ ڈالے ہیں۔

 

 

 

 

 

دوہا میں ہیئتی و صنفی تجربات

 

 

 

دوہا کی روایتی ۲۳ تکنیکوں کا ذکر  تو گذشتہ صفحات میں ہو چکا ہے۔ یہاں دورِ حاضر میں ہونے والے تغیرات اور تبدیلیوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ موجودہ دور میں جہاں بعض شاعروں کے یہاں وزن کی سطحوں پر کچھ تجربات دکھائی دیتے ہیں، جیسے جمیل الدین عالی صاحب اور ڈاکٹر طاہرسعید ہارون نے بعض اوقات جہاں سرسی چھند میں ایک آدھ رُکن بڑھایا اور کم کیا ہے، وہاں رشید قیصرانی نے بھی کچھ ایسے ہی تجربے کیے ہیں۔ لیکن ان کے برعکس انڈیا میں بڑی تعداد میں صنفی تجربوں میں بھی اسے شامل کر لیا گیا ہے۔ جیسے دوہا غزل، مردف دوہا، ہائیکو دوہا، دوہا گیت، دوہا قطعہ، دوہا مثلث، دوہا ترائیلے، دوہاسانیٹ، شخصی دوہا، معرّیٰ دوہا، دوہا نظم، کُرجاں دوہا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اس صنفی انتقال یا اختراع کے پیچھے سب سے نمایاں ڈاکٹر فراز حامدی دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی ہیں۔ اور ان اصناف کو اختیار کرنے والوں میں ساحر شیوی، وِدّیاساگرآنند، ڈاکٹرساغرجیدی، امام قاسم ساقی، شارق جمال، ڈاکٹرطاہرسعید ہارون، صابر عظیم آبادی، نذیر فتح پوری، کوثر صدیقی، ڈاکٹراسلم حنیف، ڈاکٹر سیفی سرونجی، انور شمیم انور، عثمان قیصر، ڈاکٹر مرزاحسن ناصر، ظہیر غازی پوری، احسان ثاقب، رفیق شاہین، ڈاکٹر شمیم ہاشمی، یوسف جمال، قاضی رئیس، منظر صدیقی، شارق عدیل، ڈاکٹر افضال عاقل، اودے سرن ارمان، سیدہ نسرین نقاش، سیمافریدی، آبھاپوروے، ڈاکٹرحسین انور صدیقی، جاوید اختر اعظمی، سہیل غازی پوری، عبیداللہ ساگر، رضا رامپوری، ڈاکٹر امریندر، میکش اجمیری، ڈاکٹر ولی چشتی، ڈاکٹر طالب دھول پوری، تاج قائم خانی، سیدمختار ٹونکی، عقیل شاداب، شاہین فصیح ربانی اور شکیل جے پوری سمیت بیسیوں دوسرے ہیں۔ ان میں سے اکثر نے دوہا غزل اور دوہا گیت میں طبع آزمائی کی اور دوہا کے روایتی وزن یعنی دوہا چھند کو اختیار کیا۔

اس فہرست میں کچھ پاکستانی شاعر بھی شامل ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے، جیسے ان تجربوں میں بڑی کشش ہے، اسی لیے اتنی بڑی تعداد میں لوگ راغب ہوئے۔ یہ کیفیت بھی حیدر قریشی صاحب کی ماہیا کی تحریک جیسی معلوم ہوتی ہے، اُس تحریک نے بھی دیکھتے ہی دیکھتے کئی لکھنے والوں کو اپنی طرف نہ صرف متوجہ کیا، بلکہ بہت کم عرصہ میں اُردو ماہیا کے کئی ایک مجموعے بھی سامنے آ گئے۔ بادی النظر میں ان تجربوں سے دوہا کو یہ فائدہ پہنچا ہے، کہ شاعروں نے لفظ ’’دوہا‘‘ کی ایک طرح سے حیاتِ نو کی سبیل کر دی ہے۔ ایسا نہیں ہے، کہ خالص دوہا لکھنے والے نہیں رہے، بلکہ یہ ضرور ہے، کہ ان کی تعداد بہت محدود ہے۔ پھر غزل اور گیت خالص دوہا کی نسبت آسان ہیں۔ اس سہولت اورآسانی کے باعث بھی بہت سے لوگ ان تجربوں میں شامل ہوئے ہوں گے۔ بڑی تعداد نے تو منھ کا ذائقہ بدلنے یا زمانے کی ہوا کے مطابق اس طرف رُخ کیا ہے، مگر بعض لوگوں نے تو با قاعدہ تحریک کے طور پراسے اپنایا۔ ان میں بھی نمایاں نام وہی شروع کے ہیں۔ یعنی ڈاکٹر فراز حامدی، ڈاکٹر عاشق حسین ہرگانوی، ڈاکٹر طاہر سعید ہارون، ساحرشیوی، وِدّیا آنند ساگر اور امام قاسم ساقی وغیرہ۔ ان لوگوں نے تو کثرت سے لکھا ہے۔ کوثر صدیقی نے تو ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے دوہا غزلوں میں ردیف وار کا کشٹ بھی اٹھایا۔

جہاں ان تجربات کو بڑے پیمانے پر پاک و ہند میں سراہا گیا اور ان کی تقلید کی گئی، وہاں ان کے خلاف بھی آوازیں بلند ہوئیں۔ جب علمائے ادب نے دوہا چھند کے مقابلے میں سرسی چھند کو قبول کرنے میں اتنی صبر آزمائی کی اور بڑے عرصے تک اس کی قبولیت سے ہچکچاتے رہے، ایسے میں ان تجربوں کی تحسین سنجیدہ حلقوں میں کیوں کر ہو سکتی تھی؟ ان لوگوں کے نزدیک دوہا پر یہ ضرب ایسی ہی ہے، جیسے ایک زمانے میں غزل کی کمر پرمسلسل ایسی ضربیں لگتی تھیں۔ کئی ایک تجربوں کے بعد بھی غزل اپنی حالت میں سلامت ہے۔ مآلِ کار دوہا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا۔ اگر کوئی اسے اپنائے تواس کے مکمل لوازمات اور پابندیوں کے ساتھ۔ اور یہ تجربات موسمی کھمبیوں کی طرح خود ہی اپنا وجود کھو دیں گے۔ شارق بلیاوی صاحب تو ان تجربوں پر برہم دکھائی دیتے ہیں :

’’دوہا کو دوہے کے اپنے آہنگ سے جدا کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ پھول سے خوشبو نکال دینے یا جسم سے روح الگ کرنے کے بعد کیا بچتا ہے ؟ تجربات اور جدت طرازی کی کوشش میں دوہوں کا ستیاناس کر دیتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ ہم نے خوب دوہے کہے ہیں۔ خاک کہے ہیں، اپنے منھ میاں مٹھو بننا اچھا نہیں۔ ‘‘(۸۷)

اس کے باوجود ان تجربوں کو ایک اہمیت موجود ہے، جو اُوپر بیان کر دی گئی ہے۔ دوہا غزلوں اور دوہا گیتوں سے کچھ انتخاب یہاں دیا جا رہا ہے، تاکہ اندازہ ہو سکے ان تجربوں کا حاصل صحیح معنوں میں کیا ہے۔

 

                دوہا غزل:

 

میری عزت ہر طرف شہرت چاروں دھام … بندہ پرور سب ترے انعام و اکرام

جنبش تیرے حکم سے کرتی ہے ہر ذات …    تو چاہے تو بے زباں کنکر کریں سلام

(حمدیہ دوہا غزل۔ ڈاکٹر فراز حامدی)

کتنا دلکش جانفزا یارب تیرا نام      …     لب پر ہے صبح و مسا یارب تیرا نام

دُ نیا میں گھوما پھرا، دیکھے تیرتھ دھام …دیکھا، پایا جا بجا، یارب تیرا نام

(حمدیہ دوہا غزل۔ ڈاکٹر ساحرشیوی)

خوش تھا، جب بھی پا لیا، خوشیوں کا تہوار…میری نس نس میں بسا خوشیوں کا تہوار

بھولیں کل کی فکر کو، بے فکر ہوں آج … دینے آیا یہ صدا، خوشیوں کا تہوار

(علامہ شارق جمال)

زندہ رہنے کے لیے، اک مثبت کردار … لازم ہیں اقوام میں، مشترکہ اقدار

مجھ کو مجھی سے مانگ کر، اک دکھیاری نار … بولے ہے جُگ جُگ جیو، میرے سکھ سنسار

(عتیق احمد عتیق)

چرکے تھے احساس کے، ظلمی تھا سنسار … جینے کی اک آس میں، مرے ہزاروں بار

اک دوجے سے دشمنی، ہر سو ہے گوہار … بھکسی میں انسانیت، زنجیروں میں پیار

(ڈاکٹر طاہر سعید ہارون)

تم کیا بچھڑے ساجنا، بچھڑا مجھ سے پیار… سونی دل کی بات ہے، سونا ہے سنسار

دستک سن کر دُوار پر جاگ پڑا بیمار …خواب ادھورے رہ گئے، ٹوٹا نیند کا تار

(نذیر فتح پوری)

ٹھنڈی رینا پوس کی، ساجن جلدی آؤ … کایا میری برف کی، اگنی کو دہکاؤ

جاتی جگ میں دُور تک کاغذ کی آواز  … جو بھی کہنا ہو تمھیں کاغذ پر لکھ جاؤ

(کوثر صدیقی)

شاید اپنا ربط تھا، آثاروں کے ساتھ… پر حاکم نے چُن دیا، دیواروں کے ساتھ

پڑھتے ہیں تحریر ہم، آزاروں کے ساتھ … دُنیا کے غم بانٹتے اخباروں کے ساتھ

(ڈاکٹر اسلم حنیف)

دولت میرے پاس ہے اور نہ کوئی جاگیر … تیری یادیں ساتھ ہیں تیری اک تصویر

چھلنی سارا ہو گیا دیکھو سینہ چیر… دل پر آ کر ہے لگا نظروں کا جب تیر

(ڈاکٹر سیفی سرونجی)

ٹی وی کے فتنے ادھر، جب سے گھر گھر آئے … اپنے گھر میں بھی نظر، اوچھے منظر آئے

غیروں کے محلوں میں ہو کتنا ہی آرام…سچی راحت تو مگر خود کے ہی گھر آئے

(انور شمیم انور۔ تین قوافی پر مشتمل)

بیٹھے ہیں بیمار کے کچھ سرہانے لوگ… زخم لگا کر آئے ہیں، پیار جتانے لوگ

درد بھی ہنس کر سہتے ہیں، ہم دیوانے لوگ …ہم ہیں سادہ دل مگر سب ہیں سیانے لوگ

(عثمان قیصر)

بھائے کب مجھ کو خوشی، بھائے من کی پیڑ …میری تو میراث ہے غم کی یہ جاگیر

موسم کا یہ رنگ بھی کتنا ہے دلگیر…سُن لو اس کو غور سے بجتی ہے زنجیر

(سہیل غازی پوری)

جیون کی اس دوڑ میں کون کرے آرام … وہ دانا ہے صرف جو کام سے رکھے کام

کام مہارت سے کرو تو ملتا ہے دام … محنت کرنے سے بھلا کون ہوا ناکام

(عبید اللہ ساگر)

کر دی میں نے زندگی، جاناں تیرے نام … ہر راحت، ہر اک خوشی، جاناں تیرے نام

رہنے دے میرے لیے جسم جلاتی دھوپ … ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی، جاناں تیرے نام

(شاہین فصیح ربانی)۸۸

پھولوں جیسے لفظ ہیں، خوشبو میرا نام …ساری دُنیا جانتی، اُردو میرا نام

اُجلے اُجلے پنکھ ہیں، چمکے میری ذات …اندھیاروں سے کیا ڈروں جگنو میرا نام

چٹکی چٹکی چاندنی، چھائی شوخ بہار … اور مجھے کیا چاہیے، پاس میں ہے دلدار

سنو دوستو غور سے، بڑے پتے کی بات … وقت پر کام آئے اگر، پھول سے اچھا خار

(وِدّیا آنندساگر)۸۹

پیاسوں کو تقدیر نے دکھائے کیا کیا خواب … وہ دیکھو اک باؤلی، وہ دیکھو تالاب

جیون کے منجدھار میں، اپنی کیا اوقات … بڑے بڑے تیراک بھی، ہوتے ہیں غرقاب

(کوثر صدیقی)۹۰

غلط تھا اپنا عندیہ کیا ہے استعجاب … کاہن زادہ مرگیا، کیا ہے استعجاب

تیز ہوا کے دوش پر رمتی ہے میزان …اس میں صوفی پارچہ کیا ہے استعجاب

(ڈاکٹر ساغر جیدی)۹۱

جمہوری اک رنگ میں، بھیگا ہر اک رنگ … اس کو آزادی کہیں یا کہ کوئی جنگ

دولت در کے سامنے، بیٹھے ملّا پیر … نردھن کو بھی دیکھیے، بیٹھا اپنے سنگ

(امام قاسم ساقی)۹۲

یہاں منتخب شعرا کے کلام میں سے مطلع کے ساتھ ایک شعر دیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ پہلے بھی کہا گیا ہے، کہ تجربے کی حد تک تو بات دُرست ہے، لیکن خدا لگتی بات یہ ہے، کہ اس سارے کلام میں شاذونادر ہی کوئی دوہا یا شعر ایسا ہو گا جو پھڑکا کے رکھتا ہو۔ ان نظمیوں میں نہ تو دوہے جیسارَس جس ہے اور نہ غزل کے شعروں جیسی رمزیت و تازگی۔ بہ الفاظ دیگر لفظوں کے بھٹیار خانے میں بکھرے ہوئے لفظوں کے انبار ہیں۔ کہیں کہیں تو لفظوں کے ساتھ زبردستی بھی دکھائی دیتی ہے۔ کھینچ تان کر انھیں وزن کی کسوٹی پر چڑھایا گیا ہے۔

 

                دوہا گیت:

 

ساجن میں مجبور ہوں، دے نہ مجھے آواز

مشکل ہے جو اب بجے، دل کا ٹوٹا تار

نازک سی اُبلا ہوں میں، دنیا ہے بے پیر

دُنیا نے ڈالی مرے ، پیروں میں زنجیر

تن من میں پیوست ہیں، زہر میں بھیگے تیر

کُرجاں کو گھیرے ہوئے، چاروں اور ہیں باز

ساجن میں مجبور ہوں ……………!

(وِدّیا آنند ساگر)۹۳

 

پھولوں کی مہکار میں ڈوبا میرا گاؤں

چڑیوں کی چہکار میں ڈوبا میرا گاؤں

بچپن کے گلزار میں ڈوبا میرا گاؤں

سندر سندر باغ سا، سپنوں جیسا گاؤں

چھوٹا میرا مائکا ، چھوٹا میرا گاؤں

گیہوں جَو کی بال سے مہکے مہکے کھیت

ہیروں پنّوں سے بھرے گہنوں جیسے کھیت

بسے ہیں سارے جسم میں سوندھے سوندھے کھیت

دُنیا کے ہر جیو کو جیون دیتا گاؤں

چھوٹا میرا مائکہ………!!

(کوثر صدیقی)۹۴

 

سجنی تیری یاد میں ، بیتی ساری رات

ماضی کے حالات سے، کر لی میں نے بات

سجنی تیری یاد میں ………!!

تیرا ہنسنا روٹھنا، تیرے بکھرے بال

ہر دم رہتے دھیان میں، گورے گورے گال

سجنی تیری یاد میں ………!!

(امام قاسم ساقی)۹۵

 

بستر پر احساس کے کروٹ لیتی رات

میری نیند اُڑائے گی آج بھی پگلی رات

میں نے بھی تقدیر کے تارے کیے شمار

لیکن اس آکاش کی سیما اَپرمپار

عمروں کے اس کام کو ایک ذرا سی رات

بستر پر احساس کے ………!!!

(ڈاکٹر فراز حامدی)

ٹوٹے دل کے تار ہیں، روٹھا ہے سنگیت

کیسے چھیڑوں راگنی، کیسے گاؤں گیت

کیسے گاؤں گیت

ساجن مجھ سے دُور ہیں، آئے اُن کی یاد

سپنے چکنا چُور ہیں، ہونٹوں پہ فریاد

آہیں، نالے یہ کہیں، غم ہے تیرا میت

کیسے گاؤں گیت

(ڈاکٹر ساحر شیوی)

گاؤ سکھیو! جھوم کے آئی ہے برسات

پھول کا چہرہ چوم کے ہنستی ہے برسات

 

من کی کلیاں کھل اٹھیں مہکا ہے رنگ روپ

سواگت کرنے آ گئی، روپ نگر کی دھوپ

پچھلی برکھا رُت سے یہ اچھی ہے برسات

گاؤ سکھیو! جھوم کے …………!

(صابر عظیم آبادی)

 

لوک لاج کو تج دیا چھوڑ دیا سنسار

نیّا ڈوبی جائے ہے آؤ کھیون ہار

کب آؤ گے بالما کرنے موہے نہال

یاد میں توری باؤری غم سے پڑی نڈھال

آؤ مورے دیوتا، آؤ مرے کرتار

لوک لاج تج دیا………!!

(عقیل شاداب)۹۶

گیت دوہا کے قریب کی چیز ہے، اس لیے یہاں یہ تجربہ کھٹکتا نہیں۔ اس لیے کہ دونوں کا خمیر ایک ہے۔ دونوں کی لفظیات اور پس منظر ایک ہیں، دونوں ایک دوسرے سے ہم آمیز ہیں۔ محض بحر کے فرق سے ان گیتوں کے ساتھ لفظ ’’دوہا‘‘ جوڑ دیا گیا ہے۔ حالاں کہ گیت کسی بھی وزن میں لکھا جا سکتا ہے۔ اس کی ہیئت بھی محدود نہیں۔ اس لیے یہ امتیاز بھی محض نمودکاوسیلہ ہی دکھائی دیتا ہے۔ البتہ اس روش میں لکھے گئے بعض گیت دل میں جگہ بناتے ہیں۔ اس کا سبب مانوسیت اور خاص فضا ہے۔

 

                دوہا قطعات:

 

پیار کہاں سے لائیے، کہیں نہیں بازار

کرے نہ کوئی شہر میں پیار کا کاروبار

لابھ کمانا ہُوا اگر، توڑ کے سب سِدّھانت

پھول کی دھرتی پر کرو، کانٹوں کا بیوپار

 

میں ہی پیچھے رہ گیا، نکل گئے احباب

چلتے چلتے تھک گیا، اٹھائے میں اسباب

ابھی جو ندی خشک ہے، آئے گی اس میں باڑھ

مجھے بہا لے جائے گا، منزل تک سیلاب

(کوثر صدیقی)۹۷

یوں تو وہ بھی عشق میں، ہوئے تھے برباد

دنیا کرتی آج بھی لیکن ان کو یاد

مٹنا تھا سو مٹ گئے، چھوڑا اپنا نام

زندہ ہیں تاریخ میں، مجنوں اور فرہاد

 

اپنی بگڑی آل کو، گولی مارو یار

جی کے اس جنجال کو، گولی مارو یار

جو کچھ اپنے پاس ہے، کر دو تم خیرات

دھن دولت اور مال کو، گولی مارو یار

(وِدّیا آنندساگر)۹۸

پل پل موسم کی طرح بدلے مرے نصیب

رفتہ رفتہ کھو گئے، تھے جو مرے قریب

جب تک دولت پاس تھی، دشمن بھی تھے یار

پھیر کے منھ سے چل دیے، جب میں ہوا غریب

 

دل میرا مجروح ہے، ٹوٹا ہوا ہے ساز

ٹوٹے بازو کس طرح ؟ ممکن ہے پرواز

صحرا صحرا ڈھونڈتی، تجھ کو ہی بے درد

میرے گیتوں میں ڈھلی، درد بھری آواز

(امام قاسم ساقی)۹۹

کچھ اور شاعروں نے بھی اس باب میں اپنا نام لکھوایا ہے۔ لیکن یہاں انھی شعرا کے کلام سے نمونہ دیا گیا، تاکہ کچھ اندازہ ہو سکے کہ پہلے سے موجود اصناف کے ساتھ لفظ ’’دوہا‘‘ منسلک کرنے کے بعد ان میں کیا تبدیلی آئی ہے یا اُن پر کیا اثرات مرتب ہوئے ؟ جہاں تک مجھے اندازہ ہوا، تو یہاں ایک گھٹن کے احساس کے سوا کچھ نہیں۔ عمومی طور  قطعہ رواں دواں اور پُر تاثیر ہوتا ہے، یہاں کچھ استثنائی حالتوں کے علاوہ معاملہ اُلٹ ہے۔

 

                دوہا نظم:

 

یہاں کچھ شاعروں کی نظمیں دی جا رہی ہیں، اُن کے دعوے کے موجب یہ ’’دوہا نظمیں ‘‘ ہیں۔ ملاحظہ ہو:

 

فیصلہ

 

جب بھی ادنیٰ بات پر

ہوتی ہے تکرار

ذہن و دل کے درمیاں

اٹھ جاتی ہے دیوار

ذہن کہے کچھ اور ہی

دل کہتا کچھ اور

آخر ایسے میں کریں

کس کی بات پر غور

ذہن و دل میں بڑھ گئی

آج بھی یہ تکرار

اس ان بن کا فیصلہ

کیسے ہو گا یار؟

(امام قاسم ساقی)۱۰۰

اس نظم میں جہاں دوہا کابسرام آتا ہے، اگلا جزو وہاں سے الگ کر کے نیچے لکھ دیا گیا ہے۔

 

ایک باپ کی مجبوری

 

گیہوں، جوار اور باجرا، ہُوا نہ کچھ اس سال

پچھلے برسوں کی طرح پڑے نہ پھر آکال

کھیتی چوپٹ ہو گئی، گاؤں میں سب بے کار

ملے نہ آدھے پیٹ بھی، کسی کو روٹی دال

بیٹی کا اس حال میں، کیسے ہو گا بیاہ

ٹی وی موٹر سائیکل مانگ رہا سسرال

(کوثر صدیقی)۱۰۱

اس طرح کی بیسیوں مثالیں پہلے سے ہی موجود ہیں۔ الیاس عشقی، جمیل الدین عالی، عرش صدیقی، ڈاکٹرطاہرسعید ہارون سمیت بعض شاعروں نے روایتی دوہے کے اندر ہی عنوانات سجائے ہیں۔

اب وِدّیا آنندساگر کے کلام سے مردّف دوہا، معریٰ دوہا اور شخصیاتی دوہا کی مثالیں دیکھیں :

کریں نہ جو تیرا اَدب اُن سے بچنا سیکھ

بنیں جو ذلّت کا سبب، اُن سے بچنا سیکھ

 

رستے میں چلتے ہوئے، کیا ہے نیچے دیکھ

ٹھوکر سے بچنا ہے تو، راہ کے روڑے دیکھ

 

جب تک وہ ڈھاتا رہا، مجھ پرظلم پہ ظلم

مجھے بھیانک خواب کا ہوتا رہا گمان

مجھ سے ملنے آئے گا، تب میرا دلدار

جبکہ میری قبر پر، اُگ آئے گی گھاس

غالب

ادب کے تن کی روح ہے، ان کاحسیں کلام

ہیں شعراء کے پیشوا، غالب جن کا نام

میر تقی میر

رہے ادب کے باغ میں، خوشبو بن کر میر

ہے ان کے اشعار میں، دردیلی تاثیر

علامہ اقبال

ادب کے مہر و ماہ ہیں، علّامہ اقبال

جنھوں نے اپنی قوم کا، رکھّا سدا خیال(۱۰۲)

شخصی دوہوں کی مثالیں ہمارے یہاں جمیل الدین عالی، ڈاکٹر وحید قریشی، تاج سعید اورڈاکٹرطاہرسعید ہارون کے یہاں پہلے سے موجود ہیں۔

مجموعی طور پران دوہا غزلوں، دوہا گیتوں، دوہا نظموں، دوہا قطعات اور دوسرے تجربات سے کچھ زیادہ تازگی کے اثرات نہیں پڑتے اور نہ ہی ان میں دوہا کا خاص آہنگ اور مزاج دکھائی دیتا ہے۔ جس طرح موجد ہونے کے شوق میں ان لوگوں نے ان اصناف کاستیاناس کیا ہے، وہ شارق بلیاوی کی زبان سے واضح ہے۔ بانی ہونے کے شوق میں اچھی خاصی اصناف کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ موجد یا بانی ہونے کی خوشی کا احساس خود ڈاکٹر فراز حامدی کے اس بیان سے بھی ہوتا ہے، ملاحظہ ہو:

’’آج اُردو دُنیا میں دوہا نہ صرف اُردو شعراء کی محبوب صنفِ سخن ہے، بلکہ اس میں کئی صنفی تجربات بھی ہو رہے ہیں۔ راقم الحروف نے دوہا گیت، دوہا غزل، دوہا ترائیلہ، دوہا سانیٹ، دوہا نظم، دوہا قطعہ، دوہا مثلث، دوہا معریٰ مثلث، دوہا چار بیت، دوہا دو بیتی وغیرہ کہہ کراس میں اضافے کیے۔ ‘‘(۱۰۳)

ان ’’اضافوں ‘‘ سے ادب پر جو گذری سو گذری، لیکن انھیں یہ فائدہ بہ ہر حال ہوتا رہے گا، جب بھی کوئی ان اصناف میں سے کسی پر بھی بات کرے گا، وہ مجبوراً موصوف کا بھی ذکر کرے گا۔ اس طرح ان کے ’’ موجد ‘‘ہونے کے خوشی قائم رہے گی۔

 

 

 

دوہا وِرتا

 

 

 

دوہا کی تاریخ کے حوالے سے سرسری بات شروع میں ہو چکی ہے، جس سے یہ اندازہ ہوا کہ اس کی ابتدا اَپ بھرنش یا پراکرتوں سے ہوئی۔ سنسکرت میں اس کے وجود کی نفی ہوتی ہے۔ ’’دوہے کی صنف کے آغاز اور ابتدائی ادوار میں ارتقاء کی تاریخ بھی واضح نہیں۔ اس لیے بعض اوقات معلوم شواہد سے کچھ اندازے لگانا پڑتے ہیں۔ جناب شین۔ کاف۔ نظام کی تحقیق کے مطابق ’’سنسکرت روایت میں تالیف و تصنیف ہوئی عروضی کتب میں دوہے کا ذکر نہیں ملتا۔ وجہ غالباً یہ ہو کہ قدیم سنسکرت زبان میں دوہا کہنے کا رواج ہی نہ رہا ہو۔ سنسکرت کی قدیم ترین عروضی کتاب چھند و لکشن گرنتھ میں بھی دوہے کا ذکر نہیں ملتا۔ سنسکرت کے دیگرچھندشاستر کی کتب مثلاً جے دیوکا ’’جے دیوچھندس‘‘ کالی داس کی ’’شرت بودھ‘‘ جے کیرتی کے ’’چھندونشاسم‘‘ کیشمندر کے ’’سورت تلک‘‘ وغیرہ میں بھی دوہے کا ذکر نہیں ملتا۔ آٹھویں صدی کے چھند لکشن کار درہانک نے دوہے کے ابتدائی اشکال کا ذکر کیا ہے، جسے انھوں نے دو پاد  یا چرن یعنی دو مصرعوں والا چھند مانا ہے۔

جناب شین کاف نظام نے مزید بتایا ہے، کہ ایک خیال کے مطابق ’’دوہا‘‘ سنسکرت ہی سے نکلا ہے اور پھر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ دوہاسورٹھا کی قدیم شکلیں نویں صدی کے ’’ہندی‘‘ عروضیوں کے یہاں موجود تھیں۔ ’’ہندی‘‘سے یہاں غالباً جناب نظام کی مراد’ ’ہند کے ‘‘ ہے کیوں کہ نویں صدی میں تو کوئی پراکرت شاعری کے لیے نمایاں نہیں ہوئی تھی۔ برج بھاشا بھی گیارہویں صدی کے آس پاس نمایاں ہوئی۔ اس لیے اس وقت جو بھی زبان تھی وہ ’’ہندی زبان‘‘ نہیں تھی۔ ‘‘(۱۰۴) بہ ہر حال زبان کو جو بھی نام دیا جائے یہ ماننا پڑتا ہے، کہ اس کے آغاز کار ہندو ہی تھے۔

ڈاکٹر محمد اعظم کُریوی نے چندربردائی کو ہندی شاعری کا بابا آدم قرار دے کر ایک طرح سے یہ ثابت کر دیا ہے، کہ کم از کم دوہا کی شروعات وہاں سے تسلیم کی جا سکتی ہیں۔ پھر خسرو اور ان سے بھی قبل صوفیا کا کلام موجود ہے۔ آنے والے صفحات میں کلاسیکی عہد کے شعراسے لے کر حال کے شعرا تک نامور اور اہم شاعروں کا تذکرہ کیا جائے گا۔ انھی شاعروں میں جہاں بھگتی تحریک سے وابستہ شاعروں کا احوال ہے، وہاں پچھتر ہزار دوہے کہنے والے اور دوہا کے عروض پر پہلی دستاویز ’’رام الن کرت منجری‘‘ فراہم کرنے والے کیسو داس کا بھی حال بیان کیا جائے گا۔

اساتذہ کے علاوہ ہندوستان اورپاکستان میں جو لوگ اس فن میں نمایاں ہوئے، اُن میں خواجہ دل محمد، جمیل الدین عالی، الیاس عشقی، عرش صدیقی، پرتو روہیلہ، ڈاکٹر وحید قریشی، ناصر شہزاد، بیکل اُتساہی، ندا فاضلی، بھگوان داس اعجاز، نادم بلخی، عتیق احمد عتیق، شہریار، مظفر حنفی، مخمورسعیدی، عادل منصوری، شارق جمال، ظفر گورکھپوری، مناظر عاشق ہرگانوی، منصور عمر، نذیر  فتح پوری، آزاد گلاٹی، قیصر شمیم، فراز حامدی، شاکر خلیق، عبدالمنان طرزی، کرشن موہن، یوسف جمال، یونس احمر، ابراہیم اشک، شین کاف نظام، بازغ بہاری، گوہر شیخ پوروی، کرشن بہاری نور، مجاز جے پوری، روشن شہری، کرشن کمار طور، مہدی پرتاب گڑھی، ناؤک حمزہ پوری، ساحرشیوی، کاوش پرتاب گڑھی، شاہد میر، فراغ روہوی، شاہد جمیل، عاصم شہنواز شبلی، اظہر نیر، امام اعظم، قتیل شفائی، ظفر ہاشمی، چندربھان خیال، سیفی سرونجی، خوشتر مکرانوی، عمر فیضی، وقار واثقی، سوہن راہی، تاج سعید، عابد صدیق، جمیل عظیم آبادی، رحمن خاور، رشید قیصرا نی، حامد برگی، توقیر چغتائی، شیخ ایاز (ترجمہ:آفاق صدیقی)، نصیر احمد ناصر، شاعر صدیقی، جمال پانی پتی، سلطان اختر، جلیل ہاشمی، شبی فاروقی، شفقت بٹالوی، شفقت تنویر مرزا، افضل پرویز، شرر نعمانی، محمد علی بخاری، انوار انجم، نگار صہبائی، کشور ناہید، مشتاق چغتائی، سہیل غازی پوری، سیدزاہدحیدر، خاور چودھری، مشتاق عاجز، تنویر پھول وغیرہ شامل ہیں۔ ان ناموں میں دوہاچھنداورسرسی چھند کو اپنانے والے شاعر موجود ہیں۔

پاکستان میں دوہوں کی پہلی کتاب ’’پیت کی ریت ‘‘ ہے۔ یہ خواجہ دل محمد کی تخلیق ہے۔ یہ کتاب دوہے کے مزاج اور آہنگ کے عین مطابق ہے۔ اس کی زبان اور مضامین بھی دوہا بانی کی یاد دلاتے ہیں۔ اس کتاب کے بعد جمیل الدین عالی کا دور شروع ہوتا ہے، جنھوں نے اپنی نغمگی اور ترنم کے باعث اس فن کو اُردوداں طبقے میں مقبول کیا اور اپنے بیسیوں مقلد پیدا کیے۔

آیندہ صفحات میں اساتذہ کا ذکر پہلے ہو گا، پھر ڈراموں کے عہد میں نمایاں ہونے والے دوہا نگاروں کا تذکرہ ہو گا اور پھر پاکستان بننے کے بعدسامنے آنے والے شاعروں کا احوال بیان کیا جائے گا۔ آخر میں اہم شاعروں کے حوالے سے قدرے تفصیل کے ساتھ بحث ہو گی۔

 

 

 

حوالہ جات

 

۱… ہندی شاعری، طبع دوم، اعظم کُریوی، ڈاکٹر، سگماپریس، اسلام آباد، ۲۰۰۹، ص۳

۲…پرتھوی راج راسو، چندر بردائی، محولہ بالا، ص۴

۳… ہندی شاعری، طبع دوم، اعظم کُریوی، ڈاکٹر، ص۵

۴…دیباچہ، میگھ ملہار، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۷ء، ص۵

۵…پریت ساگر، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۴ء، ص۸

۶…محمدذکریا، خواجہ، ڈاکٹر، محولہ بالہ، ص۹

۷…پیش لفظ، پیت کی ریت، خواجہ دل محمد دل، نور کمپنی، انارکلی لاہور، سن، ص۷/۸

۸…مولانا چراغ حسن حسرت، محولہ بالا،ص ۱۳

۹…پاکستان میں اُردو دوہا، مشمولہ :کملی میں بارات، عرش صدیقی، مقبول اکیڈمی،

لاہور، طبع اول نومبر۱۹۹۱ء، ص۵۶

۱۰…من بانی، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۵ء، ص۷

۱۱…رنگِ اَدب، مرتب :شاعر علی شاعر، کراچی، کتابی سلسلہ ۵،س ن، ص۳۳

۱۲…من موج، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۱ء، ص۱۴

۱۳…نیلا چندرماں، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۳ء، ص۱۶

۱۴…دوہا ہزاری، الیاس عشقی، ادراک پبلی کیشنز، لطیف آباد، حیدرآباد، ۲۰۰۳، ص۲۰/۲۱

۱۵…پاکستان میں اُردو دوہا، مشمولہ :کملی میں بارات، ص۴۸

۱۶…ایضاً، ص۵۰/۵۱

۱۷…قاعد الغات، نشتر جالندھری، بحوالہ:پاکستان میں اُردو دوہا، ص۸۶

۱۸…ہندی اُردو لغت، راجہ جیسور رائے اصغر، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۱۹۹۳ء، ص۲۵۷

۱۹… علمی اُردو لغت، وارث سرہندی، علمی کتب خانہ، لاہور، ۱۹۹۶ء، ص۷۵۶

۲۰…قدیم اُردو لغت، جلد نہم، اُردو لغت بورڈ، کراچی، ۱۹۸۸ء،ص ۷۳۵

۲۱…فرہنگ آصفیہ، جلد دوم، سیداحمددہلوی، مرکزی اُردو بورڈ، لاہور، ۱۹۷۷ء، ص۲۸۷

۲۲…اعجاز الغات، ذوالفقار تابش

۲۳…آکھیا بابا فرید نیں، پاکستانی پنجابی اُردو بورڈ، لاہور، ۱۹۹۷ء،ص ۱۱۹(اصل اقتباس پنجابی زبان میں )

۲۴…وڈی پنجابی لغت، جلد دوم، اقبال صلاح الدین، عزیز پبلشرز، لاہور، ۲۰۰۲ء،ص ۴۲۵

۲۵…فیروز الغات، مولوی فیروز الدین، فیروز سنز، لاہور

۲۶…نور الغات جلد سوم، نورالحسن نیر، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد، ۱۹۸۵،ص ۱۴۱

۲۷…جامع الغات، جلد دوم، خواجہ عبدالمجید، اُردو سائنس بورڈ، لاہور، ۱۹۸۹ء، ص۱۰۴۰

  1. John T , Platts , Urdu Classical Hindi and English Dictionary , New Delhi : 1977
  2. The Oxford English Dictionary۔ Delhi , 1977
  3. R. C. Pattak Vamasai , Bhargaua’s Standard Illustred Dictionary , Jan 1976

۳۱…عارف منصور، رنگِ اَدب، کراچی، کتابی سلسلہ ۵، مرتب:شاعر علی شاعر،س ن، ص۶۲

۳۲…جمیل یوسف، ایضاً، ص۸۴

۳۳…محمدسالم، ایضاً، ص۸۸

۳۴…محمد محفوظ الحسن، ڈاکٹر، ایضاً، ص۹۵

۳۵…جمیل عظیم آبادی، ایضاً، ص۱۲۱

۳۶…رنگِ اَدب، کراچی، ص۱۴۴

۳۷…اصنافِ سخن اور شعری ہیئتیں، بھوپال، ۱۹۸۱ء، ص۱۹۲

۳۸…تاریخِ ادبیاتِ مسلمانانِ پاکستان و ہند، جلد اول، ۱۹۷۱ء،ص ۱۲۴

۳۹…ایضاً، ص۲۵۴

۴۰…تنقیدو تحقیق، جابر علی سید، کاروانِ ادب، ملتان صدر، ۱۹۸۷ء،ص ۴۸

۴۱…ماہنامہ ادب لطیف، جلد۶۹، شمارہ نمبر۳، مارچ ۲۰۰۴ء، لاہور

۴۲…شبدکوش، ص۴۰۹، بحوالہ:رنگِ اَدب، کراچی، ص۱۷۷

۴۳…ضیاء الحسن، ایضاً، ص۱۸۷

۴۴…شہناز پروین، ایضاً، ص۲۰۰

۴۵…بشریٰ اعجاز، ایضاً،ص ۲۱۳

۴۶…محمدطہور خان پارس، ڈاکٹر، ایضاً، ص۲۱۸/۲۱۹

۴۷…رگوناتھ روپک، بحوالہ :شین۔ کاف نظام، دوہا تجزیہ اور چندسوال، مشمولہ:پاکستان میں اُردو دوہا،ص ۸۴

۴۸…دوہا رنگ، وِدّیاساگرآنند، موڈرن پبلشنگ ہاؤس، دریاگنج، نئی دہلی، ۲۰۱۰ء، ص۲۳

۴۹…ظفر عمر قدوائی، ڈاکٹر، ایضاً،ص ۳۲

۵۰…جمیلہ عرشی، ڈاکٹر، ایضاً،ص ۴۷

۵۱…وزیر آغا، ڈاکٹر، رنگِ اَدب، کراچی، ص۳۳

۵۲…من موج، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۱ء، ص۱۲

۵۳…عارف منصور، رنگِ اَدب، کراچی، ص۶۲

۵۴…محمدسالم، ایضاً، ص۸۸

۵۵…مناظر عاشق ہرگانوی، شاہد جمیل(مرتبین)دوہا رنگ، نرالی دُنیاپبلی کیشنز، نئی دہلی ۲۰۰۳ ء ص۱۰

۵۶…جمیل عظیم آبادی، رنگِ اَدب، کراچی، ص۱۲۱

۵۷…شفیق احمد شفیق، ایضاً، ص۱۷۳

۵۸…شارق بلیاوی، ایضاً، ص۱۸۳

۵۹…دیباچہ، ڈھائی آکھر، کوثر صدیقی، ادبی دُنیا پبلی کیشنز، جے پور، انڈیا، ۲۰۰۶ءص ۱۰

۶۰…کیسرکیسردوہے، ساغرجیدی، ڈاکٹر، رائل سیما اُردورائٹرس فیڈریشن، کڈپہ، ۲۰۰۹ء، ص۵/۶

۶۱…بشری اعجاز، رنگِ اَدب، ص۲۱۳

۶۲…محمد طہور خان پارس، ڈاکٹر، ایضاً،ص ۲۱۸

۶۳…اُردو کا اپنا عروض، گیان چند جین، انجمن ترقی اُردو ہند، نئی دہلی، ۱۹۹۰ء، ص۷۲

۶۴…دوہا رنگ، مرتبین مناظر عاشق ہرگانوی، شاہد جمیل،ص ۱۱/۱۲

۶۵…ہندی شاعری، طبع دوم، اعظم کُریوی، ڈاکٹر، ص۱۶/۱۷

۶۶… ایضاً،ص ۸۲/۸۹

۶۷…ایضاً، ص۱۴۱

۶۸…عارف منصور، رنگِ اَدب، کراچی، ص۶۲/۶۳

۶۹…پاکستان میں اُردو دوہا، مشمولہ :کملی میں بارات، ص۷۱

۷۰… ہندی شاعری، طبع دوم، اعظم کُریوی، ڈاکٹر، ص۱۲

۷۱…اُردو اور ہندی کے جدید اوزان، سمیع اللہ اشرفی، علی گڑھ، ۱۹۸۴ء، ص۲۹۹تا۳۰۰

۷۲…پاکستان میں اُردو دوہا، مشمولہ :کملی میں بارات، ص۵۹/۶۰/۸۶

۷۳…جمیل عظیم آبادی، رنگِ اَدب، کراچی، ص۱۲۱

۷۴…شاہد جمیل، ایضاً، ص۱۰۰

۷۵…محمدسالم، ایضاً، ص۸۹

۷۶…حمایت علی شاعر، ایضاً،ص ۷۶

۷۷…من بانی، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۵ء، ص۹

۷۸…پریت ساگر، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۴ء، ص۱۱

۷۹…ڈھائی آکھر، کوثر صدیقی، ادبی دُنیا پبلی کیشنز، جے پور، انڈیا، ۲۰۰۶ء ص۱۲

۸۰…دوہا غزل…دوہا گیت، مرتب: مناظر عاشق، ڈاکٹر، ہرگانوی، مکتبۂ کوہسار،

بھاگلپور، انڈیا، ۲۰۰۶ء، ص۹

۸۱…من موج، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۱ء، ص۱۳

۸۲…من دیپک، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۱ء، ص۸

۸۳…انورسدید، ڈاکٹر، رنگِ اَدب، کراچی ص۴۶/۴۷

۸۴…فراز حامدی، ڈاکٹر، ایضاً، ص۷۸/۷۹

۸۵…پریم رس، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۹ء، ص۸

۸۶…محمد محفوظ الحسن، ڈاکٹر، رنگِ ادب،ص ۹۵

۸۷…شارق بلیاوی، رنگِ ادب، ص۱۸۳

۸۸…دوہا غزل…دوہا گیت، مرتب: مناظر عاشق، ڈاکٹر، ہرگانوی، متفرق صفحات

۸۹…دوہا رنگ، وِدّیاساگرآنند، موڈرن پبلشنگ ہاؤس، دریاگنج، نئی دہلی، ۲۰۱۰ء،ص ۱۲۷/۱۲۹

۹۰…   ڈھائی آکھر، کوثر صدیقی، ص۱۸

۹۱…کیسرکیسردوہے، ساغرجیدی، ڈاکٹر، رائل سیما اُردورائٹرس فیڈریشن، کڈپہ، ۲۰۰۹ء، ص۱۱۹

۹۲…فکر و فن کے پھول، امام قاسم ساقی، نوشین پبلی کیشنس، کڈپہ(انڈیا)۲۰۰۹ء، ص۷۳

۹۳…دوہا رنگ، وِدّیاساگرآنند، ص۱۸۹

۹۴…ڈھائی آکھر، کوثر صدیقی، ص۹۴

۹۵…فکر و فن کے پھول، امام قاسم ساقی، ص۹۶

۹۶…دوہا غزل…دوہا گیت، مرتب: مناظر عاشق، ڈاکٹر، ہرگانوی، متفرق صفحات

۹۷…ڈھائی آکھر، کوثر صدیقی، ص۱۰۰

۹۸…دوہا رنگ، وِدّیاساگرآنند، ص۱۹۷

۹۹…فکر و فن کے پھول، امام قاسم ساقی، ص۱۰۸

۱۰۰… ایضاً،ص ۸۳

۱۰۱…ڈھائی آکھر، کوثر صدیقی، ص۱۰۲

۱۰۲…دوہا رنگ، وِدّیاساگرآنند، ص۱۱۱تا۱۲۱

۱۰۳…فراز حامدی، ڈاکٹر، رنگِ اَدب، کراچی، ص۷۷

٭٭٭

 

 

 

 

پہلا دور

 

ہر ذرّے میں پی بسے، لُوں آنکھوں سے چُوم

میں گھوموں جس اور کو، قبلہ جائے گھُوم

خواجہ دل محمد

 

 

 

 

 

شیخ فرید الدین مسعود گنج شکرؒ

(۵۶۹ھ…۶۶۴ھ)

 

 

آپ کی پیدائش کھوتوال ضلع ملتان میں ہوئی۔ اس قصبے کا موجودہ نام چاولی مشائخ ہے۔ آپ کے والد بزرگوار جمال الدین سلیمان ولیِ کامل تھے۔ والدہ قرسم خاتون زہد و تقویٰ کی بنا پر رابعۂ عصر کہلاتی تھیں۔ سلسلۂ نسب حضرت عمرؓ بن الخطاب سے ملتا ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم کھوتوال میں حاصل کی۔ پھر ملتان میں مولانا منہاج الدین ترمذی سے ان کی مسجد میں اسلامی فقہ کی مشہور کتاب ’’النافع‘‘ پڑھی۔ وہیں آپ کی ملاقات حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ سے ہوئی۔ چنانچہ ان سے بیعت کی۔ علوم ظاہری و باطنی کے لیے بغداد، سیوستان، بدخشان اور قندھار کا سفر اختیار کیا۔ آپ نے اجودھن(پاکپتن) کوا پنی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ وہیں وفات پائی اورآسودۂ خاک ہوئے۔ آپ کا مزار بھی وہیں ہے۔ (۱)

شیخ فرید الدین نے ابلاغ کے لیے مقامی زبان شعار کی اور اسی کے وسیلے سے اپنا پیغام پہنچایا۔ آپ کی زبان پنجابی کا اولین نقش کہلائی جاتی ہے یا اسے اُردو کی روپہلی صورتوں میں سے ایک صورت تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ آپ سے متعدد گیت اور دوہے منسوب ہیں۔ لیکن ’’ہندی ساہتیہ کے برت اتہاس‘‘ کے بموجب آپ کے دوہوں کی تعداد ایک سوتیرہ (۱۱۳) ہے۔ (۲)تاہم یہاں بھی ابہام کی صورت موجود ہے۔ بعض لوگ ان مشمولہ دوہوں کو فرید ثانی ؒ سے موسوم کرتے ہیں۔ حافظ محمود شیرانی کایہ قول اس ضمن میں اہمیت رکھتا ہے :

’’یہ معلوم کرنا بالکل دشوار ہے کہ یہ کلام آیا فرید اول سے تعلق رکھتا ہے یا فرید ثانی سے۔ سکھوں کے گرنتھ صاحب میں جو مجموعہ کلام ہے، وہ فرید ثانی کا مانا جاتا ہے۔ ‘‘(۳)

ڈاکٹر جمیل جالبی بھی اسی تناظر میں دیکھتے ہیں اورپروفیسرفضل حق کی رائے اسی تناظر میں ظاہر کرتے ہیں۔ (۴) البتہ پنجابی کے معروف محقق محمد آصف خان اس نظریے سے اختلاف کرتے ہوئے طویل بحث کے بعد اپنی پنجابی کتاب ’’آکھیا بابا فرید نے ‘‘ میں گرنتھ صاحب میں شامل دوہوں کو فرید اول کی تخلیق تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے مطابق : ’’فرید سے موسوم کلام کے بیشتر حصے کے خالق خواجہ فرید الدین گنج شکر ہی ہیں۔ ‘‘(۵)

اگرچہ اس بات کوتسلیم بھی کر لیا جائے تو یہ بات ضرور پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ باقی کلاسیکل شاعری کی طرح ان دوہوں میں تغیر و تبدل کا امکان موجود ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور مخطوطہ جات سے نقل در نقل کے عمل سے بہت سی بنیادی تبدیلیاں بھی ظہور پذیر رہتی ہیں۔ اس کی ایک مثال ان دوہوں کے شروع میں لفظ ’فریدا‘ کا استعمال بھی ہے۔ جو بعض مقامات پر آہنگ کو متاثر کرتا ہے۔ یہ پانچ دوہے ملاحظہ کیجیے :

فریدا رتی رت نہ نکلے، جے تن چیرے کوئے

جو تن رتے رب سیؤں، تِن تَن رَت نہ ہوئے

 

فریدا میں جانیا دُکھ مجھ کوں دُکھ سبائیے جگ

اوچے چڑھ کے دیکھیا، تاں گھر گھر ایہا اَگ

 

کوک فریدا ! کوک توں، جیوں راکھا جوار

جب لگ ٹانڈا نہ گرے، تب لگ کوک پکار

 

فریدا جے تو عقل لطیف ہیں، کالے لکھ نہ لیکھ

آنپڑے گریوان میں، سر نیواں کر کے ویکھ

فریدا کالے مینڈے کپڑے، کالا مینڈا ویس

گنہی بھریا میں پھِراں، لوک کہن درویس

 

فریدا کن مصلی صوف گل، دل کاتی گڑوات

باہر دِسّے چانناں، دل اندھیری رات(۶)

پہلے دونوں دوہے گرنتھ صاحب سے لیے گئے ہیں۔ آخری تینوں دوہوں میں ’فریدا‘ آہنگ کو متاثر کرتا ہے۔ اگراس لفظ کو ہٹا کر پڑھا جائے تو زیادہ صفائی اور ترنم سے یہ دوہے پڑھے جاتے ہیں۔ لیکن اس تصرف کے باوجود بھی دوہا نگاری کی روایت میں ان دوہوں کا اہم کردار ہے۔ انھی کی بنیاد پر آگے چل کر دوہا کویوں کاراستہ ہموار ہوتا ہے۔

 

 

 

 

حمید الدین صوفی، شیخ سوالی ناگوری

(پ۔ ۵۹۰…م۔ ۲۹ ربیع الثانی ۶۷۳ھ/پ ۱۱۹۴… م۔ یکم نومبر۱۲۷۴ء)

 

ابو محمدآپ کی کنیت ہے، سلطان التارکین لقب اور ناگور(مارواڑ، راجپوتانہ) وطن ہے۔ آپ خواجہ اجمیرؒ [معین الدین چشتی ] کے ممتاز خلفا اور اکابر صوفیہ میں سے تھے۔ آپ کاسلسلۂ نسب حضرت سعید بن زیدؓ سے ملتا ہے، جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔ آپ کامزار ناگور میں ہے۔ فرہنگ آصفیہ میں انھیں شیخ حمید الدین سوالیؒ ناگوری لکھا گیا ہے۔ اور اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ آپ موضع ’’سوال‘‘ میں پیدا ہوئے تھے۔ اسی لیے ’’سوالی‘‘ کہلائے۔ (۷) آپ کے لقب اور تاریخ وفات کے ضمن میں کہا جاتا ہے : ’’خواجہ صاحب نے آپ کا نام’سلطان التارکین‘ رکھ دیا۔ آپ اس خوشی میں ایسے مست ہوئے کہ ربیع الاول کی ۲۹ تاریخ۶۷۳ھ(دسمبر۱۲۷۴)میں اس دُنیا سے ہی چل دیے۔ ‘‘(۸) ڈاکٹر سمیع اللہ اشرفی نے آپ کے یہ دوہے نقل کیے ہیں :

جو بسترے تو ہے سکت، سنکوچے تو سوئے

ایک پُرکھ کے نام دس، برلا جانے کوئے

 

جوگن کیوں نہ جاننی، تِس کُن کج جھیہ کائیں

بَہل نہ جو گی ہاتھ پر، تیتہہ آرائیں

 

روگن گئی جوگن کری، گنی گئی کو دوس

این رسا پن سنچرے، رنگ جو مارے اوس(۹)

ان دوہوں کی زبانی گوجری آمیز ہے اور موجودہ پنجابی پر بھی اس کے اثرات موجود ہیں۔ البتہ ان میں وہ رس اور لوچ نہیں ہے، جو بابا فریدالدین سے منسوب دوہوں میں ہے۔ شایداس کاسبب زبان کا تفاوت اور دُوری ہے۔

 

 

 

 

شیخ شرف الدین بوعلی قلندر

(پ۔ ۱۱۸۴ء…م۔ ۳؍دسمبر۱۳۲۴ء)

 

آپ پانی پت میں پیدا ہوئے۔ آپ کا شجرۂ نسب اس طرح ہے :شیخ شرف الدین بو علی قلندر، بن سالار فخر الدین، بن سالار عزیزسے امام ابو حنیفہؒ تک جا ملتا ہے۔ آپ کے والد عراق سے ہندوستان وارد ہوئے۔ وہ جید عالم دین اور متقی انسان تھے۔ انھوں نے پہلی شادی حضرت بہاء الدین زکریاؒ کی صاحب زادی سے کی۔ جب وہ انتقال کر گئیں تو دوسرا عقد نعمت اللہ ہمدانی کی بہن بی بی حافظہ سے کیا۔ بوعلی قلندر انھی کے بطن سے پیدا ہوئے۔ آپ نے علم و عرفان کے حصول کے لیے بہت چھوٹی عمر میں سفرشروع کر دیا تھا۔ آپ کرنال میں پیوندِ خاک ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق آپ کے اعزا و اقارب نے آپ کے جسدِ خاکی کو پانی پت منتقل کر دیا تھا۔ (۱۰) کنول ظہیر نے آپ کاسن وصال ۱۳۲۳ء درج کیا ہے۔ (۱۱)

آپ کی تصانیف میں ’’مکتوبات بنام اختیار الدین‘‘، ’’ حکم نامہ شرف الدین‘‘، ’’مثنوی کنزالاسرار‘‘ اور ’’رسالہ عشقیہ‘‘ شامل ہیں۔ (۱۲)

حافظ محمود شیرانی کے توسط سے آپ کا یہ دوہا سامنے آیا ہے :

ساہرے نہ مانیوں، پیو کے نہیں تہانو

کُنہہ نہ بوجھی بات اوی، دھنی سہاگن نانو(۱۳)

اس دوہے کی زبان قدرے ثقیل ہے۔ اس کے برعکس جو دوہا مؤلف فرہنگِ آصفیہ نے نقل کیا ہے، وہ زیادہ صاف اور قابل فہم ہے۔ ملاحظہ کیجیے :

سجن سکارے جائیں گے اور نین مریں گے روئے

بدھنا ایسی رین کر، بھور کدھی نہ ہوئے

اول الذکر دوہے کے بارے میں روایت ہے کہ یہ حضرت نظام الدین اولیا کے جواب میں تحریر ہوا تھا۔ البتہ ثانی الذکر کی زبان کے بارے میں درج ذیل رائے بہت اہم ہے۔ اسے پڑھنے کے بعد اولین دوہے کے حوالے سے روایت مشکوک ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ ایک ہی وقت میں ایک ہی شخصیت کی زبان میں اتنا واضح فرق نہیں ہو سکتا:

’’ہجری ساتویں صدی بہ عہد محمد شاہ تغلق و علاؤالدین خلجی، جس زبان کا رواج تھا اس کے دوہے سے جو بو علی قلندر صاحب کی زبان مبارک سے مبارز خاں صاحب کے ارادہ سفرکے موقع پر نکلا تھا، بہ خوبی پتا چلتا ہے کہ کیسی صاف اور سیدھی زبان تھی۔ گواس میں سرتاپا ہندی الفاظ، جیسے کہ دوہوں میں ہوا کرتے ہیں، پائے جاتے ہیں مگر زبان عام فہم بھی ایسی کہ اس زمانے کی ہندی سے ذرا سامس رکھنے والے بھی بہ خوبی سمجھ لیتے ہیں۔ ‘‘(۱۴)

ثانی الذکر دوہا آج بھی بآسانی سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ بعض پاکستانی اورہندوستانی دوہا نگار اب بھی اسی زبان میں لکھتے ہیں اور ان کے پڑھنے والے موجود ہیں۔

 

 

 

 

امیر خسرو

(۱۲۵۳ ء … ۱۳۲۵ء)

 

آپ کی پیدائش پٹیالی(ضلع ایٹہ، ہندوستان) میں ہوئی اور دہلی میں وفات پائی۔ آپ کا پورا نام ابوالحسن یمین الدین خسرو ہے۔ ترک نژاد تھے اور حضرت نظام الدین اولیاؒ کے محبوب مرید بھی۔ امیر خسرو ہی ایسے ہندوستانی فارسی گو شاعر اور ادیب ہیں، جنھیں ایرانی بھی اہلِ زباں تسلیم کرتے ہیں۔ انھوں نے غزل میں سعدی شیرازی کی پیروی کی۔ ان کی غزلوں میں تصوف کا رنگ نمایاں ہے۔ دیوان کے علاوہ انھوں نے جو منظومات لکھیں ان میں خمسۂ امیر خسرو کی بہت شہرت ہے، جو انھوں نے نظامی گنجوی کے خمسے کے مقابلے میں لکھا اور ’’پنج گنج‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ یہ خمسہ ’’ مطلع الانوار‘‘، ’’شیریں وخسرو‘‘، ’’مجنوں و لیلیٰ‘‘، ’’ آئینۂ سکندری‘‘ اور ’’ ہشت بہشت‘‘ پر مشتمل ہے۔ ان کی دوسری کتب میں ’’مفتاح الفتوح‘‘ (فتوحاتِ جلال الدین فیروز شاہ)، ’’ قران السعدین‘‘ اور ’’نُہ سپہر ‘‘ہیں۔ نثری تصانیف میں ’’خزائن الفتوح‘‘ یا ’’تاریخ علائی‘‘(تاریخ سلطنت علاء الدین خلجی)اور ’’تاریخ دہلی‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔

اکثر تذکروں میں ان سے منسوب وہ فارسی ہندی غزل ملتی ہے، جس کا ایک مصرع فارسی اور دوسرا بھاشا میں ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے دوہے، کہہ مکرنیاں، انمل، پہیلیاں اور دوسخنے وغیرہ ان سے منسوب ہیں۔ امیر خسرو کو موسیقی پربھی عبور تھا۔ وہ پہلے فن کار ہیں، جنھوں نے ایرانی اور ہندی موسیقی ملا کر ایک نیا رنگ پیدا کیا۔ ان کے نانا عماد الملک موسیقی کے دلدادہ تھے، جن کے ہاں اکثر اربابِ نشاط کی محفلیں برپا ہوتی تھیں۔ امیر خسرو نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم انھی محفلوں میں حاصل کی۔ درباری گویوں کی صحبت میں ایرانی اور سندھی موسیقی پر کامل عبور حاصل کرنے کے بعد انھوں نے سندھی کلاسیکی موسیقی کو ایرانی سانچوں میں ڈھالا اوراس طرح اصنافِ موسیقی میں ترانہ، قول، قلبانہ، بسیط اور قوالی وغیرہ کے موجد ہوئے۔ دھرپد کی بجائے خیال گائیکی کی ابتدا بھی انھی سے منسوب ہے۔ ایرانی نغموں اور سندھی راگوں کے امتزاج سے انھوں نے بہت سے نئے راگ اختراع کیے۔ کچھ تالوں کی اختراع بھی ان سے منسوب ہے۔ مثلاً پندرہ یا تیس ماتروں کی سموادی، نو ماتروں کی فرددست وغیرہ۔ بعض سازوں بالخصوص ستار اور طبلے کے موجد بھی امیر خسرو ہی تسلیم کیے جاتے ہیں۔ (۱۵)

ڈاکٹر جمیل جالبی امیرخسروکی ہندو زبان دانی اور تصانیف کے ضمن میں رقم طراز ہیں :

’’ابوالحسن یمین الدین امیرخسرونے اپنی صلاحیت کے چند قطرے اس زبان [اُردو]کے خون میں شامل کیے ہیں۔ امیرخسروننانوے تصانیف کے مالک اور بنیادی طور پرفارسی کے شاعر اور عالم تھے۔ اُن کا جو کچھ اُردو کلام آج ملتا ہے اس میں امتداد زمانہ سے اتنی تبدیلیاں ہو چکی ہیں کہ اب اسے مستند نہیں مانا جا سکتا۔ لیکن یہ بات مسلّم ہے کہ امیر خسرونے اس زبان میں شاعری کی ہے۔ ’غرۃ الکمال‘ کے دیباچے میں امیر خسرو نے خود اس امر کی تصدیق کی ہے کہ ’ جزوے چند نظم ہندی نذرِ دوستاں کردہ شدہ است۔ ‘ان کے کلام کو دیکھ کر دو باتوں کا پتا چلتا ہے : ایک یہ کہ اب یہ زبان قدیم اَپ بھرنش کے دائرے سے باہر نکل آئی ہے اور دہلی و اطرافِ دہلی کی زبانوں سے مل کر اپنی تشکیل کے ایک نئے دور میں داخل ہو گئی ہے۔ جس پر کھڑی بولی اور برج بھاشا دونوں اثرانداز ہوتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ اب دھُل منجھ  کر اتنی صاف ہو گئی ہے کہ اس میں شاعری کی جا سکے۔ امیر خسرونے خود اس شاعری کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ اس لیے اسے محفوظ کرنے یا کسی دیوان کا حصہ بنانے کا انھیں خیال نہیں آیا۔ ‘‘ (۱۶)

عموماً تذکروں میں امیرخسرو کی چند ایک چیزیں نقل ہوئی ہیں اور انھی کو آج تک پیش کیا جاتا ہے۔ جیسے عبدالواسع ہانسوی نے اپنی تصنیف ’دستورالعمل‘میں یہ ریختہ نقل کیا ہے :

از چل چلِ تو کارِ منِ زار شد کچل

من خود نمی چلم تو اگر می چلی بچل(۱۷)

یہ امیرخسروکاخاص انداز ہے، جو انھوں نے ریختہ اورفارسی کی آمیزش سے ایجاد کیا۔ انجمن ترقی اُردو پاکستان کے مخزونہ ایک قدیمی بیاض میں ان کا یہ ریختہ موجود ہے۔ اس ریختے کی زبان میں جو مقامی لہجہ ہے، وہ دوہے کی تشکیل و  تعمیر میں نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ ریختہ ملاحظہ کیجیے :

زحالِ مسکیں مکن تغافل، دو رائے نیناں بنائے بتیاں

کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں، نہ لیہو کا ہے لگائے چھتیاں

 

شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلش چوں عمر کوتاہ

سکھی پیا کو جومیں نہ دیکھوں، تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

 

یکایک از دل دو چشم جادو، بصد فریبم ببرد تسکیں

کسے پڑی ہے جو جا سناوے، پیارے پی کو ہماری بتیاں

 

چوں شمع سوزاں چوں ذرّہ حیراں زمہر آں مہ بگشتم آخر

نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں

بحقِ روزِ وصالِ دلبر کہ داد مارا فریب خسرو

پسیت من کے دارے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں (۱۸)

اس مسلسل غزل میں دوہے کی بوباس پوری طرح رچی ہوئی ہے۔ ایک دوہا جو ملا وجہی کی ’سب رس‘ کی زینت بنا، ملاحظہ ہو:

پنکھا ہو کر میں ڈلی ساتی تیرا چاؤ

منجھ جلتی جنم گیا، تیرے لکھن باؤ(۱۹)

حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے مزارپرامیرخسرو کا یہ دوہا درج ہے :

گوری سووے سیج پہ اور مکھ پہ ڈارے کیس

چل خسرو گھر آپنے، سانج بھئی چو ندیس(۲۰)

دوہے کی زمین اور فضا کے یہ نمونے دیکھیے :

سانس نوارت جات ہے اور جی کا ہو گیا کال

گئی بُو بودار کی، رہی کھال کی کھال

 

پی کے چرنوں آت ہے اور کر مٹھی کے پیچ

صورت ہے اشنان کی، گارا نہیں کیچ

 

دل کا تو دُبغل بھیا اور نینن کا ناسور

جو اوکھت سے دُکھ کٹے، تو میں بھی کروں جرور(۲۱)

یہ تینوں پہیلیاں ہیں جو بالترتیب ’کھال‘، ’اینٹ‘ اور ’عشق‘ کے پس منظر میں ہیں۔ اب یہ دوہا ملاحظہ کیجیے :

چکوا چکوی دوجنے، ان مت مارے کوئے

یہ مارے کرتار کے، رین بچھوئے ہوئے

(ہندی شاعری، ص۹۷)

امیرخسروسے منسوب کلام بہت سا ہے مگراس کی تصدیق کے بعد جو کچھ بچ جاتا ہے، وہ ایسا ہے جس پر ہماری زبان اور ہماری ثقافت کی اساس ہے۔ دوسرے لفظوں میں آنے والے تخلیق کاروں کے لیے بنیادی فضا یہی کلام مہیا کرتا ہے۔

 

 

 

 

شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری

(جولائی ۱۲۶۳ء … ۳ جنوری ۱۳۸۱ء)

 

آپ کی پیدائش منیر(بہار) میں ہوئی۔ علم و عرفان کی روایت ورثے میں ملی۔ تعلیم سے فارغ ہوئے تو تصوف میں ڈوب گئے۔ دہلی میں شیخ نجیب الدین فردوسی کے مرید ہوئے۔ فارسی لکھنے میں غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ ان کے مکتوبات کے کئی مجموعے ہیں۔ ان میں ’’ مکتوبات صدی ‘‘، ’’ مکتوبات بست و ہشت ‘‘ اور ’’ مکتوبات سہ صدی ‘‘ بہت مشہور ہیں۔ دوسری تصانیف میں ’’ شرح آداب المریدین ‘‘، ’’لطائف المعانی‘‘ اور ’’ تحفۂ غیبی‘‘ ہیں۔ ملفوظات میں ’’معدن المعانی‘‘ اور ’’مخ المعانی‘‘ چھپ چکے ہیں۔ مکتوبات کے بارے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ نے امراء، وزراء اور خودسلطان فیروز تغلق کو بار بار رعایا سے نیک سلوک اور عدل و انصاف کرنے کی تلقین کے لیے خطوط لکھے۔ قصبۂ بہار شریف میں آپ کا انتقال ہوا۔ (۲۲)

ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق سن وفات ۱۳۸۰ء ہے اور ان کے کج مندرے، دوہے، فالنامے اور ملفوظات مشہور ہیں۔ (۲۳)آپ کے دوہوں کی زبان بھی وہی ہے اور مضامین بھی۔ البتہ مضامین میں ایک تنوع ہے۔ عمومی روش عشق وحسن کے قصوں اور تصوف کی جولان گاہوں کی طرف ہے۔ یہاں امتیاز یہ ہے کہ تالیفِ قلب و روح کے ساتھ صحتِ جسم کے لوازم بھی موجود ہیں۔ حافظ محمود شیرانی، مولوی عبدالحق اورڈاکٹر جمیل جالبی نے ان کے یہ دوہے نقل کیے ہیں :

کالا ہنسا نر ملا، بسے سمندر تیر

پنکھ پسارے یکہ ہرے، نرمل کرے سریر

درد رہے نہ پیڑ

 

شرف حرف مائل کہیں، درد کچھ نہ بسائے

گرد چھوئیں دربار کی، سو درد دور ہو جائیں (۲۴)

اول الذکر دوہا مستزاد کی صورت میں، جب کہ آخرالذکر دوہا موجودہ روش کے مطابق ہے۔ پہلے مستزاد کی صورت میں دوہوں کا رواج موجود رہا ہے۔

 

 

 

 

میراں جی شمس العشاق، شاہ

(وفات ۱۴۹۶ء)

 

آپ کا مولد مکہ مکرمہ اور مدفن بیجاپور ہے۔ شمس العشاق سے سن وفات ۹۰۲ ھ نکلتا ہے۔ دکن کے اکابر علما و صوفیہ میں شمار ہوتا ہے۔ آپ کے خاندان کی نسبت بابائے اُردو مولوی عبدالحق اپنی تصنیف ’’اُردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ یہ اسی خاندان کا اثر تھا کہ بیجا پور میں زبان کو اس قدر فروغ ہوا اور وہاں سے ایسے ایسے خوش بیان اور بلند خیال شاعر پیدا ہوئے، جن کی نظیر اُردو شاعری میں بہت کم ملتی ہے۔ ‘‘(۲۵) مریدوں کا حلقہ وسیع تھا۔ دکنی اُردو میں متعدد رسائل لکھے۔ نثر میں ’’شرح مرغوب القلوب‘‘، ‘‘جلترنگ‘‘ اور ’’گل باس‘‘ جب کہ نظم میں ’’خوش نامہ‘‘ اور ’’خوش نغز‘‘ قابل ذکر ہیں۔ (۲۶) ڈاکٹر جمیل جالبی نے ان کی تصانیف میں ’’مغز مرغوب‘‘ اور ’’شہادت التحقیق‘‘ بھی درج کی ہیں۔

بنیادی طور پرشمس العشاق صوفی تھے۔ انھوں نے اپنے مریدین ومتوسلین کی تالیفِ قلب کے لیے لکھا۔ اپنے کلام کو انھوں نے ’دوہا‘ کا نام ہی دیا ہے اور یہ فضا اور بحر کے اعتبار سے بھی دوہے کے قریب ہے۔ اپنی تصنیف ’خوش نامہ‘ کا تعارف یوں کرواتے ہیں :

اس خوش نامہ دھریا نام، دوہا ایک سو ستر

دسّا زیادہ پڑھے سوئے، تولھے خوشی کا چھتر(۲۷)

اس دوہے کے مطابق ’خوش نامہ‘ ایک سو ستر دوہوں پر مشتمل ہے۔ ’خوش‘ نامی لڑکی کے گرد یہ نظم گھومتی ہے۔ بھولی بھالی، خوش گلو، خوش شکل اور من موہنی یہ لڑکی چغتائی خاندان کا نور عین ہے اور صرف سترہ سال ایک ماہ نو دن کی عمر میں پیوندِ خاک ہو جاتی ہے۔ ’خوش نامہ‘ کی تخلیق کا سبب یہی دُکھ ہے۔ میراں جی اس صاف دل اور فطین لڑکی کی زبان سے یوں کہلواتے ہیں :

اب نا چھپوں، اب نا ڈروں، ڈروں تو کہاں لگ ڈروں !

ہمیں غریب نپائیے، تیرے آستھی، آسا دھروں

ماتا جی بالک تھی، رو سے جانا انھیں کدھر

آپ جس مارگ لاسے، میراں میں تو جاؤں تدھر(۲۸)

خالق و مالک کائنات کی موجودگی کا احساس اُس شریف النفس کومایوس نہیں ہونے دیتا اور وہ اللہ سے ہی لو لگا لیتی ہے۔ اُسی سے امیدیں رکھتی ہے۔ اس نظم کا خاتمہ ان دعائیہ دوہوں پر ہوتا ہے :

خوش خوش حالوں، خوش خوشیاں، خوشی رہے بھر پور

یہ خوش خوشیاں اللہ کیرا، نورا اعلیٰ نور

کھنڈ خوش، خوش نامہ تمت ہوا تمام

خوش سب کوئی دائم قائم، جیتا خواص و عوام(۲۹)

’خوش نغز‘ ایک مکالماتی انداز کی نظم ہے۔ اس میں خوش سوال کرتی ہے اور میراں جی جواب دیتے ہیں۔ ہر باب ’خوش پوچھی‘ یعنی خوش نے پوچھا اور ’خوش کہی‘ یعنی خوش نے کہا سے شروع ہوتا ہے۔ اس نظم میں علم و عرفاں سے لے کر حسن و عشق اور ان کے مصادر و منابع پر گفتگو ہوتی ہے۔ اس نظم میں عرفانِ روح، عرفانِ عالم، عرفان مراقبہ، عرفانِ ذوقِ نور، موتِ عارفاں، بحثِ عقل و عشق، بیانِ کرامات اور موحّد اور ملحد جیسے عنوانات پر بحث کی گئی ہے۔ یہ نظم بہتر دوہوں اور نو ابواب پر مشتمل ہے۔ باب ہفتم کا یہ حصہ دیکھیے :

خوش کہی مج کہو میراں جی ! عشق بڑا یا بودہ

پیر کہیں میں آکھوں، بیاں اسمے دھرنا سودہ

 

من کے کان دے کر سن ری بچن ٹیک ائیک

چنگی عشق بودہ کب سیتیں کیوں سلگائیں دیکھ

 

بودہ پردھان کہے سن راجے تج کوں عشق خطاب

جے تو کہیا نہ سنسی، میرا کیسو رہی حساب

 

عشق کہے سن عقل پریشاں اگنت اچھے راج

عاروس کیرا ناز بکاوے، باندی کیرا کاج

 

عقل کہے بن کریں سنگار زیے گیسو ناز

عشق کہے بن پرم پیا جی کی تو چھے ساز

 

بودہ کہے تو پرم پیا کا جے تو چھے سار

عشق کہے تو پرم پیا اُپسیر کھینچے ہار

 

بودہ کہے کچھ کھیلیا، لوڑی باچھیں ایسی بات

عشق کہے یہ کھیل کھلانا، سبھی اُس کے ہات

 

بودہ کہے یوں تسلیم ہونا تو کج پرت رہے

عشق کہے جؤ دینا بہتر، دوکھ یہ کون سہے

 

عشق بودہ کے بول بیان، کہیا خوش کے پاس

یہ گھن کمال گیسو بوجھے ہوئے خاص الخاص(۳۰)

ان دوہوں میں عشق اور عقل کی گرہیں کھولی گئی ہیں اورطرزسوال جواب والی رکھی گئی ہے۔ ہمارے یہاں صوفیہ کی روایت رہی ہے کہ وہ خود سوال پیدا کرتے ہیں اور پھر خود اُس کا جواب دیتے ہیں۔ یہاں بھی یہی صورت واضح ہے۔ ان دوہوں سے مستقبل میں اُردو دوہے کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ شمس العشاق کی روش ایک طرح سے آنے والوں کے لیے نشانِ راہ ہے اور یہ کلام خمیر کی صورت میں حرفِ آیندہ میں شامل ہو جاتا ہے۔ موضوعات کے ساتھ تکنیک اور ہیئت کے اعتبار سے ان کا کلام آنے والوں کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتا۔ یہ تنوع اور بوقلمونی بعد میں آنے والوں کے یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔

 

 

 

 

شیخ بہا الدین باجن

۹۱۲ھ /۱۵۰۶ء)

 

ابن شیخ معزالدین اور نویں صدی ہجری کے بزرگ ہیں۔ مخدوم شیخ عزیز اللہ متوکل گجراتی یا اُن کے فرزندِ ارجمند شیخ رحمت اللہ کے مرید تھے جو سلطان محمود بیگڑا(۱۴۵۹ … ۱۵۱۱ء) کے بھی پیر تھے۔ مدت تک سیاحت کرتے رہے۔ گجرات سے شمالی جانب سند ھ و خراسان اور جنوبی جانب لنکا تک گئے۔ شیخ باجن نے فارسی کے علاوہ ہندی میں بھی شعر کہے، جنھیں اُردو کے ابتدائی نمونے کہنا چاہیے۔ باجن(بہ معنی ساز) ان کا تخلص تھا۔ (۳۱)موسیقی سے شغف تھا اس لیے یہ تخلص اختیار کیا۔ ’’خزائن رحمت اللہ‘‘ کے نام سے فارسی نثر میں ان کی ایک تصنیف یاد گار ہے۔ جس میں صوفیائے سلف کے کلمات کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ اپنے پیر و مرشد شیخ رحمت اللہ کے ملفوظات و اقوال جمع کیے گئے ہیں۔ کتاب فارسی میں ہے، لیکن باجن نے جا بجا اپنا اُردو کلام بھی دیا ہے۔ اس کتاب کے ایک باب میں جسے ’’خزینۂ ہفتم‘‘ کہا گیا ہے، شیخ باجن نے دوسروں کے اقوال کے ساتھ ساتھ اپنے اشعار، جکریاں اور دوہرے بھی دیے ہیں۔ (۳۲)

’’خزائن رحمت اللہ‘‘ قلمی نسخہ مخزونہ انجمن ترقی اُردو پاکستان میں اس باب کے شروع میں ’’جکری‘‘ پر بحث کی گئی ہے اور اس کے مقصد اور ہیئت کو واضح کیا گیا ہے، ملاحظہ ہو:

’’درذکرِ اشعار کہ مقولہ ایں فقیر است، بزبانِ ہندوی جکری خوانند و قوالانِ ہندآنرا در پردہ ہائے سرود می نوازند ومی سرایند۔ بعضے در مدح پیر دستگیر ووصفِ روضۂ ایشاں ووصفِ وطنِ خود کہ گجرات است و بعضے ذکرِ مقصدِخود و مقصودِ مریداں وطالبان وبعضے در ذکرِ عشق و محبت۔ ‘‘(۳۳)

تکنیک اور ہیئت کے اعتبارسے جکری، بھجن اور گیت ہی کی ایک شکل ہے، جس میں دوہوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ باجن کے ہاں اس کی عام ہیئت یہ ہے کہ ابتدائی اشعار، جو ہم قافیہ ہوتے ہیں، ’’عقدہ‘‘ کہلاتے ہیں۔ اس کے بعد تین تین چار چار مصرعوں کے بند آتے ہیں، جنھیں ’’پین‘‘ کہا جاتا ہے۔ آخری بند جو عام طور پر تین مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے، ’’تخلص‘‘ کہلاتا ہے۔ ہر گیت سے پہلے یہ واضح کر دیا جاتا ہے کہ اسے کس راگ میں لکھا گیا ہے۔ (۳۴)

شیخ باجن نے اپنی زبان کو کہیں ہندوی اور کہیں دہلوی کہا ہے۔ یہ وہی زبان ہے جس پر گوجری زبان کے اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی شاعری کے یہ نمونے ملاحظہ ہوں :

سب پھول باری تو ہیں، بھونرا بہو بھر لیو باس

راول میرا راج کرے ری، مندر کے پاس

 

جب لگ جیب چلے ہے میری، ہیری کہوے شارہ پوراؤں

منہ لہو بھر لیوں تیرا ناؤں، کریم و رحیم تیرا ناؤں

 

اللہ سیتیں جے کوئی ہوئے، اللہ اور جگ اُس کا ہوئے

من مراد گھر بیٹھے ؤاوے، اس کو مار نہ سکہے کوئے

 

کوئی اللہ سیتیں اللہ کسے سہتیں باجن درویش پر مناوے

اللہ ہوں کوچہ سہتیں، بیٹہی بہکیاوے (۳۵)

ان دوہوں پر مضامین، ہیئت اور زبان کے اعتبار سے وہی رنگ غالب ہے جو دوہوں سے مخصوص ہے۔ وہی تصوفانہ انداز جس میں مبلغ اور مصلح اپنے مریدین اور متوسلین کی اصلاح اور تزکیۂ نفس کی تعلیمات بیان کرتے ہیں۔ باجن کے ان دوہوں سے جہاں اخلاقی و مذہبی تعلیمات مترشح ہوتی ہیں، وہاں عمومی دانش کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ یہی وہ رنگ ہے جوان کے بعد اور ان سے پہلے گزرنے والے سالکین کے یہاں دکھائی دیتا ہے۔ حافظ محمود شیرانی نے ان کے یہ دوہے نقل کیے ہیں :

تجھ ایک روپ اور بھانت بہت دیکھ عاشق شیدا ہوئے

باجن ایکی ایک سریکھا ناہیں، سب گئے جوئے جوئے

 

بھونرا لیوے پھول رس، رسیا لیوے باس

مالی سینچے آس کر، بھونرا کھڑا اُداس(۳۶)

ان دوہوں کی زبان نسبتاً صاف اور منجھی ہوئی ہے۔ پرانی بولی سے معمولی تعلق رکھنے والا قاری بھی ان دوہوں سے حظ اٹھا سکتا ہے۔

 

 

 

 

بھگت کبیر

(۱۳۹۹ء…۱۵۱۸ء )

 

کبیر اُتر پردیش کے ایک مشہور بھگت ہیں، جن کے عقیدت مندوں کو کبیر پنتھی کہا جاتا ہے۔ ان کا مقام پیدائش بنارس ہے۔ ان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک بیوہ برہمن عورت کے بطن سے پیدا ہوئے، جو انھیں ایک تالاب کے کنارے چھوڑ گئی تھی۔ جہاں سے نیرو نام جولا ہے نے انھیں اٹھا لیا اور گھر لے آیا۔ اس کی بیوی رنیمہ نے ان کی پرورش اپنے بچوں کی طرح کی۔ گرو گرنتھ صاحب میں ان کے نام پر پانچ سو چونتیس شبد اور اشلوک درج ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے کلام کے مجموعے ’’ کبیر گرنتھاولی‘‘ اور ’’کبیر بیچک‘‘ بھی ملتے ہیں۔ بنارس میں کبیر جی کا مقام ’’کبیر چورا‘‘ کے نام سے مشہور   ہے اور ’’لَہر‘‘ نام کے تالاب پر بھی ایک مندر قائم ہے۔ (۳۷)

کبیر مسلمانوں اور ہندوؤں میں یکساں مقبول ہیں۔ ان کے ملفوظات اور شاعری کو دونوں جانب کے لوگوں نے اپنے اپنے اندازسے محفوظ کیا۔البتہ آخرالذکر کے یہاں تقدیم کی صورت اس لیے بھی ہے کہ کبیر کا تعلق ان ہی کے مذہب سے تھا۔ ان کا کلام نرم و گداز بھی ہے اور تند و ترش بھی۔ اس لیے کہ وہ جس معاشرے میں رہتے تھے، وہاں سو طرح کی قباحتیں تھیں۔ خصوصاً ہندوؤں میں ذات پات کی تمیز اور کم تر اور اعلیٰ کا امتیاز ایسا تھا جو انھیں ناگوار تھا۔ ان کی شاعری زیادہ تراسی تناظر میں ہے۔ اگرچہ کہیں کہیں وہ خالص مصلح اور مبلغ دکھائی دیتے ہیں مگر گاہے وہ سخت گیر اور بیزار بھی نظر آتے ہیں۔ ایک مصلح کا ایسا رویہ بجائے خود حیران کن ہے۔ اس کے باوجود کبیر کو ماننے والوں کی کمی نہیں۔ کبیر کے مسلک اور نفسیات کوسمجھنے کے لیے سرسوتی سرن کیف کی یہ رائے بہت اہم ہے :

’’ان کے ہندو مسلم اتحاد کے پہلو کو بھی صحیح طور پرسمجھنا چاہیے۔ انھوں نے گاندھی جی کی طرح ہندو اعتقادات اور اسلام میں مماثلت کو ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ اس کے برخلاف وہ ہندو اور مسلمان دونوں کو گمراہ سمجھتے ہیں۔ ان کا اپنا مسلک ہے اور اپنا فلسفہ ہے جس کو انھوں نے ہندو یامسلمان طبقے تک محدود نہیں رکھا۔ اسی بنا پر وہ مذہبی اتحاد کے حامی ہیں۔ ان کا لہجہ سمجھانے بجھانے کا نہیں بلکہ سخت مخالفت کا ہے۔ اس کی وجہ ایک تو ان کا ذاتی مزاج رہا ہو گا، دوسرے زندگی میں ان کو مذہبوں کے ماننے والوں کی ظاہر داریوں سے کچھ ایسا سابقہ پڑا اور مذہبوں کے خود ساختہ ٹھیکیداروں کی ریاکاری اور فریب سے دل پر کچھ ایسی چوٹ پڑی کہ وہ ان کی شدید مخالفت پر تل گئے۔ چنانچہ وہ تمام ظاہرداریوں، عقیدوں اور رسومات کی مخالفت کرتے ہیں جوانسان کوانسان سے جدا کرتی ہیں اور نفرت کے بیج بوتی ہیں۔ وہ تمام انسانی برادریوں کو ایک سمجھتے ہیں اور محبت کو عظیم ترین طاقت۔ وہ اس خدا کی تلقین کرتے ہیں، جو سب کا خدا ہے۔ ‘‘ (۳۸)

کبیر کو محض دوہا کوی سمجھ کر اگر پڑھا جائے تو شاید بات ادھوری رہے، اس لیے پورے ریاض اور امتیاز کے ساتھ کبیرسے وابستگی اور دل بستگی کرنی پڑتی ہے۔ کبیر کے یہاں ظاہری سطح پرانسان کی جو پذیرائی ملتی ہے، اس میں بھی ایک زاویے سے وہ ذاتِ اعلیٰ کی بڑائی ہی بیان کرتے ہیں۔ ذاتِ باری تک رسائی کے لیے مرشدِ کامل کا وجود اور تزکیہ نفس کی تعلیم پر عمل پیرائی بہت ضروری ہے۔ یہی کبیر کی تعلیم کا اہم نکتہ ہے۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ اہم اور نمایاں ہے کہ کبیر کی دوہا نگاری فنی اور تخلیقی اعتبار سے نری نعرہ بازی نہیں، بلکہ اس میں حظ اٹھانے کے مکمل لوازم موجود ہیں۔ یہ دوہے ملاحظہ کیجیے، جن میں خدا اورانسان اور باقی مخلوقات سے ان کے تعلق اور رشتوں کو مختلف زاویوں سے دیکھا گیا ہے :

گیانی بھولے گیان، کھت نکٹ رہیونج روپ

باہر کھوجیں با پُرے، بھیتر وستو انوپ

 

بھیتر تو بھید یو نہیں، باہر کتھے انیک

جو پے بھیتر لکھ پرے، بھیتر باہر ایک(۳۹)

پانی کیرا پوترا، رکھا پون سنچار

نانا بانی بولتا، جو دھری کرتار

 

ایک شبد میں سب کہا، سب ہی ارتھ وچار

بھجئے نرگن نام کو، تجئے وشے وکار(۴۰)

 

سادھو بھیرے سب بڑے، اپنی اپنی ٹھور

شبد و ویکی پارکھی، سو ماتھے کے مور

سمجھا سمجھا ایک ہے، اَن سمجھا سب ایک

سمجھا کوئی جانیے، جا کے ہِردے وِویک(۴۱)

انسانوں کی منافرت اور باہمی چپقلش کو یوں بیان کیا:

دیس دیس ہم با گیا، گرام گرام کی کھور

ایسا جیرا نا ملا، جولے پھٹک پچھور

خوب صورت مگر بدسیرت لوگوں کے لیے یوں گویا ہوتے ہیں :

بنا بنایا مانوا، بنا بُدّھی بے تول

کہا لال لے کیجیے، بنا باس کا پھول(۴۲)

غرض یہ کہ کبیر کے یہاں انسانی ذہن میں پیدا ہونے والے تمام رنگ، تمام امکانات اور ادراکات اور ان سے پیدا ہونے والی صورتوں کا بیان ملتا ہے۔ یہی وہ وصف ہے جو ہمارے یہاں کے صوفیائے کرام کے ہاں بھی نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر اعظم کُریوی کا انتخاب دیکھیے :

نہائے دھوئے کیا بھیا، جو من کا میل نہ جائے

میں سدا جل میں رہے، دھوئے باس نہ جائے

 

تن کو جو گی سب کریں، من کو کرے نہ کوئے

سہجے سب سدھی پائے، جو من جو گی ہوئے

 

مورکھ کے سمجھاوتے، گیان گانٹھ کا جائے

کویلا ہوئے نہ او جلا، چاہے سو من صابن لائے

(ہندی شاعری…ص ۱۴۸، ۱۴۶، ۱۴۴)

 

 

 

 

قاضی محمود دریائی

(۱۴۶۹ء…۱۵۳۴)

 

محمود دریائی گجرات کے ان برگزیدہ صوفیہ میں سے ہیں، جن کا فیض آج بھی جاری ہے۔ انھیں گجرات کا ’خواجہ خضر‘ کہا جاتا ہے۔ آپ کے لقب ’’دریائی‘‘ کی بابت صاحبِ’ ’تحفۃ الکرام‘‘ کا یہ فرمودہ اہم ہے :

’’قاضی محمود بعد از رحلتِ پدر بر مسندِ ارشاد تمکّن جست۔ بزرگی وخوارق ایشاں عالم را فروگرفت وخدمتِ عالم آب ہم بایشاں تعلق داشت۔ اکثر در کشتی ہائے تباہی کہ یاد ایشاں می نمود بساحلِ مراد می رسیدند۔ ازیں سبب’دریائی‘ لقبِ خاص مقر ر گشت۔ ‘‘(۴۳)

قاضی صاحب فنِ موسیقی سے خوب رَس جس رکھتے تھے۔انھوں نے اپنا کلام مختلف راگ راگنیوں اور سروں کے مطابق مرتب کیا۔ ان کے کلام کے یہ عنوانات ملاحظہ کیجیے : جکری در پردۂ بلاول، در دھناسری، در ملھار، در کدارہ، در کلیان، در بھاکرہ، درسارنگ، در پردۂ رام کلی، در توڑی اوردراساوری وغیرہ۔ یہ عنوانات اس بات کا پتا دیتے ہیں کہ انھوں نے اس سلسلے میں خاص توجہ دی۔ ویسے بھی صوفیہ کا مخاطب طبقہ عامۃ الناس ہوا کرتا ہے اور موسیقی ایک ایسا وسیلہ سمجھا گیا ہے، جس سے دلوں کو مسرور کر کے مطیع کیا جا سکتا ہے۔ خوش الحانی اور خوش بیانی ایسے قرینے ہیں، جن سے ہماری روایات کو فروغ ملا۔

آپ کی زبان اور فنِ شعر پر ڈاکٹر جمیل جالبی یوں اظہارِ خیال فرماتے ہیں :

’’قاضی محمود دریائی کے ضخیم دیوان میں اُس دور کی مقبول و مروجہ روایت کے مطابق ہندوی روایت چہک چہک کر بول رہی ہے۔ پورے دیوان کے مزاج پر، لہجے اور اسلوب پر، آہنگ اور ترنم پر، اوزان اور بحور پر، اصناف اور انتخاب الفاظ پر ہندوی مزاج کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ ‘‘(۴۴)

نمونہ کلام ملاحظہ کیجیے :

سائیں کن ایک بار اکھا، ہوں دکھیا کروں جو ھار

تیرے مکھڑے کے بلہار

محمود سائیں سیوک تیرا، توں تو سمرت سائیں میرا

کریں ہماری سار

 

قاضی محمد تن شاہ چایلندھا، میرا سب دکھ کہ وہی اولاوے

محمد سنوری سائبان مجہ اس بن اور نہ بھاوے (۴۵)

 

نبی محمد مصطفی، ری ساچا گرو رسول

محمود بندا بے نوا، میری حاجت کریں قبول(۴۶)

 

پانچوں وقت نماز گزاروں، دائم پڑھوں قرآن

کھاؤ حلال، بولو مکھ ساچا، راکھودرست ایمان(۴۷)

آخری دونوں دوہے جدید اُردو کے بہت قریب ہیں۔ دونوں میں عربی کے الفاظ در آئے ہیں، جن سے سمجھنے میں نہایت آسانی ہو گئی ہے۔ لفظوں کا یہ در وبست اور امتزاج آگے چل کر جدید اُردو دوہے کی راہ ہموار کرتا ہے۔

 

 

 

 

 

شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ

(۸۶۱ھ… ۳ جمادی الاخریٰ ۹۴۲ھ)

 

آپ امام ابو حنیفہ کی اولاد میں سے تھے۔ پہلے شیخ محمد چشتی صابری سے خرقۂ درویشی حاصل کیا۔ پھر شیخ الاسلام شیخ الادرویش محمد بن قاسم اودھی کا عطا کردہ خرقۂ خلافت پہنا اور سلسلہ مداریہ سہروردیہ اور نظامیہ میں خلافت یافتہ ہوئے۔ ابتدا میں ردولی میں قیام کیا مگر پھر ترکِ وطن کر کے شاہ آباد چلے گئے۔ جہاں آپ نے ۳۸ برس تک ارشاد و تلقین کا ہنگامہ برپا رکھا۔ آخری عمر میں گنگوہ(سہارن پور) تشریف لے گئے اور وہیں انتقال کیا۔ آپ کی تصانیف سے آپ کے مطالعے کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ نے ’’عوارف‘‘ کی شرح لکھی اور شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی مشہور تصنیف ’’فصوص الحکم‘‘ پر حاشیہ تیار کیا۔ ان کی دوسری تصانیف میں ’’رسالہ قدسیہ‘‘، ’’ غرائب الفوائد‘‘، ’’نورالعیون‘‘، ’’مکتوبات قدوسیہ‘‘ اور ’’مظہر العجائب‘‘ شامل ہیں۔ (۴۸)صاحبِ تاریخ اَدب اُردو ڈاکٹر جمیل جالبی نے ان کاسن پیدائش ۸۶۰ھ اورسن وفات ۹۴۵ھ درج کیا ہے۔

شیخ عبدالقدوس گنگوہی برج بھاشا کے شاعر تھے اور ’’الکھ داس‘‘ تخلص کرتے تھے۔ عبدالصمد خواہر زادہ ابوالفضل علامی نے ’اخبار الاصفیاء‘ میں انھیں ’ ’مجتہدِ وقت‘‘ اور’ ’مقتدائے زماں ‘‘کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔ اپنے عہد کی بھاشا کا استعمال اس قدر عام کرتے تھے کہ اٹھتے بیٹھتے اسی زبان کو بروئے کار لاتے۔ آپ کی شاعری کا انداز بھی اُس وقت کی روایت سے جڑا ہوا ہے۔ یعنی اشعار اور دوہوں کو راگ اور راگنیوں کے تابع رکھا گیا ہے۔ نمونہ کلام ملاحظہ کیجیے :

جگ بھایا چھوڑ کر، ہوں تج جوگن ہوں

باج پیاری ہے سکھی، ایکو جگ نہ لیؤں

جے پیؤ سیج تونیند نہ لیں، جے پردیس تو یوں

برہ برودھی کامنی، ناسکھ یوں نہ یوں

 

جدھر دیکھوں ہے سکھی، دیکھوں اور نکوئے

دیکھا بوجھ بچار منھ، سبھی آپیں سوئے

 

رینی کیوں ناچوں سکھی، جو پیہہ رنگ چڑھایا

تن من جیہ سبہہ ایک رنگ دیکھا تو میں آپ گنوایا(۴۹)

یہ دوہے اسی زبان میں ہیں، جس پر گجراتی، برج بھاشا، پنجابی، بھوجپوری اور راجستھانی کے اثرات ہیں۔ لیکن دوہوں کے مزاج سے معمولی نسبت رکھنے والے بھی ان کوسمجھ لیتے ہیں۔

 

 

 

 

شاہ علی محمد جیوگام دھنی

۹۷۳ھ/۱۵۶۵ء)

 

آپ کا مولد گجرات اور ولدیت شاہ ابراہیم ہے۔ آپ کا مزار احمدآباد میں آج بھی مرجع خلائق ہے۔ آپ کا کلام پہلی مرتبہ ابوالحسن ابن عبدالرحمن قریشی الاحمدی نے مرتب کر کے ’’جواہرِ اسراراللہ‘‘ عنوان دیا۔ دوسری مرتبہ ان کے پوتے سید ابراہیم ابن شاہ مصطفی نے اسے مرتب کیا اور دیباچہ بھی لکھا۔ ابوالحسن آپ کے مرید تھے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی جیوگام دھنی کے فن پریوں رقم طراز ہیں :

’’گام دھنی بہت مشکل پسند شاعر ہیں اور ہر بات کو صرف اشاروں میں بیان کرنے کی وجہ سے ان کے کلام میں ابہام نمایاں ہو گیا ہے۔ سارا کلام وارداتِ قلبی، عرفانِ ذات کے مسائل اور صوفیانہ تجربات میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہ مسائل تصوف کو طرح طرح سے پیش کرتے ہیں۔ کبھی تمثیل سے واضح کرتے ہیں اورکبھی قصہ کہانی کے ذریعے۔ ‘‘(۵۰)

جیوگامی دھنی کی شاعری کا مجموعی مزاج توہندوی ہے مگر اس پرفارسی اثرات بھی مرتسم ہوئے ہیں۔ بحور اور اوزان کے معاملے میں بھی وہ ایک جست بڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مزاج کی ہمہ رنگیوں اور فکر کی بوقلمونیوں کے حوالے سے حافظ شیرانی کا یہ فرمودہ بہت اہم ہے :

’’معلوم ہوتا ہے کہ وہ[جیوگام دھنی] صفات سے گزر کر عینِ ذات میں محو ہیں۔ قلب پر  وصالی کیفیت طاری ہے۔ بشر، شجر، قمر، پھول، کلی، غنچہ غرض تمام مظاہرِ قدرت میں محبوبِ حقیقی جلوہ نما ہے اور یہ اس کے نشۂ محبت سے سرشار ہیں۔ اس سے رنگ رلیاں کرتے ہیں اور محظوظ ہوتے ہیں۔ کبھی مجنوں بنتے ہیں، کبھی لیلیٰ، کبھی شیریں، کبھی خسرو، کبھی دولھا ہیں اور کبھی دلھن۔ محبوب ان کا بھیس بھرتا ہے اور یہ محبوب کا بہروپ اختیار کرتے ہیں۔ وہ ان پر ناز کرتا ہے اور یہ اُس پر ناز کرتے ہیں۔ رنگ اڑاتے ہیں اور ہولی کھیلتے ہیں۔ مختصر یہ کہ وہ اپنی محبت میں مگن ہیں۔ ‘‘(۵۱)

کلام کا نمونہ ملاحظہ کیجیے :

اتنی بات نبوجھی لوگاں، آپ نبھاتا کری سو کوئے

علم قدرت جس تھورا ہووے، کی مجبوری بچارا ہوئے

 

جمال جمال کھل بھل جاسی، جلال جلال مل ایکچ تھاسی

جے جس صفت دو مالی ہووے، وہی صفت اُس ذات ملاسی

دوئی وجود کوں موجود ہونا، یہ تو بات محال ہے لوکا

ایک حقیقت ہے گی آہے، جان نمانوں کا ہے بھوکا(۵۲)

ان دوہوں کی زبانی پر پنجابی کے اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں۔ بعض مقامات پر ملتانی اور کھڑی بولی کے نشانات بھی روشن ہیں۔ ان دوہوں کو دیکھیے :

جنھیں پریم نہ چاکھیا، سو کیا بوجھے ساؤ

راون کپڑا بوٹری، یوں اساں نہیں راؤ

 

جاتی لکڑی میہ کرے، بھلے اسے بھراؤ

یہ سب نقطے دیکھیے، بھیس کنڈلی بھاؤ

 

جیسے سہاگ سو پیو سون سے ساک نبھائے

دب لگ توں دے ماکنی، جب لگ پیونتھائے (۵۳)

آخرالذکر کی زبان موجودہ اُردو کے قریب ہے۔ اس لیے یہ دوہے زیادہ آسانی سے قاری پر کھلتے ہیں۔ مجموعی طور پر ان کے کلام کو ’ھمہ اوست‘ کے فلسفے کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے اوراسی تناظر میں سمجھا جاتا ہے۔ صوفیہ اورسالکین کا یہ مخصوص انداز ہندوی یا اُردو شاعری کا کلیدی موضوع رہا ہے۔

 

 

 

 

شاہ برہان الدین جانم

(۱۵۴۳ء…۱۵۹۰ء)

 

آپ حضرت شاہ میراں جی کے فرزند اور علوم و ظاہری و باطنی میں اپنے والد کے شاگرد اور خلیفہ تھے۔ آپ کا سن وفات۱۵۸۲ء ہے۔ دکنی اُردو میں آپ کی متعدد منظوم تصانیف ہیں۔ ان میں سے ’’وصیت الہادی‘‘، ’’سکھ سہیلا‘‘ اور ’’منفعت الایمان‘‘ قابل ذکر ہیں۔ نثر میں بھی ایک رسالہ ’’کلمۃ الحقائق‘‘ ملتا ہے۔ (۵۴) ڈاکٹر جمیل جالبی اسی سن وفات پر اصرار کرتے ہیں، جب کہ ڈاکٹر محی الدین زور قادری نے سن ولادت بھی دیا اورسن وفات بھی۔ ان کے مطابق جانم کا سن پیدائش ۱۵۴۳ء اور سن وفات ۱۵۹۰ء ہے۔ (۵۵)

جانم کی شخصیت ہمہ جہت ہے۔ اپنی تخلیقات میں انھوں نے جہاں راگ راگنیوں کو متصل کیا، وہاں انھوں نے پنگل کے چھندوں اور دوہا کے مخصوص اوزان اور مزاج کو خوب برتا۔ جانم کی متنوع شخصیت کے پیش نظر ڈاکٹر جمیل جالبی نے ان کی خدمات کا یوں اعتراف کیا ہے :

’’جانم کی دو خدمات قابلِ ذکر ہیں : ایک تو یہ کہ انھوں نے تصوف کے فلسفۂ وجود کو مرتب کر کے اُسے ایک باقاعدہ شکل دی اور آب و آتش اور خاک و باد کے تعلق سے وجود کا مطالعہ کر کے اُسے چار مدارج واجب الوجود، ممکن الوجود، ممتنع الوجود اور عارف الوجود مقر ر کیے۔ دوسری یہ کہ تصوف و اخلاق اور شریعت و طریقت کو اپنی تصانیفِ نظم و نثر کے ذریعے پیش کیا۔ ان دوہری خدمات نے برہان الدین جانم کی شخصیت کو اہم بنا دیا۔ مختلف نظموں کے علاوہ انھوں نے دو نثری تصانیف بھی یادگار چھوڑیں۔ راگ راگنیوں کے مطابق گیت بھی ترتیب دیے اور دوہرے بھی لکھے۔ ‘‘(۵۶)

جانم کی زبان پر گجری کے اثرات واضح ہیں۔ اپنی کتاب ’’کلمۃ الحقائق‘‘ میں وہ اس کی یوں وضاحت کرتے ہیں :

’’سبب یو زبان گجری نام ایں کتاب کلمۃ الحقائق خلاصۂ بیان و تجلی عیاں روشن شود۔ ‘‘ ’’حجۃ البقا‘‘ میں طالب و مرشد کے قصے میں یہ اشعار ملتے ہیں :

سن اس کا سوال جواب    کچھ بولوں دیکھ صواب

جے ہویں گیان پجاری    نہ دیکھیں بھاکا گُجری

اسی طرح ’’ارشاد نامہ‘‘ کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے :

یہ سب گُجری کیا زبان    کر یہ آئینہ دیا نمان

جانم کی ان نظموں کے علاوہ ان کے دوہے، گیت اور غزلیں بھی ملتی ہیں۔ دوہوں کے نمونے دیکھیے :

سوکھ کا سرور چھوڑ کر، سکھی ڈاپڑ پھرتیں ہاں

کریں میلاوا سمدر سیتیں، جے موتیوں لاکے کھان

 

جب لگ تن نہیں چھوڑیا، جیوں کوں تب لگ ہونا دور

جب لگ نظر نیں چھوڑے، آنکھ کوں تب لگ ہونا نور(۵۷)

 

جب لگ سپنا نہیں چھوڑیا، کان کوں یو سب اعضا حال

جب لگ فہم نیں چھوڑیا، دل کوں بوجھت ہو نرال

یوں سب تن میں من برتن دیکھ، پھوڑیں اے سوکھ دوکھ

دوکھ سوکھ یک کرسی تو، پاوے سہج کا سوکھ(۵۸)

جانم کا ایک خاص اُسلوب ہے جو نظم و نثر میں یکساں منعکس ہوتا ہے۔ ان کے کلام میں گجری کے اثرات تو ہیں ہی پنجابی اور کہیں کہیں فارسی اور عربی کا اثر بھی چھلکتا ہے۔

 

 

 

 

شاہ حسین

(۹۴۵ھ…۱۰۰۸ھ یا۱۵۳۹…۱۵۹۹ء )

 

شاہ حسین ممتاز صوفی، مجذوب اور پنجابی زبان کے عظیم شاعر تھے۔ تذکرہ نویسوں نے انھیں اپنے تذکروں میں لال حسین، شاہ حسین اور مادھو لال حسین لکھا ہے۔ وہ شیخ عثمان کے ہاں ٹکسالی دروازہ لاہور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم ٹکسالی دروازہ لاہور کی مسجد میں مولوی ابوبکرسے حاصل کی۔ وہیں شیخ بہلول دریائی کی دعا سے ان کا حافظہ تیز ہو گیا۔ چنانچہ بارہ سال کی عمر میں قرآن شریف حفظ کر لیا۔ ۳۶ سال کی عمر میں لاہور کے ممتاز عالم شیخ سعدی سے تفسیرمدارک پڑھی۔ اس دوران[میں ] ان پر ایک مجذوبی کیفیت طاری ہو گئی۔ چنانچہ داڑھی مونچھ منڈوا کر ناچنے اور گانے والی ٹولیوں کے ساتھ جانا شروع کر دیا۔ عمر کا آخری حصہ جذب وسکر کی حالت میں بسر کیا۔ ان کا تعلق فقیروں کے فرقے ملامتیہ میں سے تھا۔ ان سے بہت سی کرامات بھی منسوب ہیں۔ ان کی کرامت دیکھ کر ایک برہمن لڑکا مادھو لال عقیدت مند بن گیا۔ اسی لڑکے کے نام کی نسبت سے مادھو لال حسین کہلاتے ہیں۔ ان کے کلام میں کافیاں ملتی ہیں۔ ان کافیوں میں انھوں نے راگ اور راگنیوں کو بھی استعمال کیا ہے۔ ان کی شاعری مٹھاس، ولولے، راگ، تصوف اور روحانیت سے بھر پور ہے۔ انھوں نے لاہور میں وفات پائی اور باغبانپورہ میں دفن ہوئے۔ جہاں ہرسال مارچ کے آخری اتوار کو میلہ لگتا ہے، جسے میلہ چراغاں کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ (۵۹)

شاہ حسین ’کافی‘ کے موجد خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں سوز و گداز، نغمگی و تازگی کے اثرات نمایاں ہیں۔ ان کے کلام میں تصوف، عشق، روایات و اقدار سمیت دوستی اور دشمنی کے مضامین ملتے ہیں۔ ان کی زبان پراُس زمانے کی رائج اُردو کے اثرات ہیں۔ دوہے کی فضا میں ’کافی‘ کے یہ ابیات ملاحظہ کیجیے :

اَپے مارے تے اَپے جیواے، عزرائیل بہانا

کہے حسین فقیر سائیں دا، بن مصلحت اُٹھ جانا

 

جہاں ویکھوں تہاں کپٹ ہے، کہوں نہ پیو چین

دغا باز سنسار تے، گوشہ پکڑ حسین

من چاہے محبوب کو، تن چاہے سُکھ چین

دوئے راجے کی سیدھ میں، کیسے بنے حسین

 

جگ میں جیون تھوڑا، کون کرے جنجال

کیندے گھوڑے ہستی مندر، کیندا ہے دھن مال(۶۰)

اس کلام پر پنجابی کا رنگ غالب ہے، یوں کہنا چاہیے پنجابی میں گوندھ کر لکھا گیا ہے۔ البتہ اُن کے زمانے میں اور اُس سے بھی پہلے ایسے رنگ میں ہندوی لکھی جاتی رہی ہے۔

 

 

 

 

 

میاں خوب محمد چشتی

۱۶۱۴ء)

 

خوب محمد چشتی گجرات کے بزرگ تھے۔ وہ کمال محمد سیتانی کے مرید تھے۔ اور فارسی زبان کے جید عالم بھی۔ اُن کا ایک رسالہ ’’چھند چھنداں ‘‘ ہندوی اور فارسی عروض پر مشتمل ہے۔ جواس بات کا شاہد ہے کہ وہ دونوں زبانوں پر کامل مہارت رکھتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ ان کی مماثلتیں اور یکجائیاں بھی چاہتے تھے۔ یہ رسالہ طالب علموں کی تربیت کے لیے تھا۔ اس کے ذریعے وہ فارسی عروض سکھانے کے متمنی تھے۔ اس غرض کے لیے انھوں نے اسے منظوم شکل عطا کی، تاکہ یادداشت میں محفوظ رہے۔

۱۵۷۸ء میں انھوں نے اُردو مثنوی ’’خوب ترنگ‘‘ تصنیف کی۔ چودہ سال بعد یعنی ۱۵۹۱ء کو اس مثنوی کی فارسی زبان میں ’’امواجِ خوبی‘‘ کے نام سے شرح لکھی۔ صاحبِ تحفۃ الکرام، ’’امواجِ خوبی‘‘ کی پذیرائی اور میاں صاحب کا بیان ان الفاظ میں کرتے ہیں :

’’میاں خوب محمد چشتی درویشِ کامل و صاحبِ لسان و صاحبِ سخن بودند۔ در تصوف دستِ رسا داشتہ وبر ’جامِ جہاں نما‘ شرح نوشتہ۔ امواجِ خوبی و خوب ترنگ نیز ایشاں یاد گار مشہور و معروف است… تاریخ وصال ’خوب تھے ‘ گفتہ است۔ ‘‘(۶۱)

اس رائے سے خوب محمد چشتی کا علمی مقام و مرتبہ بہ خوبی ظاہر ہوتا ہے۔ انھوں نے اس مثنوی میں عالمانہ انداز سے علمی بحثیں کی ہیں، جو تصوف کی گرہ کشائی میں ممد و معاون ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی یہ رائے اہمیت سے خالی نہیں :

’’اس میں اصطلاحات کی کثرت نظر آتی ہے، یہاں قدرتِ بیان کا احساس تو ہوتا ہے، یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کی نظر علمِ تصوف پر نہ صرف گہری ہے، بلکہ وہ اس پر عملاً ماہرانہ قدرت بھی رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ عشق کی آگ، سوز و ساز کی کیفیت اور احساس کی گرمی کے ٹھنڈا پڑ جانے کا بھی احساس ہوتا ہے۔ ‘‘(۶۲)

دوہوں پر مشتمل ان کا نمونہ کلام ملاحظہ کیجیے جو ’’چھند چھنداں ‘‘ میں عروض کے بیان کی شروعات کے مقام پر ہے :

پنگل گن شبہ کہہ رہیا، اب عروض گت آکھ

مصرعے خوب انیس کے، جدی جدی بدھ باکھ

 

خوبؔ اصل جز آٹھ ہیں، ان کی بکٹ بچھان

دوئی خماسی، تین سہن، چھ کو سباعی جان (۶۳)

تصوف کے باب میں ’’خوب ترنگ‘‘ کے یہ ابیات دیکھیے :

پانی میں مکھ دیکھت بار     بج داڈھی یوں دیا قرار

ہوں رہا مسجد مانہ سوئے     یہ منجھ یسرا تیں ہے کوئے

کوئی قلندر ہے جنہ تانہ     بھولا آیا میری تھانہ

جاؤں ڈھونڈ منجھے لے آؤں        واہ ہمیں ہوں، منجھ کیوں پاؤں

پھر آئے مسجد کے دوار ہاکاں ماریں بہت پکار(۶۴)

ہو ہوں، ہوہوں کہ چیلاویں       رہے ہوں ھب ھونکوں کیوں پاویں

تصوف کی باریکیاں سمجھانے کے لیے خوب محمد چشتی کا یہ رنگ خوب ہے۔

 

 

 

 

کیشو داس

( ۱۵۵۲ء…۱۷۸۴ء)

 

آپ کے والد کا نام کاشی ناتھ اور وطن چھا(بندیل کھنڈ) ہے۔ بھاشا کے مسلم الثبوت استادوں میں بہ قول مصنف ’’نورتن‘‘ تلسی داس اور سورداس کے بعد کیشو  کا درجہ ہے۔ بہ قول صاحبِ ہندی شاعری ’’جذبات کے لحاظ سے تلسی اور کیشو دونوں برابر ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تلسی بھگت تھے اور یہ صرف شاعر۔ تلسی میں آمد ہے تو ان کے کلام میں آورد۔ کیشو کا کلام سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کلام میں بلاغت اور اغلاق اس قدر ہے کہ اس کو عام فہم کیا خاص فہم بھی نہیں کہہ سکتے۔ ‘‘

آپ کی تصانیف میں ’’کوی پریا‘‘، ’’رام چندرکا‘‘، ’’نورس برتن‘‘ اور ’’ بگیان گیتا‘‘ زیادہ مشہور ہیں۔ نمونہ کلام ملاحظہ کیجیے :

کیشو کیس اس کری، جس اری ہوں نہ کرہیں

چندر بدن مرگ لوچنی، ’’بابا‘‘ کہ کہ جائیں

(ہندی شاعری، ص۴۶)

 

 

 

 

عبدالرحیم خانِ خاناں

(۱۵۵۶ء…۱۶۲۶ء)

 

آپ خانِ خاناں بیرم خان کے بیٹے تھے۔ والد کے قتل کے بعد پانچ سال کی عمر میں اکبر اعظم نے اپنے پاس بلا لیا۔ محلاتِ شاہی میں تربیت پائی۔ بہ حیثیت سالار متعدد بغاوتوں کو فرو کیا۔ خانِ خاناں کے خطاب سے سرفراز ہو کر ہفت ہزاری منصب پایا۔ آپ اکبر کے نورتنوں میں بھی شامل ہوئے۔ شاعر ہونے کے علاوہ نقاد اور عالم تھے۔ فارسی اور ترکی گھر کی زبانیں تھیں۔انھوں نے عربی میں بھی استطاعت پیدا کی اور سنسکرت بھی سیکھی۔ ’’تزکِ بابری‘‘ کا ’’واقعاتِ بابری‘‘ کے نام سے فارسی میں ترجمہ کیا۔ ان سے غزلیات و رباعیات یاد گار ہیں۔ (۶۵) ڈاکٹر اعظم کُریوی نے ’’ہندی شاعری‘‘ میں آپ کاسن ولادت ۱۵۵۳ء لکھا ہے۔

رحیم ہندی کے عالم فاضل تھے۔ ان کے دوہوں کا مجموعہ ’’رحیم ست سئی‘‘ ہے جسے بابو پرشاد بلند شہری نے اُردو میں ڈھال دیا ہے۔ اس کے علاوہ ’’بروئے نائیکہ بھید‘‘، ’’ رس پنچا دھیائی‘‘ اور ’’سنگارسورٹھا‘‘ بھی آپ کی تصانیف ہیں۔ وہ دوہوں میں ’’رحیمن‘‘ نام اختیار کرتے تھے۔ ان کی دوہا نگاری کے بارے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا یہ بیان توجہ سے خالی نہ ہو گا:

’’جس چیز نے انھیں ہندی اَدب میں زندہ جاوید بنا دیا، وہ ان کے دوہے ہیں۔ جن میں عاشقانہ و عارفانہ اور اخلاقی مضامین کو نہایت دلکش پیرائے میں نظم کیا گیا ہے۔ ‘‘(۶۶)

ان کے دوہے ملاحظہ کیجیے :

کام نہ کاھو آؤی ، مول نہ کوؤ لیئے

بازو ٹوٹے باز کو، صاحب چارہ دئیے

 

کھیر خون کھانسی خوسی بیر پریت مدھو پان

رحیمن داب نا دبے جانت نکل جہان

 

مکتا کر کر چانک ترش ہر سوئے

ایتو بڑو رحیم جل کو تھل پرے بس ہوئے

بگڑی بات بنے نہیں، لاکھ کرو کن کوئے

رحیمن بگرے دودھ کو متھے نہ ماکھن کوئے

 

رحیمن نیچ سنگ سوں لگ کلنک نہ کاھی

دودھ کلاری کر کہے مدھی کہے سب کاھی

(ہندی شاعری … ص۱۳۸، ۱۳۹، ۱۴۱، ۱۴۷)

یہ تمام دوہے روایتی موضوعات پر ہیں۔ ان کا رَس جَس بھی وہی ہے جو باقی دوہا نگاروں کے یہاں ملتا ہے۔

 

 

 

 

ملا اسد وجہی

(۱۵۸۰ء…۱۶۱۱ء)

 

قطب شاہی دربار کے مشہور شاعر تھے اور حیدرآباد کے پہلے ملک الشعرا  کا خطاب پانے والے بھی۔ دکھنی اُردو میں ان کی پہلی مثنوی ’’قطب مشتری‘‘ (۱۶۰۹ء) ہے جو شاعرانہ تخیل اور حسنِ بیان کی مثال ہے۔ لیکن انھیں زیادہ شہرت داستان ’’سب رس‘‘ کی وجہ سے نصیب ہوئی۔ یہ داستان قدیم اُردو کا بہترین نمونہ ہے۔ وجہی نے تصوف پربھی ایک کتاب ’’تاج الحقائق‘‘ دکھنی نثر میں لکھی ہے۔ (۶۷)وہ ’وجیہی‘، ’وجہیہ ‘اور ’وجہی‘ تخلص کرتے تھے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے تخلص کی اس تبدیلی کو کتابت کا بدلتا ہوا انداز قرار دیا ہے۔ وجہی نے ’’سب رس‘‘ میں مختلف شعرا کے دوہے نقل کیے ہیں۔ یہاں دو دوہے ملاحظہ ہوں :

پوتی تھی کو کھوٹی بھئی، پنڈت بھیا نہ کوئے

ایکھی اچھر پریم کا، پھیرے سو پنڈت ہوئے

 

پنکھا ہو کر میں ڈلی، ساتی تیرا چاؤ

منج جلتی جنم گیا، تیرے لکھن باؤ(۶۸)

یہ دوہے مختلف تذکروں میں بار بار مذکور ہوئے۔ وجہی کی ’’ قطب مشتری‘‘ سے ان کا یہ نمونۂ کلام دیکھیے :

رتن تھے سو تن پر انگارے ہوئے    کہ مُکھ چاند انجھو سو تارے ہوئے

دو بادام تھے اس چنچل نار کے       لگے دانے جھڑنے سو آنار کے

 

عجب ایک اس وقت پر مرد تھا      ہنر وند، عاقل، جہاں گرد تھا

کدھیں روم میں تھا، کدھیں شام میں      کہ اُستاد تھا وو ہر ایک کام میں (۶۹)

یہ زبان ہماری آج کی اُردو سے بڑی حد تک مماثل ہے۔ عربی وفارسی کے الفاظ کی موجودگی اسے ہمارے لیے مانوس بناتی ہے اورسمجھنے میں ممد و معاون بھی۔

 

 

 

 

ملک محمد جائسی

(۱۴۹۳ء…۱۵۴۲)

 

ملک محمد جائسی صوفیہ کے اُس طبقے میں شمار کیے جاتے ہیں، جس نے بھگتی تحریک کے توڑ کے لیے اسلامی رنگِ تصوف کا پرچار کیا۔ اس غرض کے لیے انھوں نے ہندی زبان اور دوہے کو شعار کیا۔ ان کے لیے ابلاغ کا یہ ذریعہ اُس وقت کی ضرورت کے عین مطابق تھا۔ ان کی زبان کے حوالے سے عرش صدیقی کی یہ رائے بہت اہم ہے :

’’ تلسی داس سے پہلے ایک مسلمان شاعر ملک محمد جائسی نے برج بھاشا میں اعلیٰ شاعری کی۔ اس نے شعوری طور پر کوشش کی کہ فارسی اور عربی الفاظ استعمال نہ کرے۔ لیکن ساتھ ہی وہ سنسکرت کی ادق اور ناموس لغت سے محفوظ رہنے کی بھی کوشش کرتا رہا۔ ‘‘(۷۰)

آگے چل کر کہتے ہیں ـ: ’’تلسی داس اور ملک محمد جائسی دونوں نے مشکل زبان بھی اور عوامی زبان بھی استعمال کی ہے۔ جائسی کی ’’ پدماوت‘‘ اور تلسی کی ’’رام چرت مانس‘‘ میں بھی دوہا چھند کا استعمال ہوا ہے اور ان سے باہر بھی۔ ‘‘(۷۱)

جائسی کی دو تصانیف ’’پدماوتی ‘‘(یا پدماوت) اور ’’اکھراوتی‘‘ مشہور ہیں۔ اول الذکر۱۵۴۰ء میں لکھی گئی اور اسی کو زیادہ شہرت ملی۔ یہ ایک تمثیلی داستان ہے، رتن سین اور پدماوتی اس کے مرکزی کردار ہیں۔ اگرچہ اس تصنیف کی ہیئت مثنوی کی ہے مگر ہر عنوان کا آخری شعر دوہے کی بحر میں لکھا گیا ہے۔ یہ مثال دیکھیے :

بڑنی بان اُس اولین، بیدھ رن بن ڈھاکھ

سوجا ہن تن سب روواں، پنکھی سب تن پانکھ(۷۲)

 

پی سوں کہیو سندیسوا، ہے بھونرا ہے گاگ

سودھن برھے جرموئی، جیہک دھواں ہم لاگ

(پدماوت…ہندی شاعری…ص ۹۷)

یہاں یہ بات اہم ہے کہ اُن کے پیشِ نظر نہ تو نری شاعرانہ اُپج کی ترویج تھی اور نہ ہی صنفِ دوہا سے مدعا۔ ان کا مقصد بھی وہی تھا جو بھگتیوں کا تھا۔ اسی کے حصول کے لیے انھوں نے عوامی زبان کو قرینہ بنایا۔

 

 

 

 

میرا بائی جی

(۱۴۹۱ء …۱۵۴۶ء)

 

راجا رتن سنگھ راٹھور کی بیٹی تھیں۔ رانا سانگا والیِ چتوڑ کے بیٹے بھوج راج سے ۱۵۱۶ء میں بیاہی گئیں۔ ان کی زندگی بہت تلخ گزری ، کیوں کہ میاں بیوی میں مذہبی اختلاف رہا۔ بھوج راج درگا دیوی کا بھگت تھا۔ میرا بائی کرشن جی کی عقیدت مند تھیں۔ بھوج راج کے مرنے پر میرا بائی نے دُنیا تیاگ دی اور تیرتھ یاترا کے لیے نکل پڑیں۔ دوارکا جی میں ان کا انتقال ہوا۔ گرو گرنتھ صاحب کے قلمی نسخوں میں ان کے نام سے ایک شبد راگ مارویں بھی درج ہے۔ (۷۳) مارگریٹ میکنیکل نے میرا بائی کے بارے میں یہ رائے ظاہر کی: ’’میرا بائی سب سے مشہور شاعرہ ہے۔ وہ ہندی اور گجراتی زبانوں میں شعر کہتی تھی۔ ‘‘(۷۴)

ڈاکٹر اعظم کُریوی نے ’’ہندی شاعری ‘‘ میں ان کاسن ولادت نہیں دیا البتہ سن وفات ۱۶۳۳ء دیا ہے۔

میرا بائی کا نمونہ کلام دیکھیے :

دھان نہ بھاوے، نیند نہ آوے، برہ ستائے موئے

گھائل سی گھومت پھروں رے، میرا درد نہ جانے کوئے

 

جو میں ایسا جانتی اے، پریت کیے دُکھ ہوئے

نگر ڈھنڈھرورا پھیرتی رے، پریت کرو مت کوئے

 

کاگا سب تن کھائیو، چن چن کھائیو مانس

دو نیناں مت کھائیو، پریہ درشن کی آس

(ہندی شاعری…ص۱۱۸، ۱۱۷)

یہ دوہے ہجر و فراق اور محبت کی اذیت ناکیوں کے شاہد ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے میرا بائی جی کی پوری زندگی ان دوہوں میں سمٹ آئی ہے۔ لیکن یہ میرا بائی کا عمومی موضوع نہیں ہے۔ اس کی گواہی عرش صدیقی یوں دیتے ہیں ـ:

’’جس طرح ہماری غزل ایک عرصہ تک عورت کے لیے مرد کی ہوس کے اظہار کا ذریعہ بنی رہی ہے۔ اسی طرح مردوں نے دوہے کی صنف کا استعمال بھی اس مقصد کے لیے صدیوں تک جاری رکھا۔ سہجوبائی اور میرابائی نے دوہے کواس زہر سے پاک کیا اور بہت سے مرد شاعروں کی طرح دوہے کو رفعت اور وقار کا مقام دیا۔ ‘‘(۷۵)

عرش صدیقی صاحب کا یہ بیان میرا بائی جی کی شخصیت اور فن کا واضح اعتراف اور انھیں خراج ہے۔

 

 

 

 

سورداس

(۱۴۸۳…۱۵۶۳ء)

 

آپ شہنشاہِ اکبر کے زمانے کے نام وَر اور بلند مرتبہ شاعر ہیں۔ آپ کے  دو مجموعے  ’’سوراولی‘‘  اور  ’’سورساگر‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ ’’ بھگت سور داس ۱۴۸۴ء میں دلی کے قریب سیہی قصبہ کے ایک غریب برہمن خاندان میں پیدا ہوئے۔ ابتدا میں ان کا نام شورچند تھا لیکن آخر میں یہی ’’شور‘‘ … ’’سور‘‘ بن کر کور باطنوں کے لیے شمع ہدایت ثابت ہوا۔ وہ سن شعور تک پہنچتے پہنچتے نابینا ہو گئے تھے۔ اور سری کرشن جی کے مخلص پجاریوں میں سے تھے۔ ان کا کلام برج بھاشا میں ہے۔ مصنف ہندی ’’نورتن‘‘ نے ان کو ہندی شاعری میں دوسرا نمبر دیا ہے۔ فطرت نگارتلسی کا نمبر اول ہے۔ بہ قول منشی منظور الحق اعظم گڑھی، ہندی شاعری میں بھگت سورداس کا وہی مرتبہ ہے جو اُردو میں میر تقی میر کو نصیب ہے۔

( ’’ہندی شاعری‘‘ ص ۶۲)

ان کی قادرالکلامی کے باب میں علامہ نیاز فتح پوری کا یہ بیان قابلِ غور ہے :

’’سورداس کا مرتبۂ شاعری بہت بلند ہے اوراس کا کلام ایک خاص کیفیت کا حامل ہے۔ اس کا تمام کلام پچھتر ہزار دوہوں پر مشتمل ہے۔ سورداس کا انداز بیان، سوزوگداز، تشبیہات اور استعارات کے لحاظ سے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ‘‘(۷۶)

سورداس کا کلام ہندی روایت کا اسیر نہیں رہا، بلکہ اس نے ایک جست بھر کر عربی و فارسی سے ہم کلامی کی۔ یہی روش اس کلام کو اپنے عہد کے دوسرے لوگوں سے ہم آہنگ کرتی ہے۔ بہ قول عرش صدیقی ’’سورداس نے مجموعی طور پر اپنے عہد کے اثرات کو زیادہ قبول کیا۔ اسی لیے اس کے ہاں عربی فارسی کے الفاظ بھی ملتے ہیں۔ سورداس کے اس رویے نے تخلیقی ادب کے لیے عوامی زبان کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ دور کر دی تھی۔ ‘‘(۷۷)

سور داس کے یہ دوہے ملاحظہ کیجیے :

 

پریم پریم تیں ہوئے، پریم تیں پر ہے جیئے

پریم بندھو سنسار پریم، پریم پر مارتھہ ھیئے

 

بانہہ چھڑائے جات ہو، نبل جان کے مونہہ

ہردے سوں جب جائی ہو، مرد بدوں گا تونہہ

(ہندی شاعری …ص ۱۶۰، ۱۱۴)

اک لوہا عبادت میں راکھت، اک گھربدھک پرو

سور بدھا پارس نہ جانت، کنچن کرت کھرو

جیو چکار کو دے کپور، کوتج اگار اکھات

مدھپ کرت گھر کور، کاٹھ میں بدھت کمل کے پات

 

کوکھت میں دے کے پاؤ بھر دھرو اک وار

کوکھت میں بادھ راکھو، کوسکے نروار

 

 

 

 

گرو نانک

(۱۴۶۹ء…۱۵۳۹ء)

 

آپ سکھ دھرم کے بانی مانے جاتے ہیں۔ رائے کی تلونڈی(حال ننکانہ، ضلع شیخوپورہ) کے ایک کھتری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام کلیان چند عرف کالی جی تھا۔ ہندی، سنسکرت اور فارسی کی تعلیم مختلف اساتذہ سے پائی۔ زندگی کا ابتدائی دور سلطان پور کے رئیس دولت خان لودھی کے پاس گزرا۔ گورداس پور کے ایک کھتری سری مول چند کی صاحب زادی سے شادی کی۔ دو بچے بھی ہوئے۔ ۱۴۹۷ء میں سب کچھ چھوڑ کر دو تین رفیقوں کے ساتھ سیر و سیاحت شروع کر دی۔ ۱۵۰۴ء میں راوی کے کنارے ایک آبادی کی بنیاد رکھی، جسے کرتار پور کہنے لگے۔ زندگی کے آخری دور میں گرو جی اسی جگہ مقیم ہو گئے تھے اور یہیں وفات پائی۔ اس مقام کو دربار صاحب کرتارپور  یا ڈیرہ بابا نانک کہتے ہیں۔ گرو جی کی تعلیم یہ تھی کہ خدا ایک ہے۔ وہ ہر شے کا خالق ہے۔ قادر مطلق اور علیم و خبیر ہے۔ اسی کی عبادت کرنی چاہیے اور نیک کاموں میں زندگی کرنی چاہیے۔ خدا کو پانے کے لیے مرشدِ کامل یعنی سچے گرو کی پیروی کرنی چاہیے۔ (۷۸)

گرو نانک در اصل کبیر کے پیرو کار تھے۔ بہ قول ڈاکٹر جمیل جالبی:

’’کبیر کی فکر نے گرو نانک کے فکر اور خیال کو جنم دیا جو رفتہ رفتہ ایک نئے مذہب کی شکل میں ڈھل گئی۔ گرو نانک نے کبیر کو اپنا پیشوا کہا ہے۔ ۱۴۹۶ء میں نانک کی کبیر سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔ ‘‘(۷۹)

گرو نانک اکثردوسرے کویوں کے گیت اور دوہے پڑھتے رہتے تھے۔ تاہم وہ خود بھی دوہا نگار تھے۔ البتہ ان کے دوہے پنجابی زبان میں زیادہ ہیں۔ برج بھاشا میں کہے گئے دوہوں پر بھی پنجابی کا رنگ غالب ہے۔ شیخ عبدالقدوس گنگوہی نے اپنے ایک خط میں گرو نانک کا یہ دوہا نقل کیا ہے :

مویو پیاس نانک لہو پانی

پیو سو رانڈ سہاگن نانوں (۸۰)

اس طرح کے غیر مقفیٰ دوہوں کا رواج برج بھاشا میں رہا ہے۔ درج بالا بیت دوہے کی معروف ہیئت کے مطابق نہیں ہے مگر اسے صاحبِ تاریخ اَدب اُردو نے دوہا لکھا۔ اس ہیئت کے دو مزید دوہے ملاحظہ کیجیے :

نانک دُنیا کیسی ہوئی

سالک مت نہ رھیو کوئی

 

بھائی بندھی ھیت چکایا

دُنیا کارن دین گنوایا(۸۱)

گرو نانک کے درج ذیل دوہے، دوہا چھند میں ہیں :

 

ھکم رجائی ساکھتی، درگہ سچ کبول

ساحب لیکھا منگسی، دُنیا دیکھ نہ بھول

دل دروانی جو کرے، درویسی دل راس

اِسک مہبت نان کا، لیکھا کرتے پاس(۸۲)

 

کرنی کابا سچ پیر، کلما کرم نواج

تسبیہ ساتس بھاوسی، نانک رکھے لاج(۸۳)

یہ تمام دوہے تزکیۂ نفس اور تربیتِ نفس کے باب میں ہیں۔ یقیناً گرو نانک ان سے یہی کام لینا چاہتے ہیں۔ ان کی زندگی میں ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی ان سے متاثر تھے۔ لیکن جب سکھ مذہب نے باقاعدہ صورت اختیار کر لی تو مسلمان رفتہ رفتہ دور ہوتے گئے، اُن پنتھیوں کی طرح جو کبیر کے ہم نوا ہوئے اور اُن کے بعد لوٹ گئے۔

ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی کتاب تاریخ اَدب اُردو کے صفحہ ۶۲۱ پر یہ دوہے نقل کیے ہیں ـ:

ساس ماس سب جیو تمھارا تو ہے کھرا پیارا

نانک ساعر ایہو کہت ہے، سچے پروردگارا

 

لمی لمی ندی وہے، کندھیں کیرے ہیت

بیڑےنوں کپر کیا کرے، جے پاتن رہے سچیت

 

کاگا چُونڈ نہ پنجرا، بسیں تا اُڈر جاہیں

جت پنجرا میرا سہہ د سے، ماس نہ تدو کھاہیں

 

 

 

 

تلسی داس

(۱۵۳۲ء …۱۶۲۳ء)

 

آپ ہندی کے شہرۂ آفاق شاعر ہیں اور ’’ رامائن‘‘ کا ترجمہ ہندی میں کیا۔ اب وہی ترجمہ ہندوؤں میں مروج ہے۔ زندگی کا بیشتر حصہ اکبر کے عہد میں گزارا۔ جہانگیر کے عہد میں بنارس میں وفات پائی۔ (۸۴)آپ کی تصانیف میں رام چتر مانس، گیتا ولی، دوہاولی وغیرہ شامل ہیں۔ اگرچہ آپ نے زیادہ تر رام جی کے بھجن لکھے، لیکن آپ کے دوہے بھی پڑھے جانے کے لائق ہیں۔ (۸۵)

ڈاکٹر اعظم کُریوی تلسی داس کی شخصیت اور فن کا اعتراف یوں کرتے ہیں : ’’ جس طرح سے بھگت سور داس کی شاعری نے عوام کوسری کرشن کا متوالا بنایا، اسی طرح فطرت نگار گو سائیں تلسی داس جی کی رامائن نے ہر ایک ہندو کو رام بھجن کی طرف مائل کیا۔ ‘‘ تلسی داس کی زندگی اورسن ولادت و سن وفات کی بابت یوں رقم طراز ہوتے ہیں :

’’افسوس ہے کہ اب تک ہندی رامائن کے شہرہ آفاق مصنف کے حالات زندگی تحقیقی طور سے دریافت نہیں ہو سکے۔ جو کچھ معلوم ہو سکا وہ یہ ہے کہ گوسائیں تلسی داس جی اندازاً سمبت ۱۵۵۳ء بکرمی اورسمبت ۱۵۸۹ء بکرمی کے درمیان راجہ پورہ(باندہ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے باپ کا نام ’’آتمارام دوبے ‘‘ماں کا نام ’’ھلسی‘‘ اور بی بی کا نام ’’رتناولی‘‘ تھا۔ ان کے گرو ’’نرھی داس‘‘ وشنو بیراگی تھے۔ اکثر لوگوں کو ان کی شادی میں شک ہے لیکن خود تلسی داس جی نے اپنی ’’بنے پترکا‘‘ نامی کتاب میں اپنی شادی کا ذکر کیا ہے۔ رتناولی سے ایک لڑکا ’’تارک ناتھ‘‘ بھی پیدا ہوا تھا جو لڑکپن میں گزر گیا۔ ‘‘

(ہندی شاعری،ص ۱۷)

تلسی داس کے دوہوں کا نمونہ دیکھیے :

جو منیا میں نہ کہے، میٹھی شکر کھائے

جو بکری میں میں کرے، سہج ہی ماری جائے

 

تلسی سیدھی چال سے، پیادہ ہوئے وزیر

فرزیں شاہ نہ ہو سکے، گت ٹیڑھی تاکھیر(۸۶)

سیدہ جعفر اور گیان چند دونوں نے زبان کی سلاست اور روانی کے سبب خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ دوہے تلسی داس کے نہیں ہو سکتے۔ (۸۷) ایک دوہا صاحبِ ’’اُردو کا عروض‘‘، پروفیسر حبیب اللہ خاں غضنفر نے بھی نقل کیا ہے، ملاحظہ ہو:

تلسی کبھی نہ تیاگیے، اپنے کل کی ریت

لائق ہی سے کیجیے، بیاہ، بیر اور پریت(۸۸)

ڈاکٹر اعظم کُریوی نے ہندی شاعری،ص ۱۴۷ پریہ دوہا نقل کیا ہے :

نیچ نچائی نہیں تجے، سجن ہو کے سنگ

تلسی چندن بٹپ بس، بن بش بھئے بھوانگ

انگریز مؤرخ ’’وِل ڈیورانٹ‘‘ لکھتا ہے : ’’ہندو اَدب کاسب سے بڑا شاعر تقریباً شیکسپئرکا ہم عصر تلسی داس ہے۔ اس کے والدین نے اسے صرف اس لیے چھوڑ دیا کہ وہ منحوس ستاروں میں پیدا ہوا تھا۔ ایک جنگل نشیں عارف نے اسے اپنا لیا اور رام کی داستان سکھائی۔ اس نے شادی کی مگر اپنے بیٹے کی وفات کے بعد باقی زندگی جنگلوں میں عزلت نشینی میں گزار دی۔ ‘‘ آگے چل کر یہ مؤرخ لکھتا ہے : ’’مقامی ہندوستانیوں کے لیے تلسی داس کی نظم [رامائن ]اخلاقیات والٰہیات کی انجیل کا درجہ رکھتی ہے۔ ‘‘

(ہندوستان، ص۲۲۰/۲۲۱، مترجم طیب رشید، تخلیقات، لاہور، ۲۰۱۲ء)

ان حوالوں سے تلسی داس کا مقام اور ادبی خدمات اچھی طرح واضح ہوتے ہیں۔

 

 

 

 

عبداللہ عبدی

(بہ عہد مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر)

 

آپ کی پیدائش ملکہ ہانس(ساہیوال) میں ہوئی۔ والد بزرگوار کا نام جان محمد تھا۔ محمد عبداللہ عبدی پنجابی زبان کے شاعر ہونے کے علاوہ مبلغ تھے۔ انھوں نے ساہیوال سے لاہور آ کر اسلام کی تبلیغ شروع کی اور ساری عمر اس کام کے ساتھ تصنیف و تالیف پر لگا دی۔ ان کی کتابوں کے نام یہ ہیں : تحفۃ الفقہ، نص الفرائض، خلاصہ معلومات، انواع العلوم، معرفت الٰہی، خیر العاشقین، فرائض شرح سراجی، خیرالمومنین، حصارالایمان، صیقل اول، دوم اور حمد و ثنا۔ عبداللہ کہیں عبدی، کہیں عبد اور کہیں عبداللہ تخلص کرتے تھے۔ آپ کی تحریروں پر عربی اورفارسی کا رنگ غالب ہے۔ پنجابی شاعر میاں محمد بخش آپ کے دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ عبدی کے دو بیٹے محمد نقی اور محمد تقی تھے۔ (۸۹)

صاحبِ ’’پنجاب میں اُردو‘‘ نے ان کا عہد جہانگیر سے شاہ جہاں تک بتایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’[محمد عبداللہ عبدی] جہاں گیر کے عہد سے شروع کر کے شاہ جہاں کے آخری ایام تک برابر چالیس سال تک تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔ شرعیات ان کا میدان ہے اور اس میں انھوں نے تمام عمر گزار دی۔ ان کی پہلی تصنیف ’’تحفہ‘‘ ۱۶۱۶/۱۰۲۵ھ میں اور آخری کتاب ’’خیر العاشقین‘‘ ۱۶۵۴ء/۱۰۶۵ھ میں ختم ہوئی۔ ‘‘(۹۰)

ان کے کلام کی زبان کے بارے میں جمیل جالبی لکھتے ہیں ’’جہاں علاقائی رنگ گہرا رہتا ہے، وہ پنجابی بن جاتا ہے اور جہاں وہ ملک گیر سطح پر اُٹھتے ہیں، وہاں ان کا رنگ و انداز قدیم اُردو کا ہو جاتا ہے۔ ‘‘(۹۱)برج بھاشا آمیز پنجابی دوہے ملاحظہ کیجیے :

ایہہ سائل کردا سوال اب، عتیں جے کریں آمد قبول

عشق محبت تیری آوے، غیروں طلب نہ مول

عشق رب دا ہتھ نہ آوے، کر کر تھکے زاری

جدھر کدھر دھکے مکے، تھیئے نال خواری

 

موت عبداللہ نیڑے آئی، ساعت گھڑی ٹھکانہ

جو فرمایا پاک منزّہ، عزرائیل دکھانا(۹۲)

 

پُچھ عبداللہ جوانی تائیں، کیا کچھ میرا حال

جو ہر خوبی میری آہی، کا نہ رہیا حال

 

ہور اُمید نہ کیجے کائی ، باجھ اُمید الٰہی

رب صاحب جس دُنیا خلقی، حد قدیمی آہی(۹۳)

سرسی چھند پنجابی میں خوب رواں رہتی ہے۔ یہاں بھی یہی بحر موجود ہے۔

 

 

 

 

مبارک

(پیدائش ۱۵۸۳ء)

 

آپ کا پورا نام سید مبارک علی بلگرامی ہے۔ آپ عربی، فارسی اور سنسکرت پر کامل دست گاہ رکھتے تھے۔ ہندی بھاشا میں آپ کی دو کتابیں ’’الک شنک‘‘ اور ’’تل شنک‘‘ ہیں۔ ان کتابوں کی خصوصیت یہ ہے کہ اول الذکر میں صرف زلف و گیسو کا بیان آیا ہے اور آخر الذکر میں ’’تل‘‘ کی تعریفیں ہوئی ہیں۔ نمونہ کلام ملاحظہ کیجیے:

الگ مبارک تے بدن لٹک، پڑی یوں صاف

خوش نویس منسی مدن لکھیو کانچ پر قاف

 

سب جگ پیرت تلن کو، تھکیو چت یہ ھیر

تو کپول کو ایک تل، سب جگ ڈاریو پیر

(ہندی شاعری،ص ۱۱۲، ۱۲۳)

 

 

 

 

بہاری لال

(۱۶۰۳ء…۱۶۶۳ء)

 

آپ گوالیار کے قریب گوبند پور میں پیدا ہوئے۔ راجہ جے سنگھ والیِ جے پور کے درباری شاعر تھے۔ سات سو دوہوں پر مشتمل ان کی کتاب ’’بہاری ست سئی‘‘ مشہور ہے۔ ان کے عمومی موضوعات سراپانگاری اور فطرت کی منظر کشی ہے۔ ڈاکٹر عظیم کریوی کے مطابق ’’بہاری نے ۱۶۶۳ء میں اپنی کتاب ’’ست سئی‘‘ ختم کی۔ جس کے صلہ میں مہاراجہ جے پور نے انھیں سات سواشرفیاں انعام میں دی تھیں۔ یہ بھی ہندی کے ’’نورتن‘‘ میں سے ہیں۔ ‘‘ البتہ بہاری کے حوالے سے صاحبِ دوہا ہزاری یوں رقم طراز ہیں :

’’بہاری داس، جس کی ست سئی ہندی کی نازک خیالی اور معنی آفریں دوہے کی شاعری کی بہترین مثال ہے۔ شہر جے پور کے بانی مہاراجہ جے سنگھ کا درباری شاعر تھا۔ اوراسے ہر دوہے پر مہاراجہ ایک اشرفی انعام دیتے تھے۔ لیکن وہ سات سودوہوں اور سورٹھوں سے زیادہ نہ کہہ سکا۔ ‘‘ (۹۴)

اس بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے، جیسے شاعر نے محض مہاراجہ کی خوشنودی یا پھر انعام کے لوبھ میں لکھا۔ جب ایسی فضا ہو تو یقیناً فن کی صورت گری تو موجود ہوتی ہے مگر جذبات نگاری معدوم ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر محمد حسن کی رائے اسی تناظر میں ہے :

’’نازک خیالی اور صنعت گری ان کی محبوب خصوصیات ہیں اور دوہوں جیسی مختصر صنف میں انھوں نے اسے خوب نبھایا ہے، لیکن ان کی شاعری فن کے کرتب دکھانے میں زیادہ لگی رہی اور اپنے من میں ڈوب کر لکھنے کی طرف زیادہ کاوش نہیں کی۔ اس لیے ان کے دوہوں کا ہر لفظ نپا تلا ہے اور کہیں کہیں یہ التزام شعر کو پہیلی بنا دیتا ہے۔ ‘‘(۹۵)

اس عالمانہ رائے کے تناظر میں بہاری داس کا نمونہ کلام ملاحظہ کیجیے :

سکھن، کنج، چھایا، سکھ، سیتل، مند، سمیر

من ہوئے جات اجوں، وہے واجنا کے تیر

 

ڈھیٹھی پروسہنی ایٹھ ہوئے، گہے جُورا ہے سیان

سبھے سندیسے کہی کہیو، مسکاہٹ میں مان

 

نئی برہ بڑھتی بتھا، کھری بکل جئے بال

بلکھی دیکھی پری سینو، ہرشی ہنسی تہی کال(۹۶)

 

ساجے موہن موہ کو، موھی کرت کو چین

کا کروں اُلٹے پڑے ٹونے لونے نین

 

کہت سے کوی کمل سے، مومت نین، پشان

نترک کت اِن بے لگت، اُجت برہ کرشان

 

سکھی سوہت گوپال کے، اُرگنجن کی مال

باہر لسیت منوپئے، داوا نل کی جوال

 

اب تج ناؤں اُپاؤ کو، آئے پارس ماس

کہل نہ رہو کھیم سوں، کیم کسم کی باس

(ہندی شاعری، ص۸۲، ۸۳، ۸۷، ۹۳)

بہاری کے دوہوں پر ڈاکٹر محمد حسن کی رائے بہت صائب معلوم ہوتی ہے۔ بہاری لال کا کلام اُردوداں طبقے میں قدر و پسند کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس پسندیدگی کا پس منظر بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر اعظم کریوی اپنے مضمون ’’بہاری … ہندی کا مشہور حسن نواز شاعر ‘‘ میں رقم طراز ہیں ـ:

’’ان کے کلام میں کہیں کہیں فارسی اور عربی کے الفاظ بھی آ گئے ہیں۔ کہ اس زمانے میں فارسی اور عربی کا استعمال ہندی میں معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بہاری کا کلام اُردو دُنیا میں زیادہ مقبول ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ان کے کلام میں کچھ کچھ اُردو کے نازک خیال شعرا کی جھلک پائی جاتی ہے۔ ‘‘(۹۷)

گویا ان کی پسندیدگی کا واحد سبب مانوس لفاظی نہیں بلکہ معنی آفرینی اور نازک خیالی بھی ہے۔ البتہ عرش صدیقی کا اس حوالے سے سخت مؤقف ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ میں بہاری سمیت دوسرے شعرا کے اس عاشقانہ کلام کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا جو حسن کے حوالے سے ہوس کا اظہار کرتا ہے۔ ہندی شاعری کا بڑا حصہ عاشقانہ ہے یا ناصحانہ یا معتقدات سے متعلق ہے۔ ‘‘ (۹۸) عرش صدیقی کی اس رائے سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ کیوں کہ دوہے کی ایک مخصوص فضا ہے۔ یا تواس میں تصوف اور مذہبی رنگ نمایاں ہو گا یا پھر دیہات کی مٹی کی سوندھی خوشبو میں لپٹی ہوئی ناریاں اور ان کاحسن بیان ہو گا۔ البتہ ہوس پرستی تو ہندی ہی کیا اُردو شاعری کی روایت میں بھی موجود ہے۔ انشاء و جرأت کے کلام سے اس کی بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔

 

 

 

 

شاہ امین الدین اعلیٰ

(۱۵۸۲ء…۱۶۷۵ء)

 

آپ دکن کی ان چند برگزیدہ ہستیوں میں شمار ہوتے ہیں، جن کا فیضان آج بھی جاری ہے۔ اعلیٰ اپنے والد برہان الدین جانم کی وفات سے کچھ ماہ بعد پیدا ہوئے، خوش دہاں سے تعلیم و تربیت پا کرمسندِ خلافت پر بیٹھے۔ ان سے بہت سی تصانیف یاد گار ہیں، جن میں سے ’’محب نامہ‘‘، ’’رموزالسالکین‘‘، ’’کلامِ اعلیٰ‘‘  اور ’’وجودیہ‘‘ منظوم ہیں۔ انھوں نے خیال، ریختہ، غزل، گیت اور دوہرے بھی کہے۔ ’’گفتارِ حضرت امین‘‘ اور ’’کلمۃ الاسرار‘‘ آپ کی نثری تصانیف ہیں۔

(تاریخ اَدب اُردو، جلد دوم، ص۳۰۸)

افسوس دوہوں پر مشتمل ان کلام دستیاب نہ ہو سکا۔

 

 

 

 

سندر داس

(۱۵۹۶ء…۱۶۸۱ء)

 

آپ کا مولد ’’ گھیوسا‘‘ ہے، جو جے پور کے قریب ہے۔ آپ اُسی لڑی میں سے ہیں جو گیان دھیان کی خوگر ہے۔ سندر داس سنسکرت زبان کے عالم ہونے کے علاوہ برج بھاشا پر قدرت رکھتے تھے۔ برج بھاشا کے شعرا میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ آپ سے پندرہ تصانیف ورسائل منسوب ہیں، جن میں سے ’’سندراولی‘‘ زیادہ مشہور ہے۔ اس تصنیف میں کبت، دوہے اور سویے ملتے ہیں۔ سندرداس کی زبان پر کھڑی بولی کی تاثیر نمایاں ہے۔ ان کے کلام پر ادبیت کا رنگ غالب ہے۔ یہ دوہا ملاحظہ کیجیے :

بید ہمارے رام جی، او شدھون ہرنام

سندر بہیے اپائے، اب سمرن آٹھو بام(۹۹)

 

 

 

 

متی رام

(۱۶۱۷ء…۱۶۹۴ء)

 

آپ قوم کے تیواری برہمن تھے۔ مولد تکوان ضلع کانپور ہے۔ آپ کے دو بھائی ’’چنتامن‘‘ اور  ’’بھوشن‘‘ ہندی کے نام ور شعرا میں شمار کیے جاتے ہیں۔ آپ کی تصانیف میں ’’للت رام‘‘، ہاتھ سار‘‘، ’’راس راج‘‘ اور ’’ چھند سارنیکل‘‘ شامل ہیں۔ ڈاکٹر اعظم کُریوی نے آپ کے حوالے سے یہ رائے رقم نقل کی ہے : ’’ برج بھاشا کا پورا پورا لطف اٹھانا ہو تو متی رام اور دیودت کی شاعری کا مطالعہ کیجیے، زبان کے لحاظ سے ان کا کلام بے عیب ہے۔ ‘‘

متی رام کا نمونہ کلام دیکھیے :

سکھیں کرت اُپچار اَت، پرت بپت اُت روج

جھرست اوج منوج کے، پرس اروج سروج

 

دھوں اور مکھ دھن کے، بدھ لوں کرت پرکاس

لاج اندھیاری دھن کی، کہوں نہ پاوت باس

 

پھولت کلی گلاب کی، سکھی یہ روپ لکھین

منو بلاوت مدھپ کو، دے چٹکی کی سین

 

پیتم کو من بھاوتی، ملت بانھہ دے کنٹھہ

بانھہ چھٹے نا کنٹھہ، تے نا ہیں چھٹے نہ کنٹھہ

(ہندی شاعری، ص۱۰۴، ۱۳۳، ۱۲۰، ۱۲۱)

 

 

 

 

رحمت

 

آپ کاسن ولادت وسن وفات تحقیق طلب ہے۔ آپ کا پورا نام سیدرحمت اللہ ہے اور قصبہ بلگرام کے رہنے والے تھے۔ شاہ زادہ شجاع ابن شاہ جہاں کے مداح اور مشہور ہندی شاعر چنتا من کے ہم عصر تھے۔ آپ کے دوہوں میں اُردو، فارسی کی طرح تشبیہات استعمال کی گئی ہیں۔ رحمت کا دوہا دیکھیے:

کراچال جمہائی تے، دھاری بھج یہ بھائے

منو چیلا دوئی چمک ہوئے، گری بھوم پرائے

(ہندی شاعری،ص ۱۱۰)

آپ سے ایک مثنوی ’’شیریں فرہاد‘‘ بھی منسوب ہے۔ اس مثنوی کی زبان پنجابی اور ہندی کے امتزاج سے بنی ہے۔ کہیں ہندی کا غلبہ ہے تو کہیں فارسی کا۔ ہر دس بارہ شعروں کے بعد ایک دوہرا ضرور لکھتے ہیں۔

(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا، جلد اول،ص ۶۶۱)

 

 

 

عبد الغفار غفاؔ

 

آپ کاسن ولادت بھی تحقیق طلب ہے۔ البتہ آپ کے ایک قلمی نسخے ’’جواہر الاسرار‘‘ کاسن تحریر۱۷۰۵ء ملتا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ سترہویں صدی میں پیدا ہوئے۔ اسی طرح آپ کی تاریخِ وفات کی تحقیق بھی ابھی باقی ہے۔ پروفیسر معین الدین دردائی نے یہ نسخہ ۱۹۳۷ء میں شائع کر دیا تھا۔ یہ ایک منظوم کتاب ہے، جس کا موضوع تصوف ہے۔ غفا نے اس تصنیف میں چوپائی اور دوہے کی بحور کو برتا ہے۔ نمونہ کلام ملاحظہ کیجیے :

آگ پڑے تن پیم کے، جُل جُل بوجھا جئیو

کہے غفاؔ تم آگ موں، دے جیو یاؤ

 

بھیجا پوتھی پریم کی، نانوں دھرا قرآن

مانک ماتھ سمائے کے، آپی مانجے آن

تن کا تانبا آگ موں، پانی کرے جو کوئے

ڈار سے بوئی پریم کی، تپ جائے کنچن ہوئے (۱۰۰)

ان تینوں دوہوں میں تصوف اور علم و عرفان کی رنگ آمیزی اور جلوہ آفرینی کارفرما دکھائی دیتی ہے۔

 

 

 

 

عبدالرحمٰن

 

آپ شہنشاہ عالم گیر کے بیٹے محمد معظم بہادر شاہ کے منصب دار تھے۔ آپ کی ایک کتاب ’’یمک شنک‘‘ ہے، جس میں ۱۰۷ دوہے شامل ہیں۔ ڈاکٹر اعظم کُریوی نے آپ کی زبان کو مشکل قرار دیا ہے۔ عبدالرحمن کا یہ دوہا ملاحظہ کیجیے :

کرکی کرکی چوریاں، برکی برکی ریت

در کی در کی کُچکی، ہر کی ہر کی پریت

(ہندی شاعری،ص ۱۱۲)

 

 

 

 

رس لین

( پ۱۶۸۹ء)

 

آپ ممتاز ہندی شاعر تھے۔ آپ کی پیدائش بلگرام(ہردوئی میں ) میں ہوئی۔ پورا نام سید غلام نبی رس لین ہے۔ والد بزرگوار کا نام سیدباقر حسین واسطی ہے۔ رس لین عربی اور فارسی کے فاضل ہونے کے ساتھ برج بھاشا کے قادر الکلام شاعر تھے۔ آپ کی تصانیف میں ’’انگ درپن‘‘ اور ’’رس پربودھ‘‘ شامل ہیں۔ (۱۰۱)صاحبِ ’’پاکستان میں اُردو دوہے کی روایت ‘‘نے آپ کاسن ولادت و وفات ۱۶۹۹ء…۱۷۵۰ء دیا ہے۔ (۱۰۲) اول الذکر تصنیف میں ۱۷۷ اور آخر الذکر میں ۱۱۵۵ دوہے شامل ہیں۔ انگ درپن ۱۰۷۱ء میں تکمیل کو پہنچی۔ رس لین ہندوستان کے نامور ادیب میر عبدالجلیل بلگرامی کے بھانجے تھے۔

رس لین کی زبان و بیان کے حوالے سے مقیت الحسن کی یہ رائے قابل توجہ ہے :

’’رس لین کا عام انداز بیان سیدھا سادہ اور سہل ہے۔ ان کے اشعار سمجھنے کے لیے ذہن پر زور نہیں دینا پڑتا۔ جو کچھ کہتے ہیں پورے طور پر محسوس کر کے بے ساختہ طریقے سے کہتے ہیں۔ زبان پر اتنی قدرت ہے کہ مشکل سے مشکل مضمون کو بھی سہل انداز میں بیان کر جاتے ہیں۔ تشبیہات واستعارات کے بادشاہ ہیں اور سراپا نگاری کے ماہر۔ ‘‘(۱۰۳)

یہ مترنم وسندردوہے ملاحظہ کیجیے، جو لفاظی اور ابلاغ کے باعث دلوں کو چھو جاتے ہیں :

امیہ ہلاہل مدبھرے، سیت سیام رتنار(۱۰۴)

جیّت مرت، جھکی جھکی پرت، جیہی چتوت اک بار

 

مکت بھئے گھر کھوئے کے، کانن بیٹھے جائے

گھر کھووت ہیں اور کو کیجو کون اپائے

کت دکھائے کامن دئی دامن کونج بانھ

تھرتھراٹ سی تن پھرے، پھر پھرات گھن مانھ

(ہندی شاعری،ص ۱۱۳۔ ۱۲۰)

آخری دونوں دوہوں میں فلسفیانہ انداز واضح ہے۔

 

 

 

 

پریمی

 

آپ کا پورا نام سید برکت اللہ بلگرامی ہے۔ آپ نے دوہے، کبت اور دھرپد لکھے۔ آپ کی تصنیف ’’پریم پرکاش‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ پریمی کا یہ دوہا ملاحظہ کیجیے جس میں تشبیہات کی بھر مار ہے :

چکھ جو گی کنٹھا گریں، ارن سیام اور سیت

آنسو بوند سمرن لیں، درسن بھچھا ھیت

مراد یہ کہ آنکھیں اُس جو گی کی مانند ہیں جو دیدار یار کی خواہش میں سُرخ وسفید اورسیاہ دانوں کی مالا پہنے اور آنسوؤں کی تسبیح لیے پھرتا ہے۔ اس لیے کہ کسی طرح تو درشن کی بھیک نصیب ہو۔

(ہندی شاعری،ص ۶۹، ۱۱۰، ۱۱۱)

 

 

 

 

میر جعفر زٹلی

(۱۶۵۸ء…۱۷۱۳ء)

 

آپ کا وطن نارنول تھا۔ اوائل عمری میں فوج میں ملازمت اختیار کر لی تھی، لیکن قلندرانہ وضع قائم رکھی۔ شعر کہنے کا نیا انداز ایجاد کیا۔ جس میں بعض اوقات فارسی اور ہندی کی آمیزش سے عجیب انوکھا پن پیدا کر دیتے تھے۔ اپنے اس انداز کو زٹل سمجھتے تھے، اسی لیے زٹلی تخلص اختیار کیا۔ جہاں کوئی حسنِ سلوک سے پیش آتا، بڑے اچھے الفاظ میں مدح کرتے اور جہاں ذراکسی سے کوئی خلاف طبع حرکت سرزد ہوتی، ہجو کہہ ڈالتے۔ میر جعفر کی نظم و نثر کا مجموعہ چھپ گیا ہے۔ اس میں حکیمانہ اشعار بھی ہیں اور ایسے بھی ہیں، جنھیں شرفا کی محفل میں نہیں پڑھا جا سکتا۔ ان کی ہزلیات میں کہیں کہیں مہذب ظرافت بھی موجود ہے۔ (۱۰۵)

جعفرزٹلی کے حوالے سے ڈاکٹر جمیل جالبی کا یہ بیان بہت اہم ہے :

’’میر جعفر زٹلی اس دور کا واحد شاعر ہے، جو اپنے دور کا نمائندہ اور اس تہذیب و معاشرت کا ترجمان ہے۔ میر تقی میر نے انھیں ’’نادرۂ زماں واعجوبۂ دوراں ‘‘ کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔ لچھمی نرائن شفیق نے نے ’’دریدہ دہن و شوخ مزاج… اشعارش عالمگیر‘‘ کے الفاظ میں ان کا ذکر کیا ہے۔ قدرت اللہ شوق نے ’’چنیں شخص اعجوبۂ روزگار تاحال بہ ظہور نیامدہ‘‘ اور قائم چاند پوری نے ’’کلامش در عوام شہرتِ تمام داشت‘‘ کے الفاظ سے جعفر کی اہمیت کا اعتراف کیا ہے۔ ‘‘(۱۰۶)

جعفر زٹلی نے فرخ سیر کی تخت نشینی پریہ ’’ سکہ‘‘ لکھا:

سِکہ زد بر گندم و موٹھ و مٹر

پادشا ہے تسمہ کش فرخ سیر

اور یہی سکہ بادشاہ کی طبع پر گراں گزرا اور اُس نے جعفر زٹلی کو قتل کروا دیا۔ رشید حسن خاں نے جعفر زٹلی کا کلیات مرتب کر کے شائع کروا دیا ہے جسے ’’زٹل نامہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ جعفر زٹلی نے چوپائی اور دوہے کہے ہیں۔ نمونہ کلام دیکھیے :

جعفر پوت کپوت وہ، جو پکڑے چال کچال

پرکھوں کی گت چھانڈ کر، لیو زٹل سنبھال

 

بہت گئی تھوڑی رہی، کرو نہ جیو اُداس

جعفر سمرن پیو کی، گاؤ للت ببھاس

 

جعفر اب کیا کیجیے، جوبن چلیا رُوس

پھیر نہ آوے جو بنا، لاکھوں دیجے گھوس(۱۰۷)

مجموعی طور پر جعفر زٹلی کی شناخت ہجوگو، فحش نگار اور طنز گو شاعر کی ہے۔ ان کے کلام کا زیادہ حصہ اسی ذیل میں آتا ہے۔ بعض اوقات تو براہِ راست اور ننگی گالیاں بھی کہہ جاتے ہیں۔

 

 

 

 

 

بلھے شاہ

۱۱۷۱ھ/۱۷۵۷ء)

 

بلھے شاہ پنجابی زبان کے معروف شاعر اور پنجاب کے صوفی بزرگ ہیں۔ ان کی شاعری کا بڑا حصہ علم و عرفان اور تصوف پر مشتمل ہے۔ البتہ عشق کی جولانیاں اور سرمستیاں بھی پوشیدہ نہیں ہیں۔ آپ نے اُردو میں بھی شاعری کی۔ گیت، دوہے اور کافیاں لکھیں جو اُردوداں اور پنجابی داں دونوں طبقوں میں مقبول ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی بلھے شاہ کے کلام کا مستقل مطالعہ کرنے کے بعد کہتے ہیں : ’’ اس کلام کے مطالعے سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ بلھے شاہ کی اُردو شاعری کتنی پُر تاثیر اور رس بھری ہے۔ یہی اثر و تاثیر ان کے گیتوں میں نظر آتی ہے۔ ان پر گیتوں کی روایت کے مطابق ہندوی اسطور کا رنگ غالب ہے۔ (۱۰۸) بلھے شاہ کا نمونۂ کلام ملاحظہ کیجیے :

منھ دکھلائے اور چھپے، چھل بل ہے جگ دیس

پاس رہے اور نہ ملے، اس کے بسوے بھیس

 

بلھیا پینڈے پریم کے، کیا پینڈا آوا گون

اندھے کو اندھا مل گیا، راہ بتاوے کون

 

بلھے شاہ اور کون ہے، اُتمّ تیرا یار

اوسی کے ہاتھ قرآن ہے، اوسی گل زُنّار

 

اُس کامکھ ایک جوت ہے، گھنگھٹ ہے سنسار

گھنگھٹ میں وہ چھپ گیا، مکھ پر آنچل ڈار

 

اُن کو مکھ دکھلائے ہے، جن سے اُس کی پیت

اُن کو ہی ملتا ہے وہ، جو اُس کے ہیں پیت(۱۰۹)

 

 

 

 

مرزا محمد رفیع سوداؔ

(۱۱۲۵ھ/۱۷۱۳ء…۱۱۹۵ھ/۱۷۸۰ء)

 

آپ کے والد کا نام محمد شفیع تھا۔ کابل سے دہلی میں وارد ہوئے۔ وہ تجارت پیشہ تھے۔ ماں کا تعلق نعمت خاں عالی کے خاندان سے تھا۔ سودا کی تعلیم و تربیت دہلی میں ہوئی۔ خان آرزو کی صحبت سے استفادہ کیا اور فارسی شاعری میں انھی سے تلمذ رہا۔ انھی کی ہدایت سے فارسی چھوڑ کر ریختہ گوئی شروع کی اور حاتم کے شاگرد ہوئے۔ قصیدہ گوئی میں خاص مقام حاصل کیا۔ ساٹھ برس کی عمر میں خستہ حال دہلی کو چھوڑ کر فرخ آباد کے دیوان مہربان خان رند کے پاس پہنچے۔ ۱۷۷۱ء میں شجاع الدولہ کی سرکار میں منسلک ہوئے۔ ملک الشعراء کا خطاب ملا اور جاگیر پائی۔ یہیں وفات ہوئی۔ فارسی کا کلام مختصر مگر اُردو کا ضخیم کلیات جملہ اصناف پر مشتمل ہے۔ انھیں زندگی میں ہی قبولیت نصیب ہوئی۔ ان کی اصلی شہرت ان کے قصائد اور ہجو گوئی کی وجہ سے ہے۔ مرزا سوداقادر الکلام شاعر تھے۔ (۱۱۰)

سودا کے دوہے مسدس کی تکمیلی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں، الگ سے انھوں نے دوہے کی صنف نہیں اپنائی۔ ان کے دوہوں کی زبان فارسی کی حلاوت اور ہندی چاشنی اور چاٹ سے مالا مال ہے۔ یہ دوہے ملاحظہ کیجیے جو مرثیوں کا جزو ہیں :

جو میں ایسا جانتی، چھوڑ جائے گا موہ

تو بندے میں بیاہ کر، پل نہ چھوڑتی توہ

 

جس بنری کا بیاہ میں، بنرہ یوں مر جائے

کیا گزرا اب ہوئے گا، اس کے دل میں ہائے

 

قاسم کس کے کہنے سے، آج رہا ہے روٹھ

سب کہتے ہیں مر گیا، میں جانوں ہوں جوٹھ(۱۱۱)

مرثیے کی فضا کے یہ دوہے پورا منظر کھینچ لاتے ہیں۔

 

 

 

 

شاہ عالم ثانی

(۱۷ ذی قعدہ ۱۱۴۰ھ … ۷ رمضان ۱۲۲۱ھ / ۲۴ مئی ۱۷۲۷ء …۱۹؍نومبر۱۸۰۶ء)

 

آپ کا پورا نام شاہ دہلی، ابو المظفر جلال الدین ابن عالم گیر ثانی ہے۔ شہزادگی کے زمانے میں بہت جواں مرد اور فیاض تھے۔ شعر گوئی سے دلی لگاؤ تھا اور آفتاب تخلص اختیار کیا۔ اُردو کے متعدد مایہ ناز شعرا، میر، سودا، نصیر، ممنون، قاسم، فراق اور انشا وغیرہ شاہ عالم ثانی سے وابستہ تھے۔ لمبی عمر پائی مگر زیادہ عرصہ غم و اندوہ میں گزارا۔ چار دیوان مرتب کیے، مگر اب کم یاب ہیں۔ ایک قصۂ نثر ’’عجائب القصص ‘‘ بھی یاد گار ہے۔ (۱۱۲)

قدیم داستانوں میں اشعار کا عمومی رواج تھا۔ عجائب القصص ان سے خالی کیوں کر رہ سکتی تھی۔ اس تصنیف میں نہ صرف فارسی اشعار موجود ہیں، بلکہ اُس زمانے کی اُردو کے اشعار بھی ہیں۔ بہ قول ڈاکٹر گیان چند جین:

’’قدیم فارسی تصنیفات کی طرح عجائب القصص میں بھی فارسی، اُردو اشعار آتے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ برج بھاشا کے کوت اور ہندی دوہے بھی کافی تعداد میں ملتے ہیں، جن میں بھاشا کی شاعری کی مٹھاس موجود ہے۔ ‘‘(۱۱۳)

یہ دوہے ملاحظہ کیجیے :

ساون مانو جھر لگا، برست مورے نین

دوڑ ملیں گے رنگ جب، تبھی پری گو چین

 

حرکت پائیں ناہ کچھ، خالی پروہی تن

پانی یہ مت جانیو، بھیجا اپنا من(۱۱۴)

 

 

 

 

سیدانشاء اللہ خاں انشاؔ

(۱۷۵۶ء…۱۸۱۷ء)

 

آپ حکیم ماشاء اللہ خاں کے فرزند ہیں اور پیدائش مرشد آباد میں ہوئی۔ نوجوانی میں دہلی پہنچے مگر دہلی کا دورِ اقبال گزر چکا تھا۔ اس لیے وہاں سے لکھنؤ چلے گئے اور شہزادہ سلیماں شکوہ کے دربار سے وابستہ ہو گئے۔ پھر علامہ تفضل حسین خاں کی سفارش سے سعادت علی خاں نوابِ اودھ کے دربار میں رسائی حاصل کی۔ نواب بہت مہربان ہو گئے تھے مگر وہ فطرتاً متین وسنجیدہ تھے اور انشاء حدِ اعتدال سے بڑھ کر ہنسوڑ۔ اس لیے تعلق زیادہ مدت تک جاری نہ رہ سکا۔ سید انشا بلا کے ذکی اور ذہین تھے۔ زبان پر قدرت کامل تھی۔ بیان میں لطف و محاورہ کی نمکینی اور ترکیبوں میں خوشنما تراشیں، مگر طبیعت پر قابو نہ تھا۔ ان کے کلیات میں اُردو دیوان، فارسی دیوان، مثنوی ’’شکار نامہ‘‘(فارسی)، مثنوی ’’شیر برنج‘‘ (فارسی)، مثنوی ’’مرغ نامہ‘‘ سمیت دوسری مثنویاں، قصیدے، مستزاد، ریختی، ہجویات، پہیلیاں وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ ایک غیر منقوطہ دیوان بھی ہے۔ ’’دریائے لطافت‘‘ قواعد اُردو کے متعلق ان کی مشہور اور قابل قدر تصنیف ہے۔ ’’ رانی کیتکی کی داستان‘‘ ایسی اُردو میں لکھی جس میں عربی یا فارسی کا کوئی لفظ نہیں آنے دیا۔ (۱۱۵)

انشا ء کے دو دوہے ملاحظہ ہوں، ان میں ایک پہیلی بیان ہوئی ہے :

کٹ جاوے تو ہو گدھا، اُلٹا مکھ ہو سوئے

پورن کھالی پھارسی، سچ مچ سورج ہوئے

 

مورت جا کی جیوں پری، ہردی ہوت میران

یہاں پہیلی میں کہی، بوجھو چُتر سجان(۱۱۶)

 

 

 

 

شیخ قلندر بخش یحییٰ امان جرأت

(۱۱۶۳ھ … ۱۲۲۵ھ)

 

آپ اُردو کے ممتاز غزل گو شاعر تھے اور پیدائش دہلی میں ہوئی۔ آپ کا خاندانی نام یحییٰ امان اور معروف نام شیخ قلندر بخش دہلوی تھا۔ میر جعفر علی حسرت کے شاگرد تھے۔ ۱۲۱۵ھ میں فیض آباد سے لکھنو چلے گئے اور وہاں مرزا شکوہ کے ہاں ملازمت اختیار کر لی۔ نواب محبت خاں کے گروہ میں شامل رہے۔ شباب کو پہنچے تو بینائی جاتی رہی۔ علم نجوم اور ستار بجانے کا بھی شوق رکھتے تھے۔ آخری عمر تک لکھنو میں رہے۔ ایک ضخیم کلیات اور دو مثنویاں یادگار کے طور پر چھوڑی ہیں۔ (۱۱۷) دیوان میں غزلیں، فردیات، رباعیات، مخمس، مسدس وغیرہ سبھی شامل ہیں۔ دیوان میں دوہے بھی ہیں۔ قاضی عبدالودود نے جرأت کے ایک قلمی دیوان(جو کتب خانہ شرقیہ پٹنہ میں محفوظ ہے ) سے چند دوہرہ بند رباعیوں کی نشاندہی کی جو ’’معاصر‘‘ پٹنہ نمبر۱اور۲ میں شائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ دیوانِ جرأت کا ایک قلمی نسخہ مولانا آزاد لائبریری علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ میں بھی موجود ہے۔ جس میں کچھ دوہرہ بند رباعیاں ہیں۔ یہاں اُن میں سے دوہے نقل کیے جاتے ہیں۔ (۱۱۸)

دیکھ رُکھائی یار کی، بھیچک رہے یوں ہائے

جیسے دُکھی غریب کو، بید جواب سنائے

 

صورت وہ تصویر سی، سنمکھ ہے ہر آن

ہائے پر اپنے دھیان کا، کچھ نہیں اس کو دھیان

 

عجب بلا میں پھنس گئے، کہیں سو کیا جنجال

گویا رات ملاپ کی، ہو گئی خواب و خیال

 

کیا کیا من للچائے ہے، ابھری ابھری گات

ہاتھ کہاں پر آئے ہیں، ملوں نہ کیوں کر ہات

ان دوہوں میں لکھنوی تہذیب و روایت کا پورا عکس موجود ہے۔ تلذذپرستی کی وہ خاص فضا جو لکھنو سے جڑی ہوئی ہے۔ ان دوہوں میں پوری طرح جلوہ فگن ہے۔

 

 

 

نظیر اکبرآبادی

(۱۷۳۵ء …۱۸۳۰ء)

 

آپ کا اصل نام ولی محمد اور نظیر تخلص تھا۔ اُردو کے عوامی شاعر کہلاتے ہیں۔ آپ کی پیدائش دہلی میں ہوئی۔ ۱۸۶۱ء میں آگرہ چلے گئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ آزاد طبع اور متوکل انسان تھے۔ اُردو شاعری میں ایک نئے طرز کے موجد ہیں۔ کلام میں عوامی موضوعات اور گرد و پیش کی چیزوں کا تذکرہ کثرت سے ہے۔ نظموں میں بلا کی ہمہ گیری ہے۔ کلام جدید ترکیبوں، نئی بندشوں اور عوام کے الفاظ اور محاورات سے مالامال ہے۔ ہر صنفِ سخن پر طبع آزمائی کی ہے۔ (۱۱۹)

بارہ بھائیوں میں صرف نظیر زندہ بچے تھے۔ آگرہ ہجرت کے بعد وہ تاج محل کے قریب ایک مکان میں اُٹھ آئے۔ عربی، فارسی، ہندی اور ہندوستان کی کئی دوسری زبانوں سے آشنا تھے۔ قلندرانہ مزاج کے سبب نواب سعادت علی خان کی دعوت پر لکھنو نہیں گئے۔ اسی طرح بھرت پور کے رئیس کی دعوت بھی قبول نہیں کی۔ لالہ بلاس رام کے بچوں کے اتالیق رہے۔ آپ نے طویل عمر پائی اور فالج کے عارضہ میں مبتلا ہو کر پیوندِ خاک ہوئے۔

نظیر کے یہاں عوامی رنگ کی وجہ سے زبان بھی بڑی حد تک عوامی ہو جاتی ہے۔ مقامی روزمرہ، مقامی لفظیات اور ان کے مقامی معانی نے ان کے یہاں خاص فضا بنائی ہے۔ نظیر کے اکثر کلام پر برج بھاشا کے اثرات نمایاں ہیں۔ آپ نے موضوعاتی نظموں کے علاوہ دوہرہ بند نظمیں بھی کہی ہیں۔ یہ نظمیں ان کے کلیات میں شامل ہیں۔ نمونہ کلام ملاحظہ کیجیے :

 

سننے والے بھی رہیں، ہنسی خوشی دن رین

اور پڑھیں جو یاد کر، ان کو بھی سکھ چین

خوش رہے دن رات وہ، کبھی نہ ہو دل گیر

مہان اس کے بھی رہیں، جس کا نام نظیر(۱۲۰)

 

آنگن میں پھندے آئے کے، من پھنس دینو روئے

درگن جادو ڈار کے، سدھ بدھ دینی کھوئے

 

پیتم نے من موہ کے، کینو مان گمان(۱۲۱)

بن دیکھے وا روپ کے، میرے کڑہٹ پران

 

 

 

 

بہادر شاہ ظفر

(۱۷۷۵ء… نومبر۱۸۶۲ء)

 

آپ کا پورا نام ابوالظفرسراج الدین محمد بہادر شاہ، متخلص بہ ظفر تھا۔ آپ دلی کے آخری مغل تاجدار تھے۔ ۱۸۵۷ء کی ناکام جنگِ آزادی میں گرفتار ہو کر رنگون جلا وطن کیے گئے۔ قید میں ان سے بہت نامناسب سلوک ہوا۔ وہیں انتقال ہوا۔ زمانۂ ولی عہدی سے ہی شعر گوئی کا شوق تھا۔ دلی کے نامور شعرا ان کے دربار سے منسلک رہے۔ پہلے ذوق ؔ اور پھر غالبؔ سے تلمذ رہا۔ کلام میں سلاست اور محاورات کی بندش خوب ہے۔ ہندی الفاظ بہ کثرت استعمال کیے ہیں۔ تمام عمر مصائب سے دوچار رہے، اسی لیے شاعری میں یاس و حرماں کے خیالات کثرت سے ملتے ہیں۔ آپ کی تصانیف میں چار دیوان، ’’شرحِ گلستانِ سعدی‘‘ اور ایک رسالہ ’’سراج المعرفت‘‘ شامل ہیں۔ (۱۲۲)

آپ کے کلیات میں تیس ہزار سے زیادہ اشعار ہیں۔ ان میں اُردو زبان کے علاوہ پنجابی اور پوربی زبان کے اثرات کے حامل اشعار بھی ملتے ہیں۔ اسی رنگ میں رنگے ہوئے یہ دوہے ملاحظہ کیجیے :

سب کے من میں کھوٹ ہے، سب کی کھوٹی چال

کون لگاوے جیا اپنا، ان لوگاں دے نال

 

من میں ٹھور لگاؤ، پھرو نہ ڈانواں ڈول

تھے وہ لوگ سیانے، جنھاں نے آکھے یہ دو بول

 

رین تو ساری غفلت وچ ہی، تم نے دینی کاٹ

دن نہ گنواؤ دیکھو مانو، جانا اوکھے گھاٹ(۱۲۳)

 

 

 

 

عیسوی خان

 

نواب عیسوی خان نرور(گوالیار) کے راجا چھترسنگھ کے متوسل تھے اور وہیں سمبت۱۸۰۹ بکرمی یعنی ۱۷۵۲ء میں بہاری ست سئی کی ٹیکا(شرح) نظم و نثر میں لکھی۔ اس ٹیکا کے کئی مخطوطات موجود ہیں۔ ہندی ساہتیہ سمیلن الہ آباد کے مخطوطے کے آخری بند کے یہ تین دوہے کتاب اور مصنف کے بارے میں اہم معلومات پہنچاتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے :

کیے پرسنگ نرور نرپتی چھترسنگھ بھوبھان

پڑھت بہاری ست بھیا، سب جگ کرت پرمان

تب سب کوہت کو سگم بھاشا وچن ولاس

ادت عیسوی خاں کیورس چندرکا پرکاس

نند، گگن، بسو، بھومی گنی کیجے برس بجار

رس چندرکا پرکاس کیے مدھو شیجی پور نموگروار

نند، گگن، بسو اور بھومی سے سالِ تصنیف ۱۸۰۹ء بنتا ہے، (۱۲۴)

ڈاکٹر پرکاش مونس نے اپنی کتاب ’’ اُردو اَدب پر ہندی کا اثر‘‘ میں لکھا ہے کہ عیسوی خاں اہلِ اُردو کے لیے ایک چیستانی شخصیت ہو لیکن ہندی میں وہ ایک جانے پہچانے ادیب ہیں۔ یہ بہاری ست سئی کی ایک ٹیکا(شرح) ’’ رس چندر کا‘‘ کے مصنف ہیں۔ اور ہندی کے یہی ادیب نواب عیسوی خاں قصۂ مہرافروز  و دلبر کے مصنف ہیں۔ (۱۲۵)

عیسوی خاں کی زبان پر ہندی کے اثرات نمایاں ہیں۔ ان کا کلام اگرچہ سادہ ہے مگراس کی تفہیم کے لیے ہندی سے گہرا ربط و ضبط لازم ہے۔

 

 

 

 

سہجوبائی

 

سہجوبائی بیسیوں صدی میں موجود تھیں۔ وہ میواتی زبان کی ایک قادر الکلام شاعرہ تھیں۔ ان کی پیدائش موضع آندھ، ریاست بھرت پور(بھارت) میں ہوئی۔ وہ شادی سے قبل ہی اس دُنیا سے رخصت ہوئیں۔ اُن کی شاعری کے نمایاں موضوعات حق پرستی اور دُنیا کی بے ثباتی ہے۔ میرا بائی جی کی طرح انھیں دوہے کی مقبول شاعرہ خیال کیا جاتا ہے۔ ان کی زبان ہندی آمیز ہے اور یہ وہی زبان ہے جو دوہے کی روایت کی امین ہے۔ یہ دوہا ملاحظہ کیجیے :

سہجو! بھیج ہرنام کو، تجو جگت سوئے

جگ اپنو کد ہوئے، گو سہجواپنی نہ ہوئے (۱۲۶)

عرش صدیقی صاحب نے سہجوبائی کا نام میرا بائی جی کے ساتھ لیا اور ان کے فکر و فن کو خراج تحسین یوں پیش کیا:

’’جس طرح ہماری غزل ایک عرصہ تک عورت کے لیے مرد کی ہوس کے اظہار کا ذریعہ بنی رہی ہے۔ اسی طرح مردوں نے دوہے کی صنف کا استعمال بھی اس مقصد کے لیے صدیوں تک جاری رکھا۔ سہجوبائی اور میرا بائی نے دوہے کواس زہر سے پاک کیا اور بہت سے مرد شاعروں کی طرح دوہے کو رفعت اور وقار کا مقام دیا۔ ‘‘(۱۲۷)

سہجوبائی کا یہ دوہا دیکھیے :

چلنا ہے، رہنا نہیں، چلنا بسوئے بیس

سہجو تنک سہاگ پر، کیا گندھوائے سیس(۱۲۸)

 

 

 

 

 

 

دوسرا دور

 

 

اِکتارے کی دھُن سے پھوٹا، کُن کا سُر سنگیت

کُن ہے سات سُروں کی دھارا، کُن ہے اُتّم گیت

مشتاق عاجز

 

 

 

 

امانت لکھنوی

(۱۸۱۶ء… ۱۸۵۸ء)

 

آپ کا نام سیدآغاحسن لکھنوی تھا اور پیدائش لکھنؤ میں ہوئی۔ آپ شاعر، ڈراما نگار تھے۔ آپ کے کلیات (خزائن الفصاحت)میں غزلیں، مخمس، مسدس، رباعیاں، قطعے اور واسوخت شامل ہیں۔ لیکن آپ کی شہرت ’’واسوختِ امانت‘‘(۳۰۷ بند) اور ’’اندرسبھا‘‘ناٹک (۱۲۶۸ھ /۱۸۵۳ء)کی وجہ سے ہے۔ یہ دونوں تصانیف بہت مقبول ہوئیں۔ واسوخت تو پچاسوں مرتبہ چھپا۔ اس سے بھی زیادہ مقبولیت اندرسبھا کو حاصل ہوئی۔ یہ کتاب اُردو کے علاوہ گورمکھی، ناگری اور گجراتی خط میں بھی بار بار چھپی۔ اندرسبھا ناٹک سب سے پہلے لکھنؤ میں اسٹیج پر کھیلا گیا۔ اس کی تقلید میں کئی سبھائیں تصنیف ہوئیں۔ چنانچہ انیسویں صدی کے آخر تک اُردو ڈرامے پر اندر سبھا کا گہرا اثر نظر آتا ہے۔ (۱۲۹)

امانت کے مراثی کی تعداد ایک سوبیس سے متجاوز ہے۔ اس کے علاوہ ان کی غزلیات، ٹھمریاں اور دوہے بھی ہیں۔ اندرسبھامیں شامل دوہے کہیں ’’چوبولا‘‘ تو کہیں ’’چھند‘‘ کے عنوان تلے آئے ہیں۔ مکالماتی انداز کا حامل یہ نمونۂ کلام دیکھیے جو راجا اندر اپنے تعارف میں بیان کرتا ہے :

راجا ہوں میں قوم کا، اندر میرا نام

بن پریوں کی دید کے، نہیں مجھے آرام

 

سنو اے میرے دیورے، دل کو نہیں قرار

جلدی میرے واسطے سبھا کرو تیار

میرا سنگل دیپ میں، ملکوں ملکوں راج

جی میرا ہے چاہتا، جلسہ دیکھوں آج

 

لاؤ پریوں کو مری، جلدی جا کر ہاں

باری باری آن کر، مجرا کریں یہاں (۱۳۰)

یہ تمام دوہے ’’دوہا چھند‘‘ میں ہیں۔ بسرام کی خوب صورتیاں پوری طرح موجود ہیں۔ پھر تعارف سے منظر کشی کا لطف بھی واضح ہوتا ہے۔

 

 

 

 

واجد علی شاہ اختر

(۱۸۲۷ء…۱۸۸۷ء )

 

آپ آخری تاجدارِ اودھ تھے۔ اپنے والد امجد علی شاہ والیِ اودھ کے انتقال پر بیس سال کی عمر میں ۱۸۴۷ء میں تخت نشین ہوئے۔ آپ کی تعمیرات میں قیصر باغ یاد گار ہے۔ موسیقی سے گہرا شغف تھا جو آپ کے رہس(اُردو کے ابتدائی ڈراموں کی شکل) میں نظر آتا ہے۔ لکھنوی رنگ کے پرگو شاعر تھے۔ ۳۱ جنوری ۱۸۵۶ء کو انگریزوں نے بادشاہت سے معز ول کر کے اودھ پر قبضہ کر لیا اور مٹیا برج کلکتہ میں نظربند رکھا۔ مثنوی ’’حزنِ اختر‘‘ جس میں مصائب اور کلکتہ کے حالات کا ذکر ہے، دلکش اور مؤثر نظم ہے۔ اختر کی چھیالیس تصانیف ہیں، جن میں مثنوی ’’دریائے تعشق‘‘ اور مثنوی ’’ حزنِ اختر‘‘ مقبول ہوئیں۔ فنِ موسیقی و رقص پران کی کتاب ’’بنّی‘‘ اہم ہے۔ (۱۳۱)

مسعودحسن رضوی ادیب کا کہنا ہے : ’’ اُردو اور فارسی کی تقریباً سوکتابیں واجد علی شاہ کی تصنیف کردہ ہیں۔ اُردو ڈرامے کی تاریخ میں لکھے ہوئے ڈرامے رہس ’’رادھا کنھیا‘‘ کی وجہ سے انھیں شہرت اور اولیت حاصل رہے گی۔ رادھا کنھیا میں کل تیرہ دوہے آئے ہیں۔ ‘‘(۱۳۲)

ادیب نے یہ دوہے بھی نقل کیے ہیں :

آؤ پیارے موہن پلک ڈھانپ تو ہے لیؤں

نا میں دیکھوں اور کو، نا توہے دیکھن دیؤں

 

کاگا سب تن کھائیو اور چن چن کھائیو ماس

دو نیناں مت کھائیو، پیا ملن کی آس

آخرالذکر دوہا میرا بائی کا ہے۔ ڈاکٹر اعظم کُریوی نے اپنی کتاب ’’ہندی شاعری‘‘ میں یوں نقل کیا ہے :

کاگا سب تن کھائیو، چن چن کھائیو ماس

دونوں نیناں مت کھائیو، پریہ درشن کی آس(۱۳۳)

یوں معلوم ہوتا ہے جیسے واجد شاہ نے بعض موقعوں پر دوسروں کے کلام میں تحریف کر کے اپنے کلام میں شامل کر لیا ہے۔ اس طرح کی مثالیں ڈرامائی اَدب میں اور بھی بہت موجود ہیں۔

 

 

 

 

 

آرام، نسروان جی مہروان جی، خان صاحب

 

آپ کی پیدائش بمبئی میں ہوئی۔ دولت مندپارسی خاندان کے تعلیم یافتہ فرد تھے۔ اُردو شعر و اَدب سے خاص دلچسپی تھی۔ پہلے شوقیہ طور پرپارسی کلبوں میں اداکاری کرتے رہے۔ پھر گجراتی ڈراموں کے اُردو ترجمے کیے۔ ڈھاکے کے قدیم اُردو ڈراما نویسوں میں سے کئی لوگ بمبئی کی پارسی تھیٹریکل کمپنیوں کے لیے بلائے گئے، ان میں منشی نفیس کانپوری بھی تھے۔ آرام نے ان سے تلمذ اختیار کیا۔ آپ کے ڈراموں کے زیادہ تر پلاٹ گجراتی ڈراموں سے ماخوذ تھے اور ان کی سلاست میں ان کے استاد کا بڑا ہاتھ تھا۔ آپ کا ایک ڈراما ’’رستم سہراب‘‘ جو دادا بھائی پٹیل نے ۱۸۷۰ء میں اپنی کمپنی ’’وکٹوریا ناٹک منڈلی‘‘ کے لیے لکھوایا تھا، بہت مشہور ہوا۔ آرام کی تصانیف کی تعداد تقریباً بیس ہے۔ ان میں ’’گل بہ صنوبر چہ کرد‘‘، ’’گوپی چند‘‘، ’’حاتم طائی‘‘، ’’نورجہان‘‘، ’’لیلیٰ مجنوں ‘‘، ’’لعل و گہر‘‘، ’’بے نظیر بدر منیر‘‘ اور ’’چھل بٹاؤ موہنا رانی ‘‘زیادہ مشہور ہیں۔ (۱۳۴)

امتیاز علی تاج نے ان سے تئیس ڈرامے منسوب کیے ہیں۔ آرام کا تخلیقی زمانہ ۱۸۷۰ء سے ۱۸۹۷ء کو محیط ہے۔ البتہ ان کاسن پیدائش اورسن وفات تحقیق طلب ہے۔ ان کے ڈراموں میں شامل یہ دوہے ملاحظہ کیجیے :

دل دیے کیسے بھیے، ان چاہت کے سنگ

دیپک کے بھاویں نہیں، جل جل مریں پتنگ

 

ہردے اندر آگ لگے، دھواں نہ پرگٹ ہوئے

جا تن لاگے، وا تن جانے، دوجا نہ جانے کوئے (۱۳۵)

 

 

 

 

ظریف، غلام حسین عرف حسینی میاں

(انیسویں صدی کا آخر… بیسویں صدی کا ربع اول)

 

آپ رونقؔ اور طالبؔ کے ہم عصر تھے۔ بمبئی کے ایک ہندو تاجر کتب کی دُکان پر ملازم ہوئے۔ طبیعت میں اُپج تھی اور ڈراما نگاری کا شوق۔ پسٹن فرام جی نے اپنی ’’اوریجنل پارسی تھیٹریکل کمپنی‘‘ قائم کی تو انھیں ڈراموں کی نقل اور ان میں ترامیم کرنے کے لیے اپنے پاس بلا لیا۔ قدیم ڈراموں میں تبدیلی کرتے کرتے کئی ڈرامے اپنے نام سے بھی اسٹیج کرائے۔ ان کے ڈراموں میں ’’ نتیجۂ عصمت‘‘، ’’گل بکاؤلی‘‘، ’’ظلمِ عمران‘‘، فتنۂ خانم‘‘، ’’ظلمِ اظلم‘‘، ’’سیف سلیمانی‘‘، ’’ناصر ہمایوں ‘‘، ’’ شیریں فرہاد‘‘، ’’خدا دوست‘‘ اور ’’پورن بھگت ‘‘ شامل ہیں۔ ان کی ڈراما نگاری کا دور۱۸۸۰ء سے ۱۸۹۰ء تک رہا۔ (۱۳۶)

منشی مہدی حسن احسن ’’نامہ احسن‘‘ میں ظریف کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں :

’’یہ ڈراما نگاری میں سینئرہیں، ایک پارسی ’’خاں صاحب‘‘ کا نام بھی ان کے نام کے ساتھ سننے میں آتا ہے۔ ان کو میں نے بہ چشمِ خود دیکھا ہے۔ جب میرا عنفوان شباب تھا تو بزرگ اسّی سال کے تھے۔ ظریف صاحب کی تصانیف کی تعداد زیادہ ہے۔ لیکن ان کے کمال کاذکرکسی زبان میں نہیں ہے۔ حیات و ممات میں شہرت و مقبولیت سے محروم رہے۔ ‘‘ (۱۳۷)

ظریف کا نمونۂ کلام دیکھیے :

دل چاہے دل دار کو، اور تن چاہے آرام

دُبدا میں دو دو گئے، مایا ملی نہ رام

جاؤں پیا کو ڈھونڈنے، کسبن کا کر بھیس

پیتم پیارے پیت لگا کے، چھانڑ گئے پردیس(۱۳۸)

 

 

 

رونق بنارسی

(۱۸۲۵ء … ۱۸۸۶ء)

 

آپ کا اصل نام شیخ محمود احمد تھا۔ ڈراما نگار کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ دکن، ناگپور اور بمبئی میں مقیم رہے۔ وکٹوریا ناٹک منڈلی میں اداکار کی حیثیت سے ملازم ہوئے۔ شروع میں دوسروں کے ڈراموں میں رد و بدل کر کے انھیں اپنا لیتے تھے۔ بعد میں کمپنی کے ڈراما نگار کی حیثیت سے اپنے ڈرامے لکھے۔ نثری مکالموں میں شعروں کا انداز شروع کیا۔ ان کے ڈراموں میں ’’بے نظیر بدر منیر‘‘، ’’لیلیٰ مجنوں ‘‘، ’’انصاف محمود شاہ‘‘، ’’نقشِ سلیمانی‘‘، ’’فسانۂ عجائب عرف جانِ عالم‘‘ اور ’’انجمن آرا‘‘ زیادہ مشہور ہیں۔ (۱۳۹)رونق بنارسی نے مشہور مثنوی ’’سحرالبیان‘‘ کو بھی ۱۸۷۹ء میں ڈرامائی تشکیل دی۔ (۱۴۰) ڈاکٹر عبدالعلیم رونق نے آپ کے ڈراموں کی تعدادپچیس بتائی ہے، جب کہ سیدامتیاز علی تاج نے رونق کے ڈرامے دو جلدوں میں شائع کروائے ہیں۔ ’’ظلم خان روسیاہ عرف انصاف محمود شاہ‘‘ اور ’’ظلم مست ناز عرف خونِ عاشقِ جان باز‘‘ میں دوہے بھی شامل ہیں۔

رونق کی زندگی کا انجام بہت بھیانک تھا۔ تھیٹر کی چکا چوند میں سے کوئی لمحہ ان کی زندگی کو گھن کی طرح لگ گیا اور انھوں نے ۱۸۸۶ء میں اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا چراغ گُل کر دیا۔ (۱۴۱) نمونہ کلام دیکھیے :

پیت وا سے کیجیے جو پیت کی جانے ریت

پیت اناڑی کو کدھی نا کرے کوئی میت

 

میت میت ہر کوئی کہت ہے، کون کسی کا میت

آج میت اور کل کو بیری جلے ری ایسے پیت

مریم کو کیوں کرتی ہے، خلقِ خدا بدنام

مانند روح اللہ کے سمجھیں خاص و عام

 

دو تن اک جاں ہو گئے ہیں، میں اور میرا یار

خوش نہیں آیا یہ تجھے، اے چرخِ کج رفتار(۱۴۲)

ان تمام دوہوں میں عمومیت کا رس اور لوچ موجود ہے اور عامۃ الناس کی سطح پرآسانی سے سمجھے جاتے ہیں۔

 

 

 

 

کریم الدین مراد

(۱۸۴۲ء…۱۸۹۳ء)

 

آپ معلم، عالم دین اور ڈراما نگار تھے۔ پیدائش بریلی میں ہوئی۔ عربی اور فارسی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسۃ العلوم بریلی سے درس نظامی کی تحصیل کی۔ پھر ایک مقامی مدرسے میں تدریس کے فرائض انجام دینا شروع کیے۔ اسی زمانے میں مختلف سازوں اور موسیقی میں مہارت حاصل کی۔ ۱۸۸۲ء میں جب دادا بھائی رتن جی ٹھونٹھی نے وکٹوریہ ناٹک منڈلی سے علاحدہ ہو کر بمبئی ناٹک منڈلی قائم کی اور ’’اندرسبھا‘‘ پیش کرنے کا ارادہ کیا تو یہ خیال گزرا کہ اگر اُردو ڈرامے اصل اور صحیح اسلوب میں پیش کیے جائیں تو کافی فائدہ ہو سکتا ہے۔ ان کے مشہور ڈراموں میں ’’گل بکاؤلی‘‘ (۱۸۸۳ء )، ’’گلستانِ خاندان ہامان‘‘  (۱۸۸۵ء)،  ’’چترا بکاؤلی‘‘ اور ’’خداداد‘‘ شامل ہیں۔ (۱۴۳)مراد نے دوہوں کے علاوہ، کبت، ٹھمری اور راگنیوں کے تحت کلام بھی لکھا۔ ان کے یہ دوہے توجہ طلب ہیں جن میں عمومی مضامین پوری طرح رچ بس گئے ہیں :

بد کاری کو کہتی تھی مجھ سے، وہ نائیکہ بے ایمان

مال و جواہر دے کے اس کو اپنی چھڑائی جان

 

بی بی ہوں میں اُس کی اور یہ شوہر ذی شان

ان صاحب کے کرم سے ان کو ملا زندان(۱۴۴)

 

ہے راج کے راج تم، جگ جگ کریو راج

حاضر ہے دربار میں، یہ چیری محتاج

 

کوئی ہری، کوئی لال ہے، کوئی نیلم پکھراج

میں عاجز ہوں خاک سے، رکھیو موری لاج(۱۴۵)

یہ دوہے حقیقت میں چوبولا کی طرز پر ہیں۔ الگ الگ اوزان میں ہیں۔ پہلے دونوں دوہا چھند میں ہیں اور آخری دونوں سرسی چھند کے قریب۔

 

 

 

 

محمد الف خاں حباب

(وفات ۱۹۰۸ء)

 

حباب ؔکا اصل نام امان اللہ خاں اور تخلص حباب تھا۔ ان کے وطن اور تاریخِ پیدائش و موت کے حوالے سے متضاد باتیں سامنے آئی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالعلیم نامیؔ نے ان کو رام پوری اور پروفیسرسیدحسن نے ان کو دہلوی بتایا ہے۔ خود حباب کا ڈراما ’’ سلیمانی تلوار معروف بہ نقشِ سلیمانی‘‘ کا دیباچہ انھیں فتح پوری ثابت کرتا ہے۔ یہ بیان ملاحظہ ہو: ’’یہ ناٹک ۱۸۹۷ء کے آخر دسمبرمیں ’’شمشیرسلیمانی‘‘ کے نام سے موسوم کر کے اپنے وطن ہسوہ(فتح پور) میں ترتیب دیا تھا۔ ‘‘ اسی ڈرامے کی وساطت سے ان کا اصل نام بھی ظاہر ہوتا ہے۔

سفارش حسین رضوی کی اطلاع کے مطابق جنوری، فروری ۱۹۰۷ء میں رام پور میں پلیگ پھیلا تھا، اسی میں حباب کا انتقال ہوا۔ جب کہ سید امتیاز علی تاج ان کاسن وفات ۱۹۰۷ء رد کرتے ہوئے کہتے ہیں :

’’حباب کی سرکاری مشاعرے کی ایک غزل جو۱۹۰۸ء میں پڑھی گئی ’’گلدستہ تصویر مشاعرہ‘‘ میں موجود ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ حباب کا انتقال ۱۹۰۸ء کے بعد ہوا… انتقال کے وقت ان کی عمر ساٹھ سال کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے ان کی پیدائش ۱۸۵۰ء یا۱۸۵۱ء قرار پائی ہے۔ ‘‘ڈاکٹر عبدالعلیم نامی کے مطابق ان کے ڈراموں کی تعداد گیارہ ہے۔ اسدعلی خاں قلق کی مثنوی ’’طلسم اُلفت‘‘ کے پلاٹ سے ماخوذ انھوں نے ایک ڈراما ’’شرر عشق‘‘ کے نام سے اوریجنل وکٹوریہ ناٹک کمپنی کے لیے ۱۸۸۱ء میں لکھا تھا۔ یہ دوہے اُسی میں شامل ہیں۔ ملاحظہ کیجیے :

لاگی آگ لگن کی تن میں، لب پر آہ سرد

یہی نشانی ہے عاشق کی، چہرے ہوئے زرد

 

اس دلدار کامنی کا ہے، کھایا دل پر تیر

ایک نشانی پاس ہے میرے، دیکھو یہ تصویر(۱۴۶)

ان دوہوں کی زبان جدید اُردو ہے۔ بیان سادہ اور پُر کشش ہے۔

 

 

 

طالب بنارسی

۱۹۲۲ء)

 

آپ کا اصل نام ونائک پرسادمنشی ہے اور پیدائش بنارس میں ہوئی۔ اُردو، فارسی اور انگریزی ادب سے دلچسپی تھی۔ شاعری میں راسخ دہلوی اور داغ دہلوی سے اصلاح لی۔ مشہور ادبی رسائل میں کلام شائع ہوتا رہا۔ کلکتے میں محکمہ ڈاک میں ملازم ہوئے۔ اسی زمانے میں تھیٹر دیکھتے دیکھتے ڈرامے لکھنے کا شوق ہوا اور بمبئی چلے گئے۔ اس وقت ان کی عمر بیس سال تھی۔ شاعری کے ساتھ ساتھ موسیقی سے بھی گہرا لگاؤ تھا۔ وکٹوریہ ناٹک منڈلی میں منشی رونق کی جگہ ڈراما نگار مقر ر ہوئے اور جلد ہی مشہور ہو گئے۔ ان کے ڈراموں کی زبان فصیح اور شستہ تھی۔ ڈرامائی تدبیر کاری اور پلاٹ کے لحاظ سے بھی ان میں ترقی کے آثار تھے۔ مکالموں کی برجستگی کے باعث ان کے ڈرامے بہت مقبول ہوئے۔ گانوں کے بول مترنم اور سلیس اُردو میں ہوتے تھے، جو اپنی دھنوں کی دلکشی کی وجہ سے پسند کیے گئے۔ ان کے ڈراموں کی تعداد پندرہ ہے۔ ان میں ’’لیل و نہار‘‘، ’’نل دمینتی‘‘، نگاہِ غفلت‘‘، ’’دلیرِ دلشیر‘‘، ’’راجا گوپی چند‘‘، ’’ہریش چندر‘‘، ’’سنگین بکاؤلی‘‘، ’’بکرام بلاس ‘‘ اور ’’الہ دین‘‘ زیادہ مشہور ہیں۔ (۱۴۷) عشرت رحمانی نے ان کی سات تصانیف کا ذکر کیا اور ان کاسن وفات ۱۹۱۹ء بتایا ہے۔ (۱۴۸) ’’ راجا گوپی چند‘‘ میں شامل یہ دوہے دیکھیے :

ہار گلے میں ڈال کے، دونی شوبھا پائے

جیوں نرمل آکاس پہ، چھائی چاندنی آئے

سو ہی بازو بند کی شوبھا کبھی نہ جائے

جیسے سندر کنول پر بھونرا گونج لبھائے (۱۴۹)

دوہا چھند میں لکھے گئے ہندی بھاشا کے اثرات ان دوہوں پرعکس فگن ہیں۔

 

 

 

 

حافظ محمد عبداللہ فتح پوری

(۱۸۵۶ء… ۱۹۳۰ء)

 

آپ اداکار اور ڈراما نگار تھے، جب کہ پیدائش چوترا، ضلع فتح پور ہسوہ میں ہوئی۔ آپ کے والد شیخ الٰہی بخش زمیندار اور رئیس تھے۔ حافظ نے ڈرامے سے دلچسپی کی بنا پر خود اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کی اور ’’انڈین امپیریل تھیٹریکل کمپنی‘‘ نام رکھا۔ آپ کی ڈراما نگاری کا زمانہ ۱۸۸۰ء سے ۱۸۸۸ء تک ہے۔ حافظ عبداللہ نے قدیم افسانوں اور ڈراموں کو نئے سرے سے لکھ کر اسٹیج پر پیش کیا۔ ڈراموں کے مناظر پر نمبر ڈالے اور گانوں کی دھنیں قائم کرنے کی روش عام کی۔ پہلا ڈراما ۱۸۸۱ء میں لکھا۔ ان کے ساٹھ ڈراموں کی فہرست ملتی ہے۔ ان کے ڈراموں میں ’’ شیریں فرہاد‘‘، ’’لیلیٰ مجنوں ‘‘، ’’شکنتلا‘‘، ’’اندرسبھا‘‘، ’’بے نظیر‘‘، ’’بدر منیر‘‘، ’’چندروائی‘‘، ’’فسانۂ عجائب‘‘ اور ’’طلسمِ ہوش ربا‘‘ زیادہ مشہور ہیں۔ ان کے زیادہ تر ڈرامے منظوم ہیں۔ (۱۵۰)

سیدامتیازعلی تاج نے آپ کے تین ڈرامے ’’پسندیدہ آفاق معروف بہ علی باب و چہل قزاق‘‘، ’’ سوانح قیس مفتوں معروف بہ عشق لیلیٰ و مجنوں ‘‘ اور ’’شکنتلا‘‘ شائع کیے۔ آخر الذکر میں شامل دوہوں کا رنگ ڈھنگ ملاحظہ ہو:

اس کی ریاضت سے مجھے ہے اندیشہ سخت

چھینے گا وہ ایک دن میرا تاج و تخت

دل سے میرے تب مٹے یہ کھٹکا اور سوگ

توڑے جب کوئی پری سا کا جواب بوگ(۱۵۱)

رائج اُردو میں کہے گئے یہ دوہے غزل کے مطلعوں کی مانند معلوم ہوتے ہیں۔ دوہے کی خاص فضا بھی مفقود ہے۔

 

 

 

عظمت اللہ خاں

(۱۸۸۷ء…۱۹۲۷ء)

 

آپ کا وطن دہلی تھا مگر ساری عمر حیدرآباد دکن میں گزاری۔ علی گڑھ کے گریجویٹ تھے اور حیدرآباد دکن میں نائب ناظم تعلیمات رہے۔ اُردو میں ایک نئے دبستان شاعری کے بانی ہوئے۔ جس کی خصوصیت ہندی کے اسالیب بیان کی طرف رجعت نیز الفاظ اور بحروں کا ترنم ہے۔ ان کی نظمیں سریلی اور موضوعات اچھوتے ہیں۔ اُردو میں غنائی شاعری کا فروغ عظمت اللہ خاں کا رہینِ منت ہے۔ ’’سریلے بول‘‘ کے نام سے مجموعۂ کلام حیدر آباد دکن میں چھپا تھا۔ ان کی نظمیں ہندوستانی معاشرت کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں۔ (۱۵۲)

عظمت اللہ خاں نے اُردو زبان سے عربی وفارسی کے ثقیل اور غیر منہضم اثرات کو ختم کرنے کی عملی کوشش کی۔ عروض کی بجائے پنگل کے مترنم چھندوں کو اہم جانا اوراسی کو اپنے لیے رو بہ راہ کیا۔ آپ کا شعری اُسلوب ان دوہوں سے پوری طرح مترشح ہے :

چال چھبیلی مست سی، ایک قیامت ڈھائے

بات سُریلی گیت سی، دل کو ناچ نچائے

 

صورت تیری موہنی، من میں کھب کھب جائے

جوبن تیرا جوش پر، دل کو آگ لگائے

 

تجھ میں لاکھوں خوبیاں، کیوں کر کوئی گنائے

مرتے ہیں کس بات پر، کیوں کر کوئی بتائے (۱۵۳)

ان تینوں دوہوں میں دوہے کی بُوباس پوری طرح رچی ہوئی ہے۔ عشق کا مخصوص بیان اور دوہے کا روایتی انداز یہ ثابت کرتا ہے کہ عظمت نے جو کوشش کی، اُس میں کامیاب رہے۔ ڈاکٹر جمیل صاحب بلھے شاہ کی اُردو شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے عظمت اللہ خاں کے مخصوص آہنگ کو بھی واضح کرتے ہیں :

’’اس [بلھے شاہ کا] کلام کے مطالعے سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ بلھے شاہ کی اُردو شاعری کتنی پُر تاثیر اور رس بھری ہے۔ یہی اثر و تاثیر ان کے گیتوں میں نظر آتا ہے۔ ان پر گیتوں کی روایت کے مطابق ہندوی اسطورکارنگ غالب ہے۔ گیتوں کا مزاج ہمیشہ سے یہی رہا ہے۔ یہ گیت خواہ ابراہیم عادل شاہ ثانی، شاہ باجن، علی جیوگام دھنی اور قاضی محمود دریائی کے ہوں یا دورِ جدید میں عظمت اللہ خاں، آرزو لکھنوی اور میراجی کے ہوں، سب میں یہی رنگ ڈھنگ اور چھب نظر آتی ہے۔ ‘‘(۱۵۴)

 

 

 

 

آغا حشر

ٍٍ(۱۸۷۹ء … ۱۹۳۵ء)

 

آپ کا اصل نام محمد شاہ اور مولد بنارس ہے۔ آپ ممتاز ڈراما نگار ہیں۔ حشر کے والد شالوں کے تاجر تھے۔ حشر کو شروع سے ہی ڈرامے لکھنے کا شوق تھا۔ پہلا ڈراما ’’ آفتابِ محبت‘‘۱۸۹۷ء میں لکھا۔ ۱۷؍۱۸ سال کی عمر میں بمبئی چلے گئے۔ پہلے کاؤس جی کی کمپنی میں ڈراما نگار کی حیثیت سے ملازم ہوئے اور ان کے لیے ’’مرید شک‘‘، ’’مارِ آستین‘‘، ’’اسیرِ حرص‘‘ اور ’’شہیدِ ناز‘‘ لکھے۔ پھر نیو ایلفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے لیے ’’خواب ہستی‘‘ اور ’’خوب صورت بلا‘‘ لکھے۔ یہ سب ڈرامے بہت مقبول ہوئے۔ آخری دور میں حشر نے ہندی زبان میں کئی اصلاحی ڈرامے لکھے۔ خطابت کا زور، مقفّیٰ مکالمے اور مزاح کی شوخی ان کے ڈراموں کی اہم خصوصیات ہیں۔ ’’ترکی حور‘‘، ’’پہلا پیار‘‘، ’’دھرمی بالک‘‘، ’’دل کی پیاس‘‘، ’’رستم سہراب‘‘، ’’عورت کا پیار‘‘، ’’یہودی کی لڑکی ‘‘ اور ’’خوب صورت بلا‘‘ ان کے مشہور ڈرامے ہیں۔ (۱۵۶)

داستانوں اور ڈراموں میں اشعار اور دوہے شامل کرنے کا رواج ’’سب رس‘‘ کی تخلیق کے زمانے سے موجود ہے۔ اسی پس منظر میں آغا حشر کے یہاں دوہے نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کے خالق کے حوالے سے شبہات موجود ہیں۔ جو دوہے ان کے یہاں موجود ہیں، پیش کیے جاتے ہیں :

تم بسرے سنسار میں، بھو گے دیکھ اُپار

تمری سیوا سے ہوت ہے، پل میں بیڑا پار

 

جن نیناں سوجھے نہیں، برے بھلے کا بھید

مستک کے دو گھاؤ ہیں، بھوں نیچے دو چھید

 

داہ لگا کر پریم کا ہر لینو سکھ چین

جیسے بھٹی کانج کی سلکت ہے دن رین(۱۵۶)

مزاج، زبان اور آہنگ کے اعتبار سے یہ مکمل دوہے ہیں۔ ان کی تاثیر وہی روایتی ہے، جو دوہے سے منسوب ہے۔ اگر یہ دوہے آغا حشر کے تسلیم کر لیے جائیں تو کہنا پڑے گا کہ وہ دوہے کے مزاج داں تھے۔

 

 

 

 

حوالہ جات

 

۱…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم، شیخ غلام علی اینڈ سنز(پرائیویٹ ) لمیٹڈ، لاہور، ۱۹۸۸ء،اشاعت اول،ص ۱۰۷۶

۲…اُردو شاعری میں دوہے کی روایت، ڈاکٹرسمیع اللہ اشرفی،ص ۷۵

۳…مقالاتِ حافظ محمود شیرانی، جلد اول، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۶۶ء، ص۱۴۱

۴…اورینٹل کالج میگزین، فروری ۱۹۳۳ء،ص ۲۰، بحوالہ تاریخ ادب اُردو، جلد اول،ص ۶۱۷

۵…آکھیا بابا فرید نے، محمد آصف خان، پاکستانی پنجابی ادبی بورڈ، لاہور، ۲۰۰۱ء،ص ۵۷تا۷۸

۶…شہر غزل، بزم فکرو ادب، منٹگمری، ۱۹۵۹ء،ص ۴

۷…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول،ص ۵۵۸

۸…پاکستان میں اُردو دوہے کی روایت، کنول ظہیر، انجمن ترقی اُردو، کراچی، ۲۰۰۵،ص ۶۵

۹…اُردو شاعری میں دوہے کی روایت، ڈاکٹرسمیع اللہ اشرفی، ص۷۹/۸۰

۱۰…گوہرِ نایاب، شخصیات کا انسائیکلوپیڈیا، گوہر پبلی کیشنز، لاہور،س ن،ص ۱۵۶/۱۵۷/۱۵۸

۱۱…پاکستان میں اُردو دوہے کی روایت،ص ۶۶

۱۲…گوہرِ نایاب، شخصیات کا انسائیکلوپیڈیا، ص۱۵۸

۱۳…مقالاتِ حافظ محمود شیرانی، جلد اول، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۶۶ء، ص، ۱۴۱/۱۴۲

۱۴…فرہنگ آصفیہ، جلد اول، سیداحمددہلوی، مرکزی اُردو بورڈ، لاہور، ۱۹۷۷ء،ص ۲۰

۱۵…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول،ص ۱۳۳

۱۶…تاریخ اَدب اُردو، ڈاکٹر جمیل جالبی، مجلس ترقی اَدب، لاہور، جلد اول، طبع ہفتم ۲۰۰۸ء،ص ۲۷

۱۷…مقالاتِ حافظ محمود شیرانی، جلد اول، ص، ۲۹۵

۱۸…بیاض، انجمن ترقی اُردوپاکستان، کراچی، بحوالہ تاریخ اَدب اُردو، جلد اول

۱۹…سب رس، مرتبہ عبدالحق، انجمن ترقی اُردو، کراچی، ۱۹۳۵ء، ص۲۰۳

۲۰…تاریخ اَدب اُردو، ڈاکٹر جمیل جالبی، جلد اول،ص ۲۹

۲۱…امیرخسرو کا ہندوی کلام، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، طبع سوم، ۱۹۹۲ء، ص۲۷

۲۲…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول، شیخ غلام علی اینڈ سنز(پرائیویٹ ) لمیٹڈ، لاہور، ۱۹۸۷ء، اشاعت اول،ص ۸۴۴

۲۳…تاریخ اَدب اُردو، ڈاکٹر جمیل جالبی، جلد اول، طبع،ص ۳۸

۲۴…پنجاب میں اُردو، حافظ محمود شیرانی، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۱۹۸۸ء،ص ۱۵۴

۲۵…اُردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام، مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اُردو،پاکستان، کراچی، ۱۹۳۹ء، ص۴۸/۴۹

۲۶…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم، شیخ غلام علی اینڈ سنز(پرائیویٹ ) لمیٹڈ، لاہور، ۱۹۸۸ء، اشاعت اول،ص ۱۶۶۵

۲۷…اُردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام، ص۵۵

۲۸…تاریخ اَدب اُردو، ڈاکٹر جمیل جالبی، جلد اول،ص ۱۶۹

۲۹…ایضاً، ص۱۶۹

۳۰…ایضاً،ص ۱۷۰/۱۷۱

۳۱…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول،ص ۲۷۸

۳۲…تاریخ اَدب اُردو، ڈاکٹر جمیل جالبی، جلد اول،ص ۱۰۷

۳۳…خزائن رحمت اللہ، شیخ باجن، قلمی نسخہ، کتب خانۂ خاص انجمن ترقی اُردوپاکستان، کراچی، بحوالہ تاریخ اَدب اُردو،ص ۱۰۷

۳۴…تاریخ اَدب اُردو، ڈاکٹر جمیل جالبی، جلد اول،ص ۱۰۷

۳۵…خزائن رحمت اللہ، شیخ باجن، قلمی نسخہ، کتب خانۂ خاص انجمن ترقی اُردوپاکستان، کراچی، بحوالہ تاریخ اَدب اُردو،ص ۱۰۸/۱۰۹

۳۶…مقالاتِ حافظ محمود شیرانی، جلد اول،  ص، ۱۷۰

۳۷…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم، ص۱۱۸۱

۳۸…بھگت کبیر…فلسفہ و شاعری، ہری اودھ، مشتاق بک کارنر، لاہور،س ن،ص ۱۴

۳۹…ایضاً،ص ۱۵۸

۴۰…ایضاً،ص ۱۵۹

۴۱…ایضاً،ص ۱۶۰/۱۶۱

۴۲…ایضاً،ص ۱۸۶/۱۸۷

۴۳…تحفۃ الکرام، جلد اول، ص، ۷۹، بحوالہ تاریخ اَدب اُردو،ص ۱۱۱

۴۴…تاریخ اَدب اُردو، ڈاکٹر جمیل جالبی، جلد اول، ص،ص ۱۱۲

۴۵…ایضاً،ص ۱۱۳

۴۶…قدیم اُردو، مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی، ۱۹۶۱ء، ص۹۵

۴۷…ایضاً، ص۹۶

۴۸…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم، ص۹۶۷

۴۹…معاصر، پٹنہ، دسمبر۱۹۷۵ء،ص ۱۳۵/۱۸۱، بحوالہ تاریخ اَدب اُردو

۵۰…تاریخ اَدب اُردو، ڈاکٹر جمیل جالبی، جلد اول،ص ۱۱۵

۵۱…مقالاتِ حافظ محمود شیرانی، جلد اول، ص، ۱۸۴

۵۲…جواہرِ اسراراللہ، مرتبہ سیدابراہیم، قلمی نسخہ، مملوکہ انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی، بحوالہ تاریخ اَدب اُردو

۵۳…علی گڑھ تاریخ اَدب اُردو، جلد اول، مدیر، آل احمدسرور، علی گڑھ یونی ورسٹی، علی گڑھ، ۲۹۶۴ء، ص، ۱۱۲ / ۱۱۳

۵۴…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول،ص ۲۴۰

۵۵…دکنی اَدب کی تاریخ، ڈاکٹر محی الدین قادری زور، اُردو اکیڈمی سندھ، کراچی، ۱۹۶۰ء،ص ۳۱

۵۶…تاریخ اَدب اُردو، ڈاکٹر جمیل جالبی، جلد اول،ص ۲۰۲

۵۷…اُردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام، ص۶۶/۶۷

۵۸…تاریخ اَدب اُردو، ڈاکٹر جمیل جالبی، جلد اول،ص ۲۰۸/۲۰۹

۵۹…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول،ص ۸۳۳

۶۰…کافیاں شاہ حسین، مجلس شاہ حسین، لاہور، ۱۹۶۶ء، ص۲۴/۴۱/۴۲

۶۱…تحفۃ الکرام، جلد اول، ص، ۶۷، بحوالہ تاریخ اَدب اُردو،ص ۱۲۰

۶۲…تاریخ اَدب اُردو، ڈاکٹر جمیل جالبی، جلد اول،ص ۱۲۱

۶۳…مقالاتِ حافظ محمود شیرانی، جلد اول، ص، ۱۹۸، نیز علی گڑھ تاریخ اَدب اُردو، جلد اول، مدیر، آل احمدسرور، ص۱۲۳

۶۴…بحوالہ تاریخ اَدب، جلد اول،ص ۱۲۳

۶۵…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم، ص۹۶۰

۶۶…علی گڑھ تاریخ اَدب اُردو، جلد اول، مدیر، آل احمدسرور، علی گڑھ یونی ورسٹی، علی گڑھ، ۲۹۶۴ء، ص، ۲۸

۶۷…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم، ص۱۷۹۳

۶۸…سب رس، شمیم انہونی، نسیم بک ڈپو، لکھنو، ۱۹۹۲ء، ص۲۰۲

۶۹…بحوالہ تاریخ اَدب اُردو، جلد اول، ص۴۴۱/۴۴۳

۷۰… کملی میں بارات، عرش صدیقی، مقبول اکیڈمی، لاہور، نومبر۱۹۹۱ء، ص۴۵

۷۱…ایضاً،ص ۴۶

۷۲ … The Padumavati Vol.1 by Surya Kanta , Punjab University , Lahore , 1934,P.9

۷۳…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا،ص ۱۶۶۵

۷۴…بحوالہ ’ہندی زبان کی سخن گو خواتین‘ اختر عابدی، مشمولہ، نگار ہندی شاعری نمبر،۱۹۸۴ء، ص ۱۳۷

۷۵…کملی میں بارات، عرش صدیقی،ص ۲۹

۷۶…نگار، ہندی شاعری نمبر،ص ۳۲

۷۷…کملی میں بارات، عرش صدیقی،ص ۴۶

۷۸…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم، ص۱۲۷۷

۷۹…تاریخ اَدب اُردو، ڈاکٹر جمیل جالبی، جلد اول،ص ۷۴

۸۰…مکاتیب قدوسیہ، مکتوب نمبر۱۵۹، بحوالہ تاریخ ادب اُردو

۸۱…گرو گرنتھ صاحب، واراں تے دوھیک،ص ۱۷۴۰، بحوالہ تاریخ اَدب اُردو

۸۲…گرو گرنتھ صاحب، مارو کی وار، محلہ ۱،ص ۱۰۹۰، بحوالہ تاریخ اَدب اُردو

۸۳…گرو گرنتھ صاحب، وارماجھ محلہ ۱،ص ۱۴۰، بحوالہ تاریخ اَدب اُردو

۸۴…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول،ص ۳۹۳

۸۵…تاریخ اَدب اُردو، جلد اول، سیدہ جعفر، گیان چند، قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان،  نئی دہلی، ۱۹۸۸ء،ص ۴۵۸

۸۶…تاریخ و تنقید، حسن حامد   شمولہ’لستانِ خاندان ھے۔ا collcعبیدقادری،ص ۸۵، بحوالہ پاکستان میں اُردو دوہے کی روایت

۸۷…تاریخ اَدب اُردو، جلد اول، سیدہ جعفر، گیان چند،ص ۴۵۸

۸۸…ہندی اَدب، حبیب اللہ غضنفر، پروفیسر،ص ۷۳، بحوالہ پاکستان میں اُردو دوہے کی روایت

۸۹…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم، ص۱۴۹۳

۹۰… پنجاب میں اُردو، حافظ محمود شیرانی، کتاب نما، لاہور، طبع سوم، ۱۹۶۳ء،ص ۹۳

۹۱…تاریخ اَدب اُردو، ڈاکٹر جمیل جالبی، جلد اول،ص ۶۲۵

۹۲…شہرغزل، بزم فکر واَدب، منٹگمری، ۱۹۵۹ء،ص ۷، بحوالہ تاریخ اَدب اُردو

۹۳…پنجابی ادب وتاریخ، شمیم چودھری، میاں مولابخش کشتہ اینڈ سنز، لاہور، طبع اول،س  ن، ص۵۷، بحوالہ:        تاریخ اَدب اُردو

۹۴…دوہاہزاری، الیاس عشقی، لطیف آباد، سندھ، جنوری ۲۰۰۳ء،ص ۱۷

۹۵…ہندی اَدب کی تاریخ، ڈاکٹر محمدحسن، ص، ۱۳۶، بحوالہ پاکستان میں اُردو دوہے کی روایت

۹۶…ایضاً، ص، ۱۳۶/۱۳۷

۹۷…نگار، ہندی شاعری نمبر، سالنامہ، ۱۹۸۴ء، بحوالہ کملی میں بارات،ص ۵۵

۹۸…کملی میں بارات، عرش صدیقی،ص ۵۶

۹۹…نگار، ہندی شاعری نمبر،ص ۱۵۲

۱۰۰…اُردو شاعری میں دوہے کی روایت، سمیع اللہ اشرفی، ڈاکٹر،ص ۱۶۷

۱۰۱…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم، ص۹۰۱

۱۰۲…پاکستان میں اُردو دوہے کی روایت، ص۹۳

۱۰۳…ماہنامہ نگار، لکھنو، نومبر۱۹۵۷ء

۱۰۴…ہندی اَدب کی تاریخ، وجیندرستانک، ساہتیہ اکیڈمی دہلی، ۱۹۹۹ء،ص ۱۸۱

۱۰۵…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول،ص ۴۶۷

۱۰۶…تاریخ اَدب اُردو، ڈاکٹر جمیل جالبی، جلد اول،ص ۶۴۱

۱۰۷…زٹل نامہ، مرتب رشید حسن خاں، انجمن ترقی اُردوہند، نئی دہلی، ۲۰۰۳ء،ص ۲۶۰

۱۰۸…تاریخ اَدب اُردو، ڈاکٹر جمیل جالبی، جلد اول،ص ۶۵۵

۱۰۹…کلیات بلھے شاہ، باہتمام فقیر محمدفقیر، پنجابی ادبی اکادمی، لاہور، ۱۹۶۴ء

۱۱۰…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول،ص ۷۹۱

۱۱۱…کلیات سودا، جلد دوم، نول کشورلکھنو، بار پنجم، ص۱۹۱/۱۹۳

۱۱۲…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول،ص ۸۳۶

۱۱۳…اُردو کی نثری داستانیں، گیان چند جین، ڈاکٹر، طبع دوم، ص، ۷۳۰

۱۱۴…ایضاً، ص، ۷۳۳

۱۱۵…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول،ص ۱۴۴

۱۱۶…کلامِ انشاء، مرتبہ مرزا محمدعسکری، ہندوستانی اکیڈمی، الہ آباد، ۱۹۵۳ء،ص ۳۹۱

۱۱۷…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول،ص ۴۵۹

۱۱۸…پاکستان میں اُردو دوہے کی روایت، ص۹۹/۱۰۰

۱۱۹…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم، ص۱۷۳۱

۱۲۰…مہادیو کابیاہ، کلیات نظیراکبرآبادی، منشی نول کشور پریس، لکھنو، ۱۹۲۲ء، ص۱۴۰/۴۱۱

۱۲۱…ازتضمین فارسی وہندی، کلیات نظیراکبرآبادی، منشی نول کشور پریس، لکھنو، ۱۹۲۲ء، ص، ۱۳۸/۱۴۰

۱۲۲…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم، ص۹۴۵

۱۲۳…ماہنامہ ’’نگار‘‘ ہندی شاعری نمبر، مضمون ہندی شاعری کی تاریخ، نیاز فتح پوری،ص ۳۱

۱۲۴…تاریخ اَدب اُردو، ڈاکٹر جمیل جالبی، مجلس ترقی اَدب، لاہور، جلد دوم، طبع ششم ، ۲۰۰۹ء،ص ۱۰۸۵ء

۱۲۵…ایضاً، ص۱۰۸۴ء

۱۲۶…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول، ص۸۰۳

۱۲۷…کملی میں بارات، عرش صدیقی،ص ۲۹

۱۲۸…ہندی شاعری، اعظم کُریوی، ڈاکٹر، سگماپریس، اسلام آباد، اشاعت دوم، ۲۰۰۹، ص۸۱

۱۲۹…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول،ص ۱۲۷/۱۲۸

۱۳۰…اندرسبھا، مرتب، سیدمسعودحسن رضوی ادیب، لکھنؤ، ۱۹۲۲ء، ص۱۶/۱۷

۱۳۱…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم،ص ۱۷۸۰

۱۳۲…اُردو ڈراما اوراسٹیج، سیدمسعودحسن رضوی، ادیب، لکھنؤ، ۱۹۵۷ء، ص۵

۱۳۳…ہندی شاعری، اعظم کُریوی، ڈاکٹر،ص ۱۱۷

۱۳۴…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول،ص ۹

۱۳۵…آرام کے ڈرامے (حصہ دوم)، بے نظیر بدر منیر، باب دوم، پردہ سوم، مجلس ترقی اَدب، لاہور، ۱۹۶۹ء

۱۳۶…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم،ص ۹۴۵

۱۳۷…نامۂ احسن، مہدی حسن احسن منشی، بحوالہ ظریف کے ڈرامے، مرتب سیدامتیازعلی تاج، مجلس ترقی ادب،         لاہور، ۱۹۶۹ء، ص۲۰۹

۱۳۸…ظریف کے ڈرامے، مرتب سیدامتیازعلی تاج، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۶۹ء، ص۲۰۹

۱۳۹…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول،ص ۶۸۸

۱۴۰…تاریخ اَدب اُردو، ڈاکٹر جمیل جالبی، جلد دوم، ص۸۷۱

۱۴۱…اُردواسٹیج کی مکمل تاریخ، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۱۹۸۶ء،ص ۱۳۲

۱۴۲…رونق کے ڈرامے، مرتبہ سیدامتیازعلی تاج، ۱۹۶۹ء،ص ۱۳۹

۱۴۳…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم، ص۱۵۲۹

۱۴۴…کریم الدین کے ڈرامے، مرتب سیدامتیاز علی تاج، گلستان خاندانِ ہامان، تیسراباب، پانچواں منظر، ۱۹۷۲ء، ص۱۳۵/۱۳۶

۱۴۵…ایضاً، چترا بکاؤلی، پہلا باب، لاہور، ۱۹۷۲ء، ص۱۶۱

۱۴۶…شرر عشق، مشمولہ حباب کے ڈرامے، مرتب سیدامتیازعلی تاج، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۷۰ء،ص ۵۳، بحوالہ پاکستان میں اُردو دوہے کی روایت

۱۴۷…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم، ص۹۳۶

۱۴۸…اُردو ڈراما…تاریخ و تنقید، عشرت رحمانی، علی گڑھ بک ڈپو، ۱۹۷۵ء،ص ۱۷۰

۱۴۹…طالب بنارسی کے ڈرامے، مرتب سیدامتیاز علی تاج، لاہور، ۱۹۷۵ء، ص۳۵/۵۹

۱۵۰…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول،ص ۵۳۳

۱۵۱…شکنتلا، حافظ محمد عبداللہ کے ڈرامے، مرتب سیدامتیاز علی تاج، لاہور، ۱۹۷۱ء، ص۲۰/۲۱

۱۵۲…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم، ص۱۰۰۰

۱۵۳…سریلے بول، عظمت اللہ خاں، حیدر آباد دکن، ۱۹۴۰ء،ص ۱۰۴

۱۵۴…تاریخ اَدب اُردو، ڈاکٹر جمیل جالبی، جلد اول،ص ۶۵۵

۱۵۵…اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا،ص ۲۴

۱۵۶…پہلا پیار عرف بلوا منگل، مرتب عشرت رحمانی، اُردو مرکز، لاہور، ۱۹۵۵، بحوالہ پاکستان میں اُردو دوہے کی روایت

٭٭٭

تشکر :مصنف  جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید