FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ادب منارے

               پروفیسر ڈاکٹر غلام شبیر رانا

 

سلطان جمیل نسیم: ایک حقیقت نگار افسانہ نویس

        سلطان جمیل نسیم کا نام عالمی ادبی حلقوں  میں  کسی تعارف کا محتاج نہیں وہ گزشتہ چھ عشروں  سے پرورش لوح و قلم میں  مصروف ہیں۔  نابغہ روزگار مرثیہ نگار،ممتاز دانشور حضرت صبا اکبر آبادی کے اس عظیم فرزند نے بڑے زوروں  سے اپنی صلاحیتوں ،تخلیقی کامرانیوں ،ادبی فعالیتوں  اور  افسانوں  کو حقائق کے پیرائے میں  بیان کرنے کے معجز نما اسلوب اور  زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کا لوہا منوایا ہے۔ سلطان جمیل نسیم نے روشنی کے اس سفر کا آغاز ۱۹۵۳ میں  کیا جب ان کا پہلا افسانہ شائع ہوا۔ اب تک ان کے اڑھائی سو سے زائد افسانے شائع ہو چکے ہیں۔  انھوں  نے اپنے منفرد اسلوب کے اعجاز سے اردو کے نامور اور  ممتاز افسانہ نگار کی حیثیت پوری دنیا میں  شہرت حاصل کی۔ ان کے افسانوں  کے تراجم دنیا کی بڑی زبانوں  میں  شائع ہو چکے ہیں۔ استاد محترم ڈاکٹر نثار احمد قریشی (مرحوم)جو چار برس قاہرہ کی الاظہر یونیورسٹی میں  تدریس اردو پر مامور رہے انھوں  نے میرا تعارف ایک مصری طالبہ سے کرایا جو اسلام آباد میں  اردو افسانے پر تحقیقی مقالہ لکھ رہی تھیں۔ یہ تحقیقی مقالہ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی نگرانی میں  پی ایچ۔  ڈی سطح کے لیے لکھا جا رہا تھا۔ یہ آج سے تیس سال قبل کی بات ہے ،میرے دل میں  یہ تجسس پیدا ہوا کہ کیوں  نہ میں  بھی اس یگانہ روزگار ادیب اور  افسانہ نگار کے اسلوب کا عمیق مطالعہ کروں۔ اس سے قبل میں  حضرت صبا اکبر آبادی کی مرثیہ نگاری پر دو تجزیاتی مضامین لکھ چکا تھا جو بعد میں  ماہ نامہ عکاس،اسلام آباد اور  سہ ماہی تجدید نو لاہور میں  شائع ہوئے جنھیں  ادب کے سنجیدہ قارئین نے بنظر تحسین دیکھا۔ میرے لیے یہ بہت بڑا اعزاز و افتخار ہے کہ مجھے حضرت صبا اکبر آبادی سے پانچ مرتبہ ملنے کا موقع ملا،ان کا کلام ان کی زبانی سنا۔ اردو مرثیہ کے فروغ میں  ان کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔  ان کی مرثیہ نگاری انیس دبیر کی روایت اور  عہد جدید کے مسائل کی تمازت اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اتنے بڑے علمی اور  ادبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے سلطان جمیل نسیم نے جب فن افسانہ نگاری کو اپنایا تو خون جگر سے اس صنف ادب کی آبیاری کی۔ ان کے افسانوی مجموعے  آج بھی دنیا بھر میں  مقبول ہیں۔

                سلطان جمیل نسیم کا پہلا افسانوی مجموعہ ۱۹۸۵ میں  شائع ہوا اس کا نام تھا ’’کھویا ہوا آدمی‘‘ آج کا دور اپنے براہیم ؑ کی تلاش میں  ہے۔ یہ جہاں  صنم کدہ ہے اس میں  اس قدر سراب ہیں  کہ آدمی ان کی جان لیوا کیفیات میں  کھو کر اپنی آرزوؤں ،امنگوں  اور  ارمانوں  کی لاش اپنی ہی کندھوں  پر اٹھا کر اپنی حسرتوں  پر خود ہی آنسو بہانے پڑتے ہیں۔ یہ ایک لرزہ خیز اعصاب شکن حقیقت ہے کہ ہمارا نشیمن کھو چکا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ آج کا انسان خود بھی اپنی حقیقت کا شناسا نہیں۔ اپنے بحر خیالات کے پانی کی عمیق گہرائیوں  میں  غوطہ زن ہو کر زندگی کے تلخ حقائق  کے گہر ہائے آبدار کی غواصی کے لیے وہ  سرے سے آمادہ ہی نہیں۔ مسلسل شکست دل کے باعث ایک خوف ناک بے حسی نے اسے اپنی گرفت میں  لے لیا ہے۔  کھویا ہوا آدمی میں  شامل افسانے فرد کی اسی جذباتی اور  نفسیاتی کیفیت کو منظر عام پر لاتے ہیں۔ ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’سایہ سایہ دھوپ‘‘ ۱۹۸۹ میں  منظر عام پر آیا۔ اس کے بعد ’’ایک شام کا قصہ‘‘ کے عنوان سے ان کا تیسرا افسانوی مجموعہ ۲۰۰۰ میں  شائع ہوا۔ ’’میں  آئینہ ہوں  ‘‘ کے عنوان سے سلطان جمیل نسیم کے افسانوں  کا چوتھا مجموعہ  ۲۰۰۲ میں  شائع ہوا۔ سلطان جمیل نسیم نے  ہمیشہ یہ تمنا کی کہ اس عالم آب و گل میں  جہاں  دشت جنوں  سر ہر خار کو تیز رکھے ہوئے ہے ،اس میں  اپنے من میں  دوب کر سراغ زندگی پانا ہی اصل زندگی ہے۔ وہ آئینۂ الفاظ میں  حالات کی حقیقی تصاویر دکھانے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں  وہ جانتے ہیں  کہ باہر کا دھن تو آ تا جاتا ہے یہ زندگی ویران سرائے کے دیے کے مانند ہے۔ ان کی تحریریں  پڑھ کر تمام احوال کھلتا چلا جاتا ہے  آئینے میں  رکھے  چہرے اور  خورشید مثال شخص لوح جہاں  پر حرف مکرر کے مانند کاتب تقدیر کے ہاتوں  مٹا دیے جاتے ہیں۔ چاند چہرے شب فرقت پہ وارے جاتے ہیں  اور  ہم اپنے گھر کے چراغ مٹی میں  محض اس آس پر رکھ دیتے ہیں  کہ زیر زمیں  سفاک ظلمتیں  ان کی تابانیوں  سے کافور ہو جائیں۔ سلطان جمیل نسیم کے افسانے انسانیت کے وقار اور  سربلندی کے مظہر ہیں۔ انھیں  اس بات کا شدید قلق ہے کہ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں  انسانیت کی توہین،تذلیل،تضحیک اور  بے توقیری کرنے والے دندناتے پھرتے ہیں  جامہ ابو جہل میں  ملبوس ناصف بقال خان اور  شباہت شمر قماش کے خفاش انسانیت کے در پئے آزار ہیں۔ اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ مشکوک نسب کا وحشی شیخ چلی  قماش کا منفی فلسفی جس کی بے بصری،بے حسی،  ذہنی افلاس، سادیت پسندی(Sadism)کور مغزی اور  جہالت مآبی کا ایک عالم شاہد ہو وہ بھی رواقیت کا داعی بن بیٹھے۔ ایسا بے غیرت،بے ضمیر جنسی جنونی اپنی جہالت کا انعام پا کر جب شیخ الجامعہ کے منصب پر غاصبانہ قبضہ کر لے تو اس حادثہ وقت کو کس نام سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ سلطان جمیل نسیم کے افسانے ظالم و سفاک،موذی و مکار استحصالی عناصر کے لیے عبرت کے تازیانے ثابت ہوئے۔ وہ لفظ کی حرمت کو دل و جاں  سے عزیز رکھتے  ہیں  ان کی دلی خواہش ہے کہ تیشہ لفظ سے جبر کے ایوانوں  کو منہدم کرنے میں  تامل نہیں  کرنا چاہیے۔ ایک جری تخلیق کار کی حیثیت سے سلطان جمیل نسیم نے مفاد پرست استحصالی مافیا کے جبر کے خلاف کھل کر لکھا ہے۔ ان کی تحریر میں  بلا کی اثر آفرینی ہے جو روح کی گہرائیوں  میں  اترتی چلی جاتی ہے۔ ان کے ایک افسانے خواب اور  کہانی کا ایک کر دار  اس انداز میں  اس لرزہ خیز،اعصاب شکن اور  مسموم ماحول کے خلاف حرف صداقت لکھنے کے بارے میں  اپنے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے۔

         ’’ہم لفظوں  کے کند ہتھیار استعمال کرتے کرتے تنگ آ چکے ہیں۔ اب ہم کچھ اور  کرنا چاہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ وہ کام جو دنیا کے سب لوگ کر رہے ہیں  معاشرتی انقلاب۔ ۔ ۔ معاشی ہمواری۔ ۔ ۔ اجتماعی مفاد  یہ سب لفظ بے اثر ہیں۔ ان کے لکھنے  میں  ہماری قوت ضائع نہ کرو۔ ہم بے روح الفاظ اور  بے جان قلم سے کوئی رشتہ نہیں  رکھنا چاہتے۔ ‘‘ (ایک شام کا قصہ: صفحہ ۱۲۱)

               آج کے دور میں  بے حس معاشرے نے اس انداز میں  چپ کھینچ لی ہے کہ انسانیت کو نا قابل اندمال صدمات سے دو چار ہونا پڑ رہا ہے۔ سلطان جمیل نسیم نے حریت ضمیر سے جینے کے لیے ہمیشہ اسوۂ  شبیرؑ کو اپنایا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ضمیر کی آواز سے انسان جاگ اٹھتا ہے۔ حریت فکر کی پیکار اور  ضمیر کی للکار ان کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے۔ زندگی کے تلخ حقائق ان کے افسانوں  میں  دبستان دل کی غزل اور  چراغ صبح ازل کے روپ میں  جلوہ گر ہو کر اذہان کی تطہیر و تنویر کا وسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔ ہستی کی جبیں  پر ہر خیال حسیں  ان کی دسترس میں  ہے۔ ان کا وسیع مطالعہ،عمیق مشاہدہ اور  فطرت نگاری لفظ کو پھول بنا کر قریہ جاں  کو معطر کر دیتی ہے۔ انھوں  نے زمین و زماں ،مکین و مکاں  اور  شیرازہ جزو و کل کو اس انداز میں  پیش کیا ہے کہ ان کے اسلوب کی سحر نگاری پر مشاطہ برگ و گل بھی دم بخود ہے۔ ان کی تحریر میں  صحیفہ صحیفہ ایثار،خلوص،دردمندی اور  محبت کی ضیا پاشیاں  نگاہوں  کو خیرہ کر دیتی ہیں۔ بے لوث محبت اور  بے باک صداقت کو زندگی سے عبارت کرنا ان کا ادبی نصب العین ہے۔ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے ہمیشہ مظلوموں  سے عہد وفا استوار رکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ گردش لیل و  نہار کے مسائل سے عہدہ برآ ہونے کا یہی واحد طریقہ ہے۔

          ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا اور  مفلوک الحال طبقے کے دکھ درد میں  شامل ہونا سلطان جمیل نسیم کے نزدیک ایک بہت بری نیکی ہے۔ ان کے افسانے زندگی کے تمام نشیب و فراز سامنے لاتے ہیں۔ وہ یہ دکھانے میں  کامیاب رہے ہیں  کہ کاروان حسین  کو ہر دور میں  صعوبتوں  کا سفر درپیش رہا  ہے جب کہ شمر اور  یزید آج بھی چین سے مسند نشین ہیں  اور  مجبوروں  کے چام کے دام چلا رہے ہیں۔ یہ لوگ خوگر انتقام بن کر انسانیت پر مصائب و آلام کے پہاڑ توڑتے چلے جا رہے ہیں۔ سلطان جمیل نسیم کا اصرار ہے کہ آج بھی اگر انسان حلقہ بگوش محبت ہو جائے تو یہ دھرتی امن و محبت کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ سلطان جمیل نسیم نے ارسو افسانے کی ثروت میں  جو بے پناہ اضافہ کیا ہے وہ تاریخ ادب کا ایک درخشاں  باب ہے۔ اردو زبان و ادب سے محبت کرنے والوں  کا سر ان کے بار احسان سے ہمیشہ خم رہے گا۔

         اردو افسانے کو موضوعات کا جو تنوع سلطان جمیل نسیم نے عطا کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انھوں  نے ان تمام درندہ  صفت وحشیوں  کے مکر کا پردہ فاش کیا ہے جو خوگر انتقام بن کر انسانیت کے در پئے آزار ہیں۔ یہ آدم خور  اپنے مذموم مقاصد کی خاطر مجبور انسانوں  پر عرصۂ حیات تنگ کر کے ان کے چام کا دام چلاتے ہیں  اور  لذت ایذا حاصل کرتے ہیں۔ ان مظلوموں  کو کہیں  سے انصاف بھی نہیں  ملتا کیونکہ انصاف بھی تو ایک پتھر کی سل کے نیچے دبا ہے جسے کاٹ کر نکالنے کے لیے تیشہ زر درکار ہے۔ سلطان جمیل نسیم  کا پیغام بے لوث محبت پر مبنی ہے ان کا خیال ہے کہ اگر دنیا بھر کے انسان حلقہ بگوش محبت ہو جائیں  تو استحصالی عناصر کو منہ کی کھانا پڑے گی۔ اس طرح یہ دھرتی امن و راحت کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ ایک بے خوف صدا جب مہیب سناٹوں  کی بھینٹ چڑھتی ہے تو فسطائی جبر کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے یہ صورت حال  انسانی وقار کے لیے بہت برا شگون ہے۔ سلطان جمیل نسیم نے اپنے افسانے ’’انکشاف‘‘ میں  ایک ایسا ہی دلدوز سانحہ بیان کیا ہے :

             ’’وہ شخص مر گیا،میرے روئیں  روئیں  سے اٹھنے والی ٹیسوں  کا احساس  مر گیا۔ وہ شخص مر گیا۔ ۔ ۔ اب کے چودھری۔ ۔ ۔   ان کے وڈیرے ان کے سردار ان کے ملک بے کھٹکے جیئیں  گے وہ شخص مر گیا۔ ۔ ۔ اب نظریں  جھک جائیں  گی،آوازیں  دب جائیں  گی۔ وہ شخص مر گیا اب کچھ لوگ بے خوف ہو کر زندہ رہیں  گے اور  بہت سے دہشت و خوف سے روز مرتے رہیں  گے ‘‘(ایک شام کا قصہ : صفحہ ۱۶)

           سلطان جمیل نسیم نے پتھروں  اور  سنگلاخ چٹانوں  سے بھرے اس معاشرے میں  موجود ہلاکو خان،چنگیز خان،عاسف عقبال خان اور  صباحتو قماش کے ننگ انسانیت  خون آشام درندوں  کو ان کے قبیح کر دار اور  بے ہودگیوں  کی بنا پر ہدف تنقید بنایا ہے۔ ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے وہ دکھی انسانیت کے مصائب و آلام پر تڑپ اٹھتے ہیں۔ منافقت،ریا کاری،دہشت گردی،موقع پرستی اور  درندگی سے نفرت ان کے ریشے ریشے میں  سما گئی ہے۔ وہ حرف صداقت کا آئینہ لیے قریہ قریہ مظلوم کی حمایت میں  دیوانہ وار پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی تحریروں  سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ جہد و عمل کے نقیب بھی ہیں  اور  تقدیر پر بھی ان کا پختہ ایمان ہے۔ وہ سمجھتے ہیں  کہ لوح تقدیر پر انسان کے مقدر کی جو سورت بتائی جاتی ہے اس سے مفر ممکن ہی نہیں۔ تقدیر ہر لمحہ،ہر مرحلہ اور  ہر گام پر انسانی تدبیر کے پرخچے اڑا کر انسان کو اس کی اوقات یاد  دلاتی ہے۔ سیل زماں  کا ایک تھپیڑا تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے بہا کر لے جاتا ہے۔ سلطان جمیل نسیم نے ایک حقیقت نگار کی حیثیت سے وقائع،تاریخ اور  تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں  جو انداز فکر اپنایا ہے وہ نہایت دل نشیں  ہے۔

           اسلوب کے بارے میں  یہ بات مسلمہ ہے کہ یہ کسی شخصیت کو منعکس کرتا ہے۔ سلطان جمیل نسیم کے اسلوب میں  ان کی شخصیت کا واضح  پر تو دکھائی دیتا ہے۔ وطن اور  اہل وطن سے قلبی وابستگی اور  والہانہ محبت ان کی شخصیت کا نمایاں  ترین وصف ہے۔ وہ نوع انساں  کے مصائب و آلام اور  درد و غم کو وہ اپنے ذاتی غم اور  صدمے سے تعبیر کرتے ہیں۔ دروں  بینی کی یہ کیفیت ان کے افسانوں  کو آفاقیت عطا کرنے کا وسیلہ  ثابت ہوتی ہے۔ جس طور سے ہم زیست کرنے پر مجبور ہیں  یہ ایک عالم جبر کی کیفیت کا مظہر ہے۔ فسطائی جبر کے ہاتھوں  آج مظلوموں  کی روح زخم زخم اور  دل کرچی کرچی ہو چکا ہے۔ سلطان جمیل نسم  نے ان کے درد کی ٹیس اور  کسک کو دل سے محسوس کرتے ہوئے ان کی داستان غم کو اپنے افسانوں  میں  جس فنی مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے وہ ایک منفرد تجربہ ہے۔ سلطان جمیل نسیم نے اپنے متنوع تجربات سے اردو افسانے کو دھنک رنگ مناظرسے سجا دیا ہے۔ یہ تحریریں  انسانی ہمدردی اور  حق و صداقت کے آفاقی اور  ابد آشنا تصورات کی آئینہ دار ہیں۔ ان اردو افسانوں  کا تعلق اگرچہ پاکستانی تہذیب و معاشرت اور  سماج سے ہے اور  اس کے سوتے ارض وطن ہی سے پھوٹتے ہیں  مگر یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ان افسانوں  کی ضیا پاشیاں ،اثر آفرینیاں ، اور عطر بیزیاں  حدود وقت سے بہت آگے نکل گئی ہیں۔ صدیوں  تک ان افسانوں  کی باز گشت سنائی دیتی رہے گی۔ قلم کے احترام کا جو ارفع معیار سلطان جمیل نسیم کی تحریروں  میں  دکھائی دیتا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ عصر حاضر میں  حریت فکر کے عظیم مجاہد ہیں۔ تخیل اور  شعور کے باہم اشتراک عمل کے اعجاز سے انھوں  نے فہم و ذکا کے لیے نئے آفاق کی جستجو کی ہے۔ ان کا قوی مشاہدہ،عمیق مطالعہ، بے پناہ یاد داشت، اعلیٰ بصیرت،ذوق سلیم،فہم و ادراک کی ارفع ترین سطح،مظلوم کی حمایت اور  ظالم سے نفرت ایسے اوصاف ہیں  جو ان کو منفرد اور  ممتاز مقام عطا کرتے ہیں۔ ایسے با کما ل ادیب کا وجود ملک،قوم اور  نوع انسانی کے لیے بہت بڑا اثاثہ ہے۔

    قحط الرجال کے موجودہ  زمانے میں  ہوس نے نوع انساں  کو انتشار اور  پراگندگی کی بھینٹ چھا دیا ہے۔ مادیت پسندی اور  سرما یہ دارانہ سوچ استحصال پر مبنی فسطائی جبر کے ہولناک اثرات کو اپنے اندر چھپائے ہوتی ہے۔ آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ دولت ہی کو معیار شرافت سمجھا جا رہا ہے۔ قحبہ خانے ،عقوبت خانے اور  چنڈو خانے چلانے والے جو فروش گندم نما عطائی ہر طرف دندناتے پھرتے ہیں۔ ڈوم ڈھاری،بھانڈ،بھڑوے ،مسخرے ،لچے اور  شہدے دولت کے بل بوتے پر قارون بن بیٹھے ہیں  اور  ان کے سفہا اور  ان کے ساتا روہن مظلوموں  کی بستیوں  کو گوانتا نا مو بے بنا کر رقص ابلیس میں  منہمک ہو جاتے ہیں۔ سلطان جمیل نسیم نے ہر ظالم کو اس کی اوقات یاد دلاتے ہوئے اس پر واضح کر دیا ہے کہ ان سے پہلے بھی جو ایک شخص دولت،جاہ و منصب پر غاصبانہ قابض تھا اس کو بھی یہی زعم تھا کہ وہ  قادر مطلق ہے لیکن یاد رکھنا چاہیے ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ ہی رہ جاتا ہے ،سلاطین  کے بدن ملخ و مور کے جبڑوں  میں  آ جاتے ہیں  سکندر اور  دارا جیسے نامیوں  کی قبر کا نشاں  بھی کسی کو معلوم نہیں سلطان جمیل نسیم اپنے خیالات کا اظہار بر ملا کرتے ہیں  اور  ان کے کر دار مختلف مقامات پر ایسے خیالات کا اظہار کرتے ہیں  جن سے فکر و نظر کے نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے افسانے ’’واپسی‘‘ کا ایک کر دار ’’منصور‘‘ ہے۔ منصور در اصل حالات کا رخ پہچان لینے کے بعد استحصالی عناصر کی شقاوت آمیز نا انصافیوں ،مکر کی چالوں  اور  وحشت و بربریت کے مسموم اثرات کو جان لیتا ہے۔ وہ ان خفاش منش وحشیوں  کی بگلا بھگت شخصیت  کا عکس اپنے باپ کے کر دار میں  دیکھ کر نہایت دکھ  محسوس کرتا ہے ،سلطان جمیل نسیم نے اس کے بارے میں  لکھا ہے :

                ’’۔ ۔ ۔ منصور کا ذہن ایک خاص ڈھب اور  خاص رخ پر لگ گیا تعلیم تو جیسی بھی تھی جاری رہی،لیکن اب اس کی سمجھ میں  یہ آ گیا اس کا باپ شہر کا ہی نہیں   ملک کا بہت ہی  با اثر صنعت کار اور  تاجر ہے۔ جس شخص کو چاہتا ہے بنا دیتا ہے جس کو چاہتا ہے بگاڑ دیتا ہے ،جس کو چاہتا ہے خرید لیتا۔ بننے اور  بکنے سے کوئی شص بھی بچ نہیں  سکتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منصور یہ بھی سمجھ گیا کہ اس کی ماں  اپنے غلط خیالوں  کی سزا بھگت رہی ہے دولت دھوپ کی دیوار نہیں۔ دولت تو ایک محفوظ قلعہ ہے جو بنانے والے کو اپنی پناہ میں  رکھتا ہے۔ ‘‘

ماں  کے جن خیالات کو منصور غلط قرار دیتا ہے در اصل ان کی صداقت مسلمہ بن جاتی ہے۔ اس کی ماں  کی  نصیحت اسے یاد آتی ہے تو اس کا دل اس کی گواہی دیتا ہے کہ ماں  کا کہنا سچ تھا۔ وہ ماں  جو شوہر سے علیحدہ ہونے کے بعد مرے کی صورت میں  اپنے ظالم شوہر کا کفن بھی قبول کرنے پر آمادہ نہیں  اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کرتی ہے۔

   ’’ہر شخص کو اپنی زندگی جینی چاہیے۔ غیرت اور  مجبوری کے علاوہ ہر شے خرید سکتے ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دل جس مطمئن ہو کام وہی اچھا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منصور بیٹا دوسروں  کی زندگی جینا اور  وہ بھی ایسی جس میں  چھینا جھپٹی کے کچھ نہ ہو،یہ زندہ رہنے والوں  کا شیوہ نہیں۔ ‘‘(میں  آئینہ ہوں   صفحہ  ۵۴)

      خیالات کی تونگری،عقل و خرد کی ثروت،فہم و ادراک کی وسعت اور  تجربات و مشاہدات کا تنوع اور  ندرت وہ لائق صد رشک و تحسین اوصاف ہیں  جو سلطان جمیل نسیم کو عالمی شہرت کا حامل عصر حاضر کا نابغہ اور  بے مثال افسانہ نگار ثابت کرتے ہیں۔ وہ افسانوں  میں  حقیقت نگاری کا ایسا التزام کرتے ہیں  کہ لفظی اور  معنوی صداقتوں  کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے اور  وحدت تا ثر کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ ان کی افسانہ نگاری زندگی کی حیات آفریں  اقدار کی ترجمانی کرتی ہے اور  مرگ آفریں  قوتوں  کے خلاف مسلسل نبرد آزما  رہنے کی دعوت دیتی ہے۔ وہ جمود کا خاتمہ چاہتے ہیں   اسی لیے زندگی کی حرکت و حرارت ان کی تحریروں  میں  فراواں  ہے۔ یہی مقصدیت ان کی تحریروں  کو صیقل کرنے کا موثر ترین وسیلہ ثابت ہوتی ہے۔ وہ یہ واضح کر  دیتے ہیں  کہ کر دار سے عاری  ذہنی افلاس کے مارے  بعض اجلاف و ارزال انتہائی گھٹیا مقاصد  اور  سفلہ خواہشات کے تابع ہو کر اپنے ضمیر کا گلا  گھونٹتے ہوئے مسلمہ صداقتوں ،اخلاقی اقدار، تہذیبی روایات اور  معاشرتی و ثقافتی مغائر کو تہس نہس کرتے ہوئے اپنے آپ کو ذلت،تخریب،نحوست،بے برکتی،بے غیرتی اور  بے ضمیری  کی ا تھاہ گہرائیوں  میں  غرق کر دیتے ہیں۔ سلطان جمیل نسیم نے  ایک قلم بکف مجاہد کی حیثیت سے ان تمام کرگس زادوں  اور  مشکوک نسب کے وحشیوں  کے خلاف طویل اور  صبر آزما جدو جہد کی ہے۔ وقت کے ہر فرعون،نمرود،قارون، شمر،یزید،ہلاکو خان، چنگیز خان،آسو بلا خان اور  شباہت شمر کو تیشہ حرف سے منہدم کرنا ان کا دستور العمل رہا ہے۔ آج کا انسان ذات کی تنہائی کے آشوب میں  مبتلا ہے۔ اس پر طرفہ تماشا یہ کہ آلام روزگار کے مہیب بگولے اس کی شمع زیست بجھانے  کے در پئے ہیں۔ یہ  بجا کہ فطرت لالے کی حنا بندی میں  ہر لمحہ مصروف عمل ہے اس کے باوجود بے وفائی اور  ہجوم یاس سے فرد گھبرا جاتا ہے۔ یہ تنہائیاں  ہر اس شخص کے لیے سوہان روح بن جاتی ہیں   جو محبتوں  میں  ہوس کا اسیر نہیں  بنتا بلکہ حریت ضمیر سے زندہ رہنے کی روش اپناتا ہے۔ جزیرہ جہلا میں  گھر ا شخص جانتا ہے کہ چار سو تو سمندر ہے نکل کے کوئی کہاں  جائے چار سو تو سمندر ہے اپنے گلے میں  اب تو اپنی ہی بانہیں  ڈالنا ہوں  گی۔ اپنے افسانے ’’ دھند ‘‘ میں  سلطان جمیل نسیم نے لکھا ہے :

    ’’جب آدمی اندر بسے صحرا میں  بھٹک رہا ہو تو شہروں  کا ہجوم  بھی اس کی تنہائی دور نہیں  کر سکتا۔ ‘‘ (میں   آئینہ ہوں۔ ۔ ۔ ۔ صفحہ ۷۹)

’’   اپنے آپ کو پہچاننے کا دعویٰ کون کر سکتا ہے۔ پہچانتے تو دوسرے ہیں  اور  آدمی ساری عمر دوسروں  کی پہچان کے دائرے میں  چکر کھاتا رہتا ہے۔ ‘‘(میں  آئینہ ہوں۔ ۔ صفحہ ۱۲۲)

 ’’اب ہمدردی جتانے کے لیے ہم زبان اور  ہم قوم ہونا ضروری ہو گیا ہے۔ ۔ ۔ اپنے گروہ کے لیے تو جان لڑا دیتے ہیں  لیکن  دوسرے کی جان پر بھی بنی ہو تو اس کی فریاد  سے کان پر جوں  نہیں  رینگتی‘‘

’’ مختار ہونے کا جذبہ کسی آدمی  کے اندر جب درخت کی طرح سر اٹھاتا ہے تو وہ ساری دنیا کو اپنے سائے میں  سمجھنے لگتا ہے  مجھے بھی یوں  محسوس ہوا  جیسے میں  بہت اونچا ہوں۔ ۔ کسی دیوتا کی طرح۔ ۔ ۔  کسی تن اور درخت  کے مانند۔ ۔ ۔  جیسے موت کی دھوپ اور  زندگی کی چھاؤں  میرے اختیار میں  ہے۔ ‘  ‘(میں  آئینہ ہوں۔ ۔ ۔ صفحہ ۱۶۳)

’’ہمارے معاشرے کی دیواروں  میں  ایک شگاف پڑ گیا ہے جہاں  سے کرنسی  بہتی ہوئی آ رہی ہے اگر جلد یہ شگاف بند نہ کیا گیا تو سیلاب دیوار توڑ دے گا،جس کے ریلے میں  پیار و محبت،امن و سکون اور  تہذیب و تمدن وغیرہ سب بہہ جائیں  گے۔ ‘‘(ایک شام کا قصہ۔ ۔ ۔ صفحہ ۱۰۰)

 سلطان جمیل نسیم کے افسانوں  کا  اسلوبیاتی مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انھوں  نے اولوالعزمی،ایثار،خلوص،دردمندی،جذبۂ انسانیت نوازی اور   بنیادی انسانی حقوق کو اپنی تحریروں  میں  کلیدی  مقام دیا ہے۔ وہ  محبت کو ہر قسم کی آلودگی سے پاک دیکھنے کے آرزومند ہیں۔ وہ نفسانیت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ،ان کے افسانوں  میں ہوس زر کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ وہ ایسی محبت کے جذبات کو مہمیز کرنا چاہتے ہیں  جو سفلی خواہشات،ہوس مال و زر،خود غرضی،نفس پرستی اور  جھوٹی انا کی جکڑ بندیوں  سے نکل کر دلوں کو مرکز مہر و وفا کر دے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ محبت میں  تقلیدی،غیر حقیقی اور  غیر فطری  انداز پسند نہیں  کرتے بلکہ بے ساختگی اور  والہانہ پن انھیں  دل و جان سے عزیز ہے۔ زندگی اور  اس کی مقتضیات کے متعلق ان کے نظریات عصری آگہی کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ ڈی۔ ایچ۔ لارنس نے کہا تھا:

 ’’ زندگی کے سوا کوئی چیز اہم نہیں۔ جہاں  تک میرا تعلق ہے ،میں  زندگی کو زندہ ہستیوں  کے اندر ہی دیکھ سکتا ہوں  باہر مطلق نہیں  اور  سب سے بڑا مظہر زندہ بشر ہے۔ یوں  تو بارش میں  گوبھی کا پھل تک زندگی کا حامل ہوتا ہے اور  جتنی زندہ چیزیں  ہوتی ہیں  سب حیران کن ہوتی ہیں  اور  جتنی بھی مردہ چیزیں  ہوتی ہیں ،زندہ چیزوں  کا ضمیمہ ہوتی ہیں۔ مردہ شیر سے زندہ کتا بہتر ہوتا ہے مگر زندہ کتے سے زندہ شیر ہونا بہتر ہے اور  یہی زندگی ہے۔ ‘‘( بحوالہ مظفر علی سید(مترجم):فکشن فن اور  فلسفہ،مکتبہ اسلوب،کراچی،بار اول ۱۹۸۶۔ صفحہ ۳۵۔ )

  سلطان جمیل نسیم نے زندگی کے بارے میں  ایسے ہی خیالات کو اپنے اسلوب میں  رو بہ عمل لانے کی کوشش کی ہے۔ زندگی سے محبت کے ذریعے در اصل وہ اپنی ذات اور  کائنات سے محبت کی بات کرتے ہیں  اس طرح شخصیت کی نمو کے امکانات روشن تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ وہ ارادی اعمال کی مؤثر تنظیم کے ذریعے اخلاقیات کو زندگی سے مربوط کرنے کی بات کرتے ہیں۔ انسانیت سے بے لوث محبت بظاہر ان کی عادت ہے لیکن حقیقت میں  یہ ان کی فطرت ثانیہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ان کے کر دار کے باطنی پہلو ان کی سیرت کے غماز ہیں  یہی پہلو ان کی تحریروں  میں  جب سامنے آتے ہیں  تو قاری ان کا گرویدہ بن جاتا ہے۔ اپنے افسانوں  میں  وہ تمام ارادی اعمال  کو لا شعوری یا ارادی طور پر اس لیے پیش نظر رکھتے ہیں  کہ اصلاح کی کوئی صورت سامنے آ سکے۔ ان کی سیرت کا خارجی پہلو تو  ان کے اعلیٰ کر دار کی صورت میں  سامنے آتا   ہے جب کہ کر دار کا جوہر سیرت کی شکل میں  دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کا اسلوب ایک چھلنی کے مانند ہے جس میں  سے چھن کر ان کی شخصیت کے یہ تمام پہلو قاری کے دل و جاں  کو مسخر کر لیتے ہیں۔ سلطان جمیل نسیم کی خاندانی شرافت اور  عظمت کا ایک عالم معترف ہے۔ ان کے خاندان کی علمی و ادبی خدمات تاریخ ادب میں  آب زر سے لکھی جائیں  گی۔ تاریخ ہر دور میں  ان کے نام کی تعظیم کرے گی۔ ان کا اسلوب جہاں  ان کی زندگی،معاشرتی حالات،سماجی میلانات اور  تہذیبی و ثقافتی اقدار کو اپنے دامن میں  سموئے ہوئے ہے وہاں  زندگی کی متنوع کیفیات،موسموں  کی دھنک رنگ دلفریبی،شدید ترین جذبات و احساسات کا بان بھی ان کے اسلوب کو سحر نگار بنا دیتا ہے۔ دل کے کھلنے اور  مرجھانے کے بدلتے ہوئے منظر نامے ان کی تحریروں  صاف جھلکتے ہیں۔

ایک بلند پایہ افسانہ نگار کی حیثیت سے سلطان جمیل نسیم نے اپنے افسانوں  میں  جو کر دار متعارف کرائے ہیں   ان کا مطالعہ مختلف پہلوؤں  سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ کر دار جبلی سطح پر ایک الگ کیفیت سامنے لاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب وہ ایک ابلہ،خسیس،کینہ پرور، حاسد اور  شقی القلب کر دار کا ذکر کرتے ہیں  تو ایسے کر دار کی کمینگی،کم ظرفی،بے غیرتی اور  بے ضمیری غیر ارادی طور پر اس کے اعمال و افعال سے ظاہر ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہاں  ان کے افسانے ’’ بھٹکا ہوا ‘‘ کے ایک کر دار ’’نوراں  ‘‘کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا جسے  شکورا نامی ایک شخص نے مکمل طور پر منہدم کر دیا۔  سلطان جمیل نسیم نے نوراں  کے بارے میں  لکھا ہے کہ اس جواں  سال لڑکی کی الہڑ جوانی پورے گاؤں  کو اپنی لپیٹ میں  لے چکی تھی:

 ’’نوراں  کا وجود گاؤں  بھر کے لیے خارش کے اس زخم کی طرح تھا جس کو کھجانے سے تکلیف ہوتی ہے مگر تسکین بھی ملتی ہے۔ ‘‘

شکورا جو بزعم خود ایک بد معاش ہے اسے ایک جسم فروش رزیل طوائف کے ہاتھوں  خفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب  وہ اسے حقارت سے کہتی ہے :

  ’’بڑا بد ماس بنا پھرتا ہے۔ سریف آدمی کہیں  کا۔ بھاگ جا یہاں  سے میرا دھندہ خراب نہ کر‘‘(میں  آئینہ ہوں۔ ۔ ۔    صفحہ ۱۰۲)

           معاشرتی زندگی کے تضادات،ارتعاشات اور  بے اعتدالیاں  دیکھ کر سلطان جمیل نسیم کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ انھیں  اس بات کا شدید قلق ہے کہ چربہ ساز،سارق،کفن دزد اور  جامہ ابو جہل میں  ملبوس رذیل ترین وحشی رواقیت کے داعی بن بیٹھے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ معاشرتی زندگی کی بے حسی نے اس زیرک تخلیق کار کو شدید کرب اور  اضطراب میں  مبتلا کر دیا ہے۔ الم ناک تجربات،روح  فرسا حادثات، اور تلخ و تند قسم کے اتفاقات نے انھیں  دل شکستہ کر دیا ہے۔ نفسیاتی اعتبار سے ایسی کیفیت بیزاری کی محرک بن جاتی ہے اور  ایسا ہونا ایک فطری بات معلوم ہوتی ہے۔ جب سلطان جمل نسیم کا سینہ و دل حسرتوں  سے چھا جاتا ہے اور  ہجوم یاس میں  ان کا دل گھبرانے لگتا ہے تو اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہیں  اور  تزکیہ نفس کے ذریعے حقائق کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرتے چلے جاتے ہیں انھوں  نے زندگی کے مختلف ادوار کے بارے میں  فکر و خیال کی جو لا نیاں  اس بے تکلفی سے دکھائی ہیں  کہ ان کی لفظی مرقع نگاری کے اعجاز سے قاری چشم تصور سے دلوں  کے تمام موسم دیکھ لیتا ہے۔ زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس ان کے اسلوب میں  صاف نظر آتی ہے۔ ایک کامیاب اور  صاحب طرز افسانہ نگار کی حیثیت سے ان کا یہ اسلوب ان کی ذات کا معتبر حوالہ بن کر سامنے آتا ہے :

        ’’زندگی خواب نہیں   ہے مگر خوابوں  میں  زندگی ہوتی ہے۔ نجمہ کی زندگی میں  بھی خوابوں  سے سجی راتوں  نے ڈیرا ڈال  لیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عمر کے ساتھ خوابوں  کا ماحول بھی بدلتا چلا گیا۔ تو اس نے ململ کے دوپٹے کی طرح خواب اوڑھ کر راتوں  کا سینہ ڈھک لیا۔  اس رات بھی وہ ایک ایسا ہی خواب دیکھ رہی تھی جو فرصت کے جاگتے لمحوں  میں  اگر خیال بن جائے تو سارے بدن پر لمس کی صورت یوں  رینگنے لگے کہ بیٹھے بیٹھے جھرجھری آ جائے۔ ‘‘( میں  آئینہ ہوں۔ ۔ صفحہ ۱۶۴ )

           سلطان جمیل نسیم نے کر دار نگاری  میں  جو بے تکلفی اپنائی ہے وہ ان کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔   موضوع، مواد اور  زبان و بیان کے انتخاب میں  ان کے ذوق سلیم کی داد دینا ضروری ہے۔ موقع اور  موضوع کی مناسبت سے ان کے کر دار جو گفتگو کرتے ہیں   وہ پتھروں  سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔ ان کی تحریریں  بر جستہ،بر محل اور  فوری ابلاغ کا وسیلہ ثابت ہوتی ہیں :

  ’’جاگتی آنکھوں  میں  ٹوٹے خوابوں  کی کرچیوں  نے بکھر کر گلابی ڈوروں  کا ایسا جال بچھا دیا تھا  کہ جس کی طرف نظر اٹھ جاتی وہ اسیر ہو کے رہ جاتا۔ ۔ ۔ اپنی ان ہی نیم وا آنکھوں  کے ساتھ جب وہ عروسی پلنگ پر بٹھائی گئی تو امجد اس کا اوڑھنا بچھونا بن کر رہ گئے ‘‘   (میں  آئینہ ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صفحہ ۱۶۶ )

   زندگی کی حقیقی معنویت اور  عملی زندگی کی تمازت کو جو منفرد روپ سلطان جمیل نسیم کے افسانوں  میں  دکھائی دیتا ہے  وہ ان کی انفرادیت کی شاندار مثال ہے۔ ان کے اسلوب کے دو پہلو خاص طور پر قابل توجہ ہیں  ایک تو یہ کہ وہ اس بات کے متمنی ہیں  کہ ہوائے جور و ستم میں  بھی رخ وفا کو بجھنے نہ دیا جائے۔ زندگی کے خارجی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان تمام امور پر نگاہ مرکوز کر دی جائے جو زندگی کی رعنائیوں  کو گہنا دینے کا سبب بن جاتے ہیں۔ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آخر وہ کون سے ننگ انسانیت درندے ہیں  جن کی بے رحمانہ مشق ستم،شقاوت آمیز نا انصافیوں ،اہانت آمیز سلوک،انسانی حقوق کی پامالی،بھتہ خوری،دہشت گردی،جنسی جنون،لوٹ مار اور   وحشت و بربریت کے باعث رتیں  بے ثمر،کلیاں  شرر،عمریں  مختصر،زندگیاں  پر خطر اور  بستیاں  خوں  میں  تر کر دی گئی ہیں  وہ ان تمام بیرونی عوامل کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے آرزومند ہیں   جو مسرت و شادمانی کی راہ میں  تار عنکبوت بن گئے ہیں۔ ان کے عقوبتی رویے کے باعث بے بس اور  مظلوم انسانوں  کی امیدوں  کی فصل غارت اور  صبح شام کی محنت اکارت چلی جاتی ہے۔ سلطان جمیل نسیم کے اسلوب کا دوسرا منفرد پہلو یہ ہے کہ وہ کچلی ہوئی بے بس و لاچار انسانیت  کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنا اپنا نصب العین سمجھتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ جو ظلم پہ لعنت نہ کرے وہ آپ لعین ہے اور  جبر کا ہر انداز لائق استرداد نہیں  ٹھہراتا وہ فسطائی جبر کو برداشت کرنے سے انکار نہیں  کرتا اسے دین کا منکر سمجھنا چاہیے۔

  سلطان جمیل نسیم کا شمار عالمی شرت کے حامل مایہ  ناز  پاکستانی ادیبوں  اور  دانشوروں  میں  ہوتا ہے۔ انسانیت کے وقار اور  سر بلندی کے لیے ان کی خدمات کا عدم اعتراف نہ صرف حقائق سے شپرانہ چشم پوشی  کے مترادف ہو گا بلکہ اسے احسان فراموشی پر محمول کیا جائے گا۔ اردو ادب کا کوئی دیانت دار نقاد ان کے کمالات کا اعتراف کیے بغیر نہیں  رہ سکتا۔ ان کے بارے میں  اختر الایمان کا یہ شعر لکھتے ہوئے ایک گونہ طمانیت کا احساس ہوتا ہے کہ اس وقت اردو افسانے کا جو تخلیقی منظر نامہ ہے وہ افق ادب پر مثل آفتاب ضو فشاں  ہیں ؛اختر الایمان کا یہ شعر سلطان جمیل نسیم کے اسلوب کے بارے میں بر محل ہے   ؎

کون ستارے چھو سکتا ہے        راہ میں  سانس اکھڑ جاتی ہے

      سلطان جمیل نسیم کے افسانے اسلوب اور  ہیئت کے جمالیاتی عناصر کا صحیح تصور سامنے لاتے ہیں ،ان کے منفرد اسلوب کے حسن کا راز انہی عناصر میں  مضمر ہے۔ اپنے افسانوں  میں  انھوں  نے انسانی نفسیات کی متعدد گتھیاں  سلجھانے کی کوشش کی ہے اور  اس سعی میں  انھیں  بڑی حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اپنے ماحول اور  معاشرے کے حوالے سے انھوں  نے جو کچھ لکھا وہ ان کی ذات کا نہایت معتبر حوالہ بن کر سامنے آیا ہے ان کا قلم اس تہذیب و ثقافت کا محافظ اور  امین ہے جو ہماری سماجی زندگی میں  صدیوں  سے پروان چڑھ رہا ہے۔ انھوں  نے پاکستان کی قومی اور  علاقائی زبانوں  کے کلاسیکی ادب سے بھی استفادہ کیا ہے اس کے ساتھ ساتھ عالمی ادبیات کے گل ہائے رنگ رنگ کی عطر بیزیاں  بھی ان کی تحریروں  میں  اپنا جلوہ دکھا رہی ہیں۔ انھوں  نے دوسری تہذیبوں  کی اقدار و روایات سے اردو ادب کو متعارف کرا کے ایک مستحسن اقدام کیا ہے۔ ان افسانوں  کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب بھی معاشرے میں  انسانیت کے خلاف ناروا سلوک اور  استحصا ل پر مبنی رویہ عام ہو گا باہمی احترام کے جذبات عنقا ہوتے چلے جائیں  گے اس کے بعد تہذیبی بے یقینی معاشرے کو اس مقام پر پہنچا دیتی ہے جہاں  انسانی اقدار خیال و خواب بن جاتی ہیں۔ ان کا فنی جذبہ غیر شخصی ہے اس لیے ان کی شخصیت تخلیق فن کے لمحوں  میں

پس منظر میں  رہتی ہے۔ ان کی تخلیقات میں  ماضی،حال اور  مستقبل کے بارے  میں  جو مثبت انداز فکر دکھائی دیتا ہے وہ عصری آگہی عمدہ مثال ہے۔ ان کی پر کشش،جاذب اور  مقبول شخصیت کا راز یہ ہے کہ وہ اپنی حقیقت سے آگاہ ہیں  اور  خرد کی گتھیاں  سلجھانے کا سلیقہ جانتے ہیں  یہاں تک کہ مقام شوق میں  بھی وہ مستانہ وار رہ وادی ء خیال کامیابی سے طے کر لیتے ہیں۔    ان کے فن کے سوتے ان کے قلب و  روح کی گہرائیوں  سے پھوٹتے ہیں۔ اردو افسانے کو موضوعات،مواد،مکالمات،پلاٹ اور  کر دار نگاری کے لحاظ سے سلطان جمیل نسیم نے مضبوط اور  مستحکم بنیاد عطا کی ہے ان کا اسلوب خوشبو کے مانند نہاں  خانہ ء دل کو معطر کر دیتا ہے۔ انھوں  نے جو پھول کھلائے ہیں  ان کی تازگی خزاں  سے نا آشنا ہے۔

  سلطان جمیل نسیم کے افسانوں  میں  متعدد علامتیں  استعمال ہوئی ہیں۔ ان علامات کو ایک نفسیاتی کل کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ لا شعور کی توانائی کو مہمیز کرنے میں  ان علامات کا ایک اہم کر دار ہے۔ ان افسانوں  کا  ڈسکورس  تازگی اور  ندرت کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ یہ ڈسکورس تخلیق کار،قاری اور  تمام کر داروں  کے باہم اشتراک عمل کا مظہر ہے۔ ایک بانجھ عورت اور  اس کے شوہر کے مابین اختلافات کا بڑا سبب اولاد کا نہ ہونا ہی ہے یہ ڈسکورس  قاری پر سوچ کے نئے دروازے کھولتا ہے۔ ان کے ایک افسانے زوال کی ایک کر دار خورشید ہے جو اپنے شوہر کی اولاد کی تمنا کے جواب میں  اس طرح کے استدلال کا سہارا لیتی ہے یہ سوچ اس  عورت کے اندرونی خلفشار اور  جذباتی نا آسودگی  کو نمایاں  کرتی ہے :

    ’’ایسی ہی ہوتیں  تو آج ہم دونوں  کے ساتھ ہمارا بچہ نہ ہوتا‘‘ سلیم نے بظاہر مسخرے پن سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ لیکن خورشید یہ سنتے ہی عجیب شش و پنج میں  پڑ گئی۔ مرد شادی کا حاصل بچے کو کیوں  سمجھتا ہے ،کسان کی طرح فصل کی تمنا کیوں  رکھتا ہے۔ دونوں  میاں  بیوی ہنسی خوشی زندگی بسر کریں  یہ کیوں  نہیں  چاہتا؟‘‘(میں  آئینہ ہوں۔ ۔ ۔ صفحہ ۶۸)

     زندگی کا کوئی موضوع ایسا نہیں  جو سلطان جمیل نسیم کے افسانوں  میں  موجود نہیں۔ قیام پاکستان کے بعد جن افسانہ نگاروں  نے جدید عصری تقاضوں  کے مطابق ادب تخلیق کیا ان میں  سلطان جمیل نسیم کا نام اس اعتبار سے ممتاز مقام رکھتا ہے کہ انھوں  نے زندگی کی حقیقی مقصدیت اور  معنویت کو مدلل انداز میں  پیش کیا۔ اپنے اسلوب میں  انھوں  نے نہایت وضاحت اور  صراحت کے ساتھ مسائل زیست کو اپنے افسانوں  کا موضوع بنایا۔ انھوں  نے غیر یقینی حالات میں  بھی حوصلے اور  امید کی شمع  فروزاں  رکنے کی راہ دکھا ئی و ہ جانتے ہیں  کہ بے یقینی غلامی سے بھی بد تر ہوتی ہے اس کے مسموم اثرات سے تہذیب و تمدن بھی گہنا جاتا ہے۔ سلطان جمیل نسیم نے شہریت کے جملہ عوامل کو موضوع بنایا ہے۔ انسانی شخصیت کی تعمیر در اصل معاشرے کی مر ہون منت ہے۔ اچھا شہری  ہی اچھا انسان کہلا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں  تو فرد کی شخصیت اپنے معاشرے سے الگ کوئی حیثیت نہیں  رکھتی۔ سلطان جمیل نسیم نے اپنے افسانوں  میں  معاشرتی زندگی میں  رونما ہونے والی کجی کو نہایت کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے اور  اس کی اصلاح کے امکانات کا جائزہ اس فنی مہارت سے لیا ہے کہ قاری اس سے گہرا تاثر قبول کرتا ہے۔

  تفتیشی اداروں  میں  جو غیر انسانی رویہ دوران تفتیش ملزموں  کے ساتھ اپنایا جاتا ہے اس کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ خاص طور پر ہماری پولیس کا وحشیانہ تشدد ہمارے لیے پوری دنیا میں  بد نامی کا باعث بن چکا ہے۔ سلطان جمیل نسیم نے اپنے افسانے  ’’انکشاف‘‘ کے ایک کر دار کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس کر دار پر جو بیتی وہ آج بھی لمحہ فکریہ ہے :

  ’’کسی ملزم سے بھی اقرار کرانے کے لیے ایسے طریقے استعمال نہیں  کیے جاتے ہوں   گے جیسے حربے وہ مجھ پر آزما رہے تھے۔ چاقو کی نوک سے انھوں  نے میرے بدن کو گود ڈالا تھا۔ بسورتی ہوئی خراشوں  کو زار و قطار روتے ہوئے زخموں  میں  بدل دیا تھا۔ خون کا رنگ فرش پر گرنے  اور  میرے چندی چندی  کپڑوں  پر ٹپکنے کے بعد سیاہ پڑ گیا تھا،میری ایک آنکھ سوج کر بند ہو گئی تھی۔ دونوں  ہونٹ نیلے ہو کر گوشت کے لو تھڑے کی طرح لٹک گئے تھے۔ ناک میں  خون جم جانے سے سانس لینا دشوار ہو گیا تھا۔ ‘‘(ایک شام کا قصہ۔ ۔ ۔ ۔ صفحہ ۱۲ )

    تہذیبی اعتبار سے ہمارا معاشرہ اگرچہ تکنیکی طور پر اکملیت کا داعی ہے مگر جہاں  تک روحانیت کا تعلق ہے تو  وحشت و بربریت کا عفریت آج ہمارے سروں  پر منڈلا رہا ہے۔ دلوں  میں  فاصلے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ دل کی آزادی کا تصور اب خیال و خواب بن چکا ہے۔ حالانکہ یہ دل ہی ہے جو سوز و ساز رومی کا امین ہے۔ سلطان جمیل نسیم نے افسانے ’’سہارا‘‘ میں  دل کے حوالے سے بڑی معنی خیز بات کی ہے :

   ’’دل قبر نہیں  ہوتا جہاں  یادوں  کو دفن کر دیا جائی تو پھر ان کی صورت ہی نظر نہ آئے۔ دل تو دریا ہوتا ہے جہاں  ڈوبنے والوں  کی لاشیں  ابھر آتی ہیں ‘‘(ایک شام کا قصہ۔ ۔   صفحہ ۱۰۴)

  سلطان جمیل نسیم کے افسانوں  میں  معقولیت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا تصور نمایاں  ہے ان کی خواہش ہے کہ جو بھی صورت حال ہو اس کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا جائے اور  ظلم کے سامنے سپر انداز ہونے

کے بارے میں  سوچنا بھی عبث ہے۔ فرد کا تعلق اپنی تہذیب اور  معاشرت سے ہوتا ہے ،قدرتی اور  حسی حالات بھی اپنی اصلیت کے اعتبار سے جمالیاتی حالات سے منسلک رہتے ہیں۔ سلطان جمیل نسیم نے عالمی کلاسیک کا بنظر غائر جائزہ لینے کے بعد جدید عالمی ادب کے مسلمہ مغائر کو بھی اپنے اسلوب کی اساس بنایا ہے۔ ان کے افسانوں  میں  موضوعات کا تنوع،انداز فکر کی ندرت، اسلوب کی انفرادیت،زبان و بیان کی پاکیزگی،سلاست،روانی، تسلسل، خلوص،دردمندی اور  حریت فکر کے عناصر اپنی تمام تر تابانیوں   اور  جلوہ سامانیوں  کے ساتھ سامنے آ کر جہان تازہ کی نوید سناتے ہیں۔ ان کے افسانوں  میں  انسانی جذبات اور  احساسات کا بیان اس قدر دل نشیں  انداز میں کیا گیا ہے کہ تحریر کا ایک ایک جملے دل میں  اترتا چلا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ جملے قابل توجہ ہیں :

’’ انتظار کی دھوپ میں  آدمی دھیرے دھیرے سوکھتا ہے۔ وقت اسے گیلے کپڑے کی طرح ایک دم نہیں  نچوڑتا بلکہ آہستہ آہستہ بل دے کر اس کے صبر کو بوند بوند ٹپکاتا رہتا ہے (میں  ایک آئینہ ہوں  : صفحہ ۱۶۵)

انسانی زندگی میں  ایسے لمحات بھی آتے ہیں  جب کوئی محرم راز اس کے درد کا درماں  تلاش نہیں  کرتا بلکہ جن پہ تکیہ ہوتا ہے وہی پتے ہوا  دینے لگتے ہیں۔ مار آستین اسے ڈسنے کے لیے اس پر جھپٹتے ہیں  اور  اس طرح اس کی نجی زندگی اس طرح کے سراغ رسانوں  کے عقوبتی طریقوں  کی وجہ سے عذاب بنا دی جاتی ہے۔ سلطان جمیل نسیم نے لکھا ہے :

  ’’دل کا حال اور  ابتر ہو گیا،جب یہ احساس ہو جائے کہ ہر لمحہ کوئی دیکھ رہا ہے تو انسان بہت ہی محتاط ہو جاتا ہے۔ ‘‘

     سلطان جمیل نسیم کو انسانی نفسیات پر عبور حاصل ہے۔ وہ انفرادی میلانات اور  احساسات کے بارے میں  جو رائے قائم کر لیتے ہیں  وہ سو فی صد درست ثابت ہوتی ہے۔ انسان کے دل میں  ہزاروں  خواہشیں  ایسی جنم لیتی ہیں  کہ ہر خواہش پہ دم نکلتا ہے۔ اس کے باوجود انسان بے بسی کے  عالم میں  لب اظہار پر تالے لگا کر زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہے۔ جب اجالے داغ داغ اور  سحر شب گزیدہ بنا دی جائے تو مفلوک الحال طبقہ اپنی حسرتوں  پر آنسو بہا کر اسے اپنی تقدیر کا لکھا قرار دیتا ہے۔ سلطان جمیل نسیم نے لکھا ہے :

  ’’ان حالات میں  جب اپنی خواہشوں  کے ساتھ ساتھ اپنی آواز کو بھی قابو میں  رکھنا ضروری ہو،ایک بے مقصد بات کہنا،ہیولوں  کے خوف میں  مبتلا ہو جانا،فریب نظر کو نشان منزل سمجھ لینا۔ ۔ ۔ سفر کو کٹھن بنا دیتا ہے۔ (ایک شام کا قصہ۔ ۔ ۔ صفحہ ۷۴)

طبقاتی کشمکش کے بارے میں  سلطان جمیل نسیم نے ترقی پسندانہ شعور کو بروئے کار لانے کی کامیاب سعی کی ہے۔ انھوں  نے ظالم و سفاک،موذی و مکار اور  خونخوار سرمایہ داروں  کی انسان دشمن چالوں  کو نفرت کی نگاہ  سے دیکھتے ہوئے انھیں  ہدف تنقید بنایا ہے۔ انھوں  نے واضح کر دیا ہے کہ امیر اور  غریب آدمی کی زندگی میں  زمین آسمان کا فرق ہے۔ محنت کش طبقہ قرنوں  سے مصائب و آلام کے مہیب پاٹوں  میں  پستا چلا آ رہا ہے جب کہ استحصالی طبقہ غریبوں  کا خون چوس کر عیاشی اور  اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہو چکا ہے۔ حریت ضمیر سے جینے والے اور  اسوۂ شبیر پر چلنے والے اب تک صعوبتوں  کے سفر میں  ہیں   جب کہ ابن الوقت،مفاد پرست اور  آدم خور بے ضمیروں  کی پانچوں  گھی میں  اور  وارے نیارے ہیں۔ سلطان جمیل نسیم ایک عظیم محب وطن  پاکستانی  ہیں۔ اپنی تہذیب،ثقافت،مذہب اور  مٹی کی محبت ان کے ریشے ریشے میں  سما گئی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وطن محض چمکتے ہوئے کنکروں  کا نام نہیں  بلک یہ تو اہل وطن کے جسم اور  روح سے عبارت ہے۔ وطن کا ایک ایک ذرہ انھیں  اپنی جان سے پیارا ہے ان کے دل کی آواز یہ ہے کہ ارض وطن پر ایسی فصل گل کا نزول ہو جو خزاں  کی مسموم ہواؤں  کے اندیشے سے بے نیاز ہو۔ فرد کے ہاتھوں  فرد کا استحصال ان کے نزدیک درندگی اور  سفاکی کی انتہا ہے۔ ہر فرعون کو اپنی فرد عمل کا حساب دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ سلطان جمیل نسیم کے افسانوں  میں  حوصلے اور  امید کی  شمع فروزاں  رکھی گئی ہے وہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں  کہ جبر کے خلاف کھل کر بات کرنا اقتضائے وقت ہے۔ سفہا کے مظالم سہنا اور  ان کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کرنا منافقت کی دلیل ہے۔ سلطان جمیل نسیم ہر قسم کی زیادتی پر صبر کر سکتے ہیں  مگر معاشرتی زندگی میں  رونما ہونے والی شقاوت آمیز نا انصافیوں ،بے رحمانہ انتقامی کارروائیوں  اور  عصبیتوں  پر مبنی امتیازی سلوک پر وہ تڑپ اٹھتے ہیں۔ وہ ضمیر کی للکار پر لبیک کہنے پر اصرار کرتے ہیں  اور  درندہ صفت وحشیوں  کو چیلنج کرتے ہیں  کہ اگر ان میں  اتنی قوت ہے تو وہ ان کو بھی پاش پاش کر دیں۔ اس مقتل میں  صرف ان کی سوچ کو لہکتی ڈال کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ  ابن الوقت،مفاد پرست اور  انسان نما بھیڑیوں  کو للکارتے ہیں  کہ اب ان پر بھی ایک کاری ضرب لگا دی جائے  ورنہ جب تک سانس ہے وہ ظلم کے سامنے اپنے تن من دھن کی بازی لگانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں  گے۔ ان کا یہ طرز عمل حق گوئی و بے باکی کی درخشاں  مثال ہے۔

   سلطان جمیل نسیم کے افسانوں  کے تمام کر دار معاشرتی زندگی میں  جا بجا نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے افسانے ’’خاک کے سوا‘‘ میں  ایک کر دار ہے جس کا نام ’’ٹھیکے دار گل خان ‘‘ ہے اس کا کچا چٹھا اس افسانے میں  اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ قاری اس ننگ انسانیت ٹھیکے دار گل خان  کی بد اعمالیوں  اور  قبیح کر دار سے نفرت کرنے لگتا ہے۔

    ’’ٹھیکے دار گل خان میرے جاننے والے ہیں۔ پانچ برس پہلے تین روپے ادھار مانگنے آئے تھے۔ اب سیکڑوں  بلڈنگیں  کھڑی کر دی ہیں ،لاکھوں  میں  کھیلتے ہیں۔ ‘‘(ایک شام کا قصہ۔ ۔ صفحہ ۳۶)

نیرنگی سیاست دوراں  یہ ہے کہ منزلوں  پر ان لوگوں  نے غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے جو شریک سفر ہی نہ تھے۔ ان لوگوں  کے منہ سے تلقین اعتماد کے الفاظ سننے پڑ رہے ہیں  جنھیں  پوری دنیا غیر معتبر قرار دے چکی ہے۔ یہی ہماری معاشرتی زندگی کا المیہ ہے  کہ چور محل میں  جنم لینے والے ،بھتہ خوری، اور کالے دھن سے اپنی تجوریاں بھرنے والے جب  دہشت گرد مافیا(Under World)کے بغل بچے کے طور پر چور دروازے سے گھس کر جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ جم لیتے ہیں  تو پورے معاشرے کو یرغمال بنا کر مجبوروں ،مظلوموں  اور  بے بس انسانوں  کے چام کے دام چلاتے ہیں یہ سنڈاس اپنے ماضی کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں ،پیہم حرام خوری ان کا وتیرہ بن جاتا ہے ملمع سازی سے جو فروش گندم نما لوگ مسلسل فریب کاری میں  مصروف رہتے ہیں۔ اگرچہ جید جاہل اپنی جہا لت کا انعام پانے میں  کامیاب ہو جاتے ہیں  مگر ان کی گھناؤنی صورت اہل درد سے کبھی پوشیدہ نہیں  رہ سکتی۔ تاریخ ایک مسلسل عمل کا نام ہے تاریخ کا ایک ہی سبق ہے کہ تاریخ سے کوئی بھی سبق سیکھنے کے لیے آمادہ نہیں۔ گرگ آشتی کا مکر جلد سامنے آ جاتا ہے ،ایسے لوگوں  کو یہ حقیقت فراموش نہیں  کرنی چاہیے کہ جعل سازی،چربہ سازی اور  کفن دزدی سے شیخ الجامعہ کا منصب ہتھیانے والا شیخ چلی منش راسپوٹین کبھی صاحب تمکیں  نہیں  ہو سکتا،ہمالیہ کی بلند و بالا چٹان پر جا دھمکنے  سے گدھ کبھی عقاب نہیں  بن سکتا،گلستاں  میں درختوں  کی کھوہ میں سر چھپا کر چیرہ دستیوں  میں  منہمک رہنے سے بوم کسی طور سرخاب نہیں  کہلا سکتا،شیش محل میں  جھپٹ کر کسی شہتیر کے  ساتھ الٹا لٹک جانے کے باوجود شپر قیامت تک ہما نہیں  بن جاتا اسی طرح جاہ و منصب کی اندھی طاقت اور  کالے دھن کی بے لگام نخوت کے بل بوتے پر کوئی فرعون خدا نہیں  کہلا سکتا۔ سیل زماں  کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے اس کے بعد ٹھیکے دار گل خان،چکلہ دار آصف اق ورے معاشرے کو یر و دریا ہوتا ہیی تشکیل: بال خان،نادر خان،چنگیز خان،رذیل ترین رنگو اور  سباہت کمر جیسے ننگ انسانیت وحشی خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتے ہیں۔ ان کا نام و نشاں  تک نہیں  ملتا۔ یہی نوشتہ دیوار ہے اور  یہی قضا و قدر کا فیصلہ ہے اس سے مفر ممکن ہی نہیں۔ فطرت کی تعزیریں  نہایت سخت ہیں ،چیرہ دستوں  کو اس سے غافل نہیں  رہنا چاہیے۔

             سلطان جمیل نسیم نے اپنے مشاہدات،تجربات،جذبات اور  احساسات کو اس فنی مہارت سے افسانوں  میں  پیش کیا ہے کہ ان کی تحریریں  جہاں  قاری کے لیے قلب و روح کی تفسیریں  ثابت ہوتی ہیں  وہاں  استحصالی عناصر کے لیے یہ فطرت کی تعزیریں  بن جاتی ہیں۔ سلطان جمیل نسیم کی باتیں  دل سے نکلتی ہیں  اور  سیدھی دل میں  اترتی چلی جاتی ہیں۔ ققاری اس تمام تخلیقی عمل میں  خود کو شریک محسوس کرتا ہے۔  کامیاب ابلاغ کی یہ شاندار مثال ہے۔ ان کے افسانوں  میں  اعتدال و توازن کی جو دلکش کیفیت موجود ہے اس کے اعجاز سے جمالیات، حسن و صداقت اور  ضمیر کی للکار کے باہمی اشتراک سے ایسے نادر ادب پارے منصہ شہود پر آتے ہیں  جو وحدت تاثر کی بدولت  قاری کے ذہن کی تطہیر و تنویر کا سامان لیے ہوئے ہیں۔  سلطان جمیل نسیم کا نام افق ادب پر تا اب مثل آفتاب و ماہتاب ضو فشاں  رہے گا۔ ان کے افکار کی ضیا پاشیوں  کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ انھوں  نے اپنی تخلیقی کامرانیوں  سے نہ صرف اردو زبان و ادب کی ثروت میں  اضافہ کیا ہے بلکہ علمی ادب کو بھی معیار اور  وقار کی رفعت سے آشنا کیا ہے۔ وہ دلوں  کو مسخر کرنے کا فن جانتے ہیں  اس لیے انھیں  فاتح زمانہ کہا جاتا ہے۔ ایک زیرک،جری اور  فعال تخلیق کار کی حیثیت سے سلطان جمیل نسیم نے حسن اور  لطافت کی تہذیب  اور  زندگی کے حقائق کی صورت گری اس طرح کی ہے کہ قاری بے اختیار پکار اٹھتا ہے ؎

اے مصور تیرے ہاتھوں  کی بلائیں  لے لوں

٭٭٭

 

ڈاکٹر بشیر سیفی

      آلام روزگار کے مہیب بگولوں  میں  گھرا اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کر کے یاد ایام کا حساب کر رہا تھا کہ ڈاکٹر بشیر سیفی کی دلکش  حسین یادوں  نے بے حساب آزردہ کر دیا۔ آج سے دس برس قبل وہ عدم کے لیے کوچ کر گئے۔ اس عرصے میں  وہ ایک لمحے کے لیے بھی یادوں  سے محو نہ ہو سکے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے فضاؤں  میں  ہر سمت ان کی عطر بیز یادیں  بکھری ہوئی ہیں ،جس سمت بھی نظر اٹھتی ہے ان کے حسن اخلاق کا جادو مسحور کر دیتا ہے اور  ان کی معجز نما شخصیت کا کرشمہ دامن دل کھینچتا  ہے۔ ان کے جانے سے خانۂ دل میں  ویرانی اور  اداسی نے مستقل طور پر ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ کئی بار دل میں  یہ خیال آیا کہ ان کے بارے میں  کچھ لکھوں لیکن ان کی یادوں  کے زخم اس قدر گہرے ہیں  ان سے روح زخم زخم اور  دل کرچی کرچی ہو گیا۔ اپنی فگار انگلیوں  سے جب بھی کچھ لکھنے کی سعی کی دیدۂ گریاں  سے آنسوؤں  کی جھڑی لگ گئی اور  تمام الفاظ صفحہ ء قرطاس سے آنسوؤں  میں  بہہ گئے۔ وہ اس قدر محبت کرنے والے ،ہمدرد اور  انسانیت نواز تھے کہ ان کی موجودگی ایک نعمت خداوندی کے برابر تھی۔ ان کی رحلت نے احباب کو بے بسی،بے چارگی اور  بے سر و سامانی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ان کی اچانک وفات اتنی بڑی محرومی ہے جس کی تلافی کبھی نہیں  ہو سکتی۔ یہ اتنا بڑا نقصان ہے جس کے مسموم اثرات سے گلشن ادب پر خزاں  کے آثار نمایاں  ہیں۔ دنیا بلاشبہ دائم آباد رہے گی مگر ایسا عظیم شخص کہاں  سے لائیں  جسے ڈاکٹر بشیر سیفی جیسا کہا جا سکے۔

      علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،اسلام آباد میں  اب تک جتنے نابغہ ء روزگار ادیب اور  یگانۂ روزگار فاضل تدریسی خدمات پر مامور رہے ہیں ،وہ اس عظیم جامعہ کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز ہے۔ دنیا کی کوئی اور  یونیورسٹی اس اعزاز و افتخار میں اس کی شریک و سہیم نہیں۔ ایک زمانہ تھا جب اس تاریخی مادر علمی میں  پاکستان کے چوٹی کے ماہرین تعلیم،دانش ور ،مورخ اور  ادیب تدریسی کام میں  منہمک تھے۔ ان میں  ڈاکٹر محمد ریاض،ڈاکٹر رحیم بخش شاہین،ڈاکٹر اعجاز راہی،ڈاکٹر محمود الرحمن،پروفیسر نظیر صدیقی،ڈاکٹر نثار احمد قریشی اور  ڈاکٹر بشیر سیفی  کے نام کسی تعارف کے محتاج  نہیں۔ یہ سب کے سب پارس تھے جو مس خام کو کندن بنانے کی صلاحیت سے متمتع تھے۔ یہ سب اس طرح ید بیضا کا معجزہ  دکھاتے کہ ذرے کو آفتاب بننے کے فراواں  مواقع میسر آ جاتے۔ حیف صد حیف علم و ادب کے یہ سب آفتاب  اب عدم کی بے کراں  وادیوں  میں  غروب ہو چکے ہیں  یہ باغ خدا جانے کس کی نظر کھا گئی۔ اب دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے۔ ڈاکٹر بشیر سیفی کا تعلق شعبہ اردو سے تھا۔ تخلیق ادب اور  تدریس ادب ان کے عشق تھے۔ وہ جب بولتے تو ان کی باتوں سے پھول جھڑتے ،پڑھاتے تو دلوں  کو ایک ولولہ ء تازہ نصیب ہوتا  اور  سامعین ہم تن گوش ہو کر ان کی بصیرت افروز باتیں  سنتے۔ وہ اپنی مؤثر تدریس سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اس طرح اہتمام کرتے کہ ان کے شاگرد ان کے شیدائی ہو جاتے ،ان کو شبانی سے کلیمی دو قدم محسوس ہوتی۔

        ادبی نشستوں کا انعقاد  ڈاکٹر بشیر سیفی کا ایسا ذوق تھا جس کی خاطر وہ سب کچھ قربان کرنے پر ہمہ  وقت آمادہ رہتے تھے۔ ادبی نشست کہیں بھی ہو وہ ہر حال میں  وہاں  پہنچتے اور  اپنی تخلیقات سے محفل کو کشت زعفران بنا دیتے۔ ان کی شگفتہ مزاجی،تخلیقی بصیرت،عصری آگہی،تنقیدی شعور،تحقیقی سلیقہ اور  ذوق سلیم ان کے وہ اوصاف ہیں  جو ان کی عظیم شخصیت کے استحکام کی دلیل ہیں۔ راول پنڈی،اسلام آباد میں  وہ ہ ادبی تقریب کی روح رواں  ہوتے۔ انھوں  نے بہر ملاقات ادبی نشستوں  کے انعقاد کے ایک سلسلہ شروع کیا جو ان کی وفات تک جاری رہا۔ ڈاکٹر بشیر سیفی کو اللہ تعالیٰ نے صبر و استغنا اور  تحمل و بردباری  کی فراواں  دولت عطا کی تھی۔ وہ مشاعروں  میں  متشاعروں  کا کلام بھی نہایت تحمل سے سنتے مگر حرف شکایت لب پر نہ لاتے۔ کئی چربہ ساز،سارق،کفن دزد،جعل ساز اور  خفاش منش سفہا جو گلشن ادب میں طفیلی اور  لفاظ حشرات سخن کے مانند گھس آئے ہیں وہ ان کی لاف زنی سن کر بھی چپ سادھ لیتے اور  کسی کی دل شکنی کبھی نہ کرتے۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ اجالے کی اہمیت سمجھنے کے لیے تاریکی کا ادراک ضروری ہے۔ اگر کانٹے نہ ہوں  تو پھولوں  کی نفاست،نزاکت،رنگ،خوشبو اور  حسن و خوبی کے استعاروں کی تفہیم کیسے ممکن ہے ؟ان کی زندگی ایک شمع فروزاں  کے مانند تھی۔ وہ تمام عمر روشنی کے سفر  کو جاری رکھنے پر اصرار کرتے رہے انھیں  یقین تھا کہ نظام کہنہ ایک گرتی ہوئی عمارت ہے اس کے سائے میں  عافیت سے بیٹھنے کو خواب دیکھنے والے احمقوں  کی جنت میں  رہتے ہیں۔ روشنیوں  کی راہ میں  خواہ سد سکندری بھی حائل ہو سیل زماں  کے تھپیڑے اسے خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتے ہیں۔ وہ اپنی دلکش باتوں  سے دلوں  کو مرکز مہر و وفا کرنے میں  اپنا ثانی نہیں  رکھتے تھے۔ ان سے مل کر نہ صرف زندگی سے محبت ہو جاتی بلکہ زندگی کی حقیقی معنویت کا احساس  فزوں  تر ہو جاتا۔

      ڈاکٹر بشیر سیفی نے کچھ عرصہ ایک ادبی جریدے  کی مجلس ادارت کے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ نو آموز تخلیق کاروں  کا ایک المیہ یہ ہے کہ وہ کاتا اور  لے دوڑا کے اصول کو اپنا وتیرہ بنا لیتے ہیں۔ متشاعر اپنی خام تحریروں  کی فوری اشاعت پر اصرار کرتے ہیں   اور  چربہ ساز رواقیت کے داعی بن بیٹھتے ہیں۔ ان حالات میں  جاہل بھی اپنی جہالت کا انعام حاصل کرنے کی خاطر ہر حربہ استعمال کرتا ہے اور  وقت ایسے حادثات سامنے لاتا ہے کہ مشکوک نسب کے شیخ چلی منش جہلا اپنے منہ  میاں  مٹھو بن کر کفن پھاڑ پھاڑ کر اپنی جعل سازی کی تحسین پر مصر رہتے ہیں۔ اسی قسم کا ایک واقعہ ڈاکٹر بشیر سیفی کے ساتھ بھی پیش آیا۔ ایک متشاعر نے جو اکثر اپنی فرسودہ تحریریں  انھیں  ارسال کیا کرتا تھا اپنے ایک مکتوب میں  انھیں  لکھا کہ اس کا والد اسے تخلیق فن سے روکنے کے لیے جسمانی تشدد کرتا ہے اور  اس کا یہ تادیبی رویہ اس کے تخلیقی عمل کی راہ میں  دشواریاں  پیدا کر رہا ہے۔ اس نے یہ بھی لکھا   کہ وہ اس ظالمانہ اقدام کے خلاف آواز اٹھائیں  اور  اس کی مدد کریں۔ اس کے جواب میں  ڈاکٹر بشیر سیفی نے اس چربہ ساز متشاعر کو لکھا کہ جس قسم کی تحریریں   وہ انھیں  روانہ کرتا ہے انھیں  پڑھ کر ان کا بھی یہی جی چاہتا ہے کہ تمھارے والد سے مل کر تمھاری خوب  دھنائی کی جائے۔  تمھاری اصلاح کے لیے جو بھی اقدام کیے جا رہے ان میں  تمھارے والد قطعی حق بہ جانب ہیں   اور  میں  ان سے متفق ہوں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عقل مند کے لیے تو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے جب کہ سارق،خبطی،چربہ ساز اور  کفن دزد  ننگ انسانیت پر تو خدا کی مار بھی پڑنی چاہیے ،محض انسانوں  کی زجر و تو بیخ کافی نہیں۔ اس کے بعد وہ نام نہاد متشاعر ایسے  غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اس قسم کے بصیرت افروز،فکر پرور اور  خیال انگیز واقعات سے ان کی ادبی زندگی لبریز ہے۔

       ادبی تحقیق،تنقید اور  تخلیق میں  ڈاکٹر بشیر سیفی جس جگر کاوی کا مظاہرہ کرتے  وہ اپنی مثال آپ ہے۔ بنیادی مآخذ تک رسائی کی خاطر وہ تمام وسائل بروئے کار لاتے۔ ایک سہل پسند محقق نے ان سے یہ تقاضا کیا کہ وہ موضوع تحقیق کی بر وقت تکمیل میں  ان کی مدد کریں  بلکہ ہو سکے تو کچھ  صفحات خود لکھ کر دے دیں۔ ڈاکٹر بشیر سیفی نے اس محقق کی بے بصری،کور مغزی اور  ذہنی افلاس کو محسوس کرتے ہوئے اس سے چند سوالات دریافت کیے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے :

 ڈاکٹر بشیر سیفی : شہید کسے کہتے ہیں  ؟

طالب علم : وہ جو راہ حق میں  جان قربان کر دے۔

ڈاکٹر بشیر سیفی :کس کی جان ؟

طالب علم :(ہنستے ہوئے ) ظاہر ہے وہ اپنی جان راہ حق میں قربان کرے گا تب ہی وہ شہید کہلائے گا،لیکن اس سوال کا میرے مسئلے سے کیا تعلق ہے ؟مجھے تحقیق کا فن نہیں  آتا آپ میری جگہ میرے تحقیقی مقالے کی تکمیل کر دیں  میں  آپ کا ممنون  بھی ہوں  گا اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر بشیر سیفی:تو پھر کان کھو ل کر سن لیجیے جس طرح کوئی شخص اپنی جان راہ حق میں  قربان کیے بغیر شہید نہیں  کہلا سکتا اسی طرح کوئی شخص جب تک خود تحقیق نہ کرے کبھی محقق نہیں  کہلا سکتا۔

 یہ سن کر وہ سہل طلب طالب علم اپنی حسرتوں  پر آنسو بہاتا ہو ا وہاں  سے رفو چکر ہو گیا۔ سنا ہے بعد میں اس نے بعد میں  ا اپنا کام کسی قلم فروش سے کروا ہی لیا  اور  اس طرح  چور دروازے سے داخل ہو کر میرٹ کا بھی کام تمام کر دیا۔ اس بے حس معاشرے میں  ہر انہونی ممکن ہے۔ ڈاکٹر بشیر سیفی نے اپنے قلم کو اپنے ضمیر کی امانت خیال کیا۔ قلم اور  لفظ کی حرمت  کی خاطر انھوں نے مقدور بھر جدوجہد کی۔ اپنے شاگردوں  کو وہ ہمیشہ محنت،لگن اور  فرض شناسی کا بلند ترین معیار قائم کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ وہ اپنی جان جوکھوں  میں  ڈال کر تدریس کو مقاصد کی رفعت میں  ہمدوش ثریا کرنے کی مساعی میں  منہمک رہے۔

      وطن اہل وطن اور  بنی نوع انساں  کے ساتھ والہانہ محبت اور  قلبی وابستگی ہمیشہ ان کا نصب العین رہا۔  ان کی بارہ کے قریب وقیع تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ انھوں نے کبھی ستائش اور  صلے کی تمنا نہ کی۔ جو کچھ ان کے دل پہ گزرتی وہ اسے الفاظ کے قالب میں  ڈھال دیتے۔ وہ تمام عمر پرورش لوح و قلم میں  مصروف رہے۔ ان کی تحریریں  حریت فکر کا بلند ترین معیار پیش کرتی ہیں۔ تحقیق،تجزیہ اور  تنقید پر مبنی ان کی تحریریں  ان کی دیانت داری،صداقت،بے باکی اور  ذہانت کی دلیل ہیں۔ ان کی شاعری میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کی کوشش صاف دکھائی دیتی ہے۔ ان کا شعری مجموعہ ’’موجود،، شائع ہوا تو ان کی شہرت میں  بہت اضافہ ہوا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی شاعری میں  اپنی شخصیت کو ہمیشہ پس منظر میں  رکھتے ہیں  اور  زمانے بھر کے غم ان کی شاعری میں  سمٹ آئے ہیں۔ اپنی شاعری میں  انھوں نے دکھی انسانیت کے مسائل کو  نہایت خلوص اور  دردمندی کے ساتھ اشعار کے قالب میں  ڈھالا ہے۔ عملی زندگی میں  بھی وہ غریب اور  پس ماندہ  طبقے کے ساتھ بہت پیار کرتے تھے۔ ہر سال عید اور  قربانی کے موقع پر وہ جامعہ علامہ اقبال کے درجہ چہارم کے تمام ملازمین کو عیدی دیتے اور  انہیں مٹھائی پیش کرتے۔ ان کے دفتر کے دروازے ہر ملنے والے کے لیے ہمہ وقت کھلے رہتے تھے۔ اگرچہ وہ محکمہ تعلیم میں  اعلیٰ منصب پر فائز تھے مگر ان کے مزاج میں  مصنوعی رعب و دبدبہ اور  جاہ و جلال بالکل موجود نہ تھا۔ عجز و انکسار اور  فقر و استغنا ان کے مزاج  کا اہم ترین حصہ رہا۔ دفتر کے کلرک بھی ان سے بے تکلفانہ لہجے میں  بات کرتے تھے۔ شعبہ پاکستانی زبانیں  کے ایک ملازم نے انھیں  پشتو شاعری  کے تراجم کی طرف راغب کیا۔ ان کا خیال تھا کی علاقائی زبانوں  کے ادب میں  جو فکری سرمایہ موجود ہے اس سے استفادہ کرنا بہت ضروری ہے۔

      ادبی اقدار و روایات کو ڈاکٹر بشیر سیفی بہت اہم خیال کرتے تھے وہ قدر کو ایک ایسے مقیاس سے تعبیر کرتے تھے جس کی بدولت تخلیق فن اور  تخلیق کار کے افعال کی رفعت کو جانچا اور  پرکھا جا سکتا ہے۔ ان کے نزدیک قدر کو ایک کسوٹی سمجھناچاہیے جو معاشرتی زندگی میں  افراد کے تمام اعمال اور  افعال کے زیر و بم کو حقیقی صورت میں  سامنے لانے پر قادر ہے۔ وہ حیات آفریں  اقدار کو ادب کے لیے ناگزیر سمجھتے تھے۔ انہی کی بدولت ایک ادیب تخلیق فن کے لمحوں  میں  خون بن کر رگ سنگ میں  اتر سکتا ہے۔ ان کی گفتگو،رویے ،اسلوب اور  زیست کے اطوار سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا ظاہر اور  باطن یکساں  تھا۔ وہ منافقت اور  ریاکاری سے شدید نفرت کرتے تھے۔ وہ نمود و نمائش کے بہت خلاف تھے۔ دنیا بھر میں  ان کے  لاکھوں شاگرد عملی زندگی میں  فعال کر دار ادا  کر رہے ہیں۔ ان میں  سے کئی تو بلند ترین اور  کلیدی عہدوں  پر بھی فائز ہیں  مگر انھوں  نے کبھی ان کا حوالہ دے کر کسی کو مرعوب کرنے کی کوشش نہ کی۔ جب کوئی شاگرد ان سے ملنے کے لیے آتا تو اس کی خاطر تواضع میں  کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے۔ ان کے آرام اور  آسائش کے لیے مقدور بھر کوشش کرتے۔ شبیر احمد اختر ان کے ایک شا گرد  تھے انھیں  بلند فشار خون کا عارضہ لاحق تھا۔ اسلام آباد میں  پرہیزی غذا کا حصول اور  وہ بھی ہوسٹل یا ریسٹورنٹ میں  جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ایک تعلیمی ورکشاپ کے سلسلے میں  ہم منسٹری آف ایجوکیشن  کے ہوسٹل میں  ٹھہرے ہوئے تھے۔ پش اور موڑ کے ہوٹل کے کھانے کھا کر شبیر احمد اختر کی طبیعت بگڑ گئی۔ ڈاکٹر بشیر سیفی کو معلوم ہوا تو فوری طور پر اس طالب علم کو ہمراہ لے کر اپنے گھر پہنچے اور  اس کی مطلوبہ غذا جن میں  ابلی ہوئی سبزیاں ،نمک کے بغیر کھانا، اور کولیسٹرول سے پاک تیل میں  پکی ہوئی اشیا شامل تھیں  ان کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ صرف اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ غلہ منڈی سے کینولا خرید کر اسے گھر میں  صاف کرایا اور  کوہاٹی بازار راول پنڈی  کے ایک تیلی سے مل کر کولھو سے خالص کینولا کا تیل نکلوا لائے۔ اس طرح ایک دن کے بعد ہی اس طالب علم کی طبیعت ہشاش بشاش ہو گئی۔ وہ  اپنے استاد کے اس حسن سلوک سے اس قدر متاثر ہو کہ ان کی آمد پر دیدہ و دل فرش راہ کرتا۔ ڈاکٹر بشیر سیفی کو بجا طور پر فاتح زمانہ کہا جاتا تھا،وہ دلوں کو مسخر کرنے کا ہنر جانتے تھے۔

      درجہ چہارم کے ایک ملازم  جو کہ یونیورسٹی کے کباڑ خانے کا  چوکیدار تھا  پر محکمانہ افتاد پڑی اس کا تبادلہ رات کی شفٹ میں  کر دیا گیا۔ اس نے رو رو کر ڈاکٹر بشیر سیفی کو بتایا کہ اس کی اہلیہ کا انتقال ہو چکا ہے۔ کم سن بچے ہیں  جو رات کی تنہائی کی اذیت کی تاب نہیں  لا سکتے۔ وہ درخواست لے کر مارا مارا پھر رہا ہے مگر کوئی اس کا پرسان حال نہیں۔ یہ کہہ کر وہ زار و قطار رونے لگا  اور  نوکری کو خیرباد کہنے کے عزم کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر بشیر سیفی نے اسی وقت درخواست اس ملازم سے لے لی اور  اس پر اپنے نوٹ میں  لکھا:

’’اگر یہ ملازم رات کو یونیورسٹی کے کباڑ خانے کی حفاظت پر مامور ہو گا تو اس کے چھ کم سن بچوں  کی حفاظت کون کرے گا ؟ان حالات میں  اگر اس کے بچوں  کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس کی تمام ذمہ داری متعلقہ تحقیقاتی ادارے یونیورسٹی پر ڈالیں  گے اس لیے یونیورسٹی کے مفاد کی خاطر یہ تبادلہ فوری طور پر منسوخ کرنے کی استدعا کی جاتی ہے ،،

  رجسٹرار آفس میں  یہ درخواست جوں  ہی پہنچی اسی وقت تبادلہ منسوخ کر دیا گیا۔ وہ ملازم دعائیں  دیتا ہو چلا گیا۔ مجبور،بے بس اور  مظلوم انسانیت کے ساتھ انھوں  نے جو عہد وفا استوار کیا اسے زندگی بھر نبھایا۔ دکھی اور  سسکتی انسانیت کی خدمت  کے کاموں  میں  وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور  ہر حال میں  راضی بہ رضا رہنا ان کا شیوہ تھا۔ ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا کہ کسی طور آلام روزگار کے مہیب بگولوں  کی زد میں  آنے والے مجبور انسانوں  کی زندگی میں  حوصلے اور  امید کی شمع فروزاں  کی جائے۔

      قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں  زندگی کی اقدار عالیہ کو شدید خطرات کا سامنا  ہے۔ نا اہل اور  غبی عناصر چور دروازے سے گھس کر رشوت اور  سفارش کے بل پر جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کرنے میں  کامیاب ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر بشیر سیفی نے ہمیشہ میرٹ اور  استحقاق کی بالا دستی کو یقینی بنانے پر زور دیا۔ 19995کا واقعہ ہے ایک بیوروکریٹ کی بیٹی نے ایم۔ فل میں  داخلہ لیا وہ مشقی کام نہ کر سکی اور  خالی پرتوں  پر نمبر لگانے کے لیے ڈاکٹر بشیر سیفی پر دباؤ ڈالا گیا۔ انھوں  نے ببانگ دہل کہا ’’میں  ایسے کام نہیں  کیا کرتا۔ میں  اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہر کام کرتا ہوں۔ میں  کسی دھونس،دھمکی یا بلیک میل سے کبھی ہراساں  نہیں  ہوا۔ اس طالبہ کو ہر حال میں  مشقی کام کرنا پڑ ے گا ورنہ اس کو مشقی کام میں  ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا‘‘ ان لوگوں  نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا مگر ڈاکٹر بشیر سیفی اپنے اصولوں  کے پکے تھے۔ ہر قسم کے دباؤ اور  فسطائی جبر کو پائے استقامت سے ٹھوکر مارنا ان کا شیوہ تھا۔ اس بار بھی انھوں  نے فراعنہ  کو ان کی اوقات یاد دلا دی۔ کر دار اور  شخصیت کے وقار کا اس قدر بلند معیار ان کو منفرد اور  ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ آخر کار اس طالبہ کو مشقی کام کرنا پڑا تب کہیں  جا کر اس کا سمیسٹر تکمیل کو پہنچا۔ وہ طالب علموں  کی بھلائی کو ہمیشہ ملحوظ رکھتے تھے۔ ان کے لاکھوں  شاگرد اس بات کے شاہد ہیں کہ انھوں  نے ذہین اور  با صلاحیت طلبا اور  طالبات کی مقدور بھر اعانت کی اور  انھیں  حوصلے اور  اعتماد کے ساتھ اپنا تعلیم سفر جاری رکھنے پر آمادہ کیا۔ غریب اور  مستحق طلبا و طالبات کے تعلیم اخراجات پورا کرنے کے سلسلے میں  انھوں  نے ہر سطح پر جدوجہد کی۔ متعدد طلبا اور  طالبات نے اس سرچشمۂ فیض سے اکتساب کیا اور  آج اپنے روشن مستقبل کے سفر پر کامیابی سے گامزن ہیں۔

          میرا یہ اعزاز و افتخار ہے کہ مجھے عظیم ماہر تعلیم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ ان کا شاگرد ہونا ایک بہت بڑی سعادت اور  خوش قسمتی ہے۔ انھوں  نے میری اتنی پذیرائی کی کہ میرے لیے تحقیق اور  تنقید کے مراحل آسان ہوتے چلے گئے۔ میر ی ایم۔ فل اور  پی ایچ۔ ڈی تک کے تمام اہم مراحل میں  ان کی مش اور ت میرے لیے خضر راہ ثابت ہوئی۔ یہ ان کا اتنا بڑا احسان ہے جسے میری  عقیدت سے لبریز آنکھیں  ممنونیت کے جذبات سے پرنم ہو کر دیکھتی ہیں اور  میرا عقیدت بھرا دل ان کے قدموں  میں  نچھ اور ہونے کے لیے بے تاب ہو کر محسوس کرتا ہے الفاظ ان کے حقیقی مقام و منصب اور  عنایات پر اظہار تشکر کرنے  سے قطعی طور پر قاصر ہیں۔

      2002کے اواخر میں  مجھے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر بشیر سیفی کی طبیعت ناساز  رہنے لگی ہے۔ میں  فی الفور طویل سفر کر کے ان کے گھر راول پنڈی پہنچا۔ میں  نے دیکھا کہ ان کا پھول جیسا چہرہ آلام روزگار کی تمازت سہتے سہتے قدر ے کملا گیا تھا۔ نہ تو ان کے الفاظ میں  ترنگ تھی اور  نہ ہی لہجہ دبنگ تھا۔ میں  نے خیریت دریافت کی تو کہنے لگے ایک گردے نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے  تاہم دوسرا گردہ بدستور ٹھیک کام کر رہا ہے۔ انھوں  نے مجھے حوصلہ دلاتے ہوئے کہا کہ فکر اور  اندیشے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں  نے دل تھام لیا  اور  بوجھل قدموں  کے ساتھ جھنگ آ گیا۔ میں  نے تمام متعلقہ اداروں  کو ایک مکتوب کے ذریعے اس عظیم دانشور کے علاج کی التجا کی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک جنگل میں  گھر گئے ہیں  جس میں  جنگل کا قانون نافذ ہے۔ یہاں  بے بس و لاچار انسانیت کی فغاں  سننے والا کوئی نہیں۔ میری ساری آہ و فغاں  صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ چند ما ہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر بشیر سیفی کی حالت سنبھل نہیں  رہی۔ اس بار میں  نے دیکھا کہ وہ ہڈیوں  کا ڈھانچہ بن گئے تھے اِن کے  دونوں  گردے کام کرنا چھوڑ چکے تھے۔ ان کو علاج کے لیے بیرون ملک نہ بھجوایا جا سکا اور  یوں  ایک عظیم انسان زینہ زینہ وقت کی تہہ میں  اتر کر قلزم خوں  پار کر گیا۔ ان کی وفات سے یہ ثابت ہو گیا کہ اس بے حس معاشرے میں  استاد کا کوئی پرسان حال نہیں۔

       ڈاکٹر بشیر سیفی کی پوری زندگی فروغ علم و ادب میں  گزری۔ وہ پرورش لوح و قلم کے ذریعے نئے حقائق اور  نئی بصیرتوں  کی جستجو کاجو نادر انداز انھوں  نے اپنایا وہ ان کی ذات کے درخشاں  پہلو سامنے لاتا ہے۔ وہ زندگی کے فیوض و برکات کے معترف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ زندگی تو حرکت و حرارت سے عبارت ہے جب کہ جمود کو وہ موت سے تعبیر کیا کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ موت ایک جان لیوا صدمے کا نام ہے۔ جیسے ہی اس کا خیال آتا ہے دلوں  کے زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔ اپنی تحریروں ، تدریس،تنقید اور  تحقیق کے ذریعے انھوں  نے تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں  مثبت شعور و آگہی بیدار کرنے کی جو کوششیں  کیں  ان کے ہمارے ادب پر دور رس اثرات مرتب ہوں  گے۔ ان کا خیال تھا کہ تہذیبی ارتقا دراصل تاریخی شعور کا مرہون منت ہے۔ ان کی شخصیت میں  شگفتگی،خلوص،دردمندی،بے ساختگی اور  جولانی کے عناصر ان کی افتاد طبع کے مظہر تھے۔ جب وہ علمی و ادبی نشستوں  کا اہتمام کرتے تو ان کی قوت مشاہدہ انھیں جہان تازہ کی نوید سناتی۔ وہ راست گوئی کے دلدادہ تھے۔ وہ کبھی مصلحت پسندی کا شکار نہیں  ہوئے۔ وہ مقام شبیری کو حقیقت ابدی کا نام دیتے تھے۔ جب کہ انداز کوفی و شامی پیہم بدلتے رہتے ہیں۔ ان کی زندگی حریت ضمیر سے جینے کا شاندار نمونہ قرار دی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے انھوں  نے اسوۂ شبیر کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ وہ ایک مستقل مزاج اور  اولوالعزم انسان تھے۔ ان کا بلند کر دار ان کی عظیم الشان شخصیت کی اساس تھا۔ ان کے مزاج میں  تذبذب اور  گو مگو کی کیفیت کبھی نہیں  دیکھی گئی۔ ان کی زبان ہمیشہ ان کے دل کی رفیق رہی۔ یہ ان کا شعار صادق تھا کہ جب وہ کہہ دیتے اس پر قائم ہو جاتے۔ نتائج سے بے پروا وہ اپنے حقیقت پسندانہ موقف پر ڈٹ جاتے۔ ان کی حق گوئی اور  بے باکی کو ان کے دوست ان کا دستور العمل قرار دیتے تھے۔ ان کی مضبوط شخصیت میں  جو والہانہ پن پایا جاتا تھا وہ اپنے اندر ایک شان دل ربائی لیے ہوتا تھا،جو ہر ملنے والے کو ان کا گرویدہ بنا دیتا تھا۔

       زندگی کا ساز بھی کیا عجب ساز ہے جب تک بجتا رہتا ہے اپنی دلکش دھن سے ایک عالم کو مسحور کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر بشیر سیفی کی زندگی کے رباب کے تار فرشتۂ اجل نے اس طرح توڑے کہ ان کا اب کسی صورت میں  بحال ہونا ممکن نہیں۔ اس کے باوجود یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ڈاکٹر بشیر سیفی کی زندگی کے ساز سے جو حسین اور  دلکش دھنیں  نکلیں  پوری دنیا ان پر گوش بر آواز ہے۔ انھوں  نے جمود کا خاتمہ کیا اور  بے حسی کو بیخ و بن سے اکھاڑنے میں  اپنی تمام صلاحیتیں  بروئے کار لاتے رہے۔ اس مسحور کن رباب سے جو پر کیف نغمے پھوٹے وہ تا ابد دلوں  کو ایک ولولہ ء تازہ عطا کرتے رہیں  گے اور  ان کی پیروی کرنے والے ان کے چھیڑے جانے والے نغموں  کی دھن سے ہر دور میں  ایسے مسحور کن نغمے تخلیق کرتے رہیں  گے جن میں  اسی دھن کی باز گشت سنائی دے گی۔ زمانہ لاکھ ترقی کرے ایسے سریلے بول پھر کبھی کانوں  میں  رس نہیں گھول سکتے۔ ان کی شاعری،افسانہ نگاری،انشائیہ نگاری،تحقیق،تنقید اور  موثر تدریس نے پوری دنیا میں  اپنی اہمیت و افادیت کو تسلیم کرایا۔

         ڈاکٹر بشیر سیفی آج ہمارے درمیان موجود نہیں۔ علم و ادب کا یہ آفتاب جہاں  تاب پوری دنیا کو اپنی ضیا پاشیوں  سے منور کرنے کے بعد موت کے بھیانک تاریک بادلوں  میں  چھپ چکا ہے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس علم و ادب کے خورشید کی  تابانیاں  نگاہوں  کو خیرہ کر دیتی ہیں۔ فاصلاتی تعلیم کے ذریعے پوری دنیا میں  ان کے دس لاکھ کے قریب شاگرد موجود ہیں۔ میٹرک،ایف۔ اے ،بی۔ اے ،ایم فل اور  پی ایچ۔ ڈی سطح کے کورسز کے لیے ان کے لکھے گئے نصابی یونٹ ان کو شہرت عام اور  بقائے دوام کے منصب پر فائز کر تے ہیں۔ اس دنیا میں  اساتذہ کی کوئی کمی نہیں۔ ہر بوالہوس نے اس کوچہ کو یرغمال بنا نے کی کوشش کی ہے۔ اساتذہ کی اس فوج ظفر موج میں  ڈاکٹر بشیر سیفی جیسا استاد کہیں  دکھائی نہیں  دیتا۔ تدریس کو پیشۂ پیغمبری قرار دینے والے اس عظیم استاد کے بار احسان سے ادب کے طلبا کی گردن ہمیشہ خم رہے گی۔ وہ جو کچھ تھے اپنی ذاتی اوصاف کی وجہ سے تھے۔ وہ تعلقات عامہ کی بیساکھیوں  سے بے نیاز تھے۔ وہ ایک ایسے کھلے ہوئے امکان کے مانند تھے جو ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت  سامنے لانے پر قادر تھے۔  اور ان کا اسلوب ید بیضا کا معجزہ دکھانے پر قادر تھا۔ وہ دل کی گہرائیوں  سے بات کرتے تھے اور  ان کی قلبی واردات کا ابلاغ بھی اسی سرعت سے ہوتا تھا۔ ان کی بات کی قوت پرواز لا محدود تھی۔

      ایک عظیم استاد کی رحلت ہر حال میں ایک جان لیوا صدمہ اور  ماتم طلب کیفیت  پر منتج ہوتی ہے۔ ڈاکٹر بشیر سیفی جیسا محبوب استاد،عدیم النظیر مفکر،بے مثال تخلیق کار اور  محب وطن پاکستانی جس کی فقید المثال کامرانیوں  کو پوری دنیا میں  قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہو جب  اچانک ہمارے درمیان سے اٹھ جاتے ہیں  تو محرومی کا ایک ایسا ہولناک لمحہ آتا ہے جہاں  ہجوم یاس سے دل گھبرا جاتا ہے۔ ہم بے بس انسانوں  کے نصیب میں یہ جان لیوا المیہ لکھ دیا گیا ہے کہ موت کے درد لا دوا کو اپنے دل پہ سہتے ہیں۔ ہماری زندگی بچھڑنے والوں  کی یاد میں  مر مر کے جیے جانے کی ایک صورت ہی تو ہے۔ ہم سب کمر باندھے

ہوئے چلنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ استاد محترم ڈاکٹر بشیر سیفی  کی وفات کے بعد زندگی کا تمام منظر نامہ ہی گہنا گیا ہے۔ زندگی اور  موت کے راز ہائے سر بستہ کی گرہ کشائی کی تاب کس میں  ہے۔

                        تمھارے بعد کہاں  وہ وفا کے ہنگامے                   کوئی کہاں  سے تمھارا جواب لائے گا

٭٭٭

 

پروفیسر سمیع اللہ قریشی:فصیل دل کے کلس پر ستارہ جو تیرا غم

     چھبیس مارچ 2011کو مجھے پروفیسر سمیع اللہ قریشی کے سانحۂ ارتحال کی اطلاع ملی۔ میری آنکھوں  کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ گزشتہ چار عشروں  پر محیط باہمی احترام اور  محبت کے تمام تاج محل سیل زماں  کی  مہیب موجوں  میں  بہہ گئے۔ گل چین ازل نے گلشن علم و ادب سے وہ پھول توڑ لیا  جس کی عطر بیزی سے  پچھلے ساٹھ برس سے اکناف عالم کا گوشہ گوشہ مہک رہا تھا۔ علم و ادب کا وہ  خورشید جس کی ضیا پاشیوں  سے سفاک ظلمتوں  کو کافور کرنے میں  مدد ملی،عدم کی بے کراں   وادیوں  میں  غروب ہو گیا۔ جھنگ کے دبستان ادب کا ایک اور  ما ہ منیر قضا کے مہیب بادلوں  میں  اوجھل ہو گیا۔ ادب میں  حریت فکر،روشن خیالی،مثبت شعور و آگہی،حریت ضمیر سے جینے کی روش  کو شعار بنانے والا یہ نابغہ ء روزگار ادیب کیا گیا کہ بہار کے دن ہی ہم سے مستقل طور پر روٹھ گئے۔ حسرت و یاس کا ایک ایسا عالم ہے جس سے گلو خلاصی کی کوئی صورت نظر نہیں  آتی۔ دل کی ویرانی کا اب کیا مذکور ہے۔ ہجوم غم میں  دل کو سنبھال کر آگے بڑھنے کی کوئی امید بر نہیں  آتی۔ پروفیسر سمیع اللہ قریشی کی المناک وفات پر علمی و ادبی حلقوں  میں  صف ماتم بچھ گئی،بزم ادب سوگوار ہے اور  ہر آنکھ  اشکبار ہے۔ ایک عظیم دانشور اور  ماہر تعلیم کی رحلت سے فروغ علم و ادب کی مساعی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ معاشرتی زندگی میں  امن و آشتی،خلوص و مروت،بے لوث محبت اور  بے باک صداقت کا عملی پیکر اب ہمارے درمیان نہیں  رہا۔ ان کی شخصیت کی مسحور کن جاذبیت ان کی انفرادیت کی مرہون منت تھی۔ وائے محرومی کہ یہ منکسر المزاج،قناعت اور  صبر و استغنا  کا بے مثال نمونہ اپنی تمام تابانیوں  سمیت زیر زمیں  جا چکا ہے۔ حسن سلوک اور  خلوص کے اس قدر ارفع معیار کا حامل انسان اب کہاں ؟

      پروفیسر سمیع اللہ قریشی6جون1936کو اسلام پور قاضیاں  میں  پیدا ہوئے۔ یہ گاؤں  مشرقی پنجاب کے ضلع گورداسپور میں  واقع ہے۔ ان کے خاندان کو پورے علاقے میں  عزت اور  وقار حاصل تھا۔ یہ گھرانہ اپنی علمی و ادبی کامرانیوں  اور  شرافت کی وجہ سے ممتاز مقام کا حامل تھا۔ ابتدائی عمر سے انھیں  شاندار علمی ماحول میسر آیا۔ ان کے گھر میں  اس زمانے کے مقبول ادبی مجلے آتے تھے ان میں  عالم گیر،خیام،ادب لطیف،زمانہ،ادبی دنیا  اور  شاہ کار قابل ذکر ہیں۔  بچپن ہی سے انھیں  شاعری سے دلچسپی تھی۔ جب وہ ثانوی کلاس کے طالب علم تھے تو ان کی شاعری کی دھوم مچ گئی۔ یہ شعر انھوں   نے نو برس کی عمر میں  کہا تو ان کے اساتذہ ان کے اسلوب اور  زبان و بیان پر ان کی دسترس پر حیرت زدہ رہ گئے۔

                        دلدار کے کوچے میں  جو دیدار کو پہنچے                                     رک جاؤ یہ کہتا ہو ا درباں  نظر آیا

       قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان لاہور پہنچا اور  بازار حکیماں ،بھاٹی گیٹ میں  واقع ایک مکاں  میں  قیام کیا۔ ادبی مجلہ نقوش کے مدیر محمد طفیل بھی اس زمانے میں  اسی محلے میں  رہتے تھے۔ حکیم احمد شجاع نے اس محلے کو لاہور کا چلیسی کہا اور  اس کے مکینوں  کے علمی و ادبی ذوق کہ بہ نظر تحسین دیکھا۔ 1951میں  وہ اسلامیہ کالج سول لائنز،لاہور میں  بی۔ اے میں  داخل ہوئے اور  اس کے بعد جامعہ پنجاب،لاہور سے اسلامیات میں  ایم۔ اے کیا۔ 25۔ نومبر 1959کو انھوں  نے بہ حیثیت لیکچرر اسلامیات گورنمنٹ کالج بہاول نگر سے ملازمت کا آغاز کیا۔ اس کے بعد وہ 9اکتوبر 1963کو عظیم اور  تاریخی مادر علمی گورنمنٹ کالج جھنگ پہنچے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جھنگ کو شہر سدا رنگ کی حیثیت سے پوری دنیا میں  اہم مقام حاصل تھا۔ جھنگ کی ادبی کہکشاں  کی ضیا پاشیوں  سے نگاہیں  خیرہ ہوتی تھیں۔ ان میں  سید جعفر طاہر،سید غلام بھیک نیرنگ،حفیظ ہوشیارپوری،عبدالعزیز خالد،خادم رزمی،مجید امجد،کبیر انور جعفری،شیر افضل جعفری،امیر اختر بھٹی،صاحب زادہ رفعت سلطان،غلام علی چین،رانا سلطان محمود،خیر الدین انصاری،محمد حیات خان سیال،شارب انصاری،پروفیسر تقی الدین انجم (علیگ)،قیصر رومانی،ڈاکٹر سید نذیر احمد،حکمت ادیب،مرزا معین تابش،بیدل پانی پتی،احمد تنویر،فضل بانو،طاہر سردھنوی،خادم مگھیانوی،سید مظفر علی ظفر،آغا نو بہار علی خان اور  خواجہ شائق حسن کے نام قابل ذکر ہیں۔ جھنگ میں  ہفتہ وار ادبی نشستوں  کے باقاعدہ انعقاد میں  پروفیسر سمیع اللہ قریشی نے گہری دلچسپی لی۔ انھوں  نے اپنی ایک ادبی تنظیم بھی قائم کی جس کا نام مجلس سلطان باہو تھا۔ اس مجلس نے ادبی فعالیت کو سازگار فضا فراہم کی اور   عوام میں مثبت شعور و آگہی بیدار کرنے میں  کلیدی کر دار ادا کیا۔

        پروفیسر سمیع اللہ قریشی کا کہنا تھا کہ حیات جاوداں  کا راز ستیز میں  پوشیدہ ہے۔ ان کی خطر پسند طبیعت نے سعیِ پیہم کو ترازوئے کم و کیف حیات قرار دیا۔ ملکی اور  بین الاقوامی سطح کے متعدد علمی و ادبی مقابلوں  میں  انھوں  نے حصہ لیا اور  اپنی خدا داد صلاحیتوں  کی بدولت ہر مقابلے میں  کامیاب و کامران رہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں  انھیں  متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں  سے چند اہم حسب ذیل ہیں :

ساندل ایوارڈ 1991،پنجاب ٹیچرز فورم ایوارڈ،جام درک ایوارڈ 1992،مسعود کھدر پوش ایوارڈ2002،

       پاکستان میں  انھیں ہر علمی،ادبی اور  مذہبی کانفرنس میں  مدعو کیا جاتا تھا۔ قومی سیرت کانفرنس میں  وہ کئی بار بہ طور مندوب اور  مقالہ نگار شامل ہوئے۔ عالمی اردو کانفرنس اور  مشاعروں  میں  بھی انھوں  نے ہمیشہ شرکت کی اور  انھیں  زبردست پذیرائی ملی۔ ان کی بیس کے قریب وقیع تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ ان میں  سے اکثر پر انھیں  انعام سے نوازا گیا۔ پروفیسر سمیع اللہ قریشی کتابوں  کے شیدائی تھے۔ وہ کتابوں  سے اپنی  اولاد کی طرح پیار کرتے تھے۔ ان کی دیکھ بھال،گرد پوش،جلد بندی اور  صفائی میں  سلیقے پر اصرار کرتے تھے۔ گورنمنٹ کالج جھنگ کا کتب خانہ جس میں  نادر و نا یاب کتب کی تعداد  ایک لاکھ کے قریب ہے۔ ان کی دیکھ بھال  اور  حصول میں  انھوں  نے ذاتی دلچسپی لی۔ پاکستان کے اس بہت  بڑے علمی خزانے کو دریائے چناب کے سیلاب نے دو مرتبہ نا قا بل تلافی نقصان پہنچایا۔ جھنگ دریائے چناب کے  مشرقی کنارے پر واقع ہے۔ پہلی مرتبہ 1950میں  دریا کی طوفانی لہریں  شہر میں  داخل ہو گئیں  اور  سب کچھ بہا کر لے گئیں۔ گورنمنٹ کالج  جھنگ کا کتب خانہ اس سیلاب میں  بہہ گیا۔ اس کے بعد سیلاب سے بچاؤ کے لیے ایک تیس فٹ اونچا حفاظتی بند شہر کے ارد گرد تعمیر کیا گیا۔ اہل شہر مطمئن ہو گئے کہ اب وہ دریا کی طغیانی سے محفوظ ہو گئے ہیں۔ سادہ لوح لوگوں  کو کیا معلوم کہ جب راہ نہیں  پاتے تو نالے چڑھ جاتے ہیں۔ اس طرح 12۔ اگست1973کو دریائے چناب کی قیامت خیز لہریں  حفاظتی بند کو بہا لے گئیں۔  اور سیلاب کا بیس فٹ بلند ریلا رات کی تاریکی میں  پورے شہر سے بغل گیر ہو گیا۔ اس سیلاب میں  بے پناہ مالی نقصان ہو ا۔ بے بس انسانوں  نے بڑی مشکل سے جان بچائی۔ دس دن کے بعد دریا کا پانی قدر ے اترا تو پروفیسر سمیع اللہ قریشی گورنمنٹ کالج جھنگ پہنچے ،کالج میں  ابھی آٹھ آٹھ فٹ پانی کھڑا تھا وہ ایک کشتی پر سوار ہو کر آئے تھے۔  کتب خانے کے مہتمم چودھری محمد صدیق ان کے ہمراہ تھے۔ تمام ملازمیں  درجہ چہارم بھی کھنچے چلے آئے۔ سب نے جان کی بازی لگا کر تمام کتابیں  کمروں  کی چھت پر منتقل کیں۔

چلچلاتی دھوپ  میں  بیٹھے پروفیسر سمیع اللہ قریشی زار و قطار رو رہے تھے۔ ایک ایک کتاب اٹھاتے ،پاکیزہ اور  اجلی چادر سے اسے پونچھتے اس کا ایک ایک ورق الٹتے اور  آپس میں  چمٹے ہوئے اور اق کو الگ کرتے اور  ان علم کے موتیوں  کو آنسوؤں  اور  آہوں  کا نذرانہ پیش کرتے۔ وہ گلو گیر لہجے میں  آہ بھر کر کہتے :

            ’’ اب ایسی نادر و نایاب کتب کہاں سے آئیں  گی ؟۔ ان کتب کا تو دوسرا ایڈیشن بھی نہیں  چھپا۔  اور یہ غیر ملکی کتب تو اب کہیں  سے نہ مل سکیں  گی۔ اب محققین اور  اساتذہ کس طرح ان بنیادی مآخذ تک رسائی حاصل کر سکیں  گے ؟اسی کا نام تو تقدیر ہے۔ اگر تقدیر ہر لحظہ،ہر گام انسانی تدبیر کے پرخچے نہ اڑا دے تو پھر وہ تقدیر کیسے کہلا سکتی ہے ؟‘‘

     پروفیسر سمیع اللہ قریشی نے اپنے رفقائے کار کے تعاون سے گورنمنٹ کالج جھنگ کے تاریخی کتب خانے کی اسی فی صد کتب کو بچانے میں  کامیابی حاصل کی۔ یہ ان کا اتنا بڑا  کارنامہ ہے جو اس ادارے کی تاریخ میں  آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ اپنے لہو سے ہولی کھیلنا اور  کالے کٹھن دکھوں  کے پہاڑ تن تنہا اپنے سرپر جھیلنا اور  ستائش اور  صلے کی تمنا سے بے نیاز رہنا ان کو شیوہ تھا۔ دنیا لاکھ ترقی کے مدارج طے کرتی چلی جائے ایسے بے لوث انسان اب کہیں  نہیں  ملیں  گے۔

        معاشرتی زندگی میں  انسان افراد معاشرہ کے ساتھ اپنے رویے اور  لین دین سے پہچانا جاتا ہے۔ یہی وہ مقیاس ہے جو اس کی شخصیت کو وقار اور  اعتبار سے متمتع  کرنے کا وسیلہ ہے۔ پروفیسر سمیع اللہ قریشی کی ذات میں  لین بہت ہی کم مگر دین کی  فراوانی تھی۔ وہ سراپا دین ہی دین تھے اور  دینے اور  عطا کرنے کا یہ سلسلہ یک طرفہ تھا۔ وہ سب کے لیے  فیض رساں  تھے۔ جہاں  تک ممکن ہوتا وہ دوسروں  کے لیے فیض کے اسباب تلاش کر ہی لیتے۔ جب بھی ان کی کوئی نئی کتاب شائع ہوتی تو دنیا بھر سے ان کے ہزاروں  شاگرد اور  مداح اپنے تعریفی کلمات سے نوازتے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اپنے قریبی رفقائے کار کو وہ اپنی تصنیف  اپنے دستخط ثبت کر کے پیش کرتے اور  ساتھ ہی کوئی نصیحت بھی درج کر دیتے۔ ان کے اس قسم کے اصلاحی اقدام دور رس نتائج کے حامل ثابت ہوتے۔ ایک عرصہ تک ان کی یادوں  کی مہک قریۂ جاں  کو معطر رکھتی۔ وہ کثیر المطالعہ شخص تھے ،عالمی شہرت کے حامل جرائد،ادبی مجلات اور  اخبارات ان کے ہاں  آتے۔ ان کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ ان میں  شائع ہونے والے اہم مضامین مختلف لوگوں  کو فی الفور ارسال کرتے تا کہ وہ بھی ان سے  استفادہ کر سکیں۔ یہ ان کے ذوق سلیم کی دلیل ہے۔ جب ان سے ملاقات ہوتی تو وہ ان مضامین کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کرتے اور  اس طرح تنقید کے ذریعے تمام مسائل کی گتھیاں  سلجھاتے۔ فروغ علم و ادب کے لیے ان کا یہ انداز دوسرے لوگوں  سے تقلیدی طور پر بھی ممکن نہیں۔ ان کی تمام کتابوں  کو مختلف انعامات سے نوازا گیا۔ اپنی تصانیف پر ملنے والی انعام کی رقم انھوں  نے ہمیشہ غریب اور  مستحق طلبا کی تعلیمی ضروریات پر خرچ کی۔ ہر سال وہ  دس بارہ  طالب علموں  کی داخلہ فیس اپنی گرہ سے ادا کرتے۔ سرکاری فنڈ سے    مستحق طلبا کی مقدور بھر مالی امداد کرتے اور  انھیں  کسی قسم کی محرومی کا احساس نہ ہونے دیتے۔ ان کی علم دوستی کے اعجاز سے متعدد طلبا نے اعلیٰ تعلیم کے مدارج طے کیے اور  اس وقت ملک و قوم کی خدمت میں  مصروف ہیں۔

         خدا ترسی،انسانی ہمدردی،ایثار اور  سخاوت کا جو معیار پروفیسر سمیع اللہ قریشی نے قائم کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کے وسائل محدود تھے اس کے باوجود وہ معاشرے کے پس ماندہ،مفلوک الحال ،غریب اور  قسمت سے  محروم دکھی انسانیت کی بھلائی کے لیے ہمہ وقت جدوجہد میں مصروف رہتے۔ گورنمنٹ کالج جھنگ میں  بلڈ ڈونیشن سوسائٹی کو انھوں  نے فعال بنایا۔ اس  کے بعد مقامی ہسپتالوں  میں  بلڈ بنک کے لیے خون اور  غریب اور  نادار مریضوں  کے لیے ادویات کی فراہمی کی ایک صورت پیدا ہو گئی۔ وہ ہر سال خود بھی خون کا عطیہ دیتے اور  ان کی  تحریک پر ہزاروں  نوجوان ہمہ وقت دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے مستعد رہتے۔ یوں  تو غریبوں  کے لیے ہر موسم ہی کٹھن ہوتا ہے مگر خون منجمد کر دینے والی سردی ان کے لیے  بہت تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے۔ پروفیسر سمیع اللہ قریشی ہر سال موسم سرما کے آغاز سے پہلے لاہور جاتے اور  لنڈا بازار سے ہر سائز کے گرم کپڑے اپنی گرہ سے   بڑی تعداد میں خرید لاتے۔ ان میں جرسیاں ،سویٹر،کوٹ،مفلر،دستانے ،جرابیں  اور  ٹوپیاں  وغیرہ شامل ہوتیں۔ گرم کپڑوں  کا یہ بھاری بھرکم گٹھڑ وہ اپنی رہائش گاہ کے برآمدے میں  رکھوا دیتے۔ اس کے بعد درجہ چہارم کے تمام ملازمین اور  مستحقین کے لیے صلائے عام تھی۔ ہر کوئی اپنی ضرورت،پسند اور  سائز کے مطابق گرم کپڑے اٹھا  لیتا۔ جب یہ لوگ باہر نکلتے تو ان کے ہاتھوں  میں  گرم کپڑے  ہوتے اور  چہرے پر ممنونیت کی لہر اور  دل میں  محبت اور  احترام کی کثرت۔ پروفیسر سمیع اللہ قریشی نم ناک آنکھوں  سے ان غریبوں   کے لیے دعا کرتے اور  اکثر کہتے ساری دنیا بدل رہی ہے مگر غم زدوں  کا حال تو جوں  کا توں  ہے۔ آہ ہمارے معاشرے کے وہ بے حس گردن فراز جو کسی مفلس و نادار شخص کو تن ڈھانپنے کے لیے اپنا ایک چیتھڑا دینے کے روادار بھی نہیں۔ کاش وہ پروفیسر سمیع اللہ قریشی کی زندگی سے کوئی سبق سیکھیں۔

       وطن،اہل وطن اور  مذہب کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی اور  والہانہ محبت کا ایک عالم معترف  تھا۔ انھوں  نے ریٹائرمنٹ سے ایک برس قبل فریضہ حج کی سعادت حاصل کی۔ اس موقع پر میں  ان سے ملنے گیا تو انھیں  حسب معمول چاق و چوبند اور  ہشاش بشاش پایا۔ مہمانوں  کے لیے وہ دیدہ و دل فرش راہ کر دیتے تھے۔ انھوں  نے میرے لیے پر تکلف چائے کا انتظام کیا۔  اور اپنی آپ بیتی ’’ بیتے لمحوں  کی چاپ‘‘ اپنے دستخطوں  کے ساتھ مجھے عطا کی۔ مجھے الوداع کہتے ہوئے وہ کہنے لگے :

       ’’میں  نے طویل عرصہ درس و تدریس میں  گزارا،اعلیٰ انتظامی عہدوں  پر بھی فائز رہا لیکن میرے دامن پر کوئی داغ ندامت بالکل نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حج بیت اللہ کی سعادت مجھے نصیب ہو چکی ہے۔ میرے بچے اب روزگار والے اور  اپنے گھر بار والے ہو چکے ہیں۔ اس قادر مطلق نے میرے ہر خواہش پوری کی ہے۔ اس وقت میری دل میں  نہ کوئی حسرت ہے اور  نہ ہی کوئی نا آسودہ خواہش۔ ہم اپنے رب کی نعمتوں  کا کس طرح شکر ادا کریں۔ جس قدر انعام و اکرام مجھ پر پروردگار عالم نے کیے ہیں ،میں  ان کا جس قدر شکر ادا کروں ،کم ہے۔ ہمیں  اپنی حقیقت اور  اپنے خالق کی عظمت کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے ‘‘

      خوش اخلاقی کو وہ ایک نیکی سے تعبیر کیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انسان کو اپنی آرزوؤں ،امنگوں اور  دلچسپیوں کو توازن اور  اعتدال کی حدود میں  رکھنا چاہیئے۔ اگر کوئی شخص زندگی میں  توازن اور  اعتدال کی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو اسے اپنی جان پر دوہرا  عذاب سہنا پڑتا ہے۔ وہ اپنی بے بصری،کور مغزی کے نتائج کو نہ صرف دیکھتا ہے بلکہ ان کے مسموم اثرات کے بارے میں  سوچ کر ہمہ وقت کڑھتا بھی رہتا ہے۔ وہ ذہنی بالیدگی کے لیے جدت اور  تنوع کو نا گزیر خیال کرتے تھے۔ تقلید کی روش کو وہ خود کشی کی ایک صورت سمجھتے اور  اس بات پر اصرار کرتے کہ خضر کا سودا چھوڑ کر نئے زمانے نئے صبح و شام پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ زندگی کو وہ سر آدم اور  ضمیر کن فکاں  کی ایک قابل قدر صورت سمجھتے تھے۔

     آثار قدیمہ سے پروفیسر سمیع اللہ قریشی کو بہت دلچسپی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ قدیم ٹیلوں  اور  کھنڈرات میں  ماضی بعید کے متعدد آثار پائے جاتے ہیں۔ ان کی وقیع تصنیف ’’سر زمین جھنگ آثار و ثقافت‘‘ آثار قدیمہ سے ان کی گہری دلچسپی کی مظہر ہے۔ آثار قدیمہ سے ان کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ وہ  پرانی عمارات اور  کھنڈرات تک طویل سفر کر کے پہنچتے اور  وہاں  سے پرانی اشیا اور  فوسل تلاش کرتے۔ شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی سڑک کا ایک حصہ جھنگ کے ایک قدیم قصبہ بھون کے پاس سے گزرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں  موجود کھنڈر چار ہزار قبل مسیح سے تعلق رکھتا ہے۔  یہاں  ایک چڑیل بھاگو کے قیام کی داستان زبان زد عام رہی ہے۔ اس جگہ پر ایک پل  ہے جس کے نیچے انسانی اعضا اور  کھوپڑیوں  کی موجودگی یہ ظا ہر کرتی کہ وہ آدم خور چڑیل تھی۔ کوئی بھی شخص اس علاقے کا رخ نہ کرتا۔ پروفیسر سمیع اللہ قریشی نے اس تمام علاقے میں  آثار قدیمہ کی کھوج سے یہ ثابت کیا کہ اس علاقے میں  ایک قدیم قبرستان تھا  جسے دریائے جہلم کی طغیانیوں  سے شدید نقصان پہنچا۔ یہ تمام اعضا اور  انسانی کھوپڑیاں  انھی بوسیدہ قبروں  کی باقیات ہیں۔ سکندر اعظم کا ایک جرنیل سلوکس یہاں  سے گزرا تھا۔ پروفیسر سمیع اللہ قریشی نے تحقیق سے ثابت کیا کہ یونان میں  حسن کی دیوی کو  ہیر(Heer)کہا جاتا ہے۔ اس نے یہاں  ایک مندر تعمیر کیا جسے ہیر دیوی کا مندر کہا جاتا تھا۔ مقامی لوک داستان یعنی ہیر اور  رانجھے کی داستان محبت کو وہ وارث شاہ کا ایک من گھڑت قصہ بتاتے تھے۔ اس لڑکی کا نام تو عزت بی بی تھا اور  اس کے مبینہ آشنا کا نام مراد بخش تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تاریخی اعتبار سے یہ داستان بالکل اسی طرح کی ہے جیسے انار کلی اور  اکبر کی داستان جسے ولیم فنچ نے بد نیتی کی بنیاد پر من گھڑت انداز میں  بیان کیا مگر خافی خان جیسے محقق اور  مورخ جو اکبر کے معاصر تھے ان کے ہاں  اس کا کہیں  ذکر نہیں  ملتا۔ وہ سائنسی تحقیق اور  سائنسی انداز فکر کے حامی تھے۔ ہر قسم کی توہم پرستی اور  مفروضات کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنا ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔

       تخلیق ادب میں  ان کی دلچسپی تمام عمر برقرار رہی۔ موضوع اور  مواد کے اعتبار سے انھوں  نے ہمیشہ جدت کو پیش نظر رکھا۔ تخیل اور  تصور کی جدت اور  تنوع ان کے اسلوب کا نمایاں  وصف رہا۔ ان کے ہاں  محبت کے جذبات کی فراوانی ہے۔ یہ محبت بے لوث انداز میں  تمام بنی نوع انسان کے لیے ہے اور  وہ جذبۂ انسانیت نوازی سے سرشار ہو کر سارے جہاں  کے درد کو اپنے جگر میں  موجزن محسوس کرتے تھے۔ جبر کا ہر انداز مسترد کر کے انسانیت کے وقار اور  سربلندی کی خاطر قلم بہ کف مجاہد کا کر دار ادا کر کے انھوں  نے ثابت کر دیا کہ کاروان حسین کو ہمیشہ صعوبتوں  کے سفر میں  رہنا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود انھیں  یقین تھا کہ ظلم کا پرچم بالآخر سر نگوں  ہو کر رہتا ہے۔ ظلم کے سامنے سپر انداز ہونا ان کے نزدیک ظلم سے بھی زیادہ اذیت ناک اور  اہانت آمیز فعل ہے۔ وہ کبھی کسی فرعون یا نمرود سے مرعوب نہ ہوئے۔ وہ ہمیشہ میرٹ کی بالا دستی پر زور دیتے تھے۔ چور دروازے سے داخل ہو کر جاہ و منصب کی ہڈیوں  کے متلاشی سگان آوارہ سے انھیں  سخت نفرت تھی۔ وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ باب رعایت سے داخل ہو کر کلیدی عہدوں  پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں  نے تو قوم کی لٹیا ہی ڈبو دی ہے

        گورنمنٹ کالج جھنگ کا ادبی مجلہ کارواں  جو 1926سے باقاعدگی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے اس مجلے نے متعدد نامور ادیبوں  کو پروان چڑھایا۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام اور  ڈاکٹر وزیر آغا اپنے زمانہ طالب علمی میں  اس رجحان ساز ادبی مجلے کی مجلس ادارت میں  شامل رہے۔ پروفیسر سمیع اللہ قریشی نے کارواں  کو سوئے منزل جادہ پیما رکھا۔ پہلے یہ کتابت میں  شائع ہوتا تھا۔ اس کے بعد یہ ٹائپ میں  شائع ہونے لگا۔ پروفیسر سمیع اللہ قریشی نے اسے جدید عصری تقاضوں  کے مطابق کمپیوٹر کمپوزنگ میں  1985میں   شائع کرنے کا اہتمام کیا۔ اس زمانے میں  جھنگ میں  یہ سہولت دستیاب نہ تھی اس لیے مکتبہ جدید لاہور سے اس کی کمپوزنگ کرائی گئی۔ اس مجلے کو کاروان ادب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اردو،پنجابی اور  انگریزی زبان میں  شائع ہونے والے اس مجلے میں  انتہائی معیاری تحریریں  شائع ہوتی رہی ہیں۔ جب پروفیسر سمیع اللہ قریشی پرنسپل کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے تو انھوں  نے اس میں  ایک درجہ چہارم کے ملازم حاجی احمد بخش کا  بیس صفحات پر مشتمل انٹرویو شامل کیا۔ اس کا عنوان تھا گورنمنٹ کالج جھنگ کی کہانی حاجی احمد بخش کی زبانی۔ حاجی احمد بخش نے 1926میں  گورنمنٹ کالج جھنگ سے ملازمت کا آغاز کیا اور  تمام عمر اسی ادارے میں  گزار دی۔ اسی عرصے میں  قدیم طلبا کے انٹرویوز بھی کارواں  کی زینت بنے۔ یہ لو گ چراغ سحری تھے یہ انٹر ویوز تاریخ کا مؤقر و معتبر حوالہ ہیں۔ یہ وہ قدیم طالب علم تھے جو 1930سے 1940تک کے عرصے میں  اس عظیم مادر علمی میں  زیر تعلیم رہے۔ ان ضعیف لوگوں  کے انٹرویوز  پر راقم السطور کو مامور کیا گیا۔ جن مشاہیر کے انٹرویو کرنے میں  کامیابی ہوئی ان میں  سردار باقر علی خا ں  بھی شامل تھے جو انڈین سول سروس کے مقابلے کے امتحان میں  اول آئے اور  ملتان کے کمشنر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ان کی آپ بیتی کا مسودہ  ’’ قصہ ایک درویش کا‘‘  ان کے آبائی گاؤں ٹھٹھی لنگر میں  ان کے کتب خانے میں  موجود ہے۔ محمد خان جو پوسٹل سروس میں  اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ حاجی محمد یوسف جو برطانوی فوج میں  افسر تھے اور   دوسری عالمی جنگ میں  جاپان،برما،عراق اور  مصر کے مختلف محاذوں  پر نازیوں  کے خلاف نبرد آزما رہے۔ مہر شوکت حیات کپلانہ،مہر غلام فرید کپلانہ،امیر اختر بھٹی اور  متعدد اہم شخصیات کے انٹرویوز  کیے گئے۔ حیف صد حیف یہ سب حقیقتیں  اب خیال و خواب ہو گئیں۔ یہ سب آفتاب و ماہتاب اب ہمیشہ کے لیے غروب ہو چکے ہیں لیکن ان کے سوانح کو کاروان کے اور اق میں  محفوظ کر کے جو اہم تاریخی دستاویز مرتب کی گئی ہے اس کا تمام اعزاز  پروفیسر سمیع اللہ قریشی کو جاتا ہے۔

        قیام پاکستان کے وقت جب ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور پہنچا تو وہ سب انتہائی کسمپرسی کی حالت میں  تھے۔ ان کے والد علیل تھے گھر کے روزمرہ اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اس چھوٹے سے بچے (سمیع اللہ قریشی)کو چھابڑی لگانی پڑی۔ وہ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر سنگترے بیچا کرتے تھے۔ ایک بار جب وہ صدا لگا رہے تھے ’’ اچھے سنگترے۔ ۔ ۔ ۔ اچھے سنگترے ‘‘ تو ایک صاحب بصیرت شخص نے اس بچے کو گلے لگا لیا دعا دی اور  کہا ’’ ہاں  واقعی اچھے سنگ ترے۔ ۔ ۔ اچھے سنگ ترے  ‘‘یہ کہہ کر وہ بزرگ زار و قطار رونے لگا  اور  اس کی دعا سے بچے کی دنیا ہی بدل گئی۔ یہ واقعہ داتا گنج بخش کے روضے کا سامنے پیش آیا۔  سمیع اللہ  قریشی گھر آیا تو والد نے وضاحت کی کہ بزرگ کا مقصد یہ تھا کہ جو بھی اچھے سنگ (رفاقت)کو اختیار کرتا ہے وہ آلام روزگار  کے سیل رواں  کی مہیب لہروں  میں  بھی تیر کر کنارے تک پہنچ جاتا ہے۔ اس واقعہ نے نو عمر سمیع اللہ قریشی کی سوچ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ وہ تمام عمر اچھی صحبت کے شیدائی رہے۔ ہر ظالم پہ لعنت کرنا اور  ہر مظلوم کی حمایت کرنا ان کا شیوہ رہا۔ وہ فرد کے ہاتھوں  فرد کے استحصال کے سخت خلاف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ہوس زر نے انسان کو انتشار اور  پراگندگی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اس کا ازالہ صرف اسی صورت میں  ممکن ہے کہ اخوت کی جہاں گیری اور  محبت کی فراوانی کو یقینی بنایا جائے۔

     قحط  الرجال کے موجودہ زمانے میں  فرد کی بے چہرگی اور  عدم شناخت کے مسئلے نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے۔ پروفیسر سمیع اللہ قریشی کو انسان شناسی میں  مہارت حاصل تھی۔ وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے تھے کہ ملاقاتی کس مزاج اور  طبع کا شخص ہے۔ ان کا یہی یقین ان کو تہذیب و تمدن کے ارفع معیار  کی تفہیم میں  معاون ثابت ہوتا۔ انسان شناسی کی جس صلاحیت سے وہ متمتع تھے  اس کی ایک مثال میں  نے بھی دیکھی۔ ایک معمر ضعیفہ ان سے اکثر ملنے آتی تھی۔ اس کی عمر سو سال کے قریب تھی۔ میرے استفسار پر انھوں  نے بتایا کہ اس ضعیفہ نے عنفوان شباب  میں  گھر سے باہر ایک غلط قدم اٹھایا اور  اب گزشتہ اسی سال سے منزل سے نا آشنا  خاک بہ سر در در کی ٹھوکریں  کھاتی پھرتی ہے۔ اس وقت وہ ضعیفہ بھی موجود تھی جس کی آنکھوں  سے جوئے خوں  رواں  تھی اور  لٹی محفلوں  کی دھول سے اس کا چہرہ اور  تار تار دامن گرد آلود  تھآایسے انسان کا زندگی کا سفر تو  جیسے تیسے کٹ ہی جاتا ہے لیکن اس کا جگر روح اور  پورا جسم کرچیوں  میں  بٹ جاتا ہے۔ وہ ضعیفہ جب تک زندہ رہی اس کی کفالت کی ذمہ داری پروفیسر سمیع اللہ قریشی نے خود سنبھال رکھی تھی۔ اس معمر عورت کی وفات 2002میں  ہوئی،اس کی تجہیز و تکفین کے تمام اخراجات قریشی صاحب نے خود برداشت کیے۔ اس کے جنازے میں  شامل ہوئے اور  زار و قطار رو رہے تھے  اور  کہہ رہے تھے ’’ تمھارا اندازہ غلط نکلا فضیلت بانو کہ تمھارا رونے والا کوئی نہیں  بچا۔ نہ صرف میں  بلکہ میرے ساتھی اور  میرے شاگرد بھی تیری محرومیوں  اور  بے چارگی اور  کسمپرسی کے عالم میں  عدم کے کوچ کے لیے چپکے سے رخت سفر باندھ لینے پر اشکبار ہیں  ‘‘۔ جب اس کی قبر لحد میں  اتاری گئی تو ہم سب سے مخاطب ہو کر کہنے لگے ’’ عزیزو اس لمحے اور  اس مقام کو کبھی فراموش نہ کرنا۔ سیل زماں  کے تھپیڑے سب کچھ بہا لے جاتے ہیں۔ ‘‘

     پروفیسر سمیع اللہ قریشی کی طبیعت میں  محبت کا ایک منفرد روپ نظر آتا تھا۔ ایک طرف تو وہ حسن و رومان کے دلدادہ تھے تو دوسری طرف تخلیقی محبت ان کے ریشے ریشے میں  سما گئی تھی۔ محبت کے یہ دونوں  روپ ان کی شخصیت کو ایک تنوع عطا کرتے۔ ان کی محبت میں  ایک انانیت جلو گر رہی  جو ہر لمحہ ترو تازہ اور  شگفتہ دکھائی دیتی ہے۔ پروفیسر عبدالباری عباسی جو ان کے محرم راز رہے بتایا کرتے تھے کہ پروفیسر سمیع اللہ قریشی کو بھی ایک نیک سیرت دوشیزہ سے محبت ہو گئی اور  انھوں  نے اس سے جو عہد وفا استوار کیا اسے علاج گردش لیل و نہار سمجھتے ہوئے اس پر صدق دل سے عمل کیا۔ یہی خاتون بعد میں  ان کی شریک حیات بنی۔ اسی کے نام پر ان کی رہائش گاہ اب بھی موجود ہے جس پر لکھا ہے ’’النصرت‘‘۔ مجھے اس خاتون سے ملنے کا موقع ملا ہے۔ ان کے مزاج میں  کامل ہم آہنگی دیکھ کر  یقین ہو گیا کہ انسان شناسی میں  وہ اپنی مثال آپ تھے۔ اس محبت نے ان کی شخصیت کو نکھار عطا کیا۔ یہ محبت بہت مساوی اور  منصفانہ بنیاد پر استوار رہی دونوں  محبت کے بدلے ایک دوسرے کو محبت سے لبریز رویے سے سرشار کرتے رہے۔ اسی میں  ان کی کامیاب زندگی کا راز مضمر ہے۔

       اپنی زندگی میں  وہ ہر قسم کی عصبیت سے دور رہے۔ وہ اسلامیات کے پروفیسر تھے۔ اپنے لباس کے انتخاب میں  وہ وضع داری کا خیال رکھتے۔  وہ اکثر انگریزی لباس پہنتے۔   وہ کلین شیو تھے۔ تھری پیس سوٹ اور  ٹائی میں  ان کی شخصیت نہایت با رعب اور  پر وقار نظر آتی۔ اپنے مذہبی عقائد میں  وہ اعتدال پسند تھے۔ اپنے بیٹے کا نکاح انھوں  نے خود پڑھایا۔ وہ ہر محفل میں  اپنی بات دلائل کی بنیاد پر منوانے کی استعداد رکھتے تھے۔ دوسروں  کی بات تحمل سے سننا اور  ٹھوس دلائل سے جواب دینا ان کا شیوہ تھا۔

       اس عالم آب و گل کی حقیقی معنویت کے بارے میں  مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے والا دانش ور آج ہمارے درمیان نہیں  رہا۔ پروفیسر سمیع اللہ قریشی کہا کرتے تھے کہ  بے لوث محبت  کے اعجاز سے نار کو بھی گلزار بنایا جا سکتا ہے۔ ہم انسانوں  کا پیرہن سفر کی دھول ہی تو ہے۔ انسانیت سے بے لوث محبت کرنے والے اس جلیل القدر استاد کی خدمت میں  اپنے جذبات حزیں  کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے میرا دل گواہی دیتا ہے کہ ایک عظیم استاد  کے افکار کی صداقت کا نغمہ قلب اور  روح کی دھڑکن سے تا ابد ہم آہنگ رہے گا۔ جب تک دنیا باقی ہے  ایسے اساتذہ کے اسلوب کی تقلید کی جاتی رہے گی جن کا  حسن اخلاق فکر و خیال کی وادی  کے ہر رہرو کے لیے مشعل راہ ثابت ہو گا۔ ٖ فضاؤں  میں  ہر سمت ان کی دلکش کی یادیں  بکھری ہوئی ہیں۔ ہم جس سمت بھی نگاہ دوڑاتے ہیں  پروفیسر سمیع اللہ قریشی کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے  جو ہمیں  متوجہ کر کے کہتی ہے۔

                         نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں  آئی             چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں  آئی

٭٭٭

 

سید جعفر طاہر:اب کہاں  دنیا میں  ایسی ہستیاں

              سید جعفر طاہر 29 مارچ 1917کو جھنگ کے ایک معزز سادات گھرانے میں  پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم  گورنمنٹ ایم۔ بی ہائی سکول جھنگ شہر سے حاصل کی۔ یہیں  سے عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز پاکستانی سائنس دان پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام  نے  بھی ابتدائی تعلیم مکمل کی۔ اس زمانے میں  جھنگ شہر امن و آشتی،پیار و محبت اور  حسن و رومان کا گہوارہ تھا۔ مشہور رومانی داستان ہیر رانجھا کا تعلق بھی اسی شہر سدا رنگ سے ہے۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ تاریخی تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج جھنگ میں  داخل ہوئے۔ یہ عظیم مادر علمی 1926سے سفاک ظلمتوں  کو کافور کر کے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام کر رہی ہے۔  پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل انعام یافتہ سائنس دان) اور  ڈاکٹر وزیر آغا بھی یہیں  کے فارغ التحصیل ہیں۔ اس کے بعد انھوں  نے پنجاب یونیورسٹی،لاہور سے بی۔ اے کا امتحان پاس کیا اور  برطانوی فوج میں  بھرتی ہو گئے۔ دوسری عالمی جنگ کا زمانہ تھا  وہ مختلف محاذوں  پر عسکری خدمات کے سلسلے میں  تعینات رہے۔ جنگ کے دوران وہ برما،جاپان،سنگاپور،مصر اور  عراق کے مختلف محاذوں  پر نازیوں سے مصروف پیکار رہے۔ 1945میں  جنگ کے اختتام پر وہ  راول پنڈی پہنچے۔ ان کی مشہور نظم ’’ واپسی ‘‘ ایام جنگ  کے بعد بہ خیریت وطن واپس آنے کے بارے میں  ہے۔

              سید جعفر طاہر 1966میں  فوج سے ریٹائر ہوئے۔ اس وقت وہ  فوج میں  کیپٹن کے رینک پر تھے۔ پاکستانی فوج کے ممتاز ادیبوں  کے ساتھ ان کے نہایت قریبی تعلقات تھے۔ ان میں  سید ضمیر جعفری،کرنل محمد خان،بریگیڈئیر شفیق الرحمٰن اور  کرنل صدیق سالک کے نام قابل ذکر ہیں۔ پاکستان بری فوج کی ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد سید جعفر طاہر ریڈیو پاکستان راول پنڈی میں  جز وقتی خدمات پر مامور ہوئے۔  انھوں  نے ایک بلند پایہ براڈ کاسٹر کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں  کا لوہا منوایا۔ ان کا پیش کیا ہوا ’’ فوجی بھائیوں  کا پروگرام ‘‘ اس زمانے میں  بہت مقبول ہو ا۔ براڈ کاسٹنگ میں  وہ زیڈ۔ اے بخاری سے بہت متاثر تھے۔ کلام اقبال تحت اللفظ،مسدس حالی تحت اللفظ اور  حفیظ جالندھری کا شاہنامہ اسلام تحت اللفظ پڑھنے میں  انھیں  ملکہ حاصل تھا۔ راول پنڈی میں  اپنے قیام کے دوران انھوں  نے اس علاقے کے ادیبوں  سے مل کر با قاعدہ ادبی تقریبات کے انعقاد کا سلسلہ شروع کیا۔ ان ادبی تقریبات میں  نذیر احمد شیخ،فارغ بخاری،رضا ہمدانی،پریشان خٹک،غفار بابر،رفعت سلطان،مجید امجد،محمد خالد ا اختر اور  شیر افضل جعفری شرکت کرتے۔ سید جعفر طاہر ان ادبی محفلوں  کی روح رواں  تھے۔

             اپنی شاعری کا آغاز سید جعفر طاہر نے تیرہ سال کی عمر میں  کیا۔ گورنمنٹ کالج جھنگ میں  وہ کالج میگزین ’’ چناب‘‘ کی مجلس ادارت سے وابستہ رہے۔ اس عرصے میں  جن نامور ماہرین تعلیم نے ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں  کو صیقل کیا ان میں  رانا عبدالحمید خان پرنسپل،پروفیسر غلام رسول شوق،سردار پریم سنگھ،لال چند لالہ،پروفیسر محمد احمد خان اور  پروفیسر یو۔ کرامت  کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کی شاعرانہ صلاحیتیں  اس وقت کھل کر سامنے آئیں  جب وہ بین الکلیاتی مشاعروں  میں  اول انعام لے کر آتے۔ خیبر سے چٹاگانگ تک تمام تعلیمی اداروں  میں  ان کی شاعری کی دھوم مچ گئی۔ مقامی اخبارات اور  تعلیمی  اداروں  کے مجلات میں  ان کا کلام شائع ہوتا رہا اور  اسے خوب پذیرائی ملی۔ مولانا صلاح الدین احمد کے ادبی مجلے ’’ادبی دنیا ‘‘میں  ان کی یہ غزل 1946میں  شائع ہوئی۔

            کوئے حرم سے نکلے ہے کوئے بتاں  کی راہ                         ہائے کہاں  پہ آ کے ملی ہے کہاں  کی راہ

              مولانا صلاح الدین احمد نے سید جعفر طاہر کی تخلیقی صلاحیتوں  کو بے حد سراہا۔ وہ چار عشروں  تک افق ادب پر ضو فشاں  رہے۔ ان کی شاعری بر صغیر پاک و ہند کے ممتاز ادبی مجلات کی زینت بنتی رہی۔ انھوں  نے ہر صنف شعر میں  طبع آزمائی کی اور  زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ استعداد اور  اسلوب کی ندرت سے قارئین کو مسحور کر دیا۔ ان کے مزاج میں  جدت اور  تنوع کا عنصر نمایاں  تھا۔ وہ نئے تجربات کے ذریعے اردو ادب کی ثروت میں  اضافے کے خواہش مند تھے۔ انھوں  نے اردو شاعری کو ایک بالکل نئی صنف شعر ’’ کینٹو‘‘ سے متعارف کرایا۔ اس میں  ان کے تخلیقی اظہار کے تمام امکانات پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ ان کے کینٹوز کا مجموعہ ’’ ہفت کشور ‘‘جب 1962میں  زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آیا تو ان کی عظمت اور  شہرت کا بر ملا اعتراف کیا گیا۔  ان کی کتاب ’’ہفت کشور ‘‘ کو آدم جی ادبی انعام سے نواز کیا گیا۔ سید جعفر طاہر کی مذہبی شاعری اور  قصائد پر مشتمل شعری مجموعہ ’’ سلسبیل ‘‘اس کے بعد شائع ہو ا اور  اسے بھی علمی و ادبی حلقوں  کی طرف سے بہت پذیرائی ملی۔ 25 مئی 1977کو اجل کے ہاتھ میں جو پروانہ تھا اس میں  سید جعفر طاہر کا نام بھی رقم تھا۔ اردو شاعری کا یہ آفتاب راول پنڈی کے افق پر غروب ہو گیا۔ ان کا جسد خاکی ان کے آبائی وطن جھنگ لایا گیا اور  یہ زیرک تخلیق کار کربلا حیدری جھنگ کے ایک گوشے میں  آسودہ ء خاک ہے۔

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں  کہ اے لئیم

                      تو نے وہ گنج ہائے گراں  مایہ کیا کیے

               سید جعفر طاہر کی شاعری  دروں  بینی کا حسین معیار پیش کرتی ہے۔ قلب اور  روح کی گہرائیوں  میں  اتر جانے والی ان کی شاعری زندگی کی حقیقی معنویت سے لبریز ہے۔ وہ حریت فکر کے مجاہد تھے۔ وہ تمام عمر ستائش اور  صلے کی تمنا سے بے نیاز پرورش لو ح و قلم میں  مصروف رہے۔ جو کچھ ان کے دل پہ گزرتی رہی وہ اسے بے کم و کاست رقم کرتے رہے۔ ان کی شاعری  میں  حسن و رومان کے موضوع پر نہایت دلکش انداز میں  شعر ملتے ہیں۔ ان کی لفظی مرقع نگاری  کے مسحور کن کرشمے ان کے کلام کی تاثیر کو دو آتشہ کر دیتے ہیں۔ سراپا نگاری،منظر نگاری،جذبات نگاری اور  فطرت نگاری میں  وہ اپنی تخلیقی فعالیت کی بدولت ممتاز مقام پر فائز دکھائی دیتے ہیں۔ موزوں  تراکیب،دلکش تشبیہات،دل نشیں  استعارات اور  منفرد اسلوب ان کی شاعری کی پہچان ہے  ؎

نشے میں  چشم  ناز جو ہنستی نظر پڑی

تصویر ہوشیاری و مستی نظر پڑی

لہرائی ایک بار وہ زلفِ خرد شکار

کوئی نہ پھر بلندی و پستی نظر پڑی

اٹھی تھی پہلی بار جدھر چشم  آرزو

وہ  لوگ پھر ملے نہ وہ بستی نظر پڑی

حسن  بتاں  تو آئینہ ء حسن  ذات ہے

زاہد کو اس میں  کفر پرستی نظر پڑی

سوئے چمن گئے تھے بہاراں  سمجھ کے ہم

دیکھا تو ایک آگ برستی نظر پڑی

کیسی صبا کہاں  کی نسیم  چمن نہ پوچھ

ناگن سی پھول پھول کو ڈستی نظر پڑی

مدت کے بعد اپنی طرف  جو گیا خیال

تم کیا ملے  کہ صورت ہستی نظر پڑی

شبنم کی بوند بوند نے ہنس ہنس کے جان دی

طاہرؔ کرن کرن بھی ترستی نظر پڑی

            اسلوبیاتی جائزے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سید جعفر طاہر نے سادگی اور  سلاست کو بالعموم پیش نظر رکھا۔ وہ اپنے ذاتی تجربات، احساسات اور  مشاہدات کو اس فنی مہارت سے پیرایۂ اظہار عطا کرتے ہیں  کہ ان کی شاعری ابلاغ کا عمدہ نمونہ بن جاتی ہے۔ اس عالم آب و گل کے حسین و جمیل مناظر سے وہ اپنے فن کے لیے مواد کشید کرتے ہیں  اور  اس کے بعد تخلیق فن کے لمحوں  میں  پتھروں  کو بھی موم کرنے کی صلاحیت سے متمتع دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی بات دل سے نکلتی ہے اور  دل کی گہرائیوں  میں  اتر جاتی ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں  کہ اس جہاں  میں  بہار اور  خزاں  کے سیکڑوں مناظر سامنے آتے ہیں۔  تخیل کو سرابوں  سے بچ کر اپنی جولانیاں دکھانی چائیں۔ ان کی شاعری میں  ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت قاری کو اپنی گرفت میں  لے لیتی ہے۔   وہ سفاک ظلمتوں  میں  جدت، تنوع اور  افکار تازہ کی مشعل تھامے  ایک ایسے جہان تازہ کی جستجو میں  مصروف ہیں  جہاں  خوشیوں  کا دور دورہ ہو۔ ان کا خیال ہے کہ آثار مصیبت کا احساس بیدار کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کیونکہ اسی کے اعجاز سے امروز کی شورش میں  اندیشۂ فردا  نصیب ہوتا ہے۔ وہ اپنی کارگہ فکر میں  حوصلے اور  امید کے انجم ضو فشاں  رکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔

             نجی زندگی میں  سید جعفر طاہر پر کئی سخت مقام آئے۔ ان کی زندگی صبر اور  استغنا کی مثال تھی۔ وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے حامی تھے۔ انھوں  نے کبھی در کسریٰ پہ صدا نہ کی۔ وہ جانتے تھے کہ چٹانیں  اور  کھنڈر کسی کا دکھ درد کیسے سمجھ سکتے ہیں ؟۔ اگر چہ وہ کثیر العیال تھے مگر چادر دیکھ کر پاؤں  پھیلانا ان کا شیوہ تھا۔ ایک دلچسپ واقعہ پیش خدمت ہے :

      ’’ کفایت شعاری کے باوجود تنخواہ ان کے بچوں  کی پوری طرح کفیل نہ تھی۔ ایک دفعہ ان پر پیغمبری  وقت آ پڑا۔ کسی محکمانہ کارروائی کی وجہ سے تنخواہ کی ادائیگی میں  تاخیر ہوئی۔ سید جعفر طاہر نے اپنے بچوں  کی فوج ظفر موج کو لیا اور  ایک قطار میں  لفٹ رائٹ،لفٹ رائٹ کرتا ہوا اپنے افسر کے بنگلے پر پہنچ گیا۔ افسر نے بچوں کی ایک لمبی قطار کو اپنے بنگلے کی طرف آتے دیکھا تو حیرت زدہ ہو کر باہر نکل آیا۔ تمام  حالات معلوم کیے اور  سید جعفر طاہر کی تنخواہ کی فوری ادائیگی کے احکامات صادر کر دئیے۔ سید جعفر طاہر نے اپنے بچوں  سمیت سلیوٹ کیا اور  گھر واپس آ گیا۔ ‘‘(سہ ماہی مونتاج،لاہور،جولائی ستمبر 2010,,صفحہ 232

              سید جعفر طاہر ایک مستحکم شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی شگفتہ مزاجی اور  گل افشانیِ گفتار کا ایک عالم معترف تھا۔ ہنسی کے خوش رنگ دامنوں  میں  اپنے آنسو چھپانے کا سلیقہ وہ خوب جانتے تھے۔ ہر حال میں  راضی بہ رضا رہنا ان کا مسلک رہا۔ وہ کبھی حرف شکایت لب پر نہ لائے۔ البتہ  جبر اور  ظلم کے سامنے سپر انداز ہونا ان کے نزدیک بہ جائے خود ایک ظلم کے مترادف تھا۔ ظالم کہیں  بھی ہو اور  کسی کی صف میں  ہو اس کے قبیح کر دار کو ہدف تنقید بنانا اور  اس پر تین حرف بھیجنا ہمیشہ ان کا نصب العین رہا۔ ان کی شاعری میں  علامتوں  کا ایک وسیع سلسلہ موجود ہے۔ ان تمام علامات کو در اصل ایک ایسے نفسیاتی کل کی حیثیت حاصل ہے جس کے معجز نما اثر سے لا شعور کی خوابیدہ صلاحیتیں  متشکل ہو کر فکر و نظر کو مہمیز کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ان اشعار میں  پتھر کی علامت  گہری معنویت کی حامل ہے

میں  نے جو تیرے تصور میں  تراشے تھے کبھی

لے گئے وہ بھی میرے گھر سے پجاری پتھر

سینۂ سنگ سے دریا نہیں  بہتے دیکھ

کون کہتا ہے کہ ہیں  درد سے عاری پتھر

ناز ہر بت کے اٹھا پائے نہ جعفر طاہر

چوم کر رکھ دیئے ہم نے یہ بھاری پتھر

             مادی دور کی لعنتوں  نے زندگی کی اقدار عالیہ کو شدید ضعف پہنچایا ہے۔ ظالم و سفاک،موذی و مکار استحصالی عناصر کے مکر کی چالوں  سے غریب مات کھا گیا۔ انسانیت کی توہین،تذلیل، تضحیک اور  بے توقیری عام ہو گئی ہے۔ بے بس و لا چار انسانیت کا کوئی پر سان حال نہیں۔ سید جعفر طاہر نے اپنی شاعری میں  بے لوث محبت اور  بے باک صداقت کو اپنے اسلوب کی اساس بنایا اور  نہایت خلوص اور  دردمندی سے الم نصیبوں  کے زخموں  پر مرہم رکھنے کی سعی کی ہے۔ انھوں نے منافقت،دوغلاپن اور  ہوس زر کو ہمیشہ لائق استرداد ٹھہرایا اور  کر دار سے عاری موقع پرست ابن الوقت عناصر پر گرفت کی۔

بٹائیں  ہم بھی کبھی درد آبشاروں  کا

کسی پہاڑ کے دامن میں  رو لیا جائے

میرے رفیق بہت جلد آنے والے ہیں

میرے لہو سے صلیبوں  کو دھو لیا جائے

      واقعہ کربلا کو سید جعفر طاہر کی شاعری میں  حریت فکر کے ایک استعارے کی حیثیت حاصل ہے۔ شہدائے کربلا نے اپنی فقید المثال قربانی سے قیامت تک کے لیے استبداد کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا۔ ان کی شاعری میں  مقام شبیری کو حقیقت ابدی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ و ہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ظلم کی میعاد کے دن ہمیشہ تھوڑے ہو تے ہیں۔ تیرہ و تار بھیانک راتوں  کے بعد طلوع صبح بہاراں  کی راہ میں  کوئی حائل نہیں  ہو سکتا۔ اعلائے کلمۃ الحق کے سلسلے میں  کسی قربانی سے دریغ نہیں  کرنا چاہیئے۔ حریت ضمیر کے ساتھ زندگی بسر کرنے والوں  کے لیے اسوۂ شبیری ہر عہد میں  لائق تقلید رہے گا۔

            دعوت حق سے نہ بڑھ کر تھی وہاں  کوئی خطا

            آپ کیا پوچھتے ہیں سلسلۂ جرم و سزا

            دیکھیے معرکہ سامانیِ  نمرود و خلیل

            یہ چتا شعلوں  کی،فطرت کی یہ لالہ کاری

            اک پیمبر کے مقابل میں  خدائی ساری

            کرب تخلیق نئی رت کی تڑپ پھول ہی پھول

             اور نمرود کھڑا سوچ رہا ہو جیسے

            جانے اب رنگ جہان گزراں  کیا ہو گا

            قسمت کج کلہاں ، تاجوراں  کیا ہو گا

             ابتدائی زمانے میں  سید جعفر طاہر کی شاعری میں  رومانیت کے آثار بھی ملتے ہیں۔ اختر شیرانی،میرا جی۔ ن۔ م۔ راشد اور  مصطفی زیدی سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔ اس زمانے میں  ان کی شاعری  میں  محبت کے مضامین بڑے دلکش انداز میں  اشعار کے قالب میں  ڈھالے گئے ہیں۔ وہ خود سراپا،خلوص و مروت تھے۔ بے لوث محبت،انسانی ہمدردی اور  ایثار کے جذبات ان کے ریشے ریشے میں  سما  گئے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان کے جگر میں  زمانے بھر کے غم سما گئے ہیں۔

پھر وہی قتل محبت زدگاں  ہے کہ جو تھا

رسن و دار کا عالم میں  سماں  ہے کہ جو تھا

حیرت اہل نظر،اہل ہنر ہے کہ جو تھی

شہرۂ  کم نظراں ،بے ہنراں  ہے کہ جو تھا

لٹک رہی ہیں  سردار گردنیں  کیا کیا

یہ جھانکتی ہیں  محافوں  سے دلھنیں  کیا کیا

لہو لہو  نظر آتی ہیں  کتنی زندگیاں

الٰہی دیکھ رہا ہوں  سہاگنیں  کیا  کیا

اس ڈھلتے ہوئے حسن کے لکھتا ہوں  قصیدے

گرتی ہوئی دیوار حرم تھام رہا ہوں

            وطن،اہل وطن اور  بنی نوع انسان کے ساتھ والہانہ محبت سید جعفر طاہر کے اسلوب کا نمایاں  ترین پہلو ہے۔ انسانیت کے وقار اور  سر بلندی کو وہ بہت اہمیت دیتے تھے۔ وہ تاریخ کو ایک مسلسل عمل کا نام دیتے تھے اور  یہ بات زور دے کر کہتے تھے جو اقوام تاریخ سے سبق نہیں  سیکھتیں  ان کا  جغرافیہ یکسر بدل جاتا ہے اور  سیل زماں  کا تھپیڑا انھیں  عبرت کا ایک سبق بنا دیتا ہے۔ معاشرتی زندگی میں  پائی جانے والی بے حسی کو وہ تاریخ سے غفلت کا نتیجہ قرار دیتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ نسلی اور  قومی امتیازات ختم ہو سکتے ہیں ،قومیت کا تصور معدوم ہو سکتا ہے مگر تہذیب کا ارتقا بہ ہر حال جاری رہتا ہے۔ زندگی کی تمام رعنائیاں  اسی ارتقا  کا ثمر ہیں۔ اگر حالات اس قدر ابتر ہو جائیں  کہ تہذیبی ارتقا کا سلسلہ عنقا ہو جائے تو پھر قومیں  وحشت و بر بریت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ ان مسموم حالات میں  درخشاں   اقدار و روایات ایسے غائب ہو جاتی ہیں  جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اجلاف و ارزال اور  سفہا کی پانچوں  گھی میں  ہوتی ہیں۔ اس حادثۂ وقت کے بعد جاہل کو اس کی جہالت کا انعام ملتا ہے  اور  خفاش منش وحشی حقائق کی تنسیخ اور  صداقتوں  کی تکذیب کر کے اہل درد کی آنکھوں  میں  دھول جھونکتے ہیں  اور  اہنا الو سیدھا کرنے کی فکر میں  لگے رہتے ہیں۔ سید جعفر طاہر نے تاریخ کے مسلسل عمل کو اپنے اسلوب کی اساس بناتے ہوئے اس جانب متوجہ کیا کہ روشنیوں  کی راہ میں  حائل ہونے والی گرتی ہوئی دیواروں  تیشہ ء حرف سے منہدم کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ سید جعفر طاہر نے نئی نسل کو تہذیبی میراث کی منتقلی کی جانب بھر پور توجہ دی۔

            نیل بہتا رہا گاتا رہا برسوں  ایسے

            دامن  دشت پہ اہرام  ابھرتے ہی رہے

            وقت کی گود میں  تابوت ابھرتے ہی رہے

            لوگ مل مل کے بچھڑتے رہے کیسے کیسے

             اور اب نیل نے  اک د ور نرالا دیکھا

            ہر در و بام  کے ماتھے پہ اجالا دیکھا

            اب نہ اوہام نہ وہ کفر پرستی کی رسوم

            ظلمتِ ظلم و ظنوں  کو تہہ و بالا دیکھا

            بے نوا اب جو اٹھے اوجِ عجب تک پہنچے

            تشنہ لب چشم تا باب طرب تک پہنچے

            وہ کہ تھے قدرت اظہار سے محروم و تہی

            مسند فلسفہ و شعر و ادب تک پہنچے

            یہ خداوند تعالیٰ  کا پیام پر نور

            جس کا فرمان کہ اللہ کی ہے ساری زمیں

            جس کا ارشاد کہ ہر جا ہو نظام  جمہور

            سلطانیِ جمہور کو سید جعفر طاہر نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ وہ طالع آزما مہم جو عناصر کے اس کر دار کو سخت نا پسند کرتے تھے جب وہ جمہوریت کی بساط لپیٹ کر آئین کو پامال کر کے پورے جمہوری ڈھانچے کو تہس نہس کر دیتے ہیں۔ جب 1971میں  سابقہ مشرقی پاکستان میں  جنرل یحییٰ خان کے حکم پر فوجی کارروائی ہوئی تو سید جعفر طاہر کو شدید صدمہ پہنچا۔ انھوں  نے اپنے نام کے ساتھ کیپٹن لکھنا ترک کر دیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد شدت کرب سے مجبور پورا ایک ماہ وہ گوشہ نشین رہے  اور  بہت کم لوگوں  سے ملے۔ ان کا کہنا تھا اس حادثے نے ان کی روح کو زخم زخم اور  وجود کو کرچی کرچی کر دیا ہے۔

              سید جعفر طاہر کو پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں  پر عبور حاصل تھا۔ دنیا کی اہم زبانوں   کے مشہور ادب پارے انھوں  نے بڑی توجہ سے پڑھے۔ انھیں  جرمن،جاپانی،برمی،عربی،فارسی،انگریزی اور  روسی زبان پر دسترس حاصل تھی۔ دنیا بھر میں  کولونیل نظام کے فسطائی جبر کے خلاف جن ادیبوں  نے ببانگ دہل اپنا ما فی الضمیر بیان کیا ان میں  سید جعفر طاہر کا نام بھی شامل ہے۔ وہ جب بھی جھنگ آتے یہاں  کے ممتاز اہل قلم کے ساتھ مل بیٹھنے کے لیے کوئی ادبی تقریب ضرور منعقد کرتے۔ جھنگ میں  مجلس سلطان باہو کے قیام میں  انھوں  نے بھر پور حصہ لیا۔ وہ حضرت سلطان باہوؒ کے ابیات کا بڑی عقیدت کے ساتھ مطالعہ کرتے تھے۔ گورنمنٹ کالج جھنگ کے پرنسپل ڈاکٹر سید نذیر احمد جب ابیات سلطان باہو مرتب کر رہے تھے تو انھوں  نے سید جعفر طاہر سے بھی اہم مآخذ کے سلسلے میں  مشاورت کی۔ سید جعفر طاہر نے اپنے ذاتی کتب خانے سے بعض نادر مخطوطے اور  قلمی مآخذ انھیں  دئیے۔ سید جعفر طاہر اپنی ذات میں  ایک انجمن تھے۔ جھنگ کی ادبی کہکشاں  کے وہ ایک تابندہ ستارے تھے۔  ان کے افکار کی ضیا پاشیوں  کا پروری دنیا میں  اعتراف کیا گیا۔ ان کی معجز نما  شخصیت  سے متاثر ہو کر ان کے معاصرین نے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے گراں  قدر خدمات انجام دیں۔   سر زمین جھنگ سے تعلق رکھنے والے ان کے نامور رفقائے کار میں  شیر افضل جعفری، خادم رزمی، میر تحمل حسین جعفری، عبدالعزیز خالد، صاحب زادہ رفعت سلطان،رام ریاض،کبیر انور جعفری،صدیق لالی،محمد حیات خان سیال،الحاج سید غلام بھیک نیرنگ،حفیظ ہوشیارپوری،سید مظفر علی ظفر،سید تقی الدین انجم (علیگ)،خواجہ شائق حسن،معین تابش،بید ل پانی پتی،حکمت ادیب،سجاد بخاری،امیر اختر بھٹی،احمد تنویر،خادم مگھیانوی،قدیر قیس،خیر الدین انصاری،غلام علی چین،رانا سلطان محمود، حکیم حاجی غلام  محمد،شارب انصاری  اور  حکیم ادریس بخاری کے نام ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ وہ آفتاب و ماہتاب ہیں  جو نصف صدی تک افق ادب پر ضو فشاں  رہے مگر اب سیل زماں  کے باعث تمام منظر ہی گہنا گیا ہے۔ یہ سب آسماں  اب پیوند زمیں  ہو چکے ہیں۔ ان کے کارنامے ابلق ایما کے سموں  کی گرد میں  رفتہ رفتہ اوجھل ہو رہے ہیں۔  کتنی حقیقتیں  خیال و خواب ہو گئیں  لیکن مسلسل شکست دل کے باعث  وہ بے حسی ہے کہ کوئی بچھڑ کے چلا جائے کوئی ٹس سے مس نہیں  ہوتا۔  ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کارواں  کے دل  سے احساس زیاں  ختم ہو چکا ہے۔ سید جعفر طاہر کے بعد جھنگ شہر سدا رنگ کی ادبی محفلوں  کی وہ چکا چوند اب ماضی کا حصہ بن گئی ہے۔ زمانہ لاکھ ترقی کرے ایسے یگانۂ روزگار تخلیق کار کبھی پیدا نہیں  کر سکتا۔

                        سب کہاں  کچھ لالہ و گل میں  نمایاں  ہو گئیں                      خاک میں  کیا صورتیں  ہو گی کہ پنہاں  ہو گئیں

٭٭٭

 

ڈاکٹر نثار احمد قریشی

   مجھے لمحے نہیں  صدیاں  سنیں  گی           میری آواز کو محفوظ رکھنا

               عالمی شہرت کے حامل اردو زبان و ادب کے نامور استاد،مستند محقق،زیرک نقاد،ممتاز دانشور اور  یگانۂ روزگار فاضل پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد قریشی  23 جون 2007 کو دائمی مفارقت دے گئے۔ علم و ادب کا وہ آفتاب جہاں  تاب جو  1948میں  گوجر خان (راول پنڈی۔ پنجاب  پاکستان ) سے طلوع ہوا  پوری دنیا کو اپنی ضیا پاشیوں  سے منور کرنے اور  سفاک ظلمتوں  کو کافور کرنے کے بعد عدم کی  بیکراں  وادیوں  میں  غروب ہو گیا۔ اسلام آباد میں  جب ان کا آخری دیدار کرنے میں  ان کی رہائش گاہ پر پہنچا تو ملک کے طول و عرض سے آنے والے ان کے ہزاروں  شاگرد دھاڑیں  مار مار کر رو رہے تھے۔ پورا شہر حسرت و یاس کی تصویر بن گیا تھا۔ ہر دل سوگوار اور  ہر آنکھ اشکبار تھی۔ دلوں  کو مسخر کرنے والے اس عظیم استاد نے اردو تحقیق و تنقید کی ثروت میں  جو اضافہ کیا وہ تاریخ ادب میں  آب زر سے لکھا جائے گا۔ ان کی المناک وفات سے اردو زبان و ادب کے طلبا اور  اساتذہ خود کو بے یار و مددگار محسوس کرتے ہیں۔ اردو تحقیق اور  تنقید کا یہ مرد آہن اپنی ذات میں  ایک انجمن تھا۔ زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس کا ایک عالم معترف تھا۔ ان کی اچانک وفات اتنا بڑا سانحہ ہے جس کے اثرات عالمی سطح پر فروغ اردو کوششوں  پر بھی مرتب ہوئے۔ پوری دنیا  کے علمی اور  ادبی حلقوں  میں  ان کی وفات پر صف ماتم بچھ گئی اور  بے شمار تعزیتی پیغامات آئے۔ وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں  شعبہ اردو کے سربراہ اور  فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین تھے۔ ان کی قیادت میں  علامہ اقبال اوپن یو نیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اردو نے کامیا بیوں  اور  کامرانیوں  کے درخشاں  باب رقم کیے۔ انھوں  نے پانچ سو سے زائد طلبا اور  طالبات کو ایم۔ فل اردو کی تعلیم دی اور  پچاس کے قریب ریسرچ سکالرز نے ان کی رہنمائی میں  پی ایچ۔ ڈی کے تحقیقی مقالے تحریر کیے جو کہ ان کا منفرد اعزاز ہے۔    ؎

کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق                ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد

               ڈاکٹر نثار احمد قریشی کا تعلق ایک ممتاز علمی اور  ادبی خاندان سے تھا۔ ان کے والد ایک عالم با عمل تھے۔ پورے علاقے میں  انھیں  عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ پاکستان بھر میں  اس عظیم خاندان کی شرافت، خود داری،انسانی ہمدردی،خلوص اور  علم دوستی مسلمہ تھی۔  حقیقت میں  وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے شخص تھے۔ ان کی خاندانی روایات جو انھیں  ورثے میں  ملیں  ان کے مطابق ان کے مزاج میں  ایک استغنا تھا۔  وہ در کسریٰ پر صدا کرنے کے قائل نہ تھے بلکہ نان جویں  پر ہی گزر بسر کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔  وہ خودی کو برقرار رکھ کر غریبی میں  نام پیدا کرنے کا عملی نمونہ تھے۔ مشرقی تہذیب اور  اردو زبان و ادب کا اتنا بڑا شیدائی میں  نے آج تک نہیں  دیکھا۔ تہذیب اور  زبان و ادب کے اعتبار سے وہ آفاقیت کے قائل تھے۔ ان کی تربیت ہی ایسے انداز میں  ہوئی تھی کہ وہ انسانی مساوات کو اولین ترجیح دیتے۔ علاقائی،لسانی،نسلی اور  دیگر امتیازات ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں  رکھتے تھے۔ انسانیت کا وقار اور  انسانی حقوق کی پاسداری زندگی بھر ان کا نصب العین رہا۔ کسی کو دکھ اور  تکلیف کے عالم میں  دیکھ کر وہ تڑپ اٹھتے اور  مقدور بھر کو شش کرتے کہ ان دکھوں  کا مداوا کر کے آسانی کی کوئی صورت تلاش کر سکیں۔ غریبوں  کی حمایت،درد مندوں  اور  ضعیفوں  سے محبت ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔ ہوائے جور و ستم میں  بھی وہ رخ وفا کو بجھنے نہ دیتے تھے۔ ان کی زندگی شمع کی صورت تھی اور  وہ اذہان کی تطہیر و تنویر کے لیے وقف تھی۔

            گوجر خان سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں  نے پنجاب یونیورسٹی ، لاہور سے اردو زبان و ادب میں  ایم۔  اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد وہ شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ اپنی تدریسی زندگی کا آغاز انھوں  نے 1972میں  پاکستان فضائیہ کے کالج چکلالہ راول پنڈی سے بحیثیت لیکچرر کیا۔ یہاں  انھوں  نے دو سال تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس دور کی یادوں  کو وہ اپنی زندگی کا بہترین اثاثہ قرار دیتے تھے۔ دو سال بعد وہ گورنمنٹ کالج گجرات  میں   تدریسی خدمات پر مامور ہو گئے۔ انھوں  نے بڑے زوروں  سے اپنی صلاحیتوں  کا لو ہا منوایا۔  انھوں  نے پنجاب یونیورسٹی،لاہور سے نامور  ماہر تعلیم اور  ادیب  صوفی غلام مصطفی تبسم کی حیات اور  ادبی خدمات کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی  ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا یہ تحقیقی مقالہ معیار اور  وقار کی رفعت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔  اعلیٰ تعلیم ان کا نصب العین تھا اس کے بعد وہ پاکستان کے ایک بہت بڑے تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج اصغر مال،راول پنڈی میں  تدریسی خدمات پر مامور ہوئے۔ اس عرصے میں  ان کی علمی اور  ادبی فعالیت میں  بے پناہ اضافہ ہو گیا۔  راول پنڈی ا ور اس کے گرد و نواح میں  منعقد ہونے والی علمی و ادبی نشستوں  میں  ان کی شمولیت سے ان محافل کی رونق کو چار چاند لگ جاتے اور  اس طرح اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے ایک وقیع سلسلے کا آغاز ہو گیا۔ اس عرصے میں انھیں  جن ممتاز ادیبوں  کے ساتھ بیٹھنے اور  مل کر کام کرنے کا موقع ملا ان میں  سید ضمیر جعفری،کرنل محمد خان،بریگیڈئیر شفیق الرحمن،کیپٹن سید جعفر طاہر،محمد خالد اختر،یوسف حسن خان، خاطر غزنوی،محسن احسان، غلام محمد قاصر،غفار بابر،بشیر سیفی،شیر افضل جعفری،رام ریاض،مجید امجد اور  محسن بھوپالی کے نام قابل ذکر ہیں۔ راول پنڈی میں  تنقیدی نشستوں  کے باقاعدہ انعقاد کے سلسلے میں  ڈاکٹر نثار احمد قریشی کا نام اس کے بنیاد گزاروں  میں  شامل ہے۔ ان کے ادبی مضامین اور  شعری تخلیقات 1960 سے شائع ہو رہی تھیں۔ انھیں  ملک کے تمام ادبی حلقوں  میں  پذیرائی نصیب ہوئی۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے اس علاقے میں  علم و ادب کے فروغ کے سلسلے میں ایک تڑپ پیدا کر دی اور  دلوں  میں  ایک ولولۂ تازہ پیدا کر کے اردو زبان و ادب کے شیدائیوں  میں  ایک نئی روح پھونک دی۔ گورنمنٹ کالج اصغر مال راول پنڈی میں  ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے چار سال تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ ان چار برسوں  میں  اس عظیم مادر علمی میں  بزم ادب نے جو فقید المثال کامرانیاں  حاصل کیں  ان کی پہلے کوئی مثال نہیں  ملتی۔ آج بھی اس ادارے  کے اعزازات میں  ڈاکٹر نثار احمد قریشی  کی گراں  قدر  خدمات کا ممنونیت کے جذبات سے اعتراف کیا جاتا ہے۔ کل پاکستان علمی و ادبی تقریبات میں  اس ادارے کے طلبا نے بھر پور شرکت کی اور  خیبر سے مہران تک اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ وہ خود ایک قادر الکلام شاعر،شعلہ بیان مقرر،بلند پایہ مضمون نگار، اور ماہر تعلیم تھے اس لیے ان کے شاگرد ان کی فکر پرور اور  بصیرت افروز  رہنمائی میں  بلند ترین منزلوں  کی جستجو میں  رواں  دواں  رہتے تھے۔ وہ خاک کو اکسیر کرنے اور  ذرے کو آفتاب بنانے کے لیے اپنے خون جگر کی آمیزش سے ید بیضا کا معجزہ دکھانے پر قادر تھے۔ غبار راہ سے جلوہ ہا  تعمیر کرنا ان کی ایسی کرامت تھی جس میں  ان کا کوئی شریک اور  سہیم نہ تھا۔

1978            میں  ڈاکٹر نثار احمد قریشی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں  لیکچرر اردو منتخب ہوئے۔ یہاں  ان کی آمد سے علمی و ادبی حلقوں  میں  خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ جمود کا خاتمہ ہو گیا اور  تخلیق ادب کے لیے فضا انتہائی ساز گار ہو گئی۔  اس دور میں  پاکستان کے نامور ادیب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں  تدریسی خدمات پر مامور تھے۔ ان میں  ڈاکٹر رحیم بخش شاہین،ڈاکٹر محمد ریاض،پروفیسر نظیر صدیقی،ڈاکٹر محمود الرحمن، ڈاکٹر سلطانہ بخش اور  ڈاکٹر بشیر سیفی  کے نام قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی مقناطیسی شخصیت کے اعجاز سے یہاں  ایک ایسی فضا پروان چڑھنے لگی جس نے حالات کی کایا پلٹ دی اور  صحرا کو گلزار میں  بدل دیا گیا۔ پورے ملک سے ریسرچ سکالرز اس عظیم جامعہ میں  داد تحقیق دینے لگے۔ ملک کے طول و عرض سے تشنگان علم ان نا بغہ ء روزگار دانشوروں  سے اکتساب فیض کرنے کے لیے ایسے دیوانہ وار یہاں  آنے لگے جیسے پیاسا کنویں  کی جانب آتا ہے۔ ان اساتذہ کی بے مثال شفقت اور  ایثار کا ہر طالب علم معترف تھا۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کا گھر دور دراز علاقوں  سے آنے والے طلبا کے لیے مہمان خانہ بن جاتا تھا۔  مالی لحاظ سے مستحکم طلبا و طالبات تو وزارت تعلیم کے ہاسٹل یا علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ہاسٹل میں  قیام کرتے جب کہ مجھ جیسے طالب علموں  کی پسندیدہ اقامت گاہ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کا گھر ہی قرار پاتا۔  وہ ایک ماہر نفسیات تھے وہ دلوں  کا سب احوال جانتے تھے۔ چہرہ شناسی میں  کوئی ان کا ثانی نہ تھا۔ وہ خود مستحق طلبا کو دعوت دے کر اپنے ہاں  ٹھہراتے اور  ان کے آرام و آسائش کا پورا خیال رکھتے۔ ان کے ہاں  ہر طالب علم ایک اپنائیت محسوس کرتا اور  کھل کر اپنے مسائل پر گفتگو کرتا۔ ان کے خلوص اور  بندہ پروری نے لاکھوں  دلوں  کو مسخر کر لیا تھا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں  تمام تدریسی عملہ،دفتری ملازمین اور  درجہ چہارم کے ملازمین غرض سب ان سے والہانہ محبت کرتے۔ وہ سب کی مشکلات اور  مسائل سنتے اور  حتی الوسع ان کی دستگیری کرتے۔ اکثر لوگ ان کو ایسا رانجھا قرار دیتے جو سب کا سانجھا تھا۔

              ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی علمی فضیلت اور  قابلیت کا دنیا بھر میں  اعتراف کیا گیا۔ 1995میں  ان کا انتخاب بحیثیت پروفیسر اردو جامعہ الازہر قاہرہ ( مصر ) ہوا۔ انھوں  نے چار سال تک دنیا کی اس قدیم ترین یونیورسٹی میں  اردو زبان و ادب کی تدریس میں  اہم خدمات انجام دیں۔ اس عرصے میں  انھوں  نے عالمی سطح کے متعدد سیمینار منعقد کرائے۔ اس عرصے میں  فیض احمد فیض،مجید امجد،ن۔ م۔ راشد، میرا جی،سعادت حسن منٹو،اشفاق احمد،ممتاز مفتی،قرۃ العین حیدر،شفیق الرحمن،کرنل محمد خان  اور  ناصر کاظمی پر ان کا تحقیقی کام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی انھوں  نے دنیا کے تمام ممالک میں  اردو زبان  و ادب کے فروغ کے لیے  طویل اور  صبر آزما جدوجہد کی۔ دنیا میں  فاصلاتی تعلیم کے وہ سب سے بڑے ماہر تسلیم کیے جاتے تھے مصر میں  اپنے چار سالہ قیام کے دوران میں   وہ بے حد فعال اور  بھر پور کر دار ادا کرتے رہے۔ دنیا کی ممتاز جامعات مین اردو زبان  کے ارتقا پر ان کے توسیعی لیکچرز کی بدولت اردو زبان کو بہت فائدہ پہنچا۔ مصر کی ایک  عرب طالبہ نے ان کی نگرانی میں  اردو افسانے کے ارتقا پر پی ایچ۔ ڈی کا تحقیقی مقالہ لکھا۔ دنیا کے متعدد ممالک سے غیر ملکی زبان بولنے والے ان سے اردو سیکھتے اور  تخلیق ادب میں  ایسی جاں فشانی اور  انہماک کا مظاہرہ کرتے کہ اردو زبان پر ان کی اکتسابی مہارت پر حیرت ہوتی۔  وہ اس دردمندی اور  خلوص سے شاگردوں  کی صلاحیتوں  کو صیقل کرتے کہ جوہر قابل نکھر کر سامنے آ جاتا۔ یہ سب کچھ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی معجز نما تدریس کا کرشمہ تھا۔ انھوں  نے عالمی سطح پر منعقد ہونے والے فاصلاتی نظام تعلیم کے بارے متعدد سیمینارز میں  کلیدی مقالے پیش کیے ،جنھیں  بے حد پذیرائی نصیب ہوئی۔ انھوں  نے میٹرک سے لے کر ایم۔ اے۔ ایم فل اور  پی ایچ۔ ڈی سطح کے اردو زبان کے نصاب کی تمام درسی کتب نہایت محنت اور  ذاتی دلچسپی سے مرتب کرائیں۔ اس وقت یہ کتب پوری دنیا میں  فاصلاتی طریقہ تعلیم کے ذریعے پڑھائی جا رہی ہیں۔ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی خدمات سے اس زبان کو پوری دنیا میں  ممتاز مقام حاصل ہوا۔ ان کے بار احسان سے اردو داں  اہل علم کی گردن ہمیشہ خم رہے گی۔

                دنیا میں  کئی طرح کے انسان پائے جاتے ہیں۔ ان میں  سے ایسے بہت کم ہیں  جو اپنا سب کچھ وطن،اہل وطن اور  بنی نوع انسان کے لیے وقف کر دیں۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی ایسے ہی انسان تھے۔ موجودہ دور میں  فرد کی بے چہرگی اور  عدم شناخت کا مسئلہ روز بروز گمبھیر صورت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کو انسان شناسی میں  کمال حاصل تھا۔ ان کی دوستیاں  لا محدود تھیں  مگر کسی کے ساتھ دشمنی کے بارے میں  انھوں  نے کبھی نہ سوچا اور  نہ ہی ان کا کوئی دشمن تھا۔  جو شخص بھی  ان سے ملتا ان کا گرویدہ ہو جاتا اور  ان کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا۔ وزیر آباد میں  مقیم ان کے ایک شاگرد نے ان کے لیے کٹلری کا ایک بیش قیمت سیٹ لیا اور  ان کی خدمت میں  پیش کرنا چاہا۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے اس تحفے کو قبول کرنے سے معذرت کر لی اور  یہ کہا کہ اس کو فروخت کر کے اس سے ملنے والی رقم کسی ضرورت مند گھرانے کو دے دی جائے۔ چنانچہ ان کی ہدایت کے مطابق اس سیٹ کی رقم وزیر آباد کی ایک مفلس اور  بے سہارا بیوہ کو  پہنچا دی گئی۔ ملک کے طول و عرض میں  ان کے لاکھوں  شاگرد موجود ہیں  وہ سب اس بات کے عینی شاہد ہیں  کہ انھوں  نے تمام عمر کی جمع پونجی اپنی شاگردوں  کی فلاح پر خرچ کر دی۔ ضرورت مند طلبا و طالبات کی دامے ،در مے سخنے مدد کرنا ہمیشہ ان کا شیوہ رہا۔   وہ سب شاگردوں  اور  احباب کی بلا امتیاز  مدد کرتے  اور  کبھی ان کی طرف سے احساس تشکر اور  ممنونیت  کی توقع نہ رکھتے۔ احسان کر کے بھول جانا ان کی عادت تھی۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے رہنے والے ایک پروفیسر جو کہ اسلام آباد میں  ایم۔ فل کی ورکشاپ کے سلسلے میں  آئے ہوئے تھے ، صحت افزا مقام کے تفریحی دورے کا پروگرام منظور نہ ہونے کے باعث ڈاکٹر نثار احمد قریشی سے الجھ پڑے۔  ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے ایبٹ آباد اور  مری کی برف باری اور  شدید دھند کی وجہ سے تفریحی دورہ منسوخ کر دیا تھا۔  ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے بہت سمجھایا مگر وہ دل ہی دل میں  رنجیدہ رہا۔ دسمبر کا مہینہ تھا مری سے آنے والی برفانی ہواؤں  کے باعث وہ پروفیسر صاحب شدید نمونیا کا شکار ہو گئے۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کلاس میں  آئے اس کی غیر حاضری کی وجہ جان کر سخت مضطرب ہو گئے اسی وقت اپنی چھٹی کی درخواست لکھی اور  شاگرد کو لے کر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسلام آباد پہنچے۔  ادویات کے تمام اخراجات خود برداشت کیے جب تک بخار کی شدت کم نہ ہوئی اس وقت تک با وضو ہو کر دعائیں  مانگتے رہے۔ تین گھنٹے کے بعد جب شاگرد اٹھا تو استاد کو سجدۂ شکر میں  پایا۔ وہ  فرط عقیدت سے بے قابو ہو کر آگے بڑھا اور  استا د کے قدموں  میں  گر پڑا۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی اس سے لپٹ کر رونے لگے اور  کہا میدانی علاقے کے باشندے پہاڑی علاقوں  کی شدید سردی برداشت نہیں  سکتے اسی لیے میں  نے تفریحی دورہ منسوخ کر دیا تھا۔ اس شاگرد کو اپنی شدید غلطی کا احساس ہو چکا تھا۔ اس نے معافی کی استدعا کی تو ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے مسکرا کر کہا ’’اللہ کریم آپ سب کے لیے آسانیاں  پیدا کرے ‘‘۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر نثار احمد قریشی دوسروں  کے لیے آسانیاں  تلاش کرتے کرتے بعض اوقات خود کو مشکلوں  میں  ڈال دیتے۔  ان کی زندگی اسی کشمکش میں  گزری کبھی سوز و ساز رومی اور  کبھی پیچ و تاب رازی۔ اس کے باوجود ان کے چہرے پر کبھی گرد ملال کسی نے نہ دیکھی۔ دنیا میں  خیر اور  فلاح کا نظام ایسے ہی نیک انسانوں  کے وجود کا مرہون منت ہے۔

           ڈاکٹر نثار احمد قریشی راسخ العقیدہ سنی مسلمان تھے۔  ہر قسم کی عصبیت اور  فرقہ وارانہ تعصب سے انھیں  شدید نفرت تھی۔  انھوں  نے چار مرتبہ فریضہ حج کی سعادت حاصل کی اور  چار مرتبہ رمضان المبارک کے مہینے میں  عمرہ کی سعادت سے فیض یاب ہوئے۔  عمر ہ کے دوران ماہ صیام کے آخری عشرے میں  وہ مسجد نبوی اعتکاف میں  بیٹھتے اور  ہر تیسرے روز وہ قرآن حکیم کی مکمل تلاوت کر لیتے۔ ان کی نیکیوں  اور  عبادات سے بہت کم لوگ آگاہ ہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ وہ اک شان استغنا سے متمتع تھے۔ نمود و نمائش اور  ریا کاری سے ان کو چڑ تھی۔ وہ پابند صوم و صلوۃ  تھے۔ ہر روز وہ نماز تہجد اسلام آباد کی فیصل مسجد میں  ادا کرتے۔ اپنی رہائش گاہ سے مسجد تک کا فاصلہ جو قریباً ایک کلو میٹر ہے وہ روزانہ پیدل طے کرتے۔ یہی ان کی ورزش تھی اور  اسی کو وہ صبح کی سیر پر محمول کرتے تھے۔ نیکی اور  صحت کا یہ حسین امتزاج ان کی شخصیت کو مسحورکن بنا دیتا تھا۔ وہ با وضو ہو کر اپنے دفتر میں  بیٹھتے نہایت مستعدی اور  فرض شناسی سے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے۔ ان کی پیشہ ورانہ دیانت اور  احساس ذمہ داری کو سب تسلیم کرتے تھے۔ ان کے دفتر میں  دعوتوں  اور  ضیافتوں  کا تصور ہی نہ تھا۔ فارغ وقت میں  درود پاک اور  آیات  قرآن حکیم کی تسبیح پڑھتے۔   ہمارا معاشرہ قحط الرجال کے باعث عمومی اعتبار سے بے حسی کا شکار ہے کسی کے بارے میں  کلمۂ خیر ادا کرنے میں  بالعموم تامل سے کام لیا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ حسد اور  بغض و عناد  کے باعث بعض کینہ پرور لوگ بلا وجہ بھی در پئے آزار ہو جاتے ہیں۔ ان اعصاب شکن حالات میں  وہ ایسے وقت گزارتے جیسے بتیس دانتوں  میں  زبان رہتی ہے۔  وہ سب کے لیے فیض رساں  تھے جو لوگ ضرر رساں  ہوتے ان سے ہمیشہ دور رہتے یہاں  تک کہ ان سے سرسری ملاقات میں  بھی اکثر تامل کرتے  تا ہم کسی کے خلاف کوئی رد عمل کبھی ظاہر نہ کرتے البتہ قرآن حکیم کی سورۃ الناس اور  سورۃ ا  لفلق کا کثرت سے ورد کرتے۔ ان کا برتاؤ سب کے ساتھ ہمدردانہ اور  مشفقانہ رہا کسی کو محض ذاتی رنجش کی بنا پر انھوں  نے کبھی ہدف تنقید نہ بنایا۔ وہ احباب کی خوبیوں  پر نظر رکھتے اور  ان کو جی بھر کر سراہتے اگر کسی کی کوئی خامی انھیں  معلوم ہوتی تو اسے تنہائی میں  سمجھاتے اور  دلائل سے قائل کرتے ، تحکمانہ لہجہ کبھی اختیار نہ کیا بلکہ ہمیشہ عجز و انکسار کی روش اپنائی۔ کسی کی غیبت نہ کرتے اگر کوئی ان کی موجودگی میں  کسی کی غیبت کرتا تو سختی سے اس کی ممانعت کرتے۔  ان کا کہنا تھا کہ معاشرتی زندگی کے بیش تر مسائل اور  فسادات کا بنیادی سبب غیبت ہی ہے۔  ان کی محفل میں  جب کوئی نا دانستہ طور پر بھی کسی کے عیوب خواہ وہ حقیقی بھی ہوتے ان کے سامنے بیان کرتا تو ڈاکٹر نثار احمد قریشی کے چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا اور  وہ نہایت ناگواری سے اسے ٹوکتے اور  اکثر یہ مصرع پڑھتے

   تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو

               ڈاکٹر نثار احمد قریشی 2001 میں  علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں  شعبہ اردو کے صدر مقرر ہوئے۔ اس کے بعد 2005 میں  انھیں  ڈین آف آرٹس کے منصب پر فائز کیا گیا۔ اپنی خداداد صلاحیتوں  اور  وسیع تجربہ کو بروئے کا رلاتے ہوئے آپ نے اس یونیورسٹی کو ملک کی یونیورسٹیوں  کی رینکنگ میں  بہت آگے پہنچا دیا۔ عالمی جامعات کی رینکنگ مین بھی اس عظیم مادر علمی کو ممتاز اور  منفرد مقام نصیب ہوا۔ یہ سب کامرانیاں  ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی ولولہ انگیز قیادت او رفقید المثال تدبر کا ثمر ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی تاریخ میں  جس طرح  ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی علمی،ادبی اور  تدریسی خدمات کا اندرون ملک اور  بیرون ملک ہر سطح پر اعتراف کیا گیا اور  ان کے اعزاز میں  پر وقار تقریبات کے انعقاد سے ان کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا،اس سے قبل ایسی کوئی تابندہ روایت موجود نہ تھی۔ انھوں  نے اس عرصے میں  متعدد سیمینارز کا اہتمام کیا جن میں  ممتاز ماہرین لسانیات،دانشور،ادیب،محقق،اساتذہ،فلسفی،ماہرین نفسیات اور  نقاد شامل ہوئے۔ اب جامعہ کے ڈھنگ ہی نرالے تھے کہیں  ادبی نشستیں  منعقد ہو رہی تھیں  اور  کہیں  ڈرامہ فیسٹیول کا اہتمام ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے تعلیمی نظام میں  پائے جانے والی تشکیک،بے یقینی،بے عملی اور  جمود کو رفع کرنے کی خاطر جو لائق صد رشک و تحسین جدو جہد کی عالمی سطح پر اسے بنظر تحسین دیکھا گیا۔  ان کی طلسمی شخصیت، مشفقانہ طرز عمل، تبحر علمی اور  ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت نے قلب و نظر کو مسخر کر لیا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کی تاریخ میں  آرٹس کے شعبے میں  اس قدر چہل پہل اس سے قبل کبھی نہ دیکھی گئی اور  اب ان کی وفات کے بعد شعبہ آرٹس حسرت و یاس کی تصویر نظر آتا ہے۔ فیض ا حمد فیض کا یہ شعر بے ساختہ لبوں  پر آ جاتا ہے   ؎

  ویراں  ہے مے کدہ خم و ساغر اداس ہیں                   تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

                 پاکستان میں  او رپاکستان سے باہر رہنے والے دانشوروں  سے ڈاکٹر نثار احمد قریشی کے قریبی تعلقات تھے۔ ممتاز فرانسیسی دانشور دریدا (Derrida)  اور  ماہر بشریات کلاڈ لیوی سٹراس سے وہ مل چکے تھے ان کے نظریات کے بارے ان سے تبادلہ خیال کرنے کے بعد جب وہ رد تشکیل،جدیدیت،مابعد جدیدیت،ساختیات اور  پس ساختیات کے بارے میں  تجزیہ پیش کرتے تو فکر و نظر کے نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے۔ ایسا محسوس ہوتا کہ دریا کی روانی کے مانند دلائل کا سیل رواں  ہے جو جہالت کو خس و خاشاک کی صورت بہائے لیے جا رہا ہے۔ جب و ہ تقریر شروع کرتے تو سننے والے ہمہ تن گوش ہو جاتے۔  تقریر کی اثر آفرینی کا یہ عالم ہوتا کہ جو کچھ وہ کہتے وہ قلب و روح کی گہرائیوں  میں  سما جاتا۔ ان کی بات دل سے نکلتی اور  دل میں  اترتی چلی جاتی اور  پتھروں  سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی۔ ان کے لیکچرز اگر کتابی صورت میں  شائع ہو جائیں  تو یہ بہت بڑی علمی خدمت ہو گی۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کی طرف سے اب تک اردو کی جتنی نصابی کتب شائع ہوئی ہیں   اِن میں  ڈاکٹر نثار احمد قریشی کے معرکہ آرا تحقیقی اور  تنقیدی مضامین شامل ہیں۔  دنیا کے بیشتر ممالک میں  جہاں  اردو کی تدریس جاری ہے  وہاں  یہ کتب بے حد مقبول ہیں۔  درسی کتب کے علاوہ ان کی تحقیقی اور  تنقیدی کتب کی تعداد بیس کے قریب ہے۔ ان کی کتاب ’’ دنیا جن سے روشن ہے ‘‘ بے حد مقبول ہوئی۔ اس تالیف میں  انھوں  نے نامور شخصیات سے ان کے پسندیدہ اساتذہ کے سوانحی خاکے لکھوائے۔ یہ سب خاکے ان نابغہ روزگار اساتذہ کے بارے میں  لکھے گئے ہیں  جن کے فیضان نظر سے نوع انساں  کی تقدیر بدل جاتی ہے۔ زندگی کی معنویت اور  مقصدیت کو اجاگر کرنے میں  یہ کتاب ایک گنج گرانمایہ ہے۔ اپنے تخلیقی وجود کا اثبات کرنا ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔  صوفی غلام مصطفی تبسم کی حیات اور  خدمات پر ان کی تحقیقی کتاب اس کی درخشاں  مثال ہے۔ وہ ایک عہد ساز شخصیت تھے اپنے فنی تجربات کے ذریعے وہ نئے امکانات کی جستجو میں  ہمہ وقت مصروف عمل رہتے۔  ان کا لہجہ اور  اسلوب ندرت،تازگی اور  تنوع کا مظہر تھا۔  اس وقت اردو زبان و ادب کی تدریس کا سلسلہ پوری دنیا میں  روز افزوں  ہے اس کی بنیاد میں  بلا شبہ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی محنت شاقہ اور  خون جگر کی آمیزش موجود ہے۔ اردو زبان و ادب اس وقت افلاک کی وسعتوں  سے آشنا ہے اس ارفع مقام تک رسائی کے کٹھن مرحلے میں  اسے ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی بے لوث اور  دانشورانہ اعانت نصیب رہی ہے۔ اس شمع کو فروزاں  رکھنے میں  ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے جو گراں  قدر خدمات انجام دیں ،ان کی بدولت جریدۂ عالم پر ان کا نام تا ابد نمایاں  طور پر ثبت رہے گا۔

        ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی زندگی میں  مذہب کو بہت اہم مقام حاصل رہا۔ عبادات اور  عقائد کو وہ ہمیشہ کلیدی مقام کا حامل سمجھتے۔ سیمینارز،تقریبات،کلاسز،ادبی محافل اور  مشاعروں  میں  بھی  وہ نماز کے لیے وقفہ ضرور رکھتے اور  یہ کوشش کرتے کہ تمام حاضرین با جماعت نماز پڑھیں۔ جب وہ اپنے شاگردوں  کے جھرمٹ میں  مسجد میں  درس قرآن دیتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ ماہتاب اور  ستاروں  کی ایک کہکشاں  بن گئی ہے جو ظلمتوں  کو کافور کرنے کی سعی میں  انہماک سے مصروف عمل ہے۔ وہ الفاظ کے بر محل استعمال سے اپنی ذہنی اور  روحانی کیفیات سے سامعین کو مسحور کر دیتے۔ تاریخ کو وہ ایک مسلسل عمل سے تعبیر کرتے اور  اسے تہذیبی بالیدگی کے لیے ناگزیر قرار دیتے۔ وہ تاریخ اسلام کے ذریعے نئی نسل کو اسلام کے تہذیبی اور  ثقافتی  ورثے سے روشناس کرانے کی سعی کرتے تھے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ تہذیب اور  تمدن کی نشو و ارتقا اور  بالیدگی کا تقاضا یہ ہے کہ عصری آگہی کو فرو غ دیا جائے اور  اقتضائے وقت کے مطابق ہر قسم کے چیلنج سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے خود کو تیار رکھا جائے۔ قرآن حکیم کی تعلیمات کو وہ بہت اہم قرار دیتے اور  اس بات کی جانب توجہ دلاتے کہ یہ الہامی کتاب تمام بنی نوع انساں  کے لیے پیام نو بہار ہے۔ اپنے آبا و اجداد کی تحریک پاکستان میں  خدمات اور  معاشرتی  زندگی کو راہ راست پر لانے کی انتھک جدوجہد کے

بارے میں  تمام حقیقی واقعات وہ بڑے انکسار سے بیان کرتے۔  اپنے خاندان کی علمی و ادبی خدمات پر انھیں بجا طور پر ناز تھا۔ اس کے ساتھ ہی وہ اس بات کو لائق اعتذار نہیں  سمجھتے تھے کہ ان کا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے ،جس نے اپنی محنت اور  لگن سے اپنے لیے رزق حلال کے مواقع پیدا کیے۔ ماضی اور  حال کے بارے میں  غور و فکر سے وہ اپنے شاگردوں  کے ذہنوں  کو جلا بخشتے اور  استعداد کار کو مہمیز کرتے۔   حریت فکر و عمل اور  آزادیِ اظہار کو وہ انسانی آزادی کے لیے نا گزیر سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اپنی اصلیت کے اعتبار سے حقیقی آزادی کا احساس وہ گوہر یکتا ہے جو شعور اور  ذہن کے ارتقا کے لیے لازمی ہے اور  اسی کے اعجاز سے مقاصد زیست کو مقاصد کی رفعت میں  ہمدوش ثریا کیا جا سکتا ہے۔ وہ اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ فطرت جس طرح لالے کی حنا بندی کرتی ہے اس کے تہذیب  و معاشرت اور  معاشرتی زندگی کے تمام پہلوؤں  پر  پر دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ فطرت کی تمنا یہ ہے کہ ہر شب کو سحر کرنے کی سعی کی جائے۔  منشائے قدرت اور  رمز مسلمانی  بھی یہی ہے کہ بنی نوع انساں  کو ایسی تہذیب سے متمتع کیا جائے کہ اس کا وجود پوری تابانی کے ساتھ برقرار رہے اور  ہر رنگ میں  اس کے وجود کا اثبات سامنے آئے۔

     ڈاکٹر  نثار احمد قریشی انتہائی وضع دار،شریف اور  خوش اخلاق انسان تھے۔ یہاں  تک کہ تمام وضیع بھی ان سے خائف رہتے۔ وہ اکثر کہا کرتے روزمرہ معمولات میں  ملاقاتیوں  کے ساتھ حسن سلوک اور  خوش اخلاقی سے پیش آنا بھی ایک نیکی ہے جس کا اجر اللہ کریم کی بارگاہ سے ضرور ملتا ہے۔ یہ ایک ایسی نیکی ہے جس کے لیے چلہ کشی یا کسی بڑی تپسیا کی ضرورت نہیں۔ درد آشنا لوگوں  کے لیے اس کے فراواں  مواقع تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت سامنے آتے ہیں۔ حیف صد حیف کہ اکثر لوگ خلوص،دردمندی اور  ایثار سے عاری ہونے کے باعث اس نیکی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ہوس نے نوع انساں  کو جس انتشار اور  پراگندگی کی بھینٹ چڑھا رکھا ہے اس کے باعث ایسی نیکیوں  سے لوگوں  نے شپرانہ چشم پوشی کو شعار بنا لیا ہے۔ زندگی آرزوؤں ،امنگوں  اور  تمناؤں  کے ایک لا محدود اور  غیر مختتم سلسلے کا نام ہے۔  ان حالات میں  میں  بھی دل بینا رکھنے والے اپنے لیے ایک الگ راہ کا تعین کر لیتے ہیں۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی زندگی قناعت،استغنا اور  خود داری کی درخشاں  مثال تھی۔ آپ نے اپنی خواہشات کو ہمیشہ اعتدال اور  توازن میں  رکھا اس لیے وہ ایام کے مرکب نہیں  بلکہ راکب تھے۔ ان کی شخصیت کی عطر بیزی اور  اور  سدا بہار شگفتگی کا راز یہ تھا کہ وہ ہمیشہ احتیاط سے کام لیتے اور  دانش مندانہ ذاتی رائے کی روشنی میں  فیصلے کرتے۔ وہ متلون مزاج لوگوں  کو ناپسند کرتے تھے۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کوئی فیصلہ کرنے سے قبل اس کے تمام پہلو پیش نظر رکھتے اور  حقیقت پسندانہ اور  غیر جانبدارانہ انداز میں  ایک مضبوط اور  مستحکم انداز میں  رائے قائم کر تے۔ اس کے بعد اس پر نہایت استقامت کے ساتھ قائم رہتے اور  ہر قسم کی آزمائش سے گزرنے پر تیار ہو جاتے۔  کورانہ تقلیدی تصورات کو انھوں  نے ہمیشہ مسترد کیا اور  جہان تازہ کی جستجو پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔

                اللہ کریم نے ڈاکٹر نثار احمد قریشی کو اطاعت خداوندی،ضبط نفس،تحمل،بردباری اور  توازن کی فراواں  دولت عطا کی تھی ان کے ذوق سلیم اور  عمدہ صفات کا ایک عالم معترف تھا۔ زندگی کی اقدار  عالیہ کے فروغ میں  انھوں  نے گہری دلچسپی لی۔ انسانیت کے وقار اور  سربلندی کے لیے وہ قلم کی حرمت پر اصرار کرتے تھے۔ ایک نکتہ طراز نقاد کی حیثیت سے انھوں نے نہ صرف ادب کی اہمیت اور  افادیت کو نہایت خلوص کے ساتھ  اجاگر کیا بلکہ ادیب کی عزت نفس، اور قدر و منزلت اور  معاشرتی حیثیت کو تسلیم کرنے کی جانب توجہ دلائی۔ جذبۂ انسانیت نوازی کا جو بلند معیار ان کی شخصیت میں  موجود تھا موجودہ زمانے میں  عنقا ہے۔ وطن،اہل وطن اور  بنی نوع انساں  کے ساتھ والہانہ محبت اور  قلبی وابستگی ان کی شخصیت کا نمایاں  ترین وصف تھا۔ اپنی تحریروں  میں  وہ ارتباط و تعمیم کی ایک مسحور کن دلکش فضا پیدا کر لیتے تھے۔  جب وہ اپنے جذبات،احساسات،تجربات اور  مشاہدات کو پیرایۂ اظہار عطا کرتے تو قاری ان کے اسلوب کا گرویدہ ہو جاتا۔ اسے یہ محسوس ہوتا کہ یہ سب کچھ تو گویا پہلے سے اس کے دل میں  موجود تھا۔ فکر و نظر کی صحیح سمت،حق گوئی و بے باکی تخیلات کی تونگری،مشاہدات کی ندرت،اسلوب کی انفرادیت اور  مقاصد کی حکمت کے حسین امتزاج سے وہ ید بیضا کا معجزہ دکھاتے۔ اس طرح ان کی تحریریں  روح کی تفسیریں  بن کر سامنے آتیں  اور  پتھروں  کو بھی موم کر دیتیں۔ ان کے تمام معمولات،قول و فعل اور  گفتار و کر دار میں  ان کی شخصیت کے دھنک رنگ پہلو صاف دکھائی دیتے تھے۔

                عادات اور  ارادی اعمال کی تنظیم وہ اس انداز میں  کرتے کہ سیرت اور  کر دار میں  نکھار پیدا ہو جاتا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ تمام عادات و افعال جو آغاز کار کے وقت شعوری اور  اختیاری صورت میں  رو بہ عمل لائے جاتے ہیں  بالآخر وہی انسان کی سیرت اور  کر دار کے روپ میں  جلوہ گر ہو کر اس کی شناخت کا وسیلہ بن جاتے ہیں  سیرت کو وہ کر دار کے باطنی پہلو کا نام دیتے تھے۔ سیرت اور  کر دار کی تعمیر میں  وہ معاشرے اور  سماج کو بہت اہم خیال کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ  حلقۂ احباب کے انتخاب میں  بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔ ان کی پہچان ان کی صحبت سے کی جا سکتی ہے۔ ان کے حلقۂ احباب میں  دنیا کے ممتاز ادیب،دانشور،نقاد،محقق اور  فلسفی شامل تھے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ثبوت اور  ناقدانہ بصیرت کے ذریعے فرد کی عدم شناخت کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ انھوں  نے زمانہ حال اور   ماضی کے اہم واقعات اور  نشانیوں  کو بہت اہم گردانتے ہوئے ان کے تحفظ کی تلقین کی۔ ان کی تحریریں  جہاں  تک مواد کا تعلق ہے ،اجتماعی نوعیت کی ہیں  مگر تخلیقی اسلوب کے لحاظ سے ان کی انفرادیت مسلمہ ہے۔ ان کی شخصیت کا ایک واضح پرتو ان کے اسلوب میں  پرتو فگن ہے جو انھیں  اپنے معاصر اہل قلم سے ممیز کرتا ہے۔ وہ جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا اپنی زندگی کا نصب العین سمجھتے تھے۔  الفاظ کو فرغلوں  میں  لپیٹ کر پیش کرنا اور  کسی مصلحت کے تحت کلمۂ حق ادا کرنے سے گریز کرنا ان کے نزدیک منافقت اور  ریا کاری کی قبیح مثال ہے۔ ظلم کو برداشت کرنا اور  اس کے خلاف احتجاج نہ کرنا ان کے نزدیک بہت اہانت آمیز رویہ ہے۔ اپنی تمام زندگی میں  انھوں  نے کبھی کسی باب رعایت سے داخل ہونے کی کوشش نہ کی۔ وہ  میرٹ کے زبردست حامی تھے۔ انھوں  نے تعلیمی زندگی میں  میرٹ کی بالا دستی کو یقینی بنانے کی مقدور بھر کوشش کی اور  کبھی کسی سفارش یا پرچی پر دھیان نہ دیا۔ اب دنیا میں  ایسی ہستیاں  کہاں؟

                 موت کے جانکاہ صدمے اور  اس کے نا قابل اندمال چرکے ازل سے انسان کے مقدر میں  لکھ دیے گئے ہیں۔ موت سے بھلا کس کو رستگاری ہے آج وہ تو اس کے بعد کل ہماری باری ہے۔ یاں  تو سب یار کمر باندھے ہوئے چلنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ رخش عمر مسلسل رو میں  ہے ،کسی کو کیا معلوم کہ یہ کہاں  تھمے گا ؟انسان کا نہ تو ہاتھ باگ پر ہے اور  نہ ہی پا رکاب میں  ہے۔ بنی نوع انساں کے مقدر میں  یہ روح فرسا المیہ لوح محفوظ پر لکھ دیا گیا ہے کہ تمام نفوس فنا کی زد میں  آ کر رہیں  گے اور  بقا صرف اللہ کریم کی ذات کو ہے۔ یہ معمہ ایسا ہے جو نہ سمجھ میں  آتا ہے اور  نہ ہی کوئی دانائے راز اس کی گرہ کشائی کر سکا ہے کہ وہ لوگ جو سفاک ظلمتوں میں  ستارۂ سحر کے مانند ضو فشاں  رہتے ہیں ،جن کا وجود انسانیت کی فلاح،مسرت اور  وقار کے لیے عطیہ ء خداوندی ہوتا ہے ،جن کی زندگی کا مقصد درد مندوں  اور  ضعیفوں  سے محبت کرنا ہوتا ہے ،جو ایک شجر سایہ دار کے مانند ہوتے ہیں  کہ خود سورج کی جھلسا دینے والی گرمی برداشت کرتے ہیں  مگر دکھی انسانیت کو خنک چھاؤں  فراہم کرتے ہیں  اچانک اور  وقت سے پہلے ہم ان کی رفاقت سے کیوں  محروم ہو جاتے ہیں۔ اجل کے ہاتھ ایسے عطر بیز گلستانوں  کو ویران کیوں  کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی اچانک وفات نے دل دہلا دیا،مایوسی اور  محرومی کی جان لیوا کیفیت میں  کوئی امید بر نہیں  آتی اور  نہ

 ہی جانگسل تنہائی کی عقوبت سے بچ نکلنے کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ زندگی اور  موت کے راز ہائے سربستہ کی تفہیم پر کون قادر ہے۔  فرشتہ ء اجل ان چارہ گروں  اور  مسیحا صفت لوگوں  کو ہم سے مستقل طور پر جدا کر دیتا ہے جنھیں  ہم دیکھ کر جیتے تھے وہ ہمیں  دائمی مفارقت دے کر ہمیں  اس دھوپ بھری دنیا میں  بے یار و مدد گار چھوڑ کر کر چلے جاتے ہیں۔  اور  اس کے بعد گل چین ازل ہمیں  ان کی دائمی مفارقت دے کر آہوں ،آنسوؤں  اور  سسکیوں  کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔ اس وقت جب کہ ہم اپنے ایک عظیم استاد سے محروم ہو چکے ہیں  ہماری بے بسی اور  بے چارگی کا احساس کون کرے گا اور  کون یہ کیفیت دیکھے گا۔ مجید امجد کے یہ اشعار حقیقی صورت حال کے غماز ہیں   ؎

کون دیکھے گا

جو دن کبھی نہیں  بیتا وہ دن کب آئے گا

انہی دنوں میں  اس اک دن کو کون دیکھے گا

اس ایک دن کو جو سورج کی راکھ میں  غلطاں

انہی دنوں کی تہوں  میں  ہے ، کون دیکھے گا

میں  روز ادھر سے گزرتا ہوں  کون دیکھتا ہے

میں جب ادھر سے نہ گزروں  گا کون دیکھے گا

ہزار چہرے خود آرا ہیں کون جھانکے گا

مرے نہ ہونے کی ہونی کو کون دیکھے گا

              ڈاکٹر نثار احمد قریشی اب اس دنیا میں  نہیں  رہے۔ ان کے نہ ہونے کی ہونی دیکھنے کے لیے ان کے لاکھوں  شاگرد اور  کروڑوں  مداح تقدیر کے لگائے ہوئے زخموں  کے باوجود زندہ ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ زندگی اب ایک مستقل محرومی کے سوا کچھ نہیں  رہی۔

٭٭٭

 

ڈاکٹر سید اختر حسین اختر:ایک روشن دماغ  تھانہ رہا

      عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز ادیب دانشور،ماہر تعلیم اور  صحافی ڈاکٹر سید اختر حسین اختر نے ترک رفاقت کی۔ 3مئی 1937کو ٹیگرام(بالا)تحصیل چک درہ ضلع دیر مالا کنڈ دویژن صوبہ خیبر پختون خواہ سے طلوع ہونے والا علم و ادب کا آفتاب جہاں  تاب 15 مارچ 2011کی شام کو لاہور کے افق پر غروب ہو گیا۔ یہ درویش منش تخلیق کار پوری دنیا کو اپنے افکار کی ضیا پاشیوں  سے منور کرنے کے بعد عدم کی بے کرا ں  وادیوں  کی جانب سدھار گیا۔ سوڈیوال کالونی ملتان روڈ لاہور سے کچھ فاصلے پر واقع شہر خاموشاں  کے ایک گوشے میں  یہ لافانی ادیب آسودہ ء  خاک ہے۔ اپنی تمام زندگی علم و ادب کے فروغ کے لیے وقف کر دینے والے حریت فکر کے اس جلیل القدر مجاہد کا نام جریدہ ء عالم پرتا ابد ثبت رہے گا۔ انھوں  نے علم،ادب،تاریخ،تہذیب و ثقافت، زندگی کی اقدار عالیہ اور  معاشرتی زندگی میں  امن و آشتی کے فروغ کی خاطر جو گراں  قدر خدمات انجام دیں وہ  ہماری قومی تاریخ اور  تاریخ ادب کا ایک درخشاں  باب ہیں۔ ان کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔

برس گیا بہ خرابات آرزو تیرا غم

     قدح قدح تری یادیں  سبو سبو ترا غم

         ڈاکٹر سید اختر حسین اختر ایک عظیم محب وطن پاکستانی تھے۔ وطن،اہل وطن اور  پوری انسانیت کے ساتھ ان کی والہانہ محبت اور  قلبی وابستگی کا ایک عالم معترف تھا۔ ان کی مادری زبان اگرچہ پشتو تھی مگر انھیں  دنیا کی بیشتر اہم زبانوں  پر عبور حاصل تھا۔ ان میں  اردو،فارسی،عربی،انگریزی،ہندی،پنجابی،سندھی،سرائیکی،بنگالی،ہندکو،بلوچی،جاپانی،چینی اور  جرمن زبانیں  قابل ذکر ہیں۔ عالم ادبیات کا انھوں  نے عمیق مطالعہ کیا  اور  اس طرح تہذیبی ہم آہنگی کے لیے مقدور بھر سعی کی۔ دنیا بھر کے ادیب ان کی علمی و ادبی خدمات کو بہ نظر تحسین دیکھتے تھے۔ ان میں  رالف رسل،جیکوئس دریدا، سبط الحسن ضیغم، استاد دامن،قرۃ العین حیدر،ڈاکٹر نثار احمد قریشی،ڈاکٹر بشیر سیفی،میاں  اقبال زخمی،شریف کنجاہی،سمیع اللہ قریشی،احمد حسین قلعہ داری،راجا رسالو،محمد آصف خان،نور احمد ثاقب،اقتدار واجد،رام ریاض،معین تابش اور   صاحب زادہ رفعت سلطان شامل ہیں۔ ان کا حلقۂ احباب بہت وسیع تھا اُن کی دوستیاں  لا محدود تھیں  لیکن کسی کے ساتھ معمولی رنجش کے بھی وہ روادار نہ تھے۔ ان کی شخصیت بے لوث محبت،خلوص،دردمندی،ایثار،انسانی ہمدردی، حریت فکر و عمل اور  قومی وقار اور  سر بلندی کے اوصاف سے متمتع تھی۔

      پنجابی زبان و ادب کی عظیم روایات سے انھیں  عشق تھا۔ وہ پنجابی  زبان کے کلاسیکی شعرا کے بہت بڑے  مداح تھے۔ وہ شاہ حسین،بلھے شاہ،حضرت سلطان باہو،میاں  محمد بخش،وارث شاہ،علی حیدر ملتانی  اور  پیر مہر علی شاہ کے شیدائی تھے۔ پنجابی زبان کے کلاسیکی ادبی ورثے سے متاثر ہو کر انھوں  نے اس زبان کی ادبی روایات کو آگے بڑھانے کا عزم صمیم کر لیا۔ 1965میں  انھوں نے اپنا ایک ادبی مجلہ  جاری کیا جس کا نام ’’ لہراں ‘‘ تھا۔ وقت گزرنے کا ساتھ ساتھ اس رجحان ساز ادبی مجلے نے ایک مضبوط اور  مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی۔ اپنی مدد آپ کے تحت شائع ہونے والا پنجابی زبان کا یہ ادبی مجلہ سفاک ظلمتوں  میں  ستارۂ سحر بن کر اذہان کی تطہیر و تنویر کا وسیلہ ثابت ہوا۔ روشنی کا یہ سفر اب تک جاری ہے اور  ’’لہراں  ‘‘ کا  مئی 2011کا شمارہ دیکھ کر آنکھیں  بھیگ بھیگ گئیں۔ مجلہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ شائع ہو ا ہے صر ف مجلس ادارت میں  سے ڈاکٹر سید اختر حسین اختر کا نام  حذف کر دیا گیا ہے اب یہ  تاریخی مجلہ ان کی یاد میں  شائع ہوا کرے گا۔  اب ان کا نام لہراں  کے بانی ایڈیٹر کے طور پر درج ہے یہی تو تاریخ کا مسلسل عمل کہلاتا ہے۔

دائم آباد رہے گی دنیا

ہم نہ ہوں  گے کوئی ہم سا ہو گا

       ایک وسیع النظر ادیب کی حیثیت سے انھوں نے اپنی تخلیقی فعالیت کا اس طرح اثبات کیا کہ پوری دنیا میں  ان کے کام کی تحسین ہوئی۔ پنجابی زبان و  ادب کے فروغ کے لیے ان کی عظیم الشان خدمات کا علمی و ادبی حلقوں  میں  اعتراف کیا گیا۔ انھیں  متعدد ملکی اور  بین الاقوامی ایوارڈ ملے جن میں  سے اہم ایوارڈ حسب ذیل ہیں :

استاد عشق لہر ایوارڈ،مسعود کھدر پوش ایوارڈ،بلھے شاہ ایوارڈ،سائیں مولا بخش ایوارڈ،پروفیسر پیارا سنگھ سرومنی ایوارڈ(کینیڈا)، بھائی ویر سنگھ ایوارڈ(بھارت)   وہ تمام عمر ستائش اور  صلے کی تمنا سے بے نیاز پرورش لوح و قلم میں  مصروف رہے۔ ایک مستعد،جری اور  زیرک تخلیق کار  کے طور پر انھوں  نے بڑے زوروں  سے اپنے آپ کو منوایا۔ ان کی تخلیقی فعالیت کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ اکثر نو آموز ادیبوں  کو ان کے وسیلے سے ادبی حلقوں  تک رسائی نصیب ہوئی۔ ان کا ادبی مجلہ نو خیز ادیبوں  کی ایک تربیت گاہ تھا جہاں  ہونہار اور  با صلاحیت ادیبوں  کی صلاحیتوں  کو صیقل کیا جاتا  تھا۔ اس تمام کام میں   وہ ہمہ وقت مصروف رہتے اور  اپنا سب کچھ اس کام کے لیے وقف کر دیا۔ ان کے ادبی منصب کے اعتراف میں  انھیں  جو اہم ذمہ داریاں  اور  اعزاز ملے ان میں  سے کچھ درج ذیل ہیں :

     پنجابی سائنس بورڈ کی مجلس عاملہ کے رکن،مسعود کھدر پوش ٹرسٹ لاہور کے ادبی مشیر،پاکستان  رائٹرز گلڈ کے سینئیر رکن،پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگیویج آرٹ اینڈ کلچر (PILAC)کے بورڈ ممبر اور  لہراں  ادبی بورڈ کے جنرل سیکرٹری۔ یہاں  یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ لہراں  ادبی بورڈ کا قیام فروغ علم و ادب میں  کلید ی اہمیت کا حامل اقدام ہے۔ یہ اسی طرز پر کام کرتا ہے جس پر شبلی نعمانی کا دار المصنفین اعظم گڑھ کام کرتا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ دنیا بھر سے شاہ کار ادبی تخلیقات کے تراجم پنجابی میں  شائع کیے جائیں۔ اس طرح دو مختلف تہذیبوں  کے مابین سنگم کی ایک صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ لہراں  ادبی بورڈ کو اپنی زندگی کا ایک اہم ترین نصب العین قرار دیتے تھے۔ اس کے زیر اہتمام وہ ان نابغہ روزگار ادیبوں  کے کارہائے نمایاں  منظر عام پر لانے کے آرزومند تھے جو ابلق ایام کے سموں  کی گرد میں  اوجھل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں  نے لہراں  کے متعد خاص نمبر بھی شائع کیے۔ ان میں  سے چند کے نام یہ ہیں :

    خواجہ فرید نمبر،رفیع پیر نمبر،افضل احسن رندھاوا نمبر،عشق لہر نمبر،امرتا پریتم نمبر،فیض نمبر،مسعود کھدر پوش نمبر،احمد راہی نمبر،شریف کنجاہی نمبر  اور  ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نمبر۔

    ان کی زندگی میں  لہراں  ادبی بورڈ نے جو کارہائے نمایاں  انجام دئیے ان کو پوری دنیا  میں  پذیرائی ملی۔ ایک سو کے قریب کتب کی اشاعت کے منصوبے پر کام جاری تھا۔ ان میں  سے نصف زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ڈاکٹر سید اختر حسین اختر کی زندگی ایک شمع کے مانند گزری۔ روشنیوں  کے جس سفر کا آغاز انھوں  نے نصف صدی قبل کیا تھا  وہ تا ابد جاری رہے گا۔

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

         تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

٭٭٭

 

سید ضمیر جعفری :اردو شاعری میں  طنز و مزاح کا سالار

     سید ضمیر جعفری کا  اصل نام ضمیر حسین شاہ تھا۔ وہ یکم جنوری 1916کو ایک  معزز سادات گھرانے میں  پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان علم و ادب کے حوالے سے پورے علاقے میں  منفرد اور  ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ اپنی جنم بھومی موضع چک عبدالخالق سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں  نے گورنمنٹ ہائی سکول جہلم میں  داخلہ لیا جہاں  سے انھوں  نے میٹرک کا امتحان اعلیٰ کار کردگی کا مظاہرہ کر کے پاس کیا۔ ان کے اساتذہ  اپنے انتہائی ذہین اور  فطین شاگرد کی خداداد صلاحیتوں  کے معترف تھے۔ زمانہ طالب علمی ہی میں  انھوں  نے تخلیق ادب کے حوالے سے اپنی صلاحیتوں  کا لوہا منوایا۔ وہ سکول کی بزم ادب کے فعال اور  مستعد رکن تھے۔ ابتدائی عمر ہی سے ان کی شگفتہ مزاجی کی  دھوم تھی۔ حاضر جوابی  اور  گل افشانی ء گفتار ان کے امتیازی اوصاف تھے۔ گورنمنٹ ہائی سکول جہلم سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ گورنمنٹ کالج کیمبل پور (اٹک)میں  انٹر میڈیٹ کلاس میں  داخل ہوئے۔ انٹرمیڈیٹ میں  شاندار کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ  لاہور پہنچے اور  اسلامیہ کالج،لاہور میں  داخلہ لیا  اور  1938میں انھوں  نے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ بی۔ اے تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ روزگار کی تلاش میں  نکلے اور  عملی زندگی کا آغاز  دفتر میں  ایک عام کلرک کی حیثیت سے کیا۔ جلد ہی وہ شعبہ صحافت سے وابستہ ہو گئے۔ انھوں  نے روزنامہ ’’ احسان‘‘ لاہور، اور ہفت روزہ ’’شیرازہ‘‘ کی مجلس ادارت میں  شامل ہو کر اہم خدمات انجام دیں۔ انھوں  نے کچھ عرصہ  ہفت روزہ ’’ سدا بہار‘‘ لاہور کے مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے بھی گراں  قدر خدمات انجام دیں۔  وہ آزادیِ اظہار کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیتے تھے اور  اسے اپنی نوعیت کے لحاظ سے انسانی آزادی کی ایک صورت سے تعبیر کرتے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ حریت ضمیر سے زندہ رہنا ہے تو اسوۂ شبیر پر عمل پیرا ہونا بے حد ضروری ہے۔ صحافت سے انھوں  نے جو عہد وفا استوار کیا تمام عمر اسے نبھایا اور  مختلف اوقات میں  متعدد اخبارات اور  جرائد میں  کالم لکھتے رہے۔ اخبارات میں  انھوں  نے جو کالم تحریر کیے ان میں  وہ نہایت خلوص اور  دردمندی  سے زندگی کی مقتضیات کو زیر بحث لاتے رہے۔

        جب برصغیر نو آبادیاتی نظام کے چنگل میں  پھنس چکا تھا اور  برطانیہ کے زیر تسلط تھا اس عرصے میں  دوسری عالمی جنگ اس خطے کے باشندوں  کے لیے دوہرے عذاب کا باعث بن گئی۔ مقامی باشندوں  کو برطانوی فوج میں  بھرتی کر کے برطانیہ نے اپنی جنگ کی بھٹی میں  جھونک دیا۔ اسی عرصے میں  وہ برطانوی فوج میں  بھرتی ہوئے اور  ان کی تعیناتی جنوب مشرقی کمان میں  بہ حیثیت کپتان ہوئی۔ وہ شعبہ تعلقات عامہ سے وابستہ تھے اور  اس کمان کا ہیڈ کوارٹر سنگاپور میں  تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران انھیں   فوجی خدمات کے سلسلے میں  دنیا کے متعدد ممالک کی سیاحت کا بھی موقع ملا۔ عالمی ادب،تہذیب و ثقافت،سماجی اور  عمرانی مسائل کا انھوں  نے عمیق مطالعہ کیا۔ جب 1947میں  برطانوی اقتدار کا سورج غروب ہوا تو انھوں  نے پاکستان بری فوج میں  خدمات انجام دیں۔ ذاتی وجوہات کی بنا پر وہ 1949میں  فوج سے الگ ہو گئے اور  پھر سے صحافت سے وابستہ ہو گئے۔ اسی سال راول پنڈی سے اپنا روزنامہ اخبار ’’باد شمال،، جاری کیا جو ایک کامیاب اخبار تھا مگر بعض ناگزیر حالات کے باعث وہ اس اخبار کی اشاعت کو جاری نہ رکھ سکے۔ 1951میں انھوں  نے خار زار سیاست میں  قدم رکھا اور  جہلم کے ایک دیہاتی حلقۂ انتخاب سے پنجاب اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب میں  حصہ لیا لیکن لوٹے اور  لٹیرے کب کسی قابل اور  با صلاحیت انسان کو آگے آنے دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ انتخاب میں  کامیاب نہ ہو سکے۔ وہ ایک محب وطن اور  بہادر سپاہی تھے انھوں  نے 1952میں  دوبارہ فوج میں  شمولیت کا فیصلہ کیا اس کے بعد وہ ترقی کر کے میجر کے عہدے تک پہنچے اور  اسی عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ وطن،اہل وطن اور  انسانیت کے ساتھ ان کی والہانہ محبت اور  قلبی وابستگی کا ایک عالم معترف تھا۔

        حکومت پاکستان نے انھیں کیپیٹل ڈویلپمنٹ ا تھارٹی میں  ڈائریکٹر تعلقات عامہ مقرر کیا۔ انھوں  نے اس عہدے پر پندرہ برس تک خدمات انجام دیں۔ وہ کچھ عرصہ پاکستان نیشنل سنٹر کے ڈپٹی ڈ ائریکٹر جنرل اور  پھر وزارت بحالیات افغان مہاجرین میں  مشیر مقرر ہوئے۔ ان کی زندگی کا یادگار دور وہ تھا جب انھوں  نے اکادمی ادبیات پاکستان،اسلام آباد میں  اہم خدمات انجام دیں۔ وہ اکادمی ادبیات پاکستان کے علمی و ادبی مجلے ’’ ادبیات‘‘ کے مدیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔ انھوں  نے اس مجلے کو معیار اور  وقار کی رفعت سے آشنا کیا۔  قومی،علاقائی اور  عالمی ادب کی نمائندہ تحریریں  ادبیات کی زینت بنتی رہیں۔ پاکستانی ادیبوں  کی فلاح کے متعدد منصوبے انھوں  نے تجویز کیے اور  ادیبوں  کو کتب اور  مضامین کی رائلٹی جیسے اہم مسائل کو حل کرایا۔ سید ضمیر جعفری کی گراں  قدر علمی،ادبی اور  ملی خدمات کے اعتراف میں  انھیں مندرجہ ذیل اعزازات سے نوازا گیا:

1۔ ہمایوں  گولڈ میڈل (بہ دست سر شیخ عبدالقادر)       1936

2۔ تمغۂ قائد اعظم   1967

3۔ صدارتی تمغہ برائے حسن کار کر دگی 1985

     سید ضمیر جعفری کی تصانیف کی تعداد پچاس کے قریب ہے۔ ان کا کلام ہر سطح پر نصاب میں  شامل ہے۔ دنیا بھر کی جامعات میں  ان کی شخصیت اور  فن پر عالمانہ تحقیقی کام کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کی ظریفانہ شاعری کی مندرجہ ذیل کتب بہت مقبول ہوئیں  :

ما فی الضمیر،مسدس بد حالی،ولایتی زعفران،نشاط تماشا(کلیات)

     سید ضمیر جعفری نے ہمیشہ فکر و خیال کے نئے پہلو پیش نظر رکھے نئے تجربات،متنوع موضوعات اور  شگفتہ پیرایہ اظہار ان کے اسلوب کے امتیازی اوصاف ہیں۔ وہ تخلیق فن کے لمحوں  میں  مزاح کو ایک ایسی ذہنی کیفیت سے تعبیر کرتے تھے جو فکر و نظر کو اس انداز میں  مہمیز کرے کہ قاری  خندہ ء بے اختیار کی کیفیت سے آشنا ہو اور  شگفتگی کا احساس  دل و دماغ پر فرحت،مسرت اور  آسودگی کے نئے در وا کر دے۔ ان کی ظریفانہ شاعری نہ صرف دلوں  کو تازگی اور  مسرت کے احساس سے سرشار کرتی ہے بلکہ اذہان کی تطہیر و تنویر کا بھی اہتمام کرتی ہے ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں  ایک عالمانہ شان اور  احساس دل ربائی ہے جس کے معجز نما اثر سے انسانی شعور کو ترفع  نصیب ہو تا ہے اور  قاری اس سے گہر اثر قبول کرتا ہے۔ سید ضمیر جعفری کی شگفتہ بیانی اپنی اصلیت کے اعتبار سے جہاں  ہماری معاشرتی زندگی کی ذہنی استعداد کی مقیاس ہے  وہاں  اس میں  ہماری تہذیبی،ثقافتی،معاشرتی اور  عمرانی اقدار و روایات کا احوال بھی مذکور ہے۔ انھوں نے اپنی ظریفانہ شاعری کے ذریعے اپنے عہد کے تمام ارتعاشات کو جس فنی مہارت،خلوص اور  دردمندی  کے ساتھ اشعار کے قالب میں  ڈھالا ہے وہ ایک منفرد تجربے کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ بنی نوع انسان کے مسائل کا جائزہ انسانی ہمدردی کے جذبہ سے سرشار ہو کر لیتے ہیں  اور  اس طرح زندگی کی نا ہمواریوں  کے بارے میں  ان کا ہمدردانہ شعور ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے۔ انھوں  نے اردو کی ظریفانہ شاعری کو نئے احساسات،متنوع تجربات اور  نئی جہات سے مالا مال کر دیا۔ ان کی شاعری میں  زندگی اور  اس کے تمام نشیب و فراز کے بارے میں  جو صد رنگی جلوہ گر ہے اس کی مسحور کن اثر آفرینی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ ان کی شاعری میں چبھن اور  نشتریت کی موجودگی بھی قاری کو گوار ا ہو جاتی ہے۔ ایسا   محسوس ہوتا ہے زہر خند کی یہ کیفیت ہمارے مسموم ماحول کا واحد تریاق ہے۔ ان کی ظریفانہ شاعری ادب اور  کلچر کے تمام پہلو سامنے لاتی ہے۔ ان کی نظم ’’ بیماری کا نام ‘‘ قابل غور ہے :

زندگی ہے مختلف جذبوں کی ہمواری کا نام

آدمی ہے شلجم و گاجر کی ترکاری کا نام

علم الماری کا،مکتب چاردیواری کا نام

  ملٹن اک لٹھا ہے ،مومن خان پنساری کا نام

صاف کالر کے تلے معقول اجلی سی قمیص

ہے بہت ہی مختصر سا میری دشواری کا نام

اس نے کی پہلے پہل پیمائش صحرائے  نجد

قیس ہے در اصل اک مشہور پٹواری کا نام

عشق ہرجائی بھی ہو تو درد کم ہوتا نہیں

    اک ذرا تبدیل ہو جاتا ہے بیماری کا نام

کوئی نصب العین،کوئی عشق،کوئی چاندنی

زندگی ہے ورنہ اک مصروف بے کاری کا نام

مدتوں  دزدیدہ،دزدیدہ نظر سے دیکھنا

     عشق بھی ہے اک طرح کی چور بازاری کا نام

میں  نے تو اپنے لیے آوارگی تجویز کی

      تم نے کیا رکھا ہے اپنی خود گرفتاری کا نام

بات تو جب ہے بدل جائے سرشت انسان کی

ورنہ لکھنے کو تو لکھ دو اونٹ پر لاری کا نام

دل ہو یا دلیا ہو،دانائی کہ بالائی ضمیر

    زندگی ہے بعض اشیا کی خریداری کا نام

       سید ضمیر جعفری نے اپنی زندگی کو خوشیوں  اور  راحتوں  سے متمتع کرنے کے لیے بڑی جد و جہد کی۔ ان کے احباب کی بڑی تعداد نامور ادیبوں  پر مشتمل تھی۔ ان میں  کرنل محمد خان،بریگیڈئیر صدیق سالک،محمد اسما عیل صدیقی،نذیر احمد شیخ،محمد خالد اختر،ڈاکٹر بشیر سیفی،ڈاکٹر نثار احمد قریشی،ڈاکٹر رحیم بخش شاہین،ڈاکٹر محمد ریاض،پروفیسر نظیر صدیقی،مجید لاہوری،محسن احسان،خاطر غزنوی،غفار بابر،سید جعفر طاہر اور  محمود اختر سعید کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ احباب ان کی پہچان تھے۔ وہ انھیں  دل و جان سے عزیز رکھتے تھے۔ سید ضمیر جعفری نے تمام عمر ظلم و جبر کے ہر انداز پر لعنت بھیجنا اپنا شعار بنایا۔ وہ ایسے موضوعات اور  واقعات کا انتخاب کرتے ہیں   جن میں  زندگی کے تمام نشیب و فراز حقیقی صورت میں  ظریفانہ شاعری کے قالب میں  ڈھل کر ایک ہمدردانہ شعور کو اجاگر کرتے ہیں۔ اس شاعری کو پڑھ کر ہر طبقے کے لوگ اپنائیت محسوس کرتے ہیں۔ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے انھوں  نے ممولے کو شہباز سے ہم کلام ہونے کی ترغیب دی اور  پست و بلند کے جملہ امتیازات کو تیشہ مزاح سے نیست و نابود کر دیا۔ ان کی ظریفانہ شاعری کا تعلق کسی مخصوص طبقے سے نہیں  بلکہ اس شاعری کا موضوع اس قدر فراواں  اور  عام زندگی سے منسلک ہے کہ تمام انسانیت کے مسائل اس میں  سمٹ آئے ہیں۔ ان کے تمام دوست اسی جد و جہد میں  مصروف رہے کہ کسی طور انسانیت کے دکھوں  کا مداوا ہو سکے اور  مظلوم انسانیت کے زخموں  کے اندمال کی کوئی صورت نظر آئے۔ ان کے مزاح میں  ہمدردی کا عنصر کائناتی عوامل کا احاطہ کرتا ہے :

پیدا کرو

شوق سے لخت جگر،نور نظر پیدا کرو

        ظالمو!تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو

ارتقا تہذیب کا یہ ہے کہ پھولوں  کی بجائے

توپ کے دھڑ،بم کے سر،راکٹ کے پر پیدا کرو

شیخ،ناصح،محتسب،ملا کہو کس کی سنیں

یارو کوئی ایک مرد معتبر پیدا کرو

میری دشواری کا کوئی حل مرے چارہ گرو

  جلد تر،آسان تر اور  مختصر پیدا کرو

تیرے شعر تر کو یہ اولاد آدم کیا کرے

     نے نوازی ہو چکی اب نیشکر پیدا کرو

کیا چھچھوندر سے نکالے ہیں  یہ بچے شیخ جی

قبلۂ عالم انھیں  بار دگر پیدا کرو

میری درویشی کے جشن تاج پوشی کے لیے

ایک ٹوپی اور  کچھ مرغی کے پر پیدا کرو

حضرت اقبال کا شاہیں  تو ہم سے اڑ چکا

   اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو

      ایک حساس،پر خلوص اور  دردمند تخلیق کار کی حیثیت سے سید ضمیر جعفری نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا۔ انھوں  نے تخلیقی اظہار کے جملہ ممکنہ امکانات کو بروئے کار لانے کی مقدور بھر سعی کی۔ وہ بہ یک وقت سپاہی،صحافی،شاعر،مزاح نگار،میزبان،براڈکاسٹر اور  نقاد تھے۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر انھوں  نے جو پروگرام’’ آپ کا ضمیر ‘‘ کے نام سے پیش کیا وہ بے حد مقبول ہوا۔ اردو مزاح میں  وہ سید احمد شاہ بخار ی پطرس کے اسلوب کو بہت اہم قرار دیتے تھے اسی طرح براڈکاسٹنگ میں  انھیں  سید ذوالفقار علی بخاری کا اسلوب پسند تھا۔ اپنی اندرونی کیفیات،جذبات اور  احساسات کو وہ ہنسی کے حسین اور  خوش رنگ دامنوں  میں  اس خوش اسلوبی سے چھپا لیتے ہیں  کہ ان کے اسلوب کا دائمی تبسم قاری کو مسحور کر دیتا ہے وہ طنز و مزاح کے فرغلوں  میں  لپیٹ کر زندگی کی تلخ صداقتیں ،بے اعتدالیاں  اور  تضادات نہایت دل نشیں  انداز میں  اشعار کے قالب میں  ڈھالتے ہیں۔ ان کے اسلوب پر ایک مصلح،ناصح اور  فلسفی کا شائبہ ہوتا ہے۔ وہ کسی طور بھی محض ہنسانے والے کا کر دار ادا کرنے پر مطمئن نہیں  ہوتے بلکہ مزاح کو تو وہ حصول مقصد کا ایک زینہ خیال کرتے ہیں۔ ان کی وہ باتیں بھی جو کہ وہ ہنسنے کی غرض سے اشعار کے قالب میں  ڈھالتے ہیں  اپنے اندر زندگی کے متعدد اسرار و رموز لیے ہوتی ہیں۔ وہ جس انداز میں  تخیل کی جولانیاں دکھاتے ہیں   اسے  دیکھ کر ان کے مقاصد کی رفعت،اسلوب کی گہرائی اور  زبان و بیان کی تاثیر کا جادو  سر چڑھ کر بولتا ہے۔ انسانیت کے وقار اور  سربلندی کے لیے انھوں  نے مقدور بھر سعی کی۔ معاشرتی زندگی میں  پائی جانے والی خود غرضی،ہوس اور  مفاد پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو وہ سخت نا پسند کرتے تھے اور  ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی معاشرہ جب اندرونی تضادات،بے اعتدالیوں  اور  ناہمواریوں  پر چپ سادھ لیتا ہے اور  کسی اصلاحی بات پر ٹس سے مس نہیں  ہوتا تو یہ بات خطرے کی گھنٹی ہے کہ معاشرہ  بے حسی کی بھینٹ چڑھ گیا ہے  اور  یہ صورت حال کسی معاشرے ، سماج اور  تہذیب کے لیے بہت برا شگون ہے۔ احساس ذمہ داری کا فقدان آج ہمارا  بہت بڑا المیہ ہے۔ ہم اپنی تمام کوتاہیوں  کی ذمہ داری دوسروں  پر ڈال کر راہ فرار اختیار کرتے ہیں  اور  کسی صورت میں  بھی اپنے احتساب پر آمادہ نہیں  ہوتے۔

قصور

ہم کریں  ملت سے غداری قصور انگریز کا

ہم کریں  خود چور بازاری قصور انگریز کا

گھر میں  کل بینگن کے بھرتے میں  جو مرچیں  تیز تھیں

اس میں  بھی ہو گا  بڑا بھاری قصور انگریز کا

توقعات

مارشل لا خوردہ جمہوری نظام

       اس الیکشن میں  نیا حل لائے گا

لوگ اس امید پر دیتے ہیں  ووٹ

  پھر یہ نخل بے ثمر پھل لائے گا

عذر

بہر نماز عید بھی حاضر نہ ہو سکوں

مانوس اس قدر بھی نہیں  اپنے گھر سے میں

اے رحمت تمام میری یہ خطا معاف

حاضر نہ تھا خطیب کے خطبے کے ڈر سے میں

      یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ اخلاقیات کا قصر عالی شان ہمیشہ عدل و انصاف کی اساس پر استوار ہوتا ہے۔ سید ضمیر جعفری کو اس بات کا شدید قلق تھا کہ معاشرہ قحط الرجال کے باعث  توازن اور  اعتدال کی راہ سے بھٹک گیا ہے۔ جاہل کو اس کی جہالت کا انعام مل جاتا ہے۔ ہوس نے نوع انساں  کو انتشار اور  افتراق کی گمراہی میں  مبتلا کر دیا ہے۔ ذاتی مفادات کی خاطر لوگ اپنے ابنائے جنس کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں۔ سید ضمیر جعفری ایک اسلامی فلاحی مملکت کے حامی تھے۔ وہ جبر اور  استحصال کو سخت نا پسند کرتے اور  اس بات پر اصرار کرتے کہ ظلم اور  نا انصافی کے سامنے سپر انداز ہونا بہ جائے خود ایک ظلم ہے۔ ظا لم  کہیں  بھی اور  کیسا بھی طاقت ور ہو اس پر لعنت بھیجنا ان کا شعار تھا۔ قیام پاکستان کے بعد رونما ہونے والے سیاسی حالات سے وہ  خاصے دل گرفتہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ منزل پر وہ لوگ قابض ہو گئے جو کہ شریک سفر ہی نہ تھے۔ ان حالات میں  سلطانیِ جمہور کا خواب شرمندہ ء تعبیر نہ ہو سکا۔ آمریت کے مسموم اثرات سے ترقی اور  خوش حالی کی راہیں  مسدود ہوتی چلی گئیں  اور  اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مظلوم اور  بے بس عوام  آزادی کے ثمرات سے محروم ہو گئے۔ چور محل میں  جنم لینے والے جب چور دروازے سے جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کر لیتے ہیں  تو بلا شبہ عقابوں  کے نشیمن زاغوں  کے تصرف  میں  آ جاتے ہیں  اور  کالا دھن کمانے والے تمام وسائل پر ہاتھ صاف کر لیتے ہیں۔ ایسے مفاد پرست لوگوں  کی بد اعمالیوں  اور  قبیح کر دار نے ہمیں  اقوام عالم کی صف  میں  تماشا بنا دیا ہے۔ اجالا داغ داغ اور  سحر شب گزیدہ ہو کر رہ گئی ہے۔ سید ضمیر جعفری کی نظم ’’ہم آزاد ہیں  ‘‘اپنے اندر جو کرب لیے ہوئے وہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔

 ہم آزاد ہیں

فرد ہو یا ملک تنہائی کا یارا بھی نہیں

بھائی چارے کے بہ جز کوئی اور  چارہ بھی نہیں

ہم نے یہ مانا اکیلے میں  گزارہ بھی نہیں

بات ہو جائے کسی سے یہ گوارا بھی نہیں

ہم عجب آزاد ہیں  ہم کس قدر آزاد ہیں

ہم زمانے میں  بہ انداز دگر آزاد ہیں

آج کل دنیا سمٹ کر ایک کاخ و کو میں  ہے

   اک قدم لاہور میں  ہے ایک ٹمبکٹو میں  ہے

بم شکاگو میں  دھمک سارے ہنو لولو میں  ہے

  لالہ مصری خان لیکن اپنی ہاؤ ہو میں  ہے

وہ یہ کہتا ہے کہ ہم مردان نر آزاد ہیں

ہم زمانے میں  بہ انداز دگر آزاد ہیں

آئیے اب گھر میں  آزادی کا منظر دیکھیے

   جز بہ جز بکھر ہوا دفتر کا دفتر دیکھیے

اپنی صورت اپنے آئینے کے اندر دیکھیے

      شرم آئے گی مگر جان برادر دیکھیے

ہم تو آزادی سے بھی کچھ بیش تر آزاد ہیں

ہم زمانے میں بہ انداز دگر آزاد ہیں

خواب آزادی کی یہ تعبیر سمجھے ہیں  ضمیر

  یار ماری،چور بازاری،سمگلنگ،داروگیر

گھات میں  بیٹھا ہوا ہے کیا پیادہ کیا وزیر

اپنا اپنا کوہ کن ہے ،اپنی اپنی جوئے شیر

بے نیاز امتیاز خیر و شر آزاد ہیں

  ہم زمانے میں  بہ انداز دگر آزاد ہیں

     انسانی فطرت کی خامیاں ،انسانی مزاج کی بے اعتدالیاں  اور  معاشرتی زندگی کے جملہ تضادات کو سید ضمیر جعفری نے اپنی  ظریفانہ شاعری میں  مواد کے طور پر جس خلاقانہ مہارت سے استعمال کیا ہے وہ ان کے صاحب اسلوب تخلیق کار ہونے کی واضح دلیل ہے۔ وہ ادب کو ایک سماجی فعالیت سے تعبیر کرتے تھے۔ انھوں  نے ادب کو عمرانی صداقتوں  کا آئینہ دار بنا دیا ہے۔ ان کے اسلوب میں  پائی جانے والی شگفتگی ان کی شخصیت کی نفاست کی مظہر ہے۔ ان کے اسلوب  میں  ہمدردی،انس،خلوص،مروت،ایثار اور  افہام و تفہیم کی جو فضا ہے وہ انھیں  خالص مزاح نگار کے بلند مقام پر فائز کرتی ہے۔ ان کی مضبوط اور  مستحکم شخصیت میں  اولوالعزمی،بلند ہمتی اور  مستقل مزاجی کے عناصر پوری قوت کے ساتھ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ ان کی مسحور کن شخصیت ان کے منفرد اسلوب میں  اپنی پوری تابانیوں کے ساتھ اشعار کے پس منظر میں  اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ ایک نقاد جب کسی قوم کے فکری ارتقا کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اس امر پر توجہ دیتا ہے کہ اس قوم کی لسانی بنیاد کس قدر مستحکم ہے۔ یاد رکھنا چاہیے لسانیات کی تفہیم کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کوئی بھی قوم اپنی زبان کے استعمال میں  کس قدر ذہنی بالیدگی اور  پختگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اس امر کی جانچ پرکھ  کا ایک ہی معیار ہے کہ اس زبان میں  ظرافت کا کتنا وقیع سرمایہ موجود ہے۔ سید ضمیر جعفری نے اردو زبان کو طنز و مزاح کے حوالے سے ثروت مند کر دیا۔ ان کی تخلیقی فعالیت سے اردو زبان میں  طنز و مزاح کی ثروت میں  قابل تحسین اضافہ ہوا۔ انھوں  نے اپنے تخلیقی تجربات کے اعجاز سے اردو زبان کو بلند پایہ ظرافت کے شاہکاروں  سے متمتع کیا اور  یہ ثابت کر دیا کہ اردو زبان دنیا کی متمدن زبانو ں  میں  شامل ہے۔ ان کی شاعری کے مطالعہ سے معاشرتی بصیرت کو نمو ملتی ہے اور  اس طرح قاری اپنے اندر ایک ولولۂ تازہ محسوس کرتا ہے۔ اسے یوں  محسوس ہوتا ہے کہ ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت ہے اور  مرحلہ ء شوق ہے کہ ابھی طے نہیں  ہو پا رہا۔

      سید ضمیر جعفری نے انسانیت کو اس عالم آب و گل کی عظیم ترین قدر قرار دیا۔ انسانیت کی توہین،تذلیل،تضحیک اور  بے توقیری کرنے والوں  کے خلاف انھوں  نے قلم بہ کف مجاہد کا کر دار ادا کیا۔ انھوں  نے ظالم و سفاک،موذی و مکار استحصالی عناصر کے مکر کا پردہ فاش کرنے میں  کبھی تامل نہ کیا۔ آج ہمارے دور کا المیہ یہ ہے کہ فرد کی بے چہرگی اور  عدم شناخت کا مسئلہ روز بہ روز گمبھیر صورت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔  ان لرزہ خیز اعصاب شکن حالات میں  زندگی کی رعنائیاں  گہنا گئی ہیں ،رتیں  بے ثمر،کلیاں  شرر،آہیں  بے اثر،زندگیاں  پر خطر اور  آبادیاں  خوں  میں  تر کر دی گئی  ہیں۔ سید ضمیر جعفری کی ظریفانہ شاعری اس امر پر اصرار کرتی ہے کہ ہوائے جور و ستم میں  بھی رخ وفا کو بجھنے نہ دیا جائے۔ حوصلے ،امید اور  رجائیت پر مبنی یہ ظریفانہ شاعری ہر عہد میں  دلو ں  کو مرکز مہر و وفا کرنے کا وسیلہ ثابت ہو گی۔ ان کی ظریفانہ شاعری ایک خاص نوعیت کی انفعالی کیفیت اور  بصیرت کی امین ہے جس کی بدولت ہجوم یاس میں  بھی دل کو سنبھالنے میں  کامیابی ہوتی ہے۔ ظرافت نے ان کو عشق کے بلند مقام تک پہنچا دیا۔ ان کا مزاح گہری سوچ،فکری بالیدگی،ذہن و ذکاوت اور  تجزیہ سے بھر پور ہے۔ عناصر میں  رشتوں  کا ایک نظام کارفرما ہوتا ہے۔ سید ضمیر جعفری نے ایک کامیاب مزاح نگار کے طور پر ان عناصر کی بے اعتدالیوں  کے بارے میں  ہمدردانہ شعور کو اجاگر کیا اور  فن مزاح نگاری کے تمام پہلوؤں  کو اپنے اسلوب کی اساس بنایا۔ وہ اعتدال پسندی کی روش اپنانے پر زور دیتے ہیں  اور  ان کا پیغام مسرت  ہے جہاں  تک پہنچے۔

     اردو کی ظریفانہ شاعری کا یہ آفتاب 16مئی1999کو غروب ہو گیا۔ ان کی وفات سے اردو کی ظریفانہ شاعری کا ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ ان کی شاعری انھیں  شہرت عام اور  بقائے دوام کے دربار میں  بلند مقام  پر فائز کرے گی۔ لوح جہاں  پر ان کا نام ہمیشہ ثبت رہے گا۔ وہ ایک عظیم الشان شعری روایت کے موجد تھے۔ ان کی وفات کے ساتھ ہی اردو شاعری میں  طنز و مزاح کی ایک درخشاں  روایت نئی نسل کو منتقل ہو گئی۔ ان کے بارے میں  احباب یہ کہا کرتے تھے کہ وہ اس لیے ہنستے ہیں  کہ کہیں  دیدہ ء گریاں  کی نہر انھیں  بہا نہ لے جائے۔ اب سیل زماں  نے ہمارے ہنستے بولتے چمن کو مہیب سناٹوں  اور  جان لیوا  دکھوں  کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

برس گیا بہ خرابات آرزو تیرا غم

قدح قدح تیری یادیں  سبو سبو تیرا غم

٭٭٭

 

محمد شیر افضل جعفری :زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

      بائیس جنوری 1989کو جھنگ کے ملنگ شاعر اور  اردو شاعری میں جھنگ رنگ کے موجد اور  خاتم ممتاز شاعر ،ادیب ، سماجی کارکن ،دانش ور اور  ماہر تعلیم محمد شیر افضل جعفری نے عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ ان کی وفات سے جھنگ کے دبستان شاعری کا ایک نیر تاباں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ ان کے سانحہء ارتحال سے اردو زبان وا دب کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا۔ ان کے چھ شعر مجموعے شائع ہو چکے ہیں جنھیں ز برد ست پذیرائی ملی۔ سادگی ،عجز و انکسار،حریت ضمیر سے جینے کے لیے اسوہء شبیر کو اپنانے والے اس عظیم تخلیق کار نے مسلسل آٹھ عشروں تک اپنے افکار کی تابانیوں سے سفاک ظلمتوں کو کافور کیا اور  عوام میں زندگی کی حقیقی معنویت کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پیدا کرنے کی مقدور بھر سعی کی۔ ان کی شاعری دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے اور  حریم کبریا سے آشنا کرنے کا ایک موثر وسیلہ ثابت ہوئی۔ دنیا بھر میں ان کے ہزاروں مداح موجود ہیں جنھیں ان کا دبنگ لہجہ اور  الفاظ کی ادائیگی کی ترنگ اب تک یاد ہے۔ میں نے انھیں اس وقت دیکھا جب ان کی عمر سو برس کے لگ بھگ تھی۔   ان کی ریش کی سفیدی جیسے چھٹکی ہوئی چاندنی سحر کی۔ سفید ڈاڑھی اور  سفید مونچھیں ان کے چہرے کی وجاہت میں اضافہ کرتی تھیں۔ عمر رواں کے باعث پیری اور  ضعف سے کمر میں ذرا سا خم تھا اور  وہ توقیر کی صورت مجسم بن گئے تھے۔ جب چلتے تو پر اعتماد  انداز میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے آگے بڑھتے۔ گفتگو میں نرم مگر جستجو میں انتہائی مستعد اور  سرگرم۔ وہ خوش کلام ایسے تھے کہ ان کے پاس طویل قیام کے بعد بھی ملاقاتی کی تشنگی دور نہ ہوتی اور  اسے احساس ہوتا کہ ملاقاتیں ادھوری رہ گئی ہیں اور  متعدد اہم اور  ضروری پہلو تو ابھی نا گفتہ رہ گئے ہیں۔ سفید شلوار قمیص میں ملبوس ،بند گلے کا کوٹ پہنے ،سر پر طرہ کلاہ و دستار اور  پاؤں میں کھسہ پہنے وہ مشرقی تہذیب و تمدن عمدہ ترین نمونہ بن کر سامنے آتے تھے۔ یہ لباس انھیں خوب سجتا تھا۔ ان کی سفید شیشوں والی نظر کی عینک ان کی وجاہت میں مزید اضافہ کرتی تھی۔ جب وہ ادبی محفلوں اور  مشاعروں میں اپنا کلام پڑھتے تو وہ خود بھی جھومنے لگتے ان کے ساتھ پوری محفل پر بھی وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی۔ انھوں نے بڑے زوروں سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کی شاعری میں جو اثر آفرینی ہے وہ قلب اور  روح کی گہرائیوں میں اتر کر مسحور کر دیتی ہے۔ انھوں نے  اپنے بارے میں یہ کہا تھا :

جھنگ دیس میں اک سودائی جھومے ڈھولے گائے

بھگوا الفا چال ملنگی شیر افضل کہلائے

         محمد شیر افضل جعفری  کے شعر ی مجموعے ’’سانولے من بھانولے‘‘، ’’ شہر سدا رنگ ‘‘  اور  ’’ موج موج کوثر ‘‘ہر مکتبہ فکر کے قاری کے لیے پر کشش ثابت ہوئے۔ ان کے متعدد ایڈینش شائع ہوئے۔ انھیں جو پذیرائی نصیب ہوئی وہ اپنی مثا ل آ پ ہے۔ پاکستان بھر کے تمام اہم کتب خانوں میں ان کی کتب موجود ہیں۔ ان کے اسلوب اور  شخصیت پر متعدد تحقیقی مقالے لکھے گئے جن میں  سندی تحقیق کے ایم۔ اے ،ایم۔ فل اور  پی ایچ۔ ڈی سطح کے مقالات بھی شامل ہیں۔ نامور ادیب  پر و فیسرمحمد شفیع ہمدم نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ،اسلام آباد سے ایم فل سطح کا جو مقالہ ’’ محمد شیر افضل جعفری :حیات و خدمات ‘‘ کے عنوان سے لکھا وہ خاصے کی چیز ہے۔ اب تو اسے ایک بنیادی حوالے کے ماخذ کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ ان کی حیات ،اسلوب اور  ادبی خدمات پر مختلف ادبی مجلات نے خاص نمبر شائع کیے جو اس یگانۂ روزگار تخلیق کار کو خراج تحسین پیش کرنے کی سعیء مشکور ہے۔ ان میں سے ممتاز بلوچ کی ادارت میں جھنگ سے ادارہ ادبی جھوک جھنگ کے زیر اہتمام شائع ہونے ادبی مجلے ’’ جھوک ‘‘ کا محمد شیر افضل جعفری نمبر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس تاریخی اشاعت سے ایک عہد کو محفوظ کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ اس خاص اشاعت میں دنیا بھر کے تمام اہم دانشوروں کے مضامین شامل ہیں جنھوں نے اس عظیم ادیب کی مستحکم شخصیت اور  بلند ادبی مقام کو بہ نظر تحسین دیکھا ہے۔

         گورنمنٹ کالج جھنگ کا یہ ایک منفرد اعزاز و امتیاز ہے کہ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا نے پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ پروفیسر عبدالسلام(نوبل پرائز)،مجید امجد،ڈاکٹر وزیر آغا،سردار باقر علی خان ،خواجہ یونس حسن،صاحب زادہ رفعت سلطان ،امیر اختر بھٹی ،رانا سلطان محمود ،غلام علی چین،سید مظفر علی ظفر ،خادم مگھیانوی،کبیر انور جعفری  ،سید جعفر طاہر اور  متعدد ہستیاں ایسی ہیں جن کی خداداد  صلاحیتوں کے اعجاز سے حالات کی کایا پلٹ گئی۔ ان عظیم لوگوں کے کارہائے نمایاں کا ہر سطح پر اعتراف کیا گیا۔ گورنمنٹ کالج جھنگ کا علمی و ادبی مجلہ ’’کارواں‘‘ جو کہ 1926سے مسلسل شائع ہو رہا ہے نوجوان طالب علموں میں ادبی اور  تخلیقی ذوق پروان چڑھانے میں ہمیشہ اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ محمد شیر افضل جعفری کا ابتدائی کلام زمانہ طالب علمی کی یاد دلاتا ہے۔ اس عرصے میں ان کا کلام ’’ کارواں ‘‘، روزنامہ عروج جھنگ ،ادبی دنیا ،ساقی اور  ادب لطیف مین چھپتا رہا۔ ان کی شاعری سے محبت ،چاہت ،خلوص اور  دردمندی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ اردو کو مقامی  پنجابی رنگ اور  مقامی  علاقائی زبانوں کے الفاظ سے آشنا کر کے انھوں نے جو منفرد لسانی تجربہ کیا وہ ان کے اسلوب کی پہچان بن گیا۔ اس تخلیقی عمل کے ذریعے و ہ اجتماعی لا شعور کی بیداری اور  اسے پیرایۂ اظہار عطا کرنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب کا یہ پر لطف اور  پر کشش انداز قاری کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ اسے پڑھ کر جو ادبی حظ حاصل ہوتا ہے اس کا بیان الفاظ میں ممکن ہی نہیں۔ ان کے الفاظ ہی ان کی پہچان بن جاتے ہیں،زندگی اور  اس کی مقتضیات کے بارے میں انھوں نے جو حقیقت پسندانہ طرز عمل ایجاد کیا اسے ان کی طرز خاص سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ وہ زندگی کی تنہائیوں کو بے لوث محبت کے اثر سے گل و گلزار بنا دیتے ہیں۔ زندگی کے بارے میں ان کا تصور اس اساس پر استوار ہے کہ فرد کو اپنی ذات کے حصار سے نکل کر اس وسیع و عریض کائنات کے مظاہر فطرت کے ساتھ ایک حیاتیاتی ربط و تعلق استوار کرنا چاہیے۔ اس طرح وہ زندگی کی حقیقی معنویت  اور  حسن کے جلووں کے علاوہ رنگ ،خوشبو اور  حسن و خوبی کے تمام استعاروں کے متعلق آگاہی حاصل کر سکتا ہے۔ محمد شیر افضل جعفری نے زندگی کو جس روپ میں دیکھا اس کا پرتو ملاحظہ فرمائیں:

پھول پھول زندگی ،رنگ رنگ زندگی

ہیر ہیر زندگی ،جھنگ جھنگ زندگی

دھڑکنوں کے تال پر ناچتی سہاگنیں

بانہہ بانہہ زندگی ، ونگ  ونگ زندگی

دل ربا گوالنیں رس بھری کٹوریاں

دودھ دودھ  زندگی ، کنگ کنگ زندگی

           محمد شیر افضل جعفری نے اپنے منفرد لسانی تجربے کو جھنگ رنگ کا نام دیا اور  اس بات پر اصرار کیا کہ وہ اردو زبان میں پنجابی الفاظ کو شامل کر کے اردو زبان کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ان کے اس تجربے سے اردو زبان کی ثروت میں اضافہ ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اردو کو جھنگ رنگ میں نہلانے کا تجربہ ان کی اختراع ہے۔ اس پر انھیں ہمیشہ ناز رہا۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اس کے معجز نما اثر سے لسانیات میں جمود کا خاتمہ ہو ا اور  یکسانیت سے نجات ملی۔ اردو ادب کے قاری کو ان افکار کے وسیلے سے جہان تازہ کی ایک جھلک دکھائی دی۔ یہ مرصع سازی ان کی پہچان قرار  دی گئی۔

انھوں نے مستقبل کی اردو کے بارے میں جو پیشین گوئی کی تھی اور  جس نئی زبان کا خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر ان کے اشعار میں جھلکتی ہے :

چرخے کی سر پنجابی اور  ترانہ جھنگی ہے

مستقبل کی اردو بھی افضل کی نیرنگی ہے

چڑھتے چنھاں سے لے کے لہکتی جوانیاں

اردو کو جھنگ رنگ میں نہلا رہا ہوں میں

           ایک جری ،زیرک اور  فعال تخلیق کار کی حیثیت سے محمد شیر افضل جعفری نے اخلاقی اقدار کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا۔ وہ ادب پارے کی افادیت ،ادیب کی شخصیت اور  تخلیق فن کے مرحلے کو ایک ایسی مثلث کا نام دیتے تھے،جس کا ہر زاویہ اور  ہر کو نہ  باہم مربوط ہے اور  اسی ربط و ارتباط کی بدولت تخلیقی فن کار لوح جہاں پر اپنا دوام ثبت کرتا ہے۔ ان کی زندگی میں مصلحت اندیشی کا کوئی دخل نہ تھا۔ وہ حق گوئی اور  بے باکی کی عملی تصویر تھے۔ وہ اکثر یہ بات زور دے کر کہتے تھے کہ وہ ایک سجدہ جو انسان کی طبع نازک پر گراں گزرتا ہے اسے در کسریٰ پر ہزار بار سجدہ ریز ہونے سے بچا لیتا ہے۔ انھوں نے زندگی بھر فغان صبح گاہی کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ وہ جانتے تھے کہ سوائے اللہ ہو کے امان کہیں نہیں مل سکتی۔ مولا علی خیبر شکن کے ساتھ ان کو قلبی عقیدت اور  والہانہ محبت تھی۔ اس عقیدت کا اظہار ان کی شاعری میں بھی متعدد مقامات پر ہوا ہے۔ وہ اپنے سچے جذبات کو بر ملا بیان کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اعصاب شکن ہراساں شب و روز میں بھی انسان کو حریت ضمیر کا علم بلند رکھنا چاہیے۔

دل ہے اور  دھڑکنوں کے ہلکورے

کیوں نہ دل بو تراب کو سورے

قافلے سرد سرد آہوں کے

ہم نے تاروں کی چھاؤں میں ٹورے

                   فطرت جس انداز میں لالے کی حنا بندی میں مصروف ہے وہ محمد شیر افضل جعفری کی شاعری کا ایک اور  اہم موضوع ہے۔ ان کی شاعری کے فکری پس منظر کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ انھوں نے اپنے ذہن و ذکاوت اور  بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے افکار کی جولانیاں اس طرح دکھائی ہیں کہ مطالعہ فطرت ،سماجی زندگی اور  تہذیب و معاشرت کے جملہ پہلو اس میں رچ بس گئے ہیں۔ وہ زندگی کی اقدار عالیہ کے تحفظ کے خواہاں تھے۔ ان کے تخلیقی تجربے اور  ادبی فعالیت میں حرف صداقت لکھنے کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ انھوں نے عربی ،فارسی اور  اردو زبان کے کلاسیکی ادب کا وسیع مطالعہ کیا تھا۔ انگریزی  ادب تک ان کی رسائی اپنے بیٹوں کے ذریعے ممکن ہوئی جنھوں نے انگریزی زبان پر عبور حاصل کیا۔ ان کے بیٹے عباس ہادی ،عباس مہدی اور  میثم مالک اشتر نے عالمی ادبیات کا تفصیل کے ساتھ مطالعہ کیا تھا ۔ انھوں نے اپنے والد کو عالمی کلاسیک کے تراجم مہیا کیے اس طرح محمد شیر افضل جعفری کے لیے یہ کام آسان ہو گیا کہ وہ عالمی کلاسیک کا مطالعہ کر سکیں۔ اگر چہ انھیں انگریزی زبان پر عبور حاصل نہ تھا لیکن اس کے باوجود وہ انگریزی  زبان میں کی جانے والی گفتگو کا مفہوم سمجھ لیتے تھے۔ یہ ان کی اکتسابی مہارت تھی جس کا ان کے احباب بر ملا اعتراف کرتے تھے۔ ان کی شاعری میں خیالات کی جو تونگری ہے اس کے پس پردہ ان کا  وسیع مطالعہ ،مشاہدہ اور  تجربہ کار فرما ہے۔ بالخصوص جب وہ فطرت نگاری کی طرف آتے ہیں تو ان کے اشعار میں استعمال ہونے والا ہر لفظ گنجینہ ء معانی کا طلسم بن جاتا ہے۔ قاری چشم تصور سے وہ تمام مناظر،کردار اور  ماحول دیکھ لیتا ہے جس کا احوال انھوں نے اشعار میں بیان کیا ہے۔ سراپا نگاری میں بھی انھیں ید طولیٰ حاصل تھا۔ وہ ایسے اثمار و اشجار کا بیاں کرتے ہیں جو اب ناپید ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ تہذیبی اور  ثقافتی تحفظ کو یقینی بنانے کے آرزومند دکھائی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ ہوں :

جواں سال شاخوں پہ ڈہلوں کے بندے

کریروں کا عالم نگینہ نگینہ

نباتات پر حسن و روماں نچھاور

بروٹی بروٹی ،حسینہ حسینہ

          دیہاتی زندگی کی تمام رنگینیاں نو جوانوں کے دم سے ہیں۔ حسن بے پروا کو اپنی بے حجابی کے لیے شہروں سے بن زیادہ پیارے ہیں۔ دیہاتوں میں پنگھٹ ،چوپال، درختوں کے سائے میں پینگوں پر جھولنے والی دوشیزائیں اپنی سادگی اور  شان دل ربائی سے پوری محفل کو مسحور کر دیتی ہیں۔ دیہاتوں میں آج بھی چشم غزال عام ہے اور  بلاشبہ نگاہوں کے تیر بھی انتہائی دل نشیں ہیں۔ اس حسین اور  دلکش منظر نامے کو لفظی مرقع نگاری کے اعجاز سے محمد شیر افضل جعفری نے ابد آشنا بنا دیا ہے۔ دیہاتی دوشیزائیں پیمان وفا باندھتے وقت سر سبز و شاداب نہالوں کی ثمر بار اور  کومل ٹہنیوں کے ساتھ اپنے پراندے کی ڈوری باندھ کر اس بات کا اقرار کرتی ہیں کہ جس طرح یہ نرم و نازک شاخ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط اور  تن اور تنے میں بدل جائے گی اسی طرح اس کا پیار بھی روز بہ روز  پختہ تر ہوتا چلا جائے گا۔ الہڑ دوشیزائیں جب پینگوں پر جھولتی ہوئی اوپر جاتی ہیں تو  ان کی یہ بلند پروازی  انھیں ایک بلند فضا میں لے جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی سنگت کو مقاصد کی رفعت میں ہمدوش ثریا کرنے کی متمنی ہیں۔ اس موضوع پر محمد شیر افضل جعفری نے اپنے تجربات اور  مشاہدات کو نہایت دل نشیں انداز میں اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے۔ انھیں پڑھ کر قاری جھومنے لگتا ہے :

ٹہنیوں کی گسنیوں میں ریشم کی ڈوریاں ہیں

پینگوں پہ لہلہاتی چونچال چھوریاں ہیں

الہڑ سوانیاں ہیں،اٹھتی جوانیاں ہیں

چاندی کی گردنوں میں سونے کی گانیا ں ہیں

    معاشرتی اور  سماجی زندگی میں لا تعداد واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ محمد شیر افضل جعفری نے صرف ان واقعات پر توجہ مرکوز کی جن میں یہ استعداد تھی کہ وہ تخلیق ادب کا موضوع بن سکیں۔ ان کے اشعار میں ان کے تخلیقی تجربے ایک انفرادی شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں وہ اپنے خون جگر اور  آہ سحر کے اشتراک سے سل کو دل بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان کے ہاں سوز و ساز رومی اور  پیچ و تاب رازی کی عجیب کیفیت ہے جو ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی دکھانے پر قادر ہے۔ جب برصغیر برطانوی استبداد کے خون آشام پنجوں میں جکڑا ہو ا تھا اس وقت بھی محمد شیر افضل جعفری نے حریت فکر کا علم بلند رکھا۔ انھوں نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا اپنا شعار بنایا۔ ان کی شاعری میں عشق کا جو تصور ہے وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ عقل پر عشق کو بالا دستی حاصل ہے۔ جس زمین و آسماں کو بے کراں خیال کیا جاتا ہے عشق کی اک جست نے اس کا تمام قصہ طے کر دیا۔ عشق آتش نمرود میں بے خطر کود پڑتا ہے جب کہ آج تک عقل محو تماشائے لب بام ہے۔ قوت عشق سے ہر پست کو بالا کرنے کی استعداد حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ اگر عقل مصلحت سے کام لے تو یہ عقل کی پختگی کی علامت ہے اس کے بر عکس اگر عشق میں بھی مصلحت کے تقاضوں کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا جائے تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ عشق تا حال خام ہے۔

عشق کے موضوع پر محمد شیر افضل جعفری کی شاعری میں ایک قابل فہم انداز فکر موجود ہے۔ ان کی بات دل سے نکلتی ہے اور  سیدھی دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔

عشق آفاق میں خلاق حیات جاوید

عالم نیست میں کیا صاحب ہست آیا ہے

بشر اگر عشق سے دعا لے

سراب سے آب جو نکالے

عشق جب وقت کو جھنجھوڑتا ہے

حادثے کانپ کے گر جاتے ہیں

بے زری دان کے لائق نہ سہی

عشق میں جان بھی پن ہوتی ہے

عشق میں چوٹ ہی کھائی ہم نے

آگ سے پیاس بجھائی ہم نے

عشق میں کونج کی فریاد کے ٹکڑے افضل

مست بلبل کی مدھر تان میں ڈھل جاتے ہیں

جب نگار قضا سنورتا ہے

عشق لہرا کے رقص کرتا ہے

            قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں اعلیٰ انسانی اقدار کی زبوں حالی نے انسانیت کو نا قابل اندمال صدمات سے دو چار کر دیا ہے۔ ابن الوقت ،مفاد پرست ،دروغ گو اور  کینہ پرور درندو ں نے بے بس و لاچار انسانیت پر جو کو ہ ستم توڑا ہے اس کے مسموم اثرات سے رتیں بے ثمر ،کلیاں شرر اور  آہیں بے اثر ہو کر رہ گئی ہیں۔ المیہ یہ ہے کا اب تو سادیت پسندی (Sadism) کو بھی ایک ہر دل عزیز مشغلہ سمجھا جاتا ہے۔ محمد شیر افضل جعفری نے اپنے سب ملنے والوں میں ہمیشہ خوشیاں بانٹیں۔ جو لوگ ان کے پاس اشک آور گفتگو کرتے انھیں بھی وہ صبر و رضا کی اس طرح تلقین کرتے کہ جلد ہی ان کی گفتگو تبسم انگیز ہو جاتی۔ جب وہ بولتے تو باتوں سے پھول جھڑتے۔ کسی کی عیب جوئی اور  تنقیص سے انھیں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ایک مرتبہ ایک چربہ ساز ،سارق،کفن دزد متشاعر ان کے پاس اپنی شاعری کا مسودہ لے کر حاضر ہو ا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس پر ایک مقدمہ لکھوا کر اسے کتابی صورت میں شائع کرائے۔ محمد شیر افضل جعفری نے ایک گھنٹہ مسلسل اس مسودے کا مطالعہ کرنے کے بعد اس خفاش منش متشاعر کو  مسودہ  واپس کرتے ہوئے کہا :

          ’’ابھی اس شاعری کے مسودے کو کھبھلاٹھ کے نیچے سنبھال کر رکھو۔ ‘‘

         اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ شاعر ی  اس قدر نا پختہ ہے کہ اس کا منظر عام پر آنا خود شاعر کے حق میں نقصان دہ تھا۔جس طرح مرغی اپنے کمزور چوزوں کو پروں کے نیچے سنبھال کر اسے بیرونی ناسازگار ماحول  سے بچاتی ہے اسی طرح اس شاعر کو مشورہ دیا گیا کہ وہ ایسا خام کلام ابھی باہر نہ نکالے اور  اسے چھپا کر رکھے۔اس کی اصلاح پر توجہ دے اور  کسی استاد کی با قاعدہ شاگردی اختیار کرے تا کہ اسے اپنی شاعری کو پوشیدہ نہ رکھنا پڑے۔ایک مختصر جملے میں وہ لفاظ حشرات سخن کو آئینہ دکھاتے اور  گلشن ادب کو ان کی غاصبانہ دستبرد سے محفوظ رکھنے کی سعی میں مصروف رہتے۔جید جاہل ان کو دیکھ کر ایسے غائب ہو جاتے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اصلاح  اور  مقصدیت کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے تھے۔ ان کے اس نوعیت کے اصلاحی مشوروں سے متعدد نو خیز ادیبوں کی تخلیقی فعالیت کو مہمیز کرنے میں مدد ملی۔

          حضرت سلطان باہو(1630-1691)کے ساتھ انھیں بہت عقیدت و محبت تھی۔جب ڈاکٹر سید نذیر احمد گورنمنٹ کالج جھنگ کے پرنسپل تھے تو انھوں نے ممتاز اشاعتی ادارے  پیکجز لمیٹڈ،لاہور  کے زیر اہتمام ابیات باہو کا ایک مستند نسخہ مرتب کیا۔اس مسودے کی تیاری میں انھوں نے محمد شیر افضل جعفری سے بھی مشاورت کی اور  ان کے ذاتی کتب خانے میں موجود نادر و نا یاب مخطوطوں پر بھی کام کیا۔ابیات باہو کا یہ ایڈیشن ابیات کے چند اہم بنیادی مآخذ میں شامل ہے۔محمد شیر افضل جعفری کو حضرت سلطان باہو کے متعدد ابیات زبانی یاد تھے۔جب وہ ان ابیات کو بلند آواز سے پڑھتے تو ان پر رقت طاری ہو جاتی اور  بعض اوقات وہ زار و قطار رونے لگتے۔جھنگ کے ممتاز ادیب ،شاعر اور  دانش ور امیر اختر بھٹی نے مجھے بتایا:

     ’’ حضرت سلطان باہو کے مزار پر واقع مسجد کے صحن میں  بیری کا ایک چار سو سال پرانا تن اور  درخت ہے ،اس درخت پر ہر موسم میں سال بھر خوش ذائقہ بیری کے پھل لگتے ہیں۔ان کے بارے میں یہ بات اس علاقے کے بچے بچے کی زبان پر ہے کہ جس کے گھر اولاد نہ ہوتی ہو وہ اس بیری کے درخت کے نیچے اللہ کریم کے حضور سر بہ سجود ہو کر جھولی پھیلا کر رو رو کر  دعا مانگے اور  اولاد کے لیے اللہ کریم سے التجا کرے۔اگر جھولی میں بیر گرے تو بیٹا پیدا ہو گا اور  اگر پتا گرے تو بیٹی پیدا ہو گی۔محمد شیر افضل جعفری کے بیٹے کی اولاد نہ تھی وہ دربار حضرت سلطان باہو پہنچے اور  مسجد میں ڈیرے ڈال دئیے۔ایک ہفتہ وہاں قیام کیا ،نماز باجماعت ،مسلسل نوافل اور  تہجد بھی پڑھی۔چادر  بیری کے درخت کے نیچے ہمہ وقت پھیلی رہی اور  دعاؤں،فغان صبح گاہی اور  التجاؤں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ایک دن نماز تہجد سے فارغ ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ دو سرخ رنگ کے پکے ہوئے بیر درخت کی بلند ٹہنی سے گرے اور  ان کی جھولی میں آگرے۔انھوں نے سجدۂ شکر ادا کیا اور  گھر آ کر اپنی بہو اور  بیٹے کو یہ نوید سنائی۔انھوں نے بیر کھا لیے اسی سال ان کا پوتا پیدا ہوا اس کا نام حضرت سلطان باہو کی نسبت سے ’’چن سلطان ‘‘ رکھا گیا۔اگلے برس بھی ایک بیٹا پیدا ہو اجس کا نام اسی حوالے سے ’’چنن سلطان‘‘ رکھا گیا۔‘‘

          میں نے محمد شیر افضل جعفری کے ان پوتوں سے ملاقات کی ہے۔دونوں نو جوان بڑے سعادت مند اور  نیک ہیں۔ان کی شاعری میں بھی حضرت سلطان باہو سے قلبی لگاؤ اور  والہانہ محبت کا اظہار کیا گیا ہے۔ان کے دل میں اس عظیم صوفی شاعر اور  روحانی بزرگ کے لیے محبت کے بے پایاں جذبات کا اظہار اس طرح کیا گیا ہے :

باہو نے رگ جاں میں نشے کو ٹٹولا ہے

اس راز کو بالآخر اک مست نے کھولا ہے

باہو کی ترائی میں دل زار کا عالم

فردوس کی آغوش میں صحرائے عرب ہے

باہو کے دربار میں لائیں

خمرے حق ،ہو کی سوغاتیں

         گورنمنٹ کالج جھنگ کا یہ منفرد اعزاز و امتیاز ہے کہ یہاں ہر عہد میں ایک قابل رشک ادبی ماحول پروان چڑھتا رہا ہے۔محمد شیر افضل جعفری اس فقید المثال ادبی ماحول کے بنیاد گزارو ں میں شامل تھے۔وہ جوہر قابل کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کرتے اور  نوجوانوں کے ادبی ذوق کو صیقل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے۔ہر نئے عیسوی سال کے آغاز پر اس تاریخی مادر علمی میں کل پاکستان علمی و ادبی تقریبات کا انعقاد اب ایک مضبوط اور  مستحکم روایت کی صور ت اختیار کر گیا ہے۔ان تقریبات میں کراچی سے پش اور تک کے کالج اور  جامعات کے طلبا و طالبات بڑے جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں۔

مجموعی طور پر اول آنے والی ٹیم کو  حضرت سلطان باہو  باہو گردشی نشان ظفر عطا کیا جاتا ہے۔خالص چاندی سے بنا ہو ا یہ نشان ظفر دو لاکھ روپے سے زائد مالیت کا ہے۔اگر کوئی ادارہ مسلسل تین برس یہ اعزاز جیت لے تو یہ نشان ظفر اس کو مستقل طور پر مل جاتا ہے۔ان تقریبات میں محمد شیر افضل جعفری کو ہر سال مہمان خصوصی کے طور پر بلایا جاتا تھا۔تقریب کے اختتام پر ان سے جب کلام سنانے کی فرمائش ہوتی تو پنڈال میں سے ’’دائی۔۔۔دائی۔۔۔دائی۔۔۔‘‘ کی آوازیں آنے لگتیں۔یہ ان کی مشہور نظم ہے جو انھوں نے چنیوٹ کی دائی کے بارے میں لکھی تھی۔سر راہ  زمین پر بیٹھ کر بھٹی پر دانے بھون کر فروخت کرنے والی اس حسین و جمیل دائی کی عزت نفس ،انا ،خود داری اور  حسن پر حقیقی ناز سے ہر شخص متاثر تھا۔انھوں نے لکھا تھا :

چنیوٹ کی دائی کے

دعوے ہیں خدائی کے

    ان کی نظم دائی سراپا نگاری اور  مشاہدے کا عمدہ نمونہ ہے۔اس نظم کے چند اشعار پیش خدمت ہیں :

سندر کومل نازک دائی

جھلمل  جھلمل کرتی آئی

پھاگن کی سرشار فضا میں

لال پری نے لی انگڑائی

تڑ تڑ کر تڑنے لگے پھلے

تاروں کی دنیا شرمائی

       ایک مرتبہ گورنمنٹ کالج جھنگ میں منعقدہ  کل پاکستان مشاعرہ  میں محمد شیر افضل جعفری مہمان خصوصی تھے۔پرنسپل بہت سخت گیر اور  کڑے نظم و ضبط کے باعث بد نامی کی حد تک مشہور تھا۔اس نے کالج کے ایک سو پچھتر اساتذہ کو حکم دیا کہ پنڈال کے گرد گھیر ڈال کر کھڑے ہو جائیں اور  کسی بھی طالب علم کو اپنی نشست سے اٹھنے نہ دیں۔حکم حاکم مرگ مفاجات اس نادر شاہی حکم کی تعمیل کی گئی۔محمد شیر افضل جعفری اس تمام صورت حال کو دیکھ کر بہت دل گرفتہ دکھائی دیتے تھے۔جب مشاعرہ ختم ہوا تو انھیں خطبہ ء صدارت پڑھنے کے لیے طلب کیا گیا۔وہ مجمع کی نفسیاتی کیفیت کو سمجھتے تھے ،انھوں نے مائیک پر آ کر اپنے دبنگ لہجے میں کہا:

      ’’میں تمام اسیران پنڈال کی رہائی کا اعلان کرتا ہوں ‘‘

       یہ کہہ کر وہ خاموشی سے سٹیج سے اترے اور  گھر کے لیے روانہ ہو گئے۔سارا پنڈال فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا۔تمام بچے اس عظیم ادیب کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے جس نے انھیں مسلسل چار گھنٹے کی عقوبت سے رہائی دلائی۔اس غیر نفسیاتی طرز عمل کو اپنانے والے پرنسپل کے ساتھ انھوں نے تمام رابطے منقطع کر لیے۔جلد ہی اس پرنسپل کا تبادلہ ہو گیا اور  محمد شیر افضل جعفری پھر سے ادبی نشستوں کی روح رواں بن گئے۔اب ایسے شفیق اور  ہمدرد انسان کہاں ؟

            اپنی زندگی میں محمد شیر افضل جعفری نے مال و دولت دنیا کو بتان وہم و گماں سمجھتے ہوئے اس سے کوئی تعلق نہ رکھا۔در کسریٰ پہ صدا کرنا ان کے مسلک کے خلاف تھا۔وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کھنڈروں میں جامد و ساکت بتوں کے علاوہ کچھ بھی تو نہیں۔وہ یہ بات بڑے دکھ کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ آج کے دور کا لرزہ خیز اعصاب شکن المیہ یہ ہے کہ معاشرہ بے حسی کا شکار ہو گیا ہے۔چلتے پھرتے ہوئے مردے انسانی وقار کے در پئے آزار ہیں۔پتھروں ،چٹانوں اور  جامد و ساکت مجسموں کے روبرو دکھی انسانیت کے مصائب و آلام بیان کرنے والے تخلیق کار کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی روح قبض ہو رہی ہے۔ان کی زندگی میں ایک شان استغنا تھی۔وہ یہ بات زور دے کر کہا کرتے تھے کہ جو سکون دولت کو ٹھکرانے میں ہے وہ اس کے لیے سرگرداں ہونے میں کہاں ؟۔ہوس نے انسان کو جس انتشار اور  پراگندگی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے وہ اس پر رنجیدہ تھے۔ان کی شاعری میں فن کار کی انا اور عزت نفس کا بیان قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے :

مائل نقرہ و طلا نہ ہوا

فقر مرہون کیمیا نہ ہوا

تخت طاؤس کو یہ حسرت ہے

کیوں قلندر کا بوریا نہ ہوا

ہر قلندر کے در عظمت پر

تاج محتاج کرم رہتا ہے

میں گدائے در قلندر ہوں

ناز بردار کج کلاہ نہیں

             وطن ،اہل وطن اور  بنی نوع انسان کے ساتھ قلبی وابستگی کے جذبات سے سرشار یہ عظیم ادیب اب ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن اس کے افکار کی ضیا پاشیوں کا سلسلہ تا  ابد جاری رہے گا۔مایوس دلوں کو ایک ولولۂ تاز دینے والے اس جری تخلیق کار کا نام جریدہ ء عالم پر ہمیشہ ثبت رہے گا۔ان کی شاعری پوری دنیا کے انسانوں کے لیے حوصلے اور مسرت کی نقیب ہے۔وہ خود کو جھنگ کا حیدری ملنگ کہلانا پسند کرتے تھے۔یہ ان کے عجز اور  انکسار کی دلیل ہے۔ان کی شاعری اور  شخصیت کے نقوش انمٹ ہیں۔انھوں نے کہا تھا :

جھنگ کے حیدری ملنگ میں ہے

خاکساری بھی کجکلاہی بھی

           انسانی ہمدردی ان کے رگ و پے میں سرایت کر گئی تھی۔انسان شناسی میں وہ کمال رکھتے تھے۔انھوں نے چالیس برس درس و تدریس میں گزارے۔نفسیاتی مسائل پر انھیں عبور حاصل تھا۔انسانیت کے وقار اور  سربلندی کے لیے ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ان کے اسلوب اور  شخصیت پر انسانی ہمدردی کا واضح پرتو دکھائی دیتا ہے۔وہ ہر شخص کے غم خوار تھے۔ان کا کہنا تھا کہ شادی و غم جہاں میں توام ہے ،اسی لیے وہ  سب کے دکھ درد میں بلا امتیاز شریک ہوتے اور  ان کے دل شکستہ کی ڈھارس بندھاتے۔درد مندوں ،ضعیفوں اور  مفلوک الحال طبقے سے انھوں نے جو عہد وفا استوار کیا اس پر آخری وقت تک قائم رہے۔اپنی تہذیبی اور  ثقافتی اقدار کے وہ شیدائی تھے۔اپنے لباس ،غذا  اور  رہن سہن میں وہ مشرقی تہذیب کے نمائندہ تھے۔اپنی شاعری اور  تدریس کے ذریعے انھوں نے تہذیبی میراث کو نہ صرف محفوظ کیا بلکہ اسے آنے والی نسلوں کو منتقل کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔وہ اس بات کی جانب توجہ دلاتے تھے کہ اقوام اور  ملل تو سیل زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آ کر نیست و نابود ہو سکتی ہیں مگر تہذیب پھر بھی باقی رہتی ہے۔اگر تہذیبی میراث کے تحفظ اور  اسے نسل نو کو منتقلی میں مجرمانہ تساہل کیا جائے تو معاشرہ پتھر کے زمانے میں چلا جائے گا۔

 اگرچہ ان کی آمدنی کم تھی اور  آخری عمر میں محض پنشن کی قلیل رقم پر گزر اوقات ہوتی تھی اس کے باوجود ان کی مہمان نوازی میں کوئی کمی نہ آئی۔انھوں نے ادیبوں کی فلاح کے کسی ادارے سے کبھی مالی امداد کی درخواست نہ کی۔اپنی عزت نفس اور  خود داری کا بھرم قائم رکھنا ان کا ہمیشہ مطمح نظر رہا۔ان کی خوابیدہ صلاحیتوں اور  فہم و ادراک کا ایک عالم معترف تھا۔ان سے محبت کرنے والے کشاں کشاں ان کے پاس آتے اور  ان کی عالمانہ گفتگو سے فیض یاب ہوتے۔جو بھی ان سے ملنے آتا وہ دیدہ و دل فرش راہ کر دیتے۔ان کا مہمان خانہ ہر وقت ملاقاتیوں سے بھرا رہتا۔چائے کا مسلسل دور چلتا رہتا۔اس کے ساتھ ساتھ عرض ہنر اور  ادبی گفتگو بھی جاری رہتی۔اس قسم کی ادبی نشستوں کا انعقاد ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ان محفلوں میں شرکت کے لیے صلائے عام تھی۔یاران نکتہ داں نے ان سے بھر پور استفادہ کیا اور  اپنے فکر و فن کو نکھارا۔محمد شیر افضل جعفری کی  بصیرت افروز گفتگو ان کے قلبی اور  روحانی وجدان کی مظہر ہوتی تھی۔ان کی باتیں سن کر سامعین ایک عالم نو کا چشم تصور سے مشاہدہ کر لیتے۔ان سے مل کر زندگی سے حقیقی محبت کے جذبات پروان چڑھتے۔ملاقاتی یوں محسوس کرتا کہ وہ اپنی گفتگو سے طائر سدرہ تک شکار کرنے کی صلاحیت کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں اور  سامعین کا مرحلہ ء شوق ہے کہ طے ہی نہیں ہو پاتا۔

          کتابوں کی اشاعت کو وہ ادبی خدمت قرار دیتے تھے۔وہ اسے منفعت بخش کاروبار نہیں سمجھتے تھے۔جب وہ اپنا شعری مجموعہ ’’موج موج کوثر ‘‘شائع کرنے کی فکر میں تھے تو خیر الدین انصاری نے مشورہ دیا ’’یا تو اس کتاب کا مسودہ کسی ناشر کو فروخت کر دیا جائے یا خود کتاب چھاپ کر اس کو فروخت کیا جائے۔‘‘یہ سن کر محمد شیر افضل جعفری کا رنگ متغیر ہو گیا وہ غم زدہ لہجے میں بولے ؛ ’’اپنے اشعار کو میں اپنی معنوی اولاد خیال کرتا ہوں۔ان کی فروخت کے بارے میں تو سوچنا ہی میرے لیے اذیت اور  عقوبت کی بات ہے۔رہ گیا کتاب چھاپ کر اسے فروخت کرنے کا معاملہ تو یہ بات بھی مجھے گوارا نہیں کیوں کہ کتاب کو فروخت کرنے کے لیے اپنی خود داری اور  عزت نفس کو نیلام کرنا پڑتا ہے۔‘‘ اس کے بعد موج موج کوثر چھپی اور  احباب اور  ادیبوں میں  اعزازی تقسیم ہو گئی۔اپنا سب کچھ علم و ادب کے لیے وقف کر دینے والے اس عظیم تخلیق کار کی زندگی اس قسم کی درخشاں روایات کی امین رہی۔

          دنیا دائم آباد رہے گی۔ادبی نشستوں اور  مشاعروں کے انعقاد کا سلسلہ بھی جاری رہے گا لیکن اپنے فکری اور  فنی تجربات اور  منفرد اسلوب کے ذریعے جہان تازہ تک رسائی کے نئے امکانات کی جستجو کرنے والا ایسا زیرک تخلیق کار بڑی مشکل سے پیدا ہوتا ہے۔ان کے فنی تجربے، تخلیقی فعالیت اور  ادبی محافل کے انعقاد کا شوق  جہاں ان کے تخلیقی وجود کا اثبات کرتے تھے وہیں ان کی بدولت نئی نسل کے لیے ایک لائحۂ عمل بھی سامنے آتا تھا۔انسانی آزادی کا اتنا پر جوش حامی میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ان کو اس بات کا شدید رنج تھا جدید دور کا معاشرہ اخلاقی اور  روحانی اعتبار سے رو بہ تنزل ہے۔لوگ حرف صداقت لکھنے سے گریزاں ہیں۔مسلسل شکست دل سے وہ بے حسی ہے کہ کسی کے بچھڑ جانے کا مطلق احساس نہیں ہوتا۔جب احساس زیاں عنقا ہونے لگے تو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ افراد معاشرہ اب درندگی اور  سفاکی کی سمت گامزن ہیں۔ا س اعصاب شکن ماحول میں بھی محمد شیر افضل جعفری نے سات عشروں تک  طوفان حوادث میں بھی حوصلے اور  امید کی شمع فروزاں رکھی۔ایسے عظیم انسان فنا کی دستبرد سے ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں۔انسانی زندگی کو حقیقی معنویت اور  مقصدیت سے متمتع کرنے والے اس نابغۂ روزگار ادیب کے بار احسان سے ہر  با ضمیر اور  با شعور انسان کی گردن خم رہے گی۔انھوں نے خود کہا تھا کہ میری زندگی تو خاموشی سے گزر گئی مگر میرے بعد مجھے لوگ ضرور یاد کریں گے۔

میری موت تے ہوسیں جنج ورگی

سنجی زندگی چپ چپیتی اے

        (میری موت کے بعد میری خدمات کو دیکھ لوگ  مجھے پہچانیں گے۔میری زندگی تو خاموشی سے گزر گئی لیکن میری وفات کے بعد میر ی تخلیقی کامرانیوں پر لوگ جشن منائیں گے )

       اردو شاعری کا دبستان جھنگ جس  نے افق ادب کو گزشتہ آٹھ عشروں سے منور کر رکھا تھا  اب اپنی تمام تر رعنائیوں اور  چکا چوند سے محروم ہو چکا ہے۔چاند چہرے شب فرقت پر وارے جا چکے ہیں  اور تمام  آفتاب و ماہتاب قبروں میں اتارے  جا چکے ہیں۔تمام حقیقتیں اب خیال و خواب بن چکی ہیں۔اس شہر سدا رنگ کے در و دیوار حسرت و یاس کی تصویر بن گئے ہیں۔محمد شیر افضل جعفری کی وفات سے اردو زبان ایک بے لوث خادم سے محروم ہو گئی ہے۔بزم ادب ایک مدت تک ان کی یاد میں سوگوار رہے گی۔مجید امجد کا یہ شعر میرے جذبات حزیں کا ترجمان ہے :

برس گیا بہ خرابات آرزو تیرا غم

قدح قدح تیری یادیں ،سبو سبو تیر ا غم

٭٭٭

تشکر: غلام شبیر رانا جنہوں نے فائل اور  اجازت مرحمت کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور  ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید