بات کروں گی چڑیوں سے
ریحانہ قمر
ترتیب: اعجاز عبید
نعت
لفظوں میں اُن کا نقشِ پا دکھائی دے
نعتِ نبی کہوں تو مدینہ دکھائی دے
ہر دم ہو جس کو رحمتِ عالم تیرا خیال
طوفان میں بھی اُسکو جزیرہ دکھائی دے
نعتِ نبی کے ساتھ میں پڑھتی رہوں درود
مجھ کو یہی نجات کا رستہ دکھائی دے
دے میری آنکھ کو بھی بصارت میرے خدا
جو شخص اُن کا ہو وہی اُن کا دکھائی دے
ساری نہیں یہ حُسن محمد کی روشنی
سورج تو اُن کا نقشِ کفِ پا دکھائی دے
دریا پہ چل کے جاؤں گی ارضِ حجاز تک
مجھ کو تو پانیوں پہ بھی رستہ دکھائی دے
پھر وقت ہو گیا ہے اذانِ بلال کا
صحرائے زندگی مجھے سُونا دکھائے دے
سوچوں تمام دن درِ اقدس کو میں قمرؔ
آتے ہی نیند گنبدِ خضریٰ دکھائی دے
٭٭٭
اپنے وطن سے دور محبت نہیں ملی
اِک امتحاں ملا مجھے ہجرت نہیں ملی
میں نے تو طے کیا تھا کہ دنیا کو چھوڑ دوں
لیکن مجھے اُدھر سے اجازت نہیں ملی
لگتا تھا بس وہی ہے مزاج آشنا میرا
وہ مل گیا تو اس سے طبیعت نہیں ملی
سورج کا کیا قصور مجھے گھر کے نام پر
شیشے کا سائبان ملا چھت نہیں ملی
دنیا کا کیا گلہ کہ تمہاری طرف سے بھی
جو ملنی چاہئے تھی وہ عزت نہیں ملی
کیسے یقیں کروں کہ مجھے سوچتا ہے تو
تجھ کو تو فون کرنے کی فرصت نہیں ملی
کیوں ہر کوئی ہی پیار جتانے لگا قمرؔ
میں نے یہ کب کہا ہے کہ چاہت نہیں ملی
٭٭٭
آتا ہے اِس طرح کا دسمبر کبھی کبھی
جا بیٹھتی ہوں دھوپ میں چھت پر کبھی کبھی
کچھ معجزہ نہیں تیرے دل میں میرا خیال
اُگتے ہیں سنگ میں بھی صنوبر کبھی کبھی
یہ جو مجھے بلاتا ہے تُو اتنے پیار سے
کس کا گمان ہوتا ہے مجھ پر کبھی کبھی
سوچا تھا میں نے لمس کی لذت کا فائدہ
اب ایک یاد جاتی ہے چھُو کر کبھی کبھی
میں سیپیاں چُنوں کہ چُنوں ریت کا مکان
دیتا ہے موقعہ مجھ کو سمندر کبھی کبھی
رہنے لگا انہیں میری تنہائی کا خیال
آ بیٹھتے ہیں پاس کبوتر کبھی کبھی
اِک یہ بھی وقت ہے کہ میں تیری تلاش میں
جاتی ہوں اپنی ذات سے باہر کبھی کبھی
دنیا کو جیسے اور کوئی کام مل گیا
تہمت تراشتی ہے قمرؔ پر کبھی کبھی
٭٭٭
میرے مکان کے اندر کئی مکان بنے
اگر میں تم کو بتا دوں تو داستان بنے
اب اس کے نام لگی ہوں تو اُسکی مرضی ہے
وہ میری جاں پہ بن آئے کہ میری جان بنے
میں دونوں ہاتھوں سے اُسکو سنبھالے رکھتی ہوں
کہ اوڑھنی نہ کہیں اُڑ کے آسمان بنے
عجب نہیں جو میرا جسم ناؤ بن جائے
اور اُس پہ میرے دوپٹے کا بادبان بنے
قمرؔ میں کیسے بناؤں گی باغ کاغذ پر
گُل بناتے ہوئے زخم کا نشان بنے
٭٭٭
سارے وعدوں کو بھُلا سکتی ہوں لیکن چھوڑو
میں تمہیں چھوڑ کے جا سکتی ہوں لیکن چھوڑو
یوں ہی زحمت نہ کرو تُم کہ میں اپنی خاطر
چائے میں زہر ملا سکتی ہوں لیکن چھوڑو
تم جو ہر موڑ پہ کہہ دیتے ہو اللہ حافظ
فیصلہ میں بھی سُنا سکتی ہوں لیکن چھوڑو
وہ پرندہ جو اُڑا ہے میرا پنجرہ لے کر
میں اُسے مار کے لا سکتی ہوں لیکن چھوڑو
تم نے تو بات کہی دل کو دکھانے والی
اس پہ میں شعر سُنا سکتی ہوں لیکن چھوڑو
رائیگاں تم جو ہوئے ہو تو شکایت کیسی
میں تمہیں اور گنوا سکتی ہوں لیکن چھوڑو
شرم آئے گی تمہیں ورنہ تمہاری باتیں
میں تمہیں یاد دلا سکتی ہوں لیکن چھوڑو
٭٭٭
رہینِ کوزہ گری نہیں ہُوں
میں ٹوٹ کر بھی مری نہیں ہُوں
ہے میری چھاؤں تو نیم جیسی
مگر میں خود رَس بھری نہیں ہُوں
مجھے اَمر بیل کھا گئی ہے
میں شاخ ہوں اور ہری نہیں ہُوں
قسم تیری ہولناکیوں کی
زمانے تجھ سے ڈری نہیں ہُوں
ہوا مجھے کیوں بجھانے آئے
منڈیر پر تو دھری نہیں ہُوں
اگر تجھے کچھ ہُوا نہیں ہے
تو دیکھ میں بھی مری نہیں ہُوں
قمرؔ جو الزامِ دوستی تھا
ابھی میں اُس سے بَری نہیں ہوں
٭٭٭
ایک جادو کا تماشا ہے صدا کوئی نہیں
ہونٹ سب کے ہل رہے ہیں بولتا کوئی نہیں
زلزلے کے بعد کا منظر ہے میری زندگی
کس کو میں آواز دوں اپنی جگہ کوئی نہیں
جانے میں کب ہنس پڑوں اور جانے میں کب رو پڑوں
آج کل میری طبیعت کا پتہ کوئی نہیں
کون دے پایا کسی کو بے وفائی کی سزا
ایسی باتیں سوچنے کا فائدہ کوئی نہیں
یوں تراشے جا رہے ہیں تہمتوں پر تہمتیں
جیسے ان لوگوں کو اب خوفِ خدا کوئی نہیں
وہ نہیں دنیا میں لیکن مجھ کو لگتا ہے قمرؔ
جیسے دنیا میں میرا ماں کے سوا کوئی نہیں
٭٭٭
میں ختم یا دوستی کا آغاز کر رہی ہوں
تجھے منا کر کسی کو ناراض کر رہی ہوں
یہی تو بدنام کرنے والی ہے خوشبوؤں کو
نہ جانے کیوں میں ہوا کو ہمراز کر رہی ہوں
فلک تو کیا یہ زمیں کو مشکل پڑی ہوئی ہے
کہ میں پروں کے بغیر پرواز کر رہی ہوں
میں نام لیوا تیری ہوں، تُو اُس کا نام لیوا
سو میں تیرا نام لے کے آغاز کر رہی ہوں
بنانے والا نہ جانے کس وقت توڑ ڈالے
میں اپنے ہونے پہ کس لیے ناز کر رہی ہوں
میں اپنے دل پر ہی دستکیں دے رہی ہوں شاید
اسی لیے تو جنوں کے در باز کر رہی ہوں
٭٭٭
چھوڑ دے پاگل پن نی اڑئیے
نئیں ملنا رانجھن نی اڑئیے
اپنا عکس سمیٹ کے لے جا
ٹوٹ گیا درپن نی اڑئیے
سوہنی کو دریا کی مشکل
سسّی جھیلے بن نی اڑئیے
اُس کے پاؤں پہ چُنری جا رکھ
جس کی مانے مَن نی اڑئیے
جب اُس کی یادیں سُلگاؤں
مہک اُٹھے آنگن نی اڑئیے
چھوڑ کے سارے ورد وظیفے
کر رانجھن رانجھن نی اڑئیے
بن بن کے کیا حاصل ہو گا
اپنے پی کی بن نی اڑئیے
باہر بھی ساون ہی ساون
اندر بھی ساون نی اڑئیے
دل تو قمر کا ڈوب گیا ہے
راہ تکیں اکھین نی اڑئیے
٭٭٭
دیکھ لینا ایک دن شورِ ہوا رہ جائے گا
صحن کی دیوار پر دل کا دیا رہ جائے گا
یہ بھی سوچا ہے کبھی تُو نے کہ مجھ کو توڑ کر
کیا کفِ افسوس ملنے کے سوا رہ جائے گا
جانے والے! جب بھی جی چاہے پلٹ آنا یہاں
یہ جو دروازہ کھلا ہے یہ کھلا رہ جائے گا
وقت جتنا بھی نکالوں اُنکی خاطر میں قمرؔ
پھر بھی مجھ سے میرے بچوں کو گلہ رہ جائے گا
٭٭٭
اہل دُنیا سے محبت نہیں مانگی میں نے
مر گئی پھر بھی سہولت نہیں مانگی میں نے
صرف چاہا ہے تیرے دل کی تمنا ہونا
اپنے مالک سے حکومت نہیں مانگی میں نے
میرا حق ہے کہ مجھے ٹوٹ کے چاہا جائے
اس لیے تجھ سے محبت نہیں مانگی میں نے
تیری آنکھوں میں اُمڈتے ہوئے آنسو کیا ہیں
صرف پُوچھا ہے وضاحت نہیں مانگی میں نے
تم اَنا زاد! تو سچ مچ کے خدا بن بیٹھے
تم سے تو بھیک میں عزت نہیں مانگی میں نے
کیوں قمرؔ مجھ سے خفا ہوتی ہے ظالم دُنیا
حق ہی مانگا ہے رعایت نہیں مانگی میں نے
٭٭٭
بن کر چڑیا بولتی ہوں
میں بھی کتنا بولتی ہوں
اتنی ہوتی ہوں خاموش
جتنا اُونچا بولتی ہوں
چُپ ہوتی ہوں چُلّو بھر
لیکن دریا بولتی ہوں
الٹے سیدھے لوگوں سے
اُلٹا سیدھا بولتی ہوں
پہلے تو بھی شامل تھا
اَب میں تنہا بولتی ہوں
تیرا دل کیوں کٹتا ہے
میں تو فقرہ بولتی ہوں
باہر کتنی چپ ہوں میں
اندر کتنا بولتی ہوں
اب بھی اکثر نیندوں میں
گُڑیا گُڑیا بولتی ہوں
٭٭٭
اس شہر میں اتنی تو شناسائی ملے گی
دل کھول کے تنہائی سے تنہائی ملے گی
کچھ اور میرے حق میں چلیں گی یہ ہوائیں
لگتا ہے ابھی اور پذیرائی ملے گی
اب رہنا پڑے چاند کو بھی سطح پہ شاید
اب برف ہی ٹوٹے گی نہ گہرائی ملے گی
سُورج کی طرح جلد پلٹ آؤ وگرنہ
پھر جھیل تو کیا آنکھ پہ بھی کائی ملے گی
کیوں مجھ کو قمرؔ ترکِ تعلق کا ہو افسوس
خوش ہوں کہ مجھے عزتِ رُسوائی ملے گی
٭٭٭
نئے سفر کے لیے فیصلے کا موقعہ دے
ہوائے شہر مجھے بولنے کا موقعہ دے
میں دستخط تجھے کر دوں گی سادہ کاغذ پر
ذرا سی دیر مجھے سوچنے کا موقعہ دے
یہ خواہشیں ہیں انہیں کیا لیے لیے پھرنا
یہ آئینے ہیں انہیں ٹوٹنے کا موقعہ دے
دکھاؤں گی تجھے خوشیوں کا کاسنی موسم
تُو ایک بار مجھے پھیلنے کا موقعہ دے
میں ایک خواب کو تعبیر کرنا چاہتی ہوں
ہوائے صُبح! مجھے جاگنے کا موقعہ دے
اُسے تو اپنی سناتے ہوئے نہیں تھکتی
قمرؔ اُسے بھی کبھی بولنے کا موقعہ دے
٭٭٭
مجھے اے زندگی ! تجھ سے مکرنا پڑ رہا ہے
کبھی ٹوٹی تھی لیکن اب بکھرنا پڑ رہا ہے
تھکی ہاری کو آنگن کا شجر ملتا نہیں تھا
میرے کاندھے پہ چڑیا کو اُترنا پڑ رہا ہے
اُسی رستے پہ جس پر تم بچھا دیتے تھے آنکھیں
اسی رستے پہ اب جاں سے گزرنا پڑ رہا ہے
ابھی آیا نہیں اپنے جدا ہونے کا موسم
محبت میں ہمیں بے وقت مرنا پڑ رہا ہے
یونہی تم نے لکیریں کھینچ دی تھیں کاغذوں پر
مجھے ان میں وفا کا رنگ بھرنا پڑ رہا ہے
بچھڑ کر تم سے لوگوں کی نہ سُن سکتی تھی باتیں
قمرؔ کو آج مجبوراً سنورنا پڑ رہا ہے
٭٭٭
میرے دل کو دکھانے کا تجھے افسوس تو ہو گا
کھلونا ٹوٹ جانے کا تجھے افسوس تو ہو گا
کہ جن میں ہم اکٹھے تھے کسی ویران ساحل پر
وہ تصویریں جلانے کا تجھے افسوس تو ہو گا
تیرے کہنے مطابق میں اگر سپنا سہانا تھی
میرے یوں ٹوٹ جانے کا تجھے افسوس تو ہو گا
جہاں میری محبت سے تیری آنکھیں چمکتی تھیں
وہاں پر دل جلانے کا تجھے افسوس تو ہو گا
اور اب جب میرے بارے میں یہ دنیا پوچھتی ہو گی
مجھے پاگل بتانے کا تجھے افسوس تو ہو گا
٭٭٭
نیند کا ہے نہ مجھے دھیان سحر کا سائیں
کیا بنے گا میرے اس دیدۂ تر کا سائیں
یا میرے ہاتھ کو تو دیکھ کے رو پڑتا ہے
یا تجھے کوئی اشارا ہے اُدھر کا سائیں
میں نے اس واسطے اڑنے کا ارادہ چھوڑا
کیا بھروسہ میرے بھیگے ہوئے پر کا سائیں
ہو سکے تو مجھے ہنسنے کی دعائیں دے جا
ہو گیا وقت میرے دیدۂ تر کا سائیں
کیوں رُلایا مجھے انجام کی باتیں کر کے
یہ تو موقع تھا کسی اچھّی خبر کا سائیں
لوٹ جاؤں کہ ابھی ساتھ نبھاؤں اس کا
زائچہ میرا بتاتا ہے کدھر کا سائیں
یہ دعا ہے کہ ہمیشہ یونہی آباد رہیں
میری چڑیاں میرے بچے میرے سر کا سائیں
جھوٹی سچّی تُو میری آس بندھاتا کیوں ہے
جُز قمرؔ کے تو نہیں کوئی قمرؔ کا سائیں
٭٭٭
بلا کی دھوپ میں بھی نخلِ سایہ دار ہوں میں
زمیں پہ تیری محبت کا اعتبار ہوں میں
سلگ رہا ہے محبت کی آگ میں وہ شخص
اور اس پہ گرتی ہوئی کوئی آبشار ہوں میں
تمہارے ہاتھ سے نکلوں تو بے کس و مجبور
تمہارے ہاتھ میں آؤں تو اختیار ہوں میں
میں بچنے آئی تھی لیکن بچا رہی ہوں تجھے
تیرے حصار میں تھی اب تیرا حصار ہوں میں
پھر اُس کے بعد تو افسوس کا سفر ہے دوست
کہ زندگی میں تیری صرف ایک بار ہوں میں
مجھے ہجوم میں بدلا ہے تیری یادوں نے
کی ایک ہو کے بھی لگتا ہے بے شمار ہوں میں
تمہیں یقین قمرؔ کس لیے ہے دنیا کا
تمہیں تو میرا پتہ تھا وفا شعار ہوں میں
٭٭٭
یہ زمیں بننے نہ دے گی آسماں اُس شخص کو
منع کرتی ہے مسلسل میری ماں اُس شخص کو
ساتھ رکھنا بھی ضرورت سے زیادہ ہو گیا
چھوڑ دینا بھی مناسب ہے کہاں اُس شخص کو
عافیت اس میں ہی ہوتی ہے محبت ماریو
وہ سمندر ہو تو کہنا بادباں اُس شخص کو
ورنہ وہ محفل میں آتا اور نہ کرتا سلام
کر دیا ہو گا کسی نے بدگماں اُس شخص کو
اُس نے بھی چھوڑا ہے مجھ کو میرے جسم و جاں سے دور
جانے میں بھی چھوڑ دوں لا کر کہاں اُس شخص کو
وہ پگھلتا جا رہا تھا دھوپ کے سیلاب میں
میں نے بھیجا ہے وفا کا سائباں اُس شخص کو
وہ گھڑی پل کے لیے آیا تھا ملنے کو قمرؔ
یاد کرتا ہے ابھی میرا مکاں اُس شخص کو
٭٭٭
شامِ ہجراں کا ستارا بھی نہیں کہہ سکتی
اب میں اس دل کو تمہارا بھی نہیں کہہ سکتی
مسئلہ دل کا نہیں میری اذیت یہ ہے
میں خسارے کو خسارہ بھی نہیں کہہ سکتی
پہلے بھی میں نے کہاں دل کی حقیقت کھولی
میں یہی بات دوبارہ بھی نہیں کہہ سکتی
خوش گماں کتنی بھی ہو جاؤں تیرے بارے میں
زندگی! تجھ کو گوارا بھی نہیں کہہ سکتی
میں نے جو کی ہے تیرے ساتھ وہ میں جانتی ہوں
تجھ کو تقدیر کا مارا بھی نہیں کہہ سکتی
مجھ کو بھی کوئی توقع نہیں دنیا سے قمرؔ
اور میں اس کو تمہارا بھی نہیں کہہ سکتی
٭٭٭
نہ دیکھ پائے کوئی روئے آفتابی کو
’’ لپیٹ رکھا ہے شاموں نے صبح تابی کو ‘‘
میں اس مکان میں جالا نہ رہنے دوں گی کوئی
میں اپنے دل سے نکالوں گی ہر خرابی کو
یہ لوگ ڈھونڈتے پھرتے ہیں خوف کی تعبیر
یہ لوگ خواب سمجھتے ہیں نیم خوابی کو
یہ کس کے دُکھ میں نکل آئے اشک آنکھوں سے
یہ کس کے رنج نے چھلکا دیا گلابی کو
کچھ اس حساب سے ٹوٹیں قیامتیں مجھ پر
حساب کرنا پڑا میری بے حسابی کو
قمرؔ کو یوں ہی تو شہرت نہیں ملی دنیا
نہ چشمِ تنگ سے دیکھ اس کی کامیابی کو
٭٭٭
یہ پھُول یہ پرند یہ گھر چھوڑ جاؤں گی
لیکن میں سب میں اپنا اثر چھوڑ جاؤں گی
رختِ سفر میں رکھوں گی بس تیرے جستجو
باقی ہر ایک چیز اِدھر چھوڑ جاؤں گی
لگتا ہے میں بھی سایۂ دیوار کی طرح
اک روز دن ڈھلے یہ نگر چھوڑ جاؤں گی
بچّوں کی طرح پالا ہے تیرے خیال کو
میں سوچتی ہوں اس کو کدھر چھوڑ جاؤں گی
میں وہ نہیں کہ موت سے مل کر نہ آ سکوں
میں اپنے لوٹنے کی خبر چھوڑ جاؤں گی
ترسیں گے پھر یہ لوگ میرے شور کو قمرؔ
چڑیوں کی طرح میں بھی شجر چھوڑ جاؤں گی
٭٭٭
یہ زندگی جو بظاہر برائے نام بھی ہے
کسی کے واسطے ہو تو اسے دوام بھی ہے
میں اس لیے بھی تیری دوستی سے ڈرتی ہوں
کہ تیرے پیار کی فطرت میں انتقام بھی ہے
کچھ اس یقیں سے بسیرا کیا تیرے دل میں
کہ یہ مکان کسے دوسرے کے نام بھی ہے
نہیں کہ صرف مجھے تو نے اتنی عزت دی
تیری نگاہ میں دنیا کا احترام بھی ہے
یہ زندگی کسی اک کیفیت کا نام نہیں
کڑی دوپہر بھی ہے یہ اُداس شام بھی ہے
گھڑی گھڑی مجھے دُکھڑے سنانے والے شخص
میں پوچھتی ہوں تجھے اور کوئی کام بھی ہے
خدا کا شکر قمرؔ میں نہیں گئی گزری
کہ میرا نام بھی ہے اور میرا مقام بھی ہے
٭٭٭
یوں ہی کب تک میں کیے جاؤں ادھوری باتیں
تجھ سے کرنی ہیں مجھے چند ضروری باتیں
آخری بار ملو بھر بھی تمہیں دھیان رہے
اک ملاقات میں ہوتی نہیں پوری باتیں
میری کوشش ہے کہ دنیا کی کوئی بات نہ ہو
پھر بھی ہو جاتی ہیں کچھ غیر ضروری باتیں
دیر تک سوچتی رہتی ہوں میں اُن کے بارے
تنگ کرتی ہیں مجھے اس کی ادھوری باتیں
میری باتوں کا برا ماننے والے لوگو
کون کرتا ہے محبت میں شعوری باتیں
٭٭٭
یہ زندگی تو ایک بہانہ ہے اور بس
کچھ دن کا تجھ سے ملنا ملانا ہے اور بس
ماں تھی شجر تھا اور پرندے تھے بے شمار
اب اس مکاں میں دفن خزانہ ہے اور بس
جب تک تمہاری آنکھ میں موجود ہوں تو ہوں
تم نے مجھے یہاں سے گرانا ہے اور بس
کب سے ہیں میری تاک میں منہ زور آندھیاں
میں نے یہاں چراغ جلانا ہے اور بس
میری بھی زندگی ہے کسی پھول کی طرح
میں نے ہوا کو بھید بتانا ہے اور بس
سوچوں اگر تو تُو ہے محبت کا اک جہان
دیکھوں اگر تو تُو بھی زمانہ ہے اور بس
پہلے پہل لگا تھا محبت ہے زندگی
اب سوچئے تو ایک فسانہ ہے اور بس
اُس نے تو اپنا دستِ دُعا کھینچ کر قمرؔ
یہ آسمان مجھ پہ گرانا ہے اور بس
٭٭٭
بچھڑنے کا سماں ہے اور میں ہوں
کوئی روشن دھواں ہے اور میں ہوں
نہ جانے کون جیتے گا محبت
کھلاڑی آسماں ہے اور میں ہوں
نہ جانے کس طرح گزرے گی میری
محبت بدگماں ہے اور میں ہوں
کبھی کردار اس کے کھو گئے ہیں
ادھوری داستاں ہے اور میں ہوں
میں کیسے اپنی خواہش کو بچاؤں
یہ چڑیا نیم جاں ہے اور میں ہوں
محبت اور ضد میں ٹھن گئی ہے
مقابل اک جہاں ہے اور میں ہوں
سمندر اور سمندر کا کنارا
کنارے پر مکاں ہے اور میں ہوں
سکھی! کھویا نہیں میں نے بھروسہ
ستارا راز داں ہے اور میں ہوں
کہیں مل جائے تو اس سے یہ کہنا
ابھی دل خوش گماں ہے اور میں ہوں
وہ تنہا صرف تنہا صرف تنہا
ادھر سارا جہاں ہے اور میں ہوں
تیرے بارے میں بھولا کچھ نہیں ہے
وہی میرا بیاں ہے اور میں ہوں
ہماری اپنی محفل بن گئی ہے
قمرؔ ہے اُس کی ماں ہے اور میں ہوں
٭٭٭
کبھی ملنے کبھی مجھ سے جدا ہونے کی جلدی ہے
محبت میں تجھے بھی کیا سے کیا ہونے کی جلدی ہے
تو میرے فیصلے کیوں لینا چاہے اپنے ہاتھوں میں
نہ جانے کیوں تجھے میرا خدا ہونے کی جلدی ہے
وہ تلوار اس لیے کھینچے کہ میں بڑھ کر اسے روکوں
ستمگر کو محبت آشنا ہونے کی جلدی ہے
میں چاہوں دیر تک اس میں رچے رہنا بسے رہنا
مگر بوئے محبت کو ہوا ہونے کی جلدی ہے
بچا کر کس طرح رکھوں میں تیرے لمس کا موسم
کہ میرے ہاتھ کو دستِ دُعا ہونے کی جلدی ہے
اُدھر ظالم کو تازہ پھول سے مطلب نہیں کوئی
ادھر دل کو ہتھیلی پر دھرا ہونے کی جلدی ہے
٭٭٭
پتّوں کی طرح شاخ پہ مرنا پڑا مجھے
موسم کے ساتھ ساتھ گزرنا پڑا مجھے
اک شخص کے سلوک کی سب کو سزا ملی
ساری محبتوں سے مکرنا پڑا مجھے
اُس سے بچھڑ کے زندگی آسان تو نہیں
پھر بھی یہ تلخ فیصلہ کرنا پڑا مجھے
کچھ دن تو میں چٹان کی صورت ڈٹی رہی
پھر ریزہ ریزہ ہو کے بکھرنا پڑا مجھے
آساں نہیں تھا ٹوٹتی سانسوں کو جوڑنا
اس سلسلے میں جاں سے گزرنا پڑا مجھے
ویسے میں اپنے آپ سے ناراض تھی قمرؔ
اس نے کہا تو بننا سنورنا پڑا مجھے
٭٭٭
دیوار میں سہی پسِ دیوار کون ہے
تو جس کو چاہتا ہے وہ شہکار کون ہے
یہ لوگ میری موت کی انٹی پہ جو کہیں
یوسف تو جانتا ہے خریدار کون ہے
اب کیا کروں کی میں بہت اونچی چلی گئی
یہ سوچتے ہوئے تیرا معیار کون ہے
اب مجھ سے پوچھنے لگیں خالی کلائیاں
اس کی عنایتوں کی سزا وار کون ہے
ہر شخص اپنا شجرہ بتانے لگا مجھے
پوچھا تھا میں نے صاحبِ کردار کون ہے
میں نے تو اس کو ماضی کا قصہ بنا دیا
لیکن یہ مجھ میں اس کی طرفدار کون ہے
میں اِس طرف کھڑی کسی کشتی کی منتظر
دریا سے پوچھتی ہوں تیرے پار کون ہے
لیتے نہیں ہیں نام مگر پوچھتے ہیں لوگ
تو جانتی نہیں تیرا بیمار کون ہے
٭٭٭
وہ اگر بھول گیا تھا تو صدا دی ہوتی
اس کی اوقات اسے یاد دلا دی ہوتی
میرے اشکوں نے بجھا دی تیرے لہجے کی بھڑک
ورنہ دنیا نے تجھے اور ہوا دی ہوتی
کاش تُو مجھ کو میسر ہی نہ آیا ہوتا
کاش میں تیری محبت کی نہ عادی ہوتی
تو نے اک پل ہی محبت کا نہ مانگا ورنہ
زندگی میں نے تیرے نام لگا دی ہوتی
آنے والے کو نہ ظلمت میں بھٹکنا پڑتا
گھر کی چھت پر ہی کوئی شمع جلا دی ہوتی
اس طرح بیٹھ کے رونے سے کہیں بہتر تھا
اے قمرؔ جان کے دشمن کو دعا دی ہوتی
٭٭٭
سب گھر سے الگ کمرے میں مایوس پڑی ہوں
میں تیرے لیے خود سے بہت دیر لڑی ہوں
ممکن ہی نہیں مجھ سے تیرا جان چھڑانا
زنجیر کے مانند تیرے پاؤں پڑی ہوں
اب فیصلہ میرا ہی تجھے ماننا ہو گا
ویسے نہ سہی تجھ سے محبت میں بڑی ہوں
اس بار تو آنکھیں میری بستر پہ کھلی تھیں
سسّی کی طرح اٹھ کے میں کیوں بھاگ پڑی ہوں
حالات تو ایسے ہیں کہ ہمت نہیں پڑتی
لیکن میں قمرؔ ہار کے بھی ضد پہ اڑی ہوں
٭٭٭
دیکھوں گی گھر کے خواب نہ ہجرت لکھوں گی میں
اس بار کوئی اور مسافت لکھوں گی میں
اس زندگی نے جو بھی مجھے دکھ دیئے دیئے
لیکن انہیں بھی تیری عنایت لکھوں گی میں
میری غزل میں ذکرِ زمانہ نہ آئے گا
طے یہ ہوا ہے صرف محبت لکھوں گی میں
میں شاعری میں اس کا تماشا بناؤں کیوں
اب صرف ڈائری میں شکایت لکھوں گی میں
لے دیکھ میں نے پھر سے تیرا نام لکھ دیا
تیرا خیال تھا کہ وصیت لکھوں گی میں
اب ہاتھ روکنا ہے میرا سانس روکنا
لکھنے کی ہو گئی مجھے عادت، لکھوں گی میں
٭٭٭
اور کچھ اور ستانے کی اجازت ہے تمہیں
اب مجھے چھوڑ کے جانے کی اجازت ہے تمہیں
راہ میں روشنی اچھی نہیں لگتی تم کو
ہاتھ سے ہاتھ چھڑانے کی اجازت ہے تمہیں
کیا کروں دوست! میرا موسمِ گریہ تم ہو
اس لیے خُوب رُلانے کی اجازت ہے تمہیں
چاہتے ہو کہ میں دیکھوں کبھی چہرہ اپنا
آئینہ ڈھونڈ کے لانے کی اجازت ہے تمہیں
ہاتھ وہ کاٹ کے میرے مجھے کہتا ہے قمرؔ
شہر پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت ہے تمہیں
٭٭٭
بات کروں گی چڑیوں سے
کیا کہنا اِن لوگوں سے
غصّہ تو ہے اور کوئی
لڑتی ہوں میں بچّوں سے
اپنے پن کی کیا اُمید
اپنے شہر کے لوگوں سے
تیرا قصّہ چھیڑوں کیوں
اپنے ملنے والوں سے
دستک خالی ہاتھوں کی
کیا کہتی دروازوں سے
کاش کسی کے ساتھ تجھے
دیکھوں اپنی آنکھوں سے
اُس پر شک ایمان بنا
کیا ہو گا اندازوں سے
٭٭٭
کھو گئے مجھ سے راستے کب کے
جانے والے بھی جا چکے کب کے
جانے کن الجھنوں میں رہتی ہوں
حل ہوئے میرے مسئلے کب کے
یہ مجھے انتظار ہے کس کا
شہر والے تو سو گئے کب کے
وہی پہچان ہیں محبت کی
جو محبت میں مر مٹے کب کے
کیوں قمرؔ منزلیں نہیں ملتیں
ہو چکے ختم فاصلے کب کے
٭٭٭
محبت آزمانا چاہتی ہوں
اُسے اپنا بنانا چاہتی ہوں
میں ہر تلخی بھلانا چاہتی ہوں
محبت کا زمانہ چاہتی ہوں
تمہارے مسئلے پر ہے لڑائی
سو خود سے ہار جانا چاہتی ہوں
مکانِ خاک میں رہتے ہوئے بھی
تیرے دل میں ٹھکانہ چاہتی ہوں
اِسی خاطر وہ یاد آتا ہے مجھ کو
قمرؔ اُس کو بھلانا چاہتی ہوں
٭٭٭
ساری محبتوں سے مکر جانا چاہئے
جب وہ نہیں تو لوٹ کے گھر جانا چاہئے
کب تک یونہی کٹاؤ کی زد میں رہوں گی میں
دریائے دل کو اب تو اُتر جانا چاہئے
یوں ہی بھٹکتے رہنے کا کچھ فائدہ نہیں
آواز ہے جدھر کی اُدھر جانا چاہئے
عورت سمجھ کے تُو نے میری بات ٹال دی
ورنہ تجھے بتاتی کدھر جانا چاہئے
یہ ظالموں کا دور ہے کمزور لڑکیو
کوئی تمہیں ڈرائے تو ڈر جانا چاہئے
اس کو تلاش کرتے زمانہ گزر گیا
اب اپنی جستجو میں قمرؔ جانا چاہئے
٭٭٭
اب خوشی روح میں در آئے ضروری تو نہیں
کوئی اچھی ہی خبر آئے ضروری تو نہیں
یہ پرندہ جو اڑا جاتا ہے مہتاب کے ساتھ
میرے آنگن میں اتر آئے ضروری تو نہیں
جو مجھے دل میں نظر آتا ہے چلتا پھرتا
وہ کہیں اور نظر آئے ضروری تو نہیں
آنکھ میں خواب کی کلیاں بھی تو کھل سکتی ہیں
آنکھ میں اشک ہی بھر آئے ضروری تو نہیں
جو تیرے دل سے کسی خوف کی مانند گیا
یاد وہ تجھ کو قمرؔ آئے ضروری تو نہیں
٭٭٭
مجھ سے یوں سویا ہوا شہر کہانی مانگے
’’ جس طرح نیند میں بچّہ کوئی پانی مانگے ‘‘
سر پہ سورج ہے قیامت کا دہکتا سورج
دل وہ ضدی کہ فقط شام سہانی مانگے
اس قدر مجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر ہے اس کو
ہر ملاقات پہ وہ مجھ سے نشانی مانگے
اے خدا میں تو محبت کے ابد میں خوش ہوں
مجھ سے کیوں مجھ کو تیرا عالمِ فانی مانگے
کس قدر ڈر ہے اسے وقت گزر جانے کا
کوئی مجھ سے میری تصویر پُرانی مانگے
میرے اندر بھی مچل جاتا ہے میرا بچپن
مجھ سے جب ماں کی محبت میرا شانیؔ مانگے
٭٭٭
بات نکلی تھی بے وفائی کی
میں نے خود سے بہت لڑائی کی
اور کچھ بھی نظر نہیں آتا
یہ سزا صورت آشنائی کی
زخم صورت ہے دل کے ہاتھوں پر
یاد کس موسمِ حنائی کی
کی نہیں ہے فقط محبت ہی
اس سے نفرت بھی انتہائی کی
آنکھ میں اشک تک نہیں آیا
یہ تو توہین ہے جدائی کی
اُن کی آنکھوں کو غور سے دیکھو
بات کرتے ہیں پارسائی کی
عشق اُس نے کیا زمانے سے
مجھ سے توصیف بے وفائی کی
اُس کو اتنا بھی کیا قمرؔ
حد بھی ہوتی ہے کج ادائی کی
٭٭٭
بدگمانی کی وضاحت کے لیے ہوتی ہے
اب ملاقات شکایت کے لیے ہوتی ہے
جو کسی ایک کا ہو سب کا نہیں ہو سکتا
بَس یہی شرط محبت کے لیے ہوتی ہے
اُس کو دعویٰ ہے کہ دیتا ہے تسلی مجھ کو
جس کی ہر بات اذیت کے لیے ہوتی ہے
جانے کیوں پھیلتی ہے آنکھ میں کاجل کی طرح
جو گھڑی اُس کی رفاقت کے لیے ہوتی ہے
کیا سمجھ پائے میری بات کہ جس سے میری
گفتگو صرف وضاحت کے لیے ہوتی ہے
جانے ماں کیوں مجھے بچپن میں بتاتی تھی قمرؔ
جو گھڑی اُس کی رفاقت کے لیے ہوتی ہے
٭٭٭
میرے آنگن میں قیامِ مختصر کیسا لگا
میں تمہیں کیسی لگی ہوں میرا گھر کیسا لگا
اُس سے مل کر رُک گئی ہے زندگی اِک موڑ پر
طے ہو منزل تو کہوں وہ ہم سفر کیسا لگا
صرف اتنا ہی وہ بولا تم نہیں تو میں نہیں
کیا کہوں اُس کا یہ قولِ مختصر کیسا لگا
ذہن میں آیا تو ہو گا میری ہجرت کا خیال
تم کو دروازے پہ تالا دیکھ کر کیسا لگا
یہ میری تنہائی کے ساتھی تمہیں کیسے لگے
یہ کتابیں اور پرندہ شیلف پر کیسا لگا
جھیل کے پانی میں وہ جیسا بھی لگتا ہو تمہیں
یہ بتاؤ چاند اُس کے ہاتھ پر کیسا لگا
اب کسی کے نام پر آنکھیں چھلکتی ہی نہیں
میرا اُس کو بھول جانے کا ہُنر کیسا لگا
٭٭٭
ایسا نہیں کہ تُم سے محبت نہیں رہی
لیکن مجھے تمہاری ضرورت نہیں رہی
لگتا ہے تُو نے مجھ کو فراموش کر دیا
اب تیری گفتگو میں شکایت نہیں رہی
تُو جو کہے مگر مجھے اتنا یقین ہے
تُو وہ نہیں رہا تیری چاہت نہیں رہی
لگتا ہے تیری یاد نے تختہ الٹ دیا
لگتا ہے دل پہ غم کی حکومت نہیں رہی
اُس نے کہا کہ سر پی کھلا آسماں تو ہے
میں نے کہا کہ دیکھ میری چھت نہیں رہی
میرا تو خیر جو بھی بنا بن گیا قمرؔ
مجھ سے بچھڑ کے اُس کی وہ عزت نہیں رہی
٭٭٭
یُوں میرے الفاظ ہیں اُس بے وفا کے سامنے
جس طرح روشن دیئے ظالم ہوا کے سامنے
سب میں کیوں پُوچھوں تیری وعدہ خلافی کا سبب
تجھ کو کیوں جھوٹا کروں خلقِ خدا کے سامنے
اس طرح تہمت لگانے پر تُلا بیٹھا ہے وہ
جیسے جانا ہی نہیں اُس نے خدا کے سامنے
چھوڑنے کا فیصلہ تو روز کرتا ہے وہ شخص
اُس کا بس چلتا نہیں میری وفا کے سامنے
شام ہوتی ہے تو گھر کی بالکونی میں قمرؔ
بیٹھ جاتی ہوں پرندوں کی صدا کے سامنے
٭٭٭
اے کاش ایسا آئینہ ایجاد کر سکوں
جس میں کسی کے عکس کو آباد کر سکوں
اے زندگی! یہ کام فقط کام کب تلک
اتنا تو وقت دے کہ اُسے یاد کر سکوں
حالات نے میرے مجھے کیسا بنا دیا
مر ہی سکوں نہ میں کہیں فریاد کر سکوں
تجھ کو تباہ دیکھنا مقصد نہیں میرا
لیکن وہ وقت جب تیری امداد کر سکوں
یہ جو میرے بدن میں پرندہ ہے بے قرار
ممکن نہیں کہ میں اسے آزاد کر سکوں
یہ مجھ سے چاہتی ہے میری خوئے انتقام
ایسا کوئی تو ہو جسے برباد کر سکوں
٭٭٭
رابطے کی آخری صورت ہے کیوں کر کاٹ دوں
ڈائری سے کیسے اس کا فون نمبر کاٹ دوں
آیتیں تجھ پر اترتی ہیں پرندوں کے طرح
اے شجر تیرے بہانے کیوں پیمبر کاٹ دوں
اے میرے اندر کی دیواروں سے ٹکراتے پرند
یوں نے ہو غصّے میں آ کر میں تیرے پر کاٹ دوں
تو ابھی واقف نہیں ہے آنسوؤں کی دھار سے
سامنے پتھر بھی آ جائے تو پتھر کاٹ دوں
چاند ہی ابھرا نہیں تو کیا درختوں کا قصور
ایک منظر کے لیے کیوں ایک منظر کاٹ دوں
اک طرف میری محبت اک طرف ہے میرا گھر
کیوں نہ دونوں کے لیے خود کو برابر کاٹ دوں
پھر خیال آتا ہے مچھ کو تیرے بچوں کا قمرؔ
جی تو کرتا ہے تجھے اندر ہی اندر کاٹ دوں
٭٭٭
ہر چند میں نے آنکھ میں آنسو چھُپا لیا
لیکن نہ چھپ سکا میرا چہرہ سوالیہ
اِتنا تو ہے کہ اُس نے میرے ساتھ بات کی
اتنا تو ہے کہ اُس نے میرا دُکھ بٹا لیا
جیسے کسی پرندے کا بچہ تھا میرا اَشک
اُس کو اٹھا کے آنکھ کے اندر بٹھا لیا
سورج تو جانتا ہی نہیں میرے گھر کی راہ۔
پھر کس نے میرے گھر کا اندھیرا چُرا لیا
رکھا ہے اُس سے رابطہ یادوں کی سطح پر
میں خود چلی گئی کبھی اُس کو بُلا لیا
وہ اور کوئی کب تھا میرا وہم تھا قمرؔ
جس کو لپک کے میں نے گلے سے لگا لیا
٭٭٭
گزرے ہوئے دنوں پہ پشیمان چھوڑ دے
اے عشقِ تازہ! تُو تو میری جان چھوڑ دے
لگتا ہے اُسکو کاٹ کے دینا پڑے گا ہاتھ
ممکن نہیں کہ وہ اِسے آسان چھوڑ دے
اس کے بہانے آتی ہیں کمرے میں تتلیاں
شاخِ گلاب کس لیے گلدان چھوڑ دے
لگتی ہوں تجھ کو بوجھ تو مت ساتھ لے کے چل
رستے کے بیچ بے سر و سامان چھوڑ دے
کیوں آئینے کے ساتھ مجھے توڑتا ہے تُو
اے سنگ زاد! تُو مجھے حیران چھوڑ دے
مت دے قمرؔ کو ترکِ محبت کا مشورہ
تیرے کہے پہ کیسے وہ ایمان چھوڑ دے
٭٭٭
مسئلہ یہ بھی سرِ راہگزر باقی ہے
ہو چکا کتنا سفر کتنا سفر باقی ہے
اب بھی وہ آنکھ مجھے تکتی ہے پہلے کی طرح
بجھ چکا حُسن مگر حُسنِ نظر باقی ہے
اور نقشہ تو نہیں شہر کا پہلے جیسا
وہ گلی اور وہ نکُّڑ کا شجر باقی ہے
اشک بننے سے کہاں روک سکوں گی اُسکو
آنکھ تک آئے گا وہ دل میں اگر باقی ہے
ہم بچھڑ کر بھی کہاں چین سے رہتے ہیں قمرؔ
یُوں تو یہ دُکھ نہِ ادھر ہے نہ اُدھر باقی ہے
٭٭٭
جس جگہ اُگنا وہیں مثلِ صنوبر رہنا
کتنا مشکل ہے کسی ایک کا ہو کر رہنا
زیست کی راہ کو آسان بنا دیتا ہے
اُس کی یادوں کی کڑی دھوپ میں سر پر رہنا
تم جو ہو حرفِ ملامت تو مجھے رکھنا معاف
تم جو ہو حرفِ تسلی تو میسر رہنا
اِک نہ اِک روز گرا دیتا ہے پیڑوں کی طرح
غم کا دیمک کی طرح جسم کے اندر رہنا
دیکھنا تم پہ نہ الزام محبت آئے
میرے نزدیک بہت سوچ سمجھ کر رہنا
دیکھنا اشک بہانے سے تماشا نہ بنے
تم ہو پتھر تو میرے بعد بھی پتھر رہنا
٭٭٭
زنگ برتن کو لگا، کپڑے پُرانے ہو گئے
لڑکیوں کو اپنے گھر بیٹھے زمانے ہو گئے
وہ بھی اب کہتی ہے ماں تیری پسند اچھی نہیں
میرے بچّے باپ سے بڑھ کر سیانے ہو گئے
کس طرح اے خواب تیری ستر پوشی میں کروں
ختم میری زندگی کے تانے بانے ہو گئے
چائے کی ٹیبل پہ بھی یکجا نہیں ہوتے ہیں ہم
سوچتی ہوں ایک گھر کے کتنے خانے ہو گئے
میں قمر اس شخص کے لفظوں میں گُم ہوں آج بھی
بات بھی جس سے کئے کتنے زمانے ہو گئے
٭٭٭
اسی لئے تو کسی کو برا نہیں لگتا
وہ بے وفا ہے مگر بے وفا نہیں لگتا
چڑھائے پھرتا ہے اک خول سا اداسی کا
وہ جس طرح کا ہے ویسا ذرا نہیں لگتا
نہ جانے کھوئی ہوئی ہوں میں کن خیالوں میں
کہ سانحہ بھی مجھے سانحہ نہیں لگتا
جو ہو سکے مجھے کوشش کرو بھلانے کی
تمہارا اور کوئی مسئلہ نہیں لگتا
وہ اجنبی ہے تو سب لوگ اجنبی ہیں قمر
ہجوم میں کوئی دیکھا ہو نہیں لگتا
٭٭٭
بہت کہا تھا کہ میرا دکھ دربدر نہ کرنا
بہت کہا تھا کہ میری باتیں ادھر نہ کرنا
بہت کہا تھا کہ پانیوں پر نہ رہ سکو گے
بہت کہا تھا کہ میری آنکھوں میں گھر نہ کرنا
بہت کہا تھا کہ پیار میں جی لگا ہوا ہے
بہت کہا تھا یہ سلسلہ مختصر نہ کرنا
بہت کہا تھا کہ آنسوؤں کی چمک بہت ہے
بہت کہا تھا کہ ان کے ہوتے سحر نہ کرنا
بہت کہا تھا کہ خود سے باہر نہ آ سکو گے
بہت کہا تھا کہ اپنے اندر سفر نہ کرنا
بہت کہا تھا کہ دل میں رکھنا دلوں کی باتیں
بہت کہا تھا کہ سب کو ان کی خبر نہ کرنا
بہت کہا تھا یہ فرق پہچانتی نہیں ہیں
بہت کہا تھا ہواؤں کو ہمسفر نہ کرنا
بہت کہا تھا کہ لوگ چہرے کو دیکھتے ہیں
بہت کہا تھا کہ اُس کی باتیں قمر نہ کرنا
٭٭٭
خواب گراتی پلکیں دیکھنے والی تھیں
میری اُجڑی نیندیں دیکھنے والی تھیں
تنہائی کا صرف مجھے ہی رنج نہ تھا
چڑیوں کی بھی شکلیں دیکھنے والی تھیں
میں ماں کی تصویر کے آگے روئی جب
میری ماں کی آنکھیں دیکھنے والی تھیں
جب لوگوں میں، میں نے اُس کا نام لیا
میری سانس میں گرہیں دیکھنے والی تھیں
مجھ کو دیکھ کہ جس کو بیٹی یاد آئی
اس بُڑھیا کی آنکھیں دیکھنے والی تھیں
٭٭٭
بچپن کی وہ محرومی چلی آئی کہاں سے
روتی ہوئی نکلی میں کھلونوں کی دکاں سے
تم دونوں محاذوں پہ میرا ساتھ نبھانا
اِک جنگ میری خود سے ہے، اک جنگ جہاں سے
یہ گھر ہے مگر اس کا دریچہ نہیں کوئی
اب دیکھنا یہ ہے میں نکلتی ہوں کہاں سے
خود تو مجھے حق مانگنا آیا نہیں اب تک
ہر بات کہلواتی ہوں بچّوں کی زباں سے
اس بار بھی آنکھوں سے چھلک پائی نہیں میں
اس بار بھی لوٹ آئی ہوں خطرے کے نشاں سے
اب اتنا تعلق ہے کہ توڑا نہیں جاتا
جو توڑ کے جائے گا قمر جائے گا جاں سے
٭٭٭
جیسے کسی دیوار کو در چھوڑنا پڑ جائے
کیسے اسے چھوڑوں گی اگر چھوڑنا پڑ جائے
اس دشتِ تمنا میں ضروری نہیں کوئی
کیا جانئے کب کون کدھر چھوڑنا پڑ جائے
اک تو ہی ضروری ہے مسافت کے لئے دوست
تجھ کو بھی یہ دورانِ سفر چھوڑنا پڑ جائے
کب جانئے اس دل سے نکل جائیں تمّنائیں
کب جانئے چڑیوں کو شجر چھوڑنا پڑ جائے
اس شخص کو چھوڑو مجھے تم اتنا بتاؤ
تم چاند کو چھوڑو گے اگر چھوڑنا پڑ جائے
٭٭٭
کٹا ہے کس طرح میرا سفر اُس سے نہیں کہنا
میں پھر یہ تجھ سے کہتی ہوں قمر اُس سے نہیں کہنا
میں کیسے دھوپ کی ماری تھکی ہاری یہاں پہنچی
یہ سب کہنے کی باتیں ہیں مگر اُس سے نہیں کہنا
میں کتنی دیر روئی تھی میں کتنی دیر سوئی تھی
مسافت کی کہانی اے شجر اُس سے نہیں کہنا
٭٭٭
کون ہی سورج کون ہے سایہ میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
کس نے پہلے ہاتھ چھڑایا میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
جس کی خاطر ساحل ساحل سیپیاں چُنتے بیت گئے
کیوں وہ موتی ہاتھ نہ آیا میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
کس کو کتنا نام ملا اور کس کو ہی الزام مِلا
کس نے کس کا وقت گنوایا میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
کس نے کتنی آس بندھائی کس نے کتنی جان چھڑائی
کس نے کتنا ساتھ نبھایا میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
ہم جو تعلق کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوئے
جیون میں یہ دن کیوں آیا، میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
اس کی باتیں سننے والے تیرے جیسے لگتے ہیں
کس کو قمر نے حال سنایا میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
٭٭٭
کس طرح ڈوبنے دیتے مجھے میرے بچّے
زندگی ایک سمندر ہے، جزیرے بچّے
میرا دل جیتنے کا یہ کوئی حربہ تو نہیں
اچھے لگتے ہیں کسی شخص کو میرے بچّے
!میں کسی اور ہی آنگن میں بہت سوچی گئی
میرے ہم شکل ہوئے اور کسی کے بچّے
اب مری مان بھی لے، مان بھی لے اے مرے دل
اس طرح تنگ نہیں کرتے ہیں اچھے بچّے
ایسے مامور ہوں خوابوں کی نگہبانی پر
جس طرح پالتا ہے کوئی کسی کے بچّے
٭٭٭
کوئی سنتا ہی نہیں بول رہی ہوں کب سے
تیز آندھی میں کھڑی ڈول رہی ہوں کب سے
زندگی کیا ہے فقط تیز ہوا کی خواہش
جس کو کھڑی کی طرح کھول رہی ہوں کب سے
کوئی ملتا نہیں تعبیر بتانے والا
میں کسی خواب میں پر تول رہی ہوں کب سے
زندگی زہر بھرا کوئی پیالہ ہے قمر
جس میں مصری کی ڈلی گھول رہی ہوں کب سے
ماں نے میرے لئے باندھی تھی نصیحت جس میں
اُسی گٹھڑی کو قمر کھول رہی ہوں کب سے
٭٭٭
کوئی تہمت لگائے تو اذیّت کم نہیں ہوتی
مگر میں جانتی ہوں اس سے عزّت کم نہیں ہوتی
یہ وہ دولت ہے جو دل کی بدولت کم نہیں ہوتی
محّبت کرتے رہنے سے محّبت کم نہیں ہوتی
محّبت بدگمانی کو ہمیشہ ساتھ رکھتی ہے
مداوا ہو بھی جائے تو شکایت کم نہیں ہوتی
جو باتیں لب پہ آئی ہوں وہ باتیں ہو کہ رہتی ہیں
کبھی اُنگلی چبانے سے اذّیت کم نہیں ہوتی
نکل آتا ہے رستے سے نیا رستہ قمر لیکن
کسی کے ساتھ ہونے سے مسافت کم نہیں ہوتی
٭٭٭
کھڑکیاں مت بجا میں نہیں بولتی
جا او جھوٹی ہوا میں نہیں بولتی
چھوڑ دے میری دہلیز کو چھوڑ دے
تجھ سے کہ جو دیا، میں نہیں بولتی
مجھ سے اب میٹھے لہجے میں باتیں نہ کر
میرا دل بجھ چکا میں نہیں بولتی
مجھ کو معلوم ہے جتنی اچھی ہوں میں
اب نہ باتیں بنا میں نہیں بولتی
اب کسی چال میں مَیں نہیں آؤں گی
چاہے قسمیں اُٹھا میں نہیں بولتی
یہ جو اِک مور سا میرے آنگن میں ہے
جب نہیں بولتا میں نہیں بولتی
میرے پاؤں سے دھرتی کھسکنے لگی
جب بھی ماں نے کہا میں نہیں بولتی
پہلے اس کے لئے سب سے لڑتی پھری
پھر اسے کہ دیا میں نہیں بولتی
اب صفائی کا موقع نہ دوں گی اسے
جو ہوا سو ہوا میں نہیں بولتی
٭٭٭
ماخذ:
اور دوسری سائٹس
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ریحانہ قمر آپی بہت خوبصورت خیال والی شاعرہ ہے۔ اللہ ذوق میں مزید گداز اور سوز عطا فرمائے۔ آمین