FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

حصہ دوم

 

 

قرآنی و سائنسی علوم کا دائرۂ کار

 

 

فہرست مضامین

باب اوّل

قرآنی علوم کی وُسعت

 

اَشرفُ المخلوقات بنی نوع اِنسان سے اللہ ربّ العزت کا آخری کلام حتمی وحی قرآنِ مجید کی صورت میں قیامت تک کے لئے محفوظ کر دیا گیا۔ چونکہ یہ اللہ تعالی کی آخری وحی ہے اور اُس کے بعد سلسلۂ وحی ہمیشہ کے لئے منقطع ہو گیا، چنانچہ اللہ تعالی نے اُس میں قیامت تک وُقوع پذیر ہونے والے ہر قسم کے حقائق کا علم جمع کر دیا ہے۔ کلامِ اِلٰہی کی جامعیت بنی نوعِ انسان کے لئے روزِ قیامت تک کے لئے رہنمائی کی حتمی دستاویز ہے جو عقلی و نقلی ہر دو قسم کے علوم کو محیط ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو اوّل سے آخر تک اصلاً تمام حقائق و معارف اور جملہ علوم و فنون کی جامع ہے۔ قرآن خود کئی مقامات پر اِس حقیقت کی تائید کرتا ہے۔

اِرشادِ باری تعالی ہے:

وَ نَزَّلنَا عَلَیکَ الکِتَابَ تِبیَانًا لِّکُلِّ شَیئٍ۔

(النحل، 16:89)

اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے۔

شئ کے لفظ کا اِطلاق کائنات کے ہر وُجود پر ہوتا ہے، خواہ وہ مادّی ہو یا غیر مادّی۔ جو چیز بھی ربِ ذوالجلال کی تخلیق ہے ’شئ‘ کہلاتی ہے، چنانچہ ہر شئے کا تفصیلی بیان قرآن کے دامن میں موجود ہے۔

اِرشاد فرمایا گیا ہے:

وَ تَفصِیلَ کُلِّ شَیئٍ۔

(یوسف، 12:111)

اور (قرآن) ہر شئے کی تفصیل ہے۔

ایک اور مقام پر اِرشاد ہے:

مَا فَرَّطنَا فِی الکِتَابِ مِن شَیئٍ۔

(الانعام، 6:38)

ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (جسے صراحۃً یا کنایۃً بیان نہ کر دیا ہو)۔

چونکہ اَزل سے ابد تک جملہ حقائق اور مَا کَانَ وَ مَا یَکُون کے جمیع علوم قرآنِ مجید میں موجود ہیں اِس لئے اِس حقیقت کو اِس انداز سے بیان کیا گیا ہے:

وَ لَا رَطبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِی کِتَابٍ مُّبِینٍO

(الانعام، 6:59)

اور نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ کوئی خشک چیز مگر روشن کتاب میں (سب کچھ لکھ دیا گیا ہے)۔

اِس آیتِ کریمہ میں دو لفظ رَطبٍ اور یَابِسٍ اِستعمال ہوئے ہیں۔ رطب کا معنی تر ہے اور یابس کا خشک۔ یہ آیت قرآنی اِیجاز اور فصاحت و بلاغت کی دلیلِ اَتم ہے کیونکہ کائناتِ ارض و سماء کا کوئی وُجود اور کوئی ذرّہ ایسا نہیں جو خشکی اور تری کی دونوں حالتوں سے خارِج ہو۔ بحر و بر، شجر و حجر، زمین و آسمان، جمادات و نباتات، جن و اِنس، خاکی ذرّات اور آبی قطرات، حیوانات اور دیگر مخلوقات الغرض عالمِ پست و بالا کی جس شے کا بھی تصوّر کر لیجئے وہ یا تو خشک ہو گی یا تر یا دونوں حالتوں کا مرکب ہو گی۔ قرآن نے صرف دو لفظ وَلَا رَطبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِستعمال کر کے درحقیقت ساری کائنات کے ایک ایک ذرّے کا بیان کر دیا کہ اُس کا علم قرآن میں موجود ہے۔

ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا گیا ہے:

وَ کُلَّ شَیئٍ فَصَّلنَاہُ تَفصِیلًاO

(بنی اِسرائیل، 17:12)

اور ہم نے (قرآن میں) ہر چیز کو پوری تفصیل سے واضح کر دیا ہے۔

علامہ ابنِ برہان اِسی کی تائید میں فرماتے ہیں:

ما من شئ فھو فی القرآن أو فیہ أصلہ۔

(الاتقان، 2:126)

کائنات کی کوئی شئے ایسی نہیں جس کا ذِکر یا اُس کی اصل قرآن سے ثابت نہ ہو۔

گویا قرآن میں یا تو ہر چیز کا ذکر صراحت کے ساتھ ملے گا یا اُس کی اصل ضرور موجود ہو گی۔ یہ بات لوگوں کی اپنی اپنی اِستعداد و صلاحیت، فہم و بصیرت اور قوتِ اِستنباط و اِستخراج کے پیشِ نظر کہی گئی ہے کیونکہ ہر کوئی ہر شئے کی تفصیل قرآن سے اَخذ کرنے کی اِستعداد نہیں رکھتا۔

اگر قدرت کی طرف سے کسی کو نورِ بصیرت حاصل ہو، اِنشراحِ صدر ہو چکا ہو، حجابات اُٹھ چکے ہوں اور ربّ ِذُوالجلال نے اُس کے سینے کو قرآنی معارف کا اَہل بنا دیا ہو تو اُسے ہر شئے کا تفصیلی بیان بھی نظر آتا ہے۔

اِسی موقع پر اِمام سیوطیؒ فرماتے ہیں کہ اصلاً ذِکر کا معنی یہ ہے:

ما من شئ إلا یمکن إستخراجہ من القرآن لمن فھّمہ اﷲ۔

کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کا اِستخراج و اِستنباط آپ قرآن سے نہ کر سکیں لیکن یہ علوم و معارف اُسی پر آشکار ہوتے ہیں جسے ربّ ِذُوالجلال خصوصی فہم سے بہرہ وَر فرما دیں۔

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نبیٔ  اکرم ﷺ کے وہ جلیلُ القدر صحابی ہیں جنہیں حضور ﷺ نے ترجمانُ القرآن کے لقب سے سرفراز فرمایا تھا۔ اُن کے بارے میں جبرئیلِ  اَمینؑ نے یہ خوشخبری بھی دی تھی:

إنّہ کائن حبر ھذہ الأمۃ۔

وہ (عبداللہ بن عباسؓ) اِس اُمت کے سب سے بڑے عالم ہیں۔

آپ فرماتے ہیں:

لو ضاع لی عقالُ بعیرٍ لوجدتُہ فی کتابِ اﷲ۔

(الاتقان، 2:126)

(صحبتِ نبوی کے فیضان سے مجھے قرآن کی اِس قدر معرفت حاصل ہو چکی ہے کہ) میرے اُونٹ کی رسی بھی گم ہو جائے تو قران کے ذریعے تلاش کر لیتا ہوں۔

اُونٹ کی رسی کا گم ہونا کتنا معمولی واقعہ ہے لیکن اہلِ بصیرت اَیسا معمولی سے معمولی واقعہ اور حادثہ بھی قرآن سے معلوم کر لیتے ہیں۔ محقق بن سراقہ ’کتابُ الاعجاز‘ میں جامعیتِ قرآن پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

ما من شئ فی العالم إلا و ھو فی کتاب اﷲ۔(الاتقان، 2:126)

کائنات میں کوئی شئے اَیسی نہیں جسکا ذِکر قرآن میں موجود نہ ہو۔

اِس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کوئی شئے قرآن میں مذکور نہ ہو تو وہ کائنات میں موجود نہیں ہو سکتی، گویا قرآن میں کسی چیز کا مذکور نہ ہونا کائنات میں اُس کے موجود نہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ قرآن کی جامعیت کا یہ عالم ہے کہ اُس میں کسی چیز کے ذِکر یا عدم ذِکر کو کائنات میں اُس کے وُجود و عدم کی دلیل تصوّر کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِمام شافعیؒ نے جامعیتِ قرآن کی نسبت یہ دعویٰ کیا:

سلونی عمّا شِئتم، أخبرکم عنہ فی کتابِ اﷲ۔(الاتقان، 2:126)

جس چیز کی نسبت چاہو مجھ سے پوچھ لو، میں تمہیں اُس کا جواب قرآن سے دوں گا۔

آپ نے حضرت سعید بن جبیرؓ کا یہ قول بھی اپنی کتاب ’الام‘ میں نقل فرمایا ہے:

ما بلغنی حدیث عن رسول اﷲ علی وجھہ إلا وجدت مصداقہ فی کتاب اﷲ۔

(الاتقان، 2:126)

آج تک رسول اللہﷺ کی کوئی حدیث مجھے ایسی نہیں ملی جس کا واضح مصداق میں نے قرآن مجید میں نہ پایا ہو۔

تمام آسمانی کتابوں کے ثمرات و مطالب اور علوم و معارف کی جامع بھی یہی کتاب ہے۔ امام بیہقی ؒ حضرت حسنؓ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ایک سو چار کتابیں نازل فرمائیں، جن میں کائنات کے تمام علوم و معارف بیان کر دیئے۔ پھر اُن تمام علوم کو چار کتابوں (تورات، زبور، انجیل اور قرآن) میں جمع کر دیا۔ پھر اُن میں سے پہلی تین کتابوں کے تمام معارف کو قرآنِ حکیم میں جمع فرمایا اوریوں یہ قرآن ایسی جامع کتاب قرار پائی کی ابنِ ابی الفضل المرسیص فرماتے ہیں:

جمع القرآن علوم الأوّلین و الآخرین بحیث لم یح بھا علما حقیقۃ إلا المتکلم، ثم رسول اﷲﷺ۔

(الاتقان، 2:126)

اِس قرآن نے اوّل سے آخر تک، اِبتداء سے اِنتہا تک کائنات کے تمام علوم و معارف کو اپنے اندر اِس طرح جمع کر لیا ہے کہ فی الحقیقت خدا اور اُس کے بعد رسولﷺ کے سوا اُن علوم کا اِحاطہ نہ کوئی آج تک کر سکا اور نہ کر سکے گا۔

چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے اِس سلسلے میں مروی ہے:

مَن أراد العلم فعلیہ بالقرآن، فإنّ فیہ خیر الأولین و الآخرین۔

(الاتقان، 2:126)

جو شخص علم حاصل کرنا چاہے اُس کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کا دامن تھام لے کیونکہ اِسی قرآن میں ہی اوّل سے آخر تک سارا علم موجود ہے۔

تمام ظاہری و باطنی علوم و معارف کا جامع ہونا، تمام موجوداتِ عالم کے اَحوال کا جامع ہونا اور تمام آسمانی کتابوں کے ثمرات و مطالب کا جامع ہونا، یہ وہ نمایاں خصوصیات تھیں جن کے باعث اِس مقدس کتاب کا نام اللہ تعالی نے ’القرآن‘ رکھا ہے۔ اَب ہم قرآنِ مجید کی جامعیت پر چند عملی شہادتیں پیش کرتے ہیں تاکہ علومِ قرآنی کی ہمہ گیریت اور سائنسی علوم کی تنگ دامانی عیاں ہو سکے۔

 

جامعیتِ قرآن کی عملی شہادتیں

 

پہلی شہادت ۔ ۔ ۔ ’ہر معاملے میں اُصولی رہنمائی‘

 

جامعیتِ قرآن کی نہایت وقیع اور عملی شہادت یہ بھی ہے کہ قرآن اپنی تعلیمات کے اِعتبار سے اِنسان کی نجی زِندگی کی فکری و عملی ضروریات سے لے کر عالمی زِندگی کے جملہ معاملات پر حاوی ہے۔ حیاتِ اِنسانی کا مذہبی و رُوحانی پہلو ہو یا مادّی و جسمانی، عائلی و خاندانی پہلو ہو یا سماجی و معاشرتی، سیاسی و معاشی پہلو ہو یا تعلیمی و ثقافتی، حکومت و سلطنت کی تاسیس ہو یا اِدارت کی تشکیل، مختلف طبقاتِ اِنسانی کے نزاعات و معاہدات ہوں یا اَقوامِ عالم کے باہمی تعلّقات، اَلغرض قرآنی اَحکام و تعلیمات اِس قدر جامع ہیں کہ ہر مسئلے میں اُصولی رہنمائی قرآن ہی سے میسر آتی ہے۔

قرآنی اَحکام کا بیان و اِستنباط کہیں ’عبارۃُ النّص‘ سے ہوتا ہے اور کہیں ’اِشارۃُ النّص‘ سے، کہیں ’دلالۃُ النّص‘ سے ہوتا ہے اور کہیں ’اِقتضائُ النّص‘ سے۔ کہیں اُس کا انداز ’حقیقت‘ ہے، کہیں ’مجاز‘ ،کہیں ’صریح‘ ہے، اور کہیں ’کنایہ‘۔ کہیں ’ظاہر‘ ہے، کہیں ’خفی‘، کہیں ’مجمل‘ ہے، اور کہیں ’مفسر‘۔ کہیں ’مطلق‘ ہے، کہیں ’مقید‘، کہیں ’عام‘ ہے اور کہیں ’خاص‘۔ اَلغرض قرآنی تعلیمات مختلف صورتوں اور طریقوں میں موجود ہیں۔ اُن میں اصل اَحکام (substantive laws) بھی ہیں اور ضابطہ جاتی اَحکام (procedural laws) بھی، جیسا کہ اِس آیتِ کریمہ سے ثابت ہے:

لِکُلٍّ جَعَلنَا مِنکُم شِرعَۃً وَّ مِنھَاجًا۔(المائدہ، 5:48)

ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے ایک اصل قانون بنایا اور ایک اُس کا ضابطہ و طریقِ کار۔

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ فقہائے اِسلام نے تمام شعبہ ہائے حیات سے متعلق قوانین اور اُصول و ضوابط کا اِستخراج اصلاً قرآن ہی سے کیا ہے۔

اِسی طرح قرآن علوم کے بیان کے اِعتبار سے بھی جامع و مانع ہے۔ دُنیا کا کوئی مفید علم اَیسا نہیں جس کا سرچشمہ قرآن نہ ہو۔ قاضی ابوبکر بن عربیؒ اپنی کتاب ’قانون التأویل‘ میں اِبتدائی طور پر قرآنی علوم کی تعداد777,450 بیان کرتے ہیں۔ یہی تعداد قرآنِ مجید کے کل کلمات کی بھی ہے، تو اِس سے یہ حقیقت مترشّح ہوئی کہ قرآنِ حکیم میں اَلحَمد سے وَالنَّاس تک اِستعمال ہونے والا ہر کلمہ یقینا کسی نہ کسی مستقل علم اور فن کی بنیاد ہے۔ گویا ہر قرآنی حرف سے کوئی نہ کوئی علم اور فن جنم لے رہا ہے۔ یہاں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی یہ حدیثِ رسول اللہﷺ بھی پیشِ نظر رہے کہ قرآن کے ہر حرف کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن اور پھر ہر ظاہر و باطن کے لئے ایک حدِ آغاز ہے اور ایک حدِاِختتام۔ اِس لحاظ سے ہر قرآنی حرف کے چار پہلو متعین ہوئے۔ چنانچہ قاضی ابوبکر بن عربیؒ متذکرۃُ الصدر تعداد کو پھر چار سے ضرب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ درحقیقت قرآنی علوم کی تعداد کم از کم 3,09,800  ہے۔ یہ تو ایک بزرگ کی وُسعتِ نظر ہے، فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ اُوست۔ اِمام رازیؒ فرماتے ہیں کہ صرف تعوّذ و تسمیہ (أَعُوذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیمِ اور بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ) میں لاکھوں مسائل کا بیان ہے اور باقی آیات و کلمات کا تو ذِکر ہی کیا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ علوم کے اِعتبار سے بھی قرآن کی جامعیت کا یہ عالم ہے کہ اُن کی صحیح تعداد کا شمار ہو سکتا ہے اور نہ اَندازہ۔ اَیسے اَقوال یا تو اُن اَکابر کی تحقیقات ہیں یا اُن کے ذاتی اِنکشافات، درحقیقت قرآنی علوم اِحصاء و تحدید سے ماوراء ہیں۔ کوئی علم ہو یا فن، کوئی صنعت و حرفت ہو یا پیشہ و تجارت، جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی کوئی دریافت ہو یا علومِ قدیمہ کی، اِس کائنات میں کوئی ایسی شئے معرضِ وُجود میں نہیں آئی اور نہ آ سکتی ہے جس کا ذِکر خلّاقِ عالم نے کسی نہ کسی اَنداز سے قرآنِ مجید میں نہ کر دیا ہو۔

فلسفہ (philosophy) تمام علوم کا سرچشمہ اور مبداء تصور کیا جاتا ہے۔ علمِ طبیعیات (physics) اور علمِ حیاتیات (biology) بھی اِبتداءً فلسفے ہی کا حصہ تھے۔ طبیعی کائنات کے حقائق سے بحث کرنے والے علوم یہی تین ہیں۔

فلسفہ (philosophy) شروع سے آج تک تین چیزوں سے بحث کرتا چلا آیا ہے کہ حقیقت کیا ہے؟ علم کیا ہے اور کیونکر ممکن ہے؟ اور اَعلیٰ ترین نصبُ العین کیا ہے؟ گویا فلسفے کی بحث ’حقیقت‘، ’علم‘ اور ’نصبُ العین‘ سے ہے۔ اِسی طرح طبیعیات (physics) کا موضوعِ تحقیق یہ ہے کہ موجوداتِ عالم اور مظاہرِ طبیعی کا آغاز کب ہوا؟ کس طرح ہوا؟ اور اُن مظاہرِ طبیعی کی حرکت کی علّت کیا ہے؟ حیاتیات (biology) کا موضوع یہ ہے کہ اِنسان اور دیگر مظاہرِ حیات کی اصل کیا ہے؟ اور تمام مظاہرِ حیات کی حرکت اور زندگی کی علّت کیا ہے؟ تینوں علوم کا خلاصۂ مبحث یہ ہواکہ:

فلسفہ کائنات کی حقیقت، اَعلیٰ نصبُ العین اور اُس کے علم کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ طبیعیات مظاہرِ طبیعی اور اُن کی حرکت کو جاننے میں مصروف ہے جبکہ حیاتیات مظاہرِ حیات کے آغاز اور اُن کے اِرتقاء کو سمجھنے میں مشغول ہے۔ آج تک یہ علوم اِقدام و خطاء (trial / error) کے اَنداز میں اپنی اِرتقائی منازل طے کرتے چلے آ رہے ہیں اور اُن میں سے کسی ایک علم و فن نے بھی یہ حتمی دعویٰ نہیں کیا کہ اُس نے مظاہرِ حیات کے نقطۂ آغاز کو یقینی طور پر جان لیا ہے یا اُس نے اُن کی حرکت کی علّت کو حتمی طور پر متعین کر لیا ہے۔ اِسی طرح فلسفہ آج تک یہ دعویٰ نہیں کر سکا کہ اُس نے وہ حقیقت پا لی ہے جو کائنات کی حتمی و اَبدی حقیقت ہے۔ ہندوستان کے 9 کے 9 فلسفے نفسِ ناطقہ کو بھی حقیقت مانتے ہیں اور مادّہ کو بھی۔ (سائنسی علوم میں پائی جانے والی اِقدام خطاء کی روِش پر آئندہ فصل میں مناسبِ حال بحث کی گئی ہے۔)

فلسفہ اور قرآن

ہزاروں سال کی اِنسانی جدّوجہد کے باوُجود آج تک یہ علوم و فنون اپنی صحت اور کمال کی حتمی منزل کو نہیں پہنچ سکے لیکن آخری اِلہامی کتاب قرآن کا یہ عالم ہے کہ سورۂ علق کی صرف پہلی ہی پانچ آیتوں نے فلسفے کے تمام مسائل کو حل کر دیا ہے۔ آیات ملاحظہ ہوں:

اِقرَأ بِاسمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَO خَلَقَ الاِنسَانَ مِن عَلَقٍO اِقرَأ وَ رَبُّکَ الاَکرَمُO الَّذِی عَلَّمَ بِالقَلَمِO عَلَّمَ الاِنسَانَ مَا لَم یَعلَمO

(العلق،96:1۔5)

(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیئے، جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایاO اُس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کیطرح معلّق وُجود سے پیدا کیاO پڑھئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم

ہےO جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایاO (جس نے) اِنسان کو (اُس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھاO

اگر غور کریں تو اِن آیاتِ بیّنات میں فلسفے کے جملہ موضوعات اور اُن کے حتمی جوابات بیان کر دیئے گئے ہیں۔ فَاعتَبِرُوا یٰ۔آ اُولِی الاَبصَار

اِن آیات کی وضاحت اور تفصیلی معانی میں جائے بغیر یہاں صرف اِس قدر بیان کرنا مقصود ہے کہ اِس کائنات کی حقیقتوں کو جاننے کے لئے آج تک تاریخِ اِنسانی میں جتنی فلسفیانہ کوششیں ہوئی ہیں وہ سب قطعیت و حتمیت سے محروم رہیں لیکن قرآن کی جامعیت و قطعیت کا یہ عالم ہے کہ صرف پانچ مختصر فقرات میں فلسفے کے تمام موضوعات، مسائلِ تحقیق اور اُن کے حتمی جوابات کی نشاندہی کر دی گئی ہے۔ اَب یہ اہلِ تحقیق کا کام ہے کہ وہ اِس رُخ پر ریسرچ کریں اور اِن حقائقِ کائنات کی کامل معرفت حاصل کریں۔

سائنس اور قرآن

اِسی طرح طبیعی اور حیاتیاتی سائنس جن مسائل پر تحقیق سے عبارت ہے وہ اِصطلاحات کی صورت میں درج ذیل ہیں:

1۔ تخلیقِ کائنات اور اُس کا تشکیلی نظام

Creation of Universe and its structural system

2۔ زمانہ ہائے تخلیق اور اَدوارِ اِرتقاء

Periods of creation and eras of evolution

3۔ وُجودِ کائنات کی طبیعی اور کیمیائی اَساس

Physical and chemical basis of the formation of universe

4۔ زمین اور ظہورِ حیات

Earth and appearance of life

5۔ اِرتقائے حیات کے طبیعی اور کیمیائی مراحل

Physical and chemical process of evolution of Life

6۔ اَجرامِ فلکی کی ماہیت اور نظامِ کار

Nature and phenomena of heavenly bodies

7۔ اِنسانی زندگی کا آغاز اور نظامِ اِرتقاء

Origin of human life and its development

8۔ نباتات و حیوانات کی زندگی

The vegetable and animal kingdoms

9۔ اَفزائشِ نسلِ اِنسانی کا نظام

System of human production and self-perpetuation

اِن تمام سائنسی موضوعات پر قرآنِ حکیم نے بہت سا بنیادی مواد فراہم کیا ہے، جو اُس میں سینکڑوں مختلف مقامات پر مذکور ہے۔ ہم اِستشہاد کے طور پر یہاں صرف تین مقامات کی نشاندہی کرتے ہیں:

اَ وَ لَم یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ کَانَتَا رَتقًا فَفَتَقنٰھُمَا وَ جَعَلنَا مِنَ المَآءِ کُلَّ

کیا اُن کافروں نے اِس پر غور نہیں کیا کہ کائنات کے بالائی اور زیریں حصے دونوں باہم پیوست تھے یعنی ایک

شَئ حَیٍّ اَفَلَا یُؤمِنُونَO وَ جَعَلنَا فِی الاَرضِ رَوَاسِیَ اَن تَمِیدَ بِھِم وَ جَعَلنَا فِیھَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّھُم یَھتَدُونَO وَ جَعَلنَا السَّمَآءَ سَقفًا مَّحفُوظًا وَّ ھُم عَن اٰیٰتِھَا مُعرِضُونَO وَ ھُوَ الَّذِی خَلَقَ الَّیلَ وَ النَّھَارَ وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَO وَ مَا جَعَلنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبلِکَ الخُلدَ أفَائِنم مِّتَّ فَھُمُ الخَالِدُونَO

(الانبیاء، 21:-3430)

تخلیقی وحدت (unit of creation) کی صورت میں موجود تھے۔ ہم نے اُن دونوں کو جدا جدا کر کے کھول دیا اور ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے تخلیق کیاO اور ہم نے زمین کی تیز رفتاری کے باعث اُس میں پیدا ہونے والی جنبش کو ختم کرنے کے لئے اُس میں پہاڑوں کے لنگر ڈال دیئے تاکہ وہ اپنے اُوپر بسنے والی مخلوق کو لے کر کانپے بغیر حرکت پذیر رہے اور ہم نے اُس میں (بحری، برّی اور فضائی) کشادہ راستے بنائے تاکہ لوگ اپنی اپنی منازل سفر تک جا سکیںO اور ہم نے آسمانی کائنات کو محفوظ چھت بنایا۔ اور (کیا) وہ اُس کی نشانیوں سے اَب بھی رُو گرداں  ہیں؟O اور وُہی ذات ہے جس نے رات اور دِن بنائے اور سورج اور چاند جو اپنے اپنے مدار اور فلک میں گردِش پذیر ہیںO اور ہم نے آپ سے پہلے کسی بشر (ارضی مخلوق) کو ایسی ہمیشگی اور دوَام نہیں بخشا (کہ وہ ہمیشہ اپنے حال پر بدلے یا ختم ہوئے بغیر قائم رہی ہو) اگر آپ اِنتقال فرما گئے تو کیا یہ طعنہ زنی کرنے والے ہمیشہ رہیں گے؟O

وَ قَد خَلَقَکُم اَطوَارًاO اَ لَم تَرَوا کَیفَ خَلَقَ اللہُ سَبعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاO وَّ جَعَلَ القَمَرَ فِیھِنَّ نُورًا وَّ جَعَلَ الشَّمسَ سِرَاجًاO وَ اللہُ اَنبَتَکُم مِّنَ الاَرضِ نَبَاتًاO ثُمَّ یُعِیدُکُم فِیھَا وَ یُخرِجُکُم اِخرَاجًاO وَ اللہُ جَعَلَ لَکُمُ الاَرضَ بِسَاطًاO لِّتَسلُکُوا مِنھَا سُبُلًا فِجَاجًاO

(نوح، 71:-2014)

حالانکہ اُس نے تمہیں نوع بنوع اور درجہ بدرجہ تخلیق کیا (یعنی تمہیں تخلیق کے کئی مراحل، ادوار اور احوال سے گزار کر مکمل کیا)O کیا تم غور نہیں کرتے کہ اللہ نے کس طرح آسمانی کائنات کے سات تدریجی طبقات بنائےO اور اُن میں چاند کو (اِنعکاسی نور سے) روشن کیا اور سورج کو چراغ (کی طرح روشنی کا منبع) بنایاO اور اللہ نے تمہیں زمین میں سے سبزے (genealogical tree) کی طرح اُٹھایاO  پھر وہ تمہیں اُسی میں لے جائے گا۔ اور تمہیں دوبارہ نئی زندگی کے ساتھ باہر نکالے گاO  اور اللہ نے تمہارے لئے زمین کو بچھایا ہوا قطعہ بنایاO  تاکہ تم اُس کے کشادہ راستوں پر چلوO

اَللہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ وَ مَا بَینَھُمَا فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ مَا لَکُم مِّن دُونِہٖ مِن وَّلِیٍّ وَّ لَا شَفِیعٍ اَفَلَا تَتَذَکَّرُونَO  یُدَبِّرُ الاَمرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الاَرضِ ثُمَّ یَعرُجُ اِلَیہِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدَارُہٗ اَلفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّونَO  ذٰلِکَ عَالِمُ الغَیبِ وَ الشَّھَادَۃِ العَزِیزُ الرَّحِیمُO  الَّذِی اَحسَنَ کُلَّ شَئ خَلَقَہٗ وَ بَدَاَ خَلقَ الاِنسَانِ مِن طِینٍO  ثُمَّ جَعَلَ نَسلَہٗ مِن سُلَالَۃٍ مِّن مَّآئٍ مَّھِینٍO  ثُمَّ سَوَّاہُ وَ نَفَخَ فِیہِ مِن رُّوحِہٖ وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمعَ وَ الاَبصَارَ وَ الاَفئِدَۃَ قَلِیلًا مَّا تَشکُرُونَO(السجدہ،32:-94)

اﷲ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے چھ دِنوں (یعنی چھ اَدوار) میں پیدا کیا پھر وہ عرش یعنی کائنات کے تختِ اِقتدار پر جلوہ اَفروز ہوا۔ اُسے چھوڑ کر نہ تمہارا کوئی کارساز ہے نہ سفارشی، کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟O  وہ اپنے اَوامر اور معاملات کی تدبیر آسمان سے اِس لئے کرتا ہے کہ زمین (یعنی نچلی کائنات) میں ان کا نفاذ اور تعمیل ہو، پھر وہ اُمور رفتہ رفتہ اُسی کی طرف اُوپر اٹھائے جائیں گے۔ اِس تدریجی مرحلے کی تکمیل ایک دن (one era of evolution) میں ہو گی جس کا عرصہ تمہارے شمار کے مطابق ہزار سال پر محیط ہےo وُہی ہر نہاں اور عیاں کا جاننے والا (اور) عزت و رحمت والا ہےo جس نے ہر اُس چیز کو، جسے اُس نے پیدا کیا، (اُس کے حال کے مطابق) نہایت اَحسن اور مناسب صورت میں تشکیل دیا اور اُس نے اِنسانی تخلیق کی اِبتداء زمین کی مٹی یعنی غیر نامی مادّے (inorganic matter) سے کی، پھر اُس کی نسل کو کمزور اور بے قدر پانی (despised fluid) کے نچوڑ سے چلایاo پھر اُس وُجود کو صحیح شکل و صورت دی اور اُس میں اپنی طرف سے رُوح پھونکی۔ یعنی اُسے زندگی عطا کی، بعد اَزاں تمہیں سماعت اور دِل و دِماغ (physical / mental faculties) سے نواز دیا لیکن تھوڑے لوگ ہی اِن نعمتوں پر شکر بجا لاتے ہیں (یعنی اُن کا صحیح اِستعمال کرتے ہیں)o

اگر ہم فقط مذکورہ بالا تین مقامات پر ہی غور و فکر کریں تو یہ فیصلہ کرنے میں کوئی دُشواری نہیں ہو گی کہ طبیعیات (physics) اور حیاتیات (biology) کے جملہ مسائل پر اُصولی اور بنیادی رہنمائی قرآن میں موجود ہے۔ قرآن کی اِسی وُسعتِ علمی کا نام ’جامعیت‘ ہے۔

دُوسری شہادت ۔ ۔ ۔ ’قرآن تمام نقلی علوم و فنون کا ماخذ ہے‘

علوم و فنون کے اِعتبار سے جامعیتِ قرآن کا اندازہ اِس اَمر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ علمائے اِسلام نے جملہ علوم کی اَنواع و اَقسام سب قرآنِ حکیم سے ہی اَخذ کی ہیں۔ قرون وُسطیٰ میں جب تمام علوم و فنون کی باقاعدہ تقسیم اور علم و فن کی تفصیلات مرتب کرنے کا کام سر انجام دیا جانے لگا تو علماء کی ایک جماعت نے لغات و کلمات قرآن کے ضبط و تحریر کا فریضہ اپنے ذمہ لے لیا۔ اُس نے مخارجِ حروف کی معرفت، کلمات کا شمار، سورتوں اور منزلوں کی گنتی، سجدات و علاماتِ آیات کی تعداد و تعین، حصرِکلمات، متشابہ و متماثلہ آیات کا اِحصاء، الغرض تعرضِ معانی و مطالب کے بغیر جملہ مسائلِ قرات کا کام سرانجام دیا۔ اُن کا نام ’قرّاء‘ رکھا گیا اور اِس طرح ’علمُ القراۃِ و التجوید‘ منصہ شہود پر آیا۔ بعض نے قرآن کے معرب و مبنی، اَسماء و اَفعال اور حروفِ عاملہ و غیر عاملہ وغیرہ کی طرف توجہ کی تو ’علمُ النحو‘ معرضِ وُجود میں آیا۔ بعض نے اَلفاظِ قرآن، اُن کی دلالت و اِقتضاء اور اُن کے مطابق ہر حکم کی تفصیلات بیان کیں تو ’علمُ التفسیر‘ وُجود میں آیا۔ بعض نے قرآن کی ادِلّہ عقلیہ اور شواہدِ نظریہ کی جانب اِلتفات کیا اور اللہ تعالی کے وُجود و بقاء، قدم و وُجود، علم و قدرت، تنزیہہ و تقدیس، وحدانیت و اُلوہیت، وحی و رسالت، حشر و نشر، حیات بعد الموت اور اِس قسم کے دیگر مسائل بیان کئے تو ’علمُ الاصول‘ اور ’علمُ الکلام‘ وُجود میں آئے۔ پھر اُنہی اُصولییّن میں سے بعض نے قران کے معانی خطاب میں غور کیا اور قرآنی اَحکام میں اِقتضاء کے لحاظ سے عموم و خصوص، حقیقت و مجاز، صریح و کنایہ، اِطلاق و تقیید، نص، ظاہر، مجمل، محکم، خفی، مشکل، متشابہ، اَمر و نہی، اَنواعِ قیاس اور دیگر ادِلّہ کا اِستخراج کیا تو فنِ ’اُصولِ فقہ‘ تشکیل پذیر ہوا۔ بعض نے قرآنی اَحکام سے حلال و حرام کی تفصیلات و فروعات طے کیں تو ’علمُ الفقہ‘ یا ’علمُ الفروع‘ کو وُجود ملا۔ بعض نے قرآن سے گزشتہ زمانوں اور اُمتوں کے واقعات و حالات کو جمع کیا اور آغازِ عالم سے قیامت تک کے آثار و وقائع کو بیان کیا جس سے ’علمُ التاریخ‘ اور ’علمُ القصص‘ وُجود میں آئے۔ بعض نے قرآن سے حکمت و موعظت، وَعد و وعید، تحذیر و تبشیر، موت و معاد، حشر و نشر، حساب و عقاب اور جنت و نار کے بیانات اَخذ کئے جس سے ’علمُ التّذکیر‘ اور ’علمُ الوعظ‘ کی تشکیل ہوئی۔ بعض نے قرآن سے مختلف خواب اور اُن کی تعبیرات کے اُصول اَخذ کئے تو ’علمِ تعبیرُالرؤیا‘ کی تشکیل ہوئی۔ بعض نے قرآن سے ’علمُ المیراث‘ اور ’علمُ الفرائض‘ کی تفصیلات بیان کیں۔ بعض نے رات، دِن، چاند، سورج اور اُن کی منازل وغیرہ کے قرآنی ذِکر سے ’علمُ المیقات‘ حاصل کیا۔ بعض نے قرآن کے حسنِ اَلفاظ، حسنِ سیاق، بدیع، نظم اور اطناب و اِیجاز وغیرہ سے ’علمُ المعانی‘، ’علمُ البیان‘ اور ’علمُ البدیع‘ کو مدوّن کیا۔ عرفائے کاملین نے قرآن میں نظر و فکر کے بعد اُس سے معانیٔ باطنہ اور دقائقِ مخفیہ کا اِنکشاف کیا۔ اُنہوں نے اُس سے تزکیہ و تصفیہ، فنا و بقاء، غیبت و حضور، خوف و ہیبت، اُنس و وَحشت اور قبض و بسط وغیرہ کے حقائق و تصوّرات بھی اَخذ کئے، جن سے’علمُ التصوّف‘ کی تشکیل ہوئی۔ بعض علماء نے قرانِ مجید ہی سے طب، ہیئت، ہِندسہ، جدل، جبر و مقابلہ، نجوم اور مناظرہ وغیرہ جیسے عقلی علوم و فنون اَخذ کئے اور اُن کی تفصیلات بھی طے کیں۔ اِس طرح یہ مقدس اور جامع اِلہامی کتاب بالفعل دُنیا کے ہر فن اور علم کے لئے منبع و سرچشمہ قرار پا گئی۔ اِمام موسیؒ نے مزید تفصیل کے ساتھ مذکورہ بالا موضوع پر روشنی ڈالی ہے، جس کی تلخیص اِمام جلال الدین سیوطیؒ نے الاتقان میں کی ہے۔

تیسری شہادت۔ ۔ ۔ ’حضورﷺ کی عمرِ مبارک کا اِستشہاد‘

تاجدارِ کائنات ﷺ کی عمرِمبارکہ کے حوالے سے اِمام جلالُ الدین سیوطیؒ ’الاتقان‘ میں یہ آیت نقل کرتے ہیں:

وَ لَن یُّؤَخِّرَ اللہُ نَفسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُھَا  (المنافقون، 63:11)

جب کسی کی اَجل آ جائے تو اللہ تعالی ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں فرماتا۔

قرآنِ کریم کی اِس آیتِ مبارکہ کا اِطلاقِ عمومی ہر اِنسان کی موت پر ہوتا ہے لیکن اَہلِ علم و بصیرت جانتے ہیں کہ اِس کے نزول کے وقت اِس میں وِصالِ محمدی ﷺ کی طرف اِشارہ کر دیا گیا تھا۔

یہ آیت ’سورۃُ المنافقون‘ (جو قرآن مجید کی تریسٹھویں 63 سورت ہے) کی آخری آیت ہے۔ اِس سورت کے بعد ربّ ِذوالجلال نے ’سورۃ التغابن‘ کو منتخب فرمایا۔ تغابن ناپید ہو جانے اور ہست سے نیست ہو جانے کو کہتے ہیں۔ 63ویں سورۃ کے اِختتام پر کسی پر وقت اَجل آ جانے کا ذِکر اِس اَمر کی طرف اِشارہ تھا کہ حضورﷺ کی ظاہری عمرِ مبارک 63ویں برس پر اپنے اِختتام کو پہنچ جائے گی اور اِس آیت کے فوراً بعد سورۃُ التغابن کا اِنتخاب مزید صراحت کے لئے تھا کہ اَب اِس ہستیِ مبارک کی حیاتِ ظاہری کے ناپید ہو جانے کے بعد اِنعقادِ قیامت کا ہی دَور آئے گا۔ درمیان میں کسی اور نبی یا اُمت کا دَور ممکن نہیں۔ یعنی حضورﷺ کا دَورِ نبوّت روزِ قیامت سے متصل ہے اور درمیانی سارے عرصے کو یہی محیط ہے۔ کسی اور کا زمانہ باقی نہیں رہا جیسا کہ حضورﷺ نے خود اپنی درمیان والی انگلی اور انگشتِ شہادت کو ملا کر فرمایا تھا:

أنا و الساعۃ کھاتین۔ (جامع ترمذی، 2:44)

میں (یعنی میرا دَور) اور قیامت دونوں آپس میں اِن دو اُنگلیوں کی طرح متصل ہیں۔

جیسے اِن دو اُنگلیوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں اِسی طرح میرے دورِ نبوت اور قیامت کے درمیان کوئی فاصلہ یا زمانہ نہیں۔ گویا یہ آیتِ مقدسہ آنحضرتﷺ کی عمرِ مبارک کے تعین کے ساتھ ساتھ آپﷺ کے ختمِ نبوت کے اِعلان پر بھی مشتمل ہے۔ اِس شہادت سے ’قرآن‘ کی شانِ جامعیت پر بخوبی روشنی پڑتی ہے۔

چوتھی شہادت ۔ ۔ ۔ ’اَجرامِ فلکی کی دُہری گردِش‘

اِمام غزالی ؒ سے ایک غیرمسلم نے سوال کیا کہ جملہ اَجرامِ فلکی یعنی سورج، چاند اور دیگر سیارگان فضا میں جو حرکت کرتے ہیں وہ دو طرح کی ہے، ایک سیدھی اور دُوسری معکوس یعنی ایک سیارہ اگر کسی دُوسرے سیارے کے تناسب سے دائیں سے بائیں طرف جاتا ہے تو وہ مدار میں اپنا چکر پورا کرنے کے لئے واپس پلٹ کر بائیں سے دائیں طرف بھی آتا ہے کیونکہ تمام سیاروں کے مدار بیضوی ہیں۔ اِس بارے میں اُس غیرمسلم نے سوال کیا کہ قرآنِ مجید میں ایک سمت کی حرکت کا ذِکر تو موجود ہے لیکن دُوسری کا کہاں ہے؟ پہلی حرکت کے بارے میں اُس نے یہ آیت پڑھی:

کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَO(یٰسین، 36:40)

تمام (سیارے اپنے اپنے) مدار میں تیر رہے ہیں (یعنی گردِش کر رہے ہیں)O

اِمام غزالیؒ نے فرمایا کہ اِسی آیت میں اُن کی حرکتِ معکوس کا ذِکر بھی موجود ہے۔ اگر کُلٌّ فِی فَلَکٍ کے اَلفاظ کو اُلٹا کر کے (یعنی معکوس طریقے سے پڑھا جائے) یعنی فَلَکٍ کے ’ک‘ سے شروع کر کے کُلٌّ کی ’ک‘ تک پڑھا جائے تو پھر بھی "کُلٌّ فِی فَلَکٍ” ہی بنے گا، گویا آیت کے اِس حصہ کو سیدھی سمت میں پڑھنے سے سیارگانِ فلکی کی سیدھی حرکت کا ذِکر ہے اور معکوس سمت میں پڑھنے سے حرکت معکوس کا ذکر ہے۔

کُلٌّ فِی فَلَکٍ کو اُلٹی سمت سے پڑھئے، فَلَکٍ میں آخری حرف "ک” ہے پھر "ل” ہے تو یہ کُلٌّ بن گیا، اَب اُلٹی سمت سے اگلا حرف "ف” ہے اور پھر "ی” اِس طرح یہ فِی بن گیا، اُس کے بعد "ف” آتا ہے پھر "ل” اور آخری حرف "ک” ہے تو فَلَکٍ ہو گیا، چنانچہ اُلٹی ترتیب سے بھی کُلٌّ فِی فَلَکٍ ہی بنتا ہے۔ یہی سیارگان کی سیدھی حرکت ہے اور اِنہی لفظوں میں اُن کی اُلٹی حرکت بھی مذکور ہے۔

پانچویں شہادت ۔ ۔ ۔ ’واقعۂ تسخیرِ ماہتاب اور قرآن‘

اِس ضمن میں ایک اور شہادت تسخیر ماہتاب کے واقعہ سے متعلق ہے۔ جولائی 1969ء میں امریکہ کے خلائی تحقیقاتی اِدارے ’ناسا‘ (National Aeronautic Space Agency) کے تحت تین سائنس دانوں کے ہاتھوں تسخیرِ ماہتاب کا عظیم تاریخی کارنامہ انجام پذیر ہوا۔ اُس واقعہ کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے قرآن نے چودہ سو سال پہلے اِعلان کر دیا تھا:

وَ القَمَرِ اِذَا اتَّسَقَO  لَتَرکَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍO  فَمَا لَھُم لَا یُؤمِنُونَO(الانشقاق، 84:18۔20)

اور قسم ہے چاند کی جب وہ پورا دکھائی دیتا ہےO  تم یقیناً طبق در طبق ضرور سواری کرتے ہوئے جاؤ گےO  تو اُنہیں کیا ہو گیا ہے کہ (قرآنی پیشین گوئی کی صداقت دیکھ کر بھی) اِیمان نہیں لاتےO

اِن تینوں آیات کا باہمی ربط اور سیاق و سباق یہ ہے کہ اِس سورت میں قیامت سے پہلے رُونما ہونے والے حادثات اور واقعات کا ذِکر ہے۔ مذکورہ بالا آیات سے پہلے اَجرامِ فلکی، کائناتی نظام اور بالخصوص نظامِ شمسی کے اہم پہلوؤں کا بیان ہے۔ اِسی طرح اِس میں کائنات کے اہم تغیرات کا بھی ذِکر ہے۔ پھر مختلف قسمیں کھائی گئی ہیں، کبھی شفق کی اور کبھی رات کی، تیسری قسم چاند کی ہے۔ اُس کے بعد اِرشاد فرمایا گیا کہ تم یقینا ایک طبق سے دُوسرے طبق تک پہنچو گے، یعنی تم طبق در طبق پرواز کرو گے۔

اَب اِن آیات پر دوبارہ غور فرمایئے:

وَ القَمَرِ اِذَا اتَّسَقَO(الانشقاق، 84:18)

اور قسم ہے چاند کی جب وہ پورا دِکھائی دیتا ہےO

لَتَرکَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍO(الانشقاق، 84:19)

تم یقینا طبق در طبق ضرور سواری کرتے ہوئے جاؤ گےO

فَمَا لَھُم لَا یُؤمِنُونَO(الانشقاق، 84:20)

تو اُنہیں کیا ہو گیا ہے کہ (قرآنی پیشین گوئی کی صداقت دیکھ کر بھی) اِیمان نہیں لاتےO

قرآنِ حکیم کا انداز بیان، ربط بین الآیات اور نظم عبارت کا ایک ایک پہلو بلکہ ایک ایک حرف مستقل مفہوم، نمایاں اِفادیت اور خاص حکمت و مصلحت کا حامل ہوتا ہے۔ "لَتَرکَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ” سے پہلے متصلاً قرآنِ حکیم کا چاند کی قسم کھانا اِس اَمر کی طرف واضح اِشارہ ہے کہ آگے بیان ہونے والی حقیقت چاند سے ہی متعلق ہو گی۔

لترکبنّ، رکب یرکب سے مشتق ہے، جس کا معنی ہے کسی پر سوار ہونا۔ اِسی سے اِسمِ ظرف (مَرکَب) نکلا ہے، یعنی سوار ہونے یا بیٹھنے کی جگہ۔ گھوڑے پر سوار ہوتے وقت جس پر پاؤں رکھا جاتا ہے اُسے بھی اِسی وجہ سے رکاب کہتے ہیں۔

گویا لَتَرکَبُنَّ کا لفظ اِس اَمر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ اُوپر جانا کسی سواری کے ذریعے ہو گا۔ اِمام راغب اِصفہانی ؒ فرماتے ہیں:

الرّکوب: فی الأصل کون الإنسان علی ظھر حیوان، و قد یُستعمل فی السفینۃ۔ (المفردات:202)

رکوب: اصل میں اِنسان کے کسی حیوان پر سوار ہونے کو کہتے ہیں لیکن اِس کا اِستعمال جہاز پر بھی ہوتا ہے۔

لہٰذا اوّلین ترجیح کے طور پر ہم ’لَتَرکَبُنَّ‘ کے اصلی اور حقیقی معنی مراد لیں گے، مجازاً بلند ہونا مراد نہیں لیں گے۔ کیونکہ بعض اَوقات کوئی لفظ حقیقت اور مجاز دونوں معنوں پر دلالت کرتا ہے لیکن عام حالات میں جب کہ حقیقت مستعملہ ہو، معتذّرہ یا مہجورہ نہ ہو تو مجازی معنوں کی طرف اِلتفات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب تک سائنس اور ٹیکنالوجی اِس قدر فروغ پذیر نہ ہوئی تھیں کہ اِنسان زمین سے پرواز کر کے کسی دُوسرے طبق تک پہنچ سکے، اُس وقت تک مجازی معنوں کی بنیاد پر ہی آیت کا مفہوم بیان کیا جاتا رہا ہے کیونکہ حقیقی معنی کا اِطلاق ممکن نہ تھا لیکن آج جبکہ سائنسی ترقی کے دَور میں نہ صرف فضائی بلکہ خلائی حدُود میں بھی اِنسانی پرواز نہ صرف ممکن بلکہ واقع ہو گئی ہے تو لَتَرکَبُنَّ کا اپنے حقیقی معنی پر اِطلاق بلا شک و شبہ جائز ہو گا۔

مزید برآں لَتَرکَبُنَّ میں لامِ تاکید اور نونِ ثقیلہ دونوں اِظہارِ مقصود میں خصوصی تاکید پیدا کر رہے ہیں۔جس سے مراد یہ ہے کہ آیتِ متذکرہ میں بیان ہونے والا واقعہ بہرصورت رُو نما ہو کر رہے گا کیونکہ یہ ترکیب مستقبل میں صدورِ فعل پر دلالت کیا کرتی ہے۔ لہٰذا یہ آیت پیشین گوئی کے اِعتبار سے ایک چیلنج کے طور پر نازِل کی گئی اور لَتَرکَبُنَّ کے اِعلان سے قبل پے در پے قسموں کا ذِکر منکرینِ قرآن کے لئے اِس چیلنج میں مزید شدت اور سنجیدگی پیدا کرنے کے لئے تھا۔ مستزاد یہ کہ لَتَرکَبُنَّ جمع کا صیغہ ہے اور صیغہ جمع عام طور پر عربی زبان میں کم از کم تین کے لئے اِستعمال ہوتا ہے جس سے یہ حقیقت بھی آشکار ہو گئی کہ لَتَرکَبُنَّ کے فاعل کم از کم تین اَفراد ہوں گے جو ایک طبق سے دُوسرے تک پرواز کر کے جائیں گے اور وہ غیرمسلم ہوں گے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ Apolo-11 میں تسخیرِ ماہتاب کے لئے جانے والے مسافر تین ہی تھے اور وہ تینوں غیرمسلم تھے: نیل آرمسٹرانگ (Neil Armstrong)، ایڈوِن بُز (Edwin Buzz) اور کولنز (Collins)۔ اَب پھر اِن آیاتِ کریمہ اور اُن کی ترکیب ملاحظہ کیجئے۔

قرآن قسم کھا کر کہہ رہا ہے کہ "قسم ہے چاند کی جب وہ پورا ہو جائے۔ اے بنی آدم! تم میں سے کم از کم تین اَفراد پرواز کریں گے”۔ کہاں سے کہاں تک۔ ۔ ۔ "طَبَقًا عَن طَبَقٍ” ایک طبق سے دُوسرے طبق تک۔ پہلا طبق تو یقیناً زمین ہے کیونکہ مخاطب اہلِ زمین تھے جو کسی دُوسرے طبق تک جائیں گے۔ دُوسرے طبق کا تعین بھی حکیمانہ انداز میں کیا گیا۔ اگر یہاں دُوسرے طبق کے لفظ کی بجائے سیدھا چاند ہی کہہ دیا جاتا تو پھر تسخیرِ کائنات کی مہم صرف طبقِ مہتاب تک ہی محدود و محصور تصور کی جاتی۔ ربِ ذوالجلال کو یہ منظور نہ تھا کہ انسان کی پرواز زمین کے بعد چاند پر جا کر رک جائے بلکہ وہ چاند کے بعد دیگر اَجرامِ فلکی کی تسخیر بھی چاہتا تھا۔ اِسی لئے لفظ طَبَقٍ کو تنوین کے ساتھ عام کر دیا تاکہ یکے بعد دیگرے اِنسان اَجرام و طبقاتِ کائنات کو تسخیر کرتا چلا جائے اور رازِ کائنات فاش کرنے کی مہم جاری رہ سکے۔ لیکن پہلا طبق جس پر اوّلاً اِنسان پہنچے گا وہ چاند ہو گا۔ اِس لئے اُس کی قسم پہلے کھائی گئی کیونکہ زمین کے سب سے زیادہ قریب چاند ہی کا طبق تھا اور باقی سب اُس کے مقابلے میں دُور تھے۔ آج سے چودہ سو سال قبل اہلِ زمین کو یہ پیشینگوئی سنائی گئی کہ تم میں سے کم از کم تین شخص کسی چیز پر سوار ہو کر پرواز کریں گے اور زمین کے طبق سے چاند تک پہنچیں گے، لیکن تسخیرِ مہتاب کے بعد اِنسان کی تگ و دَو ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ جاری رہے گی۔ اَب اِسی طرح مریخ کے طبق تک بھی اِنسان رسائی حاصل کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اِنسانی پرواز کی یہ کامیاب کاوِشیں دراصل واقعۂ معراج کی صحت و حقانیت پر رَوشن مادّی دلیلیں بنتی جا رہی ہیں۔ بقول اِقبالؒ:

؂ سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے

کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردُوں

اور یہ حقیقت بھی ہے کہ معجزات و کرامات جن کے اِمکان و وقوع کو انسانی عقل منطقی پیمانوں پر سمجھنے سے قاصر تھی، سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ نے کسی حد تک اُن کے سمجھنے کی مادّی اور عقلی بنیادیں فراہم کر دی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ امر منکشف ہوتا جا رہا ہے کہ انسان جسے ایک دَور میں ناممکن سمجھتا ہے وہ مستقبل میں نہ صرف ممکن بلکہ واقع ہو جاتا ہے۔ اِس لئے نام نہاد تعقل پسند طبقے کے اِنکارِ خوارق کی یہ دلیل کہ یہ بات عقل کے خلاف ہے اور سمجھ میں نہیں آتی قابلِ اِلتفات نہیں رہتی کیونکہ عقل کا اِنحصار صرف محسوسات و مشاہدات پر ہوتا ہے اور جب تک کوئی حقیقت محسوس نہ ہو یا اُس کی کوئی مثل مشاہدے میں نہ آئی ہو، عقل اُس کے اِمکان کو کیونکر سمجھ سکتی ہے! اِس لئے عقل کا فیصلہ جزئی و اِضافی ہوتا ہے، وہ کلی و مطلق نہیں ہو سکتا۔ جبکہ قرآن کا ہر دعویٰ ابدی ہے، اِس لئے عین ممکن ہے کہ اِنسانی عقل قرآن کے بعض دیگر دعاویٰ و اِعلانات کو آج ممکن نہ سمجھے لیکن مستقبل کے کسی دَور میں وہ سب کچھ ممکن اور واقع نظر آنے لگے۔ لہٰذا محض عقل کے قصورِ فہم کی بنا پر کسی حقیقت کا اِنکار کر دینا نادانی ہے، عافیت اِیمان بالغیب میں ہی ہے۔ (’اثباتِ معجزہ اور جدید سائنسی تحقیقات‘ پر سیر حاصل مطالعہ کے لئے سیرتُ الرسول کی جلد نہم ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔)

مزید برآں تسخیرِ ماہتاب کی متذکرہ بالا قرآنی تعبیر کی نسبت یہ خیال بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ Apollo-11 کے سفر میں تین امریکی سائنسدانوں میں سے صرف دو چاند کی سطح پر اُترے تھے اور تیسرا شخص کمانڈ ماڈل میں بیٹھا کسی مصنوعی سیارے کی طرح چاند کے گرد گھومتا رہا تھا تاکہ بعد اَزاں گاڑی کے چاند پر اُترنے والے حصے (lunar model) کو ساتھ ملا کر واپس لا سکے، لہٰذا لَتَرکَبُنَّ کا اِطلاق تین اَفراد پر کیسے ہو گیا؟ ایسا خیال دراصل غور و فکر نہ کرنے کے باعث پیدا ہو گا کیونکہ اِس آیتِ کریمہ میں بات چاند کی سطح پر اُترنے کی نہیں بلکہ چاند کے طبق تک پہنچنے کی ہو رہی ہے اور یہی لَتَرکَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ کے اَلفاظ سے مستفاد ہے۔ اُس طبق (چاند) تک تو تین ہی اَفراد پہنچے تھے۔ اُن میں سے ایک جس کا نام کولنز (Collins) تھا کمانڈ ماڈل میں بیٹھا چاند کے گرد گھومتا رہا اور باقی دونوں اُس کی سطح پر اُتر گئے تھے۔ طبق محض کسی سیارے کی سطح (soil surface) کو نہیں کہتے بلکہ کسی سیارے اور اُس کے گرد فضائی حدود پر مشتمل اُس وسیع و عریض حلقے کو کہتے ہیں جہاں تک اُس سیارے کی کششِ ثقل (gravitational force) اثرانداز ہوتی ہے اور یہ علاقہ یا طبق سیارے کی سطح کے گرد فضا میں ہزاروں میل تک محیط ہوتا ہے۔ جس طرح ہوائی جہاز کی پرواز زمین کی سطح پر نہیں بلکہ اس سے اوپر فضا میں ہزاروں فٹ کی بلندی پر ہوتی ہے لیکن طبق ارضی میں ہی تصور کی جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن بھی طبق ارضی سے پرواز کر کے انسان کے دیگر طبقات فلکی تک پہنچنے کی پیشگوئی کر رہا ہے۔ انسان کی ایسی کامیابیوں کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کائنات کے اندر یعنی آسمانوں اور زمین کی وسعتوں میں جو کچھ موجود ہے وہ اِنسان کے لئے تخلیق کیا گیا ہے اور انسان ہی کے لئے مسخر کیا گیا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:

وَ سَخَّرَ لَکُم مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الاَرضِ جَمِیعًا مِّنہُ۔ (الجاثیہ، 45:13)

اور اُس (اﷲ) نے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے۔

اس کے بعد سورۂ اِنشقاق کی زیر مطالعہ آیت سے آگے فرمایا گیا:

فَمَا لَھُم لَا یُؤمِنُونَO(الانشقاق، 84:20)

تو اُنہیں کیا ہو گیا ہے کہ (قرآنی پیشین گوئی کی صداقت دیکھ کر بھی) اِیمان نہیں لاتےO

اَے فرزندانِ آدم! تم میں سے کچھ اَفراد زمین سے اُٹھ کر چاند کے طبق تک پہنچیں گے، لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے اِس دعویٰ کے پورا ہو جانے اور اُس طبق پر بھی ہماری قدرت کا نظام دیکھ لینے کے باوُجود اِیمان نہیں لائیں گے۔ ایمان نہ لانے کا ذِکر اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تسخیرِ ماہتاب کی مہم غیر مسلموں کے ہاتھ سے سر ہو گی۔ دُنیا نے دیکھا کہ تین غیرمسلم سائنسدان چاند تک پہنچے، وہاں بھی تخلیقِ خداوندی کے مناظر دیکھے، اُس کے نظامِ قدرت کا مشاہدہ کیا لیکن قرآنی دعویٰ کے عین مطابق اُن کی قوم قرآن کی حقانیت پر اِیمان نہ لائی۔

تسخیرِ کائنات کے مذکورہ بالا قرآنی بیان کے حوالے سے ایک غیر مسلم فرانسیسی سکالر Maurice Bucaille نے اپنی کتاب The Bible, the Qur’an and Science کے صفحہ نمبر167 تا 169 پر The Qur’an and Modern Science کے باب میں "The Conquest of Space” کے زیر عنوان لکھا ہے:

The Conquest of Space

From this point of view, three verses of the Qur’an should command our full attention. One expresses, without any trace of ambiguity, what man should and will achieve in this field. In the other two, God refers for the sake of the unbelievers in Makka to the surprise they would have if they were able to raise themselves up to the Heavens; He alludes to a hypothesis which will not be realized for the latter.

There can be no doubt that this verse indicates the possibility men will one day achieve what we today call (perhaps rather improperly) "the conquest of space.” One must note that the text of the Heavens, but also the Earth, i.e. the exploration of its depths.

1.The first of these verses is sura 55, verse 33: "O assembly of jinns and men, if you can penetrate regions of the heavens and the earth, then penetrate them; You will not penetrate them save with a power.”

2.The other two verses are taken from sura 15, verses 14-15. God is speaking of the unbelievers in Makka as the context of this passage in the sura shows: "Even if We opened unto them a gate to Heaven and they were to continue ascending therein, they would say: our sight is confused as in drunkenness. Nay, we are people bewitched.”

The above expresses astonishment at a remarkable spectacle, different from anything man could imagine.

When talking of the conquest of space, therefore, we have two passages in the text of the Qur’an: one of them refers to what will one day become a reality thanks to the powers of intelligence and ingenuity God will give to man, and the other describes an event that the unbelievers in Makka will never witness, hence its character of a condition never to be realized. The event will however, be seen by others as intimated in the first verse quoted above.

It describes the human reactions to the unexpected spectacle that travellers in space will see: their confused sight as in drunkenness the feeling of being bewitched . . . . . .

This is exactly how astronauts have experienced this remarkable adventure since the first human spaceflight around the world in 1961. It is a completely new spectacle therefore, that presents itself to men in space and the photographs of this spectacle are well known to present-day man.

چنانچہ یہ دعویٰ بجا طور پر حق ہے کہ کائنات کے اندر جو کچھ ہو چکا یا ہونے والا ہے اس کا ذکر قرآن کے اندر موجود ہے۔

الغرض دُنیا میں موجود ہر فن و صنعت جو اِنفرادی، اِجتماعی اور عالمی سطح پر اِنسانی زندگی کی بقا و دوام اور فروغ و اِرتقاء کے لئے ضروری ہے اَصلاً قرآن سے ثابت ہے۔ علوم و فنون کے حوالے سے قرآنِ مجید کی جامعیت کے بیان سے یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہو گئی کہ قرآن اپنے ماننے والوں کو محض ذکر و عبادت اور اَخلاق و روحانیت کا ہی درس نہیں دیتا بلکہ دنیا میں ہر قسم کی علمی، فنی، صنعتی، سائنسی اور فوجی ترقی کی راہیں بھی کشادہ کرتا ہے تاکہ ملتِ اسلامیہ ایک ہمہ گیر ترقی پسند اُمت کے طور پر اُبھرے اور آفاقی سطح پر اِنقلاب بپا کر کے عظیم مقام حاصل کر لے کیونکہ اُس کے بغیر عالمگیر غلبۂ حق کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ جس کی نشاندہی قرآن نے پیغمبرِ اِسلام ﷺ کے مقصدِ بعثت کے حوالے سے فرما دی ہے۔

اِرشادِ ربانی ہے:

ھُوَ الَّذِی اَرسَلَ رَسُولَہٗ بِالھُدٰی وَ دینِ الحَقِّ لِیُظھِرَہٗ عَلَی الدِّینِ کُلِّہٖ وَ لَو کَرِہَ المُشرِکُونَO(الصف، 61:9)

اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسولِ معظم ﷺ کو ہدایت اور دینِ حق دے کر اِس لئے بھیجا کہ اُس نظامِ حق کو دُنیا کے تمام نظاموں پر غالب کر دے۔ خواہ مشرک (یعنی کفر و طاغوت کے علمبردار) اُس کی مخالفت کرتے رہیںO

گزشتہ اَنبیائے کرام کے زمانوں میں وحی کا سلسلہ جاری تھا اور ہر ایک الہامی کتاب کا بدل اگلے زمانے میں بنی نوع اِنسان کو کسی دوسری اِلہامی کتاب یا صحیفے کی صورت میں میسر آ رہا تھا۔ اِس لئے اُن کتابوں کو اِس قدر جامع بنانے کی ضرورت نہ تھی اور نہ ہی کسی کتاب کو ہمیشہ کے لئے اپنی اصلی حیثیت میں باقی رہنا تھا۔ اس کے برعکس خاتم الانبیاء ﷺ کے بعد نہ کوئی اور نبی یا رسول آ سکتا تھا اور نہ قران کے بعد کوئی آسمانی وحی۔ چنانچہ ضروری تھا کہ نبوت محمدی ﷺکو آفاقی، کائناتی، ابدی، کلی، حتمی، قطعی اور آخری بنانے کے لئے ہر اِعتبار سے کامل اور جامع بنایا جائے اور اِس طرح وہ کتاب جو نبی آخر الزماں ﷺ پر نازِل ہوئی اُسے بھی عالمگیر اور ابدی بنانے کے لئے اِس قدر جامع کیا جائے کہ اِنسانیت کو سب کچھ اُس کتاب کے دامن سے میسر آ سکے اور کسی کو دُوسری سمت متوجہ ہونے کی کوئی ضرورت ہی نہ رہے۔

قرآن اپنی جامعیت کا ذِکر اِس انداز میں کرتا ہے:

یَتلُوا صُحُفًا مُّطَھَّرَۃًO  فِیھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌO(البینہ، 98:2،3)

وہ (اُن پر) پاکیزہ اَوراقِ (قرآن) کی تلاوت کرتے ہیںO  جن میں درُست اور مستحکم اَحکام (درج) ہیںO

کوئی ضرورت کی چیز جس پر اِنسانی زندگی کا اِنحصار ہو قرآن سے خارج نہیں۔ باوُجود قلتِ حجم کے اُس میں وہ تمام علوم و معارِف بیان کر دیئے گئے ہیں، جن کا اِحصاء و اِستیفاء کوئی فرد نہیں کر سکتا تھا۔

خود قرآن اِعلان کرتا ہے:

وَ لَو اَنَّ مَا فِی الاَرضِ مِن شَجَرَۃٍ أَقلَامٌ وَّ البَحرُ یَمُدُّہٗ مِنم بَعدِہٖ سَبعَۃُ اَبحُرٍ مَّا نَفِدَت کَلِمَاتُ اﷲِ اِنَّ اﷲَ عَزِیزٌ حَکِیمٌO(لقمان، 31:27)

اور اگر زمین میں جتنے درخت ہیں سب قلم بن جائیں اور سمندر اُن کی سیاہی، اُس کے بعد سات سمندر اور ہوں تو بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے (یعنی کلامِ اِلٰہی کی وُسعت و جامعیت کا احاطہ نہیں ہو سکے گا)، بیشک اللہ تعالی غالب حکمت والا ہےO

قرآنِ مجید کے اِسی اِعجازِ جامعیت اور ابدی فیضان کا ذِکر کرتے ہوئے اِمام جلالُ الدین سیوطیؒ یہ شعر نقل کرتے ہیں:

کالبدرِ من حیث التفت رأیتہ

کالشّمسِ فی کبدِ السمآءِ و ضوئُھا

یھدی إلی عینیک نورًا ثاقبًا

یغشی البلاد مشارقًا و مغاربًا

ترجمہ: "قرآن چودھویں رات کے چاند کی مانند ہے، تو اُسے جس طرف سے بھی دیکھے وہ تیری آنکھوں کو چمکتا ہوا نور عطا کرے گا۔ یہ قرآن آفتاب کی طرح آسمان کے وسط میں ہے لیکن اُس کی روشنی دُنیا کے مشارق و مغارب سب کو ڈھانپ رہی ہے”۔

 

 

 

باب دوم

سائنسی طریقِ کار اور تصوّرِ اِقدام و خطاء

 

طلوعِ اِسلام کے وقت یونانی فلسفے نے ذہنِ اِنسانی کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ یونانی سائنس اور فلسفہ کے دَور میں علم کا آغاز ذِہن سے خارِج کی طرف ہوا کرتا تھا۔ اُن کا طریقِ تحقیق اپنے ذِہن میں پہلے سے چند کلیوں کو طے کر لینے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اِستخراجی اندازِ فکر میں غور و فکر سے حاصل شدہ ایک قاعدہ کلیہ پہلے سے ذِہن میں رکھ لیا جاتا ہے، پھر ہر پیش آمدہ معاملے یا قضیئے کو اُسی پہلے قضیئے کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے اور یوں کسی عملی تجربے کے بغیر نتیجے تک پہنچنے کی سعی کی جاتی ہے۔ منطقی اِصطلاحات کی رُو سے "صغریٰ” اور "کبریٰ” کو باہم ملا کر "حدِ اوسط” کو گرا دیا جاتا ہے اور ما حاصل کو "نتیجہ” قرار دے دیا جاتا ہے۔ یونانی فلسفیوں کے نزدیک یہی نتیجہ "حقیقت” کہلاتا ہے، جس کے بُطلان کا اِمکان ہی سرے سے ختم ہو جاتا ہے۔ یہ طریقِ تحقیق کجی سے خالی نہیں۔ اِس طریقِ تحقیق میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ نتیجے یا حقیقت تک رسائی کے اِس پورے عمل میں خارِج میں موجود حقائق کو کسوَٹی قرار نہیں دیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ نتیجہ اکثر و بیشتر خلافِ حقیقت نکلتا ہے۔ مگر اُن کے پاس چونکہ یہی طرزِ فکر تھا، اِس لئے وہ اِسی کو حقیقت سمجھتے رہے۔ یونانیوں کا سارا علم محض غیر سائنسی بنیادوں کئے جانے والے غور و فکر تک محدود رہا۔ یہی وجہ ہے کہ یونانیوں کی سائنس اور فلسفے کو جدا کرنا ناممکن کی حد تک محال ہے۔ یونانی زُعماء زیادہ تر ذِہنی قضیوں اور فکری مُوشگافیوں میں اُلجھے رہے اور عالمِ خارِج میں کسی قسم کی اِیجادات کے مُوجد ہونے کا اِعزاز حاصل نہ کر سکے۔ وہ کائناتِ رنگ و بو پر غور و خوض کر کے اِس کے راز ہائے سربستہ سے آگاہی حاصل کرنے کے شوقین ضرور تھے مگر اِس دُنیا میں کسی قسم کی تبدیلی یا عناصرِ حیات کے بہتر اِستعمال سے اُنہیں دورِ حاضر کے تناسب سے کوئی خاص دِلچسپی نہ تھی۔ بطلیموس (Ptolemy) کے اِنعطافِ نور کے تجربے اور فیثا غورث کے تار کی تھرتھراہٹ والے تجربے کے علاوہ موجودہ سائنس اُن کے کسی سائنسی اِنکشاف سے آگاہ نہیں۔

سائنسی طریقِ کار اور اُس کا فروغ

 

یونانی دَور دراصل سائنس کا نہیں فلسفے کا دَور تھا، جہاں فلسفے کی کسوَٹی پر ہی حقائق کو پرکھ کر نتائج اخذ کئے جاتے۔ یونانی سائنس کا دَور اِسی اُدھیڑ بن کے ساتھ دُنیا سے رُخصت ہوا تو سوچ اور اِظہار کے نئے پیمانے دریافت ہونے لگے اور ذہنِ اِنسانی کا زنگ اُترنے لگا۔ ذِہنِ اِنسانی پر جمی صدیوں کی گرد بارشِ رحمت میں دھُل گئی۔ تفکر کی پگڈنڈی پر سوچ کے قافلے روانہ ہوئے تو نئے نئے راستے خود بخود اہلِ اِیمان کی قدم بوسی کے لئے بڑھنے لگے اور فکرِ اِنسانی تسخیرِ کائنات اور نئے آفاق کی دریافت پر آمادہ ہوئی۔ اِسلامی تہذیب و تمدّن کا آغاز ہوا۔ لوحِ دیدہ و دِل پر نئے نئے نقش و نگار بننے لگے۔ علم، تقویٰ اور دانائی کو معیارِ فضیلت قرار دیا گیا۔ اِسلام سوچ پر پہرے نہیں بٹھاتا بلکہ نئے نئے زاویہ ہائے نگاہ سے اُمور و مسائل کے جملہ پہلوؤں پر اِظہارِ خیال کی دعوت دے کر اِمکانات کی وسیع و عریض دُنیاؤں کے دروازے کھولتا ہے۔

اِسلام کی آفاقی تعلیمات کی بنیاد ہوائی مفروضوں کی بجائے ٹھوس حقائق پر مبنی ہے۔ اِس لئے قدرتی طور پر مسلمان اہلِ علم کی سوچ بھی سائنسی سوچ ٹھہری، جس سے تحقیق و جستجو کے ایک نئے درخشاں دَور کا آغاز ہوا۔ تاریخ شاہد عادل ہے کہ مسلمان سائنسدانوں نے یونانی مُوشگافیوں سے جان چھڑا کر جدید سائنسی طریقِ کار سے تحقیق کرنے کی طرح ڈالی۔ اُن کے فکر کو قرآن و سنت کی اُن تعلیمات سے مہمیز ملی تھی جن میں خدائے بزرگ و برتر نے اپنے محبوب نبیﷺ کے ذریعے اپنے بندوں کو کائنات کے اَسرار و رُموز پر غور و خوض کا جا بجا حکم دیا ہے۔ چنانچہ مسلمان سائنسدانوں نے تجربی توثیق کی بنیاد ڈالی۔ اُنہوں نے واردات (experience) اور تجربہ (experiment) میں اِمتیاز کیا اور اُن کے الگ الگ دائرہ ہائے کار متعین کئے۔ تحقیق میں مشاہدے کے ساتھ ساتھ تجربہ کو بھی سائنسی تحقیقات کا جزوِ لاینفک قرار دیا۔ سائنسی طریقِ کار کے بانی معروف مسلمان سائنسدان "ابوالبرکات صبغت اﷲ بغدادی” ہیں جنہوں نے اِسلام کی آفاقی تعلیمات اور اُن کے سائنسی شواہد کے ساتھ مطابقت پر گہرے غور و فکر کے بعد اِسلام قبول کیا تھا۔ چنانچہ آج بھی سائنسی تحقیقات میں اپنایا جانے والا طریقِ کار وُہی ہے جسے ابوالبرکات بغدادیؒ نے اپنایا تھا۔ سائنسی طریقِ کار کو فروغ ملا تو ہر آن بدلتی ہوئی کائنات میں اِمکانات کی اَن گنت دُنیائیں ذہنِ اِنسانی کو تسخیرِ کائنات کی دعوت دینے لگیں۔

سائنس مُشاہدے اور تجربے کا دُوسرا نام ہے۔ تجربہ ہی وہ کسوَٹی ہے جو سائنسی علوم میں حقیقت تک رسائی کا واحد ذریعہ ہے۔ سائنسی طریقِ کار میں ایک سائنسدان کو درج ذیل مراحل سے سابقہ پڑتا ہے:

-1 تجربہ

experiment

-2 مُشاہدہ

observation

-3 نتیجہ

inference

-4 حقیقت (تنظیمِ نتائج)

systemization of inference

کسی مسئلہ کے مختلف پہلوؤں پر غور و خوض ہی اِنسان کو کسی نتیجے پر پہنچنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ طے شدہ اَمر ہے کہ کسی بھی موضوع پر تحقیق کے دوران سب سے پہلے بھرپور غور و فکر کو ہی اوّلیت حاصل ہے۔ سائنسی طریقِ کار میں پیش آمدہ معاملات کی جزئیات تک کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ زیر غور معاملے یا مسئلے کے متعلق سابقہ تمام سائنسدانوں کی آراء اور تجربات کی روشنی میں اُسے ہر ممکن طریقے سے پرکھا جاتا ہے اور بعد ازاں اُسے لیبارٹری میں "تجربے” کی کسوَٹی پر جانچا جاتا ہے۔ تجربے سے ماحصل مواد کا "مُشاہدہ” کرنے کے بعد اُسے "نتیجہ” کہا جاتا ہے۔ یہاں اِس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ کسی نتیجے تک پہنچ جانے پر تحقیق و جستجو کا سفر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ بار بار تجربات کے ذریعہ نتیجے کی صداقت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ہر بار وُہی نتیجہ اخذ ہونے کی صورت میں اُسے "نظریہ” قرار دے کر اُس کی وسیع پیمانے پر اِشاعت کا اِہتمام کیا جاتا ہے تاکہ ہم عصر سائنسدان بھی اپنے اطمینانِ قلب کے لئے اُسے نقد و نظر کی کسوَٹی پر پرکھیں جس سے وہ نظریہ واضح اور روشن صورت میں سامنے آئے اور غلطی کا کوئی اِمکان ہی باقی نہ رہے۔ رفتہ رفتہ سائنسدان جانچنے اور پرکھنے کے بعد اُسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیتے ہیں۔

اگرچہ اِس طریقِ تحقیق میں ایک مفروضے کو بالآخر مسلّمہ نظریئے کا درجہ دے دیا جاتا ہے، تاہم سائنسی طریقِ کار میں کسی نظریہ کو حقیقت کی حتمی شکل قرار نہیں دیا جاتا۔ نئے تجربات، نئے اِنکشافات کو جنم دیتے ہیں، اِس لئے سائنس کی دُنیا میں کوئی نظریہ جامد نہیں ہوتا۔ ممکنہ تبدیلیوں کا اِمکان بہرحال موجود رہتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ نئے تجربات کی روشنی میں اُسے مکمل طور پر مُستردّ کر دیا جائے۔

 

سائنسی تحقیقات میں اِقدام و خطاء کا تصوّر

 

جدید سائنس کی تمام تر تحقیقات اِقدام و خطا (trial / error) کے اُصول کے مطابق ہوتی ہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ کل تک جو اشیاء حقائق کا درجہ رکھتی تھیں موجودہ سائنس اُنہیں کلی طور پر باطل (rejected) قرار دے چکی ہے اور آج جو حقائق بنی نوع اِنسان کی نظر میں غیر متبدّل (unchanging) اور مسلّمہ حیثیت کے حامل ہیں آنے والا کل اُنہیں بھی یکسر مُستردّ کر سکتا ہے۔ یہ روِشِ تحقیق عقلِ انسانی کے عین مطابق ہے۔ یہ مقام قطعاً جائے حیرت نہیں کہ صدیوں کے مصدّقہ حقائق باطل قرار پاتے ہیں۔ یہی اُصولِ اِرتقائے علم ہے کہ جدید اِنکشافات کی روشنی میں مسلّمہ حقائق کا از سرِ نو جائزہ لے کر اِرتقائے علم کا عمل جاری رکھا جائے۔

اَب ہم سائنسی تحقیقات اور اُس کے طریقِ کار میں مضمر اِقدام و خطا اور اُس کے اَسباب کا تصوّر واضح کرنے کے لئے ایک مثال پیش کرتے ہیں۔

نظامِ شمسی پر تحقیقات

اِس کرۂ ارضی پر اِنسانی زِندگی کے آغاز ہی سے نظامِ شمسی اِنسان کی نگاہوں کا مرکز و محور بنا رہا ہے اور اُس کے جذبۂ تحقیق و جستجو کو اِمکانات کی نِت نئی دُنیاؤں کی طرف راغب کرتا رہا ہے۔ تاریخِ اِرتقائے تہذیب ِنسلِ اِنسانی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم دَور کا اِنسان بھی آج کے ترقی یافتہ اِنسان کی طرح اَجرامِ سماوی کی کرید میں خصوصی دِلچسپی لیتا رہا ہے۔ ذیل میں ہم نظامِ شمسی سے متعلقہ سائنسی تحقیقات کے مختلف اَدوار میں پنپنے والے اَفکار و نظریات کا جائزہ لیتے ہیں۔

1۔  بنی نوعِ اِنسان کا اوّلیں نظریہ

معلوم تاریخِ اِنسانی کے مطابق تہذیبِ اِنسانی اِبتداءً دجلہ و فرات کے دوآبے (Mesopotamia) اور مصر (Egypt) میں پروان چڑھی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قدیم اِنسانی معاشروں کے لوگ مظاہرِ فطرت کی پرستش کرتے تھے۔ اُن میں سمیری (Sumerians)، کلدانی، بابلی (Babylonians) اور مصری (Egyptians) اَقوام کا ذِکر ملتا ہے۔ وہ لوگ سورج اور چاند، ستاروں کی حرکات پر غور کرتے، اُن کے طلوع و غروب کا مُشاہدہ کرتے اور جب اُن کی عقل اِس سارے نظامِ فطرت کو سمجھنے سے عاجز آ جاتی تو وہ اُنہی مظاہرِ فطرت کو دیوتا کا درجہ دے کر اُن کی پوجا شروع کر دیتے۔

اُن قدیم اَقوام کا نظریہ تھا کہ زمین ساکن ہے جبکہ تمام اَجرامِ سماوی زمین کے گرد گردِش کرتے ہیں۔ سورج کے طلوع و غروب سے سادہ ذِہن یہی نتیجہ اخذ کر سکتا تھا کہ سورج کی زمین کے گرد گردِش سے دِن رات پیدا ہوتے ہیں۔

2۔ فیثا غورث کا نظریہ

فیثا غورث وہ پہلا شخص ہے جس نے یہ نظریہ قائم کیا کہ سورج ساکن ہے جبکہ زمین اُس کے گرد حرکت کرتی ہے۔ یونان (Greece) میں اپنی قائم کردہ اکیڈمی میں وہ اپنے شاگردوں کو سکونِ شمس اور حرکتِ زمین کے اِسی نظریہ کی تعلیم دیا کرتا تھا۔ تقریباً ایک سو سال تک اُس کے شاگرد اور پیروکار اِسی نظریئے پر کاربند رہے، جس کے بعد رفتہ رفتہ یہ نظریہ تاریخ کے جھروکوں میں کھو گیا۔

3۔ بطلیموس (Ptolemy) کا نظریہ

فیثاغورث کے بعد بطلیموس (Ptolemy) نے دوبارہ زمین کے ساکن ہونے اور اَجرامِ فلکی کے اُس کے محوِگردِش ہونے کا نظریہ پیش کیا، جسے پورے یونان میں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی اور زمین کے ساکن ہونے کے نظریئے کو مِن و عن تسلیم کر لیا گیا۔ درحقیقت یہ کوئی نیا نظریہ نہ تھا، بطلیموس نے ارسطو (Aristotle) ہی کے نظریئے کو فروغ دیا تھا۔ بطلیموس نے اِس نظریہ کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی اور زمین کے گرد سیارگانِ فلکی کی گردِش سے لوگوں کو عملی سطح پر رُوشناس کرایا، اِسی وجہ سے یہ نظریہ بطلیموس کے نام سے منسوب ہوتا چلا گیا۔ اُس نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب "المجسطی” (Almagest) میں قرائن و براہین کے ساتھ اِس نظریہ کی توضیح و تشریح کی۔ بطلیموس کا کہنا ہے کہ زمین کائنات کا مرکز ہے اور تمام سیارگانِ سماوی اِس مرکزِ کائنات کے گرد محوِ گردش ہیں۔ تاہم وہ اپنے مداروں (orbits) میں واقع کسی اَن دیکھی طاقت کے گرد بھی گھوم رہے ہیں۔

آج کے دَور میں ہم اِس نظریئے کی وضاحت یوں کر سکتے ہیں کہ بطلیموس کے نزدیک تمام سیاروں کا معاملہ چاند کی مِثل تھا، جو ایک لحاظ سے سورج کے گرد گردِش کر رہا ہے جبکہ اُس کے ساتھ ساتھ وہ ایک مختصر سے دائرے کی صورت میں زمین کے گرد بھی محوِ گردش ہے۔ بالکل اِسی طرح بطلیموس کے خیال کے مطابق تمام سیارے زمین کے گرد گردش کے علاوہ اپنے اپنے مدار میں موجود کسی اَن دیکھی قوّت کے گرد بھی چھوٹے چھوٹے دائروں میں گردِش کر رہے ہیں۔

اِس نظریئے میں زمین کے گرد واقع بڑے مداروں، اَن دیکھی طاقت کے گرد چھوٹے مداروں اور سیاروں کی حرکات میں باہم نسبت کی صحیح پیمائش کے دوران بہت سی بے قاعدگیاں سامنے آئیں، تاہم یہ نظریہ سولہویں صدی عیسوی تک یورپ میں خاصا مقبول رہا اور عیسائی مذہب کے حصے کے طور پر متعارف رہا۔

4۔ قالی (Arzachel) کا نظریہ

اِسلام ہر شعبۂ زِندگی میں اِنقلاب آفریں تبدیلیوں کا پیامبر بنا۔ فاران کی چوٹیوں پر نورِ ہدایت چمکا تو فرسودگی کا ہر نشان مٹ گیا۔ سوچ اور اِظہار کے نئے نئے دروازے وَا ہوئے، فرد کے اندر کی کائنات (أنفس) کے ساتھ فرد کے خارِج کی دُنیا (آفاق) کی تسخیر کا آغاز بھی ہوا۔ خود اللہ کی آخری کتاب سائنسی حوالوں کی معتبر ترین دستاویز ہے۔ مسلمان سائنس دانوں نے علومِ جدیدہ کی بنیاد رکھتے ہوئے سائنٹیفک سوچ کے دروازوں پر پڑے قُفل توڑے اور ذِہنِ جدید کو کشادگی اور وُسعت کے جواہر سے آراستہ کیا۔ اِسلامی اندلس کے نامور سائنسدان ابو اِسحق اِبراہیم بن یحییٰ زرقالی قرطبی (Arzachel) نے بطلیموس کے مذکورہ بالا نظریئے کا مضبوط دلائل اور مصدّقہ شواہد کے ساتھ ردّ کر کے دُنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ بطلیموسی نظام تقریباً ایک ہزار سال سے مسلّمہ حقائق کے طور پر پوری دُنیا میں تسلیم کیا جا رہا تھا۔ صدیوں سے ذِہنوں میں راسخ غلط نظریات کو یکسر بدل کر رکھ دینا یقیناً ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ زرقالی نے 1080ء میں سورج اور زمین دونوں کے محوِ حرکت ہونے کا نظریہ پیش کیا۔ اِس تھیوری کے مطابق سورج اور زمین دونوں میں سے کوئی بھی مرکزِ کائنات نہیں اور زمین سمیت تمام سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ اِس نظریئے میں بعد میں آنے والے کوپرنیکس (Copernicus) کے نظریہ کی طرح گنجلک پن بھی نہیں ہے۔ زرقالی کے نزدیک سورج کے گرد تمام سیارے بیضوی مدار (elliptic orbits) میں گردِش کرتے ہیں۔

زرقالی کا یہ نظریہ فطرت سے قریب ترین ہے اور یہ سچائی کی دریافت کے سفر میں ایک خوشگوار پیش رفت تھی۔ اِقدام و خطاء کا سلسلہ یہاں بھی آ کر تھما نہیں اور تحقیق کا سفر جاری رہا۔ عالمِ اِسلام تو گیارہویں صدی عیسوی کے اَوائل ہی میں بطلیموس کے غیرفطری نظریئے کو مستردّ کر چکا تھا مگر یورپ۔ ۔ ۔ جسے آج اپنی روشن خیالی پر ناز ہے۔ ۔ ۔ نے سولہویں صدی تک اِس فرسودہ نظریئے کو اپنے مذہب کی اَساس بنائے رکھا اور اِس نظریئے کو عیسائی مذہب کے ایک بنیادی پتھر کی حیثیت حاصل رہی۔

5۔ کوپرنیکس (Copernicus) کا نظریہ

کوپرنیکس (Copernicus) (1473ء تا 1543ء) زرخیز ذِہن کا مالک سائنسدان تھا۔ اُس نے سولہویں صدی کے آغاز میں بطلیموس نظریئے کی خرافات پر سے پردہ اُٹھایا اور اہلِ یورپ کو اس نظریئے کی فرسودگی سے آگاہ کیا اور حرکتِ زمین کا نظریہ پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ اِس کرۂ ارضی سمیت تمام سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ کوپرنیکس کے اِن سائنسی اِنکشافات کے بعد اہلِ یورپ کی سوچ کے جامد سمندر میں اِرتعاش پیدا ہوا اور ذہنِ جدید کے قفل ٹوٹنے لگے اور مغربی دُنیا کو حقیقت تک رسائی کا راستہ دِکھائی دینے لگا۔ یہ ایک بہت بڑا اِنقلابی قدم تھا، عیسائی دُنیا اِسے آسانی سے اپنی سوچ کا محور نہیں بنا سکتی تھی۔ بطلیموسی نظریئے سے سرِمُو اِنحراف بھی عیسائی دُنیا کے لئے ممکن نہ تھا کیونکہ وہ اُسے اپنے مذہب کا لازمی جزو قرار دے چکے تھے اور مذہبی عقائد سے اِنحراف کا راستہ نکالنا اُس وقت ناممکن تھا۔

 

 

6۔کو براہی (Tycho Brahe) کا نظریہ

سولہویں صدی عیسوی کے آخر میں ٹیکوبراہی (Tycho Brahe) نامی سائنسدان نے کو پرنیکس کے نظریئے کو مُسترد کرتے ہوئے ایک عجیب و غریب تھیوری پیش کی۔ اُس کے مطابق سورج اور چاند دونوں زمین کے گرد محوِ گردش ہیں جبکہ باقی پانچوں سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ سورج اپنے گرد گھومنے والے پانچ سیاروں سمیت زمین کے گرد گردش کرتا ہے۔ اِس تھیوری نے سائنسدانوں کو ایک مشکل اور پیچیدہ صورتحال سے دوچار کر دیا۔ بہرحال کوپرنیکس کا نظریہ سائنس کی دُنیا میں اِن عجیب و غریب نئے اَفکار کی مٹی میں دفن ہو کر رہ گیا اور سولہویں صدی کے اِختتام تک مغربی سائنس کی تحقیقات ایک بار پھر خطا کی طرف پیش قدمی کرتے دِکھائی دینے لگیں۔

ٹیکوبراہی (Tycho Brahe) کے پیش کردہ اِس نظریئے میں بطلیموس (Ptolemy) اور کوپرنیکس (Copernicus) کے نظریات کا یہ بے تکا اِجتماع ناقابلِ یقین حد تک مبہم تھا، تاہم بعد میں آنے والوں کی سوچ کی راہیں تحقیق و جستجو کے چراغوں سے منوّر ہوتی رہیں اور کیپلر (Kepler) تک آتے آتے حقیقت تک رسائی آسان ہوتی گئی اور راستے کے پتھر خود بخود ہٹتے رہے۔

7۔  گیلیلیو (Galileo) کا نظریہ

سائنسی حقائق کی تلاش کا سفر جاری رہا۔ جستجو اور تحقیق کے دروازے کھلے رہے۔ تازہ ہوائیں ذہنِ اِنسانی کو کشادگی اور تازگی عطا کرتی رہیں۔ اِٹلی کے مشہورِ زمانہ ہیئت دان گیلیلیو (Galileo) نے 1609ء میں دُوربین اِیجاد کرنے کے بعد جب کائنات کا مشاہدہ کیا تو اُسے کائنات میں عجائبات کی ایک دُنیا آباد نظر آئی۔ ماضی کے تمام نظریات ایک ایک کر کے باطل ہونے لگے۔ ٹیکوبراہی کا کیا دَھرا بھی غلط قرار پایا۔ گیلیلیو نے کوپرنیکس کے نظریئے کو قدرے درست پایا اور یوں کوپرنیکس کا نظریۂ حرکتِ زمین ایک بار پھر سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز بن گیا اور اِس حوالے سے تجربات و اِکتشافات کے ایک نئے دَور کا آغاز ہوا۔

8۔ کیپلر (Kepler)کا نظریہ

گیلیلیو کی توثیق کے بعد جوہانزکیپلر (Johannes Kepler) نے ٹیکوبراہی کی دیگر دریافتوں اور رصدگاہی آلات (observatory) کی مدد سے نئے سِرے سے تحقیقات کے بعد کوپرنیکس کے نظریئے کو علمی اور تجرباتی سطح پر دوبارہ زِندہ کیا۔ واضح رہے کہ کوپرنیکس کے نظریئے میں سورج کے گرد تمام سیاروں کے مداروں کو گول (circular) دِکھایا گیا تھا۔ کیپلر نے اِس نظریئے کو ردّ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مدار بیضوی (alliptic) ہیں اور یوں کوپرنیکس کی تھیوری میں واقع سُقم کو دُور کیا۔ اِسی سُقم کی وجہ سے یہ نظریہ ایک عرصہ تک نظرانداز کیا جاتا رہا تھا۔ اِس سُقم کے دُور ہوتے ہی اُسے دوبارہ پذیرائی نصیب ہوئی۔ یہ بالکل وُہی نظریہ ہے جو 1080ء میں قرطبہ (Cordoba) کے مسلمان سائنسدان زرقالی (Arzachel) نے پیش کیا تھا۔

9۔ نیوٹن (Newton) کا نظریہ

اِنسان تسخیرِ کائنات کی راہوں پر گامزن رہا، قدم قدم پر نئے نئے اِنکشاف منظرِ عام پر آتے رہے، سترھویں صدی کے وسط میں سر آئزک نیوٹن (Sir Isaac Newton) نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سورج ساکن ہے اور تمام سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ نیوٹن نے باقی ساری کائنات کو بھی مجموعی طور پر ناقابلِ تبدیل (unchanging) قرار دیا۔

10۔ آئن سٹائن (Einstein) کا نظریہ

اَفکار و نظریات میں تبدیلیاں رُونما ہوتی رہیں۔ سفرِ اِرتقاء کے کئی مزید مراحل طے ہو چکے تھے۔ بیسویں صدی نت نئی اِیجادات کی صدی ہے۔ اِسی صدی کے مشہورِ زمانہ یہودیٔ النسل سائنسدان البرٹ آئن سٹائن(Albert Einstein) نے برسوں کی تحقیق اور عرق ریزی کے بعد اپنا نظریۂ اِضافیت (Theory of Relativity) پیش کیا۔ اِس تھیوری کی رُو سے تمام اَجرامِ سماوی (خواہ وہ ستارے ہوں یا سیارے) گردش میں ہیں۔ علمی حلقوں نے اِس نظریئے کو سندِ قبولیت عطا کی اور یوں مسلم سائنسدان زرقالیؒ کی پیش کردہ نظریاتی بنیادیں نکھر کر سامنے آگئیں۔ آئن سٹائن کا نظریہ حقیقت کے قریب ترین ہے اور اِسے کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسبَحُونَ (یسین،36:40) اور وَ السَّمَآءَ بَنَینٰھَا بِأَیدٍ وَّ إِنَّا لَہٗ لَمُوسِعُونَ (الذاریات،51:47)کی صورت میں تائیدِ ایزدی بھی حاصل ہے۔ تاہم اِس نظریئے میں بھی جزوی طور پر کئی ایک اِصلاحات اور تبدیلیاں ممکن ہیں کیونکہ اِنسانی کاوِش حرفِ آخر نہیں ہوتی، اُس میں اِصلاح و ترمیم اور اِضافے کی گنجائش بہرحال موجود رہتی ہے۔

 

سائنسی تحقیقات کی بنیاد۔ ۔ ۔ اِقدام و خطاء

 

ہم نے مختلف اَدوار میں سامنے آنے والے مختلف سائنسدانوں کے اَفکار و نظریات کی روشنی میں سائنسی تحقیقات میں پیش آمدہ اِقدام و خطاء (trial / error) کے تصوّر کو واضح کرنے کی سعی کی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ زندگی کے ہر گوشے اور سائنس کے ہر شعبے میں مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اِقدام و خطاء کا تسلسل بھی جاری رہا اور ہے۔ عین ممکن ہے کہ آگے چل کر کوئی سائنسدان اپنے تجربات اور جدید تحقیق کی روشنی میں دوبارہ خطاء کی طرف پیش قدمی کرے اور آئن سٹائن کے نظریۂ اِضافیت کو۔ ۔ ۔ جسے آج مستند اور معتبر سمجھا جاتا ہے۔ ۔ ۔ کلیتاً مستردّ کر کے نئی تھیوری پیش کرے جو سابقہ تمام نظریات سے یکسر مختلف ہو۔

سائنسی علوم کا اندازِ تحقیق (یعنی تصوّرِ اِقدام و خطائ) کو جان لینے کے بعد قرآنی علوم کی حتمیت و قطعیت پر ہمارا اِیمان اور بھی پختہ ہو جاتا ہے اور ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اِنسانی اِستعداد زائیدہ سائنسی علوم اﷲ ربُّ العزت کی نازِل کردہ آخری وحی کے مقابلے میں ذرّہ بھی حیثیت نہیں رکھتے، اور اصل حقیقت اور ہمارے عقائد و نظریات کا منبع صرف اور صرف قرآن و سنت کی تعلیمات ہی ہو سکتی ہیں، کیونکہ سائنسی علوم کسی بھی نئی پیش آمدہ تحقیق کے بعد اپنے بنیادی نظریات سے منحرف ہو سکتے ہیں۔

ء

 

 

باب سوُم

سائنسی علوم کی بنیادی اَقسام اور اُن کا محدُود دائرۂ کار

 

نظم اور توازُن کے بغیر اِس معاشرے کی سب سے چھوٹی اِکائی یعنی خاندان کا نظام چلانا بھی ممکن نہیں ہوتا، ہر آن تغیر پذیر کائنات تو بڑی وسیع و عریض چیز ہے۔ اِنسانی عقل و شعور اِس کی حدبندی سے بھی قاصر ہے۔ نظم و توازن کے بغیر ماہ و نجوم اور سیارگانِ فلکی کی گردِش اور پھر مسلسل ربط، عظیم کائناتی ضوابط کی پابندی ہی سے ممکن ہے۔ یہ نظم توازُنِ کائنات کا حسن بھی ہے اور یہی نظم اور توازُن فرد کے اندر اور باہر کی دُنیا کو بھی رعنائیوں کا مرقع بنا دیتا ہے۔ اِسی طرح فطرت کے مقاصد کی نگہبانی اُسی وقت ممکن ہو سکتی ہے جب تمام جاندار اور غیر جاندار مخلوقات اپنے خالق و مالک کے اَحکامات کی پابندی کریں۔ اِس وسیع و عریض کائناتِ رنگ و بو کے سائنسی مطالعہ سے قدم قدم پر اِنکشافات کی نئی دُنیائیں آباد نظر آتی ہیں اور اَجرامِ فلکی سختی سے قوانینِ فطرت کی پابندی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ اِنکشاف ذِہنِ اِنسانی پر اَحکاماتِ خداوندی کی پابندی کے کئی بند دروازے کھولتا ہے کہ جب یہ غیر جاندار مخلوقات ستارے، سیارے،چاند، سورج اور کہکشائیں، سب اپنے خالق کے اَحکامات پر عمل پیرا ہیں تو پھر اِنسان کیوں نہ اپنے خالق کے اَحکامات بجا لائے۔ وہ تو اَشرفُ المخلوقات ہے اور اُسے تو اِس کائنات کی تسخیر کی ترغیب بھی خود خالقِ کائنات نے دی ہے۔ تسخیرِ   اب دُوُاہتاب کی متذکرہ بالا قراکائنات کے اِسی شعور سے جدید علوم جنم لیتے ہیں۔ ذِہنی اور فکری اِرتقاء کی منزلیں طے ہوتی ہیں اور قوانینِ فطرت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اِنسان کائنات میں جاری اُن قوانین اور ضابطوں کو اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھتا ہے اور اَخذ کردہ نتائج اور شعورِ نَو کی مدد سے معرفتِ اِلٰہی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ فطرت کے اِس عظیم نظام کے فہم و اِدراک اور اُس کی عملی زندگی میں توجیہات و تفہیمات کی بنیاد رکھتا ہے۔ چنانچہ قدرتی طور پر اُس کے ذِہن پر کشادہ راستے کھلتے جاتے ہیں اور یوں علومِ جدید کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے لیکن اِنسانی قوّتِ مشاہدہ پر کامل بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخِ اِرتقائے نسلِ اِنسانی بتاتی ہے کہ جدید تحقیق کے ساتھ ساتھ سابقہ نظریات کی بنیادیں تک بدلتی رہتی ہیں۔ اس کا طرزِ اِستدلال بھی بدلتا رہتا ہے۔ یہ اِنسانی علوم کا اپنا ایک انداز ہے جو اِنسانی عقل و دانش کے اُصولوں کے عین مطابق ہے۔ بہرحال علومِ اِنسانی کا دائرۂ کار اور اُس کی تمام تر تگ و دَو فطرت کے محض چند رُموز و اَسرار سے آگاہی تک ہی محدود ہے۔

سائنسی طرزِ فکر اِختیار کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ اِنسان فطرت سے متعلق علوم میں مقدور بھر دسترس رکھنے اور حقائق کو قوانینِ فطرت کی کسوٹی پر پرکھ کر کسی حد تک ضمنی نتائج اَخذ کرنے کے قابل ہو گیا ہے اور فرسودگی کا زنگ رفتہ رفتہ اُس کے ذِہن سے اُترنے لگا ہے، لیکن اِس کے برعکس وہ مافوق الفطرت واقعات کی ماہیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ مافوق الفطرت واقعات کے پس منظر اور پیش منظر کی تفہیم اُس کے حیطۂ شعور سے باہر ہے۔ مثلاً عالمِ اَنفس سے متعلق علم ’حیاتیات‘ (biology) ہمیں جسم کی ساخت، اُس کے اندر پیدا ہونے والی اچھی یا بری تبدیلیوں ، اُس کے لئے مفید اور ضرر رساں اشیاء اور اُس کی مکمل دیکھ بھال وغیرہ کا طریقہ بتاتا ہے اور اِنسان بیماری کی صورت میں اُس کے علاج معالجے کا شعور بھی رکھتا ہے، لیکن اِس کے برعکس یہ علم وجہِ تخلیقِ اِنسانی سے بے خبر ہے۔ اِنسان کی عاقبت کیا ہو گی؟ اِس سلسلے میں اُسے کچھ معلوم نہیں۔ اچھے یا برے اَعمال کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ وہ کچھ بھی نہیں جانتا۔ وہ اِس قسم کے دیگر سوالوں کا جواب دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ اِسی طرح عالمِ آفاق کی تخلیق و توسیع سے متعلقہ علم ’تخلیقیات‘ (cosmology) ہمیں Minute Cosmic Egg سے لے کر Big Crunch تک جملہ معلومات فراہم کرتا ہے اور تخلیقِ کائنات کے تمام مراحل اور انجامِ کائنات کی کئی ایک ممکنہ صورتوں کی بابت قیمتی معلومات کا ایک خزانہ بہم پہنچتا ہے، لیکن مذہب سے متعلقہ تمام معاملات مثلاً خود خالقِ کائنات، وجہِ تخلیقِ کائنات اور روزِ جزا کے قیام جیسے موضوعات کے بارے میں خاموشی اِختیار کرنے کے سِوا اُس کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ خلاصۂ بحث یہ ہے کہ جیسے ایک موٹر بوٹ سمندر کے پانیوں میں سینکڑوں کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن خشکی پر ایک قدم آگے بڑھنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتی، بالکل اِسی طرح سائنسی علوم بھی اپنے ایک محدود دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے اللہ ربّ العزّت کی عادت کے نظام یعنی نظامِ فطرت کے راز ہائے سربستہ کو پا لینے اور اُن کے اِدراک و شعور تک محدود ہیں۔ خالقِ کائنات کی قدرت کا اِظہار کیا شے ہے؟ اور مافوق الفطرت معاملات کیا ہوتے ہیں؟ اِس بارے میں جدید سائنسی علوم ہماری معلومات میں ایک لفظ کا بھی اِضافہ نہیں کر سکتے۔ سائنسی تحقیقات کے ذریعہ اِن اُمور کا سُراغ لگانا اور کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا ممکن ہی نہیں کیونکہ یہ مذہب کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ اِس بات کی وضاحت ہم حصہ اوّل کے دُوسرے باب میں تفصیل سے کر چکے ہیں کہ ’مذہب‘ اور ’سائنس‘ دونوں کے دائرۂ کار ہی جداگانہ ہیں، لہٰذا اِن میں سے کسی ایک سے صرفِ نظر اور دُوسرے پر کلی اِعتماد کرتے ہوئے فقط اُسی کے بل بوتے پر دُوسرے کے دائرۂ کار میں آنے والے حقائق سے آگہی کیونکر ممکن ہے!

 

سائنسی علوم کی اَقسام

 

عالمِ اسلام کے نامور سائنسدان ابوالبرکات بغدادی (1065ء تا 1155ء) کا وضع کردہ سائنسی طریقِ کار مسلمانوں پر حاوی ہو جانے والی ناقابلِ بیان علمی پسماندگی کے بعد گزشتہ پانچ صدیوں سے عالمِ مغرب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ سائنٹفک اَپروچ نے بنی نوعِ اِنسان کو اپنی اپنی فیلڈ میں اپنی تحقیقات کی بنیاد کے طور پر حقیقت پسندانہ طرزِ عمل اپنانے کا شعور عطا کیا ہے۔ جدید مغربی سائنس کی تمام تحقیقات اُن طبعی اور حیاتیاتی علوم پر مشتمل ہیں جن کی کسی بھی حوالے سے بنی نوع اِنسان کو ضرورت ہے۔ وہ فطری علوم جو موجودہ سائنس کے زُمرے میں آتے ہیں،اُن کے دائرۂ کار کی بآسانی تفہیم کے لئے اُنہیں درج ذیل تین بنیادی اَقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

i۔مادّی علوم

physical sciences

ii۔حیاتیاتی علوم

biological sciences

iii۔ نفسیاتی علوم

psychological sciences

مادّی علوم (Physical sciences)

یہ کائناتِ ارض و سماء مادّے کی مختلف اَشکال اور مادّے کی رنگا رنگ صورت پذیری کا دِلکش اور دِلچسپ مرقع ہے۔ مادّے کی دُنیا سے تعلق رکھنے والے تمام علوم اِسی ذیل میں آتے ہیں۔ اِنہیں ہم غیرنامیاتی اَشیاء کے علوم کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ مادّی علوم میں علمِ طبیعیات (physics)، علمِ ہیئت (astronomy)، علمِ تخلیقیات (cosmology)، علمِ کونیات (cosmogony) علمِ جغرافیہ (geography)، علمِ کیمیاء (chemistry)، علم آثارِ قدیمہ (archaeology)، علمِ طبقاتُ الارض (geology)، علمِ موسمیات (meteorology)، علمِ ہندسہ (geometry)، فنِ تعمیر (architectonics)، علمِ برقیات (electronics)، اور کمپیوٹر سائنسز وغیرہ قابلِ ذِکر ہیں۔ اِن علوم کا دائرۂ کار زِندگی اور شعور دونوں سے قطع نظر محض غیر نامیاتی کائنات تک محدُود ہے۔

حیاتیاتی علوم (Biological sciences)

سائنسی علوم میں حیاتیاتی علوم کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اِس شعبہ میں زِندگی اور اُس کی نشو و نما سے متعلق تمام علوم شامل ہیں۔ اِن علوم کے دائرۂ کار میں تمام جاندار اشیاء آ جاتی ہیں۔ اِنسانی اور حیوانی زندگی، حشرات الارض، سمندری مخلوقات اور نباتات وغیرہ اِن علوم کا موضوع ہیں۔ علمِ حیاتیات (biology)، علمُ الجنین (embryology)، علمِ حیوانات (zoology)، علمِ تشریحُ الاعضاء (anatomy)، علمُ الطب (medical science)، علمُ الجراحت (surgery) اور علمِ نباتات (botany) وغیرہ اِسی ذیل میں آتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ حیاتیاتی علوم فقط دُنیوی زِندگی سے بحث کرتے ہیں۔ گویا جسمانی زِندگی کے مختلف اَدوار اور مختلف مراحل تو زیر بحث آتے ہیں لیکن اِنسان کی رُوحانی زِندگی اِن علوم کا موضوع ہی نہیں۔ اِس لئے قبل اَز حیات اور بعد ممات کی زِندگی سے اِن علوم کو کوئی سروکار نہیں۔ یہ موضوعات اِن حیاتیاتی علوم کے موضوع سے خارج ہیں۔

نفسیاتی علوم (Psychological sciences)

وہ علوم جو حیاتِ اِنسانی کی شعوری رعایت سے تشکیل پاتے ہیں نفسیاتی علوم کہلاتے ہیں۔ اِنہیں مجموعی طور پر سوشل سائنسز کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ یہ اِنسانی رویوں سے بحث کرتے ہیں اور اس کی فکری اور نظری سمتوں کی وضاحت کرتے ہیں۔ نفسیاتی علوم کی مختلف شاخیں ہیں۔ مثلاً: فلسفہ (philosophy)، اَخلاقیات (ethics)، نفسیات (psychology)، صحافت (journalism)، قانون (law)، تعلیم (education)، زبان و اَدب (literature)، سیاسیات (political science)، معاشیات (economics)، تاریخ (histiography)، عمرانیات (sociology) اور تمام فنونِ لطیفہ (fine arts) اِسی زُمرے میں آتے ہیں۔ یہاں اِس اَمر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ تمام علوم و فنون شعورِ اِنسانی پر اور اِنسان کے جبلی طرزِ عمل پر براہِ راست اَثرانداز ہو کر اُس کی شخصیت اور کردار کو صیقل یا زنگ آلود کرتے ہیں، تاہم مذہب کے زُمرے میں آنے والے تمام مافوق الفطرت علوم تک کامل رسائی اِن نفسیاتی علوم کے ذریعہ بھی ممکن نہیں۔

 

جدید سائنس کی سنگین خطا

 

آج کا ترقی یافتہ اِنسان خواہ اُس کا تعلق کسی بھی برِاعظم سے ہو، وہ شدید ذِہنی اُلجھاؤ کا شکار ہے۔ اندرونی خلفشار نے اُس کی تخلیقی صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دورِ حاضر میں اِمامتِ علم کا فریضہ سر انجام دینے والے مغربی سکالرز نے اِعتدال اور توازُن کا دامن ہاتھ سے چھوڑ رکھا ہے۔ مادّی اور حیاتیاتی علوم کی اِنتہاؤں کو چھونے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی علوم پر کما حقہٗ توجہ نہیں دی جا سکی۔ سائنسی علوم کے مذکورہ بالا تینوں شعبے اور اُن کی بیسیوں ذیلی شاخیں اِنسانی ماحول میں واقع فطرت کا محض بِالاَجزاء مطالعہ کرتی ہیں۔ اِس وقت صورتحال کچھ یوں ہے کہ ایک طرف تو اِنسان حیاتیاتی علوم میں درجۂ کمال تک پہنچنے کے باعث پیچیدہ تر بیماریوں کے خلاف مسلسل جنگ جاری رکھے ہوئے ہے اور دُوسری طرف جدید سائنس مادّی علوم کی رِفعتوں کو چھو رہی ہے۔ جہاں ایک طرف سرجری میں بے پناہ ترقی کی گئی ہے اور نت نئی ادویات بیماریوں کے خلاف کمربستہ ہیں، وہاں دُوسری طرف آسمان کی وُسعتوں میں سِتاروں پر کمندیں ڈالی جا رہی ہیں اور تسخیرِ کائنات کے عزم سے نکلنے والا اِنسان چاند پر اُترنے کے بعد مریخ کے سفر کی تیاریوں میں مصروف ہے۔

ایسے میں جب ہم اِس ترقی یافتہ دَور میں نفسیاتی علوم کی طرف ایک نگاہ دیکھتے ہیں تو مارے شرم کے نظر ٹِک نہیں پاتی کہ اکثر مغربی سائنس دانوں اور اَربابِ دانش کی مخصوص ذِہنیت کے سبب سے نفسیاتی علوم کا شعبہ پوری طرح پنپ نہیں سکا۔ سوشل سائنسز جو نفسِ اِنسانی سے متعلقہ علوم پر مشتمل ہیں اور جن کا تعلق براہِ راست اِنسان کی شعوری زِندگی کے ساتھ ہے، اُنہیں جان بوجھ کر پس ماندہ رکھا گیا ہے اور اِس ضمن میں کوئی قابلِ ذِکر پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ حیران کن اَمر یہ ہے کہ موجودہ سائنس جس کی تمام تر ترقی شعورِ اِنسانی کی بیداری کی مرہونِ منت ہے، شعوری سائنسز سے اِس درجہ بے اِعتنائی برتنے کی مُرتکب ہو رہی ہے۔ یہ امر ہمارے پیشِ نظر رہنا چاہئے کہ محض مادّی اور حیاتیاتی علوم میں ترقی کے ذریعہ اِنسانیت کے جمیع مسائل کا حل ممکن نہیں بلکہ اِس کے ذِہنی سکون اور اِطمینانِ قلب کے لئے نفسیاتی سائنسز پر بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

مغرب کا بے سکون معاشرہ گوشۂ عافیت کی تلاش میں ہے۔ آج کے اِنسان کی مضطرب رُوح سکون کی متلاشی ہے۔ وہ جنسی بے راہ روی کا شکار ہے۔ دجل، جھوٹ، فریب اُس کی گھٹی میں پڑے ہوئے ہیں۔ اُس کے نفسیاتی مسائل نے اُسے مفادات کا قیدی بنا دیا ہے۔ اَخلاقی طور پر وہ دیوالیہ پن کا شکار ہے۔ مغرب میں اپنی مکمل تباہی کے بعد اب مشرق میں بھی معاشرے کی بنیادی اِکائی یعنی خاندان کا شیرازہ بکھرنا شروع ہو چکا ہے۔ اِنسانی معاشرے قوّتِ برداشت سے محروم ہو چکے ہیں، معاشرے معاشروں پر جنگیں مسلّط کر رہے ہیں اور اِس آفاقی معاشرے کا فرد بے جہت منزلوں کی طرف سفر رواں ہے۔ مقصدیت نام کی کسی چیز کا اُس کی زندگی میں عمل دخل نہیں رہا۔ وہ مکمل تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ثقافتی بحران کی سنگینی اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ اپنی رِوایات سے اِنحراف کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اگر مغربی سائنسدان اور اربابِ علم و دانش سوشل سائنسز پر بھی مناسب توجہ دیتے اور محض مادّی ترقی کو ہی اِنسانی معاشروں کی فلاح کا ضامن نہ ٹھہراتے تو آج اِنسان کی سوچوں کے اندر ایک ٹھہراؤ اور وقار ہوتا۔ اِنسانی معاشرہ یوں حیوانی معاشرے کے قریب تر ہو کر اپنی اعلیٰ اَخلاقی رِوایات سے یکسر محرومی کی راہ پر گامزن نہ ہوتا۔

ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ مادّی اور حیاتیاتی علوم کے ساتھ ساتھ سوشل سائنسز کو بھی بھرپور توجہ کا مستحق سمجھا جائے اور اِنسان کو ذِہنی خلفشار اور فکری پراگندگی سے نجات دِلا کر اور اُسے مقصدِ زندگی کی بے اَنت لذّتوں سے ہمکنار کیا جائے۔ جب تک تمام مادّی، حیاتیاتی اور نفسیاتی علوم میں فکری روابط کو مضبوط نہیں بنایا جاتا اُس وقت تک معاشرے معاشروں کے خلاف جنگیں بپا کرتے رہیں گے اور نسلِ اِنسانی کی وحدت اور یگانگت کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ شعوری سائنسز یا نفسیاتی علوم ذہنِ اِنسانی سے براہِ راست تعلق کی وجہ سے رُوحانی علوم یعنی مافوق الفطرت علوم سے کسی حد تک قریب چلے آتے ہیں اور اُن تک رسائی میں قدرے معاوِن ثابت ہو سکتے ہیں۔

 

 

اِنسانی علوم کی بنیادی ضرورت

 

اب تک کی بحث سے ہم اِس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اِنسانی سوچ کبھی بھی حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ ذِہنی اِرتقاء، فکری بالیدگی، کائناتی سچائیوں کے اِدراک اور خلافِ عقل واقعات کے ظہور سے بشری علوم میں ترمیم، اِضافہ اور اِصلاح کی گنجائش بہرحال موجود رہتی ہے۔ اِنسانی علوم اور نظریات حالات و واقعات اور سائنسی اِنکشافات کی روشنی میں یکسر مُستردّ بھی ہو سکتے ہیں۔ اِس لئے کہ علومِ بشری کی وحیِ اِلٰہی سے مطابقت ناپید ہوتی ہے اور یہ مطابقت علومِ بشری کی بنیادی ضرورت ہے۔ اِنسانی اِستعداد پر اِنحصار کرنے والے تمام علوم میں ہم آہنگی اور اِرتباط کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ ہے وحیِ اِلٰہی سے مطابقت۔ وحی اِلٰہی کی آخری اور حتمی صورت اِسلام کے دامنِ رحمت میں موجود ہے اور صحیفۂ اِنقلاب کی صورت میں حرف بحرف محفوظ ہے۔ قرآنِ حکیم کو تمام علوم کی بنیاد قرار دے کر اور اِس کی ایک ایک آیت کو رہنما اُصول کا درجہ مان کر اگر تمام سائنسی علوم کا ڈھانچہ اُستوار کیا جائے تو یقیناً تمام سائنسی علوم میں ہم آہنگی اور اِرتباط بھی پیدا ہو گا اور یہ ایک ہی اِکائی کو مکمل کرتے نظر آئیں گے۔ قرآنِ مجید کے اَنوار و تجلّیات سے اِکتساب نور کرنے والے یہ تمام علوم کامیاب حیاتِ اِنسانی کے لئے ایک ہی ضابطہ اور لائحۂ عمل مرتّب کرتے دِکھائی دیں گے۔

اِس ضمن میں خاص طور پر قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ مادّی علوم اور اُن کی مختلف شاخیں فقط تحقیق و جستجو کی بدولت خود بخود لاشعوری طور پر قرآنی علوم سے مطابقت اِختیار کرتی چلی جا رہی ہے اور قدم قدم پر آسمانی ہدایت کے ایک ایک لفظ کی توثیق ہو رہی ہے، لہٰذا شعوری سائنسز کو بھی وحدتِ نتائج کے گوہرِ مُراد کے حصول کیلئے مادّی علوم کی اِتباع میں قرآنی علوم کی مطابقت اِختیار کرنا ہو گی۔اگر دورِ حاضر کے فلاسفرز اور دانشورانِ عالم شعوری سائنسز کو بھی باقی علوم کی طرح جگر سوزی کے ساتھ پروان چڑھائیں تو کچھ بعید نہیں کہ شعوری سائنسز بھی مادّی و حیاتیاتی علوم کی طرح بنی نوع اِنسان کو اِلہامی علوم یعنی مافوق الفطرت علوم کی صداقت کی طرف لے آئیں۔

 

تہذیبِ مغرب کا کھوکھلا پن

 

قرآن کے لفظ لفظ سے سچائی کی قندیلیں روشن ہیں۔ خلاء کی وُسعتوں میں بھی اللہ ربّ العزّت کی عظمتوں اور اُس کی آخری کتابِ ہدایت کے سورج چمک رہے ہیں۔ حضور رحمتِ عالم ﷺ کی زبانِ اَقدس سے نکلا ہوا ہر لفظ کائناتی سچائیوں کا اَمین بن کر بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے چلنے کے لئے پیکرِ دعوتِ عمل بنا ہوا ہے۔ اگرچہ دُشمنانِ اِسلام کی آنکھوں پر تعصّب کی پٹی بندھی ہوئی ہے لیکن اُن کی اپنی سائنسی تحقیقات اِسلام اور پیغمبرِ اِسلام ﷺ کی حقّانیت کے پرچم بلند کر رہی ہیں اور تہذیبِ مغرب اِس بات کا دبے لفظوں میں اِعتراف کر رہی ہے کہ قرآن ایک اِلہامی کتاب ہے اور تاجدارِ کائنات ﷺ اللہ کے سچے نبی ہیں۔

مغرب کی کھوکھلی تہذیب کے پاس اِن کائناتی سچائیوں کا اِعتراف کرنے کے سِوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ اگر مغرب وحیء اِلٰہی کی حتمی صورت (قرآن حکیم) سے مطابقت نہ سہی فقط اپنی اِستعداد کے زائیدہ علوم میں ہی باہم اِفتراق پیدا نہ ہوتے دیتا اور تمام علوم پر یکساں توجہ دے کر اُنہیں ایک ہی مقصد اور آفاقی سچائی کے حصول کے لئے ایک ساتھ پروان چڑھاتا تو نہ صرف یہ کہ وہ خود اپنے تمام علوم کی قرآن سے یگانگت اور مطابقت کی بنا پر اِسلام کی طرف مائل ہو جاتا بلکہ اُسے ترقی کے بامِ عروج کو چھو لینے کے بعد زوال اور اِنحطاط کے موسموں کو اپنے گلے کا ہار بھی نہ بنانا پڑتا اور دانائی کی فضیلت کا تاج بدستور اُس کے وقار اور تمکنت کو برقرار رکھتا، لیکن اِس وقت صورتحال بالکل اِس کے برعکس ہے۔ تہذیب مغرب اِجتماعی خودکشی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اِنسانی معاشرے حیوانی معاشروں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ اِنٹرنیٹ اور جدید ذرائع اِبلاغ و مواصلات کے ذریعے زمینی فاصلوں کے سمٹنے کے باوجود ذہنی، فکری اور رُوحانی فاصلوں کی خلیج کا پاٹ وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے۔ اِنسانوں کے گلوبل ویلج نامی ہجوم میں رہتے ہوئے بھی آج کا اِنسان تنہائی کا شکار ہے۔ وہ اِس لئے کہ مادّی ترقی نے اُس کی رُوحانی دُنیا کے ہر ہر نقش کو مِٹا دیا ہے اور اُس سے سکونِ قلب کی دولت چھین کر اُسے محض اپنے مفادات کا قیدی بنا دیا ہے۔ اِس وقت عالمِ مغرب کی حالت اُس خیمے کی سی ہے جس کی چوبیں جل چکی ہوں اور طنابیں ٹوٹ رہی ہوں۔ ایسے خیمے کو زیادہ دیر تک کس طرح کھڑا رکھا جا سکتا ہے؟ وہ عمارت جس کی دیواروں کو دیمک چاٹ رہی ہو اور جس کی بنیادوں میں پانی بھرا جا رہا ہو اُسے زمین بوس ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی اور وہ اپنے ہی قدموں پر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہی حالت یورپ کی تہذیب کی ہے۔ ثقافتی اور رُوحانی بحران نے اُسے اندر سے کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ اُس کی ساری تابندگی مصنوعی روشنیوں کا کرِشمہ ہے جو ایک روز آن کی آن میں بجھ جائیں گی۔ حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے کہا ہے:

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی

جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا

 

مسلم دانش کے لئے لمحۂ فکریہ

 

فکرِ مغرب اِنسانیت کو تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے۔ مادّی علوم کی روشنی میں ضوابطِ حیات ترتیب دینے والے معاشرے اندرونی شکست و ریخت کا شکار ہو کر رُوح کی طمانیت اور قلب کی آسودگی سے یکسر محروم ہو چکے ہیں۔ مادّی سائنسز کی ہر نازک شاخ فطرتِ اِنسانی کا جمیع بوجھ اُٹھائے رکھنے کے ہرگز ہرگز قابل نہیں۔ زوال لمحوں کے حصارِ بے اَماں میں اُلجھا عالمِ مغرب اپنی منزل کی تلاش میں بھٹک رہا ہے۔ آنے والا وقت اُس کی رُوحانی اور فِکری محرومیوں اور نا آسودگیوں میں مزید اِضافہ کر دے گا۔ نفسیاتی یا شعوری سائنسز کو پسِ پشت ڈال کر صرف مادّی ترقی سے اپنا ناطہ جوڑنے کا خمیازہ مغربی دُنیا کے ساتھ ساتھ پورے عالمِ اِنسانی کو بھگتنا پڑے گا، بلکہ اِس کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ جب ثقافتی رِشتے ٹوٹتے ہیں اور فطری اَقدار سے عدم اِطمینان کا جذبہ اُبھرتا ہے تو اِنسان عملاً زِندہ لاش میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ رُوح کی موت جسم کی موت سے بھیانک منظر پیش کرتی ہے۔ اندر کا آدمی مر جائے اور اپنی رِوایات سے اُس کا رشتہ کٹ جائے تو اِنسان اور حیوان میں تمیز مشکل ہو جاتی ہے۔ درندگی اور وحشت کے پیرہن میں اِنسان شیطان کے بھی پر کاٹنے لگتا ہے۔

مغرب اپنی تمام تر مادّی ترقی اور خوشحالی کے باوجود نا آسودگی کی جس آگ میں جل رہا ہے وہ مسلم دانش کے لئے بھی ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ آگ مسلم اُمّہ کے دامن تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ ۔ ۔ بلکہ عریانی، فحاشی، بے حیائی اور بے حمیتی کے مختلف ذرائع سے یہ آگ ہمارے دروازوں پر بھی دستک دے رہی ہے۔جب کوئی بڑا محل گرتا ہے تو اُس کے پہلو میں بنی آس پاس کی جھونپڑیاں بھی اُس کے ملبے تلے دب جاتی ہیں۔ عالمِ اِسلام کے اَربابِ دانش و بصیرت کو اپنے گھر کی حفاظت کے لئے ابھی سے اِجتماعی سطح پر مؤثر اور ٹھوس اِقدامات کرنا ہوں گے۔ اپنے ثقافتی اَثاثوں کو بچانے کے لئے ابھی سے بے عملی اور نظری حوالوں سے پیش بندی کرنا ہو گی۔ مسلم اُمّہ اگر اَب بھی خوابِ غفلت کا شکار رہی تو وقت اُس کے بیدار ہونے کا اِنتظار نہیں کرے گا۔ ہمیں آج ہی اپنے مقام کا تعین کرنا ہو گا اور قرآنی علوم کی مطابقت میں جدید اِسلامی سائنس کے دور کا سنگِ بنیاد رکھنا ہو گا ورنہ آنے والا علمی و ثقافتی بحران ہمارے ملّی اَثاثوں کو بھی خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا اور طوفان گزر جانے کے بعد ساحلِ سمندر پر اپنے گھروندوں کے نشان ڈھونڈنے والا بھی کوئی نہیں بچے گا۔

 

سائنس اور مذہب میں رابطے کی واحد صورت

 

اِنسان کی مادّی اور رُوحانی زِندگی میں اِعتدال اور توازُن برقرار نہ رہے تو ذہنِ اِنسانی جسمانی آسودگی اور مادّی خوشحالی کے باوجود رُوحانی نا آسودگی کی آگ میں جلتا رہتا ہے اور نظری غربت و اِفلاس کا اِحساس ہر لمحہ اُس کی رُوح کو ڈستا رہتا ہے، اِس لئے کہ مادّی آسودگی کا حصول ہی سب کچھ نہیں۔ اِطمینانِ قلب کے بغیر خوشحالی اور آسودگی کا مادّی تصوّر بھی بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ بے پناہ مادّی ترقی اور ہر طرح کی خوشحالی کے باوُجود مغرب میں خودکشی کی شرح میں خوفناک حد تک اِضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ آج مغرب کے مفکرین اِس سوال کا جواب تلاش کر رہے ہیں۔ اپنے تمام تر تعصبات کے باوجود اُنہیں اِس سنگین مسئلہ کا ایک ہی حل نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ مادّی ترقی کو ہدفِ تنقید بنائے بغیر رُوحانی اَقدار کے اِحیاء کے ذریعے خدا خوفی کے جذبے کو اِنسانی سوچ کا مرکز و محور بنایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں اِسلام اِنفرادی طور پر تیزی سے پھیل رہا ہے کیونکہ مغربی دُنیا میں یہ اِحساس تیزی سے اُبھر رہا ہے کہ اگر آج کے جدید اِنسان کو اَمن، سکون اور عافیت کی تلاش ہے تو اُسے اُس پیغمبرِ اَعظم ﷺ کی دہلیز پر جھک جانا ہو گا، جس نبیٔ محتشم ﷺ نے آج سے چودہ سو سال قبل اُفقِ عالم پر دائمی اَمن کی بشارتیں تحریر کر کے اِنسان کو ایک مکمل ضابطۂ حیات عطا کیا تھا کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ جس رسولِ آخر ﷺ نے علم و حِکمت اور دانائی کو معیارِ فضیلت قرار دیا تھا، اُس رسولِ بر حق ﷺ کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہوئے بغیر اِنسان اپنی تخلیق کے حقیقی مقاصد کو پورا نہیں کر سکتا۔ اِکیسویں صدی ہی نہیں آنے والی ہر صدی اِسلام کی صدی ہو گی اور پیغمبرِ اِسلام کی عظمت کا پرچم بلادِ عرب سے بلادِ مغرب تک ہر اُفق پر پوری آب و تاب کے ساتھ لہرائے گا۔ اِس لئے کہ ہر زمانہ حضورﷺ کا زمانہ ہے اور ہر صدی حضورﷺ کی صدی ہے۔ دامنِ حضورﷺ سے وابستگی ہی اِنسان کی مادّی اور رُوحانی فلاح کی ضامن ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اَب مغرب میں بھی نفسیاتی علوم سے بے اِعتنائی اِختیار کرنے کے منفی رویئے کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔

سوشل سائنسز شعورِ اِنسانی کے اِنتہائی قریب ہونے کی وجہ سے مافوق الفطرت علوم سے تھوڑا بہت قرب ضرور رکھتے ہیں۔ موجودہ ترقی یافتہ تہذیبِ اِنسانی ہر قسم کے سائنسی علوم کے ذریعہ اگرچہ مافوق الفطرت نظام اور اللہ ربّ العزّت کی قدرتِ کاملہ کے مختلف مظاہر کو کماحقہٗ سمجھنے سے قاصر ہے، تاہم نفسیاتی علوم کی مدد سے اُس کا اِقرار اور اُس کی عظمتوں کا اِعتراف کرنے کے قابل ضرور ہو سکتی ہے۔ مثلاً خالقِ کائنات کے وُجود اور اللہ ربّ العزّت کی ربوبیت کا اِقرار، روزِ محشر کے قیام پر اِیمان وغیرہ، لیکن سولہویں صدی عیسوی میں کلیسا کے ڈسے ہوئے مغربی سائنسدان اِن حوالوں سے اِجتناب برتتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِن علوم کے اِرتقاء کے سفر میں کوئی قابلِ ذِکر پیش رفت نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ موضوعات مادّی سائنس کے دائرۂ کار میں نہیں آتے۔ چونکہ اِنسانی فہم کے زائیدہ سائنسی علوم صرف نظامِ فطرت اور عادتِ خداوندی تک رسائی کے حامل ہیں اِس لئے حیاتِ انسانی کے با مقصد کمال اور اﷲ کی وحی کے تقاضوں کی تکمیل محض اِنسانی سائنسی علوم کے بل بوتے پر ممکن نہیں۔ انسان کی دائمی فلاح اور اُخروی سعادت کا حصول صرف اور صرف اِسلام کے دامن سے متمسک ہونے سے ہی ممکن ہے۔ اِنسان کے تمام تر خود ساختہ مادّی، حیاتیاتی اور نفسیاتی علوم اﷲ رب العزت کی وحدانیت اور حقیقتِ کائنات کے اِدراک سے قاصر ہیں۔ اِن تینوں شعبوں میں شامل علوم غیرنامیاتی اشیاء، نامیاتی و حیاتیاتی مخلوقات اور شعوری سطح کے حامل اِنسانی رویّوں تک آ کر ختم ہو جاتے ہیں۔ مافوق الفطرت علوم کا مطالعہ سائنس کی کسی بھی شاخ کا موضوع نہیں، اِس لئے”حقیقت” تک رسائی سائنسی علوم کے بس کی بات نہیں۔