FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ادبی تجزیات

               ڈاکٹر محمد یحیٰ صبا

 

 

بہادر شاہ ظفر اور 1857

شاعری خود ادب ہے اور ادب کا بڑا حصّہ شاعری ہے شاعری کی تعریف مغرب تا مشرق خوب ہوئے لیکن کل ملا کر شاعری کا معاملہ آج بھی وہیں ہے کہ بقول شبلی :

’’جو جذبات الفاظ کے ذریعہ ادا ہوں شعر ہے‘‘

نہ جانے حضرت انسان کے سر میں یہ سودا کب سمایا کہ وہ اپنے دلی جذبات کو مشتہر کرے ضرورتاً بھی اور بغیر ضرورت کے بھی لیکن یہ ضرور ہوا کہ اس امر نے دنیا میں آرٹ کی بنیاد ڈالی دی۔ یہ بات تو مسلّم ہے کہ اس روئے زمین پر کامیاب آرٹ کے جتنے بھی نادر نمونے ہیں وہ سب دلی جذبات کی عکاسی کرتے ہیں شاعری بھی آرٹ ہے اور اس میں بھی کامیاب شاعر وہی قرار پاتا ہے جو دلی جذبات کو بخوبی شعر کے قالب میں ڈھال دیتا ہے۔ ملٹن نے شعر کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

’’شعر الفاظ کا ایسا استعمال ہے کہ اس سے تخیل دھوکہ کھا جائے۔ مصور رنگ کی مدد سے جو کام کرتا ہے اس کو الفاظ کے ذریعہ سر انجام دینے کی صنعت کا نام شاعری ہے‘‘

یہ مغربی مفکر کا خیال ہے لیکن فارسی میں نظامی عروضی السمرقندی نے بھی شعر کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

’’شاعری ایسی صنعت ہے جس کی بدولت موہومات کی ترتیب سے چھوٹی چیز بڑی اور بڑی چیز چھوٹی کر کے دکھائی جاتی ہے اور اچھی چیز کو بد نما اور بری چیز کو خوش نما ثابت کیا جاتا ہے تاکہ انسان کے جذبات مشتعل ہوں اور طبیعت پر انبساط یا انقباض کی کیفیت طاری ہو اور یہ دنیا میں مہتمم بالشان کارناموں کا سبب بنے۔ ‘‘       (چہار مقالہ باب شاعری)

اپنے جذبات کو مشتہر کرنے سے دوسروں کے جذبات مشتعل ہوں اور اگر یہ کام قصداً کیا جائے تو ایسی شاعری بھی مقصدیت کے زمرے میں داخل ہو جائے گی۔یقیناً بہادر شاہ ظفر اسی زمرے میں شامل شاعر ہیں بھلے ہی ان کا تعلق کلاسیکی عہد سے رہا ہو غزل اور بہادر شاہ ظفر کا ذکر آتے ہی اٹھارھویں اور انیسویں صدی پر محیط ادبی منظر نامے کا عکس ذہن کے پردے پر تھرکنے لگتا ہے بالخصوص اٹھارھویں صدی کا نصف آخری اور 19ویں صدی کا نصف اول حصّہ جو بہادر شاہ ظفر کا عہد بھی ہے(پیدائش 14اکتوبر 1775اور وفات 7نومبر1862)یہ دور نہ یہ کہ اردو شاعری کا ایک اہم دور ہے بلکہ یہ وہ عہد ہے جس میں سیاسی، سماجی، ثقافتی اور تہذیبی سطح پر جتنی تبدیلیاں ہندوستان میں ہوئیں شاید ہی کسی دور کو ایسا انقلابی رویّہ میسّر آ یا ہو۔

کہا جاتا ہے کہ آرٹ زمانۂ سکون میں پروان چڑھتا ہے لیکن حیرت ہوتی ہے کہ اردو شاعری کے بامِ عروج پر پہنچنے کا عہد نہایت ہی جاں سوز عہد ہے۔ ایسا عہد جس میں ہر سطح پر تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ علمی میدان میں سائنس کا عمل دخل اسی عہد میں بڑھ رہا ہے ہندوستان گیر پیمانے پر انگریزوں کا تسلط اسی دور میں قائم ہوا وطنیت کا جذبہ اسی دور میں برگ و بار لایا غزل کے مقابلے میں موضوعاتی نظموں کو انگریزوں کے ایما پر اسی دور میں رواج دیا گیا، تجربے کے طور پر ہی سہی اودھ کے نواب کو اسی دور میں گرفتار کیا گیا، مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو اسی عہد میں قید کر کے رنگون بھیجا گیا اور اسی عہد میں عام عوام میں ایک زبردست سیاسی تبدیلی یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ ملک گیر پیمانے پر انگریزوں کے خلاف احتجاج کے شعلوں نے ایک مسلح جدوجہد کی شکل اختیار کر لی جسے انگریزوں نے  1857کا غدر کہا۔ اور اس جدو جہد میں پہلی بار اور شاید آخری بار بھی تمام ہندوستانی صرف اور صرف ہندوستانی بن گئے اور اسی جدو جہد نے یہ طے کر دیا کہ انگریزوں کو جلد یا دیر میں ہندوستان سے واپس جانا ہو گا۔

تبدیلیوں کا یہ دور، جدو جہد کے یہ صبح و شام اور افراط و تفریط کے اس ماحول میں بہادر شاہ کی شاعری پروان چڑھی۔

بہادر شاہ ظفر نے جب ہوش کی آنکھیں کھولیں تو اسے چہار دانگ ہندوستان تک پھیلی ہوئی حکومت قلعے کی چہار دیواری تک سمٹی ہوتی نظر آئی اور قلعے میں بھی ان کی حکومت کیسی جب کہ وہ انگریزوں کے ذریعہ دیئے جانے والے ایک لاکھ کے پنشن یافتہ تھے اور قلعے کے اندر بھی انگریزی ریزیڈنٹ کے احکام کو اولیت حاصل تھی۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود بہادر شاہ ظفر بادشاہ تھے اور عوام کی ہمدردیاں اور محبتیں انھیں حاصل تھی۔ ظاہر ہے یہ ایک بڑی طاقت تھی اور اسی کے بل پر وہ بادشاہ کہے جاتے رہے۔

بہادر شاہ ظفر کے دور کو یوں بھی اہمیت حاصل ہے کہ اس دور میں تعلیم کا رشتہ سائنس سے جڑ گیا۔ پریس کی ایجاد ہوئی اور پہلی بار دہلی میں ایک ایسے کالج کی بنیاد پڑی جس میں جدید تعلیم کا انتظام کیا گیا۔ اخبارات کا اجرا ہوا اور سائنسی ایجادات کا اثر براہ راست معاشرے پر پڑنے لگا تھا۔ یہ ہی نہیں بلکہ اس دور میں ایک سے ایک صاحبِ فہم و ادراک شخصیات دہلی میں موجود تھیں جن کے افکار و خیالات آج بھی مستند سمجھے جاتے ہیں اور اس دور کے بعد ایسی نادر الوجود شخصیات بیک وقت دہلی میں پھر جمع نہ ہو سکیں۔ سر سید نے لکھا ہے کہ :

’’دہلی اہلِ کمال کا مرکز ہے ان اہلِ کمال میں اس دور کے اطبّا بھی شامل ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ظفر کے زمانہ تک یہی صورتِ حال تھی اہلِ علم میں حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۂ اللہ علیہ ان کے برادران عزیز شاہ عبدالقادر، شاہ رفیع الدین شاہ اسماعیل شہید شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی جیسے اہل علم موجود تھے جن کی وجہ سے بعد میں علم حدیث ہندوستان بھر میں پھیلا اور محدث ہونا بہت بڑے مذہبی و علمی وقار کی بات سمجھی جاتی ہے۔‘‘        (آثار الصنادید، ص:517-518)

اس کے علاوہ مرزا غالب مولوی امام بخش صہبائی مومن خاں مومن، مولوی رشید الدین خاں، مولانا فضل حق خیر آبادی ان کے والد مولانا فضل امام خیر آبادی، مفتی صدر الدین آزردہ جو مرزا غالب کے خاص دوست تھے مولانا مملوک علی اس زمانہ کے دہلی کالج کے معروف اساتذہ میں سے تھے ظفر کے استاد شیخ ابراہیم ذوق، حکیم آغا جان عیش، حافظ عبدالرحمن خاں احسان اس کے علاوہ ذوق کے پہلے ظفر اور ذوق دونوں کے استاد شاہ نصیر بھی اسی دور کے شاعر ہیں۔

میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس دور میں دہلی با کمالوں کا منبع تھا اور ایک سے ایک نابغۂ روزگار اہل کمال کا تعلق براہِ راست بہادر شاہ ظفر سے رہا اور اسی ماحول میں ان کی شاعری نے وجود حاصل کیا۔

بہادر شاہ ظفر کا تعلق آرٹ سے براہِ راست رہا اس سلسلے میں پروفیسر اسلم پرویز نے لکھا ہے کہ:

’’ظفر کو فنونِ لطیفہ سے بے حد دلچسپی تھی چنانچہ موسیقی، خطاطی، مصوری، نقاشی اور شاعری ان تمام فنون میں ظفر گہری دلچسپی لیتے تھے اور خود بھی کئی خطّوں میں امتیاز رکھتے تھے۔‘‘

(بہادر شاہ ظفر مقالہ برائے پی ایچ ڈی، ڈاکٹر اسلم پرویز ص:374)

اب یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ظفر جس دور کی نمائندگی کرتے ہیں اسی دور کی نمائندگی شاہ نصیر ذوق عالب اور مومن بھی کرتے ہیں لیکن ظفر کا معاملہ جن مراحل سے ہوتا ہے دوسرے ہمعصر شعرا کسی نہ کسی حد تک اس سے الگ ہیں ظفر بادشاہِ وقت بھی ہیں اور پنشن یافتہ بھی ان کے آباء و اجداد نے جس مغلیہ حکومت کی بنیاد ڈالی تھی اور جس کا شہرہ پوری دنیا میں تھا اس مملکت کو وہ دیکھ رہے تھے لیکن اس پر اپنا حکم نہیں چلا سکتے تھے جس قلعہ معلیٰ میں ان کا مسکن تھا وہاں بھی وہ کسی نہ کسی حد کے پابند تھے ان کے آباء و اجداد نے جس دیوان عام، دیوان خاص یا رنگ محل میں جواہر لٹائے تھے آج وہاں وہ بنیوں سے قرض لینے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ وہ سارے حقائق ہیں جس کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ظفر کو جو ذاتی تجربات ہوئے وہ اسی عہد کے دوسرے شعرا سے یکسر الگ اور ذاتی تھے اور یہی سبب ہے کہ ظفر کی شاعری کے اندرون میں کرب ایک لازمی جز کی حیثیت رکھتی ہے ایسا نہیں کہ اس کرب کی پر چھائیں غالب نصیر یا مومن کی شاعری پر نہیں پڑ رہی ہے لیکن ظفر کا یہ سارا کرب ذاتی کرب بن کر ان کی شاعری میں توانائی کا جوہر بن گیا ہے    ؎

گلشنِ دہر میں گلچینِ خزاں کا ہو برا

جس نے بوئے ہیں مرے حق میں سراسر کانٹے

ہم صفیر و مری فریاد و فغاں گلشن میں

آہ کیا ہوتا جو پاس آ کے قفس کے سنتے

گل کچھ تو اس چمن کی ہوا کھا کے جھڑ پڑے

وہ کیا کریں کہ غنچہ بھی مرجھا کے جھڑ پڑے

کہوں بگولے کو کیا خاک میں بیاباں گرد

کہ میری طرح سے دیکھے کہاں نشیب و فراز

مجھے رونا تو یہ ہے مثلِ شبنم اے گلِ خنداں

کہ جب روتا ہوں تیرے روبرو تو اور ہنستا ہے

شمع جلتی ہے پر اس طرح کہاں جلتی ہے

ہڈی ہڈی مری اے سوزِ نہاں جلتی ہے

قفس، گلچیں، صیاد، گل، شمع، شبنم، فغاں، خزاں، چمن یہ سارے الفاظ ان چند اشعار میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور غور کریں تو ظفر کی پوری شاعری میں یہ الفاظ صرف لفظ بن کر نہیں رہ گئے بلکہ ہر لفظ کسی نہ کسی طویل داستان کا عنوان ہے اور اس لفظ کا سیاق اس بات کی چغلی کھاتا ہے کہ ظفر کے اندرون میں جو کرب کا طوفان پوشیدہ ہے یہ الفاظ اس کرب کی سفارت کر رہے ہیں اور ظاہر ہے وہ کرب اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی ہے۔

ظفر کی شاعری پر بات کرتے وقت اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہم ان کی سنگلاخ زمینوں کی سطح کو توڑنے میں پسینہ پسینہ ہو جاتے ہیں اور اس مشکل کام کو ظفر کی مشکل پسندی کا نام دے دیتے ہیں۔ ظفر کی مشکل پسندی تو اس دور سے مستعار ہے۔ ظفر سے ہم یہ توقع کیونکر کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے دور کے غالب رجحان مشکل پسندی سے باہر نکل کر ناصر کاظمی یا بانی جیسی شاعری کرنے لگتے ۔

ظفر کے استاد شاہ نصیر اور ذوق ہیں اور اس دور میں جو شعرا ہیں وہ ہیں مرزا جان عیش، حافظ عبدالرحمن عیش، حافظ عبدالرحمن احسان، میر نظام الدین ممنون مومن خاں مومن اور خود غالب اور اس دور میں شاعری کا معیار طئے کیا جاتا ہے سنگلاخ زمین اور مشکل سے مشکل ردیفوں کو استعمال کرنے کے طریقہ سے ظاہر ہے بادشاہِ وقت اس رنگ سے اپنے آپ کو الگ کیونکر کرتے جب کہ قلعہ معلّیٰ کا اندازِ بیان ہی نہیں وہاں کی نشست و برخاست وہاں کے لباس اور وہاں کی زبان عوام میں سندِ افتخار کا درجہ رکھتی ہے۔

مولانا محمد حسین آزاد نے جو سرخیل ہیں دشمنانِ اردو غزل کے، روایت کے، اقدار کے اور خاص طور پر مغلیہ حکومت کے اور ہمدرد ہیں انگریزوں کے انھوں نے آبِ حیات میں ایک مقام پر اپنے والد کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ اپنے دوست ذوق سے کہا کرتے تھے کہ :

’’بادشاہ تمہارا زمین کا بادشاہ ہے خوب خوب طرحیں نکالتا ہے لیکن انھیں سرسبز نہیں کر سکتا اس کا کیا ہوا تم کرتے ہو‘‘    (نوائے ظفر ص:7)

اس اقتباس سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ ظفر بادشاہ ذوق کے ہیں محمد حسین آزاد کے والد انھیں اپنا بادشاہ نہیں سمجھتے اور دوسری بات یہ واضح ہوتی ہے کہ محمد حسین آزاد کو اس رنگ کی شاعری سے کہ ہے جو رنگ اس دور کا غالب رنگ ہے اس کی وضاحت ان کے اس اقتباس سے بخوبی ہو جاتی ہے جس میں انھوں نے مصحفی کے حوالے سے اپنی بات کہی ہے :

’’الفاظ کو کم و بیش اور مضمون کو پس و پیش کر کے کچھ ایسا رکھ دیا ہے کہ جو حق استادی کا ہے وہ ادا ہو گیا ہے‘‘

(آبِ حیات ص:67 )

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عہدِ ظفر میں شاعری کا رنگ مشکل پسندی سے موسوم تھا اور کامل استادانہ شان ہی یہ تھی کہ مشکل سے مشکل زمین میں دور از کار مضامین کو باندھا جائے جس سے سامعین پر رعب پڑے اور ایسا ہی ہوتا تھا۔ لیکن اگر شعر میں احساس کی شدت کا ذکر کیا جائے جو اس دور میں بہت کم شعرا کے کلام میں تھی تو اس میں ظفر کو ممتاز مقام حاصل ہے۔ ان کی شاعری میں جذبات، اور احساس کی شدّت پورے شباب پر ہے اور وہ اسے بیان کرنے میں کبھی بھی پس و پیش نہیں کرتے بلکہ جو دل پہ گذرتی ہے رقم کرتے چلے جاتے ہیں۔

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

جو کسی کے کام نہ آ سکے وہ میں ایک مشتِ غبار ہوں

میرا رنگ روپ بگڑ گیا مرا یار مجھ سے بچھڑ گیا

جو چمن خزاں سے اجڑ گیا میں اسی کی فصلِ بہار ہوں

سوزِ غمِ فراق سے دل اس طرح جلا

پھر ہو سکا کسی سے نہ ٹھنڈا کسی طرح

ہم یہ تو نہیں کہتے کہ غم کہہ نہیں سکتے

پر جو شبِ غم ہے وہ ہم کہہ نہیں سکتے

آج تک معلوم یہ مجھکو  نہیں کیا چیز ہوں

کون ہوں کیا شئے ہوں میں ناچیز ہوں یا چیز ہوں

اے ظفر کیا پوچھتے ہو کیا بتاؤں آپ کو

خاک ہوں میں خاک ہو ناکارہ ہوں ناچیز ہوں

لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں

کسی کی بنی ہے عالمِ نا پائدار میں

مندرجہ بالا اشعار میں غزل کا جو رنگ ہے یقیناً جدید ہے اور اپنے عہد کے عام رنگ سے ہٹ کر ہے حالانکہ سیاست اور معاشرے کی زبوں حالی کا ذکر کرنے کے لیے عہد ظفر میں ایک مایہ ناز صنف شہر آشوب موجود تھی اور اکثر شعرا اس صنف میں طبع آز مائی بھی کر رہے تھے لیکن ظفر نے اس صنف کو ہاتھ بھی نہ لگایا اور غزل کے اشعار میں ہی وہ تمام کرب و حزن یکجا کر دیے شاعری کی تعریف کرتے ہوئے ایک انگریز مصنف نے لکھا ہے:

’’شاعری ادب ہے جو عام طور سے انسان سے گہرا اور اعلیٰ علاقہ رکھتا ہے۔ انسانی دلچسپی کے جز کے علاوہ اس میں جمالی دلچسپی بھی بدرجۂ اتم موجود ہوتی ہے کیونکہ ان لوگوں میں جن میں تفکر کا ذریعہ ایسی زبان ہے جس میں شعر لکھا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ جمالی حسن کے ایسے نفیس سانچے تیار ہو جاتے ہیں کہ خیالات کو حسن کارانہ رنگ عطا کر کے پڑھنے والوں کے قلوب کو متاثر کر سکتے ہیں۔ ‘‘

(ایم۔ایچ لڈل۔ مقدمہ : سائنٹفک اسٹڈی آف پوئٹری)

ظفر کے یہاں جمالیاتی احساس کی فراوانی ہے حالانکہ وہ دور افراتفری کا ہے لیکن بادشاہ بہر حال بادشاہ ہے لہٰذا ان کی شاعری کا بڑا حصّہ ان کے قلبی اور ذہنی واردات کا آئنہ ہے جس میں انھوں نے جسمانی اختلاط سے لے کر ذہنی آسودگی تک کے موضوعات کو شعری نزاکتوں کے ساتھ برت دیا ہے۔

جام ہے، شیشہ ہے، ساقی بھی ہے برسات بھی ہے

ان دنوں بادہ کشی دن بھی ہے اور رات بھی ہے

جوش مستی بھی ہے ہنگامِ ہم آغوشی بھی

خواہشِ وصل بھی ہے جائے ملاقات بھی ہے

وہ بھی سرمست ہے اور ہم بھی نشہ میں سرشار

ہاتھ گردن میں ہے اور لطف و عنایات بھی ہے

یار ہے یار کے ہے ساتھ ظفر بوس و کنار

اور اگر چاہیے کچھ بات تو وہ بات بھی ہے

جب انسان حالات کی چکّی میں بری طرح پس جاتا ہے اور ان حالات سے نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی تو وہ ذہنی طور پر ہی سہی اس کیفیت یا اس جبر سے فرار کی کوشش کرتا ہے اس میں نفسانی جذبات اس کے کام آتے ہیں اور وہ اس نشے میں مدہوش ہو کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتا ہے۔

بزرگوں نے تو یہ بھی کہا ہے کہ جب کوئی معاشرہ زوال پذیر ہوتا ہے تو وہاں شعر و شاعری نیز فنونِ لطیفہ تیزی سے پروان چڑھتا ہے۔ اگر اس رائے کی روشنی میں ہم عہد ظفر کو دیکھیں تو اس قول کی صداقت صد فی صد درست ثابت ہوتی ہے کہ جہاں عہد ظفر کے پہلے سے ہی مغلیہ حکومت نام کو رہ گئی تھی اور پوری ہندوستانی تہذیب انگریزوں کے زیر اثر آ چکی تھی ہر شعبۂ زندگی میں اضمحلال کی کیفیت تھی لیکن شاعری کے لیے بالخصوص اور اردو ادب کے لیے بالعموم یہ سنہرا دور تھا۔ اور ادبی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو زبان و ادب نے اس دور میں جو نشانِ منزل مقرر کیے آج بھی ہم اس تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ظفر کی شاعری میں منظر نگاری کا بھی حسنِ امتزاج ہے اور اس سلسلے میں بھی ان کے قوتِ متخیلہ کی داد دینی پڑتی ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر تنویر احمد علوی لکھتے ہیں۔

’’ایسے مواقع پر ظفر کی طبیعت طرفہ تماشائی بنی نظر آتی ہے اور یہاں بات تماشہ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ظفر اس خوبصورت موقع پر اپنی طبیعت کی خوشیوں اور چہل بازیوں کا ذکر کرنے میں بھی تکلف نہیں کرتے۔ اس طرح کے شعروں میں زندگی کی جو لہر آگے بڑھتی اور رگ رگ میں پھیلتی محسوس ہوتی ہے اس کی لفظی تصویر پیش کرنے میں ظفر کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہے اور اس کا یہ تعلق زندگی سے بہت قریب کا معلوم ہوتا ہے۔‘‘

(ذوق سوانح اور انتقاد ص:42)

کنارِ آب ہو، مہتاب ہو، ساغر ہو، مینا ہو

جو یہ سامانِ کل ہوں پھر تو چہلیں ہوں، تماشہ ہو

ہم سے شرماؤ نہ تم چشم حیا کو کھولو

مثلِ گل شوق سے اب بندِ قبا کو کھولو

شمشیر برہنہ مانگ غضب آنکھوں کی چمک پھر ویسی ہے

جوڑے کی گندھاوٹ قہرِ خدا بالوں کی مہک پھر ویسی ہے

تا درِ جاناں ہمیں اول تو جانا منع ہے

اور گئے تو حلقۂ در کا ہلانا منع ہے

حلقۂ در گر ہلایا بھی تو بولے کون ہے

اب بتائیں کیا کہ نام اپنا بتانا منع ہے

غل مچا کر گر پکارا بھی تو جھنجھلا کر کہا

جاؤ کیوں آئے تمھیں گھر میں بلانا منع ہے

ظفر کے یہ اشعار ان کے ذاتی محسوسات سے بہت قریب معلوم ہوتے ہیں لیکن ذاتی محسوسات و تجربات کو شعر کا قالب عطا کرنا ان کا کمال ہے۔ ایسے مواقع پر ان کی شاعری میں لفظیات کی دنیا ایک خاص قسم کی بے ساختگی کو پروان چڑھاتی ہے اور یہی بے ساختگی ان کی شاعری کا حسن ہے۔ اس سلسلے میں عشرت جہاں ہاشمی رقم طراز ہیں :

’’ظفر کی شاعری جن ذہنی امور اور حیاتِ گذراں کے جن کوائف کو پیش کرتے ہیں وہ ایک شہزادہ کی زندگی سے بہت قریب ہے۔ ٹھیک ہے کہ دوسروں کو بھی یہ مواقع ملتے ہیں لیکن عیشِ امروز کا یہ تصور اور آغوشِ انبساط سے لطف لینے کا یہ انداز، مسرور ہونے کی یہ خواہش اور کامیاب ہونے کی یہ خوشی سب کا حصّہ نہیں ہو سکتی۔بالخصوص اس کا شاعرانہ بیان‘‘

ظفر کے عہد میں تصوف کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی اور وہ خود بھی ’’میاں کالے صاحب‘‘ کے خاندان میں بیت تھے اور خود بھی دوسروں کو مرید کرتے تھے اسی لیے ان کو پیر و مرشد بھی کہا جاتا تھا۔ حالانکہ ان کی شاعری میں غالب رنگ تصوف کا نہیں لیکن چیدہ چیدہ اشعار اس امر کی چغلی کھاتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں کورے نہ تھے۔

میری آنکھ بند تھی جب تلک وہ نظر میں نورِ جمال تھا

کھلی آنکھ تو نہ خبر رہی کہ وہ خواب تھا کہ خیال تھا

نہ وہ زمیں کے نہ ہے آسماں کے پردے میں

مگر ہے جلوہ نما دو جہاں کے پردے میں

دوئی کا پردہ اٹھا دل سے اور آنکھ سے دیکھ

خدا کے نور کو حسنِ بتاں کے پردے میں

ڈاکٹر اسلم پرویز نے ظفر کے سلسلے میں جو باتیں کی ہیں اس میں انھوں نے ظفر کے چار اہم رنگ کا ذکر کیا ہے لکھتے ہیں :

’’اول وہ کلام جس میں محض فنّی مہارت بہم پہنچائی ہے اور قادرالکلامی کا مظاہرہ کیا ہے۔ دوم وہ کلام جس میں گیت نما غزلیں قوالیاں ٹھمریاں اور مخمس وغیرہ ہیں سوم وہ کلام ہے جس میں مذہبی اور تصوفانہ اشعار ملتے ہیں جس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے ذہن پر مذہب اور تصوف کا گہرا اثر ہے، چہارم وہ کلام جن میں ان کی انفرادیت نمایاں اور فن کاری کار فرما ہے۔‘‘

اسلم پرویز کی رائے سے اختلاف کی گنجائش یوں بھی نہیں کہ انھوں نے ظفر پر اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ہے لیکن عام طور پر ظفر کی شاعری کا مخصوص رنگ ان کی شاعری میں موجود عشق و حسن کا تصور ہے جس کی حدیں معاملہ بندی سے جا ملتی ہیں لیکن مجھے بار بار یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ یہ ساری معاملہ بندی ان کا وہ فرار ہے جو وہ اپنے مسائل سے کرتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ پھر اپنے ہوش میں آتے ہیں اور حقائق سے نظریں ملتی ہیں تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں    ؎

نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا

غمِ عشق تو اپنا رفیق رہا کوئی اور بلا سے رہا نہ رہا

دیا اپنی خودی کو جو ہم نے اٹھا وہ جو پردہ سا بیچ میں تھا نہ رہا

رہا پردہ میں اب نہ وہ پردہ نشیں کوئی دوسرا اس کے سوا نہ رہا

نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر

پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

یا مجھے افسرِ شاہانہ بنایا ہوتا

یا مرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا

روشِ گل میں کہاں یار ہنسانے والے

ہم کو شبنم کی طرح سب ہیں رلانے والے

یہ وہ رنگ ہے جس میں عہدِ بہادر شاہ کی صاف جھلک دکھائی دیتی ہے اور 1857کی پہلی جنگ آزادی جسے نا کام جنگ آزادی کہنا چاہیے کی نا کامی کا سارا کرب اس رنگ کے پس منظر میں صاف نظر آتا ہے۔

          سر سید جس کے عینی شاہد ہیں۔ موصوف نے ان حالات کا مقابلہ کر نے کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم کیا تھا اور 1857کے انقلاب کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا۔ انہوں نے اسباب بغاوتِ ہند اور تاریخ سر کشی بجنور لکھ کر 1857ء کی تاریخ کو محفوظ کر لیا ہے۔تقریباً 80ہزار دستاویزات آج بھی اردو اور فارسی میں 1857ء کے واقعات موجود ہیں جن تک رسائی ہمارے لئے لازمی ہے۔ اردو اور فارسی کے بغیر 1857ء کے انقلاب کو سمجھنا مشکل امر ہے۔ میرے یہ مضمون جہاں ادبی تاریخ کے محققین اور طلباء کے لئے نئے مواد کی فراہمی کا وسیلہ ہے وہیں ہند و پاک کی جدید تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ بھی۔ 1857ء کے انقلاب کی سب سے بڑی خصوصیت ہندو  مسلم اتحاد تھا جو آج بھی اس ملک کی قومی ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ میرے یہ چند سطور اس ضرورت کی تکمیل میں سنگ میل کا حکم ثابت ہو گا۔

٭٭٭

 

ارریہ کی تاریخ و تہذیب

   ارریہ ضلع، غیریقینی کیفیات کا حامل  ہونے کے باوجود، تاریخی اعتبار سے عظیم الشان حیثیت  رکھتا ہے۔ مہابھارت کے کچھ حصوں ((sabha parva, vana parvaمیں اس ضلع سے متعلق، مشرقی ہندوستان میں بھیم کی فتح کے کارنامے کا ذکر قابل قدر معلومات فراہم کراتا ہے۔ارریہ کو تین مختلف تہذیبوں و ثقافتوں کا مرکز بھی کہا جا سکتا ہے۔شمال پر kiratasقبائل کی حکمرانی تھی جبکہ مشرقی احاطہ کے ماتحت pundrasتھے۔دریائے کوسی کے مغربی علاقے میں angasکی حکومت تھی اور یہیں ان کی سب سے زیادہ آبادی تھی، یہ اس ضلع کے سب سے پرانے باشندے کے طور جانے جاتے ہیں۔ angasقبیلے کا ذکر آریاؤں کیatharva-samhitaمیں موجود ہے۔pundrasکو saint vishwamitra کی اولاد سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔kiratas اس وقت کے چند اہم حکمرانوں میں شمار کئے جاتے تھے۔یہ بھی مشہور ہے کہ مہابھارت کے راجاvirataنے ایک kiranti عورت سے شادی کی تھی جو کہ kiratas کے بادشاہRaja kichakaکی بہن تھی۔منوkiratas، کو kshatriyasمانتے ہیں۔ kiratas مہابھارت کےkirata parva,اور  Vanaparva میں دستیاب ہیں۔ وہ  بہت زیادہ طاقت ور مانے جاتے  تھے,  ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی طاقت کی بنا پر بھگوان شیو  نے kiratasکی شکل اختیار کر لی تھی۔موریہ کے وقت میں یہ علاقہ موریہ سلطنت میں شامل تھا۔

asokavadana کے مطابق اشوک نے اس علاقے میں بدھ مت کی خلاف ورزی کرنے والوں کو یا بدعت کرنے والوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔بعد میں علاقہ گپت سلطنت میں شامل ہو

مشہور چینی سیاح ہیون سانگ نے 640ADمیں یہاں کا دورہ کیا  اور یہاں کے علاقے اور لوگوں کے بارے میں مختصر جائزہ پیش کیا ہے۔اس کے مطابق یہاں کی آبادی اس وقت بہت خوشحال تھی۔کھیتی کے لئے فضا سازگار تھی، زمین ہرے بھرے تھے اور آب وہوا خوشگوار تھی۔پورے شہر میں درختوں، ٹینکوں اور مسافر خانوں کی بہتات تھی۔

قدیم ہندوستانی تاریخ کے مطابق بہت صدیوں پہلے نیپال کے راستے سے داخل ہوئے مہانندا ندی کے مغربی علاقے میں rijus Vنامی قبائل نے اس علاقے کی بنیاد ڈالی  جو کہ آج Araria کہلاتا ہے۔

ساتویں صدی کے شروعاتی دنوں میں یہ ضلع Gauda کے طاقتور بادشاہ Sasanka کے زیر تھا۔وہ بھگوان شیو کا پجاری تھا اور بدھ مت کے ماننے والوں سے نفرت کرتا تھا اس نے بدھ مت کے مذہبی درسگاہوں کو برباد کر ڈالا اور یہی وجہ تھی کہ بدھ بھکشو  نیپال کی پہاڑیوں کی  طرف منتقل ہو گئے۔

ساتویں صدی کے عظیم الشان  بدھ حکمراں ہر شا، نے سسانکا کو شکست دی۔کہا جاتا ہے کہ ہرشا کی موت کے بعد ارریہ ادتیہ سین کی حکمرانی میں  مگدھ سلطنت کا  ایک حصہ بن گیا۔

نویں صدی سے بارہویں صدی تک  ارریہ  پالہ بادشاہوں کے قبضے میں رہا لیکن  ان کے زوال کے بعد بنگال کے سیناؤں نے گدی سنبھالی۔

بارہویں صدی کے آخری دنوں میں بختیار خلجی کے مسلمانوں نے بنگال اور بہار پر قبضہ کیا۔بختیار خلجی نے  حکومت  لکھنوی  منتقل کر لیا اور یہیں سے غیاث الدین ایواز نے پورے بنگال اور بہار میں مسلمانوں کی  حکمرانی قائم کی۔غیاث الدین ایواز کی حکمرانی کو ساتھ ہی   ٹر ہٹ  اور آس پاس کے علاقوں میں بھی  سراہا گیا۔لیکن بعد میں ایسا معلوم ہوا کہ جنگل کے ایک بڑے احاطے تک ناقابل گزر دریاؤں کے نظام کے پھیلے ہونے کی وجہ سے پورنیہ ضلع کے شمالی حصے میں جو کہ آج ارریہ ضلع کا موجو دہ علاقہ ہے، مسلمانوں کے اقتدار والے علاقے کو مزید وسعت نہ مل سکی۔گر چہ موجودہ ارریہ ضلع آج بھی نیپال کے قبائلیوں سے متاثر ہے۔

اٹھارویں صدی تک اس علاقے میں شمالی قبائلیوں کی حکمرانی رہی۔1738ء میں  جلال گڑھ  کے شمالی علاقے سے   جوگ بنی  تک کے علاقے کو افغان عامر کے بیٹے نو اب سیف خان  نے جو کہ پورنیہ کا فوجی گورنر تھا  مورنگ  کے راجپوت بادشاہوں سے فتح کر لیا۔

     سیف خان نے راجا نند لال کو اس  نئے علاقے  کے انتظامیہ کی دیکھ ریکھ کے لئے تقرر کیا، نند لال نے مدن پور میں بھگوان شیو  کے مندر کی بنیاد ڈالی۔سیف خان نے پہاڑی قبائلیوں کو ترائی والے علاقے میں منتقل کر دیا اور جنگلوں کی کٹائی کروا کر کھیتی کے لئے  وہاں کی  زمین کو سازگار بنایا۔

سیف خان نے بیرنگر کے سردار کو شکست دی اور اس کی ریاست پر قبضہ کر لیا۔بیر نگر میں دریائے کوسی کا مغربی علاقہ بھی شامل تھا۔آج وہ سارا علاقہ  رانی گنج ، بھرگاما بلاک ، اور کچھ حصہ   نر پت گنج  میں پڑتا ہے۔

 1770ء تک اس علاقے پر  پورنیہ کے نوابوں کی حکمرانی جاری رہی، حالانکہ 1765ء میں یہ علاقہ برٹش  ایسٹ انڈیا کمپنی کے دیوانی  میں آگیا  تھا۔اسی سال ایک انگریز نگراں Mr G.G.Duccarelکی پورنیہ میں تقرری ہوئی، جو کہ بعد میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ  اور کلکٹر کے عہدے س پر فائض ہوا۔

ارریہ کی تاریخ سے متعلق چند خاص واقعے:

1738ء میں سیف خان نے موجودہ ارریہ ضلع کو اپنے حکمرانی میں شامل کرنے کے بعد اسے پہلے سے اس علاقے پر حکومت کر رہے پورنیہ کے راجہ کے حوالے کر دیا۔یہ خاندان متھلا کے  شوتریا برہمن  کے  سرگم لوآم  خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔۔انہوں نے اپنا انتظامی مرکز رانی گنج کے قریب پشارا میں نسب کیا تھا۔

مغل بادشاہ شاہجہاں کے وقت میں مہاراجہ سمر سنگھ  نے اس سلطنت کی بنیاد رکھی۔سمر سنگھ کے بعد اس کے بیٹے کرشنا دیو نے گدی سنبھالی اور اس کے بعد vishwanath, veernarayan, narayan, ramachandaran narayan اور  indranarayana جنہیں مہاراجہ کی حیثیت حاصل تھی گدی سنبھالی، سب سے آخری مہاراجہ اندرا کی موت1784ء میں ہوئی اس کی موت کے بعد اس کی بیوی مہارانی اندرا وتی حکمراں کی حیثیت سے فائز ہوئی۔ اور اس نے اپنے آخری دنوں 1803ء تک حکمرانی کی۔عصر حاضر کے انگریز مصنفوں نے اسے بہت ہی لائق حکمراں کی حیثیت سے پیش کیا۔اس کی انتظامیہ میں جو علاقے شامل تھے ان میں سلطان پور پرگنہ، سری پور، ناتھ پور، گوراری، کاٹیہار، گوندوارا، تیرا کرداہ، اسجا اور دیگر علاقے شامل تھے۔

اندراوتی نے بہت سے مندر  اور محل تعمیر کروائے جو کہ اب مٹ چکے ہیں ان میں سے ایک مندر رانی گنج بلاک کے بیساتی گاوں میں آج بھی باقی ہے۔یہ مندر بھگوان شیو کی نزر میں اندراوتی نے بنوایا تھا۔

مہارانی اندراوتی کی کوئی اولاد نہیں تھی اور اس کی موت کے بعد  گدی کے لئے خاندان میں لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ اندراوتی نے اپنے ماما کے بیٹے  بھیا جی جھا  کو گو د لیا تھا اور اسے ہی اپنا جانشیں قرار دیا تھا، لیکن مہاراجہ سمر سنگھ کے دوسرے  بیٹے راجا بھاگیرتھ، جو کہ سورایا خاندان کے جانشینوں  میں سے تھا، مہارانی کی عطیم ریاست پر دعوی کیا، لہذا ان دونوں کے بیچ لڑائی شروع ہو گئی۔1815ء راجا بھیا جی جھا اپنے ایک   بیٹے وجے گوندا کو چھوڑ کر اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔وجے گوندا کو اس ریاست کا راجہ بنا دیا گیا۔اس کے دو بیٹے تھے، کمار وجے گوپال سنگھ اور کمار بھاؤ گوپال سنگھ۔ان دونوں کو کوئی اولاد نہیں ہوئی۔وراثت کی لڑائی میں مہارانی اندراوتی کی ریاست کا زوال لازمی  تھا۔1820ء میں اس ملکیت کو مرشدہ باد  کے خزانچی  بابو پرتاپ سنگھ و پورنیہ شہر کے راجا اور پی سی لال کے دادا  بابو نک چھید لا ل نے خرید لیا۔پرتاپ سنگھ نے سلطان پور اور سری پور پرگنہ کو خرید لیا لیکن اس کے بعد اس کے جانشینوں نے سلطان پور کے پرگنہ کو  الیگزنڈر جون فوربس  کو بیچ دیا۔

الیگزنڈر فوربس ایک فوجی جانباز تھا اور اس نے شمال مغرب ہندوستان کے جراتمندانہ  اقدام میں حصہ لیا تھا۔73ویں فوجی علاقائی جنگ کے وقت  وہ بھاگلپور کے کمشنر یول کے ٹیم میں بھی شامل تھا۔اس نے سلطان ریاست کی بنیاد ڈالی اور ساتھ ہی ضلع  کے مختلف علاقوں میں نیل کے کارخانے بھی لگوائے۔آج جو علاقہ فوربس گنج کے نام سے جانا جاتا ہے وہ ان کے ہی نام پر ہے۔

نیپال کی بین الاقوامی سرحد سے نزدیک ہونے کی وجہ سے  اس  علاقے کے ضلع انتظامیہ کو سرحد پار سے ہونے والی پریشانیوں کی وجہ سے ہمیشہ خاص توجہ دینی پڑی ہے۔برٹش حکمرانوں کے وقت نیپالی سرداروں نے ہمیشہ اس علاقے پر حملہ کیا، 1770ء میں Duccarel  جو کہ پورنیہ کا کلکٹر تھا، اس نے خبر دی کہ بدھا کرن(راجا کام دت سنگھ کے جانشینوں کا دیوان تھا) کمپنی کی سرحدوں میں لوٹ کھسوٹ مچائے ہوئے ہے،  اور اس وجہ سے وہاں کے باشندے در بدر ہو رہے ہیں۔ لہذا Duccarelنے مشورہ دیا کہ Regonaultکو فوجی مدد فراہم کی جائے تاکہ وہ بدھا کرن کے خلاف لڑائی میں کامیاب ہو سکے۔اس وقت شمال سے مذہبی فقیروں  اور ڈکیتوں کے ذریعہ لوٹ پا ٹ بھی ایک بہت  بڑا مسئلہ تھا،  یہ ڈکیت لوٹ پاٹ کرنے کے بعد مورنگ میں چھپ جاتے تھے۔لہذا ضلع انتظامیہ نے شمال سے ہونے والی ان پریشانیوں کی وجہ سے سخت قدم اٹھایا۔

O.malleyکے مطابق نیپالیوں کی  حملہ آوری  ایک صدی تک جاری رہی۔1808میں morungکے گورکھا گورنر نے بھیم نگر کی پوری زمینداری پر قبضہ کر لیا۔یہ واقعہ کافی شرمناک تھا اور اس کا جائزہ نہیں لیا جا سکا، 1809میں پورنیہ سے سرحد کے علاقوں میں فوجی دستے بھیجے گئے۔

، نتیجہ کے طور پر1811-1812کا ہند نیپالی جنگ سامنے آیا اور اسی جنگ   کے بعد موجودہ سر حد ہندوستان   ارریہ  اور   نیپال   کا تعین کیا گیا۔

1857کی جنگ آزادی  کے دوران  ارریہ میں باغیوں اور کمشنر یول کے فوجیوں کے درمیان جنگی جھڑپیں بھی ہوئیں۔ 1857کے حالات کے تناظر اور دوسرے قانونی اور ترقیاتی کاموں کو دیکھتے ہوئے 1864 میں انتظامیہ کو بہتر بنانے کے لئے  ارریہ کے چھوٹے علاقوں جیسے متی ہاری، دیمیا، حویلی کے کچھ حصے، بہادر گنج کو شامل کر کے اسے سب ڈیویزن بنا دیا گیا، اور 1990میں یہ ایک  ضلع بن گیا۔

برٹش حکومت کے وقت میں وہ علاقہ جہاں   فوربس  کا بنگلو تھا وہ Residential  کے نام سے جانا جاتا تھا،  جسے لوگ R.areaکے نام سے جاننے لگے ، اور ایک وقت کے بعد یہی علاقہ لہجہ بدلنے پر (R.AREA)ارریہ  کہا جا نے لگا۔

  Forbesganjارریہ ضلع کا  ایک  Subdivision  ہے(1990سے پہلے یہ پورنیہ ضلع میں تھا)۔اس شہر کا نام Mr James Forbesکے نام پر پڑا۔وہ برٹش  انڈیا راج کا افسر تھا، اس کی پیدائش لندن میں ہوئی تھی اور وہ 1765ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے مصنف کی حیثیت سے بمبئی آیا اور وہاں 1784ء تک رہا۔وہ ایک اچھا  نقشہ نویس  اور باریک مشاہدہ کنندہ تھا۔ اس نے قدرتی تاریخ، آثار قدیمہ، اور  ہندوستان کی سماجی و مذہبی ذندگی  پر52000دستی تحریری صفحہ لکھا، جسے بعد میں 1813-1815ء کے درمیان Oriental Memoirsمیں شائع کئے گئے۔

یہ کتاب دنیا بھر میں اہم دستاویز کے طور پر  اس وقت کے ہندوستان کی تہذیب اور نباتات کی  اہم  نمائندگی کرتی ہے۔فوربس نے 1810ء میں ایک اور کتاب شائع کیا جس میں ہندوؤں کے عیسائی مذہب کو قبول کرنے کی تائید کی گئی ہے۔

آزادی کی لڑائی میں ارریہ کی خد مات:

ارریہ ضلع میں ہندوستان کی آزادی کی تاریخ سنہرے حرفوں میں لکھی گئی ہے۔1857 ء کی پہلی جنگ آزادی سے1942ء کے  اگست کرانتی تک ہر موقع پر ارریہ کے باشندوں نے اس ملک کو غلامی سے نجات دلانے کے لئے اہم خدمات انجام دی ہیں۔ تاریخی صفحات کے مطابق1857ء میں ہندوستانی فوجی دستوں نے ارریہ ضلع کے ناتھ پور میں انگریزوں کی بندوقوں کاکا ڈٹ کر سامنا کیا، لہذا  ارریہ کے جنگجوؤں نے اودھ کی بیگم حضرت محل کی حفاظت کی خاطر نیپال کے چھترا گدی علاقے میں کوسی ندی کو پار کیا۔

پنڈت رام دینی تیواری دوجدینی:

ارریہ ضلع میں انہیں تحریک آزادی میں حصہ لینے والا سب سے پہلا شخص قرار دیا گیا ہے۔پنڈتDwijdeni اور بابو بسنت سنگھ نے اس علاقے میں فوجی جنگجوؤں کی تشکیل کی ,جو کہ انگریزوں کے لئے ایک پریشان کن بات تھی۔ارریہ ضلع کے بھو دھر  گاوں کے رام لال منڈل گاندھی جی کے کارندوں میں سے تھے، ان کی آواز بہت سریلی تھی اور وہ گاندھی جی کے لئے رامائن کا پاٹھ کرتے تھے۔یہ وہ اہم نام ہیں جنہوں نے آزادی کی لڑائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ان میں پنڈت راما دھار دیویدی، کنھیا لال ورما، کملا نند بسواس، دھنش دھاری چودھری، ہری لال جھا،  ناگیشور جھا، بدھی ناتھ ٹھاکر، سوریہ نند ساھ، پھنیشور  ناتھ رینو، بو دھ نارائن سنگھ اور گنیش لال موجود تھے۔

بالی ووڈ میں ارریہ کا اہم کردار:

راج کپور کی فلم  تیسری قسم 1966 ء میں بنی تھی ,جس میں راج کپور اور وحیدہ رحمان کی کردار نگاری پیش کی گئی تھی۔اس فلم کی کہانی  اسی علاقے کے باشندے جناب فنیشور ناتھ رینو  کے ناول  ’ مارے  گئے گلفام  ‘ سے لی گئی ہے، اس فلم کی شوٹنگ ارریہ میں کی گئی ہے۔باسو بھٹا چاریہ کی ہدایت کاری  اور  نبیندو گھوش کی سکرین پلے سے لیس اس فلم  نے ہندی فلموں کی تاریخ میں کامیابی کی منزل طے کیا  ہے۔ اس فلم میں ہندوستان کے دیہات کے لوگوں کی سادگی کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے۔اس فلم کو 1967کے بین الاقوامی موسکو فلم  فیسٹیول میں گرینڈ پرکس اوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا تھا۔

٭٭٭

 

دہلی کی رومانی مثنویاں

چپے چپے میں ہیں یاں گوہر یکتا تہ خاک

دفن  ہو گا  نہ  کہیں اتنا  خزانہ  ہر گز

                                                                                             (حالیؔ)

دلّی وہ ’عالم میں انتخاب شہر ‘ ہے جس کے ہر ذرّے میں تاریخ کی داستانیں پنہاں ہیں، چشم بینا کے لیے گنج ہائے گرانمایہ یہاں بکھرے پڑے ہیں۔ تذکرہ دلّی مرحوم کا اکثر ہوا لیکن دلّی ’مرحوم‘ کبھی نہیں ہوئی۔بلکہ یہ شہرو ں کا شہر وقت کی آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کر زندہ رہا اور آج بھی تاریخ کا تسلسل بر قرار رکھتے ہوئے اسے دامن میں سمیٹے وقت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اس شہر دلّی کی منفرد حیثیت ہے۔ یہ قدامت اور جدیدیت کا سنگم ہے۔ ہمارے زریں ماضی کا امین اور تابناک مستقبل کا ضامن ہے۔ جمنا کے کنارے بسے اس شہر نے وقت کے بدلتے دھارے دیکھے۔ ہندو اور مسلمان فرمانرواؤں کے دور حکومت دیکھے۔ بادشاہوں نے نام و نمود کے لیے شہر بسائے۔ نیا نگر بسا تو پرانے شہر کی شہری آبادی کا ایک بڑا حصہ وہاں جا بسا۔ مگر پرانا شہر پوری طرح اجڑا نہیں۔ کسی نہ کسی بستی کے روپ میں زندہ رہا۔ تاریخ کے ادوار ان بستیوں میں آج بھی سانس لے رہے ہیں۔ ان تاریخی یادگاروں کو خطرہ ویرانی سے نہیں بلکہ بڑھتی ہوئی آبادی اور پھیلتے ہوئے شہر سے ہے جوان کو نگلتا  جا رہا ہے۔

دلّی کے ادبی و تہذیبی منظر نا مے سے وابستہ کسی صنف کا جائزہ لیتے وقت ہمیں اپنی تاریخ کے ان صفحات کو پلٹنا ہو گا، جن میں تہذیب کے آب و رنگ کی تبدیلیوں اور سیاسی اور سماجی دھاروں کے تغیرات کا پتہ چلتا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ سماجی تغیرات کا سب سے اہم نتیجہ سیاسی اور معاشی بنیادوں پر سماج میں زبان کی تبدیلی کے طور پر رونما ہوتا ہے۔ زمین وہی رہتی ہے، جغرافیہ بھی وہی ہوتا ہے لیکن تاریخ کی تبدیلیوں سے معاشرے میں تہذیبی ترقیات کے نئے سر چشموں کا بھی پتہ چلتا ہے اور یہ تبدیلیاں روایت کے پس منظر میں نئے انقلابات کی بھی امین ہوتی ہیں۔ مغلوب قوم غالب آنے والے سیاسی اور سماجی رویوں کے تحت نئے رنگ و آہنگ کو قبول بھی کرتی ہے اور ان کی توسیع بھی۔

حالانکہ ’’مثنوی‘‘ عربی کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’’ دو کرنا ‘‘ لیکن بطور صنف مثنوی ایرانیوں کی ایجاد ہے عربی شاعری میں رجز کو اس کے مماثل تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اس صنف کی ایجاد کا سہرہ ایرانی شعرا کے سر ہی باندھا جائے گا حالانکہ علامہ شبلی نعمانی نے بھی یہ قیاس کیا ہے کہ مثنوی ایجاد کرنے والے ایرانیوں کے سامنے رجز کا نمونہ شعوری طور پر رہا ہے۔ بہر حال بطور صنف مثنوی ایک ایسی نظم مسلسل کا نام ہے جس میں ہر شعر کا قافیہ الگ ہوتا ہے۔ پوری نظم ایک بحر میں ہوتی ہے لیکن اشعار کی تعداد مقرر نہیں۔ یوں تو اس ہئیت میں کی گئی صدہا صفحات پر محیط شاعری اردو میں موجود ہیں لیکن فنی حیثیت سے جب مثنوی پر بات کی جاتی ہے تو اس کے دائرہ کار میں وہی نظمیں آتی ہیں جن میں کوئی قصہ بیان کیا جائے۔

موضوع کے متعلق اگر بات کریں تو میدان کا ر زار سے لے کر فلسفہ و تصوف، تاریخ، دین و اخلاق کے علاوہ ہجو و شہر آشوب بھی اس کے موضوعات رہے ہیں لیکن اردو شاعری میں اسے عشقیہ موضوعات راس آئی ہیں اور  شعرائے اردو نے اس موضوع میں قابل ذکر کا ر نامے انجام دیئے ہیں۔

مُلاّ وجہی کی مثنوی قطب مشتری، سراج اورنگ آبادی  کی مثنوی  بوستان خیال، میر تقی میر کی مثنوی دریائے عشق اور شعلۂ عشق میر حسن کی مثنوی سحر البیان، میر اثر کی مثنوی خواب و خیال دیا شنکر نسیم کی مثنوی گلزار نسیم نواب مرزا شوق کی مثنوی زہر عشق اور داغ دہلوی کی مثنوی فریاد داغ مشہور مثنویاں ہیں اور یہ سب عشقیہ ہیں۔

چونکہ میرا موضوع ’’ دہلی کی مثنویاں ہیں ‘‘ ہے اس لیے میں اب یہیں سے اپنی تمام توجہ کو دہلی پر مرکوز کرتا ہوں۔

بات مثنوی کی چل رہی ہے اور یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ اس صنف مثنوی کا بنیادی موضوع عشق بازی ہی رہا ہے ایسے میں دہلی سے زیادہ اس کے لیے زرخیز زمین لکھنو کی ہونی چاہئے کیونکہ دہلی کی یہ خصوصیات اظہر من الشمس ہیں کہ یہاں ایہام گوئی پروان نہ چڑھ سکی، خارجی مضامین خصوصاً عورتوں کے سراپا، زیور اور ملبوسات کا نقشہ دہلی کی شاعری میں صاف صاف نظر نہیں آ سکتا ابتذال کا تعلق دہلی کی سرزمین سے کبھی نہ تھا اور عشقیہ مضامین باندھنے میں ان سب کی ضرورت اشد ہے۔ لیکن دہلی کے شعرا نے اور اپنے اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے متانت کا دامن بھی نہ چھوڑا سلاست و روانی سے رو گرداں بھی نہ ہوئے۔ شگفتگی کو اپنا طرۂ امتیاز بھی بنا یا اور سادگی سے اپنے دل کی بات کہہ دی اور تاریخ اردو اس بات کی شاہد ہے کہ دہلوی شعراء نے اس صنف کا بھی بھر پور حق ادا کیا۔ خاص طور پر میر حسن اور مصحفی تک دبستان دہلی کی مثنویوں میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو انہیں خاص طور پر د بستان لکھنؤ سے ممتاز کر تی ہیں لیکن اس کے بعد خدا کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ دہلی کے اکثر و بیشتر شعرا کو لکھنؤ ہجرت کرنا پڑا۔ جس سے دہلی کی مثنویوں کی وہ خاص صفات متاثر ہوئیں لیکن پھر بھی داغ دہلوی تک آتے آتے مثنوی پھر دہلوی رنگ میں گلنار نظر آئی۔

 دہلی میں مثنوی نگاری کی ابتدا کا سہرا جعفر زٹلی کو ہے جس کا زمانہ۱۷۱۳ء ۱۷۷۰ء تھا حالانکہ جعفر زٹلی کی  جائے پیدائش دہلی نہیں لیکن مقیم شعرا میں اسے ضرور شامل کیا جائے گا۔ جعفر زٹلی کی کلیات میں کئی اردو مثنویاں ہیں جن میں ظفر نا مۂ اورنگ زیب اور طوطی نا مہ قابل ذ کر ہیں۔ پہلی مثنوی میں اور نگ زیب کی مہم دکن کا بیان ہے اور آخرالذکر میں روح کو طوطی  مان کر جسم کے فانی ہونے پر توجہ کیا ہے۔ حالانکہ جعفر زٹلی ایک بدنام شاعر ہیں اور انکا اکثر کلام فحش ہے لیکن ایسے فحش کلام زیادہ تر فارسی یا فارسی تراکیب میں ہیں جو اشعار خالص اردو میں ہیں ان کی صفائی زبان کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے   ؎

بڑی  ہے  دور  منزل  وقت  تھوڑا

نہ  تو  شہ  راہ  کا  اور لنگ  گھوڑا

    (طوطی نامہ)

نواب صدر الدین فائز کے دیوان مرتبہ ۱۷۱۴ ء میں بھی بہت سی مختصر مثنویاں ہیں جن سے ان کی آزاد منشی اور حسن پرستی ظاہر ہوتی ہے۔ جعفر علی خاں ذکی نے محمد شاہ کی فرمائش پر حقہ سے متعلق مثنوی کے دو شعر کہے شاہ حاتم نے یہ مثنوی مکمل کی۔ ذکی نے ایک لڑکے راجہ رام پر عاشق ہو کر اپنے عشق کی شرح میں ایک مثنوی لکھی وہ مثنوی تو نا پید ہے لیکن اس کے ۱۵۲ اشعار گلزار ابراہیم قلمی میں محفوظ ہیں اسی مثنوی کے اقتباس کو تذکرہ گلشن گفتار میں غلطی سے حاتم کے ساتھ منسوب کر دیا گیا ہے۔ فضائل علی خاں نے بھی اسی زمانے میں اپنے عشق کی داستان نظم کی تذکرہ میر حسن گلزار ابراہیم قلمی اور تذکرۂ مسرت افزا مصنفہ ابو الحسن میں اس مثنوی کے ۱۷۶ اشعار موجود ہیں اس مثنوی کی اہمیت اس لیے ہے کہ اسے مثنوی میر حسن کا راہ نما کہا جاتا ہے۔ اس میں چند اشعار ایسے بھی ہیں

جو یقیناً میر حسن کے بیان کا نقش اول ہے۔

شاہ حاتم کے دیوان زاویے میں پانچ مثنویاں ہیں مثنوی سروپا (۲) ساقی نامہ (۳) وصف قہوا (۴) وصف تمباکو و حقہ (۵) مثنوی بہار یہ مسمیٰ بہ بزم عشرت آخری مثنوی میں ۳۸۵ اشعار ہیں  اس کا جوش، نشاط، بہاریہ فضا و سرمستی بڑی خوش آیند ہیں اسی دور میں آبرو کی مثنوی مو عظمت آرائش معشوق میں لڑکوں کو بننے اور سنورنے اور محبوبیت کی تعلیم دی ہے۔ اس دور کا مذاق اس موضوع کا متحمل تھا۔ اسی زمانے میں مرزا مظہر کے شاگرد محمد فقیہ درد مند نے ایک ساقی نامہ لکھا جس کا تذکرہ میر نے بھی کیا ہے۔

یہ دور دہلی میں مثنوی کے بچپن کا دور تھا لیکن مندرجہ بالا شعرا نے جو مضبوط بنیادیں  فراہم کیں ان پر آگے آنے والے شعر ا میں سودا، میر، اثر اور حسن نے جو قلعے تعمیر کیے اس کی شان آج تک باقی ہے۔

سودا نے ۲۱ مثنویاں لکھیں ان میں وہ  ۱۹ الحاقی مثنویاں شامل ہیں جو ان کے کلیات میں شامل ہو گئی ہیں ان کی پانچ ہجویہ مثنویاں نہایت دلچسپ ہیں۔ ان میں دو میں محض اشخاص کی ہجو نہیں بلکہ اس دور کی معاشی بدحالی اور انتظامی افراتفری کا نقشہ تفصیل سے کھینچا  گیا ہے۔ استاد محترم مرحوم امیر عارفی صاحب نے اپنی کتاب ’’ شہر آشوب ایک تجزیہ‘‘ میں اس پر مفصل گفتگو کی ہے اور اسے شہر آشوبیہ مثنوی قرار دیا ہے۔

میر سوز نے بھی ایک مختصر مثنوی لکھی ہے جس میں  ۱۲۷  اشعار ہیں جن میں انہوں نے پہلے دل عشق پیشہ سے خطاب کیا ہے اور آخر میں عشق حقیقی کی تر غیب دی ہے۔یہ غیر مطبوعہ مثنوی  ہے جس کی زبان سا دہ لطیف اور میٹھی ہے۔

میر کے قدیم کلیات میں ۳۲ مثنویاں تھیں عبد الباری آسی نے دو نئی مثنویاں شامل کر کے ان کی تعداد ۳۴ تک پہنچا دیں ان میں سے ہجو شخصے، ہیچ مداں کو کہ دعوئے ہمہ دانی داشت دیوان میر کے قدیم ترین نسخۂ مملوکہ ادارہ ادبیات اردو حیدر آباد میں بھی اور رام پور  کے دو مخطوطوں میں بھی اس کا  دوسرا نام دم الفضول ‘‘ ہے آسی کی دوسری دریافت ’’جنگ نامہ‘‘  ہے یہ بھی نسخوں میں ملتی ہے جنگ نامہ کے خاتمہ میں ایک غزل ہے جو آسیؔ کے نسخے میں نہ تھی اس لیے مطبوعہ کلیات میں موجود نہیں۔ رام پور کے نسخہ کلیات میرؔ میں یہ غزل موجود ہے۔ اس کے علاوہ بھی میر کی مزید تین مثنویاں ہیں۔

جعفر علی حسرت نے تین مثنویاں لکھیں (۱) طوطی نامہ (۲) ساقی نامہ (۳) ہجو حکیم طوطی نامہ کا ذکر اسپر نگر نے بھی کیا ہے اس میں تقریباً ۱۶۰ صفحات ہیں اور تاریخ کتابت ۱۲۱۶  ہے طوطی نامہ مشہور کہانی طوطا کہانی نہیں بلکہ کسی طوطا رام اور شکر پارہ کے عشق کی داستان ہے۔ ساقی نامہ میں ۲۰۹ اشعار ہیں ہجو حکیم سودا کی ہجو حکیم غوث کی نقل معلوم ہوتی

ہے۔

میر حسن کے کلیات میں ۱۱ مثنویاں ہیں جن میں تین مختصر حکایتیں ہیں ان حکایتوں میں سے سے  دو شرمناک حد تک فحش ہیں بقیہ مثنویوں میں مثنوی شادی، رموز العارفین، گلزار ارم، مدح جواہر خاں و تہنیت عید، قصر جواہر، ہجو حویلی میر حسن، خوان نعت اور سحر البیان۔

رموز العارفین ۱۱۸۸ ء کی تصنیف ہے اس میں عارفانہ اور اخلاقی حکایات ہیں گلزار ارم ۱۱۹۲ ھ میں لکھی گئی جس میں دہلی سے لکھنؤ اور فیض آباد آنے کا ماجرہ بیان کیا گیا ہے۔ یعنی یہ مثنوی سفر کے تیس پینتیس سال بعد لکھی گئی۔ اس میں حسن کی عاشق مزاجی کا اظہار بھی ہے۔ سحر البیان کے بارے میں تذکرہ خوش معرکۂ زیبا میں بڑا دلچسپ انکشاف ہے کہ یہ مثنوی بہ پاس خاطر معشوقہ لکھی گئی۔ میر حسن فیض آباد میں بھی ایک معاشقہ رچا چکے تھے جس کا ذکر گلزار ارم میں ہے۔

قائم چاند پوری کی ۲۵ مثنویوں میں دو کے سوا  سب مختصر ہیں ان کی سات مثنویاں غلطی سے کلیات سودا میں شامل کر لی گئی ہیں۔ ان ہی دو مثنویوں میں سے ایک کا نا م درویش و عروس ہے جس میں ۱۳۵۹ا شعار ہیں بعد میں راسخ نے اسی قصہ کو اعجاز عشق کے نام سے لکھا۔ اس کے علاوہ میر کے بھانجے محمد حسن تجلی نے مثنوی لیلیٰ مجنوں لکھی۔ جس کی تاریخ  ۱۲۰۷ ھ ہے۔ ہدایت شاگرد میر درد نے ایک مثنوی شہر بنارس کی مدح میں لکھی۔ میر شیر علی افسوس جو دہلی سے گیارہ برس کی عمر میں لکھنؤ چلے گئے تھے ان کے کلیات میں مثنوی بہار سخن ہے۔ جس کی ادبی حیثیت بہت بلند ہے۔ مرزا کاظم علی جوان نے  ۱۸۰۳ء میں بارہ ماسہ لکھا جو ۱۸۱۲ ء میں کلکتہ سے شائع ہوا اس میں تقریباً سولہ سو اشعار تھے حیدر بخش حیدری نے ہفت پیکر کے نام سے قصہ بہرام گور لکھا اس میں سات ہزار سے زیادہ شعر تھے جو اب ناپید ہیں۔ مصحفی کی اٹھارہ مثنویاں ملتی ہیں۔ دو اور کا تذکرہ بھی لوگ کر تے ہیں اس طرح بھی وہ زیادہ سے زیادہ ۲۰ مثنویوں کے مصنف ہیں لیکن ان میں چار عشقیہ مثنویاں ہی اہم ہیں (۱) جذبہ عشق (۲) شعلہ عشق (۳) گلزار شہادت (۴) بحرالمحبت یہ چاروں مثنویاں میر کی پیروی میں لکھی گئی ہیں بحر المحبت جو سب سے طویل مثنوی ہے اس میں میر کی دریائے عشق کے قصے کو دوبارہ نظم کیا گیا ہے۔

کلیات جرات کے مختلف مخطوطوں میں کل ۳۱ مثنویاں ہیں حسن لکھتے ہیں کہ جرات نے مثنوی کھٹمل نامہ بھی لکھی اس طرح مجموعی تعداد مثنویوں کی ۳۲ ہو گئیں ان کی چار مثنویاں کم و بیش عشقیہ قصے پر مشتمل ہیں اور بقیہ مثنویوں سے زیادہ طویل ہیں جرات مثنوی کے فن  میں طاق ہیں۔ انشاء اللہ خاں کے مطبوعہ کلیات انشاء میں ۹ مثنویاں ہیں جن میں ایک کے علاوہ مختصر ہیں۔ ’’مثنوی فیل  طویل‘‘  طویل ہے جس میں ایک ہاتھی اور ہتھنی کے مجامعت کا بیان ہے۔ انشاء کی دو غیر مطبوعہ مثنویوں کو قاضی عبدالودود نے دریافت کیا جس میں  مثنوی در ہجو اردو  خدا بخش خاں لائبریری پٹنہ کے ایک مخطوطہ کلیات انشاء میں تھی۔ رانی کیتکی کی کہانی کی طرح اس میں التزام ہے کہ عربی فارسی اور ٹھیٹ سنسکرت لفظ نہ آ نے پائے اس میں ۱۵۱ شعار ہیں۔ دوسری مثنوی سحر ملال در زبان  ریختہ ہے اس میں ۵۰شعر ہیں کراچی کے رسالہ تخلیق میں نومبر ۵۶ء میں شائع ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر عندلیب شادانی کے مملوکہ نسخۂ  کلیات انشاء میں موجود ہے اس میں اول توصیف عشق ہے اور اس کے بعد مختصر ساقی نامہ ہے۔ سعادت یار خاں رنگین نے ۴۲ مثنویاں لکھیں جن میں سے صرف ۹ شائع ہوئیں ان میں مثنوی دل پذیر ہی قابل قدر ہے اس مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سحر البیان اور گلزار نسیم کے بعد اردو کی بہترین داستانی مثنوی ہے۔

نظیر اکبر آبادی بھی دہلی میں ہی پیدا ہوئے لیکن ۲۲۔ ۲۳ سال کی عمر میں اکبر آباد جا کر وہیں کے ہو رہے۔ ان کی کلیات میں تین مثنویاں ہیں سیر دریا میں ۱۱۰۱ اشعار ہیں ۔ دوسری مثنوی میں ۱۳۲۶ اشعار ہیں اور تیسری مثنوی میں ۱۱۹۷ اشعار تیسری مثنوی میں انسان اور پری کی کہانی ہے اس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ نظیر نے عوامی رنگ خاص طور پر شاعر ی میں برتا ہے ورنہ اس مثنوی میں عوامیت کا دور دور تک پتہ نہیں صاف ستھری اور نکھری ستھری زبان ہے۔ ان کی تینوں مثنویوں کی فضا رنگ و بو اور نور و سرور سے مرکب  ہے ان میں محض حسن و کیف بھر ا ہوا ہے۔

قدرت اللہ قاسمؔ نے دو مذہبی مثنویاں لکھیں (۱) زبدۃ الاخبار۱۲۱۴ھ معراج کا بیان ۳۲۰۰ سو سے زیادہ اشعار ہیں (۲) کرامات پیران پیر ۱۲۱۷ھ اس میں ۲۵۰۰ سو اشعار ہیں۔  یہ شیخ عبدالقادر جیلانی کے حالات و کرامات پر مشتمل ہے۔

کلیات مومن میں چھوٹی بڑی بارہ مثنویاں ہیں ابتدائی چھ کے نام یہ ہیں شکایت ستم قصۂ غم، قول غمیں، تف آتشیں، جنیں، مغموم، آہ و زاری مظلوم۔ آب حیات میں ذوق کی دو مثنویوں کا ذکر ہے اب یہ دونوں نا پید ہیں (۱) بہادر شاہ کی ولی عہدی کے زمانہ میں یعنی ۱۸۳۷ ء سے پہلے ایک مثنوی مرزا تسلیم کی شادی کی تہنیت میں لکھی اس کے دو شعر آب حیات میں منقول ہیں۔ (۲) نامہ سوز نواب حامد علی خاں نے اسے ایک عاشقانہ خط لکھنے کی فرمائش کی پانچ سو شعر سے زیادہ لکھ کر نامہ ادھورا چھوڑ دیا۔

دلّی کے آخری مثنوی نگار داغؔ ہیں انہوں نے رامپور میں ۱۸۸۳  ء میں فریاد داغ لکھی جو ۱۸۸۵ء میں شائع ہوئی اس میں اپنے اور کلکتہ کی طوائف منی بائی حجاب کے عشق کی سچی داستان نظم ہے۔

دلّی میں مثنوی نگاری کا خاتمہ اسی وقت ہو گیا تھا جب یہاں سے مصحفی جرأت، انشاء وغیرہ لکھنؤ سدھار گئے تھے بعد میں مومنؔ اور داغؔ نے مثنویاں لکھیں لیکن ان کی کوششوں سے بھی دلّی میں مثنوی کا احیا نہ ہو سکا پنڈت کیفیؔ کی مثنوی جگ بیتی ۱۳۵۵ھ دلّی کی آخری مثنوی ہے۔ جن کے یہاں محبت کفر و ایمان کی قید سے معرا تھی۔

٭٭٭

 

درمش بلگر

          کسی ملک کی تاریخ میں تہذیب سے ہی اس کی شناخت ہوتی ہے۔دیکھا جاتا ہے کہ تہذیب کی اساس کیا تھی، کس حد تک اس میں اخذ و قبول کی صلاحیت تھی اور کس حد تک دوسرے تہذیبی دھاروں سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی سکت یا قوت تھی۔ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے مختلف تہذیبی دھاروں سے اپنی شناخت یا پہچان بنائی ہے اور ہزاروں برس کی اقوام عالم کی تاریخ میں اگر آج ہندوستان زندہ ہے تو اس کا سبب اسکے مختلف علاقوں کے تہذیبی دھارے تھے جو ایک دوسرے سے اختلاف کے باوجود مشترکہ عناصر بھی رکھتے تھے۔ان تمام تہذیبوں کے مختلف رنگ تھے مگر سب مل کر ایک رنگ تھا جسے ہندوستانی تہذیب کہا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے انسانی وجود میں ہاتھ کی انگلیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں مگر سب ایک ہاتھ کا حصہ ہوتی ہیں۔ سنگم پر گنگا اور جمنا کے پانی کا رنگ مختلف ہوتا ہے مگر بہر حال وہ ایک ہوتا ہے۔

          کسی بھی ملک کی تاریخ، ادب یا تہذیب کو نزدیک سے جاننے اور سمجھنے کا سب سے اچھا ذریعہ اس ملک کی زبان ہوتی ہے ہندوستان کی عظمت اور رنگا رنگی کا اندازہ یہاں کی زبانوں سے ہوتا ہے۔ ہمارے دستور میں ملک کے سبھی طبقوں اور سبھی لوگوں کی آرزوؤں اور امنگوں کی عکاسی کی گئی ہے۔اس سے ہم آہنگی کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ ہندوستان کی اتحاد اور اکھنڈ تا کو مضبوطی عطا کر نے والی ہے۔اجنتا، الورا، تاج محل اور لال قلعہ ہماری ساجھی وراثت ہیں اور ہندوستان کے سبھی باشندے اس ساجھی وراثت کے امین ہیں، چاہے وہ کسی بھی زبان یا مذہب کے ماننے والے ہوں۔ عبادت کا طریقہ بدل جانے سے کوئی اپنی تہذیب سے کٹ نہیں جا تا۔ ہماری ساجھی وراثت کی مثال ایک ایسے خوبصورت اور پہلے لباس سے دی جا سکتی ہے جو زبانوں کے رنگ برنگے تانے بانے سے بہت ہی باریکی کے ساتھ تیار کیا گیا ہے۔زبان کی شکل میں باریک اور خوبصورت دھاگے اپنی الگ الگ پہچان رکھتے ہیں۔ ان میں ہر ایک کی اپنی خوبیاں ہیں لیکن ان کی خوبصورتی، ان یکی سماجی قدریں اور ان کی تکمیل ایک دوسرے کے وجود پر منحصر ہوتی ہیں، اور ان سب کی مشترک پہچان نہ صرف ان کے اپنے وجود کو معنی دیتی ہے، بلکہ پورے ہندوستان کی برتری کو قائم رکھنے میں اہم رول ادا کر تی ہے۔

          ہر دور کا ادب اپنے عہد کی تہذیب اور زندگی کا عکاسی ہوتا ہے اور اپنے دور کی عصری حیثیت کو پیش کرتا ہے جس کا اظہار کم و بیش زندگی کے ہر شعبے میں دکھائی دیتا ہے۔اس حقیقت کو وہ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں جو ادب برائے ادب کے قائل اور اس کا رشتہ ذہن اور زندگی سے زیادہ کتاب اور لغت سے جوڑنا چاہتے ہیں بقول ڈاکٹر محمد حسن ’’انفرادی ذہن بھی بالآخر سماجی زندگی کا آئینہ دار ہوتا ہے اور وہ ادیب بھی جو اپنی نفسیاتی الجھنوں کی عکاسی کرتے ہیں دراصل زندگی ہی کے عکاسی ٹھہرتے ہیں۔ ‘‘ادب انسانی جمالیات اور اس کے فنی شعور و صلاحیت کا مکمل مظہر و عکاسی ہوتا ہے۔ انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ فنی شہہ پارے کے مطالعہ کے ذریعہ خود کو سنواریں اور اس کو قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھیں اور جذبہ کو تکمیل تک پہنچانے اور ان خواہشات کو پورا کرنے میں ذرائع ابلاغ کا اہم کردار ہے۔ اس سلسلے میں سب سے موثر اور نمایاں مقام سمیناروں کاہے جو شعرا، ادباء، مصنفین، ماہرین زبان و ادب اور متعدد قسم کے دانشوروں کو منظر عام پر لانے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں، فنکاروں کو ذرائع نشر  و اشاعت اور قاری کو ان کے نگار شات میسر نہ ہوتے تو دنیا علم و ادب سے بھی واقف نہ ہوتی۔

          ہیئت کے اعتبار سے نظم اور نشر کی مختلف اصناف مثلاً داستان، ناول، افسانہ، ڈرامہ، مضمون، رپورتاژ، سوانح مکاتیب، روز نامچے، سرنامے، تاریخ، تنقید اور تبصرہ وغیرہ جملہ اصناف بی اے آنرز کے نصاب میں داخل ہیں۔ جس میں قدیم وجدید ادباء کے نگار شات شامل ہیں جس پر ادبی مذاکرہ طلباء کے لئے طریقہ تدریس کے حامل اور متقاضی ہوتے ہیں۔ شعبۂ اردو کروڑ ی مل کالج طلباء کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے پچھلے کئی دہا ئیوں سے سمیناروں کا سلسلہ ہنوز جاری رکھا ہے تاکہ طلباء تمام اصناف نثر و نظم سے کماحقہٗ واقف ہوں اور ادب کی تعلیم تشنہ نہ رہ جائے اس کے لئے شعبۂ اردو ہندوستان کے معروف دانشوروں کو بلا کر لکچر کروائی ہے تاکہ ادب بطور خاص ایم اے اور بی اے آنرز میں شامل نصاب سے اردو کے طلباء اور قارئین بخوبی واقف ہوں اسی لیے درمش بلگر پاک و ہند کا کئی درہ بھی کر چکے ہیں اور یہاں کی تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں میں بھی حصہ لے تے رہتے ہیں۔

          ادب ایک ایسا ساگر ہے جس میں دنیا جہا ن کے خیالات کے دریا آ کر گرتے ہیں۔ ان کا سوتا کہیں پھوٹتا ہے۔ چادر آب کہیں بنتی ہے اور چشمہ کہیں اور جاری ہوتا ہے۔ اردو ادب ہر دور میں نشیب و فراز سے گزرتا رہا ہے۔ لیکن ہر دور میں شاعروں اور ادیبوں نے اس کے لیے نت نئی راہیں ہموار کی ہیں اور ترقی کے راستے پر اسے گامزن کرتے رہے ہیں۔ اس طرح درمش بلگر نیتر کی میں رہ کر ہندوستان و پاکستان کی زبان اور یہاں کے ادب کو اپنی عملی زندگی میں اپنایا۔ اور یہ بھی ان کی کا وشوں کا نتیجہ ہے کہ ترکی میں جہاں کہ یورپی ممالک سے مقابلہ ہے اور زبان و ادب کی ساری روایتیں یوروپ کے ہم مقابل ہیں پھر بھی انہوں نے اردو زبان و ادب کی خدمت کرنا پسند کیا۔

          اردو زبان و ادب کے مطالعے کے دوران یہ احساس بار بار ہو تا ہے کہ اس دشت کی سیاحی کے لیئے ایک عمر ناکافی ہے اور میرے خیال میں کئی عمریں ناکافی ہیں۔ قدم قدم پر حیرت زا نظارے دامن کو کھینچتے ہیں اور مجھ جیسے طالب علموں کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ ہنوز دہلی دور است۔ یہ سچ ہے کہ ابتدائی تعلیم کے دوران کسی بھی طالب علم کا صاف و شفاف تعلیمی خدمت مقرر نہیں ہوتا کہ اسے آگے کیا کرنا ہے اور کیسے کر نا ہے لیکن ایم اے تک آتے آتے کسی حد تک ہدف کی نشاندہی ہو جاتی ہے لہٰذا کچھ لوگ اس وقت سنجیدگی سے ادب کو پڑھنا شروع کر تے ہیں۔ اس میں وہ لوگ مستزاد ہیں جنھیں زبان و ادب ورثے میں ملتی ہے۔ درمش بلگر کا شمار بھی ایسے ہی قافلے کے طالب میں کیا جائے گا لیکن انہوں نے زبان اردو کو اختیاری مضمون کی حیثیت سے پڑھنا شروع کیا۔ لیکن جو کچھ بھی پڑھا اس سنجیدگی سے مطالعہ کیا کہ آج ان کا شمار ان چند غیر ملکی اردو دانوں میں ہوتا جنہوں نے اہل زبان سے بھی زیادہ کمال حاصل کر لیا ہے۔ درمش بلگر میں شاید ایک بات تھی کہ  جس نے ان میں اوائل طالب علمی سے ہی ہر شئے کو غور سے دیکھنے پر مجبور کیا۔ غور و فکر  اور ذہنی ورزشیں اوائل عمری سے ہی  ان کے اندر موجود تھیں۔ تجسس کے جذبے نے انہیں آج اس مقام پر پہنچا دیا کہ ہندو و پاک میں ان کی شہرت اور ان کے چرچے اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ اردو ادب کے کونے کھدروں میں جھانک جھانک کر ان کا مطالعہ کیا۔ یہی تجسس کا جذبہ تھا جس کی بدولت انہوں نے ایم فل کیا اور بڑی عرق ریزی سے ان کا انتخاب کیا اور دوران تحقیق انہوں نے دیکھا کہ ’’کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے‘‘۔مضامین کا یہ انتخاب جو آپ کے زیر مطالعہ ہے ضرورت کہ تحت لکھے گئے مضامین قطعی نہیں یہ سارے مضامین خودرو پودے کی طرح برسوں میرے ذہن میں توجہ کے طلبگار رہے ہیں۔ اور جب وہ صفحہ قرطاس پر آئے ہیں تو بھی انہوں نے انھیں قابل اعتنا نہیں سمجھا مثال کے طور پر شامل مضامین میں ایک مضمون جاترا پارٹی ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ ’’ جاترا پارٹی‘‘ کے نام  سے بھی بہت سارے لوگ آشنا نہیں ہوں گے لیکن میں سمجھتا ہو ں کہ یہ ہمارے ماضی ہماری تہذیب اور ہماری روایات کا درخشندہ بات ہے اور اس کا رشتہ ماضی کی داستان گوئی سے اگر ہے تو حال کے ٹی وی سیریل اور فلم سے بھی ہے۔

           ان کے مضامین کا بیشتر حصہ یا تو کلاسکی ادب ہے یا پھر روایتی ادب سے علاقائی زبانوں میں جتنی زبانیں میں اردو ایک ممتاز زبان ہے اور اس۔  تجسس کے جذبے کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنا کام کر دیا۔

          میں جانتا ہو ں کہ ہماری زبان کا دامن جتنا وسیع ہے اس کے تمام گوشوں پر نظر ڈالنے کی صلاحیت کسی ایک طالب علم میں نہیں ہو سکتی لیکن یہ بھی  یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ درمش بلگر اپنا فرض پوری ایمانداری سے ادا کرنا جانتے ہیں۔  اور مضامین قلم بند کر تے وقت انہوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے۔ انہیں قطعی یہ دعویٰ نہیں کہ ان کے یہ مضامین اپنے موضوع کو پوری طرح واضح کر سکتے ہیں لیکن اگر میرے مضامین کے ذریعہ کسی اہم  موضوع کی نشاندہی بھی ہو جائے تو میرے لیئے یہ بات باعث تسکین ہو گی۔ تحقیق و تنقید کے فرش کی خاکروبی کر تے وقت میں نے غالی ادبی نظریات و عقائد نیز ان سے ابھر نے والے ادبی شہہ پاروں کا وسعت نظری سے مطالعہ کیا ہے اور ان خیالات سے اپنے ذہن و دل کو مالامال بھی کیا ہے۔ استاد ان ادب کی صحبت میں بیٹھا ہو ں اور ان کی جوتیاں سیدھی کر نے کے دوران ان کے علمی کمالات سے اپنے دیدہ و دل کو تابناک ہو تے ہوئے محسوس بھی کیا ہے۔ ان مضامین میں اگر آپ کو کسی خوبی کی رمق نظر آئے تو شعبۂ اردو دہلی یونیور سٹی کے اساتذہ کے فیض کا کرشمہ سمجھیں۔ جنھوں نے دوران طالب علمی ہمیشہ میری رہنمائی کی اور میری صلاحیتوں کو صیقل کیا۔

          مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ میرے یہ منتخب مضامین اردو ادب کے بحر لامتناہی میں بلبلے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ آپ کی پذیرائی میرے حوصلے میں اضافہ کر دے اور میں تحقیق کے گہرے کنویں میں ڈول ڈالنے کی جرات کر سکوں متن کے مطالعہ کے دوران اندرون متن موجود میرے جذبے اور معلوم ذرائع پر بھی نظر ڈالنا دیانت داری ہو گی کیونکہ اس مجموعہ میں موجود ایسے مضامین بھی ہیں جن کی توسیع کے لیئے مجھے چند پیراگراف سے زیادہ کچھ حامل نہیں ہوئے یا کسی موضوع بالکل بھی کچھ ہاتھ نہیں آ سکا۔ میرے قارئین میری اس مجبوری سے یقیناً وقف ہو نگے اور ان کی ہمدردیاں مجھے حامل ہونگی۔

          درمش بلگر کی شگفتہ تحریروں کا قائل ہر وہ شخص ہے جس نے انھیں پڑھا ہے یا سنا ہے۔ وجیہہ خدوخال کے مالک درمش بلگر علمی و ادبی حلقوں میں مقبول بھی اسی لیئے ہیں کہ وہ خود بھی نستعلیق ہیں اور ان کی تحریریں بھی۔ میرے سامنے ان کی تحریروں کے کچھ نمونے ہیں جن پر کچھ لکھنے سے پہلے میں یہ صاف کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ زندہ تحریریں وہی ہوتی ہیں جو آنکھوں سے  پڑھی جائیں لیکن ہر لفظ دل میں اتر جائے۔ درمش بلگر ان مضامین کے حوالے سے ایک خوش اطوار،  خوش اسلوب، خوش فکر اور  خوش خصال قلم کار کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرتے نظر آتے ہیں لیکن دوران خوش طبعی جب  ان کا قلم سنجیدگی کی طرف مائل ہوتا ہے تو اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کو یہ جان کر یقیناً حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ پچھلے 30-20سالوں میں ادب کا مفہوم ہی بدل گیا ہے اب کسی سنجیدہ ادب کا مطلب ہوتا ہے کسی مخصوص فکر کو مشتہر کرنا جو ادبی کم سیاسی زیادہ ہو لیکن درمش بلگر کی سنجیدگی ذرا دوسرے قسم کی ہے۔

ٔ          استنبول تقریباً ہر عہد میں نہ صرف یا یہ تہمت رہی ہے بلکہ عالم میں انتخاب اس شہر بے نظیر کی تاریخ و تہذیب، علم و فن اور زبان و ادب کو پورے ملک کی نمائندگی کا شرف حاصل رہا ہے۔ یہ تاریخی راجدھانی بجا طور پر زبان و ادب کی راجدھانی بھی کہی جا سکتی ہے۔ اسی کے گرد و نواح میں کھڑی بولی کی بطن سے زبان دہلوی یا اردو نے جنم لیا جو اپنی دھرتی کی سیاسی، سماجی، تہذیبی اور معاشرتی ضرورتوں کے زیر سایہ نشو و نما پا کر اس عظیم تہذیب کی ترجمان بن گئی جسے ہم گنگا جمنی تہذیب کے نا م سے جانتے ہیں اور یہ ہماری زندہ و تابندہ تاریخی وراثت ہے۔ دلّی وہ ’عالم میں انتخاب شہر ‘ ہے جس کے ہر ذرّے میں تاریخ کی داستانیں پنہاں ہیں، چشم بینا کے لیے گنج ہائے گرانمایہ یہاں بکھرے پڑے ہیں۔ تذکرہ دلّی مرحوم کا اکثر ہوا،      بلکہ یہ شہرو ں کا شہر وقت کی آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کر زندہ رہا اور آج بھی تاریخ کا تسلسل بر قرار رکھے ہوئے ہے۔ یعنی تاریخ اپنے دامن میں سمیٹے وقت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اس شہر کی منفر و حیثیت ہے۔ یہ روایت اور جدیدیت کا سنگم ہے۔ ہمارے زریں ماضی کا امین اور تابناک مستقبل کا ضامن ہے۔  بادشاہوں نے نام و نمود کے لیے شہر بسائے۔ نیا نگر بسا تو پرانے شہر کی شہری آبادی کا ایک بڑا حصہ وہاں جا بسا۔ مگر پرانا شہر پوری طرح اجڑا نہیں۔ کسی نہ کسی بستی کے روپ میں زندہ رہا۔ تاریخی شواہدان بستیوں میں آج بھی سانس لے رہے ہیں۔ ان تاریخی یادگاروں کو خطرہ ویرانی سے نہیں بلکہ بڑھتی ہوئی آبادی اور پھیلتے ہوئے شہر سے ہے جوان کو نگلتا جا رہا ہے۔ لیکن ترکی کے شہروں میں ابھی یہ خطرہ اتنی شدت سے لاحق نہیں ہے۔

          ترکی کے ادبی و تہذیبی منظر نا مے پر نظر ڈالتے ہوئے ہمیں اپنی تاریخ کے ان صفحات کو پلٹنا ہو گا، جن میں تہذیب کے آب و رنگ کی تبدیلیوں اور سیاسی اور سماجی دھاروں کے تغیرات کا پتہ چلتا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ سماجی تغیرات کا سب سے اہم نتیجہ سیاسی اور معاشی بنیادوں پر سماج میں زبان کی تبدیلی کے طور پر رونما ہوتا ہے۔ ایک قوم جب دوسری قوم سے ہم آہنگ ہوتی ہے تو نشست و برخاست کے آداب غالب آنے والی قوم کے اثرات کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ زمین وہی رہتی ہے، جغرافیہ بھی وہی ہوتا ہے لیکن تاریخ کی تبدیلیوں سے معاشرت میں تہذیبی ترقیات کے نئے سر چشموں کا بھی پتہ چلتا ہے اور یہ تبدیلیاں روایت کے پس منظر میں نئے انقلابات کی بھی امین ہوتی ہیں۔ مغلوب قوم غالب آنے والے سیاسی اور سماجی رویوں کے تحت نئے رنگ و آہنگ کو قبول بھی کرتی ہے اور ان کی توسیع بھی۔ اگر ہم ترکی کی زبان او ادب کی تاریخ پر غور کریں تو کئی دہے قبل اس کے حروف اس کا رسم الخط اور خون سے تبدیل ہو کر لیٹن بن گیا۔ یہاں کی تہذیب جو کہ خالص مشرقی تہذیب کے لیے مشہور تھی اب یورپ کا مقابلہ کر رہی ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہم جسے یوروپ کے حوالے سے بد تہذیب کہتے ہیں وہ ہر گز مراد نہیں بلکہ یہاں تہذیب کہنے سے مراد یوروپ کی ترقی یافتہ اور علمی و ثقافتی سرگرمیوں سے ہے۔

           زبان کا تعلق دل سے ہے اور جس زبان و ادب میں ہندوستان کی رنگا رنگ تہذیب کے دل کی دھڑکن سنائی دیتی ہے اس کا تعلق ہندوستان کے دل یعنی دہلی سے ہونا فطری سا ہے۔ دہلی کا تعلق جہاں اردو سے ہے  وہیں آغا شاعر قزلباش بھی دہلوی ہیں یعنی یہ کم و بیش دونوں کا وطن ہے۔

           ادب کی جامع اور مکمل تاریخ کے لئے ضروری ہے کہ صف اول کے ادبیوں کے علاوہ صف دوم کے ادیبوں پر بھی تحقیقی اور تنقیدی کام کیا جائے۔ آغا شاعر کی شخصیت پر باب تک کوئی تحقیقی کام نہیں ہو سکا ہے۔ راقم نے اس احساس کے تحت  درمش بلگر کی اردو دانی اور ان کی ادبی خدمات جیسے موضوع کا انتخاب کیا۔زیر نظر مقالے میں درمش بلگر کی شخصیت اور ان کے ادبی خدمات کا اجمالاً ذکر کر تے ہوئے ان کے مضامین پر تفصیلی گفتگو کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

          درمش بلگرکی ادبی شخصیت کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ اردو کے کسی قد آور سے وہ متائثر رہے ہیں ان کی صحبت نے انہیں زبان و فن کے کمال تک پہنچایا ہے۔

          درمش بلگر کو ترکی کے ساتھ ساتھ اردو فارسی، عربی اور انگریزی پر کامل دستگاہ تھی انہوں نے  کئی اردو ترکی اور انگریزی تینوں زبان کے اجتماع سے ایک لغت بھی ترتیب دی ہے۔ اور ترکی و انگریزی ناول کو اردو قالب میں ڈھالا اسی طرح اردو کے اہم شعراء و ادبا کے فن پاروں کو ترکی میں منتقل کر کے اہم ترین کارنامہ انجام دیا۔ ان کا مطالعہ وسیع ہے وہ حد درجہ سنجیدہ ذہن رکھتے ہیں اور شریف النفس بھی ہیں۔ انسان دوستی تو ان کو ورثہ میں ملی ہے۔ خود داری اور انا کا وہ سراپا مجسمہ ہیں اردو زبان و ادب کا درس انہوں نے مختلف اساتذہ سے حاصل کیا

           اردو ناول کی ابتدائی کڑی اٹھارہویں صدی کی داستان ’’ نو طرز مرصع‘‘ ’’بیتال پچیسی‘‘’’ سنگھاسن بتیسی‘‘ ’’نورتن‘‘ ’’سروش سخن‘‘ ’’ گل صنوبر‘‘ ’’الف لیلیٰ‘‘ ’’بوستان خیال‘‘ طلسم ہوش ربا‘‘’’ طلسم حیرت‘‘ وغیرہ میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ ان ہی داستانوں اور کہانیوں کے زیر اثر انیسویں صدی میں نذیر احمد کے ہاتھوں اردو ناول کی ابتدا ہوئی جس میں صنعتی انقلاب اور نئی بیداری کو بھی خاص دخل ہے۔

          اس طرح نذیر احمد کے بعد جہاں سرشار، شرر، راشد الخیری، منشی سجاد حسین اور محمد علی طیب نے اپنے دلچسپ موضوع کے تحت ناول تخلیق کر کے اس کے ارتقاء میں اہم رول ادا کیا وہیں آغا شاعر قزلباش دہلوی نے اپنے چند ناولوں کے ذریعہ اردو ناول کے ارتقائی کارواں کو آگے بڑھانے میں حصہ لیا اور انہوں نے سب سے پہلے اردو ناول میں تحلیل نفسی کی پیش کش کو بڑی چابک دستی سے قلم بند کیا۔

          درمش بلگر نے ا پنے بعض، مضامین میں انسان کے نفسیاتی اور سماجی پہلو کو جس انداز سے بیان کیا ہے اس سے اردو ادب کے کسی بھی نقاد کو اختلاف نہیں ہو سکتا اب یہاں تجزیہ کر نا ہے کہ کیا و ہ اپنے آپ میں ایک کامل مضمون نگار ہو سکتے ہیں کہ نہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن یہ امر مسلم ہے کہ کسی بھی موضوع کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی سماج معاشرہ اور حکومت کی صحیح تصویر پیش کر سکے جس میں  مصنف کا مزاج، خیالات، نقطہ نظر پنہاں اور اس کی کامیابی کا راز پوشیدہ ہو تا ہے۔ ہر قاری یا ناقد کسی بھی تخلیقی ورثہ کو اپنے نقطۂ نگاہ سے جانچ پرکھ کر کے اس کی کامیابی کا حکم صادر کر تا ہے۔ درمش بلگر کے  مضامین میں کامیابی کے سبھی عناصر موجود ہیں اور اس بنیاد پر یہ رائے پیش کی جا سکتی ہے کہ درمش بلگر اپنے موضوع اور مزاج کے اعتبار سے صف دوم کے مصنف  میں اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ناول کے موضوعات عا م انسانی زندگی سے لیے ہیں اس لئے ان میں قاری کے لئے دلچسپی بھی ہے اور تجسس بھی۔ درمش بلگر نے اپنے مضامین میں فنی اصول کا خاص خیال رکھا ہے اردو ادب کے ناقدوں اور ادیبوں کی رائے حق بہ جانب ہے کہ ایک اچھا مضمون نگار مضمون تخلیق کر تے وقت توازن کا بہت خیال رکھتا ہے اور ہر مضمون نگار توازن اور آہنگ کو اپنے مضامین اپنے اپنے طور پر مختلف طریقے سے نبھاتے ہیں۔ اس اعتبار سے درمش بلگر اپنے آپ میں مکمل ہیں لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ درمش بلگر نے اپنے مضامین میں فن کاری کا بہت زیادہ خیال نہیں رکھا ہے۔

٭٭٭

جدید شاعری کے ترجمان:ناصر ملک

ہر دور کا ادب اپنے عہد کی تہذیب اور زندگی کا عکاسی ہوتا ہے اور اپنے دور کی عصری حیثیت کو پیش کرتا ہے جس کا اظہار کم و بیش زندگی کے ہر شعبے میں دکھائی دیتا ہے۔اس حقیقت کو وہ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں جو ادب برائے ادب کے قائل اور اس کا رشتہ ذہن اور زندگی سے زیادہ کتاب اور لغت سے جوڑنا چاہتے ہیں بقول ڈاکٹر محمد حسن ’’انفرادی ذہن بھی بالآخر سماجی زندگی کا آئینہ دار ہوتا ہے اور وہ ادیب بھی جو اپنی نفسیاتی الجھنوں کی عکاسی کرتے ہیں دراصل زندگی ہی کے عکاسی ٹھہرتے ہیں۔ ‘‘ادب انسانی جمالیات اور اس کے فنی شعور و صلاحیت کا مکمل مظہر و عکاسی ہوتا ہے۔ انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ فنی شہہ پارے کے مطالعہ کے ذریعہ خود کو سنواریں اور اس کو قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھیں۔

کسی ملک کی تاریخ میں تہذیب سے ہی اس کی شناخت ہوتی ہے۔دیکھا جاتا ہے کہ تہذیب کی اساس کیا تھی، کس حد تک اس میں اخذ و قبول کی صلاحیت تھی اور کس حد تک دوسرے تہذیبی دھاروں سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی سکت یا قوت تھی۔ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے مختلف تہذیبی دھاروں سے اپنی شناخت یا پہچان بنائی ہے اور ہزاروں برس کی اقوام عالم کی تاریخ میں اگر آج ہندوستان زندہ ہے تو اس کا سبب اسکے مختلف علاقوں کے تہذیبی دھارے تھے جو ایک دوسرے سے اختلاف کے باوجود مشترکہ عناصر بھی رکھتے تھے۔ان تمام تہذیبوں کے مختلف رنگ تھے مگر سب مل کر ایک رنگ تھا جسے ہندوستانی تہذیب کہا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے انسانی وجود میں ہاتھ کی انگلیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں مگر سب ایک ہاتھ کا حصہ ہوتی ہیں۔ سنگم پر گنگا اور جمنا کے پانی کا رنگ مختلف ہوتا ہے مگر بہر حال وہ ایک ہوتا ہے۔

 اردو ادب ہر دور میں نشیب و فراز سے گزرتا رہا ہے۔ لیکن ہر دور میں شاعروں اور ادیبوں نے اس کے لیے نت نئی راہیں ہموار کی ہیں اور ترقی کے راستے پر اسے گامزن کرتے رہے ہیں۔ ناصر ملک میں شاید ایک بات تھی کہ جس نے ان میں اوائل طالب علمی سے ہی ہر شئے کو غور سے دیکھنے پر مجبور کیا۔ غور و فکر  اور ذہنی ورزشیں اوائل عمری سے ہی  ان کے اندر موجود تھیں۔ تجسس کے جذبے نے انہیں آج اس مقام پر پہنچا دیا کہ ہندو و پاک میں ان کی شہرت اور ان کے چرچے اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ اردو ادب کے کونے کھدروں میں جھانک جھانک کر ان کا مطالعہ کیا۔  میں جانتا ہو ں کہ ہماری زبان کا دامن جتنا وسیع ہے اس کے تمام گوشوں پر نظر ڈالنے کی صلاحیت کسی ایک طالب علم میں نہیں ہو سکتی لیکن یہ بھی  یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ناصر ملک اپنا فرض پوری ایمانداری سے ادا کرنا جانتے ہیں۔  اور مضامین قلم بند کر تے وقت انہوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے۔ انہیں قطعی یہ دعویٰ نہیں کہان کے یہ مضامین اپنے موضوع کو پوری طرح واضح کر سکتے ہیں لیکن اگر میرے مضامین کے ذریعہ کسی اہم موضوع کی نشاندہی بھی ہو جائے تو میرے لیئے یہ بات باعث تسکین ہو گی۔ ایک زمانہ تھا اردو شعر و ادب کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اردو شاعری میں گل و بلبل اور لب و رخسار کی باتیں ہی قلمبند کی جاتی ہیں۔ اسی طرح اردو ادب عشقیہ داستانوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ لیکن حالیہ برسوں میں اس سلسلے میں غیر معمولی تبدیلیاں آئی ہیں اور اب اردو شعر و ادب میں زندگی کے سلگتے مسائل سے بھی بحث کی جا رہی ہے۔ اس دور کے ادب کا  مطالعہ کرتے وقت ہماری جن ادیبوں اور شاعروں میں جاتی ہے ان میں ناصر ملک سر فہرست ہیں۔

ناصر ملک ایک روشن خیال ادیب معروف افسانہ نگار، تاریخ داں، محقق اور میٹھے لہجے کے شاعر ہیں۔ ان کا نام بہت طویل عرصہ قبل تحقیقی ادب اور شاعری کے حوالے سے سامنے آیا تھا۔انہوں نے کئی شاہکار تخلیق کئے اور اپنی نثر نگاری، ناول نگاری، شاعری اور صحافتی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے لفظوں سے ایسی خوبصورت تحریروں کو ادب کا حصہ بنایا کہ ادب سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں میں انہیں انفرادی مقام حاصل ہو گیا۔

ناصر ملک  15 اپریل 1972ء کو چوک اعظم(ضلع لیہ) میں پیدا ہوئے۔1987ء میں میٹرک کا امتحان اعزازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔ 1989ء تک گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان میں زیرِ تعلیم رہے۔ انٹر میڈیٹ کے بعد گورنمنٹ ہیلتھ ٹیکنشن کالج ڈیرہ غازیخان میں داخلہ لیا اور 1991ء میں پنجاب میڈیکل فیکلٹی ٹاپ کرتے ہوئے کالج سے فارغ التحصیل ہوئے۔ گریجویشن اور ایم اے (اسلامیات) کرنے کے بعد سلسلہ تعلیم کو خیرباد کہہ دیا۔ ناصر ملک کے تعلیمی سفر پر اگر ہم نظر ڈالیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ طالب علمی کے زمانہ سے ہی ذہین و فطین تھے اور اپنے ہم جماعت طلبا سے ہمیشہ ممتاز رہے۔دورانِ تعلیم اُن کا شمار اچھے اور با ذوق طلباء میں کیا جاتا تھا۔

 اُن کے ادبی سفر کا آغاز1985ء میں ہوا۔بچوں کے ایک ماہنامہ میں پہلی کہانی شائع ہوئی جب وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے۔پھر دوسرے بڑے اور اہم رسالوں میں ان کے افسانہ شائع ہونے لگے اور یہ سلسلہ قومی اخبارات تک پھیلتا چلا گیا۔1986ء میں لاہور کے ایک ادبی جریدے ’’آداب عرض‘‘ نے اُن کی فنی و تخلیقی صلاحیتوں کو بے حد نکھار ا۔ابتدائی مراحل میں ہی اُن کے معاشرتی ناول ’’سحر ‘‘ نے اُن کو ملکی سطح پر روشناس کرا دیا اور مسلسل آج تک ناصر ملک آب تاب کے ساتھ اردو کی خدمت کر رہے ہیں۔ ناصر ملک ایک ہی وقت میں اَدب کی کئی اصناف میں کام کرتے ہیں اور یقیناً اُن کو ہر صنف میں غیر معمولی دسترس بھی حاصل ہے۔ناصر ملک کا تصنیفی سرمایہ بہت کثیر ہے۔ ان کا شمار موجودہ دور کے کثیر التصانیف ادبا میں ہوتا ہے۔

 1993ء کو اُن کی یادداشتوں پر مشتمل پہلی انگلش کتاب "Golden Memories” شائع ہوئی۔1993ء میں اُن کا اردو ناول ’’پتھر‘‘ کتابی صورت میں شائع ہوا۔1995ء میں ان کے شاعرانہ افکار پر مبنی پہلی اردو کتاب ’’یہ سوچ لینا‘‘ شائع ہوئی۔1996ء میں اُنہوں نے اَدبی میگزین ’’شاہکار‘‘ کا ماہ بہ ماہ اجراء کیا جو سال بھر تسلسل کے ساتھ شائع ہوا اور پھر مالی وسائل کی کمی کے باعث تعطل کا شکار ہو گیا۔ 2002ء میں اُن کی تاریخی تحقیق پر مبنی ضخیم کتاب ’’انسائیکلو پیڈیا آف لیہ‘‘ شائع ہوئی۔ 2003ء میں اُنہوں نے پنجابی اَدبی بورڈ لاہور کے لیے اپنی مادری زبان پنجابی میں ’’لیہ دی تاریخ‘‘ لکھی جو کسی وجہ سے شائع نہ ہو پائی۔ حالیہ دِنوں میں اِسی کتاب کو لہراں اَدبی بورڈ لاہور نے شائع کیا ہے جو تاریخ کے وسیع اور دقیق میدان میں اپنی مسلمہ حیثیت رکھتی ہے۔ 2008ء میں اُن کا مجموعہ کلام ’’غبارِ ہجراں ‘‘ شائع ہوا جس نے ملکی سطح پر بہت پذیرائی حاصل کی۔ اُن کے کلام کا دوسرا مجموعہ ’’جان، جگنو اور جزیرہ‘‘ منظر عام پر آ چکا ہے۔ اُن کی ایک کتاب ’’لیمپ والی لڑکی‘‘ جس میں فلورنس نائٹنگیل (جدید نرسنگ کی بانی) کی سیر حاصل بائیوگرافی دی گئی ہے۔شائع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہے۔

ناصر ملک کی گھریلو مالی حالت بہت بہتر نہیں رہی۔ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ والد، ملک محمد بخش، محکمہ جنگلات میں بہ طور فاریسٹر ملازم تھے۔ وہ چونکہ نہایت مذہبی اور شرعی طرزِ زندگی گزارتے تھے، اِس لیے گھر میں محض تنخواہ کی رقم ہی آیا کرتی تھی جو اتنی مضبوط ہرگز نہیں تھی کہ حلقۂ امارت میں شامل کرتی۔ ان کے بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ والد صاحب نے ملازمت کے سلسلے میں 1965ء میں سرگودھا سے نقل مکانی کی اور تھل کے دِل، چوک اعظم میں سکونت اختیار کر لی۔یہاں صحرائی مناظر، خشکی، غربت اور قحط سالیوں کے علاوہ زندگی کا کوئی منظر دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ناصر ملک یہیں پیدا ہوئے، یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر اَدبی سفر کا آغاز کیا۔تصویر کشی اور سنگ تراشی کی طرف اولیں دور میں طبیعت مائل رہی۔ اِس دوران انہوں نے بچوں کیلئے بھی کچھ لکھا اور بعد میں لاہور کے ماہناموں میں افسانے بھیجنا شروع کر دیے۔ شائع بھی ہوتے رہے، حوصلہ افزائی ہوتی رہی اور ان کا شوق بڑھتا رہا۔ بعد میں تحقیق کے میدان میں بھی قدم رکھا۔

 ناصر ملک نے کبھی بھی شعر اور تاریخ کو کہانی پر ترجیح نہیں دی بلکہ ہر تحریر کے ساتھ انصاف کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ وہ شاعر پہلے تھے، افسانہ نگار اور تحقیق نگار بعد میں۔ وہاں چونکہ شعر و ادب کا ماحول نہیں تھا اور اِس ہنر میں کمال کتابوں کے مطالعے سے حاصل نہیں ہو سکتا تھا، اُن دِنوں یہاں کے اَدبی حلقوں تحقیق و فلسفہ میں ڈاکٹر خیال امروہوی کا نام گونجتا تھا۔ وہ اُن مقتدر ہستیوں سے اَدبی استفادہ حاصل نہیں کر پائے تھے۔ بعد میں ڈاکٹر خیال امروہوی اور ظفر اقبال ظفر جیسے معتبر اور معروف شاعروں کی صحبت اور رہ نمائی حاصل ہوئی تو ان کے ہنر میں پختگی آ گئی۔

ناصر ملک نے شعر و ادب کے ذریعہ ہی اردو کی خدمت نہیں کی بلکہ اردو زبان کے تحفظ و بقا کے لیے بھی سرگرداں رہے۔ اردو کے سلسلے میں ان کے افکار و نظریات بہت واضح ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اردو ادب کے بارے میں لوگ بے طرح مایوسی کا شکار ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ دَم توڑ رہا ہے مگر انہیں ایسی کوئی بات دکھائی نہیں دیتی۔اردو کے مستقبل سے قطعی مایوس نہیں ہے لیکن اردو اکادمیوں اور اداروں کی سرگرمیوں اور ان کے فلاح و بقا پر خرچ کئے جانے والے کثیر رقم سے مثبت نتائج برآمد ہونے کی امید کرتے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ وہ پاکستان میں فعال ادیبوں کی عدم سرکاری توجہ کے باوجود کی جانے والی کوششوں سے مطمئن ہوں اور ان کو یقین ہے کہ آنے والا کوئی قریبی عہد اُردو زبان اور اردو اَدب کا ہو گا۔پوری دنیا میں اردو کی صورت حال پر نظر رکھتے ہوئے بطور خاص پاکستانی ادب سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اِس وقت ملک کے اندر لسانیت، صوبائیت اور فرقہ واریت کی آگ کا جلاؤ بھڑک رہا ہے۔ وطنِ عزیز اور ہماری قوم ایسی ریشہ دوانیوں اور بدعنوانیوں کی متحمل نہیں ہے۔ دُشمن کی چالاکیاں، سازشیں اور خطرناک چالیں ہماری معاشرتی زندگی کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ اس سنگین صورتِ حال کا مقابلہ صرف ادیب ہی کر سکتا ہے کیونکہ ملک کا ہر باشندہ اَدیب پر اعتماد کرتا ہے۔ اُس کے لکھے ہوئے کو معتبر خیال کرتے ہوئے راہنمائی طلب کرتا ہے۔ان کا خیال ہے کہ شاعر و ادیب اپنی تحریروں کے ذریعہ معاشرے کو ایک مثبت سمت کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اخوت و محبت بھی ادیب ہی پیدا کر سکتا ہے۔ ویسے بھی ہر ایسے دور میں پاکستانی ادیبوں نے جاندار کردار ادا کیا ہے خواہ اُنہیں کتنی بڑی قیمت ہی ادا کیوں نہ کرنا پڑی ہو۔وہ ادب کے ذریعہ حکومتی سطح پر پھیلی بے ضابطگیوں کو اجاگر کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ بلاشبہ 1947ء سے شروع ہونے والا سفر ابھی تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔حکومتی کارندوں کی بے ضابطگیوں کی طرف انگلی اٹھانے کے ساتھ انسانیت کے اخلاقی زوال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں تہذیبی زوال کی پریشانیاں بھی ہیں اور ایک صحت مند معاشرہ کی تشکیل کی آرزو بھی۔ بحیثیت ایک حساس شاعر کے انہوں نے زندگی اور اس کی محرومیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔حکمراں طبقہ سے مصالحت یا سستی شہرت یا مقبولیت کو اخلاقی قدروں کے خلاف تصور کرتے ہیں۔

مصلحت نے جھکا دیا اس کو

ٹوٹ جاتا تو آج اس کا تھا

تجھ کو تو بازوؤں پہ بہت ناز تھا مگر

دستار گر پڑی ہے تری خود کشی کے بعد

دھبے ردائے پاک پہ اتنے لگے کہ آج

دھرتی لرز اُٹھی تِری بخیہ گری کے بعد

غربت گھروں کے چولھے چراغوں کو کھا گئی

ہر آنکھ بجھ گئی ہے تری روشنی کے بعد

رہبر ! زمانِ غار، یہ روشن خیالیاں

یہ قوم مر گئی ہے تری بُزدلی کے بعد

 ہم ہر آنے والی حکومت پر انگشت اُٹھاتے ہیں اور اسے اپنے لئے خدائی عذاب قرار دیتے ہیں مگر کبھی بھی ہم نے یہ سوچنے کی ہمت نہیں کی کہ ہم کونسی فصل بیج رہے ہیں۔ جو شخص جتنے وسائل رکھتا ہے اتنی ہی بے ایمانی کرنے کا سوچتا رہتا ہے۔کوئی بھی شخص تعمیر کا جذبہ نہیں رکھتا بلکہ ہر کوئی اینٹ اکھاڑنے کے چکر میں ہے۔ ایسے میں کوئی بھی حکومت کیا کر سکتی ہے۔ حکومت عوام کے چنے ہوئے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے اور جیسے لوگ ہوں گے ویسی ہی حکومت ان کے گلے پڑے گی۔ معاشرے میں ہر سطح پر بے ضابطگیاں، بے ایمانیاں اور بے قاعدگیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ قانون اور آئین تک محفوظ نہیں۔ آخری طبقے کا فرد بھی قانون توڑنے اور بائی پاس کرنے کے خیالات رکھتا ہے تو ایسے میں کسی بھی حکومت سے ہم یہ توقع کِس طرح کر سکتے ہیں کہ وہ اللہ دین کا چراغ رگڑ کر ملکی حالات سنوار دے گی۔

 ناصر ملک نے اردو کے علاوہ دوسری زبانوں مثلاً میں بھی انگریزی، اردو اور پنجابی زبانوں میں بھی لکھا لیکن ان کا کثیر اور اہم سرمایہ اردو میں ہی ہے۔ وہ زندگی کے حقیقتوں اور مصائب زمانہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ وہ اپنے اشعار کے ذریعہ ایک پر امید فضا پیدا کرنے چاہتے ہیں جس میں انسان اور انسانیت کا احترام ہو۔

ناصر ملک کی نمایاں کی خصوصیت ان کے موضوعات ہیں وہ عشق و پیمان کی زبان میں دل کے لطیف جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کو سماج کے اس طبقہ کے ہمدردی ہے۔ جو سامراجیت کے شکار ہیں۔ جن کے ہاتھ میں سخت مشقت کی وجہ سے چھالے پڑ گئے ہیں لیکن آج بھی ان کی محنت کی عوض مناسب مزدوری نہیں ملتی۔ مثالیں ملاحظہ ہوں۔

پھر مفلسوں نے رکھ دیے اُن کے سروں پہ تاج

جن رہبروں کا اُن سے کوئی واسطہ نہیں

اے زمیں ! دوزخ کدہ ہے تُو غریبوں کیلئے

خون سے تُو رہبروں کو پالتی ہے کس لیے

لہو کی روشنائی سے مرے قاتل نے لکھا تھا

رہِ مقتل سجا دو، اِک مسیحا ڈھونڈ لایا ہوں

مفلس ہیں، فاقہ کش جو یہاں بدنصیب لوگ

لائیں گے انقلاب وہی عن قریب لوگ

ملت کا خون چوسنے والے امیر تھے

کوٹھی لگے ہیں آج مگر ہم غریب لوگ

مفلس زادوں کو لقمے بھی خون کے بدلے ملتے ہیں

ایسا حاکم کیوں دھرتی نے اپنے رَب سے مانگا تھا

بانجھ کتابوں کی قبریں تو شہر میں ہر سُو پھیلی تھیں

 لیکن حرف کو ہم نے گونگے کھیت میں اُگتے دیکھا تھا

کاغذ چننے والے ننھے ہاتھ میں چھالا دیکھا تو

میرے پہلو میں دل ناصر کتنی زور سے دھڑکا تھا

مِرے نصیب پہ روتا ہے آج کیوں منصف

مجاز تھا کہ وہ مجھ کو معاف کر دیتا

اَنا جواز کو کیسے قبول کر لیتی

مجھے شعور ہی اُس کے خلاف کر دیتا

لوگ قیدی ہو گئے ہیں گھر بنا کے شوق میں

بے گھروں کے سامنے دُنیا پڑی ہے آج بھی

پھر  سراجِ عہد و پیماں نے جلائے ہیں نقوش

تالیوں کے شور میں وہ رو پڑی ہے آج بھی

رہ گئیں محنت کشوں کے ہاتھ میں کچھ ٹہنیاں

جیت تاجر کی ہوئی، سارا ثمر اُس کا ہوا

ایک نقطے میں سمٹ کے رہ گئی ہے زندگی

ایک پل میں طے جوانی کا سفر اُس کا ہوا

بخت بے احتیاج اُس کا تھا

کھیت میرا، اَناج اُس کا تھا

وقت نے کی عجب مسیحائی

درد میرا، علاج اُس کا تھا

ناصر ملک کی زندگی کی سچائیوں، نشیب و فراز، آرزوؤں اور زندگی کی تمام حقیقتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً

وہ گلی میں رُک گیا تھا آج میرے رو بہ رُو

اُس کی باتوں میں گھلی تھی اُس کے لہجے کی تھکن

ہو گیا تھا رقصِ تشنہ کام سے وہ مضمحل

چشم تر میں بھیگتی تھی ہر ستارے کی تھکن

صعوبتوں کا جہاں ہے جہانِ حرف و ادب

رہینِ شوق ذرا تیز گام کر لینا

میرا آغاز میری موت کے ڈر پر رکھا

گویا آلام کا سایہ میرے گھر پر رکھا

تند حَربوں کے بپھرنے کی خبر آئی ہے

تاج قدرت نے اَنا کا میرے سر پر رکھا

عہد کے آغاز میں بہتا رہا آدم کا لہُو

دہر کے انجام کو بھی خوف و خطر پر رکھا

تُو نے اپنایا نہیں مجھ کو وگرنہ میں نے

اپنا ہر سجدہ ہمیشہ تیرے دَر پر رکھا

تقسیم کسی اور کے ہاتھوں سے ہوئی، پھر بھی

الزام میرے شہر کے لوگوں نے شجر پر رکھا

منزل کا تعین بھی بڑی بات ہے ناصر

فیصلہ قدرت نے مگر زادِ سفر پر رکھا

ناصر کی شاعری کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نیچر کے الفاظ کے ذریعہ اپنی شاعری کی تعمیر کرتے ہیں۔ مثلاً ان الفاظ کے ذریعہ نخل، دار، سفر، مقتل، ملک، زمین، اس طرح کے الفاظ کے ذریعہ اپنے خیالات کو شعری پیکر میں ڈالتے ہیں۔

وہ مے خانہ نہیں دشتِ جنوں کا اِک سمندر تھا

جہاں سے جگنوؤں کا میں جزیرا ڈھونڈ لایا ہوں

محبت سے کبھی اُس نے مری جانب نہیں دیکھا

کہ اَب نخلِ فلک سے میں ستارا ڈھونڈ لایا ہوں

ان کی نظموں کے عناوین بھی منفرد ہیں مثلاً ’’بہار، بادل، بجلی‘‘، ’’بت، برکھا اور بے ثمر‘‘ وغیرہ ہیں۔ وہ اسی دنیا کی اشیا سے اپنی دنیا کی تخلیق کرتے ہیں اور ماورائی دنیا سے الگ نئے زمانے کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ہجرت ایک ایسا المیہ رہا ہے جس نے انسانیت کو کبھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ ناصر ملک کی اس مسئلے کو پیش کرتے ہیں۔ آج زمانہ میں کتنی بھی ترقی کیوں نہ کر لی ہو آمد و رفت کتنا ہی آسان سے آسان تر کیوں نہ ہو گیا ہے برقی ذرائع سے دوریاں کیوں نہ مٹا دی گئی ہو لیکن آج بھی روٹی کپڑا اور مکان اس تعلیم بھی شامل کر لینا چاہئے کے مسائل جوں کہ توں ہیں اور ایک مہاجر اس کو شدت سے محسوس کرتا ہے۔ ناصر ملک نے انہیں کی ترجمانی کی ہے۔

ہے پڑاؤ رائیگاں ناصر تمہارا شہر میں

ہجرتوں کے دور میں یہ بھی نگر اُس کا ہوا

مجھ کو میرے شہر میں بدنام کرنے کے لیے

آگیا ہے میرا گھر نیلام کرنے کے لیے

اَب ضروری ہو گیا ہے میرا تجھ کو چھوڑنا

زندگی میں اور بھی ہیں کام کرنے کے لیے

ہجرت میں ریاضت کی تھکن میرے لیے تھی

ریت میری تھی مگر رنگِ صدف اُس کے لیے تھا

اُسے ہجرت کا شوق کتنا تھا

اپنا گھر تک جلا دیا اُس نے

ناصر ملک کی شاعری میں تغزل کا خوبصورت انداز ملتا ہے۔

ایک سورج آگیا تھا آئینے کے روبرو

زلف کو کھلنا پڑا تھا کام کرنے کے لیے

آج، اِسی لمحے، اِسی وقت، یہیں سے ہو

عشق آغاز تو ہو، چاہے نہیں سے ہو

برسوں اِس آس پہ جاگیں میری پُر نم آنکھیں

سامنا وَید کا مجھ خاک نشیں سے ہو

کوئی روزہ نہ دُعائیں نہ عبادت درکار

عشق کافی ہے مگر پختہ یقیں سے ہو

منصف لئے پھرتے ہیں تماشائی آنکھیں

ظلم پھر کیسے عیاں اُس کی جبیں سے ہو

یوں تو ظلمت کے ستاروں سے کئی اُترے ہیں

کسی راہ بَر کا تعلق تو زمیں سے ہو

آؤ اِس ریت پہ ہم خیمے لگائیں ناصر

چشمِ جاناں بَرملا یہ کہہ گئی ہے دوستو!

پیار کی دولت نہیں ہے عام کرنے کے لیے

حیرت سے دیکھتا ہے پلٹ کر مِرا جنوں

یہ کس نے اُس کو چوم لیا اور مر گیا

وہ شخص باخبر تو ہے میرے ملال سے

آنے کا اُس کے پاس مگر راستہ نہیں

اُس کو جانے کی جلدی تھی ورنہ میں بھی

آخر اِک دن اُس کے دل کو بھا سکتا تھا

میرا فن بھی ایک جدائی مانگ رہا تھا

ورنہ جانے والا واپس آ سکتا تھا

میں ہنر میں طاق تھا یا اُس کا پیکر موم تھا

میرے ہاتھوں میں کھلا تو میرے جیسا ہو گیا

کیا خبر تھی اِس طرح رستہ جُدا ہو جائے گا

وہ ہمیشہ کے لیے مجھ سے خفا ہو جائے گا

دھڑکنوں سے آج کیسی پھوٹتی ہے یہ صدا

دل بڑا ویران ہے، کیا حادثہ ہو جائے گا

رہینِ بخیہ گر تو ہے مگر ملحوظ خاطر ہو

مِری دستار کو تم نے کبھی ململ نہیں کہنا

محبت اضطرابِ زندگی کے ساتھ پلتی ہے

سکونِ دل کو ناصر مسئلے کا حل نہیں کہنا

ناصر ملک کی شاعری میں تاریخ اسلامی سے خوبصورت اور معنی خیز تلمیحات ہی بھی ملتی ہیں۔

لہو نے روک رکھی ہیں یزیدِ وقت کی راہیں

زمانہ کس طرح روکے مجھے خیمے لگانے سے

کھٹکتا ہوں میں فرعونِ جہاں کی سرخ آنکھوں میں

مگر ٹلتا نہیں پھر بھی غریبوں کو جگانے سے

ناصر ملک کا شمار ان شعراء میں ہوتا ہے جن کی شاعری زندگی کے ہمہ جہت مسائل آرزوؤں، امنگیں اور احساس و جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ موجودہ دور میں وہ ایک عظیم شاعر و فنکار کی حیثیت سے ہماری اردو کی میراث کا حصہ ہے اور مسلسل اردو شعر و ادب کی خدمت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ عالمی ادب کے اعلیٰ سے اعلیٰ پیمانے پر ان کی شاعری کو پرکھیں تو وہ اس میں کھڑی اتریں گی۔ وہ دن دور نہیں جب گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کے نصاب میں ان کی شاعری مطالعہ میں رکھی جائے گی۔

٭٭٭

 

ایک اور ادبی تحریک کی ضرورت

    یہ دور جس میں ہم جی رہے ہیں مسلسل ٹوٹتے بکھر تے افکار و خیالات کا منبع عظیم ہے۔ اس دور  کی سب سے بڑی خوبی یا خرابی یہ ہے کہ اب سرحدوں کی طرح اقدار بھی سکڑ کر چھوٹے بو گئے ہیں تہذیبوں نے اپنی رنگت تبدیل کر لی ہے حقائق و فکشن کا فرق معدوم ہو گئے ہے انسانیت کے جو اعلیٰ مدارج کتابوں میں درج ہیں ان کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں سیاست اور ادب میں فرق مشکل ہے کیونکہ اب ادبی سیاست ہو رہی ہے اور سیاست کو ادب بنانے کا رجحان عام ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ معاشرے میں یہ انتشار پہلی دفعہ بر پا ہوا ہے ایسا پہلے بھی اور تقریباً ہر دور میں ہو تا رہا ہے لیکن پہلے کے دور میں اور آج میں یہ بنیادی فرق ہے کہ پہلے کوئی نہ کوئی گروہ حق گوئی و بے با کی کے لئے ضرور بچ جا تا تھا اس دور میں ایسا ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا مغربی استعماریت نے ہماری تہذیب کے سارے کس بل نکال دئے اور اب ہمارے گھروں میں ہی ہماری تہذیب کو گالیاں دینے والے نشو نما پا رہے ہیں ایسے میں بار بار ذہن میں یہ بات اٹھتی ہے کہ کیا اس دور میں کسی تحریک کی ضرورت نہیں ؟ لیکن پھر یہ سوال سامنے آ کھڑا ہوتا ہے کہ اس دور میں کوئی سجاد ظہیر کہا سے آئے گا جو انگلینڈ میں بیٹھ کر زمانۂ طالب علمی میں ہندوستان کے ادبی صورت حال پر فکر مند ہو گا۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ چند طالب علموں کے اس گروہ نے جو کام کیا کیا آج بڑے بڑے ادار ے مل کر وہ کام کر پا رہے ہیں ہمیں غور کر نا پڑے گا کہ آخر وہ کیا عوامل تھے جس نے اردو ادب کے منظر نامے میں اتنی بڑے تبدیلی پیدا کر دی ترقی پسند تحریک نے پہلے بار ادب کو سیاست قریب کیا لیکن وہ سیاست بھی کیسی جس سیاست کے ذریعہ عام انسانوں کا استعمال ہو رہا تھا کمزور دن بہ دن کمزور ہو تے جا رہے تھے اور مغربی استعماریت اپنے شہر پناہ کو مزدور کے خون سے سرخ کر نے میں لگی تھی حیرت تو اس پر بھی ہو تی ہے کہ ہمارے ادب اس دور میں بھی شاعری کی اس ڈگر سے ہٹنے کو تیار نہیں تھا ترقی پسند تحریک نے لوگوں کے دل بدل دئے ذہن میں توانائی پیدا کی اور لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ہمارے آس پاس جو ہو رہا ہے اسے نہیں ہو نا چاہئے۔ میرا یہ مضمون ترقی پسند تحریک سے متعلق شاعروں کے نمائندہ نظموں کی ایک جھلک پیش کر تا ہے تاکہ ہم غور کر ے کہ کیا جو مسائل اس دور میں ہمارے معاشرے کو تھے کیا وہی مسائل آج بدلی ہوئی شکل میں ہمارے سامنے نہیں ہیں ؟

افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ اس دور میں جب ترقی پسند تحریک کی شروعات ہو ئی تو لوگ اس حقیقت سے آشنا تھے کہ حق کیا ہے اور عام عوام کو ضرورت کس چیز کی ہے۔ اچھے اور برے کی تمیز سے لوگ واقف تھے لیکن آج ہمارے ادبا و شعراء بھی امریکی استعماریت کے پینشن یافتہ ہیں ایسے میں یہ راستہ اور زیادہ گزار ہے۔ آئیے پہلے ترقی پسند تحریک کے زیر اثر کی جانے والی شاعری کا ایک بار آموختہ کریں۔

     واضح ہو کہ ترقی پسند مصنفین کی پہلی کل ہند کانفرنس 1936میں لکھنؤ میں منعقد ہوئی اور اس کانفرنس کے صدارتی خطبے میں پریم چند نے کہا کہ:

’’ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو، آزادی کا جذبہ ہو، حسن کا جوہر ہو، تعمیر کی روح ہو جو ہم میں حرکت، ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے۔ سلائے نہیں کیونکہ اب اور زیادہ سونا موت کی علامت ہے‘‘

پریم چند نے یہ خطبہ یوں ہی نہیں دیا تھا 1936کے بہت پہلے 1874میں جب محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی نے موجود شعری منظر نامے میں صنفِ نظم کو متعارف اور مقبول بنانے کی مہم شروع کی تھی تو کہا تھا کہ:

’’اردو شاعری میں کچھ مضامین عاشقانہ ہیں جس میں کچھ اصل کا لطف بہت سے ارمان، اس سے زیادہ ہجر کا رونا شراب، ساقی، بہار، خزاں، فلک کی شکایت اور اقبال مندوں کی خوشامد ہے۔ یہ مطالب بھی بالکل خیالی ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ایسے پیچیدہ اور دور دور کے استعاروں میں ہوتے ہیں کہ عقل کام نہیں کرتی۔ وہ اسے خیال بندی اور نازک خیالی کہتے ہیں اور فخر کی مونچھوں پر تاؤ دیتے ہیں۔ ‘‘

یعنی ایک نئی توانا آواز کی ضرورت محسوس کی جانے لگی تھی جو ادب و شعر کے منجمد سطح کو لہراتی ہوئی موجوں میں تبدیل کر دے۔

1936 میں جس ترقی پسند مصنفین کی بنیاد پڑی اور آگے چل کر جس نے ترقی پسند تحریک کی شکل اختیار کی اس تحریک سے جڑے لوگوں کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ ادب کو ہتھیار کی طرح استعمال کرنے کی ضرورت ہے اسے نیند کی گولی نہ بننے دیا جائے۔

لہٰذا انھوں نے فکری تبدیلی اور مواد پر زیادہ زور دیا اور اسلوب یا STYLEکو ثانوی حیثیت دی۔ انھوں نے اظہار کے لیے آسان اور عام فہم الفاظ کا انتخاب کیا وہ اپنی بات کو ایک عام آدمی تک پہنچانا چاہتے تھے اور اس میں انھیں زبردست کامیابی بھی ملی۔ ترقی پسند شعرا نے عوامی زندگی کے مسائل کو اپنا موضوع بنایا۔ ان کی نظموں اور غزلوں میں سیدھی سچی بات عام فہم انداز میں خطابت کے لہجے میں بیان ہوتی تھی جس سے عوام دشمن طاقتوں کا پردہ بھی فاش ہو اور عام لوگ اس کے حقیقی چہرے سے آشنا ہو کر اس سے نفرت بھی کرنے لگیں۔

رعد ہوں، برق ہوں، بے چین ہوں پارہ ہوں میں

خود پرستار، خود آگاہ، خود آرا ہوں میں

گردنِ ظلم کٹے جس سے وہ آرا ہوں میں

خرمنِ جود جلا دے وہ شرارہ ہوں میں

میری فریاد پر اہلِ دول انگشت بہ گوش

لا تبر خون کے دریا میں نہانے دے مجھے

سرِ پُر نخوتِ اربابِ زماں توڑوں گا

شورِ نالہ سے درِ ارض و سما توڑوں گا

ظلم پرور روشِ اہلِ جہاں توڑوں گا

عشرت آباد کا امارت کا مکاں توڑوں گا

توڑ ڈالوں گا میں زنجیر اسیران قفس

دہر کو پنجۂ عشرت سے چھڑانے دے مجھے

(’’باغی‘‘ مخدوم محی الدین)

فیض احمد فیض کو ترقی پسند شاعروں میں اولیت حاصل ہے ان کی آواز میں مخدوم والا طنطنہ تو نہیں لیکن ان کی نظموں کو پڑھ کر اندرونِ دل سے ایک آہ ضرور نکلتی ہے اور سننے والا ظلم اور ظالم دونوں کا دشمن ہو جاتا ہے۔

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم

ریشم و اطلس و کمخواب میں بنوائے ہوئے

جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم

خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے

جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے

پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے

اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجیے

یہ وہ دور ہے جب پورے ہندوستان میں آزادی کی لڑائی زوروں پر ہے اور انگریز اس جدو جہد کو کچلنے کے لیے اپنی پوری طاقت کا استعمال کر رہے ہیں جہاں ایک طرف نوجوانانِ ہند ان کی گولیوں سے چھلنی ہو کر وطن کی مٹی کو سرخ کر رہے ہیں وہیں ترقی پسند شعرا اپنی شاعری سے ان میں جوش و ولولہ پیدا کر رہے ہیں۔ انھیں اپنی محبوبہ عزیز ہے لیکن جدو جہد کی قیمت پر نہیں۔ یہی وہ نمایاں تبدیلی ہے جو ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر اردو شاعری میں ہوئی اور شاعری نے اپنے عہد کے مسائل سے رشتے استوار کر لیے۔ ان کی شاعری میں نہ صرف ملک کے مسائل بلکہ بین الاقوامی مسائل بھی بڑے اہتمام سے داخل ہوئے اور ادب کا حصّہ بن گئے۔ فیض کی شاعری میں افریقہ ہو کہ ہندوستان فلسطین ہو کہ بیروت ظلم کی چکّی جہاں بھی چلتی ہے فیض کا دل پستا ہے اور وہ چیخ پڑتا ہے۔ بیروت کے حوالے سے فلسطینی بچے کی لوری سنیے۔

مت رو بچے

رو رو کے ابھی

تیری امّی کی آنکھ لگی ہے

مت رو بچے

کچھ ہی پہلے تیرے ابّا نے

اپنے غم سے رخصت لی ہے

مت رو بچے

تیرا بھائی اپنے خواب کی تتلی پیچھے دور کہیں پردیس گیا ہے

مت رو بچے

تیرے آنگن میں

مردہ سورج نہلائے گئے ہیں، چندر ماں دفنائے گئے ہیں

امّی ابّا باجی بھائی

چاند اور سورج

روئے گا تو اور بھی تجھ کو رلوائیں گے

تو مسکائے گا تو شاید

سارے اک دن بھیس بدل کر تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے

جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ ترقی پسند شعرا کے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ عوام کو عوام کی زبان میں ان کے اپنے ہی دکھوں سے آگاہ کر دیا جائے تاکہ وہ کسی الجھن کا شکار ہوئے بغیر اپنے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار ہو جائیں فیض کی ایک اور نظم دیکھیں۔

جب دکھ کی ندیا میں ہم نے

جیون کی ناؤ ڈالی تھی

تھا کتنا کس بل بانہوں میں

لوہو میں کتنی لالی تھی

یوں لگتا تھا دو ہاتھ لگے

اور ناؤ پورم پار لگی

ایسا نہ ہوا ہر دھارے میں

کچھ ان دیکھی مجدھاریں تھیں

کچھ مانجھی تھے انجان بہت

کچھ بے پرکھی پتواریں تھیں

اب بھی چاہو چھان کرو

اب جتنے چاہے دوش دھرو

ندیا تو وہی ہے ناؤ وہی

اب تم ہی کہو کیا کرنا ہے

اب کیسے پار اترنا ہے

جب اپنی چھاتی میں ہم نے

اس دیس کے گھاؤ دیکھے تھے

تھا ویدوں پر وشواس بہت

اور یاد بہت سے نسخے تھے

یوں لگتا تھا بس کچھ دن میں

ساری بپتا کٹ جائے گی

اور سب گھاؤ بھر جائیں گے

ایسا نہ ہوا

کہ روگ اپنے کچھ ایسے ڈھیر پرانے تھے

وید ان کی ٹوہ کو پانہ سکے

اور ٹوٹکے سب بیکار گئے۔

(’’تم ہی کہو کیا کرنا ہے‘‘ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘)

اب ان نظموں کی کوئی کیا تشریح کرے سب کچھ صاف اور سیدھی دل میں اتر جانے والی شاعری مخدوم اور فیض کے علاوہ ترقی پسند شاعری کو معیار بخشنے میں مجاز، مجروح، علی سردار جعفری، جوش ملیح آبادی، کیفی اعظمی، ساحر لدھیانوی، سلام مچھلی شہری، عزیز قیسی، جاں نثار اختر، احمد ندیم قاسمی، وامق جونپوری، احسان دانش اور معین احسن جذبی وغیرہ اہم نام ہیں۔

ان شعرا میں مجاز نے ترقی پسند تحریک کے اوائل عمری میں ہی اسے اپنا سب کچھ دے دیا ان کی نظم ’’انقلاب‘‘ کا یہ بند دیکھیں :

چھوڑ دے مطرب بس اب للہ پیچھا چھوڑ دے

کام کا یہ وقت ہے کچھ کام کرنے دے مجھے

تیرے ہی نغمے سے وابستہ نشاطِ زندگی

بزمِ ستی کا مگر کیا رنگ ہے یہ بھی تو دیکھ

ہر زباں پر اب صلائے جنگ ہے یہ بھی تو دیکھ

آ رہے ہیں جنگ کے بادل وہ منڈلاتے ہوئے

آگ دامن میں چھپائے خون برساتے ہوئے

یا پھر ان کی نظم سرمایہ داری کا یہ بند:

یہ اپنے ہاتھ میں تہذیب کا فانوس لیتی ہے

مگر مزدور کے تن سے لہو تک چوس لیتی ہے

غریبوں کا مقدس خون پی پی کر بہکتی ہے

محل میں ناچتی ہے رقص گاہوں میں تھرکتی ہے

بظاہر چند فرعونوں کا دامن بھر دیا اس نے

مگر کل باغِ عالم کو جہنم کر دیا اس نے

(سرمایہ داری)

ترقی پسند تحریک کے زیر اثر جو شاعری ظہور پذیر ہوئی اس شاعری نے اردو شاعری کو بین الاقوامی شاعری کے شانہ بشانہ کھڑا کر دیا۔ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کے بانی سید سجاد ظہیر جب بٹوارے کے پاکستان چلے گئے اور وہاں ترقی پسند تحریک کا جھنڈا بلند کیے رہے تو یہاں ہندوستان میں علی سردار جعفری نے ترقی پسند تحریک کی کمان سنبھالی۔ مخدوم اور فیض کے بعد سردار جعفری کی شاعری نے بھی اردو شاعری کے دامن کو مضامینِ نو سے پُر بہار کیا ان کی صرف ایک نظم جمہور کا یہ بند نہیں۔

یہ ہندوستاں رشکِ خلدِ بریں

اگلتی ہے سونا وطن کی زمیں

کہیں کوئلہ اور لوہے کی کان

کہیں سرخ پتھر کی اونچی چٹان

یہ گنگا کا آنچل یہ جمنا کا ریت

یہ دھان اور گیہوں کے شاداب کھیت

ہمارے مقدر میں افلاس ہے

غلامی کی ہر جسم میں باس ہے

کہیں ماؤں بہنوں کا بے مول تول

کہیں بے حیائی کے بجتے ہیں ڈھول

سردار جعفری کی نظم ہاتھوں کا ترانہ، اودھ کی خاکِ حسیں، مشرق و مغرب، ایشیا جاگ اٹھا ایسی نظمیں ہیں جنھیں پڑھ کر ترقی پسند تحریک کے افکار و نظریات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کا اردو زبان و ادب پر بڑا احسان یہی ہے کہ اس نے اردو کے شعرا و ادبا کو سوچنے اور سمجھنے کے لیے ایک زندگی کا ایک بہت بڑا کینوس دیا اور ہم نے دیکھا کہ آزادی کے بعد سے آج تک اردو کے شعرا نے جس طرح زندگی کے ہر رنگ کو شعری سانچے میں ڈھال کر ہمارے سامنے پیش کیا اس کی وجہ وہی ویژن ہے جو ترقی پسند تحریک نے ہمیں ودیعت کی تھی۔آخر میں ایک بات بتاتا چلوں کہ اس ترقی پسندی نے ہندوستانی فیچر فلموں پر بھی اپنے اثرات مرتب کیے ہیں آپ چند ناموں سے تو واقف بھی ہیں ان میں کیفی اعظمی ایک اہم نام ہے جنھوں نے اپنی پوری زندگی ترقی پسند تحریک کے لیے وقف کر دی، فلموں کے گانے لکھے لیکن وہاں بھی اپنی بات کہنے سے نہ چوکے اس بات سے کسے انکار ہو گا کہ :

کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو

اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو

کو سن کر بڑے بڑے پتھر دل انسان کی آنکھیں بھی آنسو بہانے لگتی ہیں اور جب وہ کہتے ہیں زندہ رہنے کے موسم بہت ہیں مگر

جان دینے رُت روز آتی نہیں

حسن اور عشق دونوں کو رسوا کرے

وہ جوانی جو خوں میں نہاتی نہیں

آج دھرتی بنی ہے دلھن ساتھیو

اب تمھارے حوالے وطن ساتھیو

کھینچ دو اپنے خوں سے زمیں پر لکیر

اس طرف آنے پائے نہ راون کوئی

توڑ دو ہاتھ اگر ہاتھ اٹھنے لگے

چھونے پائے نہ سیتا کا دامن کوئی

رام تم ہی تم ہی لکشمن ساتھیو

اب تمھارے حوالے وطن ساتھیو

یا پھر وہی شاعر آزادی کے بعد کے ہندوستان کو دیکھ کر پکار اٹھتا ہے۔

ہاتھوں میں کچھ نوٹ لو پھر چاہے جتنے نوٹ لو

کھوٹے سے کھوٹا کام کرو باپو کو نیلام کرو

باپو باپو کرتے رہو نہ ہر دلوں میں بھرتے رہو

پرانت پرانت کو تنگ کرے بھاشا سے بھاشا جنگ کرے

سب کو چاہیے اپنی زمیں ہندوستانی کوئی نہیں

یا پھر

وقت نے کیا کیا حسیں ستم

تم رہے نہ تم ہم رہے نہ ہم

جائیں گے کہاں سوجھتا نہیں

چل پڑے مگر راستہ نہیں

کیا تلاش ہے کچھ پتا نہیں

بن رہے ہیں دل خواب دم بدم

ترقی پسند شعری سر مایہ کا یہ نمو نہ آپ کے سامنے ہے کیا اب بھی یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے عہد میں اس پوری دنیا کو امریکی سامراجیت نے جس طرح تہہ و بالا کر نے کا ارادہ کر لیا ہے اور کر تی چلی جا رہی ہے اس کو دیکھ کر اردو ادب میں پھر  ایک زبردست تحریک کی ضرورت ہے تا کہ آنے والی نسل شعرو ادب کی اہمیت کا اقرار کر ے۔ یقیناً آج امریکہ نے سکندر کی طرح پوری دنیا پر اپنا قبضہ کر نے کا منصوبہ ہی نہیں بنا یا بلکہ اس پر عمل شروع کر چکا ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ترقی پسند تحریک کے ادب سے روشنی لے کر ہم اس امریکی سامراجیت کے خلاف ادب کا محاذ قائم کریں ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہمارا سارا اقدار ہمارے ساری تہذیب ہمارا سارا دبی سر ما یہ، ہمارا اخلاق و کر دار ملیا مٹ کر دیا جائے گا۔

٭٭٭

 

ایک تبسم آفریں قلم کار خالد محمود

ہر کس و ناکس پہ کر لیتا ہے فوراً اعتبار

با خبر کتنا ہے خالد بے خبر ہوتے ہوئے

ایک زمانہ تھا اردو شعر و ادب کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اردو شاعری میں گل و بلبل اور لب و رخسار کی باتیں ہی قلمبند کی جاتی ہیں۔ اسی طرح اردو ادب عشقیہ داستانوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ لیکن گزشتہ صدی میں اس سلسلے میں غیر معمولی تبدیلیاں آئی ہیں اور اب اردو شعر و ادب میں زندگی کے سلگتے مسائل سے بھی بحث کی جا رہی ہے۔ خالد محمود اس نشاۃ ثانیہ کے علمبردار ہیں۔ اس کے باوجود ہو سکتا ہے کہ اردو ادب میں زندگی کے سنجیدہ مسائل پر بحث کی مزید گنجائش نکل سکتی ہے۔ اس سباق میں تفصیلی گفتگو کے لیے ایک الگ با ب اور اجلاس درکار ہے لہٰذا اس موضوع کو محفوظ کرتے ہوئے میں خود کو اصل گفتگو کی طرف رجوع کرنا چاہوں گا جو میرے گفتگو کا محور و مرکز ہے۔ اردو اس وقت دنیا کی چند بڑی زبانوں میں سے ایک ہے یونیسکو کے اعداد و شمار کے مطابق عام طور پر سمجھی اور بولی جانے والی زبانوں میں چینی اور انگریزی کے بعد دنیا کی یہ تیسری بڑی زبان ہے۔اردو اپنی شکلیں زبان کے فطری ارتقاء اور فطری تغیر کے تحت بدلتی رہتی ہے۔ مختلف ادوار نے اسے مختلف ناموں سے پکارا ہے۔اردو کی سب سے قدیم شکل زبان دہلوی ہے جو زبان دہلوی کہلائی۔ اس طرح اپ بھرنشاؤں کے دور میں ریختی، کھڑی، لشکری، ہندی، ہندوستانی وغیرہ سے ہوتے ہوئے اردو کی شکل میں مشہور ہو گئی۔ اردو کی فیلو لوجی یا اس لفظ کا سائنٹفک مطالعہ حتمی طور پر نہیں ہو سکا ہے، لیکن اب تک جو معلومات فراہم ہوئی ہیں اس کے تحت علامہ آئی آئی قاضی کے مطابق ’’ لفظ اردو اڑدو کو اپنی روزانہ بوک چال میں ڈھیر یا بہت سی چیزوں کے جمع کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ‘‘پنڈت دتاتریا کیفی کے مطابق اردو کا لفظ اصلاً سنسکرت کا بھی ہو سکتا ہے۔ یہ لفظ ارداؤ سے نکلا ہے ار کے معنی ہیں دل اور داؤ کے معنی دو۔ چونکہ یہ زبان ہندو مسلم تہذیب کے ملاپ سے وجود میں آئی اس لیے اس کا نام ارداؤ یعنی دو دلوں کو ملانے والا پڑ گیا۔ مغل بھی اس زبان کو اردو کہہ کر پکارتے تھے جس کے معنی لشکر کے ہیں۔ ہندوستان کی تمام زندہ زبانوں میں اردو وہ زبان ہے جس کا لسانی سر مایہ تقریباً سبھی زبانوں میں ملتا ہے۔میرا منشاء اردو کی پیدائش کے مختلف نظریات پر رائے زنی کرنا نہیں ہے البتہ اردو کی نئی بستیوں پر بات کرتے وقت اب یہ کہنا پڑتا ہے کہ اردو کا کوئی خاص علاقہ نہیں ہے مسعود حسن خان کے نظریات سے مجھے قطعی اختلاف نہیں لیکن کسی خاص خطے کو اردو کی جگہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔

جیسا کہ مندرجہ بالا فقروں میں عرض کیا جا چکا ہے کہ ملک و قوم کی ترقی کے لیے کتابوں کا مطالعہ نہایت ہی ضروری ہے۔ علم سے ذہنی ترقی ہوتی ہے۔دل و دماغ کے دروازے شگفتہ اور وا ہوتے ہیں۔ ذہن میں جدید نئے گو شے کھلتے ہیں جو عصری تقاضے کو سمجھے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ دماغ میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ اور ذہنی معیار بلند ہوتا ہے۔جس سے بالآخر پوری قوم کا ذہن روشن اور بالیدہ ہوتا ہے اور ہم ایک اچھے انسان اور مثالی شہری بن جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کتابوں کے مطالعہ کی عادت بڑے بڑے مفکروں کے تحریک اور خاص طور سے بابائے تعلیم سر سید کی تحریک کے بعد بھی ابھی تک عام نہیں ہوا۔ اس کی بہت سی وجہیں ہیں۔ جن میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دانشوروں اور پڑھے لکھے طبقوں کو کتاب خریدنے کی عادت نہیں ہے۔شاید اس لیے کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم کا اوسط بہت کم ہے۔ جس کے ازالہ کے لیے فی زمانہ حکومت ہند کے ساتھ ساتھ چھوٹے بڑے معاشرتی تنظیم مثلاً راشٹریہ سیوک سنگھ اور دوسرے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے حکمت عملی کے ساتھ دل دام سخن تعلیم کو عام کرنے کے لیے شب و روز سرگرم اور سر گرداں ہیں۔ جو تعلیم کی جانب رجوع کرنے کے حوالے سے ایک امید افزا علامت ہے۔ جہاں کتابیں لکھنے، خریدنے اور پڑھنے کا ماحول پیدا ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اچھی کتابیں لکھنے اور پڑھنے خریدنے سے انسانی زندگی میں اشتراک کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔جو عالمی اتحاد اور انسان دوستی کی سند اور ضمانت ہے اور بین الاقوامی لحاظ سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے علمی خزانے کا احساس اور انداز ہوتا ہے۔ جو عالمی سطح پر امن و آشتی اور قومی یکجہتی کو بحال کرنے میں کلیدی رول ادا کرتا ہے۔اس کی ضمانت دنیا کا سب سے بڑا انقلاب صنعتی انقلاب کے بطن سے پیدا شدہ مثبت اقدار پر محیط مختلف تحریکات ہیں۔ پروفیسر خالد محمود کی کتاب اس قبیل کی ایک شاہکار کڑی ہے۔

عہد حاضر میں شعر و ادب کا منظر نامہ چند ادبی چہروں کی روشنی سے منور اور تاباں نظر آتا ہے ولی سے لیکر میر تقی میر اور غالب سے اقبال، جگر اور فانی تک چند نام ادب میں ستاروں کی مانند نظر آتے ہیں ایسے ہی ناموں میں خالد محمود کا نام شامل ہی نہیں ہے بلکہ سنگ میل کا حکم رکھتا ہے ان کا میدان تحقیق، تنقید اور شاعری ہے۔ اس موضوع پر موصوف کی تقریباً دو درجن سے زیادہ کتابیں شائع ہو کر قبول عام حاصل کر چکی ہیں۔ مزید یہ کہ موصوف شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں صدر شعبہ ہیں اور پچھلے دو دہائیوں سے تعلیم و تدریس کی خدمت انجام دے رہے ہیں ساتھ ہی باقاعدہ فکشن کے موضوع پر تحقیق بھی کر رہے ہیں ان کی بے شمار تخلیقات اسی تجربے اور تحقیق کا نتیجہ ہیں موصوف کی شخصیت اردو ادب میں اپنا ایک منفرد مقام بنا چکی ہے  وہ نقاد ہی نہیں بلکہ ادبی صحافی، مترجم اور محقق کی حیثیت سے بھی مشہور و معروف ہیں ڈاکٹر موصوف اس عہد کی وہ عظیم شخصیت ہیں جنھوں نے مردہ ادبی شریعت کی جسم میں نئی روح پھونکی ہے۔ وہ ہماری معاشرتی، تہذیبی اور ادبی زندگی میں نشاۃ ثانیہ کا عظیم سبب ہیں ان کی نظر ہما رے عہد کے ادبی اسالیب وہ فکریات پر اعتبار کا درجہ رکھتی ہے انہوں نے تعلیم و تدریس تک ہی خود کو محدود نہیں رکھا ہے بلکہ اپنے عہد کے تمام علمی اور ادبی سر گرمیوں کے لیے ایک ترقی پسند متحرک اور فعال حلقہ پیدا کیا ہے یہ حلقہ کہکشاں ہائے ادبا و شعرا ء کے ارفع و اعلیٰ انجمن ہیں اور اس کے گر د اردو دنیا کے بہترین دماغ جمع ہیں جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ مو صوف کی ادبی زندگی دو دہائیوں پر محیط ہے ان کا عظیم اور دیر پا کارنامہ وافر تعداد میں ہمارے سامنے ہے اور فی زمانہ کئی کتابیں زیر طبع ہیں شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا جہاں بھی رہیں گے مو صوف کے لیے احترام و شکر کے جذبات ہمیشہ سرشار رہیں گے۔

میرے لئے یہ بہت بہتر خبر ہے کہ اردو زبان کے اندر قومی شعور کے اجزا تلاش کرنے کا  سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ جڑوں سے کٹے ہوئے اس پورے معاشرے میں جس طرح کی بے ضابطگی اور انتشار کا پھیلاؤ ہوا ہے اس کو نظر میں رکھتے ہوئے اب یہ نا گزیر ہو گیا ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں موجود تمام تہذیبی سلسلوں کو از سرِ نو دریافت کریں اور ان کے اندر قوم کی فلاح سے متعلق نکتوں کو وضاحت کے ساتھ ادبی میراث کا حصہ بنائیں تاکہ اردو ادب ہندوستانیوں کو ایک مشترکہ کلچر اور تہذیب کا خاکہ پیش کر سکے۔اس کوشش میں راقم کس حد تک کامیاب ہو سکا ہے اس کا فیصلہ قارئین کے سپرد کرتے ہوئے شمع خراشی اور قلم فرسائی کرنے کی جسارت کروں گا۔

انشائیہ کے تقریباً وہی مفہوم و معنی سمجھے جاتے ہیں جو انگریزی کے لفظ ’’ESSAY‘‘ سے مراد ہے۔ ناول اور افسانہ کی طرح ’’ انشائیہ‘‘ بھی مغربی ادب کے اثر سے وجود میں آیا۔ ’’ انشائیہ ‘‘ کی بندھی ٹکی کوئی ایک مخصوص تعریف نہیں ہے انشائیہ ذہنی پرواز کی اپج خیالات کی بلندی اور ذاتی تاثرات کو فنی انداز میں پیش کر نے کا نام ہے انشائیہ کا لکھنے والا اس کا خیال رکھتا ہے کہ اس میں علمیت یا افکار و مسائل کا بیان نہ صرف تخلیقی طور پر ہو بلکہ اس کی عبارت ادبی چاشنی شگفتگی، تاثر اور مزاح سے بھر پور ہوتا کہ قاری اس کو پڑھ کر ذہنی آسودگی کے ساتھ ساتھ قلبی مسرت بھی محسوس کرے۔ انشائیہ کے پرواز کا کمال یہ ہے کہ وہ آزاد خیالی کے ساتھ بات میں بات پیدا کرتا ہوا اپنے مضمون کو نئے نقط نظر اور نئی روشنی کے ساتھ دلچسپ انداز میں پیش کرے۔ اردو ادب میں ’’ انشائیہ‘‘ کا آغاز سر  سید کے ان مضامین سے ہوتا ہے جو انھوں نے اپنے رسالہ تہذیب ا لاخلاق میں لکھے۔انشائیہ میں مذہبی، سماجی، اخلاقی، علمی اور سیاسی غرض سب طرح کے مضامین لکھے جا سکتے ہیں۔ اردو انشائیہ کا مستقبل روشن ہے۔

          اردو ادب میں فرحت اللہ بیگ حسن نظامی اور رشید احمد صدیقی کا نام خاکہ نگاری کے لیے  بہت مشہور ہے۔ خاکہ انگریزی لفظ اسکیچ کا ہم معنی لفظ ہے۔ خاکہ ایک ایسی نثری صنف ہے جس میں کسی شخصیت کی تصویر کشی  لفظوں میں کی جاتی ہے جس شخص کا خاکہ لکھا جاتا ہے اس کی جیتی جا گتی تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ خاکہ نگاری کا مقصد کسی شخص کی سیرت کے نمایاں پہلوؤں کو اس طرح بیان کرنا ہے کہ قاری اس سے اچھی طرح واقف ہو جائے۔ اور اس مخصوص شخصیت اور قاری کے درمیان ایک تعلق پیدا ہو جائے۔خاکہ نگار کے لیے ضروری ہے کہ اسے اس شخصیت کا قرب حاصل ہو جس پر خاکہ لکھا جا رہا ہے تا کہ اس کی زندگی کا ہر پہلو لکھنے والے کے سامنے ہو ایک اچھا خاکہ نگار کسی شخصیت کے اوصاف اس طرح بیان کرتا ہے کہ خوبیوں کا بیان کرتے ہوئے اس سے مرعوب نہیں ہوتا  اور خامیاں بیان کرتے ہوئے ہر طرح کے تعصب سے آزاد رہتا ہے۔ اردو میں مرزا فرحت اللہ بیگ کا لکھا ہوا مولوی نذیر احمد کی کہانی۔ ’’ کچھ میری کچھ ان کی زبانی‘‘ اور عصمت چغتائی کا خاکہ ’’ دوزخی‘‘ اردو کے کامیاب ترین خاکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ’’گنجہائے گراں مایہ‘‘ میں رشید احمد صدیقی نے بعض اہم شخصیتوں کے نہایت دل کش خاکے لکھے ہیں اردو کے معروف خاکہ نگاروں میں مولوی عبد الحق شاہد احمد دہلوی، سعادت حسن منٹو کے نام بہت اہم ہیں۔

           افسانہ، اور رپورتاژ کی طرح خاکہ و انشائیہ نگاری بھی اردو میں دور جدید کی پیدا وار ہے۔ مولانا محمد حسین آزادؔ کی تصنیف آب حیات  میں اسکی عمدہ مثالیں مل جائیں گی ہر چند کے آب حیات میں اردو  شعراء کا تذکرہ ہے، لیکن شعراء کرام کے فن پر روشنی ڈالتے ہوئے محمد حسین آزادؔ نے ان کی شخصیتوں کے جو خاکے کھینچے ہیں وہ بے حد دلکش اور توجہ طلب ہیں۔ خاکہ اور انشائیہ نگاری کا کمال بھی یہی ہے کہ جس شخص کا خاکہ کھینچا جائے یا جس چیز پر انشائیہ لکھا جائے اس کی چلتی پھر تی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جائے، لیکن عمدہ اور معیاری خاکہ اور انشائیہ کی پہچان یہ ہے کہ اس میں شخصی خو بیاں اور خامیاں دونو ں بیان کی جائیں۔

          رشید احمد صدیقی کے بعد جدید دور میں بے شمار خاکے لکھے گئے مثلاً عصمت چغتائی، کرشن چندر، فکر تونسوی، مہندر ناتھ، سعادت حسن منٹو، سردار جعفری، باقر مہدی، پرکاش فکری، خالد محمود وغیرہ نے بے شمار خاکے و انشائیے لکھے ان خاکوں اور انشائیوں کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہو تا ہے کہ اردو میں خاکہ اور انشائیہ نگاری کی روایت بے حد شاندار معیاری اور مستحکم ہے۔

          ’’شگفتگی دل کی‘‘ خالد محمود کے انشائیوں اور خاکوں کا مجموعہ ہے۔ مصنف کے ان انشائیوں اور خاکوں میں طنز و مزاح غالب ہے۔ اس کتاب کے بیشتر مضامین ہند اور بیرون ہند کے مؤقر رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔  انہیں زبان و بیان پر پوری قدرت حاصل ہے ان کی نظر گہری اور وسیع ہے وہ محاوروں کا صحیح استعمال جانتے ہیں اور ان سے لطف پیدا کرتے ہیں۔ اپنی تحریر کو بامعنی  بنانے کے لیے الفاظ بھی معیاری استعمال کرتے ہیں۔ اس کتاب میں چونکہ زیادہ تر خاکے ایسی شخصیتوں پر ہیں جن سے وہ متاثر ہوئے یا رہے ہیں اس لئے انہوں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ صاحب خاکہ کو اپنی ظرافت کی گل افشانیاں دکھا نے کے لیے تختہ مشق نہ بنائیں۔ اس لئے عام طور پر یہ خاکے بہت مودبانہ انداز میں لکھے گئے ہیں تاہم کہیں کہیں ظرافت کے ہلکے چھینٹے ضرور نظر آ جاتے ہیں۔ ہر خاکے میں کچھ ایسا التزام کیا گیا ہے کہ ممدوح کی شخصیت پوری طرح ابھر کر سامنے آ جائے۔ ان میں سے بعض خاکے میں تو ممدوح  کی آنکھوں کے سامنے چلتا پھر تا نظر آتا ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خالد محمود ایک کامیاب خاکہ نگار ہیں۔ اردو کے کلا سیکی ادب سے ان کی واقفیت بھی اعلیٰ درجہ کی ہے وہ ایک ہی ساتھ محقق نقاد شاعر و ادیب ہیں۔

اردو کے نامور عالمی ادیب و دانشور پروفیسر مناظر عاشق ہر گانوی اپنے ایک مضمون میں پروفیسر خالد محمود کی شخصیت پر بات کرتے ہوئے مند درجہ ذیل آرا قائم کرتے ہیں۔ شخصیت اور جذبات سے بھرپور شاعر خالد محمود بھی ہیں وہ بی ایڈ ہیں اردو میں ایم اے ہیں پی ایچ ڈی ہیں ادیب کامل، منشی فاضل، فاضل دینیات ہیں اور تعلیمی، تربیتی اور تجرباتی کورسیز سے متصف ہیں وہ شاعر ہیں، مقالہ نگار ہیں، تبصرے، خاکے اور انشائیے بھی انہوں نے لکھے ہیں اس سے ان کے دماغ کے لاتعداد احساسات کا انداز ہ ہوتا ہے۔ بحیثیت غزل گو ان کی فنکاری میں تخلیقی قوت ہے اور قدروں کی صحت مندی کو برتنے میں ذکاوت کی سطح بلند ہے ساتھ ہی ایما و اشارہ میں عصری حسّیت کے نقوش ابھارنے کا ہنر وہ اچھی طرح جانتے ہیں۔

          خالد محمود کی شگفتہ تحریروں کا قائل ہر وہ شخص ہے جس نے انھیں پڑھا ہے یا سنا ہے۔ وجیہہ خدوخال کے مالک خالد محمود علمی و ادبی حلقوں میں مقبول بھی اسی لیئے ہیں کہ وہ خود بھی نستعلیق ہیں اور ان کی تحریریں بھی۔ میرے سامنے ان کی تحریروں کا یہ مجموعہ ’’شگفتگی دل کی ‘‘ ہے جس پر کچھ لکھنے سے پہلے میں یہ صاف کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ زندہ تحریریں وہی ہوتی ہیں جو آنکھوں سے  پڑھی جائیں لیکن ہر لفظ دل میں اتر جائے۔ خالد محمود اس کتاب کے حوالے سے ایک خوش اطوار، خوش اسلوب، خوش فکر اور خوش خصال قلم کار کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرتے نظر آتے ہیں لیکن دوران خوش طبعی جب  ان کا قلم سنجیدگی کی طرف مائل ہوتا ہے تو اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کو یہ جان کر یقیناً حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ پچھلے 30-20سالوں میں ادب کا مفہوم ہی بدل گیا ہے اب کسی سنجیدہ ادب کا مطلب ہوتا ہے کسی مخصوص فکر کو مشتہر کرنا جو ادبی کم سیاسی زیادہ ہو لیکن خالد محمود کی سنجیدگی ذرا دوسرے قسم کی ہے

’’یوں دیکھا جائے تو صغریٰ آپا ساٹھ سال کی تو اسی دن ہو گئی تھیں جب ان کے مربیّ اور مشفق ماموں جان (عابد صاحب ) اور ممانی جان(صالحہ آپا ) انہیں چھوڑ کر چل دیئے تھے۔ ناز برداریاں کرنے والے نہ ہوں تو انسان فوراً ساٹھ کا ہو جاتا ہے ‘‘

           (’’صغریٰ آپا وظیفہ یا ب ہو گئیں ‘‘، صفحہ33، ’’شگفتگی دل کی‘‘، خالد محمود)

          صغریٰ مہدی کی ملازمت سے سبکدوشی کے موقع پر پڑھا گیا یہ مقالہ خالد محمود کی ان حسین تحریروں میں سے ایک ہے جس میں انہوں نے شگفتہ تحریروں کو وقار عطا کر دیا ہے لیکن پورے مضمون میں اندرونِ متن ایک کرب بھی موجود ہے کہ اب شعبوں سے صغریٰ مہدی جیسے کردار رفتہ رفتہ غائب ہوتے جا رہے ہیں جنھیں وہ اپنا کلیگ نہیں بلکہ بڑی بہن کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن خالد محمود مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اپنے اس مضمون میں کہیں بھی اس ناسٹلجیا کو جملوں کے اندرون سے کسی معمولی روزن کے ذریعہ بھی جھانکنے کا موقع نہیں دیا ہے۔

چونکہ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں استاد ہیں اور شعبۂ  اردو سے وابستہ ہیں اس لیئے وہاں موجود لوگوں پر انکی نظر گہری ہے لیکن ان کی یہ گہری نظر کس قدر دور اندیش ہے اس کے لیئے ان کا مضمون ’’ ذکر اس  پری وش کا ‘‘ پڑھنا ہی نہیں چاہئے حفظ کر لینا چاہیئے تا کہ اگر کبھی بھی جامعہ ملیہ میں کسی انٹرویو سے سامنا ہو تو خالد محمود دعاؤں کے مستحق قرار پائیں۔

  ’’ جامعہ ملیہ کو ادارہ بنانے میں گاندھی جی کے علاوہ مولانا محمد علی جوہر، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، حکیم اجمل خاں اور مولانا ابوالکلام آزاد وغیرہ کے  نام لیئے جاتے ہیں اور جامعہ ملیہ کو ادارہ بنائے رکھنے میں ڈاکٹر ذاکر حسین،  پروفیسر محمد مجیب، ڈاکٹر عابد حسین اور  شفیق الرحمن  قدوائی جیسی ہستیوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یعنی یہ تمام حضرات جامعہ میں رہے تو جامعہ ادارہ  بنا۔ میری  دلیل یہ ہے  کہ یہ تمام ہستیاں مولانا محمد علی سے لے کر پر وفیسر محمد مجیب تک جامعہ میں تو اب موجود نہیں لیکن ’’ لطیف صاحب‘‘ کے  اندروں  میں  بہر حال  موجود ہیں۔ سب  کی  روحیں  عالم  ارواح  کو چلی جاتی ہیں لیکن مذکورہ  بالا حضرات کا عالم ارواح   لطیف صاحب ہیں ‘‘

          ممکن ہے بہت سے قاری عبد الطیف اعظمی کونہ جانتے ہیں لیکن یہ خاکہ اس انداز سسے انہیں متعارف کراتا ہے کہ قاری عبدالطیف اعظمی کی شخصیت اور ان کے اور صاف ظاہر ہو جاتے ہیں ان کی شخصیت کی نگاری کر کے خالد محمود نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ شخصی مضامین اور خاکے جسے بظاہر تفنن طبع کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھا جاتا۔ اس کا دائرہ جتنا چاہیں وسیع کریں شرط صرف یہ ہے کہ آپ کی ذہانت یا ذکاوت کس درجہ کی ہے۔ آپ سمجھ رہے ہونگے کہ خالد محمود صرف کڑوی گولی کو شہد میں لپیٹ کر پیش کرتے ہیں اور یہی ان کی  خوش قلمی ہے ایسا بھی نہیں ہے انھوں نے اپنی بلیغ نظری اور وسیع مطالعے سے لفظ گری کا ہنر بھی سیکھا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ شگفتہ تحریر لکھتے وقت سب سے بڑی ضرورت جس شئے کی پڑتی ہے وہ ہے ایسے الفاظ و تراکیب جو نئے بھی ہوں اور معنی کی ترسیل میں آسانی بھی پیدا کریں تقریباً چاروں خاکے اور پانچوں انشایئے میں یہ صفت موجود ہے۔ انتساب سے شروع ہو کر قلم برداشتہ تک ان کی تحریر کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اور آج کے نوجوان ادیبوں کو مطالعے کی دعوت دیتا ہے کہ ’’ دیکھئے میاں ادب کی خدمت یو ں کی جاتی ہے۔

٭٭٭

 

إ

جگن ناتھ آزاد— سوانح اور شخصیت

(25دسمبر1918۔24جولائی2004)

جگن ناتھ آزاد کا تعارف سر زمین پنجاب کے نامور شاعر منشی تلوک چند محروم کا مندرجہ ذیل شعر سے کر دیا جائے تو موصوف کی شخصیت اور نکھر جائے گی۔ جو جگن ناتھ آزاد کے والد ہیں۔

 محروم آج عالم فانی سے چل بسا

 مانگو یہی دعا کہ خدا مغفرت کرے

مذکورہ شعر محروم کا آخری شعر ہے جو انھوں نے خود کے لیے تو کہا ہے مگر یہ شعر پر بنی نوع انسان کے لیے صادق آتا ہے اور پھر قرآن صادق القول ہے کہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔منشی تلوک چند محروم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سر زمین پنجاب نے چار عظیم شخصیات کو جنم دیا جو آسمانِ ادب پر مہر و ماہ بن کر چمکیں، حکیم مشرق ڈاکٹر سر علامہ اقبال، شاعر حرّیت میلا رام وفا جانشین داغ ابو الفصاحت جوش ملسیانی اور محب وطن منشی تلوک چند محروم موصوف نے یوں تو ہر موضوع پر نظمیں لکھیں مگر ان کے فکر و نظر کا مرکز یا محور وطن اور حب وطن ہے۔ وہ قومی شاعری کے علمبردار تھے جس کی داغ بیل حالی نے ڈالی تھی۔ محروم خالصہ کالج دہلی یونی ورسٹی میں لکچرر رہے اور 75سال شعرو ادب کی خدمت کر کے یہ شیدائی وطن 6جنوری 1966کو اس دارِ فانی کو الوداع کہہ کر اپنے خالق کے جوارِ رحمت میں جا بیٹھا اور چھوڑ گئے اپنے فرزند ارجمند جگن ناتھ آزاد کو جو خود 85سال کی طویل عمر گذارنے کے بعد موت کے شکنجے سے نجات حاصل نہ کر سکے۔

موت انسانی غرورِ عقل پر کس قدر کاری ضرب ہے۔ موت عالم انسانیت کی کتنی زبردست توہین ہے۔ یہ ایک ایسی مکمل اور قطعی مایوسی ہے جس کو امید کبھی اور کسی عالم میں بھی چھو نہیں سکتی۔موت انسانی بیچارگی کا کیا ہولناک مظاہر ہے۔ یہ سچ ہے کہ اگر دو چار صدیوں میں نہیں تو ہزاروں سال کے بعد سہی، ہم ایک نہ ایک دن موت کو زیر کر کے اسے موت کے گھاٹ اتار کر دم لیں گے۔ لیکن جب تک یہ صورت حال پیدا نہیں ہوتی ہمیں چار و ناچار کو مرتے ہی رہنا پڑے گا موت یوں تو کسی کی بھی ہو قابل ماتم ہے لیکن ہمارے محبوب شاعر ماہر اقبالیات جگن ناتھ آزاد کی موت ایک ایسا زبردست سانحہ ہے جس پر صبر اور جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا اس موت نے ہمارے فقر شاہی کے اس بلوریں منارے کو منہدم کر دیا جس کے شمعِ زر پر ہلالِ عید جھمکتا اور ابرِ بہار مچلتا تھا مرحوم کی شخصیت ایسی نہیں کہ اس پر چند سطروں میں خامہ فرسائی کی جا سکے اس کے لیے ایک دفتر درکار ہے۔ صدیوں کے بعد ایسی شخصیت پیدا ہوتے ہیں۔

سالہا باید کہ یک صاحب و لے پیدا شود

جگن ناتھ آزاد ان چند مستثنیٰ شخصیات میں سے تھا جس کا تمام وجود اردو زبان و ادب میں غرق اور اس قدر غرق تھی کہ اس کی پلکوں کی جنبش اور اس کے انفاس کی آمد و شد تک ادب کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی موصوف اس دارِ فانی سے 24جولائی2004 کو رخصت کر گئے انھوں نے جیسی بھر پور اور مصروف علمی و ادبی اور ملازمتی زندگی گزاری وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوئی ہے۔وہ مختلف النوع اداروں سے وابستہ رہے۔ اور شعر و ادب کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کے یادگار نقوش چھوڑے۔

جگن ناتھ آزاد 5دسمبر1918کو عیسیٰ خیل ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے جو اب پاکستان میں ہے۔ان کے والد تلوک چند محروم اردو کے مشہور و معروف شاعر تھے۔ وہ شاعر کے ساتھ ساتھ مدرس بھی تھے۔ آزاد کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی اپنے والد کے ہاتھوں ہوئی۔ انھوں نے آزادی کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آزاد نے علمی و ادبی گھرانے میں ہی آنکھ کھولی۔ اس ماحول کا اثر یہ ہوا کہ بچپن سے ہی ادبی ذوق پیدا ہو گیا۔ ان کے والد انھیں ادبی محفلوں اور مشاعروں میں اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے اس کا فائدہ یہ ہوا کہ بچپن میں ہی اسے بہت سی نظمیں زبانی یاد ہو گئیں۔

جگن ناتھ آزاد نے 1933میں میانوالی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔1935میں ڈی۔اے۔بی کالج راولپنڈی سے انٹرمیڈیٹ میں کامیاب ہوئے اور 1937میں گارڈن کالج راولپنڈی سے بی۔اے کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے جگن ناتھ آزاد نے لاہور کا سفر کیا۔ اس وقت لاہور علم و ادب کا گہوارہ تھا اور آج بھی اس کی اپنی الگ شناخت ہے۔ جگن ناتھ آزاد نے لاہورمیں 1942میں فارسی آنرز کیا اور پھر 1944میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے فارسی میں ایم۔اے۔ کیا۔ جگن ناتھ آزاد کے ادبی زندگی کا با ضابطہ آغاز لاہور سے ہی ہوتا ہے۔ یہاں انھیں ڈاکٹر شیخ محمد اقبال، ڈاکٹر سید عبداللہ، صوفی غلام مصطفی تبسم، پروفیسر علیم الدین سالک اور سید عابد علی عابد جیسے اساتذہ سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔

جگن ناتھ آزاد کی پہلی شادی 11دسمبر1940کو ہوئی۔ ان کی بیوی کا نام شکنتلا تھا اس بیوی سے پر ملا اور مکتا دو بیٹیاں ہیں۔ شکنتلا 1946میں بیمار ہو گئیں اور خاصا علاج کے باوجود صحت یاب نہ ہو سکیں اور اسی سال ان کا انتقال ہو گیا۔ بیوی کے موت کا آزاد پر بہت صدمہ ہوا۔ انھوں نے ’’شکنتلا‘‘، ’’ایک آرزو‘‘ اور ’’استفسار‘‘ نامی نظمیں بھی لکھیں۔ 1947میں تقسیم ہند کا اعلان ہوا اور اس کے ساتھ ہی افراتفری کا ماحول پیدا ہو گیا اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو گیا، جو جہاں تھے وہیں اپنی جان و مال کی حفاظت میں لگ گئے۔ اس وقت جگن ناتھ آزاد لاہور میں اور ان کے والد تلوک چند محروم راولپنڈی میں مقیم تھے۔ باپ بیٹے کو کئی دنوں تک ایک دوسرے کی خیریت معلوم نہیں ہو سکی۔لیکن آزاد کے لیے ایک خوشی کا پہلو بھی تھا وہ یہ کہ قیام پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے ان کا قومی ترانہ نشر کیا گیا     ؎

ذرے ہیں تیرے آج ستاروں سے تابناک

اے سر زمین پاک

جگن ناتھ آزاد کے خواب و خیال میں بھی نہیں رہا ہو گا کہ جس سرزمین سے انھیں اتنی محبت ہے اسے خیر باد کہنا پڑے گا۔تقسیم وطن کے بعد ماحول اتنا خراب ہو گیا کہ آزاد نہیں چاہتے ہوئے بھی لاہور چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور ناچار دہلی آنا پڑا۔ لیکن وطن کی بے پناہ محبت اور کشش نے انھیں دوبارہ لاہور بلا لیا۔ لیکن حالات اتنے کشیدہ تھے کہ ان کے دوستوں نے انھیں واپس دہلی جانے کا مشورہ دیا اور پھر جگن ناتھ آزاد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندوستان ہو گئے۔ بعد میں اپنے والد اور خاندان کے دوسرے افراد کو بھی دہلی لانے میں کامیاب ہوئے۔

دہلی آ  کر ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ روزگار کا تھا۔ لیکن جلد ہی انھیں ’’ملاپ‘‘ میں نائب مدیر کی ملازمت مل گئی۔ اس کے بعد ایمپلائمنٹ نیوز میں ملازمت کی اور پھر پبلی کیشنز ڈویژن میں اردو کے اسسٹنٹ ایڈیٹر مقرر ہوئے۔یہاں ان کی ملاقات جوش ملیح آبادی سے ہوئی جو رسالہ ’’آجکل‘‘ (اردو) کے مدیر تھے۔ جوش ملیح آبادی کے علاوہ عرش ملسیانی، بلونت سنگھ اور پنڈت ہری چند اختر جگن ناتھ آزاد کے ہم منصب تھے۔ ان کی رفاقت سے آزادنے بہت کچھ سیکھا۔ بالخصوص جوش سے زبان کی صفائی اور باریکیاں سیکھیں۔

31جولائی 1948کو آزاد کی دوسری شادی وملا سے ہوئی۔ اس بیوی سے تین بچے ہیں سب سے بڑا بیٹا آدرس، چھوٹا بیٹا چندر کانت اور سب سے چھوٹی بیٹی پونم ہے۔

جگن ناتھ آزاد کا پہلا شعری مجموعہ ’’طبل و علم‘‘1948میں شایع ہوا۔ 1949میں دوسرا مجموعۂ کلام ’’بیکراں ‘‘ شایع ہوا۔ جگن ناتھ آزاد 1955میں پبلک سروس کمیشن میں انفارمیشن آفیسر اردو)کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1941میں آزاد نے پریس انفارمیشن بیورو کے لیے دہلی میں ایک کامیاب اردو نمائش کا اہتمام کیا۔ آزاد کے والد تلوک چند محروم 1944میں انتقال کر گئے۔ والد کی موت کا آزاد پر بہت گہرا اثر پڑا ساتھ ہی گھر کی ذمہ داری بھی ان کے اوپر آ گئی۔

1968آزاد نے ڈپٹی پرنسپل انفارمیشن آفیسر پریس انفارمیشن بیورو کے طور پر سری نگر کشمیر میں کام شروع کیا۔ وہ ڈائرکٹر پبلک ریلشنز کے طور پر 1977تک کام کرتے رہے۔1977میں ہی آزاد کو پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی کی پیش کش آئی جسے آزاد نے قبول کر لیا۔ اور 1977 سے 1983تک پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی اور ڈین فیکلٹی آف اورینٹل لرننگ جموں یونیورسٹی کے عہدے پر فائز رہے۔ 1984سے 1989تک پروفیسر ایمریٹس فیلو کی حیثیت سے شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی میں رہے اور پھر 1989سے تا حیات اسی عہدے پر فائز رہے۔ بالآخر جگن ناتھ آزاد 24جولائی 2004کو اس دار فانی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کوچ کر گئے۔ اور اپنی بے شمار یادیں چھوڑ گئے۔ آزاد نے تقریباً تمام اہم ممالک کا دورہ کیا اور علم و ادب کے چراغ کو روشن کیا۔

جگن ناتھ آزاد کی شخصیت اپنے اندر بہت سی خصوصیات سمیٹے ہوئے ہے وہ بیک وقت شاعر، ادیب، صحافی، مترجم اور نثر نگار ہیں۔ ان کی مادری زبان پنجابی تھی لیکن اردو ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ آزاد ایک انسان دوست اور خوش مزاج شخصیت کے مالک تھے، وہ ہر ایک سے بے تکلف ہو جائے تھے لیکن اپنی انفرادیت بہر حال قائم رکھتے تھے۔آزاد بہت خوبصورتی سے طنز کا نشتر چھوڑتے تھے اور ہنسی مذاق کے ذریعہ اپنے دکھ اور دوسرے کے درد کو دور کرنے کی سعی کرتے تھے کسی کی دل آزادی کرنا ان کا مقصد نہیں تھا۔ ان کے والد بھی ایک اچھے انسان تھے کم و بیش وہی خصوصیات آزاد کی شخصیت میں بھی جلوہ گر ہے۔تقسیم ہند نے ان کی شخصیت کو بہت متاثر کیا۔ بیوی کی وفات اور والد کی موت نے بھی آزاد کی شخصیت پر بڑے گہرے نقوش چھوڑے لیکن صبر و تحمل سے کام لے کر انھوں نے حالات کا سامنا کیا اور خود کو ٹوٹنے اور بکھرنے سے بچا لیا۔ آزاد کی شخصیت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہ سیکولر تھے۔ ان کی پوری شخصیت تعصب سے پاک تھی۔ آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمان جس کشمکش میں مبتلا تھے اس سے باہر نکالنے اور خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے ’’بھارت کے مسلماں ‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی۔ جسے بہت پسند کیا گیا اور علمی و ادبی حلقوں میں سراہا گیا۔بابری مسجد کے انہدام پر بھی ایک نظم لکھی۔ آزاد نے کبھی کسی کو مذہب کے آئینے سے نہیں دیکھا ان کے نزدیک انسانیت کا رشتہ ہی سب سے بڑا رشتہ ہے اور انھیں اصولوں پر وہ زندگی بھر کاربند رہے۔ آزاد صاحب کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ ان کی زندگی میں ہی ان کے علمی و ادبی کارنامے کو نہ صرف سراہا گیا بلکہ اس کا اعتراف بھی کیا گیا اور انھیں مختلف اہم اعزاز و ایوارڈ سے نوازا گیا۔ مجموعی طور پر جگن ناتھ آزاد نے ایک بھر پور اور کامیاب زندگی گزاری جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

 ٭٭٭

 

خواجہ میر درؔد کی صوفیانہ شاعری

ماہیتوں کو روشن کر تا ہے نور تیر

عیاں ہیں مظاہر، ظہور تیرا

نہیں مذکور شایاں دردؔ ہر گز اپنی مجلس میں

کبھو کچھ ذکر آیا بھی تو ابراہیم ادھم کا

          اٹھارہویں صدی (1720-1786) کی شاعری کی دیوار جن چار شعرا پر کھڑی تھی ان کا کلام صوفیانہ ہے انکے کلام میں پاکیزگی اور جذبات کے خلوص کی بہتات ہے اٹھارہویں صدی عیسوی کے تمام شعراء و ادبا اور تذکرہ نگاروں نے خواجہ میر درد کی بلیغ شعری خدمات کو فوقیت دی ہے۔ خواجہ میر درد کانا م آتے ہی ہمارے ذہن میں ایک ایسی منفرد شخصیت ابھرتی ہے جس کے درمیان تقدس، پاکیزگی اور قادر سنجیدگی کا ایک زبر دست ہا لہ ہے اس شخصیت میں اتنا تو کل صبر و ضبط اور زندگی میں کچھ کر دکھا نے کا حوصلہ تھا کہ وہ زہرہ گداز حالا ت سے بھی ہنستے کھلتے گذر گئے۔ درد کا شمار دور اول کے ارد و شاعری کے چار ستونوں میں ہوتا ہے۔ مرزا مظہر، سوداؔ، میرؔ اور دردؔ۔ دردؔ کی شاعرانہ صلاحیت اور صوفیانہ عظمت کا زمانہ معترف رہا ہے۔ ان کے فکرو فن کا ایک گوشہ ان کی شخصیت کے نور سے روشن ہے ان کے کلام بر بحث کرتے ہوئے نئے اور پرانے نقادوں نے یکساں طور پر ان کے کلام کی قدر کی ہے۔ امیر مینائی کو ان کے کلام میں بسی ہوئی تجلیوں کا گمان ہوا محمد حسین آزاد کے مطابق میر دؔرد نے اپنے کلام میں تلواروں کی آب بھر دی ہے۔

          خواجہ میر دردؔ اردو کے ان قابل احترام شاعروں میں ہیں جن کا کلام شائستگی و نفاست کیف و اثر اور فنی رکھ رکھاؤ کے اعتبار سے ایک معیاری چیز ہے۔اردو کے عام شعراء کے برخلاف وہ ایک پیشہ ور شاعر نہیں تھے۔ان کا شعری بہت مختصر اورمنتخب ہے۔انشاء، مصحفیؔ، جراتؔ اور شاہ نصیر کی طرح ان کے مجموعۂ کلام میں کوئی طویل غزل یا دو غزلے اور سہ غزلے نہیں ملیں گے۔ استادی اور کرتب دکھانے کے لئے انہوں نے سنگلاخ زمینوں میں طبع آزمائی کرنے یا الف سے لے کری تک تمام ردیفوں میں غزلیں کہنے کا التزام کبھی نہیں کیا۔ ان کے لب و لہجے میں میر کی سادگی اور گھلاوٹ ہے لیکن ان کی شخصیت میں میرؔ کی نسبت اعتدال اور توازن ہے۔میرؔ کے یہاں شکست خوردگی اور غموں کی شدید جلن ہے۔ان کی آواز میں کبھی کبھی آ جاتی ہے لیکن خواجہ میر دردؔ نے غموں کو ہضم کر کے اسے گوارا بنا لیا تھا ان کے یہاں ایک حسین سی کسک ہے جو ہم پر خوش گوار اثر چھوڑتی ہے۔ تصوف نے ان کے مزاج میں ترتیب و تہذیب پیدا کر دی تھی جس کی وجہ سے وہ ان شاعرانہ بے اعتدالیوں سے بچ گئے۔جو میرؔ کے کلیات کو ناہموار بنا دیتی ہیں۔ اور جن کی بنا ء پر ’’بلندیوں بغایت بلند اور بغایت پست‘‘ کا فقرہ ان کے لئے وضع کیا گیا۔

اپنی صوفیانہ شاعری کے علاوہ خواجہ میر دردؔ اپنی عشقیہ شاعری میں بھی اردو کے غزل گو شعراء میں منفرد ہیں۔ ان کی اس حیثیت میں سوائے میرؔ کے ان کا اور کوئی حریف نہیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ عشقیہ شاعری کے سلسلے میں ان کا تذکرہ کبھی نہیں آیا جن شعراء نے عشق و محبت کے صرف مضمون باندھے ہیں۔ ان کے اشعار کو طرح طرح کے معنی پہنانے کی کوشش کی جا تی ہے لیکن جن شاعر کے عشقیہ اشعار تاثیر سے لبریز ہیں ان پر کسی کی نگاہ نہیں جاتی۔اردو کے عام غزل گو شعراء کے یہاں عشق و محبت کے مضامین بھرے پڑے ہیں۔ لیکن ان کی حیثیت محض لطف بیان کی ہے۔سچی چاہت اور اس کا کرب اور عشق کی شدید کیفیات سے ان کے اشعار خالی ہے۔اسی لئے قدیم تذکروں میں ان کے موضوع کو چھوڑ کر ان کے طرز بیان اور فنی خوبیوں کو مختصراً زیر بحث لایا گیا ہے۔بعد میں جب ہمارے تذکرہ نگار و مورخ تفصیلات میں جانے لگے توہر شاعر کے ساتھ بعض باتیں منسوب کر دی گئیں مثلاً میر دردو غم کے شاعر ہیں اور خواجہ میر دردؔؔ تصوف و عرفان کے یہ روایت کچھ ایسی چلی کہ آنے والے لوگوں نے بھی اکثر و بیشتر انہیں بیانات   کا توں اپنا لیا ہے۔محمد حسین آزادؔ ’’آب حیات‘‘ میں خواجہ میر دردؔ کے تغزل کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’انہوں نے میر کی غزلوں پر جو غزلیں لکھی ہیں وہ میرؔ کسی طرح کم نہیں ہیں اور چھوٹی بحروں میں انہوں نے جو غزلیں لکھی ہیں ان میں تلوار کی آبداری اور نشتریت ہے، ، لیکن ان کے عاشقانہ موضوعات کا تذکرہ نہیں کرتے بلکہ ان کے تصوف پر زور دیتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ’’تصوف جیسا انہوں نے کہا اردو میں آج تک کسی سے نہیں ہوا‘‘۔ دور  حاضر کے تاریخ نگار بھی اس حد سے آگے نہیں بڑھتے۔ موجودہ زمانے کی دو مقبول عام تاریخوں میں خواجہ میر دردؔ کے بارے میں یہی تصور ملتا ہے۔

          ایک نا قد نے درد کو صوفیانہ شاعری کا سرتاج قرار دیا ہے غرض یہ کہ خواجہ میر دردؔ کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف سبھی نے کیا ہے ان کے کلام میں دل آویزی، بلند خیالی اثر انگیزی، سادگی، تقدس اور طہارت رچی بسی ہوا ہے۔ درد کی شاعری کا محور محبت ہے وہ محبت حقیقی بھی ہے اور مجازی بھی، ذات خداوندی وحدت الوجود، انسانی عظمت اور بقاء کے مضامین محبت حقیقی کے مظاہر ہیں۔ دردؔ کے کلام میں تحمل اور فکر جمیل کی وجہ سے دل کشی اور  دل آویزی تو ہے ہی ان کے مخصوص انداز بیان کے کومل اور نرم لب و لہجے نے ان کے فن میں چار چاند لگا دیئے ہیں۔ بقول رام بابو سکسینہ تصوف میں ان سے بہتر کسی نے نہیں کہا۔ عرفان و تصوف کے پیچیدہ اور دشوار گذار  مضامین کو انھوں نے بڑی خوبصورتی اور  صفائی سے باندھا اور پرویا ہے ان کی غزلوں میں زبان کی سادگی میرؔ کے کلام کی یاد دلاتی ہے۔ لیکن تصوف کی چاشنی اور درد و اثر و کلام میر سے بڑھ کر ہے بلکہ یوں کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا کہ یہی اوصاف درد کے کلام کا جوہر اعظم ہے۔ درد نے دنیاوی آلودگی سے دامن کو چھڑا کر اپنے کلام میں تصوف اور اخلاق کی چاشنی بھر دی ہے، جس کی وجہ سے ان کا کلام آسمان کی بلندی پر پرواز کر رہا ہے۔

تنقید کی دنیا میں بہت سی ایسی باتیں چل پڑتی ہیں اور زبان زدو خاص عوام ہو جاتی ہیں جن کا فی الحقیقت کوئی وجود نہیں ہوتا۔یہ بات شعرا کے کلام پر لکھی گئی تنقیدوں کے بارے میں زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔بہت سی ایسی رائیں اور فیصلے اب اس طرح مستحکم ہو چکے ہیں کہ ان پر قلم اٹھانا یا ان کی مخالفت میں کچھ لکھنا ذرا مشکل ہی ہے۔ ایسی مانی ہوئی باتیں مثلاً میرؔ کے بہتر نشر، دردؔ کا تصوف، غالبؔ کی فلسفیت فانی کی قنوطیت وغیرہ ہماری درسی اور تنقید کتابوں کا جز کا جز بن چکی ہیں پھر بھی توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسم سامری کے مصداق ہمارے عہد میں ایسی تنقیدی کوششیں کبھی کبھی ہوئیں جن میں اس طرح کے تنقیدی مفروضات کی چھان ہیں اور محاکمہ کر کے ان کی تردید بھی کی گئی۔

          خواجہ میر دردؔ کا دور افرا تفری اضطراب اور کشمکش، شور و ہنگامہ کا دور تھا۔ ایسے تو ڑ پھوڑ اور شکست و ریخت کا اثر ان کی شاعری سے چھلکتا ہو ا نظر آتا ہے ان کے یہاں صبر و استقلال توکل و استغنا موجو د ہے تصوف ان کو ورثے میں ملا تھا۔ ہستی تصوف کو انھوں نے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا انھوں نے اس دنیا کی بے ثباتی اور کم ما یٔیگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس دنیا کی حقیقت ’’ نقش بر آب سے زیادہ نہیں ‘‘ اسی طرح ان کے خیال سے متعلق شاعر مشرق علامہ اقبال کا ایک شعر ہے   ؎

اول و آخر فنا باطن و ظاہر فنا

نقش کہن ہو توہے منزل آخر فنا

 اس کے ساتھ ہی دردؔ نے انسانیت کے دردو کر ب کو محسوس کرتے ہوئے کائنات کے ہر ذرے کے غم کو اپنایا ہے۔ مثال ملاحظہ فرمائیں۔ جس میں شکست دل کی آواز سنائی دیتی ہے   ؎

جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہو گا

کہ نہ ملنے میں رو دیا ہو گا

دل زمانہ کے ہاتھ سے سالم

کوئی ہو گا کہ رہ گیا ہو گا

اتنا ہی نہیں کہ شاعر نے ایسی زندگی کو پیچ زندگی سے مشابہت دی ہے کہ یہاں پر انسان سوائے تہمت و الزام کے کچھ حاصل نہیں کر سکتا ہے  یہ گلزار ہستی فکرو فریب کا خوش نما و خوبصورت جال ہو گا  جہاں انسان ہمیشہ فریب پیہم میں مبتلا رہتا ہے۔ شعر ملاحظہ فر مائیں  ؎

تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے

 کس لئے آئے تھے ہم کیا کر چلے

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے

ہم تو اس  جینے کے ہاتھوں مر چلے

خواجہ میر درد کو صوفیانہ شاعری کا سرتا ج کہا جاتا ہے عرفان و تصوف کی وجہ سے ان کے کلام میں  تقدس و پاکیزگی کی صفات پیدا ہو گی ہے تصوف ان کے رگ و پئے میں رچ بس گیا ہے ان کے عمل اور ان کے شعریات میں صوفیانہ رنگ سرایت کر گیا تھا انہوں نے کائنات کے ذرے ذرے میں باری تعالیٰ کا وجود پایا اور اسے شعر میں پیش کر دیا    ؎

جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا

تو ہی  آیا نظر جدھر دیکھا

اتنا ہی نہیں شاعر نے دیر و حرم شیخ و برہمن سب کو خالق مطلق کے لو۔سے روشن پایا اور انسان کے جان و دل کو کثرت میں و حدت کا  واحد مسکن تصور کیا ہے انسان کے دل کے علاوہ ارض و سما میں بھی ایسی وسعت نہیں جہاں ذات باری کی قدرت اور وحدت ایک ساتھ ایک آسمان تلے انسانوں کے ایک بیکراں سمندر میں جس کی گہرائی کا اندازہ لگا نا دشوار ہے بڑے آرام سے جلوہ فگن ہے ان کے اشعار جس کا ایک ایک لفظ ذات باری کے اوصاف اور انسانی عظمت کی گواہی دیتا ہے   ؎

ارض و سماء کہاں تیر ی وسعت کو پا سکے

میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

کبھی کبھی میر درد مجاز کی طرف بھی رجوع کر تے ہیں لیکن یہاں بھی ان کی رجعت حقیقت ہی کی طرف ہے۔ جہاں انہوں نے مجازی عشق  کا تصور پیش کیا ہے وہا ں بھی ان کا معشوق حقیقی ہی ہے۔ اسی پاکیزہ نیت اور معتبر مقصد کی وجہ سے ان کا کلام اعلیٰ مرتبت ہو گیا ہے۔

درد نے اس طرح عشق حقیقی تصوف اور روحانیات کی چاشنی سے اپنے کلام میں چار چاند لگا دیئے ہیں درج ذیل شعر کو دیکھئے   ؎

مسکرایا خوشی سے وہ جس دم

باغ میں کب کھلی کلی ایسی

جب نظر سے بہار گز ر ے ہے

جی پہ رفتار یار گزر ے ہے

          درد کے کلام میں صوفیانہ رنگ زیادہ غالب ہے اس لئے ان کی شاعری میں صوفیانہ فکر  کی جھلک عام ملتی ہے۔درد کی غزلوں میں منفرد الفاظ کا موزوں ترین استعمال ملتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ حسن و رنگ اور خوشبو سے غزل کی فضا میں جادو جگا رہا ہے بیشتر اشعار میں غنائی آہنگ کی لہر دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ تشبیہات اور استعارات کے استعمال میں درد کا احساس جمال بہت صاف ستھرا اور نکھرا ہوا نظر آتا ہے ان تشبیہوں میں گرمی عشق روشنی خلوص اور غموں کی دھیمی آنچ ہے اسی نے شعلہ و شبنم کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔

          خواجہ میر درد نے چھوٹی بحروں اور مترنم الفاظ کے استعمال سے آرٹ کی بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ اسی لیے محمد حسین آزاد نے کہا تھا کہ خصوصاً چھوٹی بحروں میں جو غزلیں لکھتے ہیں گویا تلواروں کی آبداری نشتروں میں بھر دیتے ہیں۔

  انھوں نے غزلوں کا ایک مختصر سا دیوان چھوڑا ہے مگر معیار کے اعتبار سے بڑے بڑے دیوانوں پر بھاری ہے۔ وہ درویش مزاج انسان تھے اور صوفی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی کا اثر ہے کہ ان کا صوفیانہ کلام خود ان کے دل کی واردات ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں بے پناہ اثر ہے۔ بعض لوگوں نے ان کی شاعری میں موجود سلاست اور سادگی کو میرؔ پر فوقیت دی ہے۔ چھوٹی بحر کی غزلوں میں موجود آسان اور عام فہم الفاظ ان کی شاعری کا سر مایہ ہیں۔ نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں   ؎

جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا

تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

رات مجلس میں ترے حسن کے شعلے کے حضور

شمع کے منہ پہ جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا

وائے نادانی کہ وقت مرگ پہ ثابت ہوا

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

          عہد میر کے شعراء میں خواجہ میر دردؔ کا بھی اعلیٰ مرتبہ ہے ان کے مطابق عشق کے ذریعہ حقیقت مطلق تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے ان کے لئے تمام کائنات آئینہ وحدت ہے یعنی وہ تصوف کے منطق اور وحدۃ الوجود کے معتقد ہیں اور اسی کے عرفان سے ان کے یہاں انسانی عظمت کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔

’’ انسان کا تصور بھی درد کے یہاں اتنا بلند ہے اور اس میں الوہیت کی وہ شان ہے کہ انسان کی یہ تصویر ان کے علاوہ اور کسی اردو شاعر کے یہاں نظر نہیں آتی‘‘

اسی رنگ میں ڈوبے ان کے اشعار دل میں تصوف کا جذبہ پیدا کرتے ہیں وہ انسان کے اند ر بھی مالک حقیقی کا دیدار کراتے ہیں۔ یہاں تک کہ بتوں میں بھی انھیں اپنے مالک حقیقی کا ہی تصور نظر آتا ہے  ؎

بیگانہ گر نظر پڑے تو آشنا کو دیکھ

بندہ گر آوے سامنے تو بھی خدا کو دیکھ

دردؔ نے تصوف کے مختلف مسائل اور کیفیات کو غزل کی پیرائے میں پیش کیا ہے۔اسی انداز نے ان کے یہاں غم کی تلخی کو کم کر کے اس کے اندر سر ور پیدا کر دیا  ہے۔ مثلاً

اس نے کیا تھا یاد مجھے بھول کر کہیں

پاتا نہیں ہوں تب سے میں اپنی خبر کہیں

          درد کی غزلوں میں وہ مجازی کیفیات اور عشق کی ترجمانی نام کو بھی نہیں ہے۔ وہ تو عشق حقیقی کے شاعر ہیں لیکن اس عشق حقیقی کی متنوع کیفیات کو جس انداز میں انھوں نے محسوس کیا ہے اور پھر جس طرح اس کی ترجمانی کی ہے وہ اردو غزل کی روایت میں ایک بہت بڑا اضافہ ہے۔ دردؔ تصوف کے شاعر ہیں اور تصوف مسائل کو پیش کرتے ہوئے وہ زندگی کی فضاؤں میں اتنا اونچا اڑتے ہیں کہ اپنے آپ کو کہیں کہیں نظروں سے اوجھل کر دیتے ہیں اس لیے ایک قسم کی ماورائیت بھی ان کے یہاں پیدا ہو گئی ہے لیکن ان کے اس انداز میں ایک رفعت اور بلندی کا  احساس ضرور ہوتا ہے۔ درد کی غزلوں میں سارا کھیل تخیل کا ہے اور تخیل کی بلند پرواز ی نے ایک ایسی رنگین اور پر کار فضا ان کی غزلوں میں پیدا کر دی ہے جو بڑی دلکش اور دلآویز ہے اسی فضا نے درد کی غزل کو ایک حسین نگارخانہ بنا دیا ہے جذباتی خیالات کا ایسا حسین مرقع اردو شاعری میں اور کہیں نہیں مل سکتا ہے اصغر کی غزلیں انھیں مرقعوں کا ایک مجموعہ ہیں درد کے یہاں موضوعات کا تنوع نہیں  ہے صرف تصوف کی کیفیات ہیں جو کہیں فلسفے کی حدود میں داخل ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں لیکن ان کی تخیل پر ستی اور روحانیت انہیں فلسفی نہیں بننے دیتی اس لیے یہاں موضوع کی یکسانیت ضروری ہے لیکن تخیل کی نگوں کاری نے اس کمیابی کو ایسا حسین بنا دیا ہے کہ ان کی شاعری ایک چمنستان نظر آتی ہے۔

’’فلسفہ اور تصوف درد کی شاعری میں بڑی رچی ہوئی صورت میں موجود ہے درد نے اپنی غزلوں میں صرف تصوف کے روایتی تصور کو پیش نظر نہیں رکھا ہے  انھوں نے اس سلسلہ میں نئی باتیں بھی کی ہیں۔ درد نے تصوف کے  تمام مسائل کو موضوع بنا دیا ہے لیکن ان مسائل کو انھوں نے نئے زاویۂ نظر ان کے مسائل کو صرف تصوف کو بڑی اہمیت دیتی ہے اس معرفت کا حاصل کرنا زندگی کی معراج ہے اور یہ معراج اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب فرد کے پاس نصب العین ہو۔ فرد اور اس کے اعمال درد کے تغزل میں بہت اہمیت رکھتے ہیں درد نے اس فرد کا بہت بلند تصور پیش کیا ہے۔ ’’ درد تو تصوف میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان کا مخصوص موضوع حیات کائنات کے مسائل ہیں جن پر ان کی نظر بہت گہری پڑتی ہے لیکن انسانی حسن اور اس کی اہمیت کا احساس اس کے باوجود ان کے یہاں بہت شدید نظر  آتا ہے۔اس سے ایک والہانہ وابستگی اور پھر اس سلسلے میں جو تنوع کیفیات طاری ہو سکتی ہے اور ان سب کی ترجمانی انھوں نے بڑی خوبی سے کی ہے ‘‘۔     یہ بھی درد کی بڑائی ہے کہ انھوں نے تصوف کو تصوف ہی رہنے دیا ہے اسے فلسفہ نہیں بنا یا ہے یہی وجہ ہے کہ ذاتی شعور ان کی غزلوں میں نہیں ملتا ہے وہ تو جذب و شوق کے شاعر ہیں اور اسی جذب و شوق نے ان کی غزلوں کو آسمان پر پہنچا دیا ہے ان غزلوں نے آسمان سے ستارے توڑے ہیں اور ان ستاروں سے غزل کی روایت کی محفل کو سجایا  ہے۔

          یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ برق، آتش، خورشید، شعلہ وغیرہ اردو فارسی شاعری کے عام الفاظ ہیں کیا دردؔ اور غالبؔ کے یہاں ان کا استعمال رسمی نہیں قرار دیا جا سکتا؟جواب میں میں کہوں گا کہ شعر کا لہجہ اور اٹھان ہی بتا دیتی ہے کہ یہ رسمی اور روایتی ہے یا اصلی اور ذاتی۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ غالبؔ اور دردؔ کے یہاں اکثر  و بیشتر جس کیفیت کا اظہار آتش اور خورشید اور شعلہ جیسے الفاظ سے کیا گیا ہے اس کے اظہار کے لئے اور بھی بہت سے روایتی اسالیب بیان اور استعارے موجود ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ دونوں نے بار بار انہیں کا انتخاب کیا ہے؟زیادہ تر اشعار میں یہ صورتیں اور پیکر؟لائے گئے، نہیں بلکہ آئے ہوئے، معلوم ہوتے ہیں اور کسی شدید جبلی ترجیحINSTINCTIVE PREFERENCEکی طرف اشارہ کرتے ہیں ورنہ چھوٹے سے دیوان میں ان کی مسلسل تکرار کیا معنی کھتی ہے ؟اور یہ پیکر کسی اور بڑے شاعر مثلاً میر کے کلام میں اس کثرت سے کیوں نہیں پائے جاتے؟

میں سمجھتا ہوں کہ دردؔ اور غالبؔ دونوں کے تخیل میں جو علویت اور مزاج میں جو سوز د بے چینی کی خلش تھی۔اس نے غیر شعوری طور پر خو دکو ان استعاروں کے انتخاب کی صورت میں ظاہر کیا۔ ان دو بڑے شعراء کی مزاجی ہم آہنگی کی طرف اس سے زیادہ واضح اور روشن اشارہ کیا ہو سکتا ہے۔

غالبؔ اور دردؔ دونوں کی ذہنی ساخت کو ہم مجموعی طور پر عملی رومانیت INTELLECTUAL ROMANTICISMکا نام دے سکتے ہیں کہ جب ہم اردو شعراء کی جگہیں متعین کریں تو دردؔ کو غالبؔ اور اقبال کی ضمن میں رکھیں، میر اور آتش کے ساتھ نہیں۔ اس تقسیم سے نہ دردؔ کی شاعرانہ حیثیت میں کوئی اضافہ ہوتا ہے نہ آتش کی اہمیت میں کوئی تخفیف یہ تقسیمیں سمجھنے اور سمجھانے کی آسانی کے لئے ہیں، بڑے اور چھوٹے کی تخصیص کے لئے نہیں۔ میر دردؔ کی زبان وہی ہے جو میرؔ و سوداؔ کی زبان ہے۔جیسے میرؔ و سوداؔ کی زبان کے بہت سے الفاظ آج متروک ہو گئے یا بدل گئے، وہی صورت دردؔ کی زبان کے ساتھ ہے، مثلاً دردؔ کے ہاں کبھو، تئیں، ٹک نت، ہیں گے، ۸تجھ، سوا، ان نے دیکھوں ہوں، انہوں کی، ہو جیو، لے ڈوبیاں، پائیاں ہیں وغیرہ الفاظ اور فعل و ضمیر ملتے ہیں، ان چند بدلی ہوئی یا متروک صورتوں میں کے علاوہ میر دردؔ کی زبان ویسی ہی صاف و  شستہ زبان ہے جو آج بولی جاتی ہے دردؔ نے محاورہ و روز مرہ کا استعمال کثرت سے کیا ہے لیکن انہوں نے میرؔ کی طرح خالص عوام کی زبان کو استعمال نہیں کیا بلکہ ایسے الفاظ اور محاورے روز مرہ استعمال کئے جو عوام و خواص میں یکساں طور پر رائج تھے۔اسی لئے ان کی زبان یکساں و ہموار ہے۔میر دردؔ نے بہت کم کلام چھوڑا ہے اور وہ بھی کم و بیش تمام تر صنف غزل میں ہے۔دوسری صنف جس میں ان کا کلام ملتا ہے رباعی ہے۔ اور جن کی مجموعی تعداد72ہے۔رباعی میں ان کی فکر زیادہ واضح اور مربوط انداز میں ابھری ہے۔وہ غزل کی طرح رباعی کے بھی ایک اہم شاعر ہیں۔ اتنے کم کلام کے باوجود ان کا نام میرؔ و سوداؔ کے ساتھ اس لئے لیا جا تا ہے کہ انہوں نے اردو شاعری کی روایت کو آگے بڑھانے میں وہی کام کیا ہے۔جو میرؔ و سوداؔ نے کیا۔دردؔ جہاں ’’طریق محمدیؐ‘‘ کے ’’اول الحمدمین‘‘ ہیں وہاں میرؔ و سوداؔ کی طرح اردو زبان کے بھی، کلاسیک، ہیں۔ اپنے کلام کی ضخامت کے باوجود قائم، سوزؔ وغیرہ اس درجے پر نہیں آتے۔

٭٭٭

 

کیا اردو شاعری تعطل و انحطاط کا شکار ہے

اس دنیائے رنگ و بو میں زندگی اتنی شکلوں میں بکھری ہوئی ہے کہ ان کا شمار بھی مشکل ہے لیکن ان تمام زندہ چیزوں میں انسان یوں بھی افضل ہے کہ وہ اپنے جذبات و خیالات کے اظہار پر ہی قادر نہیں بلکہ نت نئے طریقوں سے وہ اپنی صلاحیتوں کو نئے نئے اسالیب میں تبدیل کر کے پیش کرنے کا ہنر بھی جانتا ہے۔

شاعری قوتِ اظہار کا ایک ایسا ہی موثر اسلوب ہے جس کی تاریخ حیاتِ انسانی کی تاریخ سے کسی بھی طرح کم نہیں۔ ہم سب اس سے بخوبی واقف ہیں کہ انسانی زندگی کسی جامد شئے کا نام نہیں ہر دور میں زندگی نئے جوڑے زیبِ تن کرتی ہے۔ ہر عہد میں اس کی خواہشات کا آسمان نیا ہوتا ہے، اس کے تجربات نئے ہوتے ہیں۔ اس کے کرب و الم نئے ہوتے ہیں، سکون و راحت کے وسیلے نئے ہوتے ہیں اس کے فکری ٹرانسمیٹر کی فریکوینسی تبدیل ہو جاتی ہے۔ انسانی زندگی کے اس بدلتے ہوئے منظر نامے پر گہری نظر رکھنے والے مخصوص عہد کے مخصوص ادیب و شاعر جب اپنے افکار و تجربات کی روشنی میں اپنے رائج ادبی سرمائے کا جائزہ لیتے ہیں اور ان میں گراں قدر تبدیلی کو نا گزیر جان کر غور و فکر کے بحرِ بیکراں میں غوطہ زن ہوتے ہیں تو ادبی صورتِ حال میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوتی ہے اسے کوئی جائز قرار دیتا ہے اور کوئی نا جائز لیکن بہر حال یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

شاعری وہ کلام ہے جسے بالارادہ موزوں کیا گیا ہو۔ وہ کلام بھی شاعری ہے جو انبساط یا انقباضِ نفس کا باعث بنے۔ شاعری اس کلام کو بھی کہا گیا جو جذباتِ انسانی کو بر انگیختہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ شاعری کو حسین جذبات کے حسین اور مسرت انگیز اظہار سے بھی منسوب کیا گیا اور تخیل اور جذبے کے امتزاج کو بھی شاعری کا ہی نام دیا گیا۔ شعر و شاعری سے متعلق یہ خیالات یقیناً میرے نہیں بلکہ ان اکابرینِ ادب کے ہیں جنھوں نے زبان کی پود کو خونِ جگر سے سینچ کر چھتنار درخت بنا دیا لیکن یہ سوال آج بھی قائم ہے کہ آیا شاعری کی یہ تعریف مکمل ہے؟ یقیناً نہیں کیونکہ ادب میں کچھ بھی مکمل نہیں ہوا کرتا اور شاعری تو یقیناً ایک ایسی دلربا مخلوقِ ادب ہے جسے کسی مخصوص تعریف کی زنجیر میں جکڑنا امرِ محال ہے۔ شاعری ابتدائے آفرینش سے ہر دور میں انسان کی رفیقِ راز بھی رہی ہے اور رفیقِ کار بھی لیکن ہر عہد میں اس نے اپنی شکل بھی بدلی ہے اور مزاج بھی کمال تو یہ ہے کہ ہر عہد میں جب یہ اپنا نیا لباس زیب تن کرتی ہے تو اس کے وجود پر سوالات کھڑے کیے جاتے ہیں۔ اس کے پرستار ہی اسے قابل اعتنا سمجھنے کے روادار نہیں ہوتے اسے آزمانے کے نئے نئے طریقے ایجاد کیے جاتے ہیں اور بالآخر پرانی کھیپ لد جاتی ہے اور نئی نسل نئے طریقۂ اظہار کے توسط سے اسے تاریخ ادب کا حصّہ بنا دیتی ہے ہمعصر شعرا فی الحال اردو دنیا میں اسی تشکیک و تنبیہ کے تیر سے زخمی ہو رہے ہیں لیکن یہ سب ایک فطری طریقۂ تہذیبِ ادب ہے جس سے جہاں ایک طرف نوواردانِ تخلیق کی لا سمتی کو نشانِ سمت کا ادراک ہوتا ہے وہیں تخلیق میں بوجوہ داخل ہو گیا فاسد مادّہ خارج ہو کر اسے پاکیزہ بنا دیتا ہے۔ شاید موضوع کے مطابق میری بات یہاں مکمل ہو گئی کیونکہ ہمعصر شاعری کا میں شاکی نہیں ہوں لیکن کچھ وضاحتیں ابھی باقی ہیں۔

ہمعصر اردو شاعری کے بارے میں یہ خیال باندھنا کہ یہ تعطّل کا شکار ہے بزرگانہ خیال ہو سکتا ہے۔ ہمعصر شعرا کی ایک کھیپ بھی اس بات کی تائید کرے گی لیکن اگر آپ اعداد و شمار جمع کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمارے عہد میں شاعری تو کر رہے ہیں لیکن ان کا راست تعلق 1950-60اور1970کے دہے میں ان بزرگوں سے رہا ہے جنھوں نے ہم سے بدرجہا بہتر ادبی ماحول میں آنکھیں کھولیں اور اپنی راست بصارت و سماعت سے کئی تحریکات کے دھول دھپّے سنے اور دیکھے۔ انھوں نے اساتذۂ فنِّ شعر کی قدم بوسی کی اپنے اشعار کو اپنے اساتذہ سے صیقل کروائے لیکن افسوس کہ وہ بجائے اس کے کہ ہمارے اشعار کی خامیوں کو خوبیوں سے مبدّل کرتے، ہمارے لیے وہ ماحول فراہم کرتے جس کے وہ پروردہ رہے ہیں ہماری پوری شاعری کو القط قرار دینے کے درپے ہیں۔ کیا یہ ایک اہم سوال نہیں کہ جن لوگوں کی نظر میں ہمعصر شاعری جمود و تعطل کا شکار ہے ان لوگوں نے بھی اپنے دور میں لکیر پیٹنے سے اجتناب کیا تھا اور نتیجتاً انھیں لعنت ملامت کے تیر کھانے پڑے تھے۔ ہمعصر شعرا بھی لکیر پیٹنے سے اجتناب کیا تھا اور نتیجتاً انھیں لعنت ملامت کے تیر کھانے پڑے تھے۔ ہمعصر شعرا بھی لکیر پیٹنے کے قائل نہیں یہاں تک کہ وہ تحریکات کے بنے بنائے گھروندوں کے بھی قائل نہیں وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں جو اب پہلے سے زیادہ تابناک ہیں کیونکہ اب شعرا ہندوستان میں بیٹھ کر فلسطین و عراق ہی نہیں امریکہ اور اسرائیل کی خبریں ہی نہیں سنتے خبروں کو بنتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ یقیناً کسی بھی دور کا ادب اپنے سے پیشتر کے ادبی اقدار سے بے تعلق نہیں رہ سکتا ہمعصر شاعری بھی روایت کی قائل ہے لیکن اندھی تقلید نہیں کرتی۔ حال اور ماضی کے مربوط رشتے کی زائیدہ بالکل نئی نسل کے اس شعری دستخط کو آپ کیا کہیں گے۔

(1)

سمندر کو اپنا سمجھتے رہے

مگر ہونٹ رشتوں کے تپتے رہے

(خورشید اکبر)

میں نئی بات کہوں اور نئے تیور سے

میری تنقید زیادہ ہو وکالت کم ہو

(خالد عبادی)

قدم قدم پہ سفر میں ہے حادثوں کا ہجوم

پلٹ کے آنے کی گھر کون آس رکھتا ہے

(شمس رمزی)

یہ بھی سچ ہے متاعِ شعور و بصیرت سے محروم ہے

اور یہ بھی حقیقت ہے وہ جانتا ہے زبانیں کئی

(شہباز ندیم)

(2)

مسکرائیں ٹہنیاں اور رنگ و بو نے بات کی

ایک سوکھے پیڑ سے کل آبجو نے بات کی

اب مجھے کچھ اور بھی محتاط رہنا چاہیے

کانپتے لہجے میں کل مجھ سے عدو نے بات کی

(نعمان شوق)

اسی غم نے تو زندہ رکھا مجھ کو

کہاں سے لاؤں گا مر کر کفن میں

(عطا عابدی)

رات اور بے کراں فاصلہ روشنی

کیسے دیکھوں ترا راست روشنی

میرے اندر زماں در زماں ظلمتیں

اور باہر خلا در خلا روشنی

(احمد محفوظ)

زندگی کا یوں مزہ لینے میں آخر حرج کیا

پھر بنا لیں گے نشیمن چھت ٹپکنے دیجیے

(راشد انور راشد)

پرائی دھوپ سے اپنا بھلا نہیں ہو گا

ہمارے نام کی صبحیں اسی زمیں پر ہیں

(رؤف رضا)

تم کہتے ہو جیون کو پربت دریا

میں کہتا ہوں اک ماچس کی تیلی ہے

(شعیب رضا)

کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں وہ عہد ہر روز بے حقیقی کا ایک سورج طلوع کرتا ہے اور شکستہ مظاہر کی شام کو بے اعتنائی سے سر کے نیچے رکھ کر سو جاتا ہے۔بہت تیز روشنی بھی ظلمت کو جنم دیتی ہے اور یہ عہد ایسا ہی ظلمت کدہ ہے ہر جانب گھٹا ٹوپ اندھیرا، فلسفہ جنون و خرد سب آپس میں ایسے دست و گریباں ہیں کہ کسی کی آنکھ میں کسی کا گھٹنا در آیا ہے ممالک و مسالک کے حدود اسی خرد برد کا شکار ہیں۔ ندیاں، سمندر، ہوا فضا یہاں تک کہ خلا بھی اس چھینا جھپٹی اور آلودگی میں مبتلا ہیں ایسے میں شاعری کا کھُردرا ہونا حیرت کی بات نہیں لطیف و ہموار ہونا حیرت کی بات ہے۔

یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ ہمعصر شعرا کے سامنے مسائل لا متناہی ہیں لیکن ان مسائل کو تخلیقی نہج پر قائم و دائم بنا دینے کی جو فنکارانہ چابکدستی ہوتی ہے اس کا کسی حد تک مفقود  ہے۔ حامدی کاشمیری کے مطابق

’’جدید شاعری کا المیہ بھی یہی ہے کہ شاعر اپنے تجربے کے بحران کو لسانی تصرف میں لانے میں نا کام رہتا ہے‘‘

اور اس کی وجہ صاف ہے کہ ہماری نسل کے شعرا کو نہ تو گھر میں وہ ادبی ماحول میسّر آیا اور نہ ہی مدرسوں اور اسکول کالجوں میں۔ کیا یہ لمحۂ فکریہ نہیں کہ اگر آج کے کسی شاعر کو اپنی شاعری شائع کروانی ہو اور وہ اسے کسی کو بہ نظرِ اصلاح دکھانا چاہے تو اس سلسلے میں اسے کتنی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں گی؟

یہ بات میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ادب میں کچھ بھی مکمل نہیں ہوا کرتا ہمعصر اردو شاعری کے دامن پر بھی کچھ داغ ہیں لیکن اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ دھبّے اس معاشرتی کجروی کے ہیں جس کی بنیاد پچاس یا ساٹھ سال پہلے پڑ چکی تھی۔ جیسے

1۔     اچھے قاری کا زوال

2۔     مشاعرے کی روایت کا زوال

3۔     استاد اور شاگرد کے بیچ دوری

4۔     اردو شعرا میں عروض سے نا واقفیت

5۔     اکادمیوں اور دیگر اردو اداروں پر سیاست کی بالا دستی

6۔     نئی نسل کے شعرا کو نصاب میں شامل نہ کرنا

7۔     بزرگ ناقدین کی بے اعتنائیاں

8۔     اور ایک بڑی وجہ خوشامد پسند ہمعصر /ناقدین کی کثرت

ان جملہ مسائل کے باوجود اگر آج ہمعصر شاعروں کے کھیسے میں زر و جواہر ہیں اور یقیناً ہیں تو پھر اردو شاعری کو تعطل کا شکار نہیں کہا جا سکتا۔ نیا سفر شمارہ نمبر 6میں پروفیسر عتیق اللہ موجودہ شعر و ادب کی صورتِ حال ایک سرسری جائزہ (خدا جانے وہ گہرائی سے جائزہ کب لیں گے یا لیں گے بھی نہیں ) میں فرماتے ہیں

’’ اس نسل کے شعرا کی سب سے بڑی قوت ان کا اعتماد ہے۔ وہ ہمارے پیشہ ور نقادوں کے دعووں اور ہدایت ناموں پر کم ہی کان دھر رہی ہے۔حالانکہ ان شعرا کو نہ تو وہ اردو مدارس ہی میسّر آئے، جہاں کے اساتذہ عربی فارسی قواعد اور حتیٰ کہ عروض و آہنگ پر گہری پکڑ رکھتے تھے بلکہ ان میں اپنے طلبا کو سکھانے اور اپنے علم کو پھیلانے کی ایک تڑپ بھی تھی۔‘‘

اس اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ ہمعصر شعرا نے ناقدینِ ادب کے دلوں پر دستک دینی شروع کر دی ہے۔ ڈاکٹر کوثر مظہری نے کہیں لکھا تھا کہ:

 ’’نئی نسل کو اگر کوئی مسئلہ در پیش ہے تو اپنی نسل کا نقاد پیدا کرنے کا کاش اس نسل کو ایک عدد نقّاد مل جاتا‘‘

 میں ان کی بات سے اتفاق کرتا ہوں  لیکن  کیا کوثر مظہری اس بات سے واقف ہیں کہ نئی نسل کے جو لوگ تنقیدی دبستان میں داخل ہو تے ہیں وہ اس کشتِ زار میں داخلے کا پروانہ بھی ان سے ہی حاصل کر تے ہیں جو لوگ پچھلے پچاس سال سے تنقیدی دبستان کے ملجا و ماویٰ ہیں معدودے چند لوگ اگر پہلے پروانہ نہیں حاصل نہیں کر تے تو بعد میں سیمینار، سمپوزیم، لیکچرار سے ریڈر اور ریڈر سے پروفیسر بننے کی ادھیڑ بن میں ان دروں کی خاک چھاننے لگتے ہیں جہاں سے انہیں کم از کم اس کا وعدہ ہمیشہ ملتا رہتا ہے یہ الگ بات ہے کہ ان بزرگانِ ادب کے نام پر کا وظیفہ پڑھنے والے لوگوں کا کہیں بھولے سے بھی یہ بزرگانِ ادب اپنے مضمون میں نام نہیں لیتے ہاں سیمیناروں اور صدارتی خطبوں میں زبانی تقریر میں ان کا نام بڑی محبت سے لیتے ہیں اور وہ اسی پر پھولے نہیں سماتے اب کوثر مظہری دعا کریں تو اس میں یہ اضافہ ضرور کریں کہ نئی نسل کو ایسا نقاد کی ضرور ت ہے جو نقد کا نقاد ہو ناقدین کے نقاد سے تو اللہ محفوظ رکھے کیونکہ ہمعصر شعرا کی اب یہ حالت دیکھی نہیں جاتی کہ:

فاروقیوں کی جنبشِ ابرو پہ رکھ نظر

پھر شعر کہہ کے جانبِ نارنگ دیکھنا

ہم عصر شاعری کسی حد تک ان تنقیدی جھگڑوں سے آزاد ہے اور تخلیق کا پلڑا بھی اسی لئے تنقید سے بھاری ہو تا ہے کہ اس پر دباؤ کا زیادہ اثر نہیں پڑتا اب چاہے وہ دباؤ شخصی ہو یا معاشی ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ نئی نسل کے شعراء آج سے پچاس سال پہلے کی نسل سے ان معنوں میں الگ ہے کہ اس کے سا منے تلاشِ رزق کا مسئلہ اتنا اہم نہیں اور وہ شاعری کو تلاشِ رزق کا وسیلہ نہیں بنا تے ان کے اپنے کارو بار ہیں، ملازمتیں ہیں خوش حال خاندان ہے اس کی جلو میں شاعری بھی ہو تی رہتی ہے۔ مشاعرے کے شاعروں کو اس سے الگ کر کے دیکھنا ہو گا کیونکہ مشاعروں کے شاعروں کو ابھی تک تو ہمارے یہاں وہ مقام حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ اور ان میں اکثر کی وقتی شاعری یا شاعری جیسی چیز کو ادب کا حصہ قرار دینے میں بھی کئی قباحتیں ہیں بہر حال یہ ایک الگ موضوع ہے۔ میں تو صرف یہ کہنا چا ہ رہا ہوں کہ باوجود اس کے کہ آج ہمارے معاشرے میں ادب و شعر کے لئے کوئی با وقار مقام متعین نہیں ہے جو لوگ شعرو شاعری کر رہے ہیں وہ نہ تو کسی ایوارڈ کی خاطر شاعری کر رہے ہیں اور نہ ہی اعزاز کے لئے وہ تو بس جو دل پہ گزر تی ہے رقم کئے جا رہے ہیں لہٰذا اس پر اگر کسی کو اعتراض ہے یا ان کی اس کد و کاوش کی کسی کو پرواہ نہیں تو یہ ان لوگوں کا ذہنی فتو ر ہے اور یہ بھی ایک روایت ہے کہ غالب اور نظیر جیسوں کو بھی اپنے عہد میں ستائش سے زیادہ گالیاں ہی ملی تھیں اسی لئے تو انہوں نے کہا بھی تھا کہ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا

بات ایک اور ہے اور وہ یہ کہ جو شعراء آج ساٹھ یا ستّر کی عمر کو پہنچ چکے ہیں انہیں تو یہ پورا دور ہی کیڑوں سے پر نظر آ رہا ہے وہ بیچارے اپنی پاری کھیل چکے ہیں اور زبان وہ بیان کے رٹے رٹائے کلّیوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہیں انہیں کیا پتہ کہ زبان نے خاص طور پر اردو زبان نے اب اپنا طرزِ ادا ہی بدل ڈالا ہے اب عروضی لٹکوں جھٹکوں کو سمجھنے والے ہی کتنے ہیں ایسے میں نئی نسل اگر ان چکّروں میں پڑی تو پھر ان کی شاعری میں بچ کیا جائے گا اور لوگ ان کی شاعری کیوں پڑھیں گے کلاسیکی شاعری کا وہ سر مایہ کیا کم ہے جو ہماری لائبریریوں میں دیمک کی خوراک بن رہا ہے اور کیا اس سے اچھی شاعری زندہ بزرگ شعراء کر رہے ہیں ۔

ہم عصر شعراء اپنی بساط بھر بہت اچھی شاعری کر رہے ہیں جو لوگ اس پر ناک بھوں چڑھا تے ہیں یہ ان کا کام ہے نئی نسل کو اپنا کام تندہی سے کر تے رہنا چاہئے۔

٭٭٭

 

لوک ادب۔  ایک تفہیم

یوں تو لفظ ’’ لوک‘‘ سے مرا د انسان، آدمی، بشر،  لوگ، مرد، عالم ارواح، دنیا، عالم، جہان ہوتے ہیں، لیکن اردو ادب میں لوک ادب سے مراد نچلے طبقے کے ذریعہ خلق کیا گیا وہ ادب ہوتا ہے  جس کا تعلق قدیم قبائلی نظام اور اس میں موجود رسم و رواج، بولی ٹھولی، تیج تہوار اور مذہبی رسومات وغیرہ سے ہو۔

لوک ادب انسان کے ذہنی ار تقا کا علامیہ ہے۔ توہمات کو ذہنی ارتقا میں ایک خاص مقام حاصل ہے اور ان توہمات سے ابھر نے والے احساس اور آزادی کی جستجو نے لوک ادب کو جنم دیا۔ لوک ادب سے موضوعات کا تعین ایک مشکل کام ہے، لیکن ہمارے دائرہ نظر میں جو موضوعات ہیں، ان میں کائنات کی تکوین، اس کے نظم و ضبط، دیوتاؤں کی پیدائش، انسان کی تخلیق، دیوی دیوتاؤں کی محبت، نفرت، بے پناہ عشق رقابت، بغض، کینہ، عناد، سازشیں اور عذاب و عتاب وغیرہ شامل ہیں۔

لوک ادب کی ابتدا انسانی زندگی کے ارتقا کے ساتھ ہوئی، لوک ادب انسانی وجود کے طویل عرصے پر پھیلے ہوے احساسات اور تجرباتی سفر کی روداد ہے۔ ایک طویل عرصے تک یہ سب کچھ سینہ بہ سینہ چلتا رہا۔ تحریر کی صورت اس وقت ممکن ہوئی جب رسم الخط وجود میں آیا۔

لوک ادب کسی نہ کسی تاریخی، تہذیبی، سماجی اور لسانی پس منظر کا حامل ہوتا ہے۔ سماجی پس منظر کے طور پر حیرت انگیز، محیرالعقول اور دلچسپ واقعات و حکایات کو اپنے اندر سمیٹے ہوتا ہے جس کے سہارے ہم ماضی کے دریچوں میں جھانک کر قدیم سماجی و تاریخی حقائق کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ انسانی معاشرے کے فکر ی و اخلاقی ارتقا و زوال کا اندازہ بھی لوک ادب کے توسط سے لگایا جا سکتا ہے۔ لوک ادب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے اندر کسی قسم کی بنیادی تبدیلی یا ترمیم و  اضافے کو شاذ ہی روا رکھتا ہے اس لیے سیکڑوں، بلکہ ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود ان کی شکل و صورت اس حد تک کبھی نہیں بدلتی کہ اصل شناخت ناممکن ہو جائے۔ لوک ادب کی یہ خوبی قوموں کی تاریخی، ثقافتی، معاشرتی، فکر ی، فنی، لسانی اور ادبی خصوصیات کی بقا میں معاون ہوتی ہیں۔ کسی بھی زبان میں لوک ادب کے سرمایے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ لوک ادب انسان کا دہ سر مایہ ہے جو اس کی زندگی کو اس کے ادبی تہذیب و تمدن اور ثقافت کے اظہار سے ملتا ہے۔ سماج کے نشیب و فراز، اس کے نظام ترکیبی اور اس کی گنگا  جمنی بو قلموں کیفیتوں کو جس طرح لوک ادب ظاہر کرتا ہے وہ اس کی اہمیت کا ثبوت ہے۔

دیگر ہندوستانی زبانوں کی طرح اردو کی بھی عوامی جڑیں ہیں اور اس کا دامن عوامی جذبات کی ترجمانی کرنے والے لوک ادب کی روایت سے مالا مال ہے۔ اردو زبان کی تشکیل ہی مختلف قوموں  کے با ہمی میل جول اور اجتماعی ارتباط کا نتیجہ ہے۔

   اردو معاشرے میں بھی اپنی ماؤں سے لوریاں سنی جاتی رہیں، ان کی ولادت پر گیت بھی گائے گئے۔ سردیوں کی کپکپاتی اور ٹھٹھرتی راتو ں میں ان کی دادیوں اور نانیوں نے کہانیاں بھی سنائیں۔ ان کی گھر یلو تقریبات میں ڈھولک کی تھاپ پر کنوار یوں اور شادی شدہ عورتو ں نے گیت بھی الاپے۔ ڈومنیوں نے انکی شادی بیاہ کے موقع پر شادیانے بھی بجائے۔ البیلے موسموں نے ان کے دلوں میں ترنگ بھی پیدا کی۔ انہوں نے ساون میں جھولا بھی جھولا۔ صدیوں سے ہندوستانی معاشرے میں یہ سب ہوتا آیا ہے۔ شمالی ہند میں اردو اور ہندی کا علاقہ مشترک رہا ہے۔ دونوں ایک زمین، ایک جیسی تہذیب، مشترک آب و ہوا کی پر ور دہ ہیں۔ اردو اور ہندی بولنے والوں کی آبادی اکثر ملی جلی رہی ہے، اس لیے اردو اور ہندی کے لوک ادب، لوک گیت، لوک قصوں، لوک کہانیوں اور لوک کہاوتوں کا بہت بڑا سرمایہ مشترک ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر علاقے کے لوک ادب کو اس علاقہ کی  بولیوں اور تہذیبی و تاریخی حقائق نے متاثر کیا ہے۔

1857ء میں جب انگریزوں کے خلاف باغیانہ جذبات کی آگ پھیلی تو عورتوں کے دلوں میں بھی وطن دوستی کے جذبات جاگ اٹھے اور انہوں نے اپنی جرأت اور شجاعت پر مبنی شاعر ی لوک ادب کے رنگ میں گائیں، جن میں ان کی بہادری اور طاقت و ہمت کی داستانیں بیان کی گئی ہیں۔ تحریک آزادی اور تحریک خلافت کے اجتماعی جوش و خروش کی ترجمانی کے لیے جو عوامی گیت لکھے گئے، وہ  لاکھوں انسانوں کے دلو ں کی دھڑکن بن گئے۔ ’’آب حیات‘‘ میں محمد حسین آزاد نے بھی لوک گیتوں کا ذکر کیا ہے۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے ایک موقع پر لکھا ہے:

 ’’ ممکن ہے میرے آرٹ کی شاہکار  نظمیں فراموش ہو جائیں، لیکن میرے گیت ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ‘‘

ٹیگور کے گیتوں کی ہمہ گیر مقبولیت کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے بنگال کے عوام کی من موہنی دھنوں میں اپنے گیتوں کو ڈھالا ہے۔ اردو لوک ادب میں بھی ہر موقع کے گیت، ہر تقریب کے گیت ہمارے جذباتی رشتوں اور تہذیبی قدروں کی آئینہ دار ہیں۔ ارد و اور ہندی لوک گیتوں کی بعض دوسری اصناف میں بھی بڑا وقیع سر مایہ موجود ہے۔ مثال کے طور پر ’’بارہ ماسہ چکی کے گیت، ساون کے گیت، دو ہے، چہار بیت، د کھڑے اور زاریاں ‘‘  وغیرہ سیکڑوں ایسی اصناف دیہی علاقوں میں مشہور و مقبول ہیں۔ ان کا مقصد کسی قریبی عزیز یا دوست کی موت پر بین کرنا ہوتا ہے۔ ’’ زاریاں ‘‘موت کے علاوہ دوسری طرح کی مصیبتوں اور دکھ درد کے موقعوں پر بھی عورتیں تنہا یا مل کر گاتی ہیں۔ ’’چہار بیت ‘‘پشتو علاقے کی دین ہے، یہ ناخواندہ قبائلی افغانی پٹھان فوجیوں، روہیلوں کے نغمے کی صورت میں پشتو زبان سے اٹھارہویں صدی میں اردو میں آئی تھی اور شمالی ہندوستان میں متعارف کرائی گئی تھی اس کا رواج یوپی کے علاقوں مثلاً رام پور، شاہ جہاں پور،    بچھرا یوں، سنبھل، امروہہ، مرادآباد، روہیلکھنڈ، راجپوتانہ، مدھیہ پردیش، بھوپال، آندھرا پردیش اور خاص طور سے راجستھان ٹونک وغیرہ میں رہا ہے اور مشرقی بہار کے اضلاع پورنیہ، ارریہ، کشن گنج، کے تعلیمی اداروں میں اس صنف کو جہاں ادبی مقام حاصل ہے وہیں دہقانی زندگی میں یہ ثقافت کا پیش خیمہ بھی ہے۔چہار بیت شعری محفلوں میں لوگ اجتماعی طور پر کورس کی شکل میں گاتے ہیں اور دف بجا تے ہیں اور جوش و خروش کے عالم میں اچھلتے، کودتے اور ناچتے گاتے ہیں ۔

لوک ادب میں عوام کی زندگی، سوجھ بوجھ اور طرز فکر کا عکس صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں جہاں ایک طر ف پیروں، فقیروں، سوداگروں، کسان، مزدوروں اور شریف گھرانے کے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے، وہیں دوسری جانب’’ چورا چکے، لچے، لفنگے، چرسیے اور بھڑوے بدمعاش‘‘ بھی ملتے ہیں۔ لوک ادب میں عام لوگوں کے خیالات کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ ہزاروں سال سے انسانی تہذیب کا اٹوٹ حصہ بنی ہوئی ہے۔ انسانی سماج کو ہر سطح پر اس کے وجود کا احساس ہوتا ہے۔ سماج کا ایک بڑا طبقہ لوک ادب کو زندگی کی ٹھوس حقیقتوں کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ یہ ایک طرح سے زندگی کے متعلق عوامی فلاسفی یا عوام کے تصورات کا مظہر ہوتا ہے۔ زندگی کے مختلف پہلوؤں پر ان میں تبصرہ  یارائے زنی ہوتی ہے۔ لوک ادب میں عوامی کلچر اور عوامی طرز فکر کے سارے ہی پہلو اس خوبی سے سمٹ آ تے ہیں کہ اگر کوئی پوری قوم فنا ہو جائے اور لوک ادب باقی رہ جائے تو اس گمشدہ تہذیب کے بیشتر عناصر کو اس کے توسط سے دریافت کیا جا سکتا ہے۔ البتہ ان کے وسیلے سے کی جانے والی بازیافت میں تہذیب کی زیریں سطح یعنی عوامی کلچر کو ہی نمایا ں حیثیت حاصل ہو گی۔ کیونکہ لوک ادب نہ صرف عوامی کلچر کی  بطن سے جنم لیتا ہے، بلکہ اس کلچر کی تشکیل، تعمیر اور  اس کے انضباط و استحکام میں بھی اس کا رول بہت اہم ہو تا ہے۔ یہ ادب عوامی اور اجتماعی ہو تا ہے، اسے عوام اپنے مروجہ عقائد اور رسم و رواج، تہذیبی تصورات اور اجتماعی نفسیات سے قریب پاتے ہیں۔ اسی طرح لوک ادب مختلف ادوار کے عام انسانی سماج کے رسم و رواج، عقائد و افکار اور تجربات و مشاہدات کا آئینہ دار ہے۔ ہندوستانی سماج کے طبقاتی نظام، نسلی امتیاز، امیری و غریبی کا فرق، آپسی بھید بھاؤ اور ذات پات کی تفریق یا پابندی سے متعلق عوامی رد عمل کو بھی اس میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے لوک گیتو ں میں سادگی، برجستگی، معصومیت، بے لوث اپنائیت اور سچائی پنہاں ہوتی ہیں۔ یہ تصنّع سے دور خلوص و جذبات میں رچے بسے گیت، جب کسی کی سماعت سے ٹکراتے ہیں تو تھوڑی دیر کے لیے عقائد، نظریات، زبان، ذات پات، دولت، غربت، آسودگی و افسردگی کی بھی دیوار ڈھے جاتی ہے اور انسان ان تمام بندشوں سے آزاد خالص انسانیت کے اعلی مقام کو چھونے لگتا ہے۔ قومی یکجہتی کی یہی روح ہے جو ان گیتوں میں سمائی ہوئی ہے۔

لوک گیت لوگوں کے دلوں کی گہرائی سے نکلے وہ جذباتی بول ہیں جو شعری و لسانی ضابطوں اور پابندیوں سے آزاد ہیں، لیکن پھر  بھی ان میں ایسا  لحن اور سُر ہوتا ہے جو سننے والے کو نہ صرف مسحور کرتا ہے بلکہ متاثر بھی کرتا ہے۔

لوک ادب اپنے اندر سماجی، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی قدروں کی ایک وسیع دنیا آباد کیے ہوئے ہے۔ یہ گیت ہماری تہذیب، رسم و رواج، عقائد اور رشتوں کا جامع انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ ان گیتوں کی زبان خواہ کتنی ہی کھردری کیوں نہ ہو، الفاظ اور لہجے میں خواہ کتنا ہی عامیانہ پن کیوں نہ جھلکتا ہو، ادائیگی میں خواہ کتنی ہی بد سلیقگی کیوں نہ ہو، لیکن ان میں جن جذبات کا اظہار ملتا ہے، ان میں امنگ، جوش، ولولہ، مثبت و تعمیری فکر اور سالمیت و یکجہتی کی لہریں ملتی ہیں۔

اردو میں لوک ادب کا اچھا خاصا ذخیرہ موجود ہے۔ ضرورت ہے اس کی تلاش و تحقیق کی۔ لوک ادب کے بارے میں بر صغیر ہی نہیں، بلکہ یورپ کے ادیبوں اور نقادوں نے انیسویں صدی تک ہتک آمیز رویے کا مظاہرہ کیا  اور اسے جاہل گنواروں کی تک بندی اور خرافات کا نام دیا۔ حالانکہ مطالعہ اور مشاہدہ کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ لوک ادب میں مثالی زندگی گزارنے کے ساتھ معرفت حاصل کرنے کی باریکیاں بھی موجود ہیں موجودہ دور میں ضرورت ہے کہ اپنے لوک ادب پر خاص توجہ دی جائے، اس کے سرمایے کو محفوظ کیا جائے تاکہ تصرف میں لا کر دوسری اصناف کے دامن کو معمور و منور کر سکیں جس میں اردو کی ادبی تاریخ کی سرزمین اور زیادہ زر خیز اور وسیع ہو سکے۔

٭٭٭

 

ناصر ملک کی شعر فہمی :’ہتھیلی‘ کی روشنی میں

بعض شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن سے باتیں کر کے یا  پھر جن کا ذکر خیر سن کر روحانی مسرت اور اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے۔ایسی شخصیت اہل تصوف کے یہاں پیرو مرشد کی ہو سکتی ہے۔ اہل اسلام بالخصوص اہل علم کے نزدیک عالم با عمل کی ہو سکتی ہے۔یا پھر کوئی بھی شخص جسے اپنا آئیڈل تصور کر لیتا ہے۔ اسے قلب و نظر میں یہ مرتبہ عطا کر دیتا   ہے۔لیکن ایسی شخصیتیں بہت کم ہوتی ہیں جو مذکورہ بالا میں سے نہ ہوتے ہوئے بھی دلوں پر حکمرانی کرتی ہیں جن سے کمپیوٹر کے ذریعہ آن لائن اور فون پر گفتگو کر کے مسرت اور محبت کا احساس ہوتا ہے۔ جن کی تصویر دیکھ کر احترام و عقیدت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اورجن کا ذکر خیر باعث اطمینان قلب ہوتا ہے۔ دراصل ایسے اشخاص انتہائی بلند کردار اوراعلیٰ درجہ کے انسانی بالخصوص، اسلامی اخلاقیات کے حامل ہوتے ہیں۔ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کو پورے شعور کے ساتھ نہ صرف فریضہ تصور کرتے ہیں بلکہ ہر وقت اسے عملی طور پر انجام دینے میں پس و پیش سے کام نہیں لیتے۔ستائش کی تمنا اور صلے کی پرواہ سے بے نیاز ہو کر ادبی اور انسانی خدمت کرتے ہیں۔ میری نظر میں ایسی بہت کم  شخصیات میں سے ایک ناصر ملک بھی ہیں جو اپنے مرتبہ و مقام علمی حیثیت جذبۂ انسانی خدمت منکسر المزاجی، مہمان نوازی، ایثارو قربانی اور اردو و اہل اردو سے بے لوث محبت کی وجہ سے وہ بڑی قد آور شخصیت کے مالک ہیں۔ جسے عام قد و قامت والوں کے درمیان ناصر ملک صاحب کی  شعری اور نثری تخلیقات میں سے کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں جو آن لائن بھی ان کے ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ موصوف کی جملہ کتابوں کے مطالعہ کا موقع فراہم ہوا ہے۔میں نے ان کے آن لائن میگزین اردو سخن کے دیباچے اور دیگر ادبی تقریبات میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے علمی موضوعات پر پیش کی گئی تقاریر کو پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک مستند علمی شخصیت اور معتبر ادیب ہیں۔ ان کا مشاہدہ اور مطالعہ بہت وسیع ہے۔ ناصر ملک صاحب کی شخصیت ہر اعتبار سے قابل تقلید ہے۔ اہل پاکستان با لخصوص اردو کے لیے موصوف کی اس ارض بہشت میں یعنی مراد ان کی آبائی وطن سے ہے۔ میں موجودگی کو نعمت غیر مترقبہ ہے۔

ہتھیلی جو کہ ناصر ملک کا شعری مجموعہ ہے اس میں حمد و نعت، غزلیں، نظمیں اور آزاد نظمیں شامل ہیں۔ ناصر ملک نے اس مجموعہ میں تمام شعری و فنی تقاضوں کو برتتے ہوئے مختلف موضوعات مثلاً انسانی جذبات و احساسات کی ترجمانی اور قومی ملی کے مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے۔بعض نظموں میں زندگی کے تلخ تجربات کو بیان کیا ہے۔ یا اس شعری مجموعہ کے ذریعہ بالخصوص مجموعے کے آخر میں پنجاب و سندھ میں 2010میں آئے سیلاب میں ہونے والی تباہی و بربادی سے متعلق تخلیقات پیش کی ہیں۔ ناصر ملک کا شعری سفر اس مجموعہ میں پختہ اور حساس نظر آتا ہے۔ ان کا اندازہ پیش کش، موضوعات اور مسائل زندگی کے مطالعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔

مہندی سے اِک خواہش اپنے ہاتھوں پر

سکھیاں لکھ کر چوری چوری پڑھتی ہیں

زندگی میں امید اور ناامیدی کی کیفیت ان کی شاعری کا حصہ ہے۔ وہ زندگی سے مثبت نتائج اخذ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی نظر موجودہ دور کے نظام حیات پر گہری ہے۔ ان کی امیدیں جہاں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں وہیں وہ پر امید بھی نظر آتے ہیں۔

چراغِ شب جلا کہیں ؟ نہیں، نہیں، ابھی نہیں

سحر نے ڈھونڈ لی زمیں ؟ نہیں، نہیں، ابھی نہیں

ان کی شاعری میں کلاسیکی موضوعات کی رنگا رنگی بھی خوب نظر آتی ہے۔ مقتل، جگنو، چشم جیسے الفاظ سے تغزل کا انداز پیدا کرنے کا ہنر خوب آتا ہے۔مثلاً

چشمِ تر میں نقوش لرزاں ہیں

غم یہاں بے لباس ہے میرا

جگنوؤں کو اُجال رکھا ہے

اس کا ملنا قیاس ہے میرا

ہیں بدن پر حقوق مقتل کے

دل مگر اُس کے پاس ہے میرا

جہاں ایک طرف قدیم روایتوں کے پاسداری ہے وہیں فرسودہ نظام سے بغاوت و احتجاج بھی موجود ہے۔ عمل کے مقابلہ جتنے بھی بے عملی و    پر مبنی خیالات کا رواج ہے وہ اس پر ضرب لگاتے ہیں۔ ہتھیلی کو استعارہ بنا کر زندگی کے مختلف جہات کی اشارہ کرتے ہیں۔ شعر ملاحظہ ہو۔

لکیروں کو مٹا بھی دو، لکیریں مار دیتی ہیں

ہتھیلی کاٹ پھینکو ناں، ہتھیلی مار دیتی ہے

اے لڑکی! اِس ہتھیلی سے بغاوت ہو نہیں سکتی

اگر یہ رُوٹھ جائے تو محبت ہو نہیں سکتی

یہی تو لمس دیتی ہے شروعاتِ تعلق کو

سمندر ہے، سمندر سے عداوت ہو نہیں سکتی

ہتھیلی کی لکیروں میں چھپے ہیں اوس کے موتی

مگر بے فیض ہاتھوں سے کرامت ہو نہیں سکتی

سنو! اپنی شرارت یا پہیلی مار دیتی ہے

ہتھیلی سے نہ اُلجھو یہ ہتھیلی مار دیتی ہے

زندگی کے تگ و دو میں انسان آج بھی پتھر کے زمانہ سے آگے نہیں بڑھ پا یا ہے۔ آج بھی اسے سخت محنت و مشقت کے عوض دو وقت کی خوراک میسر نہیں ہوتی۔ کہنے کو زمانہ نے تو بہت ترقی کر لی ہے اور زیست کو آسان سے آسان تر بنانے میں انسان نے نئے نئے آلات خلق کر لیے ہیں اور نئی نئی ترکیبیں ایجاد کر لی ہیں۔ لیکن ایک عام شخص کیا ان وسائل سے فیضیاب ہو پاتا ہے جواب نفی میں ملے گا۔ ناصر ملک اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں۔ ان کی نظر سماجی وسائل کی طرف گہری ہے۔ مثلاً

یہ اور بات قافلے سرعت سے چل دیے

وہ شخص راہِ زیست میں اَب بھی کھڑا تو تھا

پلتا ہے غریبوں کی کمائی پہ جو بدبخت

رہزن ہے حقیقت میں وہ مخدوم نہیں ہے

جب بھی تشدد یا مذہبی منافرت نفرت کے عوض بے گناہوں کی جانیں جاتی ہیں اور برسہا برس انصاف کے لیے گجرات کے اندر ذکیہ جعفری جیسے در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں تو ناصر ملک کا دل کرب سے تڑپ اٹھتا ہے۔

ساٹھ برسوں بعد بھی بوڑھی زبانوں پر ملے

حرص کے مارے ہوئے بلوائیوں کے تذکرے

جب بھی ظلم و جبر نے سر اٹھایا ہے تو ادیبوں اور قلم کاروں نے اس کے خلاف آواز بلند کی ہے۔آواز بلند کرنے کے نتیجہ میں حکمران طبقہ نے ادیبوں اور شاعروں کو زد و کوب بھی کیا۔ فیض اور حبیب جالب جیسے شاعروں کو جیلوں میں ڈالا گیا اور کبھی جعفر زٹلی کی طرف شہید بھی کیا گیا۔ لیکن ناصر ملک نے اپنا  فرج نبھاتے ہوئے اس مسئلہ کی طرف اپنی شاعری میں اشارہ کیا ہے تاکہ ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کو حق گوئی کا حق حاصل ہو سکے۔

کبھی اِس جرم کی پاداش میں ایسا ہوا بھی ہے

کہ شاعر یا کہانی کار مقتل میں کھڑا ہو اور

اسے اتنی اجازت بھی نہ ہو کہ گفت گو کر لے

گھڑی بھر دیکھ لے اُس کو، جسے اُس نے تراشا ہو

جسے ترتیب بخشی ہو، جسے برسوں تلاشا ہو

مجھے منظور ہو گا تم کوئی بھی فیصلہ لکھ دو

میں اپنے ہر ہنر میں بھی اُسے ترتیب دیتا تھا

وادیِ سوات میں خواتین پر ہو رہے ظلم و جبر کے خلاف اپنی آواز یوں بلند کرتے ہیں۔

(وادی سوات کی ہجرت کے تناظر میں )

ہمارا حوصلہ انصار کا سا تھا مگر اُس کو

ہمارے ناتواں دل سے اسی قصرِ امارت کے

لہو آلود جبڑوں نے اچانک نوچ ڈالا ہے

ہمیں معلوم ہے کل کو ہمارے گھر میں بھی ایسی

ہزاروں میّتوں پہ روٹیوں کے بین گونجیں گے

ناصر ملک کی شاعری میں ہجرت کے کرب کا احساس موجود ہے۔ آبائی وطن سے رخصت ہونے کے بعد سفر کی صعوبتیں اور نئی منزل کی تلاش و جستجو اور اجنبیت کے احساس کی تڑپ کو انہوں نے جذباتی انداز میں یوں پیش کیا ہے۔

چار کمروں کی جنت کہانی ہوئی

میرے پُرکھوں کی محنت کہانی ہوئی

فصل اُجڑی، شجر، پھول، پودے گئے

ایک پل میں مویشی بھی اوجھل ہوئے

میری املاک کے سب نشاں مٹ گئے

سارے منظر اچانک بیگانے ہوئے

گھر کا رستہ بھی مجھ کو دکھائی نہ دے

کیا کروں آج کچھ بھی سجھائی نہ دے

میری بیٹھک نہ ڈیرہ، نہ مسجد یہاں

دادی اماں نہ دادا کا مرقد یہاں

اب نہ بہنیں، نہ بھابھی، نہ بھائی یہاں

کیوں یہ قسمت مجھے لے کے آئی یہاں

میرا گھر، میری دُنیا ٹھکانے لگی

زندگی کس طرف لے کے جانے لگی

نام درکار ہے اِس کڑے درد کو

زندگی چاہیے آخری فرد کو

ماں کی عظمت اور اس کی تقدس پر اشعار کہتے ہیں۔

چارہ گر ! بس مجھے سائباں چاہیے

چند لقمے نہیں لختِ جاں چاہیے

گھر کے سامان کا تذکرہ مت کرو

اور کچھ بھی نہیں، مجھ کو ماں چاہیے

ماں اس کائنات میں زندگی کا سرچشمہ ہے۔ اس کا سایہ ہی کسی بھی شخص کی زندگی میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ ہندوستان کے قدیم مذاہب میں اپنے وطن کو ماں کا درجہ دیا گیا ہے۔ ناصر ملک زندگی دینے والے اور زندگی کی حفاظت اور پرورش کرنے والے دونوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور ان کی عظمت کے قائل ہیں۔ کسی بھی آفت، مصیبت، یا پریشانی میں انسانوں کی مدد کرنا ہی سب سے بڑی عبادت ہے۔ پنجاب میں آنے والے سیلاب میں رضا کاروں کے لیے کہی گئی نظم میں وہ کہتے ہیں کہ

وہ جو موت کی آنکھ میں آنکھ ڈالے

وہ پانی میں پھنسے ہوؤں کو نکالے

وہ معدوم ہوتی ہوئی چیخ سن کر

اجل کے شکنجے سے بیٹی چھڑا لے

کہیں مامتا کو تڑپتا نہ چھوڑے

کہیں باپ کی زندگی کو بچا لے

وہ ساگر میں پیاسوں کو پانی پلائے

وہ بھوکوں کو کھانا کھلا کر دعا لے

خبر دے وہ بیمار کو زندگی کی

وہ تن ڈھانپ کر آخرت بھی کما لے

وہ صدیق ثانی بنے، گھر لٹا دے

وہ انصار بن کر مہاجر سنبھالے

وہ دریا سے، پتھر سے، آفت سے لڑ کر

کسی ایک ہی زندگی کو بچا لے

رضا کاروں کو جنہوں نے اپنے جانوں پر کھیل کر آفت آسمانی کی چنگل سے چھڑانے کے لیے خود اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالتے ہیں۔

بیٹے کے ہاتھ سے نیا بستہ پھسل گیا

بیٹی کا تھا جہیز جو دریا نگل گیا

سیلاب سے ہوئی بربادی و تباہی کا ذکر بہت ہی جذباتی انداز میں کیا ہے۔ یہاں ان کا رنگ کربلائی مرثیے سے جا ملتا ہے۔ وہیں کرب وہ اندوہ جو کہ تاریخ اسلام کا حصہ ہے۔ ناصر ملک اس حادثہ میں محسوس کرتے ہیں جس میں سیلاب نے ہزاروں بے گناہوں کو نگل لیا تھا۔

ناصر ملک اپنی شاعری میں ایک پختہ کار شاعر کے حیثیت سے موجودہ دور کے صف اول کے شعراء میں شمار کئے جاتے ہیں۔ اس کا اندازہ ان کی شاعری کی مطالعہ سے بحسن و خوبی کیا جا سکتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہو۔

یہ کس مقام پر ہمیں خدا نے لا کھڑا کیا

کوئی بتائے تو سہی کہ جرم ہم نے کیا کیا

یہ دھوپ کتنی تیز ہے، کھلا ہے سر پہ آسماں

یہ بھوک بھی بلا رہی ہے ایک مرگِ ناگہاں

نگل گئی ہے پیاس میرے نونہال سینکڑوں

یہ آگ چاٹ کر چلی ہے با کمال سینکڑوں

جنہیں بچا رکھا تھا میلی آنکھ سے، وہ بیٹیاں

اَب عالمِ بے پردگی کی نذر ہو گئیں یہاں

یہ سیلِ بے ثمر ہمیں بھکاریوں کے روپ میں

کھڑا کیے ہے محوِ رقص دل شگاف دھوپ میں

سیاستِ وطن کا فیض، بہہ گئے غریب گھر

وہ دشمنانِ قوم کی بچی رہی زمیں مگر

ہماری بے کسی کے اشتہار کس قدر بکے

مذاکروں کے نام پر کھلے ہیں اور مَے کدے

ہمارے نام پر برس رہی ہیں زر کی بارشیں

سجی ہوئی ہے منظروں سے ہر دکان دیکھ لیں

غریب کا معاوضہ حکومتوں کا مال ہے

فریب ہے، یہ مقتدر کی بھوک کا سوال ہے

مرے خدا ! وطن کی سرزمین مجھ پہ تنگ ہے

مری طرف اُٹھی ہوئی نگاہ سرخ رنگ ہے

مذکورہ نظم میں خدا سے شکوہ کے انداز میں قومی بے بضاعتی کا ذکر کرتے ہوئے فریاد کناں ہیں کہ خدا کی آفت سے کب نجات ملے گی۔ جب بھی کوئی آفت اور مصیبت آتی ہے تو غریب اور متوسط طبقہ کے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ جبکہ حکمران طبقہ کے لوگ اظہار افسوس کے بجائے اس لیے خوشیاں مناتے ہیں کہ امداد کی رقم کو کس طرح اپنی ذاتی تصرف میں لیا جائے۔ وہ اس کی ترکیبیں کرنے لگتے ہیں۔ ہندوستان ہو یا پاکستان یا بنگلہ دیش ہر جگہ کے مسائل ایک جیسے ہیں۔ شاعر و ادیب کی ذمہ داری بھی سرحدوں کو نہیں دیکھتی۔ بلکہ جب بھی انسانیت کا خون ہوتا ہے ایک سچا اور حساس شاعر اس کر کو ذاتی کرب کی طرح محسوس کرتا ہے۔ ناصر ملک کا شمار انہیں شعراء میں کیا جا سکتا ہے۔

میرے مہمان ! بہتر پتا ہے تجھے

ہم ازل سے کڑی آفتوں میں رہے

خون، جنگ و جدل، زلزلے، آگ بھی

حکمرانوں کے نا وقت کے راگ بھی

آمریت نے توڑا ہمیں بارہا

عہدِ جمہور بھی خون پیتا رہا

ٹیکس کے عوض میں لوڈ شیڈنگ ملی

قحط و بحران کی آگ جلتی رہی

ملک دو لخت ہو کر سسکتا رہا

بینک بیلنس وزیروں کا بڑھتا رہا

اک سپاہی کا ڈنڈا ہی قانون ہے

سلطنت بھی وڈیروں کی مرہون ہے

لاکھ بھونچال ہوں، لاکھ سیلاب ہوں

رہزنوں کے خزانے تو سیراب ہوں

میرے مہمان ! یوں دل نہ میلا کرو

چند لقمے مرے پاس ہیں، بانٹ لو

میں نہ ممبر، وڈیرا، نہ سردار ہوں

ہاں مگر میں ہی تیرا الم خوار ہوں

ہم غریبوں میں گر یہ جہالت نہ ہو

ان لٹیروں کی ہم پر حکومت نہ ہو

سیلاب کے باوجود امراؤ کے خزانے بھرتے ہی جا رہے ہیں۔ جہاں ایک طرف انسانیت سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے وہیں دوسری طرف ذخیرہ اندوزی میں بڑے بڑے لوگ مصروف ہیں۔ اس پر شدید طنز کیا گیا ہے۔ ناصر ملک کی شاعری کے مطالعہ سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ ا نہیں انسانیت سے ہمدردی اور ظلم سے نفرت و بغاوت ہے۔ وہ اپنی بات بے باکی سے کہہ دیتے ہیں۔ ان کی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جب بھی سماجی و ملی یا قومی مسائل کی طرف توجہ دلاتے ہیں ان کا شعری آہنگ کبھی متاثر نہیں ہوتا اور یہ ہنر ایک عظیم شاعر و فنکار کی عظمت کی دلیل ہے۔یہاں سے ان کی شاعری سے متعلق خصوصیات پر ایک طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے جبکہ وہ اپنی ہمہ جہت خصوصیات کی وجہ سے عالمی پیمانہ پر شہرت کے حامل ہیں۔ چونکہ وہ ابھی بھی ایک فعال ادیب و دانشور کے حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پوری اردو دنیا میں تمام برقی مجلہ و اخبارات سے متعلق صحافیوں کی اپنے برقی مجلے کے ذریعہ رہنمائی فرما رہے ہیں۔ موجودہ دور میں ایک مرد مومن کا یہی جہاد ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ اپنی قارئین کو اپنی تحریروں افکار و خیالات سے سرفراز کرتے رہیں گے۔

٭٭٭

آؤ ٹرم لین -ایک نظر میں

کہا جاتا ہے کہ ناول زندگی کا آئینہ ہوتا ہے۔ ہمعصر زندگی کے نشیب و فراز کو جس عمدگی سے ناول میں سمیٹا جا سکتا ہے دوسری کسی صنف میں نہیں۔ اس بات کی صداقت یوں بھی مستند ہے کہ ہر زبان میں اس کی مثالیں موجود ہیں اور اردو ادب میں تو تاریخ نویسی کی ایک کامیاب کوشش بہ اسلوب فکشن عینی آپا کر چکی ہیں اور اس کوشش میں اس قدر کامیاب  ثابت ہوئیں کہ انہیں اردو فکشن کا سیارۂ زحل قرار دیا گیا۔ بہر حال اس وقت میرے پیش نظر ایک ایک ایسا مختصر ناول ہے جس کی مصنفہ کا تعلق اس نئی نسل سے ہے جس پر یہ الزام عاید ہوتا ہے کہ وہ تخلیقی جودت سے بیگانہ ہو چکی ہے۔ 132صفحات پر مشتمل اس ناول کا عنوان ’’آؤ ٹرم لین‘‘ ہے جو دہلی یونیورسٹی نارتھ کیمپس کے قریب واقع مکھرجی نگر کا وہ محلّہ ہے جہاں مسابقاتی امتحان بطور خاص آئی اے ایس اور آئی پی ایس کی کوچنگ کے لئے سارے ہندوستان میں مشہور ہے ناول نگار چونکہ اس محلہ میں خود رہی ہیں اس لئے وہاں کے ماحول کا نہایت باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہے۔ خود کوچنگ اور امتحانات کی تیاری کی ہے لہٰذا نوجوانوں کے شب و روز سے واقف رہی ہیں۔ ایک گاؤں سے تعلق ہونے کی وجہ سے زیادہ تر طلبہ جن کا تعلق دیہی معاشرے سے ہوتا ہے کہ معاشی صورتحال کا اندازہ لگانے میں بھی مصنفہ کو دشواری نہیں ہوئی ہو گی لیکن پورے ناول کی کہانی کو نیلوفر نے جس خوبصورتی سے مربوط کیا ہے وہ اپنے آپ میں قابل ستائش ہے۔ ناول نگار کی اس جرأت کو بھی داد دینی ہو گی کہ انہوں نے اس سے قبل تخلیقی ادب کے طور پر ایک کہانی بھی نہیں رقم کی اور سیدھے سیدھے ناول لکھنے پر آ گئیں اور جو تحریر پکی روشنائی میں شائع ہو کر منظر عام پر آئی اسے پڑھ کر یہ قطعی اندازہ نہیں ہوتا کہ محترمہ نووارد ہیں۔ موضوع کے اعتبار سے بھی یہ ناول منفرد ہے اور نہایت کامیاب کو شش بھی جس کے ذریعہ آزادی کے بعد قائم ہونے والے ہمارے معاشرے میں رائج سسٹم پر زبردست تنقید کی گئی ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ جمہوری طرز حکومت کے نام پر ہمارے ملک میں نوکر شاہی رائج ہے لیکن انتظامیہ کو کنٹرول کرنے والے یہ آفیسران جس ٹکسال سے نکل کر آتے ہیں اس ٹکسال کی حقیقت اس ناول کے ذریعہ کھولی گئی ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ کریں۔

’’ویسے تم کیا سوچتے ہو کہ جو لڑکے دس بیس نمبروں سے رہ جاتے ہیں وہ بالکل اتنے گدھے ہوتے ہیں کہ ان کو ٹیچر کی نوکری بھی آفر نہ کی جائے بکواس ہے یہ سارا سسٹم -ایک ہی لڑکا کبھی P.Tتک میں نہیں آتا اور کبھی فائنل میں ٹاپ کر جاتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔سرکار لاٹری چلاتی ہے لاٹری۔ ایک ہزار کو چننے کے لئے چار لاکھ نوجوانوں کو ریگستان میں لا کر چھوڑ دیتی ہے جہاں نہ پینے کا پانی ہوتا ہے نہ ہی سرپر کسی پیڑ کا سایہ۔ ہم جیسے لوگ دماغ رکھنے کے باوجود چوہے کی طرح گرم ریت میں بل کھودنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ‘‘۔

ناول نگار نے معاشرے کی بے حسی کو پوری طرح بے پردہ کر دیا ہے اور نہایت سفّاکی سے وہ تمام حقائق اجاگر کر دیئے ہیں جو اس صارفیت زدہ سماج کا زائیدہ ہے اور جس پر اس عہد کو فخر ہے نوجوان نسل کو گمراہ کرنا اسی طرح کا سنگین جرم ہے جیسا جرم دہشت گرد انجام دے رہے ہیں لیکن ملک کے دل میں کھلے عام نوجوانوں کو منزل سے دور لے جا کر زندہ درگور کر دینے کا کام نہایت با وقار انداز سے ہو رہا ہے اور پورا معاشرہ نیز حکومت خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہی ہے۔

ڈاکٹر نیلوفر نے ’’آؤ ٹرم لین‘‘ میں حقائق کو کہانی بنا کر پیش کیا ہے۔ یہ ایک انقلاب کی چنگاری بھی ہو سکتی ہے لیکن اس معاشرے میں اس کی امید قطعی نہیں کی جا سکتی جس معاشرے میں پیشمانی وگناہوں کے احساس سے ترجبینوں کو محنت کش قرار دیا جائے۔ لیکن ایک تخلیق کا ر نے اپنا کام بھی کر دیا ہے اور اپنے فرض کی ادائیگی بھی نہ صرف یہ بلکہ بلند و بانگ دعوے کرنے والی ایک نسل کو یہ آئینہ بھی دکھا دیا ہے کہ۔

پیروں تلے گر زمین ہوتی

پھر ہم بھی کوئی کمال کرتے

٭٭٭

ہمارے عہد کا استعاراتی اظہار (ہاؤسنگ سوسائٹی)

قرۃالعین حیدر نام ہے اس ادبی لیجنڈ کا جس نے اردو فکشن کا وقار بالا کیا۔ظاہر ہے کہ ان کے ادبی قد کا ذکر نہ تو اتنا آسان ہے اور نہ ہی اتنا مختصر کہ جسے چند صفحات کے مضمون میں قلم بند کر دیا جائے لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آمدم برسرِ مطلب کہہ کر جلد از جلد اپنے موضوع کی طرف ہی آ جایا جائے۔

میرے پیش نظر ان کا ناولٹ ’’ہاؤسنگ سوسائٹی‘‘ ہے جسے ان کے شاہکار میں شمار کیا جاتا ہے۔ اور جو 1966میں شائع ہو کر مقبول ہو چکا تھا۔ در اصل یہ ناولٹ بھی آگ کے دریا کی طرح بٹوارے کے حالات پر مبنی ہے۔ عینی آپا کا دورِ تحریر 1940سے شروع ہو کر 2000پر محیط ہے(2000کے بعد ان کی کوئی تحریر سامنے نہیں آئی) اس ساٹھ سالہ دور میں ہند و پاک پر جس واقعہ کا سب سے بڑا اور گہرا اثر پڑا ہے وہ بٹوارہ ہے۔ عینی آپا نے اس تمام واقعے، حادثے اور سانحے کا بڑی باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہے۔ ان کے نزدیک ایک اور بہت بڑا مسئلہ ہمیشہ رہا وہ یہ کہ جب انھوں نے اس جہانِ رنگ و بو میں آنکھ کھولی یعنی1926میں اس وقت تک انگریز سرکار اپنی تمام تر ریشہ دوانیوں کے بعد ہندوستان پر پوری طرح قابض ہو چکے تھے صرف ایک چیز تھی جو ہندوستانیوں میں باقی تھی وہ ان کی جاگیرداری تھی جسے انگریزوں نے بشرطِ وفاداری چند علاقوں میں ودیعت کر رکھّی تھی لیکن اس پر انھوں نے اپنی گرفت مضبوط کی ہوئی تھی اور وقتاً فوقتاً وہ ان جاگیرداروں، تعلقہ داروں اور زمین داروں کو معمولی معمولی باتوں پر بھی صرف اس لیے بھی سخت سے سخت سزائیں دیتے تھے تاکہ دوسرے جاگیردار و تعلق ہ دار ہی نہیں بلکہ عام عوام بھی ان کے رعب میں رہیں اور وہ اس میں کامیاب رہیں۔ عینی آپا کی تمام تحریروں کو پڑھنے سے اس امر کا صاف پتہ چلتا ہے۔

ان کی تحریروں کا ایک بڑا وصف یہ بھی ہے کہ جس طرح آزادی کی اولین جنگ 1857کو سمجھنے کے لیے مرزا غالب کے خطوط کو پڑھنا ضروری ہے ٹھیک اسی طرح ہندوستان میں انگریزوں کی آمد اور دو تہذیبوں کے زبردست ٹکراؤ کو سمجھنے کے لیے عینی کی تحریروں کا پڑھنا نا گزیر ہے۔

ہاؤسنگ سوسائٹی میں عینی آپا نے جہاں ایک طرف بٹوارے کے پہلے کے ہندوستان کا خوبصورتی سے نقشہ کھینچا ہے وہیں بٹوارے کے بعد ان افراد کی تبدیلی ذہن کو بھی بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

ناولٹ کے شروعات میں ہی جس طرح انھوں نے جاگیرداری نظام کے کاروبار کو ایک فیصلے کی محفل منعقد کر کے پیش کی ہے وہ اس پورے نظام کے جبر کو واضح کر دینے کے لیے کافی ہے۔

’’سورج کی روشنی تیز ہوئی کیمپ میں چہل پہل شروع ہو گئی۔ آم کے باغ میں اجلاس لگ گیا دور دور تک کھیت کی منڈیروں کے ساتھ یکّے، ادھے، بہلیاں اور سائکلیں کھڑی تھیں۔ اہل کار عرضی نویس محرر، کسان، زمیندار، گواہ، موکل درختوں کے نیچے بیٹھے تھے۔ دو کہار ایک ڈولی اٹھائے اجلاس کی سمت آئے ڈولی درخت کے نیچے رکھ دی گئی اس کے اندر بیٹھی عورت آہستہ آہستہ رونے لگی۔ مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوا عورت نے اپنا بیان دیا۔ پھر وہ سسکیاں بھر بھر کر رونے لگی۔‘‘

اس پہلے حصّے میں جو کردار ہمارے سامنے آتے ہیں وہ ہیں مرزا قمر الدین احمد کی اہلیہ جنھیں لوگ میم صاحب اس لیے کہتے ہیں کہ وہ انگریز نژاد ہیں لیکن انگریزی انھیں واجبی سے آتی ہے اور ان کی چھوٹی سی بیٹی جو ہاتھی پر سوار ہو کر مسماۃ ثریا سلطان عرف بسنتی بیگم کے سامنے سے گذرتی ہے جس کی ماں اپنے بیٹے کے قتل اور بارہ سالہ ثریا کے اغوا کا کیس لے کر تعلقہ دار کے عدالت میں حاضر ہے اور رو رہی ہے بارہ سالہ اس بچّی بسنتی بیگم نے جب اپنی عمر سے کچھ چھوٹی بچی کو ہاتھی پر سوار دیکھا تو اسے پریوں کی کہانیوں والی پری یاد آ گئی اور اس کی تصویر زمین پر اکیرنے لگی۔ کہانی رفتہ رفتہ آگے بڑھتی ہے اور مختلف حالات کے تحت بٹوارہ ہو جاتا ہے لوگ ادھر سے ادھر منتقل ہو جاتے ہیں پریوں جیسی لگنے والی لڑکی جسے سارے علاقے کے لوگ چھوٹی بٹیا کے نام سے جانتے ہیں کراچی میں آ کر ایک بوسیدہ مکان میں اپنی ماں میم صاحب کے ساتھ مقیم ہوتی ہے اور پھر اپنے علاقے کے ایک معمولی کارندے کے بیٹے جمشید علی کے یہاں جو یہاں ایک بڑا کاروباری ہے نوکری کرتی ہے شروع شروع میں وہ ایک دوسرے کو نہیں پہچانتے ہیں لیکن بڑے ڈرامائی انداز میں جب ان دونوں کے درمیان بسنتی بیگم جو اب معروف آرٹسٹ ثریا حسین ہو گئی ہے کا داخلہ ہوتا ہے تو پھر اس کا راز کھلتا ہے کہ ثریا مرزا کون ہے۔

عینی آپا کے تمام ناول اور ناولٹوں کی طرح اس ناولٹ میں بھی کرداروں کی بہتات ہے۔ لیکن ان تمام کرداروں کے بیک گراؤنڈ میں جو یکسانیت ہے وہ صرف یہ کہ یہ سب بدلتی ہوئی تہذیب اور اس کے مختلف رنگوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

عینی آپا کے اس ناول میں مارکسیت ایک خاص انداز میں رونما ہوتا ہے اور بڑے ہی عجیب انداز میں اس کا انجام ہوتا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں قرۃ العین حیدر مارکسزم سے متاثر تو ہیں لیکن ان کے لیڈروں کے رویّے سے بے حد نالاں بھی۔اس ناولٹ میں سلمان مرزا ایک ایسا ہی کردار ہے جو مرزا قمر الدین کا لڑکا اور چھوٹی بٹیا سلمیٰ مرزا کا بھائی ہے۔ ماں باپ کی خواہش ہے کہ وہ کمپٹیشن کے اگزام میں بیٹھ کر اعلیٰ عہدے دار بنے لیکن وہ مارکسزم سے متاثر ہو کر سب کچھ چھوڑ دیتا ہے اور فکری طور پر ہی نہیں بلکہ پوری طرح سے کمیونسٹ بن جاتا ہے بٹوارے کے بعد وہ پاکستان بھی جاتا ہے لیکن وہاں وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا جاتا ہے۔

عینی آپا نے اس ناولٹ میں جہاں دو تہذیبوں کی رسّہ کشی کو پیش کیا ہے وہیں عورتوں کے مسائل کو بھی سامنے رکھا ہے جمشید اور اس کی منکوحہ منظور النسا کی شادی جو جمشید کی چچازاد بہن ہے اور پھر ان کا طلاق اور آخر میں اس کی موت ناول کو انتہائی سنگین صورتحال سے دو چار کر دیتے ہیں۔ عینی آپا کا کمال ہے کہ وہ ہر ناول یا ناولٹ میں جس طرح مسائل کو پیش کرتی ہیں ایسا لگتا ہی نہیں کہ وہ اسے پیش کرنا چاہتی ہوں۔ مسائل کرداروں کے ساتھ خود بخود سامنے آنے لگتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہاؤسنگ سوسائٹی اس ذہن کے لوگوں کو معقول جواب فراہم کرتا ہے جن کو لگتا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد ایک خالص اسلامی ملک کا نقشے میں اور اضافہ ہو جائے گا لیکن ہوتا اس کے بالکل برعکس ہے۔

ہاؤسنگ سوسائٹی میں ہندوستان کے مشترکہ کلچر اور تہذیب کی جس طرح نمائندگی ملتی ہے اسے شاید ہی کسی اور اردو کے قلمکار نے اس طرح پیش کیا ہو۔

جمشید جب پاکستان میں سیٹل ہو جاتا ہے اور بڑا کاروباری بن جاتا ہے تو اسے اپنی بیٹی کا خیال آتا ہے جو ہندوستان میں اس کی مطلقہ بیوی کے ساتھ ہے وہ اسے لینے اپنے آبائی گاؤں آتا ہے اور جب وہاں وہ اپنے چچا یا خسر سے اس کی تعلیم کے بارے میں پوچھتا ہے تو اسے جواب ملتا ہے:

’’ہم خود پڑھاتے ہیں اردو اور قرآن شریف، شمبھو بھیّا انگریزی بھی پڑھا دیتے ہیں اے، بی، سی، ڈی۔ گوسائیں بھیّا اسے ہندی پڑھا رہے ہیں۔ سید مظہر علی نے فخر سے بتایا جمشید کو ایسا محسوس ہوا جیسے گاؤں کے لوگ اس کی بیٹی کو ذاتی ذمّہ داری سمجھتے تھے۔ وہ یہ کہنے ہی والا تھا کہ اس کا ارادہ ہے کہ کراچی لے جانے کے کچھ عرصے بعد وہ فرحت النسا کو تعلیم کے لیے سوئٹزر لینڈ بھیج دے مگر اب چچا ابا اور شمبھو دادا اور گوسائیں کا کا کو یہ بتاتے ہوئے اسے بے حد شرم آئی۔‘‘

مندرجہ بالا اقتباس صرف فکشن کا حصّہ نہیں بلکہ حقائق کی روداد ہے جس کے بل پر ہندوستان کے لوگ آج بھی ساری دنیا میں اپنی ایک الگ اور قابلِ مبارکباد شناخت رکھتے ہیں اور یہی وہ حصّہ ہے جسے لکھ کر عینی نے ادب کی دنیا میں بھی حقائق کی روداد لکھنے کی مدعی قرار دی گئی ہیں۔ عینی نے کبھی بھی ناسٹلجیا کو منفی انداز میں پیش نہیں کیا بلکہ وہ اس کے لیے ایک معقول جواز فراہم کرتی ہیں اپنے ادب پارے میں اس کے لیے گنجائش نکالتی ہیں کردار خلق کرتی ہیں ان کرداروں کی تاریخی حیثیت کی پڑتال کرتی ہیں تب جا کر اسے پیش کرتی ہیں۔

عام طور پر لوگ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ عینی آپا نے جاگیردارانہ گھرانے میں آنکھ کھولی اور ان کے فن پارے میں اس طبقہ کی بہترین نمائندگی ملتی ہے یہ حقیقت تو ہے لیکن ہاؤسنگ سوسائٹی میں انھوں نے جاگیردارانہ سماج پر جس طرح گرفت کی ہے اور اس کے لیے جس طرح کا بیک گراؤنڈ انھوں نے خلق کیا ہے اسے دیکھ کر ایسا نہیں لگتا۔

ناولٹ کے آخر میں ناولٹ نگار نے جس طرح اس کا اختتام کیا ہے وہ ہاؤسنگ سوسائٹی کو پوری طرح اجاگر کر دیتا ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹی ہے کیا ایک ایسا استعارہ جس کے ذریعہ سماج کے اس طبقے کو اکھٹا دکھانا مقصود ہے جو صرف ذاتی مفاد اور پیسے کے حصول کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں لیکن اس ہاؤسنگ سوسائٹی میں جگہ حاصل کرنے کے لیے جو کچھ فروخت کرنا پڑتا ہے اسے ناول نگار کی زبانی سنیے ناولٹ کا یہ وہ حصّہ ہے جہاں جمشید یہ جان چکا ہے کہ اس کی پرسنل سکریٹری ماضی کی جاگیردار چھوٹی بٹیا ہے جو پریوں کی طرح ہاتھی پر بیٹھ کر سیر کیا کرتی تھی۔ وہ اسے ایک خط لکھتا ہے اور کہتا ہے۔

’’بٹیا میں در پردہ ہر ممکن طریقے سے آپ کی مدد اور اعانت کروں گا اور آپ کو کسی بھی دفتر میں ایک معقول ملازمت دلوا دوں گا۔ آپ کی اور آپ کی والدہ صاحبہ مکرمہ کی خدمت میرا فرضِ اولین ہے۔ بٹیا — اب میں آپ کے بزرگ کی حیثیت سے چند پند و نصائح کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ دنیا بڑی ذلیل جگہ ہے میں بھی دنیا کا ایک فرد ہوں۔ آپ کے بھائی نے دنیا سے سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا اور اس کی سزا بھگت رہا ہے۔ مجھے یقین ہے اور امید ہے کہ بہت جلد اسے معلوم ہو جائے گا یا شاید معلوم ہو چکا ہو کہ اس کے تجزیے اس کی انتہا پسندی اور آئیڈیلزم قطعاً غلط ہے۔ آپ نے اپنے حالات اور اپنی مجبوریوں کے تحت میرے ذریعہ دنیا سے ایک حد تک سمجھوتہ کر لیا جس طرح ثریّا نے میرے ذریعہ دنیا سے سمجھوتہ کر کے سورج کے نیچے اپنی جگہ بنا لی مجھے یقین ہے کہ قطعی فیصلہ کرنے سے قبل اسے شدید ذہنی کش مکش کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ مگر اسے معلوم ہو چکا ہے اور آپ بھی دیکھ چکی ہیں کہ آج کی دنیا ایک بہت عظیم الشان بلیک مارکیٹ ہے جس میں ذہنوں دماغوں، دلوں اور روحوں کی اعلیٰ پیمانے پر خرید و فروخت ہوتی ہے۔ بڑے بڑے فن کار دانش ور، عینیت پسند اور خدا پرست میں نے اس چور بازار میں بکتے دیکھے ہیں میں خود اکثر ان کی خرید و فروخت کرتا ہوں۔

میں یہ سب باتیں آپ کو اس لیے لکھ رہا ہوں کہ آپ ذہنی طور پر بڑی ہو جائیں اور زندگی کی طرف سے کسی قسم کے مزید الوزن اور خوش فہمیاں آپ کے دل میں باقی نہ رہیں ورنہ آپ کو مرتے دم تک مزید صدمے اٹھانے پڑیں گے۔‘‘

آپ نے دیکھا کہ قلمکار نے کس خوبی کے ساتھ نئی تہذیب کے ساتھ در آئی نئی ذہنی تہذیب کو خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے اور جن باتوں پر انھوں نے انگشت نمائی کی ہیں ان تمام چیزوں کی کتنی توانا شکل آج ہمارے سامنے مجسم موجود ہیں ہم دیکھ رہے ہیں محسوس کر رہے ہیں کہ اس آکٹوپس نما عفریت نے ہمارے پورے عہد کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور ہم بے بسی سے اپنی تمام چیزوں کو فنا ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے اس ناولٹ میں یہ صاف کر دیا ہے کہ :

’’جس نظام نے اس مذہبی عصبیت کو جنم دیا اسی عصبیت کے ہاتھوں اس سماج کے محل جلا دیے گئے۔ مگر ثریا محض اسی وجہ سے آج ان بنیادی تقاضوں کو مزید تقویت حاصل ہوئی ہے ماضی کی محل سرائیں جل کر راکھ ہوئیں مگر ابھی ان ملبوں کی بنیادوں پر دونوں ملکوں میں نئی بورژوازی کے نئے محل کھڑے ہوں گے کل کے جاگیردار کی جگہ آج کا سرمایہ دار حاصل کرے گا۔‘‘

یہ وہ حقائق ہیں جن کا انکشاف کرنا اس ناولٹ کا مقصد ہے اور یہ ایقان ہے یا تجربہ یا پھر ایک قلم کار کی دور بینی جسے پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے سماج میں اتنے ذہین و حق پسند قلم کار پیدا ہوئے ہیں۔ اسی لیے عینی ایک عہد پر حکومت کرتی رہیں اور آج ان کے انتقال کے بعد ایسا لگنے لگا ہے کہ اردو دنیا میں جو خلا پیدا ہو گیا ہے اس کا پُر ہونا تو دور اس میں اڑوار لگانا بھی نا ممکن ہے۔

٭٭٭

 

سردار علی کی ادبی و صحافتی خدمات

اب سماج کا آئینہ ہوتا ہے۔یہ زمانے کی روش و رفتار، معاشرے کے میلان و رجحان، تہذیبی ثقافتوں اور عمرانی ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اردو زبان و ادب نے ہر دور میں رفتار زمانہ کا ساتھ دیا ہے۔اس نے زندگی کے اچھے پہلوؤں اور اخلاقی تصورات کو ابھارنے میں بھی اہم رول ادا کیا ہے۔اور قدم قدم پر خارجی محرکات سے متاثر ہوئے بغیر بھی نہیں رہا ہے۔ اور شعرو ادب صرف قلعوں اور محلوں کی فیصلوں کے اندر پروان نہیں چڑھا اور نہ ہی دریاؤں تک محدود رہا بلکہ اس نے نے عوام کے دل کی دھڑکنوں سے ہمیشہ رشتہ قائم رکھا۔

بزم ہستی میں رب کی قدرت کے مظاہر کا شمار نہیں۔ ہر صدی اور ہر زمانے میں ایسی ملتی ہیں۔ جو انفرادی شان کے ساتھ اس کارگاہ حیات میں جلوہ افروز ہوئی ہیں۔ ان میں کوئی ایسا امتیازی جو ہر ہوتا ہے۔جو نمایاں نظر آتا ہے اور وہ اسی جوہر کے باعث اپنے معاصرین سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ بیسویں صدی میں دنیا نے جتنی عظیم ہستیاں پیدا کیں ہیں بلاشبہ سردار کو ان میں اک اہم مقام حاصل ہے۔میں اسی نابغۂ روزگار عبقری شخصیت پر اپنے خام قلم کی روشنائی صرف کرنے جا رہا ہوں۔ دنیا جنہیں بابائے قوم کے نام سے جانتی ہے۔ یہ ایک عقیدت مند کا غلو نہیں دور حاضر کے اہل نظر، دانشور، نکتہ ہیں اور مردم شناس حضرات کا فن فقہ حتمی رائے ہے۔

سردار علی عالم اسلام و مسلمان کے ان دانشوروں میں ہیں جنہوں نے اپنے زمانے کے علمی، مذہبی، اخلاقی، تمدنی اور سیاسی نظریوں اور انتظامی امور کا بڑا گہرا مطالعہ کیا ہے۔اور اخلاقیات کا ایک ایسا مکمل اور روشن خاکہ مرتب کیا ہے جو رہتی دنیا تک اس کا شاہکار رہے گا۔ان کی نظریات نے ہندوستانی ذہن کی تعمیر میں غیر معمولی حصہ لیا ہے۔سردار علی نے نہ صرف انسانی ذہن کی تعمیر کی بلکہ ان کے ادبی کارنامے کے مطالعہ کی روشنی میں کہا سکتا ہے کہ وہ اپنے کسی معاملے میں اپنی رائے جان بوجھ کر تبدیل کرتے ہیں تو تبدیلی صاف طور پر نظر آتی ہے البتہ دھیان سے دیکھنے والی آنکھ ہی ارتقاء کے اس عمل کو دیکھ سکتی ہے۔ سردار علی کی مقصد سچائی کی اس صورت حال سے مطابقت قائم رکھتا ہے جسے وہ کسی خاص لمحے میں دیکھتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں سچائی کی تلاش میں زیادہ کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے مستقبل کو درخشاں بنانے کے لیے جس انداز فکر کو اختیار کیا اس بارے میں وہ فرماتے ہیں میں مستقبل کا حال جاننے کا خواہش مند نہیں ہوں۔ میرا تعلق زمانۂ حال سے ہے۔خدا نے مجھے آئندہ ہونے والے واقعات کو کنٹرول کرنے کی طاقت نہیں دی۔لیکن حال کے لمحوں کے سے عملی تعلقات ہی درخشاں مستقبل کی بنیاد ہے۔ہمارے چاروں طرف جو گہرا اندھیرا ہے۔ وہ لعنت نہیں بلکہ رحمت ہے۔ خدا ہمیں صرف ایک قدم آگے تک دیکھنے کی طاقت دی ہے۔ اگر ہمیں خدا کی رحمت سے اتنی روشنی میسر آ جائے کہ ہم اتنا فاصلہ دیکھ لیں تو یہ ہمارے لیے کافی ہو گا۔دوسرے الفاظ میں یہ اندھیرا اتنا گہرا نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں یہ اسی وقت زیادہ گہرا نظر آتا ہے۔ جب ہم بے صبری کے عالم میں ایک قدم آگے کا حال معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اعتقاد رکھنے والا انسان ہے اس کا بھروسہ خدا پر ہے۔ اس کے لیے ایک قدم بڑھانا ہی کافی ہے۔اور جب وقت یاد آتا ہے تو خدا خود ان پر یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ اس کا دوسرا اقدام کیا ہونا چاہئے۔

وہ خود کو ایک ادنی انسان سمجھتا ہے۔ جو پوری طرح اچھا، سچا بننے کی اور خیال، قول اور عمل میں ہمیشہ عدم تشدد پر کاربند رہنے کی جدوجہد کر دیا ہے۔ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی طاقت نہیں جو کہ سچائی پر زور دینے سے حاصل ہوتی ہے۔وہ خوبصورتی کو سچائی میں او رسچائی کے ذریعہ ہی سے دیکھتا ہے۔ تمام سچائیاں نہ صرف سچے خیال ہیں بلکہ سچے چہرے سچی تصویریں دیکھ نہیں پاتے۔ عام انسان اس سے دور بھاگتا ہے۔ اور اس میں پہچان اور خوبصورتی اسے نظر نہیں آتی جب لوگ سچائی میں خوبصورتی پہچاننا شروع کر دیں گے تو صحیح آرٹ پیدا ہو گا۔

میری رائے میں سردار علی کی شخصیت ایسی ہے کہ جو اپنی طبعی اور جسمانی سفر کے بعد بھی رہتی دنیا لاتعداد آدمیوں، تصویروں اور صحیفوں کی ہیئت میں زندہ رہیں گے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والے اپنے مذہب کا تبلیغ کرنے کا حق ہے۔ مذہب کی بنا پر کسی سے امتیاز نہیں کیا جا سکتا۔ گو عمل کی دنیا میں یہ بات آسان نہیں ہے مگر اصول زندگی کا نصب العین ہو تو عملی دنیا میں اس خیال کو رفتہ رفتہ رائج کیا جا سکتا ہے۔وہ ہمارے ان قومی رہنماؤں اور مشاہیر میں سے ہیں جو اپنے پیشے میں انہماک اور امتیاز کے باوجود قومی کاموں میں دل کھول کر حصہ لیتے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کی فلاح و بیہودگی کی پے ہر تحریک میں ہر گام پر حصہ لیا ہے وہ جداگانہ انتخابات اور اقلیتوں کی مناسب تحفظات کے حامی ہیں۔ شعر و سخن چونکہ قومی اور ادبی تعلیم کی نصب العین لے کر سامنے آئی اس لیے وہ اس کی دامے، درمے سخنے، قدمے خدمت کر رہے ہیں۔ قومی نقطۂ  نظر کے ساتھ وہ اردو ادب مسلمانوں کے جائز مطالبات کی برابر حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے شعر و سخن کے نام سے انسانوں کو ایک ایسا نسخہ عطا کیا ہے جو بلاشبہ عالم انسانیت اور اردو ادب کے لیے آیت نجات ہے وہ ایک عملی انسان ہیں ماضی پرستی ان کے یہاں آخور کا تحفہ ہے اور وہ نہ ہی ٹھوس اور ناقابل تردید حقائق سے روگردانی کرتے ہیں۔ زمانے کی برق رفتاری اور بھاگ دوڑنے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی اجازت ہی نہیں دیتی اور ہوتا بھی یہی چاہے اس لیے کہ تیز رفتار افراد اور  قوموں کی نگاہیں ہمیشہ مستقبل کے لامتناہی امکانات ہیں۔ نئے منزلوں کی متلاشی رہنی ہیں۔ ان کی شخصیت با اثر ہے کہ ان کی رائے کو نظر انداز کرنا آسان نہیں۔ سردار علی انسانیت کے پرستار ہی نہیں علمبردار ہیں وہ عالمی قومیت پر یقین رکھتے ہیں مگر قومیت کا ان کا تصور ہندوستانی کا نہیں ہے وہ ہماری مشترکہ تہذیب کے شاندار مظہر ہیں۔ وہ ہندو مسلم سکھ اور عیسائی اتحاد کے لیے مدام کوشاں رہتے ہیں۔ مسلمانوں کو علیحدگی پسندی سے بچنے کی ہمیشہ تلقین کرتے ہیں۔ اردو مسلمانوں کے مسائل سے ان کی گہری دلچسپی ان کا نصب العین بن گیا ہے۔ان کا عقیدہ ہے کہ سچی قوم پرستی اور سچی ادب اور جمہوریت، اقلیتوں کے ساتھ انصاف کر ہے اور قومی رہنماؤں زندگی کا نصب العین بنائیں۔ جو ہماری قومی زندگی ی تعمیر میں نمایاں حصہ لے رہے ہیں۔ خصوصاً مسلمانوں کے حقوق کی پاسداری ان کی فلاح و بہبود کے امکانات کو ضروری سمجھا ہے۔ سیکولر تصور رفتہ رفتہ وظیفہ لب سے بڑھ کر طرز زندگی بننے لگا ہے۔ اس سے انسانوں خاص کر مسلمانوں کو سردار علی کی زندگی اور کارنامے سے ولولہ اور امنگ حاصل کرنا چاہئے تاکہ سچی قومیت اور سچی جمہوریت کی منزل تک پہنچ سکیں۔

اردو کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم چند سکہ رائج الوقت قسم کے ناموں کے پیچھے دوڑتے ہیں ان کی طرف کم دیکھتے ہیں۔ جو شہرت بلندیوں پر نہیں ہوتے مگر ایک خاص پیرایۂ اظہار ایک خاص مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ کہ ’’خوش درخشید والے مستعمل بود‘‘ کے مصداق سردار علی اسی زمرے کے اسکالر ہیں انہوں نے اپنی تخلیقات میں سینۂ صحرا میں لہو کی لکیر کھینچ کر بہار کے یہ راستہ ہموار کیا  ہے یعنی انہوں نے اپنی ادبی کارنامے کے ذریعہ انسانوں کو اس قدر محنت کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ مفلسی کا خاتمہ ہوا اور ہر گھر میں دن عید رات شب برات ہو اقبال نے عصر جدید کے شامی مسلمان کا جو تصور مرد مومن کے نام سے اپنے کلام میں اور گاندھی جی نے مرد حق کا جو نمونہ اپنی زندگی میں پیش کیا ہے۔ ان دونوں کی جیتی جاگتی شبیہ مجھے اور میری طرح اور بہت سے لوگوں کو سردار علی کی شخصیت میں نظر آتی ہے۔ سردار علی فقہ کے میدان میں بھی مجتہدانہ فکر کے حامل ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ انسانوں کو اس جانب متوجہ کیا ہے اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہر زمانہ میں نئے نئے مسائل ابھرتے ہیں۔ ان کے بارے میں شریعت کا نقطۂ نظر متعین کرنے کے لیے اجتہاد کا طریقہ اپنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اسلامی تاریخ کے اولین ادوار مے فقہی مسائل کے حل کے لیے اجتماعی غور و فکر کا معمول پر رہا ہے۔ اور یہ کہ فقہی مذاہب کے ظہور کے بعد اس میدان میں امام ابوحنیفہ کی خدمات سب سے زیادہ نمایاں رہی ہیں۔ انہوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ آج کے دنیا میں درپیش مسائل کے حل کے لیے مسلم پرسنل لاء بورڈ اسلامی فقہ اکادمی کے توسط سے یہ طریقہ اختیار کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ ماضی میں فقہا نے مسائل کے حل کے لیے اجتماعی غور و فکر اور اجتہاد کا طریقہ اختیار کرنے کی بہت سی مثالیں چھوڑی ہیں۔ بہتر ہو گا کہ موجودہ دور کے علما ان سے سبق حاصل کرتے ہوئے ملت اسلامیہ کے لیے درپیش مسائل کا حل تلاش کریں اور ثابت کریں کہ شریعت ہر دور میں قابل عمل ہے۔ اور اس کی اتباع میں ہی انسان کی بھلائی اور کامیابی ہے۔

سردار علی کی شاعری کا انتخاب بھی بہت خوبصورت انداز میں شائع کیا گیا ہے۔ اس انتخاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ سردار علی کا آزادانہ انتخاب ہے۔شعری یا نثری ادب کا انتخاب ہمیشہ آزادانہ ہی ہونا چاہئے۔ انتخاب کے لیے مزید اچھا اور نہ ضروری ہے کہ ادب کا ہر قاری یا ادیب انتخاب کی جانب سے ہمیشہ آزادانہ مطمئن ہو کیونکہ اس طور پر آزادانہ انتخاب کے پاؤں میں بیڑیاں پڑ جاتی ہیں۔ اور انتخاب کے پاؤں میں بیڑیاں پڑ جائیں تو وہ انتخاب نہیں بلکہ مخصوص لکھنے والوں کا اشتہار بن کر رہ جاتا ہے۔ سردار علی انتخاب اشتہار نہیں ہے واقعی انتخاب ہے ہماری نظر میں شاعری کا یہ بڑا ہی نمائندہ اور مستند انتخاب ہے۔سردار علی ادبی دنیا میں ادیب، صحافی، نقاد، مصلح اور ان تھک اصلاحی کم کرنے والوں میں خود ہی ایک انتخاب کی حیثیت رکھتے ہیں وہ باہر سے نہیں اندر سے شاعر ہیں ان کے لیے بڑے واقعات کے ساتھ ساتھ معمولی سی معمولی چند علامت بن کر وسیع شاعری کا موضوع بن جا تا ہے۔

خدایان سخن و پیمبران فن سردار علی نے صرف زبان و ادب کی بڑی خدمتیں انجام نہیں دیں۔ بلکہ انتہائی عظیم الشان انسانی، اخلاقی اور تہذیبی خدمتیں بھی انجام دی ہیں۔ ان کی عظیم شعری اور نثری روایت۔ ایمانی استحکام کے ساتھ ساتھ روحانی، روشن فکری، رواداری اور عام انسانی ہمدردی کے اقدار کی حامل اور انہیں پروان چڑھانے والی ادبی و شعری روایت ہے۔جس کی بطور خاص آج دنیا کو شدید ضرورت ہے۔لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ ہم موصوف اور ان کی طرح دیگر عظیم فنکاروں کے لسانی، ادبی، شعری اور فنی عطیات کی حقیقی فکر ذاتی کا ثبوت دیں اور اپنی جانب سے عرفان جمیل کا قرار واقعی حق ادا کریں۔انہوں نے اردو کے جملہ اصناف کے پیرایہ میں مناظر قدرت کی تمام موضوعات مثلاً کثیر مات، نباتات، جمادات پر طبع آزمائی کی ہے اور بنی نوع انسان سے متعلق مسائل خوشی و غم ہر لمحے کوبڑی چابکدستی اور خوبصورتی سے پرویا ہے۔موصوف نے اپنی شاعری میں بے شمار موضوعات قائم کئے۔ مثلاً لغت، تندبسی، داستاں دلیر و دلدار… ہر موضوع کے تحت آنے والے اشعار کہا جائے تو غلط نہ ہو گا ہمارا شعر ہر ایک عالم دیوان رکھتا ہے یہ ایک ایسا مرقع ہے جس میں ذی فہم کے ساتھ ساتھ خاص و عام مسائل کا حل موجود ہے۔

سردار علی نے اپنی شاعری کے ذریعہ اردو مثنوی میں جاری جمود تعطل کو اپنے نوک قلم سے توڑا ہے جو جوئے شیر لانے سے یا ہفت خورہ طے کرنے سے کم مشکل کام نہیں جبکہ پرانی تہذیب دم توڑ رہی ہے۔ اور نئی تہذیب ابھی قائم نہیں ہو سکتی ہے۔اس نیم تعطل کی وجہ طبیعتوں میں انتشار پیدا ہو گیا ہے۔اس انتشار کے ہوتے ہوئے مثنوی لکھنا مشکل ہو گیا ہے۔

منظوم افسانے یا کہانیاں مثنویوں کی شکل میں یا تو لکھے ہی نہیں گئے۔ لکھی گئی ان کی ادبی خوبیوں سے افکار نہیں کیا جا سکتا۔یہ مثنویاں منظوم افسانوی ادب کی ایسی مثالیں ہیں جس میں سادگی تسلسل اور روانی کے ساتھ ساتھ ایک سرمستی اور بانکپن ہے۔

انجیل مقدس میں کہا گیا ہے کہ ہوا جس سمت چاہتی ہے کہ اپنا رخ کرتی ہے ہم اس کی سنسنا ہٹ سنتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ آ کہاں سے رہی ہے۔ یہی حال ادب کا ہے منظوم افسانوں یا مثنوی کو نیند ضرور آ گئی ہے اور یہ ابدی بھی رہی ہے کہ پھر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ اور کہا جائے تو شاید غلط ہوتا کہ یہ خواب مثنوی خواب دائمی ہے۔کون جانے مثنوی کب جاگ اٹھے اور کس کروٹ سے جاگ اٹھے۔مثنوی کی پرانی تکنیک اور موجودہ تقاضوں کے مطابق نئی تکنیک پر عبور حاصل ہے۔انہوں نے نئے مطالبوں سے بھر اور مثنویاں قلم بند کئے ہیں۔ ادب آزاد ہائے بازگشت کا ایک سلسلہ ہے۔سردار علی کی مثنویاں میر حسن اور نسیم کی مثنویاں سے مختلف ہیں۔ سردار علی ہومر، ورجل، ڈانٹے، ملٹن، فردوسی اور تلسی دام کے کارناموں سے بخوبی واقف ہیں اس کے علاوہ غیر انسانی بلند شاعری اور منظوم ڈراموں کا بھی انہوں نے گہرا مطالعہ کیا ہے۔مثنوی کی نشاۃ ثانیہ کے خلاف صرف ایک امکان ہے اردو میں جس طرح آزاد نظم ترقی کر رہی اسے دیکھتے ہوئے اس کا امکان زیادہ نظر آتا ہے کہ مستقبل میں منظوم افسانہ لکھنے والا شاعر اپنے کارنامے کے لیے آزاد نظم کا سہارا لے۔

اس مختصر مضمون میں راقم کے لیے ممکن نہیں کہ سردار علی کی طویل ادبی خدمات کا جائزہ لے سکوں۔ انہوں نے اردو تحریک اور اردو زبان کی بقا اور ترقی کے لیے اہم ترین خدمات انجام دی ہیں اور اردو والوں کی رہنمائی کی ہیں۔ اردو کے سلسلے میں وہ کسی سے بھی نہ تو مفاہمت اور مصالحت کا تصور روا رکھتے ہیں۔ اور نہ کسی طرح کی مصالحت کو بروئے کار لاتے ہیں اردو سے انہیں جنون کی حد تک محبت سے شعر و سخن کا ذوق انہیں ورثہ میں ملا ہے۔موصوف کا شمار صف اول کے شعراء میں ممکن نظر آتا ہے۔انہوں نے گہوارۂ علم و ادب میں آنکھ کھولی۔بہت ہی کم عمر سے وہ دنیائے شعرا و ادب سے متعارف ہو چکے ہیں۔ نثر نگاری میں ان کی تحریریں اپنی سادگی اور پرکاری کی بنا پر عام موضوعات پر لکھنے ان کے مضامین کی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے۔ان کی نثر نگاری پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔سردار علی بحیثیت شاعر بڑے مثنوی نگار، نظم نگار یا غزل گو ہیں۔ اس کا تعین آنے والا وقت کرے گا۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کی شاعری کا ایک بڑا حصہ قومی، وطنی اور سیاسی نظموں پر مشتمل ہے۔اردو ہمیشہ سے عوامی زبان رہی ہے اور اس زبان نے ہر عہد اور ہر دور میں عوام کا ساتھ دیا ہے۔ اردو شاعری کا وہ باب جو قومی وطنی اور سیاسی نظموں پر مشتمل ہے۔ اس وقت تک جگمگاتا رہے گا جب تک اردو زباں زندہ ہے جو کبھی فنا نہیں ہو سکتا۔ اردو شاعری کا یہ حصہ ہمیشہ امر رہے گا۔

اردو شاعری اپنے ہر دور میں وطن دوست رہی ہے۔اور اردو شاعر ہے جب وطن سے سرشار اردو شاعری میں ہندوستانیت اتنی زیادہ رچی بسی ہوتی ہے اور بڑی تعداد میں ایسی نادر مثالیں موجود ہیں۔ جو زبانوں کے تعلق سے ہندوستان کے لیے انتہائی فخر و ناز کی بات ہے۔ہندستان کی تمام زبانوں میں مشترکہ تہذیب و تمدن قومی یکجہتی اور وطن دوستی کی بنیاد ڈالنے اس کی لے کو بام عروج پر پہنچانے اور نئے گنگا جمنی معاشرہ کو جنم دینے والی اردو زبان ہی ہے۔اردو شاعری نے عوام اور خواص کے احساس غلامی کو بہت بڑھا دے دئیے۔ہر موڑ پر اردو شاعروں نے نہایت زور دار نظمیں لکھیں چاہے وہ سب سے بڑی جنگ عظیم جنگ آزادی ہویا اس کے دوسری جنگ عظیم، سیاسی مذاکرات اور ہمہ گیر بغاوت کے رجحان و میلان پر اردو میں موثر ترین نظمیں لکھی گئیں انقلاب زندہ باد کا نعرہ جس شدت سے اردو شاعری میں گونجا وہ ہندوستان کی تاریخ جنگ آزاد کا نہایت زریں باب ہے۔

اردو کی قومی اور سیاسی شاعری کا تیسرا رخ آزادی کے بعد شروع ہوتا ہے۔سردار علی کی یہ وطنی قومی اور سیاسی نظمیں اسی تیسرے دور کی پیداوار ہیں۔ سردار علی نے بھی اس روایت کو آگے بڑھانے کی مقدور بھر پور کوشش کی ہے۔آزادی ملنے کے بعد قومی ملکی اور سیاسی مسائل کچھ زیادہ ہی ہنگامی تشویشناک اور فکر انگیز اور المناک رہے ہیں۔ سردار علی قومی ملکی اور سیاسی مسائل میں کچھ زیادہ ہی زور رنج واقع ہوئے ہیں۔ ان شاعری میں شامل عوام الناس کی پسندیدگی کے حامل اور مقبول نظمیں اور مثنویاں انا کے ان ہی احساسات کا ایک جاوداں روپ ہیں۔ میں اپنے آپ کو اس کا اہل نہیں پاتا کہ موصوف کی شاعری پر کوئی سیر حاصل نقد و تبصرہ کر سکوں۔ سردار علی اس بزم ہستی کے ہر دلعزیز ہیں اور ہندوستانی عوام کے محبوب بن کر جی رہے ہیں۔

موصوف کے اس شعری مجموعہ کی داد سچ مچ یوں دی جا سکتی ہے کہ اردو شاعری کا مطالعہ کرنے والے ہر گھر میں ان کی شاعری پڑھے اور اہل ذوق اپنی توجہ کا مرکز بنائے۔موصوف کے لیے اگر میں یہ کیوں کہ وہ اردو کے گنے چنے چند حقیقی شاعروں میں سے ایک ہیں تو مجھے کوئی خوف تردید نہیں ہے۔

جناب سردار علی اردو شاعری کا بے حد معتبر اور معزز نام ہے۔ان کی ادبی شخصیت کی کئی جہات ہیں کئی پہلو میں ایک سے ایک زیادہ تابناک اردو کے علاوہ وہ پنجابی شعر و ادب میں بلند و بالا مقام مرتبے کو حاصل کر چکے ہیں انگریزی ادب کے وہ معلم رہے ہیں تا عمر اور اس زبان پر انہیں قدرت کاملہ حاصل ہے۔اسی نسبت سے ان کی رسائی دنیا بھرکی دیگر زبانوں کے ادب تک رہی ہے اور انہیں یہ کما حقہ طور پر معلوم ہے کہ ادبی دنیا میں نئے نئے رجحانات اور ان کی پیش رفت کس نوعیت کی ہے اس لحاظ سے وہ ایک عالم با عمل کے روپ میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ فی زمانہ وہ بے حد باقاعدگی اور بے انتہا انہماک سے اردو شاعری میں تخلیقی کام کرتے رہے ہیں اردو شاعری سے ان کی وابستگی بہت پرانی ہے اور یہ کہنا بالکل برحق ہے کہ عمر ’’عمر گزری ہے اسی دست کی سیاحی ہیں ‘‘جن لوگوں کو ان کے اردو کلام کو سننے کی سعادت نصیب ہوئی ہے وہ جانتے ہیں کہ وہ اس میدان کے شہہ سوار میں اور ان کا کلام ایک استادانہ پختگی اور شان کا حامل ہے ان کے بیان کی بے ساختگی اور جستگی اور زبان کی سلاست اور روانی اس نوعیت کی ہے کہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ایسے شاعر کا کلام ہے جس نے خدا دادا استعداد کے ساتھ ساتھ بے پناہ ریاضت سے یہ کام انجام دیا ہے جس کی نظر شاعری میں حسن بیاں اور حسن معنی دونوں پہلوؤں پر یکساں ہے اور جو اپنے اس کام کو اولیت دیتا ہے اور جس کے لیے یہ کام ایک Labour of love ہے۔میں شہرہ آفاق فرانسیسی نقاد سینٹ بیو کے اس مقولے سے پوری طرح متفق ہوں کہ صرف ایک اعلیٰ شخصیت ہی اعلیٰ ادب تخلیق کر سکتی ہے۔اگر یہ بات ایک گلیے کے طور پر قابل قبول نہ بھی ہو تو بھی سردار علی کی حالت میں یہ بات صد فی فیصد برحق ہے۔ان کی شخصیت اور شاعری میں کوئی تضاد نہیں ان کی شخصیت کی عکاسی ہے۔زندگی کی وہ اعلیٰ و ارفع اقدار جن کی جھلک آپ کو بار بار ان کی شخصی زندگی میں ملتی ہے انہیں کاپر تو ان کے مروت، وہی شائستگی وہی متانت و رواداری، وہی شگفتگی اور حوصلہ مندی جو ا ن کی شخصیت کو اتنا دلپذیر اتنا پرکشش بناتی ہیں ان کی شاعری میں جگمگاتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی شخصی زندگی سے متعلق سوچتے ہوئے مجھے انگریزی ادیب Stevensonکا ایک فقرہ یاد ہو آیا ہے۔’ایک شخصیت جس کے کسی محفل میں آتے ہی یوں محسوس ہو کہ گویا ایک اور موم بتی روشن کر دی گئی ہے۔ اس کمر ے کی روشنی میں ان کی موجودگی، صرف موجودگی سے اضافہ ہو گیا ہے۔

٭٭٭

 

اردو نظم کے خدّوخال

اگر آپ اردو ادب کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں تو ایک حصّہ کو نثر اور ایک کو نظم کہیں گے اب اسی دوسرے حصّے میں وہ تمام شاعری آ جائے گی جو اردو ادب میں کی گئی ہے لیکن میرے سامنے جس نظم کا تذکرہ مقصود ہے وہ نہ تو مثنوی ہے نہ قصیدہ نہ مرثیہ اور نہ غزل بلکہ محمد حسین آزاد کی کوششوں اور حالی کی تخلیقی جودت کا وہ نمونہ ہے جسے 1874سے با ضابطہ انجمنِ پنجاب کے تحت لکھا جانے لگا اور اس کا نام نظم ٹھہرا۔

یہ نظمیں موضوعاتی ہوتی تھیں اور یہ غزل سے قطعاً الگ مزاج رکھتی تھیں۔ گو کہ مولوی محمد حسین آزاد کو اس سلسلہ کا بانی کہا جاتا ہے لیکن حالی نے اس صنف کو جو معیار بخشا اس نے اس صنف کو با وقار کر دیا۔ اس سلسلے میں پروفیسر گوپی چند نارنگ فرماتے ہیں :

’’جدید اردو شاعری کی حد بندی آزاد اور حالی کے کلام سے ہوتی ہے۔ جدید شاعری میں آزاد کی اہمیت جتنی تاریخی ہے اتنی ادبی نہیں۔ حالی نظم کے امام ہیں انھوں نے زبان و بیان کے نئے سانچے بنائے۔‘‘

(ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری، پروفیسر گوپی چند نارنگ ص۔321)

پروفیسر موصوف کا یہ جملہ ان شواہد کی روشنی میں ہے جس کی تابناکی میں آج تک حالی کی نظمیں ایک خاص نوع سے مرجعِ خلائق ہیں۔

غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ کیا اردو ادب میں اس سے قبل اس نوع کی موضوعاتی نظمیں نہیں لکھی جا رہی تھیں ؟بے شک لکھی جا رہی تھیں اور نظیر کا نام کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جس دور میں نظیر نے یہ نظمیں لکھیں وہ دور سودا اور میر کے نام سے منسوب ہے اور یہ دونوں وہ شاعر ہیں جنھوں نے 1720یعنی ولی کا دیوان دہلی آنے کے بعد سے لے کر 1810تک (واضح ہو کہ سودا کا انتقال 1870میں اور میر کا انتقال 1810میں ہوا) صنف شاعری کو بامِ عروج تک پہنچا دیا اور کم از کم نصف صدی تک جو شاعری کی اس کے اثرات پوری صدی کیا اس کے بعد کی صدی پر بھی بڑے دیر پا پڑے۔ ایسے میں نظیر کی نظمیں تہذیبی و ثقافتی بنیادوں پر کھڑی ہونے کے باوجود ایک تحریک کی شکل نہ لے سکیں اور بعد از نظیر اس وراثت کا کوئی معقول وارث نہیں پیدا ہو سکا۔ جب کہ آزاد اور حالی نے جب اس صنف کی داغ بیل ڈالی تو ایسا لگا کہ اردو ادب کی زمین بھی زر خیز ہے اور موسم نے بھی اس کا بھر پور ساتھ دیا۔

کسی بھی صنف کی شروعات ظاہر ہے یکایک نہیں ہو جاتی اور اس کے لیے کچھ خاص عوامل بھی ہوتے ہیں۔ اردو ادب کی تاریخ پڑھتے وقت آپ نے بھی پڑھا ہو گا کہ حالی اور آزاد نے جب اس نئی نظم کی شروعات کی تو پورا ہندوستان ایک خاص قسم کے تہذیبی اور سیاسی انقلاب سے گذر رہا تھا۔1857کا خونی انقلاب رونما ہو چکا تھا مغلیہ حکومت کا آخری تاجدار دیارِ غیر میں ایڑیاں رگڑ کر مر چکا تھا ملکہ وکٹوریہ کے نام کا خطبہ پڑھا جا چکا تھا سر سید احمد خاں کے ذریعہ اٹھائے گئے اقدام سے ملت میں ایک خاص قسم کی تبدیلی رونما ہو رہی تھی پرنٹ میڈیا نے اپنے بال و پر حاصل کر لیے تھے جدید سائنسی  آلات سے لوگ روشناس ہو رہے تھے تہذیبی تصادم کے پیشِ نظر ایک خاص نکتۂ نظر پروان چڑھ رہا تھا، یورپ کے طرز تعلیم کی طرف لوگ راغب ہو رہے تھے ایسے میں یوروپین زبانوں سے اردو والوں کی دلچسپی بڑھی ظاہر ہے یوروپین اصناف سے بھی رغبت بڑھی اور یوروپین زبانوں میں نظم ہی ایسی صنف تھی جس کے مزے سے لوگ واقف تھے اسی لیے اس کی قدر جانی پہچانی صنف نے دھیرے دھیرے اردو والوں پر اپنا تسلط قائم کرنا شروع کر دیا۔

ایک خاص بات اور ہے جس کی طرف غور کرنا چاہیے وہ یہ کہ اردو شاعری کی مقبول صنف غزل انگریزی یا دوسری یوروپین زبانوں میں تو تھی نہیں اور جب یوروپین زبانوں سے اکتساب کی ضرورت پڑی تو نظم اردو شاعری کے مزاج سے قریب معلوم ہوئی اور اسے قبول کر لیا گیا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ غزل کا تعلق ہمیشہ اجتماعیت سے رہا ہے اس میں تشبیہات و استعارات کا استعمال اجتماعیت کو قائم کرنے کے لیے بھی کیا جاتا رہا ہے جب کہ نظم کا تعلق انفرادی اقدار سے راست ہوتا ہے غزل کے محبوب کا تعلق لیلیٰ سے بھی ہوتا ہے ہیر رانجھا سے بھی شیریں فرہاد سے بھی اور نل دمن سے بھی یہاں تک کہ اگر تصوف کا رنگ چڑھ گیا تو وہی محبوب خدا بھی ہو جاتا ہے اور خدا کے برگزیدہ بندے بھی لیکن نظم میں محبوب سلمیٰ ہوتی ہے نورا نرس ہوتی ہے اور وہ انفرادیت کے ساتھ مقبول ہوتی ہے۔ نظم میں ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اس کی گیرائی شخصی جذبے سے مملو ہوتی ہے اس لیے اس کے اندر ایک خاص شخص کے دل کی کیفیات کا تلاطم موجزن ہوتا ہے۔ یہ تاثرات کو مشتہر کرنے کا وسیلہ بھی ثابت ہوتا ہے اور عنوان کے پیش نظر ایک خاص قسم کے ربط کا متقاضی بھی ہوتا ہے۔

بہر حال نظم کی شروعات اردو ادب میں ہو گئی اور خوش قسمتی سے اسے اوائل عمری میں ہی جہاں حالی ملے جنھوں نے مدو جزرِ اسلام لکھ کر انگریزی تہذیب سے قوم کو قریب لانے کی کوشش کی اور انھیں یہ باور کرایا کہ علم ایسی شئے ہے جسے حاصل کرنا تمہارا فرض ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے 1857 کے قتلِ عام کے بعد کی فضا کو ہموار کرنے کی بھی کوشش کی۔

حکومت نے آزادیاں دی ہیں تم کو

ترقی کی راہیں سراسر کھلی ہیں

صدائیں یہ ہر سمت سے آ رہی ہیں

کہ راجا سے پرجا تلک سب سکھی ہیں

تسلط ہے ملکوں میں امن و اماں کا

نہیں بند رستہ کسی کارواں کا

کھلی ہیں سفر اور تجارت کی راہیں

نہیں بند صنعت کی حرفت کی راہیں

جو روشن ہیں تحصیلِ حکمت کی راہیں

تو ہموار ہیں کسبِ دولت کی راہیں

نہ گھر میں غنیم اور دشمن کا کھٹکا

نہ باہر ہے قزاق و رہزن کا کھٹکا

حالی کے بعد اسمعیل میرٹھی نے بھی اس صنف کو اپنایا اور سر سید اور حالی سے گہرے اثرات قبول کیے چونکہ ان کا تعلق شعبۂ تعلیم سے تھا اس لیے انھوں نے بچوں کے لیے سبق آموز اخلاقی نظمیں لکھیں۔ ان کی نظموں میں منظر نگاری خاص طور پر ہندوستان کی منظر نگاری کمال کی چیز ہے جس کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ ’’صبح‘‘ کے عنوان سے ان کی ایک نظم کے چند بند دیکھیں :

میں سب کار بہوار کے ساتھ آئی

میں رفتار گفتار کے ساتھ آئی

میں باجوں کی جھنکار کے ساتھ آئی

میں چڑیوں کی چہکار کے ساتھ آئی

اٹھو سونے والوں کہ میں آ رہی ہوں

ہر اک باغ کو میں نے مہکا دیا ہے

نسیم اور صبا کو بھی لہکا دیا ہے

چمن سرخ پھولوں سے دہکا دیا ہے

مگر نیند نے تم کو بہکا دیا ہے

اٹھو سونے والوں کہ میں آ رہی ہوں

پجاری کو مندر کے میں نے اٹھایا

موذن کو مسجد کے میں نے جگایا

بھٹکتے مسافر کو رستہ بتایا

اندھیرا گھٹایا اجالا بڑھایا

اٹھو سونے والوں کہ میں آ رہی ہوں

مشتِ از خروارے یہ چند مثالیں میں نے اسی لیے دی ہیں کہ اس کی روشنی میں اردو نظم کے ارتقائی خد و خال واضح ہو جائیں۔

اردو نظم کا یہ وہ دور ہے کہ اس دور میں انگریزی نظموں کے بے حد مقبول ترجمے بھی ہوئے ہیں اس سلسلے میں غلام مولا قلق میرٹھی کا نام اول آتا ہے اس کے بعد بانکے بہاری لال مولوی اسمعیل میرٹھی وغیرہ نے انگریزی نظموں سے اردو میں کامیاب ترجمے کر کے نظم کی مثالیں قائم کیں۔ نظم طبا طبائی کا منظوم ترجمہ ’’گورِ غریباں کے نام سے بے حد مقبول ہو ا جو انھوں نے گیرے کی مشہور Elegyکا کیا تھا۔

1864میں قلق میرٹھی کا ایک مجموعہ نظم بھی شائع ہوا تھا جس کا نام ’’جواہر منظوم‘‘ تھا اور وہ غالباً اردو کا پہلا نظم کا مجموعہ قرار پائے گا حالانکہ وہ تمام نظمیں انگریزی سے ترجمہ کی گئی تھیں۔ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ کسی بھی تحریک کی بنیاد ایک دن میں نہیں پڑتی اردو نظم خاص طور پر جدید نظم کے نام سے جو صنف آج ہمارے سامنے ہے اس کے سلسلے بھی قدیم روایت اور شاعری سے جڑتے ہیں لیکن اسے با ضابطہ ایک مخصوص صنف کی طرح مشتہر کرنے میں آزاد اور حالی کا نام لیا جاتا ہے اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ اس صنف کو ’’جدید نظم‘‘ بھی 1874کے بعد ہی کہا گیا۔

میں نے پہلے اس کا بھی ذکر کر دیا ہے کہ وہ کون سے حالات تھے جن کے پیشِ نظر ’’جدید نظم‘‘ ایک ضرورت بن کر اردو شاعری کے ایوان میں داخل ہوئی اس سلسلے میں سر سید رسالہ  تہذیب الاخلاق میں رقمطراز ہیں

’’فن شاعری جیسا ہمارے زمانے میں خراب و ناقص ہے اس سے زیادہ کوئی چیز بری نہ ہو گی مضمون تو بجز عاشقانہ کے اور کچھ نہیں اور وہ بھی نیک جذباتِ انسانی کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ ان جذبات کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ضد حقیقی تہذیب و اخلاق کے ہیں۔ ۔۔۔۔شاعروں کو یہ خیال ہی نہیں کہ  فطری جذبات اور ان کی قدرتی تحریک اور ان کی جبلی حالت کا کس پیرایہ یا کنایہ یا اشارہ یا تشبیہہ و استعارہ میں بیان کرنا کیا کچھ اثر کرتا ہے۔‘‘

یہ وہ دور تھا کہ سر سید ہی نہیں حالی بھی اور ان جیسے بہت سے لوگ اس کہنہ روایتی شاعری کے شاکی تھے لہٰذا دیکھتے دیکھتے ایک کارواں بن گیا جس میں آزاد حالی نظم طباطبائی سرور جہاں آبادی اسمعیل میرٹھی وغیرہ شامل ہو گئے اور یہ تحریک چل پڑی۔

مقدمۂ شعر و شاعری میں حالی نے اسی ماحول کے پیش نظر لکھا کہ:

’’اگرچہ شاعری کو سوسائٹی کا مذاقِ فاسد بگاڑتا ہے مگر شاعری جب بگڑ جاتی ہے تو اس کی زہریلی ہوا سوسائٹی کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ اور آخر کار یہ ہوتا ہے کہ:جھوٹے قصے اور افسانے حقائق واقعہ سے زیادہ دل چسپ معلوم ہوتے ہیں۔ تاریخ، جغرافیہ، ریاضی اور سائنس سے طبیعتیں بیگانہ ہو جاتی ہیں اور چپکے ہی چپکے اخلاق ضمیمہ سوسائٹی میں جڑ پکڑ جاتے ہیں اور جب جھوٹ کے اور ہزل و سخّریت بھی شاعری کے قوام میں داخل ہو جاتی ہے تو قومی اخلاق کو بالکل گھن لگ جاتا ہے۔‘‘

اسی ماحول سے برگشتہ ہو کر انجمن پنجاب کا قیام عمل میں آیا اور 8مئی 1874کو اس کا پہلا اجلاس منعقد ہوا اور یہ طے کیا گیا کہ 30مئی 1874 کو باضابطہ ایک ایسا موضوعی مشاعرہ منعقد کیا جائے جس کا عنوان ’’برسات‘‘ ہو اور شعرا اسی عنوان کے تحت اس مشاعرے میں شریک ہوں۔ اور جب یہ موضوعی مشاعرہ حسبِ پروگرام منعقد ہوا تو حالی نے اس سلسلے کی نظم برکھا رت کے عنوان سے پڑھی۔

وقت گذرتا رہا اور نظم جدید اپنی ڈگر پر رواں دواں رہی راستے میں اسے اقبال ملے چکبست ملے اکبر ملے اسمعیل میرٹھی ملے سرور جہاں آبادی ملے شبلی ملے شوق قدوائی ملے اور بے نظیر شاہ بھی ملے اور یہ صنف مختلف ہیئتی تبدیلیوں کے ساتھ بام عروج کی طرف گامزن رہی کہ یکایک 19ویں صدی کے بعد بیسویں صدی کے اوائل میں ہی اسے ترقی پسند تحریک کا ساتھ نصیب ہو گیا۔

غور کریں تو سر سید نے جس تحریک کی شروعات 19ویں صدی میں زبان اور  سوسائٹی سے فاسد مادّہ نکالنے کے لیے کیا تھا تقریباً ترقی پسندوں کا نظریہ بھی وہی تھا یہ الگ بات ہے کہ ان کے پیچھے ایک مضبوط سیاسی قوت بھی جڑی ہوئی تھی۔ بہر حال نظم نے پھر نئی کروٹ لی اور اس نے انگڑائی لے کر اپنے جوان ہونے کا اعلان کر دیا۔

حالانکہ چاہیے یہ کہ اس موقع پر میں ترقی پسند تحریک کا پس منظر بیان کر دوں لیکن طوالتِ مضمون کے خوف سے بس اتنا کروں گا کہ 1936 میں برپا اس تحریک کے پہلے جلسے کے مینی فیسٹو کا ایک حصّہ پیش کرونگا جس سے میری بات کسی حد تک واضح ہو جائے گی۔

’’ہماری انجمن کا مقصد یہ ہے کہ ادبیات اور فنونِ لطیفہ کو قدامت پرستوں کی مہلک گرفت سے نجات دلائے اور ان کو عوام کے دکھ سکھ اور جدو جہد کا ترجمان بنا کر روشن مستقبل کی راہ دکھائے جس کے لیے انسانیت اس دور میں کوشاں ہے۔‘‘

’’ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان کا نیا ادب ہماری زندگی کے بنیادی مسائل کو اپنا موضوع بنائے۔ یہ بھوک، افلاس، سماجی پستی اور غلامی کے مسائل ہیں۔ ‘‘

میں نے جیسا کہ ذکر کیا اردو نظم کو ترقی پسند تحریک نے بڑے والہانہ انداز میں قبول کیا اور دیکھتے دیکھتے ہر ترقی پسند شاعر نظم جدید کہنے لگا یا یوں کہیں کہ وہ ترقی پسند شاعر ہو ہی نہیں سکتا تھا جو نظم نہ کہتا ہو۔ترقی پسند تحریک کے مینی فیسٹو میں واضح کر دیا گیا تھا کہ ہمارا مقصد عوام کے دکھ سکھ اور جدو جہد میں اسے تخلیقی سہارا دینا ہے نتیجتاً اب نظم جدید میں عوامی لب و لہجہ کا رنگ زور پکڑنے لگا اور دیکھتے دیکھتے اس کا تعلق عام عوام سے راست ہو گیا۔ ترقی پسند تحریک کا اردو نظم پر یہ بڑا احسان تھا۔ ایک بات اور ابھر کر سامنے آئی کہ ادب کا تعلق سماج سے صرف اتنا نہیں کہ وہ اس سے صرف حظ اٹھائے بلکہ اس سے سماج کا کچھ فائدہ بھی ہونا چاہیے اور ان خیالات کو نظم کے پیکر میں ڈھالنے کے لیے جو شعرا کمر بستہ ہوئے ان میں فیض احمد فیض، مجاز، ساحر، کیفی اعظمی مخدوم محی الدین، عزیز قیسی، وحید اختر، علی سردار جعفری، سلام مچھلی شہری، جاں نثار اختر، جذبی، نیاز حیدر، پرویز شاہدی وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر شاعری میں سیاست کا رنگ ہم آمیز ہو کر ایک نئے انداز سے سامنے آتا ہے مخدوم اور فیض نے اردو نظم کو اس دور میں بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ فیض کا جب یہ نیا انداز نظم کی شکل میں ادبی حلقے میں مشتہر ہوا تو لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔

چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز

ظلم کی چھاؤں میں دم لینے کو مجبور ہیں ہم

اور کچھ دیر ستم سہہ لیں تڑپ لیں رو لیں

اپنے اجداد کی میراث ہے مجبور ہیں ہم

نقشِ فریادی

یا پھر

جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت

شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے

آگ سی سینے میں رہ رہ کہ ابلتی ہے نہ پوچھ

اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے

نقش فریادی

ہر اس صنف کو جس کی قسمت میں چمکنا مقصود ہوتا ہے شروع ہی میں کچھ ایسے فنکار نصیب ہو جاتے ہیں جو اپنی تحلیقی جودت سے اس صنف کو زرنگار کر دیتے ہیں۔ غزل کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ نظم کو بھی اوائل عمری میں ہی جہاں حالی اور اقبال ملے وہیں مخدوم فیض اور مجاز جیسے شعرا بھی مل گئے۔

مخدوم کی نظم حویلی کے دو بند ملاحظہ ہوں :

ایک بوسیدہ حویلی یعنی فرسودہ سماج

لے رہی ہے نزع کے عالم میں مردوں سے خراج

ہنس رہا ہے زندگی پر اس طرح ماضی کا حال

خندہ زن ہو جس طرح عصمت پہ قحبہ کا جمال

اے خدائے دو جہاں اے وہ جوہر اک دل میں ہے

دیکھ تیرے ہاتھ کا شہکار کس منزل میں ہے

کوڑھ کے دھبّے چھپا سکتا نہیں ملبوسِ دیں

بھوک کے شعلے بجھا سکتا نہیں روح الامیں

ان نظموں نے جہاں فرسودہ روایت کے بھرم توڑے وہیں حقیقت نگاری کے فن سے بھی شعرا کو آگاہ کیا اور یہ بات طے ہو گئی کہ روایت سے بغاوت نا گزیر ہے جب تک قدیم عمارت کی بنیاد نہیں کھودی جائے گی نئی عمارت کی تعمیر نا ممکن ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ترقی پسند شاعری میں صرف اور صرف بھوک اور بیکاری نیز ظلم وجور کے گیت گائے گئے بلکہ عشق کے سوتے بھی ان نظموں سے پھوٹے مجاز، جذبی، فیض یا پھر  خود مخدوم جو خود سرگرم اشتراکی ہونے کے باوجود اپنا لہجہ کلاسیکی ہی رکھا۔ ان کا پہلا مجموعہ سرخ سویرا سے ایک نظم کا یہ بند دیکھیں :

بہے جاتے تھے بیٹھے عشق کے زرّیں سفینے میں

تمناؤں کا طوفاں کروٹیں لیتا تھا سینے میں

جو چھو لیتا میں اس کو وہ نہا لیتا پسینے میں

مئے دو آتشہ کے سے مزے آتے تھے جینے میں

یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی

’’سرخ سویرا‘‘

اردو نظم نگاروں کا یہی ایک قافلہ نہیں تھا جو اردو نظم کو حقیقت نگاری کے بامِ عروج پر لے جا رہا تھا بلکہ اس گروہ کے ساتھ ساتھ ایک اور گروہ بھی سرگرمِ سفر تھا جسے حلقۂ ارباب ذوق کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس گروہ کی بنیاد تو نشستوں سے پڑی لیکن 1939میں ہی ’’بزم افسانہ گویاں ‘‘ کے نام سے چل رہی اس بزم کا نام ’’حلقہ اربابِ ذوق‘‘ رکھ دیا گیا اور اب اس نشست میں افسانہ کے علاوہ دیگر اصناف لکھنے والوں کو بھی بلایا جانے لگا۔ کسی حد تک آزاد خیالوں کا یہی گروہ اردو ادب کی تاریخ میں حلقہ اربابِ ذوق کے نام سے مشہور ہوا اور اس گروہ میں شامل بہت سارے شعرا میں چند ایسے بھی شعرا تھے جنھوں نے نظم کو نئی دنیا میں پہنچا دیا۔ میراجی اس سلسلے کا بہت اہم نام ہے اس کے علاوہ قیوم نظر اختر الایمان اختر شیرانی اپندر ناتھ اشک احمد ندیم قاسمی شاد عارفی کو کون نہیں جانتا۔

خوش قسمتی سے ترقی پسند تحریک سے اس گروہ کا نظریاتی اختلاف شروع ہی سے رہا خوش قسمتی کا لفظ میں نے یوں استعمال کیا کیونکہ ادب میں نظریاتی معرکے جب بھی ہوئے ہیں ادب کو فروغ ہوا ہے تاریخ ادب اس کا گواہ ہے۔ ویسے بھی ترقی پسند تحریک نے جہاں اردو ادب کے فروغ میں نمایاں رول ادا کیا وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ اس تحریک کی جڑیں کہیں نہ کہیں سیاست سے آب و دانہ کشید کرتی تھیں اور دھیرے دھیرے اس تحریک میں مارکس اور لینن کے نظریات کا تبلیغ کیا جانے لگا جب کہ حلقہ ارباب ذوق اور بعد میں جدیدیت نے اس کا کھل کر مذاق اڑایا۔ ترقی پسند تحریک کے زوال کے اہم اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رفتہ رفتہ نعرہ بازی بہت حد تک اس تحریک میں دخیل ہو گئی۔

لیکن اس وقت ہمارا موضوع اردو نظم ہے اس لیے اس کے تفصیل میں جانے سے بہتر ہے کہ ہم نظم پر ذہن مرکوز کریں۔ جب کسی ادب میں ادیبوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے تو اس طرح کے نظریاتی اختلاف شروع ہو جاتے ہیں ادیب و شاعر کبھی بھی کسی بنے بنائے راستے پر مستقل نہیں چلتے ان کے افکار بدلتے رہتے ہیں اس میں توسیع ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ نئی دنیا کی تلاش میں رہتے ہیں ان تحریکات و رجحانات کے پیشِ نظر بھی اردو نظم کے کینوس میں بہت حد تک توسیع ہوئی سیاست کا ادب میں در آنا کوئی حیرت کی بات نہیں ادب چونکہ سماج کے افعال و کردار نیز افکار کا آئنہ ہوتا ہے اس لیے جب سماج کے افکار بدلتے ہیں تو ادب پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک سانحہ بٹوارے کا ہوا جس نے کم از کم اردو ادب کی فضا کو بہت دنوں تک اپنی گرفت میں رکھا۔ بٹوارے کے خوں چکاں واقعات نے اجتماعیت کے نظریہ کو بے حد نقصان پہنچایا اور جدیدیت کا نظریہ اردو ادب میں داخل ہو گیا اس نظریہ کے تحت فرد اپنے آپ میں ایک ایسا کرّہ ثابت ہوا جس کے داخلی سرحدوں کی تلاش ہنوز تشنۂ تکمیل تھی لہٰذا ایک بہت بڑا طبقہ اپنی ذات کی تلاش میں سرگرداں ہو گیا۔ اس کے اثرات بھی اردو نظم پر پڑے لیکن یہ دھول دھپّا بہت دنوں تک جاری  نہ رہ سکا اور 70اور 80کے بعد کی نسل نے اپنے ہونے کا احساس دلانا شروع کر دیا۔ ایک  اہم بات یہ ہوئی کہ یہ ہمعصر شعرا اپنے آس پاس کی دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اسے ادب کا حصّہ بنانے لگے۔ روایت کا بھوت ان کے سر پر نہ چڑھا اور نہ ہی کسی نظریہ کی تبلیغ کو انھوں نے اپنا فرض جانا۔ نظم کے نئے شعرا کی فہرست یوں تو بہت طویل نہیں لیکن پھر بھی بہت سے ناقدوں نے اپنے اپنے طور پر جو فہرست بنائی ہے اس میں مندرجہ ذیل نام ابھر کر آتے ہیں یہ وہ نام ہیں جو سردار جعفری اخترالایمان یا میراجی کے بعد کی نسل کے ہیں۔ جیسے بلراج کومل، محمد علوی شہریار شفیق فاطمہ شعریٰ صلاح الدین پرویز، ندا فاضلی، اکمل حیدر آبادی، شفیق تنویر، صہبا وحید ایم کوٹھیاوی راہی، مشتاق علی شاہد، قاضی سلیم، زبیر رضوی، عتیق اللہ، جینت پرمار، شہناز نبی، صادق، تصدق حسین خالد، کمار پاشی وغیرہ۔

70یا80کے بعد کے شعرا نے یا تو اپنے ماحول کے مطابق یا پھر قصداً احتجاج کے لہجے کو مدھم کیا حالانکہ یہ امر تخلیق کار کے لیے مہلک بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ قصداً احتجاج کے لہجے کو دبانا بے حسی کے مترادف بھی قرار پاتا ہے لیکن ان سب کے باوجود نئی نظم میں زندگی کے تئیں بیزاری نہیں ہے وہ کائنات سے اپنا رشتہ جوڑتی ہے اور مظاہرِ کائنات سے دل چسپی کا اظہار کرتی ہے۔ زندگی کے بارے میں اس کا نظریہ صاف ہے کہ وہ اسے با معنی سمجھتی ہے ایک خاص قسم کا عزم بھی ان نظموں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اپنے آس پاس کے حادثات و سانحات سے یہ نظمیں اثر قبول کرتی ہیں اور اس پر تبصرہ بھی کرتی ہیں۔

شفیق فاطمہ شعریٰ کی طویل نظم صدا بہ صحرا کا یہ بند ملاحظہ ہو:

تری رہگذر میں دھڑک اٹھا دلِ زار پھر

نہ کبھی ملے نہ کبھی قرینے سے بات کی

غمِ کائنات کی اوٹ میں نہ بیاں ہوئیں

وہ ادھوری پوری کہانیاں غمِ ذات کی

کہ انھیں سنانے کا اور سننے کا حق نہ تھا

تری رہگذر میں چراغ میرے نیاز کا

جو بھڑک اٹھا بھی تو چھپ کے اوٹ میں کنج کی

تجھے کیا خبر کہ ہوائے دشت کے سیل نے

اسے کتنے زخم عطا کیے اسے کیا دیا

سکھی پھر آ گئی رت جھولنے کی گنگنانے کی

سیہ آنکھوں کی تہہ میں بجلیوں کے ڈوب جانے کی

گگن میں رنگ آنچل میں دھنک کے مسکرانے کی

امنگوں کے  سبو سے  قطرہ قطرہ مئے ٹپکنے کی

گھنیرے گیسوؤں میں ادھ کھلی کلیاں سجانے کی

ٹھیک اسی طرح زبیر رضوی نے بھی اپنی نظموں میں داستانوں اور قصّے کہانیوں کو نئے سرے سے جدید انداز میں لکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کی ایک نظم ’’عاقبت اندیش بیٹے‘‘ کا نمونہ کافی ہو گا۔

پرانی بات ہے

لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے

ہمیشہ ان کے ہونٹوں پر

مقدس آیتوں کا ورد رہتا ہے

ہمیشہ ان کی پیشانی

ریاضت اور عبادت کی نشانی کو لیے

روشن رہا کرتی

وہ پانچوں وقت

مسجد کے مناروں سے اذاں دیتے

وہ میلوں پا پیادہ

تیز دھوپوں میں سفر کرتے

خدا کی برتری اس کی عبادت کے لیے

لوگوں میں جا کر

رات دن تبلیغ کرتے

لوگ ان کو مرحبا کہتے

حکایت ہے

وہ برسوں بعد

جب اپنے گھروں کو لوٹ کر آئے

انھیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی تھی

ان کے بیٹوں نے

انھیں بالکل نہ پہچانا

گھروں کے آنگنوں کی باہمی تقسیم کر لی تھی

مکانوں کے نئے نقشے بنائے تھے

اور ان کی ساری چیزیں وہ

غریبوں اور محتاجوں میں جا کر

بانٹ آئے تھے

آپ نے دیکھا اس نظم کا مضمون یقیناً داستانی ہے لیکن جدید انداز میں اس کی تخلیق نے ہمعصر حقائق کو جس خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے وہ اپنے آپ میں نیا بھی ہے اور بھرپور بھی۔

ہمعصر نسل میری مراد موجودہ نظم نگار شعرا سے ہے وہ بھی نظمیں لکھ رہے ہیں لیکن یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ فکشن کی طرح نظم بھی لکھے تو بہت جا رہے ہیں لیکن آنے والے وقت میں کیا یہ ہمعصر شعرا اپنا کوئی مخصوص ڈکشن یا اسلوب قائم کر پائیں گے کیونکہ ایک بات تو طے ہے کہ نظم تعمیر  کا فن ہے اور اس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ نظم اپنے عنوان کے ساتھ انصاف کرے اس میں حشو و زواید کی کوئی گنجائش نہیں بیجا طوالت یا بے حد اختصار بھی نظم کے لیے نقصان دہ ہے ساتھ ہی اسے ہمیشہ اپنے عہد کے مسائل کا بھی آئینہ رہنا چاہیے۔ان باتوں کے پیش نظر ہمعصر شعرا اپنا کیا مقام بنائیں گے یہ پردۂ خفا میں ہے امید کی روشنی ہمارے ساتھ ہے لیکن حالات بہت بہتر نہیں ہیں۔

٭٭٭

فائل کی فراہمی اور اجازت کے لئے مصنف کے تشکر کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید