فہرست مضامین
زبدۃ الفقہ
جلد۔۲، کتاب الطہارت
سید زوار حسین شاہ
طہارت کا بیان
نماز کی شرطوں میں پہلی شرط بدن کی طہارت یعنی بدن کا پاک ہونا ہے ، اس کی دو صورتیں ہیں۔
اول نجاست حقیقی سے پاک ہونا اور وہ یہ کہ جسم پر کوئی ظاہری یعنی نظر آنے والی ناپاک چیز ہو تو اس کو پانی سے دھو کر پاک کیا جائے دوم یہ کہ اگرچہ ظاہر میں جسم پر کوئی ناپاک چیز لگی ہوئی نہ ہو لیکن پھر بھی جسم شرعی حکم سے ناپاک ہو۔ مثلاً کوئی شخص جنابت کی وجہ سے ناپاک ہو اس نے اپنے جسم کی ظاہری نجاست تو دھو ڈالی لیکن جب تک وہ باقاعدہ غسل نہ کرے اس وقت تک اس کا جسم ناپاک رہے گا اور اس شخص کے لئے نماز ادا کرنا اور مسجد میں داخل ہونا جائز و درست نہیں ہے۔ یا کوئی شخص جنبی تو نہیں لیکن بے وضو ہے یعنی پیشاب و پاخانہ کے بعد استنجاء تو کر لیا لیکن وضو نہیں کیا تو یہ شخص بھی شرعاً ناپاک ہے اور اس کو نماز پڑھنا اور قرآن مجید کا چھونا جائز نہیں ہے۔ ایسی نجاست کو نجاست حکمی کہتے ہیں یعنی وہ نجاست جو دیکھنے میں نہ آسکے بلکہ شریعت کے حکم سے ثابت ہوتی ہے اور یہ نجاستِ حکمی دو قسم کی ہے۔
اول بے وضو ہونا اس کو حدث اصغر کہتے ہیں ،
دوم غسل فرض ہونا اس کو حدث اکبر کہتے ہیں ،
ان دونوں نجاستوں سے بدن کا پاک ہونا طہارت حکمی کہلاتا ہے اور جسم کا ظاہری یعنی نظر آنے والی نجاست سے پاک ہونا طہارت حقیقی کہلاتا ہے ، طہارت حکمی و طہارت حقیقی سے بدن پاک ہونا نماز کے لئے شرط ہے اس کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی اب دونوں قسم کی نجاستوں سے بدن کو پاک کرنے کی تفصیل بیان ہوتی ہے۔
پہلے حدث اصغر یعنی وضو کا بیان ہو گا، پھر حدث اکبر یعنی غسل کا پھر ان کے۔لوازمات وغیرہ کا اور پھر نجاست حقیقیہ کا بیان ہو گا
وضو کا بیان
وضو کے فرائض
وضو میں چار فرض ہیں
۱. منہ دھونا۔
۲. دونوں ہاتھوں کا کہنیوں سمیت دھونا۔
۳. چوتھائی سر کا مسح کرنا۔
۴. دونوں پاؤں ٹخنوں سمیت دھونا۔
ان کی تفصیل یہ ہے
۱. منہ دھونا منھ دھونے کی حد یہ ہے کہ لمبائی میں پیشانی پر سر کے بالوں کے اگنے کی جگہ سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور چوڑائی میں ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک دھونا فرض ہے ، گنجان داڑھی ( یعنی جس کے اندر سے کھال نظر نہ آئے ) کے ظاہری یعنی اوپر کے حصہ کو دھونا فرض ہے ، اور اگر کھال نظر آتی ہو تو اُس کھال تک پانی پہچانا فرض ہے
۲. دونوں ہاتھوں کا کہنیوں سمیت دھونا انگوٹھی، چھلا، چوڑی، کنگن وغیرہ کے نیچے پانی پہچانا اور اگر وہ ایسے تنگ ہوں کہ بغیر ہلائے پانی نہ پہنچ سکے تو ان کو ہلا کر پانی پہچانا فرض ہے۔ اگر کوئی چیز آٹا وغیرہ ناخنوں وغیرہ پر جما ہوا ہو تو اس کا چھڑانا بھی فرض ہے آج کل ناخنوں پر ناخن پالش وغیرہ لگاتے ہیں اس کی موجودگی میں۔وضو و غسل درست نہیں
۳. چوتھائی سر کا مسح کرنا مسح کم از کم تین انگلیوں سے کرے ، ایک یا دو انگلیوں سے جائز نہیں۔ ٹوپی یا عمامہ یا اوڑھنی یا برقعے وغیرہ پر مسح کیا تو درست نہیں۔ سر پر خضاب یا مہندی کی تہہ (یعنی جب خضاب یا مہندی لگانے کے لئے اوپر لیپ دی جاتی ہے )۔لگی ہوئی ہو تو اس کے اوپر سے مسح جائز نہیں
۴. دونوں پاؤں ٹخنوں سمیت دھونا اگر کسی کے ہاتھ یا پیر کی انگلیاں بالکل ملی ہوئی ہوں یعنی ان میں کھلا فاصلہ نہ ہو تو ان میں خلال کرنا فرض ہے۔ اگر اعضاء غسل و وضو میں کوئی چکنی چیز لگی ہوئی ہو تو اس کے اوپر سے پانی بہہ جانا شرط ہے۔ اندر تک اثر کرنا۔شرط نہیں لہذا اس کا غسل و وضو جائز ہے
فائدہ
وضو غسل اور تیمم میں کوئی واجب نہیں ہے یعنی وہ واجب جو عمل میں فرض۔سے کم درجہ رکھتا ہو۔ بعض کتب میں کچھ واجب الگ لکھے ہیں
۱. داڑھی مونچھ اور بھنویں اگر قدرے گنجان ہو کہ نیچے کی کھال نظر نہ آئے تو ان بالوں کا دھونا۔
۲. کہنیوں کا دھونا۔
۳. ٹخنوں کا دھونا۔
۴. چوتھائی سر کا مسح کرنا لیکن دراصل وہ فرض ہی میں شامل ہیں جیسا کہ اوپر فرائضِ وضو کی تفصیل میں ان کا بیان ہو چکا ہے اس لئے کہ عملاً وہ فرض ہی ہیں اور ان کر ترک سے وضو غسل اور تیمم نہیں ہوتا
وضو کی سنّتیں
وضو میں تیرہ سنًتیں ہیں
۱. وضو کی نیت کرنا۔نیت دل کے ساتھ ہو۔زبان سے بھی کہہ لینا مستحب ہے اس کا وقت منہ دھونے کے وقت یا اس سے پہلے ہے۔ نیت نماز کی ہو یا ایسی عبادت کی ہو جو بغیر وضو جائز نہیں ہو، یا طہارت حاصل کرنے یا اللّٰہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب کی نیت ہو
۲. بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمَ پڑھنا۔کوئی ذکر الہی مثلاً لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہَ یا اَلحَمدُ لِلّٰہِ وغیرہ پڑھ لے تو سنت ادا ہو جائے گی، اگر شروع میں پڑھنا بھول گیا تو جہاں یاد آئے پڑھ لینا افضل ہے ، لیکن سنت ادا نہ ہو گی۔
۳. وضو شروع کرتے وقت پہلے دونوں ہاتھوں کو کلائیوں تک تین بار دھونا جبکہ پاک ہوں اور اگر ناپاک ہوں تو دھونا فرض ہے۔
۴. مسواک کرنا
۵. تین بار کلّی کرنا اور ہر دفعہ جدا پانی لینا سنت ہے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو پانی پہچانے میں مبالغہ کرنا یعنی غرغرہ کرنا افضل ہے۔ ایک ہی دفعہ کے پانی یعنی ایک ہی چلو سے تین بار کلّی کرنا جائز ہے۔
۶. ناک میں تین بار پانی ڈالنا، ہر بار جدا پانی لے ، ایک ہی چلو سے تین بار ناک میں پانی ڈالنا جائز نہیں ، اگر روزہ دار نہ ہو تو اس میں مبالغہ کرنا یعنی ناک میں نرم حصہ تک پانی پہچانا اور ترتیب یعنی پہلے کلّی کرنا پھر ناک میں پانی ڈالنا افضل ہے۔
۷. داڑھی کا خلال کرنا جبکہ داڑھی گنجان ہو اور وہ شخص احرام کی حالت میں نہ ہو، خلال کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کے چلو میں پانی لے کر داڑھی کے نیچے کے بالوں کی جڑوں میں ڈالے اور داڑھی میں انگلیاں ڈال کر نیچے کی جانب سے اوپر کو خلال کرے اور اس طرح کہ ہاتھ کی پشت گردن کی طرف رہے یعنی انگلیوں کی پشت بالوں کے ساتھ لگے اور ہتھیلی باہر کی جانب رہے۔ بعض کے نزدیک اس کی ترکیب یہ بھی ہے کہ بالوں کے نیچے سے انگلیاں اس طرح داخل کرے کہ ہتھیلی گردن کی طرف ہو اور ہاتھ کی پشت باہر کی طرف ہو تاکہ چلو کا پانی بالوں میں داخل ہو سکے۔حدیث شریف کے الفاظ سے یہی صورت متبادر ہو تی ہے
۸. ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا، ہاتھوں کی انگلیوں کے خلال کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالے اور پانی ٹپکتا ہوا ہو یہی طریقہ اولیٰ ہے۔ دوسرا طریقہ یہ بھی ہے کہ ایک ہاتھ کی ہتھیلی اس ہاتھ کی پشت پر جس کا خلال کرنا ہے رکھ کر اوپر کے ہاتھ کی انگلیاں نیچے کے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر کھینچے اور اسی طرح دوسرے ہاتھ کا خلال کرے۔ پاؤں کے خلال اس طرح کرے کہ بائیں ہاتھ کی چھنگلیا کے ذریعہ پاؤں کی انگلیوں کے نیچے سے اوپر کو خلال کرے اور دائیں پاؤں کی چھنگلیا سے شروع کر کے بائیں پاؤں کی چھنگلیا پر ختم کرے۔ پانی میں ہاتھ یا پاؤں داخل کر دینا خلال کے لئے کافی ہے خواہ پانی جاری ہو یا نہ ہو۔ اگر انگلیاں۔بالکل ملی ہوئی ہوں تو خلال واجب ہے
۹. وضو کے ہر عضو کو تین تین بار دھونا اس طرح پر کہ ہر دفعہ کچھ بھی خشک نہ رہے یعنی ہر دفعہ پوری طرح دھونا۔ تین بار سے زیادہ نہ دھوئے
۱۰. تمام سر کا ایک دفعہ مسح کرنا یعنی بھے گا ہوا ہاتھ پھیرنا۔
۱۱. دونوں کانوں کا مسح کرنا
۱۲. ترتیب سے وضو کرنا یعنی جس ترتیب سے فرائض میں بیان ہوا
۱۳. وضو کے اعضاء کا پے در پے دھونا اس طرح کہ پہلا عضو خشک ہونے سے پہلے دوسرا عضو دھونے لگنا، خشک ہونے کا اعتبار معتدل موسم کے مطابق ہو گا عذر کے ساتھ توقف۔ جائز ہے یعنی اگر پانی ختم ہو گیا تو اس کے لئے جائے
وضو کے مستحبات و آداب
۱. وضو کے جو اعضاء دو دو ہیں ان میں دائیں کو پہلے دھونا اور پھر بائیں کو مگر دونوں کانوں کا مسح ایک ساتھ کرے
۲. گردن کا مسح
۳. پانی اندازہ سے خرچ کرنا زیادہ خرچ کرنا فضول خرچی اور خلاف ادب ہے اور پانی میں بہت کمی نہ کرے کہ جس سے اچھی طرح دھونے میں مشکل ہو
۴. وضو کے لئے ایک سیر یعنی تقریباً ایک لیٹر سے کم پانی نہ ہو
۵. انگوٹھی،چھلا، کڑے ، چوڑیاں اور نتھ وغیرہ اگر ڈھیلی ہوں ، ان کو حرکت دے کر ان کے نیچے پانی پہچانا، لیکن اگر تنگ ہوں تو ان کے نیچے پانی پہچانے کے لئے حرکت دینا فرض ہے
۶. وضو خود کرنا بلا عذر کسی سے مدد نہ لینا ( اگر کوئی اپنی مرضی سے مدد دے اور وضو کرنے والا اعضاء کو خود دھوئے تو بلا عذر بھی مضائقہ نہیں )
۷. وضو کرتے وقت بلا ضرورت دنیاوی باتیں کرنا
۸. دائیں ہاتھ سے پانی لے کر کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا اور بائیں ہاتھ سے ناک صاف کرنا
۹. منھ پر پانی آہستہ سے ڈالنا یعنی منھ پر طمانچہ سا نہ مارے
۱۰. اعضاء کو دھوتے وقت ہاتھ سے ملنا
۱۱. کانوں کے مسح کے وقت کانوں کے سوراخوں میں چھوٹی انگلی کا سر بھگو کر ڈالنا
۱۲. ہمیشہ اور خاص طور پر سردیوں میں ہاتھ اور پیر کو دھوتے وقت پہلے گیلے ہاتھ سے ان کو ملنا تاکہ دھوتے وقت اچھی طرح اور آسانی سے ہر جگہ پانی پہ جائے
۱۳. مستعمل پانی کپڑوں سے بچا کر رکھنا
۱۴. نماز کے وقت سے پہلے وضو کرنا جبکہ معذور نہ ہو
۱۵. وضو کے وقت قبلہ کی طرف منھ کرنا
۱۶. اونچی اور پاک جگہ بیٹھنا
۱۷. اطمینان سے وضو کرنا اور اعضاء کے دھونے اور خلال وغیرہ کو پوری طرح دھونا اتنی جلدی نہ کرے کہ کوئی مستحب ترک ہو جائے
۱۸. وضو کے برتن کو پکڑنے کی جگہ سے تین بار دھونا
۱۹. منھ دھوتے وقت اوپر سے نیچے کو پانی ڈالنے اور ہاتھ پیروں پر انگلیوں کی طرف سے ڈالے ، سر کا مسح اگلی طرف سے شروع کرے
۲۰. پاؤں پر پانی دائیں ہاتھ سے ڈالنا اور بائیں ہاتھ سے ملنا
۲۱. اعضاء کا دھونا جہاں تک واجب ہے اس سے کچھ زائد دھونا
۲۲. جس کپڑے سے استنجاء کے مقام کو پونچھا ہو اس سے اعضاء وضو کو نہ پوچھنا
۲۳. مٹی کے پرتن سے وضو کرنا
۲۴. وضو کے وقت اگر برتن چھوٹا ہو تو جیسے لوٹا وغیرہ تو بائیں طرف رکھنا اور اگر بڑا ہو جیسے ٹب وغیرہ تو دائیں طرف رکھے اور ہاتھ ڈال کر چلو سے پانی لے
۲۵. ہاتھوں کو نہ جھاڑنا
۲۶. نماز کے لئے وضو کی نیت کرنا اور نیت دل و زبان دونوں سے کرنا
۲۷. ہر عضو کو دھوتے وقت بسم اللہ، درود شریف، کلمہ شہادت اور حدیثوں میں آئی ہوئی دیگر . دعائیں پڑھنا
۲۸. وضو کا بچا ہوا پانی قبلہ کی طرف منھ کر کے کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر پینا
۲۹ وضو کے بعد دو رکعت تحیۃ الوضو پڑھنا
۳۰. وضو کے بعد درود شریف و کلمہ شہادت اور یہ دعا پڑھنا اللھم اجعلنی من التّوّابین واجعلنی من المطھریں و اجعلنی من عبادک الصالحین ط
۳۱. اعضاء وضو کو نہ پوچھنا جبکہ اس کی ضرورت نہ ہو اور جب پونچھے تو کچھ نمی رہنے دے
۳۲. جب وضو کر چکے تو دوسری نماز کے وضو کے لئے پانی بھرنا
مکروہات وضو
اصول یہ ہے کہ جو چیزیں مستحب ہیں ان کے خلاف کرنا مکروہ ہے اسی طرح جو چیزیں مکروہ ہیں ان سے بچنا مستحب ہے ، کچھ مشہور مکروہات درج ذیل ہیں
۱. ناپاک جگہ پر وضو کرنا یا ناپاک جگہ پر وضو کا پانی ڈالنا
۲. کلی کے لئے بائیں ہاتھ سے پانی لینا
۳. بائیں ہاتھ سے ناک میں پانی ڈالنا
۴. بلا عذر دائیں ہاتھ سے نال صاف کرنا یا استنجاء کرنا
۵. منھ پر سختی سے یعنی طمانچہ کی طرح پانی مارنا
۶. پانی اس قدر کم خرچ کرنا کہ مستحب طریقہ پر وضو ادا نہ ہو
۷. پانی ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا
۸. تین بار سے زیادہ اعضاء کو دھونا
۹. تین بار نیا پانی لے کر مسح کرنا
۱۰. وضو کے اعضاء کے علاوہ کسی اور عضو کو بلا ضرورت دھونا
۱۱. وضو کرنے میں بلا ضرورت دنیاوی باتیں کرنا
۱۲. وضو کے بعد ہاتھوں کا پانی جھٹکنا
۱۳. مسجد میں اپنے لئے کسی پرتن کو خاص کر لینا
۱۴. عورت کے غسل یا وضو کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنا
۱۵. وضو کے پانی میں تھوکنا یا ناک صاف کرنا خواہ وہ جاری پانی ہو
۱۶. مسجد کے اندر وضو کرنا
۱۷. لوٹے یا کپڑے وغیرہ پر اعضاء وضو سے پانی ٹپکانا
۱۸. بلا عذر ایک ہاتھ سے منھ دھونا
۱۹. گلے (حلقوم) کا مسح کرنا
۲۰. دھوپ کے گرم پانی سے وضو کرنا
۲۱. ہونٹ یا آنکھیں زور سے بند کرنا
۲۲. وضو کے لئے بلا عذر کسے دوسرے سے مدد لینا
۲۴. سنت طریقے کے خلاف وضو کرنا
وضو کا مسنون اور مستحب طریقہ
جب وضو کرنے کا ارادہ ہو تو وضو کے لئے مٹی کے کسی پاک صاف برتن میں پاک پانی لے کر پاک و صاف اونچی جگہ پر بیٹھے ( اگر تانبہ پیتل کا برتن ہو تب بھی مضائقہ نہیں مگر تانبہ کا پرتن قلعی دار ہے ) قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھے تو اچھا ہے اور اگر اس کا موقع نہ ہو تے کچھ حرج نہیں ، آستیں کہنیوں سے اوپر تک چڑھا لے اور دل میں یہ نیت کرے کہ میں یہ وضو خالص اللہ تعالی کی رضا اور ثواب اور عبادت کے لئے کرتا ہوں محض بدن کا صاف کرنا اور منہ کا دھونا مقصود نہیں ہے ، نیت زبان سے بھی کہ لے اور یہی ارادہ و نیت ہر عضو کو دھوتے وقت یا مسح کرتے وقت حاضر رہے۔ وضو شروع کرتے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم ط کہے اور دائیں چلو میں پانی لے کر دونوں ہاتھوں کو کلائی تک مل کر دھوئے اور اس طرح تین بار کرے پھر دائیں ہاتھ کے چلو میں پانی لے کر کلی کرے پھر مسواک کرے ، مسواک نہ ہو تو انگلی سے دانت مل لے ، پھر دو کلیاں اور کر لے ، تاکہ پوری تیں ہو جائیں زیادہ نہ کرے ، اگر روزہ دار نہ ہو تو اسی پانی سے غرارا بھی کرے یعنی کلی میں مبالغہ کرے لے اور اگر روزہ دار ہو تو مبالغہ نہ کرے ، پھر دائیں ہاتھ کے چلو میں پانی لے کر ناک میں پانی ڈالے ، اگر روزہ دار نہ ہو تو اس میں مبالغہ کرے یعنی نتھنوں کی جڑوں تک پانی پہنچائے ، اور اگر روزہ دار ہو تو نرم گوشت سے اوپر پانی نہ چڑھائے ، بائیں ہاتھ کی چھنگلیا نتھنوں میں پھیرے اور بائیں ہاتھ سے ہی ناک صاف کرے ، تین بار ناک میں پانی ڈالے اور ہر بار نیا پانی لے ، پھر دونوں ہاتھ میں پانی لے کر یا ایک چلو میں پانی لے کر پھر دوسرے کا سہارا لگا لے اور دونوں ہاتھوں سے ماتھے کے اوپر سے نیچے کو پانی ڈالے ، پانی نرمی سے ڈالے تمانچہ سا نہ مارے اور تمام منہ کو مل کر دھوئے ، پیشانی یعنی سر کے بالوں کی ابتداء سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک سب جگہ پانی پہنچ جائے ، دونوں ابروؤں اور مونچھوں کے نیچے بھی پانی پہنچ جائے کوئی جگہ بھی بال برابر بھی خشک نہ رہے ، اگر احرام باندھے ہوئے نہ ہو تو داڑھی کا خلال کرے پہر دو دفعہ اور پانی لے کر منہ کو اسی طرح دھوئے اور داڑھی کا خلال کرے تاکہ تین بار پورا ہے جائے اور اس سے زیادہ نہ دھوئے ، پھر گیلے ہاتھوں سے دونوں ہاتھوں کی کہنیوں تک ملے ،خصوصاً سردیوں میں اور پھر دائیں ہاتھ کے چلو میں پانی ہر ایک ہاتھ پر تین تین دفعہ پانی ڈالے یعنی پہلے دائیں ہاتھ پر پھر بائیں ہاتھ پر کہنیوں سمیت پانی ڈالے اور مل کر دھوئے کہ بال برابر بھی کوئی جگہ خشک نہ رہنے پائے ، انگوٹھی، چھلا، آرسی، کنگن اور چوڑی وغیرہ کو حرکت دے اگرچہ ڈھیلی ہوں۔ منہ دھوتے وقت عورت اپنی نتھ کو بہی حرکت دے ، پھر انگلیوں کا خلال کری اسطرح کہ ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالے اور پانی ٹپکتا ہوا ہو، پھر دائیں ہاتھ کے چلو میں پانی لے کر دونوں ہاتھوں کو تر کرے اور ایک مرتبہ پورے سر کا مسح کرے پھر کانوں کا مسح کرے ، کلمہ کی انگلی سے کان کے اندر کی طرف اور انگوٹھے سے باہر کی طرف اور دونوں چھنگلیا دونوں کانوں کے سوراخ میں ڈالے پھر انگلیوں کی پشت کی طرف سے گردن کا مسح کرے لیکن گردن کا مسح نہ کرے ، مسح صرف ایک دفعہ کرنا چاہئے۔ پھر دونوں پاؤں ٹخنوں سمیت تین دفعہ دھوئے اور ہر بار اس کی انگلیوں کا خلال بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے نیچے سے اوپر کو کرے ، پاؤں کی چھوٹی انگلی سے شروع کرے اور اس کے انگوٹھے پ ختم کرے پھر اسی طرح دائیں ہاتھ سے پانی ڈال کر بائیں ہاتھ سے بایاں پاؤں ٹخنوں سمیت تین بار دھوئے اور ہر بار اس کی انگلیوں کو بھی۔اسی طرح خلال اور اس کے انگوٹھے سے شروع کر کے چھنگلیا پر ختم کرے ہر عضو کو دھوتے یا مسح کرتے وقت بسماللہ اور کلمہ شہادت پڑھ کر یہ دعا پڑھے اللھم اجعلنی من التوابین اور سورۃ القدر اور درود شریف پڑھے اور اس کے بعد اگر نماز کا مکروہ وقت نہ ہو تو دو رکعت نماز تحیت الوضو پڑھے
اقسام وضو
۱. فرض
۱. یہ ہر نماز کے لئے ہے خواہ نماز فرض ہو یا واجب یا سنت و نفل ہو،
۲. سجدہ تلاوت کے لئے ،
۳. قرآن شریف کو بلا غلاف چھونے کے لئے ،
۴. نماز جنازہ کے لئے ،
۲. واجب۔
۱. یہ کعبہ مکرمہ کے طواف کے لئے ہے
۳. مستحب۔ یہ موقع بکثرت ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔
ہر وقت با وضو رہنے کے لئے ،۔ نماز کے باہے قہقہے کے بعد،۔ غیبت و برے کام کے بعد،۔ وضو کے ہوتے ہوئے وضو کرنا،۔ عالم کی زیارت کے لئے ،۔ کھانا کھانے کے لئے ،۔ غسل میت کے لئے ،۔ میت کو غسل دینے کے بعد،۔ اذان و تکبیر کہنے کے لئے ،۔ زیارت قبور کے لئے ،۔ علم دین کی تعلیم کے وقت،۔ دین کی کتاب چھوتے وقت،۔ اللہ تعالی کا ذکر کرتے وقت،۔ روضہ اطہر کی زیارت کے وقت،
جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور جن سے وضو نہیں ٹوٹتا
جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے وہ دو قسم کی ہیں
۱. جو انسان کے جسم سے نکلیں۔ جیسے پیشاب، پاخانہ، ریح وغیرہ
۲. جو انسان پر طاری ہو جیسے بیہوشی، نیند وغیرہ جسم انسانی سے نکلنے والی چیزوں کی بھی دو قسمیں ہیں
۱. جو پیشاب و پاخانہ کے راستہ سے نکلے ،
۲. وہ جو باقی جسم کے کسی مقام سے نکلے جیسے قے ، خون وغیرہ ان دو راستوں کے علاوہ جسم کے باقی حصہ کے کسی مقام سے کچھ نکلنے کی یہ صورتیں ہیں۔ کوئی ناپاک چیز نکلے اور جسم پر بہے مثلاً خوں ، کچ لہویا پیپ وغیرہ تو وضو ٹوٹ جاتا ہے خواہ تہوڑی سی بہے۔ اگر آنکھ میں خون نکل کرآنکھ میں ہی بہا اور باہر نہیں نکلا تو وضو نہیں ٹوٹا کیونکہ آنکھ کو اندر کا حصہ نہ وضو میں دھونا فرض ہے نہ غسل میں ، اور اگر باہر نکل کر بہا تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ قے میں اگر پت، خوں یا کھانایا پانی منہ بھر کر نکلے تو وضو ٹوٹ جائے گا اگر منہ بھر سے کم ہو تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔ منہ بھر وہ ہو جو بغیر مشقت نہ رک سکے اگر خالص بلغم نکلے تو وضو۔نہیں ٹوٹے گا خواہ منہ بھر ہی ہو۔ منہ یا دانتوں سے خون تھوک کے ساتھ مل کر آئے تو اگر خون غالب یا برابر ہے تو وضو جاتا رہے گا اور کم ہے تو نہیں ٹوٹا۔ اگر زخم پر خون ظاہر ہوا اور اس کو انگلی یا کپڑے سے پونچھ لیا پھر ظاہر ہوا پھر پونچھ لیا کئی بار ایسا کیا اگر یہ سب دفعہ کا خون مل کر اتنا ہو جاتا ہے کہ بہ جائے تو وضو ٹوٹ گیا۔ورنہ نہیں۔ اگر آنکھ یا کان یا چھاتی یا ناف یا کسی حصہ جسم سے درد کے ساتہ پانی نکلا تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا، اگر بغیر درد کے نکلا تو وضو نہیں ٹوٹے گا، اگر آنکھ نہ دکھتی ہو، نہ اس میں کھٹک ہوتی ہو اور محض نزلہ کی وجہ سے یا یونہی پانی بہے یا آنسو نکل آئے تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔۔ اگر جما ہوا خون مسور کے دانے کے برابر ناک صاف کرتے وقت نکلے تو وضو باقی رہا وضو توڑنے والی دوسری قسم یعنی جو انسان پر طاری ہوتی ہے اس کی یہ صورتیں ہیں۔ نیند، لیٹ کر سونا خواہ چت ہو یا پٹ یا کروٹ پریا تکیہ وغیرہ کے سہارے سے ہو یا کسی اور شکل پر ہو جس سے سرین زمین سے جدا ہو جائیں یا صرف ایک سرین پر سہارا دے کر سو جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ ہارے کا مطلب یہ ہے کہ اگر سہارا ہٹا لیا جائے تو وہ گر پڑے اور سرین زمین سے جدا ہو جائے اور اگر بغیر سہارا لئے کھڑے کھڑے یا بغیر سہارا لگائے بیٹھ کر سو جائے یا نماز کی کسی ہیئت پر جو مردوں کے لئے مسنون مثلاً سجدہ یا قعدے میں مسنونہ ہیئت پر سو گیا تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔ اگر دونوں سرین پر بیٹھا ہے ، گھٹنے کھڑے ہیں ، ہاتھ پنڈلیوں پر لپٹے ہوئے ہیں اور۔سر گھٹنوں میں ہے تو اس حالت مین سونے سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ بیہوشی، خواہ بیماری یا کسی اور وجہ سے ہو مثلاً غشی، جنوں ، مرگی اور نشہ وغیرہ سے بیہوشی ہو جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اگرچہ تھوڑی دیر ہی ہو اس کی حد یہ ہے کہ اس کے پاؤں میں لغزش آ جائے۔ نماز کے اندر قہقہہ مارنا یعنی اس طرح کھلکھلا کر ہنسنا کہ اس برابر والے سن لیں ، قہقہہ وضو اور نماز دونوں کو توڑتا ہے خواہ عمداً ہو یا سہواً، اگر نماز کے باہر قہقہہ سے ہنسے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔ مباشرت فاحشہ یعنی عورت اور مرد کی شرمگاہوں کا اسطرح ملنا کہ ننگے ہوں تو وضو ٹوٹ جائے گا
وضو کے متفرق مسائل
اگر وضو کی نیت نہ کی مثلاً کوئی شخص دریا میں گر گیا یا بارش میں کھڑا رہا اور تمام اعضاء وضو پر سے پانی بہ گیا تو وضو ہو جائے گا یعنی اس سے نماز پڑھ لینا جائز ہے لیکن وضو کی نیت نہ کرنے سے وضو کا ثواب نہیں ملے گا۔ دھونے کی حد یعنی جسے دھونا کہ سکیں یہ ہے کہ پانی عضو پر بہ کر ایک دو قطرے ٹپک جائیں ، یہ دھونے کی ادنیٰ مقدار ہے اس سے کم کو دھونا نہیں کہتے۔ پس اگر ہاتھ بھگو کر منہ پر پھیر لیا یا اسقدر تھوڑا پانی منہ پر ڈالا کہ وہ منہ وغیرہ پر ہی رہ گیا ٹپکا نہیں تو اس کا وضو صحیح نہیں ہو گا۔ جن اعضاء کا وضو میں دھونا فرض ہے ان کا ایک دفعہ دھونا فرض ہے اور اس سے زیادہ یعنی دو دفعہ دھونا سنت ہے تاکہ یہ مل کر تین دفعہ ہو جائے اور تین مرتبہ سے زائد دھونا ناجائز اور مکروہ ہے۔ جن اعضاء کا دھونا فرض ہے ان میں سے ایک بال بربر بھی خشک رہ جائے تو وضو درست نہ ہو گا۔ اگر کسی آدمی کے چھ انگلیاں ہو تو چھٹی انگلی کا دھونا فرض ہے اور اسی طرح جو چیز زیادہ پیدا ہو جائے اور اس مقام کے اندر ہو جس کا دھونا فرض ہے تو اس زائد کا دھونا بھی فرض ہو جاتا ہے
مسواک کا بیان
مسواک کی فضیلت وضو میں ایک سنت مسواک کرنا بھی ہے یہ سنت مؤکدہ ہے اس کا بہت ثواب ہے۔حدیث پاک میں اس کی بہت فضیلت آئی ہے۔
حضورِ انور صلی اللّٰہ علیہ !وسلم نے فرمایا
لَو لَآ اَن اَشّقَّ عَلیٰ اَمَّتِی لَاَمَر تُھُم بِالسَّوَاکِ مَعَ کُلَّ وُضُوءِ ( موطا امام مالک رح)
ترجمہ: "اگر مجھے اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ میری امت مشقت اور تنگی میں پڑ جائے گی تو میں ہر وضو کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔” !
اور حدیث میں ہے
اَلسَّوَاکُ مُطَھَّرةُ، لِلفَمِ وَ مَرضَاةُ لَّلرَّبَّ (مسلم)
ترجمہ: ” مسواک کرنا منھ کی صفائی اور پروردگارِ عالم کی خوشنودی کا سبب ہے "۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے روایت ہے کہ جو نماز مسواک کر کے پڑھی جائے وہ بے مسواک والی نماز سے ستر درجہ افضل ہے۔ بعض صحابہ کی یہ حالت تھی کہ وہ مسواک قلم کی طرح اپنے کان پر لگائے رکھتے تھے مسواک کے فوائد علمائے کرام نے مسواک کے اہتمام میں تقریباً ستر فائدے لکھے ہیں۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں :
۱. منھ کو صاف کرتی ہے۔
۲. فصاحت میں اضافہ کرتی ہے۔
۳. اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کا سبب ہے۔
۴. شیطان کو غصہ دلاتی ہے۔
۵. نیکیوں کو زیادہ کرتی ہے۔
۶. مسواک کرنے والوں کو اللّٰہ تعالیٰ اور فرشتے محبوب رکھتے ہیں۔
۷. نماز کے ثواب کو بڑھاتی ہے۔
۸. پل صراط پر چلنا آسان ہو جائے گا۔
۹. مسوڑھوں دانتوں اور معدے کے قوت دیتی ہے اور دانتوں کو سفید کرتی ہے ۱۰. بلغم کو قطع کرتی ہے۔
۱۱. کھانے کو ہضم کرتی ہے۔
۱۲. منھ میں خوشبو پیدا کرتی ہے۔
۱۳. صفرا کو دور کرتی ہے۔
۱۴. ریح نکلنے کو آسان کرتی ہے۔
۱۵. بڑھاپا دیر میں آتا ہے۔
۱۶. موت کے سوا ہر مرض کی شفا ہے۔
۱۷. سر کے رگوں پٹھوں کو اور دانتوں کے درد کو سکون دیتی ہے۔
۱۸. نگاہ کو تیز کرتی ہے۔
۱۹. منھ کی بدبو دور کرتی ہے وغیرہ ان سب باتوں کر علاوہ ایک مسلمان کے لئے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور ایک سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جس کی ہر مسلمان کو آرزو ہوتی ہے کہ مرتے وقت کلمہ پڑھنا نصیب ہوتا ہے
مسواک کے مستحبات و طریقہ
مسواک کسی کڑوے درخت کی جڑ یا لکڑی کی ہونی چاہئے۔ پیلو کی جڑ یا نیم و کیکر و پھلاہی وغیرہ کی شاخ ہو۔ زہریلے درخت کی نہ ہو۔چھنگلیا کے برابر موٹی اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت لمبی ہو۔ انگوٹھے سے زیادہ موٹی اور بالشت سے زیادہ لمبی نہ ہو۔ اتنی چھوٹی بھی نہ ہو کہ اس کا کرنا دشوار ہو جائے۔ مسواک نہ بہت نرم ہو نہ بہت سخت درمیانے درجہ کی ہو۔ سیدھی ہو گرہ دار نہ ہو۔ دائیں ہاتھ میں اس طرح پکڑنا مستحب ہے کہ چھنگلیاں نیچے اور انگوٹھا برابر میں اور باقی تین انگلیاں اوپر رہیں۔ مٹھی باندھ کر نہ پکڑیں تین مرتبہ مسواک کرنا اور ہر مرتبہ نیا پانی لینا چاہئے۔اول اوپر کے دانتوں پر داہنی طرف سے ملتے ہوئے بائیں طرف لے جائیں اور پھر اسی طرح نیچے کے دانتوں میں ملیں۔ اس طرح تین بار کریں اور ہر بار دھو لیں۔ زبان اور تالو بھی صاف کریں۔ مسواک کو دانتوں کی چوڑائی کے رخ پھرائیں یعنی منھ کی لمبائی میں پھرائیں۔ دانتوں کے طول میں یعنی اوپر سے نیچے کو نہ ملیں کیونکہ اس سے مسوڑھوں کی جڑوں کے چھلنے اور خون نکلنے کا اندیشہ ہے۔ مسواک کو دھو کر شروع کریں اور استعمال کے بعد دھو کر دیوار وغیرہ کے ساتھ اس طرح کھڑی رکھیں کہ ریشہ کی جانب اوپر ہو۔ یوں ہی لٹا کر نہ رکھیں۔ مسواک کا وقت وضو سے پہلے یا کلی کے وقت ہے۔ اگر لکڑی کی مسواک نہ ملے تو دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے دانتوں کو ملنا مستحب ہے یا موٹے کپڑے سے دانت صاف کر لیں کہ سب میل کچیل جاتا رہے۔
مکروہاتِ مسواک
۱. لیٹ کر مسواک کرنا ( اس سے تلی بڑھتی ہے )۔
۲. مٹھی سے پکڑنا ( اس سے بواسیر ہو جاتی ہے )۔
۳. مسواک کو چوسنا (اس سے بینائی جانے کا اندیشہ رہتا ہے )۔
۴. مسواک کو زمین پر ایسے ہی لٹا کر رکھنا ( اس سے جنون کا اندیشہ ہے اس لئے کھڑی رکھے اور ریشہ اوپر کی جانب ہو)۔
۵. فراغت کے بعد مسواک کا نہ دھونا۔
۶. انار یا ریحان یا بانس یا میوہ دار یا خوشبودار درخت کی لکڑی سے کرنا۔ ۷. مسواک دانتوں کے طول میں یعنی اوپرسے نیچے کو کرنا۔
مسواک کا حکم
مسواک وضو کی سنت ہے نہ کہ نماز کی پس جب مسواک کو ساتھ وضو کیا تو اس وضو سے جتنی نمازیں پڑھے گا ہر نماز کا ثواب مسواک کے وضو والی نماز کا ہو گا۔
مندرجہ ذیل اوقات میں مسواک کرنا مستحب ہے
۱. دیر تک وضو نہ کرنے کی وجہ سے منھ کی بو بدل جائے تو مسواک کرنا۔ ۲. اگر وضو کے وقت مسواک کرنا بھول جائے تو نماز کے وقت مسواک کرنا۔ ۳. وضو کے ساتھ مسواک کرنے کے باوجود ہر نماز کے وقت مسواک کرنا۔
۴. سو کر اٹھنے کے بعد۔
۵. دانتوں پر زردی آ جانے کے وقت مسواک کرنا وغیرہ
غسل کا بیان
فرائض غسل
غسل میں تین فرض ہیں
۱. کلی کرنا۔
۲. ناک میں پانی ڈالنا۔
۳. سارے بدن کا ایک بار دھونا۔
کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کی حد وضو میں بیان ہو چکی۔ اگر دانتوں میں یا ان کے خلا میں کھانا وغیرہ کچھ باقی رہا یا اس کی ناک میں تر ریٹھ ہے اوراس کی جگہ یقیناً پانی نہیں پہنچا تو غسل نہیں ہوا۔ اگر عورت کے سر کے بال گندے ہوئے ہوں اور بغیر کھولے پانی نہیں پہنچ سکتا تو کھول کر پانی پہچانا فرض ہے۔ پہنے ہوئے زیورات کو حرکت دینا واجب ہے جبکہ تنگ ہوں۔ ناف کے سوراخ میں پانی پہچانا واجب ہے فائدہ وضو کی طرح غسل میں بھی کوئی فعل واجب نہیں ہے یعنی وہ واجب جو فرض سے کم درجہ کا ہو اور یہ واجب کی ضعیف و ادنیٰ قسم ہے۔ اس کو ادا نہ ہونے سے وضو و غسل کا جواز فوت نہیں ہوتا۔ بعض کتب میں لکھا ہے کہ غسل میں صرف ایک فرض ہے اور وہ سارے بدن کا ایک بار دھونا ہے اور باقی امور جن کو ہم نے فرائض غسل میں بیان کیا ہے یعنی کلی کرنا۔ ناک میں پانی ڈالنا انہوں نے واجبات میں شمار کیا ہے تو وہ یہ واجبات ہیں جو عمل میں فرض کے ہم معنی ہیں یعنی فرضِ عملی ہیں کیونکہ ان میں سے کسی فعل کے ادا نہ ہونے سے غسل صحیح و جائز نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ عام کتب میں ان کو فرائضِ غسل میں شمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ وضو اور غسل میں کوئی واجب نہیں ہے۔
غسل کی سنًتیں
۱. غسل کرنے یا ناپاکی دور کرنے یا پاکی حاصل ہونے یا نماز جائز ہونے کی نیت دل سے کرنا اور زبان سے کہ لینا بھی بہتر ہے۔
۲. کپڑے اتارنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا۔
۳. دونوں ہاتھ کلائی تک تین بار دھونا۔
۴. استنجا کرنا یعنی پیشاب اور پاخانہ کے مقام کو دھونا۔
۵. اگر جسم پر کہیں نجاست لگی ہو تو اس کو دھونا۔
۶. نماز کی طرح وضو کرنا۔اس میں مسواک کرنا اور ہاتھ پیر اور داڑھی کا خلال کرنا۔ اگر غسل سے پہلے وضو نہیں کیا تو غسل کے اندر وضو بھی ادا ہو گیا پھر وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۷. سارا جسم تین دفعہ دھونا۔
۸. ترتیب یعنی جس ترتیب سے اوپر بیان ہوا اسی ترتیب سے ادا کرنا پس پہلے ہاتھ دھونا پھر استنجا کرنا پھر بدن کی نجاست دور کرنا پھر وضو کرنا پھر سارا بدن دھونا۔
غسل کے مستحبات اور آداب
۱. زبان سے بھی نیت کہ لے مستحسن و بہتر ہے
۲. پانی کے استعمال میں بے جا کمی یا زیادتی نہ کرنا۔
۳. ننگا ہونے کی حالت میں قبلہ کی طرف منہ نہ کرنا۔
۴. بلا ضرورت کسی سے بات نہ کرنا۔
۵. ایسی جگہ نہانا جہاں کوئی نہ دیکھے یا تہبند وغیرہ باندھ کر نہانا۔
۶. تمام بدن کا ملنا کہ بعض نے اس کو سنن میں شمار کیا ہے۔اور وضو مین اعضا کے ملنے کا سنت ہونا اس کی تائید کرتا ہے۔
۷. تواتر یعنی پے درپے دھونا اس طرح کہ معتدل موسم میں ایک حصہ خشک ہونے سے پہلے دوسرا حصہ دھو ڈالے۔
۸. تمام جسم پر تین مرتبہ پانی بہانا یعنی ایک مرتبہ پانی بہانا فرض ہے اور۔مزید دو مرتبہ سنت ہے۔یہ مل کر تین مرتبہ ہوا
۹. غسل کے بعد کسی پاک و صاف کپڑے سے اپنا بدن پونچھ ڈالے۔
۱۰. نہانے کے بعد فوراً کپڑے پہن لے۔
۱۱. جو چیزیں وضو میں سنت و مستحب ہیں وہ غسل میں بھی سنت و مستحب ہیں سوائے قبلہ رو ہونے کے جبکہ ننگا نہاتا ہو اور اگر کپڑا باندھ کر نہائے تو قبلہ رو ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔سوائے دعائیں پڑھنے اور غسل کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پینے کے کہ یہ امور مستحب نہیں بلکہ مکروہ ہیں اور سوائے ترتیب کے غسل کی اپنی ترکیب ہے جو وضو سے مختلف ہے۔
غسل کے مکروہات
غسل کے مکروہات وضو کے مکروہات کی طرح ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ مکروہات یہ ہیں :۔
۱. ننگا نہاتے وقت قبلہ رو ہونا۔
۲. بلا عذر غیر محرم کے سامنے نہانا۔
۳. دعاؤں کا پڑھنا۔
۴. ستر کھلے ہوئے بلا ضرورت کلام کرنا۔
۵. پانی زیادہ بہانا۔
۶. سنت کے خلاف غسل کرنا۔
غسل فرض ہونے کے اسباب
۱. جنابت
۲. حیض
۳. نفاس
حیض و نفاس کی تفصیل آگے الگ بیان میں درج ہے اور جنابت کی تفصیل یہ ہے جنابت کے دو سبب ہیں پہلا سبب منی کا شہوت سے کود کر بغیر دخول کے نکلنا خواہ چھونے سے ہو یا دیکھنے سے یا کسی خیال و تصور سے یا احتلام یا جلق ( یعنی ہاتھوں سے حرکت دے کر) سے نکلے سوتے میں یا جاگتے میں۔ حالت ہوش میں ہو یا بیہوشی میں۔ مرد سے نکلے یا عورت سے۔ ان سب سورتوں میں اس پر غسل فرض ہو جائے گا۔ اگر کوئی مرد یا عورت سو کر اٹھے اور اگر جسم یا کپڑے پر تری دیکھے تو اگر اس کو احتلام یاد ہو تو اس پر غسل فرض ہو گا اور اگر احتلام یاد نہ ہو مگر منی کا یقیں ہو تو بھی غسل فرض ہے۔ اور ندی کا یقین ہو تو غسل فرض نہیں۔اگر مرد یا عورت سو کر اٹھے اور احتلام اور لذت یاد ہے لیکن تری نہ پائے تو غسل فرض نہ ہو گا۔ رات کو خاوند و بیوی کسی بچھونے پر سوئے تھے اور اس بچھونے پر منی پائی جائے اور دونوں میں کسی کو احتلام یاد نہ ہو اور دونوں اپنی اپنی منی ہونے کا انکار کریں اور مرد و عورت کی منی کی تمیز کی علامت بھی نہ پائی جاتی۔ تو دونوں پر غسل واجب ہو گا۔ اگر مرد کی منی کی علامت ہے تو صرف مرد پر غسل واجب ہو گا اور اگر عورت کی منی کی علامت ہے تو عورت پر واجب ہو گا اور اگر احتلام یاد ہے تو اسی پر ہو گا جس کو یاد ہے۔ دوسرے پر واجب نہیں اور اگر منی خشک ہے اور اس بستر پر پہلے کوئی دوسرا سویا تھا اور ان میں سے کسی کو احتلام یاد نہیں تو دونوں پر غسل واجب نہیں۔
مرد کی منی کی علامات یہ ہیں .
۱.سختی (گاڑھا ہونا)
۲ جنابت کا دوسرا سبب دخول ہے۔ یعنی زندہ عورت کے فرج کے مقام یا زندہ عورت یا مرد کے پاخانہ کے مقام میں (یہ بہت گناہ کا کام ہے اور اس کی سختی سے ممانعت آئی ہے ) سر ذکر کے داخل ہو جانے سے خواہ انزال ہے یا نہیں۔ فائل اور مفعول دونوں پر غسل فرض ہو جاتا ہے جبکہ دونوں مکلف ہوں یا ان میں سے جو مکلف ہو اس پر غسل فرض ہو گا۔
اقسام غسل
غسل کی چار قسمیں ہیں
۱. فرض
۲. واجب
۳. سنت
۴. مستحب
فرض غسل
فرض غسل چھ ہیں
۱. شہوت کے ساتھ منی نکلنے پر خواہ سوتے میں ہے یا جاگتے میں۔ خواہ بیہوشی میں ہو یا ہوش میں۔ جماع سے ہو یا بغیر جماع کے کسی خیال و تصور وغیرہ سے ہو۔
۲. زندہ عورت کے پیشاب کے مقام میں یا زندہ مرد و عورت کے پاخانہ کے مقام میں کسی با شہوت مرد کے حشفے کے داخل ہونے پر خواہ انزال ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ( یہ دونوں قسم کا غسل غسلِ جنابت کہلاتا ہے )۔
۳. حیض سے پاک ہونے پر۔
۴. نفاس سے پاک ہونے پر۔
۵. میت کا غسل اور یہ زندہ پر واجب علی الکفایہ ہے۔
۶. سارے بدن پر نجاست لگنے یا بدن کے بعض حصہ پر نجاست لگنے سے جب نجاست کا مقام معلوم نہ ہو۔
واجب غسل
واجب غسل تین ہیں
۱. جب کوئی جنبی کافر مسلمان ہو۔یعنی جب کوئی مرد یا عورت جبکہ جنابت کا غسل اس پر باقی ہو اور وہ مسلمان ہو جائے یا عورت پر حیض و نفاس کا غسل باقی ہو اور وہ مسلمان ہو جائے۔
۲. نابالغہ لڑکی پندرہ سال کی عمر سے پہلے حیض سے بالغ ہوئی ہو تو حیض سے پاک ہونے پر احتیاطاً اس پر غسل واجب ہو گا اور اس کے بعد جو حیض آتے رہیں گے ان سے پاک ہونے پر غسل فرض ہو گا
۳. ایسے ہی لڑکا پندرہ سال کی عمر سے پہلے احتلام کے ساتھ بالغ ہو اور اُسے پہلا احتلام ہو تو اس پر احتیاطاً غسل واجب ہے اور اس کے بعد جو احتلام ہے گا اس سے غسل فرض ہو جائے گا اور اگر عمر کے لحاظ سے بالغ ہوا یعنی پندرہ سال کی عمر کے بعد احتلام ہوا تو اس پر غسل فرض ہے فائدہ واجب غسل سے مراد فرضِ عملی ہے اس لئے بعض نے ان سب کو فرض غسل میں شمار کیا ہے۔اس طرح میت کا غسل اور سارے بدن پر نجاست لگنے یا بعض حصہ پر لگنے اور جگہ معلوم نہ ہونے کی صورت میں غسل کرنا بھی فرضِ۔عملی ہے اس لئے بعض نے ان دونوں کو بھی واجب میں شمار کیا ہے
سنت غسل
سنت غسل چار ہیں
۱. جمعہ کے دن ان لوگوں کے لئے غسل کرنا سنت ہے جن پر جمعہ فرض ہے
۲. دونوں عیدین کے دن طلوع فجر کے بعد ان لوگوں کو غسل کرنا سنت ہے جن پر عیدیں کی نماز واجب ہے۔
۳. حج یا عمرہ کے احرام کے لئے احرام باندھنے سے پہلے غسل کرنا۔
۴. حاجی کو عرفہ کے دن میدان عرفات مین زوال کے بعد وقوف کے لئے غسل کرنا۔
مستحب غسل
مستحب غسل بہت ہیں جن میں سے چند یہ ہیں
۱. بدن پر نجاست لگ جائے لیکن معلوم نہ ہو کہ کس جگہ لگی ہے۔
۲. لڑکا یا لڑکی جب عمر کے لحاظ سے پندرہ برس کی عمر کو پہنچ کر بالغ ہو اور اس وقت تک بلوغت کی علامات اس میں نہ پائی جائے۔
۳. مکہ معظمہ میں داخل ہونے اور طوافِ زیارت کے لئے۔
۴. عرفہ کی رات یعنی ذی الحجہ کی آٹھویں و نویں تاریخ کی درمیانی شب میں ۵. مزدلفہ میں ٹھہرنے کے لئے دسویں تاریخ کی صبح کو بعد طلوع فجر۔
۶. کنکریاں پھینکنے کے لئے منیٰ میں داخل ہوتے وقت۔اور بقیہ دو دن اور جمروں پر کنکریاں مارنے کے لئے۔
۷. مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے لئے۔
۸. شب برائت یعنی شعبان کی پندرہویں رات کو۔
۹. شب قدر کی راتوں میں۔جو شخص سبِ قدر کو دیکہے یعنی اس کو کشف و الہام یا علامات سے معلوم ہو جائے
۱۰. سورج گرہن کی نماز کے لئے۔
۱۱. چاند گرہن کی نماز کے لئے۔
۱۲. نماز استسقاء کے لئے۔
۱۳. جب مجنون۔مست و بیہوش اچھا ہو جائے۔
۱۴. رفع خوف و دفع مصیبت کی نمازوں کے لئے۔
۱۵. دن کی تاریکی و سخت آندھی کے وقت۔
۱۶. نیا کپڑا پہنتے وقت۔
۱۷. آدمیوں کے مجمع جانے کے لئے۔
۱۸. پچھنے (فصد۔ٹیکا) لگنے کے بعد
۱۹. میت کو غسل دینے کے وقت اور غسل دینے کے بعد غسل دینے والے کے لئے۔
۲۰. اس شخص کے لئے غسل مستحب ہے جس کے قتل کا قصد کیا جائے خواہ جبراً قتل کیا جائے یا قصاص میں یا ظلم سے۔
۲۱. کسی گناہ سے توبہ کے لئے۔
۲۲. جب کوئی مسلمان ہو جائے اور وہ جنابت میں نہ ہو تو اس کو غسل کرنا۔ ۲۳. سفر سے واپس وطن پہنچنے پر۔
۲۴. مجالسِ خیر میں حاضر ہونے کے لئے۔
۲۵. استحاضہ والی عورت کو جبکہ اس کا استحاضہ دور ہو جائے۔
غسل متفرقات
۱. جنبی کو نماز کے وقت تک غسل میں تاخیر جائز ہے اس سے وہ گناہگار۔نہیں ہو گا
۲. جنبی بغیر غسل کو سوئے یا پہر وطی کرے تو جائز ہے البتہ وضو کر لینا بہتر ہے۔
۳. جنبی کو وضو کرنے یا ہاتھ منھ دھونے اور کلی کرنے کو بعد کہانا پینا مکروہ نہیں بغیر اس کے ویسے ہی کھا پی لیا تو گناہ نہیں لیکن مکروہ ہے۔
۴. غسل کے لئے کم سے کم ایک صاع یعنی تقریباً چار سیر پانی ہونا چاہئے اور وضو کے لئے ایک مُدّ یعنی ایک سیر۔لیکن یہ مقدار لازمی نہیں کیونکہ انسانوں کی طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں۔
۵. مرد و عورت ایک برتن سے غسل کریں تو مضائقہ نہیں۔
۶. اگر فرض غسل کی حاجت ہو اور دریا میں غوطہ لگائے یا بارش میں کھڑا ہو جائے یا بڑے حوض میں گر پڑے اور اس کے تمام بدن پر پانی بہہ جائے اور وہ کلی کر لے اور ناک مین پانی ڈال لے تو اس کا غسل ہو جائے گا چاہے غسل کرنے کا ارادہ ہو یا نہ ہو۔
۷. اگر بدن مین بال بھر بھی جگہ خشک رہ گئی تو غسل نہیں ہو گا۔لیکن اب اس کو پھر نہانا واجب نہیں صرف خشک جگہ پانی بہا لینا چاہئے صرف گیلا ہاتھ پھیر لینا کافی نہیں ہے اور کلی یا ناک میں پانی ڈالنا ترک ہونے کی صورت۔ میں صرف کلی یا ناک میں پانی ڈالنا کافی ہے
غسل کا مسنون طریقہ
غسل کا مسنون طریقہ جو شخص غسل کرنا چاہے اس کو چاہیے کہ کوئی کپڑا تہبند وغیرہ باندھ کر نہائے اور اگر ننگا نہائے تو کسی ایسی جگہ نہائے جہاں کسی نامحرم کی نظر نہ پہنچ سکے۔ عورت کو اور ہر ننگا نہانے والے کو بیٹھ کر نہانا چاہیے اور ننگا نہانے والا قبلہ کی طرف منہ کر کے نہ نہائے۔ سب سے پہلے دونوں ہاتھ کلائی تک تین مرتب دھوئے پھر استنجاء کرے یعنی پیشاب و پاخانہ کے مقام کے دھوئے خواہ استنجاء کی جگہ پر نجاست ہو یا نہ ہو۔ اور بدن پر جہاں جہاں نجاست حقیقی لگی ہو اس کو بھی دھو ڈالے پھر کلی غرارہ کرے اور ناک میں پانی ڈالے اور اس میں مبالغہ کرے اور اگر روزہ دار ہو تو غرارہ نہ کرے اور ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ نہ کرے مسواک بھی کرے اور پورا وضو کرے۔ ہاتھ پیر کی انگلیوں اور داڑھی کا خلال بھی کرے۔ اگر کسی چوکی یا پتھر وغیرہ پر بیٹھ کر غسل کرتا ہو تو وضو کرتے وقت پاؤں بھی دھو لے پھر بعد میں دھونے کی ضرورت نہیں اور اگر ایسی جگہ ہے کہ پاؤں بھر جائیں گے اور غسل کے بعد دھونے پڑیں گے تو پاؤں نہ دھوئے بلکہ غسل سے فراغت کے بعد دوسری جگہ ہٹ کر پاؤں کو دھوئے۔ وضو کے بعد پہلے سر کو دھو لے پھر تمام بدن پر تھوڑا سا پانی ڈال کر ہاتھ سے ملے یا گیلا ہاتھ تمام بدن پر پھرائے تاکہ جب پانی ڈالے تو بدن پر سب جگہ اچھی طرح پہنچ جائے اور کوئی جگہ خشک نہ رہ جائے۔ پھر سارے بدن پر تین مرتبہ پانی بہا لے اور ہر دفعہ بدن کو ملے کہیں سوکھا نہ رہ جائے۔ بدن پر پانی اس ترتیب سے ڈالے کہ پہلے اپنے داہنے مونڈھے پر تین مرتبہ پھر بائیں مونڈھے پر تین مرتبہ پھر سر پر پھر سارے بدن پر تین مرتبہ پانی ڈالے اور اصح و ظاہر الروایت و حدیث کے موافق یہ ہے کہ پہلے سر پر تین مرتبہ پانی ڈالے پھر دائیں کندھے پر تین مرتبہ پھر بائیں کندھے پر تین مرتبہ ڈالے۔ اور غسل فرض ہو تو سوائے بسم اللہ کے اور کوئی دعا نہ پڑھے اور بسم اللہ بھی کپڑے اتارنے سے پہلے پڑھ لے اور نہاتے وقت بغیر سخت ضرورت کے کسی سے کوئی بات نہ کرے۔ غسل کے بعد چاہے تو اپنے جسم کو کسی کپڑے سے پونچھ ڈالے اور نہانے کے بعد فوراً کپڑے پہن لے اور اب بلا وجہ ستر کو کھلا نہ رکھے۔
پانی کا بیان
پانی کی دو قسمیں ہیں
مطلق پانی
۱. مطلق یعنی جس کو عام محاورے میں پانی کہتے و سمجھتے ہیں۔جیسے بارش کا پانی۔چشمے۔کنوئیں۔ تالاب۔ ندی نالے۔ دریا و سمندر وغیرہ کا پانی۔ خواہ میٹھا ہو یا کھاری۔اور پگھلی ہوئی برف یا اولے کا پانی ان سب سے وضو۔اور غسل کرنا درست ہے
۲. مقید یعنی جس کو عام محاورے میں پانی نہ کہتے ہوں اگرچہ پانی کی طرح بہنے والا ہو جیسے گلاب۔ کیوڑا۔ عرق گاؤزبان۔ عرق سونف وغیرہ یا کسی دوا کا کشید کیا ہوا عرق۔ گنے کا رس سرکہ شربت وغیرہ یا اس کے ساتھ کوئی خصوصیت لگاتے ہوں۔جیسے پتوں پھل اور درخت کا نچوڑا ہوا پانی مثلاً تربوز کا پانی ناریل کا پانی وغیرہ ان سب سے وضو اور غسل درست نہیں ہے مائے۔
مطلق ( عام پانی) کی دو قسمیں ہیں ۱. جاری یعنی بہتا ہوا پانی۔ ۲. راکد یعنی ٹھہرا ہوا پانی۔۔راکد پانی کی بھی دو قسمیں ہیں ۱. راکد قلیل ۲. راکد کثیر جاری پانی نجاست گرنے سے ناپاک نہیں ہوتا اور کثیر بھی جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔نجاست گرنے سے ناپاک نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی کوئی صفت نہ بدلے۔ان دو پانیوں کے علاوہ تمام پانی نجاست گرنے سے ناپاک ہو جاتے ہیں
جاری پانی
۱. جاری پانی کی ادنیٰ پہچان یہ ہے کہ اس میں تنکا بہہ جائے یا یہ کہ لوگ اس کو جاری کہتے ہوں یہی اصح ہے
۲. جاری پانی میں اگر نجاست گر جائے اور مزہ یا بو نہ بدلے تو نجس نہیں ہوا اور اگر ان میں سے ایک صفت بھی بدل گئی تو نجس ہو گیا۔
۳. اگر نہر وغیرہ کے جاری پانی میں کوئی نجاست گر جائے اور اس کی کوئی صفت نہ بدلے تو اس کے پاس سے پانی لینا جائز ہے۔یہی حکم زمین دوز۔نہر کا ہے۔
۴. اگر بہت سے آدمی جاری نہر کے کنارے پر صفیں باندھ کر بیٹھیں اور وضو۔کریں تو جائز ہے اور وہ پانی مستعمل نہیں ہو گا۔
۵. جس چھوٹے حوض میں ایک طرف سے پانی آتا ہو اور دوسری طرف سے نکل جاتا ہو وہ جاری ہے اور اس میں ہر طرف سے وضو جائز ہے۔
۶. اگر حوض چھوٹا ہو اور اس میں نجاست پڑ جائے اس کے بعد اس میں ایک طرف سے پاک پانی آئے اور دوسری طرف سے نکل جائے تو حوض پاک ہو جائے گا دوسری طرف سے پانی نکلتے ہی اس کی پاکی کا حکم ہو گا اگرچہ تھوڑا سا۔پانی نکلا ہو۔حمام کا بھی یہی حکم ہے۔
راکد ( بند) پانی
۱. بند پانی جب قلیل ہو تو اس میں نجاست گرنے یا بہتے ہوئے خون والا جانور مر جانے سے وہ تمام پانی ناپاک ہو جاتا ہے اگرچہ رنگ یا مزہ یا بو نہ بدلے۔پس اس سے وضو یا غسل درست نہیں
۲. بند پانی جب کثیر ہو تو وہ جاری کے حکم میں ہے۔پس اس میں ایک طرف نجاست پڑنے سے وہ پانی ناپاک نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی کوئی صفت رنگ یا مزہ یا بو نہ بدلے پس اگر وہ نجاست نظر نہ آنے والی ہے جیسے پیشاب۔خون وغیرہ تو چاروں طرف سے وضو کرنا درست ہے اور اگر نجاست نظر آنے والی ہو جیسے مردار تو جدھر نجاست پڑی ہو اس طرف وضو نہ کرے اس کے سوا جس طرف چاہے وضو کرے
۳. قلیل اور کثیر میں یہ فرق ہے کا اگر ایک طرف کا پانی ہل کر دوسری طرف نہ جائے تو کثیر ہے ورنہ قلیل۔فقہائے کرام نے عام لوگوں کی آسانی کے لئے کثیر پانی کی حد مقرر کر دی ہے کہ وہ دس گز در دس گز شرعی (۱۰ x ۱۰) ہو۔ شرعی گز ایک ہاتھ مع ایک وسطی انگلی کے ہوتا ہے یعنی چوبیس انگل کا اور آج کل کے رواجی انگریزی گز سے تقریباً نو گرہ کا ہوتا ہے پس اس رواجی گز سے ساڑھے پانچ گز لمبا اورساڑھے پانچ گز چوڑا ہو تو پانی کثیر ہے ورنہ قلیل اور اس کی گہرائی کم از کم اتنی ہو کہ اگر چلو سے پانی لیا جائے تو پانی اٹھنے سے زمین نظر نہ آئے اگر وہ جگہ لمبائی میں زیادہ اور چوڑائی میں کم ہو تو اس کا رقبہ ۱۰ x ۱۰ گز شرعی کے برابر ہو مثلاً ۲۰ x ۵ گز شرعی یا۱۰۰ x ۱ گز شرعی ہو اور اگر گول ہو تو اس کا گھیرا اڑتالیس گز ہو اور۔اگر مثلث یعنی تکونا ہو تو ہر ضلع ساڑھے پندرہ گز ہونا معتبر ہے
۴. جس حوض میں بالکل کائی جمی ہوئی ہو اگر وہ کائی ہلانے سے ہل جائے۔اور پانی نظر آ جائے تو وضو جائز ہے ورنہ نہیں
۵. ناپاک حوض اگر بالکل خشک ہو گیا تو وہ پاک ہو گیا اب اگر اس میں۔دوبارہ پانی آ جائے تو وہ پاک ہے اور اب اس کی نجاست نہیں لوٹے گی
۶. اگر بڑے حوض کی کوئی صفت متغیر ہو جائے مثلاً پانی میں بدبو ہو جائے تو اگر اس میں نجاست کا واقع ہونا معلوم نہ ہو تو وہ پاک ہے اور۔اس سے وضو و غسل جائز ہے
کنوئیں کے احکام
کنواں ٹھہرے ہوئے پانی اور چھوٹے حوض کے حکم میں آتا ہے۔جن چیزوں کے چھوٹے حوض میں واقع ہونے سے اس حوض کا پانی ناپاک ہو جاتا ہے انہی چیزوں کے کنوئیں میں واقع ہونے سے کنوئیں کا پانی ناپاک ہو جاتا ہے لیکن اگر کنوئیں کا محیط ( گولائی) شرعی اڑتالیس گز ہو تو بڑے حوض کے حکم میں ہے مگر ایسا کنواں شازونادر ہی ہوتا ہے۔ چھوٹے کنوئیں کا پانی پاک ہو سکتا ہے بخلاف دوسرے قلیل پانی (چھوٹے حوض وغیرہ) کے کہ وہ پاک نہیں ہوتا۔جب تک جاری یا کثیر نہ ہو جائے۔کنوئیں میں گرنے والی چیزیں تین قسم پر ہیں۔
۱. جن سے کنوئیں کا تمام پانی ناپاک ہو جائے۔
۲. جن سے سارا پانی ناپاک نہیں ہوتا بلکہ تھوڑا پانی نکال دینے سے کنواں۔پاک ہو جاتا ہے۔
۳. جن سے کنواں بالکل ناپاک نہیں ہوتا۔
جن سے کنوئیں کا تمام پانی ناپاک ہو جائے
۱. اگر کنوئیں میں نجاستِ غلیظہ یا خفیفہ گر جائے تو تمام پانی ناپاک ہو جائے گا خواہ وہ نجاست تھوڑی ہو یا بہت۔اور خواہ کسی چیز کے ساتھ لگ کر گری ہو یا صرف نجاست گری ہو ہر حال میں کنوئیں کا تمام پانی ناپاک ہو جائے گا ۲. جس جانور میں بہتا ہوا خون ہوتا ہو اور وہ خشکی کا رہنے والا ہو۔ اگر وہ کنوئیں میں گر جائے تو اس کے تین درجہ ہیں۔
اول: بکری یا اس کی مثل
دوم: بلی اور اس کی مثل۔
سوم: چوہا اور اس کی مثل۔
پس جو جانور بکری کے برابر یا اس سے بڑے ہوں وہ بکری کے حکم میں ہیں۔ ایسے کسی جانور کے کنوئیں میں گر کر مر جانے سے کنوئیں کا تمام پانی ناپاک ہو جاتا ہے۔اگرچہ وہ پھولا یا پھٹا نہ ہو۔اور اگر مر کر پانی میں گرے تب بھی یہی حکم ہے۔جو جانور بلی کے برابر یا اس سے بڑے ہوں مگر بکری سے چھوٹے ہوں وہ بلی کے حکم میں ہیں اور جو جانور چوہے کے برابر یا اس سے بڑے ہوں مگر بلی سے چھوٹے ہوں وہ چوہے کے حکم میں ہیں۔ان دونوں قسم کے جانوروں میں سے کوئی جانور کنوئیں میں گر کر مر جائے یا باہر سے گر کر مرے تو جب تک پھول یا پھٹ نہ جائے اس وقت تک کنوئیں کا تمام پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ بلکہ کچھ حصہ ناپاک ہوتا ہے جس کی تفصیل آگے آتی ہے اور جب پھول جائے یا پھٹ جائے تو تمام پانی ناپاک ہو جاتا ہے۔اسی طرح اس کے بال یا پاؤں یا دم یا کوئی اور حصۂ جسم جدا ہو کر کنوئیں میں گر پڑے یا کنوئیں میں گرتے وقت کٹ جائے تو اس کے گرتے ہی تمام پانی ناپاک ہو جائے گا۔ پھولنے کی پہچان یہ ہے کہ پانی میں رہ کر اس کا جسم اصلی حجم سے بڑھ جائے اور پھٹنے کی پہچان یہ ہے کہ اس کے بال گر گئے ہوں یا جسم پھٹ گیا ہو۔ باہر سے پھول کر یا پھٹ کر گرنے کا بھی یہی حکم ہے۔ اگر کنوئیں سے مرا ہوا چوہا یا کوئی اور جانور نکلا اور یہ معلوم نہیں کہ کب گرا ہے تو فتویٰ اسی پر ہے کہ جب دیکھا جائے اس وقت سے کنواں ناپاک سمجھا جائے گا۔اس سے پہلے کے نماز و وضو سب درست ہے لیکن احتیاط اس میں ہے کہ اگر وہ جانور ابھی پھولا یا پھٹا نہیں تو جن لوگوں نے اس کنوئیں سے وضو کیا ہے وہ دن رات کی نمازیں دہرائیں اور اس پانی سے جو کپڑے دھوئے ہیں ان کو پھر سے دھونا چاہئے اور اگر پھول گیا ہو یا پھٹ گیا ہو تو تین دن رات کی نمازیں دہرانا چاہیے۔البتہ جن لوگوں نے اس پانی سے وضو نہیں کیا وہ نہ دہرائیں
جن سے کنوئیں کا تمام پانی ناپاک ہو جائے
۳. دو بلیاں ایک بکری کے حکم میں ہیں۔ تین چوہے ایک بلی کے حکم میں اور۔ چھ چوہے ایک بکری کے حکم میں ہیں
۴. بڑا سانپ یا گرگٹ یا مینڈک۔ بڑی چیچڑی اور بڑی چھپکلی اگر خون والے۔ ہوں تو چوہے و بلی کے حکم میں ہیں
۵. خنزیر کے گرنے سے تمام پانی ناپاک ہو جائے گا خواہ مر جائے یا زندہ نکل آئے اور خواہ اس کا منھ پانی تک پہنچے یا نہ پہنچے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی اور جانور گرے اور زندہ نکل آئے۔ اگر اس کے جسم پر نجاست کا ہونا معلوم ہے تو سارا پانی ناپاک ہو جائے گا ورنہ نہیں۔ اگر نجاست تو جسم پر نہیں لیکن اس کا منہ پانی تک پہنچا تو اس کے جھوٹے کا اعتبار ہو گا اگر اس کا جھوٹا پاک ہے تو پانی پاک ہے اگر اس کا جھوٹا ناپاک ہے تو پانی بھی ناپاک ہو جائے گا اور اگر اس کا جھوٹا مشکوک ہے تو پانی بھی مشکوک ہے اور جھوٹے مشکوک کا بھی تمام پانی نکالا جائے گا اور مکروہ ہے تو پانی بھی مکروہ ہے پس اس سے بیس ڈول نکالنا مستحب ہے اور اگر زندہ نکل آیا اور اس کا منہ پانی تک نہیں پہنچا تو جب تک ان کے پیشاب یا پاخانہ نہ کر دینے کا یقین نہ ہو جائے کنواں ناپاک نہیں ہو گا( لیکن اکثر اس کا قوی امکان ہے اس لئے جن جانوروں کے پیشاب و پاخانہ سے پانی ناپاک ہو جاتا ہے ان کے پیشاب و پاخانہ کر دینے کے گمان کی وجہ سے احتیاطاً سارا پانی ناپاک ہو جاتا ہے ان کے پیشاب و پاخانہ کر دینے کے گمان کی وجہ سے احتیاطاً سارا پانی نکالنا ہی مناسب ہے )
۶. مسلمان میت اگر غسل سے قبل کنوئیں میں گر پڑے تو کنوئیں کا تمام پانی ناپاک ہو جائے گا اور اگر غسل کے بعد گرے تو کنواں ناپاک نہیں ہو گا۔ کافر کی میت غسل سے قبل گرے یاغسل کے بعد۔ ہر حال میں تمام پانی ناپاک ہو جائے گا۔ اگر زندہ آدمی بوڑھا یا جوان یا بچہ مرد یا عورت کنوئیں میں گر کر مر جائے تب۔ بھی تمام پانی ناپاک ہو جائے گا۔
۷. ہر جاندار کا بچہ اپنے بڑے کا حکم رکھتا ہے
۸. اونٹ یا بکری کی مینگنیاں اگر کنوئیں میں کثیر مقدار میں گریں تو تمام پانی ناپاک ہو جائے گا ورنہ نہیں۔ کثیر وہ ہیں جن کو عرف عام میں کثیر کہیں یا دیکھنے والا کثیر سمجھے اور صحیح یہ ہے کہ اگر ان سے کوئی ڈول خالی نہ جائے تو کثیر ہیں ورنہ قلیل۔ تر یا خشک سالم یا ٹوٹی ہوئی گوبر یا لید یا مینگنی۔ سب کا ایک ہی حکم ہے۔
۹. مرغی۔ بطخ اور مرغابی کی بیٹ سے تمام پانی ناپاک ہو جاتا ہے
وہ صورتیں جن سے تھوڑا پانی نکالا جاتا ہے اور سارا کنواں ناپاک نہیں ہوتا
۱. اگر چوہا یا اس کے مثل چڑیا وغیرہ جانور کنوئیں میں گر کر مر جائیں یا مرا ہوا گرے لیکن پھولے یا پھٹے نہیں تو بیس سے تیس ڈول نکالے جائیں یعنی تیس ڈول وجوب کے طور پر اور تیس ڈول استحباب کے طور پر نکالے جائیں۔ دو چوہوں کا بھی یہی حکم ہے بڑی چیچڑی اور بڑی چھپکلی وغیرہ جن میں بہتا۔ خون ہوتا ہے چوہے کے حکم میں ہے
۲. بلی یا اس کے مثل کوئی جانور مثلاً کبوتر یا بطخ وغیرہ گر کر مر جائے یا مرا ہوا گر جائے مگر پھولا یا پھٹا نہ ہو تو چالیس سے پچاس یا ساٹھ ڈول نکالے جائیں یعنی چالیس وجوباً اور پچاس یا ساٹھ ڈول استحبابا نکالے جائیں یہی حکم ایک بلی اور ایک چوہے کے گرنے پر ہے جن صورتیں میں کنواں بالکل ناپاک نہیں ہوتا۔
۱. پاک چیز کے کنوئیں میں گر جانے سے کنواں ناپاک نہیں ہوتا
۲. مسلمان کی لاش نہلانے کے بعد کنوئیں میں گر جائے تو پانی ناپاک نہیں ہو گا بشرطیکہ جسم پر نجاست نہ ہو اور لاش پھولی یا پھٹی نہ ہو
۳. شہید نہلانے سے پہلے بھی گر جائے تو کنواں ناپاک نہ ہو گا بشرطیکہ جسم پر خون کے علاوہ کوئی اور نجاست نہ ہو اور اس کا خون بہنے کی مقدار تک پانی میں نہ ملے
۴. زندہ آدمی کنوئیں میں گر جائے اور پھر زندہ نکل آئے یا ڈول وغیرہ نکالنے کے لئے کنوئیں میں غوطہ لگائے تو اگر اس کے کپڑے اور جسم پر نجاست ہونے کا یقین یا گمان غالب نہ ہو اور پانی سے استنجا کئے ہوئے ہے تو خواہ کافر ہو یا مسلمان مرد یا عورت جنبی ہو یا غیر جنبی کنواں پاک ہے اگر شک ہو کہ کپڑا پاک ہے یا ناپاک تب بھی کنواں پاک ہے لیکن دل کی تسلی کے لئے بیس یا تیس ڈول نکال دینا مستحب ہے۔اور اگر اس کے بدن یا کپڑے پر نجاست لگی ہو۔تو کنوئیں کا تمام پانی ناپاک ہو جائے گا۔کافروں کا جسم اور کپڑا عموماً ناپاک ہی رہتا ہے اور نجاست حکمی سے کافر بالعموم پاک نہیں ہوتا تو اگر وہ کنوئیں میں اترنے سے پہلے نہا لے اور پاک کپڑے باندھ کر کنوئیں میں اترے تو کنواں پاک ہے اگر نہ نہائے اور اپنے انہی مستعمل کپڑوں سمیت کنوئیں میں اترے یا گر جائے تو تمام پانی ناپاک ہونے کا حکم دیا جائے گا( اور یہی حکم غیر محتاط بے نمازی مسلمان کے لئے ہونا چاہیے )
۵. خنزیر کے سوا سب جانوروں کی خشک ہڈی بال یا ناخن گر جانے سے کنواں ناپاک نہیں ہوتا لیکن اگر اس میں گوشت یا چکنائی لگی ہو تو تمام پانی ناپاک ہو جائے گا۔آدمی کا گوشت یا کھال ناخن کی مقدار سے کم گر جائے تو کنواں ناپاک نہیں ہو گا۔ناخن کے برابر یا اس سے زیادہ گر جائے تو کنواں ناپاک ہو جائے گا۔
۶. خنزیر کے علاوہ کسی اور جانور کے پانی میں گر کر زندہ نکل آنے سے کنواں پاک ہے بشرطیکہ اس کا جسم پاک ہو اور منہ پانی تک نہ پہنچے لیکن عموماً جانوروں کا جسم ناپاک رہتا ہے اور منہ کا لعاب پانی میں لگنے کا قوی امکان ہے نیز خوف و دہشت کی وجہ سے پیشاب و پاخانہ کر دینے کا بھی قوی امکان ہے اس لئے سارے پانی کے ناپاک ہونے کا حکم دینا چاہئے۔ اگر منہ پانی تک پہنچے تو ان کر جھوٹے کا اعتبار ہو گا
۷. طاہر و مطہر مکروہ پانی یا مستعمل پانی کنوئیں میں گر جائے تو کنواں۔ناپاک نہ ہو گا
۸. مرغی بطخ یا مرغابی کے علاوہ کسی اور پرندے کا پیشاب یا بیٹ کنوئیں میں گرنے سے کنواں ناپاک نہیں ہوتا
۹. اونٹ یا بکری وغیرہ کی مینگنی تر ہو یا خشک سالم ہو یا ٹوٹی ہوئی۔ گوبر ہو یا لید تھوڑی مقدار میں کنوئیں میں گرنے سے کنواں ناپاک نہیں ہوتا اور تھوڑی مقدار یہ ہے کہ ہر دفعہ ڈول نکالنے میں گوبر مینگنی وغیرہ وغیرہ ساتھ نہ آئے یہی صحیح ہے۔
۱۰. اگر زندہ چوہا وغیرہ کنوئیں میں سے نکلے تو بیس ڈول نکالنا افضل ہے۔ اگر بلی اور آزاد مرغی وغیرہ زندہ نکلے تو تیس تا چالیس ڈول نکالنا مستحب ہے بکری وغیرہ گرے تو بیس ڈول نکالے یہ سب اطمینانِ قلب کے لئے ہے وجوب کے لئے نہیں ہے پس اگر کچھ بھی نہ نکالے تب بھی وضو جائز ہے مستحب ڈول بیس سے کم نہ نکالے یہی افضل ہے
۱۱. جن جانوروں میں بہتا ہوا خون نہ ہو جیسے مکھی مچھر وغیرہ ان کے پانی میں گر کر مر جانے یا مرا ہوا گر جانے یا پھول یا پھٹ جانے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔اس سے وضو اور غسل درست ہے لیکن ان کا پینا یا کھانے میں استعمال کرنا مکروہِ تحریمی ہے
کنوئیں کے پاک کرنے کا طریقہ
۱. کنوئیں کے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اس چیز کو نکالنا چاہئے جس کے گرنے سے کنواں ناپاک ہوا ہے پھر شریعت کے حکم کے مطابق اس کا پانی نکالنا چاہئے جب تک کہ وہ چیز نہ نکالی جائے کنواں پاک نہیں ہو گا۔ خواہ کتنا ہی پانی کیوں نہ نکالا جائے لیکن اگر وہ نجاست ایسی ہے جو باوجود کوشش کے نکل نہیں سکتی تو اس کی دو سورتیں ہیں۔ایک یہ کہ اس چیز کی ناپاکی اپنی اصلی ہو خارجی نجاست سے ناپاک نہ ہوئی ہو۔جیسے مردہ جانور یا اس کا گوشت یا وہ جو کنوئیں میں گر کر مر گیا اس صورت میں کنوئیں کو اتنی مدت تک چھوڑ دینا چاہئے جس میں یہ یقین ہو جائے کہ وہ ناپاک چیز گل سڑ کر مٹی ہو گئی بعض نے اس کی مقدار چھ مہینہ لکھی ہے پھر اس کے بعد اس کا بقدر واجب پانی نکال دیا جائے تو کنواں پاک ہے جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ ناپاک چیز خود اپنی اصل سے ناپاک نہ ہو بلکہ خارجی نجاست لگنے سے ناپاک ہو گئی ہو جیسے ناپاک کپڑا۔ لکڑی۔ جوتی۔گیند وغیرہ اس صورت میں اس چیز کا نکالنا معاف ہے بقدر واجب پانی نکال دینے سے کنواں پاک ہو جائے گا اور کنوئیں کے پاک ہوتے ہی وہ چیز بھی پاک ہو جائے گی
۲. جن صورتوں میں کنوئیں کا تمام پانی ناپاک ہو جاتا ہے اور اس کا پانی ٹوٹ سکتا ہے تو اس کنوئیں کے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کل پانی نکال دیا جائے پس جب پانی اس قدر نکل جائے کہ پانی ٹوٹ جائے اور آدھا ڈول بھی نہ بھرے تو کنوئیں کے اندر کے کنکر۔دیوار وغیرہ ڈول رسی چرخی اور کھینچنے والے کے ہاتھ پیر سب پاک ہو جائیں گے اب ان کو الگ دھونے۔کی ضرورت نہیں
۳. اگر کنواں چشمہ دار ہے یعنی ایسا ہو کہ جس کا تمام پانی نہ نکل سکے بلکہ ساتھ ساتھ نیا پانی اتنا ہی آتا رہے تو اس کے پاک کرنے کے فقہا نے مختلف طریقے لکھے ہیں ان میں سب سے بہتر اور موزوں طریقہ یہ ہے کہ کنوئیں میں رسی ڈال کر ناپ لیا جائے کہ کتنے ہاتھ پانی ہے پھر کچھ ڈول نکال کر رسی سے ناپ لیا جائے کہ کتنے ہاتھ پانی کم ہو گیا اور حساب کر لیا جائے کہ باقی پانی کے لئے کتنے ڈول اور نکالے جائیں۔مثلاً رسی ڈال کر دیکھا تو معلوم ہو کہ دس ہاتھ پانی ہے۔ سو ڈول نکالنے کے بعد رسی ڈال کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک ہاتھ پانی کم ہو گیا لہذا اب نو سو ڈول اور نکال دئے جائیں تو کنوئیں کا کل پانی نکل جائے گا اور کنواں وغیرہ پاک ہو جائے گا
۴. جن صورتوں میں پانی کی ایک خاص مقدر نکالنی پڑتی ہے اسقدر پانی خواہ ایک دم سے نکالیں یا تھوڑا تھوڑا کر کے کئی دفعہ میں وقفہ دے کر نکالیں ہر طرح پاک ہو جائے گا
۵. جن صورتوں میں کنوئیں کا سارا پانی نکالنا واجب ہو اور پانی ٹوٹ سکتا ہے تو پانی لگاتار نکالا جائے اس میں وقفہ نہ دیا جائے یہاں تک کہ پانی ٹوٹ جائے اور آدھا ڈول بھرنے سے رہ جائے تب کنواں پاک ہو گا اور اگر وقفہ دے کر مثلاً کچھ دیر صبح کو اور کچھ دیر دوپہر کو اور کچھ دیر شام کو نکالا تو خواہ کتنا ہی پانی نکالا جائے کنواں پاک نہیں ہو گا۔اس کے علاوہ سب صورتوں میں یعنی جن صورتوں میں تعداد مقرر ہے یا چشمہ دار ہونے کی وجہ سے پیمائش وغیرہ کے ذریعہ مقرر کر لی گئی ہے لگاتارنکالنا ضروری نہیں بلکہ متفرق وقتوں میں وہ مقدار پوری کر سکتے ہیں جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے
۶. اگر کنوئیں میں پانی اس قدر کم ہو جس قدر ڈول نکالنے واجب ہیں تو جس قدر موجود ہے اسی قدر نکالنا کافی ہے
۷. جس کنوئیں پر جو ڈول پڑا رہتا ہے اس کے حساب سے نکالنا چاہئے اور اگر کنوئیں پر کوئی خاص ڈول نہ ہو یا کنوئیں کا خاص ڈول بہت بڑا یا بہت چھوٹا ہو جن صورتوں میں ڈول نکالنے کی تعداد مقرر ہے۔ درمیانی ڈول کا اعتبار ہے۔درمیانی ڈول وہ ہے جس میں ساڑھے تین سیر پانی آتا ہو پس اس کا حساب کر کے جس قدر ڈول بنیں نکالے جائیں۔مثلاً اگر بڑے ڈول میں چار ڈول کے برابر پانی سماتا ہو تو اس کو چار ڈول سمجھنا چاہئے۔ ڈول بھرا ہوا نکالنا ضروری نہیں۔اگر کچھ پانی چھلک گیا یا ٹپک گیا مگر آدھے سے زیادہ ہو تو پورا ڈول شمار ہو گا۔
۸. ناپاک کنواں اگر بالکل خشک ہو جائے اور تہ میں تری نہ رہے تب بھی پاک ہو جائے گا اس کو بعد کنوئیں مین دوبارہ پانی نکل آئے تو اب پہلی ناپاکی کی وجہ سے دوبارہ ناپاک نہیں ہو گا اور اگر تہ پوری طرح خشک نہیں ہوئی تو اب دوبارہ پانی آنے سے ناپاک ہو جائے گا
مقید پانی
مطلق پانی یعنی جس پانی سے وضو غسل جائز ہے اس کا بیان گذر چکا ہے اس مقید اور دیگر پانیوں کی تفصیل بیان کی جاتی ہے۔ جن سے وضو و غسل جائز نہیں۔
۱. جو پانی درخت یا پھل یا سبزی وغیرہ کو نچوڑ کر نکالا جائے یا خود ٹپک۔کر نکلے جیسے خربوزہ کھیرا۔ککڑی تربوز اور گلاب وغیرہ کا پانی
۲. ہر قسم کا شربت مثلاً شربتِ صندل۔سونف۔کانسی وغیرہ
۳. ہر قسم کی دوائی وغیرہ کا کھینچا ہوا عرق۔
۴. سرکہ
۵. نمک جو پگھل کر پانی بن جائے۔
۶. صابن یا اشتان( سجی) کا پانی جبکہ اس کا پتلا پن جاتا رہے اور گاڑھا ہو جائے۔
۷. زعفران اور کُسم کا پانی جبکہ سرخی غالب ہو اور گاڑھا ہو جائے
۸. مازو یا پھٹکری پانی میں اس قدر ملی ہوئی ہو کہ اس سے لکھنے سے نقش۔ظاہر ہوں۔
۹. مٹی وغیرہ ملا ہوا پانی جبکہ اس قدر گاڑھا ہو کہ کیچڑ بن جائے
۱۰. جس پانی میں گیہوں یا چنے یا باقلا وغیرہ اُبالے جائیں اور اس میں ان کی بو آ جائے
۱۱. شوربہ
۱۲. سرکہ یا دودھ یا زعفران وغیرہ جس کا رنگ یا ذائقہ پانی کے مخالف ہے پانی میں ملایا جائے اور اب اس کا نام پانی نہ رہے۔اگر وہ چیز رنگ دار ہو جیسے دودھ وغیرہ تو غلبہ کا اعتبار رنگ سے کیا جائے گا اور اگر رنگ میں مخالف نہیں اور ذائقہ میں مخالف ہے جیسے سرکہ وغیرہ تو ذائقہ کا اعتبار کیا جائے گا اور اگر رنگ و ذائقہ دونوں میں مخالف نہیں جیسے گلاب وغیرہ تو مقدار کی زیادتی کا اعتبار کیا جائے گا اور اگر مقدار میں دونوں برابر ہوں گے۔تو احتیاطاً پانی مغلوب سمجھا جائے گا اور وضو جائز نہیں ہو گا
مستعمل پانی
۱. مستعمل پانی خود پاک ہے اگر کسی پاک چیز کو لگ جائے تو اس کے ناپاک نہیں کرتا اسی پر فتویٰ ہے
۲. مستعمل پانی پاک کرنے والا نہیں اوراس سے وضو یاغسل وغیرہ جائز نہیں ۳. جس پانی سے وضو یا غسل کیا جائے یا وہ پانی کسی عبادت کی نیت سے استعمال کیا جائے تو صحیح یہ ہے کہ جس وقت وہ عضو سے جدا ہو گا۔مستعمل ہو جائے گا
۴. اگر اعضائے وضو کے سوا کسی اور وضو مثلاً ران یا پیٹ یا پنڈلی کو دھوئے تو اصح یہ ہے کہ پانی مستعمل نہ ہو گا اور اگر اعضائے وضو کو۔دھوئے گا تو مستعمل ہو جائے گا
۵. اگر کسی شخص نے مٹی یا آٹا یا میل چھڑانے کے لئے وضو کیا یا پاک۔شخص نے ٹھنڈا ہونے کے لئے غسل کیا تو پانی مستعمل نہ ہو گا
۶. اگر وضو والا آدمی کھانا کھانے کے واسطہ یا کھانا کھا کر ہاتھ دھوئے تو وہ دھوون کا پانی مستعمل ہو جائے گا کیونکہ قربت کی نیت سے استعمال ہوا ہے
۷. اگر جنبی نے غسل کیا اور اس کے غسل کا کچھ مستعمل پانی اس کے برتن میں ٹپک گیا تو برتن کا پانی خراب نہیں ہو گا جب تک مستعمل پانی غالب نہ آ جائے یعنی غیر مستعمل پانی کے برابر یا اس سے زیادہ نہ ہو جائے۔اسی طرح اگر وضو کا کچھ مستعمل پانی وضو کے برتن میں ٹپکا تو جب تک مستعمل پانی غالب نہ آ جائے پاک ہے اور جب مستعمل پانی کی مقدار غیر مستعمل پانی کےبرابر یا زیادہ ہو جائے تو اس سے وضو و غسل ناجائز ہے
۸. اگر رومال سے اپنی اعضائے وضو یا غسل پونچھے اور رومال خوب بھیگ گیا یا اس کے اعضا سے قطرے ٹپک کر کسی کپڑے پر بہت زیادہ لگ گئے تو۔بالاتفاق اس کے ساتھ نماز جائز ہے
۹. مستعمل پانی اگرچہ ظاہر مذہب میں پاک ہے لیکن اس کو پینا اور اس سے آٹا گوندھنا کراہتِ تنزیہی اور طبعی نفرت کی وجہ سے مکروہ ہے اور جن کے نزدیک مستعمل پانی نجس ہے ان کے نزدیک پینا و آٹا گوندھنا وغیرہ مکروہ تحریمی ہے
۱۰. مستعمل پانی نجاست حکمی کو پاک کرنے والا نہیں لیکن نجاست حقیقی کو پاک کرنے والا ہے یہی راجح ہے
۱۱. مستعمل پانی میں اگر اچھا پانی اس سے زیادہ ملا لیا جائے یا اسے جاری کر لیا جائے تو نجاستِ حکمی کے پاک کرنے میں ( یعنی وضو و غسل) میں کام آ۔سکتا ہے
آدمی اور جانوروں کے جھوٹے پانی کا بیان
۱. آدمی کا جھوٹا پاک ہے خواہ وہ جنبی ہو یا حیض و نفاس والی عورت ہو خواہ وہ کافر ہو لیکن اگر کسی کا منہ ناپاک ہے تو اس کا جھوٹا نجس ہو جائے گا۔مثلاً شراب پینے والا اگر اس وقت پانی پئے تو اس کا جھوٹا نجس ہو گا لیکن اگر کچھ دیر بعد پئے کہ اس عرصہ میں کئی بار تھوک نگل چکا ہو اور جہاں شراب لگی ہو وہ جگہ تھوک سے صاف ہو چکی ہو تو صحیح یہ ہے کہ اب اس کا منہ پاک ہو جائے گا۔ شرابی کے جھوٹے سے ہر حالت میں بچنا ہی چاہئے
۲. عورت کا جھوٹا اجنبی مرد کے لئے اور اجنبی مرد کا جھوٹا عورت کے لئے مکروہ ہے یہ ناپاکی کی وجہ سے نہیں بلکہ لذت پانے کی وجہ سے ہے۔اس لئے اگر معلوم نہ ہو یا لذت حاصل کرنے کے لئے نہ ہو تو کوئی حرج نہیں
۳. حلال چرندوں و پرندوں کا جھوٹا پاک ہے اگرچہ نر ہوں جیسے گائے۔ بکری۔بیل۔ کبوتر۔ فاختہ وغیرہ لیکن ان میں سے جو جانور نجاست بھی کھاتا ہو مثلاً آزاد مرغی اور اونٹ و بیل وغیرہ تو ان کا جھوٹا مکروہ ہے ان کے دودھ اور گوشت کا بھی یہی حکم ہے۔اگر مرغی وغیرہ نے نجاست کھائی اور اسی وقت پانی پیا تو پانی نجس ہو جائے گا۔
۴. گھوڑے کا جھوٹا بالاجماع پاک ہے۔
۵. جن جانوروں میں بہتا ہوا خون نہیں ہوتا خواہ پانی مین رہتے ہوں یا خشکی میں ان کا جھوٹا مکروہِ تنزیہی ہے
۶. کیڑے جو گھروں میں رہتے ہیں جیسے سانپ۔ نیولا۔چھپکلی وغیرہ دیگر جانور اور چوہا اور بلی ان کا جھوٹا مکروہِ تنزیہی ہے۔ بلی کا جھوٹا کھانا یا پینا مالدار کے لئے مکروہ ہے کیونکہ وہ اس کے بجائے دوسرا کھانا لے سکتا ہے۔ لیکن فقیر کے لئے جو اس کے بجائے دوسرا کھانا نہیں لے سکتا ضرورت کی وجہ سے مکروہ نہیں ہے۔ اگر بلی نے کوئی جانور چاہا وغیرہ کھا کر فوراً پیا تو اس کا جھوٹا ناپاک ہے اور کچھ دیر ٹھہر کر پیا کہ اس عرصہ میں وہ اپنا منہ کئی دفعہ چاٹ کر صاف کر چکی ہے تو اس کا جھوٹا ناپاک نہیں ہے۔ بلکہ مکروہ ہے
۷. شکاری پرندوں مثلاً شکرا۔باز۔چیل وغیرہ کا جھوٹا مکروہ ہے۔اسی طرح ان پرندوں کا جھوٹا بھی مکروہ ہے جن کا گوشت کھایا نہیں جاتا۔کوے کا جھوٹا بھی مکروہ ہے۔اچھے پانی کے ہوتے ہوئے مکروہ پانی سے وضو کرنا مکروہ ہے اور اگر اچھا پانی نہ ملے تو مکروہ نہیں
۸. خنزیر کتا شیر چیتا بھیڑیا ہاتھی گیدڑ اور دوسرے درندوں چوپایوں کا جھوٹا نجس ہے۔کتے کے چاٹے برتن کا تین بار دھونا واجب ہے اور سات۔بار دھونا اور پہلی اور آخری مرتبہ مٹی سے بھی ملنا مستحب ہے
۹. خچر اور گدھے کا جھوٹا مشکوک ہے یعنی وہ خود پاک ہے لیکن پاک کرنے والے ہونے میں شک ہے۔مشکوک پانی کے سوا اور پاک پانی نہ ملے تو اس سے وضو کرے اور تیمم بھی کرے ان دونوں کو جمع کرنا واجب ہے صرف ایک کو کافی سمجھنا جائز نہیں دونوں میں چاہے جس کے پہلے کرے لیکن وضو کو مقدم۔کرنا افضل ہے ایسے پانی سے وضو کرنے میں احتیاطاً نیت بھی کر لے۔
۱۰. ہر جانور کے پینے اور لعاب میں اس کے جھوٹے کا اعتبار کیا جائے گا
جن صورتوں میں پانی نجس نہیں ہوتا
۱. چمگادڑ کے پیشاب اور بیٹ سے پانی و کپڑا نجس نہیں ہوتا
۲. جس جانور میں بہتا ہوا خون نہیں ہے جیسے مکھی۔مچھر۔بھڑ۔چیونٹی۔و بچھو وغیرہ پانی میں مر جائے تو پانی نجس نہیں ہو گا
۳. جو جانور پانی میں پیدا ہوتے ہیں اور رہتے ہیں ان کے پانی میں مرنے سے بھی پانی ناپاک نہیں ہوتا جیسے مچھلی۔مینڈک اور کیکڑا۔اس مین فرق نہیں کہ وہ پانی میں مرے یا باہر مرے پھر پانی میں ڈال دیں۔اگر پھول یا پھٹ جائے تب بھی یہی حکم ہے مگر وہ پانی پینا مکروہ ہے
۴. جو جانور پیدائشی پانی کے نہ ہوں مگر وہ پانی میں رہتے ہوں جیسے بطخ۔مرغابی وغیرہ ان کے پانی میں مرنے سے پانی ناپاک ہو جاتا ہے
۵. خنزیر کے سوا ہر جاندار کے بال ہڈی۔پٹھا۔کھر(سم) چرا ہوا یا بے چرا پاک ہیں۔ جبکہ ان پر چکنائی نہ لگی ہو ورنہ چکنائی کی وجہ سے ناپاک ہوں گے۔آدمی کے بال ہڈی کا بھی یہی حکم ہے جبکہ بال منڈھے ہوئے یا کٹے ہوئے ہوں اگر اکھڑے ہوئی ہوں تو نجس ہوں گے
۶. اصح یہ ہے کہ مشکِ نافہ ہر حالت میں پاک ہے اور ذبح کئے ہوئے۔جانور کا مشک نافہ بالاتفاق پاک و حلال ہے
۷. خنزیر کے تمام اجزا نجس ہیں
۸. جس پرندہ کا گوشت حرام ہے اس کی بیٹ کنوئیں میں گرے تو دفع حرج کے۔سبب پاک ہے
پانی۔ متفرقات
۱. وہ کوزہ جو گھر میں زمین پر اس لئے رکھ دیتے ہیں کہ ان سے مٹکوں میں سے پانی نکالیں گے تو ان سے پانی پینا اور وضو کرنا جائز ہے۔ جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ ان پر نجاست لگی ہے
۲. ایسے حوض سے وضو و غسل جائز ہے جس کے متعلق یہ گمان ہو کہ اس میں نجاست پڑی ہو گی مگر یقین نہ ہو اور اس پر یہ واجب نہیں کہ اس کا حال پوچھے اور جب تک اس میں نجاست ہونے کا یقین نہ ہو جائے اس سے وضو کرنا ترک نہ کرے
۳. اگر جنگل میں تھوڑا پانی مل ا تو جب تک اس کی نجاست کا یقین نہ ہو اس میں سے پانی لے کر وضو کرنا جائز ہے۔ صرف اس وہم پر وضو نہ چوڑے کہ شاید یہ نجس ہو۔اس کے ہوتے ہوئے تیمم جائز نہیں ہے۔ اور اگر اس کا ہاتھ نجس ہو اور اس کے ساتھ کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے اس میں سے پانی نکال سکے تو پاک رومال وغیرہ پانی میں ڈال کر تر کرے اور رومال سے پانی ہاتھ پر ہاتھ کو پاک کر لے۔
۴. اگر بچے یا بڑے آدمی جاہل و کافر وغیرہ ڈول یا رسی پر ہاتھ لگاتے ہیں تو جب تک نجاست کا یقین نہ ہو ڈول اور رسی پاک ہے۔اگر کوئی کافر یا کوئی بچہ اپنا ہاتھ پانی میں ڈال دے تو پانی نجس نہیں ہوتا لیکن اگر معلوم ہو جائے کہ اس کے ہاتھ میں نجاست لگی ہوئی تھی تو ناپاک ہو جائے گا لیکن چھوٹے بچہ کے ہاتھ کا اعتبار نہیں۔اس لئے جب تک کوئی اور پانی نہ ملے اس کے ہاتھ ڈالے ہوئے پانی سے وضو نہ کرنا بہتر ہے اگر کر لے تو جائز ہے
۵. جب پانی نجاست کے پڑنے سے نجس ہو جائے اگر اس کے تینوں اوصاف یعنی رنگ و بو و مزہ بدل جائیں تو اس کو کسی طرح کام میں نہ لائے۔ جانوروں کو پلانا اور مٹی ڈال کر گارا بنانا بھی جائز نہیں اور وہ پیشاب کی طرح نجس ہو گا اور اگر تینوں اوصاف نہیں بدلے تو اس میں سے جانوروں کو پلانا اور مٹی بھگو کر گارا بنانا اور مکان میں چھڑکاؤ کرنا جائز ہے مگر وہ گارا مٹی مسجد۔کی دیواروں وغیرہ پر نہ لگائی جائے۔
۶. جاری یا بند پانی میں پیشاب کرنا مکروہ ہے
۷. اگر پانی دھوپ سے گرم ہو جائے تو اس سے وضو کرنا جائز ہے۔لیکن۔بہتر نہیں مکروہ ہے اور اس سے برص ( سفید داغ) ہو جانے کا ڈر ہے
۸. کسی کنوئیں وغیرہ میں درخت وغیرہ کے پتے گر پڑے اور پانی میں بدبو آنے لگی اور رنگ و مزہ بھی بدل گیا تو بھی اس سے وضو درست ہے جب تک کہ پانی اسی طرح پتلا رہے ( جس کنوئیں کے پانی میں نہ نکلنے کی وجہ سے بدبو ہو جائے اس سے بھی وضو درست ہے )
۹. اگر جاری پانی آہستہ آہستہ بہتا ہو تو بہت جلدی جلدی وضو نہ کرے تاکہ جو مستعمل پانی اس میں گرتا ہے وہی ہاتھ میں نہ آ جائے۔دہ دردہ ( دس گز) حوض میں جہاں مستعمل پانی گرا ہو اگر وہیں سے پھر پانی اٹھا لے تو بھی جائز ہے
تیمم کا بیان
تعریف پاک مٹی یا کسی ایسی چیز سے جو مٹی کے حکم میں ہو بدن کی نجاستِ حکمیہ سے پاک کرنے کو تیمّم کہتے ہیں۔ تیمم غسل اور وضو کا قائم مقام ہوتا ہے
تیمّم واجب ہونے کی شرطیں
تیمم واجب ہونے کی آٹھ شرطیں ہیں
۱. عاقل ہونا،
۲. بالغ ہونا،
۳. اسلام،
۴. مٹی وغیرہ پر قادر ہونا،
۵. حدث کا پایا جانا
۶. حیض کا نہ موجود ہونا،
۷. نفاس کا نہ موجود ہونا،
۔۸. صاحبِ عذر کے لئے وقت کا تنگ ہونا
تیمّم کا حکم
جن حالتوں میں وضو فرض ہے عذر کے وقت اُن حالتوں میں تیمّم بھی فرض ہے جیسے نماز کے لئے اور جن حالتوں میں وضو واجب ہے ان میں تیمّم بھی واجب ہے اور جن حالتوں میں وضو مستحب ہے ان میں تیمّم بھی مستحب ہے جیسے پاک آدمی کا دخولِ مسجد کے لئے
تیمّم صحیح ہونے کی شرطیں
تیمّم صحیح ہونے کی نو شرطیں ہیں
۱. نیت اس کے بغیر تیمّم درست نہیں ہوتا اور اس کا وقت مٹی وغیرہ پر ہاتھ مارنے کے وقت ہے ، بعض کے نزدیک چہرے کا مسح کرتے وقت، نیت حدث یا جنابت کو دور کرنے یا نماز جائز ہونے کی یا کسی ایسی عبادتِ مقصودہ کی کرے جو طہارت کے بغیر جائز نہ ہو، حدث اور جنابت میں فرق کرنا، یا غسل اور وضو کے لئے دو تیمّم کرنا فرض نہیں بلکہ دونوں میں سے محض ایک کی نیت سے تیمّم کرے تو دونوں ہوں جائیں گے۔ جن عبادتوں کے لئے دونوں حدثوں سے یا حدث اصغر سے طہارت شرط نہیں جیسے سلام کرنا یا سلام کا جواب دینا، یا قرآن پاک کی تلاوت و اذان وغیرہ ان کے لئے وضو اور غسل کا تیمّم بغیر عذر کے ہو سکتا ہے اور ان تیمموں سے وہی عبادتیں جائز ہیں دوسری جائز نہیں ، پس اگر قرآن مجید پڑھنے یا چھونے یا مسجد میں جانے یا اذان کہنے یا سلام کہنے یا سلام کا جواب دینے کے لئے تیمم کیا تو اس سے نماز جائز نہیں۔ پانی موجود ہونے کی صورت میں قرآن مجید چھونے کے لئے تیمم کرنا درست نہیں کسی کو دکھانے کے لئے تیمم کیا لیکن دل میں اپنے تیمم کرنے کی نیت نہ کی تو تیمم نہیں ہو گا، نماز جنازہ یا سجدہ تلاوت کرنے کو لئے تیمم کیا تو اس سے فرض نماز جائز ہے۔ نماز کے لئے تیمم کیا تو قرآن مجید کو چھونا وغیرہ امور جائز ہیں۔ بیمار یا معذور کو کوئی دوسرا شخص تیمم کرائے تو جائز اور نیت مریض پر فرض ہے اور تیمم کرانے والے پر نہیں۔
تیمم۔ عذر
۲. عذر اس کی چند صورتیں ہیں
۱. پانی نہ ملنا یعنی پانی کا ایک میل شرعی یا زیادہ دور ہونا، پس جو شخص پانی سے ایک میل دور ہو خواہ شہر میں ہو یا باہر اور خواہ مسافر ہو یا مقیم اور سفر کثیر ہو یا قلیل مثلاً یونہی تھوڑی دور جانے کے لئے نکلا ہو تو اس کو تیمم کرنا جائز و درست ہے۔ پس اگر کوئی شخص آبادی سے ایک میل کے فاصلہ پر۔ ہو اور ایک میل سے قریب کہیں پانی نہ ملے تب بھی تیمم کر لینا درست ہے پانی کا تلاش کرنا ضروری ہے جبکہ اس کو جان و مال کا خوف اور ساتھیوں کو انتظار کی مشقت نہ ہو، اس کو پانی تلاش کئے بغیر تیمم کرنا درست نہیں ہے اور جب کسی کے بتانے پر یا اپنی اٹکل سے اس بات کا گمان غالب ہو جائے کہ پانی ایک میل کے اندر ہے اور اس کو یا اس کے ساتھیوں کو تکلیف یا حرج نہیں ہو گا تو پانی لانا اور وضو کرنا واجب ہے لیکن اگر کوئی بتانے والا نہ ہو اور کسی طریقہ سے بھی پانی کا پتہ نہ چلے یا یہ پتہ چلے کہ پانی ایک میل شرعی یا اس سے زیادہ دور ہے تو پھر پانی لانا واجب نہیں بلکہ تیمم کر لینا جائز ہے ، اس میں فاصلہ کا اعتبار ہے وقت چلے جانے کے خوف کا اعتبار نہیں ، پس اگر آدھے میل پر پانی ہو اور وقت تنگ ہو وضو کر کے نماز پڑھے چاہے وقت قضا ہو جائے ، شرعی میل انگریزی ایک فرلانگ اور دس گز بڑا ہوتا ہے
۲. پانی لینے میں درندے یا دشمن کا خوف ہونا، خواہ اپنی جان کا ہو یا مال کا اور خواہ وہ اپنا مال ہو یا امانت کے طور پر ہو، سانپ یا آگ یا چور یا کسی اور بلا یا جانور وغیرہ کا خوف ہونا بھی عذر ہے ، اسٹیشن پر پانی ہے لیکن ریل۔گاڑی چھوٹ جانے کا خوف ہے تو یہ بھی عذر ہے اور تیمم جائز ہے
۳. پانی تھوڑا ہو اور پیاس کا خوف ہو خواہ اپنے لئے ہو یا اپنے ساتھی یا اہل قافلہ میں سے کسی آشنا یا اجنبی کے لئے ہو، یا سواری کے جانور کے لئے ہو خواہ اس وقت ہو یا آئندہ ہو یہ سب امور عذر ہیں ، اسی طرح آٹا گوندھنے کی ضرورت ہو تو تیمم جائز ہے ، شوربا پکانے کی ضرورت ہو تو عذر نہیں۔اس پانی سے وضو کرے تیمم جائز نہیں
۴. بیمار ہو جانے یا بیماری بڑھ جانے کا خوف ہو، جبکہ اپنے تجربہ یا علامات سے گمان غالب ہو جائے یا کسی تجربہ کار مسلمان حکیم کے کہنے سے معلوم ہو، اگر ٹھنڈا پانی نقصان کرتا ہو اور گرم پانی نقصان نہ کرے تو گرم پانی سے وضو و غسل کرے لیکن اگر آدمی کسی ایسی جگہ ہے کہ گرم پانی نہیں مل سکتا تو پھر تیمم کر لینا درست ہے۔ اگر کہیں اتنی سردی اور برف پڑتی ہو کہ نہانے سے مر جانے یا بیمار پڑ جانے کا خوف ہو اور رضائی لحاف وغیرہ کوئی چیز بھی پاس نہیں کہ نہا کر اس سے گرم ہو جائے تو ایسے وقت کی مجبوری کے وقت تیمم کر لینا درست ہے
۵. ایسی نماز کے فوت ہونے کا خوف ہو جس کا قائم مقام و بدل نہ ہو جیسے عیدیں کی نماز، چاند گرہن، سورج گرہن، نماز جنازہ وغیرہ
۶. پانی نکالنے کا سامان نہ ہونے کی وجہ سے پانی پر قادر نہ ہونا یعنی کنواں موجود ہے مگر ڈول اور رسی نہیں ہے۔ اگر کپڑا لٹکا کر کچھ پانی نکالنا ممکن ہو تو اس کو نچوڑ کر وضو کرنا لازمی ہے اگرچہ پورا وضو چند مرتبہ میں ادا ہو ایسی صورت میں تیمم جائز نہیں ، اگر پانی موجود ہے مگر وہ شخص اٹھ کر اسے نہیں لے سکتا اور دوسرا آدمی موجود نہیں تو وہ معذور ہے اور اس کو تیمم درست و جائز ہے
تیمم۔ مسح مٹی یا مٹی کی جنس پر کرنا
۳. پاک مٹی یا جو چیز زمین کی جنس سے ہے اس پر تیمم کرے اس پر گرد و غبار نہ ہو، جو چیز جل کر راکھ ہو جائیں جیسے لکڑی گھاس وغیرہ اور جو چیز پگھل کر نرم ہو جائیں جیسے سونا، چاندی، لوہا، کانسی، تانبا وغیرہ یہ چیزیں زمین کی جنس سے نہیں ہیں پس ہر قسم کی مٹی سرخ، سیاہ، سفید وغیرہ ریت گچ، چونا، پتھر، سرمہ، ہڑتال، گیرو، ملتانی، گندھک، فیروزہ، عقیق، زمرد، زبرجد، یاقوت وغیرہ پتھر کی قسمیں ہیں کچی یا پختہ اینٹ اور مٹی کے کچے یا پکے برتن خواہ نئے ہوں یا ان میں پانی بھر چکے ہوں ان سب پر تیمم جائز ہے خواہ ان پر گرد و غبار ہو یا نہ ہو لیکن مٹی کو برتن پر روغن پھرا ہوا ہو تو تیمم درست نہیں اور لکڑی، لوہا کان سے نکلنے کے بعد، صاف کیا ہوا سونا، چاندی، تانبا، پیتل، المونیم، سیسہ، رانگ، جست، گیہوں ، جو، ہر قسم کا غلہ، کپڑا، راکھ، عنبر، کافور، مشک، مونگا وغیرہ ان تمام چیزوں پر تیمم جائز نہیں ، لیکن اگر ان چیزوں پر مٹی کا گرد و غبار ہو تو جائز ہے۔ پس جو چیز زمین کی جنس سے نہیں اور اس پر اتنا غبار ہے کہ ہاتھ مارنے سے اڑنے لگے یا اس چیز پر ہاتھ رکھ کر کھینچنے سے ہاتھوں پر مٹی کا نشان پڑ جائے تو اس سے تیمم کر سکتا ہے۔ پس اس پر دونوں ہاتھ مارے اور جب غبار اس کے ہاتھ پر لگ جائے اور اس کا اثر ظاہر ہو تو تیمم کرے یا اپنا کپڑا جھاڑے اور ہاتھوں کو غبار کی طرف ہوا میں اٹھائے جب غبار اس کے ہاتھوں پر پڑے تو اس سے تیمم کر لے۔ ڈھیلا مٹی وغیرہ ایک ہی جگہ سے ایک ہی آدمی بار بار تیمم کرے۔ یا بہت سے آدمی تیمم کریں تو جائز ہے اور وہ جگہ مستعمل نہیں ہو جاتی۔مسجد کی دیوار یا زمین سے تیمم کرنا بلا کراہت جائز ہے
۴. استعاب ( پورا پورا مسح کرنا) یعنی اس طرح مسح کرنا کہ کوئی حصہ باقی نہ رہے اگر بال برابر بھی کوئی جگہ رہ گئی تو تیمم نہ ہوا۔ بھوؤں کے نیچے اور آنکھوں کے اوپر جو جگہ ہے اگر اس کا مسح نہ کیا تو تیمم صحیح نہ ہوا، روغن، چربی، موم، تنگ انگوٹھی،۔کنگن، چوڑیاں وغیرہ نکال دینا ضروری ہے۔ تاکہ مسح پوری طرح ہو جائے انگوٹھی، کنگن، چوڑی وغیرہ کو حرکت دینا کافی نہیں ، بلکہ اپنی جگہ سے ہٹا کر اس کے نیچے بھی مسح کرے ، دونوں نتھنوں کے بیچ میں جو پردہ ہے اس پر بھی مسح کرے ورنہ نماز نہ ہو گی، اگر انگلیوں کے بیچ میں غبار داخل نہ ہوا تو ان کا خلال کرنا واجب ہے ، کسی کی لبیں اتنی زیادہ بڑھی ہوئی ہوں کہ ہونٹ چھپ جائیں تو انہیں اٹھا کر ہونٹوں کا ظاہری حصہ کا مسح کرے ورنہ تیمم نہ ہو گا
تیمّم صحیح ہونے کی شرطیں
۵. پورے ہاتھ سے یا کثیر ہاتھ سے مسح کرے اکثر کا مطلب یہ ہے کہ تین انگلیوں سے مسح کرے ایک یا دو انگلیوں سے مسح۔جائز نہیں
۶. جو چیزیں تیمم کے منافی ہوں ان کا نہ پایا جانا جیسے حیض و نفاس وغیرہ ۷. اعضائے مسح پر جو چیز مسح روکنے والی ہے اس کو دور کرنا جیسے موم، چربی یا انگوٹھی وغیرہ کو حرکت دے کر یا اتار کر اس کا مسح۔کرنا
۸. پانی کا طلب کرنا جبکہ گمان ہو کہ پانی قریب ہے مثلاً سبزہ نظر آئے یا پرندے گھومتے ہوں یا کسی اور علامت سے یا کسی متقی آدمی کے بتانے سے پانی کا قریب ہونا معلوم ہو تو تقریباً چار سو گز شرعی کی مقدار چاروں طرف تلاش کرے ، خود تلاش کرنا لازم نہیں اگر کسی دوسرے شخص سے تلاش کرا لیا تب بھی کافی ہے اور اس کے لئے ادھر اُدھر جانا واجب نہیں بلکہ اسی جگہ سے ہر طرف نظر دوڑانی واجب ہے جبکہ درخت وغیرہ دیکھنے سے مانع نہ ہوں ورنہ اونچی جگہ چڑہ کر دیکھے اور اگر وہاں سے دیکھنا بوجہ رکاوٹوں کے کافی نہ ہو تو چلنا لازمی ہے اگر وہاں قریب پانی ہونے کا گمان غالب نہ ہو اور کوئی خبر دے تو وہاں تلاش کرنا واجب نہیں ، پس اگر شک ہو تو طلب کرنا مستحب ہے اور اگر شک بھی نہ ہو تو تلاش نہ کرنے پر مستحب کا تارک نہ ہو گا، اگر اس کے ساتھی کے پاس پانی ہے اور اس کو گمان ہے کہ اگر مانگے تو دے دے گا تو مانگنا واجب ہے اور تیمم جائز نہ ہو گا، اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ نہ دے گا تو مانگنا واجب نہیں اور تیمم ج ائز ہے۔ اگر پانی قیمت کے بغیر نہ ملے اور اس کے پاس رقم نہیں یا کرایہ وغیرہ راستہ کے خرچ سے فالتو رقم نہ ہو تو خریدنا واجب نہیں تیمم کر کے نماز پڑھے اگر فالتو رقم ہو اور وہ رواجی قیمت مانگتا ہوتو پانی خرید کر وضو کرے تیمم نہ کرے ، اگر بہت زیادہ مثلاً رواج سے دگنی قیمت مانگتا ہو۔اس سے کم نہ کرے تو تیمم کرے
۹. اسلام مسلمان ہونا
تیمم کے ارکان
تیمم کے دو رکن ہیں
۱. دو ضربیں یعنی دو دفعہ خشک و پاک مٹی یا مٹی کی جنس کی چیز پر دونوں ہاتھ مارنا
۲. مسح کرنا یعنی ایک ضرب سے منہ ( چہرے ) کا مسح کرے اور دوسری ضرب سے دونوں ہاتھوں کا کہنیوں سمیت مسح کرے ، ایک ہی ضرب سے منھ اور ہاتھوں پر مسح کرنا جائز نہیں ، اگر ایک ہاتھ سے منھ کا مسح کیا اور دوسرے ہاتھ سے ایک ہاتھ کا مسح کیا تو منھ اور ہاتھ کا مسح جائز ہو گا اور اس کو چاہئے کہ دوسرے ہاتھ کے لئے دوسری ضرب لگائے مگر یہ خلاف۔سنت ہے ، تیمم میں سر اور پاؤں کا نہیں ہے
تیمم کی سنتیں
تیمم کی سات سنتیں ہیں
۱. ہاتھوں کو مٹی پر رکھ کر آگے کو لانا،
۲. پھر پیچھے کو لے جانا
۳. پھر ان کا جھاڑنا
۴. انگلیوں کو کھلا رکھنا تاکہ ان میں گرد و غبار آ جائے
۵. شروع میں بسم اللّٰہ پڑھنا،
۶. ترتیب کا لحاظ رکھنا
۷. پے درپے تیمم کرنا سنت سے مراد یہاں مستحب ہے ،
کچھ اور بھی مستحب ہیں مثلاً
۱. ہتھیلیوں کی اندرونی سطح سے تیمم کرنا،
۲. پہلے دائیں عضو کا مسح کرنا پھر بائیں کا،
۳. مٹی سے تیمم کرنا نہ کہ اس کی ہم جنس سے ،
۴. منھ کے مسح کے بعد داڑھی کا خلال کرنا،
۵. مسنون طریقہ سے مسح کرنا،
۶. دونوں ہاتھوں کا مٹی پر مارنا تاکہ مٹی انگلیوں کے اندر پہنچ جائے اب کل تیرہ سنتیں ہو گئیں
تیمم کرنے کا پورا مسنون طریقہ
تیمم کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ بسم اللّٰہ پڑھ کر نیت کرے کہ میں ناپاکی دور کرنے اور نماز پڑھنے کے لئے تیمم کرتا ہوں پھر دونوں ہاتھوں کو پاک مٹی کے بڑے ڈھیلے پر اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کی اندرونی جانب سے کشادہ کر کے مار کر ملتا ہوا آگے کو لائے اور پھر پیچھے کو لے جائے پھر ان کو اٹھا کر اس طرح جھاڑے کہ دونوں ہتھیلیوں کو نیچے کی طرف جھکا کر دونوں انگوٹھوں کو آپس میں ٹکرا دے تاکہ زائد مٹی جھڑ جائے اور جھاڑنے کے لئے دونوں ہتھیلیوں کو آپس میں نہ ملے کہ اس طرح ضرب بیکار ہو جائے گی، اگر زیادہ مٹی لگ جائے تو منھ سے پھونک دے پھر دونوں ہاتھوں سے اپنے پورے منھ پر اوپر سے نیچے کو اس طرح مسح کرے کہ کوئی جگہ ایسی باقی نہ رہے جہاں ہاتھ نہ پہنچے ایک بال برابر بھی جگہ چھوٹ جائے گی تو تیمم جائز نہ ہو گا پھر داڑھی کا خلال کرے پھر دوسری مرتبہ پہلے کی طرح مٹی پر مارے اور جھاڑے اور کلمہ کی انگلی اور انگوٹھے کے سوا بائیں ہاتھ کی تین انگلیوں کو دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے سوا باقی چاروں انگلیوں کے سرے پر پشت کی جانب رکھ کر کہنیوں تک کھینچ لائے اس طرح کہ بائیں ہاتھ کی کچھ ہتھیلی بھی لگ جائے اور کہنیوں کا مسح بھی ہو جائے پھر باقی دونوں انگلیوں ( یعنی انگشت شہادت اور انگوٹھا) اور ہاتھ کی باقی ہتھیلی کو دوسری جانب رکھ کر کہنی کی طرف سے کلائی تک کھینچتا ہوا لائے اور انگوٹھے کے اوپر کی جانب بھی اس کے ساتھ ہی مسح کرے ایک عضو کا مسح پورا ہونے سے پہلے اگر ہاتھ اٹھا لیا تو ضرب باطل ہو جائے گی۔ اسی طرح دائیں ہاتھ کے ساتھ بائیں ہاتھ کا مسح کرے پھر انگلیوں کا خلال کرے ، وضو اور غسل دونوں کے تیمم کا یہی ایک طریقہ ہے ، اگر انگوٹھی وغیرہ ہو تو اس کو اتار کر ہلا کر اس کی جگہ بھی مسح کرے
تیمم کو توڑنے والی چیزیں
یہ دو قسم کی ہیں
۱. جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ان سے وضو کا تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے اور جو چیزیں غسل کو واجب کرتی ہیں وہ غسل کے تیمم کو توڑتی ہیں ، پس غسل کا تیمم صرف حدث اکبر سے ٹوٹتا ہے ، وضو کو توڑنے والی چیز سے غسل کا تیمم نہیں ٹوٹتا، مثلاً کسی نے وضو اور غسل دونوں کا تیمم کیا پھر اس سے وضو توڑنے والا فعل سرزد ہوا تو اس کا وضو کا تیمم ٹوٹ جائے گا اور غسل کا تیمم بدستور رہے گا اب اگر پانی نہ ملے تو صرف وضو کی نیت سے تیمم کرے ، اگر کوئی شخص ریل پر سوار ہو اور اس نے پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمم کیا پھر اثنائے سفر میں ریل گاڑی میں اس کو پانی دریا یا تالاب وغیرہ نظر آیا تو اس کا تیمم نہیں ٹوٹے گا کیونکہ ریل گاڑی وہاں ٹہر نہیں سکتی اور وہ چلتی ریل گاڑی سے اتر نہیں سکتا اس لئے وہ پانی کے استعمال پر قادر نہیں ہوا
۲. جس عذر کی وجہ سے تیمم جائز ہوا تھا جب وہ عذر جاتا رہا تو تیمم ٹوٹ جائے گا مثلاً پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمم کیا تھا تو وہ پانی پر قدرت حاصل ہو جانے کی صورت میں ٹوٹ جائے گا۔ وضو کے موافق پانی ملنے سے وضو کا تیمم ٹوٹ جائے گا اور غسل کے موافق پانی ملنے سے غسل کا تیمم ٹوٹے گا پس اگر اتنا پانی مل جائے جس سے غسل کے فرائض ادا ہو سکیں تو غسل کا تیمم ٹوٹ جائے گا، خواہ غسل کی سنتیں ادا ہو نہ سکیں ، اسی طرح اگر وضو کے لئے اتنا پانی مل سکے جس سے وضو کے فرائض ادا ہو سکیں تو وضو کا تیمم ٹوٹ جائے گا خواہ وضو کی سنتیں ادا نہ ہو سکیں۔ اور اگر مرض وغیرہ کس اور عذر کی وجہ سے تیمم کیا تھا تو اس عذر کے جاتے رہنے سے بھی تیمم ٹوٹ جائے گا۔ تیمم جائز ہونے کے اسباب یعنی پانی دور ہونا، خوفِ مرض، خوفِ دشمن، خوفِ پیاس اور پانی نکالنے کا سامان نہ ہونا، علیحدہ علیحدہ ہونے کی وجہ سے ایک عذر دوسرے میں شامل نہیں ہو سکتا جب کسی شخص نے ایک عذر کی وجہ سے تیمم کیا پھر کوئی دوسرا عذر پہلی اجازت کی حالت میں لاحق ہو گیا پھر پہلا عذر جاتا رہا تو اس کی پہلی اجازت بالکل ختم ہو گئی اور اس کا تیمم بھی ختم ہو گیا اب دوسری اجازت کا تیمم دوبارہ کرے ، مثلاً مسافر نے پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمم کیا اسی حالت میں ایسا مرض ہو گیا جس سے تیمم جائز ہوتا ہے پھر وہ شخص مقیم ہو گیا تو پہلا سبب یعنی سفر ختم ہو جانے سے وہ تیمم ختم ہو گیا، اب اس سے نماز جائز نہ ہو گی بلکہ اب مرض کی وجہ دوبارہ تیمم کرے یا مسافر کو تیمم کے بعد پانی مل گیا لیکن ایسا مرض ہو۔گیاجس سے تیمم جائز ہوتا ہے تب بھی پہلا تیمم ختم ہو گیا اب دوبارہ تیمم کرے
تیمم کے مختلف مسائل
۱. اگر وقت کے داخل ہونے سے پہلے تیم کر لے تو جائز ہے ،
۲. ایک تیمم سے جب تک وہ نہ ٹوٹے جس قدر فرض و نفل نمازیں پڑھے جائز ہیں۔ اسی طرح نماز کے لئے جو تیمم کیا ہو اس سے فرض نماز، نفل نماز، قرآن مجید کی تلاوت، جنازے کی نماز، سجدہ تلاوت اور تمام عبادتیں جائز ہیں ،
۳. جب تک پانی نہ ملے یا کوئی اور عذر باقی رہے تیمم کرنا جائز ہے اگر اسی حالت میں کئی سال گزر جائیں تو کچھ مضائقہ نہیں ، عذر کی حالت میں تیمم کرنے سے وضو اورغسل کے برابر کی پاکی حاصل ہو جاتی ہے یہ نہ سمجھے کہ اچھی طرح پاک نہیں ہوا جب تک عذر رہے یہی حکم ہے البتہ عذر دور ہونے کے بعد ناپاکی عود کر آتی ہے ،
۴. اگر پانی ملنے کی امید ہو تو آخری وقت تک تاخیر کرنا مستحب ہے اور۔اگر امید نہ ہو تاخیر نہ کرے ، اور وقتِ مستحب میں تیمم کر کے نماز پڑھ لے ۵. اگر پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمم کر لیا اور نماز پڑھ لی پھر پانی مل گیا تو اس کی نماز ہو گئی اب لوٹانے کی ضرورت نہیں خواہ وہ پانی وقت کے اندر ملا ہو یا وقت گزرنے کے بعد،
۶. اگر کہیں پانی مل گیا لیکن اتنا تھوڑا ہے کہ ایک ایک دفعہ منھ اور دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت اور دونوں ٹخنوں سمیت دھو سکتا ہے تو تیمم کرنا درست نہیں ہے ان اعضا کو ایک دفعہ دھو لے اور سر کا مسح کر لے کلی وغیرہ وضو کی سنتیں چھوڑ دے اور اگر اتنا بھی نہ ہو تو تیمم کر لے ،
۷. ایک ہی تیمم وضو اور غسل دونوں کے لئے کافی ہوتا ہے اگر جنبی کے پاس اتنا پانی ہو کہ اس کے کچھ اعضائے غسل یا پورے وضو کو کفایت کرتا ہے تو غسل کا تیمم کرے اور یہ تیمم غسل اور وضو دونوں کے لئے کافی ہے اس کو وضو اور بعض اعضاء غسل کو دھونے کی ضرورت نہیں پھر اگر غسل کے تیمم کے بعد وضو ٹوٹ جائے تو اب وضو کے لئے تیمم نہ کرے بلکہ اس کو وضو ہی کرنا چاہئے کیونکہ اب وہ بقدر کفایت پانی پر قادر ہے یہی حکم اس وقت بھی ہے جبکہ پانی تو کافی ہے مگر غسل کرنا نقصان کرتا ہے اور وضو کرنا نقصان نہیں کرتا،
۸. جنبی کو جنازہ اور عیدین کی نماز کے لئے تیمم جائز ہے ،
۹. اگر جنازہ حاضر ہو اور ولی کے سوا دوسرے شخص کو وضو کرنے تک نمازِ جنازہ فوت ہو جانے کا خوف ہو تو تیمم جائز ہے اور اگر وضو کر کے ایک تکبیر بھی مل سکے تو تیمم جائز نہیں ، اس صورت میں ولی کے واسطے تیمم جائز نہیں (کیونکہ اس کا انتظار ضروری ہے اور اس کی اجازت سے نماز ہو گی)،
۱۰. عورت کے لئے پانی کے ہوتے ہوئے سفر میں پانی لینے نہ جانا اور تیمم کر لینا جائز نہیں ایسا پردہ جس میں شریعت کا کوئی حکم چھوٹ جائے ناجائز و حرام ہے پس اس کو برقعہ اوڑھ کر یا سارے بدن پر چادر لپیٹ کر پانی کے لئے جانا واجب ہے البتہ لوگوں کے سامنے بیٹھ کر وضو نہ کرے اور ہاتھ منھ نہ کھولے ، اگر پانی کی جگہ جانے میں اس کو اپنی جان و مال اور عزت و آبرو و عصمت کا خوف ہو تو نہ جائے اس کو تیمم کرنا جائز ہے ،
۱۱. جنبی کو مسجد میں بلا ضرورت جانے کے لئے تیمم جائز نہیں لیکن اگر مجبوراً جانا پڑے تو جائز ہے۔ مگر ضرورت پوری ہونے پر جلدی نکل آئے ، اسی طرح اگر مسجد میں سویا ہوا تھا اور نہانے کی ضرورت ہو گئی تو آنکھ۔کھلتے ہے جہاں سویا تھا فوراً تیمم کر کے باہر نکل آئے دیر کرنا حرام ہے ۱۲. ریل میں سیٹوں اور گدوں پر جو گرد و غبار جم جاتا ہے اس پر تیمم جائز ہے ، یہ وہم نہیں کرنا چاہئے کہ شاید یہ غبار پاک ہے یا ناپاک،
۱۳. ریل گاڑی میں جہاں مسافر جوتے پہن کر چلتے ہیں وہ مٹی ناپاک ہے اس سے تیمم کرنا درست نہیں ،
۱۴. اگر کسی آدمی کے آدھے سے زیادہ جسم پر زخم یا چیچک نکلی ہو تو تیمم کرنا درست ہے ،
۱۵. اگر سفر میں کسی دوسرے آدمی کے پاس پانی ہے اور اس کا گمان غالب یہ ہو کہ اگر اس سے پانی مانگوں گا تو مل جائے گا تو بغیر مانگے تیمم کرنا درست نہیں اور گمان غالب یہ ہو کہ مانگنے سے وہ شخص پانی نہیں دے گا تو تیمم کر کے نماز پڑھ لینا درست ہے لیکن اگر نماز پڑھنے کے بعد اس سے پانی مانگا اور اس نے دے دیا تو نماز کو دہرانا پڑے گا، اسی طرح اگر نماز کی حالت میں کسی شخص کے پاس پانی دیکھا اور اس کو گمان غالب یہ ہے کہ مانگنے سے دے دے گا تو نماز قطع کر دے اور پانی مانگے اگر وہ دے دے تو وضو کرے اور اگر نہ دے تو اس کا وہی تیمم باقی ہے اور اگر نہیں مانگا اور نماز پوری کر لی پھر اس نے ازخود یا مانگنے پر پانی دے دیا تو اعادہ لازم ہے اور اگر نہ دے تو اعادہ لازم نہیں اور گمان غالب نہ ہو صرف شک ہو تو نماز نہ توڑے اور پوری کرنے کے بعد پانی مانگے پھر اگر ازخود یا مانگنے سے دے دے تو وضو کر کے نماز کا اعادہ کرے اور اگر نہ دے تو وہی نماز کافی ہے ،
۱۶. اگر وہ عذر جس کی وجہ سے تیمم کیا گیا ہے بندوں کی طرف سے ہو تو جب عذر جاتا رہے جس قدر نمازیں اس تیمم سے پڑھی ہیں سب دوبارہ پڑھنی چاہئیں مثلاً کوئی شخص جیل خانہ میں ہو اور وہاں کے ملازم اس کو پانی نہ دیں یا مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ اگر تو وضو کرے گا تو تجھ کو مار ڈالوں گا ایسی صورت میں تیمم کر کے نمازیں ادا کرے اور عذر دور ہونے پر سب نمازوں کو دوبارہ پڑھنا چاہئے ،
۱۷. اگر پانی پر بھی قادر نہ ہو اور مٹی سے تیمم پر بھی قادر نہ ہو تو بلا طہارت نماز پڑھ لے پھر عذر دور ہونے پر اس کو طہارت کے ساتھ لوٹانا لازمی ہے
موزوں پر مسح کرنا
موزوں پر مسح کرنا رخصت ( جائز) ہے اور پاؤں کا دھونا عزیمت ( افضل) ہے۔ اگر اس کو جائز جان کر عزیمت اختیار کرے تو اولیٰ ہے۔جو چیزیں موزوں پر مسح جائز ہونے کیلئے ضروری ہیں
۱. موزہ ایسا ہو کہ اس کو پہن کر سفر کر سکے اور مسلسل تین میل چل سکے اور پاؤں ٹخنوں سمیت ڈھک جائے۔ اگر موزہ اتنا چھوٹا ہو کہ ٹخنے موزہ کے اندر چھپے ہوئے نہ ہوں تو اس پر مسح درست نہیں ، پس موزہ میں یہ چار وصف ہونے چاہیے۔
۲. ایسے دبیز ہوں کہ بغیر کسی چیز سے باندھے پیروں پر ٹھہر جائیں
۳. ان کو پہن کر تین میل یا اس سے زیادہ پیدل چل سکے
۴. ان کے نیچے کی جلد نظر نہ آئے
۵. پانی کو جذب نہ کرتے ہوں یعنی اگر ان پر پانی ڈالا جائے تو ان کے نیچے کی سطح تک نہ پہنچے پس تین قسم کے موزوں پر مسح جائز ہے
اول: چمڑے کے موزہ جن سے پاؤں ٹخنوں تک چھپے رہیں
دوم: اونی یا سوتی موزے جن میں چمڑے کا تلا مردانہ ہندی جوتے کی شکل۔پر لگا ہوا ہے
سوم: وہ اونی یا سوتی موزے جو اس قدر گاڑھے یا موٹے ہوں کہ خالی موزہ پہن کر تین میل راستہ پیدل چلنے سے نہ پھٹیں اور پنڈلی پر بغیر باندھے تھمے رہیں اور نیچے کی جلد نظر نہ آئے اور اس میں پانی نہ چھنے۔ موزوں کے کے نیچے اگر کپڑے وغیرہ کی جراب پہنے ہوئے ہو تب بھی موزوں پر مسح جائز ہے ، کپڑے وغیرہ کی جرابوں پرمسح کرنا درست نہیں ، لیکن اگر مردانہ جوتے کی شکل پر چمڑا چڑھایا گیا ہو یا وہ بہت سخت اور موٹی ہوں جیسا اوپر بیان ہوا تب ان پر مسح جائز ہے
۲. مسح میں دو فرض ہیں
اول: اول موزوں کے اوپر کی جانب سے مسح کرے ،
دوم: دوم ہر پاؤں پر ہاتھ کی تین انگلیوں کی برابر مسح کرے ، ہاتھ کی تین چھوٹی انگلیوں کے برابر فرض ہے۔ اس سے کم میں مسح درست نہ ہو گا اور یہ دونوں فرضِ عملی ہیں موزے کے نیچے کی جانب یا ایڑی پر یا ساق پر یا اس کے طرف میں ٹخنے پر مسح جائز نہیں۔ اگر ایک پاؤں پر دو انگشت کی مقدار مسح کرے اور دوسرے پر چار یا پانچ انگشت مسح کرے تو جائز نہیں ،
۳. مسح تین انگشت سے کرے ، اگر ایک ہی انگلی سے تین دفعہ الگ الگ جگہ پر مسح کرے اور ہر دفعہ نیا پانی لے تو جائز ہے اور نیا پانی نہ لے تو جائز نہیں ، اگر انگوٹھے اور اس کے پاس کی انگلی سے مسح کرے اور دونوں کھلی ہوئی ہوں تو جائز ہے ، اگر تین انگلیاں رکھ دے اور کھینچے نہیں تو جائز ہے مگر سنت کے خلاف ہے اگر انگلیوں کو کھڑا رکھے اور صرف انگلیوں کے سروں سے مسح کرے تو اگر پانی ٹپکتا ہوا ہو اور اس سے موزہ تین انگلیوں کی مقدار پر ہو جائے تو جائز ہے ورنہ جائز نہیں ، اگر کسی نے موزہ پر مسح نہیں کیا لیکن پانی برستے وقت باہر نکلا یا گیلی گھاس پر چلا جس سے موزہ بھیگ گیا تو مسح ہو گیا
۴. موزوں پر مسح کرنا اس وقت جائز ہے جبکہ موزے پورا وضو کر کے پہنے ہوں ، اس کے بعد وضو ٹوٹا ہو، یا دونوں پاؤں دھو کر موزے پہنے ہوں اور پھر حدث ہونے یعنی وضو توڑنے والا امر واقع ہونے سے پہلے وضو پورا کر لیا ہو تو اب وضو ٹوٹنے پر اس کو موزوں پر مسح کرنا جائز ہے پاؤں دھونے کی ضرورت نہیں ، صرف وضو میں موزوں پر مسح کرنا جائز ہے غسل میں نہیں ، پس اگر کسی پر نہانا واجب ہو گیا ہے تو موزے اتار کر نہائے اور جس شخص نے حدث کا تیمّم کیا ہو اس کو موزوں پر مسح جائز نہیں خواہ وہ تیمّم غسل کا ہو یا وضو کا یا دونوں کا
۵. مسح اس کی مدت کے اندر جائز ہے۔ مدت گزرنے کے بعد جائز نہیں ، مسح کی مدت مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات ہے اور مسافر کے لئے تین دن اور تین رات، جس وقت سے موزے پہنے اس وقت سے مدت شروع نہیں ہو گی بلکہ موزے پہننے کے بعد جس وقت حدث ہو اس وقت سے یہ مدت شروع ہو گی، موزہ پہننے یا وضو کرنے کے وقت سے نہیں پس اگر کسی نے جمعہ کو فجر کے وقت وضو کر کے موزہ پہنے پھر عصر کے وقت اس کو حدث ہوا اور اس نے وضو میں موزہ پر مسح کیا اگر وہ مقیم ہے تو دوسرے دن یعنی ہفتہ کو عصر کے وقت اسی ساعت تک اس کے لئے مسح کی مدت باقی رہے گی جس ساعت میں اول روز حدث ہوا تھا اور اگر مسافر ہے تو چوتھے روز یعنی پیر کے دن کی اسی ساعت تک مسح کی مدت باقی رہے گی پس مقیم کبھی چھ نمازوں میں مسح کرتا اور کبھی مسح کے ساتھ صرف چار نماز پر قادر ہوتا ہے۔ مقیم نے مدت مسح یعنی ایک دن رات پورا ہونے سے پہلے سفر کیا تو سفر کی مدت تک مسح کرتا رہے۔ یعنی تین رات تک موزے پہنے رہے اور مسح کرتا رہے اور اگر دن پورا ہونے کے بعد سفر کیا تو موزہ اتار کر پیر دھو لے اور پھر موزہ پہنے اب نئے سرے سے مسح کی مدت شروع ہو گی اور اگر مسافر موزوں پر مسح کرنا شروع کرے اور ایک دن رات سے قبل گھر آ جائے یا اقامت کی نیت کر لے تو اقامت کی مسح کی مدت یعنی آٹھ پہر تک مسح کر سکتا ہے اور ایک دن رات کے بعد گھر آیا یا اقامت کی نیت کی تو اس کے مسح کی رخصت ختم ہو گئی وہ پیروں کو دھوئے اور نئے سرے سے مسح کی مدت شروع ہو گی، اگر وضو کی حالت میں موزہ اتار دیا یا وضو ہونے کی حالت میں مسح کی مدت پوری ہو گئی تو ان دونوں حالتوں میں صرف پاؤں دھو کر موزہ پہن لینا۔کافی ہے اور پورا وضو کر لینا مستحب ہے
۶. موزہ بہت پھٹا ہوا نہ ہو، بہت پھٹا ہوا ہونے کی مقدار پاؤں کی تین چھوٹی نگلیاں ہیں ، خواہ سوراخ موزہ کے نیچے یا اوپر یا ایڑی کی طرف اور اگر سوراخ ٹخنے سے اوپر پنڈلی میں ہو تو یہ مسح کا مانع نہیں ہے کیونکہ یہ مسح کی حد سے باہر ہے پس اگر تین چھوٹی انگلیوں کی مقدار پاؤں کھل گیا یا چلتے میں کھل جاتا ہے تو اس پر مسح جائز نہیں ہے اور اس سے کم پھٹا ہو تو مسح جائز ہے۔ تین چھوٹی انگلیوں کی مقدار کا اعتبار اس وقت ہو گا جبکہ انگلیوں کے سوا کوئی اور جگہ کھل جائے اور اگر انگلیاں ہی کھل جائیں تو معتبر یہ ہے کہ انہی تین انگلیوں کے کھلنے کا اعتبار ہو گا حتیٰ کہ اگر انگوٹھا اور اس کو برابر والی انگلی کھل جائے تو مسح جائز ہے حالانکہ یہ سب مل کر تین چھوٹی انگلیوں کے برابر ہیں اور اگر انگوٹھا اور اس کے برابر کی دونوں انگلیاں کھل گئیں تو اب مسح جائز نہیں ، ایک موزہ کے سوراخ جمع کئے جائیں دونوں کے جمع نہ کئے جائیں گے پس اگر ایک ہو موزہ کئی جگہ سے تھوڑا تھوڑا پھٹا ہوا ہے اور اسے جمع کر کے تین انگلیوں کے برابر ہے جائے تو مسح کرنا ناجائز ہے اور کم ہو تو جائز ہے اور اگر ایک موزہ میں بقدر ایک انگشت کے اور دوسرے میں بقدر دو انگشت کے کھلا ہوا ہو تو مسح ان دونوں پر جائز ہے لیکن شرط یہ ہے کہ مسح پھٹے ہوئے حصہ پر واقع نہ ہو بلکہ درست حصہ پر ہو، سوراخ کم از کم اتنا بڑا ہے جس میں ٹاٹ وغیرہ سینے کا سوا جا سکے اور جو اس سے کم ہو اس کا اعتبار نہیں وہ معاف ہے۔ اگر موزہ کا سیون کھل گئی لیکن اس سے پاؤں دکھائی نہیں دیتا تو مسح درست ہے اور اگر ایسا ہو کہ چلتے وقت تین انگلیوں کے برابر دکھائی دیتا ہے ویسے نہیں تو مسح درست نہیں ہے۔ موزہ پر مسح کے حکم میں مرد و عورت برابر ہیں ، دستانے جو ہاتھ پر پہنے ہوں ان پر مسح جائز نہیں ، عمامہ، ٹوپی، اور نقاب ( گھونگھٹ) پر بھی مسح جائز نہیں ہے ،
مسح کا مسنون طریقہ
مسح کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو پانی سے تر کر کے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں داہنے موزہ کی انگلیوں کے اگلے حصہ پر رکھے اور بائیں ہاتھ کی انگلیاں بائیں موزہ کی انگلیوں پر رکھے ، انگلیاں پوری پوری رکھے صرف سرا نہ رکھے اور انگلیوں کے کھولے ہوئے ٹخنوں کی طرف ٹخنوں سے اوپر کی طرف کھینچے ، اگر کوئی الٹا مسح کرے یعنی ٹخنوں کی طرف سے انگلیوں کی طرف کھینچے یا دونوں موزوں پر عرض سے مسح کرے تو مسح ہو جاتا ہے مگر سنت کے خلاف ہے مکروہ اور بدعت ہے ، اگر ہتھیلی کو رکھ کر یا صرف انگلیوں کو رکھ کر کھینچے تو یہ دونوں صورتیں حسن ہیں اور احسن یہ ہے کہ سارے ہاتھ سے مسح کرے تو جائز مگر مکروہ ہے اور مستحب یہ ہے کہ اندر کی جانب سے مسح کرے مسح میں خطوط کا ظاہر ہونا شرط نہیں البتہ سنت ہے۔ مسح کئی بار کرنا سنت نہیں اور اس کے لئے نیت شرط نہیں ہے
مسح توڑنے والی چیزوں کا بیان
۱. جو چیز وضو کو توڑتی ہے وہ مسح کو بھی توڑتی ہے ،
۲. دونوں موزوں یا ایک موزہ کا پاؤں سے نکالنا یا نکل جانا، اگر کسی کا وضو تو نہیں ٹوٹا مگر اس نے موزہ اتار دیا تو اب مسح جاتا رہا، اب دونوں پاؤں دھو لے پھر سے وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، اگر ایک موزہ اتار دیا یا نکل۔گیا تو اب دوسرا بھی اتار کر دونوں پاؤں دھونا واجب ہے
۳. مدت مسح کا گزر جانا، پس اگر وضو نہ ٹوٹا ہو تو موزے اتار کر دونوں پاؤں دھو لے پورا وضو کرنا واجب نہیں ، لیکن اگر وضو ٹوٹ گیا ہو تو۔دونوں موزے اتار کر پورا وضو کرے
۴. موزے میں پاؤں کا پانی سے بھیگ جانا، پس اگر ایک موزے میں پانی داخل ہوا اور ٹخنے تک پانی پہنچا اگر سارا پاؤں یا آدھے سے زیادہ پاؤں دھل گیا تو اس پر موزہ اتار کر دوسرے پاؤں کا دھونا واجب ہے
۵. موزہ کا تین انگلیوں کے برابر یا زیادہ پھٹنا،
۶. معذور کے حق میں وقت کا نکل جانا،
جبیرہ و عصابہ پر مسح کرنے کا بیان
۱. جبیرہ ان کپھچیوں کو کہتے ہیں جو لکڑی یا بانس یا نسرل وغیرہ سے چیر کر ٹوٹی ہوئی ہڈی کو درست کرنے کے لئے باندھتے ہیں اور عصابہ کپڑے کی پٹی( یا مرہم کا پھایہ وغیرہ) جو پھوڑے پھنسی دنبل اور زخم وغیرہ پر باندھتے ہیں
۲. جب زخم کو پانی سے دھونے سے نقصان ہو اور زخم پر مسح کرنا بھی نقصان کرے تو اس پٹی یا پھایہ پر مسح کرنا جائز ہے لیکن اگر پانی سے دھونا نقصان نہ کرے تو دھونا ضروری ہے ، اور اگر پانی سے دھونا نقصان کرے اور مسح نقصان نہ کرے تو زخم پر مسح کرنا واجب ہے ، اگر لکڑی یا پٹی کے کھولنے یا پھایہ کے اکھاڑنے سے نقصان پہنچے یا سخت تکلیف ہوتی ہو تو اس لکڑی یا پٹی یا پھایہ پر مسح کرنا جائز ہے ، جس شخص کو پٹی کھولنے میں اس وجہ سے ضرر ہو کہ وہ ایسی جگہ ہے کہ پھر ان کو خود نہیں باندھ سکتا نہ اس کے پاس کوئی اور باندھنے والا ہے وہ شخص بھی اس پر مسح کرے
۳. اگر ٹھنڈے پانی سے دھونا نقصان کرتا ہو اور گرم پانی سے دھونا نقصان نہ کرتا ہو تو گرم پانی سے دھونا لازمی ہے ، اور اس کو مسح جائز نہیں
۴. اگر جبیرہ و عصابہ پر مسح کرنے سے ضرر ہو تو بالاجماع ترک جائز ہے اور اگر ضرر نہ ہو تو ترک ناجائز ہے کیونکہ ان پر مسح فرض ہے اس پر فتویٰ ہے
۵. جبیرہ و عصابہ کی ساری پٹی پر مسح کریں خواہ اس ساری کے نیچے زخم نہ ہو یعنی جس قدر زخم کے مقابل ہیں اور جس قدر صحیح بدن کے مقابل ہیں سب پر مسح کریں اگر اکثر جبیرہ پر یعنی آدھے سے زیادہ مسح کر لیا تو کافی ہے ، اسی پر فتویٰ ہے ، پٹی کے دونوں بندشوں کے درمیان ہاتھ یا کوہنی یا بدن کی کوئی اور جگہ جو کھلی رہ جاتی ہے۔ اس پر بھی مسح کرنا کافی ہے یہی اصح ہے اسی پر فتویٰ ہے
۶. مسح اسی طرح کرے جس طرح موزوں پر کیا جاتا ہے یعنی انگلیوں کو۔بھگو کر پٹی پر پھیرے مسح ایک ہی دفعہ کافی ہے ۷. جبیرہ و عصابہ پر مسح کرنا اس کے نیچے کہ بدن کے دھونے کے حکم۔میں ہے ، مسحِ موزوں کی طرح خلیفہ اور بدل نہیں ہے
جبیرہ و عصابہ کے مسح اور موزے کے مسح میں فرق
جبیرہ وعصابہ کا مسح موزے کے مسح سے بیس احکام میں مخالف ہے
۱. یہ بدل و خلیفہ نہیں ، اور مسح موزہ دھونے کا بدل و خلیفہ ہے ،
۲. اس کے لئے مدت مقرر نہیں ،
۳. اگر پہلے جبیرہ و عصابہ کو بدل ڈالے تو دوسرے پر مسح کو لوٹانا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے ،
۴. اگر اوپر نیچے دو جبیرہ بندھے ہوں اور ایک کو کھول ڈالے تو دوسرے پر۔مسح لوٹانا واجب نہیں مستحب ہے
۵. جبیرہ والے پاؤں کو مسح کرے اور دوسرے پاؤں کو دھو لے بخلاف موزہ کہ اگر صرف ایک پاؤں میں موزہ ہو تو دونوں کو دھونا فرض ہے ایک پر مسح جائز نہیں ،
۶. جبیرہ کا طہارت پر باندھنا شرط نہیں ،
۷. اگر جبیرہ پر مسح ضرر کرے تو ترک جائز ہے ،
۸. جبیرہ کا مسح عذر میں جائز ہے بلا عذر جائز نہیں ،
۹. حدث وجنابت یعنی غسل میں بھی جبیرہ پر مسح جائز ہے ،
۱۰. اگر جبیرہ زخم اچھا ہو جانے پر گر جائے تو مسح باطل ہو جائے گا ورنہ نہیں ،
۱۱. جبیرہ کے مسح میں نیت بالاتفاق شرط نہیں ، موزہ کی نیت کے بارے میں اختلاف ہے ،
۱۲. زخم اچھا ہونے پر جبیرہ گر پڑے تو صرف اسی جگہ کا دھونا لازم ہے ، ۱۳. اگر جبیرہ میں مسح کرنے کے بعد کسی طرح پانی داخل ہو جائے تو مسح۔باطل نہ ہو گا موزہ کا مسح باطل ہو جائے گا
۱۴. ٹوٹے ہوئے عضو پر جبیرہ باندھ کر مسح کرنا جائز ہے اگرچہ وہ عضو تیں انگل سے کم باقی رہا ہو، مسح موزہ میں تین انگل کی مقدار کا باقی رہنا شرط ہے ،
۱۵. بعض روایات میں جبیرہ و عصابہ کے مسح کا ترک جائز ہے ،
۱۶. جبیرہ و عصابہ کا پاؤں میں ہونا شرط نہیں ،
۱۷. جبیرہ و عصابہ میں اکثر حصہ کا مسح شرط ہے موزہ میں تین انگل کی مقدار شرط ہے
۱۸. جب عضو ماؤف کو مسح نہ کر سکے تب جبیرہ کا مسح صحیح ہے ،
۱۹. مسح جبیرہ و عصابہ فرض عملی ہے اور موزہ کا مسح رخصت و جائز ہے ،
۲۰. مسح جبیرہ کی مدت معین نہیں کیونکہ وہ دھونے کی مثل ہے اور جب تک وہ زخم وغیرہ اچھا نہ ہو مسح کرے گا اور تندرستوں کی امامت کرے گا بخلاف۔صاحب عذر کے اور مسح موزہ کی مدت معین ہے
حیض و نفاس و استحاضہ کا بیان
عورت کو جو خون فرج ( آگے کے مقام ) سے نکلتا ہے تین قسم کا ہے ۱. حیض ۲. نفاس ۳. استحاضہ
حیض کا بیان
۱. حیض وہ خون ہے جو رحم سے بغیر ولادت یا بیماری کے ہر مہینہ فرج ( آگے ) کی راہ سے نکلتا ہے اگر خون پاخانہ کے مقام کی طرف سے نکلے تو حیض نہیں اور اس کے بند ہو جانے پر غسل فرض نہیں بلکہ مستحب ہے زمانہ حیض کے علاوہ اور دنوں میں کسی دوائی کے استعمال سے خون آ جائے وہ بھی حیض نہیں ہے
۲. حیض کا خون ان چند باتوں پر موقوف ہے وقت اور وہ نو برس کی عمر سے ایاس ( نا امیدی) کی عمر تک ہے ، نو برس سے پہلے جو خون نکلے وہ حیض نہیں ہے ایاس کا وقت پچپن برس کی عمر ہونے پر ہوتا ہے یہی اسح ہے اور اسی پر فتویٰ ہے ، اس کے بعد جو خون آئے گا وہ حیض نہیں بشرطیکہ وہ قوی نہ ہو یعنی زیادہ سرخ یا سیاہ نہ ہو پس اگر ایسا ہے تو حیض ہے اور اگر زرد و سبز یا خاکی رنگ ہو تو حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہے بشرطیکہ اس عمر سے پہلے ان رنگوں میں سے کسی رنگ کا خون نہ آتا ہو ورنہ اگر عادت کے مطابق ہو گا تو اب بھی حیض شمار ہو گا،
۳. خون کا فرجِ خارج تک نکلنا اگرچہ گدی کے گر جانے سے ہو پس جب تک کچھ گدی یا روئی خون اور فرج خارج کے درمیان حائل ہے تو حیض نہ ہو گا، حیض کے خون میں سیلان ( بہنا) شرط نہیں ، مطلب یہ ہے کہ جب تک خون فرج کے سوراخ سے باہر کی کھال تک نہ آئے اس وقت تک حیض شروع ہونے کا حکم نہیں لگے گا اور سوراخ سے باہر کی کھال میں نکل آئے تب سے حیض شروع ہے گا خواہ اس کھال سے باہر نکلے یا نہ نکلے کیونکہ بہنا شرط نہیں ہے ، اگر کوئی عورت سوراخ کے اندر روئی وغیرہ رکھ لے جس سے خون باہر نہ نکلنے پائے تو جب تک سوراخ کے اندر ہی اندر خون رہے اور باہر والی روئی یا گدی وغیرہ پر خون کا دھبہ نہ آئے تب تک حیض شروع ہونے کا حکم نہ لگے گا، اور جب خون کا دھبہ باہر والی کھال میں آ جائے یا روئی وغیرہ کھینچ کر باہر نکال لیں تب سے حیض کا حساب ہو گا اور جس وقت سے خون کا دھبہ باہر کی کھال میں یا روئی وغیرہ کے باہر والے حصہ پر دیکھا ہے اسی وقت سے حیض شروع ہونے کا حکم ہو گا،
۴. حیض کا خون ان چھ رنگوں میں سے کسی ایک رنگ کا ہو۱. سیاہ ۲. سرخ۳. زرد ۴. تیرہ ( سرخی مائل سیاہ یعنی گدیلا)۵. سبز ۶. خاکستری ( مٹیلا) اور جب تک بالکل سفید نہ ہو جائے وہ حیض ہے تری کی حالت کا اعتبار ہے پس جب تک کپڑا تر ہے اگر اس وقت تک خالص سفیدی ہو اور جب خشک ہو جائے تب زرد ہو جائے تو اس کا حکم سفیدی کا ہے اور تر حالت میں سرخ یا زرد ہے اور خشک ہونے کے بعد سفید ہو گیا تو سرخ یا زرد سمجھا جائے گا اور وہ حیض کے حکم میں ہو گا
۵. مدت حیض، حیض کی کم سے کم مدت تین دن اور تین راتیں ہیں ، تین دن اور رات سے ذرا بھی کم ہو تو حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہے کہ کسی بیماری کی وجہ سے ایسا ہو گیا ہے اور اکثر مدت حیض دس دن اور دس راتیں ہیں پس دس دن سے زائد جو خون آیا وہ حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہو گا،
۶. رحم حمل سے خالی ہو یعنی وہ عورت حاملہ نہ ہو
۷. طہر کی کامل مدت اس سے پہلے ہو چکی ہو، دو حیض کے درمیان پاک رہنے کی مدت کم سے کم پندرا دن ہے اور زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے ، پس دو حیض کے درمیان میں جو طہر یا پاکی کے دن آئیں اگر وہ پندرہ روز سے کم ہیں تو ان دونوں حیض کو جدا نہیں کرے گا پس اگر وہ وقفہ دس دن سے زیادہ نہ ہو تو وہ طہر اور خون سب حیض ہوں گے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو اگر اس کو پہلی ہی بار حیض آیا ہو تو دس دن حیض کے سمجھے جائیں گے اوراگر اس کی عادت مقرر ہو تو مقررہ عادت کے مطابق حیض سمجھا جائے گا اور طہر کی کم سے کم مدت یعنی پندرہ دن یا اس سے زیادہ وقفہ ہو تو طہر۔سمجھا جائے گا ورنہ باقی دن استحاضہ ہو گا
نفاس کا بیان
۱. نفاس وہ خون ہے جو بچہ پیدا ہونے کے بعد رحم سے آگے کی راہ سے نکلے جب نصف سے زیادہ بچہ باہر نکل آئے تو اب جو خون نکلے گا وہ نفاس ہو گا، اس سے پہلے نفاس نہیں ہو گا اگر توام ( جوڑا) بچے پیدا ہوں تو نفاس پہلے بچے کے پیدا ہونے کے وقت سے ہو گا اور اس کی پیدائش کے بعد سے چالیس دن تک نفاس ہو گا اس کے بعد استحاضہ ہے مگر غسل کا حکم دیا جائے گا یعنی نہا کر نماز پڑھے گی شرط یہ ہے کہ دونوں توام بچوں کی ولادت میں چھ مہینہ سے کم کا فاصلہ ہو اگر دونوں کے درمیان چھ مہینہ یا اس سے زیادہ فاصلہ ہو تو دو حمل اور دو نفاس ہوں گے
۲. نفاس کی کم سے کم مدت کچھ مقرر نہیں ، نصف سے زیادہ بچہ نکلنے کے بعد خون آ جائے خواہ ایک ہی ساعت ہو وہ نفاس ہے اگر بچہ نصف سے کم نکلا اور اس وقت خون آیا تو وہ نفاس نہیں بلکہ استحاضہ ہے اور نفاس کی اکثر مدت چالیس دن ہے ، اگر خون چالیس دن سے زیادہ آتا رہا تو اس عورت کے لئے جس کو پہلی مرتبہ نفاس آیا چالیس دن نفاس ہو گا اور باقی استحاضہ اور جس عورت کی نفاس کی عادت مقرر ہے اس کے لئے مقررہ عادت کے دنوں تک نفاس ہے اور باقی استحاضہ، نفاس کی عادت کے ایک بار خلاف ہونے سے عادت بدل جاتی ہے اسی پر فتویٰ ہے
استحاضہ کا بیان
جو خون حیض اور نفاس کی صفت سے باہر ہو وہ استحاضہ ہے اس کی علامت یہ ہے کہ اس میں بدبو نہیں ہوتی اور حیض اور نفاس کے خون میں بدبو ہوتی ہے اور استحاضہ کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں
۱. ایام حیض میں جو خون تین دن سے کم ہو،
۲. ایام حیض میں جو خون دس دن سے زیادہ ہو،
۳. جو خون نفاس چالیس دن سے زیادہ ہو،
۴. جو حیض و نفاس عادت مقررہ سے زیادہ ہو اور اپنی اکثر مدت یعنی دس دن اور چالیس دن سے زیادہ ہو جائے ،
۵. حاملہ کا خون دوران حمل میں چاہے جتنے دن آئے ،
۶. نو برس سے کم عمر کی لڑکی کو جو خون آئے ،
۷. پچپن برس سے زیادہ ہو جانے پر جو خون آئے بشرطیکہ وہ قوی نہ ہو یعنی زیادہ سرخ و سیاہ نہ ہو،
۸. پندرہ روز سے کم وقفہ ہونا،
۹. پاخانہ کے مقام سے جو خون آئے ،
۱۰. ولادت کے وقت آدھا بچہ یا اس سے کم آنے پر جو خون نکلے لیکن نصف سے زیادہ بچہ نکلنے کے بعد جو خون آئے گا وہ نفاس ہو گا،
۱۱. بالغ ہونے پر پہلی دفعہ حیض آیا اور وہ بند نہیں ہوا تو ہر مہینہ میں پہلے دس روز حیض کے شمار ہوں گے اور بیس روز استحاضہ شمار ہوں گے اسی طرح جس کو پہلی دفعہ نفاس آیا اور خون بند نہیں ہوا تو پہلے چالیس روز۔نفاس شمار ہو گا اور باقی استحاضہ
متفرق مسائل
۱. اگر پورے دس دن رات حیض آیا اور ایسے وقت خون بند ہوا کہ صرف ایک دفعہ اللّٰہ اکبر کہ سکتی ہے اور نہانے کی گنجائش نہیں تب بھی نماز واجب ہو جاتی ہے اس کی قضا پڑھنی چاہیے اور رمضان شریف میں اگر رات کو پاک ہوئی اور اتنی ذرا سی رات باقی ہے جس میں ایک دفعہ اللّٰہ اکبر بھی نہیں کہ سکتی تب بھی اس صبح کا روزہ واجب ہو،
۲. اور اگر حیض کا خون دس دن سے کم میں بند ہو جائے تو اگر نماز کا اتنا آخری وقت پا لے کہ جس میں غسل کر کے کپڑے پہن کر تکبیر تحریمہ کہ سکے تو اس پر اس وقت کی نماز واجب ہو جاتی ہے پس اس نماز کی قضا پڑھے اور اگر اس سے کم وقت ہو تو وہ نماز اس پر واجب نہیں ہوتی، یعنی وہ نماز معاف ہے اور روزہ کے لئے حکم یہ ہے کہ اگر رات کو پاک ہوئی اور پھرتی سے نہا سکنے کا وقت تو ہو لیکن ایک دفعہ بھی اللّٰہ اکبر نہیں کہ سکتی تب بھی اس دن کا روزہ واجب ہے پس اسے چاہیے کہ روزہ کی نیت کر لے اور صبح کو نہا لے اور اگر پھرتی سے غسل کرنے کا وقت بھی نہ ہو تو اس دن کا روزہ فرض نہیں ہو گا لیکن اس کے لئے دن میں کھانا پینا درست نہیں روزہ دار کی طرح رہے اور اس روزہ کی قضا دے ،
۳. اسی طرح رمضان شریف میں دن کو پاک ہوئی تو اب پاک ہونے کے بعد کھانا درست نہیں شام تک روزہ داروں کی طرح رہنا واجب ہے لیکن یہ دن روزہ میں شمار نہیں ہو گا بلکہ اس کی قضا رکھنی پڑے گی،
۴. کسی لڑکی نے پہلی دفعہ خون دیکھا اگر اس کو دس دن یا اس سے کم خون آئے تو سب حیض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ آئے تو پورے دس دن حیض ہے اور اس سے جتنا زیادہ ہو وہ سب استحاضہ ہے ،
۵. کسی عورت کو مثلاً تین دن حیض آنے کی عادت ہے لیکن کسی مہینہ میں ایسا ہوا کہ تین دن پورے ہو چکے اور ابھی خون بند نہیں ہوا تو ابھی غسل نہ کرے اور نہ نماز پڑھے اگر دس دن رات پورے ہونے پر یا اس سے پہلے مثلاً نویں دن خون بند ہو جائے تو ان سب دنوں کی نمازیں معاف ہیں کچھ قضا نہیں پڑھنی پڑے گی اور یوں کہیں گے کہ عادت بدل گئی اس لئے یہ سب دن حیض کے ہوں گے اور اگر گیارہویں دن یعنی دس دن رات سے ایک لحظہ بھی زیادہ خون آیا تو اب معلوم ہوا کہ حیض کے فقط تین ہی دن یعنی مقررہ عادت کے مطابق اور باقی سب استحاضہ ہے پس گیارہویں دن نہائے اور عادت کے تین دن چھوڑ کر باقی دنوں کی جتنی نمازیں ہوئی ان سب کو قضا پڑھے ،
۶. حیض یا نفاس میں ایک مرتبہ کے بدلنے سے عادت بدل جاتی ہے اسی پر فتویٰ ہے مثلاً کسی عورت کے ہمیشہ چار دن حیض آتا تھا پھر ایک مہینہ میں پانچ دن خون آیا اور پھر دوسرے مہینہ میں پندرہ دن خون آیا تو ان پندرہ دن میں سے پانچ دن حیض کے اور دس دن استحاضہ کے ہیں ، اب عادت یعنی چار دن کا اعتبار نہیں کریں گے اور یہ سمجھیں گے کہ عادت بدل گئی اور پانچ دن کی عادت ہو گئی ہے نفاس کو بھی اسی پر قیاس کر لیجیے ،
۷. جس عورت کی عادت مقرر نہ ہو بلکہ کبھی چار دن خ ون آتا ہے کبھی سات دن اسی طرح بدلتا رہتا ہے کبھی دس دن بھی آ جاتا ہے تو یہ سب حیض ہے ایسی عورت کو اگر کبھی دس دن سے زیادہ خون آ جائے تو اس سے پہلی مہینہ میں جتنے دن حیض آیا تھا اتنے دن حیض کے ہیں اور باقی سب استحاضہ ہے
۸. جس عورت کی عادت مقرر نہ ہو بلکہ کبھی مثلاً چھ دن حیض کے ہیں اور کبھی سات دن اب جو خون آیا تو کبھی بند نہیں ہوتا اس کے لئے نماز روزہ کے حق میں کم مدت یعنی چھ دن حیض کے قرار دئے جائیں گے اور وہ ساتویں دن نہا کر نماز پڑھے اور روزہ رکھے مگر سات دن پورے کرنے کے بعد پھر نہانے کا حکم ہے اور ساتویں دن جو فرض روزہ رکھا ہے اس کی قضا کرے
حدث اصغر و اکبر کے احکام
حدث اصغر یعنی بے وضو ہونے اور حدث اکبر یعنی غسل واجب ہونے یا حیض یا نفاس کی حالت طاری ہونے اور استحاضہ کے احکام کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
اول: وہ احکام جو صرف حدث اصغر کے ساتھ مخصوص ہیں
۱. قرآن مجید کا پڑھنا اور پڑھانا جائز اور درست ہے خواہ چھوئے بغیر دیکھ کر یا زبانی حفظ سے ) پڑھے پڑھائے ،
۲. نابالغ بچوں کو قرآن مجید دینا اور چھونے دینا مکروہ نہیں ہے ،
دوم: وہ احکام حدث اصغر و اکبر میں مشترک ہیں یعنی وہ احکام جو بے وضو ہونے غسل واجب ہونے اور حیض و نفاس کی حالت میں مشترک ہیں وہ یہ ہیں
۱. ہر قسم کی نماز پڑھنا حرام و ممنون ہے خواہ فرض و واجب ہو یا سنت و نفل اور خواہ رکوع و سجود والی نماز ہو یا بغیر رکوع سجدے کی یعنی نماز جنازہ پس جو شخص بے وضو ہو یا اس پر غسل کرنا فرض ہو اس کے وضو یا غسل کرنے کے بعد نماز ادا کرنی چاہیے اور حیض و نفاس والی عورت سے نماز ساکت ہو جاتی ہے یعنی بالکل معاف ہو جاتی ہے اور پاک ہونے کے بعد بھی اس کی قضا واجب نہیں ہوتی، اگر فرض یا واجب نماز پڑھنے کی حالت میں حیض آ گیا تو وہ نماز معاف ہو گی اب اس نماز کو پڑھنا ترک کر دے اور پاک ہونے کے بعد اس کی قضا بھی نہ پڑھے اور اگر سنت یا نفل پڑھنے کی حالت میں حیض آگیا تو اب اس کو بھی ادا نہ کرے لیکن پاک ہونے کے بعد اس کی قضا پڑھنی ہو گی اور اگر نماز کے آخر وقت میں حیض آیا اور ابھی نماز نہیں پڑھی تب بھی وہ نماز معاف ہو گی حیض والی عورت کے لئے مستحب یہ ہے کہ ایام حیض میں ہر نماز کے وقت وضو کرے اور اپنے گھر میں نماز پڑھنے کی پاک جگہ میں بیٹھے اور اندازاً نماز ادا کرنے کی مدت تک ذکر اللّٰہ اور تسبیح و تہلیل و تکبیر و درود شریف و استغفار و دعا وغیرہ میں مشغول رہے تاکہ نماز کی عادت نہ چھوٹنے پائے اور پاک ہونے کے بعد نماز سے جی نہ گھبرائے اور سستی پیدا نہ ہو
۲. قرآن مجید کا چھونا جائز نہیں یعنی حرام ہے خواہ اس جگہ کو چھوئے جس میں آیت لکھی ہوئی ہے یا اس جگہ کو جو سادہ ہے لیکن اگر قرآن مجید ایسے غلاف میں ہے جو اس سے جدا ہو یا رومال میں لپٹا ہوا ہو یا ایسی جلد ہو جو اس کے ساتھ سلی ہوئی نہ ہو یا اس پر کپڑے کی چولی اس طرح چڑھی ہوئی ہو کہ جلد کے ساتھ سلی ہوئی نہ ہو بلکہ الگ ہو کہ اتارے سے اتر سکے تو چھونا اور اٹھانا جائز ہے اور جو جلد قرآن شریف کے ساتھ سلی ہوئی ہو یا چولی جلد کے ساتھ سلی ہوئی ہو تو اس کا چھونا جائز نہیں پہنے ہوئے کپڑے مثلاً کرتے کی آستین یا دامن یا دوپٹے کی آنچل وغیرہ سے چھونا بھی جائز نہیں اور اگر کپڑا بدن پر پہنا ہوا نہ ہو بلکہ الگ ہو جیسے رومال وغیرہ تو اس سے چھونا یا پکڑ کر اٹھانا و کھولنا جائز ہے اگر پورا قرآن مجید نہ ہو بلکہ کسی کاغذ یا کپڑے یا جھلی یا روپیہ پیسہ یا تشتری یا تعویذ یا کسی اور چیز پر قرآن شریف کی کوئی آیت یا آیتیں لکھی ہوئی ہوں اس کو اس لکھی ہوئی جگہ سے چھونا اٹھانا جائز و درست نہیں ہو لیکن جو حصہ سادہ ہے اس کو چھونا اور پکڑنا جائز ہے جب کہ آیت کو ہاتھ نہ لگے اگر ایسا روپیہ پیسہ وغیرہ تھیلی میں ہو یا کسی برتن وغیرہ میں رکھا ہو یا تعویذ پر الگ سادہ کاغذ لپٹا ہوا ہو تو اس تھیلی برتن اور تعویذ کا چھونا اور اٹھانا جائز ہے قرآن مجید کی طرف سے دیکھنا مکروہ نہیں ہے کیونکہ یہ مس کرنا نہیں ہے صرف نظر کا قرآن مجید کے سامنے ہونا پایا جاتا ہے ،
۳. قرآن مجید کے علاوہ اور آسمانی کتا بوں مثلاً توریت و انجیل و زبور وغیرہ کے صرف اس مقام کو چھونا مکروہ و ممنوع ہے جہاں لکھا ہوا ہے سادہ مقام کا چھونا مکروہ نہیں اور یہی حکم قرآن مجید کی ان آیتوں کا ہے جن کی تلاوت منسوخ ہو چکی ہے بعض کے نزدیک توریت و انجیل وغیرہ دیگر کتب سماویہ کا بھی وہی حکم ہے جو قرآن مجید کے مس کرنے کا بیان ہوا کیونکہ ان سب کی تعظیم واجب ہے لیکن یہ حکم ان کتب سماویہ کے لئے مخصوص ہونا چاہیے جن میں کوئی تحریف اور تغیر و تبدل نہیں ہوا ہے کتب تفسیر مع اصل قرآن و فقہ و حدیث کے چھونے کے متعلق تین قول ہیں ایک قول یہ ہے کہ ان میں آیت قرآنی کی جگہ کا مس کرنا جائز نہیں ہے اس کے علاوہ دوسری جگہ کا مس کرنا جائز ہے اور یہ قواعد شرعیہ کے زیادہ موافق ہے دوسرا قول یہ ہے کہ ان کے مس کرنے میں متعلقاً کوئی کراہت نہیں ہے اور تیسرا قول یہ ہے کہ کتب تفسیر کا مس کرنا مکروہِ تحریمی ہے اور کتب فقہ و کتب حدیث وغیرہ کا مس کرنا مکروہ نہیں ہے یہ تیسرا قول اظہر و احوط ہے کیونکہ کتب تفسیر میں قرآن مجید دوسری کتابوں سے زیادہ ہوتا ہے اور ان میں قرآن مجید کا ذکر مستقلاً ہوتا ہے نہ کہ طبعاً اس لئے یہ مشابہ بالمصحف ہے ،
۴. اگر قرآن مجید کا محض ترجمہ اردو فارسی وغیرہ میں لکھا ہوا ہو اصل عربی قرآن ساتھ میں لکھا ہوا نہ ہو تو اس کا چھونا امام ابو حنیفہ رحمت اللّٰہ کے نزدیک مکروہ ہے اور امام محمد و امام ابو یوسف رحمہ اللّٰہ کا صحیح قول یہی ہے ،
۵. قرآن مجید کا لکھنا مکروہ نہیں بشرطیکہ کہ لکھے ہوئے کو ہاتھ نہ لگے اگرچہ خالی مقام کو چھوئے یہ امام ابو یوسف کے نزدیک ہے اور یہ قیاس کے زیادہ نزدیک ہے اور امام محمد کے نزدیک خالی مقام کو چھونا بھی جائز نہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ قرآن مجید کو مس کرنے والے کے حکم میں ہے اور یہی احوط ہے طحطاوی (رح) نے ان میں اس طرح تطبیق (مقابل کرنا) دی ہے کہ امام ابو یوسف کے قول میں کراہتِ تحریمی کی نفی ہے اور امام محمد کے قول میں کراہتِ تنزیہی کا اثبات ہے ایک آیت سے کم کا لکھنا مکروہ نہیں جب کہ کسی کتاب وغیرہ میں لکھے اور قرآن شریف میں ایک آیت سے کم لکھنا بھی جائز نہیں
وہ احکام جو حدث اکبر کے ساتھ مخصوص ہیں
سوم: وہ احکام جو حدث اکبر کے ساتھ مخصوص ہیں
۱. مسجد میں داخل ہونا حرام و ممنون ہے خواہ گزرنے کے لئے ہو لیکن اگر کوئی سخت ضرورت ہو تو جائز ہے مثلاً مسجد کے اندر پانی ہو اور باہر کہیں پانی نہ ملے یا درندے یا چور یا سردی کا خوف ہو یا کسی کے گھر کا دروازہ مسجد میں ہو اور اس کے نکلنے کا اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ ہو اور وہ اس کو تبدیل نہ کر سکتا ہو اور نہ وہاں کے سوا کسی دوسری جگہ رہ سکتا ہو تو اس کو مسجد میں جانا جائز ہے لیکن اس کو دخول مسجد کے لئے تیمم کرنا واجب ہے بخلاف اس شخص کے جس کو مسجد میں احتلام ہو جائے اور وہ اس وقت مسجد سے باہر نکل جائے تو اس کے تیمم کر کے نکلنا مستحب ہے واجب نہیں لیکن اگر کسی خوف وغیرہ کی وجہ سے اس کو مسجد میں ٹھہرنا پڑے تو اب اس کو تیمم کرنا واجب ہے ،
۲. خانہ کعبہ اور مسجد الحرام کے اندر داخل ہونا اور خانہ کعبہ کا طواف کرنا حرام ہے اگرچہ طواف مسجد کے باہر سے کرے ،
۳. عیدگاہ و جنازہ گاہ مدرسہ و خانقاہ وغیرہ میں جانا جائز ہے ،
۴. قرآن مجید پڑھنا حرام ہے تلاوت کی نیت سے ذرا سا بھی نہ پڑھیں لیکن جن آیتوں میں اللّٰہ تعالی کی ثنا یا دعا کا مضمون ہو اگر ان کو قرأت کے ارادے سے نہ پڑھے بلکہ ثنا یا کام شروع کرنے یا دعا یا شکر کے ارادے سے پڑھے تو جائز ہے مثلاً شکر کے ارادے سے الحمد اللّٰہ کہے یا کھانا کھاتے وقت بسم اللّٰہ پڑھے تو مظائقہ نہیں ، اگر کوئی شخص پوری سورہ الحمد دعا کی نیت سے پڑھے یا ربنا اتنا فی الدنیا حسنت یا ربنا لا تو اخذنا ان نسینا الخ یا کوئی اور ایسی ہی دعا والی آیت دعا کی نیت سے پڑھے تو جائز ہے اس میں کچھ گناہ نہیں دعاء قنوت کا پڑھنا بھی درست ہے نیز کلمہ شریف، درود شریف، اللّٰہ تعالی کا نام لینا، استغفار پڑھانا یا کوئی اور وظیفہ مثلاً لا حول ولا قوت الا باللّٰہ پڑھنا منع نہیں ہے بلکہ ان دعاؤں وغیرہ کا پڑھانا چھونا اور اٹھنا جائز و درست ہے
۵. اگر معلمہ عورت ( استانی) کو حیض یا نفاس آ جائے تو اس کو چاہیے کہ بچوں کو رواں پڑھاتے وقت پوری آیت نہ پڑھے بلکہ ایک ایک کلمہ سکھائے اور ان کے درمیان میں توقف کرے اور سانس توڑ دے اور رک رک کر ٹکڑے ٹکڑے کر کے رواں پڑھائے اس کو بھی مرکب الفاظ کا ایک دم پڑھنا جائز نہیں ہے اور ہجے کرانا اس کے لئے مکروہ نہیں بلکہ درست ہے بعض فقہا نے یہ حکم حیض والی عورت کے لئے مخصوص کیا ہے اور جنبی کے لئے ان کے جائز نہیں رکھا کیونکہ عورت ہر مہینہ میں چند روز اس کے لئے مضطر ہے جس کی وجہ سے بخیال حرج تعلیم اس کو اجازت دی گئی ہے ، بخلاف جنبی کے لیکن مختار یہ ہے کہ جنبی کا بھی یہی حکم ہے ،
وہ احکام جو صرف حیض و نفاس والی عورت کے ساتھ مخصوص ہیں
چہارم: وہ احکام جو صرف حیض و نفاس والی عورت کے ساتھ مخصوص ہیں
۱. اس حالت میں روزہ رکھنا حرام ہے لیکن روزہ بالکل معاف نہیں ہوتا بلکہ پاک ہونے کے بعد اس روزوں کی قضا لازم ہے یعنی فرض روزہ کی قضا فرض اور واجب روزہ کی قضا واجب ہے۔ اگر فرض روزہ کی حالت میں حیض و نفاس شروع ہو گیا تو وہ روزہ جاتا رہا اس کی قضا رکھے خواہ وہ روزہ فرض یا واجب ہو یا سنت یا نفل کیونکہ شروع ہونے کو بعد سنت و نفل روزہ بھی واجب ہو جاتا ہے
۲. حیض و نفاس والی عورت سے جماع حرام ہے اور اس کے جائز و حلال جاننا کفر ہے اور جو چیزیں جماع کے ہم معنی ہیں ان کا بھی یہی حکم ہے ، پس ایسی عورت کے ناف اور زانو کے درمیان کے جسم کو دیکھنا اس سے اپنے جسم کو ملانا جبکہ کوئی کپڑا درمیان میں حائل نہ ہو حرام ہے ، ناف اور زانو کے درمیانی حصہ کے علاوہ باقی بدن یعنی ناف اور ناف کے اوپر کا حصے اور زانو سے نیچے کے حصہ کا بدن کو اپنے جسم کے ساتھ ملانا( یعنی اس حصہ سے مباشرت و استمتاع) جائز ہے ، اگرچہ کپڑا درمیان میں حائل نہ ہو اور ناف و زانو کے درمیانی حصہ بدن سے اپنا بدن ملانا یعنی مباشرت و استمتاع اس وقت جائز ہے جبکہ کپڑا درمیان میں حائل ہو، پس اگر ناف و زانو کے درمیان کپڑا ہونے کی صورت میں حیض و نفاس والی عورت کے ساتھ لیٹنا وغیرہ جائز ہے بلکہ حیض کی وجہ سے جائز نہ جانتے ہوئے عورت سے علیحدہ ہو کر سونا اور اس کو اختلاط سے بچنا مکروہ ہے ، جبکہ غلبہ شہوت نہ ہو
۳. حیض و نفاس والی عورت سے کھانا پکوانا اور اس کی مستعلمہ چیزوں کا استمعال جائز ہے ان کو کھانے پینے کے لئے ہاتھ دھو لینا اور کلی کر لینا مستحب و اولیٰ ہے ، اس کا ترک مکروہ تنزیہی ہے ، اور پورا وضو کر لینا زیادہ بہتر ہے ،
۴. حیض و نفاس کا خون بند ہونے کے بعد غسل واجب ہو جاتا ہے ،
۵. اگر کسی عورت کو نہانے کی ضرورت تھی اور ابھی وہ نہانے نہ پائی تھی کہ حیض شروع ہو گیا تو اب اس پر نہانا واجب نہیں ہے بلکہ جب حیض۔سے پاک ہو تب نہائے اور ایک ہی غسل ہر دو سبب کی طرف سے ہو جائے گا
معذور کے احکام
تعریف معذور وہ شخص ہے جس کو ایسا عذر لاحق ہو جس کا روکنا اس کے قابو سے باہر ہو اور اس کا وہ عذر ایک نماز کے پورے وقت تک برقرار رہے اتنا وقت نہ ملے کہ اس وقت کی نماز فرض و واجب طہارت کے ساتھ پڑھ سکے مثلاً نکسیر یا استحاضہ کا خون جاری ہو یا ریح یا پیشاب یا دست ( اسحال) یا پیپ خارج ہوتی رہے یا بدن کے کسی مقام مثلاً آنکھ کان ناف یا پستان وغیرہ سے درد کے ساتھ پانی نکلتا رہے اور اگر اتنا وقت مل جائے جس میں طہارت۔کے ساتھ فرض و واجب نماز پڑھ سکے تو اس کو معذور نہ کہیں گے شرائط اول مرتبہ ثبوتِ عذر کے لئے یہ شرط ہے کہ ایک نماز کے پورے وقت تک عذر قائم رہے یعنی اس کو اتنا وقت نہ ملے کہ جس میں ایسا وضو کر سکے کہ فقط وضو کے فرائض ادا ہوں۔ فرض و واجب نماز جو بہت لمبی نہ ہو ادا کر سکتا ہو، عذر کے منقطع ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ ایک نماز کے پورے وقت تک عذر منقطع رہے ، مثلاً ظہر کا کچھ وقت گزر گیا تب زخم و غیرہ کا خون بہنا شروع ہوا تو اخیر وقت تک انتظار کرے اگر بند ہو جائے تو خیر ورنہ اسی حالت میں وضو کر کے نماز پڑھ لے پھر اگر عصر کو وقت کے اندر ہی اندر بند ہو گیا تو وہ معذور نہیں اور جو نمازیں اتنے وقت میں پڑھی ہیں یعنی ظہر و عصر دونوں وقت کی نمازیں درست نہیں ہوئیں۔ ان کو پھر سے پڑھے مگر اس کے لئے نفل و سنت کی قضا واجب نہیں ، عصر کے وقت غیر مکروہ وقت تک انتظار کرے اگر بند نہ ہو جائے تو وضو کرے اور نماز پڑھ لے پھر اگر مکروہ وقت میں خون بند ہو جائے تو وہ معذور نہ ہو گا اور اس کو وہ نماز لوٹانی پڑے گی اور اگر عصر کے پورے وقت میں اسی طرح خون بہتا رہا کہ اس کو طہارت کے ساتھ نماز پڑھنے کی مہلت نہ ملی تو اب عصر کا وقت گزرنے پر معذور ہونے کا حکم لگائیں گے اور اس کی پڑھی ہوئی نماز درست ہو جائے گی عذر کے باقی رہنے کی شرط یہ ہے کہ نماز کا وقت اس پر ایسا نہ گزرے کہ اس میں عذر نہ ہو اگرچہ ایک ہی دفعہ کے لئے ہو پس جب ایک دفعہ معذور ہو گیا تو اس کے بعد کے وقتوں میں اس عذر یعنی خون کے بہنے وغیرہ کا ہر وقت پایا جانا شرط نہیں بلکہ اگر ہر نماز کے پورے وقت میں ایک دفعہ بھی خون آ جایا کرے اور باقی تمام وقت بند رہے تب بھی معذور رہے گا لیکن اگر اس کے بعد ایک پورا وقت ایسا گزر جائے جس میں خون بالکل نہ آئے تو اب معذور نہیں رہے گا
احکام معذور
۱. ہر نماز کے لئے نیا وضو کرے جب تک وہ وقت رہے گا اس وقت تک اس کا وضو باقی رہے گا بشرطیکہ کے وضو کو توڑنے والی اور کوئی چیز واقع نہ ہو اور اس وضو سے اس وقت میں جو فرض و واجب یا سنت و نفل اور قضا نمازیں چاہے پڑھے جب یہ وقت چلا گیا اور دوسری نماز کا وقت آگیا تو اب نئے سرے سے وضو کرنا چاہیے اگر وضو پر قادر نہ ہو تو تیمم کرے۔
۲. معذور کے وضو کو اس وقت کا گزر جانا یا کسی دوسرے حدث ( وضو توڑنے والے چیز) یا عذر کا لاحق ہونا توڑ دیتا ہے مثلاً نکسیر جاری رہنے کی وجہ سے وضو کیا پھر پاخانہ یا پیشاب کیا تو وضو ٹوٹ جائے گا، معذور کی طہارت دو شرطوں سے وقت کے اندر باقی رہتی ہے اول یہ کہ اس نے اپنے عذر کی وجہ سے وضو کیا ہو دوسرے یہ کہ اس پر کوئی اور حدث یا عذر۔طاری نہ ہوا ہو
۳. اگر کسی شخص نے فجر کے وقت وضو کیا تو آفتاب نکلنے کے بعد اس وضو سے نماز نہیں پڑھ سکتا دوسرا وضو کرنا چاہئے اور جب آفتاب نکلنے کے بعد وضو کیا تو اس وضو سے ظہر کی نماز پڑھنا درست ہے ظہر کے وقت نیا وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے جب عصر کا وقت آئے گا تب نیا وضو کرنا پڑے گا لیکن اگر کسی اور وجہ سے وضو ٹوٹ جائے تو اس کی وجہ سے نیا۔وضو کرنا پڑے گا
۴. کسی کو ایسا زخم تھا جو ہر وقت بہتا رہتا تھا اس نے وضو کیا پھر کسی اور جگہ دوسرا زخم ہو گیا اور بہنے لگا تو وضو ٹوٹ جائے گا اور نیا وضو۔کرنا پڑے گا
۵. اگر معذور اس بات پر قادر ہے کہ باندھنے سے یا روئی وغیرہ کی راکھ بھرنے سے خون وغیرہ عذر کو روک سکتا ہے یا کم کر سکتا ہے یا بیٹھنے میں خون جاری نہیں ہوتا اور کھڑے ہونے میں جاری ہوتا ہے تو اس کا بند کرنا واجب ہے اور اب وہ صاحب عذر نہیں رہے گا۔ استحاضہ والی عورت کا بھی یہی حکم صحیح ہے۔ یہ حکم حیض والی عورت کے لئے نہیں ہے یعنی حیض و نفاس جاری ہو جانا اور فرج خارج میں آ جانے کے بعد اس کو روکنے۔سے بھی عورت حائضہ ہی رہے گی
۶. جس کی نکسیر جاری ہو یا زخم سے خون بہے تو آخر وقت تک انتظار۔کرے پس اگر خون بند نہ ہو تو وضو کر کے نماز پڑھ لے
۷. استحاضہ والی عورت اگر غسل کرے تو ظہر کی نماز آخر وقت میں اور عصر کی نماز وضو کر کے اول وقت میں پڑھے اور اسی طرح مغرب کی نماز غسل کر کے آخر وقت میں اور عشاء کی نماز وضو کر کے اول وقت میں پڑھے اور فجر کی نماز بھی غسل کر کے پڑھے تو بہتر ہے اور یہ ادب حدیث شریف میں ارشاد ہوا ہے اور عجب نہیں کہ اس کی رعایت کی برکت سے اس کے مرض کو فائدہ پہنچے
۸. معذور کی اقتدا معذور کے لئے جائز ہونے میں دونوں کا اتحاد عذر شرط ہے پس جس شخص کی ریح جاری رہتی ہو اس کی نماز ایسے شخص کے پیچھے جائز ہے جس کو ریح جاری رہتی ہو اور وہ ایسے شخص کے پیچھے نماز نہ پڑھے جس کو سلس البول ( پیشاب جاری رہتا ہو) ہو اس کی مزید۔تفصیل امامت کے بیان میں ہے
۹. اگر معذور کا خون یا پیشاب وغیرہ کپڑے یا بدن پر لگ جائے تو اگر ایسا ہو کہ نماز ختم کرنے سے پہلے پھر لگ جائے تو اس کا دھونا واجب نہیں اگر ایسا نہیں ہے تو دھونا واجب ہے پس اگر ایک روپیہ بھر سے زیادہ نجس ہو گا تو نماز نہ ہو گی
نجاستوں کا بیان
نجاستوں کے پاک کرنے کا طریقہ جو چیزیں اپنی ذات سے ناپاک (نجس) نہیں ہیں لیکن کسی نجاست کے لگنے کی وجہ سے ناپاک ہو گئیں ان کے پاک کرنے کے دس طریقہ ہیں ،
۱. دھونا پانی اور ہر بہنے والی رقیق و پاک چیز سے کہ جس سے نجاست دور ہو سکے وہ نجاست پاک کی جا سکتی ہے جیسے سرکہ، گلاب، زعفران کا پانی، عرقِ باقلا، درختوں ، پھلوں اور تربوز کا پانی وغیرہ مائعات جن سے کپڑا بھگو کر نچوڑا جا سکے ، لیکن جس میں چکنائی ہو اور جس سے بھگو کر کپڑا نچوڑا نہ جا سکے اس سے نجاست دور کرنا جائز نہیں ، جیسے تیل، گھی، شوربا، شہد، شیرہ وغیرہ اگر نجاست خشک ہونے کے بعد نظر آنے والی ہو تو نجاست کا وجود دور کیا جائے اور اس میں دھونے کی تعداد کا اعتبار نہیں اگر ایک ہی مرتبہ کے دھونے میں اور نجاست اور اس کا اثر یعنی رنگ و بو چھوٹ جائے تو وہی کافی ہے لیکن پھر بھی تین بار دھو لینا مستحب ہے اور اگر تین مرتبہ میں بھی اثر نہ چھوٹے تو اس وقت تک دھوئے جب تک وہ اثر بالکل نہ چھوٹ جائے اثر زائل کرنے کے لئے صابن وغیرہ کی ضرورت نہیں اگر صاف پانی آنے لگے اور نجاست کا جسم دور ہو جائے مگر رنگ باقی رہ جائے اور وہ دور نہیں ہوتا تو اس کا مضائقہ نہیں اور رنگدار نجاست بذات خود نجس نہیں تو تین بار دھونے سے پاک ہو جائے گا خواہ رنگدار پانی نکلتا رہے مثلاً رنگنے کے لئے رنگ گھولا اور اس میں کسی بچہ نے پیشاب کر دیا یا کوئی اور نجاست پڑ گئی اور اس سے کپڑا رنگ لیا تو تین بار دھو ڈالیں پاک ہو جائے گا اگرچہ پھر بھی رنگ نکلتا رہے۔ اگر نجاست خشک ہونے پر نظر آنے والی نہ ہو تو اس کو تین بار دھوئے ، اور جو چیز نچوڑی جا سکتی ہے اس کو ہر مرتبہ نچوڑنا شرط ہے اور تیسری مرتبہ خوب اچھی طرح پوری طاقت سے نچوڑے ہر شخص کی اپنی طاقت کا اعتبار ہے جو چیز نچوڑی نہیں جا سکتی جیسے چٹائی یا بھاری کپڑا یا دری، کمبل وغیرہ تو تین مرتبہ دھوئے اور ہر مرتبہ خشک کرے اور خشک کرنے کی حد یہ ہے کہ اس کو لٹکا کر اتنی دیر چھوڑ دے کہ اس سے پانی ٹپکنا بند ہو جائے بالکل سوکھنا شرط نہیں اگر وہ بھاری چیز ایسی ہو کہ نجاست کے جذب نہیں کرتی جیسے چٹائی وغیرہ تو صرف تین بار کے دھو لینے سے پاک ہے جائے گا ہر بار اتنی دیر چھوڑنا کہ پانی ٹپکنا بند ہو جائے۔ضروری نہیں جذب کرنے یا نہ کرنے کے اعتبار سے چیزیں تین قسم کی ہیں اول جو نجاست کے بالکل جذب نہیں کرتی جیسے لوہا تانبا پیتل وغیرہ کی چیزیں دھو لینے سے پاک ہو جاتی ہیں اور پونچھ ڈالنے سے بھی پاک ہو جاتی ہیں ہیں جبکہ اثر جا تا رہے اور وہ کھردری نہ ہو دوم جو نجاست کو بہت زیادہ جذب نہ کرے لیکن کچھ نہ کچھ جذب کرے جیسے چٹائی وغیرہ یہ بھی نجاست دور ہو جانے پر پاک ہو جاتی ہیں سوم جو بالکل جذب کر لیتی ہیں جیسے کپڑا وغیرہ ایسی چیزوں کو پاک کرنے کے لئے تین بار کا دھونا اور ہر بار نچوڑنا چاہئے اگر وہ چیز نچوڑی نہ جا سکے تو ہر بار لٹکا کر اسقدر چھوڑنا چاہئے چاہئے کہ پانی ٹپکنابند ہو جائے
نجاستوں کے پاک کرنے کا طریقہ
۲. پونچھنا تلوار، چھری، چاقو، آئینہ وغیرہ جن پر صیقل ( جلا) کیا ہوا ہو یعنی زنگ نہ ہو اور کھردری بھی نہ ہوں ، یہ چیزیں جس طرح دھونے سے پاک ہو جاتی ہیں اسی طرح اگر کپڑے یا پتے یا مٹی وغیرہ سے اس قدر پونچھ لی جائیں کہ نجاست کا اثر بالکل جاتا رہے تو پاک ہو جاتی ہیں خواہ نجاست تر ہو یا خشک اور جسم دار ہو یا بے جسم، لیکن اگر وہ چیز کھردری یا ابھرے ہوئے نقش والی یا زنگ والی ہو تو پونچھنے سے پاک نہیں ہو گی بلکہ اس کا دھونا فرض ہے
۳. ملنا منی اگر کپڑے پر لگ جائے اور تر ہو تو دھونا واجب ہے اور اگر خشک ہو گئی ہے تو مل کر جھاڑ دینا کافی ہے یہی اصح ہے مرد و عورت سب کی منی کا یہی حکم ہے ، دیگر جانوروں کی منی دھونے سے ہی پاک ہوں گی یہی صحیح ہے۔ اگر منی بدن کو لگ جائے تو بغیر دھوئے بدن پاک نہ ہو گا خواہ تر ہو یا۔خشک، اسی پر فتویٰ ہے
۴. چھیلنا اور رگڑنا اگر موزہ، جوتی، بستر بند وغیرہ پر جسم دار نجاست لگ جائے جیسے پاخانہ، گوبر وغیرہ اگر نجاست خشک ہو جائے تو چھیلنے یا رگڑنے سے پاک ہو جائے گا بشرطیکہ نجاست کا جسم اور اثر جاتا رہے۔ رگڑنا خواہ زمین پر ہو یا ناخن، لکڑی، پتھر وغیرہ سے ہو اور اگر نجاست تر ہے تو بغیر دھوئے وہ موزہ وغیرہ پاک نہ ہو گا اور امام ابو یوسف کے نزدیک اگر اچھی طرح پونچھ دیا جائے کہ اس نجاست کا کچھ اثر رنگ و بو باقی نہ رہے تو پاک ہو جائے گا اسی پر فتویٰ ہے ، اگر وہ نجاست جسم دار نہ ہو جیسے شراب، پیشاب وغیرہ تو اگر اس میں مٹی مل جائے یا اس پر مٹی یا ریت یا راکھ وغیرہ ڈال کر رگڑ ڈالیں اور اچھی طرح سے پونچھ دیں تو پاک ہو جائے گا یہی صحیح ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔ کپڑا اور بدن چھیلنے یا رگڑنے سے پاک نہیں ہوتا، سوائے کپڑے پر۔منی لگنے کے کہ وہ رگڑنے سے پاک ہو جاتا ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا
۵. خشک ہو جانا خشک ہو جانا اور اس کا اثر دور ہو جانا، زمیں خشک ہو جانا اور نجاست کا اثر ( رنگ و بو) دور ہو جانے سے نماز کے واسطے پاک ہو جاتی ہے۔ تیمم کے واسطے پاک نہیں ہوتی، دھوپ یا آگ یا ہوا سے خشک ہونے یا سایہ میں خشک ہونے کا یکساں حکم ہے ، جو چیزیں زمین پر قائم ہیں جیسے دیواریں ، درخت گھاس وغیرہ جب تک وہ زمین پر کھڑے ہیں ان سب کا یہی حکم ہے جو زمین کے پاک ہونے کا ہے۔ جس کنواں میں ناپاک پانی ہو اگر وہ کنواں بالکل خشک ہو جائے تو پاک ہو جائے گا
۶. آگ سے جل جانا گوبر، پاخانہ وغیرہ کوئی نجاست اگر جل کر راکھ ہو جائے تو اس کی طہارت کا حکم ہو گا اسی پر فتویٰ ہے ، ان کا دھواں بھی پاک ہے اگر راکھ یا دھواں روٹی میں لگ جائے تو کچھ حرج نہیں روٹی پاک ہے۔ نجس مٹی سے برتن بنائے جائیں پھر وہ آؤے ( آگ) میں پک جائیں تو پاک ہو جائیں گے۔ نجس چاقو چھری یا مٹی تانبہ وغیرہ کے برتن اگر دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دئے جائیں۔تو پاک ہو جاتے ہیں
۷. حالت کا بدل جانا شراب جب سرکہ بن جائے تو پاک ہے۔ اگر پکی ہوئی روٹی یا لہسن پیاز کو شراب میں ڈال دیا جائے پھر وہ شراب سرکہ بن جائے یا اس روٹی یا لہسن وغیرہ کو جو شراب سے تر ہو گئی ہو سرکہ میں ڈال دیا جائے اور اس میں شراب کی بو ( اثر) وغیرہ باقی نہ رہے تو وہ روٹی پیاز وغیرہ پاک ہو جائے گی نجس تیل وغیرہ صابن میں ڈالا جائے تو اس کے پاک ہونے کا فتویٰ دیا جائے گا، اس لئے کہ اس کی ماہیت تبدیل ہو گئی، ناپاک زمین کی مٹی اوپر کی نیچے اور نیچے کی اوپر کر دینے سے پاک ہو جاتی ہے ، پاخانہ جب مٹی بن جائے تو پاک ہو جاتا ہے
۸. چمڑے کا دباغت سے پاک کرنا۔آدمی اور خنزیر کے سوا ہر جاندار کی کھال دباغت سے پاک ہو جاتی ہے آدمی کی کھال احتراماً دباغت نہیں کی جاتی لیکن اگر دباغت کی جائے گی تو پاک ہو جائے گی مگر اس سے نفع لینا احترام کی وجہ سے جائز نہیں۔ دباغت کی دو قسمیں ہیں اول حقیقی جو دوائی اور چونے ، پھٹکڑی، ببول کے پتے وغیرہ سے کی جاتی ہے۔ دوم حکمی جو مٹی لگا کر یا دھوپ یا ہوا میں سکھا کر۔کے کی جاتی ہے دونوں قسم کی دباغت سے چمڑا پاک ہو جائے گا
۹. جانوروں کے گوشت پوست کو ذبح کر کے پاک کرنا حلال جانوروں کا گوشت پوست ذبح کرنے سے پاک ہو جاتا ہے اسی طرح خون کے سوا اس کے تمام اجزا ذبح سے پاک ہو جاتے ہیں۔ یہی صحیح ہے بشرطیکہ کہ ذبح کرنے والا شخص شرعاً اس کا اہل ہو۔ حرام جانوروں کا گوشت ذبح سے پاک نہیں ہوتا یہی صحیح ہے
۱۰. کنوئیں کا پانی نکال کر پاک کرنا اس کی تفصیل الگ بیان کی گئی ہے۔
نجس چیزوں کا بیان
نجاست حقیقہ کی دو قسمیں ہیں
۱. غلیظہ یا مغلظہ یعنی جس کی نجاست حکم میں سخت ہے۔
۲. خفیفہ یا مخففہ جو حکم میں ذرا کم اور ہلکی ہو
نجاست غلیظہ
نجاست غلیظہ بقدر درہم معاف ہے اور نماز کو نہیں توڑتی، اگر درہم سے زیادہ ہو تو نماز جائز نہ ہو گی اگر وہ نجاست جسمدار ہو جیسے پاخانہ گوبر وغیرہ تو درہم کے وزن کا اعتبار ہو گا اور وہ ساڑھے تین ماشہ ہے اور اگر بے جسم کی یعنی پتلی ہو جیسے شراب، پیشاب وغیرہ تو ہند و پاکستان کے ایک روپیہ کے پھیلاؤ کے برابر معاف ہے ، معاف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر اتنی نجاست کپڑے یا بدن پر لگی ہو اور نماز پڑھ لے تو نماز ہو جائے گی اور قصداً اتنی نجاست بھی لگی رکھنا جائز نہیں ہے اگر قدر درہم سے زیادہ غلیظہ کپڑے یا بدن پر لگی ہو تو نماز جائز نہ ہو گی اور اس کا دھونا فرض ہے اور اگر درہم کے برابر ہے تو اس کا دھونا واجب ہے اگر اس کو دھوئے بغیر نماز پڑھی تو مکروہِ تحریمی ہے اور اس کا لوٹانا واجب ہے اور قضداً پڑھے تو گناہگار بھی ہو گا، اگر نجاست درہم سے کم ہے تو پاک کرنا سنت ہے بغیر پاک کئے نماز پڑھی تو نماز ہو جائے گی مگر خلاف سنت اور مکروہ تنزیہی ہو گی اور اس کا لوٹانا بہتر ہے نجاست غلیظہ یہ چیزیں ہیں آدمی کا پیشاب، پاخانہ، جانوروں کا پاخانہ ( گوبر اور مینگنی وغیرہ) حرام۔ جانور کا پیشاب، آدمی اور تمام حیوانات کا بہتا ہوا خون، شراب، مرغی، بطخ، مرغابی اور کونج کی بیٹ، منی، ندی، ودی، کچلو ہو، پیپ، قے جو منہ بھر کر آئے ، حیض و نفاس و استحاضہ کا خون وغیرہ
نجاست خفیفہ
یہ چوتھائی کپڑے یا چوتھائی عضو سے کم معاف ہے۔ نجاست غلیظہ کے علاوہ باقی تمام نجاستیں خفیفہ ہیں مثلاً گھوڑے اور حلال جانور کا پیشاب اور حرام پرندوں کی بیٹ نجاست خفیفہ ہیں جو پرندہ ہوا میں اچھی طرح اڑ نہیں سکتا مثلاً بطخ مرغی وغیرہ ان کی بیٹ نجاست غلیظہ ہیں جیسا کہ اوپر بیان ہوا اور جو پرندے بخوبی اڑتے ہیں اگر وہ حلال ہیں تو ان کی بیٹ پاک ہے اور اگر حرام ہیں تو ان کی بیٹ نجاستِ غلیظہ ہیں نجاست غلیظہ و خفیفہ کا حکم کپڑے اور بدن میں جاری ہوتا ہے پانی یا دیگر پتلی چیزوں میں جاری نہیں ہوتا یعنی اگر ان میں گر جائے تو وہ کل چیز ناپاک ہے اگرچہ اس نجاست کا ایک ہی قطرہ گرے۔ پس مائعات میں درہم اور چوتھائی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا البتہ اگر وہ پانی یا دیگر مائع جس میں نجاست واقع ہوئی ہو کپڑے یا بدن کو لگ جائے تو اب درہم و چوتھائی کا اعتبار ہو گا، نجاستوں سے جو عرق کھینچا جائے یا ان کا جوہر اڑایا جائے وہ نجس ہے
نجاست متفرق مسائل
۱. سانپ کی کھال نجس ہے اگرچہ اس کے ذبح کیا گیا ہو اس لئے وہ دباغت قبول نہیں کرتی، سانپ کی کینچلی پاک ہے
۲. سوتے ہوئے آدمی کی رال پاک ہے
۳. ریشم کے کیڑوں کا پانی اور اس کا گویا اور بیٹ پاک ہے۔
۴. چمگادڑ کا پیشاب اور بیٹ پاک ہے
۵. جانوروں کے ذبح کے بعد جو خون اس کی رگوں اور گوشت میں باقی رہتا ہے وہ پاک و حلال ہے اگرچہ بہت سا کپڑے کو لگ جائے تب بھی کپڑا ناپاک نہیں ہوتا۔ اسے کہ وہ جاری خون نہیں ہے۔
۶. جو خون بدن سے جاری نہ ہو وہ پاک ہے
۷. شہید کا خون جب تک اس کے جسم پر ہے پاک ہے
۸. سوکھا ہوا گوبر یا نجس مٹی جب ہوا سے اڑ کر گیلے کپڑے پر پڑے تو۔جب تک اس میں نجاست کا اثر (رنگ و بو) نظر نہ آئے نجس نہ ہو گا نجاستوں کے بخارات لگنے سے نجس نہیں ہوتا۔ ہوا جو گندگیوں پر گزر کر تر کپڑے پر لگے اس سے کپڑا نجس نہیں ہو گا۔ بعض کے نزدیک اگر نجاست کی بو آنے لگے تو نجس ہو جائے گا، نجاست کا دھواں کپڑے یا بدن کو لگے۔تو نجس نہیں ہوتا یہ صحیح ہے
۹. اگر پانی سے استنجاء کیا اور کپڑے سے نہ پونچھا پھر ریح خارج ہوئی تو نجس نہ ہو گا، اسی طرح اگر پاجامہ کی رومالی گیلی تھی تو وہ بھی نجس نہیں ہو گی لیکن اگر خشک ہونے پر اثر یعنی رنگ وغیرہ ظاہر ہوا تو۔نجس ہے گا
۱۰. اگر کچھ نجاست غلیظہ اور کچھ خفیفہ کپڑے یا بدن پر لگے تو اگر دونوں ایک ہی جگہ پر لگیں خفیفہ غلیظہ کی تابع ہو جائے گی اور دونوں کو جمع کر کے درہم سے زیادہ پر نماز جائز نہیں ہونے کا حکم ہو گا اور الگ الگ جگہ پر لگیں اور ہر ایک قدر مانع کو نہیں پہنچتی تو اگر غلیظہ زیادہ ہے یا دونوں مساوی ہیں تو غلیظہ کو ترجیح ہو گی اور دونوں کے جمع کر کے قدر درہم سے زائد مانع نماز ہو گی اور اگر خفیفہ زیادہ ہے تو خفیفہ کو ترجیح ہو گی اور دونوں کے مجموعہ چوتھائی حصہ تک پہنچنے پر مانع نماز ہو گا کما فی الشامی
۱۱. نوشادر پاک ہے۔
۱۲. پھل وغیرہ کے کیڑے پاک ہیں مگر ان کا کھانا درست نہیں
۱۳. کھانے کی چیزیں اگر سڑ جائیں تو ناپاک نہیں ہوتی لیکن صحت کے نقصان کے خیال سے ان کا کھانا درست نہیں ،۔
۱۴. نجاستوں سے جو کیڑے پیدا ہوتے ہیں وہ نجس ہیں۔
استنجا کا بیان
پاخانہ یا پیشاب کرنے کے بعد جو ناپاکی بدن پر لگی رہے اس کے پاک کرنے کو۔ استنجا کہتے ہیں پیشاب کرنے کے بعد مٹی کے پاک ڈھیلے سے پیشاب کے مخرج کے سکھانا چاہئے اس کے بعد پانی سے دھو ڈالنا چاہئے۔ پاخانہ کے بعد مٹی کے تین ڈھیلوں سے پاخانہ کے مقام کو صاف کرے پھر پانی سے دھو ڈالے۔ استنجا ان چیزوں سے جائز ہے جو پتھر کی طرح صاف کرنے والی ہیں ، جیسے پاک مٹی کا ڈھیلا، ریت، لکڑی، پھٹا ہوا بے قیمت کپڑا و چمڑا اور اس کے سوا ایسی چیزیں جو پاک ہوں اور نجاست کو دور کر دیں بشرطیکہ قیمت والی اور احترام۔والی نہ ہوں۔ پاک مٹی کو ڈھیلوں سے استنجا کرنا سنت ہے ڈھیلے سے استنجا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بائیں طرف زور دیکر بیٹھے ، قبلہ کی طرف منھ نہ ہو، اور ہوا، سورج اور چاند کی طرف سے بھی بچ جائے ، تین یا پانچ یا سات مٹی کے ڈھیلے اپنے ساتھ لے جائے صاف کرتے وقت پہلے ڈھیلے کو آگے سے پیچھے کی طرف لے جائے اور دوسرے کو پیچھے سے آگے کی طرف لائے پھر تیسرے کو پیچھے کی طرف لے جائے۔ یہ طریقہ گرمی کے موسم کا ہے لیکن جاڑوں میں اس کے برخلاف، پہلے ڈھیلے کو پیچھے سے آگے کی طرف لائے اور دوسرے کو پیچھے لے جائے اور تیسرے کو آگے لائے اور عورت ہمیشہ وہی طریقہ کرے جو مرد جاڑوں میں کرتا ہے۔ اور طریقہ مقصود نہیں بلکہ صفائی کا مددگار ہے اصل مقصود صفائی اور پاکی ہے خواہ جس طریقہ سے بھی حاصل ہو جائے۔ اگر ایک یا دو ڈھیلے سے صفائی حاصل ہو جاتی ہے تو تین کی گنتی پوری کر لے اور اگر تین سے بھی صفائی حاصل نہ ہو اور چار سے حاصل ہو تو پانچواں ڈھیلا اور لے تاکہ طاق ہو جائیں کیونکہ طاق عدد کا استعمال مستحب ہے۔ مستحب یہ ہے کہ پاک ڈھیلے یا پتھر دائیں طرف رکھے اور استعمال کئے ہوئے بائیں طرف رکھے اور ان کی نجس جانب نیچے کو کر دے ، ڈھیلے وغیرہ سے استنحا کرنے کے بعد پانی سے استنجا کرنا سنت ہے۔ افضل یہ ہے کہ پردہ دار جگہ ہو تو دونوں کو جمع کرے پیشاب کرنے کے بعد ڈھیلے سے استنحا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ذکر کو بائیں ہاتھ میں پکڑ کر ڈھیلے یا پتھر پر جو زمین سے اٹھا ہوا ہو یا بائیں ہاتھ میں لیا ہوا ہو حرکت دے یہاں تک کہ رطوبت خشک ہو جائے اور یہ یقین ہو جائے کہ اب پیشاب نہ آئے گا۔ بعض کے نزدیک استبراء یعنی پیشاب کے بعد چند قدم چلنا یا زمین پر پاؤں مارنا یا کھنکارنا یا دائیں ٹانگ پر بائیں ٹانگ لپیٹنا اور پھر اس کے برعکس کرنا واجب ہے۔ تاکہ رکا ہوا قطر نکل جائے ، لوگوں کی طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں اور ہر شخص کے لئے اپنا اطمینان ضروری ہے اور یہ استبراء کا حکم مردوں کے لئے ہے عورت پیشاب سے فارغ ہونے کے بعد تھوڑی دیر ٹھہر کر پہلے ڈھیلے سے مقام پیشاب کو خشک کر لے پھر پانی سے طہارت کر لے یا صرف پانی سے طہارت۔کر لے پانی سے استنجا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ہاتھ کے کلائی تک دھو لے پھر اگر روزہ دار نہ ہو پاخانہ کے مقام کو خوب ڈھیلا چھوڑ کر بیٹھے اور بائیں ہاتھ سے خوب استنجا کرے اور اسقدر دھوئے کہ اس کو پاکی کا یقین یا ظن غالب ہو اور چکنائی جاتی رہے اور دھونے میں خوب زیادتی کرے اور اگر روزہ دار ہو تو زیادتی نہ کرے اور نہ زیادہ پھیل کر بیٹھے ، دھونے کا کچھ شمار مقرر نہیں اگر وسوسہ والا شخص ہو تو اپنے لئے تین مرتبہ دھونا مقرر کر لے۔ عورت کشادہ ہو کر بیٹھے اور ہتھیلی سے اوپر اوپر دھو لے عورت مرد سے زیادہ کشادہ ہو کر بیٹھے ، پیشاب کے مقام کو پہلے دھوئے یہی مختار ہے استنجا کے پاک ہونے کے ساتھ ہی ہاتھ بھی پاک ہو جاتا ہے۔ استنجا کے بعد ہاتھ کلائیوں تک دھو لے جیسا کہ اول میں دھوتا ہے تاکہ خوب ستھرا ہو جائے۔ جاڑے میں گرمیوں کی نسبت مبالغہ کرے اور اگر گرم پانی ہو تو جاڑے کا حکم بھی گرمیوں کی طرح ہے
مکروہاتِ استنجا
۱. استنجا کرتے وقت قبلہ کی طرف کو منہ یا پیٹھ کرنا خلافِ ادب و مکروہ تنزیہی ہے
۲. ہڈی، خشک گوبر، لید، کھانے کی چیز، شیشہ، چونا، لوہا، چاندی، سونا وغیرہ پکی ٹھیکری، پکی اینٹ، پتے ، بال، روئی، کوئلہ، نمک، ریشمی کپڑا۔اور ہر قیمتی اور محترم چیز سے استنجا کرنا مکروہ ہے
۳. بلا عذر دائیں ہاتھ سے استنجا کرنا، لیکن اگر بائیں ہاتھ میں کوئی عذر ہو۔تو کراہت نہیں۔
۴. نجس چیزوں سے استنجا کرنا
۵. ایسی چیزوں سے استنجا کرنا جو نجاست صاف نہ کرے جیسے سرکہ وغیرہ ۶. ایسی چیزوں سے استنجا کرنا جس سے انسان اور اس کے جانور نفع حاصل۔کر سکیں
۷. جس پتھر یا ڈھیلے وغیرہ سے خود یا کوئی اور شخص استنجا کر چکا ہو، لیکن اگر پتھر کے کئی کونے ہوں اور ہر مرتبہ نئے کونے سے استنجا کرے تو۔کراہت نہیں۔
۸. کاغذ سے استنجا کرنا اگرچہ کورا ہو
۹. بلا اجازت کسی غیر آدمی کے پانی یا کپڑے یا کسی اور چیز سے استنجا۔کرنا ہے
۱۰. زمزم شریف سے استنجا پاک کرنا
۱۱. ایسی جگہ استنجا کرنا کہ کسی غیر شخص کی نظر اس کے ستر پر پڑتی ہو
پانی سے استنجا پانچ قسم پر ہے ، ان میں سے پہلی دو قسم کا استنجا فرض ہے ۱. مخرج کا اس وقت دھونا فرض ہے جبکہ جنابت یا حیض و نفاس کی وجہ سے غسل کرے
۲. جب نجاست مخرج سے زائد ہو خواہ تھوڑی ہو یا بہت اس میں زیادہ احتیاط ہے اور شیخین کے نزدیک جب مخرج کے علاوہ قدر رہم سے زیادہ ہو دھونا فرض ہے
۳. سنت اور وہ اس وقت جب نجاست مخرج سے بڑھے
۴. مستحب، وہ اس وقت ہے جبکہ صرف پیشاب کیا ہو اور پاخانہ نہ کیا ہو اور نجاست مخرج سے نہ بڑھے پس اس وقت پیشاب کی جگہ کو دھونا۔بعض کے نزدیک مستحب ہے اور بعض کے نزدیک سنت ہے
۵. بدعت اور وہ ریح نکلنے سے استنجا کرنا ہے۔ فصد لینے اور سونے کے بعد بھی استنجا بدعت ہے۔
مستحبات و آداب بیت الخلا
۱. جن کپڑوں سے نماز پڑھتا ہے ان کے سوا اور کپڑے پہن کر بیت الخلا میں جانا اگر ایسا نہ کر سکے تو اپنے کپڑوں کو نجاست اور مستعمل پانی سے بچانا ۲. سر کو ڈھانپ کر بیت الخلا میں جانا
۳. جنگل میں جائے تو لوگوں کی نظروں سے دور نکل جانا
۴. انگوٹھی وغیرہ جس میں اللّٰہ کا نام یا قرآن کی آیت یا کسی رسولِ یا کسی بزرگ کا نام یا حدیث وغیرہ کے الفاظ کھدے ہوں تو اسے نکال دے اگر تعویذ۔وغیرہ کپڑے میں لپٹا ہوا ہو تو ساتھ ہونے میں کراہت نہیں
۵. پاخانہ میں داخل ہونے سے پہلے یہ دعا پڑھنا بسم اللہ الرحمن الرحیم ط اللھم انی اعوذبک من الخبث والخبائث۔ ترجمہ: اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں ناپاک جنوں اور ناپاک جنیوں سے
۶. داخل ہوتے وقت پہلے بایاں پاؤں داخل کرنا باہر آتے پہلے دایاں پاؤں نکالنا
۷. کھڑے ہونے کی حالت میں ستر نہ کھولے بلکہ بیٹھنے کے قریب ہو کر۔کھولے ضرورت سے زیادہ بدن نہ کھولے
۸. دونوں پاؤں کو فاصلہ سے رکھے یعنی کھل کر بیٹھے اور بائیں پاؤں پر۔زور زیادہ دے کر بائیں طرف جھکا رہے
۹. بات نہ کرے نہ زبان و حلق وغیرہ سے اللّٰہ کا ذکر کرے ، البتہ دل میں اللّٰہ کے ذکر کا خیال کر سکتا ہے اس وقت کا ذکر اپنی نجاستوں کا احساس اور اللّٰہ پاک کی پاکی کا خیال کرنا ہے چھینک اور سلام اور اذان کا جواب نہ دے خود کو چھینک آئے تو دل میں الحمد اللّٰہ پڑھ لے زبان سے نہ پڑھے
۱۰. کسی دینی مسئلہ پر غور نہ کرے
۱۱. بلا ضرورت اپنے ستر کو نہ دیکھے۔ نہ اپنے بدن سے کھیل کرے۔ نہ آسمان کی طرف نظر اٹھائے بلاوجہ زیادہ دیر تک نہ بیٹھا رہے
۱۲. جب فارغ ہو جائے تو مقام نجاست کو صاف کر کے کھڑا ہو جائے۔ اور سیدھا ہونے سے پہلے بدن کو چھپا لے
۱۳. بیت الخلا سے باہر آ کر یہ دیا پڑھے الحمد اللہ العظیم الذی اخرج ما یو ذینی ما ینفعنی ( و بقی فی ما ینفعنی) غفرانک ربنا و الیک المصیر ط
۱۴. پانی سے استنجا کرنے کے بعد دونوں ہاتھوں کو کلائیوں تک دھونا تاکہ خوب صاف ستھرا ہو جائے
مکروہات بیت الخلا
۱. قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے پائخانہ یا پیشاب کرنا مکروہِ تحریمی ہے اگر بھول کر ایسا ہو گیا تو مستحب یہ ہے کہ قبلہ کی طرف سے جس قدر ہو سکے بچ جائے اور رخ پھیر لے ، گھر کے پاخانوں اور جنگل سب جگہ یہی حکم ہے ، عورت کے لئے چھوٹے بچے کو قبلہ کی طرف بٹھا کر فراغت کرانا مکروہ اور منع ہے اور اس کا گناہ عورت پر ہے۔
۲. پیشاب پائخانے کے وقت سورج اور چاند کی طرف منہ یا پیٹھ کرنا،۔بظاہر کراہتِ تنزیہی ہے۔
۳. بلا عذر کھڑے ہو کر یا لیٹ کر یا بالکل ننگا ہو کر پیشاب کرنا۔
۴. جاری پانی یا بند پانی یا نہر یا کنوئیں یا حوض یا چشمہ کے کنارے یا پھل دار درخت کے نیچے یا کھیتی میں یا ایسے سایہ میں جہاں بیٹھنے کا آرام۔ملے پیشاب یا پائخانہ کرنا۔
۵. مسجد یا عیدگاہ کی دیوار کے پاس یا قبرستان میں یا چوپائے جانور یا لوگوں کے بیٹھنے یا راستہ چلنے کی جگہ میں پیشاب یا پائخانہ کرنا۔ بند قلیل پانی میں پیشاب یا پائخانہ کرنا حرام ہے ، بند کثیر میں مکروہِ تحریمی اور جاری میں مکروہِ تنزیہی ہے البتہ جو لوگ دریا یا سمندر کا سفر کرتے ہیں ان کو بوجہ مجبوری جائز ہے۔
۶. مسجد میں یا مسجد کی چھت میں بول و براز کرنا حرام ہے۔
۷. نیچی جگہ پر بیٹھ کر اونچی جگہ پر پیشاب کرنا۔
۸. چوہے اور سانپ اور چیونٹی کے بل بلکہ ہر سوراخ میں پیشاب کرنا۔
۹. قافلہ یا خیمہ یا کسی مجمع کے قریب پیشاب کرنا۔
۱۰. سخت زمین پر پیشاب کرنا اگر ایسی جگہ ضرورت پڑے تو پتھر یا عصا۔وغیرہ سے کوٹ کر یا کھود کر نرم کر لے تاکہ چھینٹیں نہ اڑیں۔
۱۱. پیشاب کر کے اس جگہ وضو یا غسل کرنا یا غسل یا وضو کی جگہ میں۔پیشاب پائخانہ کرنا یہ سب باتیں مکروہ ہیں۔
٭٭٭
ماخذ:
مواد کی فراہمی میں تعاون: سعادت
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید