FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

عہد گم گشتہ — استاد محبوب نرالے عالم

 

 

دسمبر 2009 میں کی گئی ایک تحقیق

نایاب دستاویزات و تصاویر – چند حقائق

 

راشد اشرف

 

 

 

 

 

 

 

 

افسردگی سوختہ جاناں ہے قہر میر

دامن کو ٹُک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے آگ

 

 

 

 

ہمارے سامنے ایک خاتون اپنی اشکبار آنکھیں لیے بیٹھی تھی، اس کی والدہ اور بڑی بہن افسردہ بیٹھے تھے، ذکر مرحوم استاد محبوب نرالے عالم کا تھا، کمرے کی فضا بوجھل ہو چلی تھی، دکھ، حیرت، رنج و غم، کتنے ایسے جذبے تھے جو ہمیں پوری طرح گرفت میں لے چکے تھے۔ یا خدا، کیا یہ اسی شہر نگاراں (کراچی) کا قصہ ہے کہ جہاں زیادہ تر نفع و نقصان کی بنیاد پر لوگوں سے تعلقات رکھے جاتے ہیں۔ہم سوچتے ہیں اس مضمون کی ابتدا کیسے اور کہاں سے کریں۔ خیال آیا کہ یہی مناسب رہے گا کہ واقعات کو بلا کم و کاست بیان کرتے چلیں کہ ابن صفی صاحب کے پڑھنے والوں کی ذہنی و فکری تربیت تو صفی صاحب اپنی تحریروں کے ذریعے سے آج تک خود کرتے ہیں۔دسمبر بیس 2009 کی صبح جب ہم محمد حنیف صاحب (ابن صفی ڈاٹ انفو) کی ارسال کی ہوئی لگ بھگ پانچ سال پرانی اخباری خبر پر درج کراچی کے علاقے اورنگی کے پتے کو اپنی والدہ کے ہمراہ (کہ جن کی برکت سے وادی اردو پر موجود ابن صفی صاحب سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات کی کھوج ممکن ہوتی چلی گئی جن پر ماضی کی گرد پڑ چکی تھی) اور ایک کرم فرما جناب امجد اسلام کی رفاقت میں ڈھونڈنے نکلے تو کامیابی کا امکان صرف ایک فیصد تھا۔ اورنگی کی گلیوں میں بھٹکتے، لوگوں سے رہنمائی کے خواستگار، بلآخر ہم اس جگہ پہنچنے میں کامیاب ہوئے کہ جو اس خانماں برباد انسان کا عرصہ 15 سال تک آخری ٹھکانہ کہلایا جسے سری ادب کے بے تاج بادشاہ جناب ابن صفی نے دنیا کے روبرو استاد محبوب نرالے عالم کے نام سے روشناس کروایا۔ دروازے پر دھڑکتے دل کے ساتھ دستک دی تو ایک خاتون سامنے آئیں۔ یوں تو ہم منزل مراد پر پہنچ کر بھی ناکام لوٹ آتے کہ گھر کا مرد موجود نہ تھا لیکن ہماری والدہ کی موجودگی کی بنا پر گھر کے اندر رسائی ممکن ہو پائی اور یوں صفی صاحب کے حوالے سے ایک اور بند دروازہ ہم پر کھلا، برق رفتاری سے امتداد زمانہ کی نظر ہوتے ایک عہد کے مخفی گوشے آشکار ہوئے۔بے نوا شاعر، ابن صفی صاحب کے قلم کی زبان میں ’’ادیف‘‘ (ادیب)، شریف النفس و درویش صفت انسان اور زمانے کی ناقدری کا شکار حرماں نصیب، استاد محبوب نرالے عالم کا پتہ ملا۔

 

آگے بڑھنے سے قبل ایک ذرا یہاں ابن صفی صاحب ہی کے ناولز سے اس محبوب نرالے عالم کے کردار کا جائزہ لیں جسے صفی صاحب نے عمران سیریز میں امر کر دیا۔ واضح رہے کہ درج ذیل اقتباسات استاد کی ابن صفی صاحب سے دوران ملاقات کہی ہوئی وہ باتیں ہیں جنہیں صفی صاحب نے تقریباً من و عن عمران سیریز میں استعمال کیا ہے۔ ان میں سے کئی باتوں کی تصدیق استاد کے مرتب کردہ اس ذاتی رجسٹر سے ہوئی جو استاد کے وسیع القلب اہل خانہ (جنہوں نے استاد کو 15 برس اپنے گھر میں محبت و عقیدت کے ساتھ رکھا) نے ہمیں مرحمت کیا تھا:

 

 

ڈاکٹر دعاگو (1)

 

یہ تھے استاد محبوب نرالے عالم۔ بے پناہ قسم کے شاعر۔شاعر کس پائے کے ہوں گے، یہ تو تخلص ہی سے ظاہر تھا۔ اتنا لمبا چوڑا تخلص شاید ہی کسی مائی کے لال کو نصیب ہوا ہو۔ استاد کا کہنا تھا کہ بڑا شاعر وہی ہے جس کے یہاں انفرادیت بے تحاشا پائی جاتی ہو، لہذا ان کا کہا ہوا شعر ہمیشہ بے وزن ہوتا تھا۔ بسر اوقات کے لیے پھیری لگا کر مسالے دار سوندھے چنے بیچتے تھے۔ مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جو بھی پکڑ پاتا بری طرح جکڑ لیتا۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا کہ سننے سنانے کے چکر میں استاد ہفتوں دھندے سے دور رہتے۔ بڑے بڑے لوگوں سے یارانہ تھا، پھر عمران کیسے محروم رہتا۔

’’کوئی عمدہ سا شعر استاد‘‘ – عمران انہیں کی میز پر جمتا ہوا بولا

استاد نے منہ اوپر اٹھایا۔ تھوڑی دیر ناک بھوں پر زور دیتے رہے پھر جھوم کر بولے ’’سنیے‘‘

حسن کو آفتاب میں صنم ہو گیا ہے

عاشقی کو ضرور بے خودی کا غم ہو گیا ہے

پھر بولے۔ ’’پچھلی رات مچھ میں غالب کی روح حلول کر گئی تھی، سنو:

تم بھلا باز آؤ گے غالب

راستے میں چڑھاؤ گے غالب

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب

شرم تم کو مگر نہیں آتی

’’یہ تو وزن دار ہے استاد‘‘ – عمران حیرت سے بولا

‘‘ میں نے بتانا نا غالب کی روح حلول کر گئی تھی، پھر وزن کیسے نہ ہوتا‘‘

 

 

ڈاکٹر دعاگو (2)

 

‘‘ اور جی یہ لوگ میری اردو شاعری کی قدر کرتے ہیں لیکن میں اسے کچھ بھی نہیں سمجھتا- میرا اصل رنگ دیکھنا ہو تو فارسا میں سنیے‘‘

 

’’فارسا‘‘ ۔ ڈاکٹر دعاگو نے حیرت سے کہا

 

’’یہ بھی مصیبت ہے‘‘ ۔ عمران نے سر ہلا کر کہا ۔ ‘‘ استاد کی شاعری میں نر ۔ مادہ ہو جاتا ہے اور مادہ – نر! اس لیے ان کی گرفت میں آتے ہی فارسی بھی فارسا ہو جاتی ہے۔ ہاں تو ہو جائے استاد فارسا میں کچھ‘‘

 

استاد نے حسب عادت چھت کی طرف منہ اٹھا کر ناک بھوں پر زور دینا شروع کر دیا۔ پھر بولے ’’سُنیے‘‘

 

نظر خُمی خُمی، نظر گُمی گُمی، نظر سُمی سُمی

دھمک شک فزوں، فضا فسرونی، حیا لبم لبم

عشر خموشگی، خمو عشر فشاں، نمو زوم زوم

قلی و قل ونی، وقل، فنوقنی قنا قلم قلم

نظر خُمی خُمی، نظر گُمی گُمی، نظر سُمی سُمی

’’بس بسں‘‘ ڈاکٹر دعاگو ہاتھ اٹھا کر ناخوشگوار لہجے میں بولا۔ ‘‘ آپ سے ان کا کیا رشتہ ہے‘‘ ۔ اس نے عمران سے پوچھا۔

قبل اس کے عمران کچھ کہتا، استاد نے اچھل کر ایک شعر عنایت کر دیا:

 

 

پوچھو ہو رشتہ ہم سے فسردہ بہار دل

ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے مزار کے

’’بس ۔۔ بس‘‘ ڈاکٹر دعاگو ہاتھ اٹھا کر ناخوشگوار لہجے میں بولا ’’مسٹر عمران، آپ میرا وقت برباد کر رہے ہیں‘‘

’’اوہ ۔۔ جی ہاں ۔۔ ہپ‘‘ عمران تیزی سے اٹھا اور استاد کا ہاتھ پکڑ کر دروازے کی طرف کھینچتا چلا گیا

’’بہت حرامی معلوم ہوتا ہے‘‘ ۔ کمرے سے نکل کر استاد نے آہستہ سے کہا۔

 

 

ڈاکٹر دعاگو (3)

 

’’اچھا استاد‘‘ عمران جیب سے پانچ کا ایک نوٹ کھینچتا ہوا بولا ‘‘ یہ لیجیے اور ٹیکسی سے واپس چلے جائیے‘‘

 

استاد نے دانت نکالے، تھوڑی دیر ہنستے رہے، پھر بولے ’’اب آپ اس زادیٰ شکر کے پاس تشریف لے جائیں گے‘‘

 

’’زادیٰ شکر‘‘ عمران حیرت سے بولا ‘‘ میں نہیں سمجھا استاد‘‘

 

’’میں آپ کی محبوبہ پر بھی شاعری کروں گا‘‘

 

’’استاد‘‘ عمران ہاتھ جوڑ کر گھگھیایا۔ ’’ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے، اگر آپ کا عربا یا فارسا چل گیا تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہ جائے گی‘‘۔

 

 

ڈاکٹر دعاگو (4)

 

کارڈ پر نظر پڑتے ہی اس نے ٹھنڈی سانس لی ۔ کارڈ پر تحریر تھا ‘‘ امام الجاہلین، قتیل ادب، استاد محبوب نرالے عالم‘‘

 

’’بلاؤ‘‘ – عمران کراہا

 

’’تشریف رکھیے‘‘

 

لیکن استاد تشریف کہاں رکھتے، وہ تو کنکھیوں سے نرس کو دیکھے چلے جا رہے تھے۔

 

’’میں نے کہا استاد‘‘

 

’’جی۔ جی ہاں‘‘ استاد چونک کر بولے ’’آج میں ارتعاش سمیگاں کا مقیم مصلوب ہوں‘‘

عمران نے اس طرح سر ہلایا جیسے پوری بات سمجھ میں آ گئی ہو۔

 

اکثر استاد پر بڑے بڑے نامانوس الفاظ بولنے کا دورہ پڑتا تھا۔ کبھی کبھی نئے الفاظ بھی ڈھالتے۔ اس قسم کے دورے عموماً اس وقت پڑتے جب آس پاس کوئی عورت بھی موجود ہو۔

 

نرس اٹھ کر چلی گئی اور استاد نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور پھر جھک کر آہستہ سے بولے ’’یہ دوسری کب آئی‘‘

 

’’آتی جاتی ہی رہتی ہیں‘‘ عمران لاپرواہی سے بولا ‘‘ مگر آپ کیوں مغموم ہیں‘‘

 

’’نہیں جناب، یہ بے پردگی۔۔ یہ ٹڈے ٹڈیاں ۔۔ میں عنقریب حج کرنے چلا جاؤں گا‘‘

 

‘‘ ہوا کیا ۔۔ کوئی خاص حادثہ‘‘

 

’’جی ہاں، کل رینو میں میٹنی شو دیکھنے چلا گیا تھا۔ دیر ہو گئی تھی۔ کھیل شروع ہو چکا تھا۔ ہائے کیا فلم ہے ڈاکٹر نو دیکھی ہے آپ نے ۔ سالے، لونڈیا کو چوڑی دار پاجامہ پہنا دیتے ہیں‘‘

 

’’چوڑی دار پاجامہ نہیں استاد، اسے جین کہتے ہیں ‘‘ عمران نے کہا

 

 

ڈاکٹر دعاگو (5)

 

اتنے میں نرس واپس آئی اور استاد بولے ‘‘ انسانی تہذیب کی مہذباتی اور مسکونی مناکحت بہت ضروری ہے۔ غالب، ذوق، داغ وغیرہ نے مشروباتی انفجاریت کی تفتیل میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی لیکن تجریدی ضابطے کی اشتراقیت مشروتی اعراب کی سند نہیں۔‘‘

 

’’واللہ آپ نے تو نثر ہی میں صنعت مستول الجہاز پیدا کر دی استاد‘‘ عمران نے خوش ہو کر کہا۔

 

’’میں غالب کو بھی للکار سکتا ہوں‘‘

 

’’بیشک ۔۔ بیشک ۔۔ استاد ذرا چنا کڑک تو سنا دو‘‘

 

استاد نے بھونپو اٹھا کر منہ سے لگایا اور شروع ہو گئے:

 

پی۔ای۔سی۔ایچ کے حسین

میرے چنے سے نمکین

بولے بھائی خیر الدین

پاپڑ ایک آنے کے تین

چنا کڑک

 

 

ڈاکٹر دعاگو (6)

 

استاد ابھی تک چنے بیچ رہے تھے، بمشکل سلسلہ تمام ہوا، عمران خاموش کھڑا کچھ سوچ رہا تھا۔

 

دفعتاً اس نے استاد سے کہا ‘‘ آپ ایک عمدہ سا گرم سوٹ سلوا لیجیے‘‘

استاد نے دانت نکال دیے پھر کچھ سوچ کر گردن اکڑائی اور بولے ’’پانچ سوٹ کیڑے کھا گئے، دو ابھی کھا رہے ہیں ۔۔۔ میرے دادا جج تھے نکھلؤ  کے‘‘

’’یہ نکھلؤ کہاں ہے جناب‘‘ نرس نے پوچھا

’’لکھنؤ والے پیار سے لکھنؤ کو کہتے ہیں‘‘ عمران بولا

’’میرے والد کرنل تھے‘‘ استاد ان کی گفتگو پر توجہ دیے بغیر بولے ‘‘ عتیق بھائی سب جانتے ہیں‘‘

‘‘ میں نے کہا تھا سوٹ سلوا لیجیے‘‘

’’مجھے کتنا ادا کرنا پڑے گا‘‘ استاد نے اکڑ کر پوچھا

’’فکر نہ کرو، اس رقم کے چنے چبوا دینا مجھے‘‘

’’نہیں بھئی، پوچھنا میرا فرض تھا‘‘ استاد نے کہا ‘‘ ایک بار جمیل صاحب نے کہا تھا کہ تم صرف بیالیس روپے جمع کر لو، میں تمہاری شادی کروا دوں گا‘‘

 

 

 

زہریلی تصویر

 

استاد محبوب نرالے عالم جان کو آ گئے تھے۔ عمران جیسا آدمی بھی ان کے مصافحوں سے بور ہو گیا تھا۔ جوزف جیسے آدمی کو بھی طوعاً و کرہاً مصافحہ کرنا پڑتا۔ سلیمان البتہ انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتا تھا، اکثر کہتا مجھے بھی شاعر بنا دو۔ اور استاد گردن اکڑا کر کہتے:

 

‘‘ میاں یہ ساہری ہے، سکھائی نہیں جاتی، ایک چیز ہوتی ہے تخیل صرف ادیفوں (ادیبوں) کو نصیب ہوتی ہے۔ ساہری نہ سیکھی جاسکتی ہے، اور نہ ہی سکھائی جاسکتی ہے‘‘

 

آج بھی وہ اسی انداز سے آ دھمکے تھے

 

عمران استاد سے مخاطب رہا ۔۔ ‘‘ گلبدنی کے بعد کیا کہا تھا استاد‘‘

 

’’فُلبدنی ۔۔ فارسا میں ۔۔ جب سے جوش صاحب نے میری گلبدنی چرائی ہے، میں ایسی چیزیں فارسا میں کہنے لگا ہوں ۔۔ مالم ہے جوش صاحب کا قصہ، بڑی زوردار جھڑپ ہوئی تھی۔۔ لگے چیخنے چلانے ۔۔ میں نے کہا جوش صاحب، میں ہاتھا پائی میں آپ سے نہیں جیت سکتا، علمی بحث کیجیے‘‘

 

صفدر پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا لیکن عمران کی سنجیدگی میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا۔

 

’’ہاں ۔۔ ہاں‘‘ عمران سر ہلا کر بولا ’’اب شروع ہو جاؤ‘‘

 

استاد نے کھنکار کر چھت کی طرف منہ اٹھایا اور ناک بھوں پر زور دینے لگے۔ پھر عمران سے بولے ’’ملاہجہ فرمایئے‘‘:

 

وزرٹ زٹاخ چرخم چرغاز غازبوں

فریاد زنان مونگ پھلیم گوں گوں

گوں گوں چہ کٹار باندھم چوں چوں

فُلبدنی ۔۔۔۔۔ فُلبدنی ۔۔۔۔۔ فُلبدنی

 

 

پاگلوں کی انجمن (1)

 

’’ہاتھ دیکھ لیجیے شاہ صاحب‘‘ اس نے اپنا داہنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا

 

’’اس وقت نہیں دیکھ سکتا‘‘ استاد غرائے

 

’’کیوں جناب‘‘

 

’’میں اپنے ہاتھ مل رہا ہوں‘‘

 

’’آخر کیوں جناب‘‘

 

’’میں اپنے ہاتھوں سے جیوتش ودیا کی لکیر مٹا رہا ہوں‘‘

 

’’اس نے کیا قصور کیا ہے جناب‘‘

 

’’بس چلے جاؤ، اس ٹیم ہم صرف عورتوں کے ہاتھ دیکھتے ہیں‘‘

 

گاہک نے غالباً پشتو میں انہیں ایک گندی سی گالی دی اور چلا گیا

 

 

پاگلوں کی انجمن (2)

 

عمران نے استاد کے شانے پر ہاتھ مار کر کہا ’’سنو اکثر لوگ تمہارے آئیڈیاز چرا لیا کرتے ہیں‘‘

’’جی بس کیا بتاؤں ۔ استاد ٹھنڈی سانس لے کر بولے ’’نہ صرف وہ لوگ جو زندہ ہیں بلکہ وہ بھی جو مر گئے‘‘

’’وہ کیسے استاد‘‘

’’خواب میں آ کر ۔۔ مومن، غالب اکثر اس قسم کی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔۔ میرا شعر تھا:

بے غیرت ناہید کی ہر تان ہے زمبک

شعلہ سا لپ لپ لپ جھپک

اب آپ دیکھیے، ٹیلی وژن والوں سے معلوم ہوا کہ یہ غالب صاحب کا ہے‘‘

’’مومن کا ہے استاد ۔۔ ’’!

اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک

شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو

’’اب یہی دیکھ لیجیے، میں نے بے غیرت ناہید کہا ہے، اور وہ فرماتے ہیں اس غیرت ناہید۔۔۔ ہوئی نہ وہی خواب کی چوری والی بات‘‘

’’صبر کرو‘‘ عمران ان کا شانہ تھپک کر بھرائی ہوئی آواز میں بولا اور استاد میکانکی طور پر آبدیدہ ہو گئے۔

 

 

پاگلوں کی انجمن (3)

 

استاد کی داڑھی برقرار رہی تھی لیکن زلفیں کٹوا دی گئی تھیں۔۔ جس وقت وہ جامہ وار کی شیروانی اور چوڑی دار پاجامہ پہن کر قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہوئے تو انہیں سکتہ ہو گیا۔

 

’’کیا میں چٹکی لوں استاد‘‘ عمران نے ان کی حالت دیکھ کر پوچھا

 

’’جی‘‘ استاد چونک کر بولے ’’اس وقت ذرا دل بھر آیا تھا‘‘

 

’’خیریت ۔ بھلا دل کیوں بھر آیا تھا‘‘

 

’’یہ سالا کپڑا کیا چیز ہے ۔ میرے والد حضور ہیرے جواہرات ٹنکی ہوئی شیروانی پہنتے تھے۔۔ وقت ۔۔ وقت کی بات ہے ۔۔۔ ان کی اولاد اس طرح ٹھوکریں کھاتی پھر رہی ہے‘‘

 

’’خیر ۔۔ خیر ۔۔۔ دل چھوٹا نہ کرو ۔۔۔ تمہارے والد حضور کی واپسی اگر میرے بس میں ہوتی تو میں اس کے لیے بھی کوشش کرتا‘‘

 

 

 

 

 

آیئے اورنگی کے اس گھر کے چھوٹے سے کمرے میں واپس چلتے ہیں جہاں وہ لوگ استاد محبوب نرالے عالم کے ذکر سے آبدیدہ تھے۔ جی ہاں، یہ ہم جو تواتر کے ساتھ ‘وہ لوگ‘ کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں، وجہ اس کی یہ ٹھہری کہ متذکرہ گھر کے مکینوں کا استاد محبوب نرالے عالم سے قطعی کوئی خونی رشتہ نہ تھا اس کے باوجود بھی انہوں نے استاد کو قریب 15 برس اپنے پاس، اپنے گھر میں استاد کے انتقال تک رکھا۔ امتیاز فاران کی استاد سے پہلی ملاقات 1988 میں ہوئی، امتیاز فاران سن 1990 میں استاد کو اپنے ہمراہ لے آئے تھے اور تب سے اس خانماں برباد انسان کو ان فرشتہ صفت لوگوں نے اپنے دل میں جگہ دی۔ استاد ایک بزرگ کی حیثیت سے وہاں رہتے رہے۔ یہ وہ دور تھا جب استاد کو فردوس کالونی ناظم آباد کا علاقہ چھوڑے زمانہ بیت چلا تھا۔۔ وہ فردوس کالونی جہاں استاد کی ملاقات ابن صفی صاحب سے ہوئی تھی اور یہ ملاقات کروانے والے جناب انوار صدیقی (انکا، اقابلا وغیرہ کے مصنف) تھے جنہوں نے ہمیں ایک ملاقات میں یہ تفصیل بتائی تھی۔ استاد ان دنوں پھیری لگا کر چنے بیچا کرتے تھے اور ایک روز انوار صدیقی صاحب نے رات کے وقت استاد کو اشارے سے بلایا اور صفی صاحب سے ملوایا۔ چند روز بعد جب انوار صاحب، صفی صاحب سے ملنے گئے تو صفی صاحب نے ان سے گلہ کیا کہ یار یہ تم نے کس کو میرے پیچھے لگا دیا ہے، میں عدیم الفرصت آدمی ہوں اور یہ (استاد محبوب نرالے عالم) اکثر میرے پاس آ کر گھنٹوں بیٹھا کرتے ہیں۔ انوار صاحب نے صفی صاحب کو استاد کو اپنے ناولز کا کردار بنا کر پیش کرنے کی تجویز پیش کی جو صفی صاحب کو پسند آئی اور یوں اس کا آغاز ہوا۔

سن اسی کی دہائی کے وسط میں استاد اورنگی چلے آئے جہاں ان کو امتیاز فاران اپنے گھر لے آئے۔ 15 برس وہ امتیاز فاران کے گھر مقیم رہے۔ گزر بسر کے واسطے وہ ڈی سی آفس کے باہر بیٹھا کرتے تھے۔ امتیاز فاران کے اہل خانہ ان سے کوئی بھی رقم لینا گناہ سمجھتے تھے۔

 

کمرے میں آبدیدہ بیٹھی خاتون، امتیاز فاران کی ہمشیرہ تھیں جن کو استاد اپنی بیٹیوں کی طرح عزیز رکھتے تھے اور انہوں نے بھی اس حرماں نصیب شخص کی خدمت کا حق ادا کر دیا تھا۔ ان کو استاد شفقت سے شہزادی کہا کرتے تھے اور ان کی زبان بھی ان کو استاد ۔۔ استاد کہتے نہ تھکتی تھی۔ جتنی دیر ہم اس گھر میں رکے، ان لوگوں کی زبان سے محبوب نرالے عالم کے لیے، استاد کے سوا کچھ نہ نکلا۔ ایسا جان پڑتا تھا کہ گویا وہ لوگ استاد کے اصل نام سے واقف ہی نہ تھے۔ خاتون قمر جہاں نے ہمیں بتایا کہ استاد کے انتقال کے بعد امتیاز فاران اور ان کی بہن شہزادی بہت بری طرح بیمار پڑ گئے تھے، قریب چھ ماہ وہ دونوں علیل رہے، اس دوران ان کا کھنا پینا چھوٹ گیا اور دونوں بہن بھائی سوکھ کر کانٹا ہو گئے تھے۔

 

خاص ہمارے لیے استاد کا مرتب کردہ ذاتی رجسٹر لایا گیا اور یہ دیکھ کر ہم لوگ دنگ رہ گئے کہ خاتون شہزادی نے استاد کے رجسٹر میں چسپاں ان کی تصویر کو دونوں ہاتھوں سے احتراماً چھوا اور پھر وہ ہاتھ اپنی اشک آلود آنکھوں پر عقیدتاً لگا

ڈالے۔

 

’’استاد‘‘ شہزادی کی زبان سے آہستگی سے نکلا۔۔

 

یا اللہ ۔۔۔۔ یہ منظر تو ہم نے اکثر اللہ والوں کے مزاروں پر ہی دیکھا تھا۔

 

استاد کی شہزادی جب اپنی مستقل بھیگتی آنکھوں کو مزید ہم سے نہ چھپا پائی تو اٹھ کر اندر چلی گئی۔ ماحول ایک بار پھر سوگوار ہو گیا۔

 

استاد کے اہل خانہ (کہ بلاشبہ اب یہی لوگ ان کے اہل خانہ کہلائے جانے کے حقدار ہیں) سے یہ تمام گفتگو اس انتہائی مختصر سے کمرے میں ہوئی جس کا ایک ایک کونہ 15 برس استاد محبوب نرالے عالم کی رفاقت کا گواہ ہے۔ استاد ایک طویل القامت شخص تھے اور اس کمرے میں وہ اپنے پاؤں پھیلا کر لیٹ بھی نہ پاتے ہوں گے لیکن اہل خانہ کے دلوں کی وسعت تو دیکھیے کہ استاد کو کسی بھی صورت ان کی کم مائیگی کا احساس نہ ہونے دیا۔ اور استاد کی وضع داری بھی ملاحظہ ہو کہ بقول شہزادی کے کہ ‘‘ ہم نے 15 برسوں میں استاد کی آنکھوں کی پتلی نہ دیکھی، وہ کبھی نظر اٹھا کر ہم سے بات نہ کرتے تھے‘‘۔ خاتون شہزادی کی پردہ دار والدہ نے ہمیں بتایا کہ 15 برسوں میں انہوں (والدہ نے) کبھی استاد کا چہرہ نہیں دیکھا اور نہ ہی استاد کبھی والدہ کے چہرے سے سے آشنا ہوئے۔

 

گفتگو میں شریفانہ لب و لہجہ ، حفظ مراتب نکتہ آفرینی اور رکھ رکھاؤ یہ سب استاد محبوب نرالے عالم کا شخصیت کا خاصہ تھے۔ بقول شہزادی، استاد اپنی گفتگو کے آغاز سے قبل ہمیشہ ‘معاف کیجیے گا‘‘ ضرور کہتے تھے۔

 

استاد کے مرتب کردہ ذاتی رجسٹر کو امتیاز فاران کے اہل خانہ نے دے کر نہ صرف ہمیں اپنے احسان تلے زیر بار کیا بلکہ اس طرح ہمیں یہ موقع ملا کہ ہم ابن صفی صاحب کے ان تمام ان گنت پڑھنے والوں تک بذریعہ انٹرنیٹ یہ نایاب ذخیرہ پہنچا سکیں جو آج تک استاد محبوب نرالے عالم کے بارے میں جاننے کے متمنی ہیں۔ ہمیں آگاہ کیا گیا کہ ہم استاد کے انتقال کے بعد اس گھر تک پہنچنے والے پہلے فرد ہیں۔

 

آئیے متذکرہ رجسٹر کا جائزہ لیتے ہیں کہ جس کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر ہم نے استاد کے ہاتھوں کے لمس کو محسوس کیا:

 

استاد محبوب نرالے عالم کی (بقول ابن صفی صاحب) ’’گجل‘‘ کا ایک شعر:

 

نگاہ یار سے مانگ کے لائے عمر ہزار پانچ دن

دو جستجو میں کٹ گئے، دو انتظار میں

 

ارے صاحب یہ تو چار دن ہوئے لیکن پانچواں کہاں گیا —- ایک انٹرویو (ابن صفی ڈاٹ انفو پر موجود) میں استاد نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ پانچواں دن تو میں خود ہوں جو زندہ ہوں۔

 

استاد مزید کہتے ہیں:

 

محبوب نرالے عالم کی بدنصیبی پر کرو ماتم میرے دوستوں

اس سرزمین پر رہنے کے لیے دو گز زمیں نہ ملی کوچہ یار میں

 

ایک مقام پر استاد کی ترقی پسندانہ نظم ملاحظہ کیجیے کہ یہی وہ شاہکار ہے جس سے متاثر ہو ابن صفی صاحب نے ان کی (صفی صاحب کے الفاظ میں) ‘ساہری‘ کو اپنے ناولز کی زینت بنایا:

 

آج گھر سے بن من کے نکلی ہے نازنین

گُل سفنی ۔۔ گُل سفنی ۔۔ گُل سفنی

نہ گرجتے ہیں ۔ نہ برستے ہیں ۔۔ یونہی چمکتے ہیں

گُل برنی ۔۔۔ گُل برنی ۔۔۔ گُل برنی

آؤ ماتھے کی بندیا پہن کر رقص کرو

ہنس ہنس کر سربازار کہتے ہیں

گُل ڈفنی ۔۔ گُل ڈفنی ۔۔ گُل ڈفنی

آج بھی دنیا میں چور رہتے ہیں

ہم نے بڑی مشکل سے چوری پکڑی ہے محبوب نرالے عالم

گُل بخنی — گُل بخنی — گُل بخنی

 

استاد کی جوش ملیح آبادی سے نیاز مندی تھی اور ہمیں یقین ہے کہ جوش صاحب استاد کی مندرجہ بالا نظم کو سن کر اپنی ’’گل بدنی‘‘ بھول گئے ہوں گے۔ ویسے بھی استاد محبوب نرالے عالم، جوش صاحب کی گل بدنی کی ٹکر پر ’’فُل بدنی‘‘ ایجاد کر چکے تھے۔

 

اس مضمون میں اوپر ہم نے ابن صفی کی عمران سیریز سے چند دلچسپ اقتباسات درج کیے ہیں عمران سیریز کے ناول ’’زہریلی تصویر‘‘ کا ایک مختصر اقتباس دوبارہ ملاحظہ کیجیے:

 

عمران استاد سے مخاطب رہا ۔۔ ‘‘ گلبدنی کے بعد کیا کہا تھا استاد‘‘

 

’’فُلبدنی ۔۔ فارسا میں ۔۔ جب سے جوش صاحب نے میری گلبدنی چرائی ہے، میں ایسی چیزیں فارسا میں کہنے لگا ہوں ۔۔ مالُم ہے جوش صاحب کا قصہ، بڑی زوردار جھڑپ ہوئی تھی۔۔ لگے چیخنے چلانے ۔۔ میں نے کہا جوش صاحب، میں ہاتھا پائی میں آپ سے نہیں جیت سکتا، علمی بحث کیجیے‘‘

 

منظر امکانی صاحب نے اپنے کالم (سن و تاریخ نامعلوم) میں استاد کے بارے میں ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ جس کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابن صفی صاحب نے زہریلی تصویر کا مندرجہ بالا ٹکڑا مکمل تصدیق کے بعد لکھا تھا۔ منظر امکانی لکھتے ہیں:

’’استاد کا کمال یہ ہے کہ وہ کسی جگہ اور حالات میں نروس نہیں ہوتے۔ استاد محبوب نرالے عالم جب پہلی بار جوش ملیح آبادی مرحوم سے ملنے گئے تو ان کی خاموش طبع دیکھ کر جوش صاحب یہ اندازہ نہیں لگا سکے تھے کہ وہ اس صدی کی عجیب و غریب چیز سے مخاطب ہیں۔۔ جب استاد گویا ہوئے تو جوش صاحب پر آشکار ہوا۔ اس آگاہی پر جوش صاحب شدید برہم ہو گئے اور وہ استاد کو بھگانے کھڑے ہو گئے۔۔ استاد محبوب نرالے عالم کچھ قدم دور جا کر بڑے یقین سے کہا ’’جوش صاحب، آپ ہاتھ پاؤں میں مجھ سے جیت سکتے ہیں مگر ادب میں مقابلہ نہیں کرسکتے ۔۔ استاد کے اس فقرے پر جوش صاحب کا غصہ ختم ہو گیا اور انہوں نے استاد کو بٹھا لیا اور پھر زندگی بھر استاد کی گفتگو برداشت کی‘‘

 

منظر امکانی سے چند مزید بیحد دلچسپ انکشافات سنیے کہ یہاں مقصد ان واقعات کو محفوظ کرنا ہے:

 

’’لکھتے ہیں کہ استاد نے ان پر انکشاف کیا تھا کہ ان کے (استاد کے) ایک لاکھ تیرہ ہزار شاگرد ہیں۔ مزید یہ کہ علامہ اقبال درحقیقت چار تھے اور ان میں وہ علامہ اقبال سب سے بڑے ہیں جنہوں نے شاعری کی۔ استاد نے ایک نئی صنف ادب ’’افسانی‘‘ بھی ایجاد کی تھی۔ استاد آج کل ایک تعمیراتی فرم میں ملازم ہیں، فرم کے دفتر میں انگریزی کا اخبار لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور اسے ہمیشہ الٹا پڑھتے ہیں ۔۔ شعر کا پیمانہ استاد نے اس طرح بنایا ہے کہ دونوں مصرعے اسکیل رکھ کر ناپتے ہیں اور اگر معمولی بھی فرق ہو جائے تو شعر ناموزوں قرار پاتا ہے۔ ہر لمحہ جدت اختیار کرنا انہیں پسند ہے اسی لیے مکان کے باہر جو بورڈ لگایا اس پر ’’بیت الخلا‘‘ درج تھا۔ انہیں ملک کے باہر بھی شہرت ملی، معروف جریدے ٹائم کے سرورق پر استاد کی تصویر شائع ہو چکی ہے، یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب استاد بنیادی جمہوریت کے انتخابات میں امیدوار تھے اور انہوں نے اپنے لیے ایک مخصوص لباس تیار کرایا تھا جس میں کئی فٹ لمبی ٹوپی تھی ( ابن صفی ڈاٹ انفو اور وادی اردو پر استاد کی یہ تصویر شامل ہے۔۔ راشد اشرف) اور لبادے پر جلی حروف میں تحریر تھا کہ اس حلال خور کو ووٹ دیں ۔ استاد جب باہر نکلتے تو ایک ہجوم ساتھ ہوتا، اس ہجوم اور اس عجیب و غریب شخص کو دیکھ کر ٹائم کے نمائندے نے ان کی تصویر بنائی اور ان سے متعلق ٹائم میں مضمون لکھا۔ استاد کا تذکرہ لکھنے والوں میں مجید لاہوری، شوکت تھانوی، ابن انشاء، ابن صفی، ابراہیم جلیس، سلیم احمد اور جوش ملیح آبادی شامل ہیں‘‘

 

۔۔ استاد کے رجسٹر سے معلوم ہوا کہ ان پر کالم لکھنے والوں میں سجاد میر، ابو نثر اور نادم سیتا پوری بھی شامل ہیں۔ ابو نثر نے اپنے کالم (سن و تاریخ نامعلوم) میں لکھا ‘‘ استاد محبوب نرالے عالم ہمارے ہی نہیں پاکستان میں جاسوسی ادب کے پہلے اور آخری تاجدار ابن صفی مرحوم کے بھی محبوب تھے۔ مرحوم کی کہانیوں میں استاد کا ذکر ایک مستقل کردار کی حیثیت سے ملتا ہے۔ استاد کی وہ حیثیت ماشا اللہ ابھی تک قائم و دائم ہے‘‘

 

۔۔ نادم سیتا پوری نے استاد کو فخر پاکستان استاد محبوب نرالے عالم رجسٹرڈ (ان لمیٹڈ) کا خطاب دیا تھا۔

 

– مشہور شاعر دلاور فگار نے استاد پر 3 جنوری سن انیس سو اٹھاسی کو ایک نظم لکھی، اس کے دو بند ملاحظہ ہوں:

 

قاتل کو کیا ملے گا نرالے کو مار کے

۔۔۔ وہ خود ہی جا رہا ہے ‘شب غم‘ گزار کے

سینہ ہے شاہزادہ کا خود ایک بلٹ پروف ۔۔۔

درپے ہے اسکی جان کے یہ کون بیوقوف

 

۔۔ کراچی میں استاد کے ٹھکانے تواتر کے ساتھ بدلتے رہے اور اس بے آسرا شخص نے کئی علاقوں کی خاک چھانی جن میں 115 خالد آباد ۔۔ فردوس کالونی، کوثر ٹاؤن ملیر اور گولیمار شامل ہیں۔

 

۔۔ استاد کی شاعری کی واحد کتاب ‘دیوان تاریخ زمانہ‘ ہمیں ان کے اہل خانہ نے بطور تحفہ دی جس میں درج غزلوں سے کچھ منتخب کلام ابن صفی ڈاٹ انفو اور وادی اردو پر شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ استاد کی ایک اور کتاب ‘روٹی، کپڑا اور لامکان‘ کے چند منتخب دلچسپ حصے بھی مذکورہ ویب سائٹس پر دیکھے جاسکتے ہیں۔

 

۔۔ تمام عمر استاد کا دعوی رہا کہ وہ مغلوں کی اولاد اور بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے ہیں اور استاد کے اس دعوے کی بنیاد پر ہی اخباری نامہ نگاروں اور کالم نگاروں کا لہجہ ان کے بارے میں ہمیشہ فکاہیہ رہا۔ لیکن یہ انکشاف بھی استاد کے چاہنے والوں کے لیے باعث حیرت ہو گا کہ روزنامہ نوائے وقت نے 8 جنوری سن انیس سو چوراسی کو ایک خبر شائع کی جس میں محقق اور گورنمنٹ اردو کالج کراچی کے شعبہ تاریخ اسلامی کے پروفیسر علی محمد شاہین نے اس بات کی تصدیق کی کہ استاد محبوب نرالے عالم، بہادر شاہ ظفر کے سلسلہ نسب سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ کہ شہزادے محبوب نرالے عالم ہی تخت طاؤس اور کوہ نور ہیرے کے اصل وارث ہیں۔

 

۔۔ 17 جنوری سن انیس سو چوراسی کو ایک اخباری بیان کے ذریعے استاد نے یہ تاریخی انکشاف کیا کہ ’’سن 1857 میں دہلی کی جنگ آزادی کے دوران فرنگیوں نے تمام شہزادوں اور شاہزادیوں کو یا تو قتل کر دیا یا جنگلوں، پہاڑوں میں روپوشی کے دوران وہ سارے شہزادے اور شاہزادیاں لقمہ اجل بن گئے۔ شہزادہ محبوب نرالے عالم کو ان کے گھر کی ایک لونڈی اپنی بغچی میں باندھ کر فرنگیوں سے بچتی بچاتی لکھنؤ جا پہنچی لیکن جب لکھنؤ میں بھی فرنگیوں کا زور ہوا اور اس لونڈی کو دھڑکا ہوا کہ فرنگی اس نومولود شہزادے کو چھین کر مار ڈالیں گے تو اس نے ایک صندوق میں بند کر کے انہیں دریائے گومتی میں بہا دیا۔ یہ شہزادہ بلآخر وضو کرتے ہوئے ایک بزرگ کو دریا میں بہتے صندوق سے مل گیا اور انہوں نے اپنی روحانی عملیاتی کملی میں اس بچے کو لپیٹ کر سلادیا۔

 

۔۔ جناب رئیس امروہوی اور ان کے بھائی سید محمد تقی کا دستخط شدہ سات جولائی سن انیس سو چھیاسی کا ایک تصدیق نامہ یہاں موجود ہے کہ جس میں رئیس صاحب اور ان کے بھائی، استاد کے خانماں برباد ہونے کی تصدیق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ استاد کو پلاٹ دیا جائے۔

 

۔۔ وزیر اعظم پاکستان، محمد خان جونیجو کے نام استاد کی پلاٹ کے حصول کے واسطے لکھی گئی مورخہ بیس اگست سن انیس سو چھیاسی کی درخواست اور وزیر اعظم سیکریٹیریٹ میں وصول شدہ رسید موجود ہے۔

 

۔۔ یہ انکشاف ہوا کہ استاد مختلف اخباروں میں کالم بھی لکھا کرتے تھے۔ ان کے کالم کا مستقل عنوان ’’ورنہ شکایت ہو گی‘‘ تھا اور وہ شہزادہ محبوب نرالے عالم کے نام سے مختلف موضوعات پر لکھا کرتے تھے۔ استاد عموماً سماجی مسائل کو موضوع بناتے تھے مثلاً اورنگی ٹاؤن میں قلت آب، لیاقت آباد نمبر دس کی چورنگی، کراچی کا بنگلہ بازار اور مچھلی، مچھیرے اور مگر مچھ۔ اس کے علاوہ ایک مضمون ’’بیسویں صدی میں سائنسی علوم‘‘ بھی ایک خاص کیفیت میں لکھا گیا ہے۔

 

۔۔ استاد کے متفرق موضوعات پر مبنی ایک کالم کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے:

 

چچی اماں کے مرنے پر بڑے جھگڑے بوا نکلے

بہت سے قبریں کھودیں لیکن ان سب میں چچا نکلے

 

۔۔ ایک خاندانی مہر دیکھی جاسکتی ہے جس پر درج ہے: یادگار پاک و ہند، خاندان مغلیہ محبوب نرالے عالم، دہلی پایہ تخت اور لکھنؤ اودھ کی سرزمین، بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے، اٹھارہ سو ستاون۔

 

۔۔ استاد محبوب نرالے عالم کا شجرہ چسپاں ہے جس کے مطابق استاد کے دادا نامی محمد شاہ عالم، جج دہلی تھے (سن انیس سو ایک عیسوی میں وفات پائی)، والد کا نام کرنل نادر درانی عالم (سن انیس سو پندرہ عیسوی میں وفات پائی) اور بعد ازاں، محبوب نرالے عالم۔

 

یہاں ہم آپ کو ایک دلچسپ بات بتاتے چلیں کہ استاد نے اپنے والد اور دادا کا تذکرہ ابن صفی صاحب سے صد فیصد کیا ہو گا اور خاص کر ان کے والد کا نام صفی صاحب کے ذہن میں نقش تھے اسی لیے صفی صاحب نے عمران سیریز کے ناول زہریلی تصویر میں استاد کے والد کا نام استعمال کیا ہے۔ ملاحظہ ہو زہریلی تصویر کا یہ اقتباس:

 

دفعتاً ان کی طرف آنے والوں میں سے کسی نے گرج کر کہا ‘‘ ہالٹ ۔ ہو کمس دیئر‘‘

’’فرینڈز‘‘ عمران نے جواب دیا اور رک گیا۔

وہ تیر کی طرح قریب آئے۔۔ اور عمران نے با رعب لہجے میں پوچھا ‘‘ کیا بات ہے‘‘

’’آپ لوگ اس وقت یہاں‘‘

’’اونہہ ۔۔ عمران ہاتھ ہلا کر بولا ’’کیا یہ کوئی ممنوعہ علاقہ ہے ۔ ہم چہل قدمی کر رہے ہیں‘‘

’’آپ کون ہیں‘‘

’’کرنل نادر درانی آف سیکنڈ بٹالین‘‘

اسی طرح صفی صاحب نے عمران سیریز کے ناول ڈاکٹر دعاگو میں استاد کے دادا کا ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو ڈاکٹر دعاگو کا یہ اقتباس:

 

استاد نے دانت نکال دیے پھر کچھ سوچ کر گردن اکڑائی اور بولے ’’پانچ سوٹ کیڑے کھا گئے، دو ابھی کھا رہے ہیں ۔۔۔ میرے دادا جج تھے نکھلؤ کے‘‘

 

۔۔ دسمبر سن انیس سو تراسی کے استاد کے ایک اخباری بیان سے معلوم ہوا کہ ان کی اہلیہ کا نام شہزادی اختر جہاں بیگم تھا جن سے استاد کے سات بچے تھے جو سب کے سب انتقال کر گئے۔ اختر جہاں بیگم برصغیر کے ایک جج کی صاحبزادی تھیں۔

 

۔۔ رجسٹر میں موجود اخباری تراشوں کے مطالعے سے ہمارے ممدوح کی شخصیت کا ایک دلچسپ پہلو عیاں ہوتا ہے ۔۔۔ جی ہاں، استاد بڑے تواتر کے ساتھ اخباری بیان (بلکہ شاہی فرمان کہیں تو بہتر ہو گا کہ اکثر اخبار والے اسی طرح رپورٹ کیا کرتے تھے) جاری کیا کرتے تھے۔ کہیں وہ ایرانی حکومت سے تخت طاؤس کی حوالگی کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں ہندوستانی حکومت کو بہادر شاہ ظفر کی جائداد میں حصے کے حصول کے لیے للکارتے ہیں ۔۔۔ کہیں آپ سلطنت برطانیہ سے کوہ نور ہیرے کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں تو کہیں فرانسیسی شہزادی کو دورہ پاکستان کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔ وہ امریکی حکومت کو تنبیہ کرتے ہیں کہ اس نے عراق پر حملہ کر کے فاش غلطی کی ہے۔

 

۔۔استاد کی زندگی کے آخری ماہ و سال میں رفتہ رفتہ ان اخباری بیانات پر ایک افسردگی کا رنگ غالب آتا دکھائی دیتا ہے اور ان کے پندرہ اگست سن انیس سو اٹھانوے کے اس بیان کے حزنیہ الفاظ کو پڑھ کر دل دکھ سے بھر آتا ہے جب وہ حکومت برطانیہ و پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ‘‘ آج ہم کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، حکومت ہمارے اجداد کی بے اندازہ دولت میں سے کم از کم اتنا تو دیں کہ میں اپنے زندگی بہتر انداز میں بسر کرنے کے قابل ہو سکوں‘‘

 

۔۔اسی طرح وہ ایک اور بیان میں ارباب اختیار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ’’ہمیں روٹی، کپڑا اور مکان دو ۔۔ ورنہ اسلام آباد بلا کر گولی مار دو‘‘

 

۔۔ اور پھر آخری دنوں میں (مارچ سن 2003) ایک سیاسی عہدےدار وسیم رشید کی سرکار سے یہ اخباری اپیل کہ شہزادہ استاد محبوب نرالے عالم کا، جو فالج کے حملے کے سبب علیل ہیں، سرکاری خرچ پر علاج کرایا جائے۔

 

ابن صفی ڈاٹ انفو پر موجود استاد کے انٹرویو ’’اپنا ابن صفی والا استاد محبوب نرالے عالم‘‘ سے استاد کے سن پیدائش سے آگاہی ہوتی ہے جو بقول استاد سن انیس سو چودہ عیسوی ہے۔ استاد نے متذکرہ انٹرویو میں اپنی کتابوں کا ذکر کیا ہے جن کے نام کچھ اس طرح ہیں: مسائل عشق منزل، نرالا مذاق، بندر کی اولاد، یہ دنیا مرغ دل، دیوانے تاریخ زمانہ، آنکھ دل کا مقدمہ، عرش کا مشاعرہ، بھارت کا تباہی، ایک پہاڑ کا آگ و پانی اور روٹی کپڑا اور لامکان۔

 

بہادر شاہ ظفر کی برسی کا دن استاد کی زندگی میں ایک خاص مقام رکھتا تھا ۔۔ اس روز تمام اہل خانہ استاد کی دلجوئی کے لیے جمع ہوتے، اسی چھوٹے سے کمرے میں شہزادی کی والدہ کے ہاتھ کا بنا ہوا ’’کپڑے‘‘ کا تاج استاد کو پہنا کر ان کی تاج پوشی کرتے تھے۔ شہزادی کی والدہ استاد سے پوچھتی تھیں کہ ’’بھائی،آج کے دن کے لیے کوئی فرمائش‘‘ اور استاد اس خاص دن، قورمے اور زردے کی فرمائش کرتے تھے۔ تاج پوشی کے دن وہ اپنے اسلاف کے پر شکوہ ماضی اور اپنے حال کے بارے میں کیا سوچا کرتے ہوں گے، اس کا اندازہ لگانا دقت طلب نہیں۔

 

جولائی 4 سن دو ہزار پانچ کو یہ شہزادی ہی تھیں جو استاد کو طبیعت کی خرابی کی بنا پر اورنگی کے قطر اسپتال لے گئی تھیں، استاد بے حد کمزور ہو چکے تھے اور بقول خاتون شہزادی اور ان کی بہن قمر جہاں، زیادہ تر لیٹے رہنے پر ہی اصرار کیا کرتے تھے۔ 4 جولائی کو استاد کو بلند فشار خون کی شکایت پر قطر اسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ استاد کسی سے بات نہ کرتے تھے، بس ڈاکٹروں سے یہی کہتے رہے کہ ہمیں جلدی سے ٹھیک کر دیں یہ بچیاں کب تک ہمارا خیال کریں گی ۔۔۔ تین دن تک استاد اسپتال میں داخل رہے، اس دوران ان پر نقاہت کی وجہ سے زیادہ تر غنودگی کی کیفیت طاری رہی۔ انتقال سے ایک روز قبل ان کی اہل خانہ نے استاد سے کہا کہ استاد آپ ہمت نہ چھوڑیں ۔۔ استاد جو غنودگی میں تھے، بولے ‘‘ خان صاحب، ہمیں مجبور نہ کرو‘‘ ۔۔۔ جولائی 6 سن دو ہزار پانچ کی صبح اسپتال سے فون آیا کہ استاد کی طبیعت خراب ہے، آپ لوگ چلے آئیے۔ خاتون شہزادی کے مطابق جب وہ لوگ اسپتال پہنچے تو وہ مجذوب صفت انسان کہ دنیا جس کو استاد محبوب نرالے عالم کے نام سے جانتی تھی، اس دار فانی کو لبیک کہہ چکا تھا۔ ’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘.

 

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طنیت را

 

اورنگی کے قبرستان میں جس طرح آپ کی تدفین ہوئی وہ بذات خود ایک حیرت انگیز واقعہ تھا۔ روزنامہ عوام میں شائع ہوئی خبر (عکس ابن صفی ڈاٹ انفو اور وادی اردو پر موجود ہے) کی تصدیق امتیاز فاران کے اہل خانہ نے بھی کی کی مذکورہ قبرستان دس برس قبل ہر طرح کی تدفین کے لیے بند کیا جا چکا تھا لیکن استاد کو جو گوشہ ملا وہ کسی قبر کا حصہ نہیں۔ ہم نے یہ دیکھا کہ استاد کی قبر پر نیم و کیکر کے درختوں نے ایک طمانیت بخش سایہ کیا ہوا ہے (تصاویر ابن صفی ڈاٹ انفو اور وادی اردو پر دیکھی جاسکتی ہیں)

 

محبوب نرالے عالم، دنیا کی نظروں میں آپ مفلس و تہی دامن تھے – اپنے اسلاف کی جائز دولت میں سے صرف اپنے گزارے لائق مشاہرے کے متمنی آپ تمام عمر در در ٹھوکر کھایا کیے ۔۔۔ لوگ آپ کو سودائی خیال کرتے تھے۔۔ ’’آپ کے اسلاف جب زبان کھولتے تھے تو ایک عالم ان کی ہیبت سے تھرا جایا کرتا تھا‘‘ ۔۔۔۔ ضرور ایسا ہو گا ۔۔۔۔ لیکن آپ کی کہی ہوئی باتوں پر لوگ آپ کو دیوانہ قرار دیتے تھے ۔۔۔۔ ’’آپ کے آباء و اجداد تین وقت مرغ متنجن نوش کرتے اور ہیرے جواہرات ٹنکی شیروانیاں زیب تن کرتے تھے‘‘ — یقیناً کرتے ہوں گے ۔۔۔ لیکن آپ کو دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہ تھی، شاید ناظم آباد کی گلیوں میں چنے بیچتے وقت آپ شکم کی آگ بجھانے کے لیے مٹھی بھر چنے ہی پھانک لیا کرتے ہوں ۔۔۔ آپ کے انتقال کے بعد آپ کے اہل خانہ نے آپ کے ملگجے کپڑے، کسی آپ سے بھی زیادہ تہی دست انسان کو دے ڈالے ۔۔۔۔۔۔ ’’آپ کے اسلاف محلات میں رہا کرتے تھے‘‘ ۔۔۔۔ یقیناً رہتے ہوں گے ۔۔۔۔ لیکن آپ تمام عمر سرچھپانے کے لیے ایک ٹھکانے کو ترسا کیے ۔۔۔۔ ’’آپ نے ملک پاکستان کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو اور کراچی کے ڈپٹی کمشنر کو ایک پلاٹ کے حصول کے لیے درخواست دی تھی‘‘ لیکن آپ کی شنوائی نہ ہوئی ۔۔۔ ’’آپ کے اسلاف کی تاج پوشی کا منظر ہزاروں کی تعداد میں موجود رعایا دیکھا کرتی ہو گی، رنگ برنگے مختلف النوع قسم کے قیمتی پکوانوں سے ان کا دستر خوان سجا رہتا تھا‘‘ ۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں ۔۔۔ لیکن آپ کی تاج پوشی سال میں صرف ایک دن ایک غریب عورت کے بنائے ہوئے کپڑے کے معمولی تاج سے سرانجام پاتی تھی اور معاشی حالات سے نبرد آزما وہ لوگ صرف اس دن آپ کے لیے قورمے اور زردے کا اہتمام کرتے تھے۔۔۔ ’’آپ کے اسلاف میں کسی کے انتقال کے بعد اس کا شاندار مقبرہ تعمیر کیا جاتا تھا، رعایا اس پر حاضری دیا کرتی تھی‘‘ ۔۔۔ تاریخ شاہد ہے، ضرور ایسا ہی ہو گا ۔۔۔ لیکن آپ کی گمنام، جی ہاں ایک چھوٹے سے کتبے تک کو ترستی سادہ سی قبر کراچی کی ایک مضافاتی بستی کے قبرستان میں ہے جس سے سوائے مٹھی بھر افراد کے، اور کوئی واقف نہیں ۔۔۔۔۔ ’’آپ کے اسلاف میں سے کسی کے بیمار ہونے پر شاہی معالجین کا جمگھٹا مریض کو گھیر لیتا تھا اور اگر کوئی انتقال کر جاتا تو اس کے مرنے پر زبردست سوگ منایا جاتا تھا، شاہی دربار سے وابستہ شعرا اس کا نوحہ لکھتے تھے‘‘ ۔۔۔۔ یقیناً تاریخ اس کی گواہ ہے ۔۔۔۔ لیکن جب آپ علیل ہوئے تو آپ کے اہل خانہ میں اتنی سکت نہ تھی کہ آپ کو کسی نجی اسپتال میں داخل کراتے، جب آپ کا دم نکلا تو آپ کے سرہانے کوئی موجود نہ تھا، شہر کراچی میں اس روز چلنے والی گرد آلود ہوا نے آپ کا ماتم کیا اور آپ کی قبر پر ایستادہ نیم و کیکر کے درختوں سے گرتے پتوں نے آپ کا نوحہ لکھا۔

 

دنیا کی نظروں میں آپ ناکام و نامراد کہلائے لیکن خان صاحب محبوب نرالے عالم، آپ ہرگز ہرگز ناکام و نامراد نہیں ہیں ۔۔۔۔ درحقیقت آپ ایک عالی نفس انسان تھے جس کی زبان و ہاتھ سے زندگی بھر کسی کو نقصان نہ پہنچا ۔۔۔ آپ تو بہت خوش قسمت تھے کہ عم عزیز کے آخری 15 برس آپ نے ایسے مخلص لوگوں کے درمیان بسر کیے کہ جنہوں نے آپ کا غم بھلانے میں آپ کی مدد کی، آپ کی خدمت میں دن رات ایک کر دیے ۔۔۔۔۔۔ آپ کی سات اولادیں اللہ کو پیاری ہوئیں لیکن ذرا دیکھیے تو کہ آج آپ کی منہ بولی بیٹی شہزادی کے آنسو آپ کے لیے تھمتے ہی نہیں —

 

خان صاحب محبوب نرالے عالم، بارے آپ کے اس مضمون کو لکھنے والا راشد اشرف ایک خوش گمان شخص ہے ۔۔ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس کی عاجزانہ درخواست پر، اس کے اس مضمون کے قارئین بارگاہ الہی میں ہاتھ اٹھا کر آپ کی مغفرت کے لیے دعا کر رہے ہیں اور اللہ تعالی اتنی بڑی تعداد میں دعاؤں کی آمد پر فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ ہمارا یہ خانماں برباد بندہ نامی محبوب نرالے عالم، جو اپنی تمام زندگی میں ہمارے امتحان پر پورا اترا، اس کے درجات بلند کیے گئے اور اسے خلد بریں میں ابن صفی کے بے داغ سفید موتیوں کے بنے محل کے برابر میں ویسا ہی ایک محل عطا کیا جاتا ہے۔

 

راشد اشرف

فروری 17، سن دو ہزار دس

 

٭٭٭

 

مصنف کی اجازت اور فائل کی فراہمی کے تشکر کے ساتھ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید