FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

شاعری فردِ جرم ہے

ہتھیلی

 

(شعری مجموعہ)

ناصر ملک

 

ادارہ فکر و دانش

35۔ الحمد پلازہ۔ اُردو بازار۔ لاہور (پاکستان) فون:0300-9449527

عنوان کتاب:                               ہتھیلی

شاعر:                                         ناصر ملک

اہتمام:                                       ادارہ فکر و دانش۔ لاہور

ناشر:                                          حافظ مظفر محسن

کمپوزر:                                        صدام حسین۔

خوش نویس:                                 عبدالقادر ملغانی، ملتان


انتساب

اپنے دوست

حافظ مظفرمحسن

کے نام!

 

اے محبت! میرے انجام پہ ہنسنے کے بجائے

تُو میری آنکھ کے پانی سے وضو کر نے آ

 

شاعری فردِ جرم ہے

کہا ناں ! شاعری فردِ جرم ہے۔

مجھے عشق ہوا۔ ہائے! میں اُس نازنینِ دل پذیر، اُس ناہیدِ نازِ دل، اُس حسنِ مہِ کامل و نویدِ سحر، اُس تابِ جنوں بَر دوش، اُس وجہِ تخلیقِ داستاں کو کیا نام دوں ؟… اُسے کیا عنوان دوں ؟

 وہ تو بس ’وہ‘ تھی جس کا ملنا زندگی کے آغاز جیسا تھا اور انجام؟

معلوم نہیں ۔

وہ جہانِ حیرت تھی۔ اُس کے سراپائے دل کشا کو مصور کرتے ہوئے برسوں بیت گئے مگر بامِ حسن و دلکشی تک دست رسائی نہ ہوئی۔ ہاں ! یہی تو سچ ہے جو سیکڑوں شعر کہنے کے بعد بھی لبوں پر اعتراف بن کر چپک گیا ہے۔ اُس نے عشق کا مفہوم آشکار کرنے سے پہلے حسن کی تفسیر سکھائی۔ حسن کو دیکھنے کے زاویے استوار کیے۔بے تابی اور اضطراب کے قاعدے بتائے، یوں کہ پھول کی گداز پتیوں کو چومنا آگیا…تب غیر محسوس طور پر اُس نے قرب کی لذتیں سونپ دیں ۔خط کھلا، پڑھا مگر سمجھ نہ پایا۔نظر کی ایک چھیڑ، جانکاہ انتظار کا حاصل اَدھور ی دید، آڑے ترچھے رسم الخط والا سہما سہما خط، گھٹتی بڑھتی سانسوں کی بساط پر ایک ملاقات کا ہیجان، اظہار کا ایک پیرایہ جو میرا پہلا شعر تھا، ایک بوسہ، حسن کی وادی میں ایک قدم اور ایک نمی… بس؟

 کیا یہی عشق تھا؟

 اگر یہی عشق تھا تو پھر یہ سیراب کیونکر ہو گیا؟… ابھی ٹھوٹھا خالی تو نہیں ہوا تھا۔

پہلے گھونٹ کے بعد دوسرے گھونٹ نے کیوں دل کے تاروں کو نہیں چھیڑا تھا؟…

سوچ میں پڑ گیا۔عرفان مصر تھا کہ محبت مر نہیں سکتی۔ عشق پسپا نہیں ہو سکتا۔ کیفیت تھی کہ وہ پاس رہ کر بھی دور ہونے لگی تھی۔

اُس کے لب و عارض کی گرمی برقرار تھی،بلکہ عشق کی آنچ پر پک کر سنہری رنگت اختیار کر گئی تھی…

اُس کی دراز زُلفوں کے پیچ و خم کی تابانی کا باب تمام نہیں ہوا تھا،بلکہ رات کے پچھلے پہر کا سکوت اور دبیز سیاہی کچھ زیادہ راحت آور ہو گئی تھی…

اُس کی آنکھوں میں ہلکورے لیتا تجسس بساطِ جاں کو مضطرب کرنے لگا تھا،بلکہ مختصر سے سفر کی تمام تر تھکن کو چوس کر تازہ دم کر رہا تھا…

اُس کی ہتھیلی کی وادی پر سراجِ رہ گزر ضو فشاں تھا،بلکہ پناہ گزیں تھا…

اُس کی انگلیاں کچھ لکھتے ہوئے لرزتی تھیں ،بلکہ لرز لرز کر دل کے تاروں کو چھیڑ کر سرگم ڈھونڈتی تھیں …

اُس کے ریگزارِ بدن کے ٹیلوں پر ہوا کے کٹاؤ نے ایسی دلدلیں کھوج ڈالی تھیں کہ نظر پلٹنا بھول جاتی تھی،بلکہ نظر اپنا مقام بھول جاتی تھی…

اُس کی چال کی سرمستی کا فسوں قبل مسیح کی جادوئی و اپسرائی کہانی کا روپ دھار چکا تھا،بلکہ قتل کا ہنر سیکھ گیا تھا…

اُس کی مسکراہٹ کے نرمگیں تاثر میں چاند اپنی چاندنی رکھ کر بھول گیا تھا،بلکہ ڈھونڈنے کیلئے گل کی اُن پتیوں پر چکراتا رہتا تھا…

اُس کے گالوں میں پڑنے والے ننھے ننھے گڑھوں کی درخشانی کو چومنے کیلئے الف لیلوی ہزار داستان کے کردار دیوانہ وار اُترنے لگے تھے،بلکہ جان کی امان پا کر بسرام کے طلبگار ہو گئے تھے…

اُس کے شانوں اور گردن کی وادیوں پر دُنیا بھر کا حسن خیمہ زن تھا،بلکہ شوریدہ سری میں اُس وادی میں سر کے بل چل کر احترام ملحوظ رکھتا تھا…

 مگر…

پیاس!

ہائے پیاس!…

تہی دامنی میں گنوایا کچھ نہیں ،سیکھا بہت کچھ…وہ اپنا ٹھوٹھا بھرنے قریب آئی تھی۔ پیاسی تھی۔ نام سے گزر کر اُس نے میرے لباس سے پیار کیا۔ لباس قیمتی ہوتا تو اُس کی آنکھیں سیراب ہوتیں ،تشنہ کام رہیں تو چھلکنے لگیں مگر اُسے خبر ہی نہ ہوئی اور اُس کے وجود نے مجھے لبریز کر دیا۔ اُسے خدا نے حسین تَر بنایا تھا۔ اُسے خود پر توجہ دینے کی احتیاج نہیں تھی۔ میرا کام ہو گیا۔ وہ بھی مجھے ٹٹولتی رہی، میں بھی اپنے آپ کو کریدتا رہا…اُسے کچھ حاصل نہیں ہوا،مجھے دُنیا مل گئی…

دنیا کیا ہے؟…

 تہذیب و تمدن کا ارتقا؟…انسان کا ہواؤں میں اُڑنا؟… سورج کو سوا نیزے پر لانے کی مجنونانہ خواہش؟…

نہیں …

تو پھر کیا پیاس ہی دنیا ہے؟اگر ایسا ہے تو دنیا کا انجام کیا ہے؟

میری برہنہ پائی نے اُسے مایوس کر دیا اور وہ شکست کھا کر تلملاتی ہوئی اپنی مچان میں لوٹ گئی۔

مگر …

پھر وہ طلسم بھی ٹوٹ کیوں گیا؟

وہ محبت تھی تو رُوٹھ کیوں گئی؟

اُس نے… میں نے… کہاں غلطی کی تھی؟

کہاں ہم سے کوئی بھول سرزد ہوئی تھی؟

کچھ نہ سمجھ پایا تو میں سرافگندہ… شرمسار… پژمردہ…نڈھال… شعر کی دنیا میں پناہ گزیں ہو گیا۔ یہ جائے عافیت تھی، جائے پناہ تھی…پھر پتہ چلا کہ نادانستہ طور پر میری محبت میرے جبلی تجسس کی رہین ہو کر اپنا آپ بے وقعت کر گئی تھی۔

تبھی اُس نے کہا، ’’میں نے اُسے چھوڑ دیا ہے۔‘‘

اور میں نے بھی یہی بھڑاس نکالی، ’’ہاں ! وہ اُس قابل  تھی۔ وہ کیا چھوڑتی،میں نے اپنا آپ ڈھلنے سے روک لیا ہے۔‘‘

ہاں ! بھول ہو گئی تھی۔ دل نے غلطی نہ دہرانے کا تہیہ کیا۔

چاہا کہ کارِ عشق از سرنو سرانجام دیا جائے۔ چہروں سے آراستہ دُنیا میں گام گام گھوما۔ ہر ماہِ تاب ایک شب کی زندگی لے کر زندگی میں طلوع ہوتا رہا۔ ہر پھول دو چار لمحوں کیلئے کھلتا، خوشبو کا احساس دیتا پھر شاخِ نہاں پر سر جھکا کر اپنی ناتوانیاں ظاہر کر دیتا۔ ہر ندی سر پٹختی، چلاتی اور مچلتی ہوئی پیروں تک آتی پھر اُس کا پانی کھلے میدان میں پھیل کر زمیں کی آغوش میں چلا جاتا۔ بدلیاں تو شور مچاتیں سر تک آتیں اور دو چار بوندوں کے بعد ہوا میں تحلیل ہو کر اپنی موت مر جاتیں ۔

تب سمجھ میں آیا کہ سیراب دل و جاں صراحیوں کو لبِ تمنا تک نہیں آنے دیتے۔ ’وہ‘ ابھی مجھ سے علیحدہ نہیں ہوئی تھی۔ میں اَبھی اُس کی دسترس سے نکلا نہیں تھا۔

اُس جیسا کوئی دنیا میں نہیں تھا یا میری نظر اُس پر کسی کو قبول کرنے کا یارانہ نہیں رکھتی تھی۔

اور پھر اس کی یاد سے میری تنہائی کا خانہ آباد ہو گیا۔ تشنہ کام تنہائی کی تکمیل ہو گئی۔

اور تنہائی شاعری کو جنم دیتی ہے… اور شاعری فردِ جرم ہے۔

تب ایک بار پھر میں نے قلم سنبھال لیا۔ پیاس سے عشق تک، عشق سے شاعری تک… لکھنے کیلئے بہت کچھ تھا۔میں اُس کے عارض و خط تشکیل دیتا رہا۔ اُس کی آنکھوں کی تاب و تمکنت حیطۂ تحریر میں لاتا رہا۔ اس کی زُلفوں سے شب کشید کرتا رہا۔ اُس کے جاوید لبوں کو گل پتیوں پر مسل کر دنیا کو بہار سونپتا رہا۔ اس کی قامت کا نقشہ کھینچ کر پیڑوں کو چھیڑتا رہا۔ اس کی مست و الست چال پر نسیم جھونکوں کو پازیبیں باندھتا رہا۔ عشق کی پہلی تجسس آمیز واردات کو چشمِ تصور میں سجا کر دنیا کے تشنہ کشکول بھرتا رہا…

 اپنی تشنگی بھول گیا۔ پھر دل نے غلطی کو نہ دہرانے کا تہیہ کیا۔

عشق کا احاطہ کرنا مقصود ہوا۔ محبت کے احساسات کو لفظی پیراہن دینے کا خیال چرایا۔ سوچا،  لکھا کیسے جاتا ہے؟… سوچا،سیکھنا تو ابھی باقی ہے۔ پلٹ کر دیکھا۔ دہلیزِ جاں پر دو لفظ، دو باب، دو کہانیاں منتظر تھیں ۔ پڑھیں ،آنکھیں نم ہو گئیں ۔ شاید یہ بھی بہلاوا تھا۔ مگر نہیں … یہ تو سنگِ میل تھا۔ تنہائیوں کی بے کراں مسافتوں کا…تب پتہ چلا کہ… زندگی کے طویل رستے پر، تُو مرے ساتھ چل نہیں سکتی… ہاں ! ایسا ہی تھا۔ وہ میرے ساتھ نہیں چل سکی… آنکھ کی تشنگی نے دِلاسا دیا… کچھ گنوائے بنا کوئی لڑکی، اِس طرح ہاتھ مل نہیں سکتی… مگر وہ ہاتھ کب مل رہی تھی؟ وہ تو ہاتھ لہرا رہی تھی… الوداع میرے محبوب! الوداع میرے شاعر! میں ہمیشہ تمہارے پاس رہوں گی مگر تم میری دنیا میں کہیں دکھائی نہیں دو گے… الوداع! اور پھر… دو عنایتیں …

’’سفر بخیر!‘‘

ایک دل گرفتہ، شکست خوردہ، جگر سوختہ صدا…رُندھی ہوئی نامکمل دعا…

ہاں ! مسافتوں کے اَن دیکھے محاذ پر

میری سماعتوں کو میسر آنے والا زادِ راہ محض اِنہی دو الفاظ پر مشتمل تھا۔

اور بصری تقویت کے لیے لہراتے ہوئے گداز ہاتھ کا ایک دھندلا سا عکس…

پلٹ کر دیکھنے سے پیشتر ایک پل کو سوچا، ’’کیا اتنی طویل، ویران اور تنہائیوں سے عبارت مسافتوں کے لیے اِس رختِ سفر پر اکتفا کیا جاسکتا ہے؟‘‘

شروعاتِ سفرِ نو کے پُر تجسس لمحات ، اتھل پتھل ہوتی ہوئی سانسوں کے گنجلک سلسلے…

تا حدِّ نگاہ پھیلا ہو ا کشت و خون کا بازار…

مایوسیوں ، ناکامیوں اور ناانصافیوں کے قلب سے اُٹھ کر جھانکتا ہوا ماضی…

معدوم ہوتے ہوئے نقشِ پا سے عکسِ موجود کو کریدتے عفریتوں کے خونیں چنگل…

اِسم جنوں با رکی پرچھائیاں ،در بہ در بھٹکتی ہوئی رسوائیاں ، حکایاتِ تشنہ کام…

یارانِ کم سخن کے تکلیف دِہ کچوکے اور دیدہ ورانِ شبِ ہجراں کا پُر فریب طلسم…

اِک جہانِ کرب آراستہ تھا جو مجھے دَم بہ دَم درد کی شدّتوں سے زندگی کے نقاب گیر سانحوں اور پُر عذاب فاصلوں رُو بہ رُو لانے پر کمر بستہ رہا۔ سوختہ محاذ پر فاتح دستے مجھ بے سپر، خانماں خراب، شکست خوردہ کو اپنے آ ہنی حصار میں لیے، قدم قدم پسپا کرتے ہوئے، ہر آن نامراد پستیوں کی طرف دھکیلتے رہے اور باور کرتے رہے کہ میں محبت کے جُرم میں سزایافتہ ہوں جسے قیدِ تنہائی کا عذاب حیات بھر جھیلنا ہے۔

میں ، محبت کا مقدمہ ہارا ہوا شخص، دم بخود، مستفسر کہ مجھ سے یہ جُرم کب سرزد ہوا؟

میں نے کب کسی سے محبت کی تھی؟

 نہیں !… نہیں !…

یہ الزام اپنے دامن میں کوئی حقانیت نہیں رکھتا تھا۔ میرے خلاف کٹہرے میں کوئی گواہ نہیں کھڑا ہوا تھا۔ کسی وکیل نے میرے موقف، میرے استدلال اور حلفیہ بیان کو رَد نہیں کیا تھا۔

پھر؟ پھر کیا ہوا؟

مجھ پر بارِ عتاب کیوں آن گرا؟میں وہ مقدمہ کیوں کر ہار گیا جس سے میرا کوئی واسطہ نہیں تھا، کوئی تعلق نہیں تھا…

ہاں ! میں جُرمِ محبت کا مرتکب کبھی نہیں ہوا تھا۔

ہاں ! میں نے ہر صنعت کو، ہر چہرے، ہر اَدا اور ہر فسوں کو تشکیک آمیز نگاہوں سے دیکھا تھا۔

ہاں ! میں نے زُعم بار تلخی ئِ مَے سے بھی کسی موہوم نسبت کو عبث جانا تھا۔

ہاں ! میں نے چشمِ تصور کے بہلاووں کو ناقابلِ فہم جانتے ہوئے سزائے نظر اندازی کے کرب میں مبتلا رکھا تھا۔

مگر…

میں ،کہ جہانِ فہم و ادراک کا رنجیدہ مسافر، کمالِ ضبطِ غم سے آشنا قیدی، اپنا موقف اپنی گردن میں ڈال کر تختِ نارسائی پرمحوِ رقص رہا، سخن طرازوں کی نظروں میں پیوست رہا، اپنی بے کراں تنہائیوں سے ہم کلام رہا، اپنی جبیں کے قطرہ قطرہ عرق کو ہتھیلیوں کے پیالوں میں بھرتا رہا… کہ یہی تو فیضِ جنوں تھا… کہ یہی تو جوابِ شعر تھا… کہ یہی تو انعامِ شبِ وصال تھا۔

مگر مجھے اپنے جُرم پر لب کشا، طعنہ زن، مشتعل کوئی شخص بھرے جہان میں نہیں ملا۔

مجھے مقتل میں سرخ رُو کرنے والوں کے ہاتھ بھی خالی تھے۔ کوئی فردِ جرم، کوئی نامۂ اعمال، کوئی اعترافِ جنوں … محض خالی ہاتھ… شکن آلود پیشانیاں اور مَیں … نہ کچھ آگے، نہ کچھ پیچھے… تب یہ طے ہوا کہ میں نے وہ جرم کیا ہی نہیں تھا، جو میرے نامۂ اعمال میں رقم کر دیا گیا تھا اور سزاوار ٹھہراتے ہوئے معتوب قرار دے دیا گیا تھا۔

ہاں !یہ سچ ہے کہ میں نے کسی سے محبت نہیں کی۔

میں تو عمر بھر اپنے آپ کو چاہتا رہا، اپنے آپ کو کھوجتا رہا اور یہ سوچتا رہا کہ میں کس طرح خوبصورت ہو سکتا ہوں … میں کس طرح لائقِ کارِ محبت بن سکتا ہوں … میں فلسفۂ بقا کی جستجو میں سرگرداں رہا اور سرافگندہ سوچتا رہا کہ کس طرح یہ خوب صورتیاں محفوظ کی جاسکتی ہیں ؟

شاید…نہیں بلکہ یقیناً… میں خود پرستی کا مارا ہوا شخص تھا۔ آئینے کو شیشہ جان کر دنیا کے تمام منظروں سے حِظ کشید کرتا رہا… یہ مغالطہ تھا، ابہام یا وہم… طے کرنا کچھ مشکل نہیں ، وقت کر ہی لے گا۔

میں نے اگر اینٹوں کے بار تلے پسینہ پسینہ چلتے ہوئے مزدور کو چاہا تو محض اِس لیے کہ میں خود مزدور تھا اور میرے عضو عضو نے ، سانس سانس نے ’ہائے روٹی‘ کا ورد اَزبر کر رکھا تھا۔

میں نے عدالتوں میں دھکے کھاتے بے جُرم مجرموں اور اُن کی زندگی میں ہونے والی بیواؤں کی بیوگی اور بچوں کی یتیمی سے اگر محبت کی تھی تو صرف اِس لیے کہ میں خود اِس نظمِ عدل و انصاف پہ ایڑیاں رگڑتے ناکامی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا تھا۔

میں نے ہوٹل کے برتنوں کی اوٹ میں کھڑے، صابن سے لتھڑے ہوئے ہاتھوں والے کم قامت بچوں سے محبت کی تھی تو محض اِس لیے کہ مجھے بھی زندگی نے اپنا میل صاف کرنے کے لیے چن رکھا تھا۔ مجھے اپنے ہاتھوں سے ٹپکتے ہوئے میلے کچیلے صابن کا ناپسندیدہ جھاگ ہر آن بے چین کرتا تھا۔

جون کی کڑکتی دھوپ میں سر پہ تختی، برہنہ پا اور شدّتِ موسم سے سرخ ہوتے بچوں سے اگر محبت کی تھی تو وجہ یہی تھی کہ یہیں کہیں میرا بچپن ، میرے جوتے، میرا رُمال کھویا تھا۔

میں نے تنور پر درماندہ بنیان پہنے ہوئے کھڑے اُس کالے شخص سے اگر محبت کی تھی جس کے چہرے اور چھاتی پر جہنم کدے کی تمام تر حدّتیں ثبت تھیں ، عرشِ وقت پر پاؤں کسی رقاصہ کی طرح تھرک رہے تھے اور ہاتھ زندگی کی تمام تر کٹھنائیوں کے محاذ پر مجنونانہ انداز میں متحرک تھے،تو محض اِس لیے کہ میں خود بھی حیاتِ سوختہ کے تند و گرم صحرا میں برہنہ پائی کی نہ ختم ہونے والی مسافتوں کی زد پر تھا۔

اگر میں نے سرِ شہ راہ، تماش بینوں کے حصار میں ، ایک فولادی وجود سے محبت کی تھی جو اپنے ہی خون میں رنگا ہوا ماہی ئِ بے آب کی طرح تارکول اور بجری کی بنی ہوئی سڑک پر تڑپ رہا تھا ، تواس کا سبب میری جوانی کی لہو آلودگی تھی… میرے کانوں نے بھی یہی صداسنی تھی کہ یہ مشیتِ ایزدی ہے… یہ قبل اَز پیدائش کا خفیہ فیصلہ ہے…

میں نے اگراُس کالے، جھریوں بھرے، مایوس اور داستاں گو چہرے والی بڑھیا سے محبت کی تھی جس کے سر پر گٹھڑی، پیروں میں ٹوٹی ایڑیوں والی ہوائی چپل اور پہلو میں اپنی مضمحل سانسوں کو شمار کرتا ہوا اُس کا پوتا تھا؛تواِس لیے کہ یہی میرا بڑھاپے کا جیتا جاگتا عکس تھا اور یہیں کہیں میرا سہارا گم ہوا تھا۔

ہاں !یہ سچ ہے کہ میں نے کسی سے محبت نہیں کی۔

ایک جاں گسل سفر پر تھا جب میں نے ویرانوں میں بھٹکتی ہوئی ایک استخوانی روح کو دیکھا تھا۔ ہاں ! میں سچ کہتا ہوں ۔ وہ روح تھی۔ اس نے اپنے اوپر مادہ یا ماس اوڑھا ہوا نہیں تھا۔ وہ دشتِ تنہائی میں بھی اکیلا تھا،افسردہ نہیں تھا۔ میں پیاس سے شکست کھا کر اُس کے قریب گیا اور پانی کا طلب گار ہوا۔ اس نے اپنی گہری آنکھیں مجھ پر چند ثانیوں کو مرتکز کیں ،پھر اوپر دیکھا… اوپر شجر کے پتے، بادل یا نیلی چھت ہوتی ہے۔ کچھ اور بھی ہوتا ہے جو ’سب کچھ‘ ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتا۔ وہ شاید اُسے دیکھنا چاہتا تھا۔ دیکھ پایا یا نہیں … خبر نہیں … مگر اُس نے مجھے پانی سے لبریز ٹھوٹھا تھما دیا۔ بولا، ’’لو… پیاس بجھاؤ!‘‘

ٹھوٹھا خالی ہوتے ہی پانی بے وقعت ہو گیا۔ میں نے اُس ہڈیوں کے ڈھانچے سے پوچھا، ’’تم یہاں کیا کرتے ہو؟‘‘

’’بھٹکے ہوئے انسان کی پیاس بجھاتا ہوں ۔‘‘ اس کی آواز گویا کھڑکھڑاہٹ تھی۔

’’کیا تم انسانی فلاح کا دعویٰ رکھتے ہو؟‘‘

’’ہاں …‘‘کھڑکھڑاتی آواز کے ساتھ لرزاں وجود بھی اثبات میں ہل گیا، ’’میں محض یہی کچھ کرنے کی استطاعت رکھتا ہوں ۔ تم اگر زیادہ کی استطاعت رکھتے ہو تو کرو،مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔‘‘

’’کیا پیاس ہی دنیا کا سب سے بڑا المیہ ہے؟‘‘

اس نے پھر سر اُٹھایا۔ بادلوں کو دیکھا۔ یہی جواب تھا۔

میں اُس کے سامنے بیٹھ گیا۔ لب بستہ… دل گرفتہ…

اس کی کریدتی ہوئی آنکھوں نے استفسار کیا، ’’اب کیا مانگتے ہو؟‘‘

میں نے سوچ کر کہا،’’شہرت!‘‘

’’تو دنیا کی پیاس بجھا دو،شہرت مل جائے گی۔‘‘اس نے کہا اور گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو گیا۔ خالی گھڑا اُٹھا کر سنگلاخ پہاڑی کی اُترائی میں قدم قدم سنبھلتا ہوا غائب ہو گیا۔ اُس نے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔

اُس نے شہرت کی دیوی تک رَسائی کیلئے نہایت مختصر اور آسان راستہ سجھایا تھا… مگر… یہ آسان کب تھا؟… یہ تو دل سے کھیلنے کا عمل تھا۔ جب میں نے اِس راہ پر قدم رکھا، تب احساس ہوا کہ مجھے اپنی روح پر اوڑھی ہوئی مادیت کو جھٹکنا ہو گا۔ ہر بوجھ سے چھٹکارا پانا ہو گا۔آہ! انسان کی پیاس … دنیا میں اس سے بڑا کوئی دکھ نہیں ۔

تب سوچا کہ دھڑکتے ہوئے انسانوں کی پیاس بجھانے سے پہلے اپنی پیاس بجھا لوں تاکہ کسی کو ٹھوٹھا تھماتے ہوئے مجھے قلق نہ ہو، رقابت نہ ہو… ایک…دو…تین… آخر کتنے ٹھوٹے لبوں سے لگا سکتا تھا مگر …ہائے! دل بھرا نہ لب، نہ آنکھ ہی… اور یہ سیراب ہونے والے تھے ہی کہاں ؟

ہائے! پیاس کہاں بجھنے والی تھی؟… بڑھتی گئی، بڑھتی گئی، یہاں تک کہ شہرت کا شوق نہاں خانوں تک سے محو ہو گیا۔ پھر ہار گیا… اپنے آپ سے ہار گیا… مگر شہرت کے خمار بار خواب پیچھا چھوڑ گئے۔ نیند تنہا رہ گئی۔ تنہائی سکون آور ہوتی ہے۔ شاعری کو جنم دیتی ہے اور شاعری تو فردِ جرم ہے۔

عقب میں سمندر، سامنے جنگل… جنگل درندوں کی آماجگاہ… مگر انسان سے بڑا کون تھا؟ سمندر کا خوف کیوں لاحق ہوا؟ کیا جانیے!… پھر نگاہ پلٹ گئی۔ سوچا،سامنا کیا ہے؟عقب کیا ہے؟ عقب نما کیا ہے؟ عاقبت کیا ہے؟ … اور زندگی کس کے تعاقب میں اپنی مشینی چال چلتی جاتی ہے؟…اِس سوال کے جواب میں کسی نادیدہ کنویں سے مُردہ سی آواز اُبھری،’موت کے!‘…

اک نئی جان کنی طشت اَز بام ہوئی کہ موت کس عقدے کا نام ہے؟…

زندگی اور موت کی سرحد پر کون سی فصل اگتی ہے؟… جس طرح زندگی ایک نہ ایک دن مر جاتی ہے، اِس طرح موت کس کیفیت میں تبدیل ہوتی ہے؟…نادیدہ کنویں سے جواب نہ اگلا جا سکا۔ ’ہے‘ اور ’نہیں ‘ کے درمیان کیا ہے، کا جواب دانش ور نہیں بلکہ ان دونوں کیفیتوں کے درمیان معلق وجود ہی دے سکتا ہے۔ جذبۂ جستجو کے ہاتھ نئی جہت لگ گئی کہ معلق وجود کس کا ہے؟…

تلاش اُس کی محال بھی تھی، تلاش کرنا کمال بھی تھا…

تب پتہ چلا کہ زندگی اور موت کے درمیان تو میرے معاشرے کے راندۂ درگاہ، خانماں خراب، بے زمین و آسماں اور تہی فکر لوگ ہیں جو ’ولا تفرقوا‘ کی گردان پر سر دھنتے ہیں اور ہوش میں آتے ہی ہزاروں ٹکڑیوں میں بٹ کر ایک دوسرے کی طرف خون آشام نظروں سے گھورنے لگتے ہیں ۔ وہ فکری سوداگر ہے جو سارا دن جمہوری رنڈی کے جھریوں بھرے بُڈھے چہرے پر نظریات کے تمام کاسمیٹکس لیپ کرنے میں گزار دیتا ہے اور شام ڈھلتے ہی اپنے کہن نظر بیٹے کی نوکری کی خیرات مانگنے دن بھر میں تراشے گئے بت کے چرنوں میں جھک ہو جاتا ہے۔وہی تو ہے جو ’آؤ فلاح کی طرف‘ کا کلمۂ خیر سنتے ہی مسجد کی طرف دوڑ پڑتا ہے مگر گاہک کی شکل دیکھتے ہی خدا کو بھول جاتا ہے۔ وہی تو ہے جو مردانگی کی بیساکھی پر مست الست جھومتا ہوا گھر سے نکلتا ہے اور وارث کی تلاش میں اپنی تمام تر مردانگی کو غیرت کی جبین پر سجا کر بانجھ دہلیز پر رکھ کر خوشی خوشی لوٹ آتا ہے۔

ہاں تو… فضا میں خون معلق ہے۔

ہاں تو… محبت بھی لہو لہو ہے۔

اور اے جانِ نازِ گل… اے ماہِ تمام… اے فسوں کارِ تخلیقِ شعر… اے سراجِ رہ گزارِ حیات… اے حشر بداماں آفرینی سطوت… سن!

میں نے تیرے غم کو، غمِ جاناں کو زمانے کے دُکھ میں پرو دیا ہے۔ آویزاں کر کے تحلیل کر دیا ہے۔ اَب نہ تو ہے نہ ترا زہرہ جمال حسن… اَب نہ میں ہوں نہ میرا رنگِ خیال ذہن… توُ جہان ہے۔ اگر میں نے محبت نہیں کی تو بلاشبہ کسی سے نہیں کی۔ اگر میں نے محبت کی ہے تو بلاشبہ تمھی سے کی ہے… مگر تم یہ نہ سوچو کہ میں تمہیں پکار رہا ہوں ۔ نہیں … واللہ نہیں … میں اپنی دنیا کھوکھلی نہیں کرنا چاہتا۔ اپنے دُکھوں سے پہلوتہی نہیں کرنا چاہتا… میں تو ابھی تم پر لکھنا چاہتا ہوں ۔ ہاں ! جب میرا لکھنے سے دل بھر جائے… جب میری آنکھ کچھ دیکھنے سے عذر چاہے… جب میری دھڑکن معتدل ہو جائے… تب آ کر ایک نظر دیکھ جانا۔ بس!

اور… زمانے کی آندھیوں میں چراغ آگ لگاتے ہیں ۔ ایسے میں پھر شاعری کیا ہوئی؟… چند خوابوں کا مجموعہ… بس! …

 نہیں ! خواب تو انقلاب کی دہلیز قرار پاتے ہیں اور میں نے سیکڑوں خواب دیکھے ہیں ۔ عشق کی آگ پر کندن ہونے والی خواہشیں … جنہیں جھولی میں بھر کر آپ کو دکھانے کیلئے لایا ہوں ۔

دیکھ لیجئے!

بھلے یہ جھوٹے ہیں ، خام ہیں ، کچے ہیں ، کچی نیند میں بنے گئے ہیں ، بیان بچگانہ ہے، لفظ نا معتبر ہیں ، لہجہ اناڑی ہے…مان لیا …مگر آپ بھی مان لیجئے کہ یہ آپ کو چند لحظوں کیلئے ایسی دنیا میں لے جائیں گے جہاں صرف ’وہ‘ ہے… اُس کا ’جذب‘ اور اُس کے حسن کی رعنائیاں ہیں جنہیں میرے لفظ کبھی بوڑھا نہیں ہونے دیں گے۔

پیش رو میں نہیں ، وہ ہے۔

وہ، جو دکھائی نہیں دیتی۔

وہ، جو سنائی نہیں دیتی۔

ہاں مگر میرے لفظ لفظ میں دھڑکتی ہے…

میں اُسے جہانِ حیرت کہتا ہوں ۔

وہ مجھ سے رُوٹھ گئی تھی اور میں نے آج تک اُسے منانے کی سعی لاحاصل بھی نہیں کی۔

 مگر نہیں … میں جھوٹ بھی بولتا ہوں ۔کوئی کوئی… کہیں کہیں … کبھی کبھی…

مگر بے اختیار کڑوے سچ بھی میرے لبوں سے پھسل جاتے ہیں ۔

ایک ایسا ہی سچ یہ ہے کہ شاعری فردِ جرم ہے۔

                                    ناصر ملک

                                    چوک اعظم (لیہ)   فون:0302-7844094

 

حمد باری تعالیٰ

گماں سے گویا حسین تر ہے اُسے نظر بھی حسین دیکھے

یہ نظمِ دوراں بتا رہا ہے کہ رب کو عین الیقین دیکھے

وہ خالقِ کائنات سانسیں چلا رہا ہے جہان بھر کی

وہ رازِ دل ہے جسے دیارِ خلوص کا ہی مکین دیکھے

بقائے آدم تلاشتی ہے ادائے یزداں کی لب کشائی

کہ ذرے ذرے میں رحمتوں کے چھپے خزینے زمین دیکھے

وصال کی جو تلاش میں ہے اسے خبر ہے مسافتوں کی

اسی نے ہجرت، لہو کے دریا، فرات و سجدہ گزین دیکھے

تھمی ہوئی بندگی ردائے حیات کی آبرو سنبھالے

تڑپ رہی ہے کہ کس گھڑی وہ خدائے پردہ نشین دیکھے

٭٭٭

 

O

غفور ہے وہ ، رحیم ہے وہ

سب اعظموں سے عظیم ہے وہ

بڑائی اُس کی ہے جدّتوں میں

قدامتوں سے قدیم ہے وہ

زمانہ جس کی تلاش میں ہے

ہر ایک دل میں مقیم ہے وہ

جو گھٹتی سانسیں بڑھا بھی دے تو

ہے اُس کی قدرت ، حکیم ہے وہ

وہ سن رہا ہے سبھی دلوں کی

بصیر ہے وہ ، علیم ہے وہ

ہزار عقدے بتا رہے ہیں

سمجھ سے بڑھ کر فہیم ہے وہ

جہان طالب ہے اُس کے در کا

رفیق ، ناصر ، کریم ہے وہ

٭٭٭

نعتِ رسولﷺ

اَزل سے خلقِ خدا کے سر پر شجر وہی ہے

مصیبتوں کے جہان میں چارہ گر وہی ہے

میں دیکھتا ہوں چہار سُو رحمتیں نبیؐ کی

مکینِ دل ، غم گسار و نورِ نظر وہی ہے

وہی کہ جس کی سخاوتوں سے جہاں سجا ہے

زمیں کی ساری ریاضتوں کا ثمر وہی ہے

بقائے آدم لہو سے طائف میں لکھنے والا

ردائے رحمت وہی ہے فخر البشر وہی ہے

سکھائے جس نام نے قرینے معاشرے کو

وصالِ پروردگار کی بھی خبر وہی ہے

یہ ارتقا منحصر ہے اُس کی شفاعتوں پر

مدینۃ العلم بھی وہی ہے ، سحر وہی ہے

وہ جس نے دل کو دیا نصابِ خدا شناسی

ہر اک نظر میں زمین پر معتبر وہی ہے

میں ناصر اُس کا غلام ہوں جو حبیبِ ربؐ ہے

حقیقتوں کے سفر کا بھی نامہ بر وہی ہے

٭٭٭

 

لہجہ اُداس آنکھ میں پرچھائیں زرد سی

جیسے جمی ہو وقت کی خاموش گرد سی

میں تو شبِ فراق سے ہارا نہ تھا مگر

پھولوں پہ اَوس پڑ گئی شعلہ نبرد سی

اس کو مِرے وطن کا پتا چل گیا ہے آج

صورت جو اُس نے دیکھ لی صحرا نورد سی

مقتل پہ سب مذمتیں آخر تھیں بے جواز

منظر تھا دِل خراش تو آنکھیں بھی سرد سی

لاتا پھرے جواز وہ جتنے بھی ڈھونڈ کر

اُوپر ہے ظلمتوں کی کھلی ایک فرد سی

عورت کا سا گداز تو دھڑکن بھی جاندار

اِس دل پہ مُردنی ہے مگر بوڑھے مرد سی

مختل ہوئے حواس تو عقدہ یہی کھلا

ملتی ہے زندگی یہاں دشمن نبرد سی

ناصر یہ بے ثباتیاں ٹھہریں بلائے جاں

اک لہر مضطرب ہے کوئی دل میں درد سی

٭٭٭

 

تُو زُلف زُلف تھی مگر کھلی نہیں

تُو شام شام تھی کبھی ڈھلی نہیں

اَبھی نہ جا کہ آنکھ برف برف ہے

اَبھی تو میں نے دل کی بھی کہی نہیں

چلو گلے ملیں بڑے تپاک سے

بھلے ہمیں کوئی طلب رہی نہیں

صدف کے نیم وا لبوں کو چوم کر

کہو وہی جو آج تک سنی نہیں

دراڑ سی بدن میں ہے ، یہ کیا ہوا؟

اَبھی مِری نگاہ تو اُٹھی نہیں

سبوئے فکر میں خمارِ آبرو

فریب ہے ، شعورِ آگہی نہیں

تلاش ہجرتوں کو ہے کہ تُو اَبھی

عنایتیں سمیٹ کر گئی نہیں

میں چومتا رہا ہوں کاغذی بدن

اِسی لیے تو آگ بھی بجھی نہیں

یہ آرزُو ، یہ انتظار ؟ واہمے

یہ زندگی تو چار دن کی بھی نہیں

٭٭٭

 

اختیار

میں نے دریا سے سمٹنے کی ادا سیکھی ہے

اپنی آنکھوں میں چھپا لو یا بہا دو مجھ کو

میں نے مہتاب سے مانگی ہیں درخشاں کرنیں

اپنے ہونٹوں کے جزیروں پہ سجا دو مجھ کو

میں سرکتے ہوئے ٹیلے پہ کھڑا ہوں اَب بھی

تیز جھونکے کی طرح آ کے اُڑا دو مجھ کو

کچی پنسل سے مجھے وقت نے لکھا ہے ہوا پر

تم میرا غم نہ کرو، آؤ، مٹا دو مجھ کو

میرے کشکول سے پھوٹے گا تعفن صدیوں

تم بہادر ہو تو مٹی میں دبا دو مجھ کو

٭٭٭

 

تمثیل

کسی اِک وار پر جیسے وفا کی مات ٹھہری ہو

کوئی دیوانگی جیسے لبِ جذبات ٹھہری ہو

کسی اُلجھے ہوئے نکتے پہ آ کے بات ٹھہری ہو

کسی تاریک لمحے پر گریزاں رات ٹھہری ہو

کہ یوں خاموش سی خواہش مرے ہونٹوں پر ٹھہری ہے

٭٭٭

 

جب سے تشنہ اُس دہلیز سے پلٹی ہیں

میری آنکھیں آگ میں جلتی رہتی ہیں

مل جاتی ہے مہلت ماہِ تازہ کو

چہرے پر جب زُلفیں سایا کرتی ہیں

پہلا پہلا عشق جنونی ہوتا ہے

دل کو دیواریں بھی اچھی لگتی ہیں

مہندی سے اِک خواہش اپنے ہاتھوں پر

سکھیاں لکھ کر چوری چوری پڑھتی ہیں

سانسیں بھی سینے میں گھٹ کر مر جائیں

سوچیں تو انسان کو ایسے ڈستی ہیں

جب سے اِک معصوم کا لاشا دیکھا ہے

میری گلیاں ہر گاڑی سے ڈرتی ہیں

سورج ، چاند ، ستارے کوٹھی والوں کے

شامیں کچے گھر میں جا کر ڈھلتی ہیں

بنجر آنکھیں ، گم صم لہجہ ، ناصر سا

ہجراں میں بس ایسی شکلیں بنتی ہیں

٭٭٭

 

تم سراپا بہار ہو جاناں

کس لیے سوگوار ہو جاناں

بوجھ دل پر ہے آج بھی جیسے

درد کوئی سوار ہو جاناں

ایک لمحہ پلٹ کے دیکھو نا

گر میرا اعتبار ہو جاناں

یاد کرنا مجھے اکیلے میں

دل اگر بے قرار ہو جاناں

تازگی لب سے چوس لوں ساری

یوں میرا اختیار ہو جاناں

سانس لینا محال ہوتا ہے

جب ترا انتظار ہو جاناں

میری مجبوریوں کو سمجھو نا

بے سبب اشکبار ہو جاناں

٭٭٭

 

چراغِ شب جلا کہیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں

سحر نے ڈھونڈ لی زمیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں

وہ ننھی ننھی تتلیاں ادائے گل سے روٹھ کر

شکاریوں سے جا ملیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں

اے بخت کی سیاہیو ! تمھارے دل میں بھی ہوا

ستارہ کوئی جاگزیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں

سراجِ رہ گزر کی پھر اکھڑ رہی ہے سانس بھی

کھلی ہے زُلفِ مہ جبیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں

ہزار خواہشوں کے درمیاں سخن طراز کو

متاعِ دل پہ ہے یقیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں

بجھے بجھے سے دیس میں لہو کے کھیل پر کوئی

اٹھی صدائے نکتہ چیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں

خیالِ خوفِ قریۂ جنوں کی آزمائشیں

غمِ جہاں پہ کھل گئیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں

شباہتیں غبارِ دل سمیٹنے کے شوق میں

کسی کے ساتھ چل سکیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں

لٹی لٹی شبِ وصال پوچھتی ہے چاند سے

تھکا ہے مارِ آستیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں

٭٭٭

 

رِدائے شب نہیں رہی

کوئی طلب نہیں رہی

سنو ! وفا کی آرزو

مجھے بھی اَب نہیں رہی

سحر کا رنگ سرخ ہے

شبِ طرب نہیں رہی

سخن بھی لڑکھڑا گئے

شراب جب نہیں رہی

تھکن مری شکست کا

کبھی سبب نہیں رہی

سنا ہے اُس کے شہر کی

فضا عجب نہیں رہی

مرے خدا ! یہ زندگی

عذاب کب نہیں رہی

لو مر گئی ہے فاختہ

وہ جاں بہ لب نہیں رہی

٭٭٭

قطعہ

حاصل ہے رفاقت کا

دل جس کو سدا چاہے

وہ دِل میں اُترتا ہے

یا دِل سے اُترتا ہے

 

بارِ گراں کا ماجرا چلتا رہا تھا رات بھر

دشتِ جنوں میں اِک دیا جلتا رہا تھا رات بھر

تھا ساز محوِ جستجو تشنہ لبی سے ہار کر

دل رفتہ رفتہ گیت میں ڈھلتا رہا تھا رات بھر

تب مضطرب تھا اُس گھڑی دیدہ وری کا ذوق بھی

اک پھول بوتل میں پڑا گلتا رہا تھا رات بھر

سب ڈگمگاتے ذہن اپنے آپ سے غافل رہے

اور دل جلوں کا جام بھی چلتا رہا تھا رات بھر

پھر سو گیا تھا وقت کا سورج ہتھیلی پر مری

جو حسرتوں کے خون میں پلتا رہا تھا رات بھر

ناصر جو فیضِ عشق تھا قلب و جگر کا سانحہ

ماتھے پہ ہجر کا لہو ملتا رہا تھا رات بھر

٭٭٭

 

اَب کہاں غم شناس ہے میرا

بے سبب دِل اُداس ہے میرا

واہمے آج بھی جگاتے ہیں

بخت بھی وقفِ یاس ہے میرا

چشمِ تر میں نقوش لرزاں ہیں

غم یہاں بے لباس ہے میرا

جگنوؤں کو اُجال رکھا ہے

اس کا ملنا قیاس ہے میرا

ہیں بدن پر حقوق مقتل کے

دل مگر اُس کے پاس ہے میرا

٭٭٭

 

مجبوری

جانتا ہوں ، مجھے

کھیل ہی کھیل میں

مار ڈالے گا وہ

توڑ ڈالے گا وہ

پھر بھی چھُونا اُسے

ہے ضروری بہت

ہائے ! مجبوریاں

اس سے بچنا بھی ہے

پاس جانا بھی ہے

٭٭٭

 

ہتھیلی

(ہتھیلی مار دیتی ہے)

اے لڑکی ! تم ہتھیلی پر کوئی تتلی بٹھا دو ناں

کوئی جگنو اُٹھا کر پھر لکیروں میں سجا دو ناں

ہتھیلی کی بھنور وادی میں لا کے پتیاں پھینکو

کسی کی یاد میں بے تاب سا آنسو گرا دو ناں

ہتھیلی پر چمکتا ہے نشانِ دل ، اُسی پر تم

کوئی چہرہ محبت کا تخیل سے بنا دو ناں

کوئی سا گیت دل کے ساز سے گوندھو اَکیلے میں

محبت کی لکیروں کو وہی نغمہ سنا دو ناں

ہتھیلی میں کوئی دُزدِ حنا زنجیر سے باندھو

اُسی روشن مہِ تازہ پہ اِک کانٹا گرا دو ناں

یہیں پر ایک ننھی سی جو سطرِ وصل ملتی ہے

وہ شرمندہ سی ریشم ڈور ہے، اُس کو جلا دو ناں

            لکیروں کو مٹا بھی دو، لکیریں مار دیتی ہیں

            ہتھیلی کاٹ پھینکو ناں ، ہتھیلی مار دیتی ہے

اے لڑکی! اِس ہتھیلی سے بغاوت ہو نہیں سکتی

اگر یہ رُوٹھ جائے تو محبت ہو نہیں سکتی

یہی تو لمس دیتی ہے شروعاتِ تعلق کو

سمندر ہے ، سمندر سے عداوت ہو نہیں سکتی

اسی دھرتی پہ دریا ہیں ، اِسی پر پھول اُگتے ہیں

درخشندہ رفاقت ہے، شکایت ہو نہیں سکتی

یہ بحرِ بے کراں کی تلخیوں سے پرورش پا کر

رُخِ ماہِ منور سے عبارت ہو نہیں سکتی

ہتھیلی کی لکیروں میں چھپے ہیں اوس کے موتی

مگر بے فیض ہاتھوں سے کرامت ہو نہیں سکتی

کوئی خورشید مانگے بھی اگر دو چار قطرے تو

ہتھیلی بول اُٹھتی ہے، سخاوت ہو نہیں سکتی

            سنو لڑکی! یہ لرزیدہ سہارے رُوٹھ جاتے ہیں

            شبِ ہجراں میں پلکوں سے ستارے رُوٹھ جاتے ہیں

            بساطِ جاں کی اکلوتی سہیلی مار دیتی ہے

            لکیروں کو مٹا بھی دو ہتھیلی مار دیتی ہے

اے لڑکی! تم بڑی مضبوط ہو لیکن سفر میں ہو

تم اپنی آنکھ میں کھلتے ہوئے خونیں بھنور میں ہو

نئی دنیا بساؤ تم ، بھلے آنگن میں اِتراؤ

انوکھے تیر کھاؤ گی، تمہی سب کی نظر میں ہو

فرازِ دار سے پوچھو صدائے وقت کا نوحہ

وہی پتہ گرے گا جو فضا کے خیر و شر میں ہو

سبھی چارہ گرانِ غم ہتھیلی پر پگھلتے ہیں

اے لڑکی! تم ابھی قسمت رَسا دستِ ہنر میں ہو

مسلسل گھٹ رہی ہے دل کی آشفتہ سری جانم!

سنبھل جاؤ تمہی خورشید کی اَب رہ گزر میں ہو

شفق اندام! تم اُجلی مسافت کے تجسس میں

چلی تو ہو مگر تم کو بہ کو میری نظر میں ہو

            یہاں پر تو شناسا راستا بھی چھوڑ دیتا ہے

            مسافت مار دیتی ہے، مقدر توڑ دیتا ہے

            سنو! اپنی شرارت یا پہیلی مار دیتی ہے

            ہتھیلی سے نہ اُلجھو یہ ہتھیلی مار دیتی ہے

٭٭٭

 

لب بستہ ہی رہا میں مگر کچھ سنا تو تھا

مہمان رات بھر مرے گھر میں رہا تو تھا

اے دل گرفتہ ذوقِ جنوں کیا کہوں تجھے

مجھ پر وہ تیز دھوپ میں سایہ کشا تو تھا

یہ اور بات قافلے سرعت سے چل دیے

وہ شخص راہِ زیست میں اَب بھی کھڑا تو تھا

ڈھارس ذرا ہزیمتِ جاں میں بندھی رہی

تھوڑی سی دیر کیلئے طوفاں تھما تو تھا

کر دے عیاں تُو میری کہانی کو اے زمیں !

نقشِ لہو سے نقشِ کفِ پا ملا تو تھا

وہ کم نصیب جس کو ملامت ملی سدا

اس شہرِ کم نصیب میں اہلِ وفا تو تھا

یہ جو وصالِ شب ہے بہانہ ہے ہجر کا

ڈھلتے ہی رات اس نے یہ مجھ سے کہا تو تھا

ناصر یہ غم زمانۂ رفتہ کی بات ہے

اک نام سن کے درد سا دل میں اُٹھا تو تھا

٭٭٭

 

لب بستگیِ دل! تجھے معلوم نہیں ہے

یہ بارِ تعلق مِرا منظوم نہیں ہے

یہ ترکِ مراسم کی خبر جھوٹ ہی نکلے

یہ خدشۂ دل آج بھی معدوم نہیں ہے

قاتل ہیں اگر حسن و جوانی کی ادائیں

مانو تو سہی عشق بھی معصوم نہیں ہے

ابہام پسندی کا نتیجہ ہیں وگرنہ

یہ جبرِ حوادث مرا مقسوم نہیں ہے

پلتا ہے غریبوں کی کمائی پہ جو بدبخت

رہزن ہے حقیقت میں وہ مخدوم نہیں ہے

حاصل ہو محبت کو یہاں وصل کی لذّت

ممکن ہے مگر لازم و ملزوم نہیں ہے

تحریرِ مکمل تجھے کتبوں پہ ملے گی

تاریخ کے سینے میں جو مرقوم نہیں ہے

لکّھا ہے کوئی حرفِ تمنا ابھی دل میں

ناصر ابھی دنیا تری مغموم نہیں ہے

٭٭٭

جو اُس نے غم لکھے سارے

مجھے ناصر ملے سارے

اگر وہ لوٹنا چاہے

کھلے ہیں راستے سارے

کتابِ عشق پڑھ تو لے

لکھے ہیں ضابطے سارے

مٹا دے گی کسی بھی دن

محبت فاصلے سارے

جہاں میں ہوں وہاں پر ہی

رکیں گے قافلے سارے

شروعاتِ فسوں کے دُکھ

ادھورے ہی رہے سارے

سرِ محفل چراغِ دل

مرے ہاتھوں جلے سارے

٭٭٭

 

شام کی ڈھلتی ہوئی پرچھائیوں کے تذکرے

کُو بہ کُو پھیلے مِری رُسوائیوں کے تذکرے

بھولتا ہی جا رہا ہوں میں کہانی کی طرح

وہ فریبِ آرزو ، رعنائیوں کے تذکرے

زندگی میں بڑھ گئی ہیں محفلوں کی رونقیں

دل پہ کندہ ہیں مگر تنہائیوں کے تذکرے

عاشقو! پھر سوچ لو ، اِن راستوں میں آج بھی

گونجتے ہیں چارسُو ہرجائیوں کے تذکرے

جو کبھی بارِ تعلق سے گریزاں تھی ، وہی

سن رہی ہے غور سے شہنائیوں کے تذکرے

ساٹھ برسوں بعد بھی بوڑھی زبانوں پر ملے

حرص کے مارے ہوئے بلوائیوں کے تذکرے

بیچتے ہیں اس عوامی دور کے سب رہ نُما

عرضیوں کی قبر پہ شنوائیوں کے تذکرے

بے سبب ہے آج پھر ناصر تمہارا روٹھنا

بے ارادہ چھڑ گئے سودائیوں کے تذکرے

٭٭٭

 

ریشم کا کیڑا

وصال جذبوں کی چاندنی میں کبھی نہیں تھا

کبھی نہیں تھا میں جستجو میں یقین کر نا

میں تیری زلفوں کی تیرگی میں کبھی نہیں تھا

کبھی نہیں تھا میں تیری آنکھوں کے قمقموں میں

میں خال و خد کے گداز موسم سے اجنبی تھا

مراسمِ جاں کی سازشوں میں گھرا نہیں تھا

سجا نہیں تھا میں تیری خواہش کی چلمنوں پر

کبھی نہیں تھا میں تیرے آنگن کی وسعتوں میں

میں تیرے گل گوں وجود کی تازگی لبوں پر

سمیٹ لیتا ، میں خانۂ دل بسا کے جیتا

اگر میں تیرے سرابِ جاں میں شمار ہوتا

مگر میں تیرے سرابِ جاں میں کبھی نہیں تھا

کبھی نہیں تھا میں تیری منزل کے راستوں پر

میں چار سانسوں کی کھوج میں تھا، میں دھڑکنوں کی

تلاش میں تھا، میں مفلسی کے عذاب میں تھا

میں تیرے آنچل کے شوخ رنگوں میں دب گیا تھا

کبھی نہیں تھا وصال جذبوں کی چاندنی میں

٭٭٭

 

وصل میں ہم نے جو گزاری ہے

وہ گھڑی آج ہم پہ بھاری ہے

اُس سے ملنے کا شوق ہے دل کو

جس کی آنکھوں کی ضرب کاری ہے

دل بھی وقفِ سراب ہے میرا

اور چہرے پہ یاس طاری ہے

موج میں یا عذاب میں گزرے

زندگی موت کی سواری ہے

مسئلوں نے جھکا دیے کاندھے

وقت کا بوجھ کتنا بھاری ہے

رہزنوں کو ہی رہنما جانا

یہ تماشا ازل سے جاری ہے

لوگ مردہ پرست ہوتے ہیں

جن کا لہجہ اَنا سے عاری ہے

الجھنیں عمر چاٹ جاتی ہیں

مفلسی ایک بے قراری ہے

دیکھ ناصر فضائے مقتل کا

پھر وہی رنگ کاروباری ہے

٭٭٭

 

اب بھی مجھ کو شکوہ چشمِ نم سے ہے

رِشتہ جس کا تنہائی کے غم سے ہے

ضعفِ دل کو عشق سہارا دیتا ہے

ورنہ تو ہر خوشبو بھی موسم سے ہے

بھیگی آنکھوں نے یہ عقدہ کھولا ہے

شب کی ساری مستی تو شبنم سے ہے

میں نے یوں اُمّید کا دامن تھاما ہے

جیسے بندھن ٹیسوں کا مرہم سے ہے

دُشمن زورِ بازو پر کیا نازاں ہو

اُس کے خونیں وار کی شہرت ہم سے ہے

آدم نے ہی دُنیا کو برباد کیا

دُنیا کی رنگینی بھی آدم سے ہے

اُجلا چہرہ چاند کے مانند ٹھنڈا ہے

گرمی تو زُلفوں کے پیچ و خم سے ہے

جان چکا ہے عہدِ نو بھی آخر کار

دھڑکن تو اَب ناصر کے ہی دم سے ہے

٭٭٭

 

قصۂ جنوں

(محبت خطا کار ہے)

چلو یونہی سہی میں نے اُسی کو پارسا مانا

چلو تسلیم کرتا ہوں سفر میں ناخدا وہ تھا

            وہی تھا جس نے تنہا ہی سراغِ زندگی پایا

            چلو یہ مان لیتا ہوں سراجِ رہ گزر وہ تھا

            کسی ویراں جزیرے پر کوئی روشن دیا دیکھا

            چلو مانا کوئی جگنو ہتھیلی پر سجا اُس کی

چلو تم منصفی کر لو، چلو اب تم سنو قصہ

وفا کی داستاں لکھ دو، کوئی بھی فیصلہ کر دو

بھلے میرے خلاف آئے، مجھے منظور ہو گا وہ

مرے منصف! اکیلے میں یہی تحریر کرتے ہیں

چلو مانا میں اُس کی ذات سے باہر نہیں نکلا

میں اپنی شاعری میں بھی اُسے ترتیب دیتا تھا

            چلو تحریر کر لیں اُن وفا کے استعاروں کو

            جنھیں میں شاعری میں بانکپن دے کر سموتا تھا

            وہ اِک بھینی سی خوشبو جو رچی تھی اُس کی زُلفوں میں

            چلو مانا، اُسے لفظوں کی مالا میں پروتا تھا

            وہی رنگِ حنا مجھ کو سدا بے چین رکھتا تھا

            اُسی حسنِ ادا سے پھوٹتے تھے، مان لیتے ہیں

            وہی دزدِ حنا گھر میں اُجالے بانٹ دیتے تھے

            چلو لکھ لیں جزیرے اُن لبوں پر جگمگاتے تھے

            مرے لفظوں میں جو قوسِ قزح کے رنگ بھرتے تھے

            چرایا تھا کبھی میں نے بیاں حسنِ تغزل سے

            مری ترکیبِ لفظی تو رہینِ گفت گو ہی تھی

            میں اپنی شاعری میں بھی اُسے ترتیب دیتا تھا

چلو مانا میں اُس کی ذات سے باہر نہیں نکلا

میں اپنی ہر کہانی میں اُسے ترتیب دیتا تھا

            میں جو بھی واقعاتِ زندگی لکھتا رہا برسوں

            اُسی کے خامۂ دل سے ملے تھے خواب کی صورت

            خمیرِ ہجر سے میری ادھوری خواہشیں پھوٹیں

            اُسی سے ہی اُٹھا تھاپھر وجودِ عشق کا نکتہ

            مرے جملوں میں اُس کا دل دھڑکتا تھا، مچلتا تھا

            مرے کردار بھی محتاج تھے اُس کی اداؤں کے

            زباں دے کر اُنھیں میں نے اُسی سے گفت گو کی تھی

            مرے اُسلوب کے پیچھے کھڑی تھیں شوخیاں اُس کی

            میں اپنی ہر کہانی میں اُسے ترتیب دیتا تھا

چلو مانا میں اُس کی ذات سے باہر نہیں نکلا

میں اپنے ہر ہنر میں بھی اُسے ترتیب دیتا تھا

مصور بن کے میں اس کو سدا تشکیل دیتا تھا

            چلو یوں ہی سہی میں نے سدا اُس کو ہی ڈھالا تھا

            مناظر میں ، ستاروں ، کہکشاؤں میں ، شجر میں بھی

            اُسی چشمِ ادا سے جھیل کی گہرائیاں ماپیں

            لبوں کے لمس نے میرے گلابوں کو ضیا بخشی

            بہاروں کے سبھی لمحے اُسی کے بانکپن میں تھے

            اُسی کی سرو قامت سے شجر تحریک پاتے تھے

            اُسی کی زُلف سے میں نے اُتاری شب، چلو مانا

            تمازت سی مرے رنگوں میں آنچل نے بھری، مانا

            ہر اِک تصویر کی تکمیل میں ترغیب اُس کی تھی

            میں اپنے اِس ہنر میں بھی اُسے ترتیب دیتا تھا

یہی ہے اعترافِ جرم جس پر فیصلہ ہو گا

مگر منصف! تجھے بھی تو بہت کچھ سوچنا ہو گا

            کبھی اِس جرم کی پاداش میں ایسا ہوا بھی ہے

            کہ شاعر یا کہانی کار مقتل میں کھڑا ہو اور

            اسے اتنی اجازت بھی نہ ہو کہ گفت گو کر لے

            گھڑی بھر دیکھ لے اُس کو ، جسے اُس نے تراشا ہو

            جسے ترتیب بخشی ہو،جسے برسوں تلاشا ہو

مجھے منظور ہو گا تم کوئی بھی فیصلہ لکھ دو

میں اپنے ہر ہنر میں بھی اُسے ترتیب دیتا تھا

٭٭٭

 

دل میں پیدا جو حسد ہو جائے

یہ لہو وحشی اسد ہو جائے

مجھ کو ہجراں کا سفر کرنا ہے

اے خدا ! شوق رسد ہو جائے

اب سلیقے سے قلم تھاما ہے

زندگی جزری عدد ہو جائے

ان بگولوں کا ٹھکانہ کیا ہو

گر بیاباں ہی بلد ہو جائے

یوں اچانک وہ تڑپ کر پلٹا

جس طرح غیبی مدد ہو جائے

اے ملاقات! ذرا ایسے ٹھہر

یہ جنوں موجِ ابد ہو جائے

وقت ناصر مِرے تلوے چاٹے

عشق گر دل کی سند ہو جائے

٭٭٭

 

تیور جبینِ یار کے مبہم نہیں رہے

طے ہو گیا کہ آج ہم باہم نہیں رہے

وہ رات میری عمر میں شامل نہ ہو سکی

جس رات میرے ساتھ تِرے غم نہیں رہے

پہلے تو موسموں کو مِری احتیاج تھی

رخصت ہوا تو شوق کے موسم نہیں رہے

میں راہِ انقلاب سے ڈرتا نہیں مگر

مٹی پہ میرے پاؤں ابھی جم نہیں رہے

سوچا کہ میں نے اَوس بھی دیکھی نہیں کبھی

شب نے کہا کہ نین کوئی نم نہیں رہے

دیکھا ہے اور شخص کو اپنے لباس میں

گویا کہ اپنے آپ کے بھی ہم نہیں رہے

دستِ دعا تو بھر ہی گیا خون سے مگر

ناصر یہ میرے اشک ابھی تھم نہیں رہے

٭٭٭

 

بے حسی

(وادی سوات کی ہجرت کے تناظر میں )

ہمارا حوصلہ انصار کا سا تھا مگر اُس کو

ہمارے ناتواں دل سے اسی قصرِ امارت کے

لہو آلود جبڑوں نے اچانک نوچ ڈالا ہے

ہمیں معلوم ہے کل کو ہمارے گھر میں بھی ایسی

ہزاروں میّتوں پہ روٹیوں کے بین گونجیں گے

٭٭٭

قطعہ

میرے سینے میں دل جیسا

ننھا سا اِک پتھر دھڑکا

جس نے بپھری لہروں پربھی

تیرا نام قیامت لکھا

٭٭٭

 

خوش فہمی

(اُس جبینِ ناز آفریں کے نام)

رُوٹھ گئی تھی

وہ کہتی تھی

ملنے جلنے والوں سے

’’میں نے اُس کو چھوڑ دیا ہے

ہر اِک ناتا توڑ دیا ہے…‘‘

پگلی تھی ناں !

کیسے چھوڑ کے جاسکتی تھی؟

٭٭٭

 

بھلے غموں سے نڈھال بھی تھا

وہ شخص تو بے مثال بھی تھا

اُسے بچھڑنے کی آرزو تھی

ستم گروں کا کمال بھی تھا

جوان خواہش کے رو برو پھر

وفورِ حسن و جمال بھی تھا

تڑپ رہی تھی مری اَنا بھی

جدائی کا احتمال بھی تھا

شمار سانسوں کا تھا ضروری

حساب رکھنا محال بھی تھا

مطالبہ ہے جو دشمنی میں

وہ دوستی کا سوال بھی تھا

٭٭٭

 

تسکین

میں نے آنکھوں میں اِک سپنا رکھا تھا

سپنے میں اک اُجلا چہرہ رکھا تھا

جیسے قدرت پھول پہ قطرہ رکھتی ہے

٭٭٭

 

بھرا پڑا ہے یہاں پر نصاب لفظوں سے

لکھا ہوا ہے مگر سب خراب لفظوں سے

بھلے شکن ہی پڑی تھی ہر ایک صفحے پر

کوئی پلا تو گیا ہے شراب لفظوں سے

سوال دل سے کیا تھا وفا شعاروں نے

مگر شرر نے دیا تھا جواب لفظوں سے

پلٹ کے دیکھ پگھلتا ہوا غبارِ دل

جسے وفا نے بنایا سراب لفظوں سے

الجھ گئی ہے نظر آج بھی کتابوں میں

اُٹھا نہیں ہے ذرا سا نقاب لفظوں سے

صفِ بتاں نے کوئی دیدہ وَر تراشا ہے

کہ ڈھونڈنا ہے ہمیں پھر گلاب لفظوں سے

مرا ہنر ہی مری آنکھ میں چبھا ناصر

گلہ نہیں ہے مجھے پُر عذاب لفظوں سے

٭٭٭

 

سوچ میں پختگی نہیں ہوتی

یوں بسر زندگی نہیں ہوتی

اِک سراپا اُجال رکھنے سے

چارسُو تیرگی نہیں ہوتی

برہمی حسن کا تقاضا ہے

ہاں مگر بے رُخی نہیں ہوتی

ہم سفر رُوٹھ کر بچھڑ جائے

زندگی زندگی نہیں ہوتی

بے بسی اضطراب دیتی ہے

جب کبھی شاعری نہیں ہوتی

وہ بھلے جاگتا رہے برسوں

شب سے وابستگی نہیں ہوتی

فاصلوں کا مزاج کہتا ہے

اِس طرح عاشقی نہیں ہوتی

وہ مرا امتحان لیتا ہے

کم مگر دوستی نہیں ہوتی

جس قدر بھی ہو خوشنما ناصر

پھول میں روشنی نہیں ہوتی

٭٭٭

 

زمیں بھی ہاتھ سے گئی ، گرا ہے آسمان یوں

کسی کو دیکھتا نہیں کہ دل ہے بدگمان یوں

صدا کی بازگشت تھی وصال سے کٹی ہوئی

اُسے یہ کیوں سمیٹ کر چلی گئی زبان یوں

لہو بھی مانگتا ہو پانیوں کے بعد بادلو !

ابھی تلک کھڑا ہوا ہے ریت کا مکان یوں

وہ چاندنی سمٹ گئی ، وہ خوشبوئیں بکھر گئیں

سحر بھی سرخ سرخ ہے اُجڑ گیا جہان یوں

وہ نالۂ و غبار بھی نہیں رہا فراق میں

اُٹھو چلیں کہ تھم گئی ہے عشق داستان یوں

٭٭٭

 

نئے رواج اور روشنی کی بات ہو تو ہو

ہزار سورجوں میں چاندنی کی بات ہو تو ہو

خمارِ تلخئِ جہاں سے ابتدائے شب کریں

لہو کا جام اور مے کشی کی بات ہو تو ہو

نہیں اَسیر جذبِ عشق گردشِ طلب کا بھی

گلی گلی یقین و آگہی کی بات ہو تو ہو

چھپا ہوا ہے دل سوادِ جاں کی اوٹ میں کہیں

اے محبسو! اِدھر کشادگی کی بات ہو تو ہو

اے بے مثال ! صبحِ آتشیں کی دے نہ اَب خبر

وصال رات میں تو بے خودی کی بات ہو تو ہو

٭٭٭

 

سوال کیسا ، جواب کیسا

محبتوں کا نصاب کیسا

وفا شعاروں کی انجمن میں

اے ناقدو ! احتساب کیسا

یہ ترکِ دنیا کا ماجرا ہے

گناہ کیسا ، ثواب کیسا

تھکی ہوئی انگلیوں پہ ہو گا

شمار کس کا ، حساب کیسا

لہو عبارت سے جھانکتا تھا

نگاہ میں تھا سراب کیسا

جلا دیے ہیں خطوط سارے

سہا ہے دل نے عذاب کیسا

اُجاڑ رستا سجا رہا ہے

ہتھیلیوں پر گلاب کیسا

سناؤ ناصر وہی حکایت

نظر میں تھا آفتاب کیسا

٭٭٭

 

اُس کے جانے کا اِس دل کو ڈر سا تھا

میرا دِل بھی گویا کچا گھر سا تھا

اُجڑی بستی کے پنچھی خوش حال ملے

جینا تو انسانوں میں دوبھر سا تھا

میں برسوں کی اُجرت سے محروم رہا

آنسو جو چھلکا تھا وہ گوہر سا تھا

خونیں آنکھوں میں ہمدردی کے پَرتو

مقتل میں ہر چہرہ چارہ گر سا تھا

صحرا میں سب دیکھ رہے تھے حسرت سے

اُس بادل کو جو دریا پر برسا تھا

نفرت میں بھی چاہت جیسی گرمی تھی

اُس کا تو ہر جذبہ مال و زَر سا تھا

مانگ رہی تھیں آنکھیں مجھ سے ماہِ نو

ایسا ، جس کا لہجہ بھی دل بَر سا تھا

ہر دروازے پر دستک تھی مدّھم سی

آدھی رات کو ناصر دل میں ڈر سا تھا

٭٭٭

 

احساسِ زیاں

بڑا عجیب شور تھا

چہار سُو ہجوم تھا

خودی پہ اختیار کیا

کہ سانس کا شمار گم

صدائے اعتبار گم

بڑی عجیب قید تھی

چہار سُو فریب تھے

کہ رہ گزارِ عصر میں

تھا شوقِ انتظار گم

جہانِ اضطرار گم

بڑا عجیب دیس تھا

چہار سُو عذاب تھے

کہ زندگی کے ہاتھ سے

ہوا تھا ایک پیار گم

شباب گم ، بہار گم

بڑی عجیب عمر تھی

چہار سُو اداسیاں

رچی ہوئی تھیں اور میں

لبِ فراتِ یار گم

ردائے تار تار گم

بڑا عجیب کھیل تھا

چہار سُو اُڑان تھی

فضائے کشت و خون میں

تھے نالۂ و غبار گم

وہ ذات کا خمار گم

٭٭٭

 

وقت جب بے امان ہوتا ہے

مجھ سے وہ بدگمان ہوتا ہے

سر پہ سایہ کشا رہے ، نہ رہے

یار تو سائبان ہوتا ہے

کوئی بھی چھوڑ کر نہیں جاتا

جب خدا مہربان ہوتا ہے

اک شرر سا جو آنکھ سے ٹپکے

وہ محبت کا دان ہوتا ہے

زندگی کے اُداس موسم میں

ایک لمحہ جوان ہوتا ہے

یاد رکھنا عذاب ہے لیکن

بھولنا امتحان ہوتا ہے

چار سانسوں کا فرق ہے ورنہ

بحر بھی خاک دان ہوتا ہے

ٹھیس ناصر بکھیر دیتی ہے

دل وگرنہ جوان ہوتا ہے

٭٭٭

 

بستی مِری اُجڑ گئی ہے قافلوں کے بعد

شہروں کو لوگ چل دیے ہیں رابطوں کے بعد

دل ڈھونڈتا تھا رنجشوں کے مختلف جواز

دل کو ہی پھر ملال ہوا فاصلوں کے بعد

منصف! تِری عدالتوں کی شہرتیں بجا

پر میں اُجڑ گیا ہوں تِرے فیصلوں کے بعد

جذبے سبھی گرانیوں میں کھو گئے یہاں

خوشیاں مجھے ملیں ہزار عارضوں کے بعد

کرتا پھرے ضرور کسی شخص کو تلاش

ویراں سٹیشنوں پہ کڑی ساعتوں کے بعد

قدرت کبھی بشر سے نہ مایوس ہو سکی

فطرت اگرچہ رو پڑی تھی حادثوں کے بعد

ویرانیوں پہ دھیان جو ناصر گیا ذرا

بوتل اُٹھا کے پی گیا بادہ کشوں کے بعد

٭٭٭

 

کافی تھا یہ کہنا ہی

دل تو مانگے تجھ سا ہی

جگنو میری مٹھی میں

پل دو پل تو رہتا ہی

لوگ پلٹ بھی آتے ہیں

تھا تو وہ بھی ایسا ہی

ہاتھ چھڑانے سے پہلے

کچھ تو اُس نے سوچا ہی

آنسو میرے تھمنے دو

روکا تھا بس اتنا ہی

یوں بے مقصد جینے سے

بہتر تھا مر جانا ہی

بے شک آنا مشکل تھا

رستے میں تو ملتا ہی

اس کا ملنا قسمت میں

ہوتا تو مل جاتا ہی

ناصر بھول بھلیاں ہیں

عشق ، ریاضت ، آگاہی

٭٭٭

 

یہ ہجرتیں بھی کیا ہوئیں ؟

( سوات کی ہجرت کا نوحہ)

یہ چار سُو آہ و بکا ہے، گولیوں کا شور ہے

یہ ہجرتیں بھی کیا ہوئیں ، یہ مقتدر کا کھیل ہے

جو خوشبوؤں کے دیس میں اَجل کی بُو بھبک اُٹھی

یہ ’’میر جعفروں ‘‘ کی خونیں سازشوں کا کھیل ہے

لہو نچوڑتا ہوا یہ ہجرتوں کاسانحہ

یہ عالمی حریص کی ہوس بھری بساط ہے

جو قافلوں پہ کربلائی خون ہے سایہ کشا

وہ پھر یزیدِ عصر کو پکارتا ہے بے خطر

            حسینیت کے قافلے رُکے نہیں ، تھمے نہیں

وہ جو پرائی آگ میں ہی جل مرے تھے رات کو

وہ عصمتیں محافظوں کو ڈھونڈتی ہیں کیمپ سے

کہ ہر زباں پہ آگ ہے تو پیٹ ہیں بجھے ہوئے

سلگتی ٹہنیوں پہ یہ لٹکتی خشک روٹیاں

اب ماپتی ہیں بھوک کی شدت کو یہ قیمت تراش

            وادی میں اک تڑپتی ہوئی مامتا ہے جاں بہ لب

            کہ دودھ اُس کی چھاتیوں سے رِس رہا ہے اور وہ

            سُن رہی ہے دور سے آتی ہوئی ننھی صدا

            اُس کی ’’رانی‘‘ کھو گئی ہے خالی کمبل میں کہیں

            کوئی ’’چندا‘‘ رو رہی ہے میّتوں کے درمیاں

سجے بسے گھروں کے لوگ زندگی کی کھوج میں

ننگے پیروں دوڑتے ہیں کربلا کی آگ میں

            یہ قافلے کے راہ نما، بقا کی خوش گمانیاں

            عذاب ہیں ، یہ قصرِ اقتدار کا فریب ہیں

            یہ ہجرتیں بھی کیا ہوئیں ،یہ موت کا پیام ہیں

            یہ ہجرتیں بھی کیا ہوئیں ، یہ مقتدر کا کھیل ہے

٭٭٭

 

رات کے پچھلے پہر نے کہہ دیا ہے آج بھی

عشق تو خونِ جگر کو پی رہا ہے آج بھی

مفلسی میں بجھ گئی ہیں میرے فن کی مشعلیں

حرف کوئی دل میں لیکن جاگتا ہے آج بھی

بے ارادہ مرحلوں میں بانٹ دی ہے زندگی

فیصلوں کا ایک سورج ڈھل گیا ہے آج بھی

بے وفا ہے، جاں گسل ہے یا فریبِ آرزو

پر تپاک انداز میں آ کر ملا ہے آج بھی

اے شبِ ہجراں ! تِری طعنہ زَنی ہو نامراد

دل اُسی کا منتظر ہے ، در کھلا ہے آج بھی

موردِ الزام قسمت حادثوں پر ہے مگر

جُرم تو انسان کے ہاتھوں ہوا ہے آج بھی

عقلِ آدم پر جہالت کل بھی تھی سایہ کشا

ہر کسی کے ہاتھ میں اپنا خدا ہے آج بھی

یاد اُس کو آ گیا ناصر تمھارا بچپنا

وہ پرانا سا کھلونا رو پڑا ہے آج بھی

٭٭٭

 

ہتھیلی پر راکھ

(ہتھیلی جل بھی جاتی ہے)

مِری ہتھیلی کے سارے جگنو، سبھی ستارے

چراغ سارے جو روشنی کے ہیں استعارے

تمازتیں بھی جو زندگی کی علامتیں ہیں

دل و جگر کے سبھی فسوں بھی، سراغ سارے

            وصال نغمے، حکایتیں ، دل فگار قصے

            حسین موسم، گداز سوچیں ، سریر جذبے

            وہ رقصِ نکہت کے نور سائے، فریب لمحے

            وہ بھیگی بھیگی غمِ دلِ نارسا کی رنجش

            وہ خالی کاسۂِ جاں کی حسرت، وہ مردنی سی

            وہ سانس لیتی اُداس کرنیں سحر بسر سی

            وہ دل کے سیماب آئینوں کی شباہتیں بھی

            جو بدگماں ہوں تو سانس تک میں غرور بھر دیں

            مِری ہتھیلی کا ریگ زارِ بدن جلا تو

            حنا، سمندر، دِیا، صبا، دل، ہوا جلی تو

            جلی ہتھیلی پر ہر دُعا جل کے راکھ ہو گئی     ٭٭٭

 

Valentine Day

محبت ایک عادت ہے، کہا تم نے

کہا تم نے، محبت اِک روایت ہے

محبت بھوک ہوتی ہے، کہا تم نے

کہا تم نے محبت بھی ضرورت ہے

            چلو مانا محبت مختصر ہو گی

            مگر یہ تو کہو جاناں !

            محبت کے لیے اِک دن

            تو کیا اِک دن ہی کافی ہے؟

٭٭٭

 

سنو! اَب بھی یہاں مَیں ہوں

سرِ نوکِ سناں مَیں ہوں

اَنا ، مقتل ، وِچھوڑا ، غم

سبھی کا پاسباں مَیں ہوں

ستم گر بھول جاتا ہے

کہاں وہ ہے، کہاں مَیں ہوں

سنا ہے حسن کا دعویٰ

ابھی فخرِ بتاں مَیں ہوں

خبر دشتِ جنوں کی ہے

خبر کے درمیاں مَیں ہوں

٭٭٭

 

اُلجھنوں میں پڑا نہیں تھا مَیں

اُس سے جب تک لڑا نہیں تھا مَیں

خود بخود گر گئے سبھی ورنہ

اس نگر میں بڑا نہیں تھا مَیں

اُس کو پانے کی ضد بھی تھی میری

اور ضد پر اَڑا نہیں تھا مَیں

پوچھ لیتا وہ حالِ دل میرا

بے سبب تو کھڑا نہیں تھا مَیں

پانیوں کا مزاج بدلا تھا

ورنہ کچا گھڑا نہیں تھا مَیں

اُس خزاں کو بھی معتبر جانا

جس خزاں میں جھڑا نہیں تھا مَیں

بٹ گئے لوگ جا بجا لیکن

ان دھڑوں میں دھڑا نہیں تھا مَیں

دل کو خدشہ نہ تھا کوئی ناصر

جب کہیں بھی جڑا نہیں تھا مَیں

٭٭٭

 

چشمِ تر سے پھسل نہیں سکتی

زندگی گھر بدل نہیں سکتی

کچھ گنوائے بنا کوئی لڑکی

اس طرح ہاتھ مل نہیں سکتی

شام کا انتظار کرتی ہو

عمر ایسے تو ڈھل نہیں سکتی

مہ جبیں ! اس طرح کھلے سر تُو

چاندنی میں نکل نہیں سکتی

میری فطرت اگرچہ باغی ہے

میری تقدیر ٹل نہیں سکتی

اس نظر کی برہنہ پائی بھی

آئینے پر سنبھل نہیں سکتی

رہبروں کا لہو منافق ہے

کوئی قندیل جل نہیں سکتی

زندگی کے طویل رستے پر

تُو مرے ساتھ چل نہیں سکتی

٭٭٭

 

پھر یہ کیوں مستعار لی جائے

زندگی جب گزار لی جائے

محبسوں کا جہان کہتا ہے

سانس بھی سوگوار لی جائے

موسمِ گل ! سراب آنکھوں میں

اِک نمی سی اُتار لی جائے

دل بہرحال تاب رکھتا ہے

پھر شبِ انتظار لی جائے

کھل رہا ہے ثبات کا عالم

قربتِ غم گسار لی جائے

گر اَبھی ممکنات میں ہے کوئی

دوستو! شامِ یار لی جائے

دل اگرچہ اُداس ہے ناصر

خوب صورت بہار لی جائے

٭٭٭

 

ناصر بزمِ جاناں سے اَب جانا ہو گا

مشکل ہے لیکن دل کو سمجھانا ہو گا

اَب کے روشن کرنوں کا بھی ماتم کر کے

شب کی اُلجھی زُلفوں کو سلجھانا ہو گا

ڈھلتے سورج کی تنہائی کا اِک نغمہ

چشمِ تر کو بھیگے سُر میں گانا ہو گا

دشتِ وحشت نے بہلایا ہو گا اُس کو

جس نے اپنے دل کا کہنا مانا ہو گا

اپنے لرزیدہ سائے کا دعویٰ بھی سن

جانے والے! تجھ کو واپس آنا ہو گا

٭٭٭

 

یہ اپنے آپ سے نمٹ نہیں سکی

کہ زندگی کبھی پلٹ نہیں سکی

مری جلی ہتھیلیوں میں آج تک

مری کوئی دعا سمٹ نہیں سکی

سراجِ رہ گزر دھواں دھواں سا ہے

ردائے شب جو اُس سے پھٹ نہیں سکی

یہ عہدِ ناتواں ہے جس سے ایک سل

مرے وجود پر سے ہٹ نہیں سکی

کبھی شبِ غریب کے چراغ سے

صدائے روشنی لپٹ نہیں سکی

٭٭٭

 

بازگشت

(مقتل میں پھول کھلتے ہیں )

پھر فضا ہے سُرخ سی کس ڈر سے آج

آگ سی شہرِ وفا پر برسے آج

کل مرے تھے دو جواں ، چھایا سکوت

اِک جنازہ پھر اُٹھا ہے گھر سے آج

ہو چکے ہیں لوگ سب خانہ بدوش

بھاگتا ہے آسماں بھی سر سے آج

ایستادہ ہیں یہاں لاشوں کے پیڑ

کون کھولیں گے زبانیں ڈر سے آج

شاعری اِک خواب ہے ناصر! تراش

اِک ستارہ اپنی چشمِ تر سے آج

٭٭٭

 

دل غموں کی لگاوٹوں میں تھا

دھیان جب میرا آہٹوں میں تھا

مقتلوں میں چراغ جلتے تھے

موسمِ گل سجاوٹوں میں تھا

آئینہ گرد گرد تھا لیکن

ایک چہرہ بناوٹوں میں تھا

اُس جنوں کی تلاش ہے مجھ کو

جو سفر کی تھکاوٹوں میں تھا

عشق جس کو ہوا وہی ناصر

رہ گزر کی رکاوٹوں میں تھا

٭٭٭

 

کربِ نارسا

اک درد کہ جو دل کو سنبھلنے نہیں دیتا

آلام کے زنداں سے نکلنے نہیں دیتا

پیڑوں سے جو اُٹھتا ہے شب و روز دھواں سا

وہ پیڑ کی شاخیں کبھی پھلنے نہیں دیتا

اک آتشِ جاں ہے جو بھڑکتی ہے سفر میں

اک برف جسے دل ہی پگھلنے نہیں دیتا

٭٭٭

 

لاحاصل ریاضت

اس کو دیکھا ہے

رہتا ہے سوچوں میں گم

جب بھی ملتا ہے

٭٭٭

 

وہ ہجر ، وہ ستم کہاں

وہ تاب و ضبطِ غم کہاں

بجھی بجھی سی آنکھ میں

کمالِ جامِ جم کہاں

کہاں گئیں اُداسیاں

فشارِ چشمِ نم کہاں

کبھی پلٹ کے آئے جو

صدا میں اتنا دم کہاں

میں قتلِ جاں پہ چپ رہوں

مزاج میں وہ خم کہاں

خراش دل پہ ثبت ہے

ہوا ہے درد کم کہاں

یہ راستوں سے پوچھنا

کہ کھو گئے تھے ہم کہاں

٭٭٭

 

تخیل سے بھی ماورا دیکھ لیتا

کبھی میں بھی شہرِ سخا دیکھ لیتا

تصور میں اُجلا سراپا اُترتا

اگر آنکھ ہوتی ضیا دیکھ لیتا

میں بے باک ہوتا تو بڑھتا ہی جاتا

کہیں تو وہ دستِ عطا دیکھ لیتا

کشادہ بڑی تھی وہ راہِ صداقت

چمکتے ہوئے نقشِ پا دیکھ لیتا

یہ کون و مکاں ہیں اُسی کے مظاہر

کہ محبوبِ ارض و سما دیکھ لیتا

یہ تھا کاسۂ سر گریبانِ مفلس

وگرنہ میں حرفِ دعا دیکھ لیتا

زباں سے مقدس ہے ذکرِ بشارت

کوئی اُس کے در کا گدا دیکھ لیتا

جو دستِ ہنر سے تراشے تھے پیکر

انہیں توڑ دیتا ، خدا دیکھ لیتا

ذرا دور ہوتا جو شہرِ بتاں سے

میں ناصر زمانہ کشا دیکھ لیتا

٭٭٭

 

میں عشق ذات ہوں چہرہ بدل کے آئی ہوں

مجھے سنبھال میں کانٹوں پہ چل کے آئی ہوں

تجھے یہ زعم کہ تو مرد ہے مگر میں بھی

جلا کے کشتیاں گھر سے نکل کے آئی ہوں

میں آج رات کی رانی نہیں کہ تو مجھ کو

مسل ہی دے کہ میں صدیاں مسل کے آئی ہوں

تو اپنی آنکھ کے شیشے کو صاف کر ، ناں کر

میں اپنی عمر کی آتش میں جل کے آئی ہوں

جواز اب مجھے تاخیر کے نہ دے جھوٹے

پلٹ تو آئی ہوں ، پتھر میں ڈھل کے آئی ہوں

گلے ملوں گی تو سینے میں سانس روکوں گی

میں جلتی دھڑکنوں پہ یوں پھسل کے آئی ہوں

میں ساتھ چل رہی ہوں تو یہی غنیمت ہے

میں کسی اور کے ماتھے سے ٹل کے آئی ہوں

کبھی نہ یوں مجھے کمزور جاننا ناصر

کہ اب میں آخری آنسو نگل کے آئی ہوں

٭٭٭

 

اُس نگر گئے تم بھی

یار مر گئے تم بھی

ہجر کے تماشے میں

بھول کر گئے تم بھی

چارسُو اداسی ہے

اور گھر گئے تم بھی

بے ثمر زمانے سے

بے ثمر گئے تم بھی

فاصلے ڈراتے ہیں

اور ڈر گئے تم بھی

اِک طلسمِ شب جاگا

اِک گزر گئے تم بھی

بخت کی سواری سے

لو اُتر گئے تم بھی

٭٭٭

 

خیمے ، لہو ، نوکِ سناں

عہدِ وفا کی داستاں

اے ہم سفر! رکنا نہیں

چلتا رہے یہ کارواں

میں عشق میں کرتا رہا

نادانیاں ، گستاخیاں

چھیڑو کسی نغمے کی لے

جاگے کوئی جادُو بیاں

نخلِ وفا کی شاخ سے

اُٹھتا رہا نیلا دھواں

ناصر اُسے اچھی لگیں

تیری سبھی ناکامیاں

٭٭٭

 

نعت

پھولوں نے چاندنی نے پکارا ہے یا نبیﷺ

دنیا کو آپ کا ہی سہارا ہے یا نبیﷺ

طائف بھلا نہیں سکا ہادی کا حوصلہ

جو آپؐ نے لہو سے اُتارا ہے یا نبیﷺ

وہ بحرِ بے کراں مجھے کر دیجئے عطا

اسمِ عظیم جس کا کنارا ہے یا نبیﷺ

کیسے میں انتظار کی حالت کروں بیاں

صدیوں میں ایک لمحہ گزارا ہے یا نبیﷺ

مجھ پر کرم ہو تابِ جنوں بخش دیجئے

دل شوخیِ جہان کا مارا ہے یا نبیﷺ

جس کا شمار خاک کے ذروں میں بھی نہ تھا

اب آپؐ کا غلام ہے، تارا ہے یا نبیﷺ

٭٭٭

 

سیلاب ۲۰۱۰ء … ایک عظیم المیہ

۲۰۱۰ء کا سال پاکستان کے راندۂ درگاہ لوگوں پر قیامت توڑ گیا۔خیبر پختونخواہ کے بعد پنجاب بالخصوص جنوبی پنجاب اور مابعد صوبہ سندھ میں سیلاب نے ہنستے بستے شہر، بستیاں اور گھر اُجاڑ دیے۔ ہر طرف بربادی اور تباہی کے مناظر بکھر گئے۔ پانی جو زندگی کی علامت تھا، موت کا سندیسہ بن گیا۔ سندھ ساگر کے بپھرتے ہی ہزاروں جیتے جاگتے مناظر لقمہ ۂ اجل بن گئے اور جو مناظر صفحۂ ہستی پر اُبھرے، وہ دل دہلا دینے والے تھے۔ ’’ہتھیلی‘‘ کا دوسرا حصہ اس عظیم المیے کی چند روئیدادوں پر نظموں کی شکل میں عبارت ہے۔

چھت سروں پر نہیں ، سب پریشان ہیں

میرے مالک ! یہ کمزور انسان ہیں

٭٭٭

 

بقائے نسل

چار کمروں کی جنت کہانی ہوئی

میرے پُرکھوں کی محنت کہانی ہوئی

فصل اُجڑی، شجر، پھول، پودے گئے

ایک پل میں مویشی بھی اوجھل ہوئے

میری املاک کے سب نشاں مٹ گئے

سارے منظر اچانک بیگانے ہوئے

گھر کا رستہ بھی مجھ کو دکھائی نہ دے

کیا کروں آج کچھ بھی سجھائی نہ دے

میری بیٹھک نہ ڈیرہ ، نہ مسجد یہاں

دادی اماں نہ دادا کا مرقد یہاں

اب نہ بہنیں ، نہ بھابھی ، نہ بھائی یہاں

کیوں یہ قسمت مجھے لے کے آئی یہاں

میرا گھر ، میری دُنیا ٹھکانے لگی

زندگی کس طرف لے کے جانے لگی

نام درکار ہے اِس کڑے درد کو

زندگی چاہیے آخری فرد کو

٭٭٭

 

چارہ گر ! بس مجھے سائباں چاہیے

چند لقمے نہیں لختِ جاں چاہیے

گھر کے سامان کا تذکرہ مت کرو

اور کچھ بھی نہیں ، مجھ کو ماں چاہیے

٭٭٭

اے خدا ! میرا شوہر سلامت رہے

میرے بچے مِرا گھر سلامت رہے

٭٭٭

 

دِلاسا

میرے محبوب ! یوں دل نہ میلا کرو

اِس طرح سے نہ دریا کو دیکھا کرو

تیرے بچے تِری ماں سلامت رہی

تیری بیٹی تِری جاں سلامت رہی

مال ڈنگر بچا ہے ، غنیمت رہی

فصل اُجڑی ، یہ تنگی بھی قسمت رہی

گھر کے سامان کی مجھ کو پروا نہیں

اِن مکانوں کے بارے میں سوچا نہیں

یہ الگ بات گلشن ویرانہ ہوا

اپنا پُرسانِ دل اک زمانہ ہوا

یہ قیامت کا لمحہ گزر جائے گا

میرے محبوب ! پانی اُتر جائے گا

ہم سے بچھڑا نہیں کوئی بھی میری جاں

جلد ہی ہم بنا لیں گے اپنا مکاں

اپنے ہاتھوں سے کھانا پکاؤں گی میں

تم کماؤ گے ، گھر کو سجاؤں گی میں

٭٭٭

 

رضاکاروں کے نام

وہ جو موت کی آنکھ میں آنکھ ڈالے

وہ پانی میں پھنسے ہوؤں کو نکالے

وہ معدوم ہوتی ہوئی چیخ سن کر

اجل کے شکنجے سے بیٹی چھڑا لے

کہیں مامتا کو تڑپتا نہ چھوڑے

کہیں باپ کی زندگی کو بچا لے

وہ ساگر میں پیاسوں کو پانی پلائے

وہ بھوکوں کو کھانا کھلا کر دعا لے

خبر دے وہ بیمار کو زندگی کی

وہ تن ڈھانپ کر آخرت بھی کما لے

وہ صدیق ثانی بنے ، گھر لٹا دے

وہ انصار بن کر مہاجر سنبھالے

وہ دریا سے ، پتھر سے ، آفت سے لڑ کر

کسی ایک ہی زندگی کو بچا لے

…ق…

بہادر ، قلندر ، سکندر ، ولی ہے

جو اپنی طلب کو ہوس کو مٹا لے

کفن باندھ کے جو بھی نکلا ، اُسی کو

ملے فلسفۂ بقا کے اُجالے

…ق…

مصیبت کے شعلوں پہ آنسو بہت ہیں

مِری قوم ! اشکِ ندامت بہا لے

٭٭٭

 

وڈیرہ شاہی کا ہرجائی پن

سیلاب ایک حشر تھا تو نقشِ قدم اور

میرے خدا ! نہ لے سکے یہ کوئی جنم اور

کل زلزلہ تھا جاں گسل ، اب سیلِ بے کراں

کل بھی لٹا تھا میں ، گرا اب بھی مرا مکاں

آنکھوں میں عکس جم گیا بابا کی قبر کا

اے وقت ! امتحان ہے یہ میرے صبر کا

بیٹے کے ہاتھ سے نیا بستہ پھسل گیا

بیٹی کا تھا جہیز جو دریا نگل گیا

ماں ڈھونڈتی ہے زیورات بند آنکھ سے

لقمہ کوئی جھڑا نہیں چولھے کی راکھ سے

کوسیں گے حشر تک مرے اُجڑے شجر اسے

بھولیں گے کس طرح سے مرے بام و در اسے

اک سمت ہم مصیبتوں میں ہیں گھرے ہوئے

اک سمت دشمنانِ وطن لوٹنے لگے

حسرت کہ بھوک سے مرے بچے نڈھال ہیں

صد حیف ! چور ڈاکوؤں کے ہاتھ لال ہیں

صدیوں سے کھا رہے تھے جو میری کمائیاں

وہ ڈیرے دار چھپ گئے ہیں بھاگ کر کہاں

جو شخص آج میرے دُکھ سے بے نیاز ہے

کل بھی مرا نہیں بنے گا ، دھوکے باز ہے

٭٭٭

 

سیلاب زدگان کیلئے اپیل

پانیوں کا جہنم ہے دہکا ہوا

ہر طرف ہے تعفن سا پھیلا ہوا

بے سہاروں کا اب کوئی بھی گھر نہیں

اک نوالہ بھی ان کو میسر نہیں

ایک لمحے میں سب کچھ فنا ہو گیا

چار نسلوں کا مال و متاع کھو گیا

پھول ، پودے ، شجر ، فصلِ جاں کھو گئی

سر پہ سایہ کشا تھی جو ماں کھو گئی

آنکھ بھی بجھ گئی فیصلے دیکھ کر

عبرتیں رو پڑیں سانحے دیکھ کر

یہ لٹے قافلے ، تنگ ہوتی زمیں

ایسی ویرانیاں ہم نے دیکھی نہ تھیں

یہ کڑا وقت ہے ، قوم مایوس ہے

زندگی موت کے گھر میں محبوس ہے

ایسے عالم میں ہم بے حسی چھوڑ دیں

ان مصیبت زدوں کا سہارا بنیں

قطرہ قطرہ ملے گر ، سمندر بنے

دل کشا شخص ہی تو قلندر بنے

چھت سروں پر نہیں ، سب پریشان ہیں

میرے مالک ! یہ کمزور انسان ہیں

٭٭٭

عزتِ نفس کا قاتل دریا

یہ کس مقام پر ہمیں خدا نے لا کھڑا کیا

کوئی بتائے تو سہی کہ جرم ہم نے کیا کیا

یہ دھوپ کتنی تیز ہے ، کھلا ہے سر پہ آسماں

یہ بھوک بھی بلا رہی ہے ایک مرگِ ناگہاں

نگل گئی ہے پیاس میرے نونہال سینکڑوں

یہ آگ چاٹ کر چلی ہے با کمال سینکڑوں

جنہیں بچا رکھا تھا میلی آنکھ سے، وہ بیٹیاں

اَب عالمِ بے پردگی کی نذر ہو گئیں یہاں

یہ سیلِ بے ثمر ہمیں بھکاریوں کے روپ میں

کھڑا کیے ہے محوِ رقص دل شگاف دھوپ میں

سیاستِ وطن کا فیض ، بہہ گئے غریب گھر

وہ دشمنانِ قوم کی بچی رہی زمیں مگر

ہماری بے کسی کے اشتہار کس قدر بکے

مذاکروں کے نام پر کھلے ہیں اور مَے کدے

ہمارے نام پر برس رہی ہیں زر کی بارشیں

سجی ہوئی ہے منظروں سے ہر دکان دیکھ لیں

غریب کا معاوضہ حکومتوں کا مال ہے

فریب ہے ، یہ مقتدر کی بھوک کا سوال ہے

مرے خدا ! وطن کی سرزمین مجھ پہ تنگ ہے

مری طرف اُٹھی ہوئی نگاہ سرخ رنگ ہے

٭٭٭

 

جہالت اور غربت

میرے مہمان ! بہتر پتا ہے تجھے

ہم ازل سے کڑی آفتوں میں رہے

خون، جنگ و جدل، زلزلے، آگ بھی

حکمرانوں کے نا وقت کے راگ بھی

آمریت نے توڑا ہمیں بارہا

عہدِ جمہور بھی خون پیتا رہا

ٹیکس کے عوض میں لوڈ شیڈنگ ملی

قحط و بحران کی آگ جلتی رہی

ملک دو لخت ہو کر سسکتا رہا

بینک بیلنس وزیروں کا بڑھتا رہا

اک سپاہی کا ڈنڈا ہی قانون ہے

سلطنت بھی وڈیروں کی مرہون ہے

لاکھ بھونچال ہوں ، لاکھ سیلاب ہوں

رہزنوں کے خزانے تو سیراب ہوں

میرے مہمان ! یوں دل نہ میلا کرو

چند لقمے مرے پاس ہیں ، بانٹ لو

میں نہ ممبر ، وڈیرا ، نہ سردار ہوں

ہاں مگر میں ہی تیرا الم خوار ہوں

ہم غریبوں میں گر یہ جہالت نہ ہو

ان لٹیروں کی ہم پر حکومت نہ ہو

٭٭٭

 

بے جرم مجرم

سندھ ساگر ! بتا ، یہ تجھے کیا ہوا

ہم غریبوں پہ تو کس لیے پل پڑا

تیرا آنگن بسانے کو ہم آئے تھے

سبز کپڑے تجھے ہم نے پہنائے تھے

ان درختوں کے کٹنے پہ کڑھتے رہے

تیرا پانی مقدس سمجھتے رہے

سیر گاہ تجھ کو ہم نے بنایا نہیں

بوجھ ٹیکسوں کا ہم نے تو ڈالا نہیں

کیا بتائیں تجھے کتنے بیکار تھے

ہم تو پہلے ہی جینے سے بیزار تھے

کس لیے تو نے غصہ دکھایا ہمیں

یوں بے دردی سے کیوں مار ڈالا ہمیں

تو برہنہ ہوا ، ہم بھکاری ہوئے

اس زمانے میں دونوں تماشا بنے

ہم نے مانا ،  وڈیروں کی ہے سر زمیں

ہم غریبوں کا دُنیا میں گھر تک نہیں

اس فضا میں تعفن ہے ، خوشبو نہیں

تیری چھاگل میں دو گھونٹ پانی نہیں

جرم غربت ہے اور ہم سزاوار ہیں

ہم ازل سے جہاں کے ستم بار ہیں

٭٭٭

 

سیلاب، آنگن کا شجر اور تماشائی

زُلیخا ! بھڑولا ، وہ پیٹی ، وہ زیور تِرا بہہ گیا ہے

مجھے ایسے لگتا ہے سارے کا سارا گراں ڈھہ گیا ہے

یہ لاوا ہے پانی نہیں اس میں فصلیں ، ثمر لٹ گئے ہیں

مویشی مِرے ڈر کے مارے صدائیں مجھے دے رہے ہیں

مِری بوڑھی امّاں کی لاٹھی دکھائی نہیں دے رہی ہے

صدا رشتے داروں کی مجھ کو سنائی نہیں دے رہی ہے

مِری جاں ! درختوں پہ لٹکی ہوئی روٹیوں کو نہ دیکھو

جہازوں سے گرتی ہوئی سبز سی تھیلیوں کو نہ دیکھو

انہی رہبروں کے گناہوں کی شامت کا طوفان ہے یہ

یہ خیرات کیا ہے ؟ دہکتے جہنم کا سامان ہے یہ

ابھی تو ہمارے اُجڑنے کے منظر بکیں گے جہاں میں

لٹیروں کے کھیسے تو پھر ڈالروں سے بھریں گے جہاں میں

یہاں پر مصیبت غریبوں کو چاروں طرف سے ہی گھیرے

زُلیخا ! سپر بند پر بھی ندیدوں نے ڈالے ہیں ڈیرے

میں سیلاب کے پانیوں سے یا بارش سے ڈرتا نہیں ہوں

مگر میں تماشائیوں کے ستم سے بھی بچتا نہیں ہوں

زُلیخا ! میں ننھی کی شادی پہ گر یہ شجر کاٹ دیتا

تو ہم میں سے کوئی بھی ان پانیوں میں کہاں زندہ رہتا

خدا کا یہ احسان ہے کہ پڑے ہیں ابھی ہوش میں ہم

یہ آنگن کا باسی فرشتہ ہے جس کی ہیں آغوش میں ہم

یہ سیلاب خونیں بھنور ہے ، مِرا گھر بچا لے خدایا!

مِرے بال بچے ، متاعِ دل و در بچا لے خدایا!

٭٭٭

 

درسِ انقلاب

یہ سیلِ رواں مفلسوں کی ہی قسمت نہیں ہے

جو ٹوٹی ہے ہم پر ، ہماری قیامت نہیں ہے

نتیجہ ہے بھوکے سیاست وروں کی ہوس کا

یقیناً ہمارے گناہوں کی شامت نہیں ہے

بھلے آج اُجڑے نگر کے پرندے ہوئے ہم

ہمارے رویوں میں ایسی غلاظت نہیں ہے

نظامِ جہالت ہے سرمایہ داروں کا پھندا

کہ جن کی نظر میں لہو کی بھی قیمت نہیں ہے

پرانے شکاری نئے جال تھامے کھڑے ہیں

یہ دورے، اپیلیں ، یہ فوٹو اکارت نہیں ہیں

جو بستی ڈبو کر بچا لے گئے ہیں دکانیں

انہیں مار دیتے مگر اتنی طاقت نہیں ہے

وہ قل خوانیوں کی سیاست کے رسیا کہاں ہیں

انہیں کیا ؟ یہاں پر جو مالِ غنیمت نہیں ہے

مدد مانگنی ہے تو اپنے خدا کی طرف جا

بھکاری ہتھیلی میں تابِ سخاوت نہیں ہے

اے سیلِ بلا ! ان غریبوں کو اتنا بتا دے

منافق ہیں وہ جن میں بوئے بغاوت نہیں ہے

خدایا ! ہمیں ان لٹیروں کے شر سے بچا لے

یہ بازی گروں کی سیاست عبادت نہیں ہے

٭٭٭

 

بادشاہ اور دریا

یہ آشیاں گرانے کو

جو ایک موج آئی تھی

وہ سرخ تھی یا نیلگوں

مجھے پتہ نہیں چلا

یہی پتہ چلا کہ وہ

لہو کی جستجو میں تھی

ہزار داستان کی

یہ ایک داستان ہے

مرے وطن میں آج تک

پہاڑ سے جو اُترا ہے

وہ آشیاں گراتا ہے

وہ خون چوستا ہے بس!

٭٭٭

تشکر: شاعر، جنہوں نے اجازت کے ساتھ فائل بھی فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید