فہرست مضامین
ایڈس
جعفر محمود
مترجم: سید مرغوب احمد
کونسل برائے فروغ اردو زبان، دہلی کی شائع کردہ کتاب
’’دنیا میں ایڈس ۔عالمی پیمانہ پر پھیلاؤ، سماجی جڑیں اور جوابی اقدامات‘‘
کے پہلے تین باب
انتساب
ان تمام لوگوں کے نام جو جانے یا انجانے طور پر اس سماجی برائی کے شکار ہو گئے ہیں اور ان تمام سائنس دانوں کے نام جو اس کے علاج میں سرگرداں اور تیر بہدف دوا تلاش کرنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔
نوٹ: ان ابواب میں سے بھی جداول حذف کر دئے گئے ہیں۔
دیباچہ
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران موجودہ سماج میں ایڈس( AIDS-Acquired Immuno Deficiency Syndrome) عوامی صحت سے وابستہ سب سے اہم مسئلہ بن چکا ہے اور اسی لیے اس کے تئیں بیداری پیدا کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ حالیہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 36.1ملین افراد ( بچے اور بڑے)HIV (Human Immunodeficiency Virus) یا ایڈس میں مبتلا ہیں۔ (UNAIDS/WHO 2000)۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(WHO) /UNAIDS کی سن 2000 کی رپورٹ کے مطابق سن 2000 ء اختتام تک ایڈس سے وابستہ بیماری میں مبتلا 21.8 ملین افراد لقمۂ اجل بن چکے تھے۔ اس وقت تک حالت یہ ہو چکی ہے کہ جہاں کچھ ممالک کے بارے میں ایڈس پھیلنے سے متعلقہ خدشات اور تصورات کے تخمینہ کو غیر بھروسہ مند قرار دیا جا سکتا ہے وہیں کچھ ممالک کے معاملہ میں اسے حقیقت سے کم تو دیگر ممالک کے ضمن میں بڑھا چڑھا کر پیش کردہ کہا جا سکتا ہے۔ اگر ہم واقعی HIV یعنی AIDS کا سبب بننے والے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا چاہتے ہیں اور عالمی طور پر پھیلنے والی اس وبا کا سد باب چاہتے ہیں تو ایک بڑی سیاسی ذمہ داری سے کسی بھی طرح دامن نہیں بچا یا جا سکتا۔ اس کتاب میں HIVاور AIDS سے متعلقہ ان تمام باتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جو عالمی طور پر پھیلنے والی اس لعنت کے نتیجہ میں آج ہمارے سماج کی صحت کے لیے زبردست چیلنج پیدا کر رہی ہیں۔
کرّہ ارض پر HIV میں مبتلا زیادہ تر افراد مرد ہیں تاہم اس ضمن میں علاقائی اختلافات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ذیلی سہارائی افریقہ میں HIV میں مبتلا55% آبادی عورتوں پر مشتمل ہے(UNAIDS/WHO )۔ اس کے علاوہ اس علاقہ میں HIV اورAIDS میں مبتلا مردوں کے مقابلہ عورتوں کے زندہ رہنے کے امکانات 10برس کم ہیں (Stephenson 2000)
اگر معمولی سمجھی جانے والی کچھ باتوں پر عمل کیا جائے توHIVسے بچا بھی جا سکتا ہے۔ جیسے مثال کے طور پر انجکشن لگانے کے آلات کی صفائی ستھرائی، دوسروں کے دیے ہوئے یا دوسروں سے مانگے ہوئے انجکشن کے آلات استعمال نہ کرنا اور مستقلاً اور مناسب طور پر کنڈوم کا استعمال کرنا۔ تاہم سخت کلچرل ( ثقافتی) عقائد کے سبب تدارکی کاوشوں میں رکاوٹیں بھی حائل ہو سکتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ مردوں کی اجارہ داری والے طبقات میں کنڈوم کا استعمال کم بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم اس ضمن میں کی جانے والی کھوج بین سے تدارکی اقدامات کی اثر پذیری آشکار ہو چکی ہے۔ مثال کے طور پر تھائی لینڈ میں کمرشل سیکس ورکرس سے صحبت کے دوران کنڈوم استعمال کرنے کو فروغ دیا گیا اور ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جنسی طور پر پھیلنے والے امراض(Sexually Transmitted Diseases-STDs)کی تعداد میں بڑی حد تک کمی آئی ہے۔ ایسے ہی فوج سے وابستہ افراد میں HIV پھیلنے کی شدت میں بھی کمی آئی ہے۔
Celentanoet al.1998; Royanapithayakorn and Hanenberg 1996
جو لوگ بلا واسطہ طور پر سب سے پہلےHIV/AIDS میں مبتلا ہوئے انہوں نے ہی سب سے پہلے اس بیماری کے تئیں بیداری پیدا کرنے کی مہم کا آغاز کیا اور انہوں نے ہی سب سے پہلے لوگوں کو یہ بتایا کہ HIV/ AIDS میں مبتلا لوگوں کو کس کس طرح بدنامی کا داغ سہنا پڑتا ہے۔
پورے افریقہ میں صرف یوگانڈا ہی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کے یہاں AIDSسے لڑنے کے پروگرام کو کامیابی سے نافذ کیا گیا ہے۔ یہ واحد افریقی ملک ہے جہاں اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ نوجوانوں میں HIV کے مریضوں کی تعداد واقعی کم ہو رہی ہے۔ ذیلی سہارائی ملک ہونے کے باوجود بھی ( جیسا کہ زیادہ تر ممالک اسی ذیلی سہارائی خطہ سے تعلق رکھتے بھی ہیں ) مذکورہ بالا اسباب کی بنا پر کینیا کے ساتھ ہم نے یوگانڈا کا تذکرہ ایک الگ باب میں کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے کینیا اور یوگانڈا میں موجود زبردست قسم کے فرق کے سبب دونوں ممالک کے درمیان نافذ کردہ ہیلتھ پالیسی میں واقع اہم اختلافات کی وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے اور اس فرق سے یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ دونوں ممالک میں HIVکی روک تھام کس طرح متاثر ہوئی ہے۔
آخر میں جن لوگوں کے تئیں اظہار تشکر کرنا چاہوں گا وہ ہیں : پروفیسر اے۔ رحمن، سابق چیئرمین آف انٹر نیشنل کاؤنسل آف سائنس پالیسی، پروفیسر محمد فاروق، سابق پروفیسر اور HODآرتھوپیڈکس AIIMS، مسز اے۔ ایچ لل جی، ڈاکٹر سی، ایس نندا، اسسٹنٹ ڈویژنل میڈیکل آفیسر ناردن ریلوے اینڈ فار مر سکریٹری، انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن (SDB)، ڈاکٹر فاطمہ عباس حسینی، ڈاکٹر رنجن نندا، کنسلٹینٹ جائناکولو جسٹ، کنسلٹینٹ دامودر ویلی کارپوریشن، گورنمنٹ آف انڈیا، ڈاکٹر کے۔ جی۔ نانگیا، مسٹر عتیق حسین، مینیجنگ ڈائریکٹر، گیلیم انڈسٹریز لمیٹڈ، مس شاہدہ حیدر ایس، خورشید مثنیٰ۔ اگر محمد علی انصاری صاحب کی تحریک پس پشت شامل حال نہ ہوتی تو یہ کام انجام دینا ممکن ہی نہیں تھا۔ میں تہہ دل سے ان کا بے حد ممنون ہوں۔
جعفر محمود
نئی دہلی
ہندوستان
1 ایڈس (AIDS) کیا ہے؟
ایڈس ایک ایسی بیماری ہے جو ایک نئے اور مہلک وائرس -HIV (The Human Immunodeficiency Virus) کے ذریعہ پھیلتی ہے۔ یہ HIV برسوں جسم میں پڑا رہ سکتا ہے۔ ظاہری علامات کے ذریعہ کسی بھی قسم کے نقصان کی نشاندہی کیے بغیر شاید یہ دہائیوں تک بھی جسم میں یوں ہی موجود رہ سکتا ہے۔ ایک مرتبہ ایڈس ہو جائے تو اب تک کے تمام معاملات کے مطابق مہلک ہی ثابت ہوتا ہے۔ ابھی تک ایڈس کی نہ تو کوئی دوا ایجاد ہوئی ہے اور نہ ہی اس سے محفوظ رہنے کا کوئی ٹیکہ۔
لگی لپٹی کہے بغیر -AIDS (Acquired Immuno Deficiency Syndrome) کے متعلق یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ HIV انفیکشن (HIV تعدیہ) کی آخری مہلک اسٹیج ہوتی ہے جسے اکثر شباب پر آئے ہوئے ایڈس (full blown AIDS) سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔
غیر طبی ادب میں بھی اس اصطلاح (term) ایڈس کا استعمال کیا تو جاتا ہے مگر کچھ زیادہ ہی لاپرواہی کے ساتھ۔ یعنی اس اصطلاح ایڈس کا استعمال HIV کی ابتدائی اسٹیجوں کو ظاہر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس سے مراد وائرس سے پھیلنے والی وہ وبا ہوتی ہے جس نے جون 1988 تک دنیا کے 176 میں سے 138 ممالک میں پنجے گاڑ لیے تھے اور ان علاقوں سے اس کی رپورٹ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کو ملنے لگی تھی۔ اس وسیع و عریض علاقہ میں پھیلنے والی وبا کو عالمی وبا کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
ایڈس پھیلانے والے وائرس کو بین الاقوامی طور پر HIV سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس سے قبل یہ HIV وائرس HTLV-3 (امریکی نام) اور LAV (فرانسیسی نام) سے بھی جانا جاتا تھا۔ اب ان اصطلاحات کا استعمال بہت کم کیا جاتا ہے اور وہ بھی میڈیکل رسالوں اور ذرائع ابلاغ میں۔
اب ان اصطلاحات یعنی HIV، ایڈس وائرس، HTLV-3 اور LAV سے ایک ہی مفہوم مراد لیا جاتا ہے۔ اس باب میں ہم ایڈس کے اس وائرس کا تذکرہ کریں گے جس کی دریافت سب سے پہلے ہوئی تھی۔ یعنی ہماری مراد ہے HIV-1 اور جو زیادہ وسیع و عریض علاقہ میں پھیلا ہوا ہے۔ ایڈس کا دوسرے وائرس یعنی HIV-2 اور دیگر وائرینٹ (virant) کا تذکرہ تیسرے باب میں کیا گیا ہے۔
HIV اور اس کا ہدف بننے والے خلیے
بیماری پیدا کرنے والے تمام نامیاتی اجسام یا عضویوں (organisms) میں وائرس سب سے چھوٹے ہوتے ہیں۔ جراثیم (bacteria) سے بھی اتنے زیادہ چھوٹے کہ عام خوردبین (microscope) سے تو نظر ہی نہیں آتے۔ انفلوئینزا، پولیو، نزلہ، زکام اور چیچک جیسی بیماریاں وائرس سے ہی پھیلتی ہیں۔
وائرس نسبتاً کسی بڑے نامیاتی جسم کے زندہ خلیہ میں ہی اپنی افزائش نسل کرسکتا ہے۔ ایک مرتبہ وائرس اگر خلیہ میں داخل ہو جائے تو پھر یہ اس میزبان خلیہ کو تباہ و برباد کرنے یعنی اسے مار دینے اور اس کے افعال کو تبدیل کر کے رکھ دینے میں قطعاً تکلف سے کام نہیں لیتا۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ وقتی طور پر اس میں داخل ہو کر ’سوجائے‘۔ جب ایسا ہوتا ہے تو وائرس میزبان خلیہ میں بدستور چھپا پڑا رہتا ہے اور برسوں اور کبھی کبھی بہت طویل عرصہ تک کوئی فعل بھی انجام نہیں دیتا۔
انسان بڑی تعداد میں خون کے سفید خلیوں سے لیس ہوتا ہے۔ یہ سفید خلیے قطار در قطار قسم کی صف بندی کے ذریعہ جسم میں داخل ہونے والے وائرس جیسے حملہ آوروں سے جسم کا دفاع کرتے ہیں۔ اس دفاعی نظام میں اگلی صف گند خور خلیوں (scavenger cells) پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ گند خور خلیے بون میرو (bone marrow یعنی ہڈیوں میں پایا جانے والا گودا) میں تیار ہوتے ہیں اور زیادہ تر جسمانی بافتوں (body tissues) میں پائے جاتے ہیں۔ حملہ آوروں کو پہچاننے، انھیں اپنے حلقہ میں لے کر نگلنے اور کھا جانے کے لیے یہ گند خور موجود رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ دیگر بیرونی چیزوں اور خلوی ملبوں (cell debris) کو بھی ہڑپ جاتے ہیں۔ جسم میں کافی عرصہ تک برقرار رہنے والے کچھ خاص قسم کے گند خور خلیے بھی ہوتے ہیں جنھیں میکروفیج (macrophages) کہا جاتا ہے۔ HIV ان میکروفیج خلیوں میں تعدیہ پھیلا دیتے ہیں، یعنی ان میں سرایت کر جاتے ہیں اور پھر وہاں سے دیگر جسمانی خلیوں میں بھی تعدیہ (چھوت، infection) پھیلاسکتے ہیں۔
بیماری پھیلانے والے حملہ آور عضویوں کے خلاف پہلا جسمانی دفاعی نظام ان میکروفیج گند خوروں پر مشتمل ہوتا ہے: یہ لمفی خلیوں (lymphocytes) کو اشارہ کر کے مزید امدادی ٹکڑیاں منگواسکتے ہیں۔ یہ گند خور خلیے اور لمفی خلیے مل کر ہی جسمانی مامونیت کے نظام (body’s immune system) کا بڑا حصہ تشکیل دیتے ہیں۔ ان خلیوں کی مناسب کارکردگی کے طفیل ہی ہم نہایت خطرناک متعددی وائرس اور جراثیم سے پر اس دنیا میں اپنا وجود برقرار رکھتے یعنی زندہ سلامت رہتے ہیں۔
بیماری پھیلانے والے نامیاتی اجسام (organisms) کے خلاف مامونیت سے پر جوابی قدم اٹھوانے کے اصل محرک یہی لمفی خلیے ہوتے ہیں۔ ان خلیوں کو دفاع کرنے والی ایسی عمدہ اور خصوصی ٹیم قرار دیا جاسکتا ہے جو پورے جسم اور خون میں پیٹرولنگ کرتی رہتی ہیں (سرگرداں رہتی ہیں ) اور وائرس جیسے چوری چھپے جسم میں داخل ہونے والوں پر نگاہ رکھتی ہے۔ دورہ کرتے رہنے والے یہ لمفی خلیے زیادہ تر T- خلیوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان خلیوں میں چوری چھپے جسم میں داخل ہونے والے نامیاتی اجسام کی حیات کیمیائی پہچان (biochemical identity) کو شناخت کر لینے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ T-خلیے جب بھی کسی حملہ آور کو دیکھتے ہیں تو لمفی خلیوں کی ٹیم کے دوسرے حصے یعنی B-خلیوں کو ایسے پری سیژن پروٹین (precision proteins) تیار کرنے کی ہدایت کرتے ہیں جنھیں اینٹی بڈی (anti bodies) کہا جاتا ہے۔ یہ اینٹی بڈی اس وائرس سے چسپاں ہو کر اس کا اثر زائل کر دیتے ہیں۔ یہ بات ملحوظ رکھیں کہ ایک اینٹی بڈی صرف ایک مخصوص وائرس کی ہی پہچان کرسکتا ہے۔
T-لمفی خلیے نہ صرف یہ کہ B-خلیوں کی مدد کرتے ہیں اور اینٹی بڈیز (anti bodies) بناتے ہیں بلکہ ہمارے جسم میں بیماریوں کے تئیں موافقت پیدا کرنے کے لیے دیگر نازک کام بھی انجام دیتے ہیں۔ T۔ خلیوں کا ذیلی گروپ یعنی T4 ہیلپر خلیے انفیکشن کے خطرہ کے تئیں جسمانی مامون (body’s immune) جوابی اقدامات کرنے کے کام میں کلیدی معاون کردار ادا کرتے ہیں۔ وائرسوں میں منفرد مقام کا حامل HIV اپنے آپ کو ان مددگار خلیوں میں داخل کر لیتا ہے اور پھر مہینوں اور برسوں کی مدت میں انھیں تباہ کر دیتا ہے۔ جب یہ سب کچھ ہو جاتا ہے تو مامونی نظام میں پیغام رسانی یعنی آپس میں رابطہ قائم کرنے والا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور پھر ایسے شخص میں کسی بھی طرح کے انفیکشن سے مزاحمت کرنے کی صلاحیت رفتہ رفتہ ختم ہوتی چلی جاتی ہے۔
یہ T-ہیلپر خلیے نظامِ مامونیت میں گویا ایک ’مشن کنٹرول‘ انجام دیتے رہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ خلیے T-خلیوں کے ایک دوسرے ذیلی گروپ کے فعل میں باقاعدگی پیدا کرتے ہیں۔ اس ذیلی گروپ سے تعلق رکھنے والے ان T-خلیوں کو مہلک T-خلیے (killer T-cell) کہتے ہیں۔ یہ مہلک T-خلیے ماہر قاتل ہوتے ہیں اور اگر ان پر لگام نہ کسی جائے، یعنی اگر انھیں ان کے حال پر ہی چھوڑ دیا جائے تو نہ صرف یہ متعددی خلیوں کو مار ڈالیں گے بلکہ ان تندرست خلیوں کا بھی صفایا کر ڈالیں گے جو جسمانی افعال انجام دینے میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اپنا کام انجام دینے کے لیے ان مہلک خلیوں میں اتنی صلاحیت تو ہونی ہی چاہیے کہ متعددی اور غیر متعدد خلیوں (infected or uninfected cells) میں تمیز کرسکیں۔ اور جب ان کا کام ختم ہو جائے، یعنی جب وائرس شکست سے ہم کنار ہو جائیں، تو جسم کے ذریعہ ان مہلک خلیوں کی فراہمی میں واضح کمی آئے۔ T4 ہیلپر خلیے دونوں طرح کے کام انجام دینے والے آلۂ کار قرار دیے جاسکتے ہیں۔
یہ بات ابھی تک سمجھ میں نہیں آ پائی ہے کہ ایڈس کے وائرس T-ہیلپر خلیوں میں کس طرح داخل ہو جاتے ہیں۔ HIV کے دورانِ خون میں داخل ہو کر بلاواسطہ طور پر (directly) ہیلپر خلیوں میں تعدیہ پیدا کرسکتے ہیں یا متبادل طور پر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ پہلے اسکاویجنگ میکروفیج (scavenging macrophage) خلیوں میں تعدیہ پھیلا دیتے ہوں اور پھر وہاں سے ہیلپر خلیوں میں داخل ہو جاتے ہوں۔ ابھی حال ہی میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ HIV ممکنہ طور پر ایک دوسرے قسم کے جسمانی خلیوں کو تعدیہ میں مبتلا کرسکتا ہے۔ ان جسمانی خلیوں کو لیجر فونس خلیے (lagerphones cells) کہا جاتا ہے اور یہ مخاطی جھلی (mucus membrance) میں موجود ہوتے ہیں اور منہ، پھیپھڑوں، تناسلی (genital) اور مبرزی علاقوں (anal regions) اور آنکھ کے مشفف (cornea) میں انھیں کی لائننگ (lining) ہوتی ہے۔ یہ خلیے بھی HIV کے ذخیرہ (reservoir) کی حیثیت سے کام انجام دیتے ہیں اور انجام کار انھیں سے T-ہیلپر خلیوں میں انفیکشن پھیل جاتا ہے۔
اب T-ہیلپر خلیوں میں تعدیہ یا انفیکشن پھیلنے کے واقعات کسی بھی تسلسل یا تواتر (sequence) میں ظہور پذیر کیوں نہ ہوتے ہوں، بہرحال اس کا تباہ کن نتیجہ ایڈس کی ہی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ تعدیہ میں مبتلا ہیلپر خلیوں میں HIV ریپلی کیٹ (replicate/ اپنا مثنّٰی تیار کرنا) کرتا ہے اور انھیں مارکر کالونی کی شکل میں پھوٹ پڑتا ہے اور اس سے بھی زیادہ خطرناک صورت اختیار کر لیتا ہے۔ یہ بات ابھی تک بھی واضح نہیں ہو پائی ہے کہ آخر تباہ کن انداز میں انھیں وائرل ریپلی کیشن کے پھوٹ پڑنے کی تحریک کہاں سے ملتی ہے۔ اس ضمن میں ایک ناگوار نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ جب جسم نئی بیماری کے خطرہ سے نمٹنے کے لیے جوابی اقدامات کر رہا ہوتا ہے تو اسی دوران سویا ہوا ایڈس کا وائرس جاگ کر فعال بن جاتا ہے اور اپنی آبادی بڑھانے لگتا ہے۔ T-خلیوں میں تقسیم کے عمل میں تحریک پیدا کر کے باقی تمام مامونی نظام (immune system) کو کارروائی کرنے پر مجبور کرنے والے حیات کیمیائی سگنل (biochemical signal) کا اثر الٹا بھی پڑسکتا ہے یعنی وہ مذکورہ بالا کارروائی کا سبب بننے کے برعکس ایڈس کے وائرس کے ریپلی کیٹ ہونے کا سبب بن جاتا ہے اور اس عمل کے دوران وہ T-ہیلپر خلیہ ہی ختم ہو جاتا ہے جو مامونی ردِّ عمل (immune response) میں معاون ہوتا ہے۔
HIV کے تئیں اینٹی بڈیز کی بے اثری (The ineffectiveness of antibodies to HIV)
آخر کیا سبب ہے کہ محققین اس نتیجے پر کیوں پہنچتے ہیں کہ B-لمفوسائٹس کے ذریعہ تیار کردہ اینٹی بڈیز HIV کے ضمن میں بے اثر ثابت ہوتے ہیں ؟ عموماً ہوتا یہ ہے کہ جب کوئی اینٹی بڈی کسی خاص وائرس کی تکثیر (multiply) ہونے کا عمل روک دیتا ہے تو پھر B-خلیے بھی اس اینٹی بڈی کو تیار کرنا بند کر دیتے ہیں۔ لیکن وہ اس بات کو یاد رکھتے ہیں کہ یہ اینٹی بڈی کس طرح تیار کیا جاتا ہے اور اگر اسی قسم کے وائرس پھر دوبارہ جسم پر حملہ آور ہوں تو وہ اس اینٹی بڈی کو فوراً تیار کر لیتے ہیں۔ دراصل اینٹی بڈیز اور انھیں پیدا کرنے والے خلیوں کو گزشتہ حملہ آوروں کے تئیں انسانی جسم کی یادداشت قرار دیا جاسکتا ہے یعنی خون میں کسی خاص اینٹی بڈی کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ وہ خاص وائرس کبھی وہاں موجود تھا۔ اگر یہ وائرس پھر نئے سرے سے حملہ آور ہو جائے تو یہ جسمانی یادداشت اس حملہ کے خلاف ایک نہایت طاقت ور اور کبھی کبھی تو ناقابل تسخیر دفاعی اقدامات کرتی ہے۔
کوآرڈی نیٹیڈ (co-ordinated) T اور B کی لمفوسائٹ ڈفینس ٹیم میں کافی اینٹی بڈیز ہوتے ہیں اور وہ ان حملہ آور وائرسوں کو کچل ڈال سکتے ہیں۔ مگر اسی دوران یہ وائرس بھی جسم میں اپنی آبادی بڑھاتے رہتے ہیں اور جسمانی خلیوں کی کیمسٹری تبدیل کر کے آدمی کو بیماری میں مبتلا کرتے رہتے ہیں۔ اگر لمفو سائٹس تیزی سے کام کریں تو ان کے ذریعہ تیار کردہ اینٹی بڈیز وائرسوں کو کچل ڈالیں۔ خون میں اینٹی بڈیز کی موجودگی کو عموماً ایک صحت مند علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ لمفوسائٹس، وائرل حملہ کے خلاف جوابی اقدامات کر رہے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کر پائیں تو حملہ آور وائرس یا تو اپنے شکار کو بری طرح نقصان پہنچائیں گے یا پھر اسے ختم ہی کر ڈالیں گے۔
حالاں کہ HIV کے ذریعہ پیدا کردہ انفیکشن کے ساتھ ہی ساتھ جسم میں ایچ آئی وی مخالف اینٹی بڈیز کی پیداوار بھی شروع ہو جاتی ہے، مگر اس سے وائرس کے اثر کا توڑ ہوتا نظر نہیں آتا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جسم میں اپنی موجودگی کے دوران زیادہ تر وقت کے لیے اپنے آپ کو اینٹی بڈیز سے چھپائے رکھنے میں کامیاب رہتا ہے اور ان T-خلیوں، میکروفیجیز یا دیگر خلیوں میں چھپا رہتا ہے جنھیں انفیکشن میں مبتلا کیے رہتا ہے۔ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایچ آئی وی سے جو تھوڑے بہت T-خلیے متاثر ہوتے بھی ہیں وہ نظامِ مامونیت کو زبردست نقصان پہنچانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ کچھ وائرولوجسٹ (virologists) اس خیال کے حامل ہیں کہ جن T-خلیوں کو یہ انفیکشن میں مبتلا کرتا ہے ان میں سے ہی HIV ایسے پروٹینس (proteins) خارج کرتا ہے جو صحت مند ٹی خلیوں کی جھلی سے چپک جاتے ہیں۔ چپکے ہوئے ان وائرل پروٹینوں سے دھوکا کھا کر ایچ آئی وی مخالف اینٹی بڈیز بھی انھیں T-خلیوں پر جھنڈ کی شکل میں جمع ہو جاتے ہیں اور انجام کار اس عمل کے دوران تباہ ہو جاتے ہیں۔
حالانکہ یہ اینٹی بڈیز جسم میں سے HIV کو تو ختم نہیں کر پاتے مگر خون ٹیسٹ کر کے ان HIV مخالف اینٹی بڈیز (یعنی وہ اینٹی بڈیز جنھیں HIV کی مخالفت کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور جنھیں ماہرانِ مامونیت (immunologists) �HIV مخالف اینٹی بڈیز کہتے ہیں ) کی موجودگی کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ اب کیوں کہ بذاتِ خود وائرس کا پتہ لگانا بے حد دشوار کام ہے اس لیے HIV کے تئیں اینٹی بڈیز کا پتہ لگانا ہی اس بات کا معیار مقرر کرتا ہے کہ آیا کوئی شخص HIV بردار (HIV-career) ہے یا نہیں۔ اگر اس ضمن میں کی جانے والی جانچ سے یہ پتہ چل جائے کہ خون میں HIV اینٹی بڈیز موجود ہے تو ایسے شخص کو HIV-پازیٹیو (HIV-positive) یا سیرو پازیٹیو (seropositive) کہا جاتا ہے۔
HIV-پازیٹیو بلڈ ٹیسٹ کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ شخص ایڈس میں بھی مبتلا ہے۔ اس لیے اسے ایڈس کے ٹیسٹ (AIDS-test) سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی حالاں کہ غلطی سے اسے یہی سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب تو صرف یہ ہوتا ہے کہ اس مرد یا عورت کے خون میں HIV مخالف اینٹی بڈیز موجود ہیں۔ اب کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ ان اینٹی بڈیز سے یہ وائرس ختم نہیں ہو پاتے تو وائرولوجسٹ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ جس شخص کے جسم میں HIVمخالف اینٹی بڈیز موجود ہوں اس شخص کو AIDS لاحق ہونے کا خطرہ موجود ہے اور یہ کہ وہ کسی بھی وقت ایڈس میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
ایڈس: بیماری
ایڈس کا وائرس رفتہ رفتہ جسم کا مامونی نظام بیمار کر دیتا ہے۔ اس تعدیہ میں مبتلا شخص (infected person) تقریباً کسی بھی انفیکشن کا ہدف بن سکتا ہے۔۔ یعنی اس پر کوئی دوسرا وائرس، جرثومہ (bacteria)، فنگس (fungus) یا طفیلہ (parasite) حملہ آور ہوسکتا ہے۔ یہ موقع پرستانہ انفیکشن (opportunistic infections) زیادہ تر جلد (skin)، پھیپھڑوں، نظامِ ہاضمہ، عصبی نظام اور دماغ میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اس میں مبتلا مرد یا عورت طویل عرصہ تک بیماریوں اور امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جہاں تک لمبے علاج و معالجہ کی بات ہے تو، مثال کے طور پر جیسے نمونیہ کی ہی بات کریں تو، پہلے تو علامات کچھ کم ناگوار ہوتی نظر آتی ہیں مگر بہرحال انجام یہی ہوتا ہے کہ ایڈس کا مریض عموماً بیماری کی تشخیص ہو جانے کے دو یا تین برس بعد لقمۂ اجل بن جاتا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ معاون عوامل (co-factors) جیسے دیگر تعدیے (infections)، نشہ آور ادویہ کا استعمال، صنفی طرزِ عمل (sexual behaviour) (جس میں ایک سے زیادہ مجامعت کار بھی آتے ہیں ) اور شاید کہ ممکنہ قرارِ حمل سے HIVانفیکشن میں مزید تیزی پیدا ہوسکتی ہے اور مریض کی حالت ایک اسٹیج کو عبور کر کے تیزی سے دوسری اسٹیج پر آسکتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ان باتوں سے وائرس کو ریپلی کیٹ ہونے کی تحریک ملتی ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ خلیوں کو انفیکشن (تعدیہ) میں مبتلا کرتا چلا جاتا ہے۔
نظریاتی طور پر (مگر ہمیشہ ہی عملاً نہیں ) HIVانفیکشن کو فروغ پانے میں پانچ حالتوں سے گزرنا ہوتا ہے۔ عالمی تنظیم برائے صحت (WHO) اور ریاست ہائے متحدہ (US) کے سینٹرس فار ڈزیزز کنٹرول(CDC) دونوں نے ہی ایڈس کی کیس ڈیفینیشن (case definition )پیش کی ہے۔ یہ ایسے رہنما خطوط ہیں جو ایسے ڈاکٹروں کے کام آتے ہیں جو AIDS کی تشخیص کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ CDC کیس ڈیفنیشنکو 1987 میں مزید وسعت دی گئی اور ان میں ڈی منیشیا (dementia) اور طویل عرصہ سے رونما ہونے والی وزن کی کمی جیسی علامات کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ یہ پانچ حالتیں مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ ابتدائی ایچ آئی وی انفیکشن
2۔ PGL: مستقل طور پر بڑھا ہوا لمف گلینڈ(Persistantly enlarged lymp gland)
3۔ ARC: ایڈس سے متعلقہ پیچیدگی (AIDS related complex)
4۔ شباب پر آیا ہوا AIDS
5۔ AIDS dementia (لفظی طور پر کہا جائے تو ایڈس کا جنون )
اس تعدیہ میں مبتلا ہر شخص کا ان تمام حالتوں سے گزرنا ضروری نہیں ہے۔ کچھ مریض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ شباب پر آئے ہوئے ایڈس سے قبل بظاہر کسی بھی علامت کا اظہار نہیں ہونے دیتے۔ دیگر کچھ امراض گلے میں بڑھے ہوئے غدود کے علاوہ اور کسی بھی علامت کا اظہار کیے بغیر مہینوں بلکہ برسوں زندہ رہ سکتے ہیں۔
حال ہی میں یو ایس نیشنل اکیڈمی آف سائنس نے ایڈس پر اپنی دوسری مستند رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ PGL اور ARC والی اصطلاحات کا استعمال اب سائنسی طور پر کسی مصرف کا نہیں رہ گیا ہے کیوں کہ ان سے ڈاکٹروں کو اس بات کی پیشین گوئی کرنے میں قطعاً کوئی مدد نہیں ملتی کہ ایچ آئی وی کے تعدیہ میں مبتلا کوئی شخص ایڈس میں مبتلا ہو جائے گا یا نہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیروپازیٹو شخص کا انفیکشن جس حد تک نمو پاچکا ہوتا ہے اس کا علم تو مامونیت کی نا کردگی کا تخمینہ لگانے والے لیباریٹری ٹیسٹ اور علامات کو یکجا کر کے زیادہ بہتر طور پر اور زیادہ ٹھیک انداز میں لگایا جاسکتا ہے مگر جہاں تک اس مختصر دستاویز میں PGL اور ARC والی اصطلاحات کا تعلق ہے تو ان سے ایک اناڑی شخص کو بھی ایڈس اور ایچ آئی وی انفیکشن سے وابستہ علامات کی اقسام کا پتہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے۔
تمام پانچوں مراحل (stages) کی مخصوص علامات کو ذیل میں مختصراً بیان کیا گیا ہے۔ یہ زیادہ تر شمالی امریکہ اور یورپی تجربات پر مبنی ہیں : دنیا کے مختلف حصوں میں سنڈروم (syndrome) کے پھیلاؤ میں بڑے تغیرات دکھائی دیتے ہیں اور ترقی پذیر ممالک میں ایڈس کے مریضوں کو لمبی کھوج بین پر مبنی اطلاعات بہت کم حاصل ہو پاتی ہیں۔
ابتدائی ایچ آئی وی انفیکشن (Initial HIV Infection)
ایچ آئی وی کے جسم میں داخل ہونے کے چند ہفتوں کے دوران کچھ لوگ عارضی طور پر اپنے آپ کو سیروکنورژن علالت (seroconversion illness) میں مبتلا محسوس کرتے ہیں جو گلینڈولر فیور (glandular fever) یا غدودی بخار یعنی (infectious mononucleosis) سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ اس دوران نظامِ مامونیت ایچ آئی وی کے خلاف اینٹی بڈیز تیار کرتا ہے اور وہ اس وائرس پر قابو پانے میں ناکام رہتا ہے۔ اس کے بعد مہینوں اور برسوں پر بسیط وہ موت شروع ہو جاتی ہے جس میں اور کوئی علامت تو ظاہر نہیں ہوتی مگر یہ شخص اس وائرس کی دیگر افراد میں ترسیل کرنے کا اہل ہو جاتا ہے۔
PGL (جس کا مطلب ہے Persistent Generalized Lymph Adonopathy): گردن، بغلوں یا جانگھ میں بڑھے ہوئے لمف گلینڈ (lymph glands) سے اس بیماری کے دورہ کی شروعات ہوسکتی ہے اس کے بعد جو سلسلہ شروع ہوتا ہے اس میں بخار، رات کو پسینہ، وزن کی کمی، منہ کے چھالے (قلاع) (منہ کے اندر ایک فنگسی انفیکشن) شامل ہوسکتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بہت سے لوگوں کے لیے یہ علامات آگ کا کام کرتی ہیں اور وہ فوراً ہی ڈاکٹر کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ مگر تیسری دنیا والے حالات میں رہنے والے لوگوں کے لیے اس قسم کی علامات ناقابل شناخت ہوتی ہیں اور ان علامات اور عام انفیکشن میں کسی قسم کا امتیاز نہیں کیا جاتا اور پھر یا تو کوئی علاج ہی موجود نہیں ہوتا یا پھر اس کی طرف شاذ و نادر ہی توجہ دی جاتی ہے۔
ARC (جس کا مطلب ہے ایڈس سے متعلقہ پیچیدگی، AIDS Related Complex): ایڈس کا وائرس اب تک نظامِ مامونیت کو کافی حد تک تباہ کر چکا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ موقع کی تلاش میں لگے ہوئے کئی اور انفیکشن بھی لاحق ہو جاتے ہیں۔ ان علامات میں تھکاوٹ، ناقابل بیان قسم کے دست جو ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصہ تک آتے رہتے ہیں، 10فیصد سے بھی زیادہ جسمانی وزن زائل ہو جانا، بخار اور رات کو پسینے آنا جیسی باتیں شامل ہوتی ہیں۔ منہ کے چھالے، PGL یا تلی بھی بڑھتی ہے۔
شباب پر آیا ہوا ایڈس (Full-blown AIDS): نظامِ مامونیت درہم برہم ہونے لگتا ہے۔ زندگی کے لیے خطرناک قرار دیے جاسکنے والے انفیکشن لاحق ہو جاتے ہیں۔ مختلف ممالک میں مختلف لوگوں کے لیے یہ علامات مختلف ہوتی ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں پیراسائٹک نیوموسسٹس کیری نائی (parasitic pneumocystis carinii) کے ذریعہ ہونے والا نمونیا ایک عام سی بات ہے، یا پھرایسے مریضوں کو جلد کو متاثر کرنے والا کینسر ہوسکتا ہے جسے کیپوسینز سیرکوما (Kaposi’s Sarcoma) کہتے ہیں۔ افریقہ کے کچھ حصوں میں مریضوں میں ایک تباہ کن حالت پیدا ہو جاتی ہے جسے سلم ڈزیز (slim disease) کہتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مسلسل طور پر دست بھی آتے رہتے ہیں۔ ایڈس کے مریض عموماً بے حد دبلے پتلے اور انتہائی تھکے ماندے نظر آتے ہیں اور مختلف قسم کے تعدیوں (infections) میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جیسے شنگلس (shingles)، تھرش (thrush)، ہرپس (herpes) اور ٹیوبرکلوسس (tuberclosis, TB)۔ شباب پر آیا ہوا ایڈس ہمیشہ ہی مہلک ثابت ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو بھی تشخیص کے ذریعہ اس میں مبتلا پایا گیا وہ تین یا چار سال سے زیادہ زندہ نہیں رہ پائے۔
ایڈس ڈی مینیشیا (یا ایڈس ڈی مینیشیا کامپلیکس) (AIDS Demetia (or AIDS Demenitia Complex)): ایڈس کا وائرس اس بلڈ برین بیرئیر (blood-brain barrier) سے بھی گزر جاتا ہے جو ایسی اشیا کو عموماً چھان کر الگ کر دیتی ہے جن سے دماغ کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے۔ اگر ایک مرتبہ یہ وائرس اس رکاوٹ کو پار کر جائے تو پھر ایچ آئی وی دماغ کے کچھ خلیوں کو تباہ کر دیتا ہے اور مریض میں معمولی ابہام (mild confusion)، یادداشت چلی جانا (memory loss)، برے برے خیالات آنا (deteriorating thought processes) اور شخصیت میں آنے والی تبدیلی کا مظہر غیرمناسب طرز عمل، قبل از وقت سٹھایا جانا اور طبیعت کا عیاشی کی طرف مائل ہونا جیسی علامات پائی جانے لگتی ہیں۔ اس مرض میں مبتلا نوجوانوں کی طرف، جب تک وہ زندہ رہیں، بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایڈس کے مریضوں کی اکثریت میں کچھ ایسی علامات بھی ظاہر ہوتی ہے جن میں اعصاب اور دماغ ملوث دکھائی دیتے ہیں اور اس قسم کی رپورٹیں بھی موجود ہیں کہ پورے طور پر شباب پر آئے ہوئے ایڈس سے قبل مریضوں میں نیورولوجیکل علامات پیدا ہو جاتی ہیں۔ مگر عالمی تنظیم برائے صحت (WHO) کے تحت یکجا ہونے والے بین الاقوامی ماہرین کو ایسے شواہد نہیں ملے ہیں کہ ایڈس کے ظاہر ہو جانے سے قبل مریضوں میں دماغی خلل پیدا ہو جاتا ہو۔
اینٹی بڈیز کی جانچ کرنا (Testing for antibodies)
کسی بھی نئے وائرس سے مقابلہ کرنے کے لیے جسم اپنا دفاع خود کرتا ہے اور نہایت صداقت سے تیار کردہ ایسے پروٹین بنا لیتا ہے جنھیں اینٹی بڈیز (انھیں اردو میں ضدحیات بھی کہتے ہیں ) کہا جاتا ہے۔ ان اینٹی بڈیز کی موجودگی سے پتہ چل جاتا ہے کہ جسم میں کبھی نہ کبھی کوئی انفیکشن ضرور پیدا ہوا ہو گا (یعنی جن کے خلاف یہ اینٹی بڈیز تیار کیے گئے تھے)۔ ہماری عمر جیسے جیسے بڑھتی ہے ویسے ویسے ہی ہم اینٹی بڈیز کی چلتی پھرتی ایسی فہرست بن جاتے ہیں، جسے پڑھ کر یہ پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمیں آج تک کون کون سے تعدیے لاحق ہوئے ہیں۔ یہ ایک عام خیال ہے کہ جن جن لوگوں کو ایچ آئی وی میں مبتلا ہونا پڑا ہے تقریباً ان تمام میں ہی اس ایچ آئی وی کے خلاف اینٹی بڈیز ضرور پیدا ہوئے ہیں۔
خون میں ان ایچ آئی وی کی موجودگی کا پتہ لگانے کے سلسلے میں مختلف قسم کے ٹیسٹ فروغ دیے گئے ہیں، خصوصاً ریاست ہائے متحدہ، برطانیہ عظمیٰ، فرانس اور نیدرلینڈس میں اس سلسلے میں بہت زیادہ کام کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے 1983 میں جس قسم کے ٹیسٹ فروغ دیے گئے انھیں تجارتی طور پر 1984 میں فراہم کرایا گیا۔ ان میں سے کسی کو بھی اتنا حتمی قرار نہیں دیا جاسکتا جیسا کہ آج کل استعمال ہونے والے ELISA اور Wester Blot کے ضمن میں کہا جاسکتا ہے۔
ایچ آئی وی میں مبتلا اجسام اوسطاً چھ ہفتوں سے لے کر تین مہینوں کے دوران ایچ آئی وی کے لیے اینٹی بڈیز تیار نہیں کر پاتے۔ مریضوں کے خون میں وائرس موجود ہوتا ہے مگر خون کے ٹیسٹ سے اس کا پتہ نہیں لگ پاتا کیوں کہ یہ ٹیسٹ اس انداز میں ڈیزائن کیے جاتے ہیں کہ وہ بذاتِ خود ایچ آئی وی کے بجائے ایچ آئی وی اینٹی بڈیز کی موجودگی ہی رجسٹر کر پاتے ہیں۔ اس لیے جو شخص حال ہی میں اس تعدیہ میں مبتلا ہوا ہو اگر اس کے خون کا ٹیسٹ کیا جائے تو اس سے غلط اور منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ البتہ ٹیسٹنگ ٹیکنالوجی میں بہتری آنے کی وجہ سے اس جانب کھلنے والی وقت کی کھڑکیے تنگ ہوتی چلی جا رہی ہے۔ یعنی غلط نتائج برآمد ہونے کی مدت کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ لوگوں کی ایک قلیل تعداد ایسی بھی ہے کہ ان کے جسم میں وائرس چھپا ہونے کے باوجود بھی ایچ آئی وی کے خلاف کوئی اینٹی بڈی تیار نہیں ہو پاتا۔
اکثر ایسی سائنٹفک رپورٹیں بھی ملی ہیں کہ جن لوگوں کے یہاں پہلی مرتبہ ٹیسٹ کرنے پر ایچ آئی وی اینٹی بڈیز کی موجودگی کا پتہ چلا تھا جب ان کا خون بعد میں ٹیسٹ کیا گیا تو یہ اینٹی بڈیز موجود ہی نہیں تھے اور وہ ختم ہو چکے تھے۔ اس وائرس کا ٹیسٹ کے ذریعہ پتہ لگا لینا ممکن تو ہے مگر ایک تو یہ ایک بہت مہنگا ہے دوسرے بڑا بے ڈھنگا اور مشکل بھی۔ اس لیے یہ طریقہ ابھی تک تجارتی طور پر عملی نہیں بن سکا ہے۔ تاہم حال میں خون میں ایچ آئی وی کی موجودگی کا پتہ لگانے کا ایک طریقہ فروغ دیا گیا ہے جسے پالیمرائز چین ری ایکشن (Polymerize chain reaction) کہا جاتا ہے۔ عنقریب یہ ٹیسٹ پوری دنیا میں مہیا کرا دیا جائے گا اور اس سے یہ پہلے ہی ثابت ہو چکا ہے کہ کچھ معاملات میں لوگوں کے یہاں یہ وائرس تو موجود ہے مگر ان کے جسم میں اس کے خلاف کوئی اینٹی بڈی تیار نہیں ہو پا رہا ہے یعنی ان کے یہاں جب معیاری اینٹی ایچ آئی وی، اینٹی بلڈ ٹیسٹ انجام دیے جاتے ہیں تو ان کا نتیجہ سیرو نیگیٹیو (seronegative) برآمد ہوتا ہے۔
خون کے کچھ ٹیسٹ غلط مثبت نتیجے بھی فراہم کرسکتے ہیں۔ ان سے یہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں کہ اس شخص کے یہاں یہ وائرس موجود ہے، جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اس مرد یا عورت کے یہاں یہ وائرس موجود ہی نہیں ہوتا۔ ایک یو ایس رپورٹ سے یہ پتہ چلا کہ غلط مثبت اندراجات زیادہ تر وہاں برآمد ہوسکتے ہیں جہاں ایسی آبادی سے خون کے نمونے لیے گئے ہوں جہاں ایچ آئی وی کی موجودگی بہت ہی کم ہوتی ہے۔ زیادہ تر غلط مثبت نتائج کا سہرا اس میڈیکل اسٹاف کی مہارت اور تجربہ کے سر جاتا ہے جو اس قسم کا تجزیہ کرتا ہے۔
گرم ممالک میں کی جانے والی ٹیسٹنگ (Testing in Tropics)
مگر اب تک سب سے بڑا مسئلہ گرم ممالک میں کی جانے وائی جانچ سے غلط مثبت نتائج (false positive results) برآمد ہونا ہے۔ گرم ممالک میں زیادہ تر ہوتا یہ ہے کہ وہاں کی گرم آب و ہوا سے خون کے نمونوں میں بے ارادہ طور پر جراثیمی آلودگی (bacterial contamination) پیدا ہو جاتی ہے۔ اس قسم کے نمونوں سے زیادہ تر غلط نتائج ہاتھ لگنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کیوں کہ وہ کچھ چپچپے (sticky) ہو جاتے ہیں، جیسا کہ ذخیرہ شدہ (stored) اس خون کے ساتھ ہوتا ہے کہ جسے بار بار جمایا اور پگھلایا جاتا ہے۔
پھر یہ بھی ہے کہ گرم ممالک کے دیہی علاقوں میں لوگ بیک وقت اور اکثر کئی طرح کے تعدیوں میں مبتلا رہتے ہیں، جیسے کہ ملیریا، شسٹوسومیاسس (schistosomiasis)، ٹیوبرکلوسس دیگر قسم کی گرمی تعدیے (worm infections)۔ ایسی حالت میں ایچ آئی وی اینٹی بڈیز کے اندراجات کی تشریح کا مسئلہ اور بھی دشوار ہو جاتا ہے اور اس سے صداقت متاثر ہوتی ہے۔ اب کیوں کہ اس قسم کے لوگوں میں جو کئی کئی تعدیوں میں مبتلا ہوں نظام ہائے مامونیت (immune systems) دیرینہ طور پر (chronically)، عاملانہ حالت (activated state) میں ہوتے ہیں، اس لیے ایچ آئی وی اینٹی بڈی ٹیسٹ کے نتائج بے حد و حساب اینٹی بڈی شور (noise) میں گڈمڈ ہو جاتے ہیں۔
1980کی نصف دہائی میں افریقی خون کے نمونوں پر جو ایچ آئی وی اینٹی بڈی ٹیسٹ کیے گئے ان نتائج میں زیادہ تر غلط مثبت نتائج (false positive results) ہی برآمد ہوئے۔ کچھ لوگوں نے یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ اس قسم کے ٹیسٹ افریقی پس منظر میں کسی کام کے نہیں۔
ان چپچپے (sticky) یا پر شور (noisy) خون کے نمونوں کو ٹیسٹ کر کے یقینی طور پر صحیح اندراجات (readings) حاصل کرنے کا کام انجام دینے کے کئی طریقے ہیں۔ امریکی طریقہ تو یہ ہے کہ جو نمونہ پہلے ٹیسٹ کے نتیجہ میں سیروپازیٹیو دکھائی دے اسے دوسری مرتبہ پھر ٹیسٹ کیا جائے۔ اس طرح کی تصدیق کرنے والے ٹیسٹ کو ویسٹرن بلوٹ (Western Blot) کہتے ہیں۔ صرف انھیں نمونوں کو حقیقی مثبت تسلیم کیا جاتا ہے جن میں دونوں مرتبہ ٹیسٹ کرنے پر ایچ آئی وی مخالف اینٹی بڈیز کی موجودگی کی تصدیق ہو جاتی ہے۔
دوسرا طریقہ برطانوی کھوج بین کرنے والوں نے پیش کیا ہے۔ وہ اس بات سے متفق ہیں کہ دو مرتبہ ٹیسٹ کرنے کا امریکی طریقہ صرف ایک مرتبہ ٹیسٹ کرنے کے طریقے سے بہتر ہے۔ مگر ذرا سوچیے کہ دو مرتبہ کیے جانے والے امریکی ٹیسٹ یکساں ہونے کے سبب اس بات کی گارنٹی نہیں ہیں کہ شرارت آمیز خون کے نمونوں (tricky blood simples) کا دو مرتبہ ٹیسٹ کرنے پر بھی غلط مثبت نتائج برآمد نہ ہوں (خصوصاً گرم ممالک میں )۔ برطانوی طریقہ میں صرف یہی نہیں کہ خون کا نمونہ دو مرتبہ ٹیسٹ کیا جاتا ہے بلکہ ٹیسٹ کرنے کے طریقے بھی مختلف ہیں (یکساں نہیں ہیں ) اسی طرح پہلے ٹیسٹ میں اگر کچھ کمی رہ جاتی ہے تو اس کی تلافی دوسرے ٹیسٹ میں ہو جاتی ہے۔ خون میں ایڈس کے لیے اینٹی بڈیز کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے کیا جانے والا ٹیسٹ ایک پیچیدہ عمل ہے اور دیگر تشخیصی ٹیسٹ کی طرح یہاں حاصل ہونے والے نتائج میں بھی غلطی کے امکانات موجود ہیں۔ تاہم ایچ آئی وی اینٹی بڈی کی موجودگی کا پتہ لگانے والی کٹ کو تین سال تک استعمال کرتے رہنے کے دوران ان میں اثر پذیری (sensitivity) اور خصوصیت (specificity) پیدا کر دی گئی ہے اور اب یہ صداقت سب پر عائد ہوتی ہے چاہے وہ افریقہ ہو یا کوئی اور جگہ۔
اینٹی بڈی ٹیسٹنگ ایک مہنگا عمل ہے۔ پہلے ٹیسٹ پر 1 تا 5 امریکی ڈالر کا خرچہ آتا ہے جبکہ تصدیقی جانچ (confirmatory test) پر 30 تا 75 امریکی ڈالر فی مریض خرچہ آتا ہے۔ لیباریٹری اخراجات اور کام کرنے والے افراد کی تنخواہیں الگ سے اخراجات میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں 8.2 ملین ملٹری رنگ روٹوں کی ٹیسٹنگ پر دو سال کے دوران آنے والی لاگت 43ملین امریکی ڈالر آئی ہے۔ زائر میں تین برس کے عرصہ کے دوران بلڈ اسکریننگ کے لیے قائم کی جانے والی تجربہ گاہوں (laboratories) پر تقریباً 2ملین ڈالر لاگت آئے گی۔
اب ایچ آئی وی اینٹی بڈی کے ٹیسٹ سادہ، سستے ہونے کی طرف مائل ہیں۔ اب ایسی بھروسہ مند کٹیں (kits) دستیاب ہیں جن کے نتائج فی الفور پڑھے جاسکتے ہیں اور ان کے لیے لیبارٹری کی پشت پناہی کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس بکس میں چند بہت ہی امید افزا نئے ٹیسٹ مہیا کرائے گئے ہیں۔
ایچ آئی وی دیگر وبائی امراض کو اور بھی بدتر بنا دیتا ہے
اگر کوئی شخص اپنے بچپن میں ٹیوبر کلوسس یعنی ٹی بی میں مبتلا ہو جائے تو اس کا نظامِ مامونیت عموماً اس پر فتح حاصل کر لیتا ہے اور کوئی برا اثر بھی نظر نہیں آتا لیکن ٹی بی کے جراثیم پوری طرح ختم نہیں ہو پاتے۔ ٹی بی کے جراثیم اکثر جسم میں سوئے پڑے رہتے ہیں اور اس شخص میں اس بیماری کی کچھ بھی نشانیاں ظاہر نہیں ہوتی مگر بہرکیف وہ تا حیات جراثیم بردار (life long carrier) ہو جاتا ہے۔ اب یہ ٹی بی بردار شخص زندگی بھر ٹھیک ٹھاک بھی رہ سکتا ہے یا پھر جب اس کا توازنِ مامون (immune balance) درہم برہم ہو جائے تو پھر یہ شخص ایکٹو ٹی بی (active TB) میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر اس کا توازنِ مامون دوسرے عضویہ (organism) کے تعدیہ میں مبتلا ہو جائے یا پھر ناقص غذائیت (mal-nutrition) کے سبب کمزور ہو جائے تو وہ شخص ٹیٔبی میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
تیسری دنیا کے زیادہ تر شہروں میں ٹی بی ایک عام سی بیماری ہے اور جتنے لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں ان سے کہیں زیادہ لوگ اس بیماری کے کیریئر ہیں اور وہ کبھی بھی کھانس کھانس کر خون تھوکتے نظر آسکتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں شاید 30-56فیصد لوگ خوابیدہ ٹی بی تعدیہ (dormant TB infection) میں مبتلا ہیں۔
جب ایچ آئی وی کسی ٹی بی کیریئر کو تعدیہ میں مبتلا کرتا ہے تو اس کے ردِّ عمل کے طور پر ہونے والی مامونیت کی کمزوری ٹی بی جراثیم کے پر زور حملے کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر یہ حملہ کامیاب ہو جاتا ہے تو ٹی بی کیریئر کے پھیپھڑے اور دیگر عضلات (tissues) تباہ ہو کر ہلاکت کا سبب بن سکتے ہیں۔
مگر واقعات کا تسلسل ختم نہیں ہو جاتا۔ ٹی بی کا مریض اب متعدی (contagious) بن جاتا ہے اور اس کے تماس (contact) میں آنے والے کسی بھی شخص کو ٹی بی ہوسکتی ہے۔ خصوصاً اگر اس کی رہائش ایسی جگہ پر ہو کہ جہاں نمی موجود ہو اور ہوا کی آمد و رفت بھی زیادہ نہ ہوتی ہو تو اس سے ٹی بی پھیلنے کے امکانات اور بھی زیادہ ہو جاتے ہیں۔
اس طرح ایڈس کی علامات کا اظہار نہ کرنے والا ایڈس بردار شخص بظاہر ایک صحت مند معاشرہ میں ٹی بی کی وبا پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔ مریض کے ڈاکٹر کو مخصوص نوعیت کی ٹی بی کے علاوہ اور کچھ بھی نظر نہیں آتا اور اگر علاقائی طور پر ایچ آئی وی کے ٹیسٹ کرنے کی سہولیات بھی موجود ہوں تو بھی اس کا دھیان ایچ آئی وی کی جانب مبذول نہیں ہو پاتا۔ عالمی تنظیم برائے صحت (WHO) سے وابستہ آفیسران اس خدشہ میں بھی مبتلا ہیں کہ دنیا بھر میں پھر سے سر اٹھانے والی ٹی بی کے پس پشت کہیں ایچ آئی وی ہی کارفرما نہ ہو۔
ریاست ہائے متحدہ میں ٹی بی کے مرض میں مبتلا افراد کی تعداد میں 1986 میں 8.6%کا اضافہ ہو گیا۔ 1953 سے یعنی جب سے یو ایس میں ٹی بی کی رپورٹ کرنے کا نظام رائج ہوا ہے امریکی شہریوں میں پھیپھڑوں کی بیماری میں یہ ایک زبردست اضافہ تصور کیا جاتا ہے۔ 1981 سے 1984 کے دوران ٹی بی کے واقعات میں سالانہ طور پر 7% کی کمی درج کی جاتی رہی۔ واضح ہو کہ یہ وہی برس میں کہ جن میں ایڈس کی وبا اپنے ابتدائی دور میں تھی۔ نیویارک شہر میں 1984-86 کے دوران جتنے لوگ بھی ایڈس میں مبتلا ملے ان کی تقریباً نصف تعداد کا 35% حصہ ٹی بی میں مبتلا تھا۔
مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ٹی بی اور ایچ آئی وی کے مابین قریبی تعلق موجود ہے۔ نیویارک شہر میں ٹی بی میں مبتلا 58مردوں میں سے 31لوگ ایچ آئی وی میں مبتلا پائے گئے۔ زائرے کے کنشاسا میں ٹی بی کے چالیس فیصد مریض ایچ آئی وی بردار ثابت ہوئے۔ اسی عرصہ کے دوران 6 تا 8 فیصد صحت مند بالغ لوگ بھی ایچ آئی وی پازیٹیو نکلے۔ اور جہاں ٹی بی انفیکشن پوری طرح پھیلا ہوا ہو وہاں 20 تا 40 برس کی عمر والے گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد میں ٹیوبرکلوسس کی علامات زیا دہ سے زیادہ عام ہوتی چلی جا رہی ہیں اورانھیں لوگوں کو ایچ آئی وی انفیکشن میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی زیادہ ہے۔
ٹی بی کے تجربہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایڈس کسی خاص علاقہ میں پھیلے ہوئے تعدیوں کو منعکس (reflect) بھی کرتا ہے اور ان میں اضافہ بھی کر دیتا ہے۔ اب کیوں کہ ملیریا اور کوڑھ جیسی بیماریاں زبردست قسم کے مامون تعاملات (strong immune reactions) بھڑکا دیتی ہیں، اس لیے عالمی تنظیم برائے صحت کے لیے دیگر بیماریاں اور بھی زیادہ خطرات پیدا کر دیتی ہیں۔ یہ بیماریاں ایچ آئی وی ریپلی کیشن کے لیے عملی صورت حال کی شروعات کرسکتی ہیں جس کی وجہ سے نہایت اہمT-خلیے (vital immune T-cells) تباہ ہو جاتے ہیں اور پھر وہ شخص ملیریا اور کوڑھ کے حملے سے اور بھی غیر محفوظ ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر یہ بھی کہتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جسم میں ملیریا کے جراثیم کے ذریعہ کی جانے والی تباہی کو ایچ آئی وی اور بھی بڑھا دیتا ہے۔ جن لوگوں کو پہلی مرتبہ ملیریا ہوتا ہے ان کے دماغ کو بھی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ بالغ افریقیوں کو اس قسم کا دماغی نقصان شاذ و نادر ہی پہنچتا ہے مگر اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ موجودہ ملیریا کی وبا میں ان لوگوں کو دماغی نقصان زیادہ پہنچنے لگا ہے جو ایچ آئی وی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ پہلے سے ہی ایک عام اور دماغ کو نقصان پہنچانے والی بیماری یعنی ملیریا سے بچوں کو زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔ شسٹوسومیاس (بلہارز یاس/ bilharzias)، سلیپنگ سکنیس (sleeping sickness) لیش مے نیاسس (leishmaniasis) جیسی بیماریاں ترقی پذیر ممالک میں عام ہیں اور کوئی یہ نہیں جانتا کہ ایچ آئی وی ان بیماریوں کے ساتھ کس طرح کی بین عملی (interact) کرتا ہے۔ ایڈس کے ساتھ ساتھ دیگر متعدی امراض کی وبا پھیلانے اور دیگر عام تعدیوں کے اثرات کو مزید ابتر بنانے والے ایچ آئی وی سے آج نظامِ صحت کو کئی قسم کے خطرات لاحق ہیں اور ہوسکتا ہے کہ یہ خطرہ ابھی کئی دہائیوں تک موجود رہے۔
جینس کا کردار: کوئی یقینی ثبوت موجود نہیں
(The role of genes: no firm evidence)
جنسیاتی بیماریاں موجود رہتی آئی ہیں۔ ایک موروثی جین جو افریقی قبائلیوں میں عام طور پر پایا جاتا ہے سکل سیل اینیمیا (sickle cell anemia) ہے۔ یہ افریقی گرم علاقوں کے لوگوں کو تو متاثر کرتا ہے مگر مشرق وسطیٰ اور ہندوستانیوں پر بھی شاذ و نادر اثر انداز ہوتا رہتا ہے۔ اس طرح چلیے مان لیتے ہیں کہ جین بھی ایچ آئی وی یا ایڈس کی اثر پذیری (susceptibility) کا تعین کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ نسلی طور پر ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی گروپ سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں بہرحال بیماری انفرادی نسلی بناوٹ (individual genetic make-up) ہمیشہ ہی کسی بیماری کی اثر پذیری کو متاثر کرتی ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ کون سی نسلی جماعتیں ایڈس سے زیادہ یا کم متاثر ہوسکتی ہیں تو اس پر بحث کی جاسکتی ہے، یعنی یہ ایک نزاعی سوال ہے۔
ریسرچ کرنے والی دو جماعتوں نے کچھ اعداد و شمار شائع کیے ہیں۔ ان میں سے ایک جماعت کا تعلق برطانیہ سے ہے اور دوسری کاٹری نیڈاڈ سے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق اس بات کا امکان موجود ہے کہ ایڈس کا تعلق جینیٹک فیکٹر (genetic factor) سے ہو۔ مگر اعداد و شمار کے ان دونوں سیٹوں پر دیگر تحقیق کرنے والے لوگوں نے تنقید کی ہے اور انھیں سائنٹفک برادری نے کبھی ان کی پذیرائی نہیں کی ہے۔ برطانوی گروپ نے ابھی حال ہی میں یہ پتہ لگایا ہے کہ ان کے اخذ کردہ نتائج غلط تھے کیوں کہ اس ضمن میں تجربات کرنے کے لیے انھوں نے جو آلات استعمال کیے تھے ان میں کچھ ایسی خرابیاں موجود تھیں جن کا پتہ نہیں لگایا جاسکتا تھا، یعنی وہ نامعلوم انداز میں ٹھیک کام انجام نہیں دے رہے تھے۔ ان خرابیوں کا علم ہوتے ہی اس گروپ نے فوراً ہی اخلاقی طور پر اپنے ذریعہ پیش کردہ اعداد و شمار واپس لے لیے اور اس طرح یہ مسئلہ حل ہو گیا کہ آخر دیگر تحقیق کرنے والے گروپ یہی نتائج کیوں نہ اخذ کر پائے۔
اب اگر آنے والے زمانے میں کسی وقت تکوینی بناوٹ (genetic make-up)پھر سے ایڈس کی اثر پذیری کا مدعا بن کر ابھرتی ہے تو یہ بات بہرحال ناقابل یقین ثابت ہو گی کہ لوگوں میں ایک نسلی سوئچ موجود ہوتا ہے اور آن۔ آف (on-off) انداز میں کام انجام دیتا ہے، یعنی اسی کے سبب جہاں کچھ لوگ ایڈس کا ہدف بن جاتے ہیں تو وہیں کچھ لوگوں میں اس کے تئیں بھرپور مامونیت موجود ہوتی ہے اور انھیں ایڈس نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں جینس (genes) کا کردار بہت زیادہ پیچیدہ دکھائی دیتا ہے یعنی کچھ معاملات میں تو ایڈس وائرس کے ذریعہ پیدا کیے جانے والے تعدیہ کے تئیں کسی فرد کی جراحت پذیری (vulnerability) میں یہی جین اضافہ کر دیتے ہیں اور مہلک ایڈس میں تیزی سے مبتلا کر دیتے ہیں تو کچھ افراد میں بین عملی کر کے ایڈس کی علامات کی شدت کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ اس ضمن میں مختلف عوامل کے ملوث ہونے کے خیال سے میڈیکل سائنس داں بمشکل تمام اپنی جان چھڑاتے نظر آتے ہیں۔
جڑواں خطرات: انکار اور تاخیر
دنیا بھر میں تقریباً تمام ہی طبقات میں ایسا ہوتا ہے کہ جب بھی کسی طبقہ کا واسطہ ایڈس کے وائرس سے پڑتا ہے تو وہ اسے حقیقی مسئلہ تسلیم کرنے سے انکار کر کے اپنا ردِّ عمل ظاہر کرتا ہے۔
امتیازی طور پر بیماری کی وجہ یا وسیلہ کو کہیں کا کہیں سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح جب ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں سب سے پہلے ایڈس کے معاملات بڑھنا شروع ہوئے تو ان کے متعلق یہ خیال کیا گیا کہ یہ تعدیہ ہیئتی سے آیا ہے، بعد میں ریاست ہائے متحدہ اور یورپ میں یہ ایک رائے بن گئی کہ ایڈس کا مآخذ افریقہ ہے اور افریقہ میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ یورپین ہی ہیں جو یہاں یہ بیماری لے کر آئے ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ میں رہنے والے سیاہ فام اور لاطینی لوگ ایڈس کو سفید لوگوں کی بیماری تصور کرتے تھے۔ جاپان، فلپائین اور دیگر ایشیائی حصوں میں ایڈس کو اکثر غیرملکی بیماری مانا گیا ہے اور اسلامی ممالک میں لوگوں کا اعتقاد یہ تھا کہ قرآنی تعلیم پر عمل کرنا ہی اس سے بچنے کا بہتر طریقہ ہے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ایڈس کے اولین معاملات ہم جنس پرستوں میں دیکھنے میں آئے اور جو لوگ ان لوگوں سے واقف ہیں ان کے بموجب ہم جنس پرستوں کے خلاف زبردست عوامی پروپیگنڈے کے جواب میں یہ ہم جنس پرست لوگ اس بات سے انکار ہی کرتے رہے۔ لوگ یہ استدالال پیش کرتے ہیں کہ ہم جنس گروپوں میں ایچ آئی وی کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کی موت کا اصل سبب یہ تھا کہ ہم جنس پرست اور دیگر لوگ اپنے روبرو موجود حقیقت کا سامنا کرنے سے کتراتے رہے، اور برطانیہ عظمیٰ میں کہ جہاں ریاست ہائے متحدہ کے مقابلہ یہ وائرس دو یا تین برس بعد آیا تھا ابتدائی رہنمائی کرنے کا موقع گنوا دیا گیا اور اس ضمن میں کچھ بھی نہیں کیا گیا جب کہ مٹھی بھر ڈاکٹر اس بات پر زور دیتے رہے کہ اگر اس بیماری سے انکار کرنے والی عادت سے چھٹکارا حاصل کر لیں تو اس یو۔ ایس۔ اسٹائل والی وبا سے بچا جاسکتا ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف نہایت ضروری ہے کہ ایڈس کے علاج کے تئیں ایک امتیازی انسانی ردِّ عمل اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ ایڈس سے انکار کرتے رہتے ہیں اور اسی سبب اس سے بچنے کے اقدامات اٹھانے میں دیر ہو جاتی ہے۔ خصوصاً مئی 1987 میں جینیوا میں ورلڈ ہیلتھ اسمبلی سے قبل بہت سی حکومتوں نے یا تو دیر کر دی یا ایڈس معاملات کی اطلاعات بین الاقوامی تنظیم برائے صحت تک نہیں پہنچنے دیں۔
کچھ افریقی ممالک کے اخبارات اب کھلم کھلا اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ عرصہ تک ایڈس کے ضمن میں خاموشی ہی اختیار کی جاتی رہی۔ اگست 1987 میں ٹائمس آف زیمبیانے یہ اعتراف کیا کہ یہاں غیر تحریری طور پر یہ قانون موجود تھا کہ زیمبیا میں ایڈس کی موجودگی کے سلسلے میں قطعاً کوئی گفتگو نہ کی جائے تاکہ یہاں آنے والے سیاحوں کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔ ایک نائیجریائی میگزین نیوز واچ نے مارچ 1987 میں یہ کہا کہ جن چھ برسوں کے دوران ایڈس کی لعنت تمام دنیا میں پھیلی اس تمام عرصہ میں نائیجریا کی حتی الامکان یہ کوشش رہی کہ وہ اس سے دور ہی رہے۔ 1987 میں یو ایس پریزیڈینٹ رونالڈ ریگن نے عوامی طور پر یہ تسلیم کیا کہ ان کے ملک میں یہ وبا پھیل رہی ہے۔ الزام تراشی اور انکار دو ایسی باتیں رہیں کہ جنھوں نے ایڈس سے نمٹنے کے معاملے کی جڑیں کھوکھلی کر کے رکھ دیں۔ ان دونوں باتوں کو بالتفصیل زیادہ مکمل طور پر چھٹے باب میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا تذکرہ Panos کی کتاب Blaming others: prejudice, race and worldwide AIDS (London and Washington DC, 1988) میں بھی کیا گیا ہے۔
٭٭٭
2 کوئی علاج؟ کوئی دوا؟
وائرس کے ذریعہ پھیلنے والی بیماری نسبتاً بے ضرر (جیسے نزلہ زکام) اور کم مہلک (جیسے چیچک) ہوسکتی ہیں۔ وائرس کبھی تو انفیکشن کو علامات کے طور پر ظاہر کر دیتے ہیں (جیسے انفلوئینزا کے معاملہ میں ہوتا ہے) یا پھر کسی مہلک بیماری کا سبب بننے میں انھیں دسیوں سال کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے (جیسے لیوکیمیا)۔
دوسری جنگ عظیم کے زمانے تک لوگ وائرسوں سے پھیلنے والی چند بیماریوں سے ہی واقف تھے مگر پھر اس کے بعد سے تو سینکڑوں وائرس دریافت ہو چکے ہیں اور دریافت ہونے کی ایک وجہ انھیں لیباریٹری میں کلچر کرنے کی تکنیکوں کا فروغ (بھی) ہے۔ وائرس دراصل طفیلیے (parasites) ہوتے ہیں جو تقریباً تمام ہی جانداروں کو تعدیوں میں مبتلا کر دیتے ہیں، چاہے یہ یک خلوی جرثومہ ہو یا کثیر خلوی انسان۔ یہ صرف کسی میزبان (host) عضویہ کے خلیوں میں ہی پل بڑھ سکتے ہیں، جیسے جسمِ انسانی۔
ارتقائی اصطلاحات (evolutionary terms) میں میزبان اور وائرسوں کی آبادی میں مسلسل جنگیں جاری رہتی ہیں جن کا بیشتر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میزبان کا نظامِ مامونیت وائرس کے ذریعہ پھیلائے ہوئے تعدیہ کو ختم کر ڈالتا ہے۔ انفلوئینزا، خسرہ اور پولیو ایسی ہی بیماریاں ہیں جن کے مقابلے میں ہمارے جسم کو اکثر و بیشتر کامیابی ہی حاصل ہوتی ہے، اور پھر بعد میں ہونے والے اس انفیکشن کے تئیں ہمارا جسم ہمیں مامونیت عطا کر دیتا ہے۔ ان بیماریوں کی چھوٹی سی مدت ہائے خضانت (short incubation periods) چند دنوں یا ہفتوں پر مشتمل ہوتی ہیں، یعنی یہ سمجھ لیجیے کہ یہ انفیکشن لاحق ہونے اور علامات ظاہر ہونے کے دوران لگنے والے عرصہ کے برابر ہوتی ہیں جبکہ علامات بذاتِ خود بھی قلیل مدت میں ختم ہو جانے والی ہوتی ہیں۔ اب میزبان طبقہ میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے وائرس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس قلیل سی مدت میں تعدیہ میں مبتلا افراد میں منتقل ہو جائے، ورنہ تو اپنے وجود سے ہاتھ دھو لے۔ (کیوں کہ زیادہ تر میزبانوں کے یہاں حفاظتی مامونیت پیدا ہو جاتی ہے)۔ اس معاملے میں اپنا وجود باقی رکھنے کے لیے میزبانوں کی ایک بڑی آبادی درکاری ہوتی ہے: خسرہ کو 100,000 افراد سے بھی زیادہ لوگ درکار ہوتے ہیں۔
کچھ مخصوص قسم کی دیگر بیماریوں میں وائرس دوسری طرح کی حکمت عملی اختیار کرتا ہے۔ میزبان کو تعدیہ میں مبتلا کرنے اور شدید نوعیت کی ابتدائی علامات مرض کی شروعات کر دینے کے بعد ہرپیس جیسی فیملی (herpes family) سے تعلق رکھنے والے وائرس ظاہری طور پر دکھائی دینے والی بیماری پیدا کرنا بند کر دیتے ہیں اور مخفی ہو جاتے ہیں، یعنی وہ اس وقت تک مہینوں اور برسوں میزبان کے خلیوں میں چھپے ہوئے پڑے رہتے ہیں کہ جب تک حالات سازگار نہیں ہو جاتے، اور پھر جب حالات اجازت دیتے ہیں تو پھر شدید بیماری کی انھیں علامات کا ہیجان برپا کر دیتے ہیں۔ اس قسم کے وائرسوں کو مخفی وائرس (latent virus) کہا جاتا ہے اور یہ میزبانوں کی چھوٹی سی آبادی میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے اہل ہوتے ہیں، نیز اپنے میزبانوں کو وقتاً فوقتاً تعدیوں میں مبتلا کرتے اور شدید نوعیت کی بیماریاں پیدا کرتے رہتے ہیں۔
اپنے وجود کو باقی رکھنے والی تیسری حکمت عملی مذکورہ بالا دونوں حکمت عملیوں کا مجموعہ نظر آتی ہیں۔ اس میں نہ صرف یہ کہ تعدیہ کہیں زیادہ طویل مدت تک برقرار رہتا ہے (جیسے خسرہ) بلکہ اولین علامات ظاہر ہونے کے بہت بعد تک بھی وائرس میزبان کے جسم میں موجود رہتا ہے (جیسے ہرپیس) اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہیپے ٹائٹس بی اور ایڈس پیدا کرنے وائے وائرس تو جیسے تا عمر جسم میں ہی ڈیرا جمال یتے ہیں اور میزبان کو تا عمر تعدیہ میں مبتلا رکھتے ہیں اور اس مدت کے دوران اس وائرس کو دوسروں میں منتقل کرنے کے اہل بھی ہوتے ہیں۔ ایسے وائرسوں کو سست وائرس (slow viruses) یا لینٹ وائرس (lent viruses) کہا جاتا ہے۔ یہ نادر قسم کے وائرس ہوتے ہیں اور ان کا تعلق وائرسوں کی ایک بڑی جماعت سے ہوتا ہے۔ ان وائرسوں کو ریٹرو وائرس (retro-viruses) کہا جاتا ہے۔ انسانی ریٹرووائرس کی کھوج نسبتاً ایک نئی کھوج ہے۔
کچھ چھوٹے میزبان طبقات میں وائرل انفیکشن (وائرسوں سے پھیلنے والا تعدیہ) طویل مدتوں تک بھی برقرار رہ سکتا ہے۔ نظریاتی طور پر ایک واحد کیریئر (وائرس بردار شخص) ان وائرسوں کو نئی اور صحت مند میزبان آبادی میں پھیلاسکتا ہے۔ مہینوں یا برسوں بعد مغالطہ میں مبتلا رکھنے کے بعد اچانک جب ان وائرسوں کے ذریعہ پھیلائی جانے والی بیماریاں ظہور پذیر ہوتی ہیں تو اس وقت یہ پتہ لگانا ناممکن ہوتا ہے کہ یہ تعدیہ جسم میں سب سے پہلے کب اور کیسے داخل ہوا تھا۔ جسم میں وائرس کی یہ برقراری یہ بتاتی ہے کہ کسی خاص طبقہ میں ایڈس کی ابتدا کا پتہ شاذ و نادر ہی کیوں لگ پاتا ہے اور اس کے باوجود بھی یہ تو پتہ لگایا ہی نہیں جاسکتا کہ ایڈس کا یہ وائرس آیا کہاں سے تھا۔ ایڈس کے مبدا (origin) کے بارے میں جو کچھ بھی علم میں آیا ہے اسے باب تین میں بیان کیا گیا ہے۔
کیا ایچ آئی وی ہمیشہ ہی ہلاک کر کے رکھ دیتا ہے؟
1988 تک ڈاکٹروں کے علم میں ایڈس کو آئے ہوئے بمشکل تمام سات برس ہو پائے تھے اور ایڈس کے مریضوں کی طولِ عمری کے سلسلے میں ہوشیاری سے کی جانے والی شماریاتی تحقیق(statistical research) کو صرف پانچ برس ہی ہو پائے تھے۔ 5 تا 10 برس تک خاموش پڑے رہنے والے انفیکشن کا مطالعہ کرنے کے لیے اس بات کو طویل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
گزشتہ دو برس یا اس سے کچھ زیادہ کی مدت میں ایچ آئی وی پازیٹو افراد کے زندہ رہنے کے امکانات سے متعلقہ اختلافی قسم کے اعداد و شمار کا ایک سیلاب سا آ گیا ہے۔ ان اعداد و شمار میں واقع اختلافات کا سبب بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ اس ضمن میں جو بھی شماریاتی کھوج بین کی گئی انھیں عمل میں لانے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے گئے اور مختلف سائز کے سیمپل گروپ بنائے گئے نیز ایچ آئی وی انفیکشن کی مختلف علامات کو پی جی ایل، ایڈس سے متعلق پیچیدگی (AIDS-related complex) اور ایڈس جیسے تشخیصی زمروں میں رکھنے کے لیے بھی مختلف طریقے اختیار کیے گئے۔
جہاں یو ایس ہیلتھ ذمہ داران ابھی بھی سرکاری طور پر یہ تخمینہ پیش کرتے ہیں کہ صرف 20 تا 30فیصد سیرو پازیٹو افراد ہی پانچ برسوں کے اندر اندر ایڈس میں مبتلا ہو جائیں گے وہیں دیگر تفتیش کار اس سے بھی زیادہ دلگیر نتائج پیش کرتے ہیں۔ سان فرانسسکو جنرل ہاسپٹل کے تفتیش کاروں نے 1981-82 میں 288 ہم جنس پرست مردوں کی ایسی جماعت کے متعلق چھان بین کی جن میں سے زیادہ کے متعلق یہ خیال تھا کہ وہ ایچ آئی وی کے تعدیے میں مبتلا ہیں۔ تین برس کے مطالعے کی بنا پر تفتیش کاروں نے یہ پیشین گوئی کی کہ تعدیہ میں مبتلا ہونے والی تاریخ سے لے کر چھ برس کے اندر اندر 50% افراد ایڈس میں مبتلا ہو جائیں گے اور اسی اسٹڈی گروپ سے متعلقہ 25% دیگر افراد ایڈس سے متعلقہ عارضوں (علامات) میں مبتلا ہو جائیں گے۔ نتائج پر بحث و مباحثہ کرتے ہوئے اہم تحقیق کاروں نے نامہ نگاروں سے کہا، ’’ہم نے جو کچھ بھی دیکھا، وہ یہ کہ ایچ آئی وی انفیکشن سے متاثر نہ ہونے والے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ ایچ آئی وی کے تعدیہ میں مبتلا ہو جائیں تو یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ آپ ایڈس میں مبتلا ہو (ہی) جائیں گے۔‘‘
سان فرانسسکو میں ہم جنس پرست 63مردوں کی ایک دوسری ایسی جماعت پر ریسرچ کی گئی کہ جن کی تاریخ انفیکشن کا تعین کیا جاسکتا تھا۔ ان پر کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلا کہ ان میں سے 30%افراد سات برس کے اندر ایڈس میں مبتلا ہو گئے۔ مغربی جرمنی کی فرینک فرٹ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے 543 لوگوں کی جماعت کا مطالعہ کیا (جن میں سے زیادہ تر لوگ ایسے لوگوں کے مجامعتی شریک تھے جو ایڈس میں مبتلا تھے)۔ یہ مطالعہ 1982 سے جاری تھا۔ اس کے مطابق صرف 9.8% ایچ آئی وی بردار لوگ تین برس بعد بھی صحت مند رہ پائے۔ کمپیوٹر ماڈیلنگ (Computer modeling) کا استعمال کر کے ان تحقیق کرنے والوں نے یہ پیشین گوئی کی کہ ان میں سے 50%افراد سات برس کے اندر اندر ایڈس میں مبتلا ہو جائیں گے۔
یو ایس والٹر ریڈ (US Walter Reed) آرمی میڈیکل سینٹر کا مشاہدہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ ایچ آئی وی کے تعدیہ میں مبتلا 80 تا 90 فیصد لوگ چند برسوں کے بعد ہی اپنے نظامِ مامون (immune system) میں کسی نہ کسی سطح پر گڑبڑ محسوس کرتے ہیں جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ، ان کی ایک بڑی اکثریت کچھ عرصہ بعد اس وائرس سے مخالفانہ انداز میں متاثر ہو جائے گی۔
جس سوال کا جواب نہیں دیا جاسکتا وہ یہ ہے: کیا بیمار ہونے والے تعدیہ میں مبتلا لوگوں کی تعداد اس وقت تک بڑھتی ہی چلی جائے گی کہ جب تک یہ 100فیصد نہ ہو جائے یا پھر مستقبل میں کسی وقت اس میں کمی بھی آئے گی؟ ڈاکٹر اینتھونی فیوسی، ڈائریکٹر آف دی یو ایس نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشن ڈزیزیز کا کہنا ہے کہ، آخری حد کہاں تک پہنچے گی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ برطانیہ کے ایک مشہور وائرولوجسٹ ڈاکٹر رچرڈ ٹیڈر اس معاملے میں نا امیدی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے بقول، ایچ آئی وی کے تعدیہ میں مبتلا لوگوں کی ایک بڑی فیصد (تعداد) ایڈس سے لقمہ اجل بن سکتی ہے۔ اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ، مگرہوسکتا ہے کہ سیرو پازیٹیو افراد دس سال یا دسیوں سال تک بھی ایڈس کی علامات کا اظہار نہ کریں۔ سست رو وائرل انفیکشن اس قسم کا ہوتا ہے کہ بیماری کا اظہار ہونے سے قبل کوئی شخص اپنی عمر طبیعی کو پہنچ سکتا ہے۔ صرف وقت ہی ہمیں یہ متعین کرنے کا موقع عطا کرتا ہے کہ وہ معاملہ ایچ آئی وی کا ہے یا نہیں۔
یو ایس نیشنل اکیڈمی آف سائنس کی سب سے حالیہ رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ سیرو پازیٹو افراد کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو ایڈس میں مبتلا ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ اب جو اعداد و شمار ہمارے ہاتھ لگے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ کسی شافی علاج کی غیر موجودگی میں ایچ آئی وی کے تعدیہ میں مبتلا لوگوں کی اکثریت کا انجام بہرحال یہی ہونا ہے کہ ان کا تعدیہ نہ تو رک سکے اور نہ سست روی اختیار کرے بلکہ وہ ایڈس میں مبتلا ہو جائیں۔
یو ایس رپورٹ میں اس بات کی سفارش بھی کی گئی ہے کہ ایچ آئی وی انفیکشن (تعدیہ) کو ایک بیماری تسلیم کر لی جائے۔ ایچ آئی وی تعدیہ کی موجودگی بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے جتنا کہ ایڈس میں مبتلا ہونے کا حادثہ۔ اس لیے اس رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پالیسی ساز اس وبا کی وسعت اور امکانات کا تخمینہ لگاتے وقت ایچ آئی وی تعدیہ اور ایڈس دونوں کو مد نظر رکھیں۔ عوامی صحت کے نقطۂ نگاہ سے اس رپورٹ کے مصنفین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ، اہم وقوعہ (event) تعدیہ ہے نہ کہ شباب پر آئی ہوئی بیماری اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نظر آنے والی علامات والے تعدیہ میں مبتلا افراد بھی دیگر افراد کو تعدیہ میں مبتلا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
دیگر مشہور محققین کا گمان یہ ہے کہ مختلف عوامل کی رینج (range) ایچ آئی وی انفیکشن کے ایڈس میں تبدیل ہو جانے پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ کچھ اس خیال کے حامل ہیں کہ کوئی شخص ابتدا میں ایچ آئی وی تعدیہ میں جس قدر زیادہ مبتلا ہوتا ہے اس کے صحت مند رہنے کے مواقع اتنے ہی کم ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ کسی شخص کے ذریعہ حاصل کردہ وائرس کا اسٹرین (strain of viruses) اس شخص پر ایک خاص طریقے سے اثرانداز ہوتا ہے۔ تجربہ گاہی شواہد بھی اس خیال کو تقویت پہنچاتے ہیں کہ ایڈس کے کچھ اسٹرین زیادہ زہریلے (یعنی زیادہ وائرس پیدا کرنے والے) ہوتے ہیں اور ان سے جو تعدیہ پیدا ہوتا ہے وہ لوگوں کو سخت بیماری میں مبتلا کر کے جلد موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے۔ فرانسیسی محققین نے ایڈس وائرس کا ایک زائریائی اسٹرین (Zairean strain) دریافت کیا ہے اور اسے انھوں نے HIV-NDK سے موسوم کیا ہے۔ ان کے مطابق ایچ آئی وی کا یہ اسٹرین ریاست ہائے متحدہ یا یوروپ کے ایچ آئی وی اسٹرینس سے زیادہ قوی ہے اور ان کے مقابلہ انسانی خلیوں کو زیادہ تیزی سے تباہ کرسکتا ہے۔
ایڈس کا علاج کرنے والے کچھ ڈاکٹر اور ان کے زیر علاج کچھ مریض اس مفروضے (assumption) کے تحت کام کرتے ہیں کہ، تعدیہ میں مبتلا شخص کا طرزِ زندگی، بعد میں کسی ایسے شخص کے تماس میں آنا جو تعدیہ میں مبتلا ہو، خوراک، ورزش اور اندازِ فکر، نشہ آور ادویہ کا استعمال، شراب یا دیگر نشہ آور مشروبات ایسی چیزیں ہیں جو اس ضمن میں اہم کردار ادا کرتی ہیں کہ آیا کسی شخص کا مخفی ایچ آئی وی تعدیہ ایڈس میں تبدیل ہو جائے گا یا نہیں۔
نیویارک شہر میں ایڈس کے 5,833 مریضوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ سیرو پازیٹو شخص کے صحت ماحول (health environment) نے اس ضمن میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے کہ مریض کے ایڈس میں مبتلا ہو جانے کے بعد بھی ایچ آئی وی تعدیہ کا آخری انجام کس شکل میں ظاہر ہوا ہے۔ مرد، عورتوں، مختلف نسلوں، سماجوں، عمر اور ڈائگناسٹک گروپوں (diagnostic groups) سے تعلق رکھنے والے 15% مریض صرف پانچ برس تک ہی زندہ رہ پائے۔ اس سے زیادہ عرصہ تک زندہ رہنے والے نوجوان، مرد سفید فام تھے اور یہ لوگ نیوموسسٹک نمونیہ کے بجائے کاپوسیز سرکوما (kaposi’s sarcoma) میں مبتلا تھے۔ بڑھتی ہوئی عمر، صنف نازک (ہونا)، سیاہ فام یا لاطینی نسل سے تعلق (ہونا) اور نیوموسٹس نمونیا میں مبتلا ہونا (جو انٹراوینس نشہ آور ادویہ لینے والوں میں عام ہے) کچھ ایسے عوامل ہیں جو زندگی کم کر دینے والے ہیں۔
ریاست ہائے متحدہ میں اگر سفید فام ایڈس میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو ان کی زندگی دو برس کی رہ جاتی ہے اور اگر سیاہ فام یا لاطینی شخص ایڈس میں مبتلا ہو جائے تو ان کی عمر صرف 28ہفتے کی رہ جاتی ہے۔ نسبتاً کم ہی ڈاکٹر اقلیتی طبقات میں کام انجام دیتے نظر آتے ہیں کیوں کہ ان کے مریضوں کی بہت کم تعداد ایسی ہوتی ہے جو ہیلتھ بیمہ کرائے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ دونوں طرح سے، یعنی سماجی اور مالی اعتبار سے محروم لوگ ہوتے ہیں اور اسی لیے ابتدا میں ان کا علاج معالجہ بھی نہیں ہو پاتا۔ کم تر سماجی، اقتصادی حیثیت کی عکاسی کرتی ہوئی ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ایچ آئی وی وائرس سے واسطہ پڑنے سے قبل سفید فام طبقہ سے تعلق رکھنے والے مریضوں کے مقابلہ اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے مریض کم صحت مند ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو علاج کے لیے پیش کرنے سے قبل ان کے یہاں پائی جانے والی علامات مرض کافی فروغ پاچکی ہوتی ہیں۔
اگر سماجی، اقتصادی اور طرزِ عمل سے متعلقہ عوامل ایڈس کی تشخیص ہو جانے کے بعد زندہ رہنے کی مدت پر اثرانداز ہوسکتے ہیں تو یہ عوامل اس بات پر بھی اثرانداز ہوسکتے ہیں کہ کیا ایچ آئی وی انفیکشن ایڈس میں تبدیل ہوسکتا ہے یا ایچ آئی وی انفیکشن ایڈس میں کتنی تیزی سے تبدیل ہو جاتا ہے۔
ایڈس کے علاج
سات برس قبل پہلی مرتبہ تشخیص ہو جانے کے بعد سے لے کر ابھی تک بھی رہاست ہائے متحدہ میں ایڈس کا کوئی شافی علاج دریافت نہیں ہو پایا ہے۔ مگر علاج کرنے کے طریقے میں بہتری آ رہی ہے۔ اس کا علاج خاص طور پر ان موقع پرستانہ تعدیوں سے لڑنے پر مشتمل ہوتا ہے جو مریض کے تباہ شدہ نظام مامون کا فائدہ اٹھاتے ہیں، جیسے نمونیہ، فنگل انفیکشن، ٹیوبرکلوسس، کینسر اور اسہال۔ مگر جیسے ہی علاج بند ہوتا ہے ویسے ہی وہی تعدیہ یا پھر کوئی دوسرا تعدیہ مریض کو پھر لاحق ہو جاتا ہے۔ ایک ایسی شے جو مریض میں سمیت پیدا کیے بغیر وائرس کو ختم کر دے ایڈس کے علاج کی بہترین دوا قرار دی جاسکتی ہے لیکن اگر وائرس پہلے ہی اس شخص کے نظامِ مامون کا کچھ حصہ تباہ کر چکا ہو تو پھر اسے بھی شافی علاج قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس معاملہ میں مریض کو شفا یاب کرنے میں نظامِ مامون کو ٹھیک کر کے اس کے فعل کو معمول پر لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ابھی تک بھی کوئی ایسی وائرس کش دوا دریافت نہیں ہوئی ہے جس سے جسم ایچ آئی وی سے مستقل طور پر چھٹکارا پاسکے۔ اس کی دو وجوہات ہیں :
1۔ ایچ آئی وی جس جسم کو تعدیہ میں مبتلا کرتا ہے اسی جسم کے خلیوں میں وہ روپوش بھی ہو جاتا ہے۔ اسے مارنے والی دوا ممکنہ طور پر ان خلیوں کو بھی مار ڈالے گی اور اس طرح مریض کا نظامِ مامون اور زیادہ تباہ ہو جائے گا۔
2۔ وائرس ان دماغی خلیوں میں بھی سرائیت کرسکتے ہیں جہاں زیادہ تر وائرس کش ادویہ داخل ہی نہیں ہو پاتیں کیوں کہ بلڈ برین بیرئیر(blood brain barrier) انھیں چھان کر الگ کر ڈالتی ہے۔ اس لیے کوئی ایسی دوا دریافت کر لینا بڑا مشکل کام ہے کہ جو دماغ میں داخل ہو کر ان ایچ آئی وی وائرسوں کو تو مار ڈالے مگر بذاتِ خود دماغ کو اس سے قطعاً کوئی نقصان نہ پہنچے۔
وائرس کش ادویہ پر توجہ مبذول کرنے کے بجائے اس قسم کی دواؤں پر ریسرچ کی جا رہی ہے جو وائرسوں کو نظامِ مامون خلیوں پر کالونیاں تعمیر کرنے اور اپنی آبادی میں اضافہ کرنے میں مانع ثابت ہوں۔ ایڈس کے مریضوں کو یہ دوائیں تا عمر لینی ہوں گی مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اب تک جن ادویہ کو بھی آزمایا گیا ہے وہ تمام عمر تو درکنار قلیل مدت میں بھی زہریلے ذیلی اثرات والی ثابت ہوئی ہیں۔
زیادہ تر ممالک میں مخصوص بیماریوں کے علاج معالجہ میں کام آنے والی ادویہ کے طور پر کیمیاوی اور حیاتیاتی اشیا کو فروغ دینے کا کام ایک طویل، مہنگی اور اعلیٰ طور پر باضابطہ (highly regulated) کارروائی ثابت ہوئی ہے۔ نئی دوا تیار کرنے کے لیے ادویہ تیار کرنے والی کمپنیوں کو ریسرچ، تجربات، لائسینسنگ اور آخیر میں تیار دوا کی مارکٹنگ اسٹیج پر پہنچانے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کرنے ہوتے ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ میں فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں سے گزرنے کے عمل میں دس برس یا اس سے زیادہ عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔ یہ پابندیاں اس لیے عائد کی گئی ہیں کہ اس بات کی یقین دہانی ہو جائے کہ لائسینس شدہ دوا فائدہ مند ثابت ہو نیز یہ نہ ذیلی مضر اثرات والی ثابت ہو اور نہ ہی زہریلی۔
اب کیوں کہ نئی ادویہ کو فروغ دینے میں کافی عرصہ درکار ہوتا ہے اس لیے ایڈس کے علاج و معالجہ میں کام آنے والی موجودہ ادویہ وہ ہیں جنھیں دس برس قبل یا اس سے پہلے کچھ دوسری بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے فروغ دیا گیا تھا۔ ایڈس پر کی جانے والی زیادہ تر تحقیق اس کارروائی پر مشتمل ہے کہ پرانی ادویہ کی اسکریننگ کر کے انھیں اس نئے خطرہ کے علاج کے لیے استعمال کیا جائے۔ جانوروں اور انسانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت پر ٹیسٹ کرنے کے لائیسنسنگ کے طویل عمل سے گزرنے کے باوجود بہرکیف یہ دوائیں ایڈس کے مریضوں پر اپنا اثر دکھاتی ہیں اور پھر باقاعدہ طور پر ڈاکٹر انھیں ایڈس کے مریضوں کے لیے تجویز کرنے لگتے ہیں۔ ایڈس کی دواؤں کو لائسینس عطا کرنے کے طویل عمل سے مایوس ایڈس کے مریض اب اس قسم کے قوانین پاس کرانے کی جدوجہد میں لگ گئے ہیں کہ اس عمل میں کچھ سرعت پیدا ہو جائے۔ اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ ریاست کیلیفورنیا نے تجربات کرنے اور نئی ایڈس ادویہ کی ممکنہ منظوری کے لیے اپنا ایک الگ نظام فروغ دے لیا ہے۔
دواؤں کی کھوج بین کے موجودہ نظام پر کچھ لوگ تنقید کرتے ہوئے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ ایڈس کے علاج و معالجہ میں افادیت کی حامل موجودہ ادویہ کی اسکرین کے لیے اس سے کہیں زیادہ کچھ کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چاہیے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ اس ضمن میں امکانی قوت کی کھوج بین تو کی نہیں جا رہی ہے بلکہ ادویہ ساز کمپنیاں نئی دوائیں تیار کرنے میں اس لیے دلچسپی دکھا رہی ہیں کہ صرف اور صرف اپنے لیے قانونی پیٹنٹ سرٹیفکیٹ حاصل کرسکیں۔ اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ بہت سے ریسرچ کرنے والے بھی کمپنیوں کی طرف سے حاصل مالی امداد کی وجہ سے انھیں کے سر میں سر ملاتے ہوئے صف آرا نظر آتے ہیں۔
اس وقت ایڈس کی دواؤں کے میدان میں جس دوا کا بول بالا ہے اسے Zidvudine یا عرف عام میں AZT کہتے ہیں اور یہ Retrovir کے تجارتی نام سے فروخت کی جاتی ہے۔ (Zidovudine کو اس سے پہلے azidothymidine of AZT کے نام سے جانا جاتا تھا اور کیوں کہ یہ اس دوا کا سب سے جانا پہچانا نام ہے اس لیے یہ اسی سیٹ (dossier) میں استعمال بھی کی جاتی ہے)۔ AZT بلڈ برین بیریئر (blood brain barrier) کو پار کر جاتی ہے اور منہ کے راستہ استعمال کی جاتی ہے اور زیادہ تر صنعتی ممالک میں ایڈس کے علاج میں استعمال کی جا رہی ہے۔ ایڈس کے مریضوں کی کچھ جماعتوں میں اس کی وجہ سے مامونیاتی افعال میں کچھ بہتری ہوتی دکھائی دیتی ہے اور اس کی وجہ سے اعصابی نظام بھی جزوی طور پر تباہ ہونے سے بچتا نظر آتا ہے۔
لیکن AZT بون میرو (bone marrow) کے لیے زہریلی ثابت ہوتی ہے چاہے تھوڑی مقدار میں ہی کیوں نہ استعمال کی جائے۔ اس شدید نوعیت کا انیمیا (anaemia) پیدا ہوتا ہے اور کچھ مریضوں کو تو بلڈ ٹرانسفیوژن (blood transfusion) کی نوبت تک آ جاتی ہے۔ برطانوی تفتیش کار تو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ فائدوں کے ساتھ ساتھ اس سے ذیلی برے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں اور مریض کو جی متلانے اور بھوک غائب ہو جانے سے لے کر بے خوابی (insomnia)، شدید نوعیت کی خون کی قلت، پھیپھڑوں کی بیماریوں اور دیگر ادویہ سے زہریلی بین عملیاں (toxic interaction) جیسے عارضے لاحق ہوسکتے ہیں جو مریض کی موت کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ انھوں نے یہ بات بھی دریافت کی کہ اس کے زہریلے تعاملات (toxic reactions) سے بچنے کے لیے جب اس کی خوراک کی مقدار میں کمی کی گئی تو ایڈس کے وائرس نے پھر اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا اور مریض کی موت تک ہو گئی۔
مضر ذیلی اثرات کا حامل ہونے کے باوجود بھی AZT کے سر یہ سہرا ضرور جاتا ہے کہ اس کے استعمال سے ایڈس کے بہت سے مریضوں کی عمر میں کچھ اضافہ ہو جاتا ہے اور اسی لیے اسے ایڈس کی علامات کے اظہار سے قبل اس امید پر ایچ آئی وی کے تعدیہ میں مبتلا افراد میں آزمایا جا رہا ہے کہ شاید بیماری سر نہ ابھار پائے۔ AZT کو 1960 کی دہائی سے کینسر کے علاج کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسے تھائی مائڈین (thymidine) سے تیار کیا جاتا ہے اور تھائی مائڈین کو ہیرنگ (herring) اور سالمن (salmon)منویہ سے حاصل کیا جاتا ہے۔ Burroughs- Welcome ایسی ٹرانس نیشنل کمپنی ہے جو بڑے پیمانے پر Retrovir کے نام سے AZT تیار کرتی ہے۔ اس کے متعلق یہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ اس نے تھائی مائڈین کے معاملہ میں ساری مارکیٹ کو اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے اور تھوڑی بہت جو بھی تھائی مائڈین تیار ہو پاتی ہے اس کی تمام مقدار کو حاصل کرنے کے حقوق حاصل کر رکھے ہیں اور اس طرح اب تک ایڈس کی ادویہ کے لیے جو بھی لائسینس عطا کیا گیا ہے، اس پر اسی کمپنی کی اجارہ داری ہے۔
اس اجارہ داری والے مقام کی ایک وجہ یہ ہے کہ جو لوگ ریاست ہائے متحدہ کے علاقہ میں ایڈس میں مبتلا ہیں انھیں اپنے علاج کے لیے 10,000 ڈالر سالانہ رقم Retrovir پر خرچ کرنی ہوتی ہے۔ یہ دوا اس قدر مہنگی ہے کہ کچھ یو ایس ڈاکٹروں کے بقول ریاست ہائے متحدہ اور یوروپ میں موجود ایڈس کے مریض یا تو غیر قانونی طور پر حاصل شدہ دواؤں کے ذریعہ یا پھر کچھ قزاق (pirate) قسم کی کمپنیوں کی تیار کردہ ادویہ استعمال کرنے پر مجبور ہیں یا پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ کچھ غیر ممالک سے ان کی اسمگلنگ کی جاتی ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ایڈس کے کچھ مریضوں کا یہ خیال ہے کہ AZT کی تیاری پر جو لاگت آتی ہے کمپنی نے اس کی قیمت فروخت پانچ تا دس گنا زیادہ کر رکھی ہے۔ وہ یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ کسی کم زہریلی اور سستی دوا کے مارکیٹ میں آنے سے قبل Burroughs-Welcome کی یہ کوشش ہے کہ اس کی مارکیٹ کم ہونے سے قبل وہ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کر لے۔ مذکورہ بالا اور فائدہ مند ادویہ تیار کرنے والی کمپنیوں نے اپنی دواؤں کی قیمتیں اتنی زیادہ بڑھادی ہیں کہ ایڈس کے مریض تو محتاج ہو کر رہ جائیں گے۔
AZT ہی کی طرح ایک امید افزا دوا Ampligen بھی ہے جو دراصل ایک ورغلانے والا وائرس (decoy virus) ہے جو نظامِ مامون میں تحریک پیدا کرنے کے نتیجہ میں ایچ آئی وی کے خلاف کی جانے والی کارروائی میں اضافہ کر دیتا ہے۔ Ampligen بھی بلڈ۔ برین بیریر کو پار کر جاتی ہے اور ایڈس اور ARC کی علامات میں مبتلا لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ مگر AZT کی ہی طرح اگر اسے بھی لائیسنس دیے جائیں تو یہ بھی بے حد مہنگی ہو جائے گی۔ مندرجہ ذیل ادویہ کو ابھی تک منظوری نہیں مل پائی ہے مگر ایڈس کے علاج کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں :
n Imuthiol ایک ایسی دوا ہے جو سستے داموں پر فراہم کرائی گئی ہے اور جسے فرانس میں موجود Institute Merieux Lyons نے تیار کیا ہے۔
n (dideoxycitidine) DDC، AZT کی طرح کینسر کی ایک ناکام دوا ہے۔ اس دوا پر یو ایس میں مطالعہ جاری ہے مگر اسے ابھی تک منظوری نہیں مل پائی ہے۔
n Ribavirin ایک مانع وائرس (viral inhibitor) دوا ہے۔ یہ میکسیکو میں فراہم کرائی جاتی ہے۔ محدود پیمانے پر کی جانے والی اس کی آزمائش کچھ امید افزا ثابت ہوئی ہے مگر ابھی مزید جانچ کی جانی باقی ہے۔
n AL721، یہ دوا اسرائیل میں انڈے کی زردی سے تیار کی گئی ہے۔ کچھ ایڈس کے مریض یہ کہتے ہیں کہ اسے تو کھانے کی چیزوں میں درجہ بند کیا جانا چاہیے اور یہ کہ اس کے لیے کسی لائسینس وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے۔
n Dextran Sulphate یہ ایک وائرس مخالف ایجنٹ (anti-viral agent) ہے اور اگر اس کو AZT کے ساتھ استعمال کیا جائے تو فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ ابھی یہ اپنی ابتدائی آزمائش میں ہے۔
AL721 کے علاوہ ان تمام دواؤں اور ایڈس کے علاج میں استعمال کی جانے والی دیگر چیزوں کے متعلق ایک بات مشترک ہے کہ اگر انھیں کامیابی کے ساتھ بازار میں لایا جائے تو یہ بہت ہی مہنگی ادویہ ثابت ہوں گی اور جہاں تک تیسری دنیا کے ممالک کا سوال ہے تو وہاں تو یہ استعمال ہی نہیں کی جاسکتیں۔ کیا ایچ آئی وی سے تباہ شدہ نظامِ مامون کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے یا اس کے خلیوں کو بدلا جاسکتا ہے اور ایڈس کے مریض میں تعدیوں کے تئیں مزاحمت بحال کی جاسکتی ہے؟ اس ضمن میں کچھ مریضوں پر ریپئیرٹریٹمنٹ انٹرفیرون (repair treatment interferon) اور inteleukin-2 جیسی حیاتیاتی اشیا اور امیون ری پلیس مینٹس (immune replacements) بشمول لمفوسائٹ ٹرانسفارمیشن (lymphocite transformation)، بون میرو ٹرانسپلانٹس (bone marrow transplants) اور تھائی مک امپلانٹس (thymic implants) کو آزمانے پر کچھ کامیابی ملی ہے۔
حال ہی میں علاج کا ایک نیا طریقہ تجویز کیا گیا ہے جو ایک ایساقدرتی پروٹین ہے جو تعدیہ میں مبتلا لوگوں میں سے ایڈس کے وائرس کو جذب کر لے گا۔ انسانی پروٹین میں ایک شے CD4 ہوتی ہے جو نظامِ مامون خلیوں پر بیٹھ جاتے (چسپاں ہو جاتے ہیں )۔ یو ایس میں ریسرچ کرنے والے یہ سوچتے ہیں کہ اگر CD4 کو ایسے لوگوں پر آزمایا جائے جو پہلے سے ہی تعدیہ میں مبتلا ہیں تو یہ پروٹین ترغیب (decoy) کے طور پر کام کرسکتا ہے اور وائرس کو جذب کر کے دوسرے نئے خلیوں تک اس کی سرائیت پذیری کو روک سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وائرس کش ادویہ کو پروٹین کے ساتھ منسلک کر دیا جائے تاکہ انھیں بلاواسطہ طور پر ایڈس کے وائرس تک پہنچایا جاسکے۔
ان دواؤں سے ای آئی وی وائرس کو جسم میں سے پوری طرح تو ختم نہیں کیا جاسکتا مگر انھیں عارضی فتوحات تو قرار دیا ہی جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اینٹی وائرل اور امیون ریپیئر/ری پلیس مینٹس کے مشترکہ استعمال سے آنے والے کچھ برسوں میں بہتر نتائج برآمد ہونے کی امید ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جو ایچ آئی وی بردار مریض ترقی پذیر ممالک میں رہتے ہیں ان کیلیے اتنا پیچیدہ علاج بہت مہنگا ثابت ہو گا۔
ایڈس کا ٹیکہ دریافت کر لینے کے سلسلے میں کی جانے والی ریسرچ کو فوقیت دے کر جو امیدیں وابستہ کی جا رہی تھیں وہ بھی دھندلاتی سی نظر آتی ہیں۔ کچھ تحقیق کرنے والوں کو امید ہے کہ دوائیوں اور دیگر علاج و معالجہ کے مشترکہ استعمال سے آنے والے عنقریب زمانے میں ایچ آئی وی اور ایڈس میں مبتلا لوگ نارمل زندگی گزارا کریں گے۔ مگر ایچ آئی وی اور ایڈس کا علاج بھی ذیابیطس جیسی مزمن (chronic) بیماریوں کی طرح طویل یعنی تا عمر والا ہو گا اور اگر یہ علاج و معالجے کارگر ثابت ہوئے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجموعی ضمنی اثرات بھی کم ہو جائیں گے۔
اپنے لمفو سائٹوں (lymphocytes) کو استعمال کر کے جسم وائرس کش خلیے اور اینٹی بڈیز تیار کرتا ہے اور وائرسوں سے اپنا دفاع خود کرتا ہے۔ یہ قدرتی دفاع ایچ آئی وی کے خلاف کام انجام نہیں دیتا۔
مصنوعی طور پر وائرسوں سے حفاظت کرنے کا طریقہ ٹیکے کا استعمال ہے جو یا تو مرے ہوئے وائرسوں یا پھر زندہ وائرسوں کے ہلکے اسٹرین والی خوراک پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں سے کوئی خوراک بھی بیماری میں مبتلا کر دینے والی تو نہیں ہوتی البتہ یہ لمفوسائٹوں میں تحریک ضرور پیدا کر دیتی ہے اور وہ بذاتِ خود مناسب اینٹی بڈیز تیار کرنے لگتے ہیں۔
ایڈس کا ٹیکہ: جلد دریافت ہونے کی امید نہیں
کیا ایچ آئی وی کے معاملہ میں یہ ہوسکتا ہے کہ جو لوگ اس تعدیہ میں مبتلا ہیں ان میں ایڈس کے تئیں مامونیت پیدا ہو جائے؟ جب مارچ 1987 میں اس ڈوسیز (دستاویزوں کے سیٹ) کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا تو ایڈس پر کام کرنے والے سائنس دانوں کے درمیان ایک محتاط قسم کی خوش فہمی کی فضا قائم تھی کہ وہ ایڈس کا ٹیکہ دریافت کر لیں گے۔ حالانکہ کچھ وائرولوجسٹ زیادہ نا امید تھے مگر زیادہ تراس بات پر متفق تھے کہ دس سال یا پھر اس سے زیادہ عرصہ میں کوئی مؤثر ٹیکہ دریافت ہو جائے گا۔ 1987 کے وسط میں زائرے میں ٹیکہ کے تجربہ سے جو نتائج پیدا ہوئے اس سے کچھ امید پیدا ہوئی۔ فرانسیسی ڈاکٹر ڈینیل زیگوری اور زائرے کے رضاکاروں نے اس سلسلے میں تیار کیا جانے والا ٹیکہ لگوایا۔ ان کے مطابق اس ٹیکہ سے ایچ آئی وی کے خلاف جسم میں موجود نظام ہائے مامون میں تحریک پیدا ہو جاتی ہے۔
اس کے علاوہ کچھ دیگر تجربات کے بعد اس قسم کے شواہد دستیاب نہیں ہوئے کہ پیدا ہونے والی اینٹی بڈیز واقعی ایچ آئی وی کے تعدیہ سے حفاظت کرتے ہیں یا نہیں۔ اس بات کی تحقیق کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ جس شخص کے جسم میں ایڈس مخالف اینٹی بڈیز تیار کرنے والی تحریک پیدا ہوئی ہے اسے ایڈس میں مبتلا کر کے دیکھا جائے اور یہ ایک نازک اور بے حد خطرناک قدم قرار دیا جاسکتا ہے اور اسے اٹھانے کو ابھی تک بھی کوئی تحقیق کار تیار نہیں ہوا ہے۔
اس پرخطر قدم اور تحقیق کے درمیانہ طریقہ پر بھی عمل کیا جاسکتا ہے جیسے یہ کہ زائرے کا ریسرچ گروپ جانوروں پر تجربات کرے، یعنی پہلے انھیں ایڈس کے وائرس سے تعدیہ میں مبتلا کیا جائے اور پھر دیکھا جائے کہ ان کے جسم میں ایڈس مخالف انٹی بڈیز سے کس قسم کے ردِّ عمل کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن 1988 کے اوائل میں جانوروں پر کی جانے والی تحقیق کو زبردست صدمہ سے دوچار ہونا پڑا۔ کچھ چمپانزیوں کو اس قسم کی اینٹی بڈی دی گئی تھی کہ جس نے تجربہ گاہ میں رکھی ہوئی طشتری میں موجود ایچ آئی وی کو تحلیل کر دیا تھا مگر بعدمیں جب ان چمپانزیوں کے جسم میں ایڈس کے وائرس داخل کیے گئے تو یہ اینٹی بڈی انھیں اس سے بچانے میں ناکام ثابت ہوئی۔ ایک دوسری آزمائش میں بندروں کو ٹیکے لگائے گئے۔ یہ ٹیکے بندر کے ایسے وائرس سے تیار کیے گئے تھے جن میں قطعاً کوئی سرگرمی (activation) نہیں تھی۔ (ایسے ٹیکوں کو inactivated preparations کہتے ہیں )۔ ان ٹیکوں کی وجہ سے یہ بندر ایڈس سے ملتی جلتی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ ان بندروں کا اینٹی بڈی ردِّ عمل (antibody response) نہایت عمدہ حالت میں تھا مگر اس کے باوجود بھی یہ بندر بعد میں ایڈس کے تعدیہ کے خلاف مکمل طور پر غیر محفوظ ثابت ہوئے۔ ایک مشہور امریکی محقق کے بقول جانوروں پر کی جانے والی آزمائش کی ناکامی حقیقی رکاوٹ ثابت ہوئی ہے کیوں کہ اس قسم کی آزمائشوں سے ٹیکے تیار کرنے کے پروگرام کی بقا کے تئیں اہم مسائل کھڑے ہو گئے ہیں۔
1988 کے وسط سے ہی یہ کہنا ناممکنات میں سے ہے کہ جو راہیں مؤثر ٹیکہ دریافت کرنے کی سمت میں جاتی ہیں، آیا ان میں حائل رکاوٹ عارضی ہیں اور مستقل اور اس بات کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کہ یہ راہیں کتنی طویل ثابت ہوں گی۔ بہرحال ریسرچ جاری ہے اور مامونیت پیدا کرنے والے مختلف قوت کے حامل ٹیکوں کو ریاست ہائے متحدہ اور برطانیہ میں مختلف جانوروں اور انسانوں پر آزمایا جا رہا ہے۔
جہاں تک ایڈس مانع ٹیکے کی ایجاد کا معاملہ ہے تو یہ ایڈس کے وائرس کی تغیر پذیری کے سبب ایک پیچیدہ کام ہے۔ ایک ویکسین (ٹیکہ) جو ایچ آئی وی کے ایک اسٹرین کے خلاف کام کرتا ہے وہی ویکسین دوسرے اسٹرین سے محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ اس سلسلے میں کئی طریقے کئی مسائل درپیش ہیں۔ پہلے طریقۂ کار میں اس بات کا امکان ہے کہ ایڈس کے وائرس کے مخصوص پروٹینی ذیلی حصوں (specific protein sub-parts of HIV virus) سے ایسا ویکسین تیار کیا جائے جو اینٹی بڈی کا کام بھی انجام دے اور قاتل خلیہ والا ردِّ عمل بھی ظاہر کرے۔ اس طریقۂ کار میں مختلف ویرئنٹس (variants) آزمائے جا رہے ہیں۔
ایڈس کا ٹیکہ پروٹین جلد(skin) یا ایچ آئی وی وائرس کے این ولپ(envelop) سے بھی بنایا جاسکتا ہے۔ تحقیق کرنے والوں نے دریافت کیا ہے کہ این ولپ کا ایک حصہ یعنی سگنیچر پروٹین (signature protein) مختلف اسٹرینوں (strain to strain) میں ناتبدیل شدہ (unchanged) ہی رہتا ہے۔ اگر این ولپ کا یہ حصہ الگ کر لیا جائے تو اس جینس کو جوڑ کر چیچک کا ویکسین تیار کیا جاسکتا ہے اور پھر اس سے HIV کا ٹیکہ تیار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ زائرے میں اسی طریقۂ کار کو ڈاکٹر زگوری اور ان کے ساتھیوں نے اختیار کیا تھا۔
ایڈس کے وائرس کے مصنوعی این ولپ پروٹین کو جنیٹک انجینئرنگ (genetic engineering) کے ذریعہ تجربہ گاہ میں تیار کیا جاسکتا ہے اور پھر اس سے انجکشن کے ذریعہ جسم میں داخل کی جانے والی ایک دوا تیار کی جاسکتی ہے۔ ایک امریکی بائیو ٹیکنالوجی کمپنی اس مصنوعی پروٹین کو تیار کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے اور اسے اس دوا کو انسانوں پر آزمانے کا لائسنس بھی مل گیا ہے۔ اب وہ مامونی ردِّ عمل جگانے میں اس کی اثر پذیری کی جانچ کرنے کے لیے رضاکاروں کو بھرتی کر رہی ہے۔
ایک امریکی۔ برطانوی جماعت ایسا ویکسین تیار کرنے پر کام کر رہی ہے جو وائرس کی سطح کے بالکل نیچے پایا جاتا ہے۔ یہ پروٹین اسٹرینوں کے مابین (between strains) اتنا اثرپذیر نہیں ہوتا جتنا سطح پر پائے جانے والے پروٹین ہوتے ہیں۔ ایک جماعت نے جنیٹک انجینئرنگ کے ذریعہ یہ پروٹین تیار کیا ہے اور اس ویکسین کو عنقریب انسانی رضاکاروں پر آزمایا جائے گا۔
ایک دوسرا طریقۂ کار یہ ہوسکتا ہے کہ ایسا ٹیکہ تیار کیا جائے جو ایچ آئی وی کے قلب (core) کو ہدف بنائے کیوں کہ این ولپس (envelopes) کے بمقابلہ کور جینس (core genes) میں تبدیلی کا اظہار کم ہوتا ہے۔ اسے آزمایا جا رہا ہے اور خرگوشوں، کتوں اور بندروں پر کی جانے والی آزمائش سے یہ ثابت ہوا ہے کہ مامونی ردِّ عمل پیدا ہوا ہے۔
ایک تیسرا طریقۂ کار یہ ہے کہ ایسی چیزیں استعمال کی جائیں جو ایڈس کے وائرس کے داخلی نقطہ کو مسدود کر کے اسے جسم میں تعدیہ پیدا نہ کرنے دیں۔
ایک چوتھا طریقہ کار یہ ہوسکتا ہے کہ وائرس کی قدرتی یا جنیٹک انجینئرنگ کے ذریعہ تیار کردہ ذیلی اکائی (sub-unit) کو استعمال کرنے کے بجائے پورا وائرس ہی ویکسین سازی میں بروئے کار لایا جائے۔ اصل میں پہلے ایڈس کے وائرس کو مارا جائے یا بے عمل بنا کر اس کی تعدیہ میں مبتلا کر دینے والی یا خلیہ کو تباہ کر دینے والی صلاحیت سے محروم کر دیا جائے۔ اسے پیش کرنے والے ہیں ڈاکٹر جوناس ساک (Dr. Jonas Salk) جنھوں نے 1950 کی دہائی میں سب سے پہلے پولیو کا ویکسین تیار کیا تھا۔ ان کے بتائے ہوئے طریقہ کار میں پہلے ایڈس کے وائرس کو اشعاع ریزی کے ذریعہ مارا جاتا ہے اور پھر انجکشن تیار کیے جاتے ہیں۔ تجربہ گاہ میں بندروں پر آزمانے سے اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں اور ان میں عمدہ اینٹی بڈی ردِّ عمل والی تحریک پیدا ہوئی ہے۔
اس ترکیب کا زیادہ فائدہ یہ ہے کہ کسی ویکسین میں ایڈس کے پورے وائرس کو استعمال کرنے پر نظامِ مامون میں ایسی تحریک پیدا ہو گی جس سے وہ مختلف وائرل پروٹینوں کے خلاف اینٹی بڈیز کا ایک پورا سیٹ تیار کرے گا اور یہ ایک ایسا تدارکی قدم قرار دیا جائے گا جو واحد منتخب وائرل پروٹین کے خلاف اینٹی بڈیز تیار کرنے سے بہتر قرار دیا جائے گا۔ لیکن کچھ ریسرچ اسکالروں کا خیال یہ ہے کہ نظامِ مامون میں ضرورت سے زیادہ تحریک کی آگ بھڑکانے سے یہ بالکل تباہ ہو کر رہ جائے گا اور وہ پہلے سے بھی زیادہ ایڈس قبول کر لینے والا بن جائے گا۔
اگر موجودہ طور پر آزمایا جانے والا انسانی ویکسین اپنے پہلے دور میں امید افزا ابتدائی ویکسین ثابت بھی ہو جائے تو ریسرچ کے دوسرے مرحلے پر نہایت خطرناک اور اخلاقی مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا۔ سب سے پہلے اپنے آپ پر تجربات کرنے کے لیے کون پیش کرے گا؟ پانچ تا دس یا کچھ زیادہ برسوں پر بسیط ایچ آئی وی کی انتہائی خضانت (incubation) مدت سے بھی کم عرصہ میں ویکسین کی اثر پذیری کا تعین کیسے ہو پائے گا؟ جن لوگوں کو ویکسین دیا جائے گا ان کے جنسی طرزِ عمل (sexual behaviour) پر برسوں تک نہایت قریب سے نگرانی کرنی ہو گی۔ اس کے علاوہ کچھ نہایت شدید نوعیت کے ذیلی اثرات بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔ ایڈس کے ویکسین کو ٹیسٹ کرنے کے بین الاقوامی طور پر منظور رہنما خطوط (guide lines) کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کی ذمہ داری عالمی تنظیم برائے صحت پر عائد ہوتی ہے جو اس سے قبل بھی دیگر متعدی امراض کے تئیں اسی قسم کا کردار ادا کر چکی ہے۔
انسانوں پر آزمائشوں کے بعد ویکسین کی فراہمی بھی بہت زیادہ پیچیدہ نوعیت کی ہو گی۔ ہوسکتا ہے کہ دوا کمپنیاں نئی دوا کو بازار میں لانے کے لیے بہت زیادہ بے چینی کا اظہار نہ کر پائیں، مہنگی عدالتی چارہ جوئی کے بھی بہت زیادہ امکانات موجود ہیں۔ اس نئے ویکسین کی قیمت کتنی مقرر کی جائے؟ کیا اسے بڑے پیمانے پر تقسیم کریں یا صرف ایسے لوگوں کو ہی ویکسین لگانے کے لیے منتخب کریں جنھیں اس مرض میں مبتلا ہونے کے زیادہ خطرات لاحق ہوں ؟ یہ انتخاب کون کرے؟ کیا تیسری دنیا کے ممالک میں ویکسین کی تقسیم مشکل ثابت ہو گی؟
ہیتی اور کئی افریقی ممالک میں تو تقریباً ہر شخص کے یہ ٹیکہ لگنا ہی چاہیے، اور اس کام پر زبردست لاگت آئے گی۔ مگر اس قسم کے ٹیکوں کو نہ لگانا ایک طرح سے نسل کشی (genocide) ہی قرار دیا جائے گا۔ ابھی حالیہ گزشتہ برسوں میں ہیپی ٹائٹس بی سے بچنے کے لیے جو ویکسین فراہم کرایا گیا ہے اس کی مثال پیش کی جاسکتی ہے کہ بائیو انجینئرنگ سے تیار شدہ اس قسم کا ٹیکہ کتنا مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ ہیپی ٹائٹس ویکسین بڑے پیمانے پر کسی دوا کی طرح تیار نہیں کیا جاتا بلکہ جراثیمی کلچر کی مانند اگایا جاتا ہے۔ اس ویکسین کے لیے تجربہ گاہ میں جراثیم اگانے کے کام میں بڑا وقت، مہنگے آلات اور سامان اور زبردست مہارت درکار ہوتی ہے۔ اس وقت ہیپی ٹائٹس بی کے تئیں مامونیت پیدا کرنے کے لیے فی آدمی تقریباً 180 امریکی ڈالر کی لاگت آتی ہے۔ اسی طرح ایڈس کا ٹیکہ بھی مہنگا ثابت ہو گا۔ کم از کم فروغ پانے کے بعد ابتدائی برسوں کے لیے تو یہ بات یقیناً کہی جاسکتی ہے اور غریب ممالک میں بڑے پیمانے پر اس کا استعمال مسائل آفریں بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
اور ہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ ویکسین سے نئے لوگوں کو ہی ایچ آئی وی وائرس سے تعدیہ میں مبتلا ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔ اس کا ان لاکھوں کروڑوں افراد پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جو شاید اس وقت تک ایچ آئی وی پازیٹو بن چکے ہوں گے۔
٭٭٭
ویب سائیٹس (Websites)
http://www.unfpa.org
http://www.unaids.org
http://www.comminit.com/interviewsar chieves.shtml
http://www.negeriaaids.org
http://www.aids.org.uk
http://www.hri.ca/partness/lc/unit/index.shtml
http://www.tac.org.za
http://www.welcome.to/goya
http://www.manuela.org.pe
http://www.kt.nl/exchange
http://www.avert.org
http://www.naco.nic.in
http://www.fhi.org/en/aids/impact/briefs/mtch.htm
http://www.changemakers.com
http://www.austrialinaprswcriber.com/maganizes/vol21no2.hav.htm
http://www.iaen.org
http://www.aidspan.org/gfo/
http://www.unaids.org/wac/2000/wadoo/files/WAD-epidemic-reort.htm
فرہنگ اصطلاحات
Adolescent (عنفوان شباب)
تیرہ تا سولہ برس کا لڑکا یا لڑکی جس نے بچپن کو خیرباد کہہ کر جوانی میں قدم رکھا ہو اور جسے پوری طرح بالغ بھی قرار نہ دیا جا سکتا ہو۔ یہ بچپن اور جوانی کی درمیانی حالت ہوتی ہے۔
Acquired Immuno Deficiency Syndrome AIDS (ایڈس)
کا مخفف۔ یہ HIV کی آخری اسٹیج ہوتی ہے اور اس اسٹیج (حالت) پر جسم انسانی کے مامونی نظام(immune system)کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔
Amniotic Fluid (انفسائی سیال)
یہ سیال انفسائی جوف (ammniotic cavity) میں بھرا رہتا ہے۔ انفسائی جوف� جنین اور انفس (embryo and amnion) کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ یہ ہر طرف سے جنین کو گھیرے رہتا ہے اور باہری دباؤ سے اس کی حفاظت کرتا ہے۔
Attitude (انداز فکر)
سوچنے، محسوس کرنے اور طرز عمل کے اظہار کا انداز
Awareness (آگاہی)
کسی شخص، حالت یا چیز سے واقف ہونا۔ آگاہی حاصل کرنا
AZT
Azidothymidine کا مخفف۔ HIV/AIDSکے تعدیہ میں مبتلا لوگوں کے علاج میں استعمال کی جانے والی انیٹی وائرل (antiviral)دوا
Belief (اعتقاد)
کسی چیز یا کسی شخص کے اچھا ہونے کا احساس یا اس بات کا یقین کہ وہ چیز یا ہستی موجود ہے یعنی کسی شے کی صداقت کا یقین
Bonemarrow (ہڈیوں کا گودا)
ہڈیوں کے سوراخ (cavity) میں پائی جانے والی بافت (tissue)
Cancer (کینسر/سرطان)
ایک خطرناک رسولی (malignant tumour)ہوتی ہے۔ یہ رسولی (کینسر) خلیوں کی ایسی غیر معمولی اور بے قابو تقسیم کی وجہ سے وجود میں آتی ہے جو قرب و جوار کی بافتوں کو تباہ کر کے رکھ دیتی ہے۔
Cerebrospinal Fluid (سیری برواسپائنل فلوئڈ)
ایک ایسا پانی نما سیال جو دماغ اور نخاعی ڈور (spinal cord) کو گھیرے رکھتا ہے۔
Conceptions (تصورات)
منصوبہ سازی کا عمل، خیال، عام سمجھ بوجھ
Condom (کنڈوم)
ربر کا ایسا غلاف جسے مرد اس لیے استعمال کرتے ہیں کہ پیدائش پر کنٹرول رکھا جائے یا بیماری سے بچا جا سکے۔
Contagious (متعدی/چھوت کی بیماری)
ایسی بیماری جو چھونے سے، ایک دوسرے کے تماس (contact) میں آنے سے یا ہوا کے ذریعہ پھیلتی ہے۔
Denial (انکار)
کسی چیز کو جھوٹ، ناقابل وجود کہہ کر مسترد یا نامنظور کرنے کا عمل۔ کسی خاص شے سے لا تعلقی کا اظہار کر کے اس کی ذمہ داری سے انکار کر دینے کا عمل۔
Disease (مرض/بیماری)
کسی تعدیہ یا غیر فطری (unnatural) افزائش (growth) کے سبب صحت کی خرابی یا عارضہ میں مبتلا ہو جانا۔
Drug addiction (نشہ آور ادویہ کی عادت)
کوکین، حشیش، بھنگ جیسی اور جسم کو نقصان پہنچانے والی چیزوں کے استعمال کی عادت پڑ جانا۔
ELISA
Enzyme Linked Immumo Sorbant Assay کا مخفف۔ خون میں HIV اینٹی بڈی کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے کیا جانے والا ٹیسٹ۔
Epidemic (وبا)
کسی ایک ہی مدت میں یکساں تعدیوں کے بہت سے واقعات کی رونمائی اور عالمی پھیلاؤ نیز ایسی بیماری جس کا کوئی شافی، علاج موجود نہ ہو۔
Epidemiology (وبائیات)
بیماری پھیلنے کا مطالعہ کرنا اور یہ پتہ لگانا کہ لوگوں کی مختلف جماعتوں میں یہ کیسے سرائیت کرتی ہے اور سرائیت (پھیلاؤ) کو متاثر کرنے والے عوامل کو ن سے ہیں۔ یہ وبائی امراض کا ایسا علم قرار دیا جا سکتا ہے جس میں امراض کنٹرول کرنے اور ان سے بچنے کے طور طریقے معلوم کیے جاتے ہیں۔ اس میں ماحول سے وابستہ بیماریاں بھی شامل ہیں۔
Extra-marital relations (شادی شدہ شخص کے دیگر لوگوں کے ساتھ جنسی تعلقات)
شادی شدہ شخص کی دیگر افراد کے ساتھ جنسی تعلقات قائم رکھنے کی عادت۔ ایک فرد سے شادی ہو چکنے کے بعد بھی دیگر افراد سے جسمانی تعلقات قائم رکھنے کا شوق۔
Gay (گے)
ایسا مرد (لونڈا/معشوق) جو دیگر مردوں سے جنسی تعلقات قائم رکھتا ہے۔
Gonorrhoea (سوزاک)
جنسی تعلقات کے ذریعہ پھیلنے والی ایسی بیماری جو ایک جرثومہ کے ذریعہ لاحق ہوتی ہے اور جو مرد یا عورت کی تناسلی مخاطی جھلیوں (genital mucous membranes) کو متاثر کرتی ہے۔ اس بیماری کی علامات یہ ہیں کہ پیشاب کرتے وقت تناسل/مبہل (vagina) میں بے حد تکلیف اور درد ہوتا ہے اور مواد خارج ہوتا ہے۔ حمل کے دوران اس بیماری کی وجہ سے بچہ کی آنکھیں متاثر ہو سکتی ہیں۔
Gynaecology (علم امراض نسواں )
عورتوں کی بیماریوں اور وہ بھی خصوصاً تولیدی نظام کا علم۔
Health (صحت)
ایک ایسی حالت جسے بیماری، جسمانی اور ذہنی عارضوں نیز تمام امراض سے مبرا قرار دیا جائے۔
Hemophiliacs (ہمیو فلیاکس)
ایک پیدائشی گڑبڑ جس میں خون رفتہ رفتہ جم پاتا ہے اور ایسا کوآگولیشن فیکٹر (coagulation factor) کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
Hereditary (موروثی)
جو ماں باپ سے بچوں میں منتقل ہوتی ہو اور یہ سلسلہ نسل در نسل جاری رہتا ہو۔
Hetero sexual (دگر جنسی)
وہ شخص جو جنس مخالف سے جنسی تعلقات قائم کرتا ہے۔
Homosexual (ہم جنس پرست)
ہم جنس افراد کی طرف جنسی رغبت رکھنے کا عادی (مرد یا عورت)
Immune System (مقام مامون)
جسم کا ایسا نظام جو کسی خاص بیماری کے تئیں اینٹی بڈیز (ضدہائے حیات) پیدا کر کے متعدی امراض کی مزاحمت کرنے میں مدد دیتا ہے۔ خون کے سفید خلیے بیماری سے لڑتے ہیں۔
Incubation period (مدت خضانت)
ابتدائی تعدیہ اور اس کی علامت ظاہر ہونے کی درمیانی مدت (وقت)
Infection (تعدیہ)
نقصان دہ عضویوں (harmful organisms) کا جسم پر حملہ آور ہونا
Juvenile Delinquency (تقصیر طفلانہ)
ایسے نو عمر بچوں کے ذریعہ سرزد خطا جو نہ تو بچے ہوں نہ بالغ اور عمر رسیدہ
Malaria (ملیریا)
خون کے سرخ خلیوں میں پیراسائٹک پروٹوزوآ (بیماری پیدا کرنے والے جراثیم) کی موجودگی سے پیدا ہونے والا متعدی مرض۔ یہ بیماری مادہ اینوفلیز مچھر کے کاٹنے کے سبب پھیلتی ہے اور زیادہ تر گرم سیر یا ذیلی گرم سیر علاقوں تک محدود ہے۔
Marriage (شادی)
ایسا قانونی رواج جس کی رو سے مرد و عورت کو شوہر و بیوی کا رتبہ حاصل ہو جاتا ہے۔
Masturbation (جلق)
جنسی عضو میں تحریک پیدا کرنا
Misconception (غلط فہمی)
غلط فہمی میں مبتلا ہو جانا۔ غلط اطلاع پر یقین کر لینا
Monogamy (یک زوجگی)
ایک ہی وقت میں ایک ہی فرد سے شادی کرنا۔ اس کا مطلب ہے کہ مستقل طور پر ایک ہی جنسی شریک پر اکتفا کرنا۔
Night sweat
نیند کے دوران پسینہ پسینہ ہو جانا۔ یہ ٹیوبر کلوسس اور ایڈس جیسی بیماریوں کی علامت بھی ہو سکتی ہے۔
Opportunistic Infection (مصلحت پرستانہ تعدیہ)
جب مامونی نظام فیل ہو جاتا ہے تو یہ وائرسی تعدیے مزید زہریلے ہو جاتے ہیں اور ایڈس کے معاملہ میں تو مہلک ہی ثابت ہوتے ہیں۔
Orthodox (راسخ العقیدہ)
عمومی طور پر تسلیم شدہ عقائد پر یقین رکھنے والا۔
Pandemic (عالمی وبا)
بہت وسیع عریض علاقہ کو اپنی لپیٹ میں لینے والی وبا جو براعظموں کو اپنی لپیٹ میں لے کر پورے کرہ ارض کو متاثر کرتی ہے۔
Pneumonia (نمونیا)
جراثیم کے ذریعہ پیدا ہونے والی پھیپھڑوں کی سوزش جس میں ایلویوی (alveoli/کہفے) میں مواد بھر جاتی ہے۔ اس وجہ سے پھیپھڑے ٹھوس ہو جاتے ہیں اور پھر ہوا ان سے باہر نکل جاتی ہے (داخل نہیں ہو سکتی)۔ سینہ کا درد اور کھانسی نمونیہ کی علامت ہیں۔
Polyandry (چند شوہری)
ایسی شادی جس میں ایک عورت کے بیک وقت کئی کئی شوہر ہوتے ہیں۔
Polygamy (کثیرالازداوجی)
ایسی شادی جس میں ایک مرد کی کئی بیویاں رکھ سکتا ہے۔
Pregnancy (حاملہ ہونا)
وہ عرصہ جس میں کسی عورت کے پیٹ میں نمو پذیر جینن موجود ہو۔ یہ عرصہ تقریباً 266 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
Premarital sex (شادی سے پہلے والا جنسی عمل)
شادی سے قبل کسی فرد کے ذریعہ کسی دوسرے فرد کے ساتھ جنسی روابط قائم کرنا
Promiscuous (مخلوط)
ایک ایسا شخص جو فرد واحد سے مباشرت پر اکتفا نہ کرتا ہو۔
Prostitute (طوائف)
ایسی عورت/مرد جو پیسہ لے کر کسی شخص کے ساتھ مباشرت کرنے پر راضی ہو جائے۔
Screened (اسکرین شدہ)
ٹیسٹ شدہ
Self esteem (خود پسندی)
اپنے تئیں یا اپنی قدرو منزلت کے تئیں خوش فہمی میں مبتلا ہونا۔
Sexuality (جنسیت)
جنسی عمل کا شوقین، خواہش مند یا جنسی عمل پر راضی (ہونا)۔
Sexual Intercourse (جنسی مجامعت)
دو افراد کے مابین ایسا جسمانی ربط جس میں جنسی اعضاء والی بین عملی موجود ہو۔
Syndrome
بیک وقت دو یا دو سے زیادہ بیماریوں میں مبتلا ہونے کی تصدیق۔
Syphilis (آتشک)
ایسی کہنہ جنسی بیماری (مرض خبیثہ)جو ایک جرثومہ کے سبب پیدا ہوتی ہے اور پھر تمام جسم پر زخم پیدا ہو جاتے ہیں۔
Taboo (حرام)
ایسی سماجی رسومات جن کی سختی سے ممانعت کی جاتی ہے۔
Teenager
13 تا 19 برس کی عمر والا فرد۔
Treatment (علاج)
کسی بیماری، متعدی مرض، عارضہ یا ایسی ہی گڑبڑ والی حالت سے شفا یابی حاصل کرنے کا طریقہ۔
Tuberclosis (ٹی بی)
بیسی لس مائیکو بیکٹیریم ٹیوبرکلوسس (Bacillus Mycobacterium Tuberclosis) کے ذریعہ پیدا کی جانے والی متعدی بیماری جس میں بافتوں میں نوڈولر فاسد تغیرات (nodular lesions)پیدا ہو جاتے ہیں۔
Ulcers (السر)
غذائی قطعہ (alimentary tract) کی لائننگ (استرکاری) کرنے والی جھلی یا جلد کے پھٹنے سے جو زخم بنتا ہے وہ بھرنے نہیں پاتا اور اکثر اس میں سوزش ہونے لگتی ہے۔
Vaccine (ٹیکہ)
لوگوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے جسم میں دوا داخل کرنا۔ کچھ خاص دوائیں اینٹی جینک مادہ (antigenic material) سے تیار کی جاتی ہیں جنھیں اینٹی بڈیز میں تحریک پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بیماریوں کے تئیں موثر مامونیت پیدا ہو جاتی ہے۔
Venerology
امراض خبیشہ کا مطالعہ
Vulnerable (غیر محفوظ)
ہدف پذیر، جو بہتر طور پر محفوظ نہ ہو جسے آسانی سے ضرر پہنچایا جاسکتا ہے۔
Wetern blot
جسم میں HIV کی موجودگی یا غیر موجودگی کی تصدیق کرنے کے لیے انجام دیا جانے والا ٹیسٹ۔
Window Period
انفکیشن/تعدیہ کے جسم میں داخل ہونے اور اینٹی بڈیز پیدا ہونے سے پہلے والی مدت۔
٭٭٭
ماخذ:
http://urducouncil.nic.in/ebooks/Duniya-Men-AIDS.htm
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید