FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

تنقیدی جائزہ  —  فکری مطالعہ

 

مسلم پرسنل لا کا مسئلہ ۔۔ نئے مرحلہ میں

 

مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانیؓ

سابق جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

 

 

 

شائع کردہ

مرکزی دفتر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ-نئی دہلی

 

 

 

 

’’دو باتیں‘‘

’’مسلم پرسنل لا کا مسئلہ نئے مرحلہ میں‘‘ سب سے پہلے جون ۱۹۷۳ء میں طبع ہوا اور جلد ہی یہ رسالہ ہاتھوں ہاتھ نکل گیا پھر اگست ۱۹۷۴ء میں اسے بڑی تعداد میں دوبارہ چھپوایا گیا۔ یہ بھی ختم ہو گیا۔ سہ بارہ جون ۸۴ء میں اس کی طباعت عمل میں آئی، اب اس کا چوتھا ایڈیشن منظر عام پر آ رہا ہے۔ (۱)

اس لئے حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی دامت برکاتہم نے اس پر دوبارہ نظر ڈالی اور اب پھر طباعت کے لئے پریس کے حوالہ کیا جا رہا ہے — خدا کرے یہ رسالہ مسلم پرسنل لا کے مسئلہ کو سمجھنے اور پرسنل لا کے تحفظ کی راہ میں مؤثر ثابت ہو۔

نیاز احمد رحمانی

آفس سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) زیر نظر کتابچہ کا چوتھا ایڈیشن بھی جلد ہی ختم ہو گیا چنانچہ اس کا پانچواں ایڈیشن نومبر ۱۹۸۷؁ء میں منظر عام پر آیا۔ اس رسالہ کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر اب اس کا چھٹا ایڈیشن منظر عام پر آ رہا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اس کو شرف قبولیت بخشے اور صاحب رسالہ کو اس کا بہتر سے بہتر اجر عطا فرمائے۔( آمین)

(مرکزی دفتر مسلم پرسنل لا بورڈ – نئی دہلی،  ۲۵/ستمبر ۲۰۰۷ء)

 

 

 

 

 

آزاد ہندوستان میں مسلم پرسنل لا کی تاریخ کو دو حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ اس کا ایک حصہ مسلم پرسنل لا کنونشن (بمبئی) پر ختم ہو جاتا ہے اور دوسرا حصہ وہ ہے جو کنونشن کے بعد شروع ہوا اور اب تک چل رہا ہے۔ اس تاریخ کا پہلا حصہ اس لئے اہم ہے کہ اس میں بہت سی ایسی چیزیں سامنے آئیں جن کے ذریعہ مسلم پرسنل لا میں ترمیم کے لئے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایسے قوانین بنائے گئے جن سے مسلم پرسنل لا متاثر ہوا اور مسلم پرسنل لا کے متعلق حکومت کا ذہن سامنے آیا۔ تاریخ کے دوسرے حصہ کی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ اس عہد میں مسلم پرسنل لا کے متعلق مسلمانوں نے عام بیداری کا ثبوت دیا۔ مسلمانوں کے تمام فرقوں، طبقوں اور جماعتوں کے ذمہ داروں نے متحدہ طور پر اپنی پالیسی کا اعلان کیا اور مسلم پرسنل لا کی حفاظت اور اسے سرکاری دستبرد سے بچانے کے لئے عملی جد و جہد کا آغاز کیا۔

مسلم پرسنل لا کی تاریخ کا یہ دوسرا عہد بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس نئے عہد میں مسلمانوں کا بکھرا ہوا شیرازہ دینی معاملہ پر پہلی بار یکجا ہوا۔ اور اس نے اپنا دین، اپنی شریعت، اسلامی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کے لئے تعمیری کاموں کی ابتداء کی اور مسلمانوں کے تمام فرقوں، طبقوں اور جماعتوں پر مشتمل ایک ’’بورڈ‘‘ بنا۔ تاکہ دین و شریعت، تہذیب و ثقافت کا یہ محافظ قافلہ پوری یکجہتی، اولوالعزمی اور دشواریوں پر قابو پاتا ہوا آگے بڑھتا چلا جائے۔

مسلمانوں کی اس متحدہ کوشش کے اثرات پورے ملک میں محسوس کئے گئے اور ’’مسلم پرسنل لا ‘‘کنونشن (بمبئی) کے ختم ہوتے ہی مسلسل ایسے بیانات آنے شروع ہو گئے جن کا مطلب یہ تھا کہ ’’حکومت ہند مسلم پرسنل لا میں ترمیم کا ارادہ نہیں رکھتی‘‘۔اس طرح کے بیانات کے بار بار آنے کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ کنونشن اور پھر ’’مسلم پرسنل لا بورڈ‘‘ کی کوششوں کو حکومت کے ذمہ داروں اور سیاسی جماعتوں نے پوری اہمیت دی اور اپنی طرف سے صفائی کرنے کی ضرورت سمجھی۔ عوامی جلسوں میں کی گئی اس طرح کی تقریروں اور اخباری بیانات کی جب اچھی خاصی اشاعت ہو گئی تو بعض مخصوص قسم کے لوگوں نے مسلم پرسنل لا کے مسئلے کو ایک دوسرا رخ دینا چاہا ہے۔ وہ ان بیانات پر اپنے پورے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت کے ذمہ داروں اور بالخصوص وزیرِ اعظم ہند کی بار بار یقین دہانیوں کے بعد مسلم پرسنل لا کا مسئلہ حل ہو چکا ہے۔ اب مسلمانوں کو اس مسئلہ میں پورے طور پر مطمئن ہو جانا چاہئے اور انہیں حکومت کے خلاف خواہ مخواہ محاذ آرائی کی کوشش ختم کر دینی چاہئے۔ کچھ لوگوں نے یہ کہہ دینا بھی ضروری سمجھا کہ ’’تازہ ترین یقین دہانیوں کے بعد پھر مسلم پرسنل لا کے متعلق کوئی کوشش فرقہ پرستی ہے‘‘۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ:

۱۔  یہ بیانات مسلمانوں کے اطمینان کے لئے بالکل ناکافی ہیں۔

۲۔  مسلم پرسنل لا کے لئے جد و جہد ’’فرقہ پرستی‘‘ نہیں ہے۔

۳۔  مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلمانوں کی اس مسئلہ کے متعلق عام بیداری ’’حکومت کے خلاف محاذ آرائی‘‘ نہیں ہے۔

 

حکومت کے وعدے اور یقین دہانیاں:

 

آزادی کے بعد سے اب تک مسلم پرسنل لا اور مسلمانوں کے دوسرے مسائل کے بارے میں حکومت کے ذمہ داروں اور تمام وزیر اعظموں کا جو طرز عمل رہا ہے اس نے مسلمانوں کو اس پوزیشن میں نہیں رکھا کہ وہ عوامی جلسوں کی تقریروں اور اخباری بیانات پر اعتماد کر سکیں۔ اس پورے عرصہ میں عہد شکنی اور وعدہ خلافی کی اتنی مثالیں جمع ہو گئی ہیں، جن کے ڈھیر کو وزیر اعظم اور دوسرے ذمہ داروں کے وہ بیانات ہلا بھی نہیں سکتے، جو مسلم پرسنل لا کے متعلق چند ماہ میں دئے گئے ہیں۔ مسلمانوں کا کوئی اہم مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کے حل کی پوری یقین دہانی ذمہ داروں نے نہ کی ہو لیکن وہ سارے مسائل حکومت کی تمام ہمدردیوں اور وعدوں کے باوجود جہاں تھے وہیں ہیں۔ مسئلہ جان و مال کے تحفظ کا ہو، ملازمت یا تعلیم کا ہو۔ زبان و تہذیب کا ہو یا مسلم پرسنل لا کا۔ مسلم یونیورسٹی اور اردو کا! آخر وہ کون سا مسئلہ ہے جس کی حفاظت اور پھلنے پھولنے کا موقع دینے کی ضمانت ’’دستورِ ہند‘‘ نے نہیں دی ہے؟ یا جس کے حل کرنے کی پوری یقین دہانی حکومت نے نہیں کی ہے؟ لیکن یہ ساری یقین دہانیاں اور جس طرح کے سارے بیانات اقدام اور عمل کی گھڑیوں میں کبھی حکومت کے ذمہ داروں کو یاد نہیں آتے جس کے نتیجے میں اگر یہ کہا جائے تو واقعات کی غلط تعبیر نہ ہو گی کہ مسلمانوں کے مسائل پر بیانات اور یقین دہانیوں کے پردے اس لئے ڈالے جاتے ہیں تاکہ انہیں حل نہ کیا جائے اور انہیں سلجھانے کی بات اس لئے کی جاتی ہے تاکہ وہ مسائل مزید الجھائے جا سکیں۔

 

حکومت کا اندازِ فکر:

 

اسی مسلم پرسنل لا کے متعلق بارہا وعدے کئے گئے اور سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ’’دستوری ضمانت‘‘ دی گئی اور دستور کی دفعہ نمبر ۲۵ کے تحت (جس کا تعلق بنیادی حقوق سے ہے) ہندوستانی شہریوں کو پوری مذہبی آزادی دی گئی ہے۔ مگر یہ کھلی حقیقت ہے کہ حکومت کے ذہن میں مسلم پرسنل لا کو بدلنے کا خاکہ رہا ہے جس کا اندازہ ہندوستان کے وزراء قانون کے بیانات سے آسانی کے ساتھ لگایا جا سکتا ہے — مثلاً ہندو پرسنل لا کو جب (۱۹۵۴ء تا ۱۹۵۶ء میں) نئی شکل دی جا رہی تھی۔ اس وقت کے مرکزی وزیر قانون مسٹر پاٹسکر نے یہ کہا تھا کہ:

’’ہم نے اپنے آئین کے نفاذ یعنی ۲۶/ جنوری ۱۹۵۰ء کے بعد سول میرج ایکٹ اور ہندو میرج ایکٹ پاس کئے ہیں۔ اب ہندو قانون وراثت کا مسودہ پارلیمنٹ میں زیر غور ہے۔ یہ سب ضابطہ دیوانی کو یکساں بنانے کے اقدامات ہیں‘‘۔ (۲۵/اگست ۱۹۵۵ء کی ریڈیائی تقریر)۔

مسٹر پاٹسکر نے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ ’’ضابطہ دیوانی کو یکساں بنانے کے اقدامات‘‘ کے سلسلے میں سب سے پہلے ہندوؤں کا نمبر کیوں آیا؟ اور پورے ملک میں یکساں سول کوڈ کس طرح نافذ کیا جائے گا؟ انہوں نے ایک پریس کو خطاب کرتے ہوئے اس پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی تھی:

’’ہندو قوانین میں جو اصلاحات کی جا رہی ہیں وہ مستقبل قریب میں ہندوستان کی تمام آبادی پر نافذ کی جائیں گی، اگر ہم ایسا قانون بنانے میں کامیاب ہو گئے جو ہماری پچاس فیصدی آبادی کے لئے ہو تو باقی آبادی پر اسے نافذ کرنا مشکل نہ ہو گا۔ اس قانون سے پورے ملک میں یکسانیت پیدا ہو گی۔ ایک مرتبہ اگر آبادی کی اکثریت اس قانون کی ضرورت تسلیم کر لے تو دوسروں پر اس کا نفاذ مشکل نہ ہو گا۔‘‘

مسٹر پاٹسکر کا یہ بیان ان کی انفرادی رائے نہیں ہے، بلکہ حکومت کے ذمہ داروں کے اندازِ فکر کی بھر پور ترجمانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں بھی بار بار مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کا مسئلہ زیرِ غور آیا اور ۱۹۶۳ء میں حکومت نے مسلم پرسنل لا میں تبدیلی پر غور و فکر اور اس کی عملی راہوں کی تلاش کے لئے ایک کمیشن مقرر کرنا چاہا مگر مسلمانوں کی مخالفت کی وجہ سے یہ ’’کمیشن‘‘ مقرر نہیں کیا گیا۔ اور وقتی طور پر یہ مسئلہ سرد خانہ میں ڈال دیا گیا۔ حکومت کی اس کارروائی کو مرکزی وزیر قانون نے یہ کہہ کر ختم کر دیا تھا کہ ’’حکومت اس وقت (مسلم پرسنل لا میں) کوئی ترمیم کرنا مناسب نہیں سمجھتی ہے‘‘ (۲۲/ اگست ۱۹۶۳ء کو راجیہ سبھا میں تقریر)۔

یہ مسئلہ اس وقت ٹھنڈا پڑ گیا مگر خود وزیرِ قانون کا یہ جملہ بتا رہا ہے کہ یہ مسئلہ ختم نہیں ہوا تھا اور ۱۹۷۲ء میں Adoption of children bill (متبنّٰی بل) پیش کرتے ہوئے مرکزی وزیر قانون مسٹر گوکھلے نے ایک بار پھر اسی خاموش پالیسی کو ظاہر کر دیا جو آزادی کے بعد سے اب تک حکومت کے ذمہ داروں کے ذہن میں رہی ہے۔ مسٹر گوکھلے نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ:

’’یہ مسودہ قانون یکساں سول کوڈ کی طرف ایک مضبوط قدم ہے‘‘۔ (پارلیمنٹ میں تقریر)

مارچ ۱۹۷۳ء میں بنگلور کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے لا کمیشن کے چیرمین مسٹر گجندر گڈکر (سابق جسٹس آف انڈیا) نے بڑی وضاحت کے ساتھ ہندوستان میں یکساں سول کوڈ پر مفصل تقریر کی اور اس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے انہوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ: ’’مسلمانوں کو یکساں سول کوڈ قبول کرنے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کرنا چاہئے‘‘۔ انہوں نے اپنے حدود سے آگے بڑھ کر یہ بھی کہہ دیا کہ ’’اگر انہوں نے خوش دلی کے ساتھ یہ تجویز منظور نہیں کی تو قوت کے ذریعہ یہ قانون نافذ کیا جائے گا‘‘۔

مختلف زمانہ کے وزراء قانون اور قانون سازوں کے اس طرح کے بہت سے بیانات جو پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر دئیے گئے ہیں پورے طور پر حکومت کا اندازِ فکر سامنے لاتے ہیں اور مسٹر کے۔ ایم۔ منشی کا یہ جملہ یاد آتا ہے:

‘It was the desire of the framers of the constitution to divorce religion from personal law’.

From Directive principles in the constitution. By K.C. Merkanden page 195.

’’یعنی دستور بنانے والوں کی یہ خواہش رہی ہے کہ ’’مذہب کو پرسنل لا سے طلاق دلوائی جائے۔

 

حکومت کا طرزِ عمل:

 

حکومت کے اس اندازِ فکر کی وجہ سے برابر ’’مسلم پرسنل لا‘‘ میں ترمیم و تبدیلی کا مسئلہ اٹھتا رہا اور اگرچہ ابتک حکومت نے براہِ راست مسلم پرسنل لا کو ہاتھ نہیں لگایا ہے۔ مگر متعدد ریاستی مجالس قانون ساز اور پارلیمنٹ میں ایسی تجویزیں پیش کی گئی ہیں جن سے بالواسطہ مسلم پرسنل لا پر اثر پڑا ہے، اور حکومت نے ایسے کئی سرکلر جاری کئے ہیں جن سے مسلم پرسنل لا کے بعض حصوں میں کاٹ چھانٹ ہوئی ہے۔ مثلاً:

۱۔         حکومت کے ملازموں پر پابندی عائد کی جاچکی ہے کہ وہ حکومت کی اجازت کے بغیر دوسری شادی نہیں کر سکتے۔ مسلم اور غیر مسلم سبھی اس سرکلر کے پابند ہیں جس کے نتیجہ میں ’’مسلم پرسنل لا‘‘ کا وہ حصہ جو قانون ازدواج سے متعلق ہے متاثر ہوا ہے۔

۲۔        متبنّٰی بل Adoption of children bill (۱۹۷۲ء) پارلیمنٹ میں پیش ہوا(۱)۔اور اب تک اس بل کا معاملہ چل رہا ہے نہ حکومت نے اسے واپس لیا ہے اور نہ اس سے مسلمانوں کو مستثنیٰ کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ متبنّیٰ بل سے پوری واقفیت کے لئے مطالعہ فرمائیے ’’متبنّیٰ بل -ایک جائزہ‘‘ از امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانیؒ، شائع کردہ مسلم پرسنل لا بورڈ (زبان: اردو، انگریزی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بل مسلم پرسنل لا کی روح کے بالکل خلاف ہے اور مسلم پرسنل لا کی متعدد دفعات کو مجروح کرتا ہے۔ (۱)قانونی واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ بل حقیقت میں مذہبی اقلیتوں کے لئے لایا گیا ہے ور نہ ہندوؤں کے لئے   Hindu Adoption and Maintenance Act 1956. موجود ہے جس میں ان کے لئے کسی کو گود لینے کے متعلق قوانین موجود ہیں۔ جب یہ بل اپنے نتیجہ کے اعتبار سے اقلیتی فرقوں کے لئے ہے تو پھر سب سے بڑی مذہبی اقلیت اس قانون سے زیادہ متاثر ہو گی (۱)۔

۔۔۔۔۔۔

۱۔الحمد للہ کہ مسلمانوں کی متحدہ کوششوں اور مسلم پرسنل لا بورڈ کی جد و جہد کے نتیجہ میں متبنّیٰ بل کا مسئلہ حل ہوا۔ اس جد و جہد سے تفصیلی واقفیت کے لئے ملاحظہ فرمائیے ’’متبنّیٰ بل کی کہانی -آغاز سے انجام تک‘‘ از نیاز احمد رحمانیؒ، شائع کردہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ۔ (زبان:  اردو۔  انگریزی)

۔۔۔۔۔۔۔۔

۳۔       ابھی ایک ’’بل‘‘ نیا ضابطہ فوجداری ۱۹۷۳ء پارلیمنٹ میں لایا جا رہا ہے جس کا تعلق مطلقہ کے نان و نفقہ سے ہے۔ مسلم ’’پرسنل لا‘‘ کے لحاظ سے ’’مطلقہ‘‘ کے نان و نفقہ کی ذمہ داری شوہر پر عدت تک رہا کرتی ہے۔ مگر اب ترمیمی ضابطہ فوجداری ۱۹۷۳ء کی دفعہ ۱۲۵ کے تحت یہ ترمیم لائی جا رہی ہے کہ مطلقہ کے نان و نفقہ کی ذمہ داری سابق شوہر پر اس وقت تک باقی رہے گی جب تک مطلقہ نکاح ثانی نہ کرے یا اس کا انتقال نہ ہو جائے۔ ظاہر ہے اس نئے ضابطہ فوجداری سے مسلم پرسنل لا متاثر ہوتا ہے۔

مذکورہ بالا تفصیلات ہمیں اس نتیجہ تک پہنچاتی ہیں کہ ’’شروع ہی سے حکومت کے ذمہ داروں کا ذہن مسلم پرسنل لا کے خلاف رہا ہے۔ وہ مسلم پرسنل لا میں ترمیم و تبدیلی کے خواہاں ہیں اور مختلف سرکلروں اور بالواسطہ قانون سازی کے ذریعہ مسلم پرسنل لا کی شکل مسخ کر دینا چاہتے ہیں۔ حکومت کے اس انداز فکر اور طرز عمل اور مسلم پرسنل لا میں ترمیم کی بار بار خواہش کے بعد کوئی ہوشمند مسلمان کس طرح یقین کرے گا کہ ’’اب مسلم پرسنل لا کو کوئی خطرہ در پیش نہیں ہے‘‘ — ایک طرف حکومت کے ذمہ دار پورے ملک میں یہ اعلان کرتے پھر رہے ہیں کہ حکومت ہند مسلم پرسنل لا میں ’’ترمیم کا ارادہ نہیں رکھتی‘‘ دوسری طرف ایسے ’’سرکلر‘‘ جاری کئے جا چکے ہیں — جن سے ’’مسلم پرسنل لا‘‘ اور متاثر ہوا ہے۔ اور پارلیمنٹ میں ایسے مسودات قانون Bills آ رہے ہیں جو یقینی طور پر مسلم پرسنل لا کی بعض دفعات کو متاثر کریں گے۔ اب حکومت کے سرکلر اور پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے والے ترمیمی مسودات قانون کو اہمیت دی جائے یا پبلک جلسوں میں تقریروں اور اخباری بیانات کو؟اور ایسی صورت حال میں آخر وزیر اعظم اور دوسرے ذمہ داروں کے بیانات اور تقریروں پر کس طرح اعتماد کیا جائے؟ خاص کر ایسے مرحلہ میں جبکہ مسلم رائے عامہ کا دباؤ پوری قوت کے ساتھ محسوس کیا جا رہا ہے اور ملک کی بدلتی ہوئی تیز رفتار سیاسی صورت حال حکومت کے ذمہ داروں کو اس بات پر مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے مفاد کے پیش نظر مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کریں اور طرح طرح کے وعدوں کے ذریعہ انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کریں۔

 

فرقہ پرستی کا الزام:

 

علماء کرام، مسلم رہنماؤں اور اہل علم کی متحدہ کوششوں اور مسلم پرسنل لا کے معاملہ میں عام مسلمانوں کی بیداری کو دیکھتے ہوئے بعض مسلم وزراء نے یہ بھی کہہ دینا ضروری سمجھا کہ ’’وزیر اعظم اور دوسرے ذمہ داروں کے بیانات کے بعد جلسوں اور کانفرنسوں کی ضرورت ہی ختم ہو چکی ہے، اب یہ ساری کوششیں ’’فرقہ پرستی‘‘ کو بڑھاوا دینے کے لئے کی جا رہی ہیں‘‘۔ وزراء تو ذمہ دار ہیں ان سے ذمہ دارانہ بیانات کی توقع کی جاتی ہے۔ لیکن جب ذمہ داروں کی طرف سے ایسے بیانات آتے ہیں تو مایوسی ہوتی ہے۔

جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے مسلم پرسنل لا کا معاملہ ہو یا کوئی اور وہ اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی زبان و تعلیم سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ مگر یہ نہ فرقہ پرستی ہے نہ وطن دشمنی۔ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد برابر انہوں نے وطن کے لئے بڑی سے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ان کی بے داغ حب الوطنی وزارت کی عارضی کرسیوں کے مقابلہ میں مستقل اور بہت بلند ہے۔ انہوں نے ہر مشکل وقت میں ملک کے لئے بہترین رول ادا کیا ہے۔ لیکن ہر روز کی وطن دوستی کے لئے نئے پیمانے تراشنا اور ان سے ناپنا بڑی نازیبا حرکت ہے۔ مسلمان وطن دوست اور ملک کے وفا دار ہیں وہ ’’دستور‘‘ کا احترام کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ’’اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا مضبوط ذریعہ دستور ہند ہی ہے۔ مگر وہ کسی ایک پارٹی یا گروپ کے نہ پابند ہیں اور نہ انہیں یہ قبول ہے کہ وطن دوستی کی سر  ٹیفکیٹ کسی ایک پارٹی کی وفاداری کے نتیجے میں حاصل ہو۔

 

حکومت کے خلاف محاذ آرائی:

 

کچھ زبانیں یہ کہتی ہوئی سنی گئی ہیں کہ ’’مسلم پرسنل لا بورڈ‘‘ اور مسلم پرسنل لا کے متعلق کانفرنسیں، حکومت کے خلاف ایک منظم محاذ آرائی ہیں جن لوگوں کے ذہن پر یوپی اور اس کے بعد مختلف صوبوں اور پارلیمنٹ کا الیکشن سوار ہے۔ وہ کسی بھی علم کے بغیر آسانی کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں مگر مسلم پرسنل لا بورڈ کے دستور اور اس کی کارروائی پر جن لوگوں کی نگاہ ہے وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ’’یہ بورڈ‘‘ بڑے بلند ارادوں اور ٹھوس تعمیری مقاصد کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ اس کے پیش نظر طویل علمی، دینی اور قانونی کام ہیں۔

 

مسلم پرسنل لا بورڈ کے مقاصد:

 

مسلم پرسنل لا بورڈ کے دستور کی دفعہ ۴ میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ کہا گیا ہے کہ ’’مسلم پرسنل لا بورڈ کا بحیثیت ادارہ انتخابی سیاست سے کوئی سروکار نہ ہو گا‘‘۔

 

اور بورڈ کا دائرہ کار:

 

ہندوستان میں مسلم پرسنل لا کا تحفظ، اور شریعت ایکٹ کے نفاذ کو قائم اور باقی رکھنے کے لئے موثر تدابیر اختیار کرنا‘‘ ہے۔  (اغراض و مقاصد، حصہ الف)۔

یہ تو ظاہر ہے کہ اگر حکومت ’’مسلم پرسنل لا‘‘ میں براہِ راست ترمیم کرے گی یا بالواسطہ قانون سازی کے ذریعہ مسلم پرسنل لا میں کاٹ چھانٹ کرنا چاہے گی تو ’’بورڈ‘‘ خاموش تماشائی بنا بیٹھا نہیں رہے گا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ’’بورڈ‘‘ مسلمانوں کے ووٹوں کا استحصال کرے گا یا وہ خواہ مخواہ حکومت کے کاموں میں رخنہ اندازی اور حکومت کے عام اقدامات میں ناجائز مداخلت یا رکاوٹ پیدا کرے گا۔

’’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘‘ یہ سمجھتا ہے کہ مسلم پرسنل لا کا تحفظ صرف حکومت کے ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ اسے یقین ہے کہ پرسنل لا کے تحفظ کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو برابر ایسا طرز عمل اختیار کرنا ہو گا جس سے یہ پتہ چلے کہ وہ عملی زندگی میں مسلم پرسنل لا کو پوری اہمیت دیتے ہیں۔ اس پر صحیح طریقہ سے عمل کرتے ہیں اور انہیں ایک کامیاب قانون کی موجودگی میں کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں ہے۔ مسلمانوں کا یہ طرز عمل مستقبل میں مسلم پرسنل لا کی حفاظت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اس طرزِ عمل سے پورے ملک کے مسلمانوں کا ذہن تیار رہے گا اور آج اس مسئلہ پر مسلمانوں میں جو بیداری پیدا ہوئی ہے۔ اس پر کبھی غفلت طاری نہیں ہو گی۔ پھر نہ حکومت کسی ترمیم و تبدیلی کا ارادہ کرے گی اور نہ کسی دوسرے شخص کو یہ کہنے کا موقع رہے گا کہ ’’چودہ (۱۴)سو سال پرانا قانون‘‘ نئے حالات کے فریم میں فٹ نہیں آتا نہ کوئی یہ کہہ سکے گا کہ اس قانون سے عملی زندگی میں الجھن اور معاشرتی زندگی میں دشواریاں پیدا ہوتی ہیں۔

اس ذہن کی بنیاد پر ’’بورڈ‘‘ یہ سمجھتا ہے کہ مسلمانوں کو مسلم پرسنل لا کی دفعات سے واقف کرایا جائے۔ اور ان دفعات کے متعلق شرعی حدود و قیود، حقوق و فرائض سے مسلمانوں کو باخبر کیا جائے۔ ایسی فضاء تیار کی جائے جس میں وہ شریعت کے احکام و آداب کی پوری رعایت کرتے ہوئے مسلم پرسنل لا پر عمل کریں اور یہ جو کہیں کسی ناواقف مسلمان کے غلط طریقہ کار سے مسلم معاشرہ میں الجھن پیدا ہو جاتی ہے اور مسلم پرسنل لا میں ترمیم پسندوں کو انگشت نمائی کا موقع مل جاتا ہے، باقی نہ رہے۔ اس لئے بورڈ کے سامنے ایک اہم کام یہ بھی ہے کہ:

’’مسلمانوں کو عائلی اور معاشرتی زندگی کے بارے میں شرعی احکام و آداب، حقوق و فرائض اور اختیارات و حدود سے واقف کرانا اور اس سلسلہ میں ضروری لٹریچر کی اشاعت کرنا‘‘۔  (دستور مسلم پرسنل لا بورڈ، اغراض و مقاصد حصہ ’’ج‘‘)

مسلم پرسنل لا کے سلسلے میں مسلمانوں کو چار طبقوں میں بانٹا جا سکتا ہے ایک طبقہ تو وہ ہے جو مسلم پرسنل لا اور شریعت اسلامیہ سے واقف ہے۔

دوسرا طبقہ وہ ہے جو پڑھا لکھا ہے، دین و شریعت کا پورا احترام کرتا ہے۔ اسلام کا وفادار ہے، مگر اس کی تعلیم و تربیت مغربی طرز کی ہے وہ اپنے ادھورے مطالعہ اور مسلم معاشرے میں بعض اتفاقی ناگوار صورتحال کو دیکھ کر اخلاص کے ساتھ سمجھتا ہے کہ مسلم پرسنل لا میں بعض دشواریاں ہیں۔ جنہیں دور ہونا چاہئے۔ کچھ کمی ہے، جسے پورا کرنا ضروری ہے — تیسرا طبقہ وہ ہے جو اپنے آپ کو مسلمان تو کہتا ہے مگر وہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں ’’اسلام‘‘ سے زیادہ ’’اساتذۂ مغرب‘‘ کا وفادار اور ترقی پسندی کا علمبردار ہے۔ اسے دین و شریعت کی حفاظت اور اس پر عمل کرنے سے زیادہ ’’مسلم پرسنل لا‘‘ کو بدل ڈالنے سے دلچسپی ہے۔ وہ’’ ترقی پسندی‘‘ کی ان منزلوں تک پہنچ چکا ہے، جہاں عام طور پر ’’حقیقت پسندی‘‘ کی تمام راہیں اپنے اوپر بند کر لی جاتی ہیں۔

چوتھا طبقہ ’’عام مسلمانوں‘‘ کا ہے جو اپنے علم کی حد تک دین پر عمل پیرا ہے۔ وہ مسلم پرسنل لا میں کسی تبدیلی کے لئے تیار نہیں ہے۔ مگر وہ نہ مسلم پرسنل لاسے پورے طور پر آگاہ ہے اور نہ اس کے صحیح استعمال کا پورا علم رکھتا ہے۔

پہلا طبقہ علمائے کرام اور اہلِ علم کا ہے۔ یہ طبقہ بہت اہم ہے اور اس پر مسلم پرسنل لا کے سلسلے میں بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، واقفین کی اس جماعت کا کام یہ ہے کہ وہ نا واقفوں کو بتائیں اور اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ مسلم پرسنل لا سے لوگوں کو واقف کرائیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ایسے حضرات سے پورا تعاون حاصل کرے گا تاکہ ایسی منظم ٹیم تیار ہو جائے جو پورے ملک میں مسلم پرسنل لا کی صحیح تصویر پیش کر سکے۔

تیسرا طبقہ جسے اس کی ترقی پسندی سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اگرچہ وہ پورے ملک میں انگلیوں پر گن لئے جانے کے قابل ہے۔ مگر در اصل مسلمانوں کا وہ یہی طبقہ ہے جس سے مسلم پرسنل لا میں ترمیم کے لئے ارباب اقتدار غذا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس طبقہ کے ذہن میں ایک ایسا مغربی ایڈیشن ہے جس میں ’’اسلام کے لیبل‘‘ کے سوا کوئی بھی چیز اسلامی نہیں ہے— یہ طبقہ صرف اپنی سنانا چاہتا ہے۔ اور کچھ سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔

دوسرا طبقہ ’’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘‘ کی توجہ کا خاص مرکز ہے اور بورڈ کا کام یہ ہے کہ ایسے پڑھے لکھے حضرات کے لئے جو ’’اسلام‘‘ کے وفادار ہیں۔ مگر ان کے ذہن میں مسلم پرسنل لا کے متعلق کچھ الجھنیں ہیں، ایسا لٹریچر تیار کرے۔ جو ان کے ذوق کو اپیل کر سکے اور انہیں علمی اور عقلی طور پر مطمئن کر دے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ اس طبقہ کو بڑی اہمیت دیتا ہے اور ان کے لئے مناسب لٹریچر، سمینار، سمپوزیم اور Study Team کا نظم کرے گا۔

چوتھا طبقہ عام مسلمانوں کا ہے جو ناواقفیت کی بنا پر کبھی ایسی حرکتیں کر جاتا ہے جن سے مسلم پرسنل لا کے مخالفوں کو انگشت نمائی کا موقع ملتا ہے۔ مثلاً مرد کے ’’حقِ طلاق‘‘ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ’’اس حق کے ذریعہ عورتوں کی گردن پر ہمیشہ طلاق کی ننگی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ مرد ایک سانس میں تین طلاقیں دے کر  رشتۂ ازدواج کو قتل کر دیتا ہے اور عورت منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔ اس لئے طلاق کے قانون میں ترمیم ہونی چاہئے‘‘۔

یہ حقیقت ہے کہ ناواقفیت کی وجہ سے بعض مسلمان تین طلاقیں دے ڈالتے ہیں۔ وہ طلاق کے معاملے میں شریعت اسلامیہ کی ہدایتوں کی پوری پابندی نہیں کرتے اور کسی مسلمان کی عجلت پسندی عورت کو نازک صورت حال سے دوچار کر دیتی ہے۔ ’’بورڈ‘‘ کے پیش نظر یہ کام ہے کہ کانفرنسوں، اجتماعات اور مناسب لٹریچر کے ذریعہ انہیں طلاق کی حیثیت سمجھائی جائے اور انہیں یہ بتایا جائے کہ یہ رشتہ ازدواج اس لئے نہیں ہوا کرتا کہ ایک ہی سانس میں اسے توڑا جائے اللہ کے نام پر قائم کیا ہوا رشتہ باقی رکھنے کے لئے قائم کیا جاتا ہے اور اسے ممکن حد تک قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے — اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہو چکی ہے کہ دونوں کا ساتھ رہنا ممکن نہیں ہے۔ تو شریعت نے یہ اختیار دیا ہے کہ سوچ سمجھ کر مرد ایک طلاق دیدے۔ پھر غور کرے۔ چاہے تو عورت کو ساتھ رکھ لے۔ نباہ کی کوئی شکل نہ ہو تو اگلے ماہ دوسری طلاق دے پھر سوچے اور ساتھ رکھ لے۔ اور اگر گنجائش کی کوئی شکل نظر نہ آئے تو اسے تیسری طلاق دے کر علیٰحدہ کر دے۔

طلاق دینے کا یہ طریقہ شریعت نے بتایا ہے جس میں غور و فکر کی بڑی گنجائش اور غیض و غضب کے وقت فیصلہ سے روکا گیا ہے — یہ تفصیل اور اس طرح کی بہت سی تفصیلات جو مسلم پرسنل لاء کی دوسری دفعات سے وابستہ ہیں انہیں عام مسلمانوں تک تحریر و تقریر کے ذریعہ پہنچانا اور انہیں اس بات پر آمادہ کرنا کہ وہ شریعت کی ہدایتوں کے مطابق زندگی گذاریں۔ ’’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘‘ کا نہایت اہم کام ہے۔اس طویل اور اہم کام کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہے اور بالکل تعمیری ہے اور یہ بورڈ کے تعمیری ذہن کا ہی نتیجہ ہے کہ اس کے دستور میں یہ الفاظ موجود ہیں۔

’’شریعت اسلامی کے عائلی قوانین کی اشاعت اور مسلمانوں پر ان کے نفاذ کے لئے ہمہ گیر خاکہ تیار کرنا‘‘ (حصہ واو۔ اغراض و مقاصد)

۲-  جیسا کہ عرض کیا گیا، حکومت کے ایسے گشتی احکامات Circulars موجود ہیں اور پارلیمنٹ میں ایسے مسودات قانون Bills درپیش ہیں جن سے ’’مسلم پرسنل لا‘‘ متاثر ہوتا ہے اور بورڈ کو یہ احساس ہے کہ اس طرح کے احکامات اور مسوداتِ قانون مستقبل میں بھی آ سکتے ہیں۔ اس لئے ’’بورڈ یہ چاہتا ہے کہ ایسی کمیٹی بنائے جو خالص قانونی نقطۂ نظر سے صوبائی اور مرکزی قانون ساز اداروں کے بنائے ہوئے قوانین، حکومت کے گشتی مراسلوں اور مختلف ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کا جائزہ لے، اور یہ بتائے کہ ان چیزوں نے کہاں کہاں شریعت اسلامی کو مجروح کیا ہے؟ تاکہ حکومت اور قانون ساز اداروں کو غور و فکر کا موقع ملے۔ اور وہ ایسا راستہ اختیار کریں جس سے مسلم پرسنل لا اپنی صحیح شکل پر آ سکے اوراس کی اصل صورت باقی رہے۔ بورڈ کے دستور کے الفاظ یہ ہیں:

’’ہندوستان میں نافذ ’’محمڈن لا‘‘ کا شریعت اسلامی کی روشنی میں جائزہ لینا‘‘۔  (اغراض و مقاصد حصہ ’’ح‘‘)

اسی طرح مستقبل میں آنے والے مسودات قانون اور گشتی احکامات کا قانونی نقطۂ نظر سے جائزہ لیتے رہنا بھی ایک ضروری اور اہم کام ہے تاکہ ایسے نئے احکامات اور مسودات قانون رائج نہ ہو جائیں، جن سے ’’مسلم پرسنل لا‘‘ متاثر ہو رہا ہو ’’بورڈ‘‘ اس مقصد کے لئے ایک کمیٹی بنائے گا جس کی صراحت دستور میں اس طرح کی گئی ہے:

علماء اور ماہرین قانون پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعہ مرکزی یا ریاستی حکومتوں یا دوسرے سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے ذریعہ نافذ کردہ قوانین اور گشتی احکام Circular یا ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے والے مسوداتِ قانون (بل) کا اس نقطۂ نظر سے جائزہ لیتے رہنا کہ ان کا مسلم پرسنل لاء پر کیا اثر پڑتا ہے؟‘‘   (اغراض و مقاصد حصہ ’’ح‘‘)

مذکورہ بالا دونوں کام طویل، قانونی اور تحقیقی ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ ماضی میں مختلف طریقوں پر مسلم پرسنل لا میں جو کاٹ چھانٹ ہوئی ہے۔ اسے واضح اور مرتب کیا جائے اور حکومت کو ان غلطیوں پر متنبہ کیا جائے جو اس نے ’’دستور ہند‘‘ کے بنیادی حقوق کی دفعہ کے خلاف کی ہیں — یہ مثبت طریقہ کار ہے ، جس سے حکومت اور قانون ساز اداروں کو صحیح مشورہ اور قانونی دفعات کی پوری واقفیت حاصل ہو گی۔

مذکورہ بالا پروگرام خالص تعمیری، علمی، دینی اور قانونی ہیں۔ ان کا تعلق نہ ’’حکومت کے خلاف محاذ آرائی‘‘ سے ہے، نہ انہیں کوئی غیر جانبدار شخص ’’سیاسی‘‘ کہہ سکتا ہے۔ نہ یہ سارے کام سیاسی مقاصد کے حصول اور سیاسی تمناؤں کی تکمیل کے لئے کئے جا رہے ہیں۔ در اصل ’’مسلم پرسنل لا بورڈ‘‘ کی سرگرمیوں کے دو حصّے ہیں۔ ایک کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ مسلمانوں میں اسے ’’مسلم پرسنل لا‘‘ کی صحیح صورت پیش کرنی ہے۔ اس پر عمل کرنے کی راہ بتانی ہے اور مسلمانوں کو ایسے اقدام سے روکنا ہے جو عائلی زندگی میں اسلامی مزاج کے خلاف ہوں اور مسلم پرسنل لا کو داغدار کرتے ہوں۔

بورڈ کی سرگرمیوں کا دوسرا حصہ ’’قانونی‘‘ ہے — یہ قانونی حصہ، قانون کی صحیح صورت حال سے پوری واقفیت بہم پہنچائے گا اور حکومت کو اس بات کا موقع دے گا کہ اگر اس نے ناواقفیت یا کسی بھی وجہ سے مسلم پرسنل لا کے معاملے میں غلط قوانین بنائے ہیں یا سرکلر جاری کئے ہیں۔ یا آئندہ ایسا ہونے والا ہے تو حکومت بورڈ کے مشوروں سے فائدہ اٹھا کر مسلم پرسنل لا کو محفوظ رہنے دے۔ لیکن اگر حکومت اس طرح کے تعمیری اور قانونی مشوروں کو قبول نہیں کرے گی۔ اور اسے اصرار ہو گا کہ کسی بھی براہِ راست یا بالواسطہ ذرائع سے ’’مسلم پرسنل لا‘‘ میں ترمیم کرے تو پھر ’’بورڈ‘‘ مجبور ہو گا کہ وہ ایسی راہ اختیار کرے جو مطالبات منظور کرانے کی ہے اور جس راہ پر چل کر حکومت کی رائے اور مزاج کو بدلا جاتا ہے۔ ’’بورڈ‘‘ کے اغراض و مقاصد میں اس کی گنجائش رکھی گئی ہے، اسی لئے آل انڈیا ’’مسلم پرسنل لا بورڈ‘‘ کے دستور کے اغراض و مقاصد حصہ ’’ہ‘‘ میں یہ الفاظ ملیں گے۔

’’مسلم پرسنل لا کے تحفظ کی تحریک کے لئے بوقت ضرورت ’’مجلس عمل‘‘ بنانا جس کے ذریعہ ’’بورڈ‘‘ کے فیصلہ پر عمل در آمد کرنے کی خاطر پورے ملک میں جد و جہد منظم کی جا سکے‘‘۔

منت اللہ رحمانی

خانقاہ رحمانی، مونگیر           ۱۲/جون ۱۹۷۳ء

 

 

 

اغراض و مقاصد

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

 

٭        ہندوستان میں ’’مسلم پرسنل لا‘‘ کے تحفظ اور شریعت ایکٹ کے نفاذ کو قائم اور باقی رکھنے کے لیے مؤثر تدابیر اختیار کرنا۔

٭        بالواسطہ، بلاواسطہ یا متوازی قانون سازی جس سے قانون شریعت میں مداخلت ہوتی ہو، عام ازیں کہ وہ قوانین پارلیمنٹ یا ریاستی مجلس قانون ساز میں وضع کئے جا چکے ہوں یا آئندہ وضع کئے جانے والے ہوں یا اس طرح کے عدالتی فیصلے جو مسلم پرسنل لامیں مداخلت کا ذریعہ بنتے ہوں انہیں ختم کرانے یا مسلمانوں کو ان سے مستثنیٰ قرار دیئے جانے کی جدوجہد کرنا۔

٭        مسلمانوں کو عائلی و معاشرتی زندگی کے بارے میں شرعی احکام و آداب،حقوق و فرائض اور اختیارات و حدود سے واقف کرانا اور اس سلسلہ میں ضروری لٹریچر کی اشاعت کرنا۔

٭        شریعت اسلامی کے عائلی قوانین کی اشاعت اور مسلمانوں پر ان کے نفاذ کیلئے ہمہ گیر خاکہ تیار کرنا۔

٭        مسلم پرسنل لا کے تحفظ کی تحریک کے لیے بوقت ضرورت ’’مجلس عمل‘‘ بنانا جس کے ذریعہ بورڈ کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کی خاطر پورے ملک میں جدوجہد منظم کی جا سکے۔

٭        علماء اور ماہرین قانون پر مشتمل ایک مستقل کمیٹی کے ذریعہ مرکزی یا ریاستی حکومتوں یا دوسرے سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے ذریعہ نافذ کردہ قوانین اور گشتی احکام Circulars)  ( یا ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے والے مسودات قانون (بل) کا اس نقطہ نظر سے جائزہ لیتے رہنا کہ ان کا مسلم پرسنل لا پر کیا اثر پڑتا ہے۔

٭        مسلمانوں کے تمام فقہی مسلکوں اور فرقوں کے مابین خیرسگالی، اخوت اور باہمی اشتراک و تعاون کے جذبات کی نشوونما کرنا، اور ’’مسلم پرسنل لا‘‘ کی بقا و تحفظ کے مشترکہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ان کے درمیان ربط اور اتحاد و اتفاق کو پروان چڑھانا۔

٭        ہندوستان میں نافذ ’’محمڈن لا‘‘ کا شریعت اسلامی کی روشنی میں جائزہ لینا اور نئے مسائل کے پیش نظر مسلمانوں کے مختلف فقہی مسالک کے تحقیقی مطالعہ کا اہتمام کرنا اور شریعت اسلامی کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے کتاب و سنت کی اساس پر ماہرین شریعت اور فقہ اسلامی کی رہنمائی میں پیش آمدہ مسائل کا مناسب حل تلاش کرنا۔

٭        بورڈ کے مذکورہ بالا اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے وفود کو ترتیب دینا،  Study Teams تشکیل دینا، سمینار، سمپوزیم، خطابات، اجتماعات، دوروں اور کانفرنسوں کا انتظام کرنا، نیز ضروری لٹریچر کی اشاعت اور بوقت ضرورت اخبارات و رسائل اور خبرناموں وغیرہ کا اجراء اور اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے دیگر ضروری امور انجام دینا۔

 

٭٭٭

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے تشکر اور اجازت کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل۔ اعجاز عبید