FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

ریاض الصالحین

 

امام نوویؒ

جلد اول – ت

 

 

 

حج کا بیان

 

 

۲۳۳۔ باب:حج کی فرضیت اور اس کی فضیلت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور اللہ کے لیے لو گوں پر خانہ کعبہ کا حج کرنا ہے جواس کی طرف راستے کی طاقت رکھے اور جس نے کفر کیا تو یقیناً اللہ جہانوں سے بے نیاز ہے‘‘ ۔            (آل عمران:۹۷)

۱۲۷۱۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں ہر رکھی گئی ہے اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لئے حدیث نمبر (۱۰۷۵)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۲۷۲۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا تو فرمایا۔ :لوگو ! اللہ نے تم پر حج فرض کر دیا ہے پس تم حج کرو۔ ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ! کیا ہر سال حج کریں کرنا فرض ہے ؟پس آپ خاموش رہے حتیٰ کہ اس نے تین مرتبہ یہ سوال دہرایا پھر رسول اللہ نے فرمایا:اگر میں ہاں کہو دیتا تو پھر (ہر سال واجب ہو جاتا اور تم اس کی طاقت نہ رکھتے۔ پھر آپ نے فرمایا مجھے چھوڑ دو، جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں ، اس لیے کہ تم سے پہلے لوگ اپنے کثرت سوال اور اپنے انبیا سے اختلاف کرنے کی وجہ ہی سے ہلاک ہوئے جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو اسے تم  مقدور بھر بجا لاؤ اور جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کروں تو اسے چھوڑ دو۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۳۳۷)

۱۲۷۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ سے پوچھا گیا :کون سا عمل افضل ہے ؟آپ نے فرمایا :اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا گیا :پھر کون سا؟آپ نے فرمایا:اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ پوچھا گیا :پھر کون سا؟آپ نے فرمایا ’’حج مبرور‘‘                          (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۸۱۳۔ فتح)و مسلم (۸۳)۔

۱۲۷۴۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :جس شخص نے حج کیا اور اس نے دوران حج کوئی فحش اور فسق و نافرمانی والی بات نہیں کی تو وہ اس طرح گنا ہوں سے پاک ہو کر لوٹتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۸۲۳۔ فتح)و مسلم (۱۳۵۰)

۱۲۷۵۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک عمر ہ دوسرے عمرے تک کے درمیانی عرصے کے گنا ہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا جنت ہی ہے۔                          (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۹۷۳۔ فتح)و مسلم (۱۳۴۹)

۱۲۷۶۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ !ہم جہاد کو افضل عمل سمجھتی ہیں تو کیا ہم جہاد نہ کریں ؟آپ نے فرمایا:تم (خواتین)کے لیے افضل جہاد حج مبرور ہے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۸۱۳۔ فتح)

۱۲۷۷۔ حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’کو ئی دن ایسا نہیں        جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ اپنے بندوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہو۔ ، (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۳۴۸)

۱۲۷۸۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے یا (فرمایا)میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۶۰۳۳۔ فتح)و مسلم (۱۲۵۶) (۲۲۲)۔

۱۲۷۹۔ حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عرض کیا: یا رسول اللہ! بے شک اللہ نے اپنے بندوں پر جو حج فرض کیا ہے وہ میرے بوڑھے باپ پر اس وقت فرض ہوا ہے جب وہ (بڑھاپے کی وجہ سے)سواری پر صحیح طور پر بیٹھ نہیں سکتے ،تو کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا۔ : ’’ہاں‘‘ ۔                     (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۳۷۸۳۔ فتح)

۱۲۸۰۔ حضرت لقیط بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عرض کیا میرے والد بہت بوڑھے ہیں وہ حج کی استطاعت رکھتے ہیں نہ عمرے کی او ر نہ ہی سفر کی، آپﷺ نے فرمایا:اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کرو۔ (ابوداؤد۔ ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۱۸۱۰)و الترمذی (۹۳۰)والنسائی (/۱۱۷۵)و ابن ماجہ (۳۹۰۶)۔

۱۲۸۱۔ حضرت سائب بن یزید ؓ بیان کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر مجھے رسول اللہﷺ کے ساتھ حج کرایا گیا جبکہ میں اس وقت سات سال کا بچہ تھا۔ (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۷۱۴۔ فتح)

۱۲۸۲۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ ’’روحاء‘‘ کے مقام پر ایک قافلے کو ملے تو آپ نے پوچھا :کون لوگ ہو؟انھوں نے کہا مسلمان ہیں ،پھر انھوں نے پوچھا آپ کون ؟آپ نے فرمایا : (میں)اللہ کا رسول ہوں۔ پس ایک عورت نے ایک بچہ اوپر اٹھا کر پوچھا کیا اس کے لئے بھی حج ہے ؟ آپ نے فرمایا:ہاں اور (اس حج کا)ثواب تجھے ملے گا۔          (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۱۳۳۶)۔

۱۲۸۳۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک کجاوے پر حج فرمایا اور یہی آپ کے سامان سفر کی سواری بھی تھی۔ (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۳۸۰۳۔ فتح)

۱۲۸۴۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز زمانہ جاہلیت کی منڈیاں تھیں (یہاں مختلف تہواروں کے موقع پر بازار لگتے تھے)تو صحابہ کرام نے حج کے مہینوں میں تجارت کرنے کو گناہ سمجھا ،جس پر آیت نازل ہوئی تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔ یعنی حج کے مہینوں میں۔ (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۵۹۳۳۔ فتح)

 

 

جہاد کے مسائل

۲۳۴۔ باب :جہاد کی فضیلت

۲۳۴۔ جہاد کی فضیلت کے بارے میں حافظ ابن قیم ؒ نے ’’زادالمعاد (/۷۱۳۔ ۷۶)میں بیان فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جہاد فرض کیا کہ وہ ان لوگوں سے قتال کریں ، جو ان کے ساتھ قتال کرتے ہیں پھر اللہ نے تمام مشرکین سے قتال کرنے کا حکم فرمایا:جو پہلے ممنوع تھا پھر اس کی اجازت دی گئی کہ تم تمام مشرکین سے قتال کرو۔ کیا یہ جہاد فرض عین ہے یا فرض کفایہ؟یہ بات متحقق ہے کہ مطلق طور پر جہاد فرض عین ہے، قلبی طور پر،زبان کے ساتھ یا مال کے ساتھ۔ یا ہاتھ کے ساتھ پس ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ کسی نہ کسی طور پر جہاد میں حصہ ضرور لے۔ جہاں تک جہاد بالنفس کا تعلق ہے تو یہ فرض کفایہ ہے لیکن اگر حالات ایسے بن جائیں اور نفیر عام ہو تو پھر تمام مسلمانوں پر فرض ہو گا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور تم تمام مشرکوں سے لڑ و جیسے وہ تم سب سے لڑ تے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے‘‘ ۔ (التوبۃ :۳۶)

اور فرمایا: ’’تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے اور وہ تمہارے لیے ناگوار ہے اور کچھ تعجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو حالانکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے تم نہیں جانتے‘‘ ۔ (البقرة:۲۱۶)

نیز فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل اور اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو‘‘ ۔ (التوبۃ:۴۱)

اور فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے انکی جانوں اور مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کے لیے جنت ہے۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑ تے ہیں پس وہ قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں اس پر سچا وعدہ کی گیا ہے، تو رات میں انجیل میں اور قرآن میں۔ اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے ؟پس تم اپنے اس سودے پر جو تم نے اس کے ساتھ کیا ہے۔ خوش ہو جاؤ اور یہ بہت بڑ ی کامیابی ہے‘‘ ۔      (التوبۃ:۱۱۱)

اور فرمایا: ’’وہ مسلمان جو غیر معذور ہیں اور (عذر کے بغیر)گھروں میں بیٹھے رہنے والے ہیں اور اور  وہ مومن جو اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ اللہ نے ان لوگوں کو جو اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہیں ،بیٹھ رہنے والوں پر مرتبے میں فضیلت دی ہے اور ہر ایک کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے اور مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر بڑے اجر کی فضیلت دی ہے اپنی طرف سے مرتبوں کی بھی بخشش کی بھی اور رحمت کی بھی اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے‘‘ ۔ (النسا:۹۵۔ ۹۶)

اور فرمایا: ’’اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایسی تجارت نہ بتاؤں جو تمہیں درد ناک عذاب سے بچا لے ؟ وہ یہ کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھو۔ وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ اور عمدہ گھر ہیں جو ہمیشہ رہنے والے باغوں میں ہیں۔ یہ ہے کامیابی بڑ ی اور ایک اور چیز بھی جسے تم پسند کرتے ہو، اللہ کی طرف سے مدد اور نزد یکی فتح اور مومنوں کو خوشخبری دے دیجیے۔ (الصف:۱۰۔ ۱۳)

۱۲۸۵۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا۔ کون سا عمل افضل ہے ؟ا پ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا گیا پھر کون سا؟آپ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا‘‘ ۔ پوچھا گیا پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایا: ’’حج مبرور۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لئے حدیث نمبر (۱۲۷۳) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۲۸۶۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ !اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے ؟ آپ نے فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا، میں نے کہا پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایا: والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ میں نے عرض کیا پھر کون سا ؟آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی راہ میں راہ میں جہاد کرنا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لئے حدیث نمبر (۳۱۲)ملاحظہ فرمائیں

۱۲۸۷۔ حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ کون سا عمل افضل ہے ؟آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔             (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۴۸۵۔ فتح)و مسلم (۸۴)

۱۲۸۸۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں ایک صبح یا ایک شام گزارنا، دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ان سے بہتر ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۳۶و۱۵۔ فتح)و مسلم (۱۸۸۰)

۱۲۸۹۔ حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے دریافت کیا کون سے لوگ افضل ہیں ؟۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ مومن جو اپنی جان اور مال کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے‘‘ ۔ اس نے پوچھا پھر کون ؟ آپ نے فرمایا: ’’وہ مومن جو پہاڑ کی گھاٹیوں میں سے کسی گھاٹی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھتا ہے۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۵۹۸) ملاحظہ فرمائیں

۱۲۹۰۔ حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی راہ میں ایک دن سرحدی محاذ پر پہرا دینا، دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، ان سے بہتر ہے اور جنت میں تمہارے کسی ایک کے کوڑے کے برابر جگہ (یعنی اتنی جگہ بھی مل جائے تو وہ)دنیا اور اس پر جو کچھ ہے ان سے بہتر ہے اور بندے کا اللہ کی راہ میں ایک شام یا ایک صبح کو چلنا اور جو کچھ اس پر ہے ، ان سے بہتر ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۴۶۔ فتح)و مسلم (۱۸۸۱)۔

۱۲۹۱۔ حضرت سلمان ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :سرحدی محاذ پر ایک دن اور ایک رات پہرا دینا مہینے بھر کے روزوں اور شب بیداری سے بہتر ہے اور اگر اسے اسی حالت میں موت۔ آ گئی تو اس کا وہ نیک عمل جاری رہے گا۔ جو وہ کرتا تھا اور اس پر اس کی (جنت کی) روزی جاری کی جائے گی اور وہ قبر میں آزمائش میں ڈالنے والے فرشتوں (منکر نکیر کے سوالات) سے محفوظ رہے گا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۹۱۳)

۱۲۹۲۔ حضرت فضالہ بن عبید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہر مرنے والے کا عمل اس کی موت کے ساتھ ہی ختم کر دیا جاتا ہے سوائے اس شخص کے جو اللہ کی راہ میں پہرا دیتا ہے یقیناً کہ اس کا عمل تو قیامت کے دن تک بڑھا یا جاتا ہے اور اسے قبر کی آزمائش سے بھی محفوظ رکھا جاتا ہے۔ (ابوداؤد، ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح لغیرہ۔ اخرجہ ابوداؤد (۲۵۰۰)و الترمذی (۱۶۲۱)۔

اس حدیث کی حسن ہے کیونکہ اس کے راوی ابو ہانی (حمید بن ہانی)کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ’’لا بأس بہ‘‘ ۔  لیکن عقبہ بن عامر ؓ سے مسند احمد میں اس کی روایت کی شاہد ایک صحیح روایت ہے۔ واللہ اعلم!

۱۲۹۳۔ حضرت عثمان ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک دن پہرا دینا دوسری جگہوں پر ہزار دن پہرا دینے سے بہتر ہے۔ (ترمذی، حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : حسن لغیرہ الترمذی (۱۶۶۷)والنسائی (/۴۰۶)و احمد (/۶۲۱، ۶۵، ۶۶، ۷۵)وغیر ھم

۱۲۹۴۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ اس شخص کی ذمہ داری لیتا ہے جو اس کی راہ میں نکلے۔ (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ)میری راہ میں جہاد کرنے، مجھ پر ایمان لانے اور میرے رسولوں کی تصدیق کے سوا اور کوئی چیز اسے گھر سے نکالنے والی نہ ہو تو میں اس بات کا ضامن ہوں کہ میں اسے جنت میں داخل کروں یا اسے اجر یا غنیمت۔ کے ساتھ اس کے گھر لوٹا دوں ، جہاں سے وہ روانہ ہوا تھا۔ اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے ! اللہ کی راہ میں جو زخم لگتا ہے تو قیامت والے دن وہ مجاہد اس حال میں آئے گا گویا اسے آج زخم لگا ہے ،اس کا رنگ خون کے رنگ جیسا ہو گا اور اس کی خوشبو کستوری کی خوشبو جیسی ہو گی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے۔ ! اگر میں مسلمانوں پر مشقت نہ سمجھتا تو میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کسی لشکر سے پیچھے نہ رہتا۔ لیکن میرے پاس گنجائش نہیں کہ میں ان سب کے لیے سواری کا انتظام کروں اور نہ ان کے پاس گنجائش ہے۔ اور انہیں مجھ سے پیچھے رہ جانا بھی بڑا گراں گزرتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے ! میں تو چاہتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کروں اور قتل کر دیا جاؤں پھر جہاد کروں پھر قتل کر دیا جاؤں پھر جہاد کروں اور پھر شہید کر دیا جاؤں‘‘ ۔ (مسلم)بخاری نے اس کا بعض حصہ روایت کیا ہے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۸۷۶)وبعضہ عند البخاری (/۲۰۶۔ فتح)

۱۲۹۵۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:وہ زخمی شخص جو اللہ کی راہ میں زخمی ہو تا ہے ،قیا مت والے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون بہتا ہو گا۔ اس کا رنگ خون کا رنگ ہو گا اور خوشبو کستوری کی خوشبو جیسی ہو گی۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :یہ سابقہ حدیت کا کچھ حصہ ہے جس کی طرف امام نو وی ؒ نے ارشاد فرمایا تھا کہ بخاری نے۔ اس کا بعض حصہ روایت کیا ہے۔

۱۲۹۶۔ حضرت معاذ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:جس مسلمان آدمی نے اونٹنی کے تھن سے دو دفعہ دودھ نکالنے کے درمیانی وقفے کے برابر اللہ کی راہ میں جہاد کیا اس کے لئے جنت واجب ہو گئی اور جس شخص کو اللہ کی راہ میں کوئی زخم لگایا۔ خراش آئی تو وہ زخم یا خراش قیامت والے دن زیادہ سے زیادہ اس حالت میں ہو گی۔ جس حالت میں (دنیا میں)وہ تھی اس کا رنگ زعفران جیسا اور اس کی خوشبو کستوری جیسی ہو گی۔                   (ابوداؤد، ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۲۵۴۱)و الترمذی (۱۶۵۷)والنسائی (/۲۵۶۔ ۲۶)و ابن ماجہ (۲۷۹۲)و احمد (/۲۳۰۵۔ ۲۳۱، ۲۳۵، ۲۴۴)

۱۲۹۷۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ کے صحابہ میں سے ایک آدمی کا ایک گھاٹی سے گزر ہو ا،جس میں میٹھے پانی کا ایک چھوٹا سا چشمہ تھا۔ وہ اسے بہت اچھا لگا تو اس نے (دل میں)کہا کاش!میں لوگوں سے الگ تھلگ ہو جاؤں اور اس گھاٹی میں اقامت اختیار کر لوں ،لیکن میں ایسا نہیں کروں گا حتیٰ کہ میں رسول اللہﷺ سے اجازت طلب کر لوں۔ پس اس نے رسول اللہﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ’’ایسے نہ کرو،اس لیے کہ تم میں سے کسی ایک کا اللہ کی راہ میں قیام (جہاد)کرنا اس کے اپنے گھر۔ میں ستر سال کی نماز (عباد ت)سے بہتر ہے۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے اور تمہیں جنت میں داخل فرما دے ؟اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ جس شخص نے اللہ کی راہ میں ’’فواق ناقہ‘‘ کی مدت کے برابر بھی جہاد کیا۔ تو اس کے لئے جنت واجب ہو گئی‘‘ ۔        (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : حسن۔ اخرجہ الترمذی (۱۶۵۰)با سناد حسن۔

۱۲۹۸۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ (آپﷺ سے) سوال کیا گیا : یا رسول اللہ !کون سا عمل جہاد فی سبیل اللہ کے برابر ہے ؟ آپ نے فرمایا : تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ صحابہ نے دو یا تین بار یہ سوال دہرایا اور آپ نے ہر بار یہی فرمایا :تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو روزے دار، تہجد گزار اور اللہ کی آیات کی خشوع و خضوع سے تلاوت کرنے والا ہو۔ وہ روزے سے تھکتا ہو نہ نماز سے حتیٰ کہ مجاہد فی سبیل اللہ اپنے گھر لوٹ آئے‘‘ ۔ (متفق علیہ۔ یہ الفاظ مسلم کے ہیں)

اور بخاری کی روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے کہا :یا رسول اللہ !مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو جہاد کے برابر ہو؟آپ نے فرمایا: ’’میں ایسا عمل نہیں پاتا‘‘ ۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’کیا تم اتنی طاقت رکھتے ہو کہ جب مجاہد جہاد کے لیے نکلے تو تم اپنی مسجد میں داخل ہو جاؤ، پس تم نماز میں کھڑے ہو جاؤ اور ذرا سستی نہ کرو اور تم روزہ رکھو اور کبھی روزہ نہ چھوڑو‘‘ ؟ اس آدمی نے کہا : ’’اس کی طاقت کون رکھتا ہے‘‘ ؟

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۶۔ فتح)و مسلم (۱۸۷۸)

۱۲۹۹۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لوگوں میں سے سب سے بہتر زندگی اس شخص کی ہے جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہو،وہ جب بھی کوئی جنگی آواز یا گھبراہٹ کا شور سنتا ہے تو وہ اس گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر تیزی کے ساتھ شہادت یا موت کو اس کی جگہوں سے تلاش کرنے کیلئے پہنچتا ہے یا اس آدمی کی زندگی بہتر ہے جو کچھ بکریاں لے کر ان چوٹیوں میں سے کسی چوٹی یا ان وادیوں میں سے کسی وادی میں مقیم ہو جاتا ہے نماز قائم کرتا ہے ،زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور موت آنے تک اپنے رب کی عبادت کرتا ہے اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کے سوا اس کا کوئی تعلق نہیں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۶۰۱)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۳۰۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: یقیناً جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کر رکھا ہے ،دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۶۶۔ فتح)

۱۳۰۱۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو شخص خوش ہو اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین اور محمدﷺ کو رسول مان کر،اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔ حضرت ابو سعید ؓ نے اس فرمان پر اظہار تعجب کیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ فرمان میرے سامنے پھر دہرائیں۔ آپ نے اسے دوبارہ ان کے سامنے بیان کیا پھر فرمایا:ایک دوسری نیکی بھی ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ جنت میں سو درجات بلند فرماتا ہے ،ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جنتا آسمان اور زمین کے درمیان فاصلہ ہے۔ حضرت ابو سعید نے عرض کیا :یا رسول اللہ ! وہ کون سی نیکی ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم : (۱۸۸۴)

۱۳۰۲۔ حضرت ابو بکر بن ابی موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد (حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ)سے سنا جبکہ وہ دشمن کے سامنے تھے وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے ہیں۔ پس یہ سن کر ایک پراگندہ حال شخص کھڑا ہو اتو اس نے کہا ابو موسیٰ !کیا تم نے رسول اللہﷺ کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے ؟حضرت ابو موسیٰ نے کہا :ہاں پس وہ شخص اپنے ساتھیوں کے پاس لوٹ کر گیا اور کہا میں تمہیں (الوداعی)سلام کہتا ہوں۔ پھر اس نے تلوار کی نیام توڑ کر پھینک دی اور اپنی تلوار لے کر دشمن کی طرف گیا اور اس کے ساتھ دشمن سے لڑ تا رہا حتیٰ کہ شہید ہو گیا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۹۰۲)

۱۳۰۳۔ حضرت ابوعبس عبدالرحمن بن جبیر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص کے قدم اللہ کی راہ میں غبار الود ہوں انہیں جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۹۶۔ فتح)

۱۳۰۴۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ آدمی جہنم میں نہیں جائے گا جو اللہ کے ڈرسے روپڑا حتیٰ کہ دودھ تھنوں میں واپس چلا جائے اور کسی آدمی پر اللہ کی راہ کا غبارا ور جہنم کا دھواں اکٹھے نہیں ہوں گے۔ (ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۴۴۸) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۳۰۵۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : دو (طرح کی)آنکھیں ایسی ہیں جنہیں جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی، ایک وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے رو پڑ ی اور ایک وہ آنکھ جس نے اللہ کی راہ میں پہرا دیتے ہوئے رات گزاری۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح لغیرہ۔ اخرجہ الترمذی (۱۶۳۹)با سنادفہ ضعف

اس حدیث کی سند ضعیف ہے لیکن اس کے شواہد موجود ہیں۔ حضرت انس ؓ سے ابو یعلیٰ (۴۳۴۶)میں ابو ہریرہ ؓ سے شرح السنۃ (/۳۵۵۱۰)اور حاکم (/۸۲۲)میں اور ابو ریحانہ ؓ سے نسائی (/۱۵۶)،احمد (/۱۳۴۴۔ ۱۳۵)اور حاکم (/۸۳۲)میں احادیث ہیں جن کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے۔ واللہ اعلم!

۱۳۰۶۔ حضرت زید بن خالد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے کسی مجاہد کو (جہادی سازو سامان دے کر)تیار کیا تو یقیناً اس نے خود جہاد کیا اور جس شخص نے کسی مجاہد کی اس کے گھر میں خیرو بھلائی کے ساتھ جانشینی کی تو یقیناً اس نے بھی خود جہاد کیا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۷۷)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۳۰۷۔ حضرت ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صدقات میں سے افضل صدقہ اللہ کی راہ میں سایہ دار خیمہ لگا نا ہے یا اللہ تعالیٰ کی راہ میں کسی خادم کا عطیہ دینا ہے ،یا اللہ کی راہ میں جو ان اونٹنی دینا ہے۔ (ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : حسن لغیرہ اخرجہ الترمذی (۱۶۲۷)والطبرانی (۷۹۱۶)

یہ حدیث حسن درجے کی ہے کیونکہ ولید بن جمیل کی حدیث حسن ہونے کے زیادہ لائق ہے۔ پھر ترمذی (۱۶۲۶)اور طبرانی (/۲۵۵۱۷)میں اس کا ایک شاہد بھی موجود ہے جس کی سند کثیر بن حارث کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن یہ راوی متابعت کے وقت مقبول ہے۔  (واللہ علم!)

۱۳۰۸۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ اسلم قبیلے کے ایک نوجوان نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! میں جہاد کرنا چاہتا ہوں لیکن اس کی تیاری کے لیے میرے پاس کوئی وسائل نہیں آپ نے فرمایا:۔ فلاں شخص کے پاس جاؤ اس لیے کہ اس نے تیاری کی ہوئی ہے لیکن وہ بیمار ہو گیا ہے (اب جہاد پر نہیں جا سکتا)پس وہ نوجوان اس آدمی کے پاس آیا تو اسے کہا :رسول اللہﷺ تمہیں سلام کہتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تم نے جہاد کیلئے جو کچھ تیار کیا تھا وہ مجھے دے دے۔ اس آدمی نے (اپنی بیوی سے) کہا :اے اللہ کی بندی !میں نے جو کچھ تیار کیا تھا وہ اسے دے دو، دیکھو اس میں سے کوئی چیز نہ روکنا، اللہ کی قسم ! تم اس میں سے اگر کوئی چیز رکھو گی تو اس میں برکت نہیں ہو گی۔ (مسلم)

توثیق الحدیث کے لئے حدیث نمبر (۱۷۶) ملاحظہ فرمائیں۔ ۔

۱۳۰۹۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے بنو لحیان کی طرف (جہاد کے لئے) ایک دستہ بھیجا تو فرمایا: ہر دو امیوں میں سے ایک آدمی جہاد کے لیے جائے اور اجرو ثواب دونوں کو ملے گا۔ (مسلم)

اور مسلم ہی کی ایک اور روایت میں ہے :دو امیوں میں سے ایک آدمی ضرور جہاد کے لیے نکلے۔ پھر آپ نے گھر میں بیٹھنے والے کے لیے فرمایا: تم میں سے جو شخص جہاد میں جانے والے کے گھر والوں اور اس کے مال کا بہتر (یعنی نیکی کے ساتھ)جانشین بنے گا تو اس کو جہاد میں جانے والے سے آدھا اجر ملے گا۔

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۸۹۶)والروایۃ الثانیۃ وعندہ بر قم (۱۸۹۶) (۱۳۸)۔

۱۳۱۰۔ حضرت براؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی لوہے کے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر نبیﷺ کی خدمت میں حاصر ہوا تو اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میں پہلے جہاد کروں یا اسلام قبول کروں ؟آپ نے فرمایا:پہلے اسلام قبول کرو پھر جہاد کرو۔ پس اس نے اسلام قبول کیا پھر جہاد کیا اور پھر شہید ہو گیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : اس نے عمل تو تھوڑا کیا مگر اجر بہت زیادہ پا گیا۔ (متفق علیہ۔ یہ الفاظ بخاری کے ہیں)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۲۴۶۔ فتح)و مسلم (۱۹۰۰)

۱۳۱۱۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جنت میں داخل ہونے کے بعد کوئی بھی شخص دنیا میں لوٹنے کو پسند نہیں کرے گا اور نہ کوئی جنتی یہ پسند کرے گا کہ دنیا میں اس کے لیے کوئی چیز ہو، سوائے شہید کے کہ وہ تمنا کرے گا کہ دنیا میں لوٹ جائے اور دس مرتبہ شہید کر دیا جائے۔ (وہ یہ تمنا)اس لیے کرے گا کہ اس نے جنت میں شہادت کی وجہ سے)اپنی عزت افزائی دیکھ لی ہو گی۔ (متفق علیہ)

ایک روایت میں ہے ’’اس لیے کہ وہ شہادت کی فضیلت دیکھ چکا ہو گا‘‘ ۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۳۲۶۔ فتح)و مسلم (۱۸۷۷) (۱۰۹)والروایۃ الثانیۃ عند مسلم (۱۸۷۷)۔

۱۳۱۲۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:اللہ قرض کے علاوہ شہید کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے۔ (مسلم)

اور مسلم کی ایک اور روایت میں ہے اللہ کی راہ میں شہید ہو جانا قرض کے علاوہ تمام گنا ہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۱۸۸۶) (۱۱۹)والروایۃ الثانیۃ عندہ بر قم (۱۸۸۶) (۱۲۰)

۱۳۱۳۔ حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے ان میں کھڑے ہوئے آپ نے ذکر کیا کہ: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور اللہ پر ایمان لانا تمام اعمال سے افضل ہے پس ایک آدمی کھڑا ہوا تو اس نے عرض کیا یا رسول اللہ !مجھے بتائیں کہ اگر میں اللہ کی راہ میں شہید ہو جاؤں تو کیا مجھ سے میری خطائیں معاف کر دی جائیں گی؟رسول اللہﷺ نے اسے فرمایا: ہاں : اگر تم اللہ کی راہ میں اس حال میں شہید ہو جاؤ کہ تم صبر کرنے والے ہوئے، ثواب کی امید رکھنے والے، اور آگے بڑھنے والے، پیٹھ نہ دکھانے والے ہوئے (تو پھر تمہاری خطائیں معاف کر دی جائیں گی)۔ پھر رسول اللہﷺ نے پوچھا تم نے کیسے کہا تھا ؟اس نے دوبارہ عرض کیا مجھے بتائیں اگر میں اللہ کی راہ میں شہید ہو جاؤں تو کیا میری خطائیں مجھ سے معاف کر دی جائے گی ؟پس رسول اللہﷺ نے فرمایا !ہاں !اگر تم صبر کرنے والے، ثواب کی امید رکھنے والے، پیش قدمی کرنے والے اور پیٹھ نہ دکھانے والے ہوئے (تو تمہاری خطائیں تم سے معاف کر دی جائیں گی)سوائے قرض کے ،اس لیے کہ جبرائیل ؑ نے (ابھی) مجھے اس کی خبر دی ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۲۱۷)ملاحظہ فرمائیں

اور کچھ مندرجہ ذیل فوائد بھی ہیں۔

جہاد فی سبیل اللہ اور اللہ پر ایمان لانا سب اعمال سے افضل عمل ہے۔

شہادت گنا ہوں کا کفارہ بن جاتی ہے لیکن اس کے لیے چار شرائط ہیں :۔ (۱) صابر ہو (۲) محتسب ۔ ۔ (خالص نیت سے لڑ نے والا) ہو (۳) پیش قدمی کرنے والا ہو (۴) اور پیٹھ نہ دکھانے والا ہو۔

۱۳۱۴۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ !اگر میں شہید ہو جاؤں تو میں کہاں ہوں گا؟ آپ نے فرمایا:جنت میں۔ پس اس کے ہاتھ میں جو کھجوریں تھیں وہ اس نے پھینک دیں پھر جہاد کیا حتیٰ کہ شہید ہو گیا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۸۹) ملاحظہ فرمائیں۔

تنبیہ : امام نو وی ؓ نے یہاں صرف صحیح مسلم کا حوالہ دیا ہے جبکہ حدیث نمبر (۸۹) میں صحیحین کا حوالہ دیا ہے اور وہی صحیح ہے۔

۱۳۱۵۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہ (بدر کی طرف)روانہ ہوئے حتیٰ کہ وہ مشرکین سے پہلے بدر کے مقام پر پہنچ گئے اور بعد میں مشرکین بھی۔ آ گئے پس رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص کسی معاملے میں پیش قدمی نہ کرے حتیٰ کہ میں خود اس کے بارے میں میں کچھ کہوں یا کروں‘‘ ۔ جب مشرکین (لڑ آئی کے لئے)قریب ہوئے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس جنت کی طرف کھڑے ہو جاؤ جس کی چوڑ آئی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں حضرت عمیر بن حمام انصاری ؓ کہنے لگے : یا رسول اللہﷺ : جنت کی چوڑ آئی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے ؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں !‘‘ حضرت عمیر نے کہا : واہ واہ ! رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تمہیں واہ واہ کہنے پر کس چیز نے ابھارا ہے ؟ انھوں نے عرض کیا : اللہ کی قسم!یا رسول اللہ !اس امید کے سوا اور کوئی چیز نہیں کہ میں بھی اہل جنت میں سے ہو جاؤں۔ آپ نے فرمایا: تم یقیناً اہل جنت میں سے ہو۔ پس انھوں نے اپنے ترکش میں سے چند کھجوریں نکالیں اور انہیں کھانا شروع کر دیا پھر خود ہی کہنے لگے اگر میں اپنی یہ چند کھجوریں کھانے تک زندہ رہا تو پھر یہ (دنیاوی)زندگی تو بہت طویل ہے۔ پس انھوں نے اپنی وہ کھجوریں پھینک دیں اور مشرکین سے قتال شروع کر دیا حتیٰ کہ وہ شہید ہو گئے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۱۹۰۱)

۱۳۱۶۔ حضرت انس ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ نبی۔ ؐ کی خد مت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ ہمارے ساتھ کچھ آدمی بھیج دیں جو ہمیں قرآنو سنت کی تعلیم دیں۔ پس آپ نے ستر (۷۰) انصاری صحابہ ان کی طرف بھیج دیے جنہیں قرا کہا جاتا تھا۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں ان میں میرے ماموں حضرت حرامؓ بھی تھے یہ لوگ قرآن پڑھتے اور رات کو آپس میں ایک دوسرے کو قرآن سناتے اور اسے سیکھتے سکھاتے تھے۔ یہ حضرات دن کے وقت پانی لاتے اور مسجد میں رکھتے اور لکڑ یاں لاتے ، پس انہیں فروخت کرتے تھے ، جس سے اہل صفہ اور فقرا کے لیے کھانا وغیرہ خریدتے تھے۔ پس نبیﷺ نے ان کو بھیج دیا۔ لیکن ان کولے جانے والے لوگ ان سے لڑ نے لگے حتیٰ کہ انھوں نے ان کو۔ منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے ہی قتل کر دیا۔ تو انھوں نے دعا کی :یا اللہ ! ہماری طرف سے ہمارے نبی کو یہ بات پہنچا دے کہ ہماری آپ سے ملاقات ہو گئی ہے ،ہم آپ سے راضی اور آپ ہم سے راضی ہو گئے ہیں۔ (اس واقعہ میں)ایک آدمی حضرت انس ؓ کے ماموں حضرت حرام ؓ کے پاس ان کے پیچھے سے آیا اور انہیں نیزہ مارا حتیٰ کہ وہ ان کے جسم سے پار ہو گیا تو حضرت حرام ؓ نے فرمایا رب کعبہ کی قسم ! میں کامیاب ہو گیا۔ پس رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارے بھائی شہید کر دیے گئے اور انھوں نے کہا : ’’اے اللہ !ہمارے متعلق ہمارے نبیﷺ کو یہ بات پہنچا دے کہ ہماری آپ سے ملاقات ہو گئی ہے ،ہم آپ سے راضی اور آپ ہم سے راضی ہو گئے‘‘ ۔ (متفق علیہ۔ یہ الفاظ مسلم کے ہیں)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۸۶۔ ۱۹۔ فتح)و مسلم (/۱۵۱۱۳)

۱۳۱۷۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے چچا حضرت انس بن نضرؓ۔ معرکہ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے ، انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! میں، پہلی لڑ آئی جو آپ نے مشرکین سے لڑ ی، اس میں شریک نہیں ہو سکا تھا ،اگر آئندہ اللہ نے مجھے مشرکین کے ساتھ لڑ نے کا موقع فراہم کیا تو اللہ دیکھ لے گا کہ میں کیا کرتا ہوں۔ پس جب غزوۂ احد کا دن آیا اور مسلمان بظاہر شکست خورد ہ ہو کر منتشر ہو گئے تو حضرت انس بن نضر ؓ نے فرمایا: اے اللہ ! میں تیری جناب میں اس چیز سے معذرت کرتا ہوں جو کچھ میرے ان ساتھیوں نے کیا اور تیرے سامنے اس کام سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں جو ان مشرکین نے کیا۔ پھر وہ آگے بڑھے تو حضرت سعدبن معاذ ؓ سے ان کا سامنا ہو ا،انھوں نے کہا سعد بن معاذ! جنت! نضر کے رب کی قسم !میں تو احد پہاڑ کے قریب اس (جنت)کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔ حضرت سعد ؓ نے کہا یا رسول اللہ! وہ (حضرت انس بن نضر ؓ)جو کچھ کر گزرے میں تو اس کی استطاعت نہیں رکھتا۔ حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں : ہم نے ان کے جسم پر اسی (۸۰)سے زیادہ تلو ار کے گھاؤ یا  نیزے کے زخم یا تیر کے نشان پائے ،ہم نے انہیں اس حالت میں پایا کہ وہ شہید ہو چکے ہیں اور مشرکین نے ان کا مثلہ کر کے ان کی شکل و صورت بگاڑ دی تھی۔ پس انھیں ان کی بہن کے سوا کوئی اور پہچان نہ سکا۔ بہن نے بھی انہیں انگلیوں کے پوروں سے پہچانا۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں ہم سمجھتے یا خیال کرتے تھے کہ یہ آیت حضرت انس بن نصرؓ اور ان جیسے حضرات کے بارے ہی میں نازل ہوئی ہے۔ ’’مومنوں میں سے کچھ لوگو ہ ہیں جنھوں نے وہ عہد سچا کر دکھایا جو انھوں نے اللہ سے کیا تھا اور بعض ان میں سے وہ ہیں جنھوں نے اپنا ذمہ پورا کر دیا‘‘ ۔ آخر۔ آیت تک (احزاب :۲۳)

(متفق علیہ)یہ روایت ’’باب المجاہدۃ‘‘ میں گزر چکی ہے۔

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۰۹) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۳۱۸۔ حضرت سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نے آج رات دو آدمیوں کو دیکھا کہ وہ میرے پاس آئے اور مجھے ایک درخت پر لے چڑھے پس وہ مجھے ایک گھر میں لے گئے جو بہت اچھا اور نہایت شاندار تھا ،میں نے اس سے اچھا گھر کبھی نہیں دیکھا۔ ان دونوں نے کہا یہ گھر تو شہدا کا گھر ہے۔ (بخاری)

یہ ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا ہے اس میں علم کی بہت سی قسمیں ہیں ،یہ حدیث اگر اللہ نے چاہا تو ’’باب تحریم الکذب‘‘ میں آئے گی۔

توثیق الحدیث انشا اللہ حدیث نمبر (۱۵۴۶) میں بیان ہو گی۔

۱۳۱۹۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ام ربیع بنت برا جو حضرت حارثہ بن سراقہؓ کی والدہ ہیں نبی۔ ؐ کی خدمت میں آئیں تو کہا یا رسول اللہ ! کیا آپ مجھے حارثہ کے بارے میں نہیں بتاتے ؟ اور یہ غزوہ بدر کے موقع پر شہید ہو گئے تھے اگر تو وہ جنت میں ہیں تو میں صبر کرتی ہوں اور اگر اس کے علاوہ کہیں ہیں تو پھر میں اس پر جی بھر کر روؤں۔ آپ نے فرمایا: اے ام حارثہ ! جنت میں بہت سے درجات ہیں اور تیرا بیٹا تو فردوس اعلیٰ (اعلیٰ ترین درجے)میں پہنچ گیا ہے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۶۶۔ فتح)

تنبیہ:بخاری کی روایت میں ہے ’’وکان قتل یوم بدر‘‘ کے بعد یہ الفاظ ہیں : ( (أصابسھم غرب)) ’’اسے نامعلوم تیر لگا تھا‘‘ یعنی اس تیر پھینکنے والے کا کوئی علم نہیں اور نہ یہ علم ہے کہ یہ تیر کہاں سے آیا ہے۔

۱۳۲۰۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد کو نبیﷺ کی خدمت میں لا یا گیا ، ان کا مثلہ کر دیا گیا تھا۔ پس انہیں آپ کے سامنے رکھا گیا تو میں ان کے چہرے سے کپڑا ہٹانے لگا تو میری قوم کے کچھ لوگوں نے مجھے روک دیا۔ پس نبیﷺ نے فرمایا: ’’فرشتے اپنے پروں سے تیرے والد کو برابر سایہ کرتے رہے‘‘ ۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۲۶۔ فتح)مسلم (۲۴۷۱)۔

۱۳۲۱۔ حضرت سہل بن حنیف ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ سے صدق

دل سے شہادت کی دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو شہدا ء کے مراتب پر فائز فرمائے گا، اگرچہ وہ اپنے بستر ہی پر فوت ہوا ہو۔ (مسلم)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۵۷)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۳۲۲۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو شخص صدق دل سے شہادت کا طالب ہو تو اسے یہ مقام عطا کر دیا جاتا ہے ، اگرچہ یہ شہادت اسے نصیب نہ ہو۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۹۰۸)

۱۳۲۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:شہید قتل ہونے کی بس اتنی تکلیف محسوس کرتا ہے جتنی تم میں سے کوئی ایک چیونٹی کے کاٹنے سے تکلیف محسوس کرتا ہے۔ (ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : حسن اخرجہ الترمذی (۱۶۶۸)والنسائی (/۲۶۶)و ابن ماجہ (۲۸۰۲)و احمد (/۲۹۷۲)۔

اس حدیث کی سند حسن ہے اور اسکے سب راوی ثقہ ہیں سوائے محمد بن عجلان کے وہ صدوق ہے۔

۱۳۲۴۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت۔ ہے کہ رسول اللہﷺ اپنے بعض آیام میں جب آپ کا دشمن سے مقابلہ ہوا تھا آپ نے انتظار فرمایا: حتیٰ کہ سورج ڈھل گیا پھر آپ خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے لوگوں میں کھڑے ہوئے تو فرمایا: لوگو! دشمن سے مقابلے کی آرزو مت کرو اور اللہ سے عافیت طلب کرو،لیکن جب ان دشمنوں سے مقابلہ ہو تو پھر صبر کرو، ثابت قدم رہو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے پھر آپ نے فرمایا: اے اللہ ! کتاب کے نازل کرنے والے !بادلوں کو چلانے والے ! لشکروں کو شکست دینے والے !ان کو شکست سے دوچار فرما اور ان کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔      (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کیلئے حدیث نمبر (۵۳)ملاحظہ فرمائیں۔ ان کے علاوہ چند ایک مزید :۔

۱۔ لڑائی کا آغاز سورج ڈھلنے کے بعد کرنا چاہیے۔

۲۔ امیر لشکر کو چاہیے کہ لڑ آئی سے پہلے اپنی فوج کو وعظ و نصیحت کرے۔

۳۔ دشمن سے مقابلے کی تمنا اور آرزو نہیں کرنی چاہیے۔

۴۔ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرتے رہنا چاہیے۔

۵۔ جب دشمن سے مقابلہ ہو جائے تو پھر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

۶۔ جہاد کی فضیلت کہ جنت تلواروں کی چھاؤں میں ہے۔

۷۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اتارا اور وہی بادلوں کو چلاتا ہے۔

۸۔ فوجوں کو وہی شکست دیتا ہے ، طاقت کا سر چشمہ وہی ہے اور اسی سے نصرت طلب کرنی چاہیے۔

۱۳۲۵۔ حضرت سہل بن سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دو دعائیں رد نہیں کی جاتی یا کم ہی رد کی جاتی ہیں، (ا)اذان کے وقت کی دعا اور (۲)لڑ آئی کے وقت کی دعا، جب کہ باہم گھمسان کی جنگ ہو رہی ہو۔           (ابوداؤد۔ سند صحیح۔ ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۲۵۴۰)و ابن حبان (۱۷۲۰)والدارمی (/۲۷۲۱)و ابن خزیمۃ (۴۰۰)والطبرنی (۵۸۴۷)وابو نعیم فی ( (حلیۃ الأ ولیا ء)) (/۳۴۳۶)

۱۳۲۶۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ جہاد کرتے تو یہ دعا پڑھتے تھے : ’’اے اللہ !تو میرا دست و بازو اور مدد گار ہے۔ تیری توفیق سے میں دفاع کرتا ہوں اور تیری ہی توفیق سے میں (دشمن پر)حملہ کرتا اور قتال کرتا ہوں‘‘ ۔ (ابوداؤد،ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :صحیح اخرجہ ابوداؤد (۲۶۳۲)و الترمذی (۳۵۸۴)و احمد (/۱۸۴۳)وغیر ھم

۱۳۲۷۔ حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ جب کسی قوم سے خوف و خطرہ محسوس فرماتے تو یہ دعا پڑھتے تھے :اے اللہ ! ہم تجھے ہی ان کے مد مقابل کرتے ہیں اور تجھ ہی سے ان کی شرارتوں سے پناہ طلب مانگتے ہیں۔ (ابو داؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۱۵۳۷)و احمد (/۴۱۴۴۔ ۴۱۵)وغیر ھم باسناد صحیح۔

۱۳۲۸۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: گھوڑوں کی پیشانیوں میں روز قیامت تک کے لیے خیرو بھلائی رکھ دی گئی ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۵۴۶۔ فتح)و مسلم (۱۸۷۱)

۱۳۲۹۔ حضرت عروہ بارقی ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’گھوڑوں کی پیشانیوں میں روز قیامت تک کے لئے خیر و بھلائی رکھ دی گئی ہے۔ اجر و ثواب اور غنیمت‘‘ ۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۵۶۶۔ فتح)و مسلم (۱۸۷۳)

۱۳۳۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے اور اس کے وعدے کی تصدیق کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں (جہاد کے لیے)گھوڑا پالا تو یقیناً اس کا سیر ہو کر کھانا، اس کا سیراب ہونا، اس کی لید اور اس کا پیشاب قیامت والے دن (نیک اعمال کی صورت میں)اس کے ترازو میں ہو گئے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۵۷۶۔ فتح)

۱۳۳۱۔ حضرت ابو مسعود بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی مہار ڈالی ہوئی ایک اونٹنی لے کر نبیﷺ کی خدمت حاضر ہواتو اس نے کہا یہ اونٹنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف ہے پس رسول اللہﷺ نے فرمایا: تیرے لیے روز قیامت اس اونٹنی کے بدلے میں سات سو اونٹنیاں ہوں گی اور وہ سب کی سب مہار ڈالی ہوئی ہوں گی۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۱۸۹۲)۔

۱۳۳۲۔ حضرت ابو حماد، جبکہ بعض نے کہا ابو اسعاد،یا ابو اسد،یا ابو عامر،یا ابو عمرو،ابوالاسود،یا ابو عبس،عقبہ بن عامر جہنی ؓ بیان کرتے ہیں۔ کہ میں نے رسول اللہﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا :تم ان کے مقابلے میں اپنی مقدور بھر قوت تیار کرو۔ سنو !قوت سے مراد تیر اندازی ہے، سن لو!قوت سے مراد تیر اندازی ہے، پھر سن لو!قوت سے مراد تیر اندازی ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۱۹۱۷)

۱۳۳۳۔ حضرت عقبہ بن عامر جہنی ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’تم پر بہت سی زمینوں کے فتح کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ تمہیں کافی ہو جائے گا۔ پس تم میں سے کوئی شخص اپنے تیروں کی مشق کے بارے میں کوتاہی اور غفلت نہ برتے۔ ‘‘ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۹۱۸)

۱۳۳۴۔ حضرت عقبہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے تیر اندازی سیکھی پھر اسے چھوڑ دیا تو وہ ہم میں سے نہیں۔ یا فرمایا:اس نے یقیناً نافرمانی کی۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۱۹۱۹)

۱۳۳۵۔ حضرت عقبہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : یقیناً اللہ تعالیٰ ایک تیر کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرمائے گا (۱)اس کے بنانے والے کو جو اس کے بنانے میں خیرو بھلائی کی امید رکھے (۲)تیر انداز کو (۳)اور ترکش سے تیر نکال کر دینے والے کو۔ تم تیر اندازی اور سواری (کا فن)سیکھو اور یہ کہ تم تیر اندازی سیکھو،یہ مجھے تمہارے سواری (کا فن) سیکھنے سے زیادہ محبوب ہے۔ اور جس نے بے رغبتی کی وجہ سے تیر اندازی کو سکھائے جانے کے بعد ترک کر دیا تو اس نے ایک نعمت کو چھوڑ دیا۔ یا فرمایا:اس نے اس نعمت کی ناشکری کی۔ (ابوداؤد)

توثیق الحدیث :ضعیف۔ اخرجہ ابوداؤد (۲۵۱۳)و الترمذی (۱۶۳۷)والنسائی (/۲۸۶)و ابن ماجہ (۲۸۱۱)وغیرھم با سنادضعیف۔

اس حدیث کی سند میں دو علتیں ہیں ،ایک یہ کہ اس میں اضطراب ہے ، ابو سلام کے استاد کے اختلاف کی وجہ سے جیسا کہ حافظ عرافی نے ’’نخریج الا حیاء‘‘ میں بھی اس چیز پر متنبہ کیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کی سند میں دو راوی خالد بن زید اور عبد اللہ بن ازرق مجہول ہیں ،ان کا شمار مجہول راویوں میں ہوتا ہے۔

۱۳۳۶۔ حضرت سلمہ بن اکوعؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو بطور مقابلہ تیر اندازی کر رہے تھے ،تو آپ نے فرمایا: بنو اسماعیل! تیر اندازی کرو ،اس لیے کہ تمہارے ابا بھی تیر انداز تھے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۹۱۶۔ فتح)۔

۱۳۳۷۔ حضرت عمرو بن عبسہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک تیر چلایا تو وہ ایک تیر اس کے ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب رکھتا ہے۔ (ابوداؤد۔ ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث :صحیح اخرجہ ابوداؤد (۳۹۶۵)و الترمذی (۱۶۳۸)والنسائی (/۲۷۶)با سناد صحیح

۱۳۳۸۔ حضرت یحییٰ خریم بن فاتک ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرتا ہے تو اس کیلئے سات سو گنا اجرو ثواب لکھا جاتا ہے۔ (ترمذی، حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :صحیح اخرجہ الترمذی (۱۶۲۵)و احمد (/۳۴۵۴)۔

۱۳۳۹۔ حضرت ابو سعید ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے (جہاد) میں ایک روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس دن (کے روزے)کی وجہ سے اس شخص کے چہرے کو جہنم سے ستر سال کی مسافت کے برابر دور کر دیتا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لئے حدیث نمبر (۱۲۱۸)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۳۴۰۔ حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ (جہاد)میں ایک دن کا روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کے اور جہنم کے درمیان ایک خندق ڈال دیتا ہے جس کی مسافت آسمانو زمین کے درمیانی فاصلے کے برا بر ہے۔         (ترمذی۔ حدیث حسن صحیح)

توثیق الحدیث :حسن لغیرہ۔ اخرجہ الترمذی (۱۶۲۴)

اس حدیث کی سند حسن ہے کیونکہ ولید بن جمیل کی حدیث حسن ہونے کے زیادہ لائق ہے اور اسکے دو شاہد بھی ہیں۔ ایک طبرانی صغیر (/۱۶۰۱۔ ۱۶۱)میں ، جس کی سند میں مشہر بن جو شعب ضعیف راوی ہے اور دوسرا شاہد طبرانی اوسط (۱۶۰۵)میں جس کی سند عیسیٰ بن سلیمان کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اور بالجملہ یہ حدیث اپنے شواہد کی بنا پر حسن ہے۔ (واللہ اعلم)

۱۳۴۱۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ اس نے جہاد کیا،نہ جہاد کے بارے میں اپنے دل میں خیال پیدا کیا تو اس کی موت نفاق کی خصلت پر ہو گی۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۱۹۱۰)

۱۳۴۲۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوے میں نبیﷺ کے ساتھ تھے کہ۔ آ پ نے فرمایا: بے شک مدینے میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ تم نے جو بھی مسافت طے کی اور جس وادی سے بھی گزرے تو وہ (اجر و ثواب کے لحاظ سے)تمہارے ساتھ تھے ،انہیں مرض نے روک لیا۔

ایک اور روایت میں ہے : عذر نے انہیں روک دیا ہے

اور ایک روایت میں ہے :وہ اجر میں تمہارے ساتھ شریک رہے (بخاری نے اسے حضرت انسؓ سے اور مسلم نے اسے حضرت جابرؓ سے روایت کیا ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۴)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۳۴۳۔ حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ایک آدمی مال غنیمت کے لیے لڑ تا ہے، ایک آدمی اس لیے قتال کرتا ہے کہ اس کی شہرت ہو، اور ایک آدمی اس لیے قتال کرتا ہے کہ اس کا مقامو مرتبہ پہچانا جائے۔

ایک اور روایت میں ہے ایک شجاعت و بہادری دکھانے کے لئے لڑ نا اور ایک حمیتو عصبیت کی خاطر لڑ تا ہے۔

اور ایک روایت میں ہے :کوئی شخص غصے کی وجہ سے قتال کرتا ہے ،    پس ان میں سے کون اللہ کی راہ میں لڑ نے والا ہے ؟پس رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اس لیے لڑے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو تو وہ شخص اللہ کی راہ میں لڑ نے والا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۸)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۳۴۴۔ حضرت عبداللہ بن عمر و بن عاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو کوئی بڑ آیا چھوٹا لشکر جہاد کرے اور وہ مال غنیمت اور سلامتی کے ساتھ واپس۔ آ جائے تو اس لشکر والوں نے اپنا دو تہائی اجر دنیا ہی میں حاصل کر لیا اور جو کوئی بڑا یا چھوٹا لشکر جہاد کرے اور غنیمت حاصل نہ کر سکے (بلکہ) وہ شہید یا زخمی ہو جائے تو اس لشکر والوں کا مکمل اجر ہے۔        (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۱۹۰۶) (۱۵۴)

۱۳۴۵۔ حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے سیاحت (ترکِ دنیا۔ ، رہبانیت)کی اجازت مرحمت فرمائیں۔ پس نبیﷺ نے فرمایا: بے شک میری امت کی سیاحت اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔ (ابوداؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث :صحیح لغیرہ۔ اخرجہ ابوداؤد (۲۴۸۶)والطبرانی فی ’’الکبیر‘‘ (۷۷۶۰)والحاکم (/۸۳۲)۔

۱۳۴۶۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جہاد سے لوٹنا جہاد کرنے کی مانند ہے۔ (ابوداؤد۔ سند جید ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۲۴۸۷)و احمد (/۱۷۴۲)وغیرھماو ھو الصحیح۔

۱۳۴۷۔ حضرت سائب بن یزید ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب نبیﷺ غزوۂ تبوک سے واپس تشریف لائے تو لو گ آپ سے ملاقات کرنے کیلئے نکلے۔ پس میں نے بھی بچوں کے ساتھ ’’ثنیۃ الوداع‘‘ کے مقام پر آپ سے ملاقات کی۔ ابو داؤد نے اسے صحیح سند کے ساتھ ان الفاظ سے روایت کیا ہے اور بخاری نے اسے اس طرح روایت کیا ہے کہ حضرت سائب ؓ بیان کرتے ہیں ہم بچوں کے ساتھ رسول اللہﷺ کے استقبالو ملاقات کیلئے ’’ثنیۃ الوداع‘‘ تک گئے۔

توثیق الحدیث :اخرجہ ابوداؤد (۲۷۷۹)والروایۃ الثانیۃعند البخاری (/۱۹۱۶۔ فتح)۔

۱۳۴۸۔ حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جس شخص نے نہ جہاد کیا، نہ کسی غازی کو سامان جہاد دے کر تیار کیا اور نہ کسی مجاہد کے گھر میں اچھی طرح خیرو بھلائی کے ساتھ جانشینی کی تو پھر اللہ تعالیٰ قیامت سے پہلے اسے کسی بڑ ی ہلاک کن مصیبت سے دو چار کرے گا۔                 (ابو داؤد۔ اسناد صحیح ہیں)

توثیق الحدیث :حسن۔ اخرجہ ابو داؤد (۲۵۰۳)و ابن ماجہ (۲۷۶۲)والدارمی (/۲۰۹۲)

۱۳۴۹۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : مشرکین کے ساتھ اپنے مالوں ،اپنی جانوں اور اپنی زبانوں کے ساتھ جہاد کرو۔ (ابو داؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۲۵۰۴)والنسائی (/۷۶)و احمد (/۱۲۴۳، ۱۵۳)وغیر ھم با سناد صحیح۔

۱۳۵۰۔ حضرت ابو عمرو، بعض کے نزدیک ابو حکیم نعمان بن مقرن ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ (غزوات میں شریک)رہا،جب آپ دن کے ابتدائی حصے میں لڑ آئی کا آغاز نہ کرتے تو پھر آپ سورج ڈھلنے تک لڑ آئی کو مؤخر کر دیتے حتیٰ کہ سورج ڈھل جاتا ،ہو آئیں چلنے لگتیں اور مدد نازل ہونے لگتی۔ (ابو داؤد ،ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ داود (۲۶۵۵)و الترمذی (۱۶۱۳)باسناد صحیح۔

۱۳۵۱۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولﷺ نے تم دشمن سے مقابلہ کی تمنا نہ کرو،بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو ،لیکن جب تم ان سے مقابلہ کرو تو پھر صبر کرو (ثابت قدم رہو)۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۵۶۶۔ فتح)و مسلم (۱۷۴۱)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۵۳)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۳۵۲۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’لڑ آئی ایک ’’خدعہ‘‘ (دھوکا، فریب اور چال وغیرہ)ہے۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (۶۔۱۵۸۔ فتح)،و مسلم (۱۷۳۹)

۲۳۵۔ باب: آخر وی اجر کے لحاظ سے شہدا کی اس جماعت کا بیان جنہیں غسل دیا  جائے گا اور ان کی نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی، ان شہدا کے برعکس جو کافروں کے ساتھ لڑ آئی میں شہید ہوئے

۱۳۵۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: شہید پانچ قسم کے ہیں : طاعون سے مرنے والا، پیٹ کی تکلیف سے مرنے والا، ڈوب کر مرنے والا، دب کر مرنے والا اور اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۴۲۶۔ فتح)و مسلم (۱۹۱۴)۔

۱۳۵۴۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم اپنے میں سے کن لوگوں کو شہید شمار کرتے ہو؟انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کر دیا جائے وہ شہید ہے۔ آپ نے فرمایا: اس طرح تو میری امت کے شہدا ء بہت کم ہوں گے۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! پھر کون شہید ہیں ؟ آپ نے فرمایا: جو شخص اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جائے وہ شہید ہے جو شخص اللہ کی راہ میں فوت ہو جائے وہ شہید، جو شخص طاعون کی وجہ سے فوت ہو جائے وہ شہید ہے۔ جو شخص پیٹ کی تکلیف سے فوت ہو جائے وہ شہید ہے اور جو شخص ڈوب کر مر جائے وہ شہید ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۹۱۵)

۱۳۵۵۔ حضرت عبدا للہ بن عمرو بن عاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کر دیا جائے تو وہ شہید ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۲۳۵۔ فتح)و مسلم (۱۴۱)

۱۳۵۶۔ حضرت ابواعور سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ؓ جو ان دس صحابہ میں سے ایک ہیں جنہیں جنتی ہونے کی گواہی دی گئی ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کر دیا جائے تو وہ شہید ہے جو شخص اپنے خون کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کر دیا جائے تو وہ شہید ہے جو شخص اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کر دیا جائے تو وہ شہید ہے اور جو اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کر دیا جائے تو وہ شہید ہے۔ (ابو داؤد، ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے۔ )

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۴۷۷۲)و الترمذی (۱۴۲۱)والنسائی (۷ /۱۱۵۔ ۱۱۶)و ابن ماجہ (۲۵۸۰)وغیر ھم با سنا صحیح۔

۱۳۵۷۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیایا رسول اللہ!مجھے بتائیں کہ اگر کوئی آدمی (زبردستی)میرا مال لینے کی نیت سے آئے تومیں کیا کروں ؟آپ نے فرمایا: اپنا اسے اپنا مال مت دو۔ اس نے عرض کیا: اگر وہ مجھ سے لڑے تو (پھر میں کیا کروں)؟آپ نے فرمایا: تم اس بھی اس سے لڑ و۔ اس آدمی نے پھر عرض کیا:اگر وہ مجھے قتل کر دے تو ؟آپ نے فرمایا:پھر تم شہید ہو۔ اس نے پھر عرض کیا :اگر میں اس کو قتل کر دوں ؟ آپ نے فرمایا:و ہ جہنم میں جائے گا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۴۰)۔

۲۳۶۔ باب: غلاموں کو آزاد کرنے کی فضیلت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’پس وہ دشوار گزار گھاٹی میں داخل نہیں ہوا تجھے کیا معلوم گھاٹی کیا ہے ؟گردن کا آزاد کرنا ہے‘‘ ۔ (البلد:۱۱۔ ۱۳)

۱۳۵۸۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا: جس شخص نے کسی ایک مسلمان گردن (غلام، لونڈی)کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس آزاد ہونے والے کے ہر عضو کے بدلے آزاد، کرنے والے کے ہر عضو کو جہنم سے آزاد فرما دے گا حتیٰ کہ اس کی شرم گاہ کے بدلے میں اس کی شرم گاہ کو۔ (متفق علیہ)

۱۳۵۹۔ حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ !کون سے اعمال افضل ہیں ؟ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا۔ میں نے عرض کیا :کون سی گردن یعنی غلام (آزاد کرنا)افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا:وہ غلام جو اپنے مالکوں کے نزدیک زیادہ نفیس اور زیادہ۔ قیمتی ہو۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۱۷) ملاحظہ فرمائیں۔

۲۳۷۔ باب: غلام کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی فضیلت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ، رشتہ داروں کے ساتھ، یتیموں، مسکینوں، رشتہ دار پڑوسی، اجنبی پڑوسی، پاس۔ بیٹھنے والے، سفر کے ساتھ اور انکے ساتھ جن کے تمہارے دائیں ہاتھ مالک ہوئے یعنی غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ (النسا:۳۶)

۱۳۶۰۔ حضرت معرور بن سوید۔ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذرؓ کو دیکھا کہ انھوں نے ایک جوڑا زیب تن کیا ہوا تھا اور ان کے غلام پر بھی اسی طرح کا جوڑا تھا۔ پس میں نے اس بارے میں ان سے سوال کیا تو انھوں نے بتایا کہ انھوں (میں)نے رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں ایک آدمی (غلام) کوبرا بھلا کہا اور اسے اس کی ماں کے بارے میں عار دلائی تو نبیﷺ نے فرمایا: تم ایسے آدمی ہو کہ تم میں (ابھی تک) جاہلیت (والی بات) ہے وہ (غلام، دین یا انسانیت کے لحاظ سے)تمہارے بھائی ہیں ، تمہارے خدمت گزار ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ماتحت کر دیا ہے۔ پس جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو تو اسے اس میں کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اسے اس میں سے پہنائے جو خود پہنتا ہے اور انکے ذمے ایسا کام نہ لگا ؤ جو انہیں مغلوب اور بے بس کر دے اور اگر تم ان کے ذمے کوئی ایسا کام لگا دو تو پھر انکی مدد کرو۔          (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۸۴۱۔ فتح)و مسلم (۱۶۶۱)

۱۳۶۱۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے پاس اس کا خادم کھانا لائے تو اگر اسے اپنے ساتھ نہ بٹھائے تو پھر اسے ایک لقمہ یا دو لقمے ضرور دے ، اس لیے کہ اس خادم نے اس کھانے کے پکانے کی تکلیف کو برداشت کیا ہے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۸۱۵۔ فتح)یہ حدیث مسلم (۱۶۶۳)میں بھی موجود ہے۔

۲۳۸۔ باب:اس غلام کی فضیلت جو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مالک کا بھی حق ادا کرے

۱۳۶۲۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک غلام جب اپنے آقا کی خیر خواہی کرے اور اللہ کی عبادت اچھے طریقے سے کرے تو اس کے لیے دوہرا ثواب ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۷۵۵، فتح)و مسلم (۱۶۶۴)

۱۳۶۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مملوک غلام کے لیے جو ’’مصلح‘‘ ہو دوہرا اجر  ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ساتھ میں ابو ہریرہ کی جان ہے ! اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد ،حج اور اپنی والدہ کے ساتھ نیکی کرنے کا مسئلہ نہ ہوتا تو میں غلام ہونے کی حالت میں فوت ہونے کو پسند کرتا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۷۵۵۔ فتح)و مسلم (۱۶۶۵)۔

۱۳۶۴۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس مملوک کے لیے۔ دوگنا اجر ہے جو اپنے رب کی عبادت اچھے طریقے سے کرتا ہے اور اپنے مالک کا حق بھی ادا کرتا ہے جو اس کے ذمے ہے اور اس کی خیر خواہی بھی کرتا ہے اور اطاعت بھی کرتا ہے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۷۷۵۔ فتح)

۱۳۶۵۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تین قسم کے لوگوں کے لیے دہرا اجر ہے (۱)ایک وہ آدمی جو اہل کتاب میں سے ہے وہ اپنے نبی پر ایمان لا یا اور پھر محمدﷺ پر ایمان لایا۔ (۲)وہ مملوک (غلام)جو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرے اور اپنے مالک کا بھی حق ادا کرے (۳)اور وہ آدمی جس کی ایک لونڈی ہو،وہ اسے ادب سکھائے اور خوب اچھی طرح اس کی تربیت کرے ، اسے علم سکھائے اور پھر خوب اچھی طرح زیور تعلیم سے آراستہ کرے پھر اسے آزاد کر دے اور اس کے ساتھ شادی کر لے تو اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۹۰۱۔ فتح)و مسلم (۱۵۴)

۲۳۹۔ باب: ہرج یعنی فتنے اور فساد کے دور میں عبادت کرنے کی فضیلت

۱۳۶۶۔ حضرت معقل بن یسارؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: فتنہ و فساد کے دور میں عبادت کرنا میری طرف ہجرت کرنے (کے ثواب)کی طرح ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۹۴۸)۔

۲۴۰۔ باب: خریدو فروخت اور لین دین میں نرمی کرنے، ادائیگی اور تقاضا کرنے میں اچھا رویہ اختیار کرنے اور جھکتا ہوا ناپنے تولنے کی فضیلت اور کم ناپنے تولنے کی ممانعت اور مالدار کے تنگ دست کو مہلت دینے اور اسے قرض معاف کر دینے کی فضیلت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’تم جو بھی بھلائی کرو گے یقیناً اللہ تعالیٰ اسے جاننے والا ہے‘‘ ۔ (البقرة:۲۱۵)

اور فرمایا: ’’اے میری قوم ! انصاف کے ناپ تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو‘‘ ۔           (ھود :۸۵)

اور فرمایا: ’’ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے خرابی ہے ،جو لوگوں سے خود ناپ کر پورا لیتے ہیں مگر جب ناپ یا تول کر دوسروں کو دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔ کیا ان کو یقین نہیں کہ وہ ایک بڑے دن میں اٹھائے جائیں گے ؟ جس دن تمام لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے‘‘ ۔

(المطففین :۱۔ ۶)

۱۳۶۷۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبیﷺ کی خدمت میں آیا اور آپ سے تقاضا کرنے لگا۔ اور اس نے بڑا سخت رویہ اختیار کیا تو آپ کے صحابہ نے اس (شخص کو اس سختی کا مزہ چکھانے)کا ارادہ کیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، اس لیے کہ صاحب حق کو کہنے کا حق ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: اسے اس کے اونٹ کے ہم عمر ایک اونٹ دو۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ !ہم اس کے اس اونٹ سے زیادہ عمر کا اونٹ پاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:اسے وہی دے دو ،اس لیے کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو تم میں ادائیگی میں سب سے اچھا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۸۲۴۔ فتح)و مسلم (۱۶۰۱)۔

۱۳۶۸۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم فرمائے جو بیچتے وقت خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت نرمی کرتا ہے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۰۶۴۔ فتح)۔

۱۳۶۹۔ حضرت ابو قتادہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کو روز قیامت کی ہولناکیوں سے نجات دے تو اسے چاہیے وہ تنگ دست کو مہلت دے یا اسے قرض معاف ہی کر دے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۵۶۳)۔

۱۳۷۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک آدمی لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اور وہ اپنے ملازم سے کہا کرتا تھا کہ جب تم کسی تنگ دست کے پاس (وصولی کے لئے) جاؤ تو اسے معاف کر دینا ،شاید کہ اللہ ہمیں بھی معاف فرما دے پس جب دہ (فوت ہونے کے بعد) اللہ سے ملا تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرما دیا۔        (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۰۸۴۔ ۳۰۹۔ فتح)و مسلم (۱۵۶۲)۔

۱۳۷۱۔ حضرت ابو مسعود بدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کا حساب کیا گیا تو اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی نیکی نہیں تھی کہ وہ لوگوں سے لین دین کا معاملہ کر تا تھا، وہ مالدار شخص تھا اور اپنے غلاموں سے کہتا تھا کہ تنگ دست سے درگزر کیا کرو۔ (پس جب وہ فوت ہو گیا)تو اللہ تعالیٰ نے (فرشتوں سے) فرمایا ہم درگزر کرنے کے اس سے زیادہ حقدار ہیں ،پس تم بھی اس سے درگزر کرو۔      (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۵۶۱)

۱۳۷۲۔ حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے (کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا):اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایک بندہ جسے اللہ نے مال عطا کیا تھا، اللہ کے سامنے پیش کیا گیا تو اللہ نے اس پوچھا: تم نے دنیا میں کیا عمل کیا؟ حضرت حذیفہ ؓ نے (اپنی طرف سے قرآن کی)یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’اور وہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات نہیں چھپا سکیں گے‘‘ ۔ وہ بندہ عرض کرے گا: ’’اے میرے پروردگار ! تو نے مجھے مال عطا کیا تھا،میں لوگوں سے خریدو فروخت کیا کرتا تھا اور درگزر کرنا میری عادت تھی ،پس میں مالدار اور خوش حال شخص پر آسانی کرتا اور تنگ دست کو مہلت دیتا تھا‘‘ ۔ پس اللہ نے فرمایا: ’’میں درگزر کا تو تجھ سے زیادہ حق دار ہوں ، (فرشتو!)میرے بندے سے درگزر کرو‘‘ حضرت عقبہ بن عامر اور ابو مسعود انصاری ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے اسے رسول اللہﷺ کی زبان مبارک سے اسی طرح سنا ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۵۶۰) (۲۹)

۱۳۷۳۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے تنگ دست کو مہلت دی یا اس کو قرض معاف کر دیا تو اللہ ایسے شخص کو قیامت والے دن اپنے عرش کے سائے تلے جگہ نصیب فرمائے گا،جس روز اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ (ترمذی حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث ۔ : صحیح۔ اخرجہ الترمذی (۱۳۰۶)وھوصحیح۔

۱۳۷۴۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ان سے ایک اونٹ خریدا تو آپ نے اس کی قیمت جھکتی ہوئی تول کر دی۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۲۰۴۔ فتح)و مسلم (/۱۲۲۳۳)رقم حدیث ، الباب (۱۱۵)۔

۱۳۷۵۔ حضرت ابوصفوان سوید بن قیسؒ بیان کرتے ہیں کہ اور مخرمہ عبدی حجر حُج سے کپڑا (فروخت کے لیے)لے کر آئے تو نبیﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم سے ایک شلوار کا بھاؤ کیا۔ میرے پاس ایک وزن کرنے والا تھا جو معاوضے پر وزن کرتا تھا، پس نبیﷺ نے وزن کرنے والے سے فرمایا:وزن کر اور جھکتا ہوا وزن کر۔ (ابوداؤد، ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۳۳۳۶)و الترمذی (۱۳۰۵)والنسائی (/۲۸۴۷)و ابن ماجہ (۲۲۲۰)وھو صحیح۔


علم کا بیان

 

۲۴۱۔ باب :علم کی فضیلت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’کہہ دیجیے (اے پیغمبر !)کہو اے میرے رب !میرے علم میں اضافہ فرما‘‘ ۔             (طہ:۱۱۴)

نیز فرمایا: ’’کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں ؟‘‘                (الزمر:۹)

اور فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان کو اور ان لوگوں کو جن کو علم سے نوازا گیا ،درجات میں بلند فرماتا ہے‘‘ ۔ (المجادلۃ:۱۱)

اور فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے صرف علما ہی ڈرتے ہیں‘‘ ۔ (فاطر:۲۸)

۱۳۷۶۔ حضرت معاویہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۶۴۱۔ فتح)و مسلم (۱۰۳۷) (۱۰۰)۔

۱۳۷۷۔ حضرت ابن مسعود ؓد بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صرف دو آدمی قابل رشک ہیں :ایک وہ جسے اللہ نے مال عطا فرمایا اور اسے راہ حق میں خرچ کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائی اور دوسرا وہ آدمی جسے اللہ نے حکمت عطا فرمائی ، پس وہ اس کے ساتھ فیصلے کرتا ہے اور اسے دوسروں کو بھی سکھاتا ہے۔            (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لئے حدیث (۵۴۴)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۳۷۸۔ حضرت ابو موسیٰؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: اللہ نے مجھے جس ہدایت اور علم کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ،اس کی مثال بارش کی مانند ہے جو کسی زمین پر برسی۔ پس اس میں ایک اچھا قطعہ تھا، اس نے اپنے اندر پانی کو جذب کیا اور گھاس اور دیگر جڑ ی بوٹیاں اگائیں اور اس میں ایک ٹکڑا خشک بنجر تھا ،اس نے اس پانی (کو جذب نہیں کیا بلکہ اس)کو روک لیا ، پس اللہ نے اس کے ذریعے لوگوں کو فائدہ پہنچایا ،انھوں نے خود بھی اس میں سے پیا،جانوروں کو پلایا اور کھیتی کو سیراب کیا۔ اور وہ بارش ایک ایسے ٹکڑے پر بھی برسی جو بالکل چٹیل و ہموار تھا ،اس نے پانی روکا نہ گھاس وغیرہ اگائی۔ پس یہی مثال اس شخص کی ہے جس نے اللہ کے دین میں سمجھ بوجھ حاصل کی اور اسے اس چیز نے نفع پہنچایا جس کے ساتھ اللہ نے مجھے مبعوث فرمایا،پس اس نے خود بھی علم حاصل کیا اور دوسروں کو بھی سکھایا اور اس شخص کی مثال جس نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا اور اللہ کی اس ہد آیت کو بھی قبول نہ کیا جس کے ساتھ مجھے (رسول بنا کر)بھیجا گیا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لئے حدیث نمبر (۱۶۲)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۳۷۹۔ حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے نبیﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا:اللہ کی قسم ! اگر اللہ تیری وجہ سے کسی ایک آدمی کو بھی ہدایت سے سرفراز فرما دے تو وہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔             (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے (۱۷۵)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۳۸۰۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: میری طرف سے (جو سنو اسے اگے)پہنچا دو اگرچہ ایک آیت ہی ہو اور بنی اسرائیل سے بیان کرو، اس میں کوئی حرج نہیں اور جو شخص عمدا مجھ پر جھوٹ بولے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۴۹۶۶۔ فتح)۔

۱۳۸۱۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص علم کی تلاش میں کسی راستے پر چلے تو اللہ تعالیٰ اس وجہ سے اس شخص کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۲۴۵)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۳۸۲۔ حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے ہدایت کی طرف دعوت دی تو اس کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا جتنا اس ہدایت کی اتباع کرنے والوں کو ملے گا اور یہ۔ (داعی حق کا ثواب)ان (پیروی کرنے والوں)کے اجر میں کوئی کمی نہیں کرے گا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث کے لئے نمبر (۱۷۴)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۳۸۳۔ حضرت ابوہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جب ابن آدم (انسان)فوت ہو جاتا ہے تو تین (اعمال)کے سوا اس کے اعمال سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے : (۱)صدقہ جاریہ (۲) یا وہ علم جس سے فائدہ حاصل کیا جائے (۳)یا نیک اولاد جو اس کے لئے دعائے خیر کرتی رہے‘‘ ۔        (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۱۶۳۱)۔

۱۳۸۴۔ حضرت ابوہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’دنیا ملعون ہے اور اس میں جو کچھ (ساز و سامان)ہے وہ بھی ملعون ہے ،سوائے اللہ کے ذکر کے اور جو اس کے متعلق ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے) اور عالم اور (دین کے)طالب علم کے‘‘ ۔        (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۴۷۸)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۳۸۵۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص طلب علم کے لیے نکلے تو وہ واپس لوٹنے تک اللہ کی راہ میں شمار ہوتا ہے‘‘ ۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ الترمذی (۲۶۴۷) با سنا ضعیف۔

۱۳۸۶۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’مومن خیر و بھلائی کے حصول میں ہر گز سیر نہیں ہوتا حتیٰ کہ وہ اپنے آخر ی انجام جنت میں پہنچ جاتا ہے‘‘ ۔ (ترمذی، حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ الترمذی (۲۶۸۶)با سناد ضٖعیف

۱۳۸۷۔ حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:عالم کی عابد پر فضیلت ایسے ہی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ایک ادنیٰ آدمی پر ہے۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے اور آسمانو زمین کے رہنے والے حتیٰ کہ چیونٹی اپنی بل میں اور مچھلی پانی میں یہ سب لوگوں کو خیرو بھلائی سکھانے والوں کیلئے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں۔             (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : حسن لغیرہ۔ اخرجہ الترمذی (۲۶۸۵)۔

۱۳۸۸۔ حضرت ابودردا ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جو شخص علم کے لیے کسی راستے پر چلتا ہے تو اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے بے شک فرشتے طالب علم کے اس (طلب علم کے)فعل سے خوش ہو کر اس کے لیے اپنے پر رکھ (بچھا) دیتے ہیں اور آسمانو زمین کی ہر چیز حتیٰ کہ مچھلیاں پانی میں عالم کیلئے مغفرت کی دعائیں کرتی ہیں اور عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جس طرح چاند کی فضیلت باقی تمام ستاروں پر ہے اور علماء انبیا  ؑ کے وارث ہیں بے شک انبیاؑ دینار اور درہم کے وارث نہیں بناتے ،وہ تو صرف علم کے وارث بناتے ہیں پس جس نے اسے حاصل کر لیا توا س نے ایک بہت بڑا حصہ حاصل کر لیا۔ (ابو داؤد، ترمذی)

توثیق الحدیث : حسن۔ اخرجہ ابو داؤد (۳۶۴۱)و الترمذی (۳۶۸۲)، و ابن ماجہ (۲۲۳)و احمد (/۱۹۶۵)والدارمی (/۹۸۱)والبغوی فی ( (شرح السنۃ)) (/۲۷۵۱۔ ۲۷۶)و ابن حبان (۸۸۔ مع الا حسنان)و ابن عبد البرفی ( (جامع بیان العلم)) (/۳۶۱۔ ۳۷)والطحاوی فی ( (مشکل الاثار)) (/۴۲۹۱)۔

اس حدیث کا دارومدار داؤد۔ بن جمیل اور کثیر بن قیس پر ہے اور وہ دونوں ضعیف ہیں۔ لیکن اس حدیث کے بعض اطراف بخاری (/۱۵۹۱،۱۶۰۔ فتح)میں بھی موجود ہیں اور اس کے کئی شواہد بھی ہیں جن میں سے ایک ابوداؤد (۲۶۴۲)میں ہے جس کی سند شواہد میں حسن ہے۔

۱۳۸۹۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ تعالیٰ اس آدمی کے چہرے کو تر و تازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور پھر اسے دوسروں تک اسی طرح پہنچایا جس طرح اسے سنا تھا ،اس لیے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جنہیں بات پہنچائی جائے تو وہ اس سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔           (ترمذی۔ حدیث حسن صحیح۔ ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ الترمذی (۲۶۵۷و۲۶۵۸)و ابن ماجہ (۲۳۲)و احمد (/۴۳۷۱) والحمیدی (۸۸)والبعو

۱۳۹۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص سے علم کے بارے میں کچھ پوچھا جائے اور وہ اسے چھپائے تو قیامت والے دن اسے آگ کی لگام دی جائے گی۔           (ابوداؤد، ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح اخرجہ ابو داؤد (۳۶۵۸)و الترمذی (۲۶۴۹)و ابن ماجہ (۲۶۱)و احمد (/۲۶۳۲۔ ۳۰۵۔ ۳۴۴۔ ۳۵۳۔ ۴۹۵)۔ وغیر ھم باسناد صحیح۔

۱۳۹۱۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے وہ علم جس سے اللہ کی رضا مندی طلب کی جاتی ہے اس لیے حاصل کیا تاکہ اس کے ذریعے سے دنیا کی چیزیں حاصل کرے تو ایسا شخص قیامت والے دن جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔ (ابو داؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۳۶۶۴)و ابن ماجہ (۲۵۲)و احمد (/۳۳۸۲)وغیرھم

اس کی سند میں فلیح بن سلمان راوی پر تھوڑا سا کلام ہے لیکن اس کی متابعت ابو سلیمان الخراعی نے کی ہے جسے ابن عبدالبر نے ’’جامع بیان العلم و فضل (۱!۱۹۰)‘‘ میں نقل کیا ہے اور اس متابعت کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے۔ واللہ اعلم !

۱۳۹۲۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے لوگوں (کے سینوں)سے کھینچ لے بلکہ علم کو علما کی وفات کے ذریعے اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو پھر لوگ جہلا ء کو سردار بنا لیں گے ، جب ان سے مسئلہ پو چھا جائے گا تو علم کے بغیر فتویٰ دیں گے۔ پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی کریں گے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۹۴۱۱۔ فتح)و مسلم (۲۶۷۳)۔

 

 

اللہ تعالیٰ کی حمد و تعریف اور اس کا شکر

 

۲۴۲۔ باب: حمدو شکر کی فضیلت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پس تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔ تم میرا شکر ادا کرو اور میری نا شکری نہ کرو۔ (البقرة :۱۵۲)

اور فرمایا:اور اگر تم شکر کرو گے تو یقیناً میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔     (ابراہیم :۷)

نیز فرمایا:اور کہہ دیجیے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔            (الا سرا :۱۱۱)

نیز فرمایا: اور ان کی آخر ی پکار یہی ہو گی کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ (یونس:۱۰)

۱۳۹۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کو جس رات معراج کرائی گئی تو۔ آ پ کو شراب اور دودھ کے دو پیالے پیش کیے گئے پس آپ نے ان دونوں کی طرف دیکھا اور پھر دودھ والا پیالہ لے لیا حضرت جبریل ؑ نے فرمایا: تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے آپ کی رہنمائی فطرت کی طرف کی،اگر شراب والا پیالہ لے لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔    (مسلم)

توثیق الحدیث : اخر جہ و مسلم (۱۶۸)

تنبیہ:۔ یہ روایت بخاری میں بھی ہے اور یہ الفاظ بھی بخاری کے ہیں۔

۱۳۹۴۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہر اہم کام جس کی ابتدا اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا ء سے نہ کی جائے وہ ناقص ہے۔     (حدیث حسن ہے ،ابو داؤد وغیرہ نے اسے روایت کیا ہے)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ ابوداؤد (۴۸۴۰)و ابن ماجہ (۱۸۹۴)والنسائی فی ( (عمل الیوم واللیلۃ) (۴۹۴)و احمد (/۳۵۹۲)والبیھقی فی ( (السنن)) (/۲۰۸۳۔ ۲۰۹)و ( (الدعوات)) (۱)

۱۳۹۵۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب کسی بندے کا بچہ فوت ہو جاتا ہے تو اللہ اسے اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے تم نے میرے بندے کے بچے کی روح کو قبض کیا ہے ؟فرشتے کہتے ہیں : جی !پھر اللہ فرماتا ہے تم نے اس کے دل کے پھل کو قبض کیا ہے ؟وہ کہتے ہیں : جی! پھر اللہ پوچھتا ہے میرے بندے نے کیا کہا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں۔ اس نے تیری حمدو تعریف بیان کی اور ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ پڑھا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے کیلئے جنت میں ایک گھر بناؤ اور اس کا نام ’’بیت الحمد‘‘ رکھو۔           (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۹۲۲)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۳۹۶۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالیٰ اس بندے سے خوش ہوتا ہے جو لقمہ کھاتا ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی حمدو تعریف بیان کرتا ہے اور پانی کا گھونٹ پیتا ہے تو اس پر بھی اس کی حمد بیان کرتا ہے۔           (مسلم)

توثیق الحدیث کے لئے حدیث نمبر (۱۴۰)اور (۴۳۶)ملاحظہ فرمائیں۔

 

 

رسول اللہﷺ پر درود و سلام کا بیان

۲۴۳۔ باب: رسول اللہﷺ پر درود پڑھنے کی فضیلت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں ،اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔ (الأ حزاب:۵۶)

۱۳۹۷۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو  عا صؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا : جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۸۴)

۱۳۹۸۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت والے دن لو گوں میں سے سب زیادہ میرے قریب وہ شخص ہو گا جو ان میں سے مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہو گا۔             (ترمذی حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ الترمذی (۴۷۴)و ابن حبان (۹۰۸)وغیرہ غیرھما۔

یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس کی سند میں موسیٰ بن یعقوب زمعی ’’سیء الحفظ‘‘ ہے اور اس کا استاذ عبداللہ بن کے ساتھ مقبول ہے۔

۱۳۹۹۔ حضرت اوس بن اوس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارے دنوں میں سے سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، اس لیے کہ تمہارا درود مجھ پیش کیا جائے گا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جب کہ آپ کا جسم تو بوسیدہ ہو چکا ہو گا؟ آپ نے فرمایا : یقیناً اللہ تعالیٰ نے انبیا ؑ کے جسموں کو زمین پر حرام کر دیا ہے۔ (ابوداؤد)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۱۵۸)ملاحظہ فرمائیں۔ چند ایک مزید۔

(۱)۔ اس حدیث میں یہ زیادہ ہے ’’اللہ تعالیٰ نے انبیاؑ کے جسموں کو زمین پر حرام قرار دیا ہے۔ ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’زمین انہیں نہیں کھاتی اور ان کے جسم بوسیدہ نہیں ہوتے۔ ‘‘

(۲)۔ حدیث میں (أرھت)اور (بلیت)کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، دونوں کا معنی ہے ’’بو سیدہ ہو نا۔ ‘‘

۱۴۰۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اس آدمی کی ناک خاک آلودہ ہو جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے‘‘ ۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح لغیرہ۔ اخرجہ الترمذی (۳۵۴۵)و احمد (/۲۵۴۲)والحاکم (/۵۴۹۱)با سنادہ حسن۔

۱۴۰۱۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’میری قبر کو میلہ گاہ مت بنانا اور مجھ پر درود بھیجو، اس لیے کہ تمہارا درود مجھ پر پہنچ جاتا ہے خواہ تم جہاں کہیں بھی ہو‘‘ ۔ (ابو داؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث : حسن۔ اخرجہ ابوداؤد (۲۰۴۲)و احمد (/۳۶۷۲)۔

۱۴۰۲۔ حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو کوئی بھی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ مجھ پر میری روح لوٹا دیتا ہے حتیٰ کہ میں اسے سلام کا جواب دیتا ہوں‘‘ ۔ (ابوداؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث : حسن۔ اخرجہ ابوداؤد (۲۰۴۱)

۱۴۰۳۔ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ شخص بخیل ہے جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔ (ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح لغیرہ۔ اخرجہ الترمذی (۳۵۴۶)و احمد (/۲۰۱۱)وغیر ھما با سناد حسن ان شا اللہ

۱۴۰۴۔ حضرت فضالہ بن عبیدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کو اپنی نماز میں دعا کرتے ہوئے سنا کہ اس نے (دعا سے پہلے) اللہ تعالیٰ کی حمد (شانو بزرگی) بیان کی نہ نبیﷺ پر درود بھیجا، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس نے جلد بازی کی۔ پھر آپ نے اسے بلایا اور اسے یا کسی اور سے (راوی کوشک ہے) فرمایا: جب تم میں سے کوئی ایک نماز پڑھے اور پھر دعا مانگے تو اسے چاہیے کہ اپنے رب سبحانہ کی تعریف اور حمدو ثنا بیان کرے ،پھر نبیﷺ پر درود بھیجے پھر اس کے بعد جو چاہے دعا کرے۔ (ابو داؤد، ترمذی حدیث حسن صحیح ہے۔ )

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۱۳۸۱)و الترمذی (۳۴۷۶و ۳۴۷۷)والنسائی (/۴۴۳۔ ۴۵)و احمد (/۱۸۶)وغیرھم باسناد صحیح۔

۱۴۰۵۔ حضرت ابو محمد کعب بن عجرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم نے یہ تو سیکھ لیا ہے کہ آپ پر سلام کیسے بھیجنا ہے ،پس آپ پر درود کیسے بھیجیں ؟ آپ نے فرمایا:کہو ’’اے اللہ !محمد پر اور آل محمد پر رحمت پر رحمت نازل فرما جس طرح تو نے آل ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی بے شک تو تعریف کے قابل اور بزرگی والا ہے اے اللہ ! محمد پر اور آل محمد پر بر کت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم پر برکت نازل فرمائی،بے شک تو تعریف کے قابل اور بزرگی والا ہے‘‘ ۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۴۰۸۶۔ فتح)و مسلم (۴۰۶)

۱۴۰۶۔ حضرت ابو مسعود بدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم اس وقت حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے تو بشیر بن سعد نے آپ سے پوچھا : یا رسول اللہ !اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے ،پس ہم آپ پر کیسے درود بھیجیں ؟پس رسول اللہﷺ خاموش رہے حتیٰ کہ ہم نے تمنا اور آرزو کی کہ وہ آپ سے سوال ہی نہ کرتے ،پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’کہو پڑھو : ’’یا اللہ ! محمد اور آل محمد پر رحمت نازل فرما،جس طرح تو نے آل ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی اور محمد اور آل محمد پر برکت نازل فرما جس طرح تو نے آل ابراہیم پر برکت نازل فرمائی، بے شک تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے‘‘ اور سلام (ویسے ہی پڑھنا ہے) جیسے تم جانتے ہو‘‘ ۔         (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۴۰۵)

۱۴۰۷۔ حضرت ابو حمید ساعدی ؓ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ ؓ نے عرض کیا :یا رسول اللہ !ہم آپ پر درود کیسے بھیجیں ؟آپ نے فرمایا: ’’یہ پڑھو ’’یا اللہ !محمد پر اور آپ کی ازواج و اولاد پر رحمت نازل فرما جیسے تو نے آل ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی اور محمد پر اور آپ کی ازواج و اولاد پر برکت نازل فرما جیسے تو نے آل ابراہیم پر برکت نازل فرمائی، بے شک تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے‘‘ ۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۴۰۷۶)و مسلم (۴۰۷)۔

 

 

ذکر و اذکار کا بیان

۲۴۴۔ باب: ذکر کی فضیلت اور اس کی ترغیب

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور اللہ کا ذکر ہر چیز سے بڑا ہے‘‘ ۔ (العنکبوت:۴۵)

اور فرمایا: ’’پس تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا‘‘ ۔ (البقرة :۱۵۲)

نیز فرمایا: ’’اپنے رب کو اپنے جی میں صبح و شام گڑ گڑ آتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے یاد کرو، نہ کہ اونچی آواز سے اور غافلوں میں سے نہ ہونا‘‘ ۔         (الاعراف:۲۰۵)

اور فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو تا کہ تم فلاح پاؤ‘‘ ۔ (الجمعۃ:۱۰)

نیز فرمایا : ’’بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان تک کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں ،اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے‘‘ ۔ (الأحزاب :۳۵)

اور فرمایا: ’’اے ایماندارو ! اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح شام اس کی تسبیح بیان کرو‘‘ ۔ (الأحزاب : ۴۱، ۴۲)

۱۴۰۸۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے ،میزان میں بھاری اور رحمان کو بہت پیارے ہیں (سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم)اللہ تعالیٰ پاک ہے اپنی تعریفوں اور حمدو تعریف کے ساتھ،اللہ تعالیٰ پا ک ہے عظمتوں والا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۲۰۶۱۱۔ فتح)و مسلم (۲۶۹۴)

۱۴۰۹۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا مجھے ’’سبحان اللہ، والحمد للہ، ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر‘‘ کہنا ان تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۶۹۵)۔

۱۴۱۰۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص ایک دن میں سو مرتبہ یہ پڑھے : (لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہٗ لہٗ الملک ولہ الحمد وھو علی کلی شیء قدیر) تو اس کے لیے دس غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ہو گا، اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جائیں گی،اس کے سو گناہ مٹا دیے جائیں گے اور یہ کلمات اس کے لیے اس دن شام تک شیطان سے بچاؤ کا ذریعہ ہوں گے اور کوئی شخص (اس دن) اس سے زیادہ افضل عمل لے کر نہیں آئے گا سوائے اس شخص کے جس نے یہ عمل اس سے زیادہ کیا ہو گا۔ ‘‘ اور آپ نے فرمایا: ’’جس شخص نے ایک دن میں سو مرتبہ (سبحان اللہ وبحمدہ) پڑھا تو اس کے گناہ مٹا دیے جائیں گے اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔ ‘‘ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (۱۱!۲۰۱۔ فتح)،و مسلم (۲۶۹۱)

۱۴۱۱۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جس شخص نے دس مرتبہ یہ کلمات پڑھے (لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہٗ لہٗ الملک ولہ الحمدو ھو علی کلی شئی قدیر)تو یہ (ثواب کے لحاظ سے)اس شخص کی طرح ہے جس نے اسماعیل ؑ کی اولاد میں سے چار غلام آزاد کیے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۲۰۱۱۱۔ فتح)و مسلم (۲۶۹۳)واللفظ لہٗ۔

۱۴۱۲۔ حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولﷺ نے مجھے فرمایا: کیا میں تمہیں اللہ کے پسندیدہ ترین کلام کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ بے شک اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب کلام (سبحان اللہ وبحمدہ)ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۷۳۱) (۸۵)

۱۴۱۳۔ حضرت ابو مالک اشعری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے، (الحمد للہ)ترا زو کو بھر دیتا ہے اور دونوں (سبحان اللہ، الحمد للہ)بھر دیتے ہیں۔  یا فرمایا: آسمانوں اور زمین کے درمیانی خلا کو بھر دیتے ہیں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۲۵)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۴۱۴۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا توا س نے عرض کیا مجھے کوئی ایسا وظیفہ بتا دیں جو میں پڑھتا رہوں۔ آپ نے فرمایا:یہ پڑھا کرو ’’لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہٗ ،اللہ أکبر کبیرا۔ والحمد للہ کثیرا،  ’’سبحان اللہ رب العالمین ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العزیز الحکیم‘‘۔ اس دیہاتی نے کہا : یہ سارا کلام تو میرے رب کے لیے ہے ،میرے لیے کیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم یہ کہو اے اللہ !مجھے بخش دے مجھ پر رحم فرما،مجھے ہدایت سے بہرہ مند فرما اور مجھے رزق عطا فرما‘‘ ۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۶۹۶)۔

۱۴۱۵۔ حضرت ثوبان ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین مرتبہ استغفار (استغفر اللہ) کرتے تھے اور پھر پڑھتے (اللھم أنت السلامو منک السلام تبارکت یا ذا الجلال والا کرام)امام او زاعی جو حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں ان سے پوچھا گیا : آپ استغفار کیسے فرماتے تھے ؟تو انھوں نے بتایا کہ آپ۔ ( ’’استغفر اللہ، أستغفر اللہ‘‘ )پڑھتے تھے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۵۹۱)۔

۱۴۱۶۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے اور سلام پھیر لیتے تو آپ یہ دعا پڑھتے :اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لئے بادشاہی اور اسی کے لیے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اے اللہ ! تو جو چیز عطا فرمائے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روک لے اسے کوئی عطا کرنے والا نہیں اور کسی صاحب حیثیت کو اس کی حیثیت تجھ سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی (تجھ سے نہیں بچا سکتی)۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۳۲۵۲۔ فتح)و مسلم (۵۹۳)۔

۱۴۱۷۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ وہ (عبد اللہ بن زبیر) ہر نماز کے بعد جب سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھا کرتے تھے : ’’اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ،اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے حمدو تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے گناہ سے بچنے کی توفیق اور نیکی کرنے کی قوت اللہ ہی سے حاصل ہوتی ہے ا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، ہم صرف اسی ایک ہی کی عبادت کرتے ہیں ، اسی کے لیے نعمت ہے ، اسی کے لیے فضل ہے اور اسی کے لئے اچھی حمدو ثنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ،ہم اسی کے لیے دین (عبادت) کو خالص کرنے والے ہیں ، اگر چہ کافروں کو ناگوار گزرے‘‘ ۔ حضرت ابن زبیر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہر فرض نماز کے بعد ان کلمات کے ذریعے تسبیح پڑھتے تھے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۵۹۴)۔

۱۴۱۸۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ غریب مہاجرین رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انھوں نے عرض کیا مالدار لوگ تو بلند درجے اور ہمیشہ رہنے والی نعمتیں حاصل کر گئے ، وہ ہماری طرح ہی نمازیں پڑھتے ہیں اور ہماری طرح ہی روزے رکھتے ہیں اور ان کے پاس مال کی فضیلت بھی ہے (جس سے) وہ حج و عمرہ کرتے ہیں ، جہاد کرتے ہیں اور صدقہ کرتے ہیں آپ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جس کے ذریعے سے تم اپنے سے (عمل میں) آگے والوں کو پالو اور اپنے بعد آنے والوں سے آگے بڑھ جاؤ اور تم سے زیادہ کو ئی فضیلت۔ والا نہیں ہو گا سوائے اس جو تمہارے عمل جیسا عمل کرے ؟ انھوں نے عرض کیا: کیوں نہیں ! یار سول اللہ ! (ضرور بتائیں)آپ نے فرمایا : ’’تم ہر نماز کے بعد ۳۳، ۳۳ بار سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر پڑھا کرو‘‘ ۔ ابو صالح جو حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں نے بیان کیا جب ان کے پڑھنے کی کیفیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے بتا یا کہ ’’وہ سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر کہے حتیٰ کہ ان میں سے ہر ایک ۳۳ بار ہو جائے‘‘ ۔ (متفق علیہ)

اور مسلم نے اپنی روایت میں یہ اضافہ نقل کیا ہے کہ فقرائے مہاجرین رسول اللہﷺ کی خدمت میں دوبارہ آئے اور انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمارے مالدار بھائیوں نے بھی ہمارے وظیفے کی سن لیا ، جب ہم نے اسے پڑھا اب وہ بھی وظیفہ کرنے لگے ہیں (اب کیا کریں)؟ پس رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے‘‘ ۔

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۵۷۳)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۴۱۹۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو شخص ہر نماز کے بعد ۳۳مرتبہ (سبحان اللہ)۳۳مرتبہ (الحمد للہ) اور ۳۳ مرتبہ (اللہ اکبر) کہتا ہے اور (الا الہ الا اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ لہٗ الملک ولہ الحمد وھو علی کلی شیء قدیر)کہہ کر سو کی گنتی پوری کرتا ہے تو اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اگرچہ وہ سمندر جاگ کے برابر ہوں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : أجرجہ مسلم (۵۹۷)

۱۴۲۰۔ حضرت کعب بن عجرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’فرض نماز کے بعد پڑھی جانے والی تسبیحات ایسی ہیں کہ انہیں پڑھنے والا (یا انہیں کرنے والا) نامراد نہیں ہو تا۔ ہر فرض نما ز کے بعد ۳۳، ۳۳ بار سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر کا کہنا ہے‘‘ ۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۵۹۶)۔

۱۴۲۱۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نماز روزوں کے بعد ان کلمات کے ذریعے پناہ طلب کیا کرتے تھے، اے اللہ ! میں بزدلی اور بخل سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں اور میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں ناکارہ عمر کی طرف لوٹایا جاؤں اور میں دنیا کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور میں فتنہ قبر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ (بخاری)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۷۸۱۱۔ فتح)۔

۱۴۲۲۔ حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: اے معاذ!اللہ کی قسم! میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ پھر فرمایا: اے معاذ! میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ تم ہر نماز کے بعد ان کلمات کا کہنا ترک نہ کرنا۔ اے اللہ ! تو اپنے ذکر،اپنے شکر اور اچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ (ابو داؤود۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۳۸۴)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۴۲۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی ایک تشہد پڑھ لے تو چار چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرے ،یوں کہے : ’’اے اللہ !عذاب جہنم، عذاب قبر، فتنہ حیات و ممات اور فتنہ مسیح دجال کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘‘ ۔ (مسلم)

 

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۵۸۸)

۱۴۲۴۔ حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو آپ تشہد اور سلام کے درمیان (آخر۔ میں)یہ دعا پڑھتے تھے :اے اللہ !میرے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرما دے ، وہ بھی جو میں نے چھپ کر  کیے اور وہ بھی جو میں نے اعلانیہ کیے اور جو میں نے زیادتی کی اور وہ گناہ بھی جنہیں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ تو ہی آگے بڑھانے والا اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے ،تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۷۷۱)۔

۱۴۲۵۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنے رکوع اور سجود میں اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے اے اللہ ! تو پاک ہے اور اے ہمارے رب! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں ،اے اللہ! مجھے بخش دے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۸۱۲۔ فتح)و مسلم (۴۸۴)۔

۱۴۲۶۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اپنے رکوع اور سجود میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے (میرا رکوع و سجود اس کے لیے ہے جو)بہت ہی پاک اور بڑا مقدس ہے، فرشتوں اور جبرائیل ؑ کا رب (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۴۸۷)۔

۱۴۲۷۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: پس رکوع میں رب عزوجل کی خوب عظمت بیان کرو اور جبکہ سجود کرو تو ان میں خوب دعا کیا کرو۔ تو زیادہ امید ہے کہ تمہاری دعائیں قبول کی جائیں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۴۷۹)۔

۱۴۲۸۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے پس تم سجدے میں خوب دعا کیا کرو۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۴۸۲)۔

۱۴۲۹۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اپنے سجدوں میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ اے اللہ ! میرے تمام چھوٹے اور بڑے پہلے اور پچھلے ،اعلانیہ اور پوشیدہ گناہ معاف فرما دے۔       (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۴۸۳)۔

۱۴۳۰۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے ایک رات نبیﷺ کو (بستر سے)گم پایا،میں نے تلاش کیا تو آپ رکوع یا سجدے کی حالت میں تھے اور یہ دعا پڑھ رہے تھے، اے اللہ !تو پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ ،تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور ایک روایت میں ہے تلاش کرتے ہوئے میرا ہاتھ آپ کے قدموں کے تلوں پر جا لگا جبکہ آپ سجدے کی حالت میں تھے اور آپ کے دونوں پاؤں کھڑے تھے اور اور  آپ یہ دعا کر رہے تھے۔ اے اللہ !میں تیری رضا کے ذریعے تیری ناراضی سے ،تیری عافیت کے ذریعے تیری سزا سے اور تیری ذات کے ذریعے تجھ (تیرے عذاب) سے پناہ چاہتا ہوں۔ میں تیری تعریف و ثنا کا شمار نہیں کر سکتا ،تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے اپنی تعریف کی۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۴۸۶)۔

۱۴۳۱۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ نے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی ایک روزانہ ہزار نیکی کمانے سے عاجز ہے ؟ پس آپ کے ہم نشینوں میں سے کسی نے آپ سے سوال کیا: کوئی کیسے ہزار نیکی کمائے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: وہ سو بار ’’سبحان اللہ‘‘ پڑھنے گا تو اس کے لیے ہزار نیکی لکھ دی جائے گی یا اس کے ہزار گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔      (مسلم)

امام حمیدی ؒ نے بیان فرمایا: ’’کہ مسلم کی کتاب میں اسی طرح (أویحط)کے الفاظ ہیں۔ امام برقانی ؒ نے بیان کیا کہ شعبہ، ابو عوانہ اور یحییٰ قطان نے اسے موسیٰ سے، جس سے امام مسلم نے روایت کیا ہے ، الف کے بغیر یعنی (ویحط) بیان کیا ہے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۶۹۸)۔

۱۴۳۲۔ حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص کے ہر عضو پر ہر صبح صدقہ ہے ، پس ہر مرتبہ (سبحان اللہ)کہنا صدقہ ہے ہر بار (لا الہ الا اللہ)کہنا صدقہ ہے ،ہر مرتبہ (اللہ اکبر) کہنا صدقہ ہے ،نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے اور برائی سے منع کرنا صدقہ ہے اور ان سب سے وہ دو رکعتیں کافی ہو جاتی ہیں جنہیں وہ چاشت کے وقت ادا کرتا ہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۱۱۸) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۴۳۳۔ ام المومنین جویریہ بنت حارث ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ صبح سویرے ہی نماز پڑھ کر ان کے پاس سے چلے گئے اور وہ (حضرت جویریہ) ابھی اپنی جائے نماز ہی پر تھیں پھر آپ چاشت کے بعد تشریف لائے تو وہ ابھی وہیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ نے فرمایا: تم ابھی تک اسی حالت میں ہو جس پر میں نے تمہیں چھوڑا تھا؟ حضرت جویریہ نے کہا :جی ہاں !پس نبیﷺ نے فرمایا:، میں نے تمہارے پاس سے جانے کے بعد چار کلمات تین بار کہے ،اگر ان کا وزن ان سے کیا جائے جو تم صبح سے کہہ رہی ہو تو یہ ان پر وزن میں بھاری ہوں گے (وہ کلمات یہ ہیں)ہم اللہ کی پاکیزگی اور حمد بیان کرتے ہیں اس کی مخلوق کی تعداد کے برابر اور اس کے نفس کی رضامندی کے موافق اور اس کے عرش کے وزن کے برابر اور اس کے کلمات کی روشنائی کے برابر۔ (مسلم)

اور مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے۔ میں اللہ کی تسبیح بیان کرتا ہوں اس کی مخلوق کی تعداد کے برابر،اللہ کی پاکیزگی ہے اس کے نفس کی رضا کے برابر،اللہ کی پاکیزگی ہے ،اس عرش کے وزن کے برابر، اللہ کی پاکیزگی ہے اس کے کلمات کی روشنائی کے برابر۔

اور ترمذی کی روایت میں ہے :کیا میں تمہیں چند کلمات نہ سکھاؤں جنہیں تم پڑھتی رہو؟اللہ کی پاکیزگی ہے اس کی مخلوق کی تعداد کے برابر،اللہ کی پاکیزگی ہے اس کی مخلوق کی تعداد کے برابر،اللہ کی پاکیزگی ہے اس کی مخلوق کی تعداد کے برابر۔ اللہ کی پاکیزگی ہے اس کے اپنے نفس کی رضا کے برابر،اللہ کی پاکیزگی ہے اس کے اپنے نفس کی رضا کے برابر،اللہ کی پاکیزگی ہے اس کے اپنے نفس کی رضا کے برابر،اللہ کی پاکیزگی ہے اس کے عرش کے وزن کے برابر ،اللہ کے لیے پاکیزگی ہے اس کے عرش کے وزن کے برابر، ۔ اللہ کے لیے پاکیزگی ہے اس کے عرش کے وزن کے برابر، اللہ کے لیے پاکیزگی ہے اس کے کلمات کی روشنائی کے برابر، اللہ کے لیے پاکیزگی ہے اس کے کلمات کی روشنائی کے برابر، اللہ کے لیے پاکیزگی ہے اس کے کلمات کی روشنائی کے برابر۔

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۷۲۶)والروایۃ لہٗ، والثالثۃ عند الترمذی (۳۵۵۵)۔

۱۴۳۴۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور جو یاد نہیں کر تا زندہ اور مردہ شخص کی طرح ہے۔              (بخاری)

اور مسلم نے اسے (ان الفاظ سے) روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ’’اس گھر کی مثال جس میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہو اور وہ گھر جس میں اللہ کا ذکر نہ کیا جاتا ہو، زندہ اور مردہ کی طرح ہے‘‘ ۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۰۸۱۱۔ فتح)، و مسلم (۷۷۹)۔

۱۴۳۵۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں اپنے بندے کے اس گمان کے ساتھ ہوں جیسا وہ مجھ سے گمان رکھے اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے اگر وہ مجھے اپنے نفس (دل)میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے نفس میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے تو میں اسے ایسی جماعت اور مجلس میں یاد کرتا ہوں جو ان سے بہتر ہوتی ہے۔      (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۴۴۰) ملاحظہ فرمائیں۔

۱۴۳۶۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’مفرّدون سبقت لے گئے‘‘ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ’’مفرّ دون کون ہیں ؟آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۶۷۶)۔

۱۴۳۷۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا،آپ نے فرمایا: سب سے افضل ذکر ’’لا الہ الا اللہ‘‘ ہے۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : حسن۔ اخرجہ الترمذی (۳۳۸۳)و ابن ماجہ (۳۸۰۰)باسناد حسن۔

۱۴۳۸۔ حضرت عبد اللہ بن بسر ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کی یا رسول اللہ !شرائع (احکام) اسلام مجھ پر بہت زیادہ ہو گئے ہیں ،پس مجھے کوئی ایسا حکم بتائیں جسے میں مضبوطی سے پکڑ لوں ؟ آپ نے فرمایا: تمہاری زبان اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہیے۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح الترمذی (۳۳۷۵)و احمد (/۱۸۸۴)والحاکم (/۴۹۵۱)۔

۱۴۳۹۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جس شخص نے ’’سبحان اللہ وبحمدہ ‘‘ پڑھا اس کے لیے جنت میں کھجور کا درخت لگا دیا جاتا ہے۔              (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح بشواھد۔ اخرجہ الترمذی (۳۴۶۵)باسناد ضعیف۔

اس کی سند اگرچہ ضعیف ہے کیونکہ ابوزبیر نے جابر سے ’’عن‘‘ سے بیان کیا ہے لیکن مسند احمد (/۴۴۰۳) میں اس کاا یک شاہد ہے۔ پس یہ اپنے شاہد کی وجہ سے صحیح ہے۔

۱۴۴۰۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس رات مجھے معراج کرائی گئی اس رات ابراہیمؑ سے میری ملاقات ہوئی انھوں فرمایا: اے محمد! میری طرف سے اپنی امت کو سلام کہنا اور انہیں بتانا کہ جنت کی مٹی پاکیزہ (زرخیز) اور اس کا پانی میٹھا ہے ،لیکن وہ ایک چٹیل میدان ہے اور بے شک (سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا و اللہ اکبر)کہنا وہاں درخت لگانا ہے۔             (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : حسن لشواھد ہ۔ اخرجہ الترمذی (۳۴۶۲)۔

یہ حدیث عبد ا لرحمن اسحاق واسطی کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن مسند احمد (/۴۱۸۵)اور مجمع الزوائد (/۹۸۱۰)۔ میں موجود شواہد کی وجہ سے حسن ہے۔

۱۴۴۱۔ حضرت ابو دردا ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں تمہارے اعمال میں سے ایسے عمل کی خبر نہ دوں جو سب سے بہتر، تمہارے آقا کے ہاں بہت پاکیزہ تمہارے درجات میں سب سے زیادہ اضافہ کرنے والا، تمہارے لیے سونے چاندی کے خرچ کرنے سے بہتر اور اس بھی بہتر کہ تم اپنے دشمن سے مقابلہ کرو،پس تم ان کی گردنیں مارو اور وہ تمہاری گردنیں ماریں ؟ صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کا ذکر۔ (ترمذی۔ امام حاکم ابو عبداللہ نے کہا :اس کی سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح اخرجہ الترمذی (۳۳۷۷)و ابن ماجہ (۳۷۹۰)و احمد (/۱۹۵۵)والحاکم (/۴۹۶۱)۔

۱۴۴۲۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک عورت کے پاس آئے جسکے سامنے گٹھلیاں یا کنکریاں پڑ ی ہوئی تھیں اور وہ ان کے ساتھ تسبیح کر رہی تھیں ، آپ نے فرمایا:کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جو تیرے لیے اس سے زیادہ آسان یا اس سے زیادہ افضل ہو؟پھر آپ نے فرمایا:کہو (سبحان اللہ) (اللہ کے لیے پاکیزگی ہے)ان چیزوں کی تعداد کے برابر جو اس نے آسمان میں پیدا کیں ،اللہ تعالیٰ کے لیے پاکیزگی ہے ان تمام چیزوں کی تعداد کے برابر جو اس نے زمین میں پیدا کیں ،اللہ کے لیے پاکیزگی ہے ان تمام چیزوں کی تعداد کے برابر جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں اور اللہ کے لیے پاکیزگی ہے ان تمام چیزوں کی تعداد کے برابر جو اس نے پیدا کرنی ہیں ’’اللہ اکبر‘‘ بھی اس کی مثل ’’الحمد للہ‘‘ بھی اس کی مثل ’’لا الہ الا اللہ‘‘ بھی اس کی مثل اور  ’’لا حول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ بھی اس کی مثل ہے۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ ابو داؤد (۱۵۰۰)و الترمذی (۳۵۶۷) با سناد ضعیف۔

یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں خزیمہ روایہ ،عائشہ بنت طلحہ روایت کرتی ہیں۔ مجہول (غیر۔ معروف)۔ ہے۔ اصل حدیث صحیح مسلم (۲۷۲۶)میں ہے جو حضرت جویریہ ؓ سے مروی ہیں لیکن اس میں گٹھلیوں اور کنکریوں کا ذکر نہیں۔

۱۴۴۳۔ حضرت ابو موسیٰ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا: کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ میں نے عرض کیا :کیوں نہیں یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا: وہ خزانہ ’’لا حول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۸۷۱۱و۲۱۳۔ ۲۱۴۔ فتح)و مسلم (۲۷۰۴)۔

۲۴۵۔ باب: کھڑے، بیٹھے، لیٹے ہوئے، وضو کے بغیر اور حالت جنابت اور حیض میں اللہ کا ذکر کرنا جائز ہے البتہ جنبی اور حائضہ قرآن نہیں پڑھ سکتے

اللہ تعالیٰ۔ نے فرمایا: بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے ادل بدل کرانے جانے میں عقل مندوں کیلئے نشانیاں ہیں ،وہ جو کھڑے ،بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ (آل عمران۔ :۱۹۰، ۱۹۱)

۱۴۴۴۔ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ہر حال میں اللہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے۔    (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۳۷۳)۔

۱۴۴۵۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:اگر تم میں سے کوئی ایک جب اپنی بیوی کے پاس (ہم بستری کیلئے) جانے کا ارادہ کر کے تو یہ دعا پڑھے۔ اللہ کے نام کے ساتھ اے اللہ !ہم (میاں بیوی) کو شیطان سے بچا۔ اور (اس ہم بستری کی وجہ سے جو تو ہمیں اولاد عطا فرمائے اسے بھی شیطان سے بچا۔ ‘‘ پس ان دونوں کے درمیان جو بھی اولاد مقدر ہوئی تو شیطان اسے بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔                     (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۳۵۶۔ فتح)و مسلم (۱۴۳۴)۔

۲۴۶۔ باب:سونے اور بید ار ہونے کے وقت کیا پڑھنا چاہیے ؟

۱۴۴۶۔ حضرت حذیفہ اور حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ اپنے بستر پر لیٹنے کے لیے آتے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔ ’’اے اللہ !میں تیرے نام کے ساتھ مرتا اور زندہ ہوتا ہوں ’’اور جب آپ بیدار ہوتے تو پھر یہ دعا پڑھتے تھے۔ ’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف ہم سب نے اکٹھا ہونا ہے‘‘ ۔         (ترمذی)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۱۳۱۱۔ ۱۳۰۔ فتح)۔

۲۴۷۔ باب: ذکر کے حلقوں کی فضیلت،ان میں شرکت کا مستحب ہونا اور عذر کے بغیر انہیں چھوڑ نے کی ممانعت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ باندھ رکھیے جو صبح شام اپنے رب کو پکارتے ہیں ، اس کی رضامندی کے ارادے سے اور آپ کی آنکھیں ان سے تجاوز نہ کریں۔            (الکھف:۲۸)

۱۴۴۷۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ کے کچھ فرشتے ہیں جو اللہ کا ذکر نے والوں کو تلاش کرنے کیلئے راستوں میں گھومتے پھرتے ہیں ،جب وہ کسی قوم کو اللہ کا ذکر کرتے ہوئے پاتے ہیں تو وہ فرشتے اپنے ساتھیوں کو آواز دیتے ہیں کہ اپنے مقصد کی طرف آؤ۔ پس وہ فرشتے انہیں آسمان سے دنیا تک اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں۔ پس (جب فرشتے اللہ کے پاس پہنچتے ہیں تو)ان کا رب ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ خود خوب جانتا ہے کہ میرے بندے کیا کہہ رہے تھے ؟ آپ نے فرمایا: فرشتے جواب دیتے ہیں : وہ تیری تسبیح و تکبیر اور تحمید و تمجید بیان کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے :کیا انھوں نے مجھے دیکھا ہے ؟و ہ جواب دیتے ہیں :نہیں اللہ کی قسم ! انھوں نے آپ کو نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اگر وہ مجھے دیکھ لیں تو (پھر ان کی کیا کیفیت ہو) ؟ آپ نے فرمایا: فرشتے کہتے ہیں اگر وہ آپ کو دیکھ لیں پھر تو وہ آپ کی اور زیادہ عبادت کریں اور آپ کی اور زیادہ تحمید و تسبیح بیان کریں۔ اللہ پوچھتا ہے :وہ کیا چیز مانگ رہے تھے ؟آپ نے فرمایا: فرشتے عرض کرتے ہیں وہ آپ سے جنت مانگتے تھے۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ پو چھتا ہے : کیا انھوں نے جنت دیکھی ہے ؟آپ نے فرمایا:وہ جواب دیتے ہیں نہیں اللہ کی قسم! اے رب!انھوں نے اسے نہیں دیکھا۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اگر وہ اسے دیکھ لیں تو (پھر ان کی کیا حالت ہو)؟!آپ نے فرمایا فرشتے کہتے ہیں :اگر وہ اس جنت کو دیکھ لیں تو پھر اس کے بارے میں ان کی حرصو طلب اور رغبت بہت زیادہ بڑھ جائے۔ فرمایا:وہ کس چیز سے پناہ مانگتے تھے ؟ عرض کیا وہ آگ (جہنم)سے پناہ مانگتے ہیں۔ فرمایا:اللہ پوچھتا ہے کیا انھوں نے جہنم کو دیکھا ہے ؟ فرمایا: وہ عرض کرتے ہیں : نہیں !اللہ کی قسم !انھوں نے اسے نہیں دیکھا۔ اللہ پو چھتا ہے اگر وہ اسے دیکھ لیں تو (پھر ان کی کیا حالت ہو)؟!فرمایا:فرشتے جواب دیتے ہیں اگر وہ اسے دیکھ لیں تو وہ اس سے بہت دور بھاگیں اور اس سے بہت زیادہ ڈریں۔ فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :فرشتو!میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان سب کو بخش دیا۔ فرمایا: فرشتوں میں سے ایک فرشتہ کہتا ہے :ان (ذکر کرنے والوں) میں ایک ایسا آدمی تھا جوان میں سے نہیں تھا ،وہ تو صرف کسی ضرورت کے تحت وہاں آیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ (ذکر کرنے والے) ایسے ہم نشین ہیں ان کے ساتھ بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا۔             (متفق علیہ)

اور مسلم کی ایک روایت میں ہے، جو حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ کے کچھ فرشتے جو چلتے پھرتے رہتے ہیں اور وہ حفاظت کرنے والے فرشتوں سے الگ ہیں ،وہ ذکر کی مجلسیں اور محفلیں تلا ش کرتے ہیں پس جب وہ ایسی مجلس پاتے ہیں جہاں ذکر ہو رہا ہو تو وہ انکے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور پروں کے ساتھ ایک دوسرے کو ڈھانپ لیتے ہیں حتیٰ کہ وہ ان کے اور آسمان دنیا کے درمیان خلا کو بھر دیتے ہیں۔ پس جب وہ ذکر کرنے والے الگ الگ ہو جاتے ہیں تو یہ فرشتے آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں تو اللہ عزوجل فرماتا ہے ، حالانکہ وہ خوب جانتا ہے : (فرشتو!)تم کہاں سے آئے ہو ؟ وہ عرض کرتے ہیں ہم تیرے ان بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو زمین پر ہیں ،وہ تیری تسبیح و تکبیر اور تہلیل و تحمید بیان کرتے اور تجھ سے کچھ مانگتے تھے۔ اللہ پوچھتا ہے وہ مجھ سے کیا مانگتے تھے ؟ فرشتے کہتے ہیں وہ تجھ سے تیری جنت کا سوال کرتے تھے۔ اللہ پوچھتا ہے کی انھوں نے میری جنت دیکھی ہے ؟ وہ عرض کرتے ہیں نہیں اے پروردگار!اللہ فرماتا ہے اگر وہ میری جنت دیکھ لیں تو (پھر ان کی کیا حالت ہو)؟فرشتے عرض کرتے ہیں وہ تجھ سے پناہ بھی طلب کر رہے تھے۔ اللہ پوچھتا ہے وہ کس چیز سے اپنی پناہ طلب کر رہے تھے۔ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اے رب ! تیری آگ سے پناہ طلب کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :کیا انھوں نے میری آگ دیکھی ہے ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں :نہیں !اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے ہے اگر میری آگ دیکھ لیں تو (پھر ان کی کیا حالت ہو گی)؟!پھر فرشتے عرض کرتے ہیں :تجھ سے بخشش بھی طلب کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں نے انہیں بخش دیا اور وہ جس چیز کا سوال کر رہے تھے وہ میں نے انہیں عطا کر دی اور وہ جس چیز سے پناہ طلب کر رہے تھے میں نے اس سے انہیں پناہ دی۔ فرمایا:فرشتے عرض کرتے ہیں اے رب! ان میں فلاں آدمی بھی تھا جو بہت گناہ گار تھا ،وہ تو صرف وہاں سے گزر تا ہوا ان کے ساتھ بیٹھ گیا تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اسے بھی بخش دیا (کیونکہ)۔ وہ (ذکر نے والے) تو ایسے لوگ ہیں کہ ان کے ساتھ بیٹھنے والے بھی محروم نہیں ہوتے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۰۸۱۱۔ ۲۰۹۔ فتح)و مسلم (۲۶۸۹)۔

۱۴۴۸۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت ابو سعید ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو لوگ اللہ عزوجل کا ذکر کرنے بیٹھتے ہیں تو فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں ،رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ انکا ذکر ان (فرشتوں)کے ہاں کرتا ہے جو اس کے پاس ہیں۔    (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۷۰۰)

۱۴۴۹۔ حضرت ابو واقد حارث بن عوف ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک مرتبہ مسجد میں تشریف فرما تھے اور لوگ بھی آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں تین آدمی آئے۔ پس دو۔ تو رسول اللہﷺ کی طرف متوجہ ہوئے اور ایک چلا گیا، وہ دونوں رسول اللہﷺ کے پاس کھڑے ہو گئے پھر ان میں سے ایک نے حلقے (مجلس) میں خالی جگہ دیکھی تو وہ وہاں بیٹھ گیا اور دوسرا شخص ان کے پیچھے بیٹھ گیا اور رہا تیسرا تو وہ پیٹھ پھیر کر چلا گیا۔ پس جب رسول اللہﷺ فارغ ہوئے تو فرمایا: کیا میں تمہیں ان تین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ان میں سے ایک نے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف پناہ دے دی ،رہا دوسرا شخص تو اس نے (مجلس میں گھسنے) میں شرم محسوس کی تو اللہ نے بھی اس سے شرم کا معاملہ کیا اور تیسرے آدمی نے اعراض کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس سے اعراض فرمایا:          (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۵۶۱۔ فتح)و مسلم (۲۱۷۶)۔

۱۴۵۰۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہؓ مجلس میں ایک حلقے کے پاس آئے تو ان سے پوچھا تم یہاں کس لیے بیٹھے ہو؟ انھوں نے بتایا کہ ہم اللہ کا ذکر کرنے کیلئے بیٹھے ہیں۔

حضرت معاویہؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم ! کیا تم اسی لیے بیٹھے ہو؟ انھوں نے بتایا کہ ہاں ہم صرف اسی لیے بیٹھے ہیں۔ حضرت معاویہ ؓ نے فرمایا: سن لو!میں نے تمہیں جھوٹا سمجھتے ہوئے قسم نہیں اٹھوائی،سنو!کوئی شخص ایسا نہیں جسے رسول اللہﷺ کے ساتھ مجھ جیسا تعلق ہو اور پھر وہ مجھ سے کم حدیثیں بیان کرنے والا ہو،بے شک رسول اللہﷺ اپنے صحابہ کے ایک حلقے کے پاس تشریف لائے تو فرمایا: تم یہاں کس لیے بیٹھے ہو؟انھوں نے عرض کیا : ہم اللہ کا ذکر کرنے اور اس بات پر اس کا شکر کرنے کیلئے بیٹھے ہیں کہ اس نے ہمیں اسلام کی ہدایت سے نوازا اور اس کے ذریعے ہم پر احسان فرمایا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم !کیا تم اسی مقصد کیلئے بیٹھے ہو؟انھوں نے عرض کیا :اللہ کی قسم !ہم صرف اسی مقصد کیلئے بیٹھے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: میں نے تم سے اس لیے قسم نہیں اٹھوائی کہ میں تمہیں جھوٹا یا مشکوک سمجھتا ہوں بلکہ میرے پاس جبریل ؑ تشریف لائے تو انھوں نے مجھے بتایا کہ اللہ تم پر فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے۔          (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۷۰۱)۔

۲۴۸۔ باب: صبح شام اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرو، گڑ گڑ آتے اور ڈرتے ہوئے، نہ کہ اونچی آواز

سے ، صبح و شام اور غفلت کرنے والوں میں سے نہ ہوؤ۔ (الاعراف:۲۰۵)

اہل لغت نے بیان کیا ہے (الاصال)أصیل کی جمع ہے اور یہ عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت ہے۔

اور فرمایا: اور اپنے رب کی خوبیوں کے ساتھ پاکیزگی بیان کرو،سورج کے طلوع و غروب ہونے سے قبل۔     (طہ:۱۳۰)

نیز فرمایا: صبح و شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرو۔ (غافر:۵۵)

اہل لغت نے کہا ہے کہ (العشی)سورج کے ڈھلنے سے لے کر اس کے غروب ہو نے تک کا درمیانی وقت ہے۔

اور فرمایا: (اللہ کا نور ایسے) گھروں میں ملے گا جن کی بابت اللہ نے حکم دیا ہے انہیں بلند کیا جائے اور ان میں اس کا ذکر کیا جائے ،وہ ان (مساجد)میں صبح و شام تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں ان میں ایسے لوگ ہیں کہ انہیں کاروبار اور خریدو فروخت اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی۔ (النور:۳۶، ۳۷)

اور فرمایا: بے شک ہم نے پہاڑوں کو ان کے زیر فرمان کر دیا تھا،وہ صبح و شام (حضرت داؤد ؑ کے ساتھ) اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے تھے۔ (ص:۱۸)

۱۴۵۱۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص صبح شام سو مرتبہ ’’سبحان۔ اللہ وبحمدہ‘‘ پڑھے تو قیامت والے دن اس شخص سے افضل عمل کوئی نہیں لائے گا ،سوائے اس شخص کے جس نے اسکی مثل یا اس سے ز یا دہ دفعہ یہ کلمات کہے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۶۹۲)۔

۱۴۵۲۔ حضرت ابوہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا یا رسول اللہ !گزشتہ رات مجھے بچھو کے کاٹنے کی بہت تکلیف پہنچی۔ آپ نے فرمایا: اگر تو شام کے وقت یہ دعا پڑھ لیتا ’’میں اللہ تعالیٰ کے پورے کلمات کے ساتھ اس کی پناہ مانگتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی‘‘ ۔ تو یہ بچھو تجھے نقصان نہ پہنچاتا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۷۰۹)۔

۱۴۵۳۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ جب صبح کرتے تو یہ دعا پڑھتے تھے : ’’اے اللہ۔ ! تیرے (نام کے)کے ساتھ ہم نے صبح کی اور شام کی، تیرے ساتھ ہی ہم زندہ ہیں اور تیرے (نام کے) ساتھ ہم فوت ہوں گے اور تیری ہی طرف اکٹھے ہونا ہے۔ ‘‘ اور جب آپ شام کرتے تو یہ دعا پڑھتے : ’’اے اللہ !ہم نے تیرے (نام کے)ساتھ ہی ہم زندہ ہیں اور تیرے (نام کے) ساتھ ہی ہم فوت ہوں گے اور تیری ہی طرف ہم نے لوٹنا ہے۔ (ابوداؤد، ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ البخاری فی الأ دب المفرد (۱۱۹۹)وابو داؤد (۵۰۶۸)و الترمذی (۳۳۹۱)،و ابن ماجہ (۳۸۶۸)۔

۱۴۵۴۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے عرض کیا:یا رسول اللہ ! مجھے ایسے کلمات بتائیں۔ جنہیں میں صبح شام پڑھا کروں۔ آپ نے فرمایا: یہ پڑھا کرو : اے اللہ !آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود میں لانے والے غیب اور ظاہر کو جاننے والے !ہر چیز کے رب اور مالک !میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ،میں اپنے نفس کے شر،شیطان کے شر اور اس (کی دعوت) شرک سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: جب تم صبح کر و،جب تم شام کرو اور جب تم اپنے بستر پر لیٹو تو یہ کلمات پڑھا کرو۔ (ابو داؤد، ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ البخاری فی (الأدب المفرد)) (۱۲۰۲) وابوداؤد (۵۰۶۷)و الترمذی (۳۳۹۲)و احمد (/۹۱و۱۰، /۲۹۷۲)۔

۱۴۵۵۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب نبیﷺ شام کرتے تو یہ دعا پڑھتے : ہم نے اور اللہ کے ملک نے شام کی ، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں ،و ہ یکتا ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں۔ راوی حدیث کا بیان ہے : میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ کلمات بھی ساتھ فرمائے : اسی کے لیے بادشاہی ہے اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے میرے پروردگار! میں تجھ سے اس کی خیر و بھلائی کا سوال کرتا ہوں جو اس رات میں ہے اور اس بھلائی کا جو اس کے بعد ہے اور میں تجھ سے اس شر سے پناہ چاہتا ہوں جو اس رات میں ہے اور اس شر سے جو اس کے بعد ہے۔ اے میرے رب!میں سستی سے اور بڑھاپے کی تکلیف سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اے میرے رب! میں اس عذاب سے جو آگ میں ہو گا اور اس عذاب سے جو قبر میں ہو گا ،تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اور جب صبح ہوتی تو بھی آپ یہ کلمات پڑھتے۔ (لیکن صبح کے وقت ’’أَمْسَیْنَا وَأَمْسَی الْمُلْکُ لِلّٰہِ ،کی جگہ یہ پڑھتے ’’أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ الْمُلْکُ لِلّٰہِ‘‘ ہم نے صبح کی اور اللہ کے ملک نے صبح کی۔              (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۷۲۳)۔

۱۴۵۶۔ حضرت عبداللہ بن خبیب ؓ (خا پر پیش) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا: تم صبح شام تین تین مرتبہ ﴿قل ہو اللہ احد ﴾ ﴿قل أعوذبرب الفلق﴾ ﴿قل أعوذ برب الناس﴾ پڑھ لیا کرو، یہ تمہیں ہر چیز سے کافی ہو جائیں گی۔ (ابو داؤد، ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : حسن۔ اخرجہ ابو داؤد (۵۰۸۲)و الترمذی (۳۵۷۵)با سنا حسن۔

۱۴۵۷۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو بندہ ہر روز صبح کے وقت ہر رات شام کے وقت تین مرتبہ یہ دعا پڑھتے ﴿بسم اللہ الذی لا یضر مع اسمہ شيءو فی الأرض ولافی السما وھو السمیع العلیم﴾ (اللہ کے نام کے ساتھ جس کے (بابرکت)نام کے ہوتے ہوئے زمین میں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی اور نہ آسمان میں سے اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے)تو اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی۔ (ابو داؤد، ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ البخاری فی ( (الأدب المفرد)) (۶۶۰)وابو داؤد (۵۰۸۸و۵۰۸۹)و الترمذی (۳۳۸۸)ابن ماجہ (۳۸۶۹)والنسائی فی ( (عمل الیوم واللیلۃ)) (۱۵و۱۶)والحاکم (/۵۱۳۱)۔

۲۴۹۔ باب:سونے کے وقت پڑھنے کی دعائیں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ادل بدل کرانے جانے میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں ، وہ جو کھڑے بیٹھے اور لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں۔ (آل عمران:۱۹۰، ۱۹۱)

۱۴۵۸۔ حضرت حذیفہ ؓ اور حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب اپنے بستر پر لیٹتے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔ اے اللہ !میں تیرے نام کے ساتھ زندہ ہوتا اور مرتا ہوں۔ (بخاری)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۸۱۷)اور (۱۴۴۶)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۴۵۹۔ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے انہیں اور حضرت فاطمہ ؓ کو فرمایا: جب تم اپنے بستر پر لیٹ جاؤ تو ۳۳، ۳۳ بار اللہ اکبر، سبحان اللہ اور الحمد للہ‘‘ کہو اور ایک روایت میں سبحان اللہ ۳۴مرتبہ کا کہنے کا ذکر ہے اور ایک روایت میں اللہ اکبر ۳۴ مرتبہ کہنے کا ذکر ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۲۱۵۶۔ ۲۱۶۔ فتح)و مسلم (۲۷۲۷)والروایۃ الثانۃعند البخاری (/۱۱۹۱۱۔ فتح)۔

۱۴۶۰۔ حضرت ابو ہریرہؓ۔ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے بستر پر لیٹنے لگے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے تہ بند کے اندرونی حصے کے ساتھ بستر کو جھاڑ لے ، اس لیے کہ اسے معلوم نہیں کہ اس کے بعد کون اس بستر پر آیا ،پھر یہ دعا پڑھے : اے میرے رب!میں نے تیرے نام کے ساتھ اپنے پہلو کو بستر پر رکھا ہے اور تیرے ہی نام کے ساتھ اسے اٹھاؤں گا، اگر تو نے (دوران نیند) میری روح قبض کر لی تو پھر اس پر رحم فرمانا اور اگر توا سکو چھوڑ دے تو پھر اس کی ویسے ہی حفاظت فرما جیسے تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت فرماتا ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۲۵۱۱۔ ۱۲۶۔ فتح)و مسلم (۲۷۱۴)

۱۴۶۱۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب اپنے بستر پر لیٹتے تو اپنے ہاتھوں میں پھونکتے اور معوذات پڑھتے اور انہیں اپنے جسم پر پھیر لیتے تھے۔ (متفق علیہ)

اور بخاری و مسلم ہی کی روایت ہے کہ نبیﷺ ہر رات جب اپنے بستر پر لیٹتے تو آپ اپنی ہتھیلیوں کو اکٹھا کرتے ، پھر ان میں پھونک مارتے اور ﴿قل ھواللہ احد﴾ ﴿قل أعوذ برب الفلق ﴾ اور  ﴿قل  أعوذ برب الناس ﴾ پڑھتے پھر جس قدر ممکن ہوتا آپ ان ہتھیلیوں کو اپنے جسم پر پھیرتے ،اپنے سر، چہرے اور جسم کے اگلے حصے سے ان کو پھیرنا شروع کرتے۔ آپ تین مرتبہ ایسا کرتے تھے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۶۲۹، /۱۵۱۱۔ فتح)و مسلم (۲۱۹۲)

۱۴۶۲۔ حضرت ابرء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا: جب تم اپنے بستر کی طرف آؤ تو وضو کرو جس طرح تم نماز کے لیے وضو کرتے ہو، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاؤ اور یہ دعا پڑھو :اے اللہ !میں نے اپنا نفس تیری طرف سونپ دیا، اپنا معاملہ تیرے سپرد کر دیا ،اپنی ٹیک تیری طرف لگا دی تیری رحمت کی امید رکھتے ہوئے اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہوئے ،تیری گرفت سے بچنے کیلئے تیرے سوا کوئی ٹھکانا ہے نہ جائے پناہ۔ میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل فرمائی ،تیرے اس نبی پر ایمان لایا جسے تو نے بھیجا ،پس اگر تم (یہ کلمات پڑھ کر) فوت ہو گے تو تم فطرت اسلام پر فوت ہو گئے اور ان کلمات کو اپنی گفتگو کا آخر ی حصہ بنانا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۸۱۳)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۴۶۳۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ جب اپنے بستر پر لیٹتے تو یہ دعا پڑھتے تھے :تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں کھلایا، پلایا، ہماری کفایت کی اور ہمیں ٹھکانا دیا۔ پس کتنے ہی ایسے ہیں جنہیں کوئی کفایت کرنے وا لا ہے نہ ٹھکانا دینے والا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۷۱۵)۔

۱۴۶۴۔ حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب سونے کا ارادہ فرماتے تو آپ اپنا دایاں ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھ لیتے پھر یہ دعا پڑھتے : اے اللہ! مجھے اس روز اپنے عذاب سے بچانا جس روز تو اپنے بندوں کو زندہ کر کے اٹھائے گا۔ (ترمذی حدیث حسن ہے)

ابوداؤد نے اسے حضرت حفصہ ؓ سے روایت کیا ہے اور اس میں ہے کہ آپ یہ کلمات تین مرتبہ پڑھتے تھے۔

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ الترمذی (۳۳۹۸)،، وابو داؤد (۵۰۴۵)واخرجہ الترمذی (۳۳۹۹)من حدیث البرا بن عازب رضی اللہ عنہ ولم یذکرفیہ ( (ثلاث مرات))

 

 

دعا کے مسائل

۲۵۰۔ باب:دعا کی فضیلت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور تمہارے رب نے کہا مجھے پکارو میں تمہاری پکار کو قبول کروں گا۔              (غافر:۶۰)

اور فرمایا: تم اپنے رب کو گڑ گڑا تے ہوئے اور پوشیدہ طریقے سے پکارو ،بے شک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ (ا لأعراف:۵۵)

نیز فرمایا: اور جب تجھ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں (تو آپ بتا دیں میں قریب ہوں) میں پکارنے والے کی پکار کو قبول کرتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارے۔ (البقرۃ:۱۸۶)

اور فرمایا: اور کون ہے جو لاچار کی پکار کو جب وہ پکارے ، قبول کرتا اور برائی (تکلیف) کو دور کرتا ہے ؟        (النمل:۶۲)

۱۴۶۵۔ حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے نبیﷺ نے فرمایا: ’’دعا ہی عبادت ہے‘‘ ۔         (ابوداؤد ، ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ البخاری فی الأدب المفرد (۷۱۴)وابو داؤد (۱۴۷۹)الترمذی (۳۲۴۷و۳۳۷۲)و ابن ماجہ (۳۸۲۸)و احمد (/۲۶۷۴و۲۷۱و۲۷۶و۲۷۷)والحاکم (/۴۹۱۱)۔

۱۴۶۶۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جامع دعاؤں کو پسند فرماتے تھے اور ان کے علاوہ دعاؤں کو ترک کر دیتے تھے۔       (ابوداؤد۔ سند جید ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۱۴۸۲)۔

۱۴۶۷۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ کی اکثر دعا یہ ہوتی تھی :اے اللہ! ہمیں دنیا میں خیرو بھلائی عطا فرما اور آخر ت میں بھی خیرو بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ (جہنم) کے عذاب سے بچا۔ (متفق علیہ)

مسلم نے اپنی روایت میں یہ اضافہ نقل کیا ہے کہ حضرت انس ؓ جب بھی دعا کرنے کا ارادہ فرماتے تو یہی دعا کرتے اور جب کوئی اور دعا کرتے تو اس کے ساتھ یہ دعا بھی کرتے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۸۷۸۔ ۱۸۸۔ فتح)و مسلم (۲۶۹۰)والزیادۃعند مسلم

۱۴۶۸۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے : اے اللہ ! میں تجھ سے ہدایت، پرہیز گاری، عفتو پاکدامنی اور غنا و بے نیازی کا سوال کرتا ہوں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۷۱)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۴۶۹۔ حضرت طارق بن اشیم ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی آدمی اسلام قبول کرتا تو نبیﷺ اسے نماز سکھاتے اور پھر اسے ان کلمات کے ذریعے دعا کرنے کا حکم فرماتے :اے اللہ !مجھے بخش دے ،مجھے پر رحم فرما ،مجھے ہدایت سے نواز،مجھے عافیت دے اور مجھے رزق عطا فرما۔ (مسلم)

اور مسلم کی ایک اور روایت میں حضرت طارقؓ ہی سے مروی ہے کہ انھوں نے نبیﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، اس وقت جب ایک آدمی آپ کی خدمت میں آیا تو اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں جب اپنے رب سے سوال کروں تو کیسے کروں ؟آپ نے فرمایا: یہ کہا کرو: اے اللہ ! مجھے بخش دے ، مجھ پر رحم فرما ،مجھے عافیت دے اور مجھے رزق عطا فرما،پس یہ کلمات تیرے لیے تیری دنیا و آخر ت کی بھلائیاں جمع کر دیں گے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۶۹۷) (۳۵)والروایۃ الثانیۃ عندہ (۲۶۹۷) (۳۶)۔

۱۴۷۰۔ حضرت عبد اللہ بن عمروؓ بن عاصؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ (یہ دعا)فرمایا کرتے : اے اللہ ! دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔          (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۶۵۴)۔

۱۴۷۱۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے محنت کی، مشقت، شقاوت و بد بختی کے آ لینے ،بری تقدیر ،فیصلے اور دشمنوں کے خوش ہونے سے پناہ مانگو۔ (متفق علیہ)

ایک روایت میں ہے کہ حضرت سفیان نے کہا :مجھے شک ہے کہ میں نے ان میں سے ایک بات زیادہ بیان کی ہے۔

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۴۸۱۱و۵۱۳۔ فتح)و مسلم (۲۷۰۷)۔

۱۴۷۲۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے :اے اللہ ! میرے دین کی درستی فرما دے ،جو میرے امور دنیا کے تحفظ کا ذریعہ ہے ،میرے لیے میری دنیا بہتر بنا دے جس میں میں نے زندگی بسر کرنی ہے ،میرے لیے میری لیے میری آخر ت بہتر بنا دے جس میں مجھے لوٹ کر جانا ہے اور زندگی کو میرے لیے نیکیوں میں اضافہ کا باعث بنا دے اور موت کو میرے لیے ہر شر سے راحت کا ذریعہ بنا دے۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۷۲۰)۔

۱۴۷۳۔ حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا: یہ دعا پڑھا کرو اے اللہ ! مجھے ہدایت نصیب فرما اور مجھے سیدھا رکھ۔

اور ایک روایت میں ہے : اے اللہ ! میں تجھ سے ہدایت استقامت اور ہر کام میں میانہ روی کی درخواست کرتا ہوں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۷۲۵)۔

۱۴۷۴۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے :اے اللہ !میں تیرے ذریعے سے عاجز ہو جانے، سستی بزدلی، نیز بڑھاپے اور بخل سے پناہ چاہتا ہوں ،میں عذاب قبر اور حیات و ممات کے فتنوں سے بھی تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔

ایک اور روایت میں ہے :قرض کے بوجھ اور لوگوں کے تسلط سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۷۰۶)والروایۃ الثانیۃ عندالبخاری (/۱۷۳۱۱۔ فتح)

حدیث کا دوسرا حصہ مسلم کی بجائے بخاری میں ہے ،امام نو وی ؒ کو وہم ہوا ہے۔

۱۴۷۵۔ حضرت ابوبکر ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا مجھے کوئی ایسی دعا سکھائیں جو میں اپنی نماز میں پڑھا کروں۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ پڑھا کرو :اے اللہ ! بے شک میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا ہے اور گنا ہوں کو تیرے سوا کوئی معاف کرنے والا نہیں ،پس تو اپنی خاص مغفرت سے مجھے معاف کر دے ،اور مجھ پر رحم فرما،بے شک تو بہت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔  (متفق علیہ)

اور ایک روایت میں ہے : (وفی بیتی) ’’کہ میں وہ دعا اپنے گھر میں پڑھ لیا کروں۔ ‘‘ (ظلماً کثیرا)کی بجائے (ظلماًکبیرا)بھی روایت کیا گیا ہے۔ پس دونوں کو جمع کر لینا چاہیے اور اس طرح پڑھنا چاہیے (ظلمت نفسی ظلماً کثیرا کبیرا)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۳۱۷۲۔ فتح)و مسلم (۲۷۰۵)۔

۱۴۷۶۔ حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ ان الفاظ کے ساتھ دعا کیا کرتے تھے : اے اللہ !میری خطا ،میری جہالت ،میرا اپنے معاملے میں حد سے تجاوز اور میری وہ کوتا ہی جسے تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے بخش دے ،اے اللہ ! جو میں نے سنجیدگی سے کیا یا غیر سنجیدگی سے کیا ،نا دانستہ کیا یا  عمداً کیا،یہ سب میری ہی طرف سے ہوا پس تو معاف فرما دے۔ اے اللہ ! میرے اگلے اور پچھلے ،پوشیدہ اور اعلانیہ اور جن کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے ، سارے گناہ معاف کر دے ، تو ہی آگے بڑھانے والا اور تو ہی پیچھے ہٹانے والا ہے اور تو ہر چیز پر قادر ہے۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۱۹۶۱۱، فتح)و مسلم (۲۷۱۹)۔

۱۴۷۷۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ اپنی دعا میں یہ الفاظ پڑھا کرتے تھے : اے اللہ! میں اس کام کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو میں نے کیا اور اس کام کے شر سے بھی جو میں نے نہیں کیا۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۷۱۶)۔

۱۴۷۸۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ یہ دعا بھی کیا کرتے تھے : اے اللہ !میں تیری نعمت کے زائل ہونے، تیری عافیت کے (مصیبت میں) بدل جانے ،تیرے اچانک پکڑ لینے اور تیری ہر قسم کی ناراضی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۷۳۹)۔

۱۴۷۹۔ حضرت زید بن ارقمؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے :اے اللہ ! میں عجز و کسل، بخیلی اور بڑھاپے اور عذاب قبر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ ! تو میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا فرما ،اس کا تزکیہ فرما ، تو سب سے بہتر تزکیہ کرنے والا ہے ،تو ہی اس کا کارساز اور مولیٰ و مددگار ہے۔ اے اللہ !میں ایسے علم سے جو نفع نہ دے ،ایسے دل سے جو نہ ڈرے ،ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو اور ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو تیری پناہ مانگتا ہوں۔ (مسلم)

توثیق الحدیث : اخرجہ مسلم (۲۷۲۲)۔

۱۴۸۰۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے : اے اللہ میں نے اپنے آپ کو تیرا مطیع کر دیا،میں تجھ پر ایمان لایا ،میں نے تجھ پر تو کل اور بھروسا کیا، تیری طرف ہی رجو ع کیا، تیری ہی مدد سے میں (دشمنوں سے)لڑا ،میں تجھے ہی حکم (فیصل) تسلیم کیا، پس تو میرے اگلے اور پچھلے ،پوشیدہ اور اعلانیہ سارے گناہ معاف کر دے۔ تو ہی آگے بڑھانے والا اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔

بعض راویوں نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں :گنا ہوں سے بچنا اور نیکی کرنا محض اللہ تعالیٰ ہی کی توفیق سے ممکن ہے۔             (متفق علیہ)

توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (۷۵)ملاحظہ فرمائیں۔

۱۴۸۱۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ ان کلمات کے ساتھ دعا کیا کرتے تھے : اے اللہ ! میں آگ کے فتنے آگ کے عذاب اور غنا  و فقر کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ (ابو داؤد، ترمذی۔ امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے اور یہ الفاظ ابو داؤد کے ہیں)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ ابوداؤد (۱۵۴۳)و الترمذی (۳۴۹۵)و ابن ماجہ (۳۸۳۸) والنسائی (۸!۲۶۲۔ ۲۶۳)و احمد۔ (/۵۷۶ و۔ ۲۰۷)۔

۱۴۸۲۔ حضرت زیاد بن علاقہ اپنے چچا قطبہ بن مالک ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ یہ دعا مانگتے تھے : ’’اے اللہ ! میں برے اخلاق، برے اعمال اور (بری) خواہشات سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ ‘‘

(ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ الترمذی (۳۵۹۱)،والحاکم’ (۱!۵۳۲)وغیرھما

۱۴۸۳۔ حضرت شکل بن حمید ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے کوئی دعا سکھائیں۔ آپ نے فرمایا: ’’کہو ’’اے اللہ ! میں اپنے کان، آنکھ، زبان، دل اور شرم گاہ کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ ‘‘ (ابو داؤد۔ ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ آخر جہ۔ ابوداؤد۔ (۱۵۵۱)،و الترمذی (۳۴۹۲)،والنسائی (۸!۲۵۹۔ ۲۶۰)

۱۴۸۴۔ حضرت انس سے روایت ہے نبیﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے :اے اللہ !میں برص، جنون، جذام اور دیگر بری بیماریوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ (ابو داؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح۔ اخرجہ ابو داؤد (۱۵۵۴)والنسائی (/۲۷۰۵)۔

۱۴۸۵۔ حضرت ابو ہریر ہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے : اے اللہ !میں بھوک سے تیری پناہ مانگتا ہوں ،اس لیے کہ وہ برا ساتھی ہے اور میں خیانت سے تیری پناہ مانگتا ہوں ،اس لیے کہ وہ بری باطنی خصلت ہے۔ (ابو داؤد۔ سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث : حسن۔ اخر جہ۔ د ابو داؤد (۱۵۴۷)النسائی (/۲۶۳۸)۔

۱۴۸۶۔ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ ایک مکاتب غلام ان کے پاس آیا تو اس نے کہا میں اپنی کتابت (کی رقم ادا کرنے)سے عاجز۔ آ گیا ہوں ،پس آپ میری مدد فرمائیں۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا:کیا میں تجھے چند کلمات نہ سکھاؤں جو رسول اللہﷺ نے مجھے سکھائے تھے ، اگر تجھ پر پہاڑ کے برابر بھی قرض ہو گا تو اللہ ان کی وجہ سے وہ بھی تیری طرف سے ادا فرما دے گا؟ یہ دعا پڑھا کرو:اے اللہ ! اپنے حلال کے ذریعے سے اپنے حرام سے میری کفایت فرما اور تو اپنے فضل سے اپنے ماسوا سے مجھے بے نیاز فرما دے۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : حسن۔ اخرجہ الترمذی (۳۵۶۳)و احمد (/۱۵۳۱)والحاکم (/۵۳۸۱)۔

یہ حدیث حسن ہے، لیکن بعض نے اسے عبد الرحمن بن اسحاق کی وجہ سے ضعیف کہا ہے۔ انہوں نے اسے عبد الرحمن بن اسحاق واسطی خیال کیا ہے جو ضعیف ہے جبکہ یہ عبدالرحمن بن اسحاق القرشی ہے جو حسن الحدیث ہے۔

۱۴۸۷۔ حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ان کے والد حضرت حصین ؓ کو دو کلمے سکھائے جن کے ساتھ وہ دعا کرتے تھے : ’’اے اللہ ! میری رشدو ہدایت میرے دل میں ڈال دے اور مجھے میرے نفس کے شر سے بچا‘‘ ۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ البخاری فی ( (التاریخ الکبیر)) (/۱۳)و الترمذی (۳۴۸۳)والبیھقی فی ( (الأسما والصفات)) (ص ۵۳۴)والدارمی فی (الردعلی المریسی)) (ص۲۴)

یہ حدیث ضعیف ہے ، اس لیے کہ اس کی سند میں شبیب صدوق ہے مگر راستے وہم ہوتا ہے اور حسن مدلس ہے ،اور وہ یہاں ’’عن‘‘ سے روایت کر رہا ہے۔

۱۴۸۸۔ حضرت ابو فضل عباس بن عبد المطلب ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ !مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیں جس کا میں اللہ سے سوال کروں۔ آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرو۔ حضرت عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں چند دن کے بعد پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو عرض کیا یا رسول اللہ !مجھے کوئی چیز سکھائیں جس کا میں اللہ تعالیٰ سے سوال کروں۔ آپ نے مجھے فرمایا: اے عباس!اے رسول۔ اللہ کے چچا !اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت میں عافیت طلب کرو۔         (ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث : صحیح بطرقہ۔ اخرجہ البخاری فی ( (الأدب المفرد)) (۷۲۶)و الترمذی (۳۵۸۱)و احمد (/۲۰۹۱)۔

۱۴۸۹۔ شہر بن حوشب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ام سلمہ ؓ سے عرض کیا اے ام المومنین !جب رسول اللہﷺ آپ کے ہاں ہوتے تو آپ کون سی دعا زیادہ کیا کرتے تھے ؟ انھوں نے بتایا کہ آپﷺ یہ دعا اکثر کیا کرتے تھے : اے دلوں کے پھیرنے اور بدلنے والے !میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔            (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : صحیح بشواھدہ۔ اخرجہ الترمذی (۳۵۲۲)و ابن أبی عاصم فی ( (السنۃ)) (۲۲۳و۲۳۲)و احمد (/۳۰۲۶و۳۱۵)والاجری فی ( (الشریعۃ)) (۳۱۶)

۱۴۹۰۔ حضرت ابو دردا ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: داؤد ؑ کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ تھی: اے اللہ !میں تجھ سے تیری محبت کا اور اس شخص کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور اس عمل کا سوال کرتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔ اے اللہ ! اپنی محبت کو میرے لیے میری جان،میرے اہل خانہ اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب بنا دے۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث : ضعیف۔ اخرجہ الترمذی (۳۵۵۶)والحاکم (/۴۳۳۲)و ابن عسا کر (//۲۳۵۲۵)

یہ حدیث عبد اللہ بن ربیعہ بن یزیدد مشقی کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔

۱۴۹۱۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’یا ذا الجلال والا کرام‘‘ کا خوب اہتمام کرو۔ (ترمذی اور نسائی نے اسے ربیعہ بن عامر صحابیؓ سے روایت کیا ہے۔ امام حاکم ؒ۔ نے کہا : حدیث کی سند صحیح ہے)

توثیق الحدیث :صحیح بشواھد ہ۔ اخرجہ الترمذی (۳۵۲۵)

۱۴۹۲۔ حضرت ابو امامہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے بہت سی دعائیں کی ، ہم ان میں سے کچھ بھی یاد نہ رکھ سکے ،ہم نے عرض کیا یار سول اللہ ! آپ نے بہت سی دعائیں کیں لیکن ہم ان میں سے کچھ بھی یاد نہیں رکھ سکے۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہیں ایسی دعا نہ بتاؤں جو ان سب کو جامع ہو؟تم یہ کہا کرو: اے اللہ ! میں تجھ سے اس خیر کا سوال کرتا ہوں جس کا سوال تیرے نبی محمدﷺ نے تجھ سے کیا اور میں اس چیز کے شر سے تیری پناہ چاہتا۔ ہوں جس کے شر سے تیرے نبی محمدﷺ نے پناہ طلب کی۔ تجھی سے مدد طلب کی جاتی ہے اور تجھی پر (خیرو بھلائی) پہنچانا ہے ،گناہ سے بچنا اور نیکی کرنا صرف اللہ ہی کی توفیق سے ممکن ہے۔ (ترمذی۔ حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :ضعیف۔ اخرجہ الترمذی (۳۵۲۱)۔

۱۴۹۳۔ حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی دعاؤں میں سے ایک یہ دعا بھی تھی : اے اللہ ! میں تجھ سے تیری رحمت کو واجب کر دینے والی چیزوں کا ،تیری مغفرت کو واجب کر دینے والے اعمال کا ،ہر گناہ سے سلامتی کا،ہر نیکی کے حصے کا ،جنت کی کامیابی کا اور آگ سے نجات کا سوال کرتا ہوں۔ (امام حاکم ابو عبداللہ ؒ نے اسے روایت کیا اور کہا کہ یہ مسلم کی شرط پر صحیح ہے)

توثیق الحدیث :ضعیف جدا۔ اخرجہ الحاکم (/۵۲۵۱)۔

اس کی سند حمید بن عطا ء الاعرج کی وجہ سے ضعیف ہے ، کیونکہ وہ متروک ہے۔

۲۵۱۔ باب: پیٹھ پیچھے دعا کرنے کی فضیلت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور (ان کے لیے)جو ان کے بعد آئے ،وہ کہتے ہیں :اے ہمارے رب !ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔ (الحشر:۱۰)

نیز فرمایا:اور اپنے گناہ کی بخشش مانگ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کیلئے (بھی)۔ (محمد:۱۹)

اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کی بابت خبر دیتے ہوئے فرمایا: اے ہمارے رب !مجھے بخش دے ،میرے والدین کو اور مومنوں کو جس دن حساب قائم ہو گا۔       (ابراہیم:۴۱)

۱۴۹۴۔ حضرت ابو دردا ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جب بھی کوئی مسلمان اپنے (دینی) بھائی کے لیے پیٹھ پیچھے دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے :تیرے لیے بھی اس کی مثل ہو۔ (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۷۳۲)۔

۱۴۹۵۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ یہ فرمایا کرتے تھے : مسلمان آدمی کی اپنے (دینی) بھائی کیلئے پیٹھ پیچھے دعا قبول ہوتی ہے ، اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ مقرر ہے ، وہ آدمی جب بھی اپنے بھائی کیلئے دعائے خیر کرتا ہے تو وہ مقرر فرشتہ اس پر امین کہتا ہے اور کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی اس کی مثل ہو۔             (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۲۷۳۳)۔

۲۵۲۔ باب دعا کے متعلق بعض مسائل

۱۴۹۶۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کے ساتھ کوئی نیک سلوک کیا جائے اور وہ اس نیک سلوک کرنے والے کے لیے ’’جزاک اللہ خیر‘‘ (اللہ تعالیٰ تجھے اسکی بہترین جزا دے)کہہ دے تو اس نے)اس محسن کی)خوب تعریف کی۔ (ترمذی۔ حدیث حسن صحیح ہے)

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ الترمذی (۲۰۳۵)والنسائی فی (عمل الیوم واللیلۃ)) (۱۸۰)ومن طریقہ ابن السنی فی ( (عمل الیوم واللیۃ)) (۲۷۵)والطبرانی فی ( (الصغیر)) (/۱۴۸۲)

۱۴۹۷۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنے لیے بد دعا کرو نہ اپنی اولاد کے لیے اور نہ ہی اپنے اموال ہی کیلئے بد دعا کرو (ہو سکتا ہے کہ)تم اللہ کی طرف سے اس کی گھڑ ی کو پالو جس میں اس سے جو مانگا جائے تو وہ تمہارے لیے قبول کر لے۔      (مسلم)

توثیق الحدیث :اخرجہ مسلم (۳۰۰۹)۔

۱۴۹۸۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے ،پس تم سجدے میں خوب دعا کیا کرو۔      (مسلم)

توثیق الحدیث کیلئے حدیث نمبر (۱۴۲۸) ملاحظہ فرمائیں

۱۴۹۹۔ حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی ایک کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک وہ جلد بازی نہ کرے (یعنی)وہ کہتا ہے کہ میں نے اپنے رب سے دعا کی لیکن وہ میرے حق میں قبول ہی نہیں ہوئی۔ (متفق علیہ)

اور مسلم کی روایت میں ہے۔ بندہ جب تک گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے تو اس کی دعا قبول کی جاتی ہے بشرطیکہ وہ جلد بازی نہ کرے۔ پو چھا گیا یا رسول اللہ ! جلد بازی سے کیا مراد ہے ؟آپ نے فرمایا: بندہ کہتا ہے میں نے دعا کی، پھر دعا کی لیکن مجھے تو وہ اپنے حق میں قبول ہوتی نظر نہیں اتی ، پس وہ اس وقت مایوس ہو جائے اور دعا کرنا چھوڑ دے۔

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۴۰۱۱۔ فتح)و مسلم (۲۷۳۵)،والروایۃ الثانیۃ لمسلم (۲۷۲۵) (۹۲)۔

۱۵۰۰۔ حضرت ابو امامہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا کون سی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے ؟ آپ نے فرمایا: رات کے آخر ی حصے۔ میں اور فرض نمازوں کے بعد۔ (ترمذی، حدیث حسن ہے)

توثیق الحدیث :حسن بشواھد۔ اخرجہ الترمذی (۳۴۹۹)والنسائی فی ( (عمل الیوم واللیلۃ)) (۱۰۸)۔

اس حدیث کی سند ضعیف ہے کیونکہ ابن سابط نے ابو امامہ سے کچھ نہیں سنا ،لیکن اس کا ایک شاید ترمذی (۲۵۶۰۔ تحفہ) نسائی (/۱۷۹۱)اور الحاکم (/۲۰۹۱)میں موجود ہے۔ اسے امام حاکم نے صحیح کہا ہے اور امام ؟ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ لہٰذا یہ حدیث شواہد کی بنا پر حسن ہے۔

۱۵۰۱۔ حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:روئے زمین پر جو مسلمان بھی اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کرتا ہے تو اللہ اسے وہی چیز عطا کر دیتا ہے یا اس سے اس کی مثل کوئی تکلیف دور کر دیتا ہے جب تک کہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہیں کرتا۔ پس لوگوں میں سے ایک آدمی نے عرض کی : تب تو ہم کثرت سے دعا کریں گے۔ آپ نے فرمایا: اللہ بھی خوب کثرت سے دینے والا ہے۔ (ترمذی) حدیث حسن صحیح ہے، امام حاکم نے اسے ابو سعید ؓ سے روایت کیا ہے اور اس میں یہ زیادہ بیان کیا ہے : یا اس کے لیے اس کی مثل اجر ذخیرہ فرما دیتا ہے۔

توثیق الحدیث :صحیح۔ اخرجہ الترمذی (۳۵۷۳)وأما حدیث أبی سعید الخدری ؛فاخرجہ احمد (/۱۸۳)، والحاکم (/۴۹۳۱)۔

۱۵۰۲۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ تکلیف اور بے چینی کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہ عظمتوں والا اور بردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ۔ عرش عظیم کا مالک ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آسمانوں ،زمین اور عرش کریم کا مالک ہے۔ (متفق۔ علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ الخاری (/۱۴۵۱۱۔ فتح)و مسلم (۳۷۳)۔

۲۵۳۔ اولیا ء کی کرامات اور ان فضیلت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: سن لو! اللہ کے ولی ،ان پر خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے ان کے لیے دنیا کی زندگی اور آخر ت میں خوش خبری ہے۔ اللہ کی باتوں میں تبدیلی نہیں ، یہ ہے بڑ ی کامیابی۔      (یونس:۶۲۔ ۶۴)

اور فرمایا: اے مریم!اس کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا ،تجھ پر تازہ پکی ہوئی کھجوریں گریں گی ،پس کھاؤ اور پیو۔            (مریم:۲۵۔ ۲۶)

نیز فرمایا: جب بھی زکریا ؑ حضرت مریم کے حجرے میں آتے تو ان کے پاس کھانے کی چیزیں پاتے۔ انھوں نے پوچھا : اے مریم!یہ تیرے پا س کہاں سے آئے ؟انھوں نے کہا اللہ کے پاس سے۔ بے شک اللہ جس کو چاہے بے حساب روزی دیتا ہے۔ (آل عمران:۳۷)

اور فرمایا: جب تم ان کافروں اور ان کے معبودوں سے الگ ہو گئے جن کی وہ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں تو اب غار کی طرف ٹھکانا پکڑ و ،تمہارے لیے تمہارا رب اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے کام میں آسانی مہیا کر دے گا۔ اور تو دیکھے گا سورج کو کہ جب وہ طلوع ہوتا ہے تو ان کے غار کے داہنی طرف کو ہو کر نکلتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو بائیں طرف کو ان سے کترا کر نکل جاتا ہے۔ (الکھف:۱۶۔ ۱۷)

۱۵۰۳۔ حضرت ابو محمد عبدالرحمن بن ابی بکر صدیق ؓ بیان کرتے ہیں۔ کہ اصحاب صفہ فقیر قسم کے لوگ تھے، ایک دفعہ نبیﷺ نے فرمایا: جس شخص کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرے آدمی کو (اپنے ساتھ) لے جائے اور جس شخص کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہو وہ پانچویں اور چھٹے آدمی کو ساتھ لے جائے۔ یا جیسے آپ نے فرمایا۔ پس حضرت ابو بکرؓ تین آدمیوں کولے گئے اور نبیﷺ دس آدمیوں کو اپنے ساتھ لے چلے۔ حضرت ابو بکرؓ نے شام کا کھانا نبیﷺ کے ساتھ کھایا پھر کچھ دیر ٹھہرے رہے حتیٰ کہ نماز عشا ادا کی، پھر رات کا جتنا حصہ اللہ نے چاہا گزر چکا تو آپ گھر لوٹے ،پس آپ کی بیوی نے کہا آپ کو اپنے مہانوں کی ضیافت سے کس چیز نے روکے رکھا تھا؟کیا تم نے انہیں رات کا کھانا نہیں کھلایا؟ ان کی بیوی نے کہا :انھوں نے آپ کے آنے تک کھانے سے انکار کر دیا حالانکہ گھر والوں نے تو انہیں کھانا پیش کر دیا تھا۔ حدیث کے راوی حضرت عبد الرحمن ؓ بیان کرتے ہیں میں تو جلدی سے گیا اور چھپ گیا، پس حضرت ابو بکر ؓ نے کہا اے ناداں !پس وہ مجھ سے ناراض ہوئے اور برا بھلا کہا اور (مہانوں سے) کہا : کھاؤ تمہارے لیے خوشگوار نہ ہو،اللہ کی قسم !میں تو اسے چکھوں گا بھی نہیں۔ راوی حدیث حضرت عبد الرحمن کہتے ہیں :اللہ کی قسم ! ہم جو بھی لقمہ لیتے تو کھانا اس کے نیچے سے اس سے کئی گنا بڑھ جاتا حتیٰ کہ وہ سیر ہو گئے اور کھانا پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ ہو گیا۔ پس حضرت ابو بکر ؓ نے اس کھانے کی طرف دیکھا تو اپنی بیوی سے کہا :اے بنو فراس کی بہن !یہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا :میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم ! (یہ غیر اللہ کی قسم حرام ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے کیونکہ غیر اللہ کی قسم کھانا حرام ہے)یہ کھانا تواب پہلے سے تین گناہ زیادہ ہے۔ پس حضرت ابو بکر ؓ نے بھی اس میں سے کھایا اور کہا :وہ (کھانا نہ کھانے کی قسم کا واقعہ ) شیطان کی طرف سے تھا۔ پھر انھوں نے اس میں سے لقمہ کھایا پھر اس کھانے کو نبیﷺ کے پاس لے گئے تو وہ کھانا صبح تک آپ کے پاس رہا۔ ان دنوں ہمارے اور ایک قوم کے درمیان ایک معاہد ہ تھا اور اس کی مدت ختم ہو چکی تھی ،پس ہم بار ہ آدمی (بطور نگران یا بطور جاسوس) ادھر ادھر گئے ہوئے تھے اور ان میں سے ہر ایک کے ساتھ کچھ لوگ تھے ،ان کی تعداد کا علم اللہ کو ہے کہ ہر ایک کے ساتھ کتنے آدمی تھے ، پس ان سب نے اس میں سے کھانا کھایا۔

ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے قسم کھا لی کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے، (اس کی) بیوی نے بھی قسم کھا لی کہ وہ بھی نہیں کھائے گی ،ایک مہمان یا سب مہمانوں نے بھی قسم کھا لی کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے حتیٰ کہ وہ (میزبان) بھی ہمارے ساتھ کھائے۔ پس حضرت ابوبکر ؓ نے کہا : یہ قسم شیطان کی طرف سے ہے۔ پس انھوں نے کھانا منگوایا اور کھایا اور مہمانوں نے بھی کھایا۔ وہ جو بھی لقمہ اٹھاتے تو نیچے سے اور زیادہ ہو جاتا۔ حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا: اے بنو فراس کی بہن!یہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم !یہ تواب ہمارے کھانا کھانے سے پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ پس ان سب نے کھایا اور پھر اسے نبیﷺ کو بھی بھیجا۔ راوی نے ذکر کیا کہ آپ نے بھی ا س میں سے کھایا۔

ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے اپنے بیٹے عبد الرحمنؓ سے کہا :تم اپنے مہمانوں کا خیال رکھنا اور میں نبیﷺ کے ساتھ جا رہا ہوں ،پس تم میرے آنے سے پہلے ان کی خاطر مدارات سے فارغ ہو جانا۔ پس عبد الرحمن ؓ گئے اور جو کچھ تھا ان کی خدمت میں لے آئے اور کہا :کھانا کھاؤ ،مہمانوں نے کہا: ہمارے گھر کے مالک کہاں ہیں ؟ حضرت عبدالرحمن ؓ نے پھر کہا :کھاؤ! انھوں نے کہا : ہم تو کھانا نہیں کھائیں گے ،حتیٰ کہ ہمارے گھر کا مالک (میزبان)۔ آ جائے۔ حضرت عبد الرحمن نے کہا آپ ہماری طرف سے مہمان نوازی قبول کریں ،اس لئے کہ اگر وہ آ گئے اور تم نے کھانا نہیں کھایا ہو گا تو ہمیں ان کی طرف سے ناراضی سہنا پڑے گی۔ لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ پس میں نے جان لیا کہ حضرت ابو بکر ؓ مجھ پر ناراض ہوں گے۔ پس جب وہ آئے تو میں ان سے ایک طرف ہو گیا (سامنے نہ آیا)انھوں نے مہمانوں سے پوچھا تم نے کیا کیا؟انھوں نے آپ کو بتا دیا (کہ ابھی کھانا نہیں کھایا) حضرت ابو بکر ؓ نے آواز دی اے کہ اے عبدالرحمن! میں خاموش رہا ،انھوں نے پھر کہا اے عبدالرحمن! میں خاموش رہا ،پھر انھوں نے کہا :اے نادان ! میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ اگر تم میری آواز سنتے ہو تو ضرور۔ آ جاؤ !پس میں نکل کر آیا تو عرض کیا :آپ اپنے مہمانوں سے پوچھ لیں (میں کھانا لے کرایا تھا انھوں نے نہیں کھایا) مہمانوں نے کہا : اس نے سچ کہا ،یہ ہمارے پاس کھانا لایا تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے کہا تو تم میرا انتظار کرتے رہے (اور کھانا نہیں کھایا)اللہ کی قسم ! میں آج رات کھانا نہیں کھاؤں گا۔ مہمانوں نے کہا اللہ کی قسم !جب تک آپ نہیں کھائیں گے ہم بھی نہیں کھائیں گے تو آپ نے فرمایا: افسوس ہے تم پر ! تمہیں کیا ہوا کہ تم ہماری مہمان نوازی قبول نہیں کرتے ؟ (عبدالرحمن سے کہا) کھانا لاؤ، وہ کھانا لایا تو حضرت ابوبکر ؓ نے اپنا ہاتھ رکھا اور بسم اللہ پڑھی اور کہا :پہلی حالت (جب کھانا نہ کھانے کی قسم کھائی تھی)شیطان کی طرف سے تھی پھر انھوں نے کھانا کھایا اور مہمانوں نے بھی کھانا کھایا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۷۵۲۔ ۷۶، فتح)و مسلم (۲۰۵۷)۔

۱۵۰۴۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم سے پہلی امتوں میں کچھ لوگ محدث (الہامی) ہوتے تھے ، اگر میری امت میں بھی کوئی محدث ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔ (بخاری)

اور مسلم نے اسے حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے اور ان دونوں کی روایت میں ہے کہ ابن وہب نے کہا (محدثون)کا معنی ہے ’’المامی یا الہام یافتہ لوگ۔ ‘‘

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۴۲۷۔ فتح)من حدیث أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ۔ و اخرجہ مسلم (۲۳۹۸)۔ من حدیث عائشہ رضی اللہ عنھا۔

۱۵۰۵۔ حضرت جابر بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ اہل کوفہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے بارے میں حضرت عمر بن خطابؓ سے شکایت کی تو انھوں نے حضرت سعدؓ کو معزول کر دیا اور حضرت عمارؓ۔ کو ان کا گورنر بنا دیا۔ پس انھوں نے (سعد کی)کئی شکایتیں کیں حتیٰ کہ انھوں نے یہ شکایت بھی کی کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھاتے۔ پس حضرت عمر ؓ نے ان کی طرف پیغام بھیجا تو فرمایا: اے ابو اسحاق (حضرت سعد کی کنیت) ان لوگوں کا خیال ہے کہ آپ نماز بھی صحیح نہیں پڑھاتے ؟ حضرت سعد ؓ نے کہا :میں تو اللہ کی قسم! انہیں رسول اللہﷺ کی نماز جیسی نماز پڑھاتا ہوں اور اس میں کوئی کمی نہیں کرتا،میں نماز عشا پڑھا تا ہوں تو پہلی دو رکعتوں میں قیام لمبا کرتا ہوں۔ اور آخر ی دو رکعتوں میں مختصر کرتا ہوں۔

حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اے ابو اسحاق ! میرا تمہارے بارے میں یہی خیال تھا۔ اور ان کے ساتھ ایک آدمی یا چند آدمی کو فے بھیجے تاکہ وہ اہل کوفہ سے حضرت سعد کے متعلق معلوم کریں۔ پس انھوں نے ہر مسجد میں جا کر ان کے بارے میں پوچھا تو سب نے ان کی تعریف کی حتیٰ کہ وہ بنو عبس کی مسجد میں گئے تو ان میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا ،جس کا نام اسامہ بن قتاد ہ او رکنیت ابوسعدہ تھی۔ پس اس نے کہا اب اگر تم نے ہم سے پو چھا ہی ہے تو پھر سنو! سعد جہاد کے لیے لشکر کے ساتھ نہیں جاتے تھے ،مال غنیمت برابر برابر تقسیم نہیں کرتے تھے اور فیصلے بھی انصاف سے نہیں کرتے تھے۔ حضرت سعد ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم ! میں بھی تین دعائیں ضرور کروں گا: اے اللہ !اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور ریاکاری اور شہرت کیلئے کھڑا ہوا ہے تو پھر اس کی عمر دراز کر، اس کی محتاجی میں اضافہ فرما اور اسے فتنوں سے دو چار کر۔ (پس پھر ایسے ہی ہوا) اس کے بعد جب اس (ابو سعدہ) سے پوچھا جاتا تو وہ کہتا : بہت بوڑھا ہو چکا ہوں اور فتنوں میں مبتلا ہوں ،مجھے سعد ؓ کی بد دعا لگ گئی ہے۔

عبدالملک بن عمیر جو حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں ،بیان کرتے ہیں کہ میں نے بعد میں اسے دیکھا تھا کہ بڑھاپے کی وجہ سے اس کے دونوں ابرو اس کی آنکھوں پر گرے پڑے تھے اور وہ راستے میں لڑ کیوں سے چھیڑ چھاڑ کرتا اور انہیں اشارے کرتا تھا۔ (متفق علیہ)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۲۳۶۲۔ ۲۳۷۔ فتح)و مسلم (۴۵۳)۔

۱۵۰۶۔ حضرت عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ؓ سے اروی بنت اوس نے جھگڑا کیا اور مروان بن حکم (مدینہ کے گورنر) تک اپنی شکایت پہنچائی اور س نے یہ دعویٰ کیا کہ سعید نے اس کی کچھ زمین غصب کر لی۔ حضرت سعید ؓ نے کہا کیا میں رسول اللہﷺ سے (غصب کے بارے میں وعید)سننے کے بعد اس کی زمین کا کچھ حصہ غصب کر سکتا ہوں ؟مروان نے پوچھا :تم نے رسول اللہﷺ سے کیا سنا ہے ؟انھوں نے کہا:۔ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جس شخص نے ناجائز طریقے سے کسی کی ایک بالشت زمین بھی ہتھیا لی تو اسے قیامت والے دن سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔ مروان نے ان سے کہا : اس کے بعد میں تم سے کوئی دلیل یا ثبوت طلب نہیں کروں گا۔ پس حضرت سعید ؓ نے کہا اے اللہ ! اگر یہ عورت جھوٹی ہے تو اسے اندھا کر دے ور اسے اس کی زمین ہی میں موت دے۔ راوی حدیث بیان کرتے ہیں کہ مرنے سے پہلے وہ اندھی ہو گئی اور ایک دفعہ وہ اپنی زمیں میں چل رہی تھی کہ ایک گڑھے میں گر گئی اور مر گئی۔          (متفق علیہ)

اور مسلم کی ایک روایت جو محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر سے ہے ،وہ بھی اسی کے ہم معنی ہے کہ انھوں (محمد بن زید جو اس حدیث کے راوی ہیں)نے اس عورت کو دیکھا وہ اندھی ہو چکی ہے اور دیواروں کو ٹٹول ٹٹول کر چل رہی ہے۔ وہ کہتی تھی مجھے (حضرت سعید)کی بد دعا لگ گئی ہے اور وہ ایک کنویں پر سے گزری جو اسی احاطے میں تھا جس کے بارے میں اس نے جھگڑا کیا تھا ، پس وہ اس میں گر پڑ ی اور وہی جگہ اس کی قبر بنی۔

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۰۳۵۔ فتح)و مسلم (۱۶۱۰) (۱۳۸)و (۱۳۹)۔

۱۵۰۷۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب غزوۂ احد ہوا تو میرے والد نے رات کے وقت مجھے بلایا اور فرمایا: میرا خیال ہے کہ نبیﷺ کے صحابہ میں سے جو پہلے شہید ہوں گے میں بھی انہی میں سے ہوں گا اور میں اپنے بعد رسول اللہﷺ کی ذات کے علاوہ تجھ سے بڑھ کر عزیز کسی کو چھوڑ کر نہیں جا رہا ،مجھ پر قرض ہے ،پس اسے ادا کرنا ،اپنی بہنوں کے ساتھ بھلائی اور خیر خواہی کرنا۔ پس جب صبح ہوئی تو وہ سب سے پہلے شہید ہونے والے تھے ،پس میں نے ان کو ایک اور آدمی کے ساتھ قبر میں دفن کیا،پھر میرا دل اس پر مطمئن نہ ہوا کہ میں اپنے والد کو کسی اور کے ساتھ (قبر میں)رہنے دوں ،پس میں نے انہیں چھ ماہ کے بعد نکالا تو و ہ ایک کان کے علاوہ اسی طرح ہی تھے جس طرح قبر میں رکھے جانے والے دن تھے ،پھر میں نے ان کو الگ قبر میں دفن کر دیا۔ (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۲۱۴۳۔ ۲۱۵۔ فتح)۔

۱۵۰۸۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کے صحابہ میں سے دو آدمی ایک اندھیری رات میں نبیﷺ کے پاس سے گئے اور ان کے ساتھ ان کے آگے آگے چراغ نما کوئی دو چیزیں تھیں ،پس جب وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوئے تو ان میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک ایک چراغ ہو گیا حتیٰ کہ وہ اپنے اپنے گھر پہنچ گئے۔ (بخاری نے اسے کئی سندوں سے روایت کیا ہے اور ان میں بعض میں ہے کہ وہ دو آدمی حضرت اسید بن حضیر اور حضرت عباد بن بشرؓ تھے۔ )

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۵۵۷۱۔ ۵۵۸۔ فتح) (والروایۃ الثانیۃ عندہ (/۱۲۴۷۔ ۱۲۷۔ فتح)۔

۱۵۰۹۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولﷺ نے دس آدمیوں کا لشکر جاسوس بنا کر بھیجا اور حضرت عاصم بن ثابت انصاری ؓ کو ان کا امیر مقرر فرمایا،پس وہ روانہ ہوئے حتیٰ کہ جب وہ عسفان اور مکہ کے درمیان ’’ہداۃ‘‘ کے مقام پر پہنچے تو ہذیل کے قبیلے بنو لحیان کو ان کے بارے میں اطلاع کر دی گئی اور وہ سو کے قریب تیر انداز۔ لے کر ان کے مقابلے کے لیے نکل آئے اور ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ جب حضرت عاصم اور ان کے ساتھیوں کو ان کے بارے میں پتا چلا تو انھوں نے ایک جگہ پناہ لے لی۔ تیر اندازوں نے ان کا محاصرہ کر لیا اور کہا کہ نیچے اتر آؤ اور خود کو ہمارے حوالے کر دو،ہم تمہیں عہدو میثاق دیتے ہیں کہ ہم تم میں سے کسی کو قتل نہیں کریں گے۔ پس حضرت عاصم بن ثابت ؓ نے فرمایا: اے ساتھیو !جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تومیں کسی کافر کے عہد پر نیچے نہیں اتروں گا ،اے اللہ ! ہمارے متعلق اپنے نبیﷺ کو خبر پہنچا دے۔ انھوں نے تیر برسائے اور عاصمؓ کو شہید کر دیا ،جبکہ تین آدمی حضرت خبیب، حضرت زید بن دثنہ اور ایک اور آدمی ان کے عہد و میثاق پر نیچے اتر آئے۔ پس جب انھوں نے ان تینوں پر قابو پا لیا تو ان کی کمانوں کی تانتیں کھول کر ان سے انہیں باندھ دیا۔ اس تیسرے آدمی نے کہا : یہ پہلی بد عہدی ہے ،اللہ تعالیٰ کی قسم ! میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا، میرے لیے ان میں نمونہ ہے۔ یعنی جو مقتول ہو چکے ہیں۔ ان لوگوں نے انہیں کھینچا اور ان سے لڑے لیکن انھوں نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ پس انھوں نے انہیں قتل کر دیا اور وہ حضرت خبیب اور زید بن دثنہؓ۔ کو لے کر چل پڑے حتیٰ کہ انھوں نے ان دونوں کو مکے میں بیچ دیا اور یہ واقعہ غزوۂ بدر کے بعد کا ہے۔ بنو حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف نے حضرت خبیب ؓ کو خرید لیا۔ حضرت خبیب ؓ وہ آدمی تھے جنھوں نے غزوہ بدر کے دن حارث کو قتل کیا تھا۔ پس حضرت خبیب ؓ ان کے پاس بطورقیدی رہے حتیٰ کہ انھوں نے انہیں قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ پس اسی قید کے دوران ایک دن حضرت خبیبؓ نے حارث کی کسی بیٹی سے زیر ناف بال مونڈنے کے لیے استرا مانگا تو اس نے انہیں دے دیا۔ اس کا ایک بچہ جبکہ وہ غافل تھی ، حضرت خبیب ؓ کے پاس چلا گیا۔ پس اس نے بچے کو حضرت  خبیب ؓ کی ران پر بیٹھا ہوا پایا اور استرا ان کے ہاتھ میں تھا ،وہ عورت گھبرا گئی۔ حضرت خبیب ؓ نے اس کی اس کیفیت کو بھانپ لیا اور فرمایا کیا تمہیں اندیشہ ہے کہ میں اس بچے کو قتل کر دوں گا؟ میں ایسا کرنے والا نہیں۔ اس عورت نے کہا :اللہ کی قسم ! میں نے خبیبؓ سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا ،اللہ کی قسم ! میں نے ایک روز انہیں انگور کا گچھا ہاتھ میں لیے کھاتے ہوئے دیکھا حالانکہ وہ بیڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکے میں کوئی پھل بھی نہیں تھا۔ وہ کہنے لگی یقیناً یہ وہ رزق ہے جو اللہ نے خبیب ؓ کو دیا تھا۔ پس جب وہ انہیں لے کر حدود حرم سے ’’حل‘‘ (حدود حرم سے باہر)کی طرف نکلے تاکہ انہیں وہاں قتل کریں تو حضرت خبیبؓ نے انہیں کہا مجھے چھوڑ دو ، میں دو رکعتیں پڑھ لوں۔ پس انھوں نے حضرت خبیب ؓ کو چھوڑ دیا تو انھوں نے دو رکعتیں پڑھیں اور فرمایا۔ :۔ اللہ کی قسم !اگر تم یہ خیال نہ کرتے کہ مجھے موت سے خوف ہے تو میں اور زیادہ لمبی نما ز پڑھتا۔ (پھر انھوں نے یہ دعا کی)اے اللہ ! ان سب کو گن لے ،ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے مار اور ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑ ‘‘ پھر انھوں نے یہ شعر پڑھے :

’’جب میں حالت اسلام میں قتل کیا جا رہا ہوں تو مجھے کوئی پروا نہیں کہ کس پہلو پر اللہ تعالیٰ کے لیے میری موت واقع ہو گی اور میری یہ موت اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے وہ اگر چاہے تو کٹے ہوئے جسم کے اعضا میں برکت ڈال دے۔

اور حضرت خبیب ؓ وہ شخص ہیں جنھوں نے ہر مسلمان کیلئے ،جس کو باندھ کر قتل کیا جائے ،نماز کا طریقہ جاری کیا اور نبیﷺ نے اپنے صحابہ کو ان کی خبر اسی دن دی جس دن ان کو شہید کیا گیا۔ قریش نے کچھ لوگوں کو عاصم بن ثابت کی طرف بھیجا ،جب ان کو بتا یا گیا کہ وہ قتل کر دیے گئے ہیں کہ وہ ان کے جسم کا کوئی حصہ لے آئیں ،جس سے ان کی شناخت کی جا سکے ،کیونکہ انھوں نے ان (قریش) کے بڑوں میں سے ایک بڑے آدمی کو قتل کیا تھا۔ پس اللہ نے حضرت عاصم کی حفاظت کیلئے شہد کی مکھیوں کی ایک جماعت کو بادل کے سائے کی طرح بھیج دیا ، پس انھوں نے انہیں قریش کے فرستادوں سے بچایا اور وہ ان کے جسم کا کوئی حصہ بھی نہ کاٹ سکے۔ (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۳۷۸۷۔ ۳۷۹۔ فتح)۔

۱۵۱۰۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓ کو جب بھی کسی معاملے کے بارے میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ میرا اس معاملے کے بارے میں یہ خیال ہے تو وہ معاملہ ان کے خیال کے مطابق ہی ظہور پذیر ہوتا۔ (بخاری)

توثیق الحدیث :اخرجہ البخاری (/۱۷۷۷۔ فتح)۔