FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

مختلف معاشروں میں عورت کی حیثیت

 

 

 

 

اشفاق احمد

 

 

 

 

 

ابتدائیہ

 

 

عورت جسے اگر ایک وقت میں جنس لطیف، وجہِ سکون اور صنف نازک کے خوب صورت الفاظ سے تعبیر کیا گیا تو دوسرے لمحے اُسے لونڈی، داشتہ اور وجہِ شر و فساد بھی قرار دیا گیا۔

درحقیقت عورت اور مرد نوع انسانی کے دو جزو ہیں اور ہر جزو دوسرے جزو کا لازمی حصہ ہے، انسانی معاشرہ کو اگر گاڑی سے تشبیہ دی جائے تو مرد و عورت اس گاڑی کے دو پہیے ہیں ان میں سے ایک پہیہ بھی نکل جائے یا اُس میں نقص آ جائے تو گاڑی نہ صرف اپنا توازن برقرار نہ رکھ پائے گی بلکہ اپنی خصوصیت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گی۔

بقول ڈاکٹر خالد علوی

یہ بات مسلم ہے کہ عورت معاشرے کا ایک ایسا ناگزیر عنصر ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، بلکہ سماجی اور تمدنی اصلاح و بقا کا انحصار تقریباً اسی نوع کی حیثیت پر ہے۔ عورت کی حیثیت، اس کا کردار و عمل اور اس کی حیات بخش صلاحیتیں معاشرے کے عروج و زوال کا سامان ہیں ۔۱؎

لیکن حقیقت یہ ہے کہ عورت کو انسانی معاشرے نے اُس کا صحیح حق نہیں دیا۔ البتہ اسلام جو ایک نظام حیات کے طور پر آیا تھا، نے اس مسئلہ پر خصوصی توجہ دی۔

عورت کی عزت و شرف اور اہمیت و افادیت کے بارے میں اسلام کی عملی اور فکری کوششیں کیا تھی۔ اس سوال سے پہلے بہتر ہو گا کہ قبل از اسلام معاشرے میں عورت کی حیثیت اور مختلف تہذیبوں میں اُس کے مقام کے بارے میں جائزہ لیا جائے۔ ذیل میں اسی حوالہ سے بحث درج ہے۔

 

 

 

قبل از اسلام عرب میں عورت کی حیثیت

 

 

دنیا کے مختلف معاشروں میں بنیادی خرابی اس امر سے پیدا ہوئی کہ عورت اور مرد کے درمیان تخلیقی طور پر امتیاز رکھا گیا، اور عورت کو ہمیشہ کم تر اور کم اہم سمجھا گیا جبکہ مرد برتر اور اہم حیثیت کا حامل رہا۔ یہی وجہ تھی کہ قبل از اسلام عورت کو اس کے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا، یہ صنف بھیڑ بکریوں کی طرح بکتی تھی، ظلم کی انتہا یہ تھی کہ لڑکی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا، کیونکہ اس کی پیدائش نہ صرف منحوس تصور کی جاتی تھی، بلکہ باعث ذلت سمجھی جاتی تھی۔ قرآن مجید نے اس بھیانک منظر کی یوں عکاسی کی ہے۔

وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌۚ    ۝۵۸ یَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ١ؕ اَیُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِ١ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ         ۝۵۹ ۲؎

اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خبر ملتی ہے تو اس کا چہرہ غم کے سبب کالا پڑ جاتا ہے، اور اس کے دل کو دیکھو تو وہ اندوہناک ہو جاتا ہے، اور اس جز کی وجہ سے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ آیا ذلت برداشت کر کے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمیں میں دفنا دے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک طرف تو بعض عربوں کے ہاں یہ عقیدہ تھا کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں اور ان کی سفارش سے مشکلات حل ہوتی ہیں ، تو دوسری طرف وہ انہی بیٹیوں سے نجات حاصل کرنے کے درپے رہتے اور انہیں شدید ذہنی، اخلاقی اور جسمانی دباؤ میں رکھتے، قرآن حکیم نے ان کے اس رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔

وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌ   ۝۱۷ ۳؎

اور جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی خوشخبری دی جاتی ہے،جو انہوں نے اللہ کے لیے بیان کی ہے تو اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غم سے بھر جاتا ہے۔

مولانا حالی نے عربوں کے اس رواج کو کچھ یوں پیش کیا ہے۔۴؎

جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر

تو خوف شماتت سے بے رحم مادر

پھر سے دیکھتی جب تھی شوہر کے تیور

کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جا کر

وہ گود اپنی نفرت سے کرتی تھی خالی

جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی

 

دارمی کی ایک روایت ہے جس میں ایک شخص نے بتایا کہ وہ زمانہ جاہلیت میں کس طرح اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے۔ روایت ملاحظہ ہو۔

عن الوفین ان اجلا اتی النبیؐ فقال یا رسول اﷲ ان کنا اھل جاہلیۃ وعبادۃ اوثان فکنا نقتل الاولاد وکانت عندی ابنۃ لي فلما اجابت وکانت مسرورۃ بدعائي اذا دعوتھا فدعوتھا یوم فاتبعتني فمررت حتی اتیت بئراً من اھلي غیر بعید فأخذت بیدھا فردیت بھا فی البئر وکان آخر عہدی بھا ان تقول یا ابتاہ یا ابتاہ فبکی رسول اﷲ ؐ حتی وکف دمع عینیہ فقال لہ رجل من جلساء رسول اﷲ احزنت رسول اﷲ فقال لہ کف فانہ یسأل عما اھمہ ثُم قال لہ اعدعلي حدیثک فأعادہ فبکی حتی وکف الدمع من عینیہ علی لحیتہٖ ثم قال لہ ان اﷲ قد وضع عن الجاھلیۃ ما عملوا فاستأنف عملک۔

وفین فرماتے ہیں رسول اﷲ ؐ کے حضور ایک شخص عرض گزار ہوا کہ اسے اللہ کے رسول جاہلیت میں ہمارے دینی مشاغل بتوں کی پوجا اور اولاد کو اپنے ہاتھوں قتل کرنا ہماری قومی وجاہت تھی، میری اپنی یہ کہانی ہے کہ میری ایک بیٹی تھی، جب میں اس کو بُلاتا تو دوڑ کر میرے پاس آتی، ایک دن وہ میرے بلانے پر خوش خوش دوڑی آئی، میں آگے بڑھا اور وہ میرے پیچھے چلی آئی، میں آگے بڑھتا چلا گیا، جب میں ایک کنویں کے پاس پہنچا جو میرے گھر سے زیادہ دور نہ تھا، اور لڑکی اس کے قریب پہنچی تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کنوئیں میں ڈال دیا، وہ مجھے ابا ابا کہہ کر پکارتی رہی اور یہی اس کی زندگی کی آخری پکار تھی، رسول اللہ اس پُر درد افسانے کو سن کر آنسو ضبط نہ کر سکے، ایک صحابی نے اس شخص کو ملامت کی کہ تم نے حضورؐ کو غمگین کر دیا، فرمایا اس کو چھوڑ دو کہ جو مصیبت اس پر پڑی ہے وہ اس کا علاج پوچھنے آیا ہے، پھر اُس شخص سے فرمایا اپنا قصہ پھر سناؤ، اس نے دوبارہ پھر بیان کیا تو آنحضرتؐ کی یہ حالت ہوئی کہ روتے روتے ریش مبارک تر ہو گئی پھر فرمایا جاؤ کہ جاہلیت کے گناہ اسلام کے بعد معاف ہو گئے اب نئے سرے سے اپنا عمل شروع کرو۔ ۵؎

قبیلہ بنی تمیم کے رئیس قیس بن عاصم جب اسلام لائے تو اُنہوں نے بھی لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا اپنا واقعہ سنایا۔ تفسیرابن جریر میں ہے۔

عن قتادہ، قال: جاء قیس بن عاصم التمیمی إلی النبیؐ فقال: إني وأدت ثمانی بنات فی الجاھلیۃ، قال، ’’فأعتیق عن کل واحدۃٍ برنۃ‘‘۔۶؎

قتادہ روایت کرتے ہیں کہ قیس بن عاصم آنحضرتؐ کے پاس آئے اور کہا کہ میں نے اپنے ہاتھ سے آٹھ لڑکیاں زندہ دفن کی ہیں زمانہ جاہلیت میں ، آپؐ نے فرمایا ہر لڑکی کے کفارہ میں ایک اونٹ قربانی کرو۔

عربوں میں مرد کے لیے عورتوں کی کوئی قید نہ تھی، بھڑ بکریوں کی طرح جتنی چاہتا، عورتوں کو شادی کے بندھن میں باندھ لیتا تھا۔ کتب احادیث میں ان اشخاص کا ذکر موجود ہے جو قبول اسلام سے پہلے چار سے زیادہ بیویاں رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے۔

عن حارث بن قیس قال: اسلمت وعندی ثمان نسوۃ، فذکرت ذلک للنبیؐ، فقال النبیؐ ’’اختر منھن اربما‘‘۔۷؎

حارث بن قیس کہتے ہیں کہ میں اسلام لایا تو میری آٹھ بیویاں تھیں ، میں نے نبیؐ سے اس کا ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا ان میں سے چار کو اختیار کر لو۔

اسی طرح جامع ترمذی میں ہے کہ:

عن ابن عمر، غیلان بن سلمۃ الثقفی أسلم و لہ عشر نسوۃٍ فی الجاہلیۃ، فأ سلمن معہُ، فأمرہ النبی ان یتخیر اربعا منھن۔۸؎

حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ غیلان بن سلمہ ثقفی اسلام لائے تو دور جاہلیت کی اُن کے پاس دس بیویاں تھیں ۔ پس وہ بھی اسلام لے آئیں حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ ان میں سے چار کو منتخب کر لو۔

’’عربوں میں عورتوں اور بچوں کو میراث سے ویسے ہی محروم رکھا جاتا تھا اور لوگوں کا نظریہ یہ تھا کہ میراث کا حق صرف ان مردوں کو پہنچتا ہے جو لڑنے اور کنبے کی حفاظت کرنے کے قابل ہوں ، اس کے علاوہ مرنے والوں کے وارثوں میں جو زیادہ طاقت ور اور با اثر ہوتا تھا وہ بلا تامل ساری میراث سمیٹ لیتا تھا۔‘‘ ۹؎

عبدالرحمن خان صاحب کے بقول:

بلاد عرب کے حالات بھی یورپ سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھے، وہاں بھی عورتیں دوسرے مال منقولہ کی طرح مرد کی ملکیت سمجھی جاتی تھی، اس کی حیثیت بالکل چوپائیوں کی سی تھی اور چوپائیوں کے ساتھ ہی اکثر جہیز میں دی جاتی تھی، اسے محض لذت کشی کا آلہ تصور کیا جاتا تھا، ناجائز تعلقات کی وسعت کی وجہ سے موجودہ یورپ کی طرح وہاں کا نظام بھی درہم برہم ہو چکا تھا، ان کا طرز نکاح بے غیرتی کا پورا آئینہ تھا۔ ۱۰؎

عرب میں عورت کو ذلیل کرنے اور اُسے تنگ کرنے کے لیے ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ جب کوئی مرد اپنی بیوی کو گھر سے نکالنا چاہتا تو ایسے نکالتا کہ نہ اُسے طلاق یعنی آزادی دیتا اور نہ ہی گھر میں بحیثیت بیوی کے اپنے پاس رکھتا، جناب عبدالصمد صارم کے بقول:

عرب میں عورت ایک قابل استعمال شے سمجھی جاتی تھی، تعدد ازدواج کی کوئی حد مقرر نہ تھی، بعض شریر، عورتوں کو برسوں معلق کر کے رکھتے تھے، ترکہ میں عورت کا کوئی حق نہ تھا، وہ کسی چیز کی مالک نہ تھی۔۱۱؎

قرآن عظیم کی درج آیت ایسے ہی موقع کے بارے میں اتری ہے۔

فَلَا تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْھَا کَالْمُعَلَّقَۃِ۔ ۱۲؎

اسے معلق نہ رکھو یا  تو اچھی طرح حسنِ معاشرت کرو یا اچھی طرح رخصت کر دو۔

مستدرک حاکم میں بھی ایک روایت مذکورہ بالا رسم کے ثبوت میں ملتی ہے۔

عن عائشۃ قالت کان الرجل یطلق امرأتہ ماشاء ان یطلقھا وان طلقھا مائۃ او اکثر اذا ارتجعھا قبل ان تنقفی عدتھا حتی قال الرجل لا مراتہ واﷲ طلقھا مائۃ او اکثر اذا ارتجمھا قبل ان تنقفی عدتھا حتی قال الرجل لا امرأتہ واﷲ لا اطلقک فتبیني منی ولا آویک الی قالت وکیف ذاک قال اطلقک وکلما قاربت عدتک ان تنقضی ارتجعتک ثم اطلقک وافعل ذالک نشکت المرأۃ ذالک الی عائشہ۔۱۳؎

عرب معاشرے میں بلا شبہ بعض اوقات عورت کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہو جاتا تھا لیکن مجموعی طور پر وہ کبھی بھی حاکم یا مالکہ نہ بن سکتی تھی بلکہ اپنی زندگی کے سفر کا فیصلہ بھی خود نہ کر سکتی تھی، مولانا صفی الرحمن مبارکپوری نے اس حوالے سے خوبصورت عکاسی کی ہے لکھتے ہیں :

بسا اوقات عورت چاہتی تو قبائل کو صلح کے لیے اکٹھا کر دیتی اور چاہتی تو ا ن کے درمیان جنگ اور خونریزی کے شعلے بھڑکا دیتی، لیکن ان سب کے باوجود بلا نزاع مرد ہی کو خاندان کا سربارہ مانا جاتا تھا اور اس کی بات فیصلہ کن ہوا کرتی تھی……… عورت کو یہ حق نہ تھا کہ ان (اولیاء) کی ولایت کے بغیر اپنے طور پر اپنا نکاح کر لے۔۱۴؎

مملکت سبا، جو عرب کا ہی ایک حصہ اور ریاست تھی وہاں بھی عورتوں کی حیثیت ناگفتہ بہ تھی، ایک عورت کئی مردوں کے ساتھ شادی کرتی تھی اور اہل خانہ میں باہمی فسق و فجور کا بازار گرم رہتا تھا اور اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ بدکاری کرنے کا عام رواج تھا۔۱۵؎

ان کی جاہلانہ رسوم میں سے ایک رسم ایسی بھی تھی جس سے عورت کی بے بسی کے ساتھ ساتھ اُس پر بد اعتمادی کا کھُلا اظہار ہوتا ہے، وہ رسم یہ تھی کہ جب کوئی شخص سفر پر جاتا تو ایک دھاگا کسی درخت کی ٹہنی کے ساتھ باندھ دیتا یا اُس کے تنے کے اردگرد لپیٹ دیتا، جب سفر سے واپس آتا تو اُس دھاگے کو دیکھتا، اگر وہ صحیح سلامت ہوتا تو وہ سمجھتا کہ اس کی بیوی نے اس کی غیر حاضری میں کوئی خیانت نہیں کی اور اگر وہ اسے ٹوٹا ہوا یا کھُلا ہوا پاتا تو خیال کرتا کہ اُس کی بیوی نے اس کی غیر حاضری میں بدکاری کا ارتکاب کیا ہے، اس دھاگے کو ’’الرتم‘‘ کہا جاتا۔۱۶؎

 

 

یونان میں عورت

 

 

اگر ہم انسانی تاریخ میں تہذیب کے آثار کا پتہ چلائیں تو ہمیں اس کا سب سے پہلا قدیم نشان یونان میں ملتا ہے، انہوں نے دنیا میں انصاف اور انسانی حقوق کے دعوے کئے اور علوم و فنون میں ترقی کی بقول ڈاکٹر خالد علوی:

مسلمان علمائے معاشرت نے اسلام سے پہلے کے معاشرتی حالات کو یونان سے شروع کیا ہے، کیونکہ یونان علم و تمدن کی دنیا میں امام کے فرائض انجام دے چکا ہے، بیشتر علمی، سیاسی، معاشرتی، تعلیمی اور فلسفانہ نظریات کی نسبت یونان کی طرف کی جاتی ہے یونان نے سیاسی اور معاشرتی استحکام کی طرح ڈالی۔۱۷؎

مگر اس ترقی اور دعووں کے باوجود عورت کا مقام کوئی عزت افزا نہیں تھا، ان کی نگاہ میں عورت ایک ادنی درجہ کی مخلوق تھی اور عزت کا مقام صرف مرد کے لیے مخصوص تھا، سقراط جو اس دور کا فلسفی تھا اس کے الفاظ میں :

عورت سے زیادہ فتنہ و فساد کی چیز دنیا میں کوئی نہیں وہ دفلی کا درخت ہے کہ بظاہر بہت خوب صورت معلوم ہوتا ہے لیکن اگر چڑیا اُس کو کھا لیتی ہے تو وہ مر جاتی ہے۔۱۸؎

یونانی فلاسفروں نے مردو عورت کی مساوات کا دعویٰ کیا تھا لیکن یہ محض زبانی تعلیم تھی۔ اخلاقی بنیادوں پر عورت کی حیثیت بے بس غلام کی تھی اور مرد کو اس معاشرے میں ہر اعتبار سے فوقیت حاصل تھی۔

عبدالصمد صارم پروفیسر ہنری مارٹن کے حوالے سے رقمطراز ہیں کہ:

یونانی عورت عمر بھر پابند رہتی تھی، اس کو اپنی ذات پر کسی قسم کا اختیار نہ تھا، وہ اپنے معاملات میں کسی قسم کا تصرف نہ کر سکتی تھی۔۱۹؎

ڈاکٹر خالد علوی تاریخ اخلاق یورپ کے حوالے سے یونان میں عورت کی حیثیت کے بارے میں لکھتے ہیں :

بہ حیثیت مجموعی با عصمت یونانی بیوی کا مرتبہ انتہائی پست تھا اس کی زندگی مدۃ العمر غلامی میں بسر ہوتی تھی، لڑکپن میں اپنے والدین کی، جوانی میں اپنے شوہر کی، بیوگی میں اپنے فرزندوں کی وراثت میں ہوتی تھی۔ اس کے مقابلے میں اس کے مرد وغیرہ کا حق ہمیشہ راجح سمجھا جاتا تھا، طلاق کا حق اسے قانوناً ضرور حاصل تھا تاہم عملاً وہ اس سے بھی کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتی تھی کیونکہ عدالت کا اس کا اظہار یونانی ناموس و حیاء کے منافی تھا…………۲۰؎

عام طور پر یونانیوں کے نزدیک عورت گھر اور گھر کے اسباب کی حفاظت کے لیے ایک غلام کی حیثیت رکھتی تھی اس میں اور اس کے شوہر کے غلاموں میں بہت کم فرق تھا وہ اپنی مرضی کے ساتھ نکاح نہیں کر سکتی تھی، بلکہ اس کے مشورے کے بغیر لوگ اس کا نکاح کر دیتے تھے، وہ خود بمشکل طلاق لے سکتی تھی، لیکن اگر اس سے اولاد نہ ہو یا شوہر کی نگاہوں میں غیر پسندیدہ ہو تو اس کو طلاق دے سکتا تھا۔ مرد اپنی زندگی میں جس دوست کو چاہتا، وصیت میں اپنی عورت نذر کر سکتا تھا، اور عورت کو اس کی وصیت کی تعمیل مکمل طور پر کرنا پڑتی تھی، عورت کو خود کسی چیز کے فروخت کرنے کا اختیار نہ تھا …… غرض وہاں عورت کو شیطان سے بھی بدتر سمجھا جاتا تھا، لڑکے کی پیدائش پر خوشی اور لڑکی کی پیدائش پر غم کیا جاتا تھا۔۲۱؎

سید ابوالاعلیٰ مودودی کے بقول:

یونانی خرافیات (Mythology) میں ایک خیالی عورت پانڈورا (Pandora)کو اسی طرح تمام انسانی مصائب کا موجب قرار دیا گیا تھا جس طرح یہودی خرافیات میں حضر حوا ؑ کو برا قرار دیا گیا ہے۔۲۲؎

افلاطون کے مطابق:

جتنے ذلیل و ظالم مرد ہوتے ہیں وہ سب نتائج کے عالم میں عورت ہو جاتے ہیں ۔۲۳؎

افلاطون آزادہ اختلاط کا قائل تھا۔ اس کے نزدیک:

آزادانہ اختلاط کرنے والے مرد اور عورتیں ممتاز صلاحیتوں کے مالک ہوں گے اور ان کی اولاد بھی یقیناً دوسرے لوگوں سے اعلی و برتر ہو گی۔۲۴؎

اہل یونان دیوتاؤں کے مندروں میں بڑے قیمتی نذرانے پیش کرتے تھے اور منقولہ و غیر منقولہ جائدادیں ان کے نام وقف کی جاتی تھیں ، خاص مشکل کے حل کے لیے انسانی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا جاتا، ایگامیمنون‘ ٹرائے کی جنگ میں یونانیوں کا سپہ سالار تھا وہ چاہتا تھا کہ دیوی آرٹومس اس پر مہربان ہو جائے جس نے غلط سمت میں ہوائیں چلا کر ٹرائے کے خلاف اس کی مہم میں رکاوٹ پیدا کر رکھی تھی، چنانچہ اس نے اس دیوی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی جواں سال بیٹی اینی گنیا کو اس کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیا۔۲۵؎

 

 

روم میں عورت کی حیثیت و حالت

 

 

یونانیوں کے بعد جس قوم کو دنیا میں عروج نصیب ہوا، وہ اہل روم تھے، رومی معاشرے کو تہذیب و تمدن کا گہوارہ تصور کیا جاتا ہے، لیکن اس معاشرے میں بھی عورت کو اس کی حیثیت اور حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔

ولادت سے لے کر وفات تک بیچاری کی حیثیت محض ایک قیدی کی سی رہی، یونانیوں اور ہندوستانیوں کی طرح رومیوں کے دل بھی عورت کے معاملے میں رحم و مرّوت سے قطعی محروم تھے، سنگدلی اور شقاوت قلبی کا عالم یہ تھا کہ عورت کو اپنی عصمت و عفت اور ناموس و حیا کے تحفظ کے لیے کوئی حقوق حاصل نہ تھے، مرد کو اپنی بیوی کے چال چلن کے متعلق اگر رائی بھر شبہ ہوتا تو وہ اسے قانونی طور پر موت کے گھاٹ اُتار دینے کا حق رکھتا تھا۔ اس کی موت کے لیے وہ کیا آلہ یا ذریعہ اختیار کرے، اس بارے میں بھی مرد کو اپنی خواہش پر مکمل اختیار تھا۔۲۶؎

تاریخِ اخلاق یورپ کا مؤلف لکھتا ہے:

قانون نے عورت کے شخصی استقلال کو تسلیم نہیں کیا تھا، اس کی حیثیت ایک غلام کی تھی، وہ باپ کی غلامی سے نکل کر خاوند کی غلامی میں آ جاتی، اس کے کوئی حقوق تھے نہ خاوند کے فرائض، باپ کو اختیار تھا کہ وہ بیٹی کی شادی جہاں چاہے کرے، اور اگر اس کی مرضی نہ ہو تو عین شادی کی رسوم کے وقت اسے منسوخ کر سکتا تھا۔۲۷؎

مولانا ابو الکلام آزاد رومن سلطنت کے زوال میں عورت کی حیثیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔

رومانی مردوں نے اپنی عورتوں پر گوشت کھانا، ہنسنا بولنا اور بات چیت کرنا بھی حرام قرار دے دیا، یہاں تک کہ ان کے منہ پر’’موزسیر‘‘ نامی ایک مستحکم قفل لگا دیا، تاکہ وہ کہنے ہی نہ پائے۔ یہ حالت صرف عام عورتوں کی نہیں تھی بلکہ رئیس و امیر، کمینے اور شریف، عالم و جاہل سب کی عورتوں پر ہی آفت طاری ہوئی۔۲۸؎

رومیوں کے ہاں عورت کو ہر قسم کے مذہبی، قانونی و اخلاقی حقوق سے محروم رکھا گیا تھا، وہ جنس کی طرح کی چیز تھی جو کسی کی ملکیت ہوتی ہے، جائیداد کی طرح اُسے بھی خرید و فروخت اور لین دین کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ بقول مولانا عبد القیوم ندوی:

رومی، عورت کو شوہر کی ملکیت قرار دیتے تھے اور منجملہ جائیداد منقولہ میں اسے بھی شمار کرتے تھے۔۲۹؎

سید جلال الدین روم میں عورت کی حیثیت و حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

غلاموں کی طرح عورت کا مقصد بھی خدمت اور چاکری سمجھا جاتا تھا، مرد اسی غرض سے شادی کرتا تھا کہ بیوی سے فائدہ اُٹھا سکے گا، وہ کسی عہدہ کی اہل نہیں سمجھی جاتی تھی، حتی کہ کسی معاملے میں اس کی گواہی تک کا اعتبار نہیں تھا۔ رومی سلطنت میں اس کو قانونی طور پر کوئی حق حاصل نہ تھا۔۳۰؎

اہل روم کا تہذیبی ارتقاء بذاتِ خود افراط و تفریط کا ایک انتہائی نمونہ پیش کرتا رہا تھا ایک وہ وقت تھا کہ جب ’’ایک مرتبہ رومی سینٹ کے ایک ممبر نے اپنی بیٹی کے سامنے اپنی بیوی کا بوسہ لیا تو اس کی قومی اخلاق کی سخت توہین سمجھا گیا، اور سینٹ میں اس پر ملامت کا ووٹ پاس کیا گیا۔‘‘ ۳۱؎

اور پھر نام نانہاد تہذیب و ترقی کا وہ دور بھی آیا کہ جب ازدواجی تعلق کی ذمہ دار بھی نہایت ہلکی تصور کی جانے لگی، قانون نے عورت کو باپ اور شوہر کے اقتدار سے بالکل آزاد کر دیا،مولانا مودودی اس دور کی عکاسی اُسی تہذیب کے فلاسفر اور مصنفین کے ذریعے کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔

اس دور میں عورت یک بعد دیگرے کئی کئی شادیاں کرتی جاتی تھی مارشل (۴۳ تا ۱۰۴ء) ایک عورت کا ذکر کرتا ہے جو دس خاوند کر چکی تھی، جو دنیل (۶۰ء تا ۱۳۰ئ) ایک عورت کے متعلق لکھتا ہے کہ اس نے پانچ سال میں آٹھ شوہر بدلے، سینٹ جروم(۳۴۰ء تا ۴۲۰ء) ان سب سے زیادہ ایک با کمال عورت کا حال لکھتا ہے جس نے آخری بار تیسواں شوہر کیا تھا، اور اپنے شوہر کی بھی وہ اکیسوی بیوی تھی۔۳۲؎

 

 

 

ایران میں عورت

 

 

عورت کو انسانیت کے مرتبے سے گرا کر قعر مذلت میں رومی اور یونانی تہذیب ہی نے نہیں دھکیلا بلکہ اہل ایران بھی اس میں پیش پیش رہے۔ انکی اخلاقی حالت انتہائی شرمناک تھی، ان کی کتاب اخلاق میں باپ، بیٹی اور بہن کی کوئی تمیز نہ تھی۔۳۳؎

بقول پروفیسر آرتھ کرسٹن سین:

محرمات سے شادی کرنا نہ صرف یہ کہ گناہ نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ مذہبی نقطۂ نظر سے وہ کار ثواب تھا۔۳۴؎

وہ خون کے قریب تر رشتوں میں شادی کر سکتا تھا اور جتنی بیویوں کو چاہتا طلاق دے سکتا تھا، ایران میں زمانۂ قدیم سے یہ دستور تھا کہ عورتوں کی حفاظت کے لیے مردوں کو ملازم رکھا جاتا، نیز یونان کی طرح یہاں بھی خواصوں اور داشتہ عورتوں کو رکھنے کا طریقہ عام تھا اسے نہ صرف مذہباً جائز قرار دیا گیا تھا بلکہ یہ ایرانیوں کی سماجی زندگی کا خاصہ بن گیا تھا۔۳۵؎

سید امیر علی ڈولنجر کی کتاب "The Gentile and the Jew” کے حوالے سے زمانہ نبوت کے وقت ایران کی اخلاقی حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

The corruption of morals in Persia about the time of the Prophet was deplorable. There was no recognised law of marriage, or, if any existed, it was completely ignored. In the absence of any fixed rule in the Zend-Avesta as to the number of wives a man might possess, the Persians indulged in a multituude of regular matrimonial connections, besides having a number fo concubines. ۳۶؎

زمانہ نبوت کے وقت ایران کی اخلاقی حالت دگرگوں تھی، شادی کا کوئی مصروف قانون موجود نہ تھا، اگر کوئی تھا تو وہ نظر انداز کر دیا گیا تھا، زنداوستا میں کوئی مقرر قانون نہ ہونے کی وجہ سے مرد کئی بیویاں رکھتے تھے، اس کے علاوہ ان کی داشتائیں بھی ہوتی تھی اور دوسری عورتوں سے ناجائز تعلقات بھی ہوتے تھے۔

ایرانی معاشرے میں عورت کی کوئی حیثیت نہ تھی اور اگر کسی درجے پر اُسے اہمیت بھی دی جاتی تو ایک غلام کی سی اہمیت مل پاتی۔

شوہر مجاز تھا کہ اپنی بیوی یا بیویوں میں سے ایک کو خواہ وہ بیاہتا بیوی ہی کیوں نہ ہو، کسی دوسرے شخص کو، جو انقلاب روزگار سے محتاج ہو گیا ہو، اس غرض کے لیے دے دے کہ وہ اس کسب معاش کے کام میں مدد لے، اس میں عورت کی رضا مندی نہ لی جاتی عورت کو شوہر کے مال و اسباب پر تصرف کا حق نہیں ہوتا تھا، اور اس عارضی ازدواج میں جو اولاد ہوتی تھی، وہ پہلے شوہر کی سمجھی جاتی تھی، یہ مفاہمت ایک باضابطہ قانونی اقرار نامے کے ذریعے سے ہوتی تھی …… قانون میں بیوی اور غلام کی حالت ایک دوسرے سے مشابہ تھی۔۳۷؎

ایران میں بھی عرب کی طرح لڑکوں کی پیدائش پر انتہائی خوشی جبکہ بیٹی کی پیدائش پر مایوسی کا اظہار کیا جاتا تھا، جب بیٹا پیدا ہوتا تو شکر خدا کے اظہار کے لیے بہت سی مذہبی رسوم ہوتی تھیں جنہیں خوشی اور دھوم دھام سے ادا کی جاتا تھا، صدقے دیے جاتے تھے، لیکن جب بچی پیدا ہوتی تو ویسی دھوم دھام نہ ہوتی جس طرح بچے کی پیدائش پر ہوتی۔ بقول آرتھر کرسٹن سین:

بچہ پیدا ہونے پر باپ کے لیے لازمی تھا کہ شکرِ خدا کے اظہار کے لیے خاص مذہبی رسوم ادا کرے اور صدقہ دے، لیکن لڑکی کے پیدا ہونے پر ان رسموں میں اس قدر دھوم دھوم نہیں ہوتی تھی، جتنی کہ لڑکے کے پیدا ہونے پر۔۳۸؎

ایرانیوں کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ عورت ناپاک ہے اوراُس کی نظر بد کا اثر ہوتا ہے، اور خاص طور پر اگر کسی بچے پر اُس کی نظر بد پڑ گئی تو اس بات کا خوف رہتا تھا کہ بچے پر کوئی نہ کوئی بدبختی ضروری آئے گی اس لیے:

بچے کو نظر بد سے بچانا نہایت ضروری سمجھا جاتا تھا، بالخصوص اس بات کی احتیاط کی جاتی تھی کہ کوئی عورت اس کے پاس نہ آئے تاکہ اس کی شیطانی ناپاکی بچے کے لیے بدبختی کا باعث نہ ہو۔۳۹؎

 

 

یہودیت اور عورت

 

 

ہنود و یہود کی تاریخ ہو کہ عیسائیت کی مہذب و متمدن دنیا، قبل از اسلام مذاہب عالم کے مصلحین نے عورت کی عظمت و رفعت اور قدر و منزلت سے ہمیشہ انکار کیا، اور ایک اکثریت عورت کو بے زبان و پابجولاں جانور ہی سمجھتی رہی۔

یہودیت کا شمار دنیا کے ان مذاہب میں ہوتا ہے ، جنہوں نے نہ صرف چند عقائد و نظریات ہی نہیں پیش کئے بلکہ ان کی بنیاد پر زندگی کے عملی مسائل سے بھی تفصیلی بحث کی ہے، ایسے ایک مذہب سے یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ عورت کے بارے میں حقیقت پسندانہ خیالات کا اظہار کرے گا، لیکن تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ایسا نہیں ہوا بلکہ یہاں بھی باقی مذاہب کی طرح عورت کی حیثیت دگرگوں رہی۔

یہودیت نے عورت کو جو حیثیت دی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت مکمل طور پر مرد کی غلام ہے اور اس کی محکوم ہے، وہ مرد کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتی، حقوق ملنے کی بات تو ایک طرف رہی، اُسے تمام گناہوں کی جڑ قرار دیا گیا۔

بائبل کے مطابق واقعہ آدمؑ و حوّا میں ’’حوّا‘‘ کو مجرم قرار دیا گیا، اس لیے حوّا کی بیٹیاں ہمیشہ محکوم رہیں گی، عہد نامہ قدیم میں آتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے دریافت کیا۔

کیا تو نے اس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت میں نے تجھے حکم دیا تھا کہ اسے نہ کھانا، آدم نے کہا کہ جس عورت کو تو نے میرے ساتھ کیا ہے، اُس نے مجھے اس درخت کا پھل دیا اور میں نے کھایا، تب خداوند نے عورت سے کہا کہ تو نے یہ کیا کہا؟ عورت نے کہا کہ سانپ نے مجھ کو بہکایا تو میں نے کھایا، اور خداوند نے سانپ سے کہا اس لیے کہ تو نے یہ کیا، تو سب چوپایوں اور دشتی جانوروں میں ملعون ٹھہرا۔ تو اپنے پیٹ کے بل چلے گا اور اپنی عمر بھر خاک چاٹے گا، اور میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا، وہ تیرے سر کو کُچلے گا اور تو اس کی ایڑی پر کاٹے گا، پھر اُس نے عورت سے کہا کہ میں تیرے دردِ حمل کو بڑھاؤں گا، تو درد کے ساتھ بچے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہو گی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا۔۴۰؎

مذکورہ بالا آیات سے واضح ہوتا ہے کہ دراصل حوا نے ہی آدمؑ کو گمراہ کیا اس لیے اس جرم کی سزا اُسے یہ دی گئی کہ وہ حمل اور ولادت کے عمل سے انتہائی تکلیف دہ صورت کا سامنا کرے گی۔ علاوہ ازیں وہ ہمیشہ محکوم رہے گی اور مرد کا غلبہ اور اسکی حاکمیت اُس پر رہے گی اسی فلسفہ کا نتیجہ ہے کہ یہودی شریعت میں مرد کا اقتدار و تصرف اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ:

اگر کوئی عور ت خداوند کی منت مانے اور اپنی نوجوانی کے دنوں میں اپنے باپ کے گھر ہوتے ہوئے اپنے اوپر کوئی فرض ٹھہرائے اور اس کا باپ جس دن یہ سُنے، اسی دن اُسے منع کر دے تو اس کی کوئی منت یا کوئی فرض، جو اُس نے اپنے اوپر ٹھہرایا ہے، قائم نہیں رہے گا اور خداوند اس عورت کو معذور رکھے گا۔ ۴۱؎

یہودیت میں عورت کو جو حیثیت دی گئی ہے وہ کسی غلام و محکوم سے بڑھ کر نہیں ، عورت مکمل طور پر مرد کی دست نگر ہے۔ وہ مرد کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتی، مرد جب چاہے اُسے گھر سے نکال دے طلاق دے دے، مگر عورت کبھی بھی مرد سے طلاق طلب نہ کرے یہاں تک کہ مرد میں بے پناہ ہی عیوب کیوں نہ ہوں ۔

اگر کوئی مرد کسی عورت سے بیاہ کرے اور پیچھے اُس میں کوئی ایسی بے ہودہ بات پائے جس سے اُس عورت کی طرف اُس کی النفاقت نہ رہے تو وہ اس کا طلاق نہ لکھ کر اُس کے حوالے کرے اور اسے اپنے گھر سے نکال دے۔۴۲؎

مطلب یہ کہ اگر مرد کا اپنی عورت سے جی بھر گیا ہے تو وہ کسی بھی معاملے یا عمل کو بے ہودہ قرار دیتے ہوئے نہ صرف عورت سے جان چھڑا سکتا ہے بلکہ انتہائی تکلیف دہ صورت کے ساتھ اُسے ہمیشہ کے لیے علیحدہ کر سکتا ہے۔

عائلی زندگی کے علاوہ عورت وصیت، شہادت اور وراثت جیسے حقوق سے بھی محروم تھی، وراثت میں تو اُس کا کوئی حصہ نہ ہوتا تھا۔

عبد القیوم ندوی لکھتے ہیں :

یہود کے قانون شریعت کے مطابق عورت کو مرد کے مساوی حقوق دینا تو ایک طرف رہا بلکہ مرد کو کھلی چھٹی دی کہ وہ اپنی بیوی پر ہر لحاظ سے بے جا برتری کا دعویدار ہو، عورت مہر کے علاوہ کسی چیز کی حقدار نہیں ، معصیت اول چونکہ بیوی ہی کی تحریک پر سرزد ہوتی تھی اس لیے اس کو شوہر کا محکوم رکھا گیا اور شوہر اس کا حاکم ہے، شوہر اُس کا آقا اور مالک ہے اور وہ اس کی مملوکہ ہے۔۴۳؎

عبدالوہاب ظہوری یہودیت میں قانون وراثت پر بحث کرتے ہوئے رقمطراز ہیں ۔

یہود کے قانون وراثت میں بیٹی کا درجہ پوتوں کے بعد آتا ہے، اگر کسی میت کا لڑکا نہ وہ تو وراثت پوتے کے لیے ہے، اور اگر پوتا بھی نہ ہو تو اس صورت میں وراثت لڑکی کی ہے۔۴۴؎

یہودیت کے عائلی نظام میں ایک قانون یہ بھی تھا کہ ہر شخص کا نام اسرائیل میں باقی رہنا چاہیے، اس لئے اگر کوئی مرد بے اولاد مرتا تو اُس کا پورا ایک ضابطہ تھا تاکہ اُس کا نام باقی رہے، کتاب مقدس میں اس بارے میں درج ہے کہ:

اگر کئی بھائی مل کر ساتھ رہتے ہوں اور ایک اُن میں سے بے اولاد مر جائے تو اس مرحوم کی بیوی کسی اجنبی سے بیاہ نہ کرے بلکہ اُس کے شوہر کا بھائی اُس کے پاس جا کر اُسے اپنی بیوی بنا لے، اور شوہر کے بھائی کا جو حق ہے، وہ اس کے ساتھ ادا کرے، اور اس عورت کے جو پہلا بچہ ہو، وہ اس آدمی کے مرحوم بھائی کے نام کہلائے، تاکہ اُس کا نام اسرائیل میں سے مٹ نہ جائے، اور اگر وہ آدمی اپنی بھاوج سے بیاہ نہ کرنا چاہے، تو اس کی بھاوج پھاٹک پر بزرگوں کے پاس جائے، اور کہے مریا دیور، اسرائیل میں اپنے بھائی کا نام بحال رکھنے سے انکار کرتا ہے، اور میرے ساتھ دیور کا حق ادا کرنا نہیں چاہتا، تب اُس کے شہر کے بزرگ اُس آدمی کو بُلا کر اُسے سمجھائیں ، اور اگر وہ اپنی بات پر قائم رہے اور کہے کہ مجھ کو اس سے بیاہ کرنا منظور نہیں ، تو اس کی بھاوج بزرگوں کے سامنے اُس کے پاس جا کر، اُس کے پاؤں سے جوتی اتارے اور اس کے منہ پر تھوک دے اور یہ کہے کہ جو آدمی اپنے بھائی کا گھر آباد نہ کرے، اُس سے ایسا ہی کیا جائے گا۔۴۵؎

 

 

 

عیسائیت میں عورت

 

 

عورت کے بارے میں عیسائیت کا بھی وہی تصور ہے جو یہودی نظریات میں ملتا ہے، حالانکہ یہودیت کے زوال پذیر ہونے کے بعد مسیحت نے معاشرے میں بہت خوبصورت اقدار کو صحیح صورت میں استوار کیا لیکن صنف نازک کی بدقسمتی دیکھئے کہ عیسائیت بھی عورت کے بارے میں کوئی بھرپور اخلاقی عقیدہ نہ اپنا سکی۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ عورت کے ساتھ عیسائیت کی روش اور بھی زیادہ ناپسندیدہ تھی تو بے جا نہ ہو گا۔

ترتولیاں (Tertullian) جو ابتدائی دور کے ائمہ مسیحیت میں سے تھا، اُس کے عورت کے بارے میں کیا نظریات ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔

وہ شیطان کے آنے کا دروازہ ہے، وہ شجر ممنوع کی طرف لے جانے والی خدا کے قانون کو توڑنے والی اور خدا کی تصویر، مرد کو غارت کرنے والی ہے۔

کرائی سو سسٹم (Chrysostum) جو مسیحیت کے اولیاء کبار میں شمار کیا جاتا ہے عورت کے بارے میں کہتا ہے۔

ایک ناگزیر برائی، ایک پیدائشی وسوسہ، ایک مرغوب آفت، ایک خانگی خطرہ، ایک غارت گرد سربائی، ایک آراستہ مصیبت۔۴۶؎

عیسائیت کے مطابق مرد حاکم اور عورت محکوم ہے، کیونکہ عورت و حقیقت مرد کے لیے بنائی گئی ہے، سو اس کی خدمت اور اطاعت اُس کا فرض ہو گا، جبکہ مرد چونکہ عورت کے لیے نہیں تخلیق ہوا، اس لیے اُسے عورت کی محکومی میں رہنے کی ضرورت نہیں ۔

پولُس رسول کُرِنتھیوں کے نام اپنے دوسرے خط میں کہتے ہیں کہ :

مرد عورت سے نہیں بلکہ عورت مرد سے ہے،اور مرد عورت کے لیے نہیں بلکہ عورت مرد کے لیے پیدا ہوئی ہے، پس فرشتوں کے سبب سے عورت کو چاہیے کہ اپنے سر پر محکوم ہونے کی علامت رکھے۔۴۷؎

اسی طرح پولس رسول تیمتھیس کے نام خط میں کہتا ہے کہ:

عورت کو چپ چاپ کمال تابعداری سے سیکھنا چاہیے، اور میں اجازت نہیں دیتا کہ عورت سکھائے یا مرد پر حکم چلائے بلکہ چُپ چاپ رہے، کیونکہ پہلے آدم بنایا گیا، اس کے بعد حوا، اور آدم نے فریب نہیں کھایا بلکہ عورت فریب کھا کر گناہ میں پڑ گئی۔۴۸؎

شاہ معین الدین ندوی عیسائیت میں عورت کی حالت پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

عورت سراپا فتنہ و شر سمجھی جاتی تھی، عابد و زاہد اُس کے سایے سے بھاگتے تھے، بڑے بڑے راہب اپنی ماں تک سے ملنا، اور اس کے چہرہ پر نظر ڈالنا معصیت سمجھتے تھے۔ رہبانیت کی تاریخ عورت سے نفرت کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔۴۹؎

مقالات صارم میں لکھا ہے کہ کتاب مقدس عورت کو لعنتِ ابدی کا مستحق قرار دیتے ہیں ۔۵۰؎

پولس رسول کے کُرنتھیوں کے نام پہلے خط سے پتہ چلتا ہے کہ عیسائیوں میں پاکیزہ رشتوں کی پہچان ختم ہو چکی تھی لوگ اپنی ماؤں تک سے تعلقات قائم کر لیتے تھے، اور بجائے اس حرام کاری پر ندامت کے آنسو بہائے جاتے وہ ایسے واقعات پر شیخیاں مارتے تھے۔

تم میں حرام کاری ہوتی ہے، بلکہ ایسی حرام کاری، جو غیر قوموں میں بھی نہیں ہوئی، چنانچہ تم میں ایک شخص اپنے باپ کی بیوی کو رکھتا ہے، اور تم افسوس تو کرتے نہیں تاکہ جس نے یہ کام کیا ہے وہ تم میں سے نکالا جائے، بلکہ شیخی مارتے ہو۔۵۱؎

ایک اور جگہ پر پولس مرد کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر تو غیر شادی شدہ رہے گا تو خدا کی یاد سے غافل نہ ہو گا لیکن اگر تو نے شادی کر لی تو بیوی تجھے ایسا کرنے سے غافل کر دے گی۔

بے بیاہا شخص خداوند کی فکر میں رہتا ہے کہ کس طرح خداوند کو راضی کرے مگر بیاہا ہوا شخص دنیا کی فکر میں رہتا ہے کہ کس طرح اپنی بیوی کو راضی کرے۔۵۲؎

درج بالا نصیحت اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتی ہے کہ عیسائیوں کے ہاں شادی بیاہ اور ازدواجی تعلقات ایک غیر اہم اور بے مقصد امور ہیں جو خدا سے غافل کر کے دنیا کی طرف راغب کرتے ہیں ، مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو۔

پس جو اپنی کنواری لڑکی کو بیاہ دیتا ہے وہ اچھا کرتا ہے اور جو نہیں بیاہتا ہو اور بھی اچھا کرتا ہے۔۵۳؎

ازدواجی زندگی کے اس تصور سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہونے لگے اس کی خوبصورت عکاسی سید مودودی اس طرح کرتے ہیں ۔

اب تجرّد اور دوشیزگی معیار اخلاق قرار پائی، لوگ ازدواج سے پرہیز کرنے کو تقوی اور تقدس اور بلندی اخلاق کی علامت سمجھنے لگے، پاک مذہبی زندگی بسر کرنے کے لیے یہ ضروری ہو گیا کہ یا تو آدمی نکاح ہی نہ کرے، یا اگر نکاح کر لیا ہو تو میاں اور بیوی ایک دوسرے سے زن و شوہر کا تعلق نہ رکھیں ۔۵۴؎

مختصر یہ کہ عیسائیت میں بھی عورت نہ صرف مظلوم رہی بلکہ محکوم بھی رہی اور صغیر سے عظیم تک کا ہر رشتہ اس انتظار میں رہا کہ اُسے انسان ہونے کے ناطے تو کم از کم تعظیم ملے۔

 

 

 

ہندو مت میں عورت کی حالت و حیثیت

 

 

اپنے قدیم تمدن پر نازاں ہندوستان، کے مذہب ہندومت نے بھی عورت کی حیثیت پامال کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ اگرچہ وید میں عورتوں کی تعظیم کا تذکرہ ملتا ہے لیکن وہاں بھی اطاعت شوہر فرض ہے۔

بی بی کا فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ چڑھاؤ کے ثواب میں شریک ہو۔۵۵؎

ہندو ایک طرف تو وحدۃ الازواج کے قائل ہیں لیکن جب بیوی سے کوئی بیٹا نہ ہو رہا ہو تو مذکورہ بالا قانون کو توڑتے ہوئے کئی کئی شادیاں کرتے ہیں تاکہ بیٹا پیدا ہو، یہ سلسلہ آج کل کا نہیں بلکہ آریاؤں سے چلا آتا رہا ہے۔ ڈاکٹر گستاؤلی بان لکھتے ہیں :

ویدی آریوں میں عام طور پر وحدۃ الازواج کی رسم تھی، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے زمانہ میں راجہ اور دولت مند لوگ کئی کئی بیویاں کرنے لگے تھے، جس چیز نے آریوں میں کثرت الازواج کی رسم کو جاری کیا، وہ بیٹیوں کی ضرورت تھی، جب پہلی بی بی سے صرف لڑکیاں ہوتی تو پھر اولاد ذکور کے لیے دوسری بی بی کرنا لازم آتا۔۵۶؎

منو سمرتی میں بھی عورت کو مرد کے خوش کرنے کا فریضہ سونپا گیا ہے:

اگر عورت خاوند کو خوش نہیں رکھتی اور اس کی حسرت کی تدبیر نہیں کرتی، تو اس کی اس ناخوشی کی وجہ سے سلسلہ تسل آگے نہیں چل سکتا۔۵۷؎

اور جگہ لکھا ہے۔

رات دن عورت کو پتی کے ذریعہ سے بے اختیار رکھنا چاہیے لڑکپن میں باپ اور جوانی میں شوہر اور بڑھاپے میں بیٹا عورتوں کی حفاظت کریں ، کیونکہ عورتیں خودمختار ہونے کے کوئی نہیں ۔۵۸؎

ہندو مت میں اگر شوہر اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو تو وہ اپنی بیوی کو کسی اور مرد سے تعلقات پیدا کرنے کا کہہ سکتا ہے تاکہ وہ اولاد بنا سکے، یہ عورت دوسرے شخص سے ازدواجی تعلقات پیدا کرے گی حتی کہ اولاد بھی جنے گی مگر بیوی اُسی پہلے شوہر کی رہے گی، اور بیوی رہے گی بھی اُسی پہلے شوہر کے گھر میں، اور جو اولاد دوسرے مرد سے پیدا ہو گی وہ پہلے شوہر کی اولاد کہلائے گی، اس طریقے کو نیوگ کہا جاتا ہے۔

چنانچہ رِگ وید ۱۰۔۱۰۔۱۰ میں آتا ہے کہ

جب خاوند اولاد پیدا کرنے کے ناقابل ہو، تو اپنی بیوی کو ہدایت کرے کہ اسے سہاگ کی خواہش مند عورت!تُو میرے سوا کسی اور خاوند کی خواہش کر(کیونکہ اب مجھ سے اولاد کی پیدائش نہیں ہو سکے گی ایسی حالت میں عورت دوسرے مرد سے نیوگ کر کے اولاد پیدا کرے۔ مگر اپنے عالی حوصلہ شادی کئے ہوئے خاوند کی خدمت میں کمر بستہ رہے۔۵۹؎

رشی دیانند کے مطابق بیوہ سے کوئی رنڈوا ہی شادی کرے، کوئی کنوارہ بیوہ سے شادی نہ کرے، اگر کوئی اس عمل کی خلاف ورزی کرے گا تو سمجھو کہ اُس نے احکام دین کی خلاف ورزی کی ہے۔

بیوہ عورت سے کنوارے مرد اور رنڈوے مرد سے کنواری عورت کی مناکحت جہاں بعید از انصاف ہے وہاں (آدھرم) احکام دین کے بھی خلاف ہے۔۶۰؎

ان کے مطابق عورت کی شادی صرف اُسی طبقے میں ہو، جس طبقے سے وہ متعلق ہے اگر ایسا نہ کیا گیا تو جہاں احکام دین پر عمل صحیح نہ ہو پائے گا وہاں زوجین میں محبت بھی نہ رہے گی۔

شادی بھی اسی قانون کے مطابق یعنی براہمن مرد کی براہمن عورت سے، کشتری عورت سے ویش مرد کی ویش عورت سے، اور شودر مرد کی شودر عورت سے ہونی چاہیے، تبھی زوجین کے اعمال اپنے اپنے وزن یعنی جماعت مدنی کے مطابق ہوں گے، اور ان میں محبت بھی حسب دل خواہ ہو گی۔۶۱؎

ہندو مذہب میں عورت کی حیثیت یہ تھی کہ اس کی کسی بات کو معتبر نہیں سمجھا جاتا تھا، جھوٹ اور عورت کو ایک ہی سکے کے دو رُخ کی طرح قرار دیا گیا تھا، منوسمرتی میں واضح درج ہے کہ:

جھوٹ بولنا عوتوں کا ذاتی خاصہ ہے۔۶۲؎

عورت کا بچپن ہو، جوانی ہو یا کہ بڑھاپا، وہ محکومی اور غلامی کی زندگی ہی گزارے گی۔ کبھی بھائی کے احکام کی پابند، کبھی باپ کی حکمرانی اور کبھی شوہر کی غلامی ہی اس کی زندگی کا مقدر ہو گا۔ منو میں ہے کہ:

عورت نابالغ ہو، جوان یا بڈھی ہو، گھر میں کوئی کام خود مختاری سے نہ کرے، عورت لڑکپن میں اپنے باپ کے اختیار میں رہے، اور جوانی میں اپنے شوہر کے اختیار میں اور بعد میں اپنے شوہر اور بیٹے کے اختیار میں رہے، خود مختار ہو کر کبھی نہ رہے۔۶۳؎

ہندو مذہب کے مطابق شوہر والی عورت کے ذمہ کوئی عبادت نہیں وہ شوہر کی خدمت اور سیوا کرے یہ سب سے بڑی عبادت ہے۔ منو میں ہے کہ:

چونکہ عورتیں شادی ہونے پر شوہر کا آدھا انگ ہو جاتی ہیں ، اس واسطے عورتوں کے لیے علیحدہ یگیہ و برت کرنا پاپ ہے، انہیں صرف شوہر کی خدمت کرنا چاہیے۔۶۴؎

ایک ہندو مصنفہ شکنتلا رائے بھی اسی قسم کے اظہارات کرتے ہوئے رقمطراز ہیں ۔

The Scope of the activities of a wife in the religious field is restricted. He thus declares a wife is not independent with respect to other fulfillment of the sacred low. ۶۵؎

’’ستی‘‘ جیسی بھیانک رسم ہندوستان کا خاصہ رہی ہے، ستی کا رواج اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہاں عورت کے مستقل وجود اور بحیثیت کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا، شادی سے پہلے وہ ایک بے زبان جانور کی سی تھی اور خاوند کی وفات کے بعد اس سے زندگی کا حق ہی چھین لیا جاتا تھا، رسم ستی کے بارے میں البیرونی رقمطراز ہیں ۔

عورت کو، جب اُس کا شوہر مر جائے، بیاہ کرنے کا حق نہیں ہے اور اس کو دو حال میں سے ایک اختیار کرنا ہو گا، یا زندگی بھر بیوہ رہے یا جل کر ہلاک ہو جائے اور دونوں صورتوں میں سے یہ اس کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اس لیے کہ وہ مدت العمر عذاب میں رہے گی، ہندوؤں کا دستور یہ ہے کہ وہ راجاؤں کی بیویوں کو جلا دیتے ہیں ، خواہ وہ جلنا چاہیں یا اس سے انکار کریں ، تاکہ وہ ایسی لغزش سے، جن کا دن سے خوف ہے، محفوظ رہیں ، راجہ کی بیویوں میں صرف بوڑھی عورتیں اور صاحب اولاد، جن کے بیٹے ماں کو بچائے رکھنے کی اور حفاظت کی ذمہ داری کریں ، چھوڑ دی جاتی ہیں ۔۶۶؎

ڈاکٹر خالد علوی ہندو مت میں عورت کی حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ:

رسم ستی خود اس بات کا ثبوت ہے کہ عورت کی کوئی حیثیت نہیں ، عورت کو خلع اور وراثت کا کوئی حق نہیں ، اس کے رشتہ دار جائیداد لیں گے، لیکن اس کو کوئی حصہ نہیں ملے گا، اسے مذہبی تعلیم سے بھی محروم کیا جاتا تھا، سنسکرت میں لڑکی کو ’’دوہتر‘‘ (دور کی ہوئی)‘ بیوی کو ’’پتنی‘‘(مملوکہ) کہا جاتا ہے۔۶۷؎

ہندوؤں میں مختلف مقامات پر مختلف خواتین اور ذاتوں کے لحاظ سے تقسیم جائیداد کے مختلف طریقے اور اصول ہیں ، جن میں یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ عورت کو جائیداد سے یا تو سرے سے محروم کیا گیا یا پھر مرد سے کم تر حصہ دیا گیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت کو ہندو معاشرے میں ہمیشہ سے کم تر درجہ دیا گیا ہے، اس کو ہر صورت میں محکوم رکھنا پسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔۶۸؎

معین الدین ندوی چانکیہ نبتی کے حوالے سے عورت کے متعلق ہندوؤں کے خیالات بتاتے ہوئے رقمطراز ہیں ۔

۱۔         جھوٹ بولنا، بغیر سوچے سمجھے کام کرنا، فریب، حماقت، طمع، ناپاکی، بے رحمی عورت کے جبلی عیب، میں ۔

۲۔        شہزادوں سے تہذیب اخلاق، عالموں سے شیریں کلامی، قمار بازوں سے دروغ گوئی اور عورتوں سے مکاری سیکھنی چاہیے۔

۳۔       آگ، پانی، جاہل مطلق، سانپ، خاندان شاہی اور عورت یہ سب موجب ہلاکت ہیں ، ان سے ہوشیار رہنا چاہیے۔

۴۔        دوست، خدمت گار اور عورت، مفلس آدمی کو چھوڑ دیتے ہیں اور جب وہ دولت مند ہو جاتا ہے تو پھر اس کے پاس آ جاتے ہیں ۔۶۹؎

ڈاکٹر گستاؤلی بان ہندو معاشرے میں عورت کی حیثیت اور عزت کے حوالہ سے رقمطراز ہیں :

ہندوؤں کا قانون کہتا ہے کہ تقدیر، طوفان، موت، جہنم، زہر، زہریلے سانپ، ان میں سے کوئی اس قدر خراب نہیں ہے جتنی عورت۔۷۰؎

 

 

 

مغرب میں عورت کی حیثیت و حالت

 

 

معاشی آزادی کی حقیقت

 

مغرب کی صنعتی انقلاب نے جہاں اپنے معاشرے کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی میں تغیر پیدا کیا وہاں بالخصوص حقوق نسواں کا خوبصورت اور دلفریب نعرہ بھی بلند کیا، ساتھ ہی دنیا میں لاکھوں افراد کو لقمۂ اجل بنانے والی جنگ عظیم اول نے مردوں کی ان ہلاکتوں کی وجہ سے ایک ایسا خلا پیدا کر دیا یا جس کو پُر کرنا باقی بچ جانے والے مردوں کے بس کی بات نہ تھی، چنانچہ آزادی اور حقوق نسواں کا نعرہ مزید بلند ہوا، خواتین کو گھر سے باہر نکل کر معاشی طور پر مستحکم ہونے کا موقع ملا، انہوں نے اپنے لیے اجرتوں میں مساوات کا مطالبہ کیا، ووٹ دینے کا حق طلب کیا، تاکہ اسے حق جتانے اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے آواز اٹھانے کا موقع مل سکے، پھر اُس نے پارلیمنٹ میں نمائندگی کا حق چاہا، تاکہ وہ مساوات کو بجا ثابت کرے اور اسے تسلیم کرانے کے لیے مثبت طور پر آواز بلند کر سکے۔۷۲؎

بقول ڈاکٹر خالد علوی:

صنعتی انقلاب نے کسانوں کو دیہاتوں سے شہروں میں منتقل کیا، اور عورتوں کو حالات کے جبر کی وجہ سے معاشی جدوجہد میں شامل ہونا پڑا، اور اس کے نتیجے میں عورتوں کی اُجرت اور دیگر حقوق کی تحریک شروع ہوئی، حقوق کی مساوات ہی وہ بنیادی نعرہ تھا، جس پر حقوق نسواں کی تحریک چلتی رہی، اس دوران مغربی عورت نے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا، اور آہستہ آہستہ مردوں کی حمایت حاصل کی، کانفرنسیں ، قراردادیں اور مظاہرے اس جدوجہد کا اہم حصہ رہے ہیں ، اس دوران پہلی اور دوسری جنگ عظیم برپا ہوئی، تو اس میں عورتوں پر بھی دوسرے افراد معاشرہ کی طرح مصیبت آئی اور اُسے ان جنگوں میں فعال حصہ بھی لینا پڑا، ان جنگوں میں مردوں کی بڑی تعداد کام آئی تو عورتوں کو نئی ذمہ داریاں اور نئے کام انجام دینے پڑے، یہی وہ وقت ہے جب اسے زیادہ آزادی کے ساتھ کام کرنے کے مواقع ملے۔۷۳؎

چنانچہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر جدوجہد کے بعد عورت کے حقوق کے لیے قوانین بنائے گئے، مختلف سطح پر زبانی، تحریری اور تشہیری مہم کے ذریعے حقوق نسواں کی نہ صرف آواز بلند کی گئی بلکہ اُس کو اُس کی اصلی حیثیت اور قدر و منزلت دینے کے بلند بانگ نعرے بلند کئے گئے یہاں تک کہ اس تصور نے جڑ پکڑ لی کہ

قدرت نے جن قوتوں اور قابلیتوں سے مرد کو مسلح کیا ہے، بعینہ انہی قوتوں اور قابلیتوں سے عورت کو بھی مسلح کیا ہے، اور مرد جو کچھ کر سکتا ہے، عورت بھی وہ کچھ کر سکتی ہے، اس لیے معاشرے میں عورت اور مرد کی جدوجہد کا دائرہ بھی ایک ہونا چاہیے۔۷۴؎

چنانچہ عورت گھر کے مخصوص دائرے اور ذمہ داریوں سے نکل کر بیرونی دنیا کے وسیع دائرے میں مرد کی طرح محنت و مزدوری اور کسب معاش کے لیے نکلی اور اس نے نہ صرف معاشرے کی سیاسی، معاشی، تعلیمی اور سائنسی شعبہ جات میں اپنی ذمہ داریاں نبھائی بلکہ اُن مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بھی اپنا کردار ادا کیا جہاں صرف اور صرف مردوں کی حکمرانی تھی۔ بقول Kirsten Amundsen

In fact, more than 31 million adult women are now at work. They constitute at this time about 40% of our total work force. ۷۵؎

درحقیقت ۳۱ ملین سے زیادہ نوجوان خواتین اس وقت (امریکہ میں ) کام پر لگی ہیں ، وہ اس وقت ہمارے کام کی طاقت کا 40% ہیں ۔

مغربی دنیا میں ۲۰صدی کے آخر تک روس ایک ایسا ملک تھا، جہاں محنت کش عورتوں کا تناسب دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ رہا ہے۔ "Tatyana Mamonova”اس بارے میں رقمطراز ہیں کہ:

The U.S.S.R has the highest female labour force participation rate of any modern industrial society. The percentages of women in such profession as medicine, law and engineering for exceed comparable western rates. Similarly, the percentages of women engaged in agriculture, construction and metal working remain high.

جدید صنعتی معاشروں میں ایشیا ئی روس ایک ایسا ملک ہے جس کے پاس سب سے زیادہ خواتین کام کرنے والیاں ہیں ۔ طب، قانون اور انجینئرنگ کے پیشوں میں تمام مغربی ممالک کے تناسب سے، اس کا تناسب سب سے زیادہ ہے، اسی طرح زراعت، تعمیرات اور میٹل ورکس میں بھی عورتوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے۔۷۶؎

لیکن حقوق اور آزادی کی اس تحریک یا کامیابی کے بعد عورت واقعی اپنی حیثیت اور اپنا مرتبہ پا سکی ہے یا ایسے حقوق اور آزادی کے ولولے اور نعرے صرف کاغذی کاروائیوں اور ظاہری آلائشوں تک ہی محدود رہے۔

Since world war II, the Position of women around the globe has began to change at an acceleration rate. Woman have gained most in politically progressive of economically developed countries, but these is no single explanation for women’s gains, an no country do women enjoy full political, legal, economic, social, educational and sexual equality with men. Through much of the world, women are gradually emerging from millennia of subordination to men and confinement too the family. But progress is uneven and has even suffered reversals.۷۷؎

مولانا اسعد گیلانی کے بقول:

مساوات کے اس خوبصورت نعرے کے ساتھ مردوں نے اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ تو ہلکا کر لیا، اور پھر مساوات کا جھانسہ دے کر یہ تصور دیا کہ عورتیں بھی وہی موٹا اور نیلا لباس پہنیں جو مرد اپنے کام کاج کے اوقات میں پہنتے ہیں ، اور وہ مرد مزدوروں کے ساتھ بیٹھ کر روڑی کوٹیں اور سڑکوں کی کھدوائی کریں ۔۷۸؎

بقول ڈاکٹر عابد علی

یورپ کے مرد نے جو عورت کو آزادی دی، وہ بظاہر آزادی تھی، لیکن حقیقی آزادی نہ تھی، اس آزادی و مساوات کا محض یہ مطلب تھا کہ مرد عورتوں سے ہر جگہ خدمت لیں ، نوکریاں کروائیں اور بھاری بوجھ اُٹھوائیں اور مردوں کی عیاشی کا آسانی سے شکار بن سکیں ۔۷۹؎

جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بتایا گیا ہے کہ روس مغربی ممالک میں عورتوں کو ملازمتیں دے یا اُن سے کام کروانے والا سب سے بڑا ملک ہے، وہاں اب عورت دوہرے مسائل کا شکار ہے، پہلے صرف گھر کی ذمہ داری اس کے سپرد تھی اب کسب معاش بھی اس کے کھاتہ میں آ گئی۔ بقول "Jacob Young”

One of the biggest problems that soviet women face is the double burden of holding down, a full time job and carrying for a house hold for many, a typical day begins with an early morning, bus ride to the office and includes standing in long times at lunch time for the daily shopping, then dinner must be prepared, the children put to bed, the house cleaned. Few husbands pitch into held with these chores. According to a recent government reports, the average wife spends thirty four hours a week in work a round the home, while her husband puts in just six. ۸۰؎

ایک بڑا مسئلہ جس سے روس عورتیں دوچار ہیں ، وہ ان پر دُہرا بوجھ ہے، جو کہ ملازمت میں سارا وقت صرف کرنا اور گھریلو ذمہ داریوں کو نبھانا ہے، عورتوں کے دن کا آغاز ایک مخصوص طریقے سے ہوتا ہے، صبح کو دفتر کے لیے بس پکڑنا اور ساتھ ہی روز مرہ ضروریات کے لیے دوپہر کے کھانے کے وقت لمبی قطار میں ٹھہرنا، کام کے اختتام پر مزید خرید و فروخت کرنا، پھر رات کا کھانا تیار کرنا، بچوں کو سلانا، گھر کی صفائی کرنا ہے، چند خاوند ان چیزوں میں ہاتھ بٹا دیتے ہیں ، روسی حکومت کی حالیہ رپورٹ یہ ظاہر کرتی ہے کہ بیوی ہفتے میں چونتیس(۳۴) گھنٹے کام کرتی ہے جبکہ خاوند صرف چھ(۶) گھنٹے کام کرتا ہے۔

مرزا محمد حسین مغربی معاشرے کی ایک جھلک یوں پیش کرتے ہیں :

The west whose devotees assert its superiority over the whole world, is stranger to domestic peace and happiness. Their homes are racked and wracked by cat and dog life.۸۱؎

وہ مغرب جس کے چاہنے والے تمام دنیا پر اس کی حاکمیت کا دعوی کرتے ہیں گھریلو اور خاندانی امن و سکون اور مسرت سے محروم ہے ان کے گھروں میں ہر وقت لڑائی جھگڑا رہتا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ خواتین کی دوہری ذمہ داریوں اور مردوں کے کام میں ہاتھ بٹانے کے باوجود، انہیں معاشی طور پر ایک ہی قسم کے کام پر معاوضہ مردوں سے نسبتاً کم ملتا ہے، یعنی ایک ہی ملازمت یا عہدہ پر مامور ایک مرد اور عورت کی تنخواہوں میں فرق ہوتا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا میں ہے۔

Women also earn less than men in the same kind of job. For example, the medium pay of women workers in the U.S.A was 59% that of men in 1970. ۸۲؎

ایک ہی قسم کی ملازمت میں خواتین مردوں کے مقابلے میں کم آمدنی حاصل کر پاتی ہیں ، مثال کے طور پر ۱۹۷۰ء میں عورتوں کے مقابلہ میں مردوں کی اوسطاً تنخواہ 59%تھی۔

محمد رفیق چوہدری "Man an Women” کے مصنف مان نکلس کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ:

آج بھی ایک اوسط امریکی بیوی گھر کے کام کاج پر اتنا ہی وقت صرف کرتی ہے جتنا کہ اس کی دادی کیا کرتی تھی اسے عام طور پر ہفتہ میں گھریلو کام کاج پر 53 گھنٹے صرف کرنے پڑتے ہیں اور یہ سوچنے کی ٹھوس بنیاد موجود ہے کہ دوسرے ملکوں میں بھی صورت حال اس سے کچھ مختلف نہیں ہے، علاوہ ازیں اس پُر زور مطالبے کے باوجود کہ مردوں کو بھی گھریلو ذمہ داریوں کے بوجھ کو سنبھالنے میں عورتوں سے تعاون کرنا چاہیے، عملی طور پر ایسا نہیں ہو رہا، مرد گھریلو کام کاج سے آج بھی پہلے کی طرح دور ہے، یہی نہیں بلکہ روزی کمانے والی وہ عورتیں جن کے اپنے بچے نہیں ہیں ، خرید و فروخت، کپڑوں کی دھلائی، گھر کی صفائی اور اسی قسم کے دوسرے کام بھی خود ہی کر رہی ہیں ۔۸۳؎

 

مغرب کی اخلاقی حقیقت

 

بے حیائی اور بدکاری ایسے ناسور ہیں ، جو جب بھی کسی معاشرے میں سرایت کرتے ہیں تو اس معاشرے کو بے حیائی اور عدم احترام کے زنگ سے بھر دیتے ہیں ، مغرب اور خاص طور پر امریکہ جو اس وقت دنیا میں ممتاز ملک مانا جاتا ہے بے حیائی اور زنا کاری میں اپنی مثال نہیں رکھتا۔

سید قطب کے مطابق:

فرانس میں پہلے پہل جنسی آزادی یا جنسی انار کی نے فروغ پایا، پھر اس انارکی نے روایات کا درجہ اختیار کر لیا، فرانس کی نادر روایات میں سے ایک روایت یہ تھی کہ مرد و زن سر راہ بوس و کنار کرتے، بسوں اور پارکوں میں محو اختلاط ہوتے، مگر کسی کو اعتراض نہ ہوتا، بلکہ اعتراض کا نشانہ وہ بنتا، جو ان باتوں پر ناک بھوں چڑھاتا۔۸۴؎

’’ڈنور‘‘ کی عدالت برائے جرائم اطفال کا جج ’’بن لنڈسے‘‘ (Ben Lindsey) اپنی کتاب "Revolt of Modern Youth” میں لکھتا ہے:

ہائی سکول کی کم عمر والی چار سو پچانوے لڑکیوں نے خود میرے سامنے اقرار کیا کہ ان کو لڑکوں سے منفی تعلقات کا تجربہ ہو چکا ہے اور ان میں صرف پچیس ایسی ہیں جن کو حمل ٹھہر گیا تھا۔۸۵؎

اسی جج کا امریکہ کے متعلق بیان ہے کہ:

امریکہ میں ہر سال کم از کم پندرہ لاکھ حمل ساقط کئے جاتے ہیں اور ہزارہا بچے پیدا ہوتے ہی قتل کر دیے جاتے جاتے ہیں ۔۸۶؎

امریکہ کی اخلاقی حالت کس قدر ابتر ہے اور وہ کس قدر زنا کاری اور بدکاری کی دلدل میں پھنس چکا ہے اس کا اندازہ مشہور امریکی میگزین ’’ٹائم‘‘ کی درج ذیل رپورٹ سے بخوبی ہوتا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کے تقریباً ساریر مرد اور پچاس فیصد عورتیں شادی سے پہلے ہی حرام کاری کر چکی ہوتی ہیں ، ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر نفسیات ڈاکٹر گراہم کا انداز ییہ ہے کہ ’’پچھلے پندرہ برس میں کالجوں کے طلبہ میں حرام کاری پچاس سے ساٹھ فیصد تک اور طالبات میں چالیس سے پچاس فیصد تک بڑھ چکی ہے، سوشیالوجی کے ایک عالم ’’پروڈو‘‘ کا تخمینہ یہ ہے کہ ’’شادی کے وقت ہر چھ لڑکیوں میں سے ایک حاملہ ہوتی ہے‘‘۔ آج اس لڑکے سے نفرت کی جاتی ہے جس کے کسی لڑکی سے ناجائز تعلقات نہ ہوں ، بعض لڑکیاں چھیڑ چھاڑ کو زیادہ پسند نہیں کرتیں اور وہ لڑکوں سے بلا جھجک کہہ دیتی ہیں کہ ہماری آگ کو زیادہ نہ بھڑکاؤ آؤ اور اپنا کام کر لو، امریکہ میں کنواری لڑکی کا حاملہ ہو جانا قطعاً معیوب نہیں ۔ حتی کہ ایک صاحب نے ایک مضمون میں لکھا کہ شادی سے پہلے جس لڑکی کے ناجائز تعلقات صرف دو تین مردوں سے رہے ہوں ، اسے کنواری ہی سمجھو… بعض گھروں میں مائیں اور بہنیں بیٹوں اور بھائیوں سے یارانہ گانٹھ لیتی ہیں ،ہنری ملر کا قول ہے ’’یہ امر سمجھ میں نہیں آتا کہ ماں سے یاری کرنے میں کیا حرج ہے۔‘‘۸۷؎

پروفیسر ثریا بتول کے مطابق:

(مغرب میں ) اسقاط حمل جائز قرار پانے کے باوجود ناجائز اور غیر قانونی بچوں کی کثرت ہو رہی ہے، مغربی بچوں کی کم از کم 30% تعداد غیر قانونی بچوں کی ہے اور یہ بچے تنہا عورت یعنی کنواری ماں کا درد سر ہیں ، یہی صورت حال فرانس میں ہے کہ اس کا ہر پانچواں بچہ ناجائز ہے، جبکہ برطانیہ میں ہر چوتھا بچہ غیر قانونی ہے، اب ناجائز اور جائز بچوں میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا، بلکہ ایسے قوانین بنا دیے گئے ہیں کہ کنواری ماؤں کو پورا تحفظ حاصل ہو۔۸۸؎

اس سلسلے میں سلطان احمد اصلاحی صاحب مزید اعداد و شمار بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :

قبل از ازدواج جنسی اباحیت (Premarital Sexual Permissiveness) کا خاص مرکز امریکہ ہے وہاں اعداد و  وہ ان پر دُھوٰشمار کی زبان میں اس سلسلے میں کیا صورت حال پائی جاتی ہے اس کا اندازہ ہمیں جان گیگنان کی رپورٹ سے ملتا ہے، جس کے مطابق غالباً 50%عورتیں اور تقریباً 97% مرد ایسے ہیں جن کا کچھ نہ کچھ مباشرتی تجربہ ہے، جبکہ 20% مرد اور 15%عورتیں ایسی ہیں جنہوں نے پوری فراخی کے ساتھ صنف مقابل کے ساتھ جنسی رشتوں اور شادی سے قبل مباشرت کا تجربہ کیا ہے۔۸۹؎

جنسی آزادی – ایک دلخراش واقعہ:

ساوتھ کیرولائنا کی ایک ۲۳ سالی شادی شدہ لرکی سوزن سمتھ کو جس کا خاوند اور دو پیارے پیارے خوبصورت بچے تھے، اس بات کا بڑا صدمہ تھا کہ وہ شادی کر کے اور دو بچوں کی ماں بن کر زندگی کی رنگا رنگ لذتوں اور انواع و اقسام کی عیاشیوں سے بڑی حد تک محروم ہو گئی ہے، جبکہ اس کی ہم عمر لڑکیاں دن رات مردوں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی رہتی ہیں ، چنانچہ اس نے ایک دن سوچے سمجھے پروگرام کے تحت دونوں بچوں کو موت کی نیند سلانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے طے کر لیا کہ خاوند کو بھی اس کی آزادانہ زندگی (فری سیکس) پر اعتراض ہو تو وہ اسے بھی چھوڑ دے گی۔ منصوبے پر عمل درآمد سے کچھ دن پہلے اس نے دونوں بچوں اور ان کے باپ کے ساتھ گھر کے بیک یارڈ میں سیروتفریح اور کھیل کود کی ایک نہایت دل آویز مووی بنائی تھی۔ دونوں بچے ایک لڑکا اور ایک لڑکی جن کی عمریں چار اور پانچ سال تھیں ، بڑے پیارے اور خوبصورت تھے۔

ایک روز جب اس کا خاوند کسی کام سے دوسرے شہر گیا ہوا تھا، اس نے دونوں بچوں کو نہلا دھلا کر بڑے پیارے کپڑے پہنائے۔ پھر انہیں خوب خوب پیار کیا۔ سینے سے لگا کر دیر تک روتی رہی (یہ اس نے بعد میں مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا) اور پھر انہیں اپنی گاڑی میں بٹھا کر جھیل کے کنارے لے گئی۔ اس نے کار کو ایک اونچی جگہ پر ڈھلان کے رخ اس طرح کھڑا کر دیا، کہ بریک کھلتے ہی کار خود بخود تیزی سے آگے بڑھ کر جھیل میں چلی جائے۔ اس نے بچوں کو کار کی پچھلی نشست پر بٹھا دیا اور خود کار کے ایکسیلٹر پر دو اینٹیں رکھ دیں ۔ کار کے باہر کھڑی ہو کر اگنیشن دیا اور کار اسٹارٹ ہوتے ہی دروازہ تیزی سے بند کر کے کار کو دھکا دے دیا اور خود آنکھیں بند کر کے رونے بیٹھ گئی۔ ایک لمحے کے اندر کار تیزی کے ساتھ جھیل میں اتر گئی اور چیختے چلاتے بچوں کو لے کر ڈوب گئی۔ چند لمحوں کے بعد جب سنگدل ماں نے آنکھیں کھولیں تو کار پانی کی گہرائیوں میں اتر چکی تھی اور سطح آب پر اس کے معصوم بچوں کی آخری سانسوں کے بلبلے اٹھ رہے تھے۔

سوزن سمتھ یہاں سے اب سیدھی پولیس اسٹیشن گئی، جہاں اس نے رپورٹ درج کرائی کہ سیاہ فام لوگوں نے اس کو کار سے باہر دھکیل کر گاڑی اور اس کے دونوں بچوں کو اغوا کر لیا۔ پولیس کو اس کی بیان کردہ کہانی پر شک گزرا۔ اگلے دن اس کا خاوند شہر میں واپس آیا تو اس نے بھی بیوی پر شک کیا۔ اس نے بتایا کہ اس کی بیوی کو اس بات کی بڑی حسرت تھی، کہ وہ اپنی سہیلیوں کی طرح کیوں ’’لامحدود‘‘ نہیں ۔ چند روز کے اندر پولیس کی تفتیشی ٹیموں نے جھیل میں ڈوبی ہوئی کار کا پتہ لگا لیا، جس کے اندر دو معصوموں کی لاشیں اور دو اینٹیں برآمد ہو گئیں ، جو ایکسیلیٹر پر رکھی گئی تھیں ۔ تفتیش آگے بڑھی تو ظالم ماں نے تمام واردات کی تفصیلات خود ہی افشاء کر دیں ۔ کیس عدالت میں گیا تو بیان دیتے ہوئے اس نے کہا:

I was too young for two children and I could not take my opportunity.

’’میری ابھی عمر ہی کیا تھی کہ دو بچوں کو سنبھالنا پڑ گیا اور میں اس نو عمری میں کوئی عیش بھی نہ کر سکتی تھی۔‘‘

اس کے خاوند نے عدالت میں بچوں کی وڈیو فلمیں بھی دکھائیں جو اس کی بیوی نے تیار کی تھیں ۔ ان فلموں کو دیکھ کر اور بچوں کو یاد کر کے ملزمہ بے حد تڑپتی اور روتی تھی۔ آخر عدالت نے اس ظالم ماں کو اس کے سنگین جرم پر سزائے موت سنائی، لیکن سرکاری وکیل نے اپیل کی کہ سزائے موت عمر قید میں تبدیل کر دی جائے، کیونکہ اس قید کا ایک ایک لمحہ اس ظالم ماں کے لیے اذیت ناک ہو گا اور وہ مر مر کر جئے گی۔ اس کا ایک ایک لمحہ اس کے ضمیر پر کاری ضرب لگاتا رہے گا۔ عدالت نے اس اپیل کو منظور کر لیا۔ اب یہ فری سیکس کو ترسی ہوئی ظالم ماں جیل کی آہنی سلاخوں سے ہر لمحہ اپنا سر پھوڑتی رہتی ہے اور چلا چلا کر کہتی ہے: ’’مجھے موت کی سزا کیوں نہ دے دی گئی؟ میرے لیے اس زندگی سے وہ موت بدرجہا بہتر تھی۔‘‘

جنسی آزادی اور اختیار زنا ہونے کے باوجود اس طرح کے واقعات کا نمودار ہونا باعثِ شرم بھی ہے اور باعث حیرت بھی اور یہ بات کہ شوہر فری سیکس کی راہ میں رکاوٹ بنے گا، اس وقت بعید از قیاس نظر آتا ہے جب مقننہ اور عدلیہ خود ہی نہ صرف ایسی آزادی کی گنجائش پیدا کرتے ہیں بلکہ ایسی روش کے لیے راہ بھی ہموار کرتے ہیں ۔ راقم اس سلسلے میں صرف دو واقعات درج کرنا چاہتا ہے جن سے راقم کی رائے کی تائید ہوتی ہے۔

۱۔         ایک شخص نے اپنی بیوی کو اپنے ہی گھر میں رنگے ہاتھوں گرفتار کیا، اس کے بیوی اور ایک اجنبی آدمی دونوں قابل اعتراض حالت میں تھے، شوہر نے مقامی عدالت میں طلاق کا دعوی دائر کیا اور یہ مطالبہ کیا کہ ایسی فاحشہ بیوی سے وہ علیحدگی چاہتا ہے، لندن کی عدالت میں جب یہ کیس دائر ہوا تو انگریزی دستور کی رو سے شوہر کو طلاق حاصل کرنے کا مجاز نہیں تسلیم کیا گیا، اُلٹا اسے رجعت پسند کہہ کر اس پر الزام لگایا گیا کہ وہ یورپ کی روشن خیالی اور سماجی ترقیات کا ساتھ نہیں دے رہا ہے، ساتھ عدالت نے اسکی بیوی کو بھی بے عزت بری کر دیا، اور اسے تاکید کی کہ وہ نئے تقاضوں اور بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ رہے۹۰؎

۲۔        لندن کے ڈاکٹروں ہدایات کی گئی ہیں کہ وہ ۱۶ سال سے کم عمر کی ایسی لڑکیوں کے بارے میں معلومات خفیہ رکھیں جو ان سے مانع حمل اشیاء لیتی ہیں ، جس کا مطلب یہ ہے کہ کم عمر لڑکیوں کو بالغ حمل چیزیں دینے کے لیے والدین کی رضا مندی ضروری نہیں ، ڈاکٹروں سے کہا گیا ہے کہ اگر انہوں نے لڑکیوں کی خواہشات کا احترام نہ کیا اور اس کی اطلاع والدین کو دی تو ان کے خلاف ضابطہ کی کاروائی کی جائے گی، بتایا گیا ہے کہ ۱۹۹۱ء میں پندرہ سال سے کم عمر کم از کم ۱۵ ہزار لڑکیاں جنسی طور پر سرگرم تھیں ،ان میں سے ۸ ہزار نے فیملی کلینک اور باقی نے اپنے ڈاکٹروں سے رجوع کیا۔۹۱؎

اتنی روشن خیالی اور آزادی کے بعد راقم کی رائے میں شادی و نکاح جیسے اور بے فائدہ اور غیر ضروری محسوس ہوتے ہیں کیونکہ جو معاشرہ مرد و عورت کے ملاپ کو بقائے نسل انسانی کے بجائے لذت و عیاشی کا موجب سمجھے وہاں یقیناً نکاح وغیرہ جیسے معاہدات کمزور دھاگے کی مانند ہوتے ہیں جنہیں جب چاہے توڑ دیا جائے۔ راقم کی رائے کی تائید درج ذیل اعداد و شمار سے ہوتی ہے جو "The Stateman year look, 1991-1993” نے دیے ہیں اُن کے سروے کے مطابق ۱۹۹۰ء میں امریکہ میں ۲۱ لاکھ باسٹھ ہزار (۲۱۶۲۰۰۰) شادیاں ہوئیں جبکہ گیارہ لاکھ سترہ ہزار (۱۱۱۷۰۰۰) طلاقیں ہوئیں ، ڈنمارک میں تیس ہزار آٹھ سو چورانوے (۳۰۸۹۴) شادیاں ہوئیں جبکہ پندرہ ہزار ایک سو باون (۱۵۱۵۲) طلاقیں ، سوئٹزرلینڈ میں ۴۶۶۰۳ شادیاں اور ۱۳۱۳ طلاقیں ہوئی۔۹۲؎

طلاق کے ان تند و تیز تھپیڑوں سے مغرب کا خاندانی نظام خس و خاشاک کی طرح طوفان بد تہذیبی میں تنکوں کی طرح۔ بہتا چلا جا رہا ہے۔ اس کو بچانے کے لیے برطانیہ میں ہونے والے ۱۹۹۷ء کے انتخابات میں سیاسی جماعتیں اپنے ووٹرو ں کے لیے جن مراعات کا اعلان اپنے انتخابی منشوروں میں کرتی رہیں ان میں مندرجہ ذیل دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں ۔

۱۔ اعلان کیا گیا کہ جو لوگ اپنے بزرگوں (والدین وغیرہ) کو اولڈ ہاوسز کی بجائے اپنے گھروں میں رکھیں گے، ان کو ٹیکسوں میں چھوٹ دی جائے گی۔

۲۔        جو شادی شدہ جوڑا اپنی رفاقت کے دس سال مکمل کرے گا اُسے ٹیکس میں چھوٹ دی جائے گی۔

ان دو اعلانات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خاندان نام نہاد تہذیب کے طوفان کی زد میں آ کر طلاق کے تیروں سے گھائل ہو کس طرح جاں بلب ہے۔۹۳؎

بقول غلام جیلانی برق:

مغرب میں عائلی زندگی مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے وہاں پر طلاقیں عام ہیں ، شادی کوئی اہم معاملہ نہیں ، خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر چکا ہے، بچے کچھ بڑے ہوتے ہیں تو ماں باپ ان کی ذمہ داری سے بالکل فارغ ہو جاتے ہیں اور انہیں کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے کہ جو چاہیں کرتے پھریں ، بزرگوں کو سرکاری اور ضعیف خانو ں میں پہنچا دیا جاتا ہے، جہاں وہ تنہائی اور اولاد کی جدائی میں سسک سسک کر دم توڑ دیتے ہیں ، اور ان کی باغی اولاد ان کی خبر تک نہیں لیتی، والدین کی یہ تذلیل اور بڑھاپے کی یہ تحقیر ان ممالک میں ہو رہی ہے جو اپنی تہذیب پر بہت نازاں ہیں ۔۹۴؎

مذکورہ بالا معاشرے کی مزید وضاحت سلطان احمد اصلاحی کرتے ہوئے بتاتے ہیں :

ڈیٹنگ (Dating) اور پیٹنگ (Petting) کا مطلب دوسرے لفظوں میں ’’لو میرج‘‘ یا محبت کی شادی ہے۔ مغربی سماج میں ڈیٹنگ دو طرح کی ہوتی ہے ایک مجموعی اور دوسری ذاتی، مجموعی ڈیٹنگ میں بہت سے لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ دعوت، پکنک، کلب، اسکول، کالج وغیرہ میں جمع ہوتے ہیں اور ایسے موقعوں پر جو لڑکے، لڑکیاں ایک دوسرے کا تعارف حاصل کرتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں ، ان میں ایک دوسرے کے لیے کشش پیدا ہوتی ہے پھر آہستہ آہستہ وہ زیادہ نزدیک آتے جاتے ہیں اور اس کے بعد ڈیٹنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور وہ دونوں اکیلے ملنے لگتے ہیں ۔ مغرب میں جوان لڑکے لڑکیوں کے آزاد میل ملاپ کا دوسرا پڑاؤ نیکنگ (Necking)کہلاتا ہے جس کا مطلب ایسے جسمانی تعلقات جو گردن کے اوپری حصے تک محدود ہوں ، اس کے تحت عموماً بوسہ بازی کی جاتی ہے۔

تیسرا آخری مرحلہ پیٹنگ (Petting)یعنی سہلانے کا ہوتا ہے جس کے تحت جوان لڑکے لڑکیاں گردن کے نیچے کے جسمانی اعضا سے کھیلتے ہیں ، جس میں اعضا کو چھونا، سہلانا، پیار کرنا وغیرہ شامل ہے۔۹۵؎

مذکورہ بالا جنسی آزادی اور جنسی کشش خود بخود پیدا نہیں ہوئے بلکہ اس معاشرے کے عظیم مصلحین اور فلاسفر کی بھی نفسیاتی تعلیم و تبلیغ کا بھی اس میں ہاتھ ہے، بقول پروفیسر سید سلیم:

فرائڈ نے دعوی کہا ہے کہ انسانی اعمال کا محرک اول جذبہ کشش جنسی اور جذبہ شہوت ہے، اس نے انسانی زندگی کے تمام اعمال کی تشریح و توجیہہ جنسی جذبہ سے کر ڈالی، حتی کہ معصوم بچے کا انگوٹھا چوسنا بھی اس کی نظر میں جذبۂ جنسی کا مظہر ہے۔۹۶؎

یہی وجہ ہے کہ امریکہ جیسے ملک کی افواج میں اگرچہ 14% عورتیں خدمت سرانجام دیتی ہیں لیکن حقیقت میں وہ بھی عیاشی اور جسمانی لذت کے ذریعہ کے طور پر وہاں موجود ہیں ، کولمبیا یونیورسٹی میں شعبۂ صحافت کی پروفیسر ہلین بنیڈکٹ اپنے مضمون میں رقمطراز ہیں ۔

فوج کی ایک سپاہی میکیلا مونٹویا (Mickicla Montoya) جو ۲۰۰۵ء سے ۲۰۰۶ء کے دوران میں ۱۱ ماہ تک عراق میں امریکی افواج کے ساتھ خدمات انجام دیتی رہی، وہ اس منظر نامے کو اس انداز سے بیان کرتی ہے کہ اگر تم ایک عورت ہو تو ایک فوجی کی نگاہ میں تمہاری تین حیثیتیں ہیں ۔ ۱۔جنسی آوارہ۔۱۔نمائشی چیز۔ ۲۔پانی بہانے کی جگہ، ایک ہم منصب فوجی نے مجھے یہ بتایا کہ میں سوچتا ہوں کہ مسلح افواج میں عورتوں کا وجود مردوں کو سمجھ دار بنانے کے لیے ایک فرحت انگیز شیرینی سے زیادہ کچھ نہیں ۔۹۷؎

مزید لکھتی ہیں کہ ہماری عام شہری زندگی میں بھی ریپ کا جرم ناپسندیدہ حد تک پایا جاتا ہے، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف جسٹس کی رپورٹ کے مطابق ہر چھے میں ایک عورت زندگی میں ایک اس جرم کا نشانہ بنتی ہے، لیکن اصل حقائق تو اور بھی زیادہ خراب صورت پیش کرتے ہیں ، یوں لگتا ہے کہ معاشرہ ایک وبائی مرض کی طرح فعل بد میں متلا ہوتا جا رہا ہے، فوج میں معاملہ اس سے بھی زیادہ بدتر ہے، شہری زندگی کے مقابلے میں فوجی زندگی میں یہ جرم دوگنا زیادہ ہوتا ہے۔۹۸؎

دیت نام کی جنگ اور اس کے بعد لڑی جانے والی جنگوں میں عسکری خدمات سرانجام دینے والے سابق فوجیوں کی ایک نفسیاتی معالج ڈاکٹر ماورین مردوخ اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتی ہیں کہ مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والی 71% عورتوں نے بتایا ہے کہ ملازمت کے دوران ان کو زنا بالجبر کا شکار کیا گیا یا پھر جنسی طور پر نشانہ بنایا گیا۔

Murdoch, M. Polusnyma,

Prevalence of in-service and post service sexual assault among combat and non-combat veterans applying for department of veterans affairs post traumatic stress disorder disability benefits, Military Medicine, May, 2004, P:392-395

یہ تو مغرب کی اخلاقی حالت اور بالخصوص اس میں عورت کی حیثیت و حالت کا سرسری جائزہ ہے، جسے یہاں رقم کیا گیا، نسلی تعصب کے حوالے سے بھی اگر مغربی معاشرے کا مطالعہ کیا جائے تو بنیادی انسانی حقوق کے ان دعویداروں کی بھیانک تصویر سامنے آتی ہے، مغرب سے تعلق رکھنے والے یا اگر مزید وضاحت کر دی جائے کہ سفید چمڑی رکھنے والے انسانوں کے علاوہ دنیا میں بسنے والے دیگر طبقے، مذہب اور علاقے کے لوگ بالعموم اور مسلمان بالخصوص گوروں کی نسل پرستی کا شکار ہیں ، ان لوگوں سے آئے دن رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔

راقم کے پاس ایسے سینکڑوں واقعات اور مشاہدات ہیں جن سے اس معاشرے کی انسانی حقوق کی دعویداری کی قلعی کھل کر سامنے آتی ہے، لیکن چونکہ راقم کا موضوع بحث حقوق نسواں سے متعلق ہے، چنانچہ وہ اسی پر توجہ رکھتے ہوئے صرف ایک واقعہ اشتیاق بیگ کے الفاظ میں رقم کر رہا ہے جس سے ترقی یافتہ مغربی قوموں کی نسلی تعصب کی بدترین حالت کی عکاسی ہوتی ہے۔

’’برطانوی ٹی وی چینل ۴ کا ایک معروف پروگرام ہے، جس کے تحت شوبزنس سے تعلق رکھنے والے نمایاں لوگوں کو لندن میں واقع ایک گھر میں بند کر دیا جاتا ہے اور بیرونی دنیا سے ان کا تعلق منقطع کر دیا جاتا ہے، اس گھر میں یہ نمایاں افراد کئی ہفتوں تک ایک ساتھ رہتے ہیں اور ۲۴ گھنٹے ان کی سرگرمیوں کو ٹی وی کیمروں کے ذریعے ریکارڈ کر کے ناظرین کو دکھایا جاتا ہے، … حالیہ شو میں مصروف انڈین اداکار شلپا شیٹی نے بھی حصہ لیا، ان کے ساتھ ۸ برطانوی مرد اور عورتیں بھی شامل تھیں ، جن کا تعلق شوبزنس سے تھا، یہ پہلا موقع تھا کہ اس پروگرام میں ایشیا سے کسی نے شرکت کی ہو، پہلے ہی دو دنوں میں شلپا شیٹی کو اس گھر میں ساتھیوں کے ساتھ رہتے ہوئے شدید نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا، اس کے ساتھ رہنے والے برطانوی ساتھیوں نے اسے ’’کتیا، باورچی، بھیڑے کی شکل والی لڑکی‘‘ کہہ کر مخاطب کیا، اسے اس کے نام سے پکارنے کی بجائے اسے انڈین اور ایک موقع پر ’’پاکی‘‘ کہہ کر مخاطب کیا، ایک موقع پر جب وہ ساتھیوں کے ساتھ ہاتھ سے کھانا کھا رہی تھی تو ایک ساتھی نے کہا تم انڈین کتنے گندے طریقے سے ہاتھ سے کھانا کھاتے ہو، ایک موقع پر جب اُس نے اپنے ساتھیوں کے لیے انڈین کھانا بنایا تو اُنہوں نے اسے کھانے سے انکار کر دیا اور کہا ’’جن ہاتھوں سے اس نے کھانا بنایا ہے وہ ہاتھ نہ جانے کہاں کہاں گئے ہوں گے‘‘ اس کے لب و لہجے اور انگریزی بولنے کے طریقے کو بھی طنز کا نشانہ بنایا گیا، … شلپا کو یہ احساس دلایا گیا کہ تم ہم میں سے نہیں ہو، انہوں نے اس پر طنز کے اتنے تیر چلائے اور اتنی بھرپور کوشش کی کہ وہ پروگرام چھوڑ کر چلی جائے، شلپا کی دل شکستی کے باعث اسے کئی بار ناظرین نے پروگرام کے دوران روتے ہوئے دیکھا، اس نے برملا کہا ’’کیا یہ جدید برطانیہ ہے؟ اتنا خوفناک، کیا یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں انسانی حقوق کے علمبردار بنتے ہیں ، کیا میں انسان نہیں ہوں ۔۹۹؎

مذکورہ بالا واقعہ برطانیہ جسے ترقی یافتہ اور بنیادی انسانی حقوق کی علمبردار، روشن خیالی اور مہذب قوم کی اصلی اور عملی تصویر پیش کرنے کے لیے کافی ہے، اور ساتھ اس حقیقت کو بھی آشکار کرتا ہے کہ ’’ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی‘‘ مغربی یا ترقی یافتہ کہلانے والی قوموں کے اندر جھانکنے اور وقت بتانے کے بعد ہی اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کے اندر بھی نسل، مذہب، ثقافت اور جنس کی بنیاد پر تعصب موجود ہے لیکن ’’چور بھی کہے چور چور‘‘ کے مصداق وہ اپنی ظاہری کشش اور برتری سے اپنی خامیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے مشرقی اور بالخصوص اسلامی تہذیب و ثقافت اور تمدن کو بُرا کہنے پر ہی اپنی طاقت خرچ کئے رکھتے ہیں ، راقم کی تائید سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی کتاب "Our Endangered Values: America’s moral crisis” میں تحریر درج ذیل سطور سے ہوتی ہے، وہ لکھتے ہیں :

۳۵ زیادہ آمدنی والے ملکوں میں ہونے والے مجموعی قتلوں سے ۱۹ گنا زیادہ قتل امریکہ میں ہوتے ہیں ، گویا سب سے زیادہ قتل امریکہ میں ہوتے ہیں ۔۱۰۰؎

ایک اور جگہ پر لکھتے ہیں :

امریکی لڑکیاں فرانسیسی لڑکیوں کے مقابلے میں دگنا زیادہ تعداد میں ایک بچے کی ماں ہیں ، جب کہ یہ ایک مرتبہ اسقاط حمل کرا چکی ہیں ، 70 گنا زیادہ لڑکیاں سوزاک کا شکار ہو چکی ہیں ، اس کے علاوہ جرمنی کے ٹین ایجزز کے مقابلے میں ۵ گنا زیادہ امریکی ٹین ایجرز ایڈز کا شکار ہوتے ہیں ۔۱۰۱؎

نسلی تفاوت کے تحت Ruth رقمطراز ہے:

Twenty-nine states prohibit marriages between Negroes and whites and in addition thirteen of these states forbid the marriage of whites and orientals. .اداکار شلپا سsablity beno۱۰۲؎

 

 

اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان میں عورت کی حالت

 

 

اسلام عالمگیر ضابطۂ حیات و اخلاق اور دین رحمت ہے، ظہور اسلام سے قبل کی تاریخ کی ورق گردانی ہم پر یہ حقیقت منکشف کرتی ہے کہ وہ جاہلیت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں چھپا ہوا تھا، انسانی اقدار کی پامالی ایک عام سی بات بن کر رہ گئی تھی، بیٹی کی پیدائش تضحیک کا نشان سمجھی جاتی تھی، عورت ذلت ، حقارت اور تجارت کی انتہائی تصویر تھی، وہ تباہی، بربادی اور آفات کی وجہ قرار دی جا چکی تھی، ایسے میں خدائے مہربان کی طرف سے نبی محترمؐ کی صورت میں ایسا پیامبر آیا کہ جس نے جاہلیت کے تصورات اور بالخصوص عورت کی روایتی حیثیت کو نہ صرف غلط کہا بلکہ عملی حیثیت سے معاشرے کی حقیقی شکل و صورت کے نفاذ کے ساتھ بالخصوص عورت کی قدرومنزلت  اور اہمیت میں حیران کن اضافہ فرمایا۔ عورت کو ماں کی حیثیت سے باپ کی نسبت تین گناہ زیادہ فضیلت سے نوازا گیا۔ ماں کے خدمت گار کو جنت کا مستحق قرار دیا گیا، بیٹی کو نہ صرف باعث رحمت قرار دیا گیا بلکہ اُس کی صحیح تربیت کرنے والے کو پیغمبر اسلام کی طرف سے اپنا قرب عطا کیا گیا، شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کا لباس اور جسم کی سی مشابہت دے کر دونوں میں محبت اور مؤدت کے ذرائع پیدا کئے۔

جدید دور اگرچہ سائنسی و معاشی لحاظ سے ترقی یافتہ دور کہلاتا ہے، مگر درحقیقت یہ معاشرتی انحطاط کا دور بھی ثابت ہوا ہے، اس وقت معاشرے میں عورت کو جو برائے نام حقوق حاصل ہیں ،وہ یا تو صرف کاغذوں میں ملتے ہیں یا پھر وہ دراصل عورتوں کے حقوق نہیں ، عورتوں پر ظلم ہوتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ اس معاشرتی دنیا کو جسے مغربی اور مشرقی تہذیب میں بالعموم تقسیم کیا جاتا ہے، عورتوں کے حوالے سے افراط و تفریط کا شکار ہے، مغرب میں عورت کی حقیقی حالت کا طائرانہ جائزہ تو سابقہ بحث میں لیا جا چکا ہے ذیل میں اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان میں عورت کی حقیقی حیثیت اور صورت حال کے بارے میں بحث درج کی جا رہی ہے۔

اُمت مسلمہ کے زوال کے بعد مسلمانوں میں سیاسی انحطاط تو ضرور آیا لیکن ساتھ ہی فکری، تہذیبی اور اخلاقی انتشار بھی خوف ناک صورت میں سامنے آیا، مغرب کی تیز رفتار اور پُر کشش زندگی نے بھی مسلمانوں کو انتہائی متاثر کیا، چنانچہ آج مجموعی طور پر اُمت مسلمہ تین طبقات میں تقسیم نظر آتی ہے۔ پہلا طبقہ ایسا ہے جو بغیر کسی رکاوٹ اور حجت کے مغربی تہذیب و افکار کے نفاذ کا حامی ہے اور اُسے نہ صرف ریاست بلکہ فرد کی زندگی میں بھی لازمی قرار دیتا ہے۔

دوسرا وہ طبقہ ہے جو شدت سے اسلامی تہذیب و تمدن کے نفاذ کا قائل ہے اور اُس میں کسی بھی قسم کے تغیر اور تبدیلی کے خلاف ہے۔

جبکہ تیسرا طبقہ معتدل احساسات اور افکار کی نمائندگی کرتا ہے جو اسلامی ثقافت کو جاری اور نافذ کرنے کا اقرار کرتا ہے لیکن موجودہ دور کے حالات کی مناسبت سے غیر قوموں کی تہذیبی، تعلیمی اور فکری خصوصیات کو بھی اپنے معاشرے کا حصہ بنانے کا حامی ہے۔

اس وقت امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کے لیے کی جانے والی مساعی میں سب سے زیادہ حصہ اس تیسرے طبقے کا ہے لیکن اول الذکر دو طبقات کے مقابلے میں اس کی عددی قوت بھی کچھ کم ہے اور بیرونی حوالے سے بھی اس کی امداد و حمایت کا وہ سامان نہیں ہے جو اول الذکر دونوں طبقات کو ان کے بین الاقوامی حامیان کی طرف سے حاصل ہے۔

مذکورہ بالا تینوں طبقات اپنی اپنی جدوجہد کے باعث اگرچہ مسلمہ امہ میں اپنا اثر رکھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی طبقہ بھی، کوئی ایسی واضح اور عملی معاشرتی تصویر امت کے سامنے نہیں لا سکا جس کے باعث امت مسلمہ میں کسی حوالے سے اتفاق، اتحاد یا ہم آہنگی کی اقدار پروان چڑھ سکیں ، جس کا عملی نتیجہ مسلمانوں میں عدم برداشت، تشدد، نفاق اور گمراہی کی شکل میں سامنے آیا۔ چنانچہ جب دنیا میں مسلم معاشرے کو دیکھا جاتا ہے تو بالعموم ایک منتشر معاشرہ کی شکل سامنے آتی ہے، جہاں حقیقی اسلامی تہذیب و تمدن کا نفاذ تو شاید ناپائدار محسوس ہوتا ہے البتہ قومی، روایتی اور مسلکی معاشرت کے ساتھ مغربی تہذیب و تمدن کا سکہ جاری و ساری دکھائی دیتا ہے، جسے راقم امت مسلمہ کے زوال کے بنیادی اسباب میں سے سب سے اہم اور حقیقی سبب تصور کرتا ہے، کیونکہ راقم کا یہ پختہ یقین ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستے کے علاوہ جو بھی راستہ ہو گا وہ کبھی بھی منزل پر نہیں پہنچ سکتا، اور اللہ اور اس کے رسول کی شریعت کے علاوہ کوئی مذہب یا تہذیب اللہ کی خوشنودی نہیں حاصل کر سکتی اور امت مسلمہ کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ وہ شریعت خداوندی کو بھُلا کر غیروں کے راستے پر چل پڑی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنا وجود تک بھی مٹانے کے قریب ہے۔

بقول سید قطب:

امت مسلمہ اللہ کی بتائی ہوئی صراط مستقیم سے منحرف ہو گئی، عقیدہ شریعت سے علیحدہ ہو گیا اور عقیدہ بے حس، بے کیف جذبہ کی طرح سینہ کے کسی اُجڑے ہوئے گوشے میں نیم مردہ حالت میں جا پڑا، جس کا حقائق کی دنیا سے کوئی رشتہ باقی نہ رہا اور بجائے اس کے کہ عملی زندگی میں اللہ کا قانون نافذ ہو، مسلمانوں نے اپنی زندگی میں غیر اللہ کے قانون کو اپنا لیا ہے چنانچہ امت مسلمہ کا حقیقی وجود ہی ملیا میٹ ہو گیا۔۱۰۳؎

امت مسلمہ کے فکری اور مذہبی انتشار اور تغیرات نے اُسے بذات خود شرح صدر سے دور کر دیا۔ جو کائنات پر حکمرانی کے لیے منتخب ہوا تھا اور دنیا کی ہدایت کا ذمہ دار تھا، اُس نے خود ہی محکومی اور جاہلیت کے دبیز پردے اپنے اوپر اوڑھ لئے، بقول ابوالحسن ندوی کے:

یہ مسلمان دوسروں کو کیا پیغام دیں گے جن کو نمازیوں کی افادیت کا خود یقین نہیں رہا جن کو خدا کے خیر و شر اور نفع و ضرر کے مالک ہونے پر خود یقین نہیں رہا، جن کو تقدیر کے ہونے پر خود یقین نہیں رہا، جنہوں نے امریکیوں کو اپنا رزاق سمجھ لیا۔۱۰۴؎

امت مسلمہ کے زوال نے جہاں مجموعی طور پر انسانی زندگی کے ہر شعبہ پر اثرات ڈالے وہاں بالخصوص عورت کی حیثیت اور حالت کو بھی انتہائی متاثر کیا، دین اسلام نے عورت کی حالت اور حیثیت میں بہتری کے لیے جو حقوق و فرائض متعین کئے، جب عصر حاضر کی مسلم تہذیب تمدن اس پر حاوی ہوئی اور ساتھ مغربی تہذیب نے بھی اپنی پُر کشش ظاہری تصویر کے ذریعے ہلہ بولا تو جہاں ایک طرف مسلم معاشرہ میں اُن حقوق و فرائض کے نفاذ کے بارے بے حسی اور بے التفاتی کا مظاہرہ ہوا، وہاں خود خواتین بھی اسلامی حقوق و فرائض کے حقیقت پر مبنی ہونے اور عملی طور پر اس کے اپنی زندگی کے نفاذ کے بارے میں واضح عقیدہ یا تصور پر شک و شبہ کا شکار ہو گئیں ، کل تک جن اعمال کو صفات سمجھا جا رہا تھا آج ایسی صفات اور اعمال تنقید کا نشانہ بننے لگے۔ بقول امین احسن اصلاحی:

اب تک جو صفتیں ایک مسلمان عورت کے لیے قابل تعریف سمجھی جاتی رہیں ہیں ، اور ہر شریف عورت بطور ایک اخلاقی نصب العین کے، جن کو نگاہ میں رکھتی تھیں ، اب ان کو ایک ایک کر کے قابل نفرت ٹھہرایا جا رہا ہے۔۱۰۵؎

سید مظہر علی ادیب مزید واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

وہ کنواری لڑکیاں جو گھروں کے اندر بھی اپنے باپ، بھائیوں کے سامنے ’’میک اپ‘‘ کرتے ہوئے شرماتی تھیں ، وہ سربازار ماڈرن ’’باپ بھائیوں ‘‘ کے ہمراہ پوری زیب و زینت کے ساتھ ناز نخرے کے انداز میں گھومتی پھرتی نظر آنے لگیں ۔۱۰۶؎

راقم اس بحث سے تو سرورکار ہی نہیں رکھتا کہ عورتوں کے لیے مرتب کئے گئے حقوق غلط ہیں یا درست، وہ تو یہ سمجھتا ہے کہ حقیقت میں تو اُسے بنیادی انسانی حقوق سے بھی دور رکھا گیا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کرنے اور وٹہ سٹہ جیسی رسوم سے لے کر وراثتی حقوق کی عدم فراہمی اور عورتوں کی خرید و فروخت تک کے رسوم و رواج کا مسلم معاشرے میں موجود اور عمل پذیر ہونا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ ممالک ابھی تک عورت کو اُس کا جائز مقام بھی نہ دے سکے جو اُس کا حق ہے، ایک اخباری رپورٹ کے مطابق سعودی عرب جیسے اسلامی اور مسلمانوں کے لیے مرکزی علامت رکھنے والے ملک میں گزشتہ ۲۰ سال کے دوران طلاق کی شرح ۶۰ فیصد بڑھ گئی ہے اور بیشتر درخواستیں شادی کے پہلے سال ہی دائر کر دی جاتی ہیں ۔۱۰۷؎

غیرت کے نام پر قتل اگرچہ بہت سے ممالک میں وقوع پذیر رہتے ہیں لیکن مسلم ممالک میں یہ ایک رواج اور ثقافت کے طور پر موجود ہیں ۔

The Practice of honour killing is over-whelmingly associated with certain muslim cultures and the peoples influenced by those cultures.۱۰۸؎

جب ہم عورت کے معیار زندگی کو پاکستان کے حوالے سے پرکھتے ہیں تو ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ پیدائش کے وقت سے لے کر جوانی تک، کسی نہ کسی سطح تک جنس کی بنیاد پر امتیاز روا رکھا جاتا ہے، خاندان کے اندر سے لے کر قومی اداروں تک یہ امتیاز بہر حال نظر آتا ہے، اُسے ظاہری یا کاغذی طور پر ملنے والے حقوق تک سے بھی استفادہ کے قابل نہیں بنایا گیا، حتی کہ اُسے اسلام سے ملنے والے واضح حقوق اور مختلف دساتیر کے ذریعے حاصل حقوق کو بھی رسوم و رواج کی بھینٹ چڑھا کر عملی طور پر مفلوج کر دیا گیا۔ پروین شوکت کے مطابق:

مسلمانوں میں ایک رجحان نشوونما پا چکا تھا کہ وہ عورتوں کے اسلامی حق کو تسلیم نہیں کرتے تھے، مثلاً خاوند اپنی بیویوں کو مہر ادا نہیں کرتے تھے بلکہ اکثر اپنے آپ کو اس سے مستثنیٰ قرار دینے کی کوشش کرتے۔۱۰۹؎

1947ء میں قیام پاکستان کے بعد بھی غلط رسوم و رواج پاکستانی ثقافت کا حصہ رہی، مختلف معاملات اور تنازعات میں ابھی تک اسلامی اور ملکی قوانین سے زیادہ رسوم و رواج کو ترجیح دی جاتی ہے، اس وقت بھی پاکستانی عورتیں معاشرتی، تعلیمی اور سیاسی طور پر مردوں سے بہت پیچھے ہیں ، خواتین کی پست حالت کا ایک بنیادی اور بڑا سبب ناخواندگی ہے اور خصوصاً دیہی علاقوں میں خواتین کی شرح تعلیم بہت ہی کم ہے۔

پاکستان میں مردوں کی اکثریت ابھی تک اسلامی مساوات اور انصاف کے بنیادی اصولوں سے براہ راست متصادم ہے، اور اپنی عورتوں کو پیدائشی لحاظ سے کم تر اور اپنے سے پست خیال کرتی ہے، اسلام عورت کو جائیداد میں وراثت کا حق دیتا ہے، جبکہ دیہی اور قبائلی معاشرے میں عورت کو وراثت کا حق نہیں دیا جاتا، یہ حق صرف زبانی جمع خرچ بن کر رہ گیا ہے اور عملی طور پر وہ اس حق سے محروم ہے، پاکستان کے بہت سے علاقے اور خاندانوں میں اب بھی لڑکے کی پیدائش پر مبارکباد دیں اور مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں ، مگر لڑکی کی پیدائش پر کسی کو کانوں کان بھی خبر نہیں ہوتی، تاہم رشتہ دار ہمدردی کے دو بول ضرور بولنے آ جاتے ہیں ۔

پاکستان کے دیہی اور قبائلی علاقوں میں عورتیں جاگیردارانہ معاشرے میں اپنے بنیادی حقوق سے محروم زندگی گزار رہی ہے، کاروکاری، ونی، وٹہ سٹہ اور زبردستی کی شادی اُس کی قسمت کا حصہ بن کر رہ گئی ہیں ، طلاق یافتہ خواتین تو ہمارے معاشرے میں بُری نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں ایسی عورت کو خاندانی عزت پر دھبہ تصور کیا جاتا ہے، مرد عورتوں کو طلاق دینے کے بعد نہ صرف شرعی نفقہ ادا نہیں کرتے بلکہ ان کا سامان تک بھی اُنہیں واپس نہیں کیا جاتا، حالانکہ بقول Ralph Pateui

اسلامی قوانین عورت کے مقام کو بہتر طور پر واضح کرتے ہیں اور اس کی بہتری کی تلقین کرتے ہیں ، عورت کے مختلف معاملات مثلاً وراثت میں حصہ، شادی، طلاق اور بیوہ کی دوسری شادی وغیرہ میں قانونی حیثیت کے بارے میں قرآن پاک نے ایک مستند اور جامع لائحہ عمل دیا ہے۔۱۱۰؎

دیہاتی زندگی میں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں ۔ گھریلو زندگی کے تمام معاملات تو اُس نے نبھانے ہیں ، کھیتوں میں بھی وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرتی نظر آتی ہے، بقول کشور ناہید

عورت کھیت میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ گھر کا سارا کام بھی کرتی ہے، ایک پاکستانی عورت ساڑھے پانچ گھنٹے جانوروں کی دیکھ بھال میں صرف کرتی ہے، ایک گھنٹہ دودھ دھونے میں اور چارہ ڈالنے میں ، پونے پانچ گھنٹے کھانا بنانے اور محفوظ کرنے میں ، ڈیڑھ گھنٹہ کھیت تک کھانا لے کر جانے میں ، ۴۵ منٹ گھر صاف کرنے، آدھا گھنٹہ پانی لانے میں اور آدھا گھنٹہ بچے کی دیکھ بھال میں صرف کرتی ہے۔۱۱۱؎

اگرچہ پاکستان میں عورتوں کے معیار زندگی میں کچھ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ۔ پرانے رسم و رواج اور روایتیں دم توڑ رہی ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین پروفیسر، ڈاکٹر، قانون دان، دینی عالم اور مختلف شعبۂ زندگی میں کسی نہ کسی روپ میں موجود ہیں ، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب بھی وہ کسی نہ کسی سطح پر امتیازی سلوک کا ضرور شکار ہیں ۔

٭٭٭

 

 

 

حواشی

 

 

۱۔ خالد علوی، ڈاکٹر، اسلام کا معاشرتی نظام، الفیصل ناشران، لاہور، ۲۰۰۵ء، ص:۴۶۱

۲۔ القرآن الحکیم، النحل: ۵۹-۵۸

۳۔ القرآن الحکیم، الزخرف:۱۷

۴۔ مولانا حالی، الطاف حسین، مسدس

۵۔دارمی، محمد عبداﷲ بن عبدالرحمن، سنن الدارمی، طبع فی مطبعۃ الاعتدال، دمشق، ۱۳۴۹ھ، ۱/۴-۳

۶۔ طبری، محمد بن جریر، جامع البیان عن تاویل آی القرآن المعروف بہ تفسیر الطبری، داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، طبع الاول، ۲۰۰۱ء، ۳۰/۹۱

۷۔ ابو داؤد، سلیمان بن اشعث سجستانی، کتاب الطلاق، باب فی اسلم وعندہ نساء أکثر من اربع، دارالاحیاء التراث العربی، بیروت لبنان، سن ندارد، ح:۲/۲۲۴۱، ص:۲۸۲

۸۔ ترمذی، محمد بن عیسی، الجامع الصحیح سنن الترمذی، کتاب النکاح، باب ماجاء فی الرَّجُل یُسلم وعندہ عشر نسوۃ، داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، ۲۰۰۰ء، ح:۱۱۲۸، ص:۳۲۶

۹۔ مودودی، ابوالاعلیٰ، سید، سیرت سرور عالم، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، ۱۹۹۹ء، ۱/۵۹۰

۱۰۔ عبدالرحمن خان، ایم، عورت انسانیت کے آئینہ میں ، ثناء اللہ خان، لاہور، ۱۹۵۷ء، ص:۹۵

۱۱۔ صارم، عبدالصمد، مقالات صارم، حجازی پریس، لاہور، س۔ن، ص:۸۸

۱۲۔ القرآن الحکیم، النساء:۱۲۹

۱۳۔ حاکم،ابو عبداﷲ محمد نیشا بوری، المستدک علی الصحیحین فی الحدیث، کتاب التفسیر، شان نزول آیہ الطلاق مرتان، مکتبہ و مطابع النصر الحدیثۃ، ریاض، س۔ن، ۲/۲۸۰-۲۷۹        ۲۔ الرحیق المختوم، المکتبہ السلفیہ، لاہور، ۱۹۹۸ء، ص:۶۸

۱۴۔ ضیاء النبی،۱/۲۶۶ ؛ بحوالہ، تاریخ العرب، ڈاکٹر فلپ ہیٹی، دارالکشاف، بیروت، ۱۹۶۵ء، ص:۶۱ (راقم نے مذکورہ تحریر فلپ، کے، حتی کی اصل کتاب History of the Arabs اور انجمن ترقی اردو پاکستان کی طرف سے شائع کیا گیا ترجمہ کتاب ’’تاریخِ ملت عربی مترجم مولوی سید ہاشمی صاحب فرید آبادی میں تلاش کیا مگر راقم کو کہیں بھی ایسا مواد نہ مل سکا۔)

۱۵۔ ضیاء النبی، ۱/۳۵۲

۱۶۔ علی، خالد، ڈاکٹر، اسلام کا معاشرتی نظام، الفیصل ناشران، لاہور، ۲۰۰۱ء، ص:۴۶۱

۱۷۔ سعید، امر علی، عورت اسلا م کی نظر میں ، آئینہ ادب، انار کلی، لاہور، ۱۹۷۶ء، ص:۲۹

۱۸۔ صارم عبدالصمد، مقالات صارم، ص:۸۵

۱۹۔ اسلام کا معاشرتی نظام، ص؛۴۶۲ (تاریخِ اخلاق یورپ مترجم دریا آبادی، لیکی)

۲۰۔ ایم عبدالرحمن، عورت انسانیت کے آئینے میں ، ثناء اللہ خان، لاہور، ۱۹۵۷ء، ص:۸۸۲

۲۱۔ ایم عبدالرحمن، عورت انسانیت کے آئینے میں ، ثناء اللہ خان، لاہور، ۱۹۵۷ء، ص:۸۸

۲۲۔ مودودی، ابوالاعلیٰ، سید، پردہ، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۲ء، ص؛۱۴

۲۳۔ سعید، سید احمد علی، مفتی، عورت اسلا م کی نظر میں ، آئینہ ادب انار کلی، لاہور، ۱۹۷۶ء، ص:۳۸

۲۴۔ الازہری، محمد کرم شاہ، پیر،ضیاء النبیؐ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۴ء، ۱/۱۱۱

۲۵۔ ضیاء النبیؐ، ۱/۱۰۶۱

۲۶۔ایس،ایم،ناز۔ ڈاکٹر، اسلام میں عورت کی قیادت، مکتبہ عالیہ، لاہور، ۱۹۹۴، ص:۵۰

۲۷۔ لیکی، تاریخ اخلاق یورپ (اردو)، مترجم: عبدالماجد دریا آبادی، اورنگ آباد، دکن، ۱۹۳۲ء، ۲/۱۹۰

۲۸۔ مسلمان عورت، طارق اکیڈیمی، فیصل آباد،۲۰۰۲ء، ص:۱۲۰

۲۹۔ ندوی، عبدالقیوم، مولانا، اسلام اور عورت، البدر پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۸۳ء، ص:۲۵

۳۰۔ عورت اسلامی معاشرے میں ، ص:۱۹

۳۱۔ مودودی، ابوالاعلیٰ، سید، پردہ، اسلامک پبلی کیشنز لاہور، ۲۰۰۲ء، ص:۱۸

۳۲۔ ایضاً، ص:۱۸،۱۹۴

۳۳۔ عورت اسلامی معاشرے میں ، ص:۱۹

۳۴۔ مودودی، ابوالاعلیٰ، سید، پردہ، اسلامک پبلی کیشنز لاہور، ۲۰۰۲ء، ص:۱۸

۳۵۔ ایضاً، ص:۱۸،۱۹

۳۶۔ ندوی، شاہ معین الدین، تاریخِ اسلام، مکتبہ رحمانیہ، لاہور، س۔ن، ۱/۲۷

۳۷۔ کرسٹن سین، آرتھر، پروفیسر، ایران بعہد ساسانیان، مترجم، ڈاکٹر محمد اقبال، انجمن ترقی اردو(ہند) دہلی، ۱۹۴۱ء، ص:۴۲۹

۳۸۔ صدیقی، محمد مظہر الدین، اسلام اور مذاہب عالم، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ۱۹۹۷ء، ص:۲۰۴

۔۳۹Ameer Ali, Syed, The Spirit of Islam, Sang-e-meel Publications, Lahore, P:227

۴۰۔ ایران بعہد ساسانیان، ص:۴۳۶ – ۴۳۷

۔۴۱Ameer Ali, Syed, The Spirit of Islam, Sang-e-meel Publixations, Lahore, P:227

۴۲۔ ایران بعہد ساسانیان، ص:۴۳۶ – ۴۳۷

۴۳۔ ایران بعہد ساسانیان، ص:۴۳۰

۴۴۔ایضاً، ص:۴۳۲

۴۵۔ عہد نامہِ قدیم، کتب پیدائش، باب :۳، آیات ۱۱-۱۶، ص؛۷، بائبل سوسائٹی، لاہور، ۱۹۹۳ء

۴۶۔ عورت اسلامی معاشرہ میں ، ص:۲۷

۴۷۔ کتاب اِستثنا، باب:۲۴، آیت:۱

۴۸۔ اسلام اور عورت،ص؛۲۵

۴۹۔ ظہوری ، عبدالوہاب، اسلام کا نطام حیات، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ۱۹۸۲ء، ص:۱۷۴

۵۰۔ کتاب مقدس، کتاب استثنا، باب:۲۵، آیات: ۵-۹

۵۱۔ پردہ، ص:۲۰-۲۱

۵۲۔ عہد نامہ جدید، باب ۱۱، آیات ۸ تا ۱۱

۵۳۔ ایضاً، باب ۲، آیات نمبر ۱۱ تا ۱۴

۵۴۔ ندوی،معین الدین احمد، شاہ، دین رحمت، مکتبۂ عارفین، کراچی، ۱۹۶۷ء، ص:۱۰۶

۵۵۔ مقالات صارم، ص:۸۴

۵۶۔ عہد نامہ جدید، باب:۵، آیات ۱-۳

۵۷۔ عہد نامہ جدید، باب ۷، آیات ۳۲-۳۴

۵۸۔ ایضاً، باب:۷، آیات ۳۸

۵۹۔ پردہ، ص:۲۱

۶۰۔ رگ وید، منڈل:۱۰، سوکت۸۶، رچا۱۰، بحوالہ تمدن ہند، ص:۲۴۵

۶۱۔ عہد نامہ جدید، باب ۷، آیات ۳۲-۳۴

۶۲۔ ایضاً، باب:۷، آیات ۳۸

۶۳۔ پردہ، ص:۲۱

۶۴۔ رگ وید، منڈل:۱۰، سوکت۸۶، رچا۱۰، بحوالہ تمدن ہند، ص:۲۴۵

۶۵۔ لی بان، گستاؤ، ڈاکٹر، تمدن ہند، مترجم سید علی بلگرامی، مقبول اکیڈمی، لاہور، ۱۹۶۲ء، ص:۲۴۵

۶۶۔ منوجی، مہاراج، منو سمرتی، ادھیائے۳، شلوک۶۱، بھائی تارا چند پبلشرز، لاہور، س۔ن، ص:۴۴

۶۷۔ ایضاً، ادھیائے:۹، شلوک ۲-۴

۶۸۔دیانند سرسوتی، ستیارتھ پرکاش، مترجم چموپتی ایم اے، مہاشہ کرشتن، منتری آریہ پرتی ندھی سبھا پنجاب، گورودت عھون، لاہور، ۱۹۴۶، ص:۱۱۶

۶۹۔ ستارتھ پرکاش، ص:۱۱۳

۷۰۔ ایضاً

۷۱۔ ادھیائے ۹،شلوک:۱۷

۷۲۔ ادھیائے:۵، شلوک: ۱۴۷،۱۴۸

۷۳۔ ادھیائے۵،شلوک: ۱۵۵

۔۷۴ Shartin, shakuntala Rao, women in the sacred laws, Bharatiya Vidya Bhavan, chaupatty, Bombay, 1959, p:16

۷۵۔ البیرونی، ابو ریحان محمد، کتاب الہند، مترجم:سید اصغر علی، الفیصل ناشران، لاہور، ۱۹۹۴ء، ۲/۳۳۴

۷۶۔ اسلام کا معاشرتی نظام، ص:۴۶۸

۷۷۔ جعفر حسین، ہندوئی سماجیات، انجمن ترقی اردو(ہند) دہلی، س۔ن، ص:۶۷

۷۸۔۔ ندوی، معین الدین، دین رحمت، مکتبہ عارفین، کراچی، ۱۹۶۷، ص:۱۰۷

۷۹۔ لی بان، گستاؤ، تمدن عرب، مترجم: سید علی بلگرامی، مقبول اکیڈیمی لاہور، ۱۹۳۶ء، ص:۵۴۵

۸۰۔ سید قطب شہید، اسلام میں عدل اجتماعی، محمد نجات اللہ صدیقی(مترجم)، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۷۹ء، ص:۱۵۹

۸۱۔اسلام کا معاشرتی نظام،ص:۴۸۱

۸۲۔اصلاحی، امین احسن، پاکستانی عورت دوراہے پر، مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، ۱۹۷۸ء، ص:۷۱

۔۸۳The Silenced majority, Dell Publishing Co, New York, 1950, P:9

۔۸۴ Women and Russia, first published in UK, 1984, P:3

۔۸۵Lexicon Universal Encyclopedia, Lexicon Publication New York, 1987, P:201

۸۶۔ماہنامہ بتول، لاہور، ۱۹۸۲ء

۸۷۔ عورت قرآن و سنت اور تاریخ کے آئینے میں ، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۲ء، ص:۷۶۱

۔۸۸ News week, New York, April, 16, 1984

۔۸۹ Mirza M. Hussain, Islam and Socialism, Muhammad Ashraf sons, Lahore, 1947, P:181

۔۹۰Encyclopedia Britannica, New York, 1950, 10/732

۹۱۔چوہدری محمد رفیق، اسلام اور نظریہ مساوات مردوزن، ادارہ معارف اسلامی، لاہور، ۱۹۹۰ء، ص:۲۵

۹۲۔ محمد قطب، سید، اسلام اور جدید مادی افکار، مترجم: سجاد احمد کاندھلوی، اسلامک پبلی کیشنز،لاہور، ۱۹۸۴ء،ص:۲۲۳

۹۳۔ پردہ، ص:۱۱۲

۹۴۔ پردہ، ص:۱۱۳

۹۵۔ بحوالہ عفت و عصمت کا تحفظ، ص:۱۰۲

۹۶۔ تحریکِ نسواں اور اسلام، ص:۲۸

۹۷۔اصلاحی، سلطان احمد، اسلام کا نظریہ جنس، الفیصل ناشران، لاہور، ۱۹۹۵ء، ص:۳۵

۹۸۔ ٹودے نیوز، لندن، ۳جون ۱۹۵۶ئ، شمارہ نمبر۶۰۸،ص:۲ بحوالہ عفت و عصمت ،ص:۱۱۶

۹۹۔ روزنامہ جنگ، لندن، مورخہ ۶ نومبر ۱۹۹۳ء

۱۰۰۔ بحوالہ عفت و عصمت، ص:۳۴۰

۱۰۱۔بحوالہ عفت و عصمت، ص:۳۴۰

۱۰۲۔برق، غلام جیلانی، الحاد،مغرب اور ہم، مکتبہ جدید لاہور، ۱۹۷۸ء، ص:۱۷

۱۰۳۔ اسلام کا نظریہ جنس، ص:۴۳،۴۴

۱۰۴۔محمد سلیم، پروفیسر، مغربی فلسفہ تعلیم کا تنقیدی مطالعہ،ادارہ تعلیم و تحقیق، تنظیم اساتذہ پاکستان، ۱۹۸۶ء، ص:۴۰

۔۱۰۵Why Soldiers Rap? retrieved on 09-02-2010 from Why Soldiers Rape — In These Times

  1. Ibid

۱۰۶۔اشتیاق بیگ، ترقی یافتہ مغربی قوموں کی حالت زار، نسلی تعصب کی بدترین مثالیں ، ماہنامہ بیداری، سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ، حیدرآباد، جلد۴،شمارہ۴۸، مارچ۲۰۰۷ئ، ص:۳۳،۳۴

۱۰۷۔ جمی کارٹر، امریکا کا اخلاقی بہران، محمد احسن بٹ(مترجم)،دارالشعور، لاہور، س۔ن، ص:۲۹   ۳۔ایضاً،ص:۸۰

۔۱۰۸ Ruth & Shonle Cavan, Marriage and Family in the modern world, Thomas Crowell company, New York, 1970, P:237

۱۰۹۔ محمد قطب، سید، جدید جاہلیت، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۸۰ء،ص:۲۳۰

۱۱۰۔ نئی دنیا امریکہ میں کچھ صاف صاف باتیں ، مجلس نشریات اسلام، کراچی، ۱۹۸۱ء، ص:۳۶

۱۱۱۔ اسلامی معاشرہ میں عورت کا مقام، فاران فاونڈیشن،لاہور، ۲۰۰۱ء،ص:۱۴۹

۱۱۲۔ادیب مظہر علی،سید، چادر اور چار دیواری، مکتبہ السفیر، لاہور،۱۹۸۹ء،ص:۸

۱۱۳۔ روزنامہ جنگ، ملتان، ۸فروری ۲۰۱۰ء

Honor Killing, Retrived on 25-11-09, http://www.wikipedia.org/wiki/karo-kari

Parveen, Shaukat Ali, Status of Women in the muslim world, Aziz Publishers, Lahore, 1975, P:160

Women in the Modern World, Collier Macmillan Ltd, Free Press, 1967, P:11

کشور ناہید، عورت خواب اور خاک کے درمیان، گل رنگ پبلشرز، لاہور ،۱۹۸۵ء،ص:۷۶

٭٭٭

ماخذ:

القلم 

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید