FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

بحر مُتَقارِب مثمن سالم

مرتب: خرم شہزاد خرمؔ

 

خام خیال

یہ میرا خام خیال ہی تھا کہ میں خود کو شاعر سمجھنے کی غلطی کرنے چلا تھا۔ یہ میرا خود کا قصور نہیں تھا بلکہ میرے چاہنے والوں کا بھی قصور تھا جو میرے اس خیال کو واہ، واہ کر کے حقیقت بنا رہے تھے۔ آج کے دور میں جہاں شاعری کو پسند کیا جاتا ہے لیکن سمجھا نہیں جاتا، وہاں ہم جیسے شاعر خام خیالی میں ہی رہتے ہیں۔ شروع، شروع میں ہمیں بہت پریشانی ہوتی تھی جب علم عروض کے بارے میں ہمیں کچھ خبر بھی نہیں تھی اور کسی استاد شاعر کو اپنی شاعری اصلاح کے لیے دیں تو وہ بہت آرام سے فرما دیتے تھے کہ یہ غزل وزن میں نہیں ہے۔ وزن کیا ہے؟ اور یہ کیا ہوتا ہے؟ اس بارے میں کوئی نہ بتاتا تھا اور نہ سمجھاتا تھا۔ میرے ایک دوست جناب ایم اے راجا صاحب سے میرا فون پر رابطہ تھا۔ وہ کراچی کے رہنے والے تھے اور میں راولپنڈی کا رہنے والا۔ ہم دونوں کا مسئلہ ایک ہی تھا۔ پھر ایک دن مجھے اردو محفل پر محمد وارث صاحب اور اعجاز عبید صاحب ملے۔ یہاں کچھ تعارف اردو محفل کر بھی کروا دوں۔ اردو محفل www.urduweb.org/mehfil یہ ایک اردو کا فورم ہے جہاں ہر طرح کی معلومات مل سکتی ہے۔ یہاں شاعری کے سیکشن میں ایک سیکشن اصلاحِ صحن کا بھی ہے۔ بس اسی ویب سائیٹ پر ہماری محمد وارث صاحب اور اعجاز عبید صاحب سے قلمی ملاقات ہوئی۔ اور اس کے بعد ہمیں علمِ عروض کے بارے میں کچھ معلومات ملی۔ سب سے پہلے ہم نے بحرِ متقارب مثمن سالم کے بارے میں ہی پڑھا۔ محمد وارث صاحب اور اعجاز عبید صاحب کے سمجھانے کا انداز اتنا پیارا اور اتنا اچھا تھا کہ مجھے اور ایم اے راجا صاحب کو بحر اور عروض کے بارے میں کچھ نا کچھ علم ہو ہی گیا اور ہم بھی اپنی شاعری کو بحر میں کہنے کے قابل ہو گئے۔ آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ اساتذۂ اکرام نے ہم پر کتنی محنت کی۔ اور کتنی محبت کے ساتھ محنت کی ہم ان کے مشکور ہیں۔ کچھ تعارف اساتذہ اکرام کا پیش کرتا چلوں:

محمد وارث صاحب

نام محمد وارث ۔ ابتدائی تعلم سیالکوٹ سے حاصل کی اس کے بعد لاہور سے بزنس ایڈمینسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ۔ شعر و شاعری و علم و ادب و تحریر و تصنیف و مطالعہ و موسیقی سے عشق کی حد تک لگاؤ ہے، اسد تخلص کرتے ہیں۔ علمِ عروض پر بہت سے مضامین لکھ چکے ہیں اور انشاءاللہ جلد ہی علم عروض پر ایک کتاب منظرِ عام پر آئے گی انشاءاللہ۔ پسندیدہ کتاب ’دیوانِ غالب‘ ہے پسندیدہ شعر
لئے جاتی ہے کہیں ایک توقّع غالب
جادۂ رہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو

اعجاز عبید صاحب

نام: اعجاز اختر (تاریخی اعجاز بلند اختر) پیدائش: ۲۲ جنوری ۱۹۵۰ء جاؤرہ، ضلع رتلام، مدھیہ پردیش، ہندوستان، ابتدائی تعلیم اندور میں، اس کے بعد ۱۹۶۸ میں علی گڑھ۔ خاندان کی ہجرت ۱۹۶۹ء سے۔
تعلیم: ایم ایس سی، جیالوجی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، یو ۔پی۔ (۱۹۷۳ء)
ملازمت: ۱۹۷۴ تا ۱۹۷۵، لکچرر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، یو پی
۱۹۷۵ تا حال: جیالوجیکل سروے آف انڈیا، موجودہ پوسٹنگ بطور ڈائریکٹر (سلیکشن گریڈ)، حیدر آباد، اے۔ پی۔
ادبی سرگرمیاں:
پہلی تخلیق: پندرہ روزہ ’نور‘ رامپور، ۱۹۵۹، طفلانہ ادبی سر گرمیاں جاری، اشاعت: پیام تعلیم، دہلی
مدیر: ’کھلتی کلیاں‘ بچوں کا صفحہ، روزنامہ ’سفیر مالوہ‘ اندور (۱۹۶۵ تا ۱۹۶۷)
پہلی ادبی کاوش مطبوعہ ’سفیر مالوہ‘ ۱۹۶۶، معیاری جریدے میں، ’کتاب‘ لکھنؤ، جولائی ۱۹۶۷
کتابیں۔۔ محض برقی ، اب تک
نظم: صاد۔ طویل نظم
صاد اور دوسری نظمیں۔ نظموں کا مجموعہ
تحریرِ آبِ زر۔ غزلوں کا مجموعہ
اپنی برہنہ پائی پر۔ غزلوں کا مجموعہ
ناولٹ: مائل بکرم راتیں
افسانے: تتلی کے پر
سفر نامہ: اللہ میاں کے مہمان (حج ۱۹۹۷ء)

 

ایم اے راجا

نام۔ راجا محمد امین
قلمی نام۔ ایم اے راجا
تعلیم۔ ایم اے ( اردو) ایل۔ایل۔بی۔
مقام پیدائش۔ ڈھورونارو۔
میرا نام محمد امین ہے، قلمی نام ایم اے راجا ہے، پہلے ساگر تخلص کیا کرتا تھا مگر بعد میں تبدیل کر کے راجا کر دیا۔
لکھنے کا شوق مجھے پرائمری ہی سے تھا اور الٹا سیدھا بہت کچھ لکھتا رہتا تھا جسکا کوئی پتہ نہیں کہ کیا لکھتا تھا، اور پھر غزل لکھنا شروع کی مگر بیبحر، پھر نیٹ پر ملاقات خرم شہزاد خرم سے ہوئی اور یہ ملاقات مضبوط دوستی میں بدل گئی اور انکی وجہ سے میں اردو محفل میں پہنچا جہاں میری ملاقات محترم وارث صاحب اور استادِ محترم اعجاز عبید صاحب ( الف عین) سے ہوئی اور انکی سر پرستی میں میں نے بحر میں غزل کہنا سیکھی اور سیکھنے کا عمل ابھی تک جاری ہے کیوں کہ ابھی تو میں طفلِ مکتب ہوں۔
کوئی کتاب ابھی تک نہیں آئی کہ ابھی اس قابل ہی نہیں ہوں، ہاں ایک انتخاب تیاری کے مراحل میں ہے، جو کہ انشاءاللہ بہت جلد شائع ہو گا۔ اپنی ذاتی مصروفیات کے باعث ادبی سرگرمیوں کے لیئے وقت نکالنا نہایت مشکل رہتا ہے

 

 

خرم شہزاد خرم

 

 

خاکسار خود۔ میرے تعارف کے بغیر بھی کام چلے گا۔ اب بات کو مختصر کرتے ہوئے مقصد کی بات کی طرف آتے ہیں۔ یہ کتابچہ بحرِ متقارب کے مطلق ہونے والے مکالمے پر تحریر کیا گیا ہے۔ بلکے یہ پورے کا پورا اردو محفل پر ہم دونوں یعنی میں اور ایم اے راجا بھائی کی کلاسسز کو مکالمے کی صورت ایک کتابجہ کی شکل دے کر نئے لکھنے والوں کی مدد کرنے کی کوشش کی ہے امید ہے آپ لوگ اس کو پسند کریں گے اپنی رائے سے نوازنے کے لیے آپ رابطہ کر سکتے ہیں۔ nawaiadab@gmail.com

دعاؤں کے طالب ایم اے راجا اور خرم شہزاد خرم

بشکریہ اردو محفل محمد وارث صاحب اور اعجاز عبید صاحب۔ ہم چار کے علاوہ اس مکالمے میں شرکت کرنے والے حضرات جناب فاتح الدین بشیر صاحب، جناب الف نظامی صاحب، جناب ابن سعید (سعود عالم صاحب) جناب م م مغل (محمد محمود مغل صاحب)، جناب نعمان صاحب، اور دیگر حضرت بھی شامل رہے ان سب کا بھی میں دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
***

 

ایم اے راجا

 

براہِ کرم اقبال کے اس شعر کی تقطیع کر دیں اور بحر کے بارے میں بتا دیں۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
شکریہ۔

محمد وارث صاحب
راجا صاحب یہ شعر بحر مُتَقارِب مثمن سالم میں ہے۔ مثمن کا مطلب آٹھ یعنی اس بحر کے ایک شعر میں آٹھ رکن اور ایک مصرعے میں چار۔ سالم کا مطلب ہے کہ اس بحر میں جو رکن ہے وہ مکمل ہے اور کہیں بھی اس میں تبدیلی نہیں کی گئی۔ اسے متقارب کیوں کہتے ہیں اسکی تفصیل چھوڑتا ہوں کہ اس وقت یہ آپ کے لیئے غیر ضروری ہوگی۔
یہ بحر ایک مفرد بحر ہے، مفرد کا مطلب ہے کہ اس بحر میں اصل میں ایک ہی رکن ہے اور اسکی بار بار تکرار ہے، یہ مثمن ہے تو مطلب ہوا کہ اس بحر کے ایک شعر میں ایک ہی رکن کی آٹھ بار تکرار ہے۔ مفرد کے مقابلے میں مرکب بحریں ہوتی ہیں تفصیل چھوڑتا ہوں۔
اس بحر کا رکن ہے ‘فعولن’ یعنی فَ عُو لُن یعنی 1 2 2 اور اس بحر میں اسی ایک رکن کی بار بار تکرار ہونی ہے۔
اس بحر کا وزن ہے
فعولن فعولن فعولن فعولن
(یہ بات نوٹ کریں کہ جب بحر کا نام لکھتے ہیں تو ایک مکمل شعر میں جتنے رکن ہوتے ہیں انکی تعداد بتائی جاتی ہے لیکن جب وزن لکھتے ہیں تو صرف ایک مصرعے کا لکھتے ہیں، یہ مثمن بحر ہے یعنی آٹھ رکن ایک شعر میں ہیں لیکن جب وزن لکھا تو صرف ایک مصرعے کا)
اب اس شعر کی تقطیع دیکھتے ہیں
سِ تا رو – فعولن یعنی 1 2 2 (یاد رکھنے کا پہلا اصول، نون غنہ کا وزن نہیں ہوتا سو اسے تقطیع میں بھی شمار نہیں کرتے، اس لیئے ستاروں کا نون غنہ تقطیع میں نہیں آ رہا اور نہ ہی اسکا کوئی وزن ہے)
سِ آ گے – فعولن 1 2 2 (یاد رکھنے کی دوسری بات، حرف علت الف، واؤ یا یے کو ضرورت شعری کے وقت وزن پورا کرنے کے لیئے لفظ سے گرا کر اور اسے اضافت یعنی زیر، زبر، پیش سے بدل کر اسکا وزن ختم کر سکتے ہیں کیونکہ اضافتوں کا بھی کوئی وزن نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ بولنے میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور فائدہ یہ کہ وزن پورا ہو جاتا ہے، یہاں ‘سے’ کو ‘سِ’ یعنی س کے نیچے زیر لگا کر سمجھا جائے گا تا کہ وزن پورا ہو)
جَ ہا او – فعولن 1 2 2 (جہاں کا نون غنہ پھر گرایا ہے، اب جب بھی کسی شعر میں جہاں اور جہان یا آسماں اور آسمان، یا کارواں اور کاروان جیسے لفظ دیکھیں تو غور کریں کہ شاعر نے جہان کو جہاں کہیں وزن پورا کرنے کے لیئے تو نہیں باندھا)
ر بی ہے – فعولن 1 2 2 (یاد رکھنے کی اگلی بات کہ دو چشمی ھ کا بھی شعر میں کوئی وزن نہیں ہوتا اس لیئے بھی کو بی سمجھتے ہیں)
اَ بی عش – فعولن 1 2 2
ق کے ام – فعولن 1 2 2
ت حا او – فعولن 1 2 2
ر بی ہے – فعولن 1 2 2
اسی بحر میں علامہ کی ایک خوبصورت غزل ہے
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
اس غزل کی تقطیع خود کرنے کی کوشش کریں اور کسی مشکل کی صورت میں ضرور بتائیں۔

خرم شہزاد خرم
وارث بھائی بہت خوب آپ نے تو کمال کر دیا یہ بات مجھے بھی فائدہ دے گی اور راجا بھائی کو بھی وارث بھائی ایک درخواست کروں گا جہاں آپ 2 اور 1 لکھ کر سمجھا رہے ہیں وہاں آپ ایک اضافہ اور کریں مطلب متحرک ، ساکن اور وتد، سبب کے بارے میں‌بھی بتاتے جائے اس طرح مجھے تو ٹھیک سمجھ آتی ہے
اور راجا بھائی آپ نے یہ سلسلہ ٹھیک شروع کیا ہے اب ہم کم از کم اساتذہ سے سوال تو کر سکیں گے میرے خیال میں جہاں تک مجھے یاد آتا ہے راجا بھائی آپ نے بھی اس بحر میں ‌ایک غزل لکھی ہے ہے نا اس کو آپ خود وزن میں کرنے کی کوشش کریں
محمد وارث صاحب
شکریہ خرم صاحب
دراصل روایتی عربی علم عروض، جو کہ پہلے فارسی اور پھر اردو میں منتقل ہوا، اس میں کچھ سقم تھے جن کو دور کرنے کے لیئے پچھلی صدی کے آخری نصف میں بہت کام ہوا، خاص طور علوم السنہ الشرقیہ کے مغربی ماہرین اور ایرانی عالموں نے اس پر بہت کام کیا اور اب ماشاءاللہ اردو میں بھی اس پر کام ہو چکا ہے۔
متحرک اور ساکن کے نظام کو سامنے رکھ کر اگر اوپر والے شعر کو دیکھیں تو بحر کا رکن ہے ‘فعولن’ یعنی فعو وتد ہے اور لُن سبب ہے (اس بحر کو متقارب بھی اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ متقارب یا تقارب قرب یا قریب سے ہے اور اس بحر میں چونکہ وتد اور سبب قریب قریب ہیں تو اسے متقارب کہا جاتا ہے)۔ اب اسکے متحرک اور ساکن نظام کا مطالعہ کرتے ہیں، متحرک کو م سے اور ساکن کو س سے ظاہر کر رہا ہوں۔
فعولن – م م س م س
فعولن – م م س م س
فعولن – م م س م س
فعولن – م م س م س
اس شعر کو دیکھتے ہیں
ستارو – م م س م س
س آگے – م م س م س (الف آ میں دو الف ہوتے ہیں، پہلا متحرک، دوسرا ساکن)
جہا او – م م س م س
ر بی ہے۔ اور یہیں میں آپ کو لانا چاہ رہا تھا، بحر کے مطابق اس ٹکڑے کا پہلا حرف متحرک ہونا چاہیئے لیکن یہاں پر ‘اور’ کی ‘ر’ آ رہی ہے جو کہ ساکن ہے تو کیا اس کا مطلب ہوا کہ شعر غلط ہو گیا۔
اسی طرح اس شعر کا دوسرا مصرع
ابی عش – م م س م س
ق کے ام – پھر دیکھیئے کہ یہاں بھی متحرک چاہیئے لیکن عشق کی ق تو ساکن ہے۔
سو کیا کریں، چلیں یہ کرتے ہیں کہ متحرک اور ساکن کی تعریف دیکھتے ہیں۔ متحرک وہ حرف ہے جو کسی اضافت کے ساتھ مل کر متحرک ہے اور ساکن وہ ہے جس پر کوئی اضافت نہیں ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن اوپر والے مسئلے کو حل کرنے کے لیئے علم عروض کے ماہرین نے ساکن حرف کی تعریف ہی بدل دی، انہوں نے کہا کہ ساکن صرف اور صرف وہ حرف ہے جو کسی متحرک حرف کے ساتھ ملا ہو اور جو حرف کسی متحرک حرف کے ساتھ نہ ملا ہو وہ ساکن نہیں ہے چاہے وہ بظاہر ساکن ہی نظر آتا ہے، مثلاً
جان – اس میں جیم متحرک ہے اور الف اور نون دونوں ساکن ہیں لیکن ضرورتِ شعری کے وقت آخری نون چونکہ ساکن الف کے ساتھ ہے تو اس کو متحرک مان لیا جاتا ہے۔
اسی طرح عشق میں اوپر والے مصرعے میں ق جو کہ ساکن شین کے ساتھ ملا ہوا ہے اسکو متحرک مان لیا گیا ہے۔
یہ انتہائی پیچیدہ اور کنفیوزنگ صورتحال ہے (اور یہ صرف ایک ہے، روایتی علم عروض میں زحافات اور اراکین میں اتنے زیادہ پیچیدگیاں ہیں کہ یہ علم چیستان بن گیا ہے)۔
اب اس کو نئے نظام کے ساتھ دیکھتے ہیں جس میں متحرک اور ساکن کا کوئی وجود نہیں ہے بلکہ ہجائے کوتاہ اور ہجائے بلند یعنی جیسے عشق میں دو ہجے ہیں عش اور ق، اسیطرح ‘اور’ میں دو ہجے ہیں او اور ر، اسی طرح دل میں صرف ایک ہجا ہے، سبب میں دو ہجے ہیں س اور بب، محمد میں تین ہجے ہیں م حم مد، سخنور میں تین ہجے ہیں س خن ور۔
اب ہجائے کوتاہ (چھوٹی آواز) کو 1 فرض کر لیں اور ہجائے بلند (بڑی آواز) کو 2 تو اب دیکھتے ہیں۔
عشق – عش ق – 2 1
اور – او ر – 2 1
محمد – م حم مد – 1 2 2
سبب – س بب – 1 2
فعولن – ف عو لن – 1 2 2
اس نظام سے روایتی عروض کے تقریباً تقریباً تمام مسئلے حل ہو گئے ہیں اور یہ یاد رکھنے میں بھی آسان ہے۔
بہرحال اپنی اپنی پسند کی بات ہے، لیکن یقین مانیں جن دنوں میں عروض کو سیکھنے کی کوشش کر رہا تھا تو ان پیچیدگیوں نے وہ تنگ کیا کہ بس، خیر کشتی اپنی جب کنارے آ لگی غالب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راجا بھائی
وارث صاحب بہت بہت شکریہ امید ہے کہ آپکی نوازشیں ہم پر جاری رہیں گی، میں نے ایک غزل اسی زمین میں لکھی تھی تقطیع کرنے کی کوشش کرتا ہوں پھر آپ ناقدانہ نظر کے پیش لاؤں گا۔
وارث بھائی ذرا دیکھیں یہ تقطیع درست ہے کیا ؟
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
21 2 221 221 221
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
221 221 221 221
وارث بھائی اسے ذرا ملاحظہ فرمائیں۔
محمد وارث صاحب
بالکل صحیح ہے، بہت خوب۔
دو باتیں، اس شعر میں ‘ترے’ اور ‘مری’ نوٹ کریں، یہ اگر ‘تیرے’ اور ‘میری’ ہوتا یعنی ی کے ساتھ تو وزن بگڑ جاتا لہذا شاعر نے قصداً ‘ترے’ اور ‘مری’ استعمال کیا ہے، شعر پڑھتے وقت (اور کہتے وقت بھی ) اس صورتحال پر نظر رکھیں کہ شاعر بعض جگہ تیرے، میرے، تیری، میری لکھتے ہیں اور بعض جگہ ترے، مرے، تری، مری وغیرہ۔ یہ چیز رکن اور بحر کو پہچاننے میں مدد دے گی۔
کسی شعر کی تقطیع کے جزو لکھتے وقت روایت یہ ہے کہ اسے عروضی متن میں لکھا جاتا ہے نا کہ شعر کی املا کے مطابق، مثلاً آپ نے بعینہ شعر ہی لکھ دیا تقطیع لکھتے وقت لیکن اسکا عروضی متن یہ ہے۔
ترے عش، ق کی ان، تہا چا، ہتا ہو
مری سا، د گی دی، ک کا چا، ہتا ہو
فائدہ اس کا یہ ہے کہ کانسپٹس کلیئر ہوتے ہیں، مثلاً میں نے جو عروضی متن لکھا ہے اس میں غور کریں کہ دوسرے مصرعے میں ‘کیا’ کو ‘کا’ کیوں لکھا ہے۔
آخری بات، اس بحر پر آپ کی گرفت مضبوط ہو رہی ہے ماشاءاللہ۔ دیوانِ غالب کھولیں، اس میں ردیف ‘نون’ والی غزلوں میں ایک غزل اسی بحر میں ہے، اس کو تلاش کریں اور مطلع کریں۔
ایم اے راجا
وارث بھائی بہت شکریہ، میں آج بہت خوش ہوں، اور آپ کے کہنے کے مطابق عمل کروں گا۔
وارث بھائی ذرا اس شعر کو تو دیکھیئے۔
ابھی تو باقی، اک جہاں اور بھی ہے
ابھی تو راہوں کی تھکاں اور بھی ہے
میں نے اقبال(رح) کی زمین میں بحرِ متقارب مثمن سالم میں لکھنے کی کوشش کی ہے۔
اس شعر کے دونوں مصرعوں میں الف کو زبر کی اضافت دیکر گرایا ہے، جواب کا منتظر رہوں گا، شکریہ۔
دیوانِ غالب میں ن ردیف والی غزل دیکھوں یا کہ ن قافیہ والی غزل دیکھوں؟
دیوانِ غالب میں اس بحر میں موجود غزل کی سمجھ نہیں آئی برائے کرم کچھ رہنمائی فرما دیں۔ شکریہ۔
محمد وارث صاحب
راجا صاحب پہلے دوسری بات کا جواب، مروجہ دیوانِ غالب میں غزلیں ردیف کی الفبائی ترتیب سے ہی لکھی جاتی ہیں، لہذا مذکورہ غزل ن ردیف میں ہی ہے اور کیا خوبصورت غزل ہے
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں
واہ واہ واہ سبحان اللہ۔
دو کام کریں، ایک تو یہ کہ غالب کی اس غزل کے اشعار عروضی متن میں لکھیں، جیسا کہ میں نے پچھلی پوسٹ میں لکھا تھا۔
دوسرا یہ کہ آپ نے جو اوپر اپنا شعر لکھا ہے اس میں جس طرح آپ نے ‘باقی’ اور ‘راہوں’ کا الف گرایا ہے وہ غلط ہے، الف کو اسطرح الفاظ کے درمیان میں سے نہیں گرا سکتے۔ لہذا یہ کریں کہ اوپر والے شعر میں بھی غالب نے ایک جگہ الف کو گرایا ہے اسکی نشاندہی کریں اور پھر اسکا اپنے شعر میں الف کے گرانے سے موازنہ کریں اور دیکھیں کہ آپ نے کیا غلطی کی ہے۔ اور غلطی درست کر کے شعر دوبارہ کہیں۔
اگلی بات یا تیسرا کام ۔
بات: آپ ابھی تک الفاظ کو گرا کر وزن پورا کر رہے تھے، اب اضافتوں کو کھینچ کر اور خاص طور پر زیر کو کھینچ کر وزن پورا کرنا دیکھیں (گرانے کے عمل کو ‘اخفا’ کہتے ہیں اور کھینچنے کے عمل کو ‘اشباع’)
غالب نے اپنے شعر میں ‘نقشِ’ جو کہ 2 1 ہے کی اضافت زیر کو کھینچ کر ‘نقشے’ باندھا ہے جو کہ 2 2 ہے اور بحر میں اس مقام پر 22 ہی سے وزن پورا ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بولنے میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور فائدہ یہ ہے کہ وزن پورا ہو جاتا ہے۔
کام: اسی غزل کے مقطعے میں غالب نے پھر اشباع کا عمل دہرایا ہے اسکی نشاندہی کریں۔
ایم اے راجا
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں
ج ہا تے رَ نق شے ق دم دے ک تے ہے
خ یا با خ یا با ا رم دے ک تے ہے
غالب نے ” تیرا ” کا الف گرا کر ” ر ” پر ” زبر ” کی اضافت ( اشباع ) کر کے وزن پورا کیا ہے، کیا میری تقطیع درست ہے؟
تیرا میں الف لفظ کے آخر میں ہے جبکہ جو الف میں نے گرائے ہیں وہ الفاظ کے درمیاں میں تھے، شاید یہی میری غلطی ہے ؟
محمد وارث صاحب
بالکل صحیح ہے، لا جواب، خوشی اس بات کی ہوئی کہ آپ غور کر رہے ہیں، آپ کا یہ پیغام آپ کے ایڈٹ کرنے سے پہلے میں دیکھ چکا تھا لیکن اب آپ نے بالکل صحیح کہا اور اپنی غلطی کی نشاندہی بھی صحیح کی۔ یہ گرانے کا عمل ‘اخفا’ ہے۔
ایم اے راجا
کیا ہم نہایت ضرورت کے وقت بھی درمیان میں سے لفظ نہیں گرا سکتے ؟
محمد وارث صاحب
نہیں گرا سکتے، ماسوائے ‘اور’ کے جو 2 1 ہے لیکن اسے ‘ار’ بنا کر 2 بنا لیتے ہیں۔
ایم اے راجا
کیا ہم بوقتِ ضرورت واولز کے علاوہ بھی کسی لفظ کو گرا سکتے ہیں ؟
محمد وارث صاحب
نوٹ کریں کہ اخفا کا عمل کیوں کرتے ہیں، ظاہر ہے وزن پورا کرنے لیکن یاد رہے کہ حروفِ علت کے گرانے سے صوت اور تلفظ پر کوئی فرق نہیں پڑتا یعنی تیرا کا الف گرا بھی دیں بھی تو تیرَ ہوگا جو تیرا ہی پڑھا جائے گا، عروض میں صوت کا بہت عمل دخل ہے۔ یعنی اخفا میں ایک بڑھے حرفِ علت (الف، و، ی) کو چھوٹے حرفِ علت (زیر، زبر، پیش) سے بدل لیتے ہیں۔ اسی طرح اسکا الٹ عمل اشباع ہے۔ اب کسی حرف صحیح consonant کو گرا کر دیکھیں، مثلاً ساگر کی آخری ‘ر’ گرا دیں، اسکے بعد جو لفظ باقی رہے گا وہ دریا کو کھیت میں بند کر دے گا ، کیا سے کیا ہو گیا، سو غلط ہے بلکہ ناجائز ہے۔
ایم اے راجا
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
حضرت غالب نے اس غزل کے مقطع کے آخری مصرعہ میں اہلِ کو اہلے ( ے ) کی اضافت کے ساتھ تقطیع کر کے اشباع سے کام لیا ہے، کیا میں درست ہوں؟
محمد وارث صاحب
ماشاءاللہ، بہت خوب، مجھے بھی خوشی ہو رہی ہے یہ سب دیکھ کر، بالکل صحیح لکھا آپ نے۔ مشق کے لیئے اب خود ہی اس غزل کے تمام اشعار کی تقطیع کرتے رہیں۔
آپ نے غالب کو حضرت لکھا میرے آنکھوں میں ٹھنڈک اتر آئی۔
اور اب آپ اس قابل بھی ہو گئے ہیں ماشاءاللہ کہ اس بحر میں ایک خوبصورت غزل کہہ سکیں۔
ایم اے راجا
وارث بھائی میں نے بہت کچھ لکھا ہے جو مجھے بھی اور ایسے شاعر جو کہ عرض کو پسند نہیں کرتے انھیں بھی بہت اچھا لگا لیکن میں عروض کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا جب جاننے نکلا تو یہ راہ ناقابلِ سفر معلوم ہوئی بہت کوشش کی لیکن کبھی سمجھ نہ آئی، اور میں نے بے بحر شاعری کو ترقی کرنا چاہا مگر خرم میری ہمت بڑھاتا رہا اور مجھ اس سائیٹ پر لایا، میں حیران ہوں کہ آپ کے ایک پیغام سے میں اتنا کیسے سمجھ گیا، اور اس بحر کو اتنا سمجھ گیا، میں بہت خوش ہوں، میں آپ سے بہت دور ہوں لیکن یہ دنیا اب گلوبل ولیج بن چکی ہے، آپ پہلے شخص ہیں جن کی محنت سے میں آج اس بحر کو اور عروض کو تھوڑا سا سمجھ سکا ہوں، کیا میں آپ کو اپنا استاد بنا سکتا ہوں اور آپ کو اس سلسلے میں تنگ کر سکتا ہوں؟ اگر آپ میرے استاد بن جائیں تو مجھے بے حد خوشی ہو گی۔ شکریہ۔
محمد وارث صاحب
راجا صاحب بہت شکریہ آپ کا، لیکن یقین مانیں اور یہ بات میں بغیر کسی کسرِ نفسی کے کہہ رہا ہوں کہ میں استاد بننے کے قابل نہیں ہوں۔ میں خود ابھی اس علم کا ایک طالب علم ہوں (اور عروض تو فقط ایک بنیاد ہے شاعری کی، ورنہ فنِ شعر و شاعری تو بحرِ بیکراں ہے)۔
تنگ کرنے کا کیا ہے صاحب، حاضر ہوں، یہ ہماری محفل ہے ہی اتنی پیاری کے سب یہاں پر دوستوں کی طرح رہتے ہیں۔ آپ کو کوئی معلومات درکار ہوں یا کچھ بھی ہو، یہاں پوسٹ کرتے رہیں میں اپنی بساط کے مطابق عرض کرتا رہوں گا۔
خرم شہزاد خرم
السلام علیکم کچھ دن میں یہاں نہیں‌آ سکا آج آیا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں ساگر بھائی تو کمال کر رہے ہیں اور وارث بھائی آپ کا بہت شکریہ جو آپ ہم دونوں کو اتنی توجہ سے سمجھا رہیں ہیں سر میں نے بھی ایک غزل حضرت غالب صاحب کی زمین میں لکھی تھی بہت پہلے اسی بحر میں وہ بھی میں یہاں ارسال کرتا ہوں
غزل
نہیں دیکھتے وہ جو ہم دیکھتے ہیں
ہے کس پر نگاہِ کرم دیکھتے ہیں
عقیدت سے تم کو یوں دیکھا ہے ہم نے
کہ جیسے مسلماں حرم دیکھتے ہیں
خیالوں میں دیکھا تجھے ہم نے ایسے
حقیقت میں جیسے ارم دیکھتے ہیں
خوشی سب کے چہرے پہ ہر دم سجا کر
ہم اپنی نگاہوں کو نم دیکھتے ہیں
عجب کر رہے ہیں دوانے یہ دیدار
نگہ بند کر کے صنم دیکھتے ہیں

اصلاح اور رائے
محمد وارث صاحب
نہیں دیکھتے وہ جو ہم دیکھتے ہیں
ہے کس پر نگاہِ کرم دیکھتے ہیں
عقیدت سے تم کو یوں دیکھا ہے ہم نے
کہ جیسے مسلماں حرم دیکھتے ہیں
خیالوں میں دیکھا تجھے ہم نے ایسے
حقیقت میں جیسے ارم دیکھتے ہیں
خوشی سب کے چہرے پہ ہر دم سجا کر
ہم اپنی نگاہوں کو نم دیکھتے ہیں
عجب کر رہے ہیں دوانے یہ دیدار
نگہ بند کر کے صنم دیکھتے ہیں
اچھی غزل ہے اور وزن میں ہے۔ بہت خوب۔
اور جن اشعار میں جو الفاظ میں نے سرخ کیے ہیں انکو نوٹ کریں اور بیان کریں / تشریح کریں کہ یہاں پر وزن کیسے پورا کیا گیا ہے۔ یہ کوئی امتحانوں والا سوال نہیں ہے محترم اور نہ ہی اس کے کوئی نمبر ہیں ، لیکن اگر ایک بار یہاں کانسپٹ کلیئر ہو گیا تو ساری زندگی یہ چیز نہیں بھولے گی اور یہ چیزیں آگے سبھی بحور میں کام آئیں گی۔
خرم شہزاد خرم کا جواب
جی بہت شکریہ سر جی بہت شکریہ
جی مجھے جہاں تک سمجھ آ رہی ہے اس کے مطابق میں آپ کو جواب دیتا ہوں
فعولن
خشی سب ،
یہاں ’’و‘‘ کو ہٹا دیا گیا ہے مطلب ’’و’’ پڑھا نہیں‌جائے گا آپ نے ہی میری ایک غزل جس کا ردیف ”خواب“ تھا اس کی اصلاح میں آپ نے فرمایا تھا کے جہاں ”خ“ کے بعد ”و“ آئے گی تو ”و“ تقطیع میں ’’و‘‘نہیں لکھی جائے گی کیوں کے یہ پڑھنے میں نہیں آتی ہے اس طرح
خواب ، خوشی ، خواہش ،خود وغیرہ وغیرہ میں ”و“ نہیں پڑھا جائے گا
کیا میں نے اپنا سبق ٹھیک لکھا ہے
اس کے بعد
فعولن
ہمپ نی
یہاں ”اپنی“ کے الف کو گرا دیا گیا ہے ”ہم اپنی“ میں ہم سبب ہے اس کو ہم نے وتد بنایا ہے کیوں کہ یہاں وتد کی ضرورت تھی اس لے اپنی کا الف گرا کر ہمپ نی کر دیا ہے میرے مطابق یہ ٹھیک ہو گیا ہے باقی آپ کی اصلاح
فعولن
یدی دار
میں نے پڑھا تھا کہ اس بحر میں اگر ایک اضافی رکن ہو جائے تو وہ وزن میں ہی ہو گا کیوں کے ایک رکن کی اجازت ہے
کیا میں نے ٹھیک سبق لکھا ہے مہربانی فرما کر اصلاح کرتے رہیں شکریہ
اعجاز عبید صاحب
مبارک ہو خرم۔ یہ غزل واقعی مکمل وزن میں ہے۔ وارث اچھے استاد ثابت ہوئے ہیں۔ اب ان کا یہ نیا رتبہ پکا۔!!! محفل میں ہر رکن کی اصلاح اسی طرح کریں کہ غزل کہنا آ جائے سب کو۔
اور یہ پھر لکھتا ہوں کہ اگر عروض کسی کے بس میں نہ آ رہا ہو تو غزلوں سے اجتناب کریں، نثری نظمیں ہی لکھتے رہیں۔ ان کو بھی قبول تو کیا ہی جاتا ہے، اگرچہ ہم جیسے کچھ ثقہ لوگ ان کو سونگھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ہماری مجبوری ہے شاید۔۔
خرم شہزاد خرم کے اس جواب پر
جہاں ”خ“ کے بعد ”و“ آئے گی تو ”و“ تقطیع میں ”و“ نہیں لکھی جائے گی کیوں کے یہ پڑھنے میں نہیں آتی ہے اس طرح
خواب ، خوشی ، خواہش ،خود وغیرہ وغیرہ میں ”و“ نہیں پڑھا جائے گا
فاتح صاحب کا سوال
اگر یہی کلیہ ہے تو خون، خونی، خول، خوشہ اور خوراک وغیرہ کے متعلق کیا خیال ہے؟
خرم کے جواب پر وارث صاحب کا تفصیلی جواب
فعولن
خشی سب ،
یہاں ’’و‘‘ کو ہٹا دیا گیا ہے مطلب ’’و’’ پڑھا نہیں‌جائے گا آپ نے ہی میری ایک غزل جی کا ردیف ”خواب“ تھا اس کی اصلاح میں آپ نے فرمایا تھا کے جہاں ”خ“ کے بعد ”و“ آئے گی تو ”و“ تقطیع میں ”و“ نہیں لکھی جائے گی کیوں کے یہ پڑھنے میں نہیں آتی ہے اس طرح
خواب ، خوشی ، خواہش ،خود وغیرہ وغیرہ میں ”و“ نہیں پڑھا جائے گا
خرم شہزاد خرم
کیا میں نے اپنا سبق ٹھیک لکھا ہے
محمد وارث صاحب
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہاں واؤ معدولہ ہے، یہ وہ واؤ ہوتی ہے جس کی بولنے میں بالکل بھی آواز نہیں ہوتی، اور یہ فارسی الفاظ میں ہوتی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ سبھی ایسے فارسی الفاظ جن میں خ کے بعد واؤ ہوتی ہے ان میں واؤ معدولہ نہیں ہوتی (فاتح صاحب کی پوسٹ پر غور کریں)۔ مشہور الفاظ جن میں واؤ معدولہ ہے اور جو بولنے میں نہیں آتی اور نہ ہی جس کا کوئی عروضی وزن ہے وہ خود، خوش، خواہش، خواب، خویش، خوشامد، خورد وغیرہ۔

خرم
اس کے بعد
فعولن
ہمپ نی
یہاں ”اپنی“ کے الف کو گرا دیا گیا ہے ”ہم اپنی“ میں ہم سبب ہے اس کو ہم نے وتد بنایا ہے کیوں کہ یہاں وتد کی ضرورت تھی اس لے اپنی کا الف گرا کر ہمپ نی کر دیا ہے میرے مطابق یہ ٹھیک ہو گیا ہے باقی آپ کی اصلاح
محمد وارث صاحب
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ عملِ اخفا (گرانے کا عمل) ہمیشہ الفاظ کے آخر میں ہوتا ہے، شروع یا درمیان میں نہیں۔ تو؟
یہاں پر الفِ وصل کا استعمال ہوا ہے (اسے یاد رکھیں)، یہ اسطرح سے ہوتا ہے کہ اگر کوئی لفظ حرفِ صحیح consonant پر ختم ہو رہا ہے اور اگلا لفظ الف یا آ سے شروع ہو رہا ہے تو اگلے لفظ کے الف کو ساقط کر کے پچھلے لفظ کا آخری حرف اگلے لفظ کے الف ساقط کرنے کے بعد جو بچتا ہے اسکے ساتھ وصال کر دیتے ہیں، جیسے
ہم اپنی میں میم حرفِ صحیح ہے (حرفِ علت نہیں ہے) تو میم کو ‘اپنی’ کا الف ساقط کر کے پ کے ساتھ وصال کرایا، اور بن گیا ہَ مپ نی۔ وجہ یہ ہے کہ بولنے میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور فائدہ یہ کہ وزن پورا ہو جاتا ہے (یہ جملہ میرا خیال ہے کافی بار پہلے بھی لکھ چکا ہوں)۔
خرم
فعولن
یدی دار
میں نے پڑھا تھا کے اس بحر میں اگر ایک اضافی رکن ہو جائے تو وہ وزن میں ہی ہو گا کیوں کہ ایک رکن کی اجازت ہے
کیا میں نے ٹھیک سبق لکھا ہے مہربانی فرما کر اصلاح کرتے رہیں شکریہ
محمد وارث صاحب
باندھا آپ نے صحیح ہے، وضاحت کے لیئے نوٹ کریں کہ اسے عملِ تسبیغ کہتے ہیں۔ اور اسکے بعد جو وزن بنتا ہے اسکو مسبغ وزن کہتے ہیں۔ کرتے اس میں یہ ہیں کہ آخری رکن کے آخری حرف سے پہلے ایک الف کا اضافہ کر دیتے ہیں۔
جیسے اس بحر میں آخری رکن فعولن ہے، اسکے آخری حرف ‘ن’ سے پہلے ایک الف کا اضافہ کریں تو یہ ہوگا فعولان، اور یہی مسبغ وزن ہے یعنی اس بحر کا اب وزن ہوگا فعولن فعولن فعولن فعولان اور آپ کے مصرعے کا بھی یہی وزن ہوگا۔ آسانی سے یاد رکھنے کیلئے یہ کہہ لیں کہ آخری رکن میں ایک ہجائے کوتاہ 1 کا اضافہ کر لیں۔
عملِ تسبیغ کی عموماً بہت ساری بحروں میں اجازت ہے (کچھ میں نہیں بھی ہے) اور یہ عموماً جگہ جگہ استعمال ہوتا ہے۔
خرم شہزاد خرم
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن الفاظ میں‌ واؤ ہوتی ہے لیکن وہ پڑھنے میں نہیں‌ آتی صرف وہی واؤ تقطیع میں لکھی نہیں جائے گی اور وزن میں بھی نہیں‌آئے گی اس کے علاوہ جو الفاظ فاتح صاحب نے بتائے ہیں وہ تقطیع میں لکھے جائے گے اور وزن میں بھی آئے گے مطلب واؤ معدولہ وزن سے خارج ہوتی ہے لیکن اس کے علاوہ دوسرے واؤ وزن میں استعمال ہوتی ہے
شکریہ
اچھا اس کے علاوہ کون کون سے الفاظ ہیں جن کے شروع سے حرف کو گرا کر پچھلے لفظ سے ملایا جا سکتا ہے
بہت خوب بہت بہتر اچھا یہ بتائیں ایک غزل میں‌ کتنی بار عملِ تسبیغ کرنے کی اجازت ہے مطلب صرف ایک ہی مصرعے میں کر سکتے ہیں‌یا ایک سے زیادہ پر بھی ؟؟
اس بارے میں‌تو ساتھ ساتھ پتہ چلتا جائے گا اب میں‌کوشش کرتا ہوں اس بحر میں ‌ایک غزل اور لکھوں اور اس کو پھر یہاں‌ پیش کروں بلکہ ساگر بھائی سے بھی یہی کہتاہوں‌کہ وہ بھی اسی بحر میں‌ایک غزل لکھے اور اس کے یہاں بیان کرے تقطیع کے ساتھ پھر ملتے ہیں نئی غزل کے ساتھ کیا یہ طریقہ ٹھیک رہے گا وارث صاحب یا حضرت غالب صاحب اور حضرت اقبال صاحب کی زمین پر ہی لکھے
محمد وارث صاحب
درست سمجھا اور کہا آپ نے۔
ایک درخواست یہ کہ الفِ وصل کے ساقط کرنے کو ‘گرانا’ کہنا چھوڑ دیں،’گرانا’ اخفا سے متعلق ہے یہ ساقط کرنا ہے اور وہ بھی ایک مخصوص ‘الف’ کا، فرق آپ بخوبی سمجھتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ یہ الفاظ کی فہرست نہیں ہے بلکہ ایک فارمولا یا کلیہ ہے جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے، کچھ مثالیں دیکھتے ہیں:
‘اگر اُس’ کا وزن فَعُولُن یعنی 1 2 2 ہے لیکن اگر اس میں الف وصل کو ساقط کریں تو یہ لفظ ‘ اَ گَ رُس’ بن جائے گا جس کا وزن فَعِلن یا 1 1 2 ہوگا، اب یہ شاعر کی مرضی ہے کہ ‘اگر اس’ کو فعولن سمجھے یا فعلن، کوئی اس پر معترض نہیں ہوگا۔
اسی طرح ‘ہم آخر’ یا مفعولن 2 2 2 کو ‘ہَ ما خر’ یا فعولن 1 2 2 بنا لیں۔
‘خرم اب آسانی سے اس آسان عروضی انداز کو سمجھ رہے ہیں’ اس جملے میں جہاں جہاں بھی الف وصل کو ساقط کیا جا سکتا ہے اسکی نشاندہی کریں۔ اور جہاں جہاں نہیں کر سکتے اسکی بھی۔
شاعر کی صوابدید ہے، پوری غزل میں کرے، یا کسی مصرعے میں بھی نہ کرے یا کسی میں کرے یا نہ کرے، یہ اسکی اپنی مرضی ہے۔ لیکن مصرعوں میں ایک جگہ ایسی ہے کہ اگر وہاں اس نے مسبغ وزن باندھ لیا تو بعد میں کچھ اور مصرعوں میں عملِ تسبیغ نا گزیر ہو جائے گا، سوچیئے اور بتائیے۔
مسبغ وزن کسی بھی مصرعے کے آخر میں جائز ہے درمیان میں نہیں، لیکن مقطع بحروں (جسکے ایک مصرعے کی بخوبی دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہو سکے، تفصیل بعد میں) کے درمیان بھی یہ عمل جائز ہے۔
آپ کی مرضی ہے اور ساگر صاحب لگتا ہے آج کل متقارب کے قریب ہونے کی کوششوں میں ہیں۔
آخری بات (آج کی) یہ کہ اقبال کو تو ساری دنیا رحمۃ اللہ علیہ کہتی ہے، محترم اگر آپ صرف غالب کو ہی حضرت کہتے رہیں تو خاکسار زیرِ بارِ احسان ہے۔
ایم اے راجا بھائی
وارث بھائی، کیا ہم بحرِ متقارب یا کسی اور بحر میں ایک رکن یا ایک لفظ کا اضافہ کر سکتے ہیں، پہلے رکن میں درمیان میں یا آخر میں، جیسے فعولن فعولن فعولن فعولن، فعلان فعولن فعولن فعولن، یا فعولن فعولن فعولن نعلان، یا فعولن فعولن فعلان فعولن، یا فعولن فعلان فعولن فعولن، اس طرح اضافہ کر سکتے ہیں؟
کیا مندرجہ ذیل شعر بحر مقتجب کے مطابق درست ہے ؟
کب تک تیرے بس میں رہوں
غم کی دسترس میں رہوں
طالبِ جواب۔ شکریہ۔
اعجاز عبید صاحب
مسبغ وزن کسی بھی مصرعے کے آخر میں جائز ہے درمیان میں نہیں، لیکن مقطع بحروں (جسکے ایک مصرعے کی بخوبی دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہو سکے، تفصیل بعد میں) کے درمیان بھی یہ عمل جائز ہے۔
اس رو سے دوسرا مصرعہ بحر میں درست نہیں۔ یہ اجازت محض آخری رکن میں ہو سکتی ہے اور وہ بھی سبب اور وتد کا لحاظ رکھتے ہوئے، یعنی فعولن والی بحر میں آخر میں فعو محض یا فعول تو ممکن ہے، لیکن فعول کی طرح چار حرفی فعلن نہیں۔ کہ فعلن 22 ہے، فعول 121 ہے۔
اور تمہارا شعر تو یوں بھی فعلن فعلن میں ہے۔ اس میں فعلن فعلن کی بجائے فعل فعولن کی اجازت ہے، لیکن دسترس والا مصرعہ تو فٹ نہیں ہوتا۔
خرم شہزاد خرم
سر تو پھر اس مصرعے کو کسے فٹ کریں گے ؟؟
اعجاز عبید صاحب
خرم۔اور راجا بھی۔۔۔۔۔
افسوس کہ لفظ ’دسترس‘ کسی طرح اس بحر میں فٹ نہیں ہوتا۔ دسترس بر وزن فاعلن ہے، جو نہ فعلن فعلن میں کہیں گھس سکتا ہے اور نہ فعل فعولن میں، یہی دو ارکان ممکن ہیں اس بحر میں۔
وارث کہاں ہو، یار مجھ سے عروض کم ہی جھیلی جاتی ہے۔ جو کچھ کہتا ہوں میں، محض یاد داشت سے یا اپنے ’بلٹ ان کامن سینس‘ سے۔
محمد وارث صاحب
کر سکتے ہیں لیکن اسطرح نہیں جس طرح آپ نے لکھا ہے۔ اس کام کے لیئے عروض میں مہارتِ تامہ چاہیئے۔ مختصراً، یہ زخافات کا عمل ہے اور انتہائی پیچیدہ و طویل ہے۔ مثلاً
ہم بحر متقارب مثمن سالم پر بحث کر رہے ہیں، اور صرف اس بحر کی انیس ذیلی شکلیں یا بحریں ‘بحر الفصاحت’ میں مولوی نجم الغنی رامپوری نے بیان کی ہیں، اسطرح زحافات کے عمل سے سینکڑوں بحریں بنتی ہیں اور ہزاروں بنائی جا سکتی ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ عملی طور پر اردو کی دو تین سو سالہ شاعری میں، ایک مطالعہ کے مطابق، فقط 37 بحریں استعمال ہوئی ہیں یا ہوتی ہیں۔ اسی طرح غالب کے دیوان میں تقریباً 19 بحریں استعمال ہوئی ہیں۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جب ہم کسی زحاف کا عمل کرتے ہیں جس سے رکن کی شکل بدل جاتی ہے تو وہ ایک "نیا” وزن اور "نئی” بحر بن جاتی ہے۔ مثلاً اگر متقارب سالم کے آخری رکن میں تسبیغ زحاف کا عمل کریں تو وہ وزن "فعولن فعولن فعولن فعولان” ایک نیا وزن ہوگا اور ایک نئی بحر بن جائے گی جس کا نام "بحر متقارب مثمن مسبغ” ہے۔
اسی طرح اس بحر میں ایک زحاف استعمال ہوتا ہے "ثَلم” (ثَل، م) اس میں یہ ہوتا ہے کہ "فعولن” میں سے پہلا حرف یعنی "ف” گرا دیتے ہیں اور باقی "عولن” 2 2 بچتا ہے جس کو "فعلن” 2 2 سے بدل لیتے ہیں اور وزن ہو جاتا ہے "فعلن فعلن فعلن فعلن” اور اس بحر کا نام بحر متقارب مثمن اثلم ہے۔
یاد رکھنے کی دوسری بات یہ ہے کہ ایک وزن کو دوسرے وزن کے ساتھ استعمال نہیں کر سکتے اور جہاں کر سکتے ہیں وہاں اس کی اجازت دی گئی ہے اور پہلے سے ہی بتا دیا گیا ہے اپنی مرضی سے نہیں کر سکتے مثلاً
بحر متقارب مثمن سالم – فعولن فعولن فعولن فعولن
کے ساتھ
بحر متقارب مثمن مسبغ – فعولن فعولن فعولن فعولان
کو تو اکٹھا کر سکتے ہیں اور ایک غزل میں اپنی مرضی جہاں چاہیں دونوں وزن لا سکتے ہیں لیکن
بحر متقارب مثمن اثلم – فعلن فعلن فعلن فعلن
کو سالم کے ساتھ نہیں باندھ سکتے اور اگر ایک مصرع "ثالم” میں اور دوسرا "اثلم” میں باندھیں گے تو یہ غلط ہوگا۔
اسی طرح ہر بحر کے وزن کے ساتھ جس وزن کو اکھٹا کیا جا سکتا ہے اسکے لیئے انتہائی زیادہ مطالعے اور مشق کی ضرورت ہے۔ میں نے ایک مضمون لکھا تھا "بحر خفیف” پر (یہ بحر مجھے بہت پسند ہے) اور اس بحر میں جن جن اوزان کو اکھٹا کیا جا سکتا ہے ان پر بھی بحث کی ہے اور مشہور شعرا کی اس بحر میں کہی ہوئی غزلیات بھی جمع کرنے کی کوشش کی ہے، ربط دیکھیئے گا:
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=9642
ایک مشورہ آپ کے لیئے یہ کہ ابھی زحافات کی فکر میں مت پڑیں بلکہ ایک ایک بحر کو دیکھیں اس پر مہارت ہو جائے تو اگلی بحر کی طرف جائیں۔
میرے ناقص علم کے مطابق یہ شعر بحر متقارب کے کسی بھی وزن (سالم یا مزاحف، مثمن یا مسدس) میں نہیں ہے لیکن لایا جا سکتا ہے، میرا مشورہ یہ ہے کہ اسے بحر متقارب مثمن سالم میں لانے کی کوشش کریں جس پر ہم بحث کر رہے ہیں۔
ایم اے راجا
اس شور کے آخر میں رہوں کا ن غنہ تو ویسے ہی گر جائے گا کیا ہم اسکا ہ بھی گر سکتے ہیں یعنی اسے ہم رہو کے بجائے رو یا رہُ یعنی ہ پر پیش لگا کر وزن پورا کر سکتے ہیں، اگر پہلے مصرعہ کی تقطیع یو کی جائے تو کیا درست ہو گی۔
کب تک مے تے رے بس مے رو یا رہُ
2 2 2 2 2 2 2 2 ، 2
اب مصرعہ اس طرح ہے –
کب تک میں تیرے بس میں رہوں
یعنی ایک میں کا اضافہ کیا ہے۔
اعجاز عبید صاحب
راجا۔ پہلا مصرعہ تو یوں بھی بحر میں درست ہی تھا، میں کے اضافے کی ضرورت نہیں تھی۔
کب تک۔ فعلن
تیرے۔ فعلن
بس مِر۔ فعلن
ہوں۔ فعل
یعنی یہاں بس میں کے میں کا ی اور ں گر رہا ہے، جو جائز ہے
دوسرے متبادل مصرعے میں میں کے اضافے کے ساتھ تقطیع یوں ہوگی:
کب تک
مترے
بس مر
ہوں
یعنی یہاں مکمل ’تیرے‘ نہیں ’ترے‘ کرنا پڑے گا۔
مسئلہ کر رہا ہے دوسرا مصرعہ۔ جس میں دسترس۔ فاعلن ہے، جو فعلن میں فٹ نہیں ہوتا۔ ’دس تا رس‘ ہوتا تو بات بن سکتی تھی۔ میں نے بھی اور وارث نے بھی اس دوسرے مصرعے کا لکھا تھا۔ معلوم نہیں وارث اس سلسلے میں کیا مشورہ ذہن میں رکھتے ہیں۔
ایم اے راجا
بہت شکریہ الف عین صاحب۔
لیکن اس تقطیع میں ہوں کی نون غنہ کو بطور وزن لیا جا رہا ہے، کیا ہم بوقتِ ضرورت نون غنہ کا وزن بھی شامل کر سکتے ہیں جبکہ میری ناقص معلومات کے مطابق نون غنہ کا وزن جائز نہیں۔
کب تک تیرے بس میں رہوں
میں غم کے اس رس میں رہوں
اگر یہ درست ہے تو برائے کرم مندرجہ بالا شعر طالبِ توجہ ہے۔
وارث صاحب آپ بھی برائے کرم توجہ فرمائیے گا۔ شکریہ۔
محمد وارث صاحب
ساگر صاحب میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ اس شعر کو بجائے بحر متقارب کی مزاحف صورتوں کے، متقارب سالم میں موزوں کریں وگرنہ لفظی رد و بدل کر کے آپ کا شعر کسی بھی بحر میں موزوں کیا جا سکتا ہے لیکن اسکا آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، آپ کے لیئے (ابھی) بہتر یہ ہے کہ جس بحر پر ابھی تک بحث کی ہے اسی کو سامنے رکھیں۔ یعنی
فعولن فعولن فعولن فعولن
فعولن فعولن فعولن فعولن
یا
221 221 221 221
221 221 221 221
اعجاز صاحب
میری غلطی ہے یہ۔ اگرچہ اختتام ’فعل‘ پر جائز ہے یہاں، لیکن اس مصرعے میں ’ہوں‘ محض ’فع‘ تقطیع کرنی چاہئے تھی۔ یعنی ’ہو‘۔ ہاں اگر ’ہوں‘ کی جگہ ’اور‘، یار۔ ہوتا تو بھی وزن درست تھا۔
الف نظامی صاحب
محمد وارث صاحب میرے بھی چند سوالات ہیں:
کسی شعر کی تقطیع کرنے کے لیے اس میں سے چند حروف حذف کیے جاتے ہیں ، براہ کرم ان حروف کے بارے میں بتا دیں۔
محمد وارث صاحب
شکریہ نظامی صاحب۔
جو حروف حذف کیے جاتے ہیں انکی دو اقسام یا صورتیں ہیں۔ اول تو وہ جن کے بارے میں طے ہے کہ انکا کوئی وزن نہیں ہے اور یہ ہر صورت میں حذف ہو جاتے ہیں، جیسے
– نون غنہ (کوئی وزن نہیں رکھتا)
– نونِ مخلوط، یہ نون ہندی / اردو الفاظ میں ہوتا ہے اور کوئی وزن نہیں رکھتا جیسے اندھیر، اندھیرا، اندھیری وغیرہ اور اسی قسم کے دوسرے الفاظ میں۔
– واؤ معدولہ جیسے خواب (خاب)، خود (خد)، خواہش (خاہش) وغیرہ۔
– دو چشمی ھ، ہندی الفاظ میں جیسے ابھی، مجھے وغیرہ۔
– یائے مخلوط ہندی / اردو الفاظ میں جیسے پیار (تقطیع میں یہ پار گنا جاتا ہے)، پیارے (پارے)، کیوں (کوں)، کیا (کا) وغیرہ۔
– ت، صرف ان فارسی الاصل الفاظ میں جن میں پے در پے تین ساکن حروف آ جائیں اور سب سے آخر میں ت ساکن ہو، جیسے دوست، گوشت، پوست، کیست، نیست، چیست، برداشت، پرداخت وغیرہ ان سب الفاظ کی آخری ت کا کوئی وزن نہیں ہوگا۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ ت صرف وہاں حذف ہوتی ہے جہاں یہ خود بھی ساکن ہو اس سے پہلے کم از کم دو حروف ساکن ہوں۔ موت، دست یا است وغیرہ میں آخری ت حذف نہیں ہو سکتی، اسطرح دوستاں میں ت متحرک ہو گئی ہے سو یہاں بھی حذف نہیں ہو سکتی۔
دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ شاعر اپنی مرضی سے کسی لفظ کو گرا دے، یہ گرنے والے حروف عموماً حرفِ علت (الف، واؤ، یا) ہوتے ہیں اور الفاظ کے آخر میں ہوتے ہیں اور زیادہ تر ہندی / اردو الفاظ میں ہوتے ہیں۔ جیسے کا، کو، کے، تھا، تھے، تھی وغیرہ۔ اسی طرح ہائے ہوز (ہ) کو بھی بلا تکلف گرایا جاتا ہے۔ اس صورت میں پڑھنے والے یا تقطیع کرنے والے خود ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہاں شاعر نے کوئی لفظ گرایا ہے یا اسے سالم رکھا ہے۔
الف نظامی صاحب
کیا کسی شعر کی تقطیع کرنے کے بعد پہلے مصرع اور دوسرے مصرع کے حروف کی تعداد برابر ہوتی ہے؟
محمد وارث صاحب
جی بالکل ہوتی ہے لیکن یہ بات اہم ہے کہ ضروری نہیں کہ ایک شعر کے دونوں مصرعوں کے الفاظ یا حروف کی تعداد بھی برابر ہو لیکن جب اس شعر کی تقطیع کر کے اسکا عروضی متن لکھا جاتا ہے تو پھر تعداد برابر ہوتی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ تقطیع کا مقصد ہی یہی ہے کہ شعر کے الفاظ کو بحر کے الفاظ پر منطبق کیا جائے اور چونکہ ایک بحر کے دونوں مصرعوں میں ہو بہو ایک جیسے الفاظ اور حروف ہوتے ہیں سو جب شعر کی تقطیع کر کے اور اس میں سے حروف گرا کر یا بڑھا کر (اخفا یا اشباع) کا عمل کر کے اسکا عروضی متن لکھا جائے گا تو وہ ہو بہو بحر کے مطابق ہوگا سو تعداد بھی برابر ہوگی۔ بصورتِ دیگر وہ شعر بحر سے خارج اور ساقط الوزن سمجھا جائے گا۔
الف نظامی صاحب
سب سے طویل بحر اور سب سے چھوٹی بحر کون سی ہے؟
محمد وارث صاحب
یوں تو نظامی صاحب ایک بحر کا نام بھی بحرِ طویل ہے، لیکن اسکا کوئی معیار نہیں ہے اور یہ کوئی خاص بحور نہیں ہیں۔ اسکا سارا دارومدار ایک بحر میں پائے جانے والے ارکان پر ہے، جیسے ایک بحر میں اگر آٹھ ارکان ہیں تو اسے مثمن کہتے ہیں اسی طرح اگر ایک بحر میں چار ارکان ہوں تو اسے مربع کہیں گے اور یہ چھوٹی سی بحر بن جائے گی۔ اسی طرح اگر مثمن بجر کو دوچند کردیں (جسے عروض میں مضاعف کہتے ہیں) تو اس بحر میں سولہ ارکان ہو جائیں گے اور یہ ایک اچھی خاصی بڑی بحر بن جائے گی۔
مثال کے طور پر ایک بحر ہے، بحر متدارک مثمن سالم، اسکا رکن فاعلن ہے اس کو مضاعف کر کے شعرا، شعر کہتے ہیں، عرفان صدیقی کی ایک غزل کا ایک شعر دیکھیئے اسی بحر میں۔
تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دیئے تھے تمھیں کیا خبر یا اخی
کتنے موسم لگے ہیں ہمارے بدن پر نکلنے میں یہ بال و پر یا اخی
اس سے بھی طویل کی مثال بحر الفصاحت سے مولوی غلام امام شہید کے قصیدے کا یہ شعر (بحر رجز مثمن سالم مضاعف، ایک مصرعے میں مستفعلن آٹھ بار، شعر میں سولہ بار)
آئی بہار اب ہر چمن ہے بلبل و گل کا وطن، دیر و حرم سے نعرہ زن آتے ہیں شیخ و برہمن
زاہد سے کہہ دو یہ سخن ہے فصلِ گل توبہ شکن، گر چاہیئے عیشِ جان و تن میخواروں کا سیکھے چلن
چھوٹی بحروں میں سے ایک مثال ہزج مربع مقبوض از مولوی نجم الغنی مصنف بحر الفصاحت (وزن مفاعلن مفاعلن)
دل و جگر کو چھین کر
وہ بے وفا گیا کدھر
ہمارے حالِ زار سے
اسے ذرا نہیں خبر
لیکن اسی طرح کی شاعری اساتذہ منہ کا ذائقہ بدلنے کیلیے یا بطور مثال کے کرتے تھے/ہیں، ورنہ مروج بحریں لگ بھگ وہیں ہیں جو مثال کے طور پر دیوانِ غالب یا اقبال کے کلیات میں پائی جاتی ہیں اور وہ چھوٹی بڑی ضرور ہیں لیکن مناسب حد تک نہ کے مولوی شہید کے قصیدے کی طرح کی ۔
ایم اے راجا
استادِ محترم وارث صاحب، کیا ہم ضرورتِ شعری کی وجہ سے سے ھ، ہ، یا مندرجہ بالا ت کا وزن باندھ بھی سکتے ہیں، اور کیا کبھی سخت ضرورت کے وقت ں کا وزن باندھنا جائز ہے ؟
جیسے ہم اگر پیار کی تقطیع یو کر دیں پ یا ر یعنی 121 یا پیارے کی تقطیع یوں کر دیں پ یا رے یعنی 221 خواب کی تقطیع خ وا ب اور خواہش کی خ وا ہش کیا یہ جائز ہے یا کسی طور بھی جائز نہیں۔
محمد وارث صاحب
ایک استدعا یہ ساگر صاحب کہ مجھے استاد مت لکھیں حضور، میں اس لفظ کا اس کے ہر معنی میں سزاوار نہیں ہوں کہ خود اس علم کا طالب علم ہوں، امید ہے خیال رکھیں گے، شکریہ۔ مجھے آپ بلا تکلف ‘وارث’ لکھ اور کہہ سکتے ہیں۔
دو چشمی ھ کا کوئی وزن نہیں ہے، اسی طرح اس مخصوص ت کا جس پر بات اوپر ہوئی ہے اور جسے بعض اساتذہ تائے فارسی بھی کہتے ہیں کوئی وزن نہیں سو انکا وزن شمار کرنا غلط ہے۔
نون غنہ کا بھی کوئی وزن نہیں ہے سو اسکا وزن شمار کرنا غلط ہے، انتہائی ضرورت میں نون غنہ کی بجائے نون معلنہ (جس نون کا لفظ میں اعلان کیا جائے یا آواز نکالی جائے) وہ استعمال کریں جیسے آسماں کی جگہ آسمان اور بصورتِ دیگر آسمان کی جگہ آسماں۔ لیکن "میں” کو آپ کسی بھی صورت "مین” نہیں باندھ سکتے یہاں نون غنہ ہر صورت میں گرے گا۔
الفاظ کے آخر میں آنی والی ہائے ہوز (ہ) کا وزن رکھنا یا نہ رکھنا شاعر کی مرضی ہے۔ جیسے شہنشاہ کو ش ہن شا ہ یا 1 2 2 1 یا مفاعیل سمجھیں یا ش ہن شا 1 2 2 یا فعولن سمجھیں۔ اسی طرح کہ دیگر الفاظ۔
واؤ معدولہ کسی بھی صورت وزن میں نہیں آئے گی۔ خواب کو خ وا ب یا 1 2 1 یا فعول باندھنا سراسر غلط ہے یہ ہمیشہ خاب یا 2 1 یا فعل ہوگا۔ اسی طرح دوسرے الفاظ ہیں۔
پیار اور پیارے کو بھی ی کے بغیر شمار کریں گے اور کم از کم آج تک میری نظر سے کوئی شعر ایسا نہیں گزرا جس میں شاعر نے پیار کو پ یا ر باندھا ہو (میر کے ایک شعر پر کبھی شک گزرا تھا لیکن افسوس اب وہ غزل اور شعر یاد نہیں)۔ لیکن اس وقت عروض پر جتنی بھی کتب میرے پاس ہیں ان میں یہی ہے کہ پیار اور پیارے وغیرہ میں ی کا شمار نہیں ہوگا اور یہ ‘پار’ اور ‘پارے’ ہی باندھا جائے گا۔
خرم شہزاد خرم
حقیقت چُھپا کر خبر سے بغاوت
مرے من نے کی ہے نظر سے بغاوت
کبھی جو اُجالا ، اُجالا بنا تو
تو کرنی پڑی پھر سحر سے بغاوت
محبت نہیں اب عقیدت نہیں اب
کہ یوں کر رہا ہوں جگر سے بغاوت
وارث بھائی اس پر نظر ڈالے میں نے تجربہ کیا ہے اس تجربے کو کامیاب کرے
محمد وارث صاحب
خرم صاحب آپکے مندرجہ بالا اشعار وزن میں ہیں۔ بہت خوب۔
اعجاز عبید صاحب
اچھی ترقی کر رہے ہیں خرم ماشاء اللہ۔ مبارک ہو۔۔۔بس پہلے شعر میں میرا مشورہ ہے کہ فارسی الفاظ کے درمیان ہندی کا ’من‘ اچھا نہیں لگ رہا۔ اس کو ’دل‘ کرنے میں کیا مشکل پیش آ رہی ہے؟
ایم اے راجا
وارث صاحب آپ نہیں چاہتے کہ میں آپ کو استاد کہوں تو کیا ہوا یہ تو کہنے والے کی مرضی ہے نا، ہاہاہاہا کیوں؟ بہر حال میں آپ کو آئندہ وارث بھائی کہہ کر پکارا کروں گا حالانکہ میرا خیال ہے کہ شاید ہم دونوں ہم عمر ہیں لیکن مجھ پر آپ کا احترام لازم ہو چلا ہے نا۔
خرم بھائ آپ کو مبارک ہو، بہت زبردست اور حقیقت پر مبنی اشعار ہیں لیکن الف عین صاحب کی بات پر عمل کریں اور من کو دل لکھیں،
بھائی مجھے آخری مصرعہ سمجھ نہیں آیا اگر آپ اسکی تقطیع کر دیں تو مجھے سمجھ آ جائے گا، جسکے لیئے مشکور رہوں گا،، اوہو بھول گیا پھر شکریہ ادا کر دیا، توبہ توبہ بابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خرم شہزاد خرم
حقیقت چُھپا کر خبر سے بغاوت
مرے دل نے کی ہے نظر سے بغاوت
کبھی جو اُجالا ، اُجالا بنا تو
تو کرنی پڑی پھر سحر سے بغاوت
محبت نہیں اب عقیدت نہیں اب
کہ یوں کر رہا ہوں جگر سے بغاوت
محبت نہیں اب عقیدت نہیں اب
کہ یوں کر رہا ہوں جگر سے بغاوت
فعو
محب
لن
بت
فعو
نہی
لن
اب
فعو
عقی
لن
دت
فعو
نہی
لن
اب
فعو
ک یو
لن
کر
فعو
رہا
لن
ہو
فعو
جگر
لن
سے
فعو
بغا
لن
وت
میں نے تو ایسے کیا ہے راجا بھائی اب کہاں سے سمجھ نہیں آ رہی ہے
وارث صاحب میں سوچ رہا ہوں اس بحر میں کم از کم 5 غزلیں لکھ لے اس کے بعد پھر دوسری بحر کی طرف جاتے ہیں کیا خیال ہے آپ کا
محمد وارث صاحب
آپ کی مرضی ہے خرم صاحب، ویسے میرا خیال ہے کہ راجا صاحب کو بھی اس بحر پر عبور حاصل ہو جائے تو کسی اور بحر کو دیکھیں۔ بحر متقارب مثمن سالم پر مکمل عبور کے لیئے ‘مسدسِ حالی’ کا مطالعہ اور تقطیع کرنی چاہیئے کہ ہزاروں اشعار پر مشتمل یہ نظم اسی بحر میں ہے۔ بازار میں عام ملتی ہے اور محفل پر میں نے بھی تھوڑا سا کام اس پر کر رکھا ہے، یہ ربط دیکھیئے۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=9841
ویسے عروض اور تقطیع کی مبادیات پر، جن پر اب تک بحث ہوئی ہے، اگر عبور ہو حاصل ہو جائے تو دیگر بحور کو سیکھنے میں زیادہ مسئلہ نہیں ہوگا اور فقط انکے اوزان ہی یاد رکھنے پڑیں گے۔ بحور کے نام بہت مشکل ہوتے ہیں لیکن انکو یاد کون رکھتا ہے اور نہ ہی وزن میں شعر کہنے کے لیئے نام یاد رکھنے کی ضرورت ہے، ہاں اگر کوئی پوچھ لے تو پھر تھوڑی مشکل ہوتی ہے۔
خرم شہزاد خرم
جی میں بھی اسی لے کہہ رہا تھا کے راجا صاحب بھی اپنی طرف سے کوئی غزل ارسال کرے کچھ غزلیں ہم لکھتے ہیں اور پھر کچھ غزلوں کی تقطیع کرتے ہیں شکریہ
ایم اے راجا بھائی
شکریہ، خرم۔
میں نے اس بحر میں لکھنے کی کوشش تو کی ہے مگر وقت ہے کہ بس ساتھ ہی نہیں دیتا بہر حال ایک دو دن میں پیش کروں گا۔
وارث بھائی اس محبت کا بہت شکریہ۔
مجھے محبت کی تقطیع سمجھ نہیں آئی تھی، محبت ب کو شد ہونے کی وجہ سے دو بار تقطیع کیا ہے ناں ، م حب بت ؟
خرم شہزاد خرم
جی راجا بھائی پہلے مجھے بھی سمجھ نہیں‌آتی تھی کچھ لفظ ایسے ہیں جب پر
( ّ)شد ہوتی ہے ہوتی ہے وہ حرف دو دفعہ پڑھے جاتے ہیں جیسے محب بت خر رم وغیرہ وغیرہ۔
خرم شہزاد خرم
مُسدّس
مُسد دس
کسی نے یہ بقراط سے جا کے پوچھا
مرَض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کہا دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا
کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
فعو لن فعو لن فعو لن فعو لن
کسی نے یبق را طسے جا ک پو چا
مرض تے رِ نز دی ک مہ لک ہ کا کا
کہا دُک جہا مے نہی کو ء اے سا
ک جس کی دوا حق ن کی ہو ن پے دا
کیا میں نے یہ تقطیع ٹھیک کی ہے
محمد وارث صاحب
خرم صاحب آپ کی تقطیع بالکل صحیح ہے، بہت خوب۔
ایم اے راجا
وارث بھائی، خرم بھائی اور اعجاز صاحب اسلام وعلیکم۔
اپنی پہلی کاوش بحر کی پابندی میں آپ کی نذر کر رہا ہوں امید ہے کہ توجہ دیتے ہوئے غلطیوں سے پاک کرنے کی کوشش فرمائیں گے ۔شکریہ۔
نئے طور سے امتحاں مانگتا ہے
سرِ بام مجھ سے وہ جاں مانگتا ہے
حوالے مرے سب پتا ہیں اسے تو
کیوں پھر کسی سے نشاں مانگتا ہے
چلوں کیسے میں ساتھ اسکے سرِ راہ
زمیں پر وہ تو آسماں مانگتا ہے
ہے لہو لہو چمن کی زمیں جا بجا سے
کیا اب مرا حکمراں مانگتا ہے
پڑا ہے سرِ راہ بے آسرا جو
وہ بارش میں بس اک مکاں مانگتا ہے
یہ سورج چمکنے کو راجا
نیا پھر سے کوئی جہاں مانگتا ہے
محمد وارث صاحب
نئے طور سے امتحاں مانگتا ہے
سرِ بام مجھ سے وہ جاں مانگتا ہے
حوالے مرے سب پتا ہیں اسے تو
کیوں پھر کسی سے نشاں مانگتا ہے
چلوں کیسے میں ساتھ اسکے سرِ راہ
زمیں پر وہ تو آسماں مانگتا ہے
ہے لہو لہو چمن کی زمیں جا بجا سے
کیا اب مرا حکمراں مانگتا ہے
پڑا ہے سرِ راہ بے آسرا جو
وہ بارش میں بس اک مکاں مانگتا ہے
یہ سورج چمکنے کو راجا
نیا پھر سے کوئی جہاں مانگتا ہے
بہت اچھی کاوش ہے آپکی راجا صاحب اور مجھے خوشی ہے کہ آپ سیکھ رہے ہیں، جیسے آپ نے کئی جا جگہ اخفا، اشباع اور تسبیغ کا عمل بہت خوبصورتی سے انجام دیا ہے۔ اور خیالات بھی بہت اچھے ہیں، بہت خوب۔
جو مصرعے یا الفاظ اوپر میں نے سرخ کیے ہیں وہ وزن میں نہیں ہیں، میں آپ کو بتا دونگا لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ خود غور کریں اور سوچیں کہ کیا غلطی ہے اور اس کو درست کرنے کی بھی کوشش کریں، میں انشاءاللہ یہیں ہوں کسی بھی مشکل یا وضاحت کی صورت میں ضرور مطلع کریں۔
ایم اے راجا
مقطع کے پہلے مصرعہ میں ایک رکن کم ہے غلطی ہو گئی۔
کیوں کی تقطیع میں نے، ک یو کی ہے کیا یہ درست نہیں؟
کیا کی تقطیع میں نے ک یا کی ہے کیا یہ بھی درست نہیں؟
ہے لہو لہو چمن کی زمیں جا بجا سے، اس مصرعہ کی تقطیع یوں کی ہے میں نے،
ہ لو لو چ من کی ز می جا ب جا سے
کیا یہ درست نہیں، پلیز؟
محمد وارث صاحب
مقطع کے بارے میں صحیح کہا آپ نے، ایک رکن کم ہے۔
کیوں کا وزن "کو” یعنی 2 یا فع ہے، ‘ک یو’ غلط ہے، اوپر کہیں میں نے لکھا ہے کہ اس ہندی لفظ میں ی کا وزن نہیں ہوتا۔ یعنی یہ سببِ خفیف ہے۔
‘کیا’ بمعنی حرفِ استفہام کا بھی وزن ‘کا’ یا 2 یا فع ہے، اس میں بھی ی کا وزن نہیں ہے، اوپر دیکھیں مسدس کے اشعار میں حالی نے ایک ہی مصرع میں ‘کیا’ کو دو دفع باندھا ہے اور دونوں بار ‘کا’ وزن ہے۔ یعنی یہ سببِ خفیف ہے۔
‘کِیا’ بمعنی کرنا کا وزن 1 2 یا فعَل ہے یعنی یہ وتدِ مجموع ہے، جب کہ آپ کے شعر میں کِیا نہیں بلکہ کیا ہے۔
لہو میں سے ہ کو گرانا ناجائز ہے۔ اصول یاد رکھیں الفاظ کے درمیان سے لفظ نہیں گرا سکتے، لہو کا صحیح وزن 1 2 یا فعل ہے یعنی یہ بھی وتدِ مجموع ہے۔
خرم شہزاد خرم
مگر وہ مَرَض جس کو آسان سمجھیں
کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں
فعو لن فعو لن فعو لن فعو لن
مگر وہ مرض جس ک آ سا ن سم ج ی
محمد وارث صاحب
خرم صاحب میں نے اپنا ذاتی اصول یہ بنایا ہوا تھا کہ جہاں کہیں اساتذہ کے کلام میں شک گزرے کہ یہاں کچھ گڑ بڑ ہے تو "بائی ڈیفالٹ” میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ مجھ سے غلطی ہو رہی ہے نا کہ استاد کے کلام میں، اور پھر اپنی غلطی کو درست کر لیتا تھا۔
اب آپ بتائیں کہ آپ کا شک کیا ہے؟
خرم شہزاد خرم
سر آپ مجھے یہ بتا دے کہ یہ تقطیع ٹھیک ہے یا نہیں
ویسے مجھے ک آ سا ن سم ج ی
اس کی سمجھ نہیں آ رہی تقطیع تو میں نے کر دی ہے کیا یہ ٹھیک ہوئی ہے
ایم اے راجا
نئے طور سے امتحاں مانگتا ہے
سرِ بام مجھ سے وہ جاں مانگتا ہے
حوالے مرے سب پتا ہیں اسے تو
وہ کیوں پھر کسی سے نشاں مانگتا ہے
چلوں کیسے میں ساتھ اسکے سرِ راہ
زمیں پر وہ تو آسماں مانگتا ہے
سینا تو ہے گلشن یہ سارا لہو سے
کہ اب کیا مرا حکمراں مانگتا ہے
پڑا ہے سرِ راہ بے آسرا جو
وہ بارش میں بس اک مکاں مانگتا ہے
یہ سورج چمکنے کو ساگر یہاں پر
نیا پھر سے کوئی جہاں مانگتا ہے
وارث بھائی اب ذرا دیکھیں اسے۔ شکریہ۔
محمد وارث صاحب
آپ بہت اچھے جا رہے ہیں، دوسری کوشش میں آپ نے تقریباً ساری غلطیاں دور کر لی ہیں، بہت خوب۔
ایک غلطی جو ابھی درست نہیں ہو رہی وہ ہے الفاظ کے ‘درمیان’ سے حرف کو گرانا، اوپر والے شعر میں بھی اور اس غزل کے شعر میں بھی جس کو میں نے سرخ کیا ہے، ایک ہی طرح کی غلطیاں ہیں۔
ایک کام کریں، الفاظ کے درمیان سے حرف کو گرانا یا اسکے متعلق سوچنا بھی ابھی چھوڑ دیں، وقت اور مطالعے کے ساتھ ساتھ یہ خود بخود صحیح ہو جائے گا۔ انتہائی ضرورت کی حالت میں وہ لفظ ہی بدل دیں جس کی وجہ سے مشکل ہو رہی ہو یا آپ کو شک گزر رہا ہو کہ یہ لفظ غلط ہو سکتا ہے اسکی جگہ کوئی اور لفظ لے آئیں کہ الفاظ کی دنیا بہت وسیع ہے۔
مثلاً آپ کا یہ شعر
سینا تو ہے گلشن یہ سارا لہو سے
کہ اب کیا مرا حکمراں مانگتا ہے
اس کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے۔
مرے ہی لہو سے ہے مہکا چمن یہ
مزید اور کیا حکمراں مانگتا ہے؟
یا
مرے ہی لہو سے ہے مہکا وطن یہ
مزید اور کیا حکمراں مانگتا ہے؟
یا اگر قافیہ تبدیل کرنے کی اجازت دیں تو
مرے ہی لہو سے ہے مہکا چمن یہ
مزید اور کیا باغباں مانگتا ہے؟
چمن یا گلشن کے ساتھ باغباں بہتر ہے نہ کہ حکمران اور اور اگر حکمران ہی لانا ہے تو پھر چمن یا گلشن کی بجائے وطن زیادہ بہتر ہے، یہ ایک صنعت ہوتی ہے جیسے مراعات النظیر کہتے ہیں اور اسکا تعلق علم بدیع سے ہے مطلب اسکا یہ ہے کہ ایسے الفاظ شعر میں لانا جن میں آپس میں کوئی مناسبت ہو جیسے سمندر کے ساتھ سفینہ یا کشتی، بادباں، ساحل، کنارہ وغیرہ کے الفاظ لانا۔ تفصیل پھر کبھی سہی کہ ابھی ہم علمِ عروض پر ہی توجہ مرکوز رکھیں تو میرے اور آپ دونوں کے لیئے بہتر ہے۔
ایم اے راجا
کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں
ک ہے جو ط بی ب اس ک ہذ یا ن سم جے
طبیب میں ب اکیلا ہے 121 ہو رہا ہے۔
بھائی مجھے تو اسکی سمجھ نہیں آئ کہ آپ نے کیسے تقطیع کی ہے؟
پہلے مصرعہ کی تقطیع درست آ رہی ہے یعنی،
مگر وہ مَرَض جس کو آسان سمجھیں
م گر وہ م رض جس ک آ سا ن سم جے۔
مجھے طبیب میں اکیلی ب کی سمجھ نہیں آ رہی، وارث بھائی ذرا ٹارچ چارج کر کے اس پر روشنی ڈالیئے گا، ہاہاہاہا، شکریہ۔
محمد وارث صاحب
ساگر صاحب اس کے لیئے ٹارچ چارج کرنے کی کیا ضرورت ہے، نورِ بصیرت ہی کافی ہے ۔
ایک بات یاد رکھیں جب بھی کبھی شعر میں ایسا مرحلہ آ جائے کہ تقطیع کسی طور فِٹ نہ بیٹھ رہی ہو، تو فوری طور پر اس شعر یا مقام پر مندرجہ ذیل چیزوں کو ڈھونڈیں:
– کیا شاعر نے اخفا یا اشباع سے تو کام نہیں لیا۔
– کیا عملِ تسبیغ تو نہیں ہوا۔
– کیا الفِ وصل تو ساقط نہیں ہو رہا۔
اس صورت میں عموماً پچانوے فیصد مشکلات حل ہو جاتی ہیں (بشرطیکہ کلام استاد کا یا کم از کم کسی ‘شاعر’ کا ہو) ، اور اگر نہیں ہوتی تو وہ ہے کتابت کی غلطی، جس کے لیئے واقعی ٹارچ روشن کرنی پڑتی ہے۔
آپ کو جو مشکل آ رہی ہے وہ الفِ وصل کا اسقاط ہے:
کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں
ک ہے جو – فعولن
ط بی بُس – فعولن
ک ہذ یا – فعولن
ن سمجے – فعولن
کیا اتنی روشنی کافی ہے؟
ایم اے راجا
وارث بھائی کیا یہ شعر متقارب مثمن سالم میں درست ہے؟
سرِ شام کس کا یہ پھر خیال آ گیا
دبی سوچ میں پھر سے ابال آگیا
یہاں ابال کو میں نے اوبال تقطیع کیا ہے، کیوں کے اوپر پیش ہے سو ’و‘ کا اضافہ (اشباع)کیا ہے کیا یہ جائز ہے؟
محمد وارث صاحب
دو غلطیاں ہیں، ایک تو وہی جو آپ کے ذہن میں آئی۔ ابال کو اوبال بنانا غلط ہے، شاید اس کا ذکر اوپر نہیں ہوا کہ اشباع صرف اضافتِ کسرہ (یعنی زیر) کا ہوتا ہے اور اس کو جب کھینچ کر پڑھا جاتا ہے تو وہ ی سے بدل جاتی ہے جیسے ‘دیوانِ غالب’ کو ‘دیوانے غالب’ کرنا۔ پیش کو واؤ بنانا اور زبر کو الف بنانا جائز نہیں۔
دوسری غلطی یہ کہ خیال اور ‘گیا’ سے ی کا گرانا بھی غلط ہے۔ تقطیع دیکھیں:
سَ رے شا – 1 2 2 – فعولن
م کس کا – 1 2 2 – فعولن
ی پر خ یا – 1 2 1 2 – مفاعلن – غلط ہے اس بحر میں نہیں آ سکتا، وجہ یہ ہے کہ آپ نے ‘خیا’ سے ی گرا کر ‘خا’ بنایا ہے جو کہ غلط ہے، خیال ہندی لفظ نہیں بلکہ عربی کا لفظ ہے اور عربی، فارسی الفاظ کے درمیان سے حروف گرانا ناجائز ہے۔
ل آ گ یا – 1 2 1 2 – مفاعلن – وہی غلطی ہے جو اوپر لکھی ہے۔ جن ہندی الفاظ کے درمیان سے ی گرتا ہے اسکی فہرست میں نے اوپر نظامی صاحب کے ایک سوال کے جواب میں دی ہے، اسکا مطالعہ کریں۔
ایم اے راجا
وارث‌بھائی اتنی روشنی کافی ہے راہ میں اجالے کے لیئے ۔
وارث بھائی بہت شکریہ، یہ آپ کی بے لوث محنت کا ہی نتیجہ ہے ورنہ بندہ اس سے پہلے تو میں عروض کی الف ب سے بھی واقف نہیں تھا۔
سینا تو ہے گلشن یہ سارا لہو سے
کہ اب کیا مرا حکمراں مانگتا ہے
وارث بھائی اس شعر میں جو بات میں کہنا چاہ رہا ہوں، وہ کچھ اور ہے، میں کوشش کر کے اس شعر کے لفظ اسطرح بدلنے کی کوشش کرتا ہوں کہ مطلب تبدیل نہ ہو۔ برائے کرم ناراض نہ ہوئیے گا اور نہ یہ سمجھیئے گا کہ میں آپ کی بات یا اصلاح سے اختلاف کر رہا ہوں، بس میں اس شعر کے مطلب کو اسی طرح برقرار رکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ میری آدھی اور آپ کی پوری محنت رنگ لا رہی ہے۔
ایم اے راجا
وارث بھائی، اسی بحر میں تین اشعار کہے ہیں ذرا ان پر نظر ڈالیئے گا،
نوائے سحر کا اشارہ دے کوئی
نیا کو مری اب کنارہ دے کوئی
دے گرما لہو کو مرے جو خدایا
ایسا اس جگر کو شرارہ دے کوئی
ہے منظور مجھ کو ترے دل میں رہنا
اگر تو مجھے تُو سہارا دے کوئی
محمد وارث صاحب
میرے خیال میں ‘نیا’ بمعنی کشتی کا صحیح تلفظ ‘نیّا’ یعنی ‘نی یا’ یعنی 22 ہے یعنی یہاں وزن سے خارج ہے، ‘ایسا’ میں پھر وہی غلطی ہے یعنی الفاظ کے درمیان سے حرف کا گرانا۔
ایم اے راجا
ساگر بھائی نیا کے بارے میں آپ کو پتہ تو چل گیا ہے آپ کو یاد ہو میں نے آپ کو محبت لفظ کے بارے میں بتایا تھا کہ محبت میں ّ ہوتی ہے یعنی محبت لکھنے میں محبّت ایسے لکھتے ہیں اب خرم کا بھی یہی مسئلہ ہے خرّم ایسے لکھتے ہیں نیا نیّا ایسے لکھتے ہیں۔
اگر کسی حرف پر ّ نہ پڑی ہو تو اس کی پہچان ایسے ہیں آپ تقطیع کی طرح پڑھے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اس لفظ میں ایک حرف دو دفعہ پڑھنے ہوتا ہے
محب بت
نی
یا
خر رم اس طرح کے اور بھی بہت سارے لفظ ہے
اور ہاں آپ سے ایک درخواست یہ بھی کروں گا آپ پہلے ان لفظوں کی طرف توجہ دے جن سے ہم آرام سے سیکھ سکتے ہیں مطلب جن لفظوں کے آخری حرف گرا کر ہم وزن پورا کر سکتے ہیں ان کو ہی زیادہ استعمال کرے تو بہتر ہو گا بھائی یہ ایک سمندر ہے جتنا آگے جائیں گے اتنا ہی گہرائی کا اندازہ ہوتا جائے گا اگر تو ہم جلدی جلدی آگے جانے کی کوشش کرے گے تو پھسل کے گرنے کا بھی امکان ہے ۔
***
اس بحر میں کچھ معروف غزلیں

میر
ترے عشق میں آگے سودا ہوا تھا
پر اتنا بھی ظالم نہ رُسوا ہوا تھا

خزاں التفات اس پہ کرتی بجا تھی
یہ غنچہ چمن میں ابھی وا ہوا تھا

کہاں تھا تُو اس طور آنے سے میرے
گلی میں تری کل تماشا ہوا تھا

زہے طالع اے میرؔ اُن نے یہ پوچھا
کہاں تھا تو اب تک تجھے کیا ہوا تھا
٭٭٭
سودا

گدا، دستِ اہلِ کرَم دیکھتے ہیں
ہم اپنا ہی دم اور قدم دیکھتے ہیں

نہ دیکھا جو کچھ جام میں جَم نے اپنے
سو اک قطرۂ مے میں ہم دیکھتے ہیں

یہ رنجش میں ہم کو ہے بے اختیاری
تجھے تیری کھا کر قسم دیکھتے ہیں

غَرَض کفر سے کچھ، نہ دیں سے ہے مطلب
تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں

حبابِ لبِ‌ جُو ہیں‌ اے باغباں ہم
چمن کو ترے کوئی دم دیکھتے ہیں
نوشتے کو میرے مٹاتے ہیں‌ رو رو
ملائک جو لوح و قلم دیکھتے ہیں

خدا دشمنوں کو نہ وہ کچھ دکھاوے
جو کچھ دوست اپنے سے ہم دیکھتے ہیں

مٹا جائے ہے حرف حرف آنسوؤں سے
جو نامہ اسے کر رقم دیکھتے ہیں

اکڑ سے نہیں‌ کام سنبل کے ہم کو
کسی زلف کا پیچ و خم دیکھتے ہیں

ستم سے کیا تو نے ہم کو یہ خوگر
کرم سے ترے ہم ستم دیکھتے ہیں

مگر تجھ سے رنجیدہ خاطر ہے سودا
اسے تیرے کوچے میں کم دیکھتے ہیں
٭٭٭

آتش

دہَن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے

زمینِ چَمَن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

تمھارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے

بہار آئی ہے، نشّہ میں جھومتے ہیں
مُریدانِ پیرِ مُغاں کیسے کیسے

تپِ ہجر کی کاہشوں نے کیے ہیں
جُدا پوست سے استخواں کیسے کیسے

نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا
تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے

دل و دیدۂ اہلِ عالم میں گھر ہے
تمہارے لئے ہیں مکاں کیسے کیسے

توجہ نے تیری ہمارے مسیحا
توانا کیے ناتواں کیسے کیسے

غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
تری کلکِ قدرت کے قربان آنکھیں
دکھائے ہیں خوش رو جواں کیسے کیسے

کرے جس قدر شکرِ نعمت، وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے، زباں کیسے کیسے
٭٭٭

داغ

جہاں تیرے جلوہ سے معمور نکلا
پڑی آنکھ جس کوہ پر طور نکلا

یہ سمجھے تھے ہم ایک چرکہ ہے دل پر
دبا کر جو دیکھا ۔ تو ناسور نکلا

نہ نکلا کوئی بات کا اپنی پورا
مگر ایک نکلا تو منصور نکلا

وجود و عدم دونوں گھر پاس نکلے
نہ یہ دور نکلا ۔ نہ وہ دور نکلا

سمجھتے تھے ہم داغ گمنام ہو گا
مگر وہ تو عالم میں مشہور نکلا
٭٭٭
٭٭٭
تدوین: اعجاز عبید
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل : اعجاز عبید
اردو لائبریری ڈاٹ آرگ، کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ 250 فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش