FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

غل خاں

اور

دوسرے مضامین

 

 

ڈاکٹر محمد یونس بٹ

 

 

 

 

 

 

 

 

 

غل خان

 

 

وہ چپ بھی ہوں تو تب لگتا ہے کہ بول رہے ہیں ایک بار بولیں تو کئی بار سنائی دیتے ہیں، لہجہ ایسا کہ کانفرنس کو بھی خانفرنس کہتے ہیں، پشتو سے اس قدر محبت ہے کہ انگریزی تک پشتو میں بولتے ہیں، بولتے وقت کان کا لفظ اور غصہ بہت دکھاتے ہیں، اگر ان کی بات بہت طویل ہو جائے تو سمجھ لیں وہ اپنی بات کا خلاصہ بیان کر رہے ہیں، انہیں اپنی ہر بات پر اس قدر یقین ہوتا ہے کہ خود کو ولی کہتے ہیں، بات کے اس قدر پکے کہ جو بات کہیں  گے ، بیالیس سال بعد بھی وہ کہتے ہیں، وہ تو جو لطیفہ ایک بار سنا دیں پھر جب بھی لطیفہ سنائیں گئے وہ ہی سنائیں گے ،ضیا کے مارشل لا لگانے پر اک بار یہ لطیفہ سناتے کہ ایک شخص گدھے پر چوڑیوں کی گٹھڑی لئے جا رہا تھا، ایک سپاہی نے روکا اور ڈنڈا مارتے ہوئے پوچھا اس میں کیا ہے ؟ تو اس شخص نے کہا اگر آپ نے ایک بار پھر ڈنڈا مارا تو پر اس میں کچھ نہیں ہے ، وہ زبان  سے سوچتے ہیں، اس لئے  جب بول رہے ہوں تو سمجھ لیں سوچ رہے ہیں، غصے میں بول رہے تو تب بھی یہی لگتا ہے کہ فائرنگ کر رہے ہیں، سنا ہے وہ غصے میں اپنے علاوہ کسی کی بات نہیں سنتے ، یہ غلط ہے ، وہ غصے میں اپنی بھی بات نہیں سنتے ۔

اس خاندان میں آنکھ کھولی جس نے ابھی تک آنکھ نہیں کھولی، جیسے میرا دوست ف کہتا ہے کہ مجھ سے تمیز سے بات کرو، میرے سات بھائی ہیں، اور ان میں سے ایک کشمیری بھی ہے ، یہ کہتے ہیں مجھ سے سیاست کی بات ہوش میں کرو، میرا باپ گاندھی بھی رہا ہے ، پہلے نیشنل عوامی پارٹی کو بیگم نسیم ولی خان سمجھتے ، آج کل نسیم ولیخان کو نیشنل عوامی پارٹی سمجھتے ہیں، ان کے والد کی اتنی بڑی ناک تھی کہ دھوپ میں انہیں چھتری کی ضرورت نہ پڑتی تھی، ناک منہ پر سایہ کئیے رکھتی تھی، غل خان کی بھی ایسی خوب ناک ہے کہ وہ خاک کی اوٹ میں چھپ سکتے ہیں، ان کی تو چھوٹی انگلی بھی بڑی ہے ، دونوں باپ بیٹوں میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ یہ کہ باپ عمر میں بڑا تھا، ان کے کان دیکھ کر بندہ سوچتا کہ قدرت کتنی فیوچرسٹک ہے ، اس نے اس وقت ایسے کان بنانے شروع کر دئیے ، جب ابھی انسان کے ذہن میں عینک بنانے کا خیال تک نہ آیا تھا، اس عمر میں ہیں جس میں وگ کے بال بھی سفید ہو جاتے ہیں، لیکن بال سفید ہوئے تو کیا ہوا عینک تو سیاہ ہے ، ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں یا اللہ ایسی چشم بینا عطا فرما کہ دیکھنے کیلئے عینک کی ضرورت نہ پڑے ، ان کی نظر گاندھی آشرم میں لاٹھی لگنے سے خراب ہوئے ، تب پاکستان کو اسی خراب نظر سے دیکھتے تھے ، وہ کام جو دل لگا کر کرنے چاہیں وہ کام بھی عینک لگا کر کرتے ہیں، نہر جیکٹ پہنتے ہیں، جو اپنی حالات سے واقعی نہرو کو ہی لگتی ہے ، طویل عرصہ خان قیوم خان اور آشوب چشم میں مبتلا رہے ، تاہم اب بھی صحت کا پوچھو تو کہیں گے ، Fit Fighting ہوں۔ ویسے بھی جس پٹھان  کا لڑنے کو دل نہ چاہے ، یقین کر لیں وہ فٹ نہیں ہے ، ڈاکٹروں کو اپنی آنکھیں دکھا دکھا کر حالت ہو گئی کہ کہ اب جو بھی ملے ، اسے آنکھیں دکھانے لگتے ہیں، یادداشت کو اتنی اہمیت دیتے ہیں، کہ اب جو بھی ملے اسے آنکھیں دکھانے لگتے ہیں، یادداشت کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ یادداشتہ لگتی ہے ، جب کہ نسیم ولی خان کا حافظہ تو اتنا کمزور ہے کہ ان کے اپنے بیٹے بھی تھے ، سوتیلے بیٹے بھی مگر اب ان سے پوچھو کہ سوتیلا کون سا ہے تو کہیں گی میں بھول گئی۔

پاکستان بننے سے پہلے وہ کانگریس کے رکن تھے ، پاکستان بننے کے بعد سے کانگریس انکی رکن ہے ، گاندھی جی سے بہت متاثر ہیں، گاندھی جی کو غریب رہنے کیلئے بہت خرچ کرنا پڑتا، ایسے ہی انہیں چپ رہنے کیلئے بہت بولنا پڑتا تھا، اپنی پارٹی کو اپنی ذات سمجھتے ہیں اس لئے ان کی پارٹی پر فقرہ کسو تو سمجھتے ہیں کہ ذاتیات پر اتر آئے ہیں، ان کی پارٹی میں کوئی دوسرا آ جائے تو اسے یوں دیکھتے ہیں جسے گھر میں کوئی دوسرا آگیا، وہاں تو شیر باز مزاری بھی شیر ہوتا ہے ، نہ باز، بس مزاری ہوتا ہے ، کسی کو معاف نہیں کرتے ، انہوں نے تو کبھی خود کو بھی معاف نہیں کیا، کبھی کبھی اپنی پارٹی کو سیرا کرانے لاہور لاتے ہیں مگر وہ ان کے واپس چار سدہ پہنچنے سے پہلے ہی چار سدہ پہنچ چکی ہوتی ہے ، میں تا حکم ثانی محب وطن ہوں، اپنی سیاسی اہمیت و اہلیت کی وجہ سے پاکستان میں اہم مقام رکھتے ہیں اور یہ اہم مقام چار سدہ ہے ، والد سے سیاست سے زیادہ باغبانی کا شوق ورثے میں ملا، وہ تو باغ باغ ہونا سے مراد  دو باغ ہونا لیتے ہیں، ولی باغ میں رہتے ہیں، مگر یوں جیسے باغی باغ می رہنے والے کو ہی کہتے ہیں، وہ کسی مہمان کے سامنے چائے کے ساتھ بسکٹ رکھ دیں تو مہمان کو یقین ہو جاتا ہے کہ یا تو بسکٹ اصلی نہیں یا یہ اصلی غل خان نہیں، وہ سانپ پر لاٹھی نہیں مارتے ، لاٹھی پر سانپ کو مار دیتے ہیں، تقریر میں ضرب الامثال یوں لگاتے ہیں کہ جیسے امثال کو ضرب لگا رہے ہوں، کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس کیلئے نسیم الغات نہیں، بیگم نسیم کو دیکھتے ہیں، انکی پارٹی کا نصف  بہتر ان کی نصف بہتر ہے ، گفتگو میں جی بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں، اگر وہ فقرے کے آخر میں جی لگائیں تو سمجھ لیں گھر سے بارہ گفتگو کر رہے ہیں، گھر میں وہ فقرے سے پہلے جی لگاتے ہیں۔

وہ بیگم نسیم والی خان کا مردانہ روپ ہیں، لیکن  وہ بیگم صاحبہ سے بڑے سیاست دان ہیں، پندرہ سولہ سال بڑے ہیں، انگلینڈ جا کر جم کر لکھتے ہیں ، جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہاں اتنی سردی پڑتی ہے ، کہ بندہ نہ لکھے تو پھر بھی جم جاتا ہے ، اپنے بھائی عبدالغنی خان کی طرح تخلیقی آدمی ہے ، وہ تو تاریخ بھی لکھ رہے ہوں تو لگتا ہے تخلیق کر رہے ہیں، البتہ ان کی آپ بیتی کم اور اپنے آپ بیتی زیادہ لگتی ہے ، جیل میں تنہائی اور فرصت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے خدائی خدمت گار تحریک کے دو حصے مکمل کر لئیے اور کہا جونہی پھر  تنہائی اور فرصت میسر آئی کتاب کا آخری حصہ بھی مکمل کر لوں، اس اعلان کے بعد کسی حکومت نے انہیں جیل نہیں بھیجا، یاد رہے خدائی خدمت گار اتنی مذہبی پارٹی رہی کہ اس کے سربراہ کا انتخاب براہ راست خدا کے ہاتھ میں ہوتا، جس کو سربراہ کی کرسی سے اٹھاتا خدا ہی اٹھاتا۔

لائبریری اچھی جگہ ہے بس وہاں کتابیں نہ ہوں، ویسے کتاب سے رشتہ تب شروع نہیں ہوتا جب آپ کتاب شروع کرتے ہیں، بلکہ تب سے شروع ہوتا ہے کہ آپ کتاب ختم کیسے  کرتے ہیں، غل خان کتابوں کے پرانے رشتے دار ہیں، چپل اور چپل کباب پسند ہیں، بڑھاپے میں اتنے جوان ہیں، پتہ نہیں جوانی میں کتنے بوڑھے رہے ہوں گے ، انہیں غصہ بہت آتا ہے ، کبھی تو اس بار پر غصہ آ جاتا ہے کہ مجھے فلاں بات پر غصہ کیوں نہیں آیا، غصہ اتنا غصب ناک کہ وہ تو اپنے ہی غصے سے ڈر کر کانپنے لگتے ہیں، بقول پیر پگاڑہ ایک تو الی جو ہوتا ہے گرم ہے اور اوپر سے پٹھان یعنی بہت ہی گرم۔ قابل کو کابل کہتے ہیں، بھٹو نے انہیں اس لئیے نا پسند کیا کہ اس کی وجہ سے اندر جانا پڑا بلکہ اس وجہ سے کہ بیگم نسیم کو باہر آنا پڑا، تب سے بیگم نسیم والی خان باہر ہیں اور خان صاحب اندر، کہتے ہیں بھٹو  دور میں تقریر پر پابندی تھی حالانکہ یہ درست نہیں، تقریر پر کپ پابندی تھی مقرر پر تھی، بھارت سے اس کی زبان میں بات کرتے ہیں، جب پاکستان سے پشتو میں بات کرتے ہیں، ایک بار حکومت نے انہیں بھارت میں پاکستان کا سفیر بنا کر بھیجنا چاہا تو بھارت کی حکومت نے کہا آپ کسی پاکستانی کو بھیجیں۔

ارسطو نے کہا ہے ، انسان ایک سیاسی جانور ہے ، پتہ نہیں یہ بات انہوں نے جانوروں سے ملنے کے بعد کہی یا سیاست دانوں سے ، تاہم غل خان ایسے سیاست دان نہیں، ایک سیاست دان کو پتہ چلا کہ غل خان پان کھاتے ہیں نہ سگریٹ پیتے ہیں شراب سے دلچسپی ہے نہ شباب سے تو اس نے کہا، آپ نے یہ کچھ کرنا ہی نہیں تو پھر سیاست کیوں کر رہے ہیں؟ ترقی پسند نظریات کی وجہ سے چل رہے ہیں، قوم پرست ہیں، ہر وقت آہ و افغان کرتے رہتے ہیں، وہ بیگم نسیم والی کے مزاجی خدا ہیں، ان کا مزاج اس پٹھان کی طرح ہے جو ہینگ لے کر آیا اور چلا چلا کر کہتا اینگ لے لو، جو چپ کر کے گزر جاتا اسے کچھ نہ کہتا، اگر کوئی کہہ دیتا کہ مجھے ہینگ نہیں چاہئے تو خان غصے میں آ کر کہتا و تم اینگ کیوں نہیں لیتا، ام تمہارے باپ کا نوکر ہے جو تمہاری واسطے اتنی دور سے اینگ لایا۔

غل خان لوگوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھیں نہ رکھیں، جس رگ پر ہاتھ رکھتے وہ ضرور دکھتی، وہ ان سیاست دانوں میں سے ہیں جس کے پاس ہر حل کیلئے ایک ہی مسئلہ ہوتا ہے ، وہ ہے انا، سرحد میں پیدا ہی نہیں ہوئے ، سیاست کے لحاظ سے بھی ہمیشہ سرحد پر ہی رہتے ہیں، پٹھانوں کا تو محبت کرنے کا اندازہ بھی اپنا ہوتا ہے ، وہ تو کہتے ہیں کہ خانان وہ ہم کو اتنا اچھا لگتا ہے کہ دل چاہتا ہے اسے گولی ماردوں، سردی گرمی ہر موسم میں گرم، ایک زمانہ تھا، وہ لطیفہ بھی سنا رہے ہوتے تو لگتا دھمکی دے رہے ہیں، مگر اب حال ہے کہ دھمکی بھی دیں تو لطیفہ سنا رہے ہیں، ہم انہیں ضدی تو نہیں کہتے مگر جسے ضدی کہنا ہو اسے غل خان کہتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

مولانا دستار نیازی

 

1936 میں پنجاب یونیورسٹی ہال میں ایک جلسہ ہو رہا تھا، جناح کو معزول کیا جائے ، ہال میں سے پاٹ دار آواز  ابھری اور سب آوازوں پر چھا گئی، بد بختو ہم یہ تسلیم نہیں کرتے ، یہ آواز آج بھی ہماری سیاست میں اتنی ہی بلند ہے ، کم از کم بدبختو تو آج بھی اتنے ہی زور سے کہتی ہے ، اسے  آج ہم مولانا دستاری نیازی کے نام سے پہچانتے ہیں، انکو دور سے دیکھو تو جو چیز سب سے پہلے نظر آتی ہے وہ ان کی دستار ہی ہے ، جس کا طرح جیسے ان کے سر پر پچاس برسوں سے کھڑا ہے ، ایسے تو ہماری سیاست میں کوئی لیڈ پچاس  ماہ کھڑا نہیں رہ سکا، مولانا جب نوجوان تھے تو تبھی ان کا بڑھاپا جوانی پہ تھا مگر آج بھی ایسا دبدبہ کہ کوئی کہے کہ میں نے انہیں دبایا نہیں تو یقین کر لیں، اس  نے ان کی ٹانگوں کو دبایا ہو گا، سیاست میں کبھی ڈنڈی نہیں ماری، ہمیشہ ڈنڈا مارا، وہ داڑھی آنکھیں ڈنڈا اور سینہ نکال کر کر چلتے ہیں اور کسی کی نہیں نہیں چلنے دیتے ، ان کے سامنے اگر کسی کی چل رہی ہوتی ہے تو وہ سانس ہی ہوتی ہے غصے میں ایسے نظر آتے ہیں جیسے تصویر میں دکھتے ہیں، بغیر داڑھی اور غصے کے ہم نے انہیں نہیں دیکھا۔

میاں والی کے میاں ہیں، ایسے گھر میں  پیدا ہوئے جہاں بندہ ایک رات بسر کر لے تو یہی سمجھتا ہے رات مسجد میں ٹھرا تھا، وہ تو تب بھی مولانا تھے ، جب ابھی ان کی داڑھی نہ تھی، مولیوں کی طرح سوچتے مگر کہتے نیازیوں کی طرح ہیں، یعنی زبان سے سوچتے اور ہاتھ سے کہتے ہیں، بچپن میں اسکول میں مانیٹر تھے اور ساری کلاس کے لڑکوں کو نماز پڑھانے لے کر جاتے اور خود ڈنڈا پکڑ کر دیکھتے رہتے  کہ کوئی آدھی نماز میں پڑھ کر کھسک تو نہیں رہا ہے ۔

کلاس نہ رہی مگر وہ ہمیشہ مانیٹر رہے ، آج بھی گفتگو میں ان کے جو سب سے وزنی دلیل ہوتی ہے ، وہ ان کے دائیں ہاتھ نے تھامے ہوتی ہے ، دوسرے سے جس لہجے میں  بات کرتے ہیں اس سے پتہ چلے نہ چلے کہ وہ دوسرے کو کیا سمجھتے ہیں، یہ ضرور پتا چل جاتا ہے کہ وہ دوسرے کو بہرہ سمجھتے ہیں، ایک بندے سے بھی بات کر رہے ہوں تو لگتا ہے عالم اسلام سے مخاطب ہیں۔

وہ واحد سیاست دان ہیں جو ابھی تک واحد ہیں، ان سے پوچھو حضرت ذرا عمر بتائیں، تو حضرت عمر کا بتانے لگیں گے ویسے بھی ان کی عمر ہی کیا ہے ، ابھی تو ان کی شادی بھی نہیں ہوئی، آج تک جتنی دعائیں مولانا کی شادی کیلئے مانگی گی ہیں، شاید ہی کسی اور کیلئے مانگی گئیں ہوں، مسجدوں، عید گاہوں اور گھروں میں ہر زبان پر یہی  خواہش ہوتی ہے ، یہ ہی نہیں ہر پاکستانی حکومت یہی وعدہ کر کے برسر اقتدار آتی ہے کیونکہ مولانا نے اعلان کیا ہے اس وقت تک شادی نہیں کروں گا جب تک ملک میں مکمل اسلامی نفاذ قائم نہ ہو جائے ،  اس قبل اداکارہ شمیم آرا نے اعلان کیا تھا میں اس سے شادی کروں گی جو کشمیر فتح کرے گا، جس سے ہمیں  ابھی تک کشمیر فتح نہ کرنے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے ، ہو سکتا ہے پاکستان کی ہر بر سر اقتدار حکومت دراصل مولانا کی شادی میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے اسلام نافذ نہ کرتی ہو، مولانا عورت کی حکمرانی کے حق میں نہیں اگر ہوتے تو شادی شدہ ہوتے فرماتے ہیں میری بیوی نہیں، اس لئیے سارا وقت سیاست کو دیتا ہوں،مولانا نے سیاست کو بیوی کا وقت ہی نہیں مقام بھی دیا ہے ۔

فرانس کے مثالی سیاست دان رابر ٹر شوماں عمر بھر کنوارے رہے ، ایک صحافی نے وجہ پوچھی تو بولے ، میں ساری عمر مثالی بیوی کی تلاش میں رہا، صحافی نے پوچھا وہ ملی کہا ہاں ملی مگر وہ خود مثالی خاوند کی تلاش میں تھی، کنوارہ بندہ وہ ہوتا ہے جسے پتہ ہوتا ہے کہ اس کے مہینے کی تنخواہ کہاں جاتی ہے ، مولانا کا یہ مسئلہ بھی نہیں، انہوں نے تن کو جن آلائشوں سے پاک رکھا تھا، ان میں تن خواہ بھی ہے ، اگر چہ امارات ایسی چیز جسے ہم خود بڑی مشکل سے برداشت کرتے ہیں، جی ہاں، دوسرے کی امارات، ویسے بھی غریب ایسی چیز ہے جس پر تمام سیاست دان فخر کرتے ہیں اور اس وقت تک فخر کرتے ہیں جب تک وہ خود غریب نہیں ہوتے ، مگر مولانا دولت کو ہاتھ کا میل سمجھتے تھے ۔

٭٭٭

 

 

اصغر اعظم

 

 

یہ وہ زمانہ تھا جب جموں اور سری نگر میں تعلیمی سہولتیں اتنی تھیں کہ ایک طالب علم نے کہا میں اس وقت چوتھی جماعت میں تھا جب میں نے پہلی مرتبہ اسکول ٹیچر دیکھا تھا، ان دنوں وہاں  ایک ہیڈ ماسٹر اپنی کلاس کے بچوں کو تقریر کرنا سکھا رہا تھا، ہر بچے کو بتا تا کس طرح بولنا ہے ، ایک بچہ آیا تو ہیڈ ماسٹر نے کہا، تم صرف یہ سیکھو کیسے چپ ہونا ہے ؟ یہ بچہ بڑا ہو کر پاک فضائیہ کا پہلا اور دنیا کا سب سے کم عمر کمانڈر انچیف بنا، پوری قوم نے اسے شاہین کہا مگر حنیف رامے نہ کہتے ، کسی نہ وجہ پوچھی تو بولے میں جب انہیں شاہین کہہ کر بلاؤں لوگ سمجھتے ہیں میں اپنی پہلی بیوی کو بلا رہا ہوں۔

دیکھنے میں اپنے بیٹے اصغر عمر خان پر گئے ہیں، بچپن ہی سے ان میں سیاست دانوں والی صلاحیتیں موجود تھیں، اگر کلاس میں کامیاب نہ ہوتے تو گھر والوں کو یہ نہ کہتے کہ میں ناکام ہوا ہوں، کہتے ہیں دھاندلی ہوئی ہے ، والد اس قدر سخت تھے کہ انہیں لگتا میں گھر میں نہیں اسکول میں پیدا ہوا ہوں، آدمی نہیں الٹا ہو کر دیکھے تو سیدھے سادے آدمی ہیں، وطن کا دفاع کر کے اب یہ حال ہو گیا ہے کہ دوران گفتگو بھی دفاعی پوزیشن میں رہتے ہیں، کسی سے سے پانچ روپے بھی وصول کرنے ہوں تو ضرور کریں گے ، چاہے وصول کرنے میں سو روپے لگ جائیں، اس قدر ذمہ دار کہ اگر انہوں نے آپ کو نیند کی گولی کھلانا ہو تو وقت پر کھلائیں گے ، چاہے اس کیلئے انہیں آپ کو سوتے میں اٹھانا پڑے ، جو غلطی ایک بار کی، پھر اسے کبھی  نہیں  دہرایا، ہمیشہ نئی غلطی کی، عمر اور ارادہ پختہ البتہ عمر کا پوچھو تو عمر اصغر خان کا بتانے لگ جاتے ہیں، ویسے بھی ہمارے ہاں سیاست کا یہ حال ہے کہ لیڈر عوام کے حال کے بجائے ان کے ماضی کو ہی بہتر بناتے ہیں، وہ بھی ایسے کہ عوام کا وہ حال کرتے ہیں کہ اسے ماضی بہتر لگنے لگتا ہے ۔

اصغر خان کہتے ہیں کہ  سیاست میں میرا آنا ایک حادثہ ہے ، سیاست کو یہ حادثہ 1968 میں پیش آیا، بھٹو صاحب نے کہا تھا ایوبی دور میں میری نظر بندی نے دو شخصیتوں کو لیڈر بنایا، ایک بیگم بھٹو تھی اور دوسرے بے غم اصغر ، خان صاحب نے اسکول میں اتنی بار اے بی سی ختم نہ کی ہو گی جتنی سیاسی اتحاد بنا بنا کر کی، مثلاً، جی پی، ٹی آئی، پی ای اے ، ایم آر ڈی، اور پی ڈے اے وغیرہ وغیرہ۔ وہ فاتح سیاست ہیں، اندرون ملک انکا دورہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ان کے دورے کا سنتے ہی حکومت ایمبولینس روانہ کرتی ہے ۔

جب فوج میں تھے تو ہمیشہ خطرناک کام سب سے پہلے خود کرتے تھے ،  پھر جونیرز کو اس کی اجازت دیتے یہاں تک بھی شادی بھی پہلے خود کی، ہوائی اور ہوائی جہاز اڑانے کے ماہر ہیں، کہتے ہیں جب میں ائیر مارشل تھا تو کبھی کسی نے شکایت نہ کی کہ چھلانگ لگتے ہوئے اس کا پیرا شوٹ نہیں کھلا، پی آئی اے میں آئے تو اسے اتنا آرگنائز کیا کہ ہر کام کیلئے الگ اسٹاف رکھا، یہاں تک کہ مسافروں کی خدمات کرنے کیلئے الگ عملہ ہوتا اور نہ کرنے کیلئے الگ، خان صاحب آج کل بھی PLANکوPLANEسمجھتے ہیں، ڈرائیور ایسے کہ ان کی گاڑی کے آگے آنے والے کو اتنا خطرہ نہیں ہوتا جتنا پیچھے آنے والے کو۔

عمر اصغر خان دراصل کم عمر اصغر خان ہیں، اس لئیے معمر اصغر خان صرف بو عمر اصغر خان کے مشورے پر ہی عمل کرتے ہیں، کہتے ہیں، میری پارٹی اکیلی ہی سہی پی پی کو ہرا سکتی ہے اور 1990 میں انہوں نے اس کے لئے پی پی سے اتحاد کر کے اس کو ہرا کر دکھایا، واحد سیاست دان ہیں جو مقابلہ میں کھڑے بھی ہوں تو ہار جائیں، جتنی محنت سے وہ ہارتے ہیں اس سے کم محنت پر بندہ جیت سکتا ہے ، ان کا حلقہ انتخاب ہمیشہ ہلکا انتخاب رہا ، ہر الیکشن پر وعدہ کرتے ہیں کہ الیکشن کے بعد اس حلقے کو بدل کر رکھ دیں گے ، واقعی الیکشن کے بعد اس حلقے کو بدل کر کسی اور جگہ سے الیکشن لڑتے ہیں، صرف چار بار الیکشن ہارے جس کی ایک وجہ تو یہ رہی کہ وہ صرف چار بار ہی الیکشن کیلئے کھڑے ہوئے ، ہار  تو انہیں اس قدر پسند ہے کہ کوئی کسی اور کیلئے لایا ہو تو اپنی گردن آگے کر دیتے ہیں، بقول پیر پگارہ انہیں ہمیشہ کرسی ملی مگر اپنے گھر کے لاؤنج میں، یہ وہ ہوا باز ہیں جنہوں نے تمام حادثے ہائی وے پر کئیے ، وہ بھی یو کہ لوگ ہائی وے کی بجائے ہائے وے کہہ اٹھے ، وہ اسی سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں جسے ووٹ لینے کیلئے کمپین نہیں چلانا پڑتی، امید وار لینے کیلئے بھی یہی کچھ کرنا پڑتا ہے ۔

ونسٹن چرچل نے کہا تھا سیاست اور جنگ دونوں ایک جیسی خطرناک ہوتی ہیں،  البتہ جنگ میں آپ صرف ایک بار مارے جاتے ہیں  لیکن سیاست میں بار بار، اور اگر سیاست دان خان صاحب جیسا ہو تو  ہر بار، اگر چہ ان کا دبدبہ دبا  گیا ہے ، مگر پھر بھی ہر بات کہتے ہیں میری نہ مانی گئی تو اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا، اور بقول شفیق الرحمن یہ کونسا مشکل کام ہے ، اس کیلئے صرف دو اینٹیں ہی تو چاہئیے ہوتی ہیں، فرماتے ہیں ہم ملک دیں گے ،  لوگ کہتے ہیں اصغر خان صاحب تاریخ کو دہراتے ہیں مگر اس سے سبق نہیں سیکھتے حالانکہ وہ اس مقام پر ہیں کہ تاریخ کو خود ان سے سبق سیکھنا چاہئیے ، ذوالفقار علی بھٹو صاحب سے خان صاحب کو ایسے نام سے پکارتے جس سے اتنی محبت ظاہر نہیں ہوتی جتنی سبزیوں سے ویسے تو محبت اور روزنامہ جنگ میں سب جائزہ ہوتا ہے ۔

اصغر خان صاحب وہ دوسروں  کی خامیوں کی اس قدر دل جمعی سے اصلاح کرتے ہیں کہ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ موصوف ساتھ خوبیوں کی بھی اصلاح کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہر مصیبت کا سامنا مسکرا کر کرتا ہوں،  یہ بات انہوں نے بیگم مہناز رفیع کے سامنے کہی، انہیں اپنی پارٹی کے ہر کارکن کا نام نہیں آتا ہے ، لیکن اس کی وجہ ان کا حافظہ نہیں ہے ، کارکنوں کی تعداد ہے خان صاحب میں اس قدر اس استقلال کو یوں چلایا کوئی ہیڈ ماسٹر کمیٹی کا اسکول چلاتا ہے ۔

ایک بار انہوں نے تقریری میں اپنی زندگی کی کہانی ان لفظوں میں سمیٹی میں وطن کا سپاہی تھا، وطن کا سپاہی ہوں، اور وطن کا سپاہی ہی رہوں گا، تو پیچھے سے آواز آئی، ترقی نہ کرنا، اس کے باوجود وہ جس امیدوار کو چاہیں الیکشن میں جتوا سکتے ہیں، انہیں بس اتنا ہی کرنا پڑتا ہے ، اس امیدوار کے خلاف کھڑے ہونے پڑتا ہے ، ویسے ایک تجزیہ نگار کے خیال میں وہ خود بھی الیکشن جیت سکتے ہیں، بس انہیں اتنا کرنا ہے کہ وہ اس حلقے سے الیکشن لڑیں جہاں سے اصغر خان الیکشن لڑ رہا ہو۔

٭٭٭

 

 

 

 

مسلح افواج کے سربراہ

 

پیر پگاڑہ تو فرماتے ہیں جماعت اسلامی دراصل مسلم لیگ  ہی کا اردو ترجمہ ہے ، بہر حال یہ فرق  ہے کہ جماعت میں ایک امیر ہوتا ہے اور مسلم لیگ میں سبھی ہوتے ہیں، جماعت  کے امیروں میں نمبر ایک مولانا مودودی ہیں،  میاں طفیل محمد دو نمبر امیر تھے اور قاضی حسین احمد تیسرے درجے کے ہیں، قاضی حسین احمد اور میاں طفیل محمد صاحب کے مزاج میں وہی فرق  ہے جو اسلامی طلبہ اور جماعت اسلامی میں ہے ، مولانا مودودی تو چھڑی ہاتھ میں یوں پکڑتے تھے جیسے قلم ہوں، میاں صاحب کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ قلم پکڑا ہے یا چھڑی جب کہ قاضی حسین احمد تو قلم کو یوں پکڑتے  ہیں جیسے  چھڑی پکڑی ہو، ہر امیر کے دور میں جماعت  کی رفتار وہی ہی رہی جو امیر  کے اپنے چلنے کی تھی۔۔۔۔۔۔۔میاں صاحب تو ایسے ہیں کہ جب تک بندہ رک نہ جائے ، پتہ نہیں چلتا وہ چل رہے ہیں، قاضی صاحب رکے بھی ہوں تو ہم  سے تیز ہوتے ہیں، لگتا ہے وہ زمین کے اوپر نہیں چلتے زمین ان کے نیچے چلتی ہے ۔

میاں طفیل محمد صاحب اس عمر میں جس میں کسی بندے کو یہ خوشخبری دی جا سکتی ہے کہ آپ کی زندگی میں کوئی جنگ نہ ہو گی، وہ امارات میں ہی دوسرے نمبر پر نہیں آئے ،  بچپن میں کسی لڑکے سے لڑائی ہو جاتی تو اس میں بھی دوسرے نمبر پر ہی آتے ، پہلے پٹھان کوٹ اور پینٹ کوٹ بھاتا تھا، ٹائی لگاتے پھر ایسے داڑھی رکھی کہ ٹائی لگاتے تو ناٹ، ناٹ ویزایبل ہوتی، پتلون بھی پہنتے تھے ، مگر بعد میں پہننا چھوڑ دی کہ پتلون سینے کے گرد ٹائٹ لگتی تھی، دوران گفتگو پنجابی کے لفظ یوں استعمال کرتے ہیں جیسے سیاست دان عوام کو استعمال کرتے ہیں، تقریر کر رہے ہوں تو وہ اردو بول رہے ہوتے ہیں اور لوگ پنجابی سن رہے ہوتے ہیں، ہر کام اصلاح کیلئے کرتے ہیں، حضرت داتا گنج بخش کی کتاب کشف المحجوب کا ترجمہ کیا، کہتے ہیں کہ نہ صرف ترجمہ کیا بلکہ اصلاح بھی کر دی۔

ایسے ٹھنڈے کہ گرمیوں میں بھی ان کے پاس چادر لے کر بیٹھنا پڑتا ہے ، وہ کام  بھی اچھے طریقے سے کرتے ہیں جو کام صرف طریقے سے کئی جاتے ہیں، پہلے رس گلے چینی میں ڈبو کر کھاتے ، اب چینی بھی دھو کر کھاتے ہیں، وہ غلط وقت پر صحیح بات کرتے ہیں لیکن صحیح وقت پر غلط بات کرتے ہیں، البتہ وہ کسی کو اسلامی ذہن کا بندہ کہیں تو اس سے مراد جماعت اسلامی ذہن کا بندہ ہو گا۔

مولانا مودودی جماعت کو سیاست میں لائے ، قاضی حسین احمد سیاست کو جماعت میں لائے ، سیاست میں ان کی سوچ الگ ہے ، سوچ الگ نہ ہو تو خود الگ ہو جاتے ہیں، قاضی صاحب وہ وکیل  ہیں جو خود عدالت میں کیس لڑتے ہیں جیسے عدالت پر مقدمہ چلا رہے ہوں، شروع ہی  سے اس قدر تیز تھے ، کہ اسکول میں ان کی جو  تاریخ پیدائش درج ہے ، اس سے دو سال قبل پیدا بھی ہو چکے تھے ، ان کے بزرگ کام کے قاضی تھے ، زیارت کاکا گاؤں مین ان کا خاندان گاؤں کا استاد تھا، ان کے سامنے سب کاکے تھے ، ان کے گھر کے ارد گرد دوسروں کے گھر یوں ہی تھے ، دیہاتی اسکول کے بچے استاد کے اردگرد بیٹھے ہوتے ہیں، تعلق اس خاندان سے جہاں نوجوانوں کے چہرے پر داڑھی نہ ہونا بے پردگی میں شمار ہوتا ہے 1970 میں جماعت کے نظم میں ضبط ہوئے ، وہ اسلامی جمعیت طلبہ سے جماعت میں نہ آئے بلکہ اسلامی جمعیت طلبہ ان سے جماعت میں آئی۔

بچپن ہی سے جغرافئیے سے اس قدر  لگاؤ تھا کہ کوئی پوچھتا بتاؤ فلاں ملک کہاں ہے ؟ تو جھٹ بتا دیتے ، جغرافئیے کی کتاب کے فلاں صفحے پر بچپن میں دنیا کا نقشہ یوں دیکھتے جیسے اپنا ناک نقشہ دیکھ رہے ہوں،  پھر جغرافئیے کے استاد ہوئے اور جغرافئیے کے استاد کیلئے خگرافئیے سے اہم کوئی مضمون نہیں ہوتا ہے کیونکہ خغرافئیے کے نہ ہونے سے ہمیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا  مگر وہ استاد نہیں رہ سکتا، تو جوانی میں مشتاق احمد یوسفی صاحب کو بھی جغرافئیے کا اتنا شوق تھا، کہ ایک صاحب انہیں ادکارہ مسرت نزیر کی ہسٹری بتا رہے تھے تو یوسفی صاحب نے کہا قبلہ ہسٹری کو چھوڑ دیں، مجھے ان کا جغرافیہ بتائیں، خواتین کے معاملے میں قاضی صاحب کا رویہ اتنا سخت نہیں جتنا مونا عبدالستار نیازی صاحب کا ہے انہوں نے تو عورت سے شادی تک نہیں کی، بہر حال قاضی صاحب  سے مس گائیڈ ڈمیزائل کا پوچھیں تو کہیں گے وہ میزائل جسے کسی مس نے گائیڈ کیا ہو، قاضی صاحب کا نشانہ اچھا ہے ۔

ایک بار نشانہ بازی کر رہے تھے ،ٹارگٹ پر جو تصویر تھی،  کوئی نشانہ اسے نہ لگا تو احباب نے فورا وہاں سے وہ تصویر ہٹا کر ولی خان اور الطاف حسین کی تصویر رکھی تو نشانہ خود تیر پر آ لگا، رحمت الہی صاحب کا جماعت کا عہدہ چھوڑ نا ان کیلئے رحمت الہی بنا، قاضی وہ تھے  ہی یوں میاں طفیل محمد صاحب کے طفیل جماعت کے میاں بھی بن گئے ۔

قاضی صاحب اپنے اور جاوید اقبال کے والد سے متاثر ہیں،  نرگس پسند ہے اور کرگس ناپسند گرمی اور سردا بہت کھاتے ہیں، دوسروں کو سننے کا اس قدر شوق ہے کہ منظر بھی وہ پسند ہے جس میں کچھ سننے کو ہو، جیسے پرندوں کی چہچہاہٹ اور پانی کا شور، دیکھنے میں اس اپنے قد سے لمبے لگتے ہیں، سنتے ہوئے سر بلند اور کہتے ہوئے سر بلند رکھتے ہیں، پٹھان ہیں اور آپ کو پتہ ہے پٹھان کب پٹھان کی طرح ہوتا ہے ؟ جی ہاں جب غصے میں کیا کرتے ہیں، تو جناب غصے میں صرف غصہ کرتے ہیں،  غصے میں ہوں تو سرخ رنگ ان کے چہرے کی طرح ہو جاتا ہے کرنٹ افئیرز پر بات کر رہے ہوں تو بات میں اور کچھ ہو نہ ہوم کرنٹ ضرور ہوتا ہے ، ہم زمانہ طالب علمی میں اونچی آواز میں بول بول کر سبق یاد کیا کرتے تھے ،  وہ اس طرح سوچتے ہیں،  تقریروں میں اقبال کے شعر اس قدر استعمال کرتے ہیں کہ لگتا یوم اقبال پر تقریر فرما رہے ہیں، لوگ کہتے ہیں وہ پردے کے بڑے  حق میں ہیں، حالانکہ انہیں ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں مخالفین کو ننگا کرتے ہم نے خود دیکھا ہے ، خود کے بے قرار برقرار رکھتے ہیں، ان کے ذمے لگائے گئے ،  اس قدر متحرک کہ ایک جگہ بیٹھے ہوئے بھی ساکن نہیں ہوتے ، وہ آرام کر رہے ہوں یقین کر لیں، یہ سب اپنی مرضی سے نہیں ڈاکٹر کی مرضی سے کر رہے ہوں گے،   رات گئے دن کا آغاز کرتے ہیں، اور اس وقت تک پہلا دن ختم نہیں کرتے ہیں جب تک اگلا دن شروع نہ کر لیں۔

پٹھان اپنی زبان نہیں بدلتے لیکن وہ ایرانیوں سے فارسی، عربوں سے عربی اہل مغرب سے انگریزی  اہل خانہ سے پشتو ہم وطنوں سے اردو اور ہم جماعتوں سے اسی زبان میں بات کرتے ہیں جو وہ سمجھتے ہیں، انہیں بولنا تو کئی زبانوں میں آتا ہے ، مگر چپ رہنا کسی زبان میں نہیں آتا، سر ڈھانپنا ان کے نزدیک ستر ڈھانپنا بلکہ بہتر ڈھانپنا ہے ، لوگوں کے سر پر بال اگتے ہیں ان کے سر پر ٹوپیاں، ان کے نزدیک تو ٹنڈ کرانا سر سے ٹوپی اتارنا ہوتا ہے ، با ریش چہرے پر مسکراہٹ کھیلتی رہتی ہے ، اگر چہ کھیلنے کیلئے مسکراہٹ کے پاس کم ہی  چہرہ بچا ہے ، لہجہ ایسا کہ جنرل دوستم کو بھی جنرل دوستم کہتے ہیں، قاضی حسین احمد مخالفوں کیلئے قاضی بھی ہیں، اور حسین بھی، انہوں نے ذاتی  عدالتیں لگوائیں، پاسبان کی ان عدالتوں میں ان کی موجودگی ایسے ہی ضروری ہوتی ہے جیسے پنجابی فل ہٹ کرانے کیلئے سلطان راہی، اسی لئیے وہ پاسبان کے جلسے میں جا رہے ہوتے تو لگتا ہے شوٹنگ پر جا رہے ہیں،  مجاہد آدمی ہیں، کار سے بھی یوں نکلتے ہیں جیسے مورچے سے نکل رہے ہوں،  ہاتھ ملا رہے ہوں تو لگتا ہے ، ہتھ جوڑی کر رہے ہوں، چلتے یوں جیسے پیش قدمی کر رہے ہوں، بلاشبہ وہ پاکستان کی مصلی افواج کے سربراہ ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

ملا نصیر الدین

 

 

ساری دنیا انہیں پیر سمجھتی ہے مگر وہ خود کو جوان سمجھتے ہیں، دیکھنے میں سیاست دان نہیں لگتے اور بولنے میں پیر نہیں لگتے ، قدر اتنا ہی بڑا جتنے لمبے ہاتھ رکھتے ہیں، چلتے ہوئے پاؤں یوں احتیاط سے زمین پر رکھتے  ہیں کہیں بے احتیاطی سے مریدوں کی آنکھیں نیچے نہ آ جائیں،اتنا خود نہیں چلتے جتنا دماغ چلاتے ہیں، دور سے  یہی پتہ چلتا ہے کہ چل رہے ہیں،  یہ کسی کو پتہ نہیں ہوتا آرہے ہیں جا رہے ہیں، سیاست میں انکا وہی مقام ہے کو اردو میں علامتی افسانے کا، خاندان کے پہلے صبغۃ اللہ اول کے سر پر پگ باندھی گئی اور وہ پہلے پاگارہ پیر کہلائے ، یہ بھی اس خاندان کے چشم و چراغ ہیں جس کی چشم بھی چراغ ہے ، بچپن ہی سے پردے کے اس قدر حق میں تھے کہ 1944 میں جب کراچی ریلوے اسٹیشن سے انگلینڈ روانہ ہوئے تو تو پردے کی وجہ سے پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ جا رہے ہیں یا جا رہی ہے ، 1952 میں یوں پاکستان کو واپس آئے ، جیسے پاکستان کو واپس لائے ہوں، کسی نے کہا انگلینڈ وہ جگہ ہے جہاں سب سے زیادہ دھند ہوتی ہے ، کہا انتی دھند تھی کہ جگہ نظر نہ آئی۔

پہلے کالعدم مسلم لیگ کے صدر بنے ، پھر مسلم لیگ کے کالعدم صدر بنے ، پھر مسلم لیگ بن گئے ،  اس لئیے اب دوڑ وہ رہے ہیں ہوتے ہیں اور سانس مسلم لیگ کی پھولنے لگتی ہے ،وہ بڑے پائے کے سیاست دان ہیں، جس کی ایک وجہ تو یہ  ہے کہ ہمارے ہاں چھوٹ پائے کے سیاست دان ہوتے ہیں نہیں،  حالانکہ چھوٹے پائے مہنگے ہوتے ہیں، وہ پاکستانی سیاست کی اقوام متحدہ ہیں اور اقوام متحدہ وہ جگہ ہے جہاں دو چھوٹے ملکوں کا مسئلہ ہو تو مسئلہ غائب ہو جاتا ہے ، چھوٹی اور بڑی قوم کا مسئلہ ہو تو چھوٹی قوم غائب ہو جاتی ہے اور اگر بڑی قوموں کا مسئلہ ہو تو اقوام متحدہ غائب ہو جاتی ہے ۔

خود کو جی ایچ کیو میں کھڑا کرتے ہیں، جی ایچ کیو سے مراد جی حضوری کرنا لگتا ہے ،  مسلم لیگ کے خادم  نہیں خاوند  ہیں اور مسلم لیگ ان کی بیوہ ہے ، ان کے بیان پڑھ کر لگتا ہے ، جیسے انکا تعلق محکمہ بندی سے ہے ، شاید وہ اس لئیے بار بار منصوبہ بندی زور دیتے ہیں کہ ابھی سات ماہ بھی نہیں ہوتے اور نئی مسلم لیگ کی ولادت ہو جاتی ہے ۔

دوران گفتگو جہاں پتہ چلے کہ دوسرا ان کی بات سمجھ رہا ہے ،  فورا بات بدل دیتے ہیں آدھا دن وہ کہتے ہیں جو سننا چاہتے ہیں اور باقی آدھا دن وہ سنتے ہیں جو کہنا چاہتے ہیں،  فقرہ یوں ادا کرتے ہیں جیسے بل ادا کرتے ہیں، جس موضوع پر دوسرے ہائے ہائے کر رہے ہوتے ہیں، یہ ہائے کہہ کر گزر جاتے ہیں، کسی کی بات کی پروہ نہیں کرتے ہیں، مگر چاہتے ہیں ان کی بات کی پروا کی جائے ،لوگ ان کو ملنے سے پہلے وضو کرتے ہیں، وضو تو دوسرے سیاست دانوں سے ملنے والوں کو بھی کرنا  پڑتا ہے ،  مگر ملنے کے بعد،جانوروں کی حرکتوں سے بہت محفوظ ہوتے ہیں،  اس لئیے کسی کی حرکت سے محفوظ ہوں تو بندہ پریشان ہو جاتا ہے کہ پتہ نہیں مجھے کیا سمجھ رہے ہیں،  ان کے پاس کئی گھوڑے ہیں جو اکثر ریس اور الیکشن جیتتے رہتے ہیں،  اپنی تعریف سن کو خوش نہیں ہوتے ، آخر بندہ چوبیس گھنٹے ایک ہی بات سن کر خوش تو نہیں ہو سکتا ہے ۔

مرید اپنی نگاہیں، ان کے پاؤں سے اوپر نہیں لے جاتے ہیں،  اس لئیے اگر کوئی مرید کہے کہ میں نے پیر سائیں کو ننگے دیکھا تو مطلب ہو گا، ننگے پاؤں دیکھا پیر صاحب منفرد بات کرتے ہیں، اگر کوئی کہے کہ پیر صاحب آپ نے ایک جو تا اتارا ہوا ہے تو کہیں گے نہیں ہم نے ایک جوتا پہنا ہوا ہے ، ان کی تو چائے میں چینی کم ہو تو کہیں گے ، اس چینی میں چائے زیادہ ہے ، وہ جس کے سر پر ہاتھ رکھ دیں وہ سر پر ہاتھ رکھ لیتا ہے ، جب وہ پیر جو گوٹھ سے لاہور آتے ہیں تو پیر جو گوٹھ بھی لاہور آ جاتا ہے ،  ان دنوں لاہور کہا جاتا ہے ؟ اس کا پکا پتہ نہیں، مرید انہیں اپنے ہاتھ سے کام نہیں کرنے دیتے ، اس لئیے پیر صاحب کے ہر کام میں کسی اور کا ہاتھ ہوتا ہے ۔

ان سے حور کا مذکر پوچھو تو شاید حر کہیں،  جی ایم سید  کے بقول صاحب جھوٹ نہیں بولتے ، گویا وہ پیر صاحب کو سیاست دان نہیں مانتے ،  ویسے ہر پیر صاحب کے الیکشن کے نتائج سے ہمیشہ یہ لگتا ہے کہ ووٹر ان کا انتخاب نہیں کرتے ، یہ ووٹروں کا انتخاب کرتے ہیں، یہ وہ پیر ہیں جو  دن میں اتنی بار ماشا اللہ نہیں کہتے جتنی بار مارشل لاء کہتے ہیں، برتھ ڈے ضرور مناتے ہیں، دوسرے سیاست دان شاید اس لئیے نہیں مناتے کہ برتھ ڈے تو ڈے کو پیدا ہونے والے ہی منا سکتے ہیں۔

ان کی باتوں میں اتنا وزن ہوتا ہے کہ سننے والا اپنا سر بھاری محسوس کرنے لگتا ہے ان کا ہر فقرہ کئی کئی کلو کا ہوتا ہے ،  فقرے تو دوسرے سیاست دانوں کے بھی کئی کئی کلو کے ہوتے ہیں،  جی ہاں کئ کئی کلو میٹر کے ،  دوسروں کے تو بیانوں کی بھی اتنے کام سرخی نہیں لگتی جتنے کالمی سرخی ان کی خاموشی کی ہوتی ہے ، ستاروں کے علم پر ایسا عبور ہے کہ فلمی ستاروں کی گردش تک پس و پیش کرتے رہتے ہیں۔

بہت اچھے کرکٹر ہیں، بحیثیت امپائر  کئی بار سنچریاں بنائیں،  فوٹو گرافی کا شوق ہے کہتے ہیں میں ہمیشہ خوبصورت تصویریں بناتا ہوں،  حالانکہ وہ خوبصورت کی تصویریں بناتے ہیں،  مخالفین تک پیر صاحب اس قدر احترام کرتے ہیں، کہ ان کے سیاسی حریف پرویز علی شاہ یہ نہیں کہتے میں نہ  متعدد بار پیر صاحب کو ہرایا، یہی کہتے ہیں، پیر صاحب  نے مجھے ہر بار جتوایا، صحافی بھی ان کے ان سے سوال کر رہے ہوں تو انہیں یوں دیکھتے ہیں جیسے پیر سوالی کو۔

پیر صاحب کو فرشتے بہت پسند تھے ، فرشتوں میں یہی خوبی ہے کہ  وہ سوچتے سمجھتے نہیں، بس جو کہ جائے ، کرتے ہیں، پیر صاحب کو زمینی فرشتے الیکشن ہرواتے ہیں،  زمین اور آسمانی فرشتوں میں وہی فرق ہے جو زمینی اور آسمانی بجلی میں ہے ،  آسمانی بجلی وہ ہوتی ہے جس کا بل نہیں آتا،  پیر صاحب اس وقت کے تعلیم یافتہ ہیں جب ایک میٹرک پڑھا لکھا آج کے دس میٹرکوں کے برابر ہوتا ہے ،  یہی نہیں اس زمانے کا تو ایک ان پڑھ آج کے دس ان پڑھوں سے زیادہ ان پڑھ ہوتا تھا۔

پیر صاحب کسی سیاست دان کو سنجیدگی  سے نہیں لیتے ، جس ک سنجیدگی سے لیں وہ مذاق بن جاتا ہے ، وہ اتنے شگفتہ مزاج ہیں کہ ان کے کمرے کے گلدان میں پلاسٹک کے پودوں پر بھی پھول کھلنے لگتے ہیں،  جب ان کے مرید اور کالعدم وزیر اعظم ممد خان جونیجو ایسے تھے کہ ان کے کمرے میں تو پلاسٹک کے پھول بھی مر جھا جاتے پیر صاحب کی چھٹی حس جانے والے حکمرانوں کا باتاتی ہے ، جب کے باقی پانچ حسین آنے والے کا، وہ کہتے ہیں حکمرانوں کو آئین کی نہیں،  آئینے کی ضرورت ہے ،  ٹھیک کہتے ہیں،  خضاب اور زیڈال بندہ آئین کی مدد سے تو نہیں  لگا سکتا، ان کی طبعیت میں اتنی  مستقل مزاجی نہیں جتنی مستقل مزاجی ہے ،  سنجیدہ بات  کو غیر سنجیدہ طریقے سے کہنا مزاح نہیں بلکہ غیر سنجیدہ بات کو سنجیدہ طریقے سے کہنا مزاح ہے ، سوچتا ہوں اگر سیاست  میں سنجیدگی آ گئی تو پیر صاحب کیا کریں گے ؟

٭٭٭

 

 

 

پیکاسو کی بیوہ

 

 

پاکستان بننے سے قبل سکھوں کے شہر ننکانہ میں ایک لڑکا ہاتھ میں ڈانگ لئے گزرتا تو ہر طرف سے آوازیں آنے لگتیں، بابا ڈانگ بابا ڈانگ یہ بچہ ہر وقت ہاتھ میں ڈانگ اس لئے رکھتا کہ اس کے ددھیال والے اس کی ماں سے اچھا سلوک نہیں کرتے ، اسے اپنی امی سے اتنا پیار تھا کہ جب وہ بڑا ہو کر مصور بنا تو تصویر پر اس نے اپنا جو نام لکھا اس میں بھی امی آتا تھا، وہ تھا رامی یہ الگ بات ہے کہ تصویر دیکھ کر  لوگوں نے نام کو یوں ادا کرنا شروع کر دیا کہ احتیاط رامی کے بجائے رامے لکھنے لگے ، وہ اداکار جتندر کے ہم عمر اور بچپن کے ساتھی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ آج کل رامے پچاس سے اوپر ہیں، جب کہ جتندر پچیس سے اوپر کے ، ویسے بھی اداکار بیوی، اور کار جب پرانی ہو جائے تو چالیس سے اوپر نہیں جاتی، بہر حال ان دونوں نے اداکاری کیلئے مختلف فیلڈ چنے اور کامیاب رہے ۔

والدہ  انہیں بچپن میں جھوٹ بولنے سے منع کرتیں، انہیں کیا پتہ تھا کہ بیٹا بڑا ہو کر سیاست دان بنے گا، رامے صاحب جس کسی واقعہ پر حیران ہوں تو نہیں چپ لگ جاتی ہے ، اپنی پیدائش کے تین سال بعد تک نہ بولے ، چھوٹے تھے تو کئی سال بعد بولنا آیا، بڑے ہوئے تو کئی سال چپ ہونا نہ آیا، فلسفے میں داخلہ لیا، ہر  گتھی سلجھائی، جو گتھی سلجھنے کی بجائے الجھنے لگی اس سے شادی کر لی،ماں اور بیوی نے ان کی شخصیت پر ایسا اثر ڈالا کہ آج بھی وہ 50 فیصد ماں اور 50فیصد بیوی ہیں، ڈاکٹر مبشر حسن کی زنانہ آواز، عابدہ حسین پنجاب کی مردانہ آواز اور رامے صاحب پنجاب کی درمیانہ آواز ہیں، جو ان کی آواز ایک بار سن لے پھر وہ انھیں محترم نہیں محترمی کہہ کر ہی بلاتا ہے ۔

سیاست اور محبت میں جو کرتے ہیں وہ جائز ہوتا ہے ، صرف وہ ناجائز ہوتا ہے جو دوسرے  کرتے ہیں، پہلے سیاستدان کرپٹ ہوتے تھے ، آج کل کرپٹ سیاستدان ہو گئے ہیں، رامے خود کو اس سیاست کا باغی کہتے ہیں، انہیں مل کر باغی سے مراد باغ میں آنے جانے والا ہی لیا جا سکتا ہے ، کہتے ہیں میں مڈل کلاس سے ہوں، ہم نے سنا ہے ، مڈل کلاس سے تو غلام حیدر وائیں صاحب تھے ، رامے تو ایم اے ہیں، اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ میں مڈل کلاس کی نمائندگی کی ہے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں، ہم خود مڈل کلاس کی نمائندگی کر چکے ہیں، مڈل کلاس میں ہم مانیٹر تھے ۔

1957 میں نصرت نکالا، بعد میں نصرت پیپلز پارٹی کا ترجمان بنا، اب تو نصرت پیپلز پارٹی کی ترجمان ہے ، بھٹو دور میں رسالے نصرت پر اپنے نام سے پہلے طابع لکھتے مگر اسے تابع پڑھتے ، سولہ ماہ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں سولہ ماہ شاہی قلعے میں قید رہے ، لون ان سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ جب وہ وزیر اعلیٰ تھے تو لوگ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے جا کر کہتے وزیر اعلیٰ کو رہا کرو، لیکن یہ آج تک یہی سمجھتے ہیں کہ عوام کہتے تھے ، وزیر اعلیٰ رہا کرو، آج بھی نام کے ساتھ وزیر اعلیٰ یوں لکھتے ہیں جیسے ڈاکٹر اپنے نام کے ساتھ ایم بی بی ایس لکھتے ہیں۔

روزنامہ مساوات سے نکل کر مساوات پارٹی بنائی، دونوں میں یہ فرق تھا کہ روزنامہ مساوات میں کارکن زیادہ تھے ، پارٹی کا اس قدر خیال رکھتے کہ جب کہیں باہر جاتے تو ہمسائیوں کو کہہ کر جاتے کہ اس کا خیال رکھنا آ کر لے لوں گا، ریٹرن ٹکٹ پر سفر کرتے ہیں، وہ تو الیکشن میں بھی ریٹرن ٹکٹ پر ہی Suffer کرتے ہیں۔

مصوری فطرت کی عکاسی ہوتی ہے ، جی ہاں مصور کی فطرت کی، پینٹنگ دیکھنے کا اصول یہ ہے کہ خود نہ بولو پینٹنگ بولنے دو، رامے صاحب نے تجریدی  مصوری کو بہت توجہ دی، ویسے بھی تجریدی مصوری اتنی تو توجہ مانگتی ہے کہ مصور کا ذرا دھیان ادھر ادھر ہو جائے تو بھول جاتا ہے ، کہ کیا بنا رہا تھا، سکھوں کے شہر میں پیدا ہوئے مگر اپنی گفتگو سے اس کا پتہ نہیں چلنے دیا، ان کی تصویروں سے پتہ چلتا ہے کہ بدصورتی کو بڑی خوبصورتی سے پینٹ کرتے ہیں، مصوری میں وہ پکاسو کی بیوہ ہیں، کسی تصویر کو کپڑے پہنا دیں تو اس کا طرف یوں دیکھیں گے جیسے کوئی سخی کسی ننگے کو لباس پہنانے کے بعد دیکھتا ہے ، بچپن میں ٹریس کر کے تصویریں بناتے اور مار کھاتے ، ہمارے تو ایک جاننے والے مصور نے ٹریس کر کے تصویر بناتے ہوئے بیوی سے مار کھائی کیونکہ وہ ایک ماڈل سے تصویر ٹریس کر رہے تھے ۔

جہاں بلند بولنا ہو، وہاں سرگوشی کرتے ہیں، جہاں سرگوشی کرنا ہوں وہاں خاموشی کریں گے ، انہیں تو ایک آدمی سے بات کرنے کیلئے بھی مائیک کی ضرورت ہے ، اس قدر آہستہ بولتے ہیں، کہ زور لگا کر سننا پڑتا ہے ،  ان کا چہرہ  ایک بار دیکھ لو تو ایک بار ہی یاد رہتا ہے بار بار دیکھو تو  بار بار بھولے گا، انہیں ہر مشکل پسند آتی ہے ، وہ تو مشکل کو مہ شکل سمجھتے ہیں۔

انہوں نے اپنی آواز کبھی بیوی کے قد سے بلند نہیں کی، ان کی پسندیدہ شخصیت ان کی بیوی کا شوہر ہے ، ہر بیوی کے جذبات کا اس قدر خیال رکھتے ہیں کہ اگر انہیں پتہ ہو کہ مجھے آج مرنا ہے ، تو وہ سب سے پہلے جو کام کریں گے ، وہ یہ ہو گا سب سے پہلے اپنی بیوی کو تعزیتی کارڈ ارسال کریں گے ، اسکول میں ان کی نرم طبعیت، قوت برداشت اور صبر کی وجہ سے ایک بار اسکول ٹیچر نے کہا تھا، یہ مستقبل کا مستقل شوہر ہے ، آج کل دینا کی سپر پاور امریکہ ہے ، رامے صاحب کی دنیا کی سپر پاور بھی آج کل ایک امریکن ہی ہے ۔

کہتے ہیں کہ  اقتدار کا بھولا شام کو پارٹی میں آ جائے تو بھولا نہیں کہلاتا، البتہ اگر وہ رات کو پارٹی میں آئے تو بات کچھ اور ہے ، انہیں ڈاکٹر کہے کہ آپ کی صحت کیلئے تبدیلی ضروری ہے ، تو صبح پارٹی بدل لیں گے ، کہتے ہیں کہ میں نے زندگی میں جو چیز سب سے زیادہ دیکھی ہے ، وہ سورج ہے ، واقعی چڑھتے ہوئے سورج کو ان سے زیادہ کس نے دیکھا ہو گا، استاد تھے تو طبعیت میں شاگردی تھی، طبعیت میں استادی آئی تو سیاست میں آ گئے ، انہیں ہر وقت ایک بندہ چاہئے جس کی تعریفیں کر سکیں، اگر کوئی نہ ملے تو شادی کا سوچنے لگتے ہیں، کافی اس قدر پسند ہے کہ وہ چیز لیتے ہیں جو کافی ہو، ہم تو کہتے ہیں کہ مشروبات ہیں ہی دو طرح کے ایک کافی اور دوسرے نہ کافی۔

صاحب جس نے کبھی عورت سے محبت نہیں کی، وہ قابل اعتبار نہیں ہو سکتا اور جس نے عورت ہی سے محبت کی، وہ بھی قابل اعتبار نہ رہا، ادب نے ان کا قدر بحیثیت سیاستدان  کم کیا اور سیاست نے ان کا قد بحیثیت ادیب کم کیا، کہتے ہیں میری تحریروں میں علم و فضل کی کمی نظر آئے تو ادیب سمجھ کر معاف کر دیں۔

محمد حنیف رامے وہ تصویر ہیں جو انہوں نے خود بنائی ہے ، کبھی انہوں نے اسے ایک سیاستدان وزیر اعلیٰ کی شکل دی، کبھی ترقی پسند صحافی کی، کبھی پنجاب کا مقدمہ لڑنے والے ادیب کی، کبھی مقرر اور کبھی دانشور کا روپ دیا اور کبھی ان سب پر خط تنسیخ پھر کر ہاتھ میں برش پکڑ کر خود تصویر کی جگہ آ کھڑے ہوئے ، یہ وہی بابا ڈانگ ہے جو خود تو وہی کا وہی رہا مگر اس کی ڈانگ گھستے گھستے قلم اور برش ہو گئی۔

٭٭٭

 

 

 

شی مین

 

 

یہ جاننے کیلئے سیاست دان مرد ہے یا عورت اس کی پالیسیاں دیکھنا چاہیں اور بے غم عابدہ حسین صاحب سیاست کی مرد میدان ہیں، کہتے ہیں عابدہ حسین کو خاتون بنانے کا فیصلہ تو بہت بعد میں کیا گیا تھا پہلے ان میں ساری مردانہ خصوصیات اکٹھی کی گئیں، مگر کاتب تقدیر کی کتابت کی غلطی سے یہ وہ بن گئیں، جس گھر میں پیدا ہوئیں وہ تنا بڑا تھا کہ اگر کوئی بدھ کو ملنے جاتا تو چوکیدار کہتا اس برآمدے میں سیدھے چلے جائیں اور جمعرات کو دائیں مڑ جائیں، اس گھرانے کی خواتین کے لباس میں تو گھروں کی بلند دیواریں بھی شامل ہوتیں، عورتوں کے دوپٹوں کو بھی غیروں سے پردہ کرایا جاتا، شریف شرفا تو غیروں کے سامنے بیوی کے جوتے کا ماپ تک نہ بتاتے ، مبادا کوئی ہمدردی کرنے لگے ، اس گھرانے کو پانچ ہزار ایکڑ کا وارث چاہئیے تھا، جب بے غم صاحبہ پیدا نہ ہوئیں تھیں، نشیمن میں ہر طرف شمعیں جل رہی تھیں اور جب یہ پیدا ہوئیں تو ہر چیز جل رہی تھی، وہ ان کی نانی لیڈی مراتب تھیں، جنہیں عورت کے مراتب کا پتہ تھا، خود بے غم عابدہ حسین کو اپنا لڑکی پیدا ہونا اتان برا لگا کہ اپنی پیدائش کے ایک سال بعد تک انہوں نے کسی سے بات نہ کی، مگر بڑی ہو کر عابدہ حسین کے بجائے عابد حسین بن گئیں، یہاں تک کہ جب مارچ 1971 میں بھٹو صاحب نے انہیں خواتین کی نشست پر الیکشن لڑنے کیلئے کہا تو انہوں نے انکار کیا اور پارٹی سے استعفیٰ دے دیا، 1988میں جب بے نظیر قائد حزب اقتدار تھیں، بے غم صاحبہ کو کہا گیا کہ آپ لیڈر آف دی اپوزیشن بن جائیں تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ خاتون کا مقابلہ کرنا کوئی مردانگی نہیں وہ پہلی خاتون ہیں جو ڈسٹرکٹ کونسل جھنگ کی چئیرمین رہیں، یہی نہیں شادی میں بھی فخر امام کو بیاہ کر اپنے گھر لائیں۔

مردوں ے ساتھ مردوں جیسا سلوک کرتی ہیں، یہی نہیں عورتوں کے ساتھ بھی مردوں جیسا سلوک کرتی ہیں، شیر افضل جعفری صاحب نے ان کی بڑائی بیان کرتے ہوئے کہا کہ کرنل عابد حسین کی یہ بیٹی کئی بیٹوں پر بھاری ہے ، جنہوں نے بے غم صاحبہ کو دیکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ فقرہ یہ تھا، کرنل عابد حسین کی بیٹی کئی بیٹیوں پر بھاری ہے ۔

وہ سیاست میں بے حیثیت عورت نہیں ، بحیثیت سیاست دان آئیں، ہمارے ہاں ہر بار ایسے سیاست دان جیت کر اسمبلی میں پہنچتے ہیں جس سے ان کی سیاست دانوں کی اہلیت سے کہیں زیادہ عوام کے حافظے کا پتہ چلتا ہے ، جی ہاں عوام کے کمزور حافظے کا، بے غم صاحب پہلی بار جب گھر سے اسمبلی آئیں تو برقع پہن کر، پھر اسمبلی میں گھر کر گئیں،اب اسمبلی میں یوں پھرتی ہیں جیسے گھر میں پھرتی ہوں، سنا ہے وہ جھنگ کے لوگوں کو بہت کم نظر آتی ہیں، حالانکہ ہم نے جب بھی دیکھا بہت نظر آئیں، چہرے کے نقوش سے تو ماہنامہ نقوش لگتی، انہیں دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ بھری بیٹھی ہیں، چہرے اور دروازے پر ڈو ناٹ ڈسٹرب کا بورڈ لگا ہوتا ہے ،ہاتھ میں ایسے نرم کہ ایک صحافی خاتون نے پوچھا آپ ہاتھوں کو ایسا رکھنے کیلئے کیا کرتی ہیں؟ کہا ان کو ایسا رکھنے کیلئے ہی تو میں کچھ نہیں کرتی، بچپن میں اپنے پاؤ مور کی طرح اٹھا کر زمین پر رکھتیں، یہی نہیں پاؤ بھی مور کی طرح کے رکھتی، بچپن میں اپنی کلاس کی نمایا طالبہ تھیں، کلاس کو جتنے فاصلے سے دیکھا جاتا، یہی نمایا نظر آتیں، بچپن ہی سے سیاست دان بننے کی صلاحیت موجود تھی، یعنی ہر سال اپنی جماعت بدل لیتی، جب کہ ہمارے دوست ف تو ایک ہی جماعت سے اتنے کمٹیڈ ہوئے کہ آج کل ان کا ساتیوں میں آٹھواں سال ہے ، غصے میں ایسی انگریزی بولتی ہیں کہ لگتا ہے انگریزی پر انکو مکمل گرفت نہیں، انگریزی کو ان پر مکمل گرفت ہے ، کمر ے میں انگریزی کتابیں رکھتی ہیں کہ کبھی بندے کا پڑھنے کا دل بھی چاہتا ہے ، اردو کتابیں بھی رکھیں ہیں، کہ کبھی بندے کا پڑھنے کو دل نہیں بھی چاہتا ہے ۔

وہ بڑی ہو کر بے نظیر بننے چاہتی ہیں، حالانکہ وہ صرف چھوٹی ہو کہ یہ بن سکتی ہیں، ان میں اور بے نظیر میں وہی فرق ہے جو دونوں کے والدوں میں تھا۔

سیاست میں امام وہ نہیں ہوتا جس کی مرضی پر پیروکار چلیں، بلکہ وہ ہوتا ہے جو پیروکاروں کی مرضی پر چلتا ہے ، فخر امام صاحب پنج وقتی آئینی ہیں، ان سے کہو چاند بہت خوبصورت لگ رہا ہے تو کہیں گے ، ہاں لگتا تو آئین کے مطابق ہی ہے ، 1985 میں وہ اسمبلی کے اسپیکر بنے مگر پھر تحریک عدم اعتماد میں انہیں 72 ووٹ ملے وہ ہار گئے ، تو کسی نے کہا امام کے ساتھ 72 ہی ہوتے ہیں، فخر امام بے غم صاحب کو اپنی دنیا کہتے ہیں،کیوں کہتے ہیں؟ یہ بات گول مول ہے ، فخر امام صاحب کیلئے وہ فخر بھی ہیں اور امام بھی، وہ مرد عورت کی برابری کی قائل ہیں، کہتی مرد اگر با صلاحیت ہو تو وہ عورت کی برابری کر سکتا ہے ، اگر کوئی مرد ایسا نہ ہو تو اس برابر کر دیتی ہیں، وہ تو تجارتی بنیادوں پر افزائش نسل کیلئے مرغیاں خریدیں تو بھی جتنی مرغیاں خریدیں گی اتنے ہی مرغے لیں گی، ویسے ہم سمجھتے ہیں صرف ایک کام ایسا ہے جو دو مرد تو مل کر سکتے ہیں، مگر عورتیں دس مل کر نہیں کر سکتی، وہ ہے چپ رہنا، بے غم صاحبہ اس موضوع پر بھی بات کر دیتی ہیں جس پر سرگوشی ہی کی جا سکتی ہے ، دوران گفتگو دوسرے کو اپنی سطح پر نہیں لاتیں اور نہ دوسرے کی سطح پر اترتیں ہیں، بلکہ اپنی سطح پر گفتگو کرتی ہیں، جھوٹ نہیں بولتیں، اس لئے عمر پوچھو تو جواب نہیں دیتیں، وہ بول رہی  ہوں تو لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں، کیونکہ سیاسی خاتون اور گلوکارہ کی یہ خوش فہمی ہی ہوتی ہے کہ لوگ اسے صرف سننے آتے ہیں۔

جس کلچر پر وہ ایگری ہیں وہ ایگری کلچر ہے ، لیکن کہتی ہیں، میں جاگیردارنی نہیں ہوں، ٹھیک کہتی ہیں وہ جاگیردارنی نہیں ہیں، جاگیردار ہیں، علاقے کے لوگ ان کو سلام بھی کریں تو لگتا ہے معافی مانگ رہے ہیں، گھڑ دوڑ پسند ہے ، اکثر اس میں حصہ لیتی ہیں ، یہی نہیں جیتنی بھی ہیں، اس قدر مصروف کہ ان کہ پاس دن بھی رکی مصروفیات کی لسٹ دیکھنے کی فرصت نہیں، یہ ہی ان کی خوشی کا راز ہے ، فارغ رہتیں تو اپنے وزن کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان رہتیں، نارمل گفتگو بھی کر رہی ہوں تو لگتا ہے ڈانٹ رہی ہیں، اس لئیے ڈانٹ بھی رہی ہوں تو لگتا ہے ، نارمل گفتگو کر رہی ہیں، ویسے بھی باس اور بارش ہوتی ہی برسنے کیلئے ہے ۔

عورت کے تخلیقی کاموں کے اتنے خلاف ہیں کہ جو تخلیقی کام قدرت نے عورت کے ذمے لگایا ہے اسے روکنے کیلئے منصوبہ بندی کرتی رہتی ہی، یوں پاکستان میں عورتیں ضبط تولید کی گولیاں کھاتیں ، وہ ترقی پسند خواتین کہلاتیں اور جو نہ کھاتیں وہ مائیں کہلواتیں، جتوئی صاحب کے دور میں وزیر اطلاعات رہیں، ویسے اطلاعات کا شعبہ پیدائشی طور پر خواتین ہی کا ہے ، آج کل امریکہ میں پاکستانی کلچر کی نمائندہ ہیں، پہلے پاکستان میں امریکی کلچر کی نمائندہ تھیں۔

وہ ڈپلومیٹ ہیں، ایک سیاست دان نے کسی کو بتایا کہ میں ڈپلومیٹ ہو تو دوسرا بولا اچھا میں تو تمہیں غیر شادی شدہ سمجھ رہا تھا لیکن اس کے باوجود امریکہ میں کسی کو اپنے گھر دعوت نہیں دیں، کہتی ہیں یہاں کون سی میری بیوی ہے جو مہمانوں کو پکا کر کہلائے گی۔

امر کی گفتگو اور لباس میں اختصار سے کام لیتے ہیں، یہ اختصار میں بھی تفصیل سے کام لیتی ہیں، انہیں تو بندہ کہہ دے کہ مجھے مونچھیں پسند ہیں تو کہیں گی کہ مرد کی یا عورت کی ، جب حکومت ان کی نہیں ہوتی یہ حکومت کی ہوتی ہیں، سیاست میں آنے سے پہلے تصویریں بناتیں، سیاست دان اور مصور میں یہ فرق ہے کہ مصور  کی صرف تصوروں کو ہی لٹکایا جاتا ہے ، ان عورتوں سے زیادہ  تیز ہیں جو ان سے کم تیز ہیں، غصے میں منہ کھلا رکھتی ہیں، اور آنکھیں بند، وہی باتیں چھپاتیں ہیں جو وہ نہیں جانتیں، ایسی با رعب شخصیت ہیں کہ کچھ نہ کہہ رہی ہوں تب بھی لگتا ہے کہ کچھ کہہ رہی ہیں، مسز تھیچر سے خاوند کو ان سے ملنے سے پہلے محترمہ کے پی اے سے ٹائم لینا پڑتا تھا، ایک بار کسی نے تھیچر کے خاوند سے پوچھا مارگریٹ تھیچر آپ کی بیوی ہیں؟ تو اس نے کہا آپ کو اس شبے پر کوئی شک ہے ۔

جھنگ کے لوگ انہیں اپنا ہیرو کہتے ہیں، سنا ہے کچھ عزیز انہیں چاند بھی کہتے ہیں جس کی وجہ شاید یہ ہو کہ چاند مذکر ہوتا ہے ، بہر حال جب تک وہ سفیر بن کر امریکہ نہیں گئی تھیں لوگوں کوشک تھا کہ پاکستانی سیاست میں بے نظیر واحد خاتون ہیں اب شک نہیں رہا۔

٭٭٭

 

 

شکاری

 

وہ پاکستان  کے ویران صوبے کے آباد سرکار ہیں، شکل سے بلوچ نہیں، پورا بلوچستان لگتے ہیں،مونچھیں اتنی نوکیلی کہ ان سے کسی کو زخمی کی جا سکتا ہے ، چیتے کی پھرتی، عقاب کی نظر، اونٹ کی دشمنی اور شیر سی ہلاشیری ہی نہیں، ان میں اور بھی کئی جانوروں والی خوبیاں موجود ہیں، وہ بگٹی قبیلے کے سردار ہیں، یہ اس قدر جنگجو قبیلہ ہے کہ، ان کے ہاں جس دن بچہ باہر کسی کو مار کر نہیں آتا، اس دن بچے کو مار دیتے ہیں، لوگ اپنے ذہن میں خدا کا تصور بنانے کیلئے سردار کو دیکھتے ہیں، معاف نہ کرنا اور حکم دینا اکبر بگٹی کو ورثے میں ملا ہے ، دوسرے کی بات یوں سنتے جیسے بادشاہ کسی کی فریاد سن رہا ہو، خود کو اپنے قد سے بھی اونچا سمجھتے ہیں، ویسے ان کا قد ایسا ہے کہ بندہ ان کے پاؤں سر تک پہنچے تو موسم بدل چکا ہوتا ہے ۔

دوران تعلیم کوئی پوچھتا آپ کس کلاس میں ہیں؟تو کہتے ہم اپر کلاس میں۔استاد پوچھتا ہوم ورک کیا ہے ؟تو کہتے ہمارے ہاں ہوم ورک نوکر کرتے ہیں، ہر معاملے میں خود کو دوسرے سے بڑا سمجھتے ہیں، وہ تو دس سال کی عمر میں خود کو تیس سال کے لوگوں سے خود کو بڑا سمجھتے ، ایچی سن کالج میں ان کی تعلیم کے دوران چیانگ کائی شیک دورے پر آیا تو بچوں کو لائن میں کھڑا کر کے ان سے ہاتھ ملانے کو کہا گیا، جب معزز مہمان موصوف تک پہنچے تو یہ پیٹھ پھیر کر کھڑے ہو گئے ، اب بھی جب کسی معزز مہمان کو آتا دیکھتے ہیں، ایسا ہی کرتے ہیں۔

لمبی بات نہیں کرتے ، بات اتنی مختصر ہوتی ہے کہ جونہی دوسرا متوجہ ہوتا ہے ، بات ختم ہو جاتی ہے ، کبھی کبھی تو یہ اتنی مختصر ہوتی ہے کہ اس کیلئے منہ بھی ہلانا نہیں پڑتا، اپنی بات میں زور پیدا کرنے کیلئے زور سے نہیں بولتے ، بلکہ چپ ہو جاتے ہیں، اس قدر صاف گو کہ بچپن میں بھی اس وقت تک کسی نہ ان کے منہ سے جھوٹ نہ سنا جب تک وہ باتیں نہ کرنے لگے ، انگریزی ادب اس قدر پسند ہے کہ جس کا ادب کرنا چاہیں، انگریزی میں کرتے ، کہتے ہیں، انگریزی پر میری گرفت ہے ، واقعی ان کی انگریزی قابل گرفت ہے ، سنا ہے جب وہ اردو کے خلاف ہوں تو اردو نہیں بولتے ، حالانکہ جب وہ اردو بولتے ہیں تو یہی لگتا ہے کہ وہ اردو کے خلاف ہیں۔

مجلس میں کوئی ایسی گفتگو یا واقعہ نہیں سناتے جس میں انکی حیثیت ثانوی ہو، اس لئیے وہ قیام پاکستان پر گفتگو نہیں کرتے ، وہ تو اپنے بیٹے کی شادی میں بھی تقریب کے دولہا خود ہی ہوتے ہیں،وہ کام نہیں کرتے جو سب کر سکیں، وہ کتاب تک نہیں پڑھتے جسے سب پڑھ سکیں، سیاستدانوں میں بیٹھے ہوں تو آنکھوں میں ایسی مستعدی ہوتی ہے جیسے مچان پر بیٹھے ہوں،ان سے پوچھو کسی کا شکار پسند کرتے ہیں؟تو کہیں گے شکاری کا۔نواب اکبر بگٹی ایک بار نصراللہ خان سے ناراض ہوئے تو کہا، آپ میں اور مجھ میں یہ فرق ہے کہ آپ نواب زادہ اور میں نواب ہوں۔

خود کو اپنی جماعت کا حصہ نہیں سمجھتے ، جماعت کو اپنا حصہ سمجھتے ہیں، وہ کسی جماعت میں کھپ نہیں سکتے ، جس جماعت میں جائیں، وہاں کھپ پڑ جاتی ہے ، ہمارے ہاں مخلوط حکومتیں ہی نہیں، حکمران بھی مخلوط ہوتے ہیں، لیکن کسی مس کا لیڈ کرنا موصوف کے نزدیک مس لیڈ کرنا ہے ، حکومت آسان اور حکمران مشکل ہے اور وہ حکمرانی کرتے ہیں، حکومت نہیں ، ہمیشہ اپنا سر اونچا رکھا، وہ تو سوتے وقت بھی سر اونچا رکھتے ہیں،چاہے اس کیلئے دو تکیے کیوں نہ استعمال میں ہو،کسی کی تعریف بھی یوں کرتے ہیں جیسے اس کا مذاق اڑا رہے ہو،بھٹو  مرحوم نے انہیں بلوچستان کے تخت پر یوں بٹھایا جیسے ہمارے ہاں چھوٹوں کو پاؤں پر بٹھایا جاتا ہے ، ڈاکٹر سے پوچھو دو اور دو کتنے ہوتے ہیں؟ تو وہ کہے گا، ہوتے تو چار ہیں مگر آپ فلاں کنسلٹنٹ سے سکینڈ  اوپینین لے لیں اور فلاں فلاں ٹیسٹ کروالیں، سیاست دان سے پوچھو دو اور دو کتنے ہوتے ہیں؟ تو وہ کہے گا آپ کتنے چاہتے ہیں، مگر اکبر بگٹی کے علاقے میں دو اور دو اتنے ہی ہوتے ہیں جتنے موصوف کہتے ہیں، وہ تو قبیلے کے کسی فرد کو زندہ دفن کرنے کا حکم دیں تو وہ لوگ پھر بھی کہیں گے کہ دفن تو کیا مگر اتنے رحم دل ہیں کہ مار کر نہیں کیا، وہ دونوں ہاتھ جیب میں ڈال کر بھی آپ پر ہاتھ ڈال سکتے ہیں، ذہین فتین اکبر بادشاہ کی آنکھوں میں ماضی کے ذکر سے چمک آ جاتی ہے ،جس سے لگتا ہے اب وہ جوان نہیں ہے ، ویسے بندہ تب بوڑھا ہوتا ہے ، جب اسے پتہ چلے کہ پچاس کا ہو گیا، لیکن انہوں نے آج تک خود کو یہ پتہ نہیں چلنے دیا۔

Mathematics اتنی کمزور کہ ایماڈنکن نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اپنے ہاتھوں سے کتنے لوگوں کو قتل کیا؟ تو آپ نے کہا مجھے گنتی یاد نہیں، ہو سکتا ہے انہوں اس عمر میں قتل شروع کئیے ہوں جب ابھی گنتی سیکھنے شروع بھی نہ کی ہو، انہیں موت کے بعد زندگی پر ایمان نہیں، ان سے مل لو تو موت سے پہلے زندگی پر بھی ایمان نہیں رہے گا، ان میں ایک خوبی وہ بھی ہے ، جو کسی سیاست دان میں نہیں ہوتی، جس میں ہو وہ سیاستدان نہیں، وہ ہے اپنی رائے کے غلط ہونے کا سر عام اعتراف کرنا، وہ بزدل سیاست کے بہادر سیاست دان ہیں، کہتے ہیں میں کسی سیاسی پارٹی میں نہیں آ سکتا، مجھ میں کئی پارٹیاں آ سکتیں ہیں،دشمنی میں وہاں تک چلے جاتے ہیں جہاں تک دشمنی جا سکتی ہے ، کہتے ہیں میں جو سوچتا ہوں، وہ کرتا ہوں، حالانکہ وہ جو کرتے ہیں وہ اس سے تو یہ نہیں لگتا کہ وہ سوچتے ہیں، یہ جاننے کیلئے کہ وہ آپ کی بات سن رہے ہیں یا نہیں، آسان طریقہ ہے ، اگر آپ ان کا ذکر کر رہے ہیں تو وہ سن رہے ہیں، اگر نہیں کر رہے ہیں، تو وہ نہیں سن رہے ہیں،سیاست دان تو لوگوں کے مسائل کو وسائل بنا کر جیتے ہیں، اور وسائل کو لوگوں کیلئے مسائل بنا دیتے ہیں، مگر ان کا ذریعہ روزگار سیاست نہیں، ان کے تو قبیلے کے لوگ کبھی روزگار کی تلاش میں کہیں نہیں گئے ، روزگار ان کی تلاش میں سوئی کے مقام پر آیا، یہ Suicide موصوف کی اجازت کے بغیر Suicide ہے ، ان کی پسندیدہ شخصیت ہٹلر ہے ، مگر یہ بات اس طرح بتاتے ہیں جیسے وہ ہٹلر کی پسندیدہ شخصیت ہو، کہتے ہیں انہوں نے اپنی زندگی میں خود سے بڑا آدمی آج تک نہیں دیکھا واقعی جو ان سے بڑا نکلا، اسے دیکھا بھی نہیں، ون ان لوگوں میں سے ہیں جو اپنی ذات پر پی ایچ ڈی کرتے ہیں۔

کہتے ہیں سو سنار کی ایک سردار کی، اگرچہ سردار اتنے سیاست میں نہیں ہوتے جتنے لطیفوں میں ہوتے ہیں، ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ سردار کتنا ہی سیانا کیوں نہ ہو، لوگ پھر بھی اسے سردار جی ہی کہہ کر بلاتے ہیں، وہ بلوچ ہی نہیں بے لوچ سردار ہیں، سیاست میں اپنے بچوں کے والد کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں۔

غیر سنجیدگی کا مظاہرہ بڑی سنجیدگی سے کرتے ہیں،کسی افواہ پر یقین نہیں کرتے جب تک سرکاری طور پر اس کی تردید نہ جائے ، ان کے کئی محافظ ہیں جن کا دعوی ہے کہ جب تک موصوف کی زندگی ہے ہم انکو مرنے نہیں دیں گے ، موصوف بے اختیار اپنے اختیار کی بات کرتے ہیں، کسی کی تعریف بھی یوں کرتے ہیں جیسے اس کا مذاق اڑا رہے ہوں، کھانوں میں انہیں مرچیں پسند ہیں، ان کے کھانوں میں مرچیں نہیں ڈالی جاتیں، مرچوں میں کھانا ڈالا جاتا ہے ، بڑوں میں انہیں چھوٹے پسند ہیں، ان کے غسل خانے کے باہر میڈونا کی تصویر دیکھ کر ایماڈنکن نے پوچھا آپ نے یہ تصویر غسل خانے کے باہر کیوں لگائی؟ کہا غسل خانے کے اندر گیلی ہو جاتی ہے ، اس قدر تنہائی کہ قوالی نہ پسند ہے کہ اس میں گانے والا تنہا نہیں ہوتا، ویسے وہ گانا سنتے ہی نہیں، دیکھتے بھی ہیں، گانے والے کو داد یوں دیت ہیں جیسے تسلی دے رہے ہوں۔کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب میرے کلاس فیلو تھے ، واقعی بھٹو کا تعلق بھی اسی کلاس سے تھا جس جس سے انکا ہے ، ان کا سیاسی کہنہ سالی کا ذکر کرو تو ناراض ہو جاتے ہیں، حالانکہ کہنے سالی کہنے پر تو ناراض سالی کو ہونا چاہئیے ، کہتے ہیں یہ فخر کی بات ہے کہ اے کے بروہی مجھے پڑھاتے رہے ہیں، مگر کہتے اس انداز سے ہیں جیسے اے کے بروہی کیلئے فخر کی بات ہو۔

جو شخص کچھ نہیں جانتا مگر سمجھتا ہے وہ سب جانتا ہے ، اس کیلئے سیاست بہترین پیشہ ہے ، موصوف بھی یہی پیشہ کرتے ہیں، ہم نے تو ہر کام صفر سے شروع کیا، یہاں تک کہ عمر بھی صفر سے شروع کی ، لیکن وہ سردار ہیں اور سرداروں کا صفر بھی بارہ سے شروع ہوتا ہے ، آپ یہ دعوی تو کر سکتے ہیں ہیں کہ آپ اس کے دوست ہیں، مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ آپ کے دوست ہیں، اتنا کم سوتے ہیں کہ پوچھو نیند کب آتی ہے ؟ تو کہیں گے جب سویا ہوا ہوں۔

خوشامد غور سے سنتے ہیں، کہ خوشامد کرنے والا دراصل وہی کچھ کہہ رہا ہوتا ہے جو وہ خود کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں، اتنا وہ نہیں بولتے جتنا ان کی تصویریں بولتی ہیں، ویسے مرد خاموش ہو تو آپ اس کی مکمل تصویر نہیں بنا سکتے اور عورت جب تک خاموش نہ ہو، آپ اس کی مکمل تصویر نہیں بنا سکتے ۔

وہ مولوی خولیا کے مریض ہیں، مذہبی معاملات پر یوں گفتگو کرتے ہیں جیسے لطیفہ سنا رہے ہوں، دین کے بارے میں انکا نظریہ وہی ہے ، جو شہنشاہ اکبر کا تھا، البتہ ان دنوں حکمرانوں میں یہ فرق ہے کہ شہنشاہ اکبر کے پاس نورتن تھے اور ان کے پاس No رتن ہیں۔   ٭٭٭

 

 

 

بابا جمہورا

 

 

بابا جمہورا کو میں بزرگ سیاست دان اس لئیے نہیں کہوں گا کہ وہ خود بزرگ ہوں تو ہوں، مگر اس کی سیاست میں ابھی لڑکپن ہے ، اس وقت سے سیاست میں ہیں جب انہوں نے ابھی ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سیاست میں نوادر ہیں، اتنے بڑے سیاست دان ہیں کہ اکیلے پارٹی میں پورے نہیں آ سکتے ، سو دوسری پارٹیوں سے اشتراک کر کے رہنے کی جگہ بناتے ہیں، کچھ لوگ انہیں اقلیتوں کا رہنما مانتے ہیں، ویسے ان کی پارٹی ممبروں کی تعداد دیکھ لیں تو آپ بھی مان جائیں گے ۔

ہمارے ہاں آج کل اگر آپ اپنا شجرۂ نسب اور سارا خاندانی کچا چھٹا معلوم کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو کسی لائبریری میں جانے کی ضرورت نہیں، سیاست میں آ جائیں، مخالفین خود ہی بتا دیں گے کہ آپ کے داد پر داد کیا کیا کرتے تھے ، نواب زادہ صاحب نے سیاست کو عبادت بنا دیا ہے ، جس سے یہ پتہ چلے نہ چلے کہ وہ سیاست کو کیا سمجھتے ہیں، یہ پتہ چلتا کہ وہ عبادت کو کیا سمجھتے ہیں، ان کی پوری زندگی میں ان کی پیدائش کے علاوہ کوئی غیر سیاسی  واقعہ رونما نہیں ہوا، وہ تو صبح اٹھ کر سیب بھی یوں کھاتے تھے جیسے اپنی صحت کیلئے نہیں  جمہوریت کیلئے  کھا رہے ہوں، ان کی تو چھینک تک غیر سیاسی  نہیں ہوتی، تشدد کے اس قدر خلاف کے اسکول میں ضرب سے کئی کتراتے ، تقسیم تو کبھی کی ہی نہیں ، البتہ جمع ایسی کرتے کہ حساب  کا ماسٹر حساب داد دیتا، ذہین اتنے کہ جس روز ماسٹر شیو بڑھائے بغیر استری کے کپڑے پہن کر کلاس روم میں آتا، انہیں فوراً پتہ چل جاتا، کہ آج ماسٹر صاحب اردو شاعری پڑھائیں گے ، مزاج ایسا جمہوری کہ ایچی سن کالج میں کرکٹ کھیلتے وقت اردو شاعری کے دوران اسی گیند کو پکڑنے بھاگتے ، جس کی طرف سب سے زیاد کھلاڑی بھاگتے ۔

پیر پگارا صاحب کو نابالغ سیاست دان کہتے ہیں، ان کے بقول نواب زادہ کا مطلب ہی نواب کا لڑکا ہے اصغر خان فرماتے ہیں نواب زادہ صاحب 80 فیصد شاعری اور 20 فیصد سیاست کرتے ہیں، انہوں نے سیاست اور اپنی شاعری کی کتاب کا نام  جمہوریت  رکھا، ایک صاحب سے کہا دیکھیں یہ نام ٹھیک ہے یا بدل دوں؟ اس نے ان کی شاعری پڑھ کر کہا نام تو ٹھیک ہے مگر شاعر بدل دیں۔

حقہ اور نواب صاحب اس قدر لازم و ملزوم ہیں کہ دونوں کی شخصیت ٹوپی کے بغیر مکمل نہیں،مادر ملت فاطمہ جناح نے ایک بار کہا تھا، نواب زادہ نصر اللہ خان حقے کے بغیر کچھ نہیں، حالانکہ ان کے پاس حقہ نہ بھی ہو تب بھی لگتا ہے ، کہ ہے ، حقے کی نے منہ میں یوں دبائے ہوتے ہیں جیسے مخالف کی گردن، وہ حکم عدولی برداشت  کر لیتے ہیں، مگر حقہ عدولی نہیں، حقہ وہ ساتھی ہے جو اس وقت بولتا ہے جب آپ چاہتے ہیں، مارشل لاء کے دنوں میں جب کوئی نہیں بولتا،حقہ پھر بھی بولتا ہے م حقہ اجتماعیت کی علامت ہے اور سگریٹ الگ الگ کرنے کی، وہ سیاست کا حقہ ہیں، جس کے گرد کئی پارٹیاں کش لگا رہی ہیں، ان کی پسندیدہ موسیقی تازہ حقے کی آواز ہے ، وہ حقہ نہ بھی پی رہے ہوں، پھر بھی دھواں  دیتے ہیں ، سگار بھی پیتے ہیں، جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سگار صرف  پئے ہی جا سکتے ہیں کھائے جانے سے تور ہے ۔

کھانے میں مچھلی پسند ہے ، مچھلی اور سیاست دانوں میں یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں سانس لینے کیلئے منہ کھولتے ہیں، البتہ ایک مچھلی پورے جال کو گندا کر دیتی ہے مگر وہ سیاست دان مل کر بھی یہ نہیں کر سکتے ، البتہ نہ مل کر کر سکتے ہیں، جمہوریت کیلئے کوشش کرنے والوں کو جو پھل ملتا ہے ، وہ نواب صاحب کے باغ کے آم ہوتے ہیں، جو عام نہیں ہیں، ہمیں تو آم میں یہی خوبی لگتی ہے ، کہ یہ کھایا بھی جا سکتا ہے اور پیا بھی، انہیں سنترہ بھی اچھا لگتا ہے مگر ہمیں تو سنتری کا مذکر لگتا ہے ۔

نواب زادہ صاحب کئی دہائیوں سے وہی کر رہے ہیں جس کی دہائی آج دے رہے ہیں،  وہ ہے اتحاد بنانا، ہر حکومت کے خلاف اتحاد بناتے ہیں، جس کی حکومت کے خلاف اتحاد نہ بنائیں، اس میں اتحاد نہیں رہتا، ان کا بنایا اتحاد اتنا پائیدار ہوتا ہے کہ اب تو لوگ انہیں اپنے بچوں کی شادیاں پر بھی بلانے تاکہ نومولود اتحاد اٹوٹ ہو، ان کی طبعیت خراب ہو تو ڈاکٹر کہتا ہے ،تین دن تک نہار منہ اتحاد بنائیں، انشاء اللہ افاقہ ہو گا، شیاد اس کی وجہ یہی  ہو کہ اس میں بہت سے  لوگ اتحاد کرے یوں گاتے ہیں کہ کسی ایک کی آواز بھی صاف سنائی نہیں دیتی ، قوالی بندہ فاصلے سے سنے تو بہت مزہ آتا ہے ، یعنی اتنے فاصلے سے جہاں تک آواز نہ آتی ہو۔

سیاست کو انہوں نے کبھی دکان نہیں سمجھا، ویسے بھی سیاست میں دکان تو کیا، ایک کان کی بھی ضرورت نہیں،البتہ زبان چاہئیے اور ان کی زبان ایسی ہے کہ اتنی ان کہ منہ میں نہیں رہتی جتنی صحافیوں کے کانوں میں رہتی ہے ، ان کی تقریر بہرے بھی سمجھ جاتے ہیں، کیونکہ اتنا منہ سے نہیں، جتنا ہاتھوں سے بولتے ہیں، ہر سوال کا جواب سوچ کر دیتے ہیں، نام تک پوچھیں تو سوچ میں پڑ جائیں گے ، گفتگو کا ایسا انداز کہ بندہ بات سننے سے پہلے کنونس ہو جائے ، شاید کنونس ہونے کی وجہ بھی یہی ہو، ویسے ہم ایک ایک ایسے سیاست دان کو جانتے ہیں جو روز کنوسنگ کیلئے نکلتے ہیں، کئی دنوں کے بعد آخر ان سے ایک خاتون کنونس ہوہی گئیں، اب وہ ماشاء اللہ ان کے بچوں کی ماں ہیں، نواب صاحب کی تقریر  کا آغاز اور انجام تقریر کو دلکش بنا دیتا ہے ، تقریر اور بھی دلکش بن سکتی ہے بشرطیکہ اختتام آغاز سے پہلے کا ہو۔

وہ ان سیاست دانوں میں سے ہیں جو عوام کے نمائندہ نہیں، سیاست دانوں کے نمائندہ ہوتے ہیں، وہ غور ہے ، نواب صاحب پوزیشن بنا کر نہیں اپوزیشن بنا کر خوش ہوتے ہیں، وہ پیدائشی حزب اختلاف ہیں، اب تو انکی اس عادت کی وجہ سے یہ صورتحال ہے کہ اگر وہ کسی بات پر فورا متفق ہو جائیں تو لوگ پریشان ہو جاتے ہیں، کہ اللہ کرے ان کی طبعیت ٹھیک ہو، گھڑ سواری کرتے ہیں، اب بھی کرسی پر بیٹھے باتیں کرتے ہوئے دائیں ٹانگ سے کرسی کو ایڑھ لگا رہے ہوتے ہیں، ٹانک اس قدر پسند ہے کہ کھانے میں مچھلی کا بھی لیگ پیس ہی مانگتے ہیں۔

مارک ٹوئن نے کہا ہے صحت مند رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ کھاؤ جو آپ پسند نہیں کرتے ، وہ پیو جو آپ نہیں چاہتے اور وہ کرو جو آپ ویسے بھی کبھی نہ کرتے ، اس حساب سے انہوں نے کبھی صحت مند رہنے کی کوشش نہیں کی، پرانی چیزیں دیکھنا پسند ہیں، اس لئے کمرے میں شیشہ ضرور رکھتے ہیں، اپنی چیزیں نہیں بدلتے ، ان کا وہ برش ہس سے شیو کرتے وقت صابن لگاتے ہیں، اتنا پرانا ہو گیا ہے کہ اس کے آدھے بال سفید ہو چکے ہیں، جمہوریت میں مارشل لاء کی راہ ہموار کرتے ہیں، مارشل لاء میں جمہوریت کی راہ بناتے ہیں، اور ہمیشہ راہ میں ہی رہتے ہیں، حکومت میں کبھی نہیں رہے کیونکہ کبھی عہد ان سے بڑا ہوتا ہے اور کبھی وہ عہدے سے بڑے نکلتے ہیں، مغطر گڑھ جو کبھی ان کا گڑھ تھا اب ان کیلئے گڑھا بن چکا ہے ،  جنرل ضیا الحق کے جنازے پر نہ گئے مگر غفار خان کے جنازے پر گئے جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ سرحدی گاندھی غفار خان کے جنازے پر یہ یقین کرنے گئے تھے ،  کہ واقعی سرحدی گاندھی غفار خان مر گئے ہیں۔

مزاج ایسا کہ سردیوں میں گرمیاں اور گرمیوں مین سردی چاہتے ہیں، صحافی ان کے پاس خبر لینے یوں جاتے ہیں جیسے ان کی خبر لینے جا رہے ہوں، بھینسیں پالنے کا شوق ہے ،  سنا ہے جو بھینسیں پالتے ہیں،  وہ اچھے شوہر ثابت ہوتے ہیں،  اس قدر وضع دار کہ جس جگہ ایک بار پاؤں پھسلا، جب بھی وہاں  سے گزرے ، پھسل کر ہی گزرے ، ان کی پوری زندگی سے یہی نتیجہ نکلتا ہے سیاست بچوں کا کھیل نہیں، بوڑھوں کا ہے ۔

٭٭٭

 

ماخذ:

آئی پاکی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید