FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

ریاض الصالحین

 

امام نووی

جلد اول – الف

ترجمہ: حافظ محمد یوسف

 

 

 

سونے کے آداب

 

۱۲۷۔ باب:سونے، لیٹنے، بیٹھنے، مجلس، ہمنشینی اور خواب کے آداب

۸۱۴۔ حضرت برا بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب اپنے بستر پر آرام فرما ہوتے تو اپنی کروٹ پر سوتے پھر یہ دعا پڑھتے :۔ اے اللہ !میں نے اپنا نفس تیرے سپرد کر دیا میں نے اپنے آپ کو تیری طرف متوجہ کر دیا، اپنے معاملے کو تیرے سپرد کر دیا اور اپنی پشت کو رغبت و خوف کے ساتھ تیری طرف لگا دیا اور تجھ سے بھاگ کر کوئی جائے پناہ اور چھٹکارے کی جگہ نہیں۔ میں تیری اس کتاب پر ایمان لا یا جو تو نے نازل فرمائی اور تیرے اس نبی پر ایمان لایا جسے تو نے بھیجا۔ ‘‘         (بخاری)

توثیق الحدیث :أخر جہ البخاری (/۳۵۷۱۔ فتح)

۸۱۵۔ حضرت برا بن عازب ؓ ہی بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا:جب تم سونے کیلئے اپنے بستر پر جانے کا ارادہ کرو تو اس طرح وضو کرو جس طرح نماز کیلئے وضو کر تے ہو پھر اپنی دائیں کروٹ لیٹ جاؤ اور یہ دعا پڑھو:۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ اور سابقہ دعا ذکر کی اور اس میں یہ بھی ہے۔ ان  (دعائیہ کلمات)کو اپنی آخر ی گفتگو بنا ؤ۔ ‘‘        (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :أخر جہ البخاری (/۱۰۹۱۱۔ فتح)و مسلم (۲۷۱۰)۔

۸۱۶۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کر تی ہیں کہ نبی کریمﷺ رات کو گیارہ رکعت نماز تہجد پڑھا کر تے تھے، جب صبح صادق نمو دار ہو جاتی تو آپ خفیف سی دو رکعتیں پڑھتے پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے حتیٰ کہ مؤذن آتا اور آپ کو نماز فجر کی اطلاع کر تا۔              (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۰۸۱۱۔ ۱۰۹۔ فتح)و مسلم (۷۳۶)

۸۱۷۔ حضرت حذیفہ ؓ بیان کر تے ہیں کہ نبی کریمﷺ جب رات کو بستر پر لیٹتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے دائیں رخسار کے نیچے رکھ لیتے پھر یہ دعا پڑھتے :اے اللہ!میں تیرے نام کے ساتھ ہی مرتا اور زندہ ہو تا ہوں۔ اور جب آپ بیدار ہو تے تو پھر یہ دعا پڑھتے :تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندگی عطا فر مائی اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے            (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۱۳۱۱۔ فتح)

۸۱۸۔ حضرت یعیش بن طخفہ غفاری ؓ بیان کر تے ہیں کہ میرے والد نے بتا یا کہ میں ایک مرتبہ مسجد میں پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا کہ اچانک ایک آدمی نے اپنے پاؤں سے مجھے ہلایا اور کہا :اللہ تعالیٰ اس (الٹا) لیٹنے کو نا پسند فر ما تا ہے۔ راوی کہتے ہیں میرے والد نے بتا یا کہ میں نے دیکھا تو وہ رسول اللہﷺ تھے۔       (ابو داؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث :صحیح لغیرہ۔ اخرجہ ابو داؤد (۵۰۴۰)، و ابن ماجہ (۳۷۲۳)، و احمد (/۴۲۹۳و ۴۳۰)۔

اس حدیث کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے،ایک یہ کہ یعیش مجہول ہے اور دوسرا یہ کہ اس کی سند مضطرب ہے اور ابن ماجہ کی سند میں ابو ذر راوی منکر ہے۔ لیکن پیٹ کے بل یعنی الٹا لیٹنے کی ممانعت کے متعلق ابو ہریرہ ؓ سے ترمذی (۲۷۶۸)احمد (/۲۸۷۲،۳۰۴)ابن حبان (۵۵۴۹)اور حاکم (/۲۷۱۴)میں صحیح حدیث مروی ہے۔ اس کی سند حسن ہے۔           (واللہ اعلم)

۸۱۹۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو شخص کسی جگہ بیٹھا اور وہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کیا تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر نقصان اور وبال ہو گا اور جو شخص کسی بستر پر لیٹا اور وہاں بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا تو ایسے شخص پر اللہ کی طرف سے نقصان اور وبال (گناہ) ہو گا۔                          (ابو داؤد۔ سند حسن ہے)

توثیق الحدیث :حسن۔ اخرجہ ابو داؤد (۴۸۵۶و۵۰۵۹)، والنسائی فی ( (عمل الیومو اللیلۃ)) (۴۰۴) بتمامہ وأخرج الحمیدی فی ( (مسند)) (۱۱۵۸)شطرہ الا ول، وأخرج ابن السنی فی ( (عمل الیوم واللیلۃ)) (۷۴۵) شطرہ الأخیرۃ۔

۱۲۸۔ باب:چت لیٹنے۔ جب ستر کھلنے کا اندیشہ نہ ہو تو ایک ٹانگ کو دوسری ٹانگ پر رکھ کر لیٹنے، چوکڑی مار کر اور گوٹھ مار کر (سرین پر بیٹھ کر ہاتھوں کو ٹانگوں کے گرد کر کے) بیٹھنے کا جواز

۸۲۰۔ حضرت عبداللہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو مسجد میں چت لیٹے ہوئے دیکھا، آپ نے ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھی ہوئی تھی۔             (متفق بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۵۶۳۱۔ فتح)، و مسلم (۲۱۰۰)

۸۲۱۔ حضرت جابر بن سمرہ ؓ بیان کر تے ہیں کہ نبی کریمﷺ جب نماز فجر سے فارغ ہو جاتے تو اپنی جگہ چوکڑ ی مار کر بیٹھے رہتے حتیٰ کہ سورج خوب اچھی طرح روشن ہو کر طلوع ہو جاتا۔    (ابو داؤد وغیرہ۔ حدیث صحیح ہے)

توثیق الحدیث :حسن۔ اخرجہ ابو داؤد (۴۸۵۰)با سناد حسن،

۸۲۲۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کر تے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کو صحن کعبہ میں اپنے ہاتھوں کے ساتھ اس طرح گوٹھ مار کر بیٹھے ہوئے دیکھا اور پھر انھوں نے اپنے ہاتھوں کے ساتھ گوٹھ مارنے کی کیفیت بیان کی۔ اسی حالت کو ’’قرفصاء‘‘ کہتے ہیں                         (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری: (/۶۵۱۱۔ فتح)

۸۲۳۔ حضرت قیلہ بنت مخرمہ ؓ بیان کرتی ہیں میں نے نبیﷺ کو گوٹھ مارکر بیٹھے ہوئے دیکھا، پس جب میں نے رسول اللہﷺ کو بیٹھنے کی حالت میں خشوع اختیار کر تے ہوئے دیکھا تو میں خوف کی وجہ سے کانپنے لگ گئی۔ (ابو داؤد، تر مذی)

توثیق الحدیث :حسن۔ أخر جہ البخاری فی ( (الا دب المفرد)) (۱۱۸۷)، و ابو داؤد (۴۸۴۷)، و الترمذی (۲۸۱۴)۔

اس کی سند میں معمولی سا ضعیف ہے ،عبداللہ بن حسان عنبری کی متقدمین نے جرح و تعدیل نہیں کی،لیکن اس سے ثقہ راویوں نے روایت لی ہے۔ اس وجہ سے امام ذہبیؒ نے۔ الکاشف (۷۱۲)میں اسے ثقہ قرار دیا ہے ،لیکن یہ ثقہ کے درجے تک نہیں پہنچتا۔ جبکہ صفیہ بنت علییہ اور دحیبہ بنت علییہ دونوں مقبول ہیں۔ اخلاق النبیﷺ میں ابر امہ حارثی کی حدیث اس کی شہاد بھی ہے ،جس کی سند شواہد میں قبول کی جاتی ہے قریہ حدیث بالجملہ حسن ہے۔              (ان شا اللہ)

۸۲۴۔ حضرت شرید بن سوید ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ میرے پاس سے گزرے اور میں اس حالت میں بیٹھا ہوا تھا اور میں نے اپنا بایاں ہاتھ اپنی پیٹھ کے پیچھے رکھا ہوا تھا اور میں نے ہاتھ کے انگوٹھے کے نچلے حصے پر ٹیک لگائی ہو ئی تھی۔ تو آپ نے فرمایا:کیا تم ان لوگوں کی طرح بیٹھے ہو جن پر غضب نازل ہوا تھا !؟‘‘ (ابو داؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث :صحیح اخرجہ ابو داؤد (۴۸۴۸)، و احمد (/۳۸۸۴)والحکم (/۲۶۹۴)، والطبر انی فی ( (الکبیر)) (۷۲۴۲و۷۲۴۳)۔

اس کی سند صحیح ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔ ابن جریج نے ’’مصنف عبد الرزاق (/۱۹۷۲)‘‘ میں ’’حد ثنا‘‘ کی وضاحت کی ہے۔

۱۲۹۔ باب :مجلس اور ہم نشین کے آداب

۸۲۵۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص کسی کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ وہ خود وہاں بیٹھ جائے بلکہ تم مجلس میں فراخی اور گنجائش پیدا کر و۔ حضرت ابن عمرؓ۔ کا معمول تھا کہ جب کوئی آدمی ان کی خاطر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہو تا تو وہ اس جگہ نہیں بیٹھتے تھے۔       (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۳۹۳۲۔ فتح)، و مسلم (۲۱۷۷) (۲۸و۲۹)۔

۸۲۶۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی ایک مجلس سے اٹھے پھر واپس۔ آ جائے تو وہ اس جگہ بیٹھنے کا زیادہ حقدار ہے‘‘ ۔              (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۱۷۹)۔

۸۲۷۔ حضرت جابر بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم نبیﷺ کی خد مت میں حاضر ہو تے تو ہم میں سے جسے جہاں جگہ ملتی وہ وہیں بیٹھ جا تا۔ (ابو داؤد، ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری فی ( (الا دب المفرد (۱۱۴۱)، و

ابو داؤد (۴۸۲۵)، و الترمذی (۲۷۲۵)، و احمد (/۹۱۵و۹۸و۱۰۷۔ ۱۰۸)۔ اس حدیث کی سند شریک بن عبداللہ قاضی کے سوئے حفظ کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن حدیث کا معنی متابعت اور شواہد کی وجہ سے صحیح ہے۔ امام ترمذی ؒ نے کہا کہ زہیر بن معاویہ نے بھی سماک سے روایت کی ہے اور یہ متابعت صحیح ہے کیونکہ زہیر بخاری و مسلم کا راوی ہے۔ اس حدیث کے معنی کے شواہد بھی ہیں۔ جیسے ’’بخاری (/۱۵۶۱۔ فتح)باب من قعد حیث ینتھی بہ المجلس‘‘ میں ہے۔

۸۲۸۔ حضرت ابو عبداللہ سلمان فارسی ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :جو شخص جمعہ کے دن غسل کر تا ہے اور مقدور بھر طہارت حاصل کر تا ہے، گھر میں موجود تیل استعمال کر تا ہے یا خوشبو استعمال کرتا ہے، پھر نماز جمعہ کے لیے گھر سے نکلتا ہے اور وہ مسجد میں بیٹھے ہوئے دو آدمیوں کے درمیان گھس کر ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کرتا، پھر جو اس کے مقدر میں ہے نماز پڑھتا ہے، پھر جب امام خطبہ دیتا ہے تو وہ خاموش رہتا ہے، تو اس کے اس جمعہ اور دوسرے جمعہ تک درمیانی مدت کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔  (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۳۷۰۲۔ فتح)

۸۲۹۔ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا ؓ سے روایت کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فر مایا :کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کی کہ وہ دو آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر (گھس کر)تفریق کرے۔       (ابو داؤد، تر مذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :حسن۔ اخرجہ ابو داؤد (۴۸۴۵)، و الترمذی (۲۷۵۲) با سناد حسن۔ والروایۃ الثانیۃ۔ عند أبی۔ داؤد (۴۸۴۴)۔

۸۳۰۔ حضرت حذیفہ بن یمان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایسے شخص پر لعنت فرمائی جو حلقے اور مجلس کے وسط میں بیٹھے۔                 (ابوداؤد۔ حسن سند کے ساتھ مروی ہے)

امام ترمذی نے ابو مجلز سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی مجلس کے وسط میں بیٹھا تو حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا:جو شخص مجلس کے وسط میں بیٹھے وہ محمدﷺ کی زبان مبارک پر ملعون ہے یا فرمایا اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کی زبان مبارک سے اس پر لعنت فرمائی۔        (امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث :ضعیف۔ اخرجہ ابو داؤد (۴۸۲۶)، و الترمذی (۲۷۵۳)

یہ حدیث سند منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے ابو مجلز لاحق بن حمید نے سیدنا حذیفہ ؓ سے کچھ نہیں سنا۔

۸۳۱۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:۔ بہترین مجلس وہ ہے جو سب سے زیادہ فراخ ہو۔                (اسے ابو داؤد نے شرط بخاری پر صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ البخاری فی ( (الادب المفرد)) (۱۱۳۶)، و ابو داؤد (۴۸۲۰)، و احمد (/۱۸۳، ۶۹)، والحاکم (/۲۶۹۴)۔

۸۳۲۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا اور وہاں اس نے بہت سی لا یعنی اور بے فائدہ باتیں کیں پھر اس نے اس مجلس سے کھڑا ہونے سے پہلے یہ دعا پڑھی ’’اے اللہ!تو پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں تجھ سے مغفرت طلب کر تا ہوں اور تیری طرف رجو ع کر تا ہوں تو اس مجلس کے گناہ معاف کر دیے جائے گئے۔               (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ الترمذی (۳۴۳۳)، والنسائی فی ( (عمل الیوم واللیلۃ)) (۳۹۷)، ومن طریقہ ابن السنی (۴۴۹)، و ابن حبان (۲۳۶۶)، والحاکم (/۵۳۶۱۔ ۵۳۷)ولہ طریق آخر اخرجہ ابو داؤد (۴۸۵۸)۔

۸۳۳۔ حضرت ابو برزہ ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب مجلس سے اٹھنے کا ارادہ فرماتے تو آخر۔ میں یہ دعا پڑھتے :اے اللہ!تو اپنی حمدو تعریف کے ساتھ پاک ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں تجھ سے مغفرت طلب کر تا ہوں اور تیری طرف رجو ع کرتا ہوں۔ (ایک مرتبہ) ایک آدمی نے کہا:اے اللہ کے رسول !ا پ ایسے کلمات فرما رہے ہیں جو پہلے نہیں فرماتے تھے ؟ آپ نے فرمایا یہ کلمات ان باتوں کا کفارہ ہیں جو مجلس میں ہو جاتی ہیں۔                     (ابوداؤد)

توثیق الحدیث :صحیح بشو اھد ہ۔ اخرجہ ابو داؤد (۴۷۵۹)، والنسائی فی (عمل الیوم واللیلۃ)) (۴۲۶)، والدارمی (۲۶۵۸)، والحاکم (/۵۳۷۱)۔

۸۳۴۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ کم ہی ایسے ہو تا کہ رسول اللہﷺ کسی مجلس سے اٹھتے اور آپ یہ کلمات نہ پڑھتے ہوں :اے اللہ! اپنے خوف کا اتنا حصہ ہمیں عطا فرما دے جو ہمارے اور تیری معصیت کے درمیان حائل ہو جائے اپنی اطاعت کی اتنی توفیق عطا فرما جو ہمیں تیری جنت میں پہنچا دے، اتنا یقین عطا فرما جو ہم پر دنیا کے مصائب آسان کر دے۔ اے اللہ!جب تک تو ہمیں زندہ رکھے ہمیں اپنی سماعتو بصارت اور قوت سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فر ما اور اور  اسے ہمارا وارث بنا۔

(اے اللہ!)جو ہم پر ظلم کرے تو اس سے بدلہ لے جو ہم سے عداوت رکھے ان کے مقابلے میں ہماری مدد فرما ہمارے دین کے بارے میں ہمیں مصیبت و۔ آزمائش میں نہ ڈالنا اور دنیا ہی کو ہمارا مطمح نظر اور مبلغ علم نہ بنا نا اور ایسے لوگوں کو ہم پر مسلط نہ کرنا جو ہم پر رحم نہ کریں۔                   (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :حسن لغیرہ۔ اخرجہ الترمذی (۳۵۰۲)والنسائی فی ( (عمل الیوم واللیلۃ)) (۴۰۱)، و ابن السنی فی ( (عمل الیوم واللیلۃ)) (۴۴۸)، والبغوی فی ( (شرح السنۃ)) (/۱۷۴۵)

اس حدیث کی سند عبید اللہ بن زحر کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن مستدرک حاکم (/۵۲۸۱)میں لیث بن سعد نے اس کی متابعت کی ہے اور امام حاکم نے اسے بخاری کی شرط پر صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے لہٰذا یہ حدیث بالجملہ حسن ہے۔                   (واللہ اعلم)

۸۳۵۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فر مایا:جو لو گ کسی مجلس سے اللہ کا ذکر کیے بغیر اٹھ جاتے ہیں تو وہ ایسے ہیں جیسے کسی مردار گدھے کے پاس سے اٹھے ہوں اور یہ مجلس ان کے لیے باعث حسرت ہو گی۔                      (ابو داؤد۔ سند حسن ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۴۸۵۵)والنسائی فی ( (عمل الیومو اللیلۃ)) (۴۰۸)، و احمد (/۳۸۹۲و ۵۱۵و ۵۲۷)، و ابن السنی (۴۴۷)، والحاکم (/۴۹۲۱)۔

۸۳۶۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور وہاں اللہ کا ذکر کریں نہ اپنے نبی پر درود بھیجیں تو یہ مجلس ان کے لیے باعث حسرت ہو گی۔ پس اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں عذاب دے اور چاہے تو معاف کر دے               (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :صحیح بطرقہ۔ اخرجہ الترمذی (۳۳۰۸)، و احمد (/۴۴۶۲، ۴۵۳، ۴۸۱، ۴۸۴، ۴۹۵)، والحاکم (/۴۹۶۱)۔

۸۳۷۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا اور اس نے وہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حسرتو ندامت ہو گی۔ اور جو شخص کسی بستر پر لیٹا اور وہاں اللہ کا ذکر نہیں کیا تو اس پر بھی اللہ کی طرف سے حسرتو ندامت ہو گی۔     (ابو داؤد)

توثیق الحدیث :کے لیے حدیث (۸۱۹) ملاحظہ فرمائیں۔

 

۱۳۰۔ باب :خواب اور اس کے متعلقات

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں تمہارا رات اور دن کو بھی سونا (بھی) ہے۔           (الروم:۲۳)

۸۳۸۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کر تے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: نبوت کے حصوں میں صرف مبشرات باقی رہ گئے ہیں، صحابہ نے عرض کیا :مبشرات کیا ہیں ؟ آپ نے فر مایا : نیک خواب۔                         (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۳۷۵۱۲۔ فتح)۔

۸۳۹۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:جب (قیامت کا) زمانہ قریب ہو جائے گا تو مومن کا خواب جھوٹا نہیں ہو گا اور مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔                  (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۳۷۳۱۴و۴۰۴۔ ۴۰۵۔ فتح)، و مسلم (۲۲۶۳)٘

۸۴۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :جس نے مجھے خواب میں دیکھا وہ عنقریب (روز قیامت)مجھے حالت بیداری میں دیکھے گا، یا فرمایا:گویا اس نے مجھے حالت بیداری میں دیکھا (کیونکہ) شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا ہے۔                        (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۳۸۳۱۲۔ فتح)،و مسلم (۲۲۶۶) (۱۱)۔

۸۴۱۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :جب تم میں سے کوئی ایک پسندیدہ خواب دیکھے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اسے اس پر اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنی چاہیے اور اسے آگے بیان بھی کرنا چاہیے ایک اور روایت میں ہے اسے صرف اپنے پسندیدہ لوگوں سے بیان کرے اور جب اس کے بر عکس خواب میں غیر پسندیدہ بات دیکھے تو شیطان کی طرف سے ہے پس وہ اس کے شر سے پناہ طلب کرے اور کسی سے اس کا تذکرہ نہ کرے اس لیے کہ وہ اسے نقصان نہیں پہنچائے گا۔                      (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۳۶۹۱۲۔ فتح)یہ حدیث بخاری میں تو سید نا ابو سعید خدری ؓ ہی سے ہے لیکن مسلم (۲۲۶۱) میں سیدنا جابر اور سیدنا قتادہ ؓ سے ہے جیسا کہ یہ حدیث آگے۔ آ رہی ہے۔

۸۴۲۔ حضرت ابو قتادہ ؓ بیان کر تے ہیں نبیﷺ نے فرمایا :نیک خواب اور ایک روایت میں ہے اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہے پس جو شخص کوئی نا پسندیدہ چیز دیکھے تو وہ اپنی بائیں جانب تین بار پھونک دے اور شیطان سے پناہ مانگے اس لیے کہ یہ خواب اسے نقصان نہیں پہنچائے گا۔               (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۳۳۸۶۔ فتح)و مسلم (۲۲۶۱) (۱و۴)والروایۃ الثانیۃ عند البخاری (/۴۳۰۱۲۔ فتح)

۸۴۳۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :جب تم میں سے کوئی نا پسندیدہ خواب دیکھے تو وہ اپنی بائیں جانب تین بار تھوکے اور تین مر تبہ شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کرے اور اپنے اس پہلو کو بدل لے جس پر وہ تھا۔                   (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۲۶۲)۔

۸۴۴۔ حضرت ابو اسقع واثلہ بن اسقع ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے بیان فرمایا:یقیناً سب سے بڑا افترا (جھوٹو بہتان) یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرے یا اپنی آنکھ کو وہ کچھ دکھائے جو اس نے نہیں دیکھا (یعنی جھوٹا خواب بیان کرے)یا رسول اللہﷺ کے ذمہ ایسی بات لگائے جو آپ نے نہیں فرمائی۔                          (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۵۴۰۶۔ فتح)۔ واخرجہ (۱۲!۴۲۷۔ فتح)من حدیث ابن عمرؓ مختصرًا۔

 

سلام کا بیان

 

۱۳۱۔ باب: سلام کرنے کی فضیلت اور اسے پھیلانے کا حکم

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ایمان والو! تم اپنے گھروں کے علاوہ دوسرے گھروں میں اس وقت سے تک داخل نہ ہو جب تک تم اجازت نہ لے لو اور گھر والوں کو سلام نہ کر لو۔          (النور :۲۷)

اور فرمایا:پس جب تم گھروں میں داخل ہونے لگو تو اپنے نفسوں پر سلام کرو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ہے مبارک اور پاکیزہ۔                        (النور:۶۱)

نیز فرمایا: جب تمہیں (سلام کا)تحفہ دیا جائے تو تم اس سے بہترین تحفہ انہیں دو یا وہی انہیں لوٹا دو۔            (النسا:۸۶)

اور فرمایا: کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ؟ جب وہ اس کے پاس آئے تو انھوں نے سلام کیا تو ابراہیم نے بھی سلام کیا۔            (الذاریات :۲۴، ۲۵)

۸۴۵۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ اسلام میں کون سا عمل زیادہ بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا :تم کھانا کھلاؤ اور ہر شخص کو سلام کرو خواہ تم اسے جانتے ہو یا نہیں جانتے۔                         (متفق علیہ)

توثیق الحدیث۔ کے لیے حدیث نمبر ۵۵۰ملاحظہ فرمائیں۔

۸۴۶۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو پیدا فرمایا تو انہیں فرمایا جاؤ اور فرشتوں کی اس بیٹھی ہوئی جماعت کو سلام کرو اور وہ جو تمہیں جواب دیں اسے غور سے سنو پس وہ تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہو گا، حضرت آدم ؑ نے کہا :السلام علیکم فرشتوں نے کہا :السلام علیکم و رحمۃ اللہ پس انھوں نے ’’رحمۃ اللہ‘‘ کا اضافہ کیا۔                     (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۳۶۲۶۔ فتح)، و مسلم (۲۸۴۱)

۸۴۷۔ حضرت ابو عمار ہ برا بن عازب ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم فرمایا: (۱)مریض کی عیادت کرنے (۲)جنازوں میں شریک ہونے (۳)چھینک مارنے والے کی چھینک کا جواب دینے (۴)ضعیفو ناتواں کی مدد کرنے (۵)مظلوم کی مدد اور فریاد رسی کرنے (۶)سلام کو پھیلانے اور قسم کھانے والے کی قسم کو پورا کرنے (کا حکم فرمایا)۔

(متفق علیہ) یہ بخاری کی ایک روایت کے الفاظ ہیں۔

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر ۲۴۴ ملاحظہ فرمائیں۔

۸۴۸۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:تم جنت میں نہیں جاؤ گے حتیٰ کہ تم ایمان لاؤ اور تم ایماندار نہیں بنو گے حتیٰ کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب وہ کرو تو تم آپس میں محبت کرنے لگو؟ (وہ یہ ہے کہ)تم آپس میں سلام کو پھیلا ؤ۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۵۴)۔

۸۴۹۔ حضرت ابو یوسف بن سلام ؓ بیان کر تے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر نماز پڑھو جبکہ لوگ سوئے ہوئے ہوں تو تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔                       (ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ الترمذی (۲۴۸۵)، و ابن ماجہ (۱۳۳۴، ۳۲۵۱)، و احمد (/۴۵۱۵)، والدارمی (/۳۴۰۱۔ ۳۴۱، /۲۷۵۲)، والحاکم (/۱۳۳)۔

۸۵۰۔ حضرت طفیل بن ابی کعب سے روایت ہے کہ وہ عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس آیا کرتے تھے اور ان کے ساتھ با زار جاتے۔ راوی بیان کرتے ہیں جب ہم بازار جاتے تو عبداللہ بن عمرؓکسی کباڑ یے، کسی تاجر یا کسی مسکین کے پاس سے گزرتے تو اسے سلام کرتے، طفیل بیان کر تے ہیں کہ میں ایک روز ابن عمرؓ کے پاس آیا تو انھوں نے مجھ سے اپنے ساتھ بازار جانے کو کہا تو میں نے انہیں کہا آپ بازار میں کیا کریں گے ؟ آپ کسی فروخت کرنے والے کے پاس ٹھہر تے ہیں نہ کسی سودے کے بارے میں پو چھتے ہیں اور نہ ہی قیمت لگاتے ہیں اور بازار کی کسی مجلس میں بھی نہیں بیٹھتے اس لیے میں تو یہ کہتا ہوں کہ آپ یہیں ہمارے پاس تشریف رکھیں، ہم آپس میں بات چیت کر تے ہیں۔ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا:اے ابو لطن (پیٹ والے)!طفیل کا پیٹ بڑھا ہوا تھا، ہم تو بازار میں صرف سلام کرنے جاتے ہیں پس ہم جس سے ملتے ہیں اسے سلام کرتے ہیں۔                   (مؤطا۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ مالک (/۹۶۱۲۔ ۹۶۲) با سناد صحیح۔

 

۱۳۲۔ باب سلام کی کیفیت

امام نو وی ؒ فرماتے ہیں :سلام میں پہل کرنے والے کے لیے مستحب اور بہتر ہے کہ وہ جمع کی ضمیر کے ساتھ ’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘ کہے اگرچہ جسے سلام کہا جا رہا ہے وہ ایک شخص ہی ہو اور سلام کا جواب دینے والا بھی جمع کی ضمیر کے ساتھ میں واؤ عاطفہ بھی لگائے یعنی و علیکم

۸۵۱۔ حضرت عمران بن حصین ؓ بیان کر تے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے کہا :السلام علیکم آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا پھر وہ شخص بیٹھ گیا تو نبیﷺ نے فرمایا : (اس کیلئے)د س نیکیاں ہیں۔ پھر دوسرا آدمی آیا اس نے کہا ’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ‘‘ (اس کیلئے)بیس نیکیاں ہیں۔ پھر ایک اور شخص آیا تو اس نے کہا ’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘ آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا وہ بیٹھ گیا تو آپؐ نے فرمایا : (اس شخص کے لیے) تیس نیکیاں ہیں۔                          (ابو داؤد تر مذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :صحیح بشواھد۔ اخرجہ ابوداؤد (۵۱۹۵)، و الترمذی (۲۶۸۹)، والدارمی (/۲۷۷۲)۔

ا س کی سند حسن ہے جبکہ ابو ہریرہ ؓ کی حدیث اس کی شاہد ہے جسے امام بخاری نے ’’الا دب المفرد (۹۸۶)امام نسائی نے عمل الیوم اللیلۃ (۳۶۸)اور ابن حبان (۴۹۳)نے روایت کیا ہے اس کی سند صحیح ہے۔

۸۵۲۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کر تی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا:یہ جبریل ہیں جو تمہیں سلام پیش کر تے ہیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں میں نے کہا ’’علیہ السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘                (متفق علیہ)

صحیحین (بخاری و مسلم) کی بعض روایات میں ’’برکاتہ‘‘ کے الفاظ ہیں اور بعض میں یہ الفاظ نہیں اور ثقہ راوی کی زیادتی مقبول ہے پس ’’و برکاتہ‘‘ کا اضافہ صحیح ہے۔

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۳۰۵۶۔ فتح)و مسلم (۲۴۴۷)۔

۸۵۳۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ جب کوئی بات ارشاد فرماتے تو اسے تین بار دہراتے تا کہ وہ اچھی طرح سمجھ میں۔ آ جائے اور جب کسی قوم کے پاس تشریف لے جاتے تو انہیں تین بار سلام کر تے۔            (بخاری)

یہ اس صورت میں ہے جب ہجوم زیادہ ہو تا۔

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۸۸۱۔ فتح)۔

۸۵۴۔ حضرت مقدادؓ اپنی طویل حدیث میں بیان فرماتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے لئے ان کے حصے کا دودھ اٹھا کر رکھ دیا کرتے تھے آپ رات کو تشریف لاتے تو اس طرح سلام کر تے کہ سوئے ہوئے کو بیدار نہ کر تے اور بید ار کو سنا دیتے پس نبی کر یمﷺ تشریف لائے اور حسب معمول سلام کیا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۰۵۵)

۸۵۵۔ حضرت اسما ء بنت یزید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک روز مسجد میں سے گزرے وہاں عورتوں کی ایک جماعت بیٹھی ہو ئی تھی پس آپ نے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا۔                  (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

یہ اس صورت پر محمول ہے کہ آپ نے الفاظ اور اشارہ دونوں کو جمع فر ما لیا یعنی السلام علیکم بھی کہا اور ہاتھ سے اشارہ بھی فرمایا۔ اس کی تائید ابو داؤد کی روایت سے بھی ہوئی ہے جس میں ہے آپؐ نے ہمیں بھی سلام کہا۔

توثیق الحدیث :صحیح۔ دون الا شارۃ۔ اخرجہ البخاری فی الا دب المفرد (۱۴۰۷)، و الترمذی (۲۶۹۷)،و احمد (/۴۵۷۹۔ ۴۵۸)۔

اس کی سند شہر بن حوشب کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے اس کا صرف متابعتو شاہد میں اعتبار کیا جاتا ہے۔ اس حدیث میں اشارے سے سلام کرنے کا ذکر ہے جو رسول اللہﷺ کی صحیح حدیث میں منع ہے جسے ترمذی (۲۸۳۶) نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے لیکن یہ سند حسن درجے کی ہے اور عمل الیوم الیلۃ للنسائی (۳۴۰)میں اس کا ایک شاہد بھی ہے۔ لہٰذا اس حدیث میں اشارے سے سلام والے الفاظ ضعیف ہیں جبکہ سلام کہنے کا ذکر دیگر صحیح احادیث میں ثابت ہے۔ تو امام نوویؒ کا۔ اسے اس بات پر محمول کرنا کہ رسول اللہﷺ نے اشارے اور زبان سے سلام کہا ہے یہ ٹھیک نہیں۔ (واللہ اعلم)

۸۵۶۔ حضرت ابو جبری ہجیمی ؓ بیان کر تے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہا ’’علیک السلام‘‘ اے اللہ کے رسول !تو آپ نے فرمایا :تم ’’علیک السلام‘‘ مت کہو اس لئے کہ یہ تو مردوں کا اسلام ہے            (ابو داؤد تر مذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)یہ حدیث پوری پہلے گزر چکی ہے۔ (توثیق الحدیث کے لیے ۷۹۶ دیکھیے۔ )

۱۳۳۔ باب: سلام کے آداب

۸۵۷۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سوار پیدل چلنے والے کو، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔ (متفق علیہ)

اور بخاری کی ایک روایت میں ہے : چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۵۱۱۔ فتح)، و مسلم (۲۱۶۰)، والروایۃ الثانیۃ عند البخاری (/۱۴۱۱و ۱۵۔ فتح)

۸۵۸۔ حضرت ابوامامہ صدی بن عجلان باہلی ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو ان میں سے سلام کر نے میں پہل کر تا ہے۔           (ابو داؤد۔ سند جید ہے)

ترمذی نے حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ آپ ؐ سے دریافت کیا گیا :اے اللہ کے رسولﷺ دو آدمی آپس میں ملتے ہیں تو ان میں سے سلام کرنے میں پہل کون کرے ؟ آپؐ نے فرمایا: جو ان میں سے اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہے۔          (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۵۱۹۷)، و الترمذی (۲۶۹۴)۔

۱۳۴۔ باب:اسے بار بار سلام کہنا مستحب ہے جس سے قرب کی وجہ سے بار بار ملاقات ہو تی ہو وہ اس طرح کہ وہ اس کے پاس آئے پھر باہر جائے پھر اندر آئے یا ان کے درمیان درخت اور اس قسم کی کوئی چیز حائل ہو جائے تو پھر سلام کرے

۸۵۹۔ حضرت ابوہریرہؓ ’’مسی الصلوٰ ۃ‘‘ کی حدیث میں بیان کر تے ہیں کہ ایک شخص آیا، اس نے نماز پڑھی پھر نبیﷺ کی خدمت میں حا ضر ہوا اور آپ کو سلام کیا، آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا:تو جا، پھر نماز پڑھ اس لئے کہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ پس وہ واپس گیا نماز پڑھی پھر آیا اور نبیﷺ کو سلام کیا حتیٰ کہ اس نے تین مرتبہ ایسے ہی کیا۔             (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۲۳۷۲۔ فتح)، و مسلم (۳۹۷)

۸۶۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی ایک اپنے بھائی سے ملاقات کرے تو اسے سلام کرے اگر ان دونوں کے درمیان کوئی درخت یا دیوار یا پتھر حائل ہو جائے اور یہ پھر اسے ملے تو اسے پھر سلام کر نا چاہیے۔ (ابو داؤد)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۵۲۰۰)مرفوعا، واسنادہ المرفوعا صح۔

۱۳۵۔ باب:اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کر نا مستحب ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے نفسوں (گھر والوں) کو سلام کرو، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ہے بابر کت اور پاکیزہ۔       (النور:۶۱)

۸۶۱۔ حضرت انس ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا :اے میرے بیٹے ! جب تم اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ تو سلام کر و، اس طرح تم پر اور تمہارے گھر والوں پر برکت ہو گی۔

(تر مذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث :حسن بشواھد۔ اخرجہ الترمذی (۲۶۹۸)۔

تر مذی کی سند علی بن زید بن جدعان کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن اس حدیث کی کئی اور سندیں بھی ہیں جو اس حدیث کو حسن کے درجہ تک لے جاتی ہیں، انہیں حافظ ابن حجر ؒ نے ’’نتائج الافکار‘‘ (/۱۶۷۱۔ ۱۷۰)میں جمع کیا ہے

۱۳۶۔ باب :بچوں کو سلام کرنا

۸۶۲۔ حضرت انس ؓ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ بچوں کے پاس سے گزرے۔ تو انھوں نے انہیں۔ سلام کیا اور فرمایا: رسول اللہﷺ ایسے ہی کیا کر تے تھے۔                          (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۳۲۱۱۔ فتح)، و مسلم (۲۱۶۸)۔

۱۳۷۔ باب:آدمی کا اپنی بیوی کو، اپنی محرم عورت کو اور اگر فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو (ایک) اجنبی عورت کو یا (زیادہ) عورتوں کو سلام کرنا اور اسی شرط کے ساتھ عورتوں کا مردوں کو سلام کر نا

۸۶۳۔ حضرت سہل بن سعدؓ بیان کر تے ہیں کہ ہم میں ایک عورت تھی ایک اور روایت میں ہے کہ وہ بوڑھی عورت تھی، وہ چقندر کی جڑیں لے کر ہانڈی میں ڈالتی اور وہ جَو کے کچھ دانے پیستی، پس جب ہم نماز جمعہ پڑھتے اور واپس آتے تو ہم اسے سلام کر تے تو وہ یہ کھانا ہمیں پیش کر تی۔ (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۴۶۷۲۔ فتح)۔

۸۶۴۔ حضرت ام ہانی فاختہ بنت ابی طالب ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں فتح مکہ والے دن نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی، آپ غسل فرما رہے تھے اور حضرت فاطمہؓ آپ کو کپڑے سے پردہ کیے ہوئے تھیں، پس میں نے سلام کیا اور آگے لمبی حدیث بیان کی۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (/۴۹۸۱) (۸۲)۔

۸۶۵۔ حضرت اسما بنت یزید ؓ بیان کر تی ہیں کہ نبیﷺ ہم چند عورتوں کے پاس سے گزرے تو آپ نے ہمیں سلام کیا (ابو داؤد۔ ترمذی۔ حدیث حسن ہے)یہ الفاظ ابوداؤد کے ہیں اور ترمذی کے الفاظ اس طرح ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک روز مسجد میں سے گزرے اور عورتوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی پس آپ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا۔

توثیق الحدیث و کیلئے حدیث ۸۵۵ ملاحظہ کریں۔

۱۳۸۔ باب: کافر کو سلام کرنے میں پہل کرنا حرام ہے ار ان کو سلام کا جواب دینے کا طریقہ اور اہل مجلس کو سلام کرنا مستحب ہے جس میں مسلمان اور کافر دونوں موجود ہوں ۔

۸۶۶۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فر مایا : یہود نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل مت کر و، پس جب تم ان میں سے کسی کو راستے میں ملو تو اسے راستے کے تنگ تر حصے کی طرف مجبور کر دو۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۱۶۷)۔

۸۶۷۔ حضرت انس ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فر مایا: جب اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو تم ’’وعلیکم‘‘ کہا کرو۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۴۲۱۱۔ فتح)و مسلم (۲۱۶۳)

۸۶۸۔ حضرت اسامہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان اور مشرک، بت پر ست اور یہود، سب ملے جلے بیٹھے ہوئے تھے پس نبی کریمﷺ نے انہیں سلام کیا۔                    (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۳۸۱۱۔ ۳۹۔ فتح)،و مسلم (۱۷۹۸)

۱۳۹۔ باب : جب کوئی مجلس سے اٹھے اور اپنے ساتھیوں یا ساتھی سے جدا ہو تو سلام کر نا مستحب ہے

۸۶۹۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی مجلس میں پہنچے تو سلام کرے اور جب اٹھنے کا ارادہ کرے تو تب بھی سلام کرے ، اس لیے کہ پہلا سلام دوسرے سے زیادہ حق دار (اہم) نہیں۔                        (ابو داؤد، ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۵۲۰۸)، و الترمذی (۲۷۰۶)و احمد (/۲۳۰۲و ۲۸۷و ۴۳۹)۔

۱۴۰۔ اجازت طلب کر نا اور اس کے آداب

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے ایمان والو! تم اپنے گھروں کے علاوہ دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لے لو اور گھر والوں کو سلام نہ کر لو۔ (النور:۲۷)

اور فرمایا : اور جب تم میں سے بچے بلوغت کو پہنچ جائیں تو وہ (اندر داخل ہو نے کیلئے) اسی طرح اجازت طلب کریں جیسے ان سے پہلے لوگ اجازت طلب کر تے تھے۔ (النور ۵۹)

۸۷۰۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تین بار اجازت طلب کرنی چاہیے اگر تجھے اجازت دے دی جائے تو ٹھیک ورنہ واپس لوٹ جاؤ۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۲۶۱۱۔ ۲۷۔ فتح)و مسلم (۲۱۵۳)۔

۸۷۱۔ حضرت سہل بن سعد ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اجازت کا مطلب کرنا دیکھنے سے بچنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۲۴۱۱۔ فتح)، و مسلم (۲۱۵۶)۔

۸۷۲۔ حضرت ربعی بن حراش بیان کر تے ہیں کہ بنو عامر قبیلے کے ایک آدمی نے ہمیں بتایا کہ اس نے نبیﷺ سے اجازت طلب کی اور آپ ؐ اس وقت گھر میں تشریف فرما تھے، اس نے کہا کیا میں اندر۔ آ جاؤں ؟ رسول اللہﷺ نے اپنے خادم سے فرمایا: اس شخص کے پاس جاؤ اور اسے اجازت طلب کرنے کا طریقہ سکھاؤ اور اسے کہو کہ وہ ’’السلام علیکم‘‘ کہے اور پھر کہے کیا میں اندر۔ آ سکتا ہوں ؟ اس آدمی نے سن لیا اور کہا ’’السلام علیکم‘‘ کیا میں اندر۔ آ سکتا ہوں ؟ پس نبیﷺ نے اسے اجازت مرحمت فرمائی اور وہ اندر داخل ہو گیا۔ (ابو داؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۵۱۷۷، ۵۱۷۸، ۵۱۷۹)، والنسائی فی ( (عمل الیوم واللیلۃ)) (۳۱۶)۔

۸۷۳۔ حضرت کلدہ بن حنبل ؓ بیان کر تے ہیں میں نبیﷺ کے پاس آیا تو آپ کو سلام کیے بغیر ہی آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا پس نبیﷺ نے فرمایا : واپس لوٹ جاؤ اور کہو ’’السلام علیکم‘‘ کیا میں اندر۔ آ جاؤں ؟                         (ابو داؤد ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :حسن۔ اخرجہ ابو داؤد (۵۱۷۶)و الترمذی (۲۷۱۰)، واحمد (/۴۱۴۳)۔

۱۴۱۔ باب: سنت تو یہی ہے کہ جب اجازت طلب کرنے والے سے پوچھا جائے کہ تم کون ہو؟ تو وہ جس نام یا کنیت سے مشہورو معروف ہو وہ بیان کرے اور اس کا اس طرح کہنا ’’میں ہوں‘‘ یا اس جیسے مبہم الفاظ کہنا پسندیدہ نہیں

۸۷۴۔ حضرت انس ؓ سے ان کی معراج کے متعلق مشہور حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : پھر جبریل ؑ مجھے لے کر آسمان دنیا کی طرف چڑھے اور دروازہ کھولنے کے لیے کہا تو ان سے پوچھا گیا آپ کون ہیں ؟ انھوں (جبریل ؑ) نے بتایا : جبریل۔ پو چھا گیا : اور آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا :

محمدﷺ ہیں پھر دوسرے آسمان کی طرف چڑھے اور پھر تیسرے چوتھے اور باقی آسمانوں پر چڑھے اور ہر آسمان کے دروازے پر پو چھا گیا آپ کون ہیں ؟ تو وہ (جبریل ؑ)کہتے : جبریل۔                (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : آخر۔ جہ البخاری (/۳۰۲۶۔ ۳۰۳۔ فتح)و مسلم (۱۶۲)۔

۸۷۵۔ حضرت ابوذر ؓ بیان کر تے ہیں کہ میں ایک رات باہر نکلا تو دیکھا کہ رسول اللہﷺ اکیلے چل رہے ہیں، پس میں بھی چاند کے سائے (چاندنی) میں چلنے لگا آپ مڑے تو آپ نے مجھے دیکھ لیا اور پو چھا یہ کون ہے ؟ میں نے کہا ابوذر۔                           (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۲۶۰۱۱۔ ۲۶۱۔ فتح)و مسلم (/۶۷۷۲) (۳۳)۔

۸۷۶۔ حضرت ام ہانی ؓ بیان کر تی ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کی خدمت میں آئی تو آپ اس وقت۔ غسل فر ما رہے تھے اور حضرت فاطمہؓ آپ کو پردہ کیے ہوئے تھیں آپ نے پوچھا یہ کون ہے ؟ میں نے کہا :ام ہانی !              (متفق علیہ)

توثیق الحدیث اور ۔ کے لئے حدیث نمبر ۸۶۴ ملاحظہ فرمائیں۔

۸۷۷۔ حضرت جابر ؓ بیان کر تے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے دروازہ کھٹکھٹایا آپ نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ میں نے کہا :میں ! آپ نے فرمایا :میں، میں (کا کیا مطلب)؟ گویا آپ نے نا پسندیدہ فر مایا۔                         (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :آخر۔ جہ البخاری (/۳۵۱۱۔ فتح)، و مسلم (۲۱۵۵)۔

۱۴۲۔ باب: چھینک لینے والا جب ’’الحمد اللہ‘‘ کہے تو اس کے جواب میں ’’یر حمک اللہ‘‘ کہنا مستحب ہے اور اگر وہ ’’الحمد اللہ‘‘ نہ کہے تو اس کو جواب دینا ناپسندیدہ ہے اور چھینک کا جواب دینے، چھینک لینے اور جمائی کے آداب

۸۷۸۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فر مایا: اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کر تا ہے اور جمائی کو نا پسند کر تا ہے۔ پس جب تم میں سے کوئی چھینک لے اور  ’’الحمد اللہ‘‘ کہے تو ہر مسلمان پر جو اسے سنے یہ حق ہے کہ وہ ’’یر حمک اللہ‘‘ کہے جبکہ جمائی تو شیطان کی طرف سے ہے۔ پس جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو وہ مقدور بھرا سے روکنے کی کوشش کرے، اس لیے کہ جب تم میں سے کوئی جمائی لیتا ہے تو شیطان اس سے ہنستا ہے۔                     (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۶۰۷۱۰۔ فتح)۔

۸۷۹۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے نبیﷺ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی چھینک لے تو اسے ’’الحمد اللہ‘‘ کہنا چاہیے اور اس کے بھائی یا ساتھی کو اس کے لیے ’’یر حمک اللہ‘‘ کہنا چاہیے اور جب وہ اس کے لیے ’’یر حمک اللہ‘‘ کہے تو اس چھینک لینے والے کو ’’یھدیکم اللہ و یصلح بالکم‘‘ (اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت دے اور تمہارے حال کی اصلاح فر مائے) کہنا چاہیے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۶۰۸۱۰۔ فتح)

۸۸۰۔ حضرت ابو موسیٰؓ بیان کر تے ہیں میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جب تم میں سے کوئی چھینک لے اور وہ ’’الحمد اللہ‘‘ کہے تو تم اس کے لیے ’’یر حمک اللہ‘‘ کہو اور اگر وہ۔  ’’الحمد لللہ‘‘ نہ کہے تو تم بھی اس کے لیے ’’یر حمک اللہ‘‘ نہ کہو۔                 (مسلم)

توثیق الحدیث :آخر۔ جہ مسلم (۲۹۹۲)۔

۸۸۱۔ حضرت انس ؓ بیان کر تے ہیں کہ نبیﷺ کے پاس آدمیوں نے چھینک لی، پس آپ ؐ نے ایک کو ’’یر حمک اللہ‘‘ کہا اور دوسرے کو جواب نہیں دیا ،آپ نے جس شخص کو جواب نہیں دیا تھا اس نے کہا :فلاں شخص نے چھینک لی تو آپ نے مجھے جواب نہیں دیا؟ آپ نے فرمایا : اس شخص نے ’’الحمد۔ اللہ‘‘ کہا تھا (اس لیے میں نے اسے جواب دیا) اور تم نے ’’الحمد اللہ‘‘ نہیں کہا۔                        (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ          البخاری (/۶۱۰۱۰۔ فتح)، و مسلم (۲۹۹۱)۔

۸۸۲۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب چھینک لیتے تو اپنے منہ پر اپنا ہاتھ یا اپنا کپڑا رکھ لیتے اور اس کے ذریعے اپنی آواز کو اہستہ کر تے۔ راوی کو شک ہے حضرت ابوہریرہ ؓ نے ’’خفض‘‘ کا لفظ بو لایا ’’غض‘‘ کا (معنی دونوں کا ایک ہی ہے۔ )           (ابوداؤد ترمذی۔ حسن صحیح ہے)

تو ثیق الحدیث :صحیح بشواھد۔ اخرجہ ابوداؤد (۵۰۶۹)، و الترمذی (۲۷۴۵)،

اس کی سند حسن ہے اس کے سب راوی ثقہ ہیں سوائے محمد بن عجلان کے وہ صدوق ہے جبکہ مستدرک حاکم (/۲۶۴۴)میں ابوہریرہؓ سے اس کی ایک اور سند بھی ہے جسے امام حاکم ؒ۔ نے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی ؒ نے ان کی موافقت کی ہے۔ اس باب میں ابن عمرؓ سے بھی حدیث ہے لہٰذا یہ حدیث اپنے شواہد کی بنا پر صحیح کی۔

۸۸۳۔ حضرت ابو موسیٰؓ بیان کر تے ہیں کہ یہود رسول اللہﷺ کے پاس اس امید پر بناوٹی چھینک لیتے کہ آپ ان کے لیے ’’یر حمک اللہ‘‘ کہیں گے لیکن آپ فر ماتے ہیں ’’یھد یکم اللہ ویصلح بالکم‘‘ ۔     (ابو داؤد، ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث :حسن۔ اخرجہ البخاری فی ( (الادب المفرد)) (۹۴۰)، وابو داود (۵۰۳۸)، و الترمذی (۲۷۳۹)، واحمد (/۴۰۰۴)، والحاکم (/۲۶۸۴)۔

۸۸۴۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو وہ اپنے ہاتھ سے اپنا منہ بند کر لے اس لیے کہ شیطان اندر داخل ہو جا تا ہے۔  (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۹۹۵)۔

۱۴۳۔ باب: ملاقات کے وقت مصافحہ کرنا، خندہ پیشانی سے ملنا، نیک آدمی کے ہاتھ کو بوسہ اور شفقت سے اپنے بچے کو چومنا اور آنے والے سے معانقہ کر نا مستحب ہے جبکہ جھک کر ملنا مکروہ ہے

۸۸۵۔ حضرت ابو الخطاب قتادہ بیان کر تے ہیں کہ میں نے حضرت انس ؓ سے دریافت کیا: رسول اللہﷺ کے صحابہ میں مصافحے کا معمول تھا؟ انھوں نے کہا :ہاں !      (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۵۴۱۱۔ فتح)۔

۸۸۶۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب اہل یمن آئے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:تمہارے پاس اہل یمن آئے ہیں اور یہی وہ پہلے لوگ ہیں جو مصافحے کا طریقہ لائے ہیں۔ (ابو داؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۵۲۱۳)، و احمد (/۲۱۲۳)۔

۸۸۷۔ حضرت برا ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :جب دو مسلمان ملاقات کر تے ہیں اور مصافحہ کر تے ہیں تو انہیں ان کے جدا ہونے سے پہلے بخش دیا جا تا ہے۔                 (ابو داؤد)

توثیق الحدیث :حسن بشواھدہ۔ اخرجہ ابو داؤد (۵۲۱۲)، و الترمذی (۲۷۲۷)، و ابن ماجہ (۳۷۰۳)، احمد (/۲۸۹۴و ۳۰۳)۔

اس کی سند ابو اسحق کی تدلیس اور اختلاط کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن مسند احمد (/۱۴۲۲) میں حضرت انس ؓ کی حدیث اس کا شاہد ہے جس بنا پر یہ حدیث حسن درجہ کی ہے۔  (ان شا اللہ)

۸۸۸۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم میں سے کوئی اپنے بھائی یا دوست سے ملاقات کرتا ہے تو کیا وہ اس کے لیے جھکے ؟ آپ نے فرمایا : ’’نہیں‘‘ اس نے پوچھا : تو کیا اس سے لپٹ جائے اور اسے بوسہ دے ؟آپ نے فرمایا: ’’نہیں‘‘ پھر اس نے پوچھا :تو کیا وہ اس کا ہاتھ پکڑے اور اس سے مصافحہ کرے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ہاں‘‘ ۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :حسن بشواھدہ۔ اخرجہ الترمذی (۲۷۲۸)، ابن ماجہ (۳۷۰۲)، و احمد (/۱۹۸۳)، والبیھقی (/۱۰۰۷)۔

اس حدیث کی سند حنظلہ بن عبداللہ السدوسی کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن یہ حدیث شواہد کی وجہ سے حسن درجے کی ہے۔

۸۸۹۔ حضرت صفوان بن عسال ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا چلو اس نبی کے پاس چلیں۔ پس وہ دونوں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے (حضرت موسیٰؑ کو دیے گئے)نو واضح معجزات کے متعلق دریافت کیا۔ راوی نے یہاں تک حدیث بیان کی کہ آخر۔ ان دونوں نے آپ کے ہاتھ اور پاؤں کو بو سہ دیا اور کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں۔ (ترمذی وغیرہ نے اسے صحیح آسانید سے روایت کیا ہے)

توثیق الحدیث :ضعیف۔ اخرجہ الترمذی (۲۷۳۳)، و ابن ماجہ (۳۷۰۵)۔

۸۹۰۔ حضرت ابن عمر ؓ سے ایک قصہ منقول ہے جس میں انھوں نے فرمایا: ہم نبیﷺ کے قریب ہو گئے اور ہم نے۔ آ پ کے دست مبارک کو بوسہ دیا۔        (ابوداؤد)

توثیق الحدیث :ضعیف اخرجہ ابوداؤد (۵۲۲۳)، و ابن ماجہ (۳۷۰۴)۔

اس کی سند میں یزید بن ابی زیاد راوی ضعیف ہے ،آخر ی عمر میں اس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا۔

۸۹۱۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کر تی ہیں کہ حضرت زید بن حارثہ ؓ مدینہ آئے تو اس وقت رسول اللہﷺ میرے گھر میں تشریف فرما تھے، پس وہ آپ کے پاس آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا تو نبیﷺ (شوق اور خوشی کے عالم میں) اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے ان کی طرف گئے۔ پس آپ نے ان سے معانقہ کیا اور انہیں بوسہ دیا۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :ضعیف۔ اخرجہ الترمذی (۲۸۳۲)۔

اس حدیث کی سند میں ابراہیم بن یحییٰ اور اس کے والد دو راوی ضعیف ہیں اور محمد بن اسحق مدلس راوی ہے،عنعنہ سے روایت کرتا ہے۔ پس یہ حدیث ضعیف ہے۔

۸۹۲۔ حضرت ابو ذر ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے فر مایا: کسی بھی نیکی کو حقیر نہ سمجھنا اگر چہ تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملو۔ (مسلم)

توثیق الحدیث و۔ کے لیے حدیث نمبر (۱۲۳)ملاحظہ فرمائیں۔

۸۹۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کر تے ہیں کہ نبیﷺ نے حضرت حسن بن علیؓ کو بوسہ دیا تو (پاس بیٹھے ہوئے) حضرت اقرع بن حابس ؓ نے کہا :میرے دس بچے ہیں اور میں نے تو ان میں سے کسی کو بھی کبھی بوسہ نہیں دیا۔ پس رسولﷺ نے فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۲۲۵) ملا حظہ فرمائیں۔

 

کتاب الجنائز

 

جنازوں کا بیان

 

۱۴۴ ۔باب: مریض کی عیادت کر نا،جنازے کے ساتھ جانا،نماز جنازہ پڑھنا،اس کی تدفین میں شریک ہو نا اور اسے دفنا نے کے بعد اس کی قبر پر کچھ دیر ٹھہر نا

۸۹۴۔ حضرت برا بن عازب ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں مریض کی عیادت کر نے، جنازے کے ساتھ جانے ، چھینک لینے والے کی چھینک کا (اگر وہ الحمد اللہ) کہے تو اسے یرحمک اللہ کہہ کر)جواب دینے، قسم پوری کر دینے، مظلوم کی مدد کرنے، دعوت قبول کرنے اور اسلام کے عام کر نے کا حکم فرمایا: (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۲۳۹)ملاحظہ فرمائیں۔

۵۹۸۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں : سلام کا جواب دینا، مریض کی عیادت کرنا، جنازہ کے ساتھ جانا۔ ، دعوت قبول کرنا اور چھینک لینے والے کی چھینک کا جواب دینا۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۲۳۸) ملاحظہ فرمائیں۔

۸۹۶۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل قیامت والے دن فرمائے گا:اے ابن آدم ! میں۔ بیمار ہوا تھا تو تو نے میری عیادت نہیں کی ! وہ (ابن آدم) کہے گا : اے میرے رب! میں کس طرح تیری عیادت کر تا ہے توتو رب العالمین ہے ؟!اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تجھے علم نہیں تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا لیکن تو نے اس کی عیادت نہیں کی؟کیا تجھے علم نہیں تھا کہ اگر تم اس کی عیادت کر تے تو تم مجھے اس کے ہاں پاتے ؟اے ابن آدم ! میں تجھ سے کھانا طلب کیا تھا لیکن تم نے مجھے کھانا نہیں کھلایا! وہ بندہ عرض کرے گا : اے میرے رب! میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا جبکہ تو تو خود تمام جہانوں کا رب، پروردگار اور پالنہار ہے ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا:کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا لیکن تم نے اسے کھانا نہیں کھلایا؟کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تم اسے کھانا کھلاتے تو تم اس (کے اجرو ثواب)کو میرے پاس پاتے ؟اے ابن آدم !میں نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا؟بندہ عرض کرے گا : اے میرے رب!میں تجھے کیسے پانی پلا تا حالانکہ تو خود رب العالمین ہے ؟اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا لیکن تو نے اسے پانی نہیں پلا یا کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تم اسے پانی دیتے تو تم اس (کے اجرو ثواب) کو میرے ہاں پاتے ؟ (مسلم)

توثیق الحدیث :أخر جہ مسلم (۲۵۶۹)۔

۸۹۷۔ حضرت ابو موسیٰؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :مریض کی عیادت کرو، بھوکے کو کھانا کھلاؤ اور قیدی کو رہا کراؤ۔                         (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۶۷۶۔ فتح)۔

۸۹۸۔ حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کر تا ہے تو واپس آنے تک وہ جنت کے تازہ پھل چننے میں مصروف رہتا ہے۔ پوچھا گیا۔ یا رسول اللہ ’’خرفۃ الجنۃ۔ ‘‘ سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا: اس کے تازہ پھل چننا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۵۶۸) (۴۱)

۸۹۹۔ حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو مسلمان کسی مسلمان کی صبح کے وقت عیادت کر تا ہے تو شام ہونے تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے دعائے خیر کرتے رہتے ہیں اور اگر شام کے وقت عیادت کرتا ہے تو صبح ہونے تک ستر ہزار فر شتے اس کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں اور اس کے لئے جنت میں چنے ہوئے پھلوں کا حصہ ہے۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۳۰۹۸، ۳۰۹۹)، و الترمذی (۹۶۹)، و ابن ماجہ (۱۴۴۲)۔

۹۰۰۔ حضرت انس ؓ بیان کر تے ہیں کہ ایک یہودی لڑ کا نبیﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا، وہ بیمار ہو گیا تو نبیﷺ اس کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے اور اس کے سر کے پاس بیٹھ گئے۔ آپ نے اس سے فرمایا: اسلام قبول کر لو۔ پس اس نے اپنے والد کی طرف دیکھا جو اس کے پاس ہی تھا ،اس نے کہا ابوالقاسم کی بات مان لو، پس وہ مسلمان ہو گیا تو نبیﷺ اس کے پاس باہر تشریف لائے تو یہ فر ما رہے تھے، تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اسے جہنم کی آگ سے بچا لیا۔ (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۲۱۹۳۔ فتح)

۱۴۵۔ باب : مریض کو کن الفا ظ سے دعا دی جائے ؟

۹۰۱۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ سے جب کوئی آدمی اپنی کسی بیماری کے بارے میں عرض کرتا یا سے کوئی پھوڑا یا زخم ہو تا تو نبیﷺ اپنی انگلی کے ساتھ ایسے کرتے، حدیث کے راوی سفیان بن عیینہ نے اپنی انگشت شہادت زمین پر رکھی پھر اسے اٹھا یا (یعنی آپ اس طرح کر تے تھے) اور آپ یہ دعا پڑھتے : اللہ تعالیٰ کے نام سے ہماری زمین کی مٹی ہم میں سے بعض کے لعاب دہن کے ساتھ مل کر ہمارے رب کے حکم سے ہمارے مریض کے لیے شفا یابی کا ذریعہ ہو گی۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۰۶۱۰۔ فتح)، و مسلم (۲۱۹۴)۔

۹۰۲۔ حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبیﷺ اپنے بعض اہل خانہ کی عیادت کرتے تو آپ اپنا دایاں ہاتھ (تکلیف والے حصے پر)پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے : اے اللہ !لوگوں کے رب !تکلیف کو دور فرما دے، شفا عطا فرما، تو تو نے ہی شفا عطا فرمانے والا ہے تیری شفا کے سوا کوئی شفا نہیں، تو ایسی شفا عطا فرما کہ وہ بیماری کو چھوڑے۔          (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۰۶۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۱۹۱)۔

۹۰۳۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے ثابت ؒ سے فرمایا :کیا میں تمہیں رسول اللہﷺ والا (بتایا ہو ا)دم نہ کروں ؟ انھوں نے کہا کیوں نہیں (ضرور کریں)۔ تو حضرت انس ؓ نے یہ دعا پڑھی : اے اللہ !لوگوں کے رب! تکلیف کو لے جانے والے ! شفا عطا فر ما، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے سوا کوئی شافی نہیں، ایسی شفا عطا فرما جو بیماری کو نہ چھوڑے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۰۶۱۰۔ فتح)۔

۹۰۴۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے میری عیادت کی تو آپ نے یہ دعا فر مائی : اے اللہ ! سعد کو شفا عطا فرما، اے اللہ ! سعد کو شفا۔ عطا فرما، اے اللہ! سعد کو شفا عطا فرما۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۶۲۸) (۸)

۹۰۵۔ حضرت ابو عبد اللہ عثمان بن ابو العاص ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو اپنے جسم میں محسوس ہونے والی تکلیف کے بارے میں بتا یا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: جسم کے جس حصے میں تم تکلیف محسوس کر تے ہو وہاں اپنا ہاتھ رکھو اور تین مرتبہ ’’بسم اللہ‘‘ اور سات مرتبہ ’’اعوذبعزۃاللہ وقدرتہ من شرما أجد وأحاذر‘‘ (میں اس برائی سے جو میں پاتا ہوں اور جس سے ڈرتا ہوں اللہ تعالیٰ کی عزت اور اس کی قدرت کی پناہ میں آتا ہوں)پڑھو۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۲۰۲)

۹۰۶۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی ایسے مریض کی عیادت کرے جس کی موت کا وقت ابھی نہ آیا ہو اور وہ اس کے پاس سات مرتبہ یہ دعا پڑھے ’’میں اللہ عظیم جو عرش عظیم کا رب ہے ، سے سوال کرتا ہوں کہو ہ تجھے شفا عطا فرمائے‘‘ تو اللہ تعالیٰ اسے اس مرض سے عافیت دے دے گا۔ (ابو داؤد، ترمذی) حدیث حسن ہے۔ امام حاکمؒ نے کہا یہ حدیث شرط بخاری پر صحیح ہے۔

توثیق الحدیث :حسن۔ اخرجہ ابو داؤد (۳۱۰۶)، و الترمذی (۲۰۸۳)، والحاکم (/۳۴۲۱)۔

اس حدیث کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں سوائے منہال بن عمرو کے صدوق ہے۔

۹۰۷۔ حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبیﷺ ایک دیہاتی کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور آپ کا معمول تھا کہ۔ آ پ جس کسی کی بھی عیادت کیلئے تشریف لے جاتے تو یہ دعا پڑھتے : کوئی بات نہیں اگر اللہ نے چاہا تو یہ بیماری گنا ہوں سے پاک کرنے والی ہے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۶۲۴۶۔ فتح)۔

۹۰۸۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ حضرت جبرائیل ؑ نبیﷺ کے پاس آئے تو پوچھا اے محمد ! کیا آپ بیمار ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ہاں ! تو انھوں نے یہ دعا پڑھی ’’اللہ تعالیٰ کے نام سے آپ پر دم کرتا ہوں ہر اس چیز سے جو تجھے نقصان پہنچائے ،ہر نفس کے شر اور حا سد کی آنکھ کے شر سے اللہ تعالیٰ آپ کو شفا عطا فرمائے اللہ تعالیٰ کے نام سے تجھے دم کرتا ہوں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۱۸۶)

۹۰۹۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ دونوں رسول اللہﷺ پر اس بات کی گواہی دیتے تھے کہ آپ نے فرمایا :جو شخص یہ کہے ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے‘‘ تو اس کا رباس کی تصدیق فرماتا ہے اور کہتا ہے ’’میرے سوا کوئی معبود نہیں اور میں سب سے بڑا ہوں‘‘ اور جب وہ کہتا ہے ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’میرے سوا کوئی معبود نہیں، میں یکتا ہوں، میرا کوئی شریک نہیں، اور جب وہ (بندہ) کہتا ہے ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ،اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لئے تعریف ہے‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’میرے سوا کوئی معبود نہیں میری ہی بادشاہی ہے اور میرے لئے ہی تعریف ہے‘‘ اور جب بندہ کہتا ہے ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘‘ گناہ سے پھر نا اور نیکی کرنا صرف اللہ کی توفیق سے ممکن ہے، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’میرے سوا کوئی معبود نہیں، گناہ سے پھیرنا اور نیکی کرنے کی توفیق دینا بھی صرف میرا ہی کام ہے آپ فرمایا کر تے تھے، جو شخص یہ کلمات اپنے مرض میں پڑھے پھر وہ فوت ہو جائے تو اسے جہنم کی آگ نہیں کھائے گی۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ التر مذی (۳۴۳۰)، و ابن ماجہ (۳۷۹۴)، و ابن حبان (۲۳۲۵)۔

۱۴۶۔ باب : مریض کے اہل خانہ سے مریض کی حالت پوچھنا مستحب ہے

۹۱۰۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ رسول اللہﷺ کے پاس اس بیماری میں باہر آئے جس میں آپ نے وفات پائی تو لوگوں نے پوچھا : اے ابوالحسن ! رسول اللہﷺ نے کیسے صبح کی؟ تو انھوں نے بتایا کہ الحمد للہ انھوں نے افاقے کی صورت میں صبح کی ہے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۴۲۸۔ فتح)۔

۱۴۷۔ باب: جو شخص اپنی زندگی سے مایوس ہو جائے وہ کیا دعا پڑھے

۹۱۱۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو فرماتے ہوئے سنا جب کہ آپ میرے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے :اے اللہ ! مجھے بخش دے مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیق اعلیٰ سے (اپنے ساتھ) ملا دے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۲۷۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۴۴۴)۔

۹۱۲۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو موت (نزع) کے عالم میں دیکھا آپ کے پاس ایک پیالہ تھا جس میں پانی تھا، آپ پیالے میں اپنا ہاتھ ڈالتے پھر اپنے چہرۂ مبارک پر پانی ملتے، پھر یہ دعا پڑھتے : اے اللہ ! موت کی سختیوں اور بے ہو شیوں پر میری مدد فرما۔ (ترمذی)

توثیق الحدیث : ضعیف بھذاللفظ۔ اخرجہ الترمذی (۹۷۸)والنسائی فی ( (عمل الیوم واللیلۃ)) (۱۶۲۳)و ابن ماجہ (۱۰۹۳)و احمد (/۶۴۶و۷۰و۷۷و۱۵۱)و ابن سعد فی ( (الطبقات الکبری)) (/۲۵۸۲) والحکم (/۴۶۵۲)۔

اس حدیث کی سند ضعیف ہے اس لئے کہ اس میں ایک راوی موسیٰ بن سرجس مجہول الحال ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ الفاظ صحیح بخاری کی ایک روایت کے الفاظ ہیں جو سیدہ عائشہ ؓ سے مروی ہے صحیح بخاری میں ہے کہ آپ یہ دعا پڑھ رہے تھے ( (لَا الہَ الااﷲُانَّ لِلْمَوْتِ سَکَرَاتُ))پس یہ حدیث مذکورہ بالا دو وجوہ سے ضعیف ہے۔

۱۴۸۔ باب: مریض کے اہل خانہ اور اس کے خد مت گاروں کو مریض کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے اور اس کی طرف سے پیش آنے والی مشقتوں پر صبر کرنے اور اسی طرح جس شخص کی موت حد یا قصاص کے نافذ ہونے کی وجہ سے قریب ہو اس کے ساتھ بھی حسن سلوک کی وصیت کر نا مستحب ہے

۹۱۳۔ حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ جہینہ قبیلے کی ایک عورت جو زنا کی وجہ سے حاملہ تھی، نبیﷺ کی خدمت میں آئی تو اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں (زنا سے) حد کو پہنچ گئی ہوں، پس آپ اسے مجھ پر نافذ فرمائیں۔ رسول اللہﷺ نے اس کے ولی (سر پرست) کو بلایا اور فرمایا: اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اور جب یہ بچہ جنم دے لے تو اسے میرے پاس لے آنا پس اس نے ایسے ہی کیا۔ نبیﷺ نے اس کے بارے میں حکم فرمایا تو اس عورت پر اس کے کپڑے مضبوطی سے باندھ دیے گئے پھر آپ نے اس کے بارے میں فرمایا تو اسے سنگسار کر دیا گیا اور پھر آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔     (مسلم)

توثیق الحدیث اور ۔ کے لئے حدیث (۲۲) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۴۹۔ باب:مریض کا یہ کہنا کہ مجھے تکلیف یا شدید تکلیف ہے، یا بخار ہے یا میرا سر گیا اور اس قسم کے کلمات کہنا جائز ہے، اس میں کوئی کراہت نہیں لیکن یہ تب ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ناراضی اور جزع فزع کے اظہار کے طور پر نہ ہو۔

۹۱۴۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کر تے ہیں کہ میں نبیﷺ کی خد مت میں حاضر ہو ا، آپ اس وقت بخار میں مبتلا تھے میں نے آپ کو ہاتھ لگا یا تو میں نے کہا آپ کو تو شدید بخار ہے ! آپ نے فرمایا: ہاں ! مجھے اتنا بخار ہوتا ہے جتنا تم میں سے دو آدمیوں کو ہو تا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۱۰۱۰۔ فتح)و مسلم (۲۵۷۱)۔

۹۱۵۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ میری عیادت کیلئے تشریف لائے جبکہ مجھے شدید درد تھا میں نے عرض کیا مجھے جو تکلیف پہنچی ہے اسے آپ دیکھ ہی رہے ہیں اور میں مالدار آدمی ہو۔ں اور میری وارث صرف میری ایک بیٹی ہی ہے، پھر باقی حدیث بیان کی۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث اور ۔ کے لئے نمبر (۶)ملا حظہ فرمائیں۔

۹۱۶۔ قاسم بن محمد بیان کر تے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے کہا : ہائے میرا سر ! نبیﷺ نے فرمایا: ’’بلکہ میں کہتا ہوں : ہائے میر اسر! (یعنی میرے سر کا درد)‘‘ ۔ اور پھر باقی حدیث بیان کی۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۲۳۱۰۔ فتح)۔

۱۵۰۔ باب: قریب الموت انسان کو ’’لَا الٰہَ۔ آ لا اللہ ُ ‘‘ کی تلقین کر نا

۹۱۷۔ حضرت معاذ ؓ بیان کر تے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’جس شخص کی آخر ی بات لا الہ الا اللہ۔ ہو گی وہ جنت میں جائے گا۔ ‘‘ (ابوداؤد، حاکم امام حاکم نے صحیح الاسناد کہا ہے)

توثیق الحدیث :صحیح بشواھد۔ اخرجہ ابو داؤد (۳۱۱۶)والحاکم (/۳۵۱۱)، و احمد (/۲۴۷۵)و ابن مندہ فی ( (التوحید)) (۱۸۷)والطبرانی فی ( (الکبیر)) (/۱۱۲۲۰)والمزی فی ( (تھذیب الکمال)) (/۷۴۱۳)۔

امام حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے ، امام ذہبی نے اس کی مواقف کی ہے۔ اس کے سب راوی ثقہ ہیں سوائے صالح بن ابی غریب کے۔ امام ذہبی نے کہا کہ اس سے حیوہ بن شریح، لیث اور ابن لہینہ وغیرہ نے احادیث روایت کی ہیں۔ ابن حبان نے اسے ثقہ قرار دیا ہے۔ اور یہ راوی ان شا اﷲ حسن الحدیث ہے۔ ابن حبان ابوہریرہ ؓ کی حدیث اس کی شاہد بھی ہے اور یہ حدیث شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ (واﷲ اعلم)

۹۱۸۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنے مردوں (فوت ہونے والوں)کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو‘‘ ۔                 (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۹۱۶)۔

۱۵۱۔ باب:میت کی آنکھیں بند کرنے کے بعد کیا کہا جائے ؟

۹۱۹۔ حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ابو سلمہ کے پاس آئے جب کہ (فوت ہونے کے بعد) ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں ،آپ نے انہیں بند کیا پھر فرمایا: جب روح قبض کی جاتی ہے (اور اسے آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے) تو آنکھیں اس کے پیچھے لگتی ہیں۔ (یہ سن کر)ان کے گھر کے افراد نے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔ آپ نے فرمایا: تم اپنے لئے خیرو بھلائی ہی کی دعا کرو،اس لئے کہ تم جو کہتے ہو فرشتے اس پر امین کہتے ہیں۔ پھر فرمایا : ’’اے اللہ ! ابو سلمہ کو بخش دے، مہد یین میں اس کے درجات بلند فرما اور اس کے بعد اس کے پسماندگان میں اس کا جانشین بن جا، یارب العالمین! اسے اور ہمیں معاف فرما،اس کے لیے اس کی قبر کو فراخ کر دے اور اس کے لیے اس کی قبر کو منور فرما‘‘ ۔    (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۹۲۰)

۱۵۲۔ باب: میت کے پاس کیا کہا جائے اور میت کے وارث کیا کہیں ؟

۹۲۰۔ حضرت ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم مریض یا میت کے پاس جاؤ تو خیرو بھلائی کی بات کہو،اس لیے کہ تم جو کچھ کہتے ہو فرشتے اس پر امین کہتے ہیں‘‘ ۔ حضرت ام سلمہ کہتی ہیں جب ابو سلمہؓ فوت ہو گئے تومیں نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو عرض کیا: اے اللہ کے رسول!ابو سلمہ فوت ہو گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’تم یہ کہو اے اللہ! مجھے بخش دے اور اسے بھی بخش دے اور مجھے اس سے بہتر عوض عطا فرما‘‘ ۔ پس میں نے یہ دعا پڑھی تو اللہ نے مجھے حضرت ابو سلمہ سے بہتر حضرت محمدﷺ عوض میں عطا فرمائے۔ (امام مسلم نے اس طرح۔  ’’جب تم مریض یا میت کے پا س جاؤ‘‘ شک کے ساتھ روایت کیا ہے جبکہ ابوداؤد نے شک کے بغیر صرف لفظ ’’میت‘‘ کے ساتھ روایت کیا ہے۔

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۹۱۹)و ھو عند أبی داود (۳۱۱۵)۔

۹۲۱۔ حضرت ام سلمہ ؓ ہی بیان کر تی ہیں، میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’کسی بندے کو جب کوئی مصیبت پہنچے اور وہ یہ دعا پڑھے ہم یقیناً اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں اور ہم یقیناً اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اے اللہ !مجھے میری مصیبت میں اجر عطا فرما اور اس کی جگہ مجھے بہترین جانشین عطا فرما‘‘ تو اللہ تعالیٰ اس کی مصیبت میں اسے اجر عطا فرماتا ہے اور اسے اس کے عوض بہترین جانشین عطا فرماتا ہے۔ ‘‘ حضرت ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب حضرت ابو سلمہؓ فوت ہو گئے تو میں نے اسی طرح دعا کی جس طرح رسول اللہﷺ نے مجھے حکم فرمایا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بہتر جا نشین رسول اللہﷺ عطا فر ما دے۔               (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۹۱۸) (۴)

۹۲۲۔ حضرت ابوموسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جب شخص کا کوئی بچہ فوت ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے :تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کر لی؟فرشتے کہتے ہیں : ہاں !پھر اللہ تعالیٰ فرما تا ہے : تم نے اس کے دل کا پھل (ٹکڑا)لے لیا؟وہ کہتے ہیں :جی ہاں !پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے : میرے بندے نے پھر کیا کہا؟ فرشتے جواب دیتے ہیں۔ اس نے تیری حمد بیان کی اور آنا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ پس اللہ فر ماتا ہے : میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بناؤ اور اس کا نام ’’بیت الحمد‘‘ رکھو۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :حسن لغیرہ۔ اخرجہ الترمذی (۱۰۲۱)،و احمد (/۴۱۵۴)،و ابن حبان (۲۹۴۸)۔

اس کی سند ابو سنان عیسیٰ بن سنان کی وجہ سے ضعیف ہے ،یہ راوی لین الحدیث ہے ،جبکہ باقی راوی ثقہ ہیں۔ لیکن اس کی ایک سند اور ہے جسے امام ثقفی نے ’’الثقفیات (//۲۱۵۳)‘‘ میں نقل کیا ہے ،اس کے سب راوی ثقہ ہیں سوائے حارث کے ،اسے امام دار قطنی نے ضعیف قرار دیا۔ بہر حال یہ حدیث بالجملہ حسن درجے کی ہے۔ (ان شا اللہ)

۹۲۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے مومن بندے کے لیے جب میں اس دنیا کی پسندیدہ اور محبوب ترین چیز چھین لوں پھر وہ اس پر ثواب کی نیت اور امید رکھے (یعنی صبر کرے) میرے پاس جنت کے سوا کوئی اور بدلہ نہیں۔ ‘‘          (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۴۱۱۱۔ ۲۴۲۔ فتح)۔

۹۲۴۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ بیان کر تے ہیں کہ نبیﷺ کی ایک بیٹی نے آپ کو بلانے کے لیے پیغام بھیجا اور آپ کو بتا یا کہ اس کا بچہ یا بیٹا موت کی آغوش میں ہے۔ آپ نے قاصد سے فر ما یا: اس کے پاس جاؤ اور سے بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے جو اس نے لیا اور اسی کا ہے جو اس نے دیا اور ہر چیز اس کے پاس ایک وقت مقرر کے ساتھ ہے۔ اسے حکم دے کہ صبر کرے اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھے۔ ‘‘ اور باقی حدیث بیان کی۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث اور ۔ کے لیے حدیث نمبر (۲۹)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۵۳۔ باب: میت پر بین اور نوحہ کے بغیر رونا جائز ہے

جہاں تک نوحے کا تعلق ہے تو یہ حرام ہے ،کتاب النھی میں اس کے بارے میں ایک باب آئے گا (ان شا اللہ) اور (چیخ پکار سے) رونے کی ممانعت کے بارے میں بھی بہت سی احادیث آئی ہیں۔ اور یہ جو حدیث ہے کہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے ،اس کی تاویل کی گئی ہے کہ یہ ان لوگوں پر محمول کی گئی ہے جو اس کی وصیت کر جائیں اور جس رونے سے منع کیا گیا ہے وہ ایسا رونا ہے جس میں بین ہو یا نوحہ ہو۔ بین اور نوحے کے بغیر رونے کے جواز پر بکثرت احادیث ہیں جن میں سے چند حسب ذیل ہیں۔

۹۲۵۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی عیادت کی اور حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بھی آپ کے ساتھ تھے پس (وہاں پہنچ کر) رسول اللہﷺ رو پڑے ، جب لوگوں نے رسول اللہﷺ کو روتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی پڑے۔ آپ ؐ نے فرمایا: کیا تم سنتے نہیں ؟یقیناً اللہ تعالیٰ آنکھ کے آنسو اور دل کے غم پر عذاب نہیں دے گا لیکن اس (زبان) کی وجہ سے عذاب دے گا یا رحم کر گا، آپ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ فرمایا۔                      (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۷۵۳۔ فتح)،و مسلم (۹۲۴)۔

۹۲۶۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے نواسے کو اٹھا کر آپ کی طرف لایا گیا وہ موت کی آغوش میں تھا (کہ اسے دیکھ کر) رسول اللہﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔ حضرت سعد ؓ نے آپ سے کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ کیا ہے ؟آپ نے فرمایا : ’’یہ تو رحمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے رحم دل بندوں ہی پر رحم فرماتا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث اور ۔ کے لئے حدیث نمبر ۲۹ملاحظہ فرمائیں۔

۹۲۷۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اپنے بیٹے حضرت ابراہیمؓ کے پاس آئے اور وہ اس وقت جان کنی کے عالم میں تھے ،پس رسول اللہﷺ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو پڑے۔

حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے آپ سے کہا: اے اللہ کے رسول ! آپ روتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: اے ابن عوف! یہ تو رحمت ہے‘‘ اور آپ دوبارہ رو پڑے اور فرمایا: بلا شبہ آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور دل غمگین ہے لیکن ہم وہی بات کریں گے جو ہمارے رب کو راضی کر دے اور اے ابراہیم !ہم تیری جدائی پر یقیناً غمگین ہیں‘‘ ۔ (بخاری اور مسلم نے بھی اس کا بعض حصہ روایت کیا ہے)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۷۲۳۔ ۱۷۳)،و مسلم (۲۳۱۵)۔

۱۵۴۔ باب : میت میں کوئی عیب نظر آئے تو اسے بیان نہیں کرنا چاہیے

۹۲۸۔ حضرت ابو رافع اسلم، رسول اللہﷺ کے آزاد کردہ غلام سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے کسی میت کو غسل دیا اور اس کے عیب چھپائے تو اللہ تعالیٰ اسے چالیس مرتبہ معاف فرمائے گا‘‘ ۔          (حاکم اسے امام حاکم نے شرط مسلم پر صحیح کہا ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ الحاکم (/۳۵۴۱و ۳۶۲) والبیھقی (/۳۹۵۳)اسے امام حاکم ؒ نے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی ؒ نے ان سے موافقت کی ہے۔

۱۵۵۔ باب:میت کی نماز جنازہ پڑھنے اس کے ساتھ چلنے، اس کی تدفین میں شریک ہونے کا بیان اور جنازوں کے ساتھ عورتوں کے چلنے کی کراہت

جنازے کے ساتھ چلنے کی فضیلت پہلے بیان ہو چکی اب کچھ مزید احادیث درج ذیل ہیں :

۹۲۹۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص جنازے میں شریک ہو حتیٰ کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی گئی تو اس کیلئے ایک قیراط ثواب ہے اور جو شخص اس کی تدفین تک شریک رہے تو اس کے لیے دو قیراط ثواب ہے‘‘ ۔ پوچھا گیا : دو قیراط سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا: دو بڑے پہاڑوں کی مانند‘‘ ۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۹۶۳۔ فتح)،و مسلم (۹۴۵)۔

۹۳۰۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص ایمان و احتساب (ثواب کی نیت) سے کسی مسلمان کے جنازے میں شریک ہو اور اس کی نماز جنازہ پڑھنے اور اس کے دفن ہونے سے فارغ ہونے تک اس کے ساتھ رہے تو دو قیراط ثواب کے ساتھ واپس لوٹتا ہے اور ہر قیراط احد پہاڑ کی مانند ہے اور اگر کوئی شخص اس کی نماز جنازہ پڑھے اور اس کی تدفین سے پہلے ہی واپس۔ آ جائے تو تو وہ ایک قیراط ثواب کے ساتھ واپس آتا ہے۔ ‘‘           (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۰۸۱۔ فتح)

۹۳۱۔ حضرت ام عطیہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ہمیں جنازوں کے ساتھ جانے سے منع کیا گیا ہے لیکن ہم پر سختی نہیں کی گئی۔                (متفق علیہ) اس کا معنی ہے کہ عورتوں کو جنازے کے ساتھ شریک ہونے سے منع تو کیا گیا ہے لیکن دیگر محرمات کی طرح سختی نہیں کی گئی۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۴۴۳۔ فتح)،و مسلم (۹۳۸)۔

۱۵۶۔ باب: نماز جنازہ میں نمازیوں کی کثیر تعداد ہونا اور تین یا اس سے زیادہ صفیں بنانا مستحب ہے

۹۳۲۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس میت کی نماز جنازہ میں سو مسلمان آدمی شریک ہوں اور وہ سب اسے کے حق میں سفارش کریں تو اس کے بارے میں ان کی سفارش قبول ہو تی ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۹۴۷)۔

۹۳۳۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کر تے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’جو کوئی مسلمان آدمی فوت ہو جائے اور چالیس ایسے آدمی جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراتے ہوں ، اس کی نماز جنازہ پڑھیں تو اللہ تعالیٰ اس کے حق میں ان کی سفارش قبول فرماتا ہے۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۹۴۸)

۹۳۴۔ حضرت مرثد بن عبد اللہ یزنی بیان کرتے ہیں کہ حضرت مالک بن ہبیر ہ ؓ جب نماز جنازہ پڑھتے اور وہ سمجھتے کہ لوگ کم ہیں تو پھر وہ انہیں تین حصوں (صفوں میں تقسیم کر دیتے ،پھر فرماتے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص پر تین صفیں۔ نماز جنازہ پڑھیں تو اس نے جنت واجب کر لی‘‘ ۔              (ابو داؤد ، ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :حسن لغیرہ۔ اخرجہ ابوداؤد (۳۱۶۶)،والتر مذی (۱۰۶۸)و ابن ماجہ (۱۴۹۰)و احمد (/۷۹۴) والحاکم (/۳۶۲۱)،والبیھقی (/۳۰۴)۔

۱۵۷۔ باب: نماز جنازہ میں کیا پڑھنا چاہئے ؟

نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہے ، پہلی تکبیر کے بعد أعوذ باللہ پڑھے اور سورۂ فاتحہ (اور ساتھ کوئی اور سورت) پڑھے پھر دوسری تکبیر کہے اور نبی کریمﷺ پر درود پڑھے اللھم صل علی محمد و علی آل محمد‘‘ اور افضل یہی ہے کہ ’’کما صلیت علی ابراہیم‘‘ تک پورا پڑھے اور عوام اکثریت طرح سورۂ احزاب کی آیت (۵۶) ( (ان اللہ و ملا ئکۃ یصلون علی النبی)) کی یہ تلاوت پر اکتفا نہ کرے اس طرح نماز درست نہیں ہو گی۔ (کیونکہ یہ سنت کے خلاف ہے)۔ پھر تیسری تکبیر کہہ کر میت اور مسلمانوں کیلئے دہ دعائیں پڑھے جو ہم ان شا اللہ آئندہ احادیث میں بیان کریں گے پھر چوتھی تکبیر کہے اور دعا کرے اور سب سے احسن دعا یہ ہے : ( (اللّٰھُمَّ۔  لَا تَحْرِ مُنَا أَجْرَہُ وَلَا تَقْتِنَّا بَعْدَہُ وَاغْفِرْلَنَا وَلَہُ))۔

اور پسندیدہ بات تو یہ ہے کہ چوتھی تکبیر کے بعد بھی لمبی دعا کرے ، لوگوں کے معمول کے خلاف (یعنی فورا سلام نہ پھیر دے)جیسا کہ ابن ابی اوفی کی حدیث سے ثابت ہے اور ہم اسے ان شا اللہ ذکر کریں گے ۔  تیسری تکبیر کے بعد جو دعائیں منقول ہیں ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں۔

۹۳۵۔ حضرت ابو عبدالرحمن عوف بن مالک ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک نماز جنازہ پڑھائی تو میں نے آپ کی وہ دعا یاد کر لی، آپ فرماتے تھے :اے اللہ !اسے بخش دے، اس پر رحم فرما، اس کو عافیت میں رکھ اور اس سے درگزر فرما، اس کی مہمان نوازی اچھی کر اس کی قبر فراخ کر دے، اس کو پانی، برف اور اولوں کے ساتھ دھو دے اور اسے گناہوں سے اس طرح صاف کر دے جیسے تو نے سفید کپڑا میل سے صاف کر دیا، اس کو اس کے دنیاوی گھر سے بہتر گھر، اس کے گھر والوں سے بہتر گھر والے اور اس کی بیوی سے بہتر بیوی عطا فرما اور اسے جنت میں داخل فرما اور اسے عذاب قبر اور عذاب جہنم سے بچا۔ (حدیث کے راوی حضرت عوف بن مالک ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اس انداز سے دعا مانگی) حتیٰ کہ میں نے تمنا کی کہ یہ میت میں ہو تا۔        (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۹۶۳)

۹۳۲۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ حضرت ابو قتادہ ؓ اور ابو ابراہیم اشہلی اپنے والد سے ،جو صحابی ہیں ، روایت کر تے ہیں کہ نبیﷺ نے ایک نماز جنازہ پڑھی تو اس میں یہ دعا فرمائی : اے اللہ! ہمارے زندہ اور مردہ کو، ہمارے چھوٹے اور بڑوں کو ہمارے مردوں اور عورتوں کو، ہمارے حاضر اور غائب سبکو بخش دے۔ اے اللہ !ہم میں سے جس کو تو زندہ رکھے اسے اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے جس کو تو فوت کر دے اسے ایمان پر فوت کر۔ اے اللہ !ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ کرنا اور ہمیں اس کے بعد کسی فتنے اور آزمائش سے دو چار نہ کرنا۔ (ترمذی) امام ترمذی نے اسے ابو ہریرہ ؓ اور اشہلی کی روایت سے بیان کیا اور امام ابوداؤد نے حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابو قتادہ ؓ کی روایت سے بیان کیا۔ امام حاکم بیان کر تے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ امام تر مذی نے بیان کیا کہ

امام بخاری نے فرمایا اس حدیث کی روایات میں اشہلی کی روایت سب سے زیادہ صحیح ہے۔ امام بخاری ؒ نے مزید فرمایا کہ اس باب میں سب سے زیادہ صحیح حضرت عوف بن مالک ؓ کی حدیث ہے۔

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۳۲۰۱)و الترمذی (۱۰۲۴)، والنسائی فی ( (عمل الیومو اللیۃ)) (۱۰۸۰)،و ابن ماجہ (۱۴۹۸)،و احمد (/۳۶۸۲) والحاکم (/۳۵۸۱) والبیھقی (/۴۱۴)۔

۹۳۷۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کر تے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جب تم میت پر نماز پڑھو تو اس کے لیے خلوص کے ساتھ دعا کرو۔ (ابو داؤد)

توثیق الحدیث : حسن۔ اخرجہ ابو داؤد (۳۱۹۹)و ابن ماجہ (۱۴۹۷)و ابن حبان (۳۰۷۶) والبیھقی (/۴۰۴)۔

۹۳۸۔ حضرت ابو ہریرہؓ ہی سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے نماز جنازہ میں یہ دعا پڑھی : اے اللہ! تو ہی اس کا رب ہے ، تو نے ہی اے پیدا فرمایا، تو نے ہی اے اسلام کی ہدایت فرمائی، تو نے ہی اس کی روح قبض کی اور تواس کے ظاہرو باطن کو خوب اچھی طرح جانتا ہے ،ہم تیرے پاس اس کے سفارشی بن کر آئے ہیں پس تو اسے بخش دے۔  (ابوداؤد)

توثیق الحدیث : حسن لغیرہ۔ اخرجہ ابوداؤد (۳۲۰۰)والنسائی فی ( (عمل الیومو اللیلۃ)) (۱۰۷۸)و احمد (/۲۵۶۲و ۳۴۵و۳۶۳و۴۵۹) والبیھقی (/۴۲۴)۔

اس حدیث کی سند ضعیف ہے کیو نکہ علی بن شماخ مقبول راوی ہے ، متابعت کے وقت او رطبرانی ’’الدعا ء (۱۱۷۸،۱۱۸۰)‘‘ میں اس کا تابع موجود ہے جس کی وجہ سے یہ حدیث حسن لغیرہ ہے۔

۹۳۹۔ حضرتو اثلہ بن اسقع ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک مسلمان آدمی کی نماز جنازہ پڑھائی، پس میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا:اے اللہ ! فلاں بن فلاں تیرے عہدو امان اور تیری حفاظت کی پناہ میں ہے پس تو اسے قبر کے فتنے اور جہنم کے عذاب سے بچا ،تو وعدے کو پورا کرنے والا اور تعریف کے لائق ہے ،اے اللہ! اسے بخش دے اس پر رحم فرما، بے شک تو بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔        (ابوداؤد)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۳۲۰۲)و ابن ماجہ (۱۴۹۹)و احمد (/۴۹۱۳)و ابن حبان (۳۰۷۴)۔

اس حدیث کی سند صحیح ہے ، اس کے سب راوی ثقہ ہیں اور ولید بن مسلم نے حدثنا کی وضاحت کی ہے۔

۹۴۰۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنی بیٹی کے جنازے پر چار تکبیریں کہیں۔ چوتھی تکبیر کے بعد وہ دو تکبیروں کے درمیانی وقفے کے برابر کھڑے رہے اور اس میں بیٹی کے لیے مغفرت طلب کر تے رہے اور دعا کر تے رہے پھر انھوں نے بتا یا کہ رسول اللہﷺ بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔

ایک اور روایت میں ہے کہ انھوں نے چار تکبیریں کہیں پھر تھوڑ ی دیر ٹھہرے رہے ،حتیٰ کہ میں نے خیال کیا کہ وہ ابھی پانچویں تکبیر کہیں گے پھر انھوں نے اپنے دائیں اور بائیں سلام پھیرا، جب وہ فارغ ہوئے تو ہم نے انہیں کہا یہ کیا طریقہ ہے ؟ انھوں نے کہا میں نے رسول اللہﷺ کو جو کرتے ہوئے دیکھا ہے اس سے زیادہ تمہارے سامنے نہیں کروں گا یا یہ فرمایا: رسول اللہﷺ نے ایسے ہی کیا۔         (حاکم حدیث صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابن ماجہ (۱۵۰۳)و احمد (/۳۸۳۴) والحاکم (/۳۶۰۱)۔

امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے جبکہ امام ذہبی نے تعاقب کرتے ہوئے کہا کہ ابراہیم بن مسلم الہجری کو محدثین نے ضعیف کہا ہے۔ اس راوی کو حافظ ابن حجر نے ’’تقریب‘‘ میں لین الحدیث ‘‘ کہا ہے ، لیکن امام بیہقی نے سنن بیہقی (۴!۳۵،۳۶) میں صحیح سند کے ساتھ ابو یعفور عن عبد اللہ بن ابی اوفی کی سند سے روایت کیا ہے ، پس اس دوسرے طریق سے یہ حدیث صحیح ہے۔

۱۵۸۔ باب: جنازے کو جلدی لے جانے کا حکم

۹۴۱۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : جنازہ لے جانے میں جلدی کرو اگر تو وہ نیک ہے تو پھر وہ ایک بھلائی ہے جس کی طرف تم اسے آگے بڑھاؤ گے اور اگر وہ اس کے برعکس (برا) ہے تو پھر وہ شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اتار رہے ہو۔ (متفق علیہ) اور مسلم کی ایک اور روایت میں ہے : ’’پس وہ تو خیرو بھلائی ہے جس پر تم اسے پیش کرو گے۔ ‘‘

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۸۲۳۔ فتح)و مسلم (۸۴۴)۔

۹۴۲۔ حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ فرمایا کرتے تھے :جب جنازہ (تیار کر کے)رکھا جاتا ہے اور لوگ اسے اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں ،پس اگر وہ نیک ہو تا ہے تو وہ کہتا ہے : مجھے آگے بڑھاؤ اور اگر وہ صالح نہیں ہوتا تو وہ اپنے گھر والوں سے کہتا ہے ہائے ہلاکتو افسوس ! تم اسے (میری میت کو) کہاں لیکر جا رہے ہو؟ انسان کے سوا ہر چیز اس کی آواز سنتی ہے اور اگر انسان اسے سن لے تو وہ بے ہو ش ہو جائے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث۔ کے لئے حدیث (۴۴۴) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۵۹۔ باب :میت کے قرض کی ادائیگی اور اس کی تجہیزو تکفین میں جلدی کرنی چاہیے البتہ اچانک فوت ہونے کی صورت میں تو قف کرنا چاہیے تا کہ اس کی موت کا یقین ہو جائے

۹۴۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: مومن کی جان (روح) اس کے قرض کی وجہ سے معلق رہتی ہے حتیٰ کہ وہ اس کی طرف سے ادا کر دیا جائے۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :اخرجہ الترمذی (۱۰۷۸، ۱۰۷۹)،و احمد (۲!۴۴۰، ۴۷۵، ۵۰۸)باسناد حسن۔

۹۴۴۔ حضرت حصین بن وحوحؓ سے روایت ہے کہ حضرت طلحہ بن براؓ بیمار ہو گئے تو نبیﷺ ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے ، آپ نے فرمایا: ’’میرا خیال ہے کہ طلحہ میں موت کے اثار پیدا ہو گئے ہیں (ان کی موت کا وقت قریب ہے) جب یہ فوت ہو جائیں تو مجھے ان کے بارے میں اطلاع دینا اور ان کو دفنانے میں جلدی کرنا، اس لیے کہ کسی مسلمان کی لاش کو اس کے گھر والوں کے پاس روکے رکھنا منا سب نہیں۔ ‘‘ (ابو داؤد)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ ابوداؤد (۳۱۵۹) والبیھقی (/۳۸۶۳۔ ۳۸۷)۔

۱۶۰۔ باب: قبر کے پاس وعظو نصیحت کرنا

۹۴۵۔ حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک جنازے کے ساتھ بقیع الغرقد (قبرستان) میں تھے ،پس رسول اللہﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور بیٹھ گئے ، ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے ،آپ کے پاس ایک چھڑ ی تھی، آپ نے سر جھکا لیا اور چھڑ ی سے زمین کو کریدنا شروع کر دیا۔ پھر فرمایا: تم میں سے ہر شخص کا جہنمی اور جنتی ٹھکانا لکھ دیا گیا ہے، صحابہ نے عرض کیا :اے رسولﷺ !کیا ہم اپنے لکھے ہوئے پر تو کل اور بھروسا نہ کر لیں ؟ آپ نے فرمایا: عمل کرتے رہو، پس ہر شخص کو اسی عمل کی توفیق ہو گی جس کیلئے وہ پیدا کیا گیا ہے۔ اور باقی حدیث بیان کی۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۵۲۱۱۳۔ فتح)و مسلم (۲۶۴۷)۔

۱۶۱۔ باب: میت کو دفنا نے کے بعد اس کے لیے دعا کرنا اور کچھ دیر کے لیے اس کی قبر کے پاس اس کے لیے دعاو استغفار اور قرات کرنے کے لئے بیٹھنا

۹۴۶۔ حضرت ابو عمر و۔ بعض کے نزدیک ابو عبد اللہ اور بعض کے نزدیک ابو لیلیٰ۔ عثمان بن عفان ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب نبیﷺ میت کو دفن کرنے سے فارغ ہو جاتے تو آپ قبر پر ٹھہرتے اور فرماتے، اپنے بھائی کے لئے مغفرت طلب کرو اور اس کے لیے (کلمہ توحید پر) ثابت رہنے کی دعا کرو،اس لیے کہ اب اس سے سوال کیا جا رہا ہے۔ (ابو داؤد)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۳۲۲۱)والحاکم (/۳۷۰۱)والبیھقی (/۵۶۴) وصححہ الحاکمو وافقہ الذھبی۔

۹۴۷۔ حضرت عمرو بن عاص ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے (وفات کے وقت وصیتاً) فرمایا:جب تم مجھے دفن کر دو تو میری قبر کے گرد اتنی دیر ٹھہر نا جتنی دیر میں ایک اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ میں تم سے انس حاصل کروں اور میں جان لوں کہ میں اپنے رب کے بھیجے ہوئے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔ (مسلم) اور یہ روایت (حدیث نمبر ۷۱۱کے تحت)پہلے تفصیل سے گزر چکی ہے۔ امام شافعیؒ نے فرمایا: یہ مستحب ہے کہ اس کے پاس قرآن کا کچھ حصہ پڑھا جائے اور اگر وہ اس کے پاس مکمل قرآن مجید پڑھیں تو بہتر ہے۔

۱۶۲۔ باب: میت کی طرف سے صدقہ کرنا اور اس کے لیے دعا کرنا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور وہ جوان کے بعد آئے ،وہ کہتے ہیں : اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔ (سورۃ : الحشر۔ :۱۰)

۹۴۸۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبیﷺ سے درخواست کی کہ میری والدہ اچانک وفات پا گئی ہیں اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ بات کرتیں تو صدقہ کرتیں۔ اب اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا انہیں اجر ملے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں ! (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۲۵۴۳۔ فتح)و مسلم (۱۰۰۴)۔

۹۴۹۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو تین چیزوں کے سوا اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جا تا ہے : (۱) صدقہ جاریہ (۲)یا وہ علم جس سے فائدہ اٹھا یا جا رہا ہو (۳) یا نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۱۶۳۱)۔

۱۶۳۔ باب:میت کی لوگوں کی طرف سے تعریف

۹۵۰۔ حضرت انس ؓ بیان کر تے ہیں کہ کچھ لوگ ایک جنازے کے پاس سے گزرے تو انھوں نے اس کی تعریف کی، پس نبیﷺ نے فرمایا: واجب ہو گئی۔ پھر ایک اور جنازہ گزرا تو انھوں نے اس کی برائی بیان کی تو نبیﷺ نے فرمایا: واجب ہو گئی۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے عرض کیا : کیا واجب ہو گئی ؟ آپ نے فرمایا: یہ جو پہلا جنازہ ہے اس کی تم نے تعریف کی تو اس کے لیے جنت واجب ہو گئی اور یہ جو دوسرا جنازہ ہے ،تم نے اس کی برائی بیان کی تو اس کے لیے جہنم واجب ہو گئی،تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو۔     (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۲۸۸۳۔ فتح)و مسلم (۹۴۹)۔

۹۵۱۔ حضرت ابو اسود بیان کر تے ہیں کہ میں مدینے آیا تو میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس بیٹھ گیا لوگوں کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو لوگوں کی طرف سے اس کی اچھی تعریف کی گئی، حضرت عمر ؓ نے فرمایا: واجب ہو گئی۔ پھر دوسرا جنازہ گزرا تو بھی لوگوں نے اس کی تعریف کی تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا: واجب ہو گئی۔ پھر تیسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی بیان کی تو حضرت عمر ؓ نے پھر فرمایا: ’’واجب ہو گئی ؟ ابو اسود بیان کرتے ہیں :میں نے کہا امیر المومنین ! کیا واجب ہو گئی؟ حضرت عمرؓ نے کہا: میں نے وہی کچھ کہا جو نبیﷺ نے فرمایا: چار آدمی جس مسلمان کے بارے میں اچھی گواہی دے دیں تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو جنت میں داخل فرمائے گا۔ ہم نے عرض کیا : اور تین آدمی گواہی دیں تو ؟ آپ نے فرمایا: اور تین آدمی (گواہی دے دیں تو)بھی۔ ہم نے پھر عرض کیا : اور دو ؟ آپ نے فرمایا: اور دوکی گواہی سے بھی۔ پھر ہم نے آپ سے ایک بارے میں نہیں پوچھا۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۲۹۳۔ فتح)

۱۶۴۔ باب: اس شخص کی فضیلت جس کے چھوٹے بچے فوت ہو جائیں

۹۵۲۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس مسلمان کے تین بچے سن بلوغت کو پہنچنے سے پہلے فوت ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان بچوں پر اپنی رحمت کے فضل کی وجہ سے اس شخص کو جنت میں داخل کر دے گا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۱۸۳۔ فتح) ولم أرہ فی ( (صحیح مسلم))من حدیث أنس۔

۹۵۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس مسلمان شخص کے تین بچے فوت ہو جائیں تو اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی مگر قسم پوری کرنے کے لیے (اگ یعنی جہنم پر سے گزرے گا)۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۱۸۳۔ فتح)۔ و مسلم (۲۶۳۲)۔

۹۵۴۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کر تے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اس نے کہا : یا رسول اللہﷺ !مرد حضرات آپ کی حدیث لے گئے (یعنی وہ تو آپ سے سن لیتے ہیں لیکن ہم محروم رہتی ہیں)آپ اپنی طرف سے ایک دن ہمارے لیے بھی مقرر فرما دیں تاکہ ہم اس روز آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپ ہمیں ان باتوں کی تعلیم دیں جو اللہ نے آپ کو سکھائی ہیں۔ آپ نے فرمایا: پس تم فلاں فلاں دن جمع ہو جاؤ۔ وہ اس روز جمع ہو گئیں تو نبیﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور اللہ نے جو انہیں سکھایا تھا اس میں سے انہیں سکھایا، پھر فرمایا : تم میں سے جو عورت اپنے تین بچے آگے بھیج دے (یعنی وہ فوت ہو جائیں) تو وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے رکاوٹ بن جائیں گے۔ ایک عورت نے کہا اور دو ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اور دو (یعنی دو بچے بھی جہنم سے رکاوٹ بن جائیں گے)۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۱۸۳۔ فتح)و مسلم (۲۶۳۳)۔

۱۶۵۔ باب: ظالموں کی قبروں اور ان کی تباہیو بربادی کے مقامات سے گزرتے وقت رونا، ڈرنا اور اللہ کی طرف اپنی احتیاج ظاہر کر نا اور اس میں غفلت کرنے سے اجتناب کرنا

۹۵۵۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ سے جبکہ وہ ’’حجر‘‘ یعنی قوم ثمود کے مکانات کے قریب پہنچے تو فرمایا: ان عذاب دیے گئے لوگوں کے پاس سے روتے ہوئے گزرو، اگر تم نہ رو سکو تو وہاں سے نہ گزرو، کہیں تمہیں وہ عذاب نہ پہنچے جو انہیں پہنچا۔ (متفق علیہ)

ایک اور روایت میں ہے ، راوی بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ مقام حجر کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ’’تم ان لوگوں کے مکانوں میں داخل مت ہونا جنہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، کہیں تم پر بھی وہ عذاب نہ۔ آ جائے جوان پر آیا، تم روتے ہوئے گزرو۔ ‘‘ پھر رسول اللہﷺ نے اپنا سر ڈھانپ لیا اور سواری کو تیز کر دیا حتیٰ کہ وادی سے گزر گئے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۳۰۱۔ فتح)و مسلم (۲۹۸۰) والروایۃ الثانیۃ عند مسلم (۲۹۸۰) (۳۹)

 

کِتابُ لآدَابِ السَّفَرِ

 

آداب سفر کا بیان

 

۱۶۶۔ باب جمعرات کے دن سفر کا آغاز کرنا اور دن کے پہلے پہر میں روانہ ہو نا مستحب ہے

۹۵۶۔ حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ غزوۂ تبوک کے لئے جمعرات کے دن (مدینہ سے) روانہ ہوئے اور آپ جمعرات ہی کے دن سفر کے لیے روانہ ہونا پسند فرماتے تھے۔            (متفق علیہ)

اور صحیحین کی ایک اور روایت میں ہے کہ بہت کم جمعرات کے علاوہ کسی اور دن رسول اللہﷺ سفر پر روانہ ہو تے تھے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۱۳۶۔ فتح) ولم أقف علیہ فی ( (صحیح مسلم))۔

۹۵۷۔ حضرت صخر بن وداعہ غامدی صحابی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! میری امت کے لیے اس کے دن کے پہلے پہر میں برکت فرما۔ اور آپ جب کسی چھوٹے یا بڑے لشکر کو روانہ فرماتے تو اسے دن کے پہلے پہر روانہ فرماتے تھے۔ حضرت صخر ؓ ایک تا جر آدمی تھے وہ اپنا سامان تجارت دن کے پہلے حصے میں بھیجا کر تے تھے۔ پس (اس عمل با الحدیث کی برکت سے) وہ صاحب ثروت ہو گئے اور ان کے مال میں خوب اضافہ ہوا۔        (ابوداؤد ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : حسن بشواھد۔ اخرجہ ابو داؤد (۲۶۰۶)و الترمذی (۱۲۱۲)و ابن ماجہ (۲۲۳۶)و احمد (/۴۱۷۳ و۴۳۱و /۳۹۰۴)۔

اس کی سند میں عمارہ بن حدیہ راوی مجہول ہے لیکن یہ حدیث صحابہ کی ایک جماعت سے مروی ہے ، علامہ ہیثمی ؒ نے انھیں ’’مجمع الزوائد‘‘ (۴!۶۱، ۶۲)میں ذکر کیا ہے۔ ان میں سے بعض ضعیف اور بعض شواہد میں صحیح ہیں ، لہٰذا بالجملہ یہ حدیث حسن درجہ کی ہے۔

۱۶۷۔ باب:سفر کے لیے ساتھی تلاش کر نا اور ان میں سے کسی ایک کا امیر بنا نا اور اس کی اطاعت کرنا مستحب ہے

۹۵۸۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ تنہا (سفر کرنے) میں کیا نقصان ہے جو میں جانتا ہوں تو کوئی سوار رات کے وقت تنہا سفر نہ کرے۔       (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۳۷۶۔ ۱۳۸۔ فتح)

۹۵۹۔ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک سوار ایک شیطان ہے، دو سوار دو شیطان ہیں اور تین سوار ایک قافلہ ہے۔ (ابو داؤد،ترمذی،نسائی۔ انہوں نے صحیح اسانید سے روایت کیا ہے اور ترمذی نے کہا حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : اخرجہ ابوداؤد (۲۶۰۷)و الترمذی (۱۶۷۴)و احمد (/۱۸۶۲، ۲۱۴) والحاکم (/۱۰۲۲)۔ اس حدیث کی سند حسن ہے۔

۹۶۰۔ حضرت ابو سعید ؓ اور ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تین آدمی کسی سفر پر روانہ ہوں تو وہ اپنے میں سے کسی ایک کو امیر بنا لیں۔ (ابو داؤد۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : حسن۔ اخرجہ ابو داؤد (۲۶۰۸و۲۶۰۹) بسند حسن۔

۹۶۱۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: بہترین ساتھی چار ہیں ،بہترین سریہ (چھوٹا لشکر) چارسو کا ہے اور بہترین جیش (بڑا لشکر) چا ر ہزار کا ہے اور بارہ ہزار کا لشکر قلت تعداد کی وجہ سے مغلوب نہیں ہو گا۔          (ابو داؤد، ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : اخرجہ ابوداؤد (۲۶۱۱)و الترمذی (۱۵۵۵)و احمد (/۲۹۴۱) والحاکم (/۴۴۳۱، /۱۰۱۲)، و ابن حبان (۴۷۱۷)۔ قلت : ھذا اسناد صحیح۔

۱۶۸۔ باب: سفر میں چلنے، پڑا ؤ ڈالنے، رات بسر کرنے اور دوران سفر سونے کے آداب، رات کو سفر کرنا، جانوروں کے ساتھ نرمی کرنا اور ان کے آرام و مصلحت اور راحت کا خیال رکھنا مستحب ہے اور جب جانور میں طاقت ہو تو پیچھے سواری بٹھا لینا جائز ہے اور جو شخص سواری کے حقو ق کی ادائیگی میں کوتا ہی کرے اسے اس کے حقو ق کی ادا کرنے کی ترغیب دلانی چاہیے۔

۹۶۲۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم سر سبز و۔ شاداب علاقے میں گزرو تو اونٹ کو اس کا حصہ (چرنے کا موقع) دو اور جب تم بنجر زمین میں سے گزرو تو وہاں سے۔ تیزی کے ساتھ گزرو اور اس کا گودا ختم ہونے پہلے پہلے منزل مقصود تک پہنچنے میں جلدی کرو۔ اور جب رات کو پڑ آؤ ڈالو تو عام راستے سے بچو ، اس لیے کہ رات کے وقت وہ جانوروں کی گزر گاہ اور حشرات کا ٹھکانہ ہے۔           (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۹۲۶)

۹۶۳۔ حضرت ابوقتادہ ؓ بیان کر تے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ سفر میں ہوتے اور رات کے وقت کہیں پڑاؤ ڈالتے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹتے اور جب کبھی صبح (صادق) سے تھوڑ ی دیر پہلے پڑاؤ ڈالتے تو اپنا دایاں بازو کھڑا کر تے اور اپنا سر اپنی ہتھیلی پر رکھتے۔             (مسلم) علما بیان کرتے ہیں کہ آپ اپنا بازو اس لیے کھڑا کرتے تھے تاکہ آپ کہیں گہری نیند نہ سو جائیں جس سے نماز فجر اپنے وقت یا اول وقت میں ادا کرنے سے فوت نہ ہو جائے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۶۸۳)۔

۹۶۴۔ حضرت انس ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم رات کے وقت سفر کیا کرو،اس لیے کہ رات کے وقت زمین لپیٹ دی جاتی ہے۔              (ابوداؤد۔ سند حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۲۵۷۱) والحاکم (/۱۱۴۲) والبیھقی (/۲۵۶۵)۔

۹۶۵۔ حضرت ابوثعلبہ خشنی ؓ بیان کر تے ہیں کہ جب لوگ (صحابہ کرام) کسی جگہ پڑا ؤ ڈالتے تو وہ پہاڑوں کی گھاٹیوں اور وادیوں میں منتشر ہو جاتے تھے۔ پس رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارا ان گھاٹیوں اور وادیوں میں منتشر ہو جانا شیطان کی طرف سے ہے۔ پس اس کے بعد جب بھی وہ کہیں پڑاؤ ڈالتے تو وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہتے۔ (ابوداؤد۔ سند حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۲۶۲۸)و احمد (/۱۹۳۴)والحاکم (/۱۱۵۲)والبیھتی (/۱۵۲۶)و ابن حبان (۲۷۹۰)۔

اسے امام حاکم ؒ نے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی ؒ نے ان کی موافقت کی ہے۔

۹۶۶۔ حضرت سہل بن عمرو اور بعض نے کہا سہل بن ربیع بن عمرو انصاری جو ابن حنظلیہ کے نام سے معروف ہیں اور بیعت رضوان کے شرکا میں سے ہیں۔ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک ایسے اونٹ کے پاس سے گزرے جس کی پشت (یعنی کمر کمزوری کی وجہ سے) پیٹ سے لگی ہوئی تھی آپ نے فرمایا: تم ان بے زبان جانوروں کے حقو ق کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، تم ان پر سواری اس حال میں کرو کہ یہ ٹھیک ہوں اور ان کا گوشت بھی حال میں کھاؤ کہ یہ تندرست ٹھیک ٹھا ک ہوں۔                    (ابو داؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۲۵۴۸)با سناد صحیح۔

۹۶۷۔ حضرت ابو جعفر عبداللہ بن جعفرؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک دن مجھے اپنے پیچھے سواری پر بٹھا لیا اور راز داری کے ساتھ مجھ سے ایک بات کی جو میں کسی سے بیان نہیں کروں گا اور رسول اللہﷺ کو قضائے حاجت کے لیے کسی بلند جگہ (ٹیلا وغیرہ) یا کھجور کے جھنڈے کے ساتھ پردہ کرنا سب سے زیادہ پسند تھا۔ (مسلم نے اسے اسی طرح مختصر روایت کیا ہے)اور برقانی نے اسی مسلم کی سند کے ساتھ ’’حائش نخل‘‘ کے بعد یہ اضافہ نقل کیا ہے :آپ ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے تو وہاں ایک اونٹ تھا ، جب اس نے رسول اللہﷺ کو دیکھا تو وہ بلبلایا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو پڑے۔ پس نبیﷺ اس کے پاس گئے اور اس کی کوہان اور اس کے کان کے پیچھے کی ہڈی پر پیار سے ہاتھ پھیرا تو اسے سکون۔ آ گیا۔ آپ نے فرمایا: اس اونٹ کا مالک کون ہے ؟ یہ اونٹ کس کا ہے ؟ ایک انصاری نوجوان آیا تو اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ میرا ہے آپ نے فرمایا : کیا تم اس جانور (اونٹ) کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتے ہو جس کا اللہ تعالیٰ نے تجھے مالک بنایا ہے ؟ یہ مجھ سے شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور (زیادہ کام لے کر) اسے تھکا دیتے ہو۔

ابو داؤد نے بھی برقانی ہی کی طرح روایت کیا ہے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۳۴۲، ۲۴۲۹) والزیادۃ عند أبی داؤد (۲۵۴۹) وھی صحیحۃ۔

۹۶۸۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے تو ہم سواریوں کے پالان اتارنے سے پہلے نفلی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ (ابو داؤد نے اسے شرط مسلم کے ساتھ روایت کیا ہے)

توثیق الحدیث : اخرجہ ابوداؤد (۲۵۵۱)با سناد صحیح۔

۱۶۹۔ باب: دوست کی مدد کرنا

اس باب سے متعلق بہت سی حدیثیں پہلے گزر چکی ہیں جیسے ’’اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کرنے میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرنے میں رہتا ہے‘‘ ۔

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۲۴۵)ملاحظہ فرمائیں)اور یہ حدیث کہ ’’ہر نیکی صدقہ ہے‘‘ ۔ (اس کی توثیق اور شرح کے لیے حدیث نمبر (۱۳۴) ملاحظہ فرمائیں)اور ان جیسی اور احادیث ہیں۔

۹۶۹۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم سفر میں تھے کہ ایک آدمی اپنی سواری پر آیا اور اپنی نظر دائیں بائیں پھیر کر دیکھنے لگا ،رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص کے پاس زائد سواری ہو وہ اس شخص کو دے دے، جس کے پا س سواری نہ ہو اور جس شخص کے پاس ضرورت سے زائد زادِ راہ ہو اسے ایسے شخص کو دے دے جس کے پاس زادِ۔ راہ نہ ہو۔ آپ نے مال کی اور بھی کئی اقسام بیان کیں۔ حتیٰ کہ ہم نے گمان کیا کہ ہم میں سے کسی بھی شخص کا زائد از ضرورت چیزوں میں کوئی حق نہیں۔       (مسلم)

توثیق الحدیث۔ کے لئے حدیث نمبر (۵۶۶) ملاحظہ فرمائیں۔

۹۷۰۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے جہاد پر جانے کا ارادہ کیا تو فرمایا: اے مہاجرین اور انصار کی جماعت ! تمہارے بھائیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے پاس مال ہے نہ کنبہ ،پس تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ دو، دو یا تین، تین آدمیوں کو اپنے ساتھ ملا لے۔ پس ہم میں سے جس کے پاس سواری تھی وہ اس پر باری باری سوار ہو تا۔ حضرت جابر ؓ بیان کر تے ہیں کہ میں نے دویا تین آدمیوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ پس میرے اونٹ پر میری باری بھی ویسے ہی تھی جسے ان میں سے کسی ایک کی تھی۔ (ابو داؤد)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۲۵۳۴)۔

۹۷۱۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ دوران سفر چلنے میں سب سے پیچھے رہتے تھے ، پس آپ ضعیفو ناتواں کو چلاتے ، اس کو پیچھے بیٹھا لیتے اور اس کے لیے دعا فرماتے۔         (ابو داؤد۔ سند حسن ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۲۶۳۹) با سناد صحیح۔

۱۷۰۔ باب: سفر کے لیے سواری پرسوار ہوتے وقت کیا پڑھنا چاہیے ؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کشتیاں اور چوپائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو تاکہ تم انکی پیٹھوں پر سیدھے ہو کر بیٹھو پھر تم سیدھے ہو کر بیٹھ جاؤ تو اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو اور کہو پاک ہے وہ ذات جس نے اس کو ہمارے لیے مسخر اور تابع کر دیا اور ہم اسے قابو کرنے والے نہیں تھے اور بے شک ہم اپنے رب کی طرف پھرنے والے ہیں۔

۹۷۲۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب سفر پر روانہ ہونے کے وقت اپنے اونٹ پر صحیح طور پر بیٹھ جاتے تو آپ تین بار ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے اور پھر یہ دعا پڑھتے : پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے تابع کر دیا ، ورنہ ہم تو اسے قابو میں کرنے والے نہیں تھے۔ اے اللہ ! ہم اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی، تقویٰ اور ایسے عمل کا سوال کرتے ہیں جسے تو پسند کر تا ہے۔ اے اللہ ! ہمارے اس سفر کو ہمارے لیے آسان کر دے اور اس کی دوری کو ہمارے لیے لپیٹ دے (منزل قریب کر دے) اے اللہ ! میں سفر کی صعوبت سے ،حزین اور دلدوز منظر سے اور واپسی پر گھر ،مال اور اولاد میں بری تبدیلی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اور جب آپ سفر سے واپس تشریف لاتے تو پھر ان کلمات کے ساتھ ساتھ یہ الفاظ بھی فرماتے : ہم سفر سے لوٹنے والے ہیں ،تیری طرف رجوع کرنے والے، عبادت کرنے والے ہیں اور اپنے رب کی حمد بیان کرنے والے ہیں۔        (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۳۴۲)۔

۹۷۳۔ حضرت عبداللہ بن سر جس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب سفر پر روانہ ہوتے تو سفر کی سختی، ناخوشگوار واپسی، کمال کے بعد زوال، مظلوم کی بد دعا اور اہل و عیال اور مال میں برے منظر سے پناہ مانگتے تھے۔ صحیح مسلم میں اسی طرح (الحور بعد الکون) نون کے ساتھ ہے۔ ترمذی اور نسائی نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ را کے ساتھ (الکور) بھی مروی ہے ، اس کا مفہوم (الکور) اور (الکون) دونوں صورتوں میں صحیح ہے۔

علما بیان کر تے ہیں کہ کرتے ہیں کہ (الکون) اور (الکور) دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی ہے، یعنی۔ استقامت یا زیادت سے نقص اور کمی کی طرف لوٹنا (یعنی کمال سے زوال کی طرف) انھوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ’’الکور‘‘ را کے ساتھ ’’تکویر العمامۃ‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں پگڑ ی کو لپیٹنا اور جمع کرنا اور  ’’الکون‘‘ نون کے ساتھ کان یکون کا مصدر ہے اس کے معنی وجود اور استقرار کے ہیں۔

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۳۴۳)وأما الرویۃ الثانیۃ، فأ خرجھا الترمذی (۳۴۳۹) والنسائی فی ( (المجتبی)) (/۲۷۲۸)و ( (عمل الیومو اللیلۃ)) (۴۹۹)و ابن۔ ماجہ (۳۸۸۸)ولہ شاھد صحیح من حدیث أبی ھریرۃ اخرجہ ابو داؤد (۲۵۹۸)والنسائی فی ( (عمل الیوم واللیۃ)) (۵۰۰)و احمد (/۴۰۱۲و ۴۳۳)۔

۹۷۴۔ حضرت علی بن ربیعہ بیان کر تے ہیں کہ میں حضرت علی بن ابی طالب ؓ کے پاس تھا کہ آپ کے پاس ایک جانور لایا گیا تا کہ آپ اس پر سواری کریں۔ جب انھوں نے رکاب میں پاؤں رکھا تو  ’’بسم اللہ‘‘ پڑھا جب آ س کی پیٹھ پر اچھی طرح بیٹھ گئے تو ’’الحمد للہ‘‘ کہا اور پھر یہ دعا پڑھی : پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لیے اسے مسخر کر دیا اور ہم اس کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور ہم اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ پھر ’’الحمد للہ‘‘ اور اللہ أکبر‘‘ تین تین بار کہا پھر یہ دعا پڑھی : اے اللہ ! تو پاک ہے یقیناً میں نے اپنی جان ظلم کیا ،پس مجھے بخش دے کیو نکہ تیرے سوا کوئی بھی گنا ہوں کو نہیں بخش سکتا۔ ،پھر آپ ہنس دیے ،ان سے پوچھا گیا امیر المومنین ! آپ کس وجہ سے ہنس دیے ؟ انھوں نے بتایا کہ میں نے نبیﷺ کو دیکھا کہ آپ نے ایسے ہی کیا جیسے میں نے کیا،پھر آپ ہنس دیے تو میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! آپ کس وجہ سے ہنسے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: بلاشبہ تمہارا رب اپنے بندے سے بہت خوش ہو تا ہے جب وہ کہتا ہے یا اللہ !میرے گناہ معاف کر دے ، کیونکہ وہ بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا گنا ہوں کا بخشنے والا کوئی نہیں۔ (ابوداؤد، ترمذی امام ترمذی نے کہا حدیث حسن ہے اور بعض نسخوں میں حسن صحیح ہے اور یہ الفاظ ابو داؤد کے ہیں۔ )

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۲۶۰۲)و الترمذی (۳۴۴۶)و احمد (/۹۷۱و۱۱۵و۱۲۸)والنسائی فی ( (عمل الیوم واللیلۃ)) (۵۰۲)ومن طریقہ ابن السنی فی ( (عمل الیوم واللیلۃ)) (۴۹۸) و ابن حبان (۲۶۹۷و۲۶۹۸)والحاکم (/۹۹۲)والبیھقی (/۲۵۲۵)۔

اس حدیث کا دارومدار ابو اسحاق پر ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے کہا کہ اس میں ایک مخفی علت ہے جیسا کہ امام حاکم نے ’’تاریخ نیسا بور‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابو اسحاق مدلس ہے اور اس نے دو راویوں کو ساقط کیا ہے۔ لیکن ابو اسحاق نے سنن بیہقی (/۲۵۲۵) میں ’’حد ثنا‘‘ کی وضاحت کی ہے اور اس کی ایک اور سند بھی ہے جسے امام حاکم (/۹۸۲)نے بیان کیا ہے۔ لہٰذا یہ حدیث صحیح ہے۔

۱۷۱۔ باب : جب مسافر بلندی وغیرہ پر چڑھے تو ’’اللہ اکبر‘‘ کہے اور جب کسی گھاٹی یا وادی وغیرہ میں اترے تو ’’سبحان اللہ‘‘ کہے اور تکبیرو تسبیح وغیرہ زیادہ بلند آواز سے نہ کہے۔

۹۷۵۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم بلندی وغیرہ پر چڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور جب نیچے اترتے تو سبحان اللہ کہتے تھے۔                 (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۳۵۶۔ فتح)۔

۹۷۶۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کر تے ہیں کہ نبیﷺ اور آپ کے لشکر جب پہاڑوں پر چڑھتے تو ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے اور جب نیچے اترتے تو ’’سبحان اللہ‘‘ پڑھتے تھے۔ (ابو داؤد۔ سند صحیح ہے۔ )

توثیق الحدیث : صحیح لغیرہ۔ اخرجہ ابو داود (۲۵۹۹)

۹۷۷۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ جب بھی حج یا عمرے سے واپس تشریف لاتے اور جب آپ کسی پہاڑ ی یا زمین کے سخت بلند حصے پر چڑھتے تو تین بار ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے پھر یہ دعا پڑھتے : ’’اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں ،اسی کے لیے بادشاہت ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ہم (عبادت حج کے بعد) لوٹ کر۔ آنے والے ہیں توبہ کرنے والے۔ عبادت کرنے والے۔ سجدہ کرنے والے اور اپنے رب کی حمدو تعریف کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی نصرت فرمائی اور کفار کے لشکروں کو اس اکیلے نے شکست دی‘‘ ۔                   (متفق علیہ)

اور مسلم کی روایت میں ہے کہ جب آپ بڑے لشکروں یا چھوٹے لشکروں یا حج یا عمرے سے واپس تشریف لاتے تو پھر مذکورہ دعا پڑھتے تھے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۳۵۶۔ فتح)و مسلم (۱۳۴۴)

۹۷۸۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں سفر پر جانا چاہتا ہوں آپ مجھے وصیت فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر بلند جگہ (چڑھتے ہوئے) ’’اللہ اکبر‘‘ کہو۔ جب وہ شخص مڑ کر چلا گیا تو آپ نے اس کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا: اے اللہ ! اس کے بعد (مسافت، دوری) کو لپیٹ دے اور اس پر سفر کو آسان کر دے۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :حسن۔ اخرجہ الترمذی (۳۴۴۵)و ابن ماجہ (۲۷۷۱) والحاکم (/۹۸۲)۔

۹۷۹۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے جب ہم کسی وادی پر چڑھتے تو ’’لا الہ الا اللہ‘‘ اور ’’اللہ اکبر‘‘ پڑھتے اور ہماری آوازیں اونچی ہو جاتیں۔ نبیﷺ نے فرمایا: اے لوگو! اپنے آپ پر آسانی کرو (آوازیں پست رکھو) اس لیے کہ تم کسی بہری اور غائب ذات کو نہیں پکار رہے وہ تو تمہارے ساتھ ہے اور وہ یقیناً سننے والا اور بہت قریب ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۳۵۶۔ فتح)و مسلم (۲۸۰۴)۔

۱۷۲۔ باب: دوران سفر دعا کرنا مستحب ہے

۹۸۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تین دعائیں مقبول ہیں جن کی قبولیت میں کوئی شک نہیں مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور والد کی اپنی اولاد کے خلاف بد دعا۔                       (ابوداؤد، ترمذی)ترمذی نے کہا حدیث حسن ہے اور ابوداؤد کی روایت میں ’’علی ولدہ‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں۔

توثیق الحدیث : حسن لغیرہ۔ اخرجہ البخاری فی ( (الأدب المفرد)) (۳۲ و۴۸۱)وابوداؤد (۱۵۳۶)و الترمذی (۱۹۰۵)و ابن ماجہ (۳۸۶۲)و احمد (/۲۴۸۲، ۲۵۸، ۴۷۸، ۵۱۷، ۵۲۳)و ابن حبان (۲۶۹۹)۔

اس حدیث کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں ابو جعفر راوی مقبول ہے۔ لیکن عقبہ بن عامر الجہنی کی حدیث۔ آ سکی شاہد ہے جو مسند احمد (/۱۵۴۴)اور خطیب بغدادی کی تاریخ (/۳۸۰۱۲،۳۸۱) میں موجود ہے۔ اس کی سند شواہد میں صحیح ہے۔ اس کے سب راوی ثقہ ہیں سوائے عبداللہ بن ازرق کے۔ ابن ابی حاتم نے ’’الجرح و التعدیل (/۵۸۵) میں اس پر کوئی جرح و تعدیل نہیں کی جبکہ ابن حبان نے اسے ثقہ قرار دیا ہے اور یہ حدیث بالجملہ حسن لغیرہ ہے۔

۱۷۳۔ باب:جب لوگوں کا خوف و خطرہ ہو تو کون سی دعا پڑھی جائے ؟

۹۸۱۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کو جب کسی قوم سے خوف و خطرہ درپیش ہوتا تو آپ یہ دعا پڑھتے اے اللہ! ہم تجھے ان کے سامنے اور مقابل کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے ہم تیری پناہ میں آتے ہیں۔     (ابو داؤد، نسائی۔ اسناد صحیح ہیں)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۱۵۳۷)والنسائی فی ( (عمل الیومو اللیلۃ)) (۶۰۱)و احمد (/۵۱۴۴۔ ۴۱۵)والحاکم (/۱۴۲۲)والبیھقی ( (السنن الکبری)) (/۳۵۳۵)۔

۱۷۴۔ باب:جب کسی جگہ پڑاؤ ڈالے تو کیا دعا پڑھے ؟

۹۸۲۔ حضرت خولہ بنت حکیم ؓ بیان کرتی ہیں میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص کسی جگہ پڑ آؤ ڈالے پھر یہ دعا پڑھے : میں اللہ تعالیٰ کے کامل کلمات کے ذریعے سے ہر اس چیز کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو (چیز) اس نے پیدا فرمائی۔ تو اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی حتیٰ کہ وہ اپنی اس جگہ سے کوچ کر جائے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۷۰۸)۔

۹۸۳۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب سفر کرتے اور رات ہو جاتی تو آپ یہ دعا پڑھتے تھے : اے زمین ! میر اور تیرا رب اللہ ہے میں تیرے شر سے جو کچھ تیرے اندر ہے اس کے شر سے جو کچھ تیرے اندر پیدا کیا گیا ہے اس کے شر سے اور جو کچھ تیرے اوپر چلتا ہے اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں شیر سے، بڑے سانپ سے، عام سانپ سے، بچھو سے، اس سر زمین کے رہنے والوں (انسانوں اور جنوں) سے، والد (ابلیس) سے اور اولاد (شیاطین، اولاد ابلیس)۔ سے۔                 (ابوداؤد)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ ابو داؤد (۲۶۰۳)والنسائی فی ( (عمل الیوم واللیلۃ)) (۵۶۳)و احمد (/۱۳۲۲)والحاکم (/۱۰۰۲)والبغوی فی ( (شرح السنۃ)) (/۱۳۶۵۔ ۱۴۷)و ابن خزیمۃ (۲۵۷۲) والمزی فی ( (تھذیب الکمال)) (/۳۳۲۹)۔

امام حاکم نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے لیکن امام نسائی نے کہا :زبیر بن ولید شامی سے اس حدیث کے علاوہ کوئی دوسری حدیث میرے علم میں نہیں۔ جبکہ اس سے بیان کرنے والا شریح بن عبید راوی متفرد ہے اور وہ مجہول راوی ہے۔ عجیب بات ہے کہ امام حاکم نے اسے صحیح کیسے کہہ دیا اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کیسے کی اور حافظ ابن حجر نے اسے حسن کیسے کہہ دیا؟ بعض نے عمل الیوم واللیلتہ لابن السنی (۵۲۸)میں حدیث عائشہ کو اس کا شاہد ذکر کیا ہے لیکن وہ وہم ہے کیونکہ اس کا متن اور ہے اور اس کی سند عیسیٰ بن میمون ضعیف راوی کی وجہ سے ضعیف ہے۔

۱۷۵۔ باب:جب مسافر کا مقصد سفر پورا ہو جائے تو اس کا فورا گھر والوں کے پاس آنا مستحب ہے

۹۸۴۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سفر عذاب (تکلیف) کا ایک حصہ ہے جو تمہارے کسی ایک کو (بہتر انداز سے کھانے پینے)اور سونے سے روک دیتا ہے۔ پس جب تم میں سے کوئی اپنا مقصد سفر پورا کر لے تو پھر اسے اپنے اہل و عیال کے پاس آنے میں جلدی کرنی چاہیے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۶۲۳۔ فتح)و مسلم (۱۹۲۷)۔

۱۷۶۔ باب: اپنے اہل و عیال کے پاس (سفر سے) دن کے وقت آنا مستحب اور بلا ضرورت رات کے وقت آنا مکروہ ہے۔

۹۸۵۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی طویل مدت (گھر سے)غائب رہے تو وہ اپنے اہل و عیال کے پاس رات کے وقت نہ آئے۔

ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے منع فرمایا ہے کہ کوئی آدمی اپنے اہل خانہ کے پاس رات کے وقت آئے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۶۲۰۳۔ فتح)و مسلم (۷۱۵)

۹۸۶۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنے گھر والوں کے پاس رات کے وقت نہیں آتے تھے ، آپ ان کے پاس صبح آتے یا شام کے وقت تشریف لاتے تھے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۶۱۹۳۔ فتح)و مسلم (۱۹۲۷)۔

۱۷۷۔ باب:جب سفر سے لوٹے اور اپنے شہر کو دیکھے تو کیا پڑھے ؟

اس میں حضرت ابن عمر ؓ کی وہ حدیث ہے جو حدیث نمبر (۹۷۷)کے تحت ’’باب تکبیر المسافر۔ اذا صعد۔ الثنایا‘‘ میں گزر چکی ہے۔

۹۸۷۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے ساتھ سفر سے واپس آئے حتیٰ کہ جب ہم مدینہ کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا: ہم سفر سے واپس آنے والے، توبہ کرنے والے ،عبادت کرنے والے اور اپنے رب کی حمدو تعریف کرنے والے ہیں۔ آپ مسلسل یہ کہتے رہے حتیٰ کہ ہم مدینہ پہنچ گئے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۳۴۵)۔

۱۷۸۔ باب:سفر سے واپس آنے والے کے لیے پہلے اپنی قریبی مسجد میں آ کر دو رکعتیں پڑھنا مستحب ہے۔

۹۸۸۔ حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں آتے اور وہاں دو رکعت نماز ادا فرماتے تھے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث اور ۔ کے لئے حدیث نمبر (۲۱) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۷۹۔ باب عورت کا تنہا سفر کرنا حرام ہے۔

۹۸۹۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کسی عورت کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخر ت پر یقین رکھتی ہے، جائز نہیں کہ وہ محرم کے بغیر ایک دن اور ایک رات کا سفر کرے۔             (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۶۶۲۔ فتح)و مسلم (۱۳۳۹) (۴۲۱)

۹۹۰۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبیﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ اس کے محرم کی موجودگی کے بغیر خلوت اختیار نہ کرے اور عورت اپنے محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ ایک آدمی نے آپ سے عرض کیا یا رسول اللہ ! میری بیوی حج کے لئے روانہ ہو رہی ہے اور میر انام فلاں فلاں غزوے کیلئے لکھا جا چکا ہے ؟ آپ نے فرمایا: تم جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۷۲۴۔ فتح)و مسلم (۱۳۴۱)۔