فہرست مضامین
محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات
شکیل الرّحمٰن
MOHAMMED QULI QUTAB SHAH KI JAMALIYAAT
By SHAKEELUR REHMAN
اُردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر کی بوطیقا پر اُردو تنقید کی پہلی کتاب
© جملہ حقوق بحق عصمت شکیل محفوظ
مدھوبن، A-267، ساؤتھ سٹی،
گوڑگاؤں۔ 122001(ہریانہ)
انتساب
محترم جناب ڈاکٹر سیّد محی الدین قادری زورؔ مرحوم
کے نام
پھولاں کے تخت پہ بسلاؤ میرے سلطاں کوں!
(بٹھاؤ)
۔۔۔۔۔۔ شکیل الرحمن
در تہ ہر حرف غالبؔ چیدہ ام مے خانہ اے
تا ز دیوانم کہ سرمست سخن خواہد شدن
(غالبؔ)
ہر حرف کی تہہ میں غالبؔ میں نے ایک میخانہ چن دیا ہے تاکہ میرے دیوان سے سخن کی سرمستی و سرشاری حاصل ہو جائے۔
٭٭
چار برس ہوئے یا کچھ زیادہ۔
سلطان محمد قلی قطب شاہ کے کلام کو پڑھا اور ایک کتاب لکھی
’’پیا باج پیالا پیا جائے نا‘‘
شاعر کی جمالیات پر اظہارِ خیال کیا تھا۔
یہ کتاب نہیں چھپی!!
میرے پاس اس کی کوئی نقل موجود نہ تھی، چار سال تک اصل مسودہ حاصل کر نے کی کوشش کرتا رہا، مسودہ ’’واپس نہیں ملا۔‘‘ مسودہ پر نظر ثانی کی بھی ضرورت تھی۔ اب میں نے دوسری کتاب لکھی ہے، بنیادی موضوع وہی ہے ’’محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات‘‘ یہ کتاب اُس مسودے سے مختلف ہے جو شائع نہ ہوا۔
محمد قلی قطب شاہ کو سمجھنے میں مجھے ’’کلیاتِ محمد قلی قطب شاہ‘‘ مرتبہ پروفیسر محی الدین قادری زورؔ مرحوم سے زیادہ مدد ملی۔ قدیم زبان کے بہت سے لفظوں کو سمجھنا آسان نہ تھا۔ محترم زور صاحب نے اکثر اشعار کے نیچے کہیں کہیں معنی لکھ دیے ہیں، مشکل لفظوں کو سمجھنے میں آسانی ہوئی، اُن کے قیمتی مقدمے سے معلومات میں اضافہ ہوا۔ ’’کلیات محمد قلی قطب شاہ‘‘ مرتبہ ڈاکٹر سیّدہ جعفر بھی میرے لیے ایک اہم کتاب ثابت ہوئی۔ ڈاکٹر سیّدہ جعفر نے بہت سے مشکل قدیم الفاظ کے معنی آخر میں لکھ دیے ہیں۔ ان کی فہرست سے کافی مدد ملی۔ ان کا لکھا ہوا قیمتی مقدمہ بھی میرے لیے روشنی لے کر آیا۔ میں ڈاکٹر سیّدہ جعفر کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
سلطان محمد قلی قطب شاہ کے کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے دو باتوں کا احساس ہوا۔ ایک بات یہ کہ اُردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر پر اب تک کوئی ایسا کام نہیں ہوا ہے جو طلبہ اور اسکالرز کے لیے باعثِ کشش ہو۔ شمال کی یونیورسٹیوں میں عام طور پر سلطان محمد قلی قطب شاہ کے کلام کو نصاب میں شامل نہیں کیا جاتا، طلبہ اور اسکالرز نہ صرف اُردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر سے ناواقف رہتے ہیں بلکہ اُردو کے ایک ممتاز شاعر کی جمالیات کی بھی اُنھیں خبر نہیں ہوتی۔ دوسری بات یہ کہ کلیاتِ محمد قلی قطب شاہ رُومانی اور جمالیاتی تجربوں کا پہلا سرچشمہ ہے۔ یہاں سے عجمی ہندی شعری روایات کی آمیزشوں کی وہ کہانی شروع ہوتی ہے جو اب تک جاری ہے۔ ولی، میر، غالب، آتش، جرأت، داغ وغیرہ سے ہوتے ہوئے یہ کہانی آگے بڑھ گئی ہے۔
میں نے سلطان محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات ہی کو موضوع بنایا ہے۔ اُردو شاعری میں جب بھی جمالیاتی تجربوں کا ذکر ہو گا ابتداء محمد قلی قطب شاہ ہی سے ہو گی، بلاشبہ میری یہ کتاب اُردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر پر پہلی کتاب ہے۔ اس بڑے رُومانی جمالیاتی ذہن کو سلام کرتا ہوں۔
۲۳!ستمبر ۲۰۰۳ء ۔۔۔۔۔۔ بابا سائیں
سلطان محمد قلی قطب شاہ ابتدائی اُردو تہذیب کے پہلے رُومانی شاعر ہیں کہ جن کے جمالیاتی تجربوں سے ’’شرینگار رَس‘‘ مسلسل ٹپکتا رہا ہے، چونکہ شاداب رُومانی تجربوں کا یہ شاعر پوری زندگی کو ایک جشن سمجھتا رہا اس لیے اس کے جمالیاتی تجربوں میں ہر جگہ چراغاں سی کیفیت ہے۔ محبوب شعری کائنات کا مرکز ہے۔ تمام جمالیاتی ارتعاشات (Aesthetic Vibrations) اِسی مرکز کی شعاعوں کی دین ہیں:
اے نار ہے اس جگ منے تج مکھٔ عجب روشن چراغ
دیکھے نہیں اجنوں کہیں دھات کا نوکھن چراغ
حاجت نہیں جو سور چند دن رات یوں نکلیا کریں
بس ہے دٖپانے دو جگت تج مکھ درپن چراغ
سرج چاند تج مکھ تھے پاتے فروغ
ایسے دیپ جگ میں دٖپاتے فروغ
تمھارے عکس تھے روشن ہوا ہے چاند سب جگ میں
وگر نہ رنگ کا ٹھکرا ہے تج بن خاک بر سر کر
شاعر کا بنیادی جمالیاتی تصوّر یہ ہے کہ کائنات میں محبوب کے روشن اور تابناک چہرے ہی کی وجہ سے روشنی پھیلی ہوئی ہے۔ ایک عجب پراسرار چراغ روشن ہے، ایسا چراغ کب کسی نے دیکھا، سورج چاند کو یوں نکلنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ محبوب کے چہرے کے چراغ سے دونوں جہاں روشن تو ہیں ہی، یہ سورج، یہ چاند محبوب کے مکھ ہی سے چمک دمک پاتے ہیں دُنیا کی روشنی کا انحصار تو اسی مکھ کی تابناکی پر ہے، یہ دُنیا ہے کیا؟ یہ جو روشنی ہوئی ہے تو محبوب کے پرنور چہرے کے عکس سے، یہ چاند تارے یہ سب اسی کے چہرے کا عکس ہیں، یہ روشن چہرہ نہ ہوتا تو اس مٹی، اس خاک، اس دُنیا کی حیثیت کیا تھی، کچھ بھی تو نہیں بس ایک بے رنگ ٹھکرا ہی تو تھی یہ!
محمد قلی قطب شاہ کا رُومانی جمالیاتی شعور بہت بالیدہ تھا، فنونِ لطیفہ سے اُن کی گہری دلچسپی اور فنون میں اُن کے کارناموں سے اس سچائی کی پہچان ہوتی ہے۔ موسیقی، رقص، فنِ تعمیر اور مصوّری کی جمالیات پر اچھی نظر تھی۔ رنگوں اور خوبصورت چہروں سے عشق تھا۔ اُن کی بارہ پیاریاں حسن کی بارہ جمالیاتی جہتیں ہیں، جو مینار، محل، عاشور خانہ وغیرہ تعمیر کیے اُن سب میں ان کے جمالیاتی شعور کا عکس موجود ہے، وہ چار مینار ہو یا محل کوہِ طور، گگن محل ہو یا سجن محل، اُن کی تعمیر کی ہوئی تمام عمارتیں ’سیمٹری‘ (Symmetry) اور ’ہارمونی (Harmony)کے پیشِ نظر آج بھی جمالیاتی فکر و نظر کا مطالبہ کرتی ہیں۔ جمالیاتی نقطۂ نظر سے ان کا مطالعہ کیا جائے تو میرا خیال یہ ہے کہ قلی قطب شاہ کے ان اشعار میں اور کشش محسوس ہونے لگے گی:
ساجنی سجن محل میں ساج کر جھنداں سوں آئی
جان جانی ہو کے جاں کا پیالا سونج کوں پلائی
مجھے (سجن محل)
اندازہ ہوتا ہے کہ ’سجن محل‘ کی حیثیت عیش مقام کی تھی جہاں زندگی رنگین تھی۔ رنگ و نور کے ماحول میں خوبصورت چہرے تھے اور شراب کا پیالہ گردش میں رہتا تھا۔ ’سجن محل‘ کا ذکر کرتے ہوئے محمد قلی قطب شاہ نے اپنی پیاریوں کے جمال کا جلوہ بھی پیش کیا ہے۔ شاعر کا جمالیاتی احساس سجن محل کے اندرونی حسن کو اس محل کا بنیادی جوہر بنا دیتا ہے۔ ’سجن محل‘ نشے میں ڈوبا ہوا ہے، سرور کی کیفیت طاری ہے، شراب کا اثر پورے وجود پر ہے، نشہ سرپر چڑھ گیا ہے، خمار بھری آنکھوں نے اس نشے میں اور سحر بھردیا، نازنینوں کے خوبصورت چہروں پر نظر جاتی ہے تو بالوں میں گندھے ہوئے پھول چاند تارے، سورج ایک دوسرے آسمان کا منظر پیش کرتے دِکھائی دیتے ہیں۔ ’پیاریوں ‘ کا حسن سجن محل کے جمال کا مرکز بن گیا ہے:
ساجنی سجن محل میں ساج کر چھنداں سو آئی
جان جانی ہو کے جاں کا پیالا سو منجکوں پلائی
مجھے
سر میں چڑیا ہے اثر سرتھے کئے ہیں مجہ خبر شد
چرھا پھر سے مجھے
نین خماراں کا بھٹی ناز سوں سر تھے چڑائی
سے پھر سے چڑھائی
کیس میانے پھول، تارے چاند سورج گندے ہے
بال میں
پھول کیساں تھے دوجا اَسمان سچلا منج دِکھائی
بال سے دوسرا سچا مجھے
بھنواں میانے روس با کر کہتی پیالا پیومنج کوں
بھنووں میں گرہ ڈال کر
نین ادھر کے نقل مسیتی مج کھلائی ہے ملائی
سے مجھے
گال گلالی اوپر ّطرا پھولاں کا گند دھری ہے
گال برکاں نازک ہے اُن کا ہوا ہوں میں کھلائی
نورتن ہار اں کے پھانسے کر گلے میں بائی ہے اپ
ڈالی اپنے
سو۱۰۰ ہزاراں بجلیاں انچل چمک میں پہنچائی
یہ سجن محل کی تصویر کشی نہیں ہے، ایک خوبصورت محل منسوب ہے نازنینوں اور پیاریوں سے یہ ان ہی کا حسن ہے کہ جس سے سجن محل کا باطن روشن ہے۔ گلابی گالوں اور بالوں میں گندھے ہوئے پھولوں اور آنچلوں میں سو ہزاروں بجلیوں کی چمک دمک سے اس محل کا وجود قائم ہے۔ شاعر کے تخلیقی رومانی ذہن نے ہونٹوں کو زندگی کے رس کا پیالہ بنا دیا ہے۔ منہ سے پیالے کے لگتے ہی نشہ سر پر چڑھ جاتا ہے اور نازنینوں کی خمار بھری آنکھوں سے نشہ دو آتشہ ہو جاتا ہے۔ اس تخلیقی رومانی ذہن نے خمار آلود آنکھوں، پھولوں، تاروں، چاند، سورج، بھنووں، زُلفوں اور آنچلوں کی چمک دمک سے ایک فضا خلق کر دی ہے۔ جمالیاتی سطح پر محمد قلی قطب شاہ کے ایسے تمام تجربے جمالیاتی انبساط عطا کرتے ہیں۔
’اعلیٰ محل‘ کو محبوب کے پیکر میں اس طرح ڈھال دیا ہے کہ اس کی شخصیت محسوس ہونے لگتی ہے:
اعلا محل اعلاء دسے اعلا خوشیاں مہتر گھڑی
نظر آئے
اعلاسکی اعلا دسے جو بن گھڑی دو دوں بھری
نظر آئے
انگ جوت کے چند نور پر کنجک دسے بادل نمن
جسم کی جھلک چاند دِکھائی دے کی طرح
تارے تگٹ پھولان سہیس باندی ہے ساری زرزری
زیب دیں باندہی
جب سیس پر ڈھالے پلّو چندنا چھترتانی سکی
سر
اے ساز کرشہ سوں ملتی تب یو دسے جیوں شہ پری
سے ایسی دِکھائی دے جیسے
تج بل کری کے لعل میں سب مملکت کا مول ہے
تیرے
تیری ہنسی کے بھید تھے چھپیا ہے سحرِ سامری
سے
تج مکھ کی لالی تھے دپے سورج کی لالی بھاگ سوں
سے چمکے سے
تاریخ بہو دیکھیا نہ کس تاریخ ایسی استری
بہت دیکھا عورت
مانک اَدھر کے چشمے تھے شربت پنجتا جیو کا
ہونٹ سے پیدا ہوتا زندگی کا
اس نیر تئیں پیاسے اچھین یا شہ اچھویا لشکری
پانی کے ہیں جو
صدقے نبیؐ اعلیٰ محل قطب شہ جم جم اچھو
ہمیشہ رہیں
جب لگ اچھیں اسمان، پر چند سور زہرہ مشتری
رہیں چاند سورج
اعلیٰ محل ایک جوان دوشیزہ کے پیکر میں ڈھل جاتا ہے۔ ہر لمحہ مسکراتا اور خوشیاں بکھیرتا چہرہ، جسم کی جھلک ایسی جیسے ہلکے بادل کے پیچھے خوبصورت روشن چاند نظر آئے، اس کی دلکش پراسرار مسکراہٹ میں جیسے سامری کا جادو پوشیدہ ہے، اس کے مکھ کی لالی میں جیسے سورج کی لالی جذب ہو گئی ہے۔ تاریخ میں ایسی خوبصورت دوشیزہ نہیں ملی۔ ہونٹ سے زندگی کا رس ٹپک رہا ہے، نبیؐ کے صدقے قطب شاہ کا یہ محل ہمیشہ زندہ رہے جب تک آسمان پر چاند، سورج، زہرہ، مشتری ہیں یہ زندہ رہے۔
محلوں کے حسن و جمال کی پیشکش میں محمد قلی قطب شاہ کا جمالیاتی شعور بہت واضح ہے۔ شعری روایات اور خصوصاً جمالیاتِ حافظ شیرازی کی روایت سے حاصل کیے ہوئے جانے پہچانے استعاروں کو بہت پرکشش بنا دیا ہے، مثلاً آسمان، چاند، سورج، تختِ سلیماں، آئینۂ سکندری (آرسی سکندر) وغیرہ اسی طرح ہندی روایات سے حاصل کیے ہوئے استعاروں کے جلوے بھی بکھرے ہوئے ہیں۔ مثلاً نورتن، درپن، امرت، آرتی، استری، سور (سورج) ساجنی، نین، بھنواں، سنگار وغیرہ۔ ہندی عجمی استعاروں کا ایک خوبصورت سنگم شاعر کے پورے کلام میں ملتا ہے۔ جمالیاتی احساس کے پیشِ نظر مندرجہ ذیل اشعار پر نظر ڈالیے:
بلندی محل کا ہے اسمان جیسا
سورج چاند تارے سواَس تھے سنگارے
زینت پائے
جوں آٹھو بہشت نمنے آٹھو چھجے اَس
خضر چشمے بہتے ہیں تس میں سدا رے
جگت کوں حیاتاں بخشنے کے تائیں
لئے
جوں عیسیٰ کے دم تس میں بہتے ہیں بارے
مثل کے اس
سرج چاند پیالیاں منے امریت بھردے
سورج میں آبِ حیات
بدخشی لعل سم کیے رخسارے
کے مقابل
اُنن مکھ یمن لب عقیقِ یمن جوں
آن کے چہرے کی طرح
سو مکھرا سہیل آکے تابش سٹیارے
ڈالا
دیکھا ویں ارت ہت نین سوں تو کریے
ہاتھ
فلک کھول کھڑکیاں ملک لک نظارے
رنگ اسمانی چنیڑیاں چھبیلیاں سو بند کر
سور مکھ کرن جھلکے تن کے کنارے
(خداداد محل)
کیس میانے پھول، تارے چاند سورج گندے ہے
بال میں
پھول کیساں تھے دوجا اسمان سچلا منج دِکھائی
بال سے دوسرا سچا مجھے
بھنواں میانے روس با کر کہتی پیالا پیو منج کوں
بھوں میں گرہ ڈال کر مجھے
نین اِدھر کے نقل سیتی مج کھلائی ہے ملائی
سے مجھے
گال گلابی اوپر ّطرا پھولاں کا گند دھری ہے
گوندھ کر
گال برکاں نازک ہے اُن کا ہوا ہوں میں کھلائی
نورتن ہار اں کے پھانسے کر گلے میں بائی ہے اپ
ۙ ڈالی اپنے
سو۱۰۰ ہزاراں ۱۰۰۰ بجلیاں انچل چمک میں پہنچائی
(سجن محل)
انگ جوت کے چند نور پر کنجک دسے بادل نمن
جسم کی جھلک چاند دِکھائی دے کی طرح
تارے تگٹ پھولان سہمیں باندی ہے ساری زرزری
زیب دیں باندہی
تج بل کڑی کے لعل میں سب مملکت کا مول ہے
تیرے
تیری ہنسی کے بھید تھے چھپیا ہے سحر سامری
سے
(اعلیٰ محل)
رُومانی جمالیاتی ذہن روشنی اور روشنی کے پیکروں کی جانب لپکتا ہے، محمد قلی قطب شاہ کا جمالیاتی شعور بھی روشنیوں کا عاشق ہے، کلیات میں روشنی کے تعلق سے جو استعارے ملتے ہیں اُن میں آسمان، انبر، اکاس، آنکاس، کھن، کھنان، نوکھن (نو آسمان) وغیرہ کی اہمیت ہے۔ اسی طرح اجت سورج، بھان (آفتاب) اندر (چاند) اختر، اختراں (ستارے ) روشنی کے استعارے ہیں۔ لیکن ان سب کی اہمیت صرف محبوب کے حسن اور محبوب کے چہرے کی روشنی کی وجہ سے ہے۔ ’’دیوانِ حافظ‘‘ کا بنیادی مرکزی جمالیاتی رجحان یہی ہے، محمد قلی قطب شاہ حافظ سے خوب متاثر تھے نیز خوبصورت محبوبوں کے جانے کتنے چہرے آس پاس تھے اس لیے بنیادی تصور یہی ملتا ہے کہ آسمان، چاند، سورج اور ستاروں نے محبوب کے چہرے سے روشنی اور تابناکی حاصل ہے۔ پیا کے حسن کے مقابلے میں بھلا سورج کیا اہمیت رکھتا ہے، پیا کے حسن کو دیکھ کر وہ چھپ جاتا ہے:
پیا کے حسن تھے سورج چھپا ہے مغرب میں
گلے میں طوق سو دیکھ چاند کے مرا یہ سرشت
محبوب کے حسن کی تجلی سے چاند نے نور حاصل کیا ہے:
تمھارے مکھ کی تجلی تھے پائیا (ہے ) نور
تمھاری چھاؤں تھے چندا پنم ہوا سپنور
سرج چاند تج مکھ پاتے فروغ
اپے دیپ جگ میں دٖپاتے فروغ
اگر تو پنجتی نہ اس جگ سنے
سورج چاند یوں کاں تھے لیلاتے فروغ
تجھ مکھ کوں دیکھت سورج چندر تھے ہوا فارغ
لے لب ترے دولت شکر تھے ہوا فارغ
محبوب کے چہرے کی روشنی موجود ہے تو پھر سورج چاند کو دِن رات نکلنے کی ضرورت کیا ہے:
حاجت نہیں جو سور چند دِن رات یوں نکلیا کریں
بسِ ہے دٖپانے دو جگت تج مکھ کا درپن چراغ
’عورت‘ اور اس کا جمال محمد قلی قطب شاہ کی شاعری کی جمالیات کا مرکز ہے، ایک بڑے حسن پسند اور حسن پرست اور ایک حیرت انگیز رُومانی ذہن کے اس شاعر نے عورت اور اس کے جمال کو جیسے اپنے وجود میں جذب کر لیا تھا۔ اس کے کلام میں رنگ و نور، نغمہ و آہنگ اور خوشبوؤں کی جو دُنیا ملتی ہے وہ اسی جذبی کیفیت کی دین ہے۔ شاعر کی حسن پسندی نے ماحول کے تمام حسن کو سمیٹ لیا ہے، عورت کا وجود ایک نغمہ ہے، یہ غیر معمولی شعور ہے، اس کی وجہ سے اُردو ادب کو راگ راگنیوں کی خوبصورت متحرک تصویریں حاصل ہوئی ہیں۔ مثلاً داؤد راگ (لحنِ داؤد)، رام کیسری (رام کلی راگ)، سری راگ، دھنا سری، کماچ (ایک راگنی)، کنرا (ایک راگ) ملہار (راگنی)، سات سروں (سبد سات) میں عورت مختلف راگوں (راگاں ) کے درمیان اُبھرتی ہے۔ یہ سب سر اُس کے وجود کے نغمے کی جہتیں بن جاتے ہیں۔ عورت ہی کے مرکز سے زندگی کے خوبصورت جشن کا آغاز ہوتا ہے اور شاعر جشنِ زندگی کا پہلا بڑا فنکار بن کر سامنے آتا ہے۔ زندگی کا جشن مناتے ہوئے مسرتوں اور لذّتوں کی ایک خوبصورت دُنیا خلق ہو جاتی ہے۔ محمد قلی قطب شاہ ’سیکس‘ اور شرینگار رَس کے پہلے بڑے شاعر ہیں، جنسی تجربوں کی لذّتوں اور خاص لمحوں کی شیرینی اور مٹھاس کے ایسے نمونے اُردو شاعری میں موجود نہ تھے۔ پہلی بار ایسے تجربے سامنے آئے ہیں:
چنجل کا مکھ چھبیلا ہے ادھر امرت رسیلا ہے
یا
قطب شہ کوں کھلاتیاں ہیں سہیلیاں رنگ بھرا میوا
عورتوں کے تعلق سے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ اپنی خاص مٹھاس اور شیرینی لیے ہوئے ہیں۔ ’سیکس‘ کی لذّتوں کو لیے ہوئے یہ الفاظ اپنی مثال آپ ہیں، مثلاً:
دھن (عورت، محبوبہ) ساجنا، سجن، سجائی، سودھن (خوبصورت عورت) لالن، لالہ (محبوب) گوریاں، للات (پیارا) للن، للنا (محبوب) موہناں، مہن (محبوب) موہنیاں، استری، پدمتی، پیو، پیا، پیبو (محبوب) آرسے (اروقتی) انکھیاں، انگ (جسم، بدن) بالاں (بال) باہاں (باہیں ) بھنواں (بھنویں ) ٹھڈی (تھاڑی) ادھراں (ادھر کی جمع۔ ہونٹ) لباں (لب کی جمع) مرگ نینی (غزال آنکھیں ) کچ (پستان)کچلے (سرپستان) گیسواں (گیسو کی جمع) گالاں (گال) مکن (چہرہ) کنچکی (انگیا)کنجک (چولی) کجل (کاجل) کسنان (چولی) رپے (رُوپ) دھڑی (مسّی کی تہہ) سرخاں (سرخ رنگ والیاں ) سرنگ (خوش رنگ) سنبھوگ (جنسی عمل) شوانی (شہوانی) کاجلا (کاجل) لٹاپٹ (ہم آغوشی) لذّتاں (لذتیں ) گدگمیاں (گدگدیاں ) لیلاٹ (خوشی) النکار (حسن) باس (خوشبو) بوسیاں (بوسے ) بھیٹن (سرپستان) پیم، پم، پیرم، پرم ( محبت)
یہ رس بھرے الفاظ شاعر کے جمالیاتی تجربوں کے آئینے بن گئے ہیں۔ حسی، نفسی، جنسی جمالیاتی تجربوں نے ان لفظوں اور ان لفظوں کے اشاروں سے تغزل کا ایک پرکشش معیار قائم کر دیا ہے۔ انبساط اور مسرت اور Joy and Passion کی ایسی تصویریں اُردو کی بوطیقا کے ابتدائی عنوانات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان تجربوں میں مختلف تحرّک اور آہنگ کی کیفیتوں میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ احساسِ حسن گہرا ہے، حسن کی کئی جہتوں پر شاعر کی نظر ہے۔ یہ جہتیں جمالیاتی وحدت قائم کر دیتی ہیں اور ہمیں جمالیاتی انبساط (Aesthetic Pleasure) حاصل ہوتا ہے:
بھواں آبرو میں مادے برد باندے
عشق کے راگ تاں میں بھید باندے
ترے کیس میں کنول ہور سور آوے
کمان بھنواں میں کاجل ساج ساندے
چولی تنگ انگ میں نت نارنگ پنجھی
نین سوکاں سوں موِچت نت پھاندے
*
پھل گلالاں ایسے گالاں تھے ہوا بلبل مست
رنگیلا جام لے اپ ہت منج ّکسی محبوب
*
دو نین ابرو تلیں ہیں نار کیرے خواب میں
دومست شوخی سوں سہتے مسجد کیرے محراب میں
بت خانہ نین تیرے ہوریت نین کیاں پتلیاں
مج نین میں پوجاری پوجا اردھان ہمارا
اس پتلیاں کی صورت کی خواب میں جو دیکھے
رشک آئے مج کرے مت کوئی سجدہ اس دورا
تمن مکھ میں خدا کا نور مج نیناں بھریا دیکھے
کنن صورت تمن سر بھر نہ ہمرا ہی کرن سکتا
مکھ میں بنفشہ رنگ تلا کا نور میں توں پائیا
جیوں سیام رنگ چندا سوں مل سب جگ پہ چندنا چھائیا
تری تھوڑی کے جل منے سو جیو کا جیون ہے
زندگی کی روح
او چشمہ منے مین نمن جیو کیا ٹھارا
میں
داکھ کا ہنگام ہے ساقی پلامے جیوں گلاب
ہے تھڈی پانی تیرا سر چشمۂ آبِ حیات
تمارا حسن میرے دو نین میں نقش باندیا ہے
آنکھوں باندھ دیا
جے کوئی دیکھیں تمن کوں کج ہو ویں اُن کے نہالاں کچ
جو تم کو کچھ
سینے کے باغ میں تیرے بہشتی میوے چنتا ہوں
کہ تازے میوے کے انگے سو کے سو میوے ہے سب تچ
تمھارا حسن دیکھیا جب ہوا ہوں جیوں جمشید
نظر آیا مانند
تمھارے ذکر تھے پایا ہوں عمر میں جیوں نوح
سے مانند
تھڈی کے خم تھے پلاؤ ہمیں کوں لعل مد
چاہ زغن سے ہم کو
ہمارے ہونٹ ہوئے تم کو بے چومن مجروح
نہ چومنے سے
ہونٹاں کے بوسے تھے پایا جیا رُوح
ہونٹاں کے ناد میانے ہے دوا روح
مانند درمیان
اس چومن تھے موچو من دور خدایا نہ کریں
کہ حیات آب و لب ہے مرا دِل اس پہ کشید
سجن کے ہونٹ امرت کا لذّت یک دس چاکے تھے
ون چکھنے سے
سو دو لذت کوں اجنوں لک کیا ہے منج رسن تعویذ
وہ کو اب تک میری زبان
ادھر تیرے کا عکس پیالے میں جھمکے
عجب ہے کہ دستا ہے پانی میں آتش
ترے دو زلف ہیں سحراں میں ماہر
ترے دو لعل ہیں خونخوار اوباش
انکھیاں پتلیاں و پلکاں ہور بھوّاں
ا ہے یک ٹھار میں دو چار اوباش
محمد قلی قطب شاہ کی جنسی حسیت (Sex Sensibility) بہت بیدار اور متحرک ہے، بھرت نے جن اکتالیس ’بھوؤں ‘ (Bhavas) کا ذکر کیا ہے اُن میں ’رتی بھو‘ (Rati Bhava) کو بھی بہت اہمیت دی ہے۔ ’رتی بھو‘ جنسی محبت کا شدید جذبہ ہے۔ شاعر کے کلام میں جو شرینگار رَس ہے وہ اسی جذبے کی دین ہے۔ چہرے کے ذکر کے ساتھ زلف، بھوں، ابرو، نین، گال، تھڈی اور ہونٹ کی خوبصورتی اور لذّتوں کا ذکر ملتا ہے، ہونٹ اور تھڈی کے ذکر کے ساتھ ہی سرچشمۂ آبِ حیات کی یاد آ جاتی ہے اور شاعر اس کی لذّت حاصل کر نے لگتا ہے، جنسی حسیت کی بیداری کی وجہ سے محبوب کی ایسی تصویریں سامنے آتی ہیں کہ جن میں گلاب کی مانند گال، محراب اور کمان کی طرح بھنویں، بنفشی رنگ کے چہرے، رس بھرے ہونٹ، کسی ہوئی تنگ چولی۔۔۔ سب توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں، گلاب کی طرح گال دیکھ کر بلبل بھی مست ہے، آنکھوں کی پتلیاں دیکھ کر عاشق یہ محسوس کرتا ہے جیسے وہ کسی بت خانے میں کھڑا ہے، تنگ چولی پر نظر جاتی ہے، لگتا ہے چولی کے اندر دو پرندے بند ہیں، محبوب کے چہرے کا عکس اگر پیالے میں جھلکے تو پانی میں آگ لگ جائے، ہونٹوں کے رَسوں سے رُوح تازہ دَم ہو جائے۔
رُومانیت اپنے رنگوں اور تیور کے اظہار کے لیے آزادی چاہتی ہے۔ محمد قلی قطب شاہ نے پابند غزلوں کے اندر بھی اپنی رُومانیت کے بیباکانہ اظہار کے لیے آزاد فضا کی تخلیق کی ہے لیکن رُومانیت کو سب سے زیادہ آزادی جشنِ زندگی مناتے ہوئے ملی ہے۔ بسنت، شب برات اور برسات جیسی نظموں میں رُومانیت جیسے اپنی سچی آزادی کے ساتھ ظاہر ہوئی ہو ایسا احساس ملتا ہے، مثلاً:
بسنت کا پھول کھلیا ہے سو جیوں یاقوت رُمّانی
کرو مل کر سہیلیاں سب بسنت کے تائیں مہمانی
بسنت کا رُت بجھایا ہے برہ اگ کوں خوشیاں سیتی
نویلیاں مل کرو مجلس نویلا آج شاہانی
نئی
سکل جھاڑاں کوں لاگے ہیں جواہر کے نمن پھولاں
سب لگے مانند
سو پھولاں سو کرے تل تل پیا پر گوہر افشانی
بسنت پھولاں کا شبنم مے سو بھر ساقی صحراحی میں
جو اُس مد تھے مدن چڑ کر ہمن رنگ ہوئے نورانی
سے
جو گرجے مست ہو بادل صراحی نت کرے غلغل
پیو پیالا او غلغل تا دسوں ہے میگھ نیسانی
وہ
پلاساقی سراسرے کہ تا ہوئے کشف ہمنا کوں
کہ اس مے تھے دیسے منج کوں سدا سب راز پنہائی
سے دِکھائی دے مجھے
عنبر ہور عود و مشک و زعفراں کاروت آیا ہے
اَسی تھے باس انو کا جگ میں کرتا ہے گلستانی
لیے آن
نچھل پھل کے عرق میا نے کلاؤ تم کدم چھندسوں
میں
ولے فتنۂ عرق سب باس میں کرتا ہے سلطانی
بندھاؤ حوض خانے چاند و سورج کے سہیلیاں مل
بھر اُو نیر امرت کا کہ کھیلیں رنگ افشانی
بسنت پھل کا حمایل پہن کر آئی انگن میں دھن
عورت
سو پھل سنگار کے نقشاں منے حیراں ہے مانیؔ
پھولوں کے میں
بسنت کا جشن غیر معمولی نوعیت کا ہے، رُومانی ذہن بسنت کے رنگوں اور حسن میں جذب ہے، مست اور آزاد ہے، بسنت کا پھول یاقوت رمّانی کی مانند کھلا ہے۔ اس پھول کا جلوہ اور اس کی خوشبو اس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ اس کا استقبال کرو، اے سہیلیوں سب مل کر بسنت کو اپنا مہمان بنا لو۔ بسنت کی رُت سے ہر جانب مسرتیں بکھر گئی ہیں۔ فراق کی آگ بجھ گئی ہے، لہٰذا اس کے لیے ایک نئی مجلس شاہانہ ترتیب دو، دیکھو بسنت کے آتے ہی تمام درخت اپنے پھولوں کی چمک دمک اور خوشبوؤں کو لیے دعوتِ نظارہ دے رہے ہیں۔ لگ رہا ہے جیسے یہ پھول جواہرات کی طرح لدے ہوئے ہیں۔ تم اپنے پیا پر پھولوں کو موتیوں کی طرح نچھاور کرو۔ شاعر کے جمالیاتی احساس کی یہ جہت دیکھئے، کہتا ہے اے ساقی بسنت کے پھولوں پر شبنم کے جو قطرے ہیں اُنھیں شراب کی طرح صراحی میں ڈال دو تاکہ اس شراب کے پینے سے مجھ پر ایسی مستی طاری ہو جائے کہ چہرہ نورانی ہو جائے۔ اچانک شاعر کی نظر اس صراحی پر پڑتی ہے کہ جس سے شراب ڈھل رہی ہے۔ غلغل کی آواز سے اُسے لگتا ہے جیسے بادل بھی مست ہو کر گرج رہے ہیں۔ اس غلغل کی آواز کو ابرِ نیساں کی آواز سمجھ کر بس پیتے جاؤ، پیالہ پر پیالہ پیتے جاؤ۔
بسنت میں، شراب میں پھولوں کا رَس جیسے پراسرار طور پر شامل ہو جاتا ہو۔ ایک تو شراب کا نشہ اور پھر بسنت کے خوبصورت پھولوں کا رس، اے ساقی یہ شراب مجھے پلاتا جا تاکہ میں پراسرار رُوحانی دُنیا کا سفر کر نے لگوں۔ مجھ کو کشف ہونے لگے، ایسی شراب سے مخفی راز بھی دِکھائی دینے لگتے ہیں۔ یہ جو بسنت رُت ہے دراصل عنبر، عود، مشک، زعفران کا رُت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سب کی خوشبو جذب ہو کر دُنیا کو گلستان میں تبدیل کر دیتی ہے۔ ہم افشانی رنگ کھیلنا چاہتے ہیں لہٰذا تم سب مل کر چاند اور سورج کے حوض خانوں کو آبِ حیات سے بھر دو۔ بسنت کے پھولوں کا ہار پہن کر مہ جبیں صحن میں نکل آئی ہے جس کے پھولوں کے نقش و نگار کو دیکھ کر مانیؔ بھی حیرت زدہ ہے۔ سورج کی کرنوں کو پھولوں کی چھڑیاں بنا کر ہم ایک دوسرے کو مارتے ہیں، سہیلیوں کے ساتھ یہ کھیل اللہ کرے میں ہمیشہ کھیلتا رہوں۔
بسنت جشنِ زندگی کا ایک دلکش پہلو ہے، جمالیاتی تجربوں اور رُومانیت کا بیباکانہ اظہار ہوا ہے، ایک بہت ہی آزاد فضا میں رُومانیت کا اظہار ہوا ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کے جمالیاتی رُومانی شعور نے بسنت کو زندگی کی بے پناہ مسرتوں اور لذّتوں کا سرچشمہ بنا دیا ہے۔ اشعار پڑھتے ہوئے جمالیاتی احساس اور جمالیاتی استعارے متاثر کرتے ہیں، بسنت کے پھول یاقوت رمانی ہیں۔ بسنت رُت میں ہجر کا غم جاتا رہتا ہے۔ نئی نئی مسرتیں حاصل ہوتی رہتی ہیں۔ شاعر کے جمالیاتی وژن کی پہچان وہاں زیادہ ہوتی ہے جہاں وہ یہ کہتا ہے:
بسنت پھولاں کا شبنم مے سو بھر ساقی صراحی میں
جو اس مد تھے مدن چڑ کر ہمن رنگ ہوئے نورانی
بسنت کے پھولوں پر شبنم کے جو قطرے گرے ہیں اُنھیں شراب کی صراحی میں ڈال دے، اس سے شراب کا نشہ اتنا بڑھ جائے گا کہ میرا وجود نور سے بھر جائے گا۔
شاعر غلغل کی آواز کو ابرنیساں کی آواز تصوّر کرتا ہے، ایسی شراب پینے سے زندگی کے رموز و اسرار کھلنے لگیں گے۔ شاعر کی جمالیات میں خوشبوؤں کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ یہاں بھی عود، عنبر، مشک اور زعفران کی خوشبو موجود ہے کہ جس سے دُنیا گلستان بنی ہوئی ہے۔ اسی طرح کلامِ مانیؔ میں رنگوں کی بھی اہمیت ہے، یہاں بھی یاقوتِ رمانی، درختوں سے لٹکے رنگ برنگ کے جواہر اور افشانی رنگ کا ذکر ملتا ہے۔ شاعر بسنت کو جشنِ زندگی کا ایک بہت بڑا جشن سمجھتے ہوئے اسے ہمیشہ منانا چاہتا ہے۔
بندھاؤ حوض خانے چاند و سورج کے سہیلیاں مل
بھر او نیر امرت کا کہ کھیلیں رنگ افشانی!
کلاسیکی شاعری میں جذبہ (Passion) اور تخیل (Fancy) دونوں کی بڑی اہمیت رہی ہے۔ سلطان محمد قلی قطب شاہ کی شاعری میں بھی جذبے کی شدت اور تخیل کی پرواز کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، بسنت کے موضوع پر ان کے شعری تجربے دونوں خصوصیتیں لیے آئے ہیں:
بسنت کھیلیں عشق کی آ پیارا
تمھیں ہیں چاند میں ہوں جوں ستارا
تم
نچھل کندن کے تاراں انک جھونا
بندی ہوں چھند بندسوں کر سنگارا
بسنت کھیلیں ہمن ہور ساجنا یوں
ہم اور ساجن
کہ اسماں رنگ شفق پایا ہے سارا
شفق رنگ جھینے میں تارے مگٹ جوں
سرج کرنا نمن زرتار تارا
سورج کی کرنوں کی مانند
پیا پگ پرملا کر لیائی پیاری
بسنت کھیلی ہوا رنگ رنگ سنگارا
جو بن کے حوض خانے رنگ مدن بھر
سو روما روم چرکیاں لائے دھارا
رُواں رُواں
بھیگی چولی میں بھیٹن نس نشانی
عجب سورج میں ہے کیوں نس کوٹھارا
رات
بسنت ونت جھد سو کندن گال اوپر
پھولایا آگ کیسر کی بہارا
’’عشق کی بسنت‘‘ کھیلنے کی آرزو ہے، محبوب چاند ہے عاشق تارا۔ ’’عشق کی بسنت‘‘ کھیلنے کے لیے جسم کندن کی مانند بنا ہوا ہے، جس میں عجیب چمک دمک ہے۔ عاشق (عورت) کا بدن کندن کی طرح چمک تو رہا ہے سنگار نے اُسے اور بھی جاذبِ نظر بنا دیا ہے، جس طرح آسمان شفق کی وجہ سے رنگارنگ دِکھائی دیتا ہے ہم اسی طرح ساجن کے ساتھ بسنت کا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ سورج کی کرنوں کی طرح زر کے تاروں سے بنا ہوا لباس اسی طرح جھلک رہا ہے کہ جیسے شفق کے رنگ کے پیچھے سے تارے اپنی جھلکیاں دِکھاتے ہیں۔ اپنی بسنت کو پیا کے قدموں سے مل کر آئی ہوں اس لیے بسنت کھیل کے رنگ رنگ کو سنگار حاصل ہو گیا ہے۔ جوبن کے حوض خانوں میں عشق کا رنگ بھر کر جسم کے روئیں روئیں میں بجلی سی دوڑ جاتی ہے۔ چولی رنگ سے بھیک جاتی ہے، رنگ سے بھیگی چولی میں سے سر پستان رات کی نشانی بنی سیاہ دِکھائی دیتا ہے اور اسے دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ سورج کی مانند پستان کے درمیان شب کو کیسے جگہ مل گئی، جسم کا رنگ بسنتی ہے اور گال کندن جیسے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ زعفران کی آگ کی بہار جوش میں آئی ہوئی ہے۔ قطب شاہ نے ایسی بسنت کھیلی ہے کہ تینوں عالم رنگ رنگ ہو گئے ہیں۔
بسنت پر ایسی پیاری خوبصورت نظمیں شاید ہی کسی نے کہی ہوں کہ جیسی محمد قلی قطب شاہ نے کہی ہیں۔ بسنت جشنِ زندگی کا استعارہ بن گئی ہے۔ ایسی نظموں میں غنائی شاعری کی لطافت اور نغمگی ہے، نفسیاتی تخیل متاثر کرتا ہے، احساس اور جذبے میں نفاست ہے، شعور اور لاشعور کی کیفیتیں متاثر کرتی ہیں۔ شاعر کے جمالیاتی شعور کی پہچان مشاہدوں سے ہوتی ہے۔ دل کی باتوں میں سادگی اور دل نشینی ہے۔
شاعر نے بسنت کو ’’عشق کی بسنت‘‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔ روشنی، رنگوں اور عورت کے جسم کے اشاروں اور استعاروں کی وجہ سے بڑی چمک دمک پیدا ہو گئی ہے۔ حسی اور جذباتی تجربوں نے لفظوں اور استعاروں کو منوّر کیا ہے۔ نفسی اور جذباتی تجربوں کی روشنی اور حرارت اشعار میں روشنی اور گرمی پیدا کرتی ہے۔ چھٹی اور ساتویں صدی کے دو علمائے جمالیات ڈنڈی (Dandi) اور بھامھ (Bhama) نے کہا تھا کہ اچھی شاعری میں جذبے کے مطابق ’’شبد‘‘ (الفاظ) ہوں تو جذبات کے رنگوں کا ظاہر ہونا عین مظہری ہے۔ ڈنڈی نے عمدہ مرّتب لفظوں کو کلام کا خوبصورت لباس نہیں بلکہ کلام کا خوبصورت جسم کہا ہے۔ جذبوں کے رنگوں کے مطابق لفظوں کی ترتیب کلام کی رُوح بن جاتی ہے۔ پھول، یاقوتِ رمانی، جواہر، شبنم، شراب، صراحی، نورانی رنگ، غلغل کی آواز، بادل کی مستی، عنبر، عود، مشک، زعفران اور ان کی خوشبو، چاند، سورج، افشانی رنگ، پھولوں کے نقش و نگار، سورج کی کرنیں وغیرہ نظم کی جمالیاتی سطح بلند کرتے ہیں۔ اسی طرح دوسری نظم میں چاند، تارا، کندن جیسا جسم، سنگار، بسنت کا رنگ، آسمان شفق کا رنگ، زر کے تاروں سے بنا ہوا لباس، جوبن اور اس کے حوض خانوں میں عشق کا رنگ‘ رنگ سے بھیگی چولی، سر پستان رات کی نشانی، کیسر کی آگ، تینوں عالم کی رنگینی۔۔۔ ان سے ایک انتہائی دلکش، پرکشش فضا تشکیل ہوتی ہے۔ تمام ’شبد‘ جمالیاتی تجربوں کا جسم بن جاتے ہیں۔ ان نظموں کو پڑھتے ہوئے جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔ یہ بسنت کی تصویر کشی نہیں ہے بلکہ احساس اور جذبے کے پیکروں کی تشکیل ہے۔ بسنت پر مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیے:
پیارے بسنت کا ہوا آئیا
آئی
سکیاں تن مشک زعفراں لائیا
لائی
گلالی رنگا کے برن بہو جنس سوں
بہت طریقہ سے
چھبلیاں رنگیلیاں کے قد پر شہایا
نبیؐ صدقے اے قطب شہ اس بسنت میں
رتن میگھ برس عجائب دِکھایا
موتی کی بارش برس کر
*
پپیہا گاؤتا ہے میٹھے بیناں
مدھر رس دے ادھر پھل کا پیالہ
ہونٹ پھول جیسے
پیاری ہور پیا ہت میں سو ہت لے
ا ور ہاتھ ہاتھ
سرو بن میں ہنڈ میں گل پھول مالا
کنٹھی کویل سرَس ناداں سناوے
نغمے
تنن تن تن تنن تن تن تلالا
گرج بادل تھے دا در گیت گاوے
سے
کویل کوکے سو پھل بن کے خیالا
پھولیں
*
پیاری کے مکھ میانے کھیلا بسنت
پھولاں حوض تھے چرکے چھڑ کیا بسنت
بسنت باس چن چن کے چنری بندہے
جوا بہر کے لہراں سوں آیا بسنت
جوبن حوض میں نورتن رنگ بھرے
بسنت راگ گاؤ سہایا بسنت
رنگا بند میانک بندے گلسری
گلے گل لڑاں سوں دِکھایا بسنت
نوی بالی کونلی کدم میں بھیجے
پرت پیالے بھر بھر پلایا بسنت
محبت
بسنت کی خماری نین میں بھری
ہنڈولے نین دل ڈلایا بسنت
اومنگاں سوں بسنت آیا نورانی
اُمنگوں کے ساتھ
کریاں کسوت سکیاں سب آروسانی
کرتی ہیں عروسی
بسنت کے پھل کھلے ہیں اپ رنگیلے
پھول
ہوا حیران دیکھ اس تائیں مانیؔ
کو
گنتل کے جھولے سہتے ہیں او مکھ پر
اس
کہ جو پھل پر ڈلے بھونرا سو گیانی
پھول
کوبک کویل بسنت کے راگ گائی
کہ پائی ہے اسے رَت میں سک نشانی
ا س سکھ کی
*
سبز سارے نورتن کسوٹ کیے ہیں رنگ رنگ
سرونیا میں سو شبنم کا سراپا بسنت
سارے پھولاں تئیں بسنت کا پھول مہمانی کیا
گل پیالہ ہو کے خدمت تائیں چت لایا بسنت
کے لیے
جوت مانک سوں بسنت کے گل کھلے عالم منے
میں
پھل بست تھے سب فلک پر لال رنگ چھایا بسنت
سور کارنج میں بسنت کا رنگ جھلکتا نور سوں
ہور چندر کے حوض میں چندن سو مہکایا بسنت
إ چاند
ترنیاں چڑ کہ ترنگ نکلیاں بسنت کے ڈھنگ سوں
پھول ہر اِک کھل کے اب باساں سیتیں گایا بسنت
سر تھے انچل ڈھال کر بھیج پرپلو کر یوں سٹے
سے
بجلی چڑ کے ہاتھ لے تھاڈی تو رنگ پایا بسنت
چرکیاں کے منبر بند تھے سب فلک پکڑیا ہے رنگ
بوند سے
اُس گہرا براں کے رنگ تھے موتی برسایا بسنت
سے
موتیاں یاقوت گھر گھر یوں دھک انباراں پھرے
ہر گدا مسکیں خاقاں سم کا دکھلایا بسنت
برابر
شکر ایزد کر معانیؔ رات دِن آنند سوں
تیرے مندر میں خوشیاں آنند سوں آیا بسنت
خیالات کی دلآویزی متاثر کرتی ہے، رنگارنگ تجربوں کی وجہ سے اشعار میں لطف کی کئی سطحیں پیدا ہو گئی ہیں کہ جن سے جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔ خواب جیسے فکشن (Dream Fiction) میں لطف انبساط کی ایسی ہی تصویریں اُبھرتی ہیں۔ شاعر کے صاف شفاّف تخیل کی وجہ سے ایسے جمالیاتی تاثرات حاصل ہوئے ہیں۔ رَس بھرے لفظوں کے ذریعے رَس بھرے تجربوں تک پہنچتے ہیں۔
سلطان محمد قلی قطب شاہ کی رُومانیت اپنی مکمل آزادی کا اظہار اس طرح کرتی ہے: بسنت کی ہوا آئی اور سکھیوں کے تن مشک و زعفران کی خوشبو سے معطر ہو گئے۔ کوئلوں کے نغمے گونجنے لگے، موروں کی رسیلی آواز سے دِل متاثر ہونے لگا، طرح طرح کے گلابی لباس نظر آنے لگے، موتیوں کی بارش ہونے لگی، پپیہا کے رسیلے گیت گونجنے لگے، پھول جیسے ہونٹوں کے پیالوں سے شہد ملنے لگا، محبوب اور عاشق سرو کے بن میں گلاب کے پھولوں کی مالا پہنے گھومنے لگے۔ کوئلوں کے نغموں سے لگا جیسے یہ آواز نکل رہی ہے تنن تن تن، تنن تن تن! بسنت کی آنکھ سے آنکھوں کا چمن پھولوں اور پھلوں سے معمور ہو گیا ہے۔ بسنت کی روشنی ایسی ہے کہ جس سے دُنیا کے تمام پھول کھل گئے ہیں۔ آسمان پر لال رنگ چھایا ہوا ہے۔ سورج کی دھُوپ میں بسنت کا رنگ ہی نور بنا ہوا ہے اور چاند کے حوض میں بسنت نے چندن بھر دیا ہے کہ جس کی خوشبو ہر جانب بکھری ہوئی ہے۔ بسنت کی وجہ سے ہر گھر میں موتی اور یاقوت بھر گئے ہیں۔ تمام جنگل آسمان کی مانند سبز ہو گئے ہیں جن پر ستاروں کی طرح پھول کھل گئے ہیں:
رتن میگھ برسن عجائب دِکھایا
موتی کی بارش برس کر
محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات میں خوشبو (مشک و زعفران) سریلی نشیلی آوازیں (کوئل‘ پپیہا، مور) رنگ (گلابی، سبز، سرخ) چمکتی قیمتی اشیاء (موتی، یاقوت)روشنی (سورج، چاند، تارے (نغمے ) اور نغموں کی دھُن (تنن تن تن تنن تن تن) جمالِ محبوب (روشنی۔۔۔ شیریں لب، ہونٹوں کے پیالوں میں شہد) کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ شاعر کے نفسیاتی تخیل اور اس کے احساس اور جذبے کے حسن اور نفاست کی پہچان ہوتی ہے۔ جذبہ مناسب لفظوں اور استعاروں میں مجسم ہو گیا ہے۔ خوشبو، آواز، رنگ اور نغموں کے تعلق سے جو الفاظ سامنے ہیں وہ باطنی آہنگ لیے ہوئے ہیں۔ یہ جمالیاتی اشاروں کی صورتیں اختیار کر کے ذہن کو مفاہیم کی جمالیاتی جہتوں تک لے جاتے ہیں۔ الفاظ اور استعارے اور کلام کی غنائیت اور نغمگی یہ سب قاری اور فنکار کا رِشتہ بن جاتے ہیں۔ یہ تمام الفاظ اور یہ استعارے حسن کے ارتعاشات کے قریب پہنچا دیتے ہیں۔
جشنِ زندگی کے عاشق نے بسنت کے بعد ’شب برات‘ کو ہی خاص موضوع بنایا ہے۔ اس موضوع پر کم و بیش دس نظمیں ملتی ہیں، ان نظموں میں بھی شاعر کا جمالیاتی احساس گہرا ہے۔ اُردو زبان کا پہلا رُومانی شاعر روشنیوں کا عاشق ہے ’شب برات‘ چونکہ روشنیوں کا دلکش تہوار ہے اس لیے اس سے اس کی جذباتی وابستگی ہے:
خدا کے کرم سیتے شبرات آیا
شب برات
خوشیاں کا اُجالا جگت میں دِکھایا
براتاں لے کر آیا ساریاں میں خوش ہو
سب
خوشیاں عشرتاں سوں کہ جگ جگ جگایا
کے ساتھ دُنیا جگ جگ کرنا
مندرجہ ذیل اشعار توجہ طلب ہیں:
خوشیاں عشرتاں ذوق دایم سونت نت
شہا کے مندر ٹمٹمایاں بجایا
درگاہ میں
جو شبرات ات جھلک سوں جگ میں آیا
تو سب جگ اس جھلک تھے جگ جگایا
سے
شرف شبرات تھے سب رات پائے
سے
شرف سب رات تے شبرات پایا
سے
گگن درپن نمن جھکمن لگیا ات
آسمان آئینہ کی مانند روشن ہو گیا
رین روشنی سرج بن دن گنوایا
رات سورج بغیر
رین ظلمات میں جوں خضر کا نیر
رات مثل پانی
ہے مہتاباں کی تاباں کا سمایا
سرج چند تار پھل بازباں تھے رہی دھرت
سورج چاند پھول بازی سے زمین
انبر گلشن تھے روشن جھلک پایا
آسمان سے
تجلی یوں دیا حق قطب شہ کوں
کہ نس کوں دن تھے روشن کر د پایا
رات سے زیادہ کر کے روشن کیا
شب برات کے آتے ہی ایک انتہائی خوشگوار روشنی پھیل جاتی ہے، شبِ برات کی آمد خوشیوں اور عشرتوں کی باراتوں کی آمد ہے، روشنی ہی روشنی ہے، ہر جانب تمام عالم جگمگانے لگتا ہے، چراغوں کے سلسلے قائم ہو جاتے ہیں، چراغوں کی کثرت سے رات اتنی روشن ہو گئی ہے کہ لگتا ہے سورج کے طلوع ہوئے بغیر دن نمودار ہو گیا ہے، دھرتی کے ان چراغوں کا عکس آسمان پر پڑتا ہے تو آسمان آئینہ کی مانند جھلکنے لگتا ہے۔ آتش بازی اور چراغوں کی وجہ سے آفتاب شرم سے چھپ جاتا ہے۔ شب میں نظر نہیں آتا۔ مہتاب چھوڑے جاتے ہیں تو اس کی تابناکی اور تابانی ظلمات میں آبِ حیات کا منظر پیش کرتی ہے، پھول بازیوں سے لگتا ہے جیسے سورج چاند تارے زمین پر اُتر آئے ہیں۔
رین ظلمات میں جوں خضر کا نیر
رات جیسے آبِ حیات
ہے مہتاباں کی تاباں کا سمایا
سرج چند تار پھل بازباں تھے رہی دھرت
سورج چاند پھول بازی سے زمین
انبر گلشن تھے روشن جھلک پایا
آسمان سے
یہ کیسے ممکن ہے کہ زندگی کے جشن یا تہواروں کے جشن کا ذکر ہو اور عورت کا ذکر نہ ہو۔ ابھی ہم نے دیکھا ’بسنت‘ کے رنگوں اور بھیگے بھیگے رنگوں میں عورت کس طرح اُبھری تھی، اس کا جسم کس طرح خوبصورت نغمہ بن گیا تھا۔ عورت تو محمد قلی قطب شاہ کی شاعری کا مرکز، چشمۂ جمالیات ہے۔ جشنِ شب برات میں عورت اور اس کے جمال کی جہتیں اس طرح اُبھری ہیں:
دہن پستے نین شکر اَدھر بند گھریکے نازک
آنکھ ہونٹ پنکھڑی
کہ جوں خشخش نمن باریک ہے خوئے مکھ پہ ناریاں کی
مثل کے مانند پسینہ چہرہ عورتوں
کجل نیناں سہیلیاں کے سوپر مل سیام باداماں
کاجل
تھوڈی ہے سیب دنتاں جوں کے چار ولیاں ہیں چاریاں کی
إ دانت جس طرح
برن اسمانی پانیاں تس منے دالاں ہوایاں کے
جسم اس میں
ٹھسی کندن کی یوں دستی کہ جوں جھیلی ہے تاریاں کی
نظر آتی خوشہ
سورج مشعل، چندر جوتاں، ستارے جونکہ گلریزاں
مثل
دیپائی تنکوں مکھ پیشانی خویاں آکنواریاں کی
چمکائی چہرہ کا عرق
یو حا جب ہور کھڑی بازی نلی پھل جگ میں پرگٹ سو
یہ اور ظاہر
جو ابرو ہور جو بن مکٹ تھے پنجے گلعذاریاں کی
اور سے
نچھل پیالے جو ہیریاں کے کمل ہاتاں میں لے سکیاں
مہروں کنول ہاتھوں
کرن بھنجن اَدھر سے سوں خماراں سب خماریاں کی
توڑنے ہونٹ کی سے
جو سر تھے پگ لگوں موتیاں ہیں دپ ہور جوہریاں ناریاں
سے پاؤں تک چمکتی
سبھیں تو ہے نبیؐ صدقے قطب صاحب جھاریاں کی
جھلکاریاں
*
سہاگن رات شبرات آسجن گھر آئے بھی سر تھے
پھر از سرِ نو
جھلک جوتاں کے ابرن تن چڑا جھلکائے بھی سر تھے
سجن کے پھول سے تن کوں لٹاپٹ ہوا نندوں سوں
عروسانی سو باساں میں اوک مہکائے بھی سرتھے
*
شب برات روزی کا برات پھر لیایا
پیا کا مکھ کا عرق دیکھ سے پیا روشن
شب برات دِکھا دے برس کوں یکِنس جوت
بھنواں ہلال تھے نس دِن ہے موجیا روشن
میرا دِل
*
نین مستی کے گل ریزاں سو بھر کر
نلی طاؤس چک چومن کری رے
لڑاں موتیاں کیاں تج ہنسنے کیاں جھیلاں
کی کی
تو جھیلاں تھے جگت درپن کری رے
سے دُنیا آئینہ
نشانی گال تج مشرق و مغرب
تیرے
بنداں خوئے تار کی سر پر کری رے
بوند پسینے
ترا صورت عطارد کیا لکھے گا
تو قدرت سیتے تن ابرن کری رے
سے جسم پر لباس
عشق کے نو بہار کی توں کلی ہے
پھلاں امریت کے جوبن کری رے
میوۂ آبِ حیات
(کوئلی اور شب برات)
اس رات میں محبوباؤں کے دہن، پستے، آنکھیں شکر کی مانند میٹھی اور ہونٹ گھڑوں کی مصری کی طرح نازک نظر آتے ہیں، اُن کے چہرے پر پسینہ کی بوندیں خنخاش کی طرح باریک دِکھائی دیتی ہیں۔ محبوباؤں کی کاجل لگی آنکھیں باداموں کی طرح، تھوڑی سیب کی طرح اور دانت چار ولیوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ اس رات محبوبہ آتی ہے تو لاکھوں چاند سورج کی روشنی ہوتی ہے۔ دوشیزائیں نغمہ سرا ہوتی ہیں، دُنیا کے دِل میں ایک بار پھر زندگی کا نور پیدا ہو جاتا ہے۔ محبوباؤں کے رُخسار سے عاشق کی آنکھوں میں نور بھر جاتا ہے، اس شب کو زلفِ محبوب کے ساتھ نسبت ہے، محبوباؤں کے جسم پر آرائش و زیبائش سے نور جھلک رہا ہے۔ شب نورانی لباس میں انتہائی پرکشش نظر آتی ہے۔ شبِ برات محبوباؤں کے چہروں سے روشن ہے۔ کسی ایک کا چہرہ سورج ہے تو دوسرے کا چاند۔۔۔ ہر محبوب کا لباس نورتن کا لباس ہے، بادشاہ کو رِجھانے کے لیے شراب کی طرف راغب کر نے کے لیے، یہ تمام محبوبائیں شرابِ عشق پئے ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر چہرہ آفتاب کی مانند روشن ہے، ان کی زلفیں لہرا رہی ہیں اور ان زلفوں کی خوشبو آسمان تک پہنچ رہی ہے، سارا آسمان خوشبو خوشبو ہے، خوشبو میں وہ سحر ہے کہ لاکھوں فرشتے اُتر آئے ہیں، کیسے کیسے پرکشش خوبصورت پستان ہیں ان پر سیاہ بالوں کی لٹیں ایسی نظر آ رہی ہیں جیسے پہاڑوں پر کالے بادل آ گئے ہوں۔ مہتاب کی طرح رُخسار اور پھولوں کے ہار پھول جھڑیاں نظر آتے ہیں۔ ’’پیا باج پیالا پیا جائے نا‘‘ کا معاملہ ہے۔ پیا کے بغیر زندگی کیا، جشنِ زندگی کیا، تہوار کیا، محفل کیا، عورت کی حیثیت مرکزی ہے۔ عورت مسرتوں اور خوشیوں کا سرچشمہ ہے، زندگی کی مستی اسی سے قائم ہے، شراب وہ ہے، نشہ وہ ہے، اس کے حسن کے سامنے شمع پگھلنے لگتی ہے جس طرح سورج کے سامنے اولے پگھل جاتے ہیں:
پگلتے جوں ہولے سورج سامنے
اولے
تجھے دیکھ دھن دوں پگلتا شمع
عورت کی جمالیات کے گہرے احساس نے جو غنائی شعور بخشا ہے اس کی نغمگی شاعر کے کلام میں سرایت کرگئی ہے، اس کا وجود مست مست ہے، لہٰذا ہر شے مست مست ہے۔
موسمِ سرما میں بھلا محبوب کیوں یاد نہ آئے:
ہوا آئی ہے لے کے بھی تھنڈ کالا
پھر
پیا بن سنتا تا مدن بالے بالا
ستاتا
رہن نا سکے من پیا باج دیکھے
نہ رہ سکے دل محبوب بغیر
ہو وے تن کوں سکھ جب ملے پیو بالا
اے سیتل ہوا منج مگے نا پیا بن
مجھے گزرے
مگر پیو کنٹھ لا کرے منج نہالا
گلے لگا مجھے نہال
سجن مکھ شمعے باج اوجالا نہ بھاوے
کی شمع کے بغیر
بھلایا ہے منج جیوں کوں او اُوجالا
میرے دِل کو وہ
جو رات آوے چندنی کی منج کوں ستاوے
چاندنی مجھے
کہ چند نامنجے نہیں نین سوز لالا
میرے لیے چاندنی نہیں بلکہ چشم سوز لال
*
تن ٹھنڈت لرزت جوبن گرجت
ٹھنڈے لرزتا ہے گرجتا ہے
پیا مکھ دیکھت کنچلی کس ہکتے آج
ناری مکھ جھمکے جیسے بجلی
انجل بارک میں سہے اُس لاج
موسموں پر غور کرتے اور موسموں سے لطف اندوز ہوتے عورت کا حسی پیکر (Psychic Image) موجود رہتا ہے، اس پیکر کے اُبھرتے ہی شاعر مست ہو جاتا ہے، خود کہتا ہے:
مکہہ تیرا دیکھ کر میں آج مست
تیرے مکھ کے تئیں ہوا ہوں بت پرست
یونگ (Jung) نے اسے ’’سول امیج‘‘ (Soul Image) کہا ہے۔ اس ’امیج‘ کا تحرّک غیر معمولی ہوتا ہے۔ یہ ’’امیج‘‘ باطن میں عجیب سی ہلچل پیدا کیے رہتا ہے اور پورا وجود مستی میں جھومنے لگتا ہے۔ ’’مکھ تیرا دیکھ کر میں آج ہوا مست‘‘ اسی مستی کی پہچان ہے، جمالِ محبوب عاشق کے پورے وجود کو مست کر دیتا ہے لہٰذا تمام اشیاء و عناصر مست مست دِکھائی دیتے ہیں، ایسی رُومانی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی، محبوب کا پورا وجود غنائی شعور میں جذب ہوتا محسوس ہوتا ہے:
مدن مست بدل مست کجن مست پری مست
عشق کا دیوتا بادل محبت
ہوی مست پون مست لگن مست پری مست
ہوا لگاؤ محبت
چڑھی مست بہی مست ڈالی مست رہی مست
مکھا مست سوا مست سہن مست پری مست
چہرہ
کھڑی مست انچل مست ڈھلی مست اور ہی مست
وہ
گزک مست نقل مست بچن مست پری مست
مٹھائی/بوسہ ذائقہ تبدیل کر نے والی بات
شیرینی
پری مست پیوں مست سرا مست ہوی مست
شراب ہوا
ملی مست کبھی مست رسن مست پری مست
زبان
کھیا مست پھلاں مست کجل مست کھلی مست
پھول کاجل
لٹاں مست نین مست دیکھن مست پری مست
زلف آنکھ دیکھتی ہے
تلا مست طرا مست دھری مست دھڑی مست
ٹیکا مسّی کی تہہ
شکر مست چمن مست ہنسن مست پری مست
چومنابوسہإ ہنسی
چولی مست کھلی مست کمل مست بھنور مست
کنول
قطب مست کری مست یون مست پری مست
جوانی
محبوب کے وجود اور لباس سب پر مستی چھائی ہوئی ہے، محبوب ایک متحرک پیکر ہے، پھول کی مالا ہو، زلف ہو، آنکھیں ہوں، کاجل یا ٹیکا ہو، مسّی کی تہہ ہو، ہنسی ہو، سب متحرّک ہیں مست ہیں۔ پری کی مستی غیر معمولی ہے اس لیے کہ جوانی کی مستی حسن کی کئی جہتوں کو لیے ہوئے ہے۔ عاشق کی مستی ان ہی خوبصورت جہتوں کی وجہ سے ہے۔ عاشق چولی کو دیکھ رہا ہے، مست بھنور میں مست کنول کو دیکھ رہا ہے۔ عورت رنگ ہے، خوشبو ہے، نشہ ہے، شاعر اس کے ہونٹ پر فدا ہے <:تیرے ہونٹاں کے حصّے میں تھے دِلایا منج کوں دوا، اس کی آنکھوں پر عاشق ہے۔ <:نین جھلکار تری بجلی نمن جب جھمکے گی، اس کی زلف میں کشش محسوس کرتا ہے۔ <: زلف کی جدوں میں ہلجیا ہے دیکھو بادِ صبا، جب سگھڑسندری اپنے بال کھولتی ہے تو چمن کے تمام پھول اس کی خوشبو پاتے ہیں، چمن کے پھولوں کو سندری کے بال ہی سے خوشبو حاصل ہوتی ہے:
چمن پھول سب باس خوشبو پائے
سگھڑسندری جب اپس کیس کھولے
بال
عورت کے تعلق سے یہ اشعار شاعر کے گہرے رُومانی جمالیاتی ذہن کو بڑی شدّت سے نمایاں کرتے ہیں:
پیا کے نین میں بہوت چھند ہے
بہت عشوہ
او دو زلف میں جیو کا آنند ہے
سجن یوں مٹھائی سوں بونے بچن
سے
کہ اُس خوش بچن میں لذّتِ قند ہے
*
اَدھر رنگ بھرے سنہتے مانک نمن
ہونٹ رنگین زیب دیتے ہیں موتیوں کی طرح
کہ یاقوت رنگ ان تھے در ساز ہے
سے
*
نین ہیں دو پیاری کے جیسے ممولے
بھنواں کی ترازو سوں بھوچھند تولے
بھوں سے بہت عشوہ
دھن کا دہن ہیریاں کا کھن، لب لعل کندن ہے ذقن
عورت ہیروں کی کان
سُنّے سینے پر کچ رتن نیں ایسی کیس کس یوکری
سونے جیسے سرپستانی کے موتی نہیں ایسی کہیں
جو چولی ناز کی توں جینت پینی
چست پہنی
عجب نیں جو گگن تج گن کوں گاوے
نہیں تیرے
چندر تج مکھ انگے کاں دسے گا
چاند تیرے چہرے آگے کہاں مقابل آئے گا
سورج بی تیری جوت مانگے نہ آوے
بھی روشنی کے سامنے
*
نکر بھانہ پیو مد دیو اپ ادھر تھے
بہانہ اپنے ہونٹ سے
کہ اُس کی مد کی منج کوں لگی ہے خماری
شراب مجھ کو
*
بھواں اَبرو میں مادے برد باندے
بھوں
عشق کے راگ تاں میں بھید باندے
ترے کیس میں کنول ہور سو آدے
بال اور
کمان بھنواں میں کاجل ساجے ساندے
چولی تنگ انگ میں نت نارنگ پنجھی
نین سوکاں سوں مو چت نت پھاندے
آنکھ کے سرمہ سے میرا دِل
ترے دو نین ہیں بدمست متوال
آنکھ شراب کے متوالے
ترے دو گال ہیں خوبی کے گلال
ترے مکھ کی لٹاں نئیں ہیں کہ دو ناگ
چہرہ زلفیں نہیں مگر
سلیماں کی انگھوٹھی کے ہیں رکھوال
انگوٹھی
بھواں تیریاں کوں کیوں لیکھے گا نقاش
یری لکھے
کماں دو کھینچاہے سخت اشکال
سکیاں کے ہات میں دیکھ پیالی مد کی
ہاتھ دیکھے شراب
نہیں دیکھیا اگن کے تئیں جوسیاں
دیکھا آگ کو
توں موتی بے بہا ہے تج بہا نئیں
تو تجھے قیمت نہیں
جگت کا مال ہے تیرا سو پامال
دُنیا
جہاں ہے سیمیاء کا نقش اس تھے
اس لیے
کہے ہیں عارفاں سب اس کوں ش تمثال
پیا ائے ہے رُوپ کا رنگ سوں
کہ چوتا ہے اس مکھ تھے نیر زلال
عورت کی آنکھوں میں جادُو ہے، زلف میں زندگی کا آنند ہے، لفظوں میں لذّتِ قند ہے، ہونٹ رنگین اور دانت موتیوں کی طرح، ہونٹ کا رنگ یاقوتی ہے، دہن ہیروں کی کان ہے، چھاتیاں سونے کی مانند چمک رہی ہیں، سرپستاں قیمتی موتی ہیں دُنیا میں ایسے موتی کہاں! چست چولی کا دلکش نظارہ دیکھ کر کون جانے آسمان بھی جھوم جائے، نغمہ سرا ہو جائے۔ چاند محبوب کے چہرے کے مقابل نہیں آ سکے گا، چاند کا حسن اس کے سامنے ماند ہے، سورج کی روشنی اس کے وجود کی روشنی کے سامنے نہیں آ سکتی، اس جمال کا بھلا وہ کیا مقابلہ کرے گی۔ اے میرے محبوب کوئی بہانہ نہ کر، اپنے ہونٹ میرے حوالے کر دے تاکہ اس کی شراب سے میرا خمار اور بڑھ جائے۔ تیری زلف میں کنول کا رس ہے کہ جس کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے، بھوئیں کمان کی مانند تنی ہوئی ہیں، کاجل کا حسن اپنا جلوہ دِکھا رہا ہے۔ تنگ چولی کے اندر دو پنچھی ہیں، آنکھ میں جو سرمہ ہے اس نے میرے دِل کو جیت لیا ہے، آنکھیں شراب کا نشہ لیے ہوئی ہیں، دونوں گال گلال بنے ہوئے ہیں، یہ جو تیری زلفیں ہیں وہ حضرت سلیمان کی انگوٹھی کی رکھوالی کر رہی ہے، تیری بھوئیں کماں کی طرح کھنچی ہوئی ہیں، سخت، بھلا نقاش کیسے اس کی تصویر بنا سکے گا، محبوب موتی ’بے بہا‘ ہے بھلا اس کی قیمت کوئی کیا لگا سکے گا، ساری دُنیا کی دولت بھی اس کا سودا نہیں کر سکتی:
ترا کنٹھ سَن کویلاں پائیں حظ
آواز کوئل
ترا ننگ دہن دیکھ کلیاں پائیں حظ!
’’کلیاتِ محمد قلی قطب شاہ‘‘ کا مرکزی جمالیاتی پیکر (عورت) روشنیوں، خوشبوؤں، رنگوں، نغموں، راگوں اور راگنیوں کا سرچشمہ ہے۔ اس کے سامنے کوئی بھی روشنی، کوئی بھی خوشبو، کوئی بھی رنگ، کوئی بھی نغمہ اور کوئی بھی راگ اہمیت نہیں رکھتا:
تمھارا حسن دیکھیا جب ہوا ہوں جیوں جمشید
تمھارے ذکر تھے پایا ہوں عمر میں جیوں نوح
سے
حاجت نہیں جو سور چند دن رات یوں نکلیا کریں
بس ہے دِپا نے دو جگت تج مکھ کا درپن چراغ
سرج چاند تج مکھ تھے پاتے فروغ
اَپے دیپ جگ میں دِپاتے فروغ
تمھارا حسن سو قدرت تھے روشنی پایا
ہوراں کا حسن ترے حسن آنگنے جیسے چراغ
تج حسن کیرے دور میں رقاص ہوئے کر
کرتا ہے رقص مستی سوں پا کر گگن اُمس
عورت کا وجود مختلف راگوں کا سنگم ہے۔ اس کے ہونٹ ہر راگ الاپ سکتے ہیں، اس اور ی ہو یا دھناسری، بسنت ہو یا کلیان، گوری ہو یا ملہار رام کلی:
مگت راگاں پیاری اب رگے راگ گاتی ہے
مکھاری راگ گاتی مکھ لہاراں سوں سہاتی ہے
صباحی راگ گا کر منج صبا کے تخت بسلادو
مجھے بٹھاؤ
دھتا سریکا کہہ دھن منج کوں سورنگ پیالا پلاتی ہے
عورت سیکڑوں رنگ
مرے سنگ مل بجاتی سنگھ گاتی سنگھڑا اُبھرتا
سری راگاں جو گاتی استری توں منج کو بھاتی ہے
مجھ کو
۔۔۔۔۔۔
الاپے گا گڑاگڑرا کماں بہوں کا چڑائی ہے
ایک راگ
عشق کی آگ میں ابرو کماں کوشی سکاتی ہے
کہ گوری راگ جو گاوے تو گوریاں کا ملک جنتیوں
سو سارنگ نینی سب رنگ میں سو رنگاں سوں سہاتی ہے
سبھی راگاں کے گل پھل ہار بایا ہے سو ملہارا
گلے میں پھول کا ہار ڈالا
جو گاوے رام کیری رام کر راواں ریجھاتی ہے
رام کیری
*
جو بن حوض میں تو رتن رنگ بھرے
بسنت راگ گاؤ سہایا بسنت
ایک راگ کا نام
*
کرے مشتری رقص مجسہ بزم میں نت
برس گانٹھ میں زہرہ کلیاں گایا
کلیان
راگ راگنیوں کا تعلق ’وقت‘ اور موسموں سے گہرا ہے، عورت ہر ’وقت‘ اور ہر موسم میں ایک نئی میلوڈی (MeLody)ہے۔
’جمالِ محبوب‘ محمد قلی قطب شاہ کا محبوب ترین موضوع ہے۔ جمالِ رُخ پر نظر جاتی ہے تو نظر کے ایسے تجربے اپنے آہنگ کے ساتھ متاثر کر نے لگتے ہیں:
چھبیلی ہے صورت ہمارے سجن کی
ناز و ادا والی
کیا پوُتلی اس کہوں اپ نین کی
پتلی آنکھوں کی
یہ دیکھیا نچھل کوئی اس سار صورت
دیکھا صاف چمکدار مانند
سراؤں کتے زیب اپنے موہن کی
چندا سا دیکھیا مکھ اس سرو قد پر
دیکھا
تو ہوتی ہے شرمندہ پتلی گگن کی
ترا حسن پھل بن تھے نازک ویسے تو
پھول
نہ ویسے تیرے انگے چھپ کوئی بن کی
نین تیرے دو پھول نرگس تھے زیبا
آنکھیں
نزاکت ہے تج مکھ میں رنگین چمن کی
تیرے زلفت پھنداں میں دل عاشقاں کے
رہے ہیں سو عاشق ہو پیو کی نین کی
بنی صدقے قطبا سوں اوپیو لمیا ہے
تو کیا کہہ سکوں بات اس مکھ سمن کی
(رُخِ زیبا)
’’مست شباب‘‘ (سورج تارے دِپائی ہے سندر چندر پشانی میں *مگر رستا ہے عکس اس کا گگن سمد ور پانی میں ) ’’ادائے حسن‘‘ (میں اس نورسوں بعد یا کیا عجب* در جگ روشنی پایا کس نئیں خبر) ’’چنچل نین‘‘ (دو نین تج ابرو تیں ہیں نار کیرے خواب میں * دوست شوقی سوں سہتے مسجد کیرے محراب میں ) ’’ہلال بھوں‘‘ ( نس دن دُعا تھے مو نظر پڑیا ہلال بھوں اوپر*اس روشنی کے سم نہ آوے روشنی خورشید کا) ’’سروِ رواں‘‘ (سرو خوش قد دیکھیا سب سرو کے بن میں عجب*اس کے سر کوئی نہیں سب باغ و گلشن میں عجب) ’’تصویر حسن‘‘ (پیاری ہے نازک کلی جوں چپنے کی*تو ریشم تھے آلے ہیں بالاں کے اُس کھب) ’’کندن کی پتلی‘‘ (نین ہیں پیاری کے جیسے ممولے *بھنواں کی ترازو سوں بھو چھند تولے ) ’’سجن مکھ کا اُجالا‘‘ (سجن مکھ کا اوجالا چند تھے آلا*اِدھر تھے چودے جم امرت پیالہ) وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جو سلطان محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات کی سب سے ممتاز جہت کو نمایاں کرتی ہیں۔ جنسی حسیت بصری تجربوں میں کیا خوب ڈھلی ہے۔ ذکر صورت کا ہو یا زلف (الک، بال) کا، آنکھ (لوچن) کا ہو یا ابرو (بھنواں ) کا، ہونٹ (ادھر) کا ہو یا دانت (دسن) کا، کان (سرون) کا ہو یا پستان (کنج) یا سر پستان (کچ۔ کچوبن) کا، چھاتی پر کسی چولی (کسنان) کا ہو یا آنکھوں میں کاجل (کجلی) کا محمد قلی قطب شاہ اپنے جمالیاتی احساس اور سرمستی سے قاری کے احساسِ جمال پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ تشبیہوں کے خوبصورت نگینوں سے اشعار کو پرکشش بناتے رہتے ہیں۔ کماچ، منڈل، پکھاوج اور طنبورے۔۔۔ اور بسنت راگ، دھناسری اس اور ی، گوری، ملہار کلیان کا یہ عاشق اپنے وجود کے آہنگ کے ساتھ رقص کرتا محسوس ہوتا ہے:
اُمنگاں آپ اُمنگاں سوں اپس میں آپ مل ناچیں
تنت کاتنن ناچیں ہوئے تن تن تنن سارا!
جمالِ محبوب عاشق کے دِل میں رقص کو جنم دیتا ہے، اس کا وجود رقاّص بن جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ خود جمالِ محبوب میں رقص اور تحرّک ہے، اس کا اثر عاشق کے دل پر ہوتا ہے:
ہوئی تج نین پتلی دل میں رقاّص
سدا منج نین کی منزل میں رقاّص
تہیں منج خواب سو بیداری میں دٖیسے
جدھر دیکھوں کھڑی تل تل میں رقاّص
بھواں کی طاق میں سجدا کروں میں
ہوئے سائیں مری محفل میں رقاّص
رقص میں جھوم جھوم جانے اور محبوب کی ہر ادا کو مست دیکھنے اور پورے ماحول اور پوری فضا میں مستی کی ایسی تصویریں اُردو شاعری میں نہیں ملتیں۔ مدن مست، کجن مست، پری مست، پون مست، لگن مست، مکھا مست، کھپا مست، پھلا مست، کجل مست، لٹاں مست، نین مست، دیکھن مست، ہنسن مست، چمن مست، چولی مست، کنول مست، بھنور مست، جھومے جانے اور مستی کی ایسی تصویریں کہاں ملتی ہیں۔ محبت اور لذّتیت بت پرستی میں تبدیل ہو گئی ہے:
مکھ تیرا دیکھ کر میں آج مست
تیرے مکھ کے تئیں ہوا ہوں بت پرست
جمالِ محبوب کو دیکھ کر آسمان رقص کر نے لگتا ہے:
تج حسن کیرے دور میں رقاص ہوئے کر
کرتا ہے رقص مستی سوں پا کر گگن اَس
عورت کے جسم کی لذّتوں سے آشنا شاعر وصل کے موضوع پر بھی اظہارِ خیال کرتا ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کی کلیات میں وصل کے تعلق سے تین نظمیں ہیں۔ ’نقشۂ وصال‘ ، ’عیشِ وصال‘ اور ‘ بعد وصال‘ ۔ تینوں رُومانی جمالیاتی حسی کیفیات لیے ہوئی ہیں۔ شاعر جنسی لذّتوں کے لمحوں کو ’عیش‘ کہتا ہے۔ عاشق کی آنکھیں اس کے وجود کی علامتیں ہیں، آنکھیں محبوب کے حسن کو صرف دیکھنا ہی نہیں بلکہ چکھنا بھی چاہتی ہیں۔ عاشق محبوب کی زبان سے سننا چاہتا ہے کہ عیش کے لمحے کیسے ہوتے ہیں، اپنی ناک سے محبوب کے جسم کی خوشبو سونگھنا چاہتا ہے، خوشبو رشتہ بن جاتی ہے، لذتوں کے لمحوں یا عیش کے لمحوں میں یہ خوشبو پورے وجود میں سما جاتی ہے۔ عیش کے لمحوں میں محبوب کے موتی جیسے ہونٹ آبِ حیات عطا کرتے ہیں۔ عاشق ہونٹ پر ہونٹ رکھتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ جنسی لذّت حاصل ہو۔ اسی طرح رُخسار سے رُخسار ملتے ہیں تو جنس کی خوشبو اور تیز ہو جاتی ہے، محبوب کے بازو گلے کا ہار بن جائیں، محبوب بازوؤں میں سما جائے اور عیش کے لمحوں میں زیادہ سے زیادہ تپش پیدا ہو جائے، چھاتی اور چھاتی مل کر دوست بن جائیں، وصل کی تصویر اس طرح مکمل ہوتی ہے:
بھیٹن کے دو پٹ سیتی دھن کچ کچ اپنا طول کر
سر پستان پستان پستان
ہم دونو کچ سوں کچ لگا کچ کچ کریں ہر بار عیش
پستان پستان پستان
چھاتی ہوں چھاتی ایک کر یک جیب ہور یک میت سوں
اور دوست
تج نکھ سیتی نکھ منج کر نے میں ہے ٹھارے ٹھار عیش
تیرے ناخن ناخن میرے
میرے ترے رَوما دِلی جمنا و گنگا جوں مل اہیں
وہ لکیر جو ناف سے نیچے کی طرف سیدھی جاتی ہے
روں روں سو مچھلی ہوئے کر کرتے ہیں تج گنگ دھار عیش
رواں رواں تیری گنگا کی دھاریں
تیرے میرے پاؤں سکی جوں ناگ ناگن مل رہے
صدقے نبیؐ کرتا قطبت کرتار تھے آپار عیش
خدا کی عنایت سے
(نقشۂ وصال)
وصل کی اس سے زیادہ لذّت آمیز تصویر اور کیا ہو سکتی ہے!
’سیکس‘ کے تعلق سے جو لمسی اور حسی احساسات اُبھرے ہیں اور جنسی عمل کا جو نقش اُبھرا ہے ان سے ایک انتہائی پرکشش ’جمالیاتی فینومینن‘ (Aesthetic Phenomenon) خلق ہو گیا ہے۔ چونکہ اس جمالیاتی فینومینن کا تعلق کئی سطحوں پر قاری کے تجربوں اور مشاہدوں (Observations) سے ہے، اس لیے قاری کے اپنے جذبے میں ہیجان پیدا ہوتا ہے جسے وہ خود ہی زیادہ پہچانتا ہے۔ یہ سچے ّ جذبے (Genuine Emotion) ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ مجرد (Abstract) اشارے نہیں ہیں۔ جو بات کہی گئی ہے صاف صاف کہی گئی ہے اس لیے اس شعری جمالیاتی فینومینن سے حسی اور جمالیاتی سطح پر ایک رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ عاشق کی آنکھیں محبوب کے جسم کو چکھتی ہیں، ہونٹ سے ہونٹ ملتے ہیں اور عاشق کو آبِ حیات نصیب ہوتا ہے۔ جنسی لذّت حاصل کر نے کے لیے ہونٹ ایک بڑا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ بازو گلے کا ہار بن جاتے ہیں، محبوب بازوؤں میں سما جاتا ہے، سینے سے سینہ ملتا ہے۔ سرِ پستان اور پستان سے لذّت حاصل ہوتی ہے۔ ناف سے نیچے کی طرف جو لکیر جاتی ہے وہ گنگا اور جمنا کے سنگم تک پہنچا دیتی ہے اور پھر محبوب کی گنگا کی دھاریں تیز ہو جاتی ہیں، ناگ ناگن کی طرح پاؤں مل جاتے ہیں۔ یہ اپنے سچے ّ جذبے اور اپنے سچے تجربے لگتے ہیں لہٰذا قاری کو ہر لمحہ جمالیاتی انبساط حاصل ہونے لگتا ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات اس طرح جو جمالیاتی لذّت و مسرّت اور آسودگی یا Poetic Relish عطا کرتی ہے اس کی مثال اُردو کی بوطیقا میں نہیں ملتی۔ انسان ہی جنسی عشق کی خوبصورت را ہوں سے گزر سکتا ہے فرشتے نہیں۔ وہ یہ لذّت حاصل نہیں کر سکتے:
محبت کی لذّت فرشتاں کوں نئیں ہے
بہت سعی سوں ہوں یہ لذّت پچھانی
محمد قلی قطب شاہ کی بارہ پیاریاں بارہ جمالیاتی جہتیں ہیں۔ بارہ راگنیاں ہیں۔ ان کے تعلق سے جن تجربوں کا اظہار کیا گیا اُن میں وہی جمالیاتی کیفیت ہے جو بعض راگنیوں کو سنتے ہوئے حاصل ہوتا ہے۔ میں اُنھیں ’’ننھی راگنی‘‘ ، ’’ساونلی راگنی‘‘ گوری راگنی کہتا جاؤں تو شاید غلط نہ ہو گا۔ بارہ پیاریوں کے نام یہ ہیں:
ننھی، ساونلی، کونلی، پیاری، گوری، چھبیلی
لالا، لالن، موہن، محبوب، بلقیس زمانی، حاتم
ان کے علاوہ اور بھی پیاریاں ہیں مثلاً پدمنی، سندر، سجن، ہندی چھوری، رنگیلی، مشتری، حیدر محل وغیرہ۔ کہتے ہیں:
کرو عیش جم بارہ پیاریوں سوں پیارے
کے ساتھ
ان پیاری راگنیوں کے بیان میں شاعر کی جنسی حسیت (Sex Sensibility) بہت بیدار ہے۔
۱۹۹۵ء میں جب ’’راگ راگنیوں کی تصویروں‘‘ پر کام کر رہا تھا (مطبوعہ پبلی کیشنز ڈیویژن، نئی دہلی) تو مختلف راگوں اور راگنیوں کے وہ خاکے بھی میرے سامنے تھے جن کے پیکروں اور جن کی میلوڈی اور آہنگ کے پیشِ نظر فنکاروں نے تصویریں بنائی تھیں۔ محمد قلی قطب شاہ کی بارہ پیاریوں کے متعلق نظمیں پڑھتے ہوئے، وہ پر ترنم خاکے ذہن میں اُبھر نے لگتے ہیں۔ گوری راگنی کا خاکہ اس طرح پیش ہوا ہے، مترنم متحرّک نقش پر نظر رکھئے:
’’سولہ سال کی لڑکی
کانوں پر آم کے پتے ّ لگائے
محبت کے تجربے حاصل کر رہی ہے‘‘
’’کانوں پر آم کے پتے ّ زیورات ہیں
آواز۔۔۔ کوئل کی مانند، نرم نازک، میٹھی
چمکتا دمکتا چہرہ
گوری یہی ہے!
(راگ راگنیوں کی تصویریں، ص۱۱۲)
’’جسم چمپا کے پھولوں کی مانند، وہی رنگ، وہی خوشبو
ایک ہاتھ میں وہ پھول کہ جس سے آرزو پوری ہوتی ہے
یہ گوری راگنی
اروکشی کی طرح حسین ہے۔‘‘
(راگ راگنیوں کی تصویریں، ص۱۱۳)
وسنت راگنی کا ایک نقش اس طرح ہے:
’’سرخ لباس میں ایک خوبصورت عورت
چونکے ہوئے بھولپن کے ساتھ ہر جانب
کچھ تلاش کرتی ہوئی دلفریب آنکھیں۔‘‘
(راگ راگنیوں کی تصویریں، ص۸۹)
’وی بھاس‘ (بی بھاس) راگنی کا ایک پیکر دیکھئے:
’’چاند جیسی صورت، پستان گول اور سخت
صندل کا سفوف استعمال کرتی ہے
ہیرے کا ہار پہنتی ہے،
آنکھیں بڑی، چہرہ ہیجان میں سونے کی مانند سرخ ہو جاتا ہے
عاشق اُسے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں چھوڑتا اور
وہ بھی عاشق سے چپک جاتی ہے تو بس چپک جاتی ہے۔‘‘
(راگ راگنیوں کی تصویریں، ص ۷۶)
بھوپالی راگنی کا ایک نقش یہ ہے:
’’ایک انتہائی خوبصورت عورت
جسم پرکشش
چاند کی مانند چمکتا چہرہ
جھلکتی ہوئی جوانی
زعفران کی مانند مہکتی ہوئی۔‘‘
(راگ راگنیوں کی تصویریں، ص ۷۳)
’ ننھی بہت پیاری ’’راگنی‘‘ ہے، سلطان قلی قطب شاہ نے اس کے تعلق سے جو اشعار کہے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ننھی کو بہت زیادہ چاہتے تھے۔ نو آسمانوں میں بھی ایسی پیاری خوبصورت راگنی یا پیاری نہیں مل سکتی:
ننھی سر تھے اپ کو سنواری عجائب
پھر سے خود عجب طرح
مشاطہ پری ہو نگاری عجائب
نویلی کہ قدسم سرو کد نہودے
کے برابر کبھی
کہ نو کھنڈ منے ہے پیاری عجائب
آسمان
مدن پھول کی رنگ ساڑی بندی ہے
باندھی
سہے آس کی موتیاں کناری عجائب
زیب دیتے ہیں موتیوں کی
تمن یاد کی مستی منج کوں چڑی ہے
تمھاری مجھ کو چڑھی ہے
نین من میں کھلتی خماری عجائب
چشم من
نبی صدقے قطبا ریجھانے کے تائیں
لیے
بجاتا ہے تانا دو تاری عجائب
سرو ننھی کے قد کے سامنے ہیچ ہے
ننھی نے مدن پھول کے رنگ کی ساڑی باندھ رکھی ہے
جس کے کنارے
عجیب و غریب موتی
ٹنکے ہوئے ہیں
اس کی یاد کی مستی چڑھی ہوئی ہے
اور
قطب شاہ
اس کو پاس بلانے کے لیے
درتارے پر عجیب تان بجا رہا ہے!
ننھی پر دوسری نظم یہ ہے:
پرم موتی چوایا ہوں سکیاں گندو خوشیاں سیتیں
پریم ٹپکایا گوندھو سے
کہ مکھ روپاں کے جھلکارے جھمکتے ہیں نوراں سیتیں
چہرہ رُوپ نور
عشق کا داؤ منج سوں کھیلتی ہے او ننھی پیاری
مجھ سے
چندا مکھ پر نوے چنداں دِکھاتی ہے نواں سیتیں
نئے
کہوں تج بھیس کے باساں کہ یا تج بھید کی کہنی
تیرے کہانی
کہ تج باساں کے مہکارے مہکتے عشق جاں سیتیں
تیری خوشبو
مہکتا باس تج تن یوں کہ مہکے سانت کامہ جیوں
خوشبو تیرے
پرم کی بات کرتا ہوں پرم کے عاشقاں سیتیں
ترے نیناں کی جھمکن میں سہاوے بھید کاجل کا
لگے ناچاک دو تن کا نین کے منتراں سیتیں
محمد بال پن تھے ہے محمدؐ کے غلاماں میں
محمد قلی قطب بچپن سے
تو جیتا داؤ میں پنتھاں سوں سارے سنیاں سیتیں
ننھی کے عشق میں موتی بکھیر رہا ہوں
سکھیو
تم سمیٹ کر ان کو خوش خوش گوندھو
ننھی میرے ساتھ عشق کا داؤ کھیلتی ہے
اور اپنے چاند سے چہرہ پر نئی بہار دِکھاتی ہے
اے ننھی
میں تیرے بدن کی خوشبو کا ذکر کروں
یا
تیرے راز کا قصہ بیان کروں؟
تیری خوشبو عاشق کی رُوح میں پراسرار مہک پیدا کر دیتی ہے
تیرے جسم سے خوشبو اس طرح مہکتی ہے جیسے سانت کی بارش سے مہکتی ہو
تیری آنکھوں کی چمک میں کاجل
بہت سہانا لگتا ہے
اور تو اس لیے لگاتی ہے کہ رقیبوں کے منتر تجھ پر کام نہ کریں!
ننھی پر تیسری نظم ملاحظہ فرمائیے:
ہنستی ہے کھلتی ڈلتی پیالا پلاتی منج کوں
میری مستی تیری مستی جو کھن سہاتی منج کوں
نوی ہنسی نوے غمزے پیاری نوے دِکھاتی
جلوے کے راگ گا کر پھر پھر پلاتی منج کو
ہنس ہنس کے لکھ سوں مکھڑے پھل بچھاتی
عشقوں پیالا نازوں پیو کر ڈلاتی منج کو
بولے جو بول مسکاتی بونے میں
یک یک پیالا دے کر نس دن گماتی منج کوں
چکا چکا کر انچل لیتی ہے مور چھب سوں
زلفاں کے پینگ میانے نہہ سوں پنگاتی منج کوں
میں
مستی بوتی ننھی اپ تن اپر چڑائی
اپنے
اے بوتی میں رپے کا چندا دِکھاتی منج کوں
ر وپیہ
خاقانیؔ و نظامیؔ کا قطب شہ ہے شاگرد
شہنامے کی کہانیاں سرتھے سناتی منج کوں
پھر سے
نظم میں ایک ایسی ہنس مکھ پیاری سی لڑکی کا پیکر اُبھرتا ہے جو ہنستی کھیلتی ڈولتی شراب کا پیالہ لاتی ہے، اس کی ادا دیکھ کر مستی چھا جاتی ہے، وہ ایک مترنم جلوہ ہے، شاہ کے قریب جاتی ہے، لیکن اپنی صراحی سے شراب کا پیالا بار بار نہیں دیتی، للچاتی ہے غالباً اس لیے کہ شاہ شراب زیادہ نہ پئے، مشکل سے ایک ایک پیالہ دیتی ہے، محبت کے معاملے میں نا تجربہ کار تو ضرور ہے لیکن شاہ سے محبت بھی کرتی ہے اور اسی محبت کی وجہ سے اپنے عاشق کو شراب کے زیادہ نشے سے دُور رکھنا چاہتی ہے۔ اس نظم سے ایک چنچل لڑکی کی تصویر سامنے آتی ہے۔ ’’ننھی راگنی‘‘ اس طرح دوسری راگنیوں سے مختلف ہو جاتی ہے۔ معصومیت اور بھولپن سے دل کھنچتی ہے، مسکان میں ایک عجیب جادو ہے۔ بھیروی راگنی کی جو تصویریں بنائی گئی ہیں اُن کا آہنگ بھی اسی نوعیت کا ہے، مثلاً:
’’وہ انتہائی حسین ہے
بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں ہیں،
سرخ چولی ہے
گلے میں چمپک کے پھولوں کا ہار ہے
پورے انہماک اور شردھا کے ساتھ شیو کی عبادت کرتی ہے
شیو کے لیے نغمہ خلق کرتی ہے، اسے سناتی ہے اور تال دیتی ہے
کنول کی مانند کھلا ہوا خوبصورت چہرہ
سانپ کی مانند لہراتی زلف
ہاتھ میں کنگن
کان میں پھول
ذہن میں محبوب رچا بسا
وصل کی آرزو لیے۔ (راگ راگنیوں کی تصویریں، ص۳۷)
ننھی محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات کی ایک بہت ہی دلکش جہت ہے۔ چوتھی نظم میں یہ جمالیاتی جہت زیادہ پرکشش بن جاتی ہے اور جمالیاتی انبساط عطا کرتی ہے:
نازک ّننھی بالی محبت میں سوا نا جانے ہنوز
لوچن کجل جھمکیں ولے بارے نہ پہچانے ہنوز
کاجل
نہہ پرسومن دھرتے نہیں، شیشے سر اُبھرتے نہیں
میں شراب
پیالی میں مد کرتے نہیں، مج عرض نامانے ہنوز
امید مج تیرا ا ہے، تج قول کوں سیرا ا ہے
معشوق توں میرا ا ہے، جانے نہ دِل لانے ہنوز
تھن پن کے کھیل مولاں نہیں، امرت ادھر قولاں نہیں
مکھ صاف تیں بولاں نہیں اپ نرخ نا جانے ہنوز
اپ، اپنا
قطب زماں کوں جان توں، نہہ کے بچن میں آن توں
دے عشق کیرے دان توں کیتا اپس تانے ہنوز
اس کے ساتھ ’ننھی‘ کے تعلق سے پانچویں نظم کا بھی مطالعہ کریں تو اس پرکشش جمالیاتی جہت کی قدر و قیمت کا اور اندازہ ہو گا۔ اس نظم میں دوسری نظموں کے مقابلے میں اشعار زیادہ ہیں:
دوڑ کر لاج سو انچل ودننھی لٹکی چمن
اَس ننھی ڈال اوپر کیوں لگیا ہے سیو یون
سوکا سوں کریں جو ّغصہ و ناز کی بات
جب ہونٹاں تھے جھڑے پھوئی جیومنگے اسکوں مگن
نیہہ نہالاں میں لگیا یک جھاڑ کوں خوش پھل رتن
باغ کا ہے اُدسِر ومانی خدا رکھ آں جتن
او بہشتی باس سوں کھیلئے ہیں پھل سب جگ منے
اس کی باسان کن پناسے سب خطا ہور سب ختن
کوئی نہ پاسکے
جب کتاں کے بھید گندالسے ہے نٹ نٹ کارسوں
اوہنکاراں ناؤسن کر گڑبڑائے سب پتن
عشق کے طبلاں بجے دایم بہشتی عدن میں
بھید اولے کر دِکھاتے ہیں ارت اپنے نین
تیرے مکھ تھے پائے ہیں سب خوبرویاں روشنی
جوہراں کیا کم تجھے دستے ہیں تج مُکھ پرلچھن
چندنی میں جب چھند سوں لٹکے تو چندا جائے چھپ
آرتی ہونے تج اُوپر آتے تارے گگن
یہ چنچل پیاری جب سبز آنچل ڈالے پھولوں کی کلغی لگائے سامنے آتی ہے تو شراب کا خمار اور بڑھ جاتا ہے۔ عشق کے راز سے خوب واقف ہے۔
کنولی پر تین نظمیں ہیں، چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
لے کھڑی کنولی پیاری اپنے ہت میانے پیالا
ہاتھ میں
لے بچکتی ہے ہلکنی میں پون جیون ہرن والا
ہوا
عشق بتاں تھے لگے ہے میرے نین میانے قماری
سے میں
نین لذّت منج چکھا کر میرے تن میں کراو اُجالا
آنکھ مجھے
کھینچتی کھنچاتی کھڑی ہے پیاری اپنی کھج سیتیں
سے
انچل اوجھل تھے نچاتی ہے نین پتلیاں کا چالا
سے
نورتن روشن ہوئے ہیں اس کے انگ کے رنگ سی
جسم سے
چاند سورج کے حمایل بائے ہیں گلے کنٹھ مالا
*
تج قد دیکھ سرواں ہاکے کئے ہیں بن میں
تیرا کمر
تج قد سہاوتا ہے جنت کرے چمن میں
دو لب ترے رنگیلے یاقوت کوں دئے رنگ
لے بھیک رنگ عقیقاں رنگین ہوئے یمن میں
میں نجانوں کیسے نوراں تھے ہوئی تو آفریں
سب پنکھی چھوڑے ہیں تیرے جوت تھے اپنا وطن
سے
منج اُوپر کا ہے چڑاتی ہیں بھنواں کا تم کماں
غمزے کے ناوک سوں دیو اپنے ہونٹاں کا چومن
اے معانیؔ ختم کرہے تیرا گوہر بہوبہا
مصطفیؐ و مرتضیٰؑ منج کوں کمر باندے کسن
ایسی تمام نظمیں جو ’’پیاریوں‘‘ پر لکھی گئی ہیں ’’شرینگار رَس‘‘ سے بھری ہوئی ہیں۔ محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات میں یہ بات بہت اہم ہے کہ رقیب موجود نہیں ہے۔ کہیں کہیں رقیب کی جانب معمولی سا اشارہ تو ہے لیکن رقیب کا کوئی کردار نہیں ملتا۔ رقیب کی جانب جو کہیں اشارہ ہے وہ شاعری کی روایت کی وجہ سے ہے۔ رقیب کے نہ ہونے کی وجہ سے ’کرودھ رَس‘ (Krodha Rasa) موجود نہیں ہے، عاشق اور محبوب کے درمیان کوئی نہیں ہے اس لیے ’اُتساہ بھو‘ (Feeling of Spiritedness) کو اُبھر نے کا خوب موقع ملا ہے۔ جذبے کے اظہار میں زبردست فطری تو انائی کی پہچان ہوتی ہے۔ ’اُتساہ بھو‘ کے اُبھر نے کی وجہ سے ’رتی رَس‘ (Rati Rasa) (جنسی محبت کا احساس) ٹپکتا رہا ہے اور شہد جیسی مٹھاس دے کر جمالیاتی انبساط دیتا رہا ہے۔
محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات کی ایک اور بڑی خصوصیت یہ ہے کہ محبوب ظالم نہیں ہے، محبوباؤں میں کوئی محبوب ظلم نہیں کرتا، فارسی روایت میں جو ظالم اور قاتل محبوب ملتا ہے وہ یہاں نظر نہیں آتا، محبت اور جنسی محبت کی حد درجہ رُومانی فضا قائم ہے۔ عجیب سرشاری ہے، ظالم اور قاتل محبوب کا ذکر فارسی اور اُردو شاعری میں موجود ہے۔ قلی قطب شاہ کے بعد میرؔ اور غالبؔ نے بھی ظالم اور قاتل محبوب کے پیکر تراشے ہیں۔ غالبؔ نے تو کہیں کہیں ایک ڈراما خلق کر دیا ہے۔ امیر خسرو کا یہ شعر یاد کیجیے، محبوب کیسا قاتل ہے کہ موت بھی کانپ کانپ جاتی ہے۔ موت عاشق کو ظلم سے بچانے کی کوشش کرتی ہے۔ سفارش کرتی ہے، مجبور ہو جاتی ہے تو ظلم کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے:
ستم در عہدِ تو زنگو نہ خونین شد کہ ہر ساعت
اجل بہر شفاعت آید و دست ستم گیرد!
محمد قلی قطب شاہ نے فارسی شاعری کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اُنھیں اس روایت کی یقیناً خوب واقفیت ہو گی، وہ اس روایت سے اس لیے بھی دُور رہے کہ ان کی بنائی ہوئی رنگین دُنیا میں کوئی بے وفا نہ تھا، محبوباؤں کی کمی نہ تھی، وہ ہر محبوب پر جان چھڑکتے اور ہر محبوب اُن پر جان نچھاور کرتا تھا، یہاں محبوباؤں کی اداؤں اور ان کے حسن و جمال کی قدر کی جاتی تھی۔ رقیبوں اور محبوب کے ظلم و ستم اور ’’قاتلانہ رویے‘‘ سے یہ دُنیا ہی علیحدہ تھی۔
ننھی نازک ہے، الھڑ ہے، پیار و محبت کی دُنیا میں اس نے ابھی ابھی قدم رکھا ہے، خوبصورت آنکھوں میں کاجل کا اپنا جمال ہے، عاشق کو للچاتی ہے، بار بار شراب نہیں دیتی، عاشق کو اس کی یہ ادا بھی پسند ہے، عاشق اس کے رس بھرے ہونٹوں کو للچائی نگاہوں سے دیکھ کر کہتا ہے آبِ حیات کی طلب ہے۔ ننھی کم باتیں کرتی ہے تو عاشق کہتا ہے شاید اس کا سبب یہ ہے کہیں آبِ حیات چھلک نہ جائے۔ ننھی، ننھی سی ڈالی ہے، جانے ابھی سے اس پر پھل کیوں لگ گئے۔ چمن میں شرم آتی ہے تو شرم سے آنچل ڈال لیتی ہے۔ سبب یہی ہے کہ وہ اپنے جسم میں خوشگوار تبدیلی کو سمجھ رہی ہے۔ پھل جو لگ گئے ہیں ننھی سی ڈالی پر! ناز سے خط سرمہ کے اشارہ سے بات کرتی ہے اور اس کے ہونٹ عرق آلود ہو جاتے ہیں تو جی چاہتا ہے اسے دیکھتا ہی رہوں۔ بڑا دلکش اور رسیلا نظارہ ہوتا ہے۔ اے مالک ننھی میرے باغ کا ایک سرو ہے اس کو اپنی حفاظت میں رکھو، اس کی خوشبو بہشت کی خوشبو ہے کہ جس سے دُنیا کے تمام پھول کھلتے ہیں، اس کی خوشبو کوئی نہیں پاسکا، وہ خطا ہو یا ختن۔ جتنے خوبصورت چہرے دِکھائی دیتے ہیں سب نے تیرے ہی چہرے کی روشنی لی ہے۔ تیرے چہرے کو زیورات کی ضرورت ہے اور نہ جواہرات کی۔ جب تو چاندنی میں نکلتی ہے تو چاند چھپ جاتا ہے اور تمام ستارے آسمان سے اُتر کر تجھ پر نثار ہونے کو آتے ہیں۔ نہیں معلوم تو نے کس نور سے جنم لیا ہے، تمام پرندے تیری روشنی کے لیے اپنا اپنا وطن چھوڑ کر آئے ہیں، اس طرح نہ دیکھ کہ لگے تو غصے میں ہے، بھوں کی کمان چڑھا کر نہ دیکھ، تو مجھے صرف بوسہ دے، اپنے ہونٹوں کا اور بس!
’’رتی بھو‘‘ (Rati Bhava) اور شرینگار رَس سے شاعر نے ایک خوبصورت پیکر کو سامنے رکھ کر ایک پرکشش جمالیاتی فینومینن (Aesthetic Phenomenon) خلق کر دیا ہے۔ اُردو بوطیقا میں آئندہ بھی ایسے دلفریب، رُومانی اور رس بھرے تجربے نہیں ملتے۔
’سانولی‘ دوسری جمالیاتی جہت ہے۔ کلیات میں سانولی پر تین نظمیں ہیں۔ سانولی سانولے پن کا حسن لیے ہوئی ہے۔ تینوں نظموں سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:
میری سانولی من کی پیاری دیسے
دِل نظر آئے
کہ رنگ رُوپ میں کو نلی ناری دیسے
نظر آئے
سہے سب سہیلیاں میں بالی عجب
سرو قد ناری اوتاری دیسے
اوتار
سکیاں میں ڈولے نیہہ بازی سوں جب
او مکھ جوت تھے چند کی خواری دیسے
اُس کے سے چاند
توں سب میں اُتم ناری تج سم نہیں
تیرے مقابل
کویل تیری بولاں تھے ہار ی دیسے
تیری چال نیکی، سبھی من کوں بھائے
سکیاں میں توں جوں پھل بھاری دیسے
پھول
بہوت رنگ سوں آپ رنگیاں سکیاں
ولے کاں ترے رنگ کی ناری دیسے
*
پیا سانولا من ہمارا بھلایا
نزاکت عجب سبز رنگ میں دکھایا
رنگیلی دھڑی اَس اَپریوں سہاوے
اس ہونٹ کی اس طرح
کہ اپ رنگ سوں جگ رنگیلیاں رجھایا
آپ
چنچل سیتی رلیاں کیا آج سب نس
انند سطہر باں سوں خوشی سوں گنوایا
ہستے آس کنول مکھ تھے چھڑتے ہیں موتی
سے
تو آس شاب سوں موتی جگ جگمایا
*
ننھی سانولی پر کیا ہوں نظر
خبر سب گنوا کر ہوا بے خبر
نین چلبلائی سوں کرتی ہے ناز
ہمن روں روں بھیدیا ہے اس کا اثر
ہَسا جب کرے ناز و وچھل سیتی
وہ سے
دسَن جوت منج کوں دسیں جوں قمر
ترا سروقد نکلے جب چھند سوں
اُڑے کھونپے کا تج اَپر تب چنور
سودھن کسوتاں کر جوں آئی انگن
اُجالا وو کسوت تھے پایا انبر
اس سے آسمان
موتی رنگ کا نمیننی پینے توں
پہنے
دیسے منج نظر تل بہشتی سندر
دِکھائی دے میری
پہلی جمالیاتی جہت ننھی ہے، خوبصورت، نازک، قد اور ، چاند کی طرح روشن چہرہ، جسم خوشبوؤں سے بھرا ہوا، خوبصورت آنکھوں میں کاجل، مدن رنگ کی ساڑی پہنے ہوئے جس کے کنارے حسین موتیوں سے بھرے ہوئے، ہنس مکھ، ظریف، حاضر جواب، بہت جلد جیسے جوان ہو گئی ہو، شراب کی صراحی اور پیالہ لیے ہوئے عاشق کو زیادہ پلانا نہیں چاہتی۔
دوسری جمالیاتی جہت ’’ساؤنلی‘‘ ہے سانولے پن کا حسن لیے ہوئے، بہت نازک، شوخ آنکھیں، چمکتے لباس میں خوش خرام، چمکتے ہوئے موتیوں جیسے دانت، دل میں پیار لیے، قد اور ، عشق کے کھیل میں سرو کی مانند جاذب نظر، چہرہ چمکتا ہوا چاند کی مانند، سریلی نفیس آواز ایسی کہ کوئل بھی شرمندہ ہو جائے، سانولے پن کا حسن ایسا کہ اپنی سہیلیوں کے درمیان نادر پھول نظر آئے۔ سبز رنگ میں جلوہ گر ہو کر دل کھینچ لیتی ہے۔ ہونٹوں پر پان کی رنگینی، ہنستی ہے تو اور خوبصورت لگتی ہے، منہ سے جیسے موتی جھڑتے ہوں، عاشق کے ہوش و حواس کو گم کر نے والی، آنکھوں میں ایسی شوخی کہ عاشق کا پورا وجود متحیر ہو جاتا ہے۔ لمبے بال، موتی کے رنگ کی نیم تن پہنتی ہے تو عاشق کو ایک بہشتی حور نظر آتی ہے۔
تیسری جمالیاتی جہت کونلی ہے۔ دُبلی پتلی، جوڑے میں پھول لگائے ہوئے، شرم و ناز اس کی خصوصیات ہیں، آنچل کے اندر سے اپنی آنکھیں نچاتی ہے تو دل پر قابو نہیں رہتا۔ اس کے جسم کے رنگ سے نورتن کو روشنی ملی ہے، قد ایسا کہ اسے دیکھ کر سرو معنی خیز اشارے کر نے لگتے ہیں۔ ہونٹ ایسے کہ یاقوت ان کا رنگ مانگے اور عقیق بھیک مانگے۔ کمر پتلی اور بہت نازک، گلابی آنکھوں میں سمندر کی موجیں ہیں، بال رنگا رنگ ہیں:
گلابی نین میں تیرے سمد پور موج مارے
سمندر پورا
سرج سے گال پر دنت نورتن مانگ چڑی ہے
سورج دانت
بہو رنگ رنگ بالے بال ہے تج میں چنچل اتہہ
بہت
سہنے تج راج ناریاں کا کہ تو گنوت پری ہے
چوتھی جمالیاتی جہت پیاری ہے۔ ’پیاری‘ پر پانچ نظمیں ہیں، چند اشعار ملاحظہ کریں:
تمن مکھ کا نور جب دیکھوں میں
تمھارے
او یک چھن منجے سو برس کا ہے کاج
*
جوانی و جوبن ہے سب پاؤنا
کہ تج تھے ہو وے عیش سائیں کو جم
*
پلاتی مدھرا پیالا مرے تیں مد بھری پیاری
شہد
محمد قطب ہت کنگن بندھی ہے لاکھوں چاواں سوں
کے ہاتھ میں
*
پیاری تیر نے بچھڑے تھے رین منج نیند آوے نا
بچھڑنے کی وجہ سے رات ہے
توں قدت کی گھڑی تج بن گھڑی پیرت مو بھاوے نا
تیرے بغیر مجھے نہیں بھاتی
سچی تج رات کا ایک رات، منج سو رات ہو دستا
واقعی تیری نظر آتا
کنا کس سیج رہنا میں، جوتوں سیج اَپ بلاوے نا
اپنے
تری باتاں ‘ تری دھاتاں ‘ تری ریتاں اے بہودھات
ریت، رسم
دیتی جیکچ توں گالیاں دے بوسی دلاوے نا
بوسے
پیاری چوتھی جمالیاتی جہت ہے۔ اپنے حسن و جمال پر نازاں، عاشق اُسے عزیز تر رکھتا ہے۔ بات بات پر خفا ہو جاتی ہے۔ عاشق بار بار سکھیوں سے کہتا ہے وہ جائیں اور اُسے منا لائیں۔ بلاشبہ وہ حسین اور خوبصورت ہے، اگر وہ اپنے جمال پر نازاں ہے تو غلط نہیں ہے۔ عاشق اس کے بغیر جی نہیں سکتا، پیاری کے چہرے کے نور کو دیکھتا ہے تو لگتا ہے جیسے سو برس کی خوشیاں نصیب ہو گئی ہیں۔
عاشق یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اپنے حسن و جمال پر زیادہ غرور نہ کرو اس لیے کہ جوانی گزر جائے گی، حسن بجھ جائے گا، ٹوٹے ہوئے موتی کی قیمت کم ہو جاتی ہے۔ جوانی تمھیں اسی لیے عطا ہوئی ہے کہ تو اپنے عاشق کے ہر لمحے کو عیش کا لمحہ بنا دے۔ پیاری جب خود کو سنوار کر آتی ہے تو اس کے چہرے پر پسینے کی بوندیں ایسی لگتی ہیں جیسے پھول پر شبنم۔ دُور رہتی ہے تو عاشق جدائی میں تڑپنے لگتا ہے۔ اُسے نیند نہیں آتی۔ یاد آتی ہے تو صرف وہی اور جب وہ یاد آتی ہے تو کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ عاشق کے قریب آ اور اپنے ہونٹوں کا رس ڈال دے تاکہ وہ صحت مند ہو جائے۔ پیاری کے ساتھ ایک رات گزارنا سو راتوں کے برابر ہے۔ جب بلائے گی تب ہی تو آؤں گا۔ پیاری کی چال، گفتگو کا انداز، تیور سب مختلف ہیں، رفتار ایک طرح کی نہیں ہوتی، گفتگو کا انداز بھی ایک جیسا نہیں ہوتا، تیور بھی بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی اس کی باتیں ایسی تیز ہوتی ہیں جیسے کٹاری چل رہی ہو، چوٹی پر نظر پڑتی ہے تو لگتا ہے سیاہ ناگ بیٹھا ہوا ہے جس کا زہر مارے ڈالتا ہے۔ حد درجہ تلخ ہوتا ہے جس کا زہر، جب پیاری اس ناگ سے کھیلتی ہے تو لگتا ہے جیسے وہ سپیرا بن گئی ہے۔ عاشق بھنورے کی طرح اس کے گرد گھوم گھوم کر اس کی خوشبو لیتا ہے، جسم سے صندل اور مشک کی خوشبو آتی ہے۔ پیاری پر پانچ نظمیں ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
عجائب ہے قسمت تمن حسن کی
کہ اس تھے سہاتا ہے عشویاں کا ساج
سے
تمن مکھ کا نور جب دیکھوں میں
تمھارے
اویک چھن منجے سو برس کا ہے کاج
*
جوانی و جوبن ہے سب پاؤنا
کہ تجھ تھے ہو وئے عیش سائیں کوں جم
سے
*
چوٹی تیری سو ناگ ہے ہور زہراس میں کڑوا
اور
آو گھڑ کھیلاں میں دستی توں ساچل سنپارا
نظر آتی تو سنپیرا
پھر پھر بھنور کے نمنے تج باس ہوں تولیو وں
مانند تجھ خوشبو
اس باس میں نہیں ہے نرگس کا خمارا
خوشبو
دیکھ دیکھ صندل کوں لانا مشک کوں لانا
نوتن کی باس آتا سچلا جیا سنبارا
پیاری تیرے بچھڑے تھے رین منج نیند آوے نا
بچھڑنے کی وجہ سے رات مجھے
توں قدرت کی گھڑی تج بن گھڑی پیر شوبھاوے نا
تیرے بغیر مجھے نہیں بھاتی
سچی تج رات کا ایک رات، منج سو رات ہو دستا
واقعی تیری
کناکس سیج رہنا میں، جوتوں سیج اپ بلاوے نا
کہہ نا آپ
پانچویں جمالیاتی جہت گوری ہے۔ کلیات میں گوری پر تین نظمیں ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
سہاتا ہے مکھ حسن گوری کا شاب
چہرہ
او مکھ چند پہ چند کیاں ہیں لاجوں نقاب
اسی چاند جیسے چہرہ پر چاند
او قد سرو نیں ہے کندن کا نہال
وہ نہیں
جھمکتا ہے تو اُس تھے سورج کا تاب
سے
توں رنگ رس کی باغ کی ہے کلی
تو
تو چوتا ہے جیون کا تج مکھ تھے آب
ٹپکتا زندگی تیرے سے
رسالے ادھر ہیں ترے مدبھرے
رسیلے ہونٹ
سو کرتے ہیں عشاق دِل کوں کباب
کو
کہوں زلف یا تازہ سنبل سُہی
او مکھ پھول پرجوں کہ چند پر سحاب
اس چاند
تری چال مدمست تھے لاجیں گنج
سے شرمائیں ہاتھی
نہیں اُن میں اے بھید ہور ائے شتاب
یہ ا ور یہ تیزی
نبی صدقے قطبا سوں گوری ملی
سے
تو گل با نہ دے اُس سوں پیویے شراب
گلے کے ساتھ
*
عشق کی پتلی ہے گوری رنگیلی
چتر ناریاں میں دستی ہے چھبیلی
سہیں تج پدمنیاں کے رُوپ بزماں
زیب دیں تجھے
کہ ہے چندر مکھیاں میں توں رسیلی
پانچویں جمالیاتی جہت گوری خوبصورت پھولوں جیسے نرم و نازک اور شگفتہ جسم سے پہچانی جاتی ہے، چہرہ چاند کی مانند روشن، پیشانی نور کا مرکز، خوبصورت دلکش زلفیں، اُبھرا ہوا سینہ اور رَس ٹپکتے ہونٹ!
گوری کا چہرہ دیکھ چاند شرما جاتا ہے اور پھر چھپ جاتا ہے
قد سرو جیسا نہیں ہے بلکہ کندنی درخت ہے جس سے سورج جیسی شعاعیں نکلتی ہیں
گوری۔۔۔ رنگ اور رس کے باغ کی کلی ہے
چہرے سے زندگی کی تشنگی بجھتی ہے
رسیلے ہونٹوں میں شراب ہے
جس طرح چاند پر ابر کی تصویر دِکھائی دتی ہے اسی طرح زلفیں پھول جیسے چہرہ پر بکھر جاتی ہیں
چال دیکھ ہاتھی مستانہ چال بھول جاتے ہیں گوری کی مستانہ چال میں
جو نزاکت اور شوخی ہے وہ بھلا ہاتھی کی چال میں کہاں:
عاشق اس کے گلے میں ہاتھ ڈال کر شراب پیتا ہے
گوری عشق کی ایک رنگین پتلی ہے
چہرے پر پدمنیوں کے چہروں کا حسن ہے
*
چاند جیسی صورتیں رکھنے والیوں میں گوری منفرد ہے
سر پر نور کا جلوہ ہے
جوبن کا پیالہ ہاتھ میں لیے کھڑی ہے
جسم۔۔۔ پورا جسم جیسے خوبصورت خوشبو بھرے پھولوں سے بنا ہے!!
چھٹی جمالیاتی جہت چھبیلی ہے جو رُخسار پر تل سے پہچانی جاتی ہے۔ آنکھیں ایسی کہ جیسے شکار کی تاک میں ہوں۔ چھبیلی پر صرف ایک نظم ہے۔ اس نظم کے یہ اشعار توجہ چاہتے ہیں:
چھبیلی سوں لگیا ہے من ہمارا
کے ساتھ لگا
کہ اَس بن نہیں ہمن یک تل قرارا
بغیر ہم کو ایک پل قرار
صبوری کون نہیں ہے ٹھار دل میں
جگہ
صبوری کیوں کرے سو کرنہارا
ٍ کر نے والا
الک پھانسی سوں پنکھی جیو پکڑنے
دِکھائی گال اوپر تل کا چارا
’لالا‘ ساتویں جمالیاتی جہت ہے۔ ’لالا‘ پر چار نظمیں ہیں۔ لالا کے ہونٹ دلکش اور پرکشش ہیں، ہونٹوں میں آبِ حیات ہے۔ سرپستاں سے جوانی ٹپکتی ہے۔ چال مستانہ ہے جو دیکھنے والوں کو مست کر دیتی ہے۔ بہت ہنس مکھ ہے، خود بھی ہنستی ہے دوسروں کو بھی ہنساتی ہے، اپنی ہنسی سے رات کو دِن میں تبدیل کر دیتی ہے، عشق کی چاہت لیے ہوئے ہے، چاہے جانے کی آرزو تیز ہے۔
چند اشعار پیش کرتا ہوں:
ادھر کا پیالا دے ہونٹاں ہوالا
ہونٹ
توں کر پھول مالا توتن جاوے جھالا
عشق میں مست متوالی ہوں لالا
توں اپ ادھراں تھے منجکوں دنیا پیالا
اپنے ہونٹوں سے مجھ کو
سرا کے سر نیں او رس سرس ہے
شراب وہ
اَدھر رنگ میں حیات آب ز لالا
ہونٹ
بھٹی جوبن جوانی بھینٹی سوں
مو دل میخانہ پیالا دیو گلالا
میرے دِل کے میخانے کو
آٹھویں جمالیاتی جہت ’لالن‘ ہے۔ ’لالن‘ پر تین نظمیں ہیں۔ لالن کم عمر ہے، نادان ہے، ہونٹ چھوٹے ہیں، ہنس جیسی چال ہے، بہت نازک ہے:
چترماتی کے ہت تھے لیو پیالا
ہاتھ سے
نقل اس کا اَدھر پر ہے حوالا
ہونٹ
کلی پھول تھے بھی نازک اولالن
سے
پھولے ہے او چھب دیکھو کر تو ہی نارا
وہ
تجھے دیکھن تھے پاوے سکہ سوتن میں
تجھے دیکھنے سے میرے
کہ جھمکیا ہے مرے دو نین میں توں
دو آنکھیں
’موہن‘ نویں جمالیاتی جہت ہے۔ اس پر تین نظمیں ہیں۔ آنکھوں میں سحر ہے، چہرہ ایسا کہ لگے دعوتِ وصل دی جا رہی ہے۔ آنکھوں میں رات کا خمار، پیار و محبت میں دیوانگی کی حد تک چلی جاتی ہے:
تمھیں منج تولجاتی سیج اوپر
تم مجھے
ولے دیود اَدھر کا منج اوہارا
ہونٹ مجھے
پرت تازی لگی ہے منج سکی موہن پیاری سوں
محبت مجھے سے
بندہیا ہوں دل او چا ترچھند بھری کنونت ناری سوں
باندھا وہ
کیاں کسوت سکیاں ہر یک پرن کی اس چند مکھ کوں
سہانی سبز ساری سوں شفق انچل کناری سوں
اجھوں دستیاں ہیں تج مکھ میں نشانیاں سائیں انگ سنگ کیاں
اب تک نظر آتی تیرا چہرہ کے جسم کی قربت کی
اجھون گھلتی اہیں تیری نین، نس کی خماری سوں
رات
دسویں جمالیاتی جہت ’حیدر محل‘ ہے۔ اس کے تعلق سے تین نظمیں ہیں۔ عشق اور عیش و عشرت کا استعارہ ہے، سرو جیسے قدپر نورتن کا جلوہ نظر آتا ہے۔ اپنی پیشانی پر عشق کا قشقہ کھینچتی ہے، اس کے ساتھ ہی ہر جانب راگ سنائی دینے لگتے ہیں، عشق کی چادر اوڑھ کر سرخ نظر آتی ہے۔ عاشق نے اُسے بہت عزیز بنا رکھا ہے، دل سے دل بندھ گیا ہے۔ عشق کے پراسرار راگ سے واقف ہے، بال میں کنول کی تازگی اور آفتاب کی چمک ہے، کاجل لگاتی ہے، نارنجی رنگ کی تنگ چولی پہنتی ہے، عشق و محبت جلوہ گاہ ہے۔ عاشق اسے اور قریب بہت قریب لاتے رہنے کا خواہش مند ہے:
حیدر محل میاتے نابات گھول ساجے
دن دن انند سینے طیلاں مدن کے باجے
سے
اَس سرو قد کے اوپر جلوہ ہے نور تن کا
عشق کے پاتراں سب اَس کاس دیکھ لاجے
چادر عشق کا دوڑے جوں بربہوٹی دیسے
اوڑھے جیسے نظر آئے
تیرے عشق کے لاجاں دیکھے ہیں لاجوں بھاجے
بھواں ابرد میں مادے بر دباندے
عشق کے راگ تاں میں بھید باندے
ترے کیس کنول ہور سور آو وے
اور
کماں بھنوآں میں کاجل سارج ساندے
’محبوب‘ گیارہویں جمالیاتی جہت ہے۔ ’محبوب‘ پر دو نظمیں ہیں۔ چند اشعار سنئے:
دل چمن میں او پری ناز سوں دستی محبوب
وہ
سرو سنگار کے بن میں کھڑی ہنستی محبوب
پھل گلالاں ایسے گالاں تھے ہوا بلبل مست
پھول سے
رنگیلا جام لے اب ہت منمے کستی محبوب
ہاتھ مجھے
جگت حسن میں ہے تیرا حسن محبوب
میں طالب ترا ہوں مرا توں مطلوب
ترے حسن کا ذکر مو گل ہے تسبی
میرے گلے کی تسبیح
مرے دل کے گوشے منے توں ہے مرغوب
میں
گلاب کے پھول جیسے گال ہیں، کمر نازک ہے، بہت حسین ہے، دل کے چمن میں ناز و ادا سے آئی اور سرو کی طرح کھڑی ہنستی رہی۔ گلاب جیسے گال دیکھ بلبل مست ہے۔ اس کے حسن کا ذکر عاشق مسلسل کرتا رہتا ہے جیسے تسبیح گن رہا ہو۔ عاشق اور محبوب دونوں ایک دوسرے کے طالب ہیں۔ دُنیا میں ایسے حسن کی مثال کوئی نہ ملے۔
اور بارہویں جمالیاتی جہت ’مشتری‘ ہے۔ ’مشتری‘ پر دو نظمیں ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:
نین پتلی ہم سوں کری ایک بات
نین بن میں دعوے کے پھولاں کھلات
عشق کسوتاں تھے مجے مشتری
مجھے
عشق انت اَدھر میوہ تج کوں سہات
ہونٹ تجھے
عشق تورے جوبن کی ساراں کرے
اَدھر تیرے کوثر کا پیا لا پلات
ہونٹ (پلاتے ہیں )
اچت چاند سہتے ترے دود و دل
ترا مکھڑا پرم کہانی سنہات
سناتا ہے
*
ہمن دل کے گنوارے میں سجن کا نور دستا
سورج کرناں کی ڈوریاں سوں جھلکتا خوشنما ہے
مشتری کا خوبصورت چہرہ پریم کہانی سناتا ہے، حسن ایسا ہے کہ عاشق کے دِل میں چراغاں سی کیفیت ہو جاتی ہے، اس کا نور دِل میں سما جاتا ہے۔ اس کے رسیلے ہونٹ آبِ کوثر پلاتے ہیں، عاشق ہونٹ کا میوہ چکھنا چاہتا ہے۔
ان بارہ پیاریوں یا ’راگنیوں ‘ کے علاوہ چند اور پیاریاں بھی ہیں جن میں ’بلقیس زبانی، حاتم، بہمنی ہنود، ہندی چھوری، پدمنی، سندر، سجن، رنگیلی وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ یہ سب حسن کے پیکر ہیں اور ہر پیکر ایک جمالیاتی جہت ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات کا مطالعہ کرتے ہوئے ان تمام جمالیاتی جہتوں کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ یہ جہتیں حسن کے تئیں بیدار کرتی ہیں، جمال و جلال کے استعاروں سے وجودِ زن کی قدر و قیمت سمجھاتی ہیں۔
جمالیاتی نقطۂ نظر سے کلیات محمد قلی قطب شاہ رنگ و نور اور نغموں کی ایک دلکش دنیا ہے۔ ان پیاریوں کے جمالیاتی اوصاف (Aesthetic Attributes) کے پیشِ نظر سبز، سرخ اور گلابی رنگ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سورج، چاند، ستارے، موتی، نورتن وغیرہ روشنی اور اس کے حسن کے استعارے ہیں، جنت اور چمن حسن کی وسعتوں کو پیش کرتے ہیں۔ پھول، کنول، نرگس، مدن پھول وغیرہ پھولوں کے جمال اور ان کی خوشبوؤں سے آشنا کرتے ہیں۔ ان میں ہر عورت کی حیثیت مرکزی ہے، لیکن جمالیاتی اوصاف مختلف ہیں۔ کوئی الھڑ اور چنچل ہے تو کوئی اپنی خوبصورت آنکھوں میں کاجل لگائے ہونٹوں پر مسکان لیے سرو کی مانند کھڑی ہوئی، جنسی لذّتوں کو حاصل کر نے کا سب سے بڑا ذریعہ ہونٹ ہیں۔ کسی کے ہونٹ چھوٹے ہیں (لالن) اور کسی کے رسیلے آبِ حیات بخشنے والے (ننھی)، کسی کے رُخسار پر خوبصورت تل ہے (چھبیلی) تو کسی کے موتیوں جیسے دانت (ساؤنلی)، کسی کے چہرے کی روشنی پرکشش ہے اور کسی کے بدن کی خوشبو۔ معصومیت، بھولپن، گلابی نین، سانولاپن، شوخ آنکھیں، لمبے بال، ہنس جیسی چال، جسم کی خوشبو صندل جیسی، خط سرمہ، رَس بھرے ہونٹ، یاقوت اور عقیق جیسے ہونٹ، ناگ جیسی چوٹی، محبوبائیں اپنی علیحدہ جمالیاتی خصوصیات سے پہچانی جاتی ہیں۔ شاعر نے ان میں علامتی تخیل کا جادو جگایا ہے۔ شاعر کے تخیل اور جذبہ دونوں کی اہمیت کا احساس ملتا ہے۔ عاشق مستی میں محبوب کو بے حجاب دیکھنا چاہتا ہے، محبوباؤں پر لکھی ہوئی نظموں سے عاشق کی بے قراری اور مستی اور سرشاری کی بھی پہچان ہوتی رہتی ہے۔ محبوب بے حجاب ہو کر سامنے آئے پھر بھی شوق میں کمی نہیں ہوتی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔ شاعر اپنی محبوباؤں کے جمال پر جس طرح فریفتہ ہے اسے محسوس کر کے حافظ کی یاد آتی ہے۔ حافظ نے کہا تھا اس کے جمال کے علاوہ میرے دل میں اور کچھ دِکھائی نہیں دیتا:
بہ پیش آئینۂ دِل ہر آنچہ میدارم
بجز خیال جمالت نمی نماید ناز
(حافظ)
’پیاریوں ‘ پر لکھی گئی ان نظموں کے ساتھ اگر محمد قلی قطب شاہ کی مندرجہ ذیل نظموں کا بھی مطالعہ کیا جائے تو ان کے رُومانی جمالیاتی فکر و نظر کی زیادہ پہچان ہو گی:
سراپا
ہلال بھوں
مست شباب
سرو رداں
کجل نینی
ادائے حسن
رُخِ زیبا
چنچل نین
تصویر حسن
کندن کی پتلی
’’کلیاتِ محمد قلی قطب شاہ‘‘ میں غزل کی جمالیات کا مرکزی اور بنیادی سرچشمہ ’عورت‘ ہی ہے۔ غزل کی جمالیات عورت کی جمالیات ہے۔ غزلوں کے وہی اشعار توجہ طلب ہیں کہ جن میں عورت کے حسن و جمال کا ذکر ہے۔ محمد قلی قطب شاہ حسن پسند اور حسن پرست ہیں۔ اُن کی جنسی حسیت غزلوں میں بھی بہت بیدار اور متحرّک ہے۔ ’سیکس‘ کے تقدس کا ایسا احساس اُردو شاعری میں پہلی بار ملا ہے۔
غزلوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ محمد قلی قطب شاہ منفرد احساس اور طرزِ بیان کے شاعر ہیں۔ زبان قدیم ہے لیکن اشعار میں ایسی سادگی، صفائی اور روانی ہے کہ زبان کی قدامت سے زیادہ پریشانی نہیں ہوتی۔ فارسی شاعری کے اثرات ہیں خصوصاً حافظ شیرازی کی جمالیات کے اثرات ہیں۔ حافظ کے اشعار پر اشعار کہے ہیں اور ان کے بعض شعری تجربوں کو بھی خوب اپنایا ہے۔ اس طرح اپنی انفرادیت کا بھی ثبوت دیا ہے۔
غزلوں میں بھی عجمی اور ہندی روایات کی آمیزش اور آویزش کے عمدہ نمونے ملتے ہیں۔ سنسکرت کے تت سم اور تت بھو الفاظ بھی ہیں اور فارسی اور عربی کے الفاظ بھی اور دونوں کی ہم آہنگی کے نمونے بھی، مثلاً:
سجن، دھرتی، آکاش، بھنجن، بھان، ترلوک، سیس، سور، چندر، گگن،
سنتوش، گیان وغیرہ۔
یہ سب سنسکرت، ویدی اور پرا کرتوں کے الفاظ ہیں۔ عربی اور فارسی کے الفاظ کی کمی تو ہے نہیں۔ فارسی اور عربی اور پرا کرتوں کے لفظوں کی آمیزشیں بھی موجود ہیں۔ شاعر کی جدت طرازی بھی لطف دے جاتی ہے۔ مثلاً: بنفشہ مکھ، خضر نیر، گل مکھ، چمن ہار ، بہشتی مندر، ہم کنٹھ وغیرہ۔
کہا جاتا ہے : "Peace is the presence of God.” یعنی جہاں امن اور سکون ہے سمجھئے وہاں خدا موجود ہے یا امن خدا سے عبارت ہے۔ امن اور خدا علیحدہ نہیں ہیں۔ جس ماحول میں محمد قلی قطب شاہ نے شاعری کی ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شاعری وجود میں نہیں آتی اگر ’’خدا نہ ہوتا!‘‘ کوئی انتشار نہیں، کوئی فساد نہیں، ایک انتہائی پرسکون اور ایک نہایت ہی خوبصورت ماحول میں اس شاعری نے جنم لیا ہے۔ غزل سے رقیب غائب ہے اور معشوق یا محبوب کا کوئی ظلم کہیں نظر نہیں آتا، پیار اور محبت کی بھوک ہے، جنسی آسودگی حاصل ہونے کے باوجود چاہت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ عورت کا جسم، اس جسم کا جمال غزلوں کا سب سے بڑا، سب سے اہم موضوع ہے۔ دو مصوّر تھے، دونوں نے زندگی کی تصویر بنائی، ایک مصوّر کی تصویر میں ایک انتہائی خوشگوار جاذبِ نظر منظر تھا، صبح کی پہلی کرنیں جھیل پر پڑرہی تھیں۔ ایک خوبصورت عورت نہا رہی تھی، اُس کی ساڑی جسم سے چپک گئی تھی اور جسم کے نشیب و فراز صاف دِکھائی دے رہے تھے۔ جھیل کے ساتھ ہی سبز گھاس پر بھیڑیں چر رہی تھیں، پورے کینوس پر جیسے کوئی دلفریب نغمہ اُبل رہا تھا۔۔۔ دوسرے مصوّر نے زندگی کی جو تصویر بنائی اس میں طوفان کا منظر تھا، سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے، بجلی کی چمک کی روشن لکیریں کھینچی ہوئی تھیں، سامنے دریا میں لہریں بے چین تھیں اور ایک کمزور کشتی کہ جس پر ایک مرد اور ایک عورت سوار تھے ہچکولے کھا رہی تھی، عجیب اضطراب کا منظر تھا، قدرت اور زمین کی کشمکش کی تصویر سامنے تھی۔
حاکمِ وقت نے زندگی کی یہ دوسری تصویر پسند کی۔ پھر دِن رات اُسے دیکھتے دیکھتے پریشان ہو گیا، بے چینی سی محسوس ہونے لگی۔ آخر فطرت کی غضبناکی کو کب تک دیکھتا، اُسے محسوس ہوا کہ کسی ایسی چیز کی کمی ہے جس کے ہونے سے زندگی کی سچی صورت،سچی لذّت مل جائے گی، شکست و ریخت کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔۔۔ غالباً امن کی کمی ہے خدا کی کمی ہے! زندگی کے حسن و جمال کو دیکھنے کے لیے جتنے بھی لمحے نصیب ہو جائیں اور زندگی کی لذّتوں کو پاتے رہنے کے جتنے بھی سلسلے قائم ہو جائیں بہت غنیمت ہے۔ حاکمِ وقت نے دوسرے مصوّر کی بنائی ہوئی تصویر کے اوپر سے پردہ ہٹا دیا، سامنے خدا بیٹھا مسکرا رہا تھا!
محمد قلی قطب شاہ کے کلام کا مطالعہ کیجیے تو دوسری تصویر کی طرح راحت اور سکون اور جمالیاتی انبساط حاصل ہو گا۔۔۔ سامنے خدا مسکراتا نظر آئے گا۔
پلا ساقیا منج کوں مستانہ مے
کہتا ہوا شاعر جمالِ زندگی کے ہر پہلو کو سینے سے لگانا چاہتا ہے:
تو حسنِ قدرت سوں لکھیا نیکا دسے
خوبصورت دِکھائی دے
جگ حسن پر تج نور جیوں تیکا دسے
ٹیکا دِکھائی دے
مکھ نور تھے چند سورج جھمکیں سدا
تج کیس بادل تھے فلک پھیکا دسے
مکھ رنگ تھے موتی جوتی نگاری لگی دِسے
سے
چندنی جیون چند پلو تھے س نگاری لگی دِسے
سے
سندر کے ست گال برن سہیں
یاقوت نین لال خماری لگی دِسے
*
تیرا حسن حسناں میں بھایا دِسے
مدن پیالہ رنگ انگ سہایا دِسے
*
سریجن پیا منج کوں دوجا نہ بھاوے
مرے من میں بن پیو کوئی نا سماوے
*
سکی اب حسن کا مندر بنائی
عرق اپ مکھ تھے پیالا مد پلائی
*
پرم کی بھید بن میں کوئی کوئل
سو ناداں سوں پنکھیرو سب ریجھائی
*
پھل بن رُخ یار خوش نہ دیسے
بن مدپھل جھاڑخوش نہ دیسے
*
بت خانہ نین تیرے ہور بت نیں کیاں پتلیاں
آنکھیں اور کی
منجھ نین میں پوجاری پوجا ادھان ہمارا
میری آنکھیں مشرب
*
پتلیاں نیناں کی سو سکل جگ کو بھلاے
آنکھوں سب دُنیا
اسماں میں اُٹھے شور دیکھت زلف تمارا
دیکھ کر تمھارا
*
تری ٹھڈی کے جل منے سو جیو کا جیون ہے
میں رُوحِ زندگی
او چشمہ منے میں نمن جیو کیا ٹھارا
اس میں مانند جگہ، مقام
*
باغِ دل سے تج محبت کا اچنبا پھل لگیا
تیری عجیب پھول لگا
باس سنگ پھولاں عرق کا میں ہوا ہوں ڈگمگیا
سونگھ ڈگمگایا
*
پیا باج پیالا پیا جائے نا
بغیر
پیا باج یک پل جیا جائے نا
ایک پل
*
حسن باغاں میں کھلے پھول بہوت رنگ رنگ سوں
تمھاری باس تھے بھی پھول ہے سنگنا گستاخ
سے سونگھنا
*
سلطان محمد قلی قطب شاہ کا محبوب حافظؔ کے اُس محبوب کی طرح نہیں ہے کہ جس کا جسم چاندی کی طرح چمکتا ہے، صاف شفاف بدن ہے، لیکن دِل لوہے کا ہے، چاندی میں لوہا پوشیدہ ہے:
تنت درجامہ چوں درجام بادہ
دلت در سینہ چوں در سیم آہن
(حافظ)
یہاں معاملہ یہ ہے کہ محبوب کا بدن جتنا خوبصورت ہے اس کا دِل بھی اُتنا ہی صاف شفاف چاندی جیسا ہے، ایسا نہ ہو تو دل و جان اور جسم اور جسم کا رشتہ کیسے قائم ہو گا۔ البتہ محمد قلی قطب شاہ حافظ شیرازی کے اس تجربے کو اپنا تجربہ سمجھتے ہیں:
بہ بیش آئینۂ دِل ہر آنچہ میدارم
بجز خیال جمالت نمی نماید باز
(حافظ)
یعنی محبوب کے حسن و جمال کے علاوہ عاشق کے دل میں کچھ نہیں ہے۔۔۔ محمد قلی قطب شاہ کی غزلیں اسی خیال کی آئینہ دار ہیں۔ غزلوں کا مطالعہ کرتے جائیے، ایک شگفتہ ذہن شاعری کی پہچان ہوتی جائے گی۔
ہندستانی جمالیات میں دو معنی خیز اصطلاحیں ہیں، ایک ’مکھ سندھی‘ (Mukha Sandhi) یعنی ’’بیج کی پیدائش‘‘ (Birth of the Seed) اور پرتی مکھ (Prati Mukha)یعنی ’’بیج کا پھوٹنا (Opening of the Seed)۔ محمد قلی قطب شاہ کی شاعر کی حیثیت اُردو ادب میں ’’مکھ سندھی‘‘ اور ’’پرتی مکھ‘‘ دونوں کی ہے۔ اس بیج کی پیدائش اور اس کے ’پھوٹنے ‘ سے اُردو شاعری کی جمالیات کا ارتقاء بہت تیزی سے ہوا ہے۔
٭٭٭
مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ کہ ان کے توسط سے فائل کا حصول ہوا۔
ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
hi im phd in persain literature. how can i reach qutb shah persain poems . i need then in my research.
thnk you