FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

دیوندر ستیارتھی کی کچھ کہانیاں

حصہ دوم

دیوندر ستیارتھی

ڈاؤن لوڈ کریں

حصہ اول

ورڈ
فائل

ای پب
فائل


کنڈل
فائل

حصہ دوم

ورڈ
فائل

ای پب
فائل

کنڈل
فائل

حصہ سوم 

ورڈ
فائل

ای پب
فائل

کنڈل
فائل

حصہ چہارم

ورڈ
فائل

ای پب
فائل

کنڈل
فائل

راجدھانی کو پَرنام

ناگ پھنی کے پودوں کے قریب ایک بوسیدہ مکان کے
سامنے شنکر بابا اپنی نیم اندھی آنکھوں سے سڑک کی طرف دیکھ رہا تھا۔ یا یہ کہیے کہ
دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ آج شہر کی طرف سے بہت سی لاریاں پہیوں کی دندناتی ہوئی
آواز کو ہوا میں اُچھالتے ہوئے گزر رہی تھیں۔ اتنی لاریوں کا کیا مطلب ہے؟ یہ سوال
اسے پریشان کر رہا تھا۔ اچانک اسے انسانی قدموں کی چاپ سنائی دی۔

 ’’کون؟
— دیپ چند؟‘‘ شنکر بابا نے تیزی سے سر گھماتے ہوئے پوچھ لیا۔ کیونکہ وہ تین دن سے
دیپ چند کا انتظار کر رہا تھا۔

 ’’پا لاگن،
بابا!‘‘ آنے والے نے کسی قدر جھک کر اور چہرے پر ایک شگفتہ سی مسکراہٹ لاتے ہوئے
کہا۔ اگرچہ بابا کی نیم اندھی آنکھوں میں اب اتنی طاقت نہیں رہ گئی تھی کہ وہ
مسکراہٹ تو مسکراہٹ، کسی کے خدوخال کا صحیح جائزہ بھی لے سکے۔

دیپ چند کی آواز پہچان کر بابا کو بہت خوشی ہوئی۔
کیونکہ تین روز سے وہ اسی کے انتظار میں سڑک کے قریب چلا آتا تھا۔ نہ جانے کیا سوچ
کر وہ کہہ اُٹھا:

 ’’میں
تو جانوں شہر گانو کی طرف بڑھ رہا ہے۔‘‘

لیکن دیپ چند شنکر بابا کی ہاں میں ہاں ملانے
کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ تو خود شہر سے آ رہا تھا اور ایسی کوئی بات اس نے کسی کی
زبان سے نہیں سُنی تھی۔ بظاہر وہ بولا:

 ’’ہم
بھی انسان ہیں، ڈھور تو نہیں کہ کوئی جدھر چاہے ہانک دے۔‘‘

شنکر بابا کو ہنسی آ گئی جس میں نفرت کی بہت زیادہ
آمیزش تھی۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ شہر والے جو چاہیں کر گزریں کیونکہ وہ اندر ہی
اندر کھوٹے ہوتے ہیں۔ لیکن اپنے من پر قابو پا کر وہ کہہ اُٹھا:

 ’’تم
سچ کہتے ہو دیپ چند۔ ہم ڈھور تو نہیں۔ ہمارا بھی بھگوان ہے۔‘‘

لیکن سڑک سے برابر لاریاں گزر رہی تھیں ان کے
پہیوں کے شور کے پس منظر میں کان کے پردے پھاڑنے والی ہارن کی آواز گونج اُٹھتی تھی۔
وہ کہنا چاہتا تھا کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے۔ شہر سے بھگوان ہی بچائے
ہمارے گانو کو۔ ورنہ یہ جھوٹا، دغا باز مکار شہر جو بھی کر گزرے تھوڑا ہے۔ گانو کو
چاہیے کہ اپنی جان تک لڑا دے اور اپنی زمین سے گز برابر جگہ بھی نہ دے۔ سب دھوکا
ہے دھوکا۔ یہ بات تو بھگوان کو بھی نہیں بھائے گی کہ جس دھرتی پر اَن اُگ سکتا ہے
وہاں اَن اُگانے پر روک لگا دی جائے۔ یہ تو دھرتی کا اَپمان ہے۔ دھرتی یہ اَپمان
نہیں سہہ سکتی۔ سوچ سوچ کر وہ کہہ اُٹھا۔

 ’’یہ
سب دھرم کی کمی کے کارن ہو رہا ہے، دیپ چند۔‘‘

 ’’دھرم
بنا نروان کہاں؟‘‘ دیپ چند نے جیسے کسی گیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا۔ اگرچہ وہ من ہی
من میں جھینپ سا گیا۔ ابھی اگلے ہی روز شہر میں نہ جانے کون کہہ رہا تھا کہ آج
نروان یا مکتی کی تلاش کی بجائے انسان آزادی کے لیے اپنی جان قربان کر رہا ہے۔ اس
کے دماغ کو جھٹکا سا لگا۔ اس کے دل میں تو یہ خیال شہد کی جنگلی مکھّی کی طرح
بھنبھنانے لگا کہ سچ مچ دھرم کے بغیر آزادی مل سکتی ہے۔ لیکن جھٹ اُسے یاد آیا کہ
اب تو جنگ بھی ختم ہو چکی ہے۔ آزادی کو تو اب آ ہی جانا چاہیے۔ بہت انتظار ہولیا۔
اس نے دور سڑک کی طرف نگاہ ڈالی جیسے یکایک کوئی لاری رُک جائے گی اور لاری سے
اُتر کر آزادی کی دیوی سب سے پہلے اسی بوسیدہ مکان کے رستے پر چل پڑے گی۔ اس وقت
اسے ناگ پھنی کے پودوں کی قطار پر بے حد جھنجھلاہٹ سی محسوس ہوئی۔ آزادی کی دیوی
کے سواگت کے لیے تو کوئی نیا ہی اُپائے ہونا چاہیے۔

شنکر بابا مٹی کے چبوترے پر بیٹھے بیٹھے بچپن کی
یاد میں کھو گیا جب ابھی ادھر سے یہ سڑک بھی نہیں نکلی تھی۔ کھیت سے گانو کافی دور
تھا اور اس کا باپ کھلی ہوا میں رہنا زیادہ پسند کرتا تھا۔ بہت سوچ سوچ کر اس نے یہ
کوٹھا بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ سال کے سال اس کوٹھے کی چھت اور دیواروں پر لپائی
پوتائی کی جاتی تھی۔ اس وقت اسے ایسے ہی دوسرے کوٹھوں کا دھیان آیا جو اس سے پہلے
تعمیر کیے گئے تھے اور سڑک کے بیچ میں آ جانے کے سبب سے گرا دیے گئے تھے۔ اب تو
محض تین چار کوٹھے ہی تھے جو سڑک کے کنارے یا اس سے کسی قدر ہٹ کر نظر آ رہے تھے۔
سڑک نے بہت سے کھیتوں کو دو دو حصّوں میں بانٹ دیا تھا۔ خیر یہ تو پُرانی کہانی تھی۔
نئی کہانی تو اتنی ہی تھی کہ اب سڑک کے کنارے کسی کو نیا کوٹھا بنانے کی اجازت نہیں۔
لگے ہاتھوں یہ حکم بھی سنا دیا گیا تھا کہ کوئی سڑک کے کنارے اپنے کوٹھے کی لپائی
پوتائی نہ کرے۔ اس کا مطلب صاف یہی تھا کہ یہ کوٹھے خود ہی گر جائیں گے۔

دیپ چند نہ جانے کیا سوچ کر کوٹھے میں جھاڑو دینے
لگا۔ شاید اس کے ذہن کے کسی کونے میں آزادی کی دیوی کی تصویر اُجاگر ہو رہی تھی۔
بار بار اس کی نگاہیں سڑک کی طرف اُٹھ جاتیں۔ جیسے اسے یقین آ رہا ہو کہ آزادی کی
دیوی نے جیب سے پیسے دے کر لاری کا ٹکٹ لیا ہو گا اور اسے ٹھیک منزل پر اُترنے کی
بات نہیں بھولے گی۔ جنگ تو کبھی کی ختم ہو چکی، اس نے سوچا اب تو بہت سے فوجی بھی
برخاست کر دیے گئے۔ توپ بندوق سنبھالنے کی بجائے یہ لوگ پھر سے ہل چلائیں گے۔ یہ
دھرتی کی جیت ہے۔ جن لوگوں کی دھڑادھڑ گرفتاریاں عمل میں آئی تھیں وہ سب لمبی قیدیں
کاٹ کر باہر آ چکے ہیں۔ ہاں جن ماؤں کے بیٹے جنگ میں کام آئے، یا آزادی کی لڑائی میں
پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن گئے ابھی تک اُداس بیٹھی ہوں گی۔ وہ شنکر بابا سے
کہنا چاہتا تھا کہ پت جھڑ کے بعد دوبارہ بسنت آتا ہے۔ پھاگن آئیو رنگ بھریو … وہ زیر
لب گنگنانے لگا۔ وہ چاہتا تھا کہ پھاگن کی تعریف میں باتوں کے پُل باندھ دے۔ کیسا
سہانا سماں ہے۔ نہ سردی نہ گرمی۔ سال کے سال یہ رُت آتی ہے۔ پھاگن آئیو رنگ بھریو
… پھاگن کا مزہ تو گانو میں ہے۔ شہر والے پھاگن کو نہیں پہچانتے۔ اسی لیے تو آزادی
کی دیوی کو شہر سے پہلے گانو میں آنا چاہیے۔ اسے دیکھتے ہی اُداس ماؤں کے چہروں پر
پھر سے مسکراہٹیں تھرک اُٹھیں گی۔

شنکر بابا چبوترے سے اُٹھ کر کوٹھے کے اندر چلا
آیا۔ اور آنکھیں پھیلا پھیلا کر چھت کا جائزہ لینے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ چاہتا تھا
کہ دیپ چند سے کہے ذرا لگے ہاتھ چھت کے جالے بھی اُتار دو۔ کوٹھے کے اندر دھول کا
بادل اُمڈ آیا تھا۔ ہمدردی کے احساس سے مجبور ہو کر وہ کہہ اُٹھا:

 ’’ہولے
ہولے، دیپ چند- بیٹا، ہولے ہولے ہاتھ چلاؤ‘‘ دھول اور پھیپھڑوں کا بیر چلا آتا
ہے۔‘‘

دیپ چند سے بھی یہ بات چھپی ہوئی نہ تھی۔ لیکن
اس وقت وہ یہ بات ماننے کے لیے تیار نہ ہوا۔ بولا: ’’دھول سے تو شہر والے ہی زیادہ
ڈرتے ہیں، بابا گانو والے تو دھول میں جنم لیتے ہیں، دھول میں ہی ایک دن دم توڑ دیتے
ہیں۔‘‘

کہنے کو تو دیپ چند نے یہ بات کہہ دی۔ لیکن وہ
جھینپ سا گیا۔ جیسے اسے یہ خیال آ گیا ہو کہ اگر یہ بات آزادی کی دیوی کے کان میں
پڑ جائے تو وہ اپنا ارادہ بدل سکتی ہے اور کرودھ میں آ کر گانو والوں کے سواگت کو
ٹھکرانے کا فیصلہ کر لے تو سمجھیے کہ بنا بنایا کھیل ہمیشہ کے لیے بگڑ گیا۔ ایک
ہاتھ سے گریبان کا بٹن بند کرتے ہوئے اس نے جھاڑو کی رفتار ایک دم دھیمی کر دی۔ کیونکہ
کھلے ہوئے گریبان سے تو نئے زمانے کو نمسکار کرنا نہ کرنا ایک برابر ہوتا۔

کوٹھے کے ایک کونے سے لمبا سا بانس اُٹھا کر
بابا نے اس کے سرے پر اپنا انگوچھا باندھ دیا اور ہولے ہولے اس جھاڑن کو چھت پر
گھمانے لگا۔ جیسے ماں اپنے ننھے کی پشت پر تھپکیاں دے رہی ہو۔ وہ چاہتا تھا کہ ایک
بھی جالا باقی نہ رہ جائے۔ اس وقت اسے اپنی کمزور نگاہ پر غصّہ آ رہا تھا۔ لیکن وہ
دیکھی اَن دیکھی جگہ پر جھاڑن گھمائے جا رہا تھا اور وہ بھی کچھ اس انداز میں جیسے
کوئی کسی کو غصّہ تھوکنے پر رضامند کرتے ہوئے یہ دلیل دیتا چلا جائے کہ میں نے کچھ
قصور کیا ہو تو بھی معاف کر دو اور قصور نہ کیا تو بھی۔

دیپ چند جھاڑو دے چکا تو اس نے بابا کے ہاتھ سے
جھاڑن لیتے ہوئے کہا: ’’میرے ہوتے تم کشٹ کرو، بابا!یہ تو مجھے شوبھا نہیں دیتا۔‘‘

بہت سے جالے تو پہلے ہی جھاڑن سے لپٹ چکے تھے۔
اب رہے سہے جالے بھی دوچار بار اِدھر اُدھر جھاڑن گھمانے سے لپٹ گئے، یوں ہی جھاڑن
جالوں والا سرا نیچے زمین کی طرف کیا گیا۔ دیپ چند کے جی میں تو آیا کہ بابا سے
کہے، جھاڑن کیا ہے، یہ تو کسی گندی سی بھیڑ کے جسم کی یاد دِلا رہا ہے، جسے سو سو
آندھیوں کی دھول نے میلا کر رکھا ہو۔ یہ خیال آتے ہی دوبارہ اس کے ذہن کو جھٹکا سا
لگا۔ آزادی کی دیوی تو صاف ستھری چیزوں کو پسند کرتی ہو گی۔

دھوتی کو کمر کے گرد کس کر اور کدال اُٹھا کر
وہ چبوترے سے نیچے رکھے ہوئے مٹی کے ڈھیر پر کھڑا ہو گیا اور بیچ میں ایک گڑھا سا
بنانے لگا تاکہ جب اس پر پانی ڈالا جائے تو بیکار باہر نہ نکل جائے۔

کوٹھے کی بغل میں کنواں تھا۔ ڈول بھر بھر کر وہ
مٹی پر پھینکنے لگا۔ بابا بولا: ’’کہو تو میں مدد دوں، دیپ چند۔‘‘

 ’’تمھارا ہی تو آسرا ہے بابا‘‘ دیپ چند نے کنوئیں
میں ڈول پھینکتے ہوئے کہا ’’جہاں جہاں سے کوٹھے کی دیواریں خراب ہو رہی ہیں وہاں
وہاں آج ہی مٹی لگانے کا کام ختم کر دینا چاہتا ہوں۔‘‘

 ’’مٹی
میں ملانے کے لیے لید میں نے تیار کر رکھی ہے، کل تم نہ آئے تو میں نے سوچا خالی بیٹھے
رہنے سے تو کچھ کام کرتے رہنا اچھا ہے۔‘‘ بابا نے بازو پھیلا کر کہا۔

لوہے کے تسلے میں ہاتھ سے مل کر باریک کی ہوئی
لید بھر بھر کر بابا مٹی پر پھینکنے لگا۔ دیپ چند کو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ بابا
کوٹھے کی مرمت میں بہت دلچسپی لے رہا ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ بابا سے صاف صاف کہہ دے
کہ اگر کوٹھے کی مرمت کرنے کے جُرم میں کوئی اسے پھانسی پر بھی لٹکا دے تو اسے رنج
نہ ہو گا کیونکہ یہ تو نا ممکن تھا کہ کوئی گندے سے کوٹھے کے سامنے بیٹھ کر آزادی
کی دیوی کا انتظار کرے۔

دیکھتے ہی دیکھتے وہ لنگوٹی کس کر مٹی کے ڈھیر
پر چڑھ گیا اور زور زور سے پانو چلا کر مٹی اور لید کو ملانے لگا۔ یہ فن اسے ورثہ
میں ملا تھا- دلدل نما مٹی میں پانو چلانے کا فن۔ پانو چلانے سے عجیب سی آواز نکلتی
تھی۔ جس سے اس کے کان مانوس تھے۔ وہ یوں پانو چلا رہا تھا، جیسے کوئی نرتکی موسیقی
کے تال پر وجد کا سماں باندھ دے۔

بابا نے چبوترے کے ساتھ ساتھ رکھے ہوئے تینوں
کے تینوں گھڑوں کو بیک نظر غور سے دیکھا جن میں کافی مقدار میں چکنی مٹی ڈال دی گئی
تھی۔ بولا: ’’پہلے دس بیس ڈول پانی ان گھڑوں میں ڈال دو دیپ چند۔‘‘

دلدل سے نکل کر دیپ چند پھر کنوئیں کی منڈیر سے
سٹ کر کھڑا ہو گیا۔ اس وقت وہ بھوؤں کی محرابوں کے نیچے جہاں پھاگن کا آنند تھرک
رہا تھا، آزادی کے کل تصور کو مرکوز کرتے ہوئے پانی نکالنے لگا اور یونہی پانی چکنی
مٹی والے گھڑوں میں پھینکا جانے لگا۔ ایک سوندھی سوندھی سی خوشبو اُٹھی اور اس کے
پیش نظر اسے مٹی اور لید کی دلدل سے آنے والی بو پر شعوری طور پر شدید غصّہ آنے
لگا۔ لیکن یہ سوچ کر کہ ہر چیز کی اچھائی بُرائی کا فیصلہ محض بو پر نہیں چھوڑا جا
سکتا اسے کسی قدر تسلی محسوس ہوئی۔

بابا بولا: ’’جیسے درزی پھٹے ہوئے کپڑے پر نئے
جوڑ لگا دیتا ہے ویسے ہی جہاں جہاں دیواریں مرمت مانگتی ہیں لیڈ مٹی لگانے کا رواج
بہت پرانا ہے۔‘‘

 ’’ہاں،
ہاں‘‘ دیپ چند نے گھڑے میں آخری ڈول ڈالتے ہوئے کہا۔

دیواروں کی خراب جگہوں پر پانی چھڑکنے کے لیے
لے دے کر وہی تسلا نظر آ رہا تھا۔ بابا نے رُخ سمجھتے ہوئے ڈول کی رسّی سنبھال کر
کہا میں پانی نکالتا ہوں تم اسے جھٹ جھٹ وہاں وہاں جھڑکتے چلے جاؤ جہاں جہاں مٹی کی
ٹاکی لگاؤ گے۔‘‘

دیپ چند نے نہیں نہیں کی رٹ لگاتے ہوئے بابا کے
ہاتھ سے رسی تھامتے ہوئے کسی قدر جھنجھلا کر ڈول کو کنوئیں میں پھینک دیا۔ اس سے ایک
احمقانہ سی آواز پیدا ہوئی جس سے کان کے پردوں پر ایک چپت سی لگی۔ وہ دائیں ہاتھ
سے رسی تھام کر بائیں ہاتھ سے بائیں کنپٹی کھجلانے لگا۔ ایک لمحہ کے لیے باپ کی یاد
نے اس کے دل و دماغ کو گھیر لیا۔

پانی زمین سے اتنا دور کیوں ہے۔ وہ بابا سے
پوچھنا چاہتا تھا۔ ایک بے تاب سی نگاہ سڑک کی طرف ڈالتے ہوئے اُسے خیال آیا کہ جیسا
کہ لوگوں میں مشہور تھا کہ اُس کا باپ ابھی تک زندہ ہو گا۔ آج سے دس برس پہلے جب
اس کی ماں اسی کوٹھے میں موت کی گود میں سوگئی تھی، اس کے باپ کے دل پر کچھ ایسی
چوٹ لگی کہ وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ پانچ سال تک تو جیسے کوئی بھیڑ میں گم ہو
جائے کسی کی زبان سے اس کے بارے میں کچھ بھی سننے کو نہ ملا۔ پھر شہر سے یہ خبر
آنے لگی کہ رانا جی یعنی اس کا باپ وہاں رہتا ہے۔ اور لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ وہ
تو اب کوی بن گیا ہے۔ اور ایسے ایسے گیتوں کی رچنا کرتا ہے کہ سننے والوں کے سامنے
نئے زمانے کی تصویر آ جاتی ہے۔ یہ سوچتے ہوئے کہ کیا ہی اچھا ہو کہ آزادی کی دیوی
کے آنے سے پہلے اس کا باپ ہی یہاں آ پہنچے وہ جلدی جلدی ڈول نکالنے لگا۔

تسلے میں پانی انڈیلتے ہوئے اسے بڑی شدت سے یہ
خیال آیا کہ بابا سے کہے کہ اب وہ دن دور نہیں جب وہ اپنے بیٹے رانا جی کے سر پر
بڑے پیار سے ہاتھ پھیر سکے گا۔

 ’’ایک
ڈول بھر کر رکھ لو‘‘ بابا نے کانپتی ہوئی آواز سے کہا۔ جس پر خواہ مخواہ پتنگ کی
ڈور کا گمان ہوتا تھا جس پر سے وقت کے مسلتے ہوئے ہاتھوں نے رہے سہے مادے کے آخری
نشانات تک اُتار نے شروع کر دیے ہوں۔

دیپ چند کے دل و دماغ پر ایک چوٹ سی لگی۔ کیونکہ
وہ ڈول یا پانی کی بجائے رانا جی کی یاد میں اُلجھ گیا تھا۔ لیکن اس نے خود کو ایک
ڈول بھر رکھنے پر مجبور پایا۔ اب کے اس نے رسّی کو زور سے تھام کر ایک دم ڈول کو
کنوئیں میں پھینک دیا، جیسے وہ اس دیوانی، چیخ نما آواز سے اپنی پوشیدہ حسرت کا
اظہار کیا چاہتا ہو۔ ڈول کھینچتے ہوئے اسے خیال آیا کہ کیوں نہ ڈول کو کنوئیں میں
پھینک کر شہر کی طرف چل دے اور اب کے رانا جی کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو کر رہے۔
اگر رانا جی مل جائے تو وہ اپنے بیٹے کی درخواست کو ٹھکرا نہیں سکے گا۔ وہ سوچنے
لگا کہ بابا سے ایسی کون سی غلطی سرزد ہو گئی تھی کہ رانا جی نے ہمیشہ کے لیے گھر
چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک بار بابا نے اسے بتایا تھا کہ اس نے تو محض اس خیال
سے کہ ننھا دیپ چند پل جائے گا، رانا جی کا دوسرا بیاہ رچانے کا پربند شروع کر دیا
تھا۔ لیکن رانا جی کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی۔ وہ اپنے ننھے کو سوتیلی ماں کے
ہاتھوں میں نہیں دینا چاہتا تھا۔

بھرا ہوا ڈول کنوئیں کی منڈیر پر چھوڑ کر دیپ
چند نے پانی والا تسلا اُٹھا لیا۔ وہ چاہتا تھا کہ پانی کی ایک بھی بوند زمین پر
نہ گرنے پائے وہ کوٹھے کی طرف جا رہا تھا۔ بابا بھی اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ آلے
سے نکال کر ایک کوزہ دیپ چند کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بابا بولا: ’’لو بیٹا اس
کوزے سے پانی چھڑکو۔ پانی تھوڑا خرچ ہو گا۔

کوزہ لیتے ہوئے دیپ چند نے کسی قدر جھنجھلا کر
بابا کی طرف دیکھا۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ تم ذرا ذرا سی بات کی اتنی فکر رکھتے ہو،
تو بتاؤ تم نے رانا جی کو کیسے بھلا دیا۔ اگر وہ لوگوں کا حوالہ دے کر بابا سے
کہتا کہ رانا جی شہر میں رہتا ہے تو اسے یقین ہی نہ آتا اور آج بھی وہ یہی جواب دیتا
کہ لوگ صرف اسے دِق کرنے کے لیے اس قسم کی باتیں کہہ چھوڑتے ہیں کہ انھوں نے شہر میں
رانا جی کو دیکھا ہے۔ اگر سچ مچ رانا جی گانو سے اس قدر قریب شہر میں رہتا ہوتا تو
کیا کبھی کبھار اس کا جی اپنے بوڑھے باپ اور جوان بیٹے کو دیکھنے کے لیے تڑپ نہ
اُٹھتا۔

دیوار پر ایک مرمت طلب جگہ پر کوزے سے پانی
چھڑکتے ہوئے دیپ چند نے کہہ تو دیا: ’’میں نے تو شہر میں رانا جی کو نہیں دیکھا۔ لیکن
جب دوسرے لوگ گانو سے شہر جاتے ہیں اور واپس آ کر ہمیشہ یہ ہی کہتے ہیں کہ انھوں
نے رانا جی کو دیکھا ہے تو میرا دل اُداس ہو اُٹھتا ہے۔

 ’’آسمان پھاڑ کر تھِگلی لگانے والی عورت کی طرح یہ
لوگ جھوٹ موٹ کہہ چھوڑتے ہیں‘‘ بابا نے چھکڑے کے بوڑھے بیل کی طرح جو آگے بڑھنے کی
بجائے اُلٹا پیچھے کی طرف ہٹنا شروع کر دے، ہزار بار کہی ہوئی بات ایک بار پھر
دُہرا دی۔

کوٹھے کے اندر باہر جہاں جہاں دیواریں مرمت
چاہتی تھیں دیپ چند نے جلدی جلدی پانی چھڑک دیا۔ تسلا خالی ہو جانے پر وہ اسے پھر
سے بھر لایا۔ زینے کی مدد سے اس نے اونچی جگہوں پر بھی پانی چھڑک دیا۔ پھر اسی
تسلے میں لید مٹی بھر بھر کر وہ ان جگہوں پر پیوند لگاتا چلا گیا۔

بابا باہر مٹی کے چبوترے پر جا بیٹھا۔ اس کی پیٹھ
شہر کی طرف تھی یہ اس کا خاص انداز تھا۔ جیسے وہ یہ سمجھتا ہو کہ اس بڑھاپے میں بھی
اس میں اتنی طاقت موجود ہے کہ بڑھتے ہوئے شہر کو یہیں روکے رکھے۔

پیوند لگانے کے کام سے فارغ ہو کر دیپ چند دیواروں
پر اندر باہر چکنی مٹی کی تہہ چڑھانے لگا۔ وہ اس کام سے ترت نپٹ لینا چاہتا تھا۔
جھٹ سوچا پٹ کیا، انداز میں اس کے ہاتھ جلدی جلدی حرکت کر رہے تھے اور اس جلد بازی
میں اسے یہ پروا نہ تھی کہ اس کے کپڑوں پر چکنی مٹی کے دھبے پڑ رہے ہیں۔ اسے ایک
بار پھر رانا جی کا خیال آ گیا۔ آج وہ یہاں آنکلے تو اپنے بیٹے کے کام کی تعریف
ضرور کرے۔ رانا جی تو کوی ہے، گیتوں کی رچنا کرتا ہے۔ اپنے بیٹے کے کام سے خوش ہو
کر وہ ضرور کوئی نیا گیت رچ ڈالے گا۔ آزادی کا زمانہ شروع ہونے والا ہے۔ اس کی سب
سے زیادہ خوشی تو کسی کوی کو ہی ہو سکتی ہے۔ وہ بابا سے کہنا چاہتا تھا کہ کیوں نہ
ہم دونوں شہر جا کر رانا جی کو ڈھونڈ لائیں۔ کیا گانو میں رہ کر گیت نہیں رچے جا
سکتے؟ بھگوان نے چاہا تو ہمیں رانا جی ضرور نظر آ جائے گا۔ یہ کوٹھا تو ایک کوی کو
ضرور بھائے گا۔ ہم گانو والے مکان میں رہیں گے۔ آج وہ بابا کو اپنے دل کا بھید
بتانا چاہتا تھا کہ مہینے کے مہینے وہ صرف رانا جی کی تلاش ہی میں شہر جایا کرتا
ہے۔ اگرچہ یہ بات کبھی کھل کر نہیں بتائی تھی۔ آج وہ یہاں تک کہہ دینا چاہتا تھا
کہ ایسے باپ بھی ہیں جو بیٹوں کو بھول جاتے ہیں جیسے بابا رانا جی کو بھول گیا اور
رانا جی نے دیپ چند کو بھلا دیا۔ لیکن ایسے بیٹے بھی ہیں جو اپنے باپ کی یاد کو
کبھی نہیں بھُلا سکتے۔

دوپہر ڈھل گئی تھی۔ سڑک پر لاریاں برابر آ جا
رہی تھیں۔ چھکڑے بھی گزر رہے تھے۔ نہ جانے کیا سوچ کر بابا کہہ اُٹھا:

 ’’میں
نے تو سنا ہے کہ سرکار یہ حکم دینے والی ہے کہ اس سڑک سے چھکڑے نہ گزرا کریں۔‘‘

 ’’یہ کیسے
ہو سکتا ہے؟‘‘ دیپ چند نے کوٹھے کے دروازے کی باہر کی دیوار پر چکنی مٹی کا پردلا
پھیرتے ہوئے کہا۔

بابا کی تسلی نہ ہوئی اس نے ایک سہمی ہوئی لرزتی
ہوئی آواز میں کہا: ’’شہر کی نیت اچھی نہیں، دیپ چند۔ شہر کی ٹھگ وِدیا کو تم سے زیادہ
میں سمجھتا ہوں، بیٹا!‘‘

دیپ چند کا جی اُکتا رہا تھا۔ اس کے ہاتھ تھک
چکے تھے۔ لیکن وہ کپڑے کے پردلے کو چکنی مٹی میں بھگو بھگو کر دیوار پر پھیرتا رہا
جیسے کوئی ہوشیار کاریگر سفیدی کی کوچی پھیرتا ہے۔ چکنی مٹی کی خوشبو اس کی لرزتی
ہوئی روح کو سہارا دیے جا رہی تھی۔ تازہ پوتی ہوئی دیوار کے قریب ہو کر وہ اسے
سونگھنے کی کوشش کرتا۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ بھلے ہی شہر میں بیٹھی ہوئی سرکار یہ
حکم نکال دے کہ اس سڑک پر چھکڑے نہیں گزر سکتے۔ لیکن وہ ایسا کوئی حکم تو نہیں
نکال سکتی کہ گانو والے چکنی مٹی کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکیں۔ یہ خیال آتے ہی اس کے
دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ وہ بابا سے کہنا چاہتا تھا کہ اگرچہ سرکار نے تو یہ حکم
دے رکھا ہے کہ کوئی سڑک کے کنارے اپنے کوٹھے کی مرمت تک نہ کرے، ہم نے سرکار کا
حکم توڑ ڈالا۔ اب ہم دیکھیں گے کہ اِس جرم میں ہمیں کیسے پھانسی پر لٹکا سکتی ہے۔

پردلا پھیرنے سے نبٹ کر دیپ چند کنوئیں سے ڈول
نکال کر ہاتھ منھ دھونے لگا۔ اس کے پانو بے حد بوجھل ہو رہے تھے۔ یہ سوچ کر کہ اب
گانو کا ڈیڑھ کوس فاصلہ طے کرنا ہو گا، وہ اپنے اوپر جھنجھلا رہا تھا۔ اس نے مڑ کر
بابا کی طرف دیکھا جو چبوترے پر بت بنا بیٹھا تھا۔ وہ بابا سے کہنا چاہتا تھا کہ
تمھاری انگلی پکڑ کر گانو جانے کی بجائے اکیلے جانا کہیں آسان ہو گا۔ لیکن بابا، یہ
تم کب ماننے لگے۔ اس نے من ہی من میں فیصلہ کر لیا کہ وہ بابا کو ساتھ تو لے جائے
گا۔ لیکن اسے بے سر پیر کی باتیں کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ آخر اس کا بھی کیا
فائدہ کہ بات بات میں شہر کو کوسا جائے۔ شہر میں بھی انسان بستے ہیں۔ شہر میں رانا
جی رہتا ہے۔ اگرچہ ہم ابھی تک اس کا پتہ نہیں چلا سکے۔ لیکن رانا جی کب تک چھپا رہ
سکتا ہے۔ ہم اس کا پتہ چلا کر چھوڑیں گے۔

معاً کوٹھے کے پیچھے سے بیلوں کے گلے کی گھنٹیوں
کی ٹن ٹن گونج اُٹھی۔ دیپ چند نے دوڑ کر چھکڑے والے کو آواز دی۔ ارے رُک جائیو بھیّا!

چھکڑا رُک گیا۔ دیپ چند نے دور ہی سے پہچان لیا
کہ یہ نروتم کا چھکڑا ہے، جسے وہ اُڑن پکھیرو کہہ کر پکارتا تھا۔

وہ لپک کر بابا کے پاس آیا۔ اور بولا: ’’اُٹھو
بابا، گانو چلیں گے۔‘‘

بابا نے جیسے خواب سے چونک کر پوچھا: ’’پیدل؟ ارے
دیپ چند بیٹا، مجھ سے تو پیدل نہیں چلا جائے گا۔‘‘

دیپ چند کے جی میں تو آیا کہ بابا کا ہاتھ چھوڑ
کر اکیلا چھکڑے پر جا بیٹھے۔ لیکن من ہی من میں اپنے اس حقیر خیال پر لعن طعن کرتے
ہوئے وہ کہہ اُٹھا! ’’پیدل کیوں بابا، چھکڑا ہے- نروتم گانو جا رہا ہے۔ میں نے کہا
ہمیں بھی ساتھ لیتے جائیو۔‘‘

اس وقت بابا کی زبان سے نروتم کی تعریف میں کئی
اچھے اچھے جملے نکل گئے، جیسے کوئی نقیب اپنا فرض بجا لا رہا ہوں۔ در اصل نروتم سے
کہیں زیادہ وہ گانو کے گن گارہا تھا اور وہ گانو کے مقابلے پر شہر کی بُرائی کرنے
کا موقع بھی ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ شہر میں تو کوئی کسی کو راستہ تک نہیں
بتانا چاہتا۔ کسی کو اتنی فرصت ہی نہیں، لیکن گانو کی اور بات ہے۔ گانو میں تو لوگ
چھکڑا روک کر بغیر عوضانہ لیے پیدل چلنے والوں کو اپنے ساتھ بٹھا لیتے ہیں۔

 ’’پا لاگن
بابا‘‘ نروتم نے بابا کو نزدیک آتے دیکھ کر کہا۔

 ’’جُگ
جُگ جیو بیٹا‘‘ بابا نے آشیرباد دیتے ہوئے کہا۔ لیکن اس وقت نروتم سے کہیں زیادہ
وہ گانو کو آشیرباد دے رہا تھا۔ ٹھیک ہی تو تھا۔ شہر لاکھ کوشش کرے کہ گانو اُجڑ
جائے۔ لیکن گانو کو بھی زندہ رہنے کا حق ہے۔ گانو زندہ رہے گا۔

بابا اور دیپ چند چھکڑے پر بیٹھ گئے۔ نروتم نے
بیلوں کو ہانکتے ہوئے پیچھے مُڑ کر بابا کی طرف دیکھا۔ بولا: ’’تم کہو تو چھکڑے کو
موٹر بنا دوں بابا!‘‘

بابا اور دیپ چند ہنس پڑے اور اُن کی ہنسی میں
نروتم کا قہقہہ بھی چینی کی ڈلی کی طرح گھل گیا۔ چھکڑا موٹر نہیں بن سکتا، یہ سب
جانتے تھے شاید نروتم یہ کہنا چاہتا تھا کہ گانو کے کچے رستے پر تو موٹر کی طبیعت
بھی بگڑ جاتی ہے۔ اور بگڑی ہوئی طبیعت والی موٹر پر تو چھکڑا بھی بازی لے جا سکتا
ہے۔

بیلوں کے گلے میں گھنٹیاں بج رہی تھیں۔ دیپ چند
کو یہ متواتر تھکا دینے والی ٹن ٹن بہت ناگوار گزری۔ لیکن وہ اتنی ہمت بھی تو نہیں
دِکھا سکتا تھا کہ چھکڑا روک کر پہلے بیلوں کے گلے سے گھنٹیاں اُتار لے اور پھر
نروتم سے کہے کہ اب تم چھکڑا چلا سکتے ہو۔

نروتم کہہ اُٹھا: ’’میں جانوں دیپ چند آج تم نے
کوٹھے کی لیپائی پوتائی کر ڈالی۔ یہ تمھارے کپڑوں پر چکنی مٹی کے نشان صاف بتا رہے
ہیں۔‘‘

 ’’ہاں
سرکار‘‘ دیپ چند نے جواب دیا۔ جیسے وہ نروتم سے یوں مخاطب ہو کر اپنے جرم کی تلافی
کر رہا ہو۔

 ’’سرکار بھی کیسے کیسے حکم نکالتی ہے‘‘ نروتم نے
بیلوں کی پشت پر زور سے کوڑے کا وار کرتے ہوئے کہا۔ ’’تم نے بھی سرکار کا حکم توڑ
کر کے گانو کی لاج رکھ لی۔‘‘

 ’’ہاں
سرکار!‘‘ دیپ چند نے اپنا لہجہ قائم رکھتے ہوئے کہا جیسے وہ سرکار کے سامنے جواب
دہی کی مشق کر رہا ہو۔

بابا بولا: ’’میں سرکار سے کہوں گا کہ اپنے
کوٹھے کی لیپائی پوتائی میں نے کی ہے۔ اس کی سزا مجھے دو۔‘‘

نروتم کو بھی جوش آ گیا۔ بولا: ’’تم دونوں
خاموش رہنا۔ میں سرکار سے کہوں گا کہ کوٹھے کی لیپائی پوتائی در اصل میں نے کی
ہے۔‘‘

بابا دیپ چند کا کندھا جھنجھوڑ کر کہنا چاہتا
تھا کہ جب تک گانو میں ایسے لوگ زندہ ہیں، گانو کبھی نہیں مٹ سکتا۔ چاہے شہر لاکھ
جتن کر لے۔ نروتم نے نہ جانے کیا سوچ کر پوچھ لیا: ’’تم شہر گئے تھے دیپ چند! کہو
کیا خبر لائے۔ کہو تم نے رانا جی کو بھی کہیں دیکھا یا نہیں، کیا کم سے کم کسی کو
اس کے بارے میں بات کرتے بھی نہیں سنا؟‘‘

 ’’نہیں
تو‘‘ دیپ چند نے ہارے ہوئے سپاہی کے لہجہ میں جواب دیا۔‘‘

 ’’لوگ
تو کہتے ہیں رانا جی شہر میں رہتا ہے اور دیش بھگتی کے گیت رچتا ہے‘‘ نروتم نے زور
دے کر کہا جیسے وہ کہنا چاہتا ہو کہ کیا تم دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اتنے ہی
بدھو ہو کہ نہ تم نے رانا جی کو دیکھا نہ اس کے بارے میں کسی کو کچھ کہتے سنا۔

بابا نے سرد آہ بھر کر کہا: ’’کون جانے رانا جی
کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔ لوگ تو باتیں بناتے ہیں۔ اگر رانا جی سچ مچ شہر میں
ہوتا تو کیا کبھی بھول کر بھی گانو میں نہ آتا؟‘‘

نروتم نے ہنس کر کہا: ’’رانا جی کوی ہے۔ اور کوی
وہیں رہتا ہے جہاں لوگ اس کی کویتا سنتے ہیں اور اس کی کویتا کی قدر کرتے ہیں۔‘‘

دیپ چند کہہ اُٹھا: ’’میں رانا جی سے ملنا
چاہتا ہوں۔ پہلے بیٹے کے ناطے، پھر کوی کی کویتا سننے کی خاطر۔‘‘

بابا بولا: ’’جتنی خوشی ایک بیٹے کو یہ سوچ کر
ہو سکتی ہے کہ اس کا باپ ایک کوی ہے تو اس سے بھی زیادہ خوشی ایک باپ کو یہ سوچ کر
ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا کوی ہے۔‘‘

نروتم نے شہ دی: ’’رانا جی کا نام آتے ہی سارے
گانو کا سر بڑے ابھمان کے ساتھ اونچا اُٹھ جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں ایسے بیٹے گھر
گھر جنم لیں۔ دھنیہ ہے اِس ماں کی کوکھ جس نے رانا جی کو جنم دیا۔‘‘

بابا کی زبان سے اک دبی دبی سی آہ نکل گئی۔ وہ
کہنا چاہتا تھا کہ کاش آج رانا جی کی ماں زندہ ہوتی اور وہ اپنے کانوں سے لوگوں کو
اپنے بیٹے کی تعریف کرتے سنتی۔

کھیتوں کے بیچوں بیچ جانے والے راستہ پر گرد کا
بادل امڈ رہا تھا۔ نروتم بیلوں کو اُڑائے لیے جا رہا تھا۔ کبھی ڈرا دھمکا کر اور
اکثر پچکار کر وہ بیلوں کی ہمت میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

دیپ چند بولا: ’’اتنی کیا کسی کی بارات چڑھنے کی
جلدی ہے، نروتم!‘‘

بابا نے شہ دی: ’’بیل اور انسان کی ذات میں بہت
بڑا انتر تو نہیں ہے، بیٹا۔ میں تو جانوں نروتم کے بیل خوش ہو کر آپ ہی آپ اُڑے
چلے جا رہے ہیں۔

نروتم نے اپنی تعریف سن کر بیلوں کو بڑی گرمجوشی
سے پچکارا۔ آج وہ سچ مچ چھکڑے کو موٹر بنا دینے پر تُلا ہوا نظر آتا تھا۔ اگرچہ دنیا
ترقی کرتے کرتے موٹر بلکہ ہوائی جہاز تک پہنچ گئی تھی۔ لیکن نروتم کو بھی اپنے
چھکڑے پر ناز تھا۔ چھکڑے پر بیٹھ کر وہ یہ سمجھنے لگتا تھا کہ یہ گانو بھی کسی
راجدھانی سے کم نہیں بلکہ وہ تو من ہی من میں یہ تصور قائم کر لیتا تھا کہ اس
راجدھانی کا مہاراجہ وہ خود ہی ہے۔ حالانکہ یہ سوچ کر کہ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے
کیونکہ نہ تو اس کے نام کا سکّہ چلتا ہے اور نہ لوگ اس کا حکم بجا لانے کے لیے مجبور
ہیں۔ اسے اپنے اوپر غصّہ آنے لگتا۔ اس وقت وہ لے دے کر بیلوں ہی میں اپنی پرجا کی
تصویر دیکھنے لگتا۔ راستہ سیدھا ہو یا ٹیڑھا، صاف اور برابر ہو، یا اوبڑ کھابڑ، بیلوں
کو تو اپنے مہاراجہ کا حکم ماننا ہی پڑتا تھا۔

ٹن ٹن- ٹن ٹن، بیلوں کے گلے کی گھنٹیاں مہاراجہ
ادھیراج کی سواری کا نقشہ باندھ رہی تھیں۔ دور سے گانو کے کوٹھے نظر آ رہے تھے۔
ذرا اور قریب جانے پر معلوم ہوا کہ گانو کی سرحد پر بہت سے لوگ جمع ہو رہے ہیں۔ گویا
مہاراجہ نے اپنے راج پاٹ میں بغاوت کے خطرے کا احساس کرتے ہوئے پکارا: ’’بڑھے چلو
بیٹو!‘‘

بابا بولا: ’’شہر اس بھاشا کا مرم نہیں پہچان
سکتا۔ شہر کی بھاشا اور ہے گانو کی اور۔‘‘

دیپ چند نے جیسے بابا کی بات پر حاشیہ چڑھاتے
ہوئے کہا: ’’بابا، تمھارا یہی مطلب ہے نا کہ شہر کے لوگ گانو والوں کی طرح مویشیوں
کے ساتھ یہ ایکتا کا بھاؤ انوبھو نہیں کر سکتے۔‘‘

 ’’ہاں
بیٹا!‘‘ بابا نے جیسے دیپ چند کو شاباشی دیتے ہوئے کہا ’’روپ میں شہر بڑا ہے گُن میں
گانو۔‘‘

جوں جوں گانو قریب آتا گیا، سب کی توجہ گانو کی
سرحد پر جمع ہونے والے لوگوں پر مرکوز ہوتی گئی۔ بابا بولا: ’’میرا ما تھا ٹھنک
رہا ہے۔‘‘

 ’’تم
تو ہمیشہ یونہی ڈر جاتے ہو، بابا۔ ’’دیپ چند نے مصنوعی جرأت دِکھاتے ہوئے کہا۔

 ’’بڑھاپے اور ڈر کا پُرانا میل ہے۔‘‘ نروتم نے بیلوں
کی پشت پر زور سے کوڑا لگاتے ہوئے کہا ’’بابا، ہمارے ہوتے تمھیں کوئی ڈر نہیں۔‘‘

گانو کی سرحد پر راستہ کو بہت بڑے ہجوم نے روک
رکھا تھا۔ چھکڑا ایک کنارے چھوڑ کر دیپ چند، بابا اور نروتم ہجوم میں گھس گئے۔

 ’’ہوئی
نہ وہی بات‘‘ بابا نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے کہا۔ ’’ضرور گانو پر آفت آنے والی
ہے۔‘‘

دیپ چند اور نروتم نے بابا کی بات کا کچھ جواب
نہ دیا۔ اگرچہ انھیں پہلی ہی نظر میں پتہ چل گیا کہ شہر سے بڑا حاکم گانو کو
سمجھانے کے لیے آیا ہے۔

بیچ کی کرسی پر بڑا حاکم بیٹھا تھا۔ اس کے دائیں
طرف علاقے کا تھانیدار اور بائیں طرف تحصیلدار نظر آ رہا تھا۔ تحصیلدار کے ساتھ
والی کرسی پر ایک شخص بیٹھا تھا جس کے سر پر لمبے لمبے بال جھکے پڑتے تھے۔ اس نے
لمبا سا انگرکھا پہن رکھا تھا اور اس کے ہاتھ میں بڑی بڑی گانٹھوں والا پہاڑی لکڑی
کا ڈنڈا تھام رکھا تھا، جس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ کوئی غیرسرکاری شخص ہے اور یونہی
گانو دیکھنے کی غرض سے بڑے حاکم کے ہمراہ چلا آیا ہے۔

تھانیدار کے منع کرنے پر بھی لوگوں کا شور
برابر اُبھر رہا تھا۔ یہ گڑبڑ لاؤڈسپیکر کے خراب ہو جانے کی وجہ سے ہو رہی تھی۔
معلوم ہوتا تھا کہ اب یہ بیٹری سے چلنے والا لاؤڈسپیکر کام نہیں دے گا۔

بابا نے دائیں بائیں نروتم اور دیپ چند کو ٹہوکا
دے کر آنکھوں ہی آنکھوں میں یہ سمجھانے کا جتن کیا کہ یہ بھی اچھا ہوا کہ ہم موقع
پر آ گئے ہم کوئی اَن ہونی بات نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن نروتم اور دیپ چند تو اس
بات پر حیران ہو رہے تھے کہ پاس والے گانو کے لوگوں کو کون بلا کر لایا ہے اور اس
کھلی کچہری کی بات کب طے ہوئی تھی۔

دیپ چند نے آہستہ سے کہا: ’’میں جانوں پاس والے
گانو کے لوگ ہماری مدد کریں گے۔‘‘

نروتم نے شہ دی: ’’ آخر وہ ہمارے پڑوسی ہیں۔
مدد نہ کرنی ہوتی تو وہ آتے ہی کیوں؟‘‘

بابا بولا: ’’بھگوان بھلا کریں گے۔ بھگوان تو
حاکم سے بھی بڑے ہیں۔‘‘

پاس والے گانو کے مُکھیا نے کھڑے ہو کر کچھ
کہنا چاہا۔ لیکن کسی نے اس کا بازو کھینچ کر اسے بٹھا دیا۔ جیسے وہ یہ سمجھانا
چاہتا ہو کہ پہلے اِس گانو والوں کو جواب دے لینے دو۔

لوگوں کا شور بڑھ رہا تھا۔ تھانیدار نے دو تین
مرتبہ لوگوں کو خاموش رہنے کی تلقین کی۔ لیکن معلوم ہوتا تھا کہ لوگوں کو چپ کرانا
آسان کام نہیں۔

بابا نے کھڑے ہو کر کہا: ’’ہمارا گانو بہت
پرانا ہے۔ یہ تو مہابھارت کے سمے سے چلا آتا ہے۔‘‘

پاس والے گانو کے مکھیا نے جھٹ شہ دی: ’’اور
ہمارا گانو رامائن کے سمے سے چلا آتا ہے۔‘‘

تھانیدار نے کھڑے ہو کر کہا: ’’رامائن اور
مہابھارت کا سمے تو کبھی کا بیت گیا… حاکم کے فرمان کے بعد آپ لوگ اپنی بات کہہ
سکتے ہیں۔‘‘

تحصیلدار نے کھڑے ہو کر کہا: ’’جو نیائے رامائن
اور مہابھارت کے سمے سے چلا آتا ہے اس کے سمبندھ میں آج آپ حاکم کا فرمان سنیں
گے۔‘‘

شام کے سائے لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ لیکن لاؤڈسپیکر
ٹھیک نہ ہوا۔ اب مزید انتظار فضول تھا۔ شہر کے بڑے حاکم نے کسی قدر جھنجھلا کر
لاؤڈسپیکر کا انتظام کرنے والوں کی طرف دیکھا۔ جیسے وہ کہنا چاہتا ہو کہ تم مفت کی
تنخواہ پاتے ہو۔ کیونکہ تمھارا کام دیکھا جائے تو تمھیں ایک بھی نمبر نہیں دیا جا
سکتا۔

تھانیدار نے موقع کی نزاکت محسوس کرتے ہوئے
کھڑے ہو کر لوگوں سے کہا کہ ہر کوئی خاموش ہو جائے اور کان کھول کر حاکم کا فرمان
سن لے۔

بڑے حاکم نے جلدی جلدی چہرہ گھماتے ہوئے دائیں
بائیں، پیچھے اور سامنے ایک طویل نگاہ ڈالتے ہوئے اُٹھ کر کہنا شروع کیا:

 ’’بھائیو!‘‘
یہ تو تم سب سن ہی چکے ہو کہ دیس میں آزادی آ رہی ہے اور آزادی کا سواگت کرنے کے لیے
ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ آزادی قربانی کے بغیر نہیں آتی۔ قربانی میں بڑی طاقت ہوتی
ہے۔

 ’’بھائیو!‘‘

 ’’آزادی
آنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ دیس کی راجدھانی کا رنگ روپ نکھر جائے اور اس کا سمّان
بھی بڑھ جائے۔ یہ تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ بڑے دیس کی راجدھانی بھی بڑی ہونی چاہیے۔
کیا آپ میری رائے میں رائے ملانے کے لیے تیار ہیں؟‘‘

بابا نے دائیں بائیں نروتم اور دیپ چند کو
ٹہوکا دیا جیسے وہ ان سے کہنا چاہتا ہو کہ ہم اس رائے میں کیسے رائے ملا سکتے ہیں۔

دیپ چند نے آہستہ سے کہا: ’’پہلے بھی تو
راجدھانی بہت سے دیہات کو نگل چکی ہے۔‘‘

نروتم بولا: ’’یہ راجدھانی نہ ہوئی کوئی ڈائن
ہوئی جس کی بھوک کبھی نہیں مٹتی۔‘‘

چاروں طرف سے کھسرپھسر کی آوازیں بلند ہوئیں۔ لیکن
کسی میں اتنا حوصلہ نہ تھا کہ کھڑا ہو کر بلند آواز سے گانو کی رائے کا اظہار کرے۔

بابا کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا، ایک جا رہا
تھا۔ اس نے دائیں بائیں نروتم اور دیپ چند کے چہروں کا جائزہ لیا اور اُٹھ کر کھڑا
ہو گیا۔ بولا: ’’ہم اپنا خون دے سکتے ہیں لیکن اپنی زمینیں نہیں دے سکتے۔‘‘

تھانیدار نے اُٹھ کر کہا: ’’ابھی بیٹھ جاؤ
چودھری پہلے حاکم کی بات پوری طرح سن لو۔‘‘

بڑے حاکم نے تھانیدار کو منع کرتے ہوئے کہا:
’’چودھری کو اپنی رائے دینے دو۔ میں چودھری کی بات مانتا ہوں۔ زمیندار کے لیے بہت
مشکل ہوتا ہے کہ وہ اپنی زمین دے ڈالے۔ کیوں چودھری یہی بات ہے نا!‘‘

بابا کے چہرے پر خوشی دوڑ گئی۔ وہ کہنا چاہتا
تھا کہ اگر گانو کو اپنی جگہ پر آباد رہنے دیا جائے تو ہم راجدھانی کی بڑی سے بڑی
خدمت کرنے کو تیار ہیں۔

لیکن اگلے ہی لمحے بڑے حاکم نے اپنی بات جاری
رکھتے ہوئے کہا:

 ’’بھائیو!‘‘

 ’’مجھے
اپنا حاکم مت سمجھو میں نے سیوا کرنے کے ارادے سے یہ عہدہ سنبھالا ہے۔ آزادی آ رہی
ہے۔ دیس صدیوں کی نیند تیاگ کر آنکھیں کھول رہا ہے۔ راجدھانی کی نس نس میں نیا خون
دوڑ رہا ہے -اور آج راجدھانی گانو کی مدد چاہتی ہے۔

 ’’میرے
دیس باسیو!‘‘

 ’’آپ میں
سے کون ایسا شخص ہو گا جو دیس کے بھلے پر اپنا بھلا کرنے کو تیار نہیں ہو جائے گا۔
آپ خون دینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن راجدھانی خون نہیں مانگتی راجدھانی کو تو تھوڑی
زمین چاہیے۔ آج ایک بہت بڑا زراعتی کالج قائم کرنے کے لیے راجدھانی اپنی جھولی
گانو کے سامنے پھیلاتی ہے۔‘‘

ایک بار پھر چاروں طرف کھسرپھسر ہونے لگی۔ بابا
نے کھڑے ہو کر کہا: راجدھانی کا آدر ستکار کرنا گانو کا دھرم ہے۔ لیکن کیا آپ
چاہتے ہیں کہ گانو اپنی جگہ سے ہٹ جائے؟

بڑے حاکم نے اپنے لہجہ میں بڑی کوشش سے خلوص کا
عنصر پیش کرتے ہوئے کہا:

 ’’بھائیو!
رامائن اور مہابھارت کے سمے سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ اور سچ پوچھو تو میں بھی
مجبور ہوں۔ جیسے درخت بڑا ہونے پر زیادہ جگہ گھیرتا ہے راجدھانی بھی ترقی کرتے
کرتے زیادہ جگہ گھیرتی چلی جاتی ہے۔ میں خود زمیندار ہوں مجھے خود تمھارے جذبات کا
احساس ہے۔ لیکن ہونی کو تو میں بھی نہیں روک سکتا۔ ہونی تو ہو کر رہے گی۔ لیکن میں
آپ کو یقین دِلاتا ہوں کہ آپ لوگوں کے رہنے کے لیے کوئی دوسرا بندوبست ضرور کیا
جائے گا۔‘‘

پاس والے گانو کا مُکھیا نے کھڑے ہو کر کچھ
کہنا چاہا لیکن تحصیلدار نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا:

 ’’اب میں
دیس کے مہا کوی رانا جی سے پرارتھنا کرتا ہوں کہ وہ اپنے بھاشن سے آپ لوگوں کو
ترپت کریں اور انت میں اپنا کوئی نیا گیت بھی سنائیں۔‘‘

رانا جی کا نام سنتے ہی گانو والے دنگ رہ گئے۔
بابا نے نروتم اور دیپ چند کو ٹہوکا دے کر کہا:

 ’’بھگوان! تیری مہما اَپرم پار ہے۔ کیسے سمے پر رانا
جی کو ہمارے پاس بھیجا۔‘‘

نروتم بولا: ’’رامائن اور مہابھارت کے سمے کا نیائے
کیسے مٹ سکتا ہے؟‘‘

دیپ چند نے شہ دی: ’’سینکڑوں راج آئے اور چلے
گئے۔ لیکن ہمارا گانو اپنی جگہ پر قائم رہا۔ اب رانا جی کی کِرپا ہو گئی تو اسے
کوئی بھَے نہیں …‘‘

لوگوں کا شور ابھر رہا تھا۔ سبھا کا رنگ بدلنے
لگا۔ جیسے تالاب کی سطح پر اَن گنت لہریں پیدا ہو جائیں۔ بابا بولا: ’’رانا جی کا
دھرم تو یہی ہے کہ جنم بھومی کی سہائتا کرے، جس دھرتی کا اَن کھایا ہے اس کی لاج
رکھے۔‘‘

ایک لمحہ کے لیے بڑا حاکم بھی ڈر گیا کہ کہیں
رانا جی کوئی اُلٹی بات نہ کہہ ڈالے۔ معلوم ہوتا تھا کہ ایک پوٹلی کی طرح گانو رانا
جی کے ہاتھ میں آ چکا تھا اور اب یہ اس کے ادھیکار میں ہے کہ اسے کس کے ہاتھ میں
تھمائے، تحصیلدار بھی سہم گیا۔ کیونکہ اسے معلوم تھا کہ رانا جی اسی گانو کا رہنے
والا ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ آخری لمحہ آنے پر رانا جی کو یہ خیال آ جائے کہ اس
نے تو گانو ہی کا نمک کھایا ہے اور نیائے کا پلڑا گانو ہی کے حق میں بھاری دکھانا
چاہیے۔

دھیرے دھیرے شور کچھ کم ہوا۔ اور رانا جی نے
کھڑے ہو کر کہنا شروع کیا!

 ’’میں
کوی ہوں۔ میرا کام ہے نئے نئے گیتوں کی رچنا کرنا۔ آزادی آ رہی ہے۔ آپ تیار ہو جائیے۔
دیس کی عزت، دیس کی دولت، دیس کی حکمت سب گانو کے ہاتھ میں ہے۔ مجھے وِشواس ہے کہ
آزادی کی دیوی کو آزاد آب و ہوا ہی پسند آ سکتی ہے۔‘‘

چاروں طرف سے شور پھر اُبھرا اور کان پڑی آواز
سنائی نہ دیتی تھی۔ بابا نے نروتم اور دیپ چند کو ٹہوکا دیا۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ
رانا جی نے گاؤں کی لاج رکھ لی۔

شور آہستہ آہستہ دبنے لگا۔ رانا جی نے کہنا
شروع کیا:

 ’’ایک
کوی اپنی بات گیتوں ہی میں کہہ سکتا ہے۔ میں آپ کے سامنے اپنا ایک نیا گیت رکھتا
ہوں۔‘‘

معلوم ہوتا تھا کہ کوی اس سبھا کا رنگ بدل کر
رکھ دے گا۔ لوگوں کے چہروں پر آس امید کی جھلکیاں تھرکنے لگیں۔

رانا جی نے گانا شروع کیا۔

آواز دے رہی دلّی رے

دلّی کا نقشہ بدل گیا!……

گیت کے بول فضا میں تحلیل ہو رہے تھے۔ ڈوبتے
ہوئے سورج کی شعاعیں بُجھتے ہوئے دِیے کی طرح آخری سنبھالے کے انداز میں کسی قدر تیز
نظر آنے لگیں۔ گانو والوں نے دیکھا کہ ان کا کوی بھی بِک چکا ہے اور بازی ان کے
ہاتھ سے نکلی جا رہی ہے۔

دھرتی کا ذرّہ ذرّہ راجدھانی کو پرنام کرنے پر
مجبور تھا۔

٭٭٭

رفو گر

(۱)

آسمان جیسے پھٹے پشمینے کا شامیانہ۔

نیل گگن پہ دودھیا میگھ، جیسے مدھوبن میں مست
ہاتھی۔ ہندوستان کی قسم۔ کارواں سرائے سلامت یا الٰہی مٹ نہ جائے دردِ دل!

ترہی والا سفید گھوڑے پر کالا شہسوار۔

ترہی بجی- پہلے دیو گیری بِلاوَل پھر مالکوس۔

دوکان کی اونچی سیڑھیاں چڑھ کے آئی آئینہ خانم
اور رفو گر سے بولی:

 ’’پہلے
میری شال رفو کیجیے۔ پیشگی مزدوری۔‘‘

پانچ کا نوٹ دے کر وہ چلی گئی۔

جس کی چاہو سوگند لے لو۔ کوئی رائے قائم کرنی
مشکل۔

دل کی دل ہی میں رہی بات نہ ہونے پائی۔

برگد کی آنکھ میں ابابیل کا گھونسلا، جہاں سورج
کی پہلی کرن داخل ہوتی۔

برگد تلے پگلی بھکارن بڑبڑاتی:

 ’’کچھ
نہ کہو لوگو: میرے علی کو کچھ نہ کہو۔‘‘

کارواں سرائے اپنی خبر رکھتی ہے۔ محبوب کی
سرگوشی ہو یا ماں کی لوری۔

جن کے قدموں کے نشان مٹ گئے، ہم ان کا کوئی پتہ
نہ لگا سکے۔

رفو گر علی جو امام کی گنبد والی دوکان۔ اونچی
سیڑھیاں، تین کھڑکیاں۔

دوستانہ جذبے سے چمکتی آنکھیں۔ جگ درشن کا میلہ۔
کون گرو کون چیلا:

ترہی والا اپنی دھن اَلاپتا رہا۔

وہی کارواں سرائے، وہی بیگم بازار، وہی دوڑتی
نظریں۔ اور وہی گم ہوتی پرچھائیاں۔ سب کی توجہ کا مرکز علی لجو امام۔

یہ علی جو تو ہوا، یہ علی لجو امام کیا ہوا؟

پیر باورچی بہشتی خر:

ہر فن مولا۔

کوئی اسے علی کہتا، کوئی امام۔ کوئی استاد۔

اس کے ہاتھ دعا کے لیے اوپر اُٹھ گئے۔

یا پیر، دست گیر، روشن ضمیر!

سامنے دیوار پر کالا ریشم، سنہرے حروف، فاختئی
چوکھٹے میں جڑا شاعر کا کلام، رسم الخط کو سلام:

ڈھوتے ڈھوتے پربت غم کا، پاؤں میں پڑ گئے چھالے

بین کرے دیوانی پچھوا، رو دیے ماتم والے

انہونی کا چاک گریباں، کون رفو کر پائے

بول سپیرے! تم نے اب کے، کتنے پھنیئر پالے

بغل والی دیوار پر لال صوفی کے ساتھ رفو گر کی
تصویر۔ دونوں کی ہنسی ہم آغوش۔ بیس برسوں پہلے کی یادگار۔

لال صوفی ہوتا تو یہیں سے شروع کرتا اپنا سفر
نامہ:

میخانوں کا عام رویہ، دھینگا مشتی تاتا تھیا:

سدھی کا چمتکار

من کے آر پار

مزارِ گل شہید پر قوالی کی رات۔

آتے جاتے لوگ۔ کارواں سرائے خوش: محفل میں چہل
پہل:

کہانی کا کیا کمال: سپنا نہیں اگیا بیتال۔

رفو گر کی ننھی منی نواسی جگنی اپنی گڑیا سے کھیلتے
ہوئے گیت کا بول اُچھالتی:

جاگ اری جنت کی گڑیا

جاگ اری جنت کی چڑیا

کھا لے یہ پچ میل مٹھائی

اوری گڑیا! اوری چڑیا

لال صوفی ہوتا تو جگنی کے ساتھ سُر میں سُر ملا
کر گاتا۔

پنا لال کی تان یہیں ٹوٹتی کہ سب کتے کاشی گئے
تو ہنڈیا کس نے چاٹی!

لال صوفی کو اولاد احمد اور وارث معصوم کا
سلام۔ اس کا ایک اور نام گل شہید۔

خلیل اور رحمان نے یہ کہہ کر دم لیا کہ لال صوفی
تو جوانی میں بڑھاپے کا مزا لیتا رہا۔

 ’’اللہ
میگھ دے رے اللہ میگھ دے!‘‘گنگناتے ہوئے اولاد احمد رفو گر کی دوکان میں آیا اور ایک
کونے میں بیٹھ گیا۔

چنچل سنگھ اور پنّا لال کا وہی مذاق کہ آ رہی
ہے چائے دارجلنگ سے:

آچاریہ مہادیو ’’دس آئے دس گئے!‘‘ کہتے ہوئے
کتاب محل کی طرف چل دیے۔

گل آئینہ خانم کی موڑ پر بوڑھا برگد، رفو گر کا
پڑوسی۔ امیرخسرو کی کہہ مکرنی۔

استاد سے پوچھا ’’آپ کی عمر؟‘‘

بولے ’’برگد سے پوچھ لو۔‘‘

برگد کی داڑھی ہنسنے لگی۔ جیسے ہوا کہہ رہی ہو
کہ بوڑھا برگد سب جانتا ہے۔

جگنی سے پوچھا۔ ’’تمھاری عمر؟‘‘

 ’’میری
گڑیا سے پوچھ لو۔‘‘ وہ ہنس پڑی۔

آگے چلتے ہیں، پیچھے کی خبر نہیں۔۔۔ کعبہ میرے
پیچھے ہے، کلیسا میرے آگے۔۔۔

جو سب سے پیچھے رہنا چاہتا ہے، اسی کو سب سے
آگے بڑھاتی ہے کارواں سرائے۔ ایک ہی داؤ میں پاسہ پلٹ سکتا ہو۔

وہ خودستائی کبھی نہ کرتا۔ گاہک سے یہی کہتا
’’شاید میرا کام آپ کو پسند نہ آ سکے!‘‘

اگر کسی کو اس کا کام پسند نہ آتا تو وہ جھگڑے
میں پڑنے کی بجائے صاف صاف کہہ دیتا ’’آپ کچھ بھی نہ دیجیے اور رفو کی ہوئی اپنی
اچکن لیتے جائیے۔‘‘

پنا لال جگنی کو چڑیا کہہ کر چھیڑتا تو وہ کہتی:

 ’’وہ
چڑیا جاپان گئی!‘‘

رفو گر کے ابا دستگیر کی موت پر چنچل سنگھ
افسوس کرتے ہوئے کہتا:

 ’’آگے
مرنا پیچھے مرنا، پھر مرنے سے کیا ڈرنا!‘‘

کسی کے ہاتھ میں کئی تہوں میں لپٹا ہوا کاغذ۔

کسی کی بات چاکلیٹ اور بسکٹ کے بیچ۔

کسی کی نظر ایک کونے میں پڑی جگنی کی لہنگے والی
گڑیا پر۔

پتھر کی دیوار پر رنگ برنگے پوسٹر:

 ’’سچ
کو سولی۔‘‘

 ’’آنکھ
کا پانی مرگیا۔‘‘

 ’’ڈھائی
دن کی بادشاہی۔‘‘

 ’’پاؤں
میں سنیچر۔‘‘

 ’’سفر
نامہ ابنِ بطوطہ۔‘‘

 ’’چوڑیاں
پہن لو۔‘‘

 ’’سفید
گھوڑے پر کالا شہسوار۔‘‘

امرت گیسٹ ہاؤس کے آگے مغل اعظم ہوٹل۔ اور بیگم
پل سے آگے ترکمان دروازہ۔

بھول بھلیاں اور بارہ دری کے بیچ کتاب محل۔

بک لینڈ پریس کی بغل میں لبرٹی کینٹین۔

کہیں اوپر کوٹ، کہیں نیچا نگر۔

کہیں اُشا ڈی لکس، ہوٹل، کہیں مٹیا محل۔

کارواں سرائے کا نام بدل کر پانڈولِپی رکھ دیا۔

یہ اور بات ہے کہ لوگوں کی زبان سے کارواں
سرائے نہیں اترتی۔

واہ ری کارواں سرائے:

ندیا میں مچھلی جال

بھکارن پھٹے حال

نام بن پھول بائی۔

اس کی ہتھیلی پر پانچ پیسے کا سکہ رکھنا نہ
بھولتا علی لجو امام۔ اور ہتھیلی میں گدگدی ہونے لگتی۔

کل کی نرتکی آج کی بھکارن۔ سونے چاندی کے سکّوں
کی کھنک اس کے پاؤں چومتی تھی۔

پانچ پیسے کا سکہ لیتے وقت آج اس کی آنکھیں
پاؤں کی طرف جھک جاتیں۔

کون سی داستان سنو گے؟ کچھ سنائیں گے، ذرا اور
قریب آ جاؤ۔

دو نینوں کی ایک کہانی

ماں کی لوری ایک نشانی

جو گزرو گے ادھرسے، میرا اجڑا گاؤں دیکھو گے

شکستہ ایک مسجد ہے، پرانا ایک مندر ہے

 ’’عمر
بھر کون محوِ رقص رہا؟‘‘ رفو گر نے رفو کرتے ہوئے پوچھا۔

نغمے کی سوغات۔ قوالی کی رات۔ صحیح گئے، سلامت
آئے۔

شِلالیکھ کے روپ میں کس یُگ کی رچنا آگے آئی؟

ننھّی منّی جگنی اور اس کی بڑی بہن نسیم۔

 ’’تو
نسیم کی بہن ہے جگنی؟‘‘ پنا لال نے پوچھا۔

 ’’نہیں
نسیم میری بہن ہے۔‘‘ وہ ہنس پڑی۔

کہاں تک چپ رہیں، جب سر سے اوپر ہو گیا پانی!

آچاریہ مہادیو یہ کہتے ہوئے محل میں آئے کہ سو
سنار کی، ایک لوہار کی:

 ’’سونے
سے مہنگی گھڑائی!‘‘ وارث معصوم نے تھاپ لگائی۔

 ’’رام
دہائی! رام دہائی!‘‘ سب کی ملی جلی آواز۔

 ’’وہ
اپنا دامن چھڑا کر چلی گئی۔ کام روپ کے پاس جا کر رکیں گے اس کے قدم۔‘‘ اولاد احمد
نے کہا۔ اشارہ بن پھول بائی کی طرف۔

براتِ عاشقاں بر شاخِ آہو- ہرن کے سینگ پر
عاشقوں کی برات۔

کچھ اور پوچھیے، یہ حقیقت نہ پوچھیے!

پھولوں جیسے بازو، تھکن سے چور!

اپنی گڑیا کا بیاہ رچائی، جگنی گاتی رہی:

دھوئیں دھوئیں! تو گھر کو جا!

تیری ماں نے کھیر پکائی!

بن پھول کو دیکھ کر رفو گر بادشاہ بن جاتا۔ گویا
اس کے ہاتھوں میں اشرفیاں کھنکنے لگتیں۔

تیس دن، چالیس میلے

میلے میں سب لوگ اکیلے

ہم کہاں سب سے الگ؟

آج پروئیاں چلی پچھوا کے بعد!

مرنے والے کی نہیں، جینے والے کی موت!

اے روشنئ طبع تو برمن بلا شدی!

 ’’میں
تو بن پھول کو چتر لیکھا سے کم نہیں مانتا۔‘‘ پنا لال کا اعلان۔

وہ سوچتا ایک دن بن پھول سڑک پر چلتے چلتے ڈھیر
ہو جائے گی۔ اور اس کی ار تھی کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی بھیڑ کندھے بدلتی رہے گی۔

کارواں سرائے کا یہی احساس کہ علی لجو امام جس
کا بھی کام کرتا ہے، بڑی ایمانداری سے اور دن رات ایک کر کے۔

وہ تو گاہک کو اَنّ داتا مانتا تھا۔

اس کی نظر پرندوں کے اسپتال پر، جس کا سنگِ بنیاد
لال صوفی نے رکھا تھا۔

چنچل سنگھ بات کو گھیر گھار کر لاہور تک لے آیا:

 ’’لاہور
شہر،

گربانی کا شبد- جانے کون سا اشارہ۔

 ’’یہیں
رہنا ہے، جب تک سوئی دھاگے کا ساتھ ہے۔‘‘ رفو گر کا اپنا انداز۔

 ’’تیرے
دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا!‘‘ اولاد احمد نے اپنی کتاب کا حوالہ دیا۔

 ’’ سو
سال جئیں، سو سال دیکھیں۔‘‘ آچاریہ مہادیو کی تان یہیں ٹوٹتی کہ مندر میں دیوتا
جاگے۔

چنچل سنگھ یہ کہہ کر دم لیتا کہ وہ پانی ملتان
رہ گیا!

اولاد احمد کے زورِ قلم کا نتیجہ ’’ادھورا آدمی،
آدھی کتاب۔‘‘

پنّا لال کا قد- سوا تین فٹ مگر اس کا یہی دعویٰ:

 ’’میں
لنکا سے آیا!‘‘

جیسے وہ اپنے آپ کو باون گزا مانتا ہو۔

گلی آئینہ خانم کی شان – نو گزے کی زیارت، سب
پر مہربان۔

گڑیا سے باتیں کرتے کرتے جگنی بول اُٹھی:

 ’’اللہ
اللہ لوریاں، دودھ بھری کٹوریاں!‘‘

راگ راگنی ہاتھ باندھے کھڑی رہتی۔

 ’’پاؤں
تلے پرکھوں کی ہڈیاں۔‘‘ آچاریا مہادیو گیان بگھارتے۔

سرکٹے دھڑکو دفنا کر مزار گل شہید کا نام دیا گیا۔

لال صوفی کا ایک اور نام- گل شہید۔

اولاد احمد کی کتاب کا انتساب- گل شہید کے نام۔

 ’’لوگوں کے دماغ بھی رفو ہونے چاہئیں!‘‘ رفو گر
مسکرایا۔

آنکھ کی پتلی- پتلی بائی!۔۔۔ کار جہاں دراز ہے!

موتی جھیل غائب- اب وہاں چترلیکھا کالونی کی
چہل پہل۔

گاندھی گارڈن -کمپنی باغ کا نیا نام۔

کبھی آواز کا چہرہ، کبھی پہچان چہرے کی!

خوشبو سے کہو یہ کہ ہماری طرف آئے!

بھُس میں آگ لگا کے جما لُو دور کھڑی!

 ’’کہیں
بھی آگ لگے، بیچاری جمالو بدنام۔

آسام سے آیا کام روپ، جسے بن پھول نے الکھ
نرنجن مان لیا۔

پیروں میں گھنگھرو باندھے، وہ اس کے آگے ناچتی
رہتی۔

پاگل بھکارن کی اور بات، جو سڑک پر کھڑی آنے
جانے والوں کو دعائیں دیتی رہتی۔

کام روپ کو دیکھ کر آسام سامنے آ جاتا۔

اوپر کوٹ- سرگوشیاں ہی سرگوشیاں۔

بن پھول کے جوڑے پر گجرے کی خوشبو۔

گفتگو -گل شہید کے مزار تک۔

علی جو امام یہ بتانا نہ بھولتا کہ وہ سورج
اُگنے سے پہلے ہی پیدا ہوا اور اسی روز اس کوٹھری میں ابابیل کا بچہ انڈے سے باہر
نکلا۔

آچاریہ مہادیو جب کبھی ’’کشمیری بے پیری!‘‘ کہہ
کر چھیڑتے تو رفو گر کہتا:

 ’’مہاراج! میں تو آپ کو بھی بے پیر مانتا ہوں۔‘‘

وقت کا احساس جیسے جنگلی کبوتر کی اڑان۔ اڑتا ہی
جائے بس اُڑتا ہی جائے!

دنگے فساد شروع ہو گئے تو کام روپ مارا جائے
گا۔ اور اسے الکھ نرنجن مان کر پیروں میں گھنگھرو باندھے اس کے آگے ناچنے والی بن
پھول کی جھنکار بھی ختم ہو جائے گی۔

کبھی میوزک کانفرنس، کبھی کتابوں کی نمائش، کبھی
آل انڈیا مشاعرہ۔

ہیرا لال کا بیٹا موتی لال اور موتی لال کا بیٹا
پنّا لال تینوں بونے۔ مگر نفرت کے خلاف جہاد، ان کا ایمان: جیسے بسم اللہ خاں کی
شہنائی یا پنّا لال کا بانسری وادن۔

پٹھان کا پوت- کبھی اولیا، کبھی بھوت۔

مغل کی اور بات۔

اب کیا شاہانہ آن بان!

تاتاری کا قصّہ ختم!

لال صوفی -تاتاری سوداگر کے خاندان کی آخری کڑی۔

 ’’برف
کے پھول سے اُٹھتا ہے دھواں دیر تلک!‘‘

 ’’رفو
گر رفو کرتے کرتے گنگناتا رہا۔‘‘

اتہاس گوسوامی کا نام آتے ہی، مس فوک لور اور
گل ہما کا نام آئے بغیر نہ رہتا۔

گل ہما یعنی برف کا پھول۔

اتہاس گوسوامی کی ’’نیل یکشنی‘‘ میں لال صوفی
کو شردھانجلی دی گئی۔

بہار آئی ہے جوبن پر اُبھار آیا۔

پیچھے رہ گیا بھٹیاری کا رنگ محل۔

ناک کے سیدھے چلے جاؤ تو کتاب محل کا ریڈنگ
روم۔

کبھی گرمی کا رونا کہ چیل انڈا چھوڑے!

کبھی کڑاکے کی ٹھنڈ کہ بلبلیں مر گئیں اکڑ کے
تمام!

(۲)

ایک روز اچاریہ مہادیو بس پر سوار ہونے سے پہلے
نیند کی چودہ گولیاں کھا گئے اور بس سے اُتر کر کارواں سرائے کے بارہ ٹوٹی چوک میں
نیلا گنبد کے فٹ پاتھ پر گرتے ہی بیہوش ہو گئے۔

کسی نے ٹیگور اسپتال کو فون کر دیا۔ اسپتال کی
وین آئی اور اچاریہ مہادیو کو لے گئی۔

وہاں انھیں مردہ سمجھ کر مردہ گھر میں بھیج دیا
گیا۔

اگلے روز ان کا پوسٹ مارٹم ہونا تھا۔

صبح چار بجے آچاریہ مہادیو کو ہوش آیا تو اس کے
ساتھ کئی مردے۔

اپنے آپ کو مردہ گھر میں پا کر ان کے منھ سے چیخ
نکل گئی۔ بڑی مشکل سے اپنے اوپر قابو پا سکے۔

دروازہ کھلا تھا۔

وہ سرکتے سرکتے باہر اندھیرے میں جا پہنچے اور
پہرے داروں سے بچتے بچاتے اسپتال کے احاطہ سے باہر۔

کئی گھنٹے تک یہی احساس رہا کہ موت دبے پاؤں ان
کا پیچھا کر رہی ہے۔

یہی خدشہ لگا رہا کہ کہیں سرکار اقدام خودکشی
کے الزام میں نہ دھر پکڑے۔

پرانے دوستوں میں سے، جس سے بھی ملے، وہی انھیں
بھوت سمجھ کر سہم گیا۔

علی جو امام نے اولاد احمد اور وارث معصوم کو
ساتھ لے کر ٹیگور اسپتال سے پوچھ تاچھ کی تو پتہ چلا کہ بارہ ٹوٹی چوک کے فٹ پاتھ
سے لائی گئی لا وارث لاش کو سرکاری خرچ پر جلا دیا گیا۔

جب آچاریہ مہادیو اچانک بک لینڈ پریس کے پروف ریڈر
پنّا لال کے سامنے آئے تو وہ انھیں بھوت سمجھ کر اتنا خوفزدہ ہوا کہ تین دن تک
اسپتال میں رہنا پڑا۔

 ’’میں
بیراگی بھیا انوراگی۔‘‘ جانے کس کس بات پر زور دیتے رہے آچاریہ مہادیو۔

چاند تاروں کے تلے، کون سا قصّہ چلے!

ہماری پہچان -رفو گر کی دوکان۔

بھاری ڈیل ڈول، لمبی داڑھی، بڑی بڑی آنکھیں،
آنکھوں پر چشمہ۔ ہاتھ میں سوئی دھاگا۔

سگریٹ جلانے کے لیے ماچس نہیں، لائٹر- گل ہما کی
سوغات۔

 ’’لونگ
لو مِس فوک لور! اور گل ہما زندہ باد!‘‘

اولاد احمد نے تھاپ لگائی۔

کبھی تو ہنسائے، کبھی یہ رُلائے- زندگی کیسی ہے
پہیلی ہائے۔‘‘

 ’’ہم
تو ہر آدمی کو اپنے سے آگے مانتے ہیں۔ اس کا پیار ہمیں ملے نہ ملے۔ وارث معصوم نے
جیسے اندھیرے میں روشنی کی پگڈنڈی پر اتہاس گوسوامی کو چلتے دیکھا۔ دائیں مِس فوک
لور، بائیں گل ہما۔‘‘

اب کیا ہو گا۔ کسے خبر! لوک یان کے لیے جینا
اور مرنا اتہاس گوسوامی کا دھرم ایمان۔

 ’’پیار
کر کے بھلانا نہ آیا ہمیں۔‘‘ رفو گر نے رفو کرتے کرتے کہا۔

کتاب محل بڑھیا لائبریری ہے جیسے کسی مفلس نے
پرانے خزانے کا پتہ چلایا۔

 ’’یہ
کون سی پستک تھی، جو تم پڑھ رہے تھے۔‘‘ پنا لال نے چنچل سنگھ سے پوچھا۔

جتنی پرچھائیاں، اتنی سیڑھیاں- ساتھ صدیوں
پرانا ہے اپنا!

 ’’دکھیا
کیوں اتنا سنسار!‘‘ نظم بن پھول کا۔‘‘

اٹ پٹا سا بول ’’پگلا کہیں کا!‘‘

اپنے دھاگے، سدا آگے کہیں خیرمقدم، کہیں
الوداع۔

سونی ڈگر ہو یا ہو میلہ۔ تشریف لائیے حضور!

 ’’رفو
گر کے لیے ضروری ہے کہ کپڑے میں جان ہو۔‘‘ رفو گر نے رفو کرتے کرتے کہا۔

 ’’اب
تو اپنے آپ پر آئے نہ وشواس۔‘‘ چنچل سنگھ بول اُٹھا۔

بال بچّے دار پنّا لال نئی دُلہن بیاہ لایا۔

دلہن نے اسے نیا خطاب دے ڈالا:

 ’’چیونٹیوں
بھرا کباب!‘‘

گفتگو ہوتی رہی گھنٹوں۔

چنچل سنگھ کو یہی بات ناگوار گزرتی کہ کوئی اسے
ہوٹل مہاراجہ سمجھ کر ہی اس کا احترام کرے۔

ہم کتنا ٹوٹ کے روئے جب لال صوفی کا دھڑ ملا،
سر غائب۔

وارث معصوم گنگناتا رہا:

قصیدے سے نہ چلتا ہے، نہ یہ دوہے سے چلتا ہے

حکومت کا ہے جتنا کام، سب لوہے سے چلتا ہے

وہ کون تھا، جو مسکراکے پاس سے گزر گیا؟

آچاریہ مہادیو نے جو گی بننے کا سپنا دیکھا۔

یوگ آشرم سے لگاؤ۔

شادی سے دور۔

اس ہپی کا ناش ہو، جس کی دوستی کے کارن انھیں مینڈکس
کی لت پڑ گئی۔ مٹی میں مل گیا یوگ کا سپنا۔

ہاتھ میں اخبار کا سنڈے ایڈیشن۔

چرخ نے پیش کمیشن کہہ دیا اظہار میں

قوم کالج میں اور اس کی زندگی اخبار میں

اب کس بات کا پردہ، جب نغمہ گونج اُٹھا؟

 ’’بارہ
دری‘‘ نے سدھارتھ سینما میں گولڈن جوبلی منائی۔

رفو گر کو کیا چاہیے؟ چاک گریباں یا پھٹا ہوا
دامن۔

بلبلیں مرتی ہیں اپنی بات پر!

لال صوفی کے مزار پر پھول چڑھا کر چنچل سنگھ نے
دعا مانگی۔

دولت خاں کی دولت کا کرشمہ کہیے یا جادو، جو
سرچڑھ کے بولا۔

وہ تین بار لوک سبھا کا ممبر چنا گیا۔

یہ تہذیب کس نے سکھائی ہمیں؟

کون سے رسم الخط میں لکھتا رہا وارث معصوم؟

کالج کی کتاب پر، جگنی کا اتنا ہی اعتماد، جتنا
کہ گڑیا کے کھیل پر۔

دھک دھک دھک دھک دل کی ڈفلی

ڈم ڈم ڈم ڈم ڈمرو باجے!

واہ رہے اگیا بیتال!

سامنے اس موڑ پر پرندوں کا اسپتال۔

محرابوں سے چھن کر آتی دھوپ۔

سو کے قریب پرندے ہر ہفتے علاج کے لیے آتے۔ آشیاں
سے دور، بڑھیا علاج۔

(۳)

کارواں سرائے گل ہما کی طرح اپنی ہی بانہوں میں
سمٹ جاتی اور کبھی نفرت کی آندھی پر جھنجھلائی سی لگتی۔

پنا لال استاد کے لیے چلم بھر لاتا۔

سوالوں کی راتیں، جوابوں کے دن۔

جب آچاریہ مہادیو اخبار پڑھ کر سناتے تو پنا لال
اور اولاد احمد انھیں مذاق کا نشانہ بنانا نہ بھولتے۔ ٹیگور اسپتال میں ایک بار
انھیں لا وارث لاش مان لیا تھا۔

دنگے فساد کی خبریں سنتے سنتے کبھی رفو گر کی
سوئی سے دھاگا نکل جاتا، کبھی سوئی ہاتھ میں چبھ جاتی خون کی بوند چھلک جاتی۔

بادلو! او بادلو! او بادلو

مرگیا طوطا ہمارا مر گیا!

علی جو امام کو پسند کرنے والوں کے ڈھیر سارے
نام۔

 ’’دیکھ
مجھے جھوم گیا ندیا کا درپن!‘‘ بن پھول کا نغمہ۔

جانے کون کون سی یاد محفل کا دامن تھامتی رہی۔

چائے آئی اولاد احمد نے تھاپ لگائی:

چائے آئی چائے آئی

دگنے بھاؤ کی چائے آئی

(۴)

آچاریہ مہادیو نے لائٹر سے سگریٹ سلگایا اور کش
لے کر گنگناتے رہے:

 ’’دوری
نہ رہے کوئی، آج اتنے قریب آ جاؤ!‘‘

 ’’چاندنی جب مل گئی۔ ہم چاندنی سو لیے …‘‘
اولاد احمد کی تھاپ۔

ہم نے تو ہر طرح کے پھول ہار میں پرو لیے
…وارث معصوم کی تان۔

قصہ پنّا لال کا۔

رفو کرتے کرتے علی جو امام کو جانے کیا خیال آیا
کہ اُٹھ کر چلے گئے۔

جانے سے پہلے جیب سے نکال کر پچاس کا نوٹ چوکی
پر رکھ دیا۔ شیشے کے پیپرویٹ کے نیچے۔

اتنے میں پنا لال آیا اور چپکے سے نوٹ اُٹھا کر
نو دو گیارہ۔

اولاد احمد نے اسے نوٹ اٹھاتے دیکھ لیا تھا۔

رفو گر واپس آیا تو اولاد احمد نے پنا لال کی
شکایت کی۔

 ’’وہ
نوٹ تو اسی کے لیے تھا۔‘‘ رفو گر مسکرایا۔

رحمان یہ خبر لایا کہ دولت خاں نے کام روپ اور
بن پھول کے لیے دونوں وقت کھانے کا انتظام کر دیا سماواز ریستوران میں۔

 ’’ووٹ
حاصل کرنے کا نیا ہتھکنڈا۔‘‘ وارث معصوم ہنس پڑا۔

 ’’آج
قصے کو پھپھوندی لگ گئی!۔۔۔‘‘ اولاد احمد گنگناتے رہے۔

(۵)

قاتل بڑا بے رحم تھا، جو لال صوفی کا سر کاٹ کر
لے گیا اور دھڑ جھاڑیوں میں چھپا گیا۔

سوال پوچھو، جواب دیں گے۔

 ’’قتل
ناحق صوفی معصوم کا!‘‘ اولاد احمد کی تھاپ۔

ذرا سی بھول یہ رنگ لائی۔

اب کہاں وہ کتھا گھاٹ!

پرندوں کا اسپتال- کارواں سرائے کی شان۔

اسپتال کی نئی عمارت پر دولت خاں نے دولت
نچھاور کی۔

سدھارتھ سینما کا مالک -دولت خاں۔ بک لینڈ پریس
کا بھی وہی پروپرائیٹر۔

سینما- بیوی کے نام۔

پریس- چھوٹے بھائی کے نام۔

اصل بنیاد تو عقیدت ہے۔۔۔ یہی ایمان کی حقیقت
ہے۔

سدھارتھ سینما میں نئی فلم ’’لوگ کہتے ہیں۔‘‘

مر گئے، کھو گئے، جاتے رہے۔

اللہ اللہ لوریاں -دودھ بھری کٹوریاں۔

رشوت کا ایک نام- چاندی کی لگام۔

کارواں سرائے پر علی جو امام کی چھاپ۔ اس کی
دوکان کارواں سرائے کی پہچان۔

(۶)

پگلی بھکارن سوکھے پیڑ کے تنے پر پانی ڈالتی رہی۔

پیڑ پر نئے پتّے آ گئے۔

خواب میں ہم اپنے ہی جنازے کے ساتھ چلتے رہے۔

ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں!

پنا لال کے دماغ پر سوار- بن پھول۔

وہ مدھومتی کے کنارے موجود رہتا، جب بن پھول
مدھومتی سے نہا کر نکلتی۔

اس نے بھیگے ہوئے بالوں سے جو جھٹکا پانی

جھوم کے آئی گھٹا، ٹوٹ کے برسا پانی

 ’’میں
نے پیروں میں گھنگھرو باندھے، جتنے کہو اتنے گھنگھرو بولیں۔‘‘ ناچنا شروع کرنے سے
پہلے بن پھول کا اپنے الکھ نرنجن سے یہی نویدن۔

دولت خاں چوتھی لوک سبھا کا انتخاب جیت گیا۔

علی جو امام کی اور بات۔

آنکھوں ہی آنکھوں میں سب کا احترام

ہو مبارک او علی جو او امام

سکھ دکھ رہتے جس میں مل کر، جھلمل بستی اس کا
نام۔

لال صوفی کا سر کاٹ کر لے گیا ہتیارا۔

آج تک اس کا پتہ نہ چل پایا۔

پرندوں کا اسپتال- اس کی سچی یادگار۔ وہ جب تک
زندہ رہا، پرندوں پر جان چھڑکتا رہا۔

مارا گیا لال صوفی- جو نفرت کو اپنے خون سے تولتا
رہا۔

مزار میں دفن- سرکٹا لال صوفی۔

لوگوں کا گل شہید، جو زندگی بھر نفرت کے خلاف
لڑتا رہا۔

لال صوفی کا مرثیہ- اولاد احمد کی کتاب کا حرف
آخر:

بانس کے پتے پر یہ شبنم

ماتم والے بولے کم کم

آنکھوں سے پلکوں کی باتیں

پتھر ڈھو ڈھو روتے رہے ہم

آنسو کی کیا آب و تاب

کیسے پڑھتے رہے کتاب

یہ زندہ اور مردہ لوگ

آنسو میں موتی کی آب

کیسا پلٹا ہے یہ موسم

دم توڑے پتوں پر شبنم

وہی سوال اور وہی جواب

کہاں گیا وہ اپنا ہمدم

کھنڈر کے پیچھے چاندنی رات میں چمیلی کے منڈوے
تلے سو رہی تھی بن پھول۔

اسے ناگ نے ڈس لیا۔

اس کی ار تھی کے ساتھ علی جو امام دوکان سے
شمشان تک چونیاں اور اٹھنیاں نچھاور کرتا رہا۔

اب کہاں بن پھول کی جھنکار!

اولاد احمد کی زبان پر جاپان کا ایک ہائیکو:

بس ایک تتلی- ننھی جان

مندر کے گھڑیال پر

بے خبر سوتی رہی!

کارواں سرائے پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔

بن پھول کے الکھ نرنجن کام روپ کی آتما بھی
پنجرا خالی کر گئی۔

کارواں سرائے ار تھی کے ساتھ ساتھ۔

چھتیس گڑھ کے چودھری بھی شامل ہوئے

 ’’رام
رام ستّ ہے‘‘ کے ساتھ ’’اللہ ہو‘‘ کی آواز بھی بلند ہوتی رہی۔

چنچل سنگھ نے چندن کی چتا سجائی۔

آچاریہ مہادیو نے چتا کو آگ دکھائی۔

تیرہ دن تک کارواں سرائے کام روپ کا سوگ مناتی
رہی- چولھے آگ نہ گھڑے پانی۔

بچوں کا شور:

دھوئیں دھوئیں تو گھر کو جا!

تیر ماں نے کھیر پکائی!

(۷)

آج مزار گل شہید پر قوالی کی رات۔

اپنا لال صوفی- کارواں سرائے کا گل شہید۔

یاد رہے گا اس کا نغمہ:

وہ ہندو ہوں کہ مسلم ایک ہی مٹی کے برتن ہیں

کوئی ہیں شیخ جی ان میں، کوئی ان میں برہمن ہیں

دائیں رحمان اور خلیل، بائیں اولاد احمد اور
وارث معصوم۔

بیچ میں آچاریہ مہادیو۔

چپ کیوں ہو گئے؟ جواب دو۔

علی جو امام کیوں نہ آیا ہمارے ساتھ؟

رفو گر کی دوکان سے چل کر وہ بیگم پل سے گزرے۔
دائیں کھچڑی پور، بائیں چترلیکھا کالونی۔

بارہ دری سے ہو کر عیدگاہ مارگ پر چلتے چلتے
کتاب محل کو پیچھے چھوڑا۔

جھلمل بستی سے آگے مزارگل شہید۔

شیطان طوفان، اللہ نگہبان۔ ہم قربان!

ان کا یہی احساس کہ یہاں نہ کوئی دوست ہے نہ
دشمن۔ نہ راجہ نہ بھکاری، نہ رانی اور داسی کے بیچ کوئی دیوار!

جہاں ڈر، وہیں ہمارا گھر!

اب وہ زمانہ کہاں کہ سونا اچھالتے جاؤ۔

اولاد احمد کی یہی شکایت کہ اتہاس گوسوامی تشریف
نہ لائے۔

جھوٹی قسم کون کھائے:

وارث معصوم کہہ رہا تھا کہ گل ہما اور مس فوک
لور ہی چلی آتیں۔

آچاریہ مہادیو بولے:

اگر مِس فوک لور کو بھی فرصت نہ تھی تو گل ہما
ہی چلی آتیں۔

ہر طرف جنگل نظر آنے لگا۔

وصل ہو یا وصال ہو یا رب!

ہم قربان!

سات قرآن درمیان!

سب نے نہا کر کپڑے بدلے!

قوالی کی رات!

سازوں کی ہم آہنگی ہی سنگیت کی پہلی منزل ہے۔

اس وقت کی گردش یاد کرو، جب ساز ملائے جاتے ہیں!

وارث معصوم اور اولاد احمد یہ دیکھ کر جھوم
اُٹھے کہ اتہاس گوسوامی پہلے سے محفل میں موجود ہیں۔

مٹی میں گلاب کی سگندھ۔

آچاریہ مہادیو نے ہاتھ جوڑ کر اتہاس گوسوامی کو
پرنام کیا۔

جانے کون سی ان بوجھی پہیلی بوجھی جا رہی تھی۔

اپنے تو ہیں سَو سَو یار

دھُنئے، بُنکر اور منہار

دل کی دنیا بہت اندھیری

اندھیارے میں کاروبار

اچانک درگاہ کے اندر ایک آدمی آ کر چلّایا:

 ’’فساد
شروع ہو گیا!‘‘

بکھرے بال، کندھے گھائل، سر لہو لہان۔

چیختے چلّاتے وہ گر پڑا۔

قوالی کی محفل درہم برہم۔

اب کیا ہو گا؟

خلیل اور رحمان کا کہیں پتہ نہ تھا۔

اولاد احمد اور وارث معصوم بولے:

 ’’چلو
آچاریہ مہادیو! اب بھاگ چلیں۔‘‘

وہ چلتے رہے، گرتے پڑتے چلتے رہے۔

افراتفری، وحشت غم کا پہاڑ۔

بلند عمارتیں آگ کی نذر۔

گلیاں لہو لہان۔

کالی سڑکیں سرخ ہو گئیں۔

راہیں لاشوں سے پٹ گئیں۔

اپنی ہی دوکان کی سیڑھیوں پر مارا گیا علی جو
امام۔

سفید گھوڑے کا کالا شہسوار

اس کے آنسو ٹپ ٹپ گرتے رہے -گھوڑے کی ایال پر!

آنسو ٹپ ٹپ گِرتے رہے، گرتے رہے!

مارا گیا علی جو امام:

ایک ہاتھ میں سوئی، دوسرے میں دھاگا!۔۔۔

٭٭٭

قبروں کے بیچوں بیچ

دس لاکھ بھوک موتیں، پندرہ لاکھ، انیس لاکھ اور
اس ہفتے کل جمع چوبیس لاکھ۔ اور ابھی تک اس بھیانک دُربھکشا کا زور بڑھ رہا
تھا…..

گیتا کے دماغ میں اس وقت ایک لوری کے سُوَر
گھوم رہے تھے: چھیلے گھومالو پاڑا جڑا لو، ورگی ایلو دیشے: بلبلے تے دھان کھے چھے
خزانہ دیب کشو؟ یعنی بچہ سو گیا، محلہ شانت ہو گیا۔ دیش میں ورگی آ گئے۔ بلبلوں نے
دھان کھا لیا۔ اب لگان کیسے دیں گے؟

چلتے -چلتے اس نے یہ لوری اپنے ساتھیوں کو سنائی۔
جعفری سب کی طرف سے پوچھا- ’’یہ ورگی کیا بلا ہوتی ہے، گیتا؟‘‘

 ’’بھیانک
ورگی! ناگپور کے راجا رگھو جی راو بھونسلے کے سپاہی ورگی کہلاتے تھے۔‘‘

علی امجد بولا- ’’میرا خیال ہے کہ اس لوری میں
کسی مہتّوپورن گھٹنا کی اور اشارہ کیا گیا ہے۔‘‘

گیتا پہلے چپ رہی۔ پھر جب ساتھیوں کی پھس پھس
بند ہو گئی، وہ بولی- ’’بنگلہ کی یہ لوری مجھے سدا اداس کر جاتی ہے۔ نواب علی وردی
خاں کا زمانہ تھا۔ ورگی مراٹھے بنگال میں گھس آتے تھے۔ یہ وہ خونی ریچھ تھے، جس کے
پنجوں سے سانس کھینچ کر لیٹی ہوئی جنتا بھی نہ بچ سکتی تھی۔ نواب اس سے بچنے کے لیے
ہمیشہ انھیں اپنے خزانے سے دے دلا کر لوٹا دیتا۔ جنتا حیران تھی کہ اتنا لگان کہاں
سے کچھ دے۔ بلبلیں الگ دھان کی بالیاں نوچتی رہتیں۔‘‘

جعفری کہہ اٹھا- ’’ میرا تو خیال ہے کہ یہ بھی
کوئی ورگی ہے!‘‘

 ’’بھیانک
ورگی!‘‘ گیتا بولی۔

اور ورگیوں سے کہیں ادھک بھیانک تھا یہ در بھکش۔
آج جل پان کیے بنا ہی وہ اپنی اگلی منزل کی طرف چل پڑے تھے۔ آج وہ اداس بنگال کی
اداس سڑک پراداس اداس چل رہے تھے۔

 ’’آگے
پیٹے کچھو ڈال- آگے پیٹے کچھو ڈال-‘‘ گیتا چلانے لگی۔ یعنی پہلے پیٹ میں کچھ ڈال
لے۔ اگر وہ جل پان کر سکی ہوتی تو شاید ایک فقیر کی یہ آواز یاد نہ آتی۔ اور پھر
کلکتہ کے فٹ پاتھ پر پڑے ہوئے بھوک کے ماروں کی چیخ پکاراس کے کانوں میں زندہ ہو
اٹھی…سرونیشے شدھا!… امار پوڑا کپال!…ابھاگ کون دے کے جائے؟ …پوچے مر!…
پوکا پڑے مر!… ارتھات سروناش کرنے والی بھوک! ہمارا جلا ہوا بھاگیہ! ابھاگیہ کس
طرف جائے؟ سڑ کر مر!کیڑے پڑ-پڑ کر مر!… سروناش کرنے والی بھوک نے ماتاؤں کی ممتا
کو ختم کر ڈالا تھا اور وہ آج اپنی کوکھ کے بیٹوں تک کو گالیاں دے رہی تھیں- سڑ کر
مر! کیڑے پڑ -پڑ کر مر۔

ساتوں ساتھیوں کا یہ قافلہ اونٹوں کے بھٹکے
ہوئے کارواں کی طرح اداس اداس چلا جا رہا تھا۔ سب سے آگے گیتا تھی۔ وہ کھادی کی سویت
ساڑی اور لال بلاؤز پہنے تھی۔ اپنے کندھے پر اپنا سامان لٹکائے ہوئے اور ایک ہاتھ
میں پارٹی کا جھنڈا اٹھائے ہوئے جس کی لال زمین پر سویت ہتھوڑے اور ہنسیے کی آ کرتی
بھی مٹ میلی اور اداس ادس نظر آتی تھی، اس کے پیچھے جعفری اور پھر امجد، علی اختر
اور بھوشن اور ان کے پیچھے پراشر اور کپور۔ سب کے تن پر قمیض اور نیکر۔ اپنے اپنے
حصے کا سامان اٹھائے ہوئے۔ سب برابر کے کامریڈ، ہر طرح کے بھاوک ششٹاچار سے آزاد۔

ان کے پاس روٹیاں تو تھیں نہیں کہ لوک کتھا کے
پتھک کی طرح انھیں کسی درخت کی گھنی چھایا میں کپڑا بچھا کر پھیلا دیتے اور باری
باری اونچے سورمیں کہتے- ایک کھاؤں، دو کھاؤں، تین کھاؤں؟ یا سب کی کھا جاؤں؟

دھوپ اور بھی تیز ہو گئی تھی۔ ساتوں ساتھیوں کے
چہرے پر وہ پتلی پتلی سوئیوں کی طرح چبھنے لگی۔ گرد اڑ کر ان کے کپڑوں پر پڑ رہی
تھی۔ سرمے کی سی دھول میلوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ اور فضا میں مردہ مانس کی بد بو
کچھ اس طرح سمائی ہوئی تھی کہ اس سے چھٹکارہ پانا اسمبھو پرتیت ہوتا تھا۔

اونچے اونچے ناریل اداس تھے۔ کٹہل اور مہوا کے
درخت اداس تھے۔ آم اور شہتوت بھی اداس تھے۔ اور چھتیج بھی اداس اداس بلکہ دھواں
دھواں نظر آتا تھا۔

ہوا کے جھونکے کے ساتھ مردہ مانس کی بدبو کا ریلا
آ کر گیتا سے ٹکرا گیا۔ اس نے سوچا، پرے جھاڑیوں میں کوئی لاش سڑ رہی ہو گی۔ ضرور یہ
آدمی کے مردہ مانس کی بدبو تھی۔ لیکن گدھ یا چیل کا کہیں پتا نہ تھا۔ جھٹ اسے پرانی
گالی یاد آ گئی- ’’تور بھوڑا کے چیلے او کھابے نا!‘یعنی تیری لاش کو چیلیں بھی نہ
کھائیں گی۔

جعفری بولا- ’’کیا سوچ رہی ہو، گیتا؟‘‘

گیتا نے مڑ کر جعفری کی طرف دیکھا۔ وہ مسکرا تو
نہ سکی، چلتے -چلتے بولی- ’’یہ معلوم ہوتا ہے یہاں پاس ہی کسی کی لاش سڑ رہی ہے۔‘‘

امجد کہہ اٹھا- ’’لاش ہوتی تو گدھ بھی ہوتے۔‘‘

علی اختر بولا- ’’گدھ نہ ہوتے تو چیلیں ہی ہوتیں۔‘‘

سڑتی ہوئی لاش سے کسی کو کچھ دلچسپی نہ تھی۔
اور سچ تو یہ ہے کہ وہ ڈر گئے تھے کہ کہیں سڑتی ہوئی لاش مل گئی تو اسے ٹھکانے
لگانے کی مصیبت آ کھڑی ہو گی۔

اپنے کالج میں یہ سب لڑکے خوبصورت لڑکیوں کا
خاص دھیان رکھتے تھے۔ کپور کو خوب یاد تھا کہ جب گیتا ان کے کالج میں پہلے روز نام
لکھانے آئی تھی تووہ کس طرح جھوم اٹھا تھا۔ اس نے اپنے سب دوستوں کا دھیان گیتا کی
ساڑی کی طرف کھینچتے ہوئے کہا تھا- ’’خلیج بنگال کی کل نیلاہٹ یہاں جمع ہو گئی
ہے۔‘‘ اس وقت وہ یہ نہ جانتا تھا کہ ایک دن وہ بھوک موتوں کے آنکڑے جمع کرنے کے لیے
گیتا کی قیادت میں ایک ٹولی بنا کر دیش کی سیوا کر پائیں گے۔

کپور یہ آنکڑے جمع کرتے کرتے پہلے اکثر جھنجلا
کر رہ جاتا تھا۔ کسی بھوکے کے منھ میں کچھ ڈالا جائے یا پیاسے کے منھ جل کی بوند
ٹپکائی جائے تو کچھ سیوا بھی ہو۔ وہ اپنے ساتھیوں سے واد وِواد چھیڑ دیتا۔ اس کا
دماغ اس پگڈنڈی کا روپ دھارن کر لیتا جو دھول کی گہری دھند میں گم ہو گئی ہو۔ گیتا
اپنے گلے پر زور ڈال کر کہتی- ’’یہ جو کھاتے -پیتے پرانتوں سے اب بنگال میں اناج آ
رہا ہے، اس میں بھوک موتوں کے آنکڑے جمع کرنے کی تحریک ہی کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ یہ
جو اناج کی گاڑیاں دھڑا دھڑ کلکتے پہنچ رہی ہیں، یہ جو جگہ جگہ پر مفت لنگر کھولے
جا رہے ہیں، ہمارے اس تحریک ہی کی مدد سے۔ سوچو تو ہمارے جیسی اور کتنی ٹولیاں
بنگال کے قحط زدہ علاقوں میں یہ خدمت کر رہی ہوں گی اور کپور چپ ہو جاتا۔

’کمیونسٹ پارٹی جنتا کی پارٹی‘ گیتا نے نعرہ
لگایا اور اس نے مڑ کر اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں ایک کنواری مسکان
ناچ اٹھی۔ اور چلتے چلتے سب ساتھیوں نے مل کر نعرہ بلند کیا- کمیونسٹ پارٹی جنتا کی
پارٹی۔ ان کی بھوک تو کسی طرح نہ دب سکی۔ لیکن یہ بھروسہ بھی کچھ کم نہ تھا کہ
قلوپطرہ اداس نہیں رہی۔

کپور کو اچانک ایک فرانسیسی لیکھک کا قول یاد آ
گیا- ’عورت کو ایڑی سے لے کر چوٹی تک پرکھنا چاہیے، جیسے مچھلی کو دم سے لے کر سر
تک جانچی جاتی ہے۔ ‘ گیتا بھی ایک مچھلی ہی تو تھی جو بنگال کی کھاڑی سے اچک کر
دھرتی کی لہروں پر تھرکنے لگی تھی۔ پر اگلے ہی پل اسے جھنجلاہٹ ہوئی۔ اسی لیکھک کا
دوسرا وچار اسے جھنجھوڑ رہا تھا- ’ہمارے سارے سنگھرش کا مقصد صرف آنند کی تلاش ہے۔
پر کچھ ایسے شوق ہیں جن کی موجودگی میں آنند کے حصول سے شرم آنی چاہیے۔ ‘ ٹھیک تو
تھا۔ اسے اپنے اوپر شرم آنے لگی۔ قلوپطرہ لاکھ مسکرائے، یہاں عشق کا سوال ہی نہ
اٹھنا چاہیے۔

پراشر بولا- ’’کہو کامریڈ کپور، کیا سوچ رہے
ہو؟‘‘

کپور نے گیتا کے ہاتھ میں موجود جھنڈے کی طرف دیکھا
اور وہ بولا- ’’سوچنے کی بھی تم نے ایک ہی کہی، کامریڈ پراشر!‘‘

بھوشن کہہ اٹھا- ’’بھوک اور موت ہے۔ اس سے زیادہ
آدمی اور کیا سوچ سکتا ہے؟‘‘

پھر پراشر نے جاپانی بمباری کا ذکر چھیڑ دیا۔
اس پر سب ساتھیوں نے اپنا-اپنا غصہ نکال لیا۔ لیکن فضا برابر مردہ مانس کی بدبوسے
بوجھل تھا۔

یہ ایک چھوٹی سی ریل گاڑی ہی تو تھی۔ اونگھتی
چال سے چلی جا رہی ریل گاڑی۔ لال جھنڈے والی گیتا اس ریل کے لیے انجن بنی ہوئی تھی۔
یہ سب اسی کی شکتی تھی کہ ریل گاڑی آگے بڑھی جا رہی تھی، نہیں توسب کے سب ڈبّے ڈھیر
ہو جاتے- اچل مردوں کی طرح! کپور چاہتا تھا گیتا سے بھی آگے جا کراس ننھی-منی ریل
گاڑی کا انجن بن جائے اور اتنا دوڑے، اتنا دوڑے کہ سب ساتھی اس کے ساتھ دوڑنے پر
مجبور ہو جائیں۔

گیتا نے مڑ کر جعفری سے پوچھا ’’کیا سوچ رہے
ہو، کامریڈ؟‘‘

جعفری بولا- ’’وہی جو کامریڈ کپور سوچ رہا
ہے۔‘‘

اور اس گاڑی کے سب ڈبے قہقہہ مار کر ہنسنے لگے۔
تھوڑی دیر کے لیے وہ بھول گئے کہ انھوں نے سویرے سے جل پان تک نہیں کیا یا یہ کہ
دھوپ پہلے سے کہیں زیادہ تیز ہو گئی ہے۔

بھوک کے مارے گیتا کا برا حال تھا۔ اسے محسوس
ہوا کہ وہ ایک سرمہ دانی ہے۔- خالی سرمہ دانی! سرمہ کبھی کا ختم ہو گیا، نام اب بھی
سرمہ دانی۔ اس نے مڑ کر کپور کی طرف دیکھا، جیسے کہہ رہی ہو- تم اپنی آنکھوں میں
سرمے کی سلائی پھیرنا چا ہو بھی تو میں کہوں گی، معذرت چاہتی ہوں، کامریڈ کپور!

دھوپ انھیں جلا رہی تھی۔ منزل پر پہنچنا تو
ضروری تھا۔ اوپر سے سب چپ تھے، بھیتر سے یہی چاہتے تھے کہ کسی کھیت کے میڑھ پر
اپنے کو یوں پھیلا دیں جیسے کسی نے بڑی محنت سے کچھ کپڑے دھو کر ڈال دیے ہوں۔ وہ
دائیں بائیں دیکھتے جاتے تھے اور پھر سامنے نظر دوڑاتے، ابھی منزل دور تھی۔

سب پسینہ پسینہ ہو رہے تھے۔ دھول کے مارے الگ
طبیعت پریشان تھی۔ کپور دھول کے بادل کو گھورتا ہوا پیچھے رہ گیا۔ دل ہی دل میں اس
نے اسے چار پانچ اشلیل گالیاں دے ڈالیں۔ پھر وہ بھاگ کر اپنے ساتھیوں سے جا ملا۔
ساتھ ساتھ چلنا کسی حد تک آسان تھا۔

پراشر بولا- ’’ذرا گیتا کی ساڑی کا تو ملاحظہ کیجیے۔‘‘

کپور نے شہہ دی- ’’جی، ہاں۔ بہت میلی ہو رہی
ہے۔ شاید پوری اٹھنّی کے ریٹھے بھی اسے دھونے کے لیے ناکافی ہوں۔‘‘

بھوشن کہہ اٹھا- ’’ہر چیز مہنگی ہو رہی ہے۔
مہنگی اور آسانی سے ہاتھ نہ لگنے والی۔ مہنگے ہی سہی، اتنے ریٹھے ملیں گے کہاں
سے؟‘‘

کپور نے الٹ کر پھر کہا- ’’یہی تومیں کہ رہا
ہوں۔ ذرا سوچوتو۔ لاہور کے انڈیا کافی ہاؤس میں، گیتا ایسی حالت میں چلی جائے تو یقین
کرو اسے پاگل سمجھ کر نکال دیا جائے۔‘‘

گیتا ہنس کر دوہری ہو گئی۔ بولی- ’’یہ سچ ہے
کامریڈ کپور۔ پر میں کہتی ہوں، ریٹھوں سے کہیں زیادہ ضرورت ہے جل پان کی۔‘‘

کپور کہہ رہا تھا- ’’ اچھا بولو، کیا کھاؤ گی!
گھی میں تلے ہوئے نمکین کاجو؟‘‘

گیتا جھنجلائی- ’’تم تو دل لگی کر رہے ہو۔‘‘

 ’’اپہاس کیسا؟ میں نے تمھاری دل پسند چیز کا نام
لے دیا ہے۔‘‘

 ’’پر
گھی میں تلے ہوئے نمکین کاجوؤں سے زیادہ لذیذ ہو گی کرِیم کافی‘‘

 ’’کہاں
ملے گی کریم کافی؟‘‘

 ’’ کڑوی
کسیلی کافی کریم کے ساتھ مل کر ایک نیا ذائقہ پیدا کر دیتی ہے۔‘‘

 ’’جی
ہاں‘‘

 ’’
مجھے یاد آ رہا ہے، کافی کی مشین کا اونگھتا اونگھتا شور میرے دماغ پر کبھی کبھی
ہتھوڑے کی چوٹ کر جاتا ہے۔‘‘

 ’’او
ہو! ہتھوڑے کی چوٹ!‘‘

ایک بار سب ساتھی شہر کی مکھیوں کی سی
بھنبھناہٹ میں الجھ گئے۔ پھر گفتگو کاسلسلہ شروع کرتے ہوئے گیتا بولی- ’’بنگال
بھوکا ہے۔ ہم بھی تو کئی بار بھوکے رہ جاتے ہیں۔‘‘

بات کو پھر انڈیا کافی ہاؤس کی طرف گھوماتے
ہوئے کپور بولا- ’’ کافی سے زیادہ تمھیں میری بات میں رس آ جاتا تھا۔، گیتا! تمھاری
غیر حاضری میں میرے سامنے فیض کا وہ مصرعہ اجاگر ہو اٹھتا- ’گل ہوئی جاتی ہے
افسردہ سلگتی ہوئی شام۔ ‘ ایش ٹرے میں سگریٹ کی راکھ گراتے ہوئے مجھے محسوس ہوتا
کہ میری زندگی اس سگریٹ کی طرح ہے اور وہ ایش ٹرے شمشان بھومی بن اٹھتی۔‘‘

خوب خوب! سب ساتھیوں نے ایک آواز میں کہا۔ گیتا
نے خاموش داد دی اور پیچھے کو گھوم کر کپور کی طرف ایک مسکراہٹ پھینک دی۔

کہیں انسان کی شکل نظر نہ آتی تھی۔ ایک برساتی
ندی کی خشک تلیٹی پار کرتے ہوئے گیتا سوچنے لگی- اچھی فصلیں نہ ہونے پر بھی یہ
قحط! اس وقت اس کی آنکھوں میں ایک بڈھے کسان کا چتر گھوم گیا جس کی بھیانک گپھاؤں
کی سی آنکھوں میں جھانک کر اس نے گہرے گہرے سایوں کے پیچھے دیکھ لیا تھا کہ کس طرح
موت ایک ریچھنی کی طرح دبکی بیٹھی ہے۔ وہ فنکار ہوتی تو اسے اپنی شاہکار کی شکل میں
دنیا کے سامنے رکھتی۔ اس کا نام تو بس ایک ہی ہو سکتا تھا-بھوکا بنگال!

معلوم ہوتا تھا کہ اب وہ کوئی بات چیت نہ کر سکیں
گے۔ اس کی رہی سہی ہمت بھی ختم ہو رہی تھی۔ اور جتن کرنے پر بھی وہ رینگ رینگ کر ہی
چل سکتے تھے۔

ہوا بھی مریل سی معلوم ہوتی تھی۔ کہیں دو گھونٹ
پانی بھی تو نہ مل سکتا تھا۔ کپور کو یہ خیال آیا کہ اپنے ساتھیوں پر نکتہ چینی
شروع کر دے۔ بھاڑ میں جائے دیش پریم اور کالا ناگ ڈس جائے جنتا پارٹی کو۔ شیطان چاٹتا
رہے بھوک موتوں کے آنکڑوں کو…. چوبیس لاکھ ہوئے تو کیا اور تیس یا پینتیس لاکھ
ہو گئے تو کیا؟ عجب حماقت ہے۔ بھوک موتوں کے آنکڑے جمع کرنے سے آخر ہاتھ کیا آئے
گا؟ وہ چاہتا تھا کہ گھر لوٹ جائے۔ اپنی سوچ کو وہ الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا۔ یہ بھی
کٹھن تھا۔ گیتا کو چھوڑ کر وہ کہیں نہ جا سکتا تھا۔ اس نے ایک مشاعرہ میں سنی ہوئی
ایک نئی کویتا پر وچار کرنا شروع کر دیا۔ ’کارخانوں میں مشینوں کے دھڑکنے لگے دل!‘
کاش! وہ خود بھی کسی کارخانے کی مشین ہوتا اور اس کا دل برابر دھڑکتا رہتا۔ اس کا
دل تو ڈوب رہا تھا۔ اس کے قدم بری طرح بوجھل ہو رہے تھے۔ اس کا دماغ جواب دینے
لگا۔ یہ ٹھیک تھا کہ کمیونزم کے بنا اس دیش کی تپِ دق کا علاج نہیں ہونے کا۔ پر وہ
کدھر کا علاج ہے کہ بھوک موتوں کے آنکڑے جمع کرتے کرتے آدمی خود بھی بھوک کا شکار
ہو جائے؟ ک…میو…نزم…وہ سوچتے -سوچتے لڑکھڑا رہا تھا۔ پر جیسے خود کامریڈ لینن
اس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر اس کا حوصلہ بڑھا رہا تھا۔ ’کارخانوں میں مشینوں کے
دھڑکنے لگے دل!‘ یعنی جب مشین بھی دل رکھتی ہے تو آدمی اپنے دل کو کیوں ڈوبنے دے؟

مٹ میلے آکاش پر بادل بالکل نہ تھے۔ ساتوں ساتھیوں
کے جسم میں اتھاہ لاوا پگھل رہا تھا۔ گیتا بولی- ’’ہم اسی طرح چلتے رہے تو یہ دھوپ
ہمیں آلوؤں کی طرح بھون ڈالے گی۔‘‘

ایک درخت کے نیچے پہنچ کر سب ساتھی گول دائرے میں
بیٹھ گئے اور منافع خوروں کو سوسو گالیاں سنانے لگے۔ دھرتی کیا کرتی؟ ایک ایک کر
کے یہ لوگ آئے اور گاؤں کے سب اناج نکال لے گئے۔ اس دورے میں دیکھے ہوئے دردناک
چہرے ان کی آنکھوں میں پھر گئے۔ ننگ دھڑنگ بچے، مرد بھی سب چیتھڑوں میں، عورتیں بھی
سب چیتھڑوں میں، لٹکتی ہوئی چھاتیوں سے لٹکے ہوئے بچے اد ھ موئے کیا جوان، کیا
بڈھے، سب چوسی ہوئی گنڈیریوں کی طرح بے کار۔ ارہر نہیں تو دال کیسی؟ چاول نہیں تو
بھات کیسا؟ سب اناج -چور منڈیوں میں جا پہنچا تھا۔ زندگی کی بوالعجبی دیکھیے کہ
لوگ بے رحم اناج چوروں کی بجائے اپنے دیوتاؤں کو کوس رہے تھے۔ یہ ہاتھ کی ریکھاؤں
سے قسمت کی پگڈنڈی ڈھونڈنے والے لوگ زندگی پر جھپٹنے کی اہلیت کھو بیٹھے تھے۔

سر کے نیچے بانھ کا تکیہ بنا کر گیتا ذرا پرے
ہٹ کر لیٹ گئی۔ اس کی آنکھیں مچ گئیں۔ اس کے من میں اناج چور گھومنے لگے، جنھوں نے
بنگال کے چھ کڑوڑ کسانوں کا گلا گھونٹنے کی سازش کی تھی۔ اس کے ہاتھ کسی اناج چور
کی مرمت کرنے کو ترس رہے تھے۔ رات ہو جائے اور وہ اپنے چوہے دان کو دھو مانجھ کر
رکھ دے، پھر سویرے پتہ چلے کہ موٹے موٹے چوہے اس میں پھنس گئے ہیں اور وہ انھیں
زندہ زمین میں دفنا دے، یہ سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی۔

جعفری بولا- ’’کلکتے کے فٹ پاتھ پر بھوکے بنگال
کی عزت بک رہی ہے۔ کتنی شرم کی بات ہے!‘‘

امجد کہہ رہا تھا- ’’خود ماں باپ اپنی بیٹیوں
کو بیچنے پر مجبور ہیں۔‘‘

علی اختر نے بھی اپنا راگ چھیڑ دیا- ’’دس دس، بیس
بیس آنے میں جوان لڑکیاں بیسواؤں کے ہاتھ بک جائیں، غضب ہو گیا غضب!‘‘

بھوشن نے کہا- ’’اب تک بیس ہزار کنواریاں بہو
بازار کی رانیاں بن چکی ہیں۔ تعجب ہے!‘‘

پراشر نے اپنی میگھ گمبھیر آواز میں کہا- ’’یہ
کنواریاں بک نہ جاتی تو فٹ پاتھ پر بھوک کا شکار ہو جاتیں۔‘‘

کپور اب تک چپ تھا۔ بولا- ’’بھوک کی باڑھ میں یہ
سب کنواریاں ڈوب گئیں! غضب ہو گیا!‘‘

گیتا سو رہی تھی۔ کپور نے اٹھ کر اس کے ماتھے
کو ہلکا سا جھٹکا دیا- ’’اٹھو گیتا، منزل پر پہنچنا تو ضروری ہے۔‘‘

گیتا کا انگ انگ دکھ رہا تھا۔ اس کے جی میں آیا
کہ وہ اپنے ساتھیوں سے کہے- تم لوگ آگے بڑھ جاؤ۔ مجھے یہیں پڑے پڑے مر جانے دو۔ میں
نہیں چاہتی کوئی میری لاش کو شمشان بھومی میں لے جائے ؛ میں نہیں چاہتی کوئی میری
لاش قبروں میں دفنائے۔ کوئی بھوکا گدھ مجھے کھا لے گا۔ پر اس کے ساتھی کب اسے
چھوڑنے والے تھے؟

اپنی ساڑی کا پلّو اس نے کمر کے گرد کس کر
باندھ لیا۔ بولی- ’’اب ہم سیدھی قطار میں چلیں گے برابر-برابر۔‘‘

بہت خوب سب ساتھی ایک سور میں بولے۔

تین ساتھی دائیں طرف، تین ساتھی بائیں طرف۔ بیچ
میں گیتا، لال جھنڈا اٹھائے ہوئے۔ دائیں طرف ترتیب سے جعفری، امجد اور علی اختر،
اور بائیں طرف کپور، پراشر اور بھوشن۔ وہ کافی اونچی زمین پر پہنچ گئے تھے۔ سامنے
کا گاؤں، جہاں انھیں پہنچنا تھا دور ہی سے نظر آنے لگا۔ سب کا حوصلہ نئے سرے سے قایم
ہو گیا، جیسے سب نے چھاچھ کا ایک ایک گلاس چڑھا لیا ہو۔

سورج اب اتنا گرم نہ تھا کہ پھر سے ان کے شریر
میں لاوہ پگھلنے لگے۔ چلتے چلتے سب ساتھی رک گئے۔ بائیں طرف ایک مور ناچ رہا تھا-
بنگال کے دربھکش سے بے خبر! سب اسے دھیان سے دیکھنے لگے۔ کپور کو غصہ آ گیا۔ حرام
زادہ! کس طرح ناچ رہا ہے جیسے شراب پی رکھی ہو۔ سامنے مورنی بیٹھی ہے۔ پٹھا اسے
خوش کرنے کے لیے یہ گر نہ جانے کس سے سیکھ آیا ہے؟ اس کے ہاتھ میں تیر کمان ہوتا
تو پہلے ہی تیر سے وہ اس مور کو ختم کر ڈالتا۔ پھر اس کے وچاروں نے پلٹا کھایا۔ نہیں،
نہیں، یہ تو ظلم ہو گا۔ اب وہ اس مور کو بتا دینا چاہتا تھا کہ کمیونزم کا سندیش
موروں کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا آدمیوں کے لیے، بلکہ کمیونسٹ سماج میں ایک
مور بھی برابر کا حصے دار ہو سکے گا، دوسرے کلاوِدوں کے ساتھ مل کر وہ بھی کسی کلا
بھون کی استھاپنا کر سکے گا۔ نہ جانے وہ کب سے ناچ رہا تھا؟ دیکھتے دیکھتے چمکیلا
پنکھ سکڑ گیا۔

ساتوں ساتھی پھر اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگے۔
سب نے رو مال سے اپنا اپنا چہرہ پونچھ لیا تھا۔ گیتا نے اپنے بالوں میں کنگھی بھی
کر لی تھی۔ کپور نے چور آنکھوں سے اس کی سیدھی مانگ کی طرف دیکھ کر کہا، ’’میں
کہتا ہوں ہوائی جہاز سے نیچے دیکھنے پر گنگا بھی تو اسی طرح ایک روپہلی لکیر بن کر
رہ جاتی ہو گی- گیتا کی مانگ کی طرح۔‘‘ اور اس پر سب ساتھی کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

چلتے چلتے گیتا نے ایک بنگالی لوک گیت چھیڑ دیا-
’’ کت منش گورومرے گیل جیشٹھی ماسِر جھڑے، او بھائی جیشٹھی ما سِر جھڑے!‘‘یعنی
کتنے آدمی اور پشو مر گئے، جیشٹھ ماس کے طوفان میں!

پاس سے کپور نے اس گیت کو اٹھا لیا اور دھیرے
دھیرے سب ساتھی گیتا کے ساتھ شامل ہو گئے- ’’کتو منش گورو مرے گیلو جیشٹھی
ماسِرجھڑے او بھائی، جیشٹھی ماسِرجھڑے!آج انھوں نے آکاش میں جو آگ برستی دیکھی تھی،
اس سے تو کہیں اچھا ہو گا کہ جیشٹھ مہینہ کا طوفان، کپور گیتا کی مسکراہٹ کو دعوت
دینا چاہتا تھا، لیکن یہ مسکراہٹ اس موت کے طوفان کا سامنا کرتے کرتے اپنی سب مہک
کھو بیٹھی تھی وہ مہک جو لاہور کے انڈیا کافی ہاؤس کے فضا میں کپور کی وجود کو
گدگداتی رہتی تھی۔

جعفری بولا- ’’کپور کی کہانی ’کافی ہاؤس کی ایک
شام‘ مجھے بہت پسند ہے۔‘‘

گیتا کی آنکھوں میں ایک پل کے لیے پھر کنواری
مسکان تھرک اٹھی۔ بولی- ’’کامریڈ جعفری کے ساتھ میں بھی متفق ہوں، کپور!’کافی ہاؤس
کی ایک شام‘ میں تم نے مجھے اروشی بنا دیا… ہاں تو میں پوچھتی ہوں تمھاراقلم کافی
ہاؤس سے باہر کب نکلے گا؟‘‘

کپور بولا- ’’میری نئی کہانی کا نام ہو گا-
لاش!‘‘

 ’’ جی
ہاں، لاش!‘‘

گیتا ذرا دیر سے چونکی- ’’کیسی لاش؟‘‘

کپور نے بڑی گمبھیرتا سے کہا- ’’ جو نہ جلائی
گئی، نہ دفنائی گئی!‘‘

ضرور لکھو، کپور اور میں اس کا بنگلہ ترجمہ
کرنے کا وچن دیتی ہوں۔‘‘

 ’’پہلے
ہی سے دھنیہ واد!‘‘

لاش کا دھیان آتے ہی گیتا کو پھر سارا واتاورن
مردہ مانس کی بدبو سے بوجھل محسوس ہونے لگا اور ہوا بھی کرایے کی سوگ کرنے والوں کی
طرح رسمی طور پر سائیں سائیں کیے جاتی تھی۔

دن ڈھل رہا تھا۔ سارا آکاش اداس اداس نظر آتا
تھا- اداس اداس اوربے رنگ! جھاڑیاں خاموش تھیں- خاموش اور دل گیر۔

گاؤں قریب تھا۔ جھونپڑیاں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔
پاس جانے پرمعلوم ہوا کہ کئی بوڑھے درخت گاؤں کی تاریخ کے امانت دار ہیں۔

اس گاؤں میں ایک جلاہے نے آگے بڑھ کر اس قافلے
کا سواگت کیا۔ ’’بنگال مر گیا تو کون زندہ رہے گا؟‘‘ سب ساتھیوں نے نعرہ لگایا۔

بڑے بڑے درختوں کے اس پار گاؤں کی مسجد بھی
خاموش اور دل گیر تھی۔ سارے گاؤں پر نحوست برستی تھی۔ جلا ہے نے ایک مریل سا بچہ
اٹھا رکھا تھا۔ پتا چلا کہ یہاں زیادہ آبادی مسلمانوں کی تھی۔ انھوں نے مسجد کے
سامنے جمع ہو کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ گاؤں کو چھوڑ کر باہر نہ جائیں گے۔

گیتا نے جلا ہے کے سمجھ میں آنے لائق انداز میں
اس کو دھیرج بندھایا اور پوچھا، ’’یہاں کتنی بھوک موتیں ہوئی ہیں، بابا؟‘‘

پتا چلا کہ صرف دس آدمی زندہ ہیں۔ آٹھ دوسرے
آدمی اور دونوں یہ باپ بیٹا۔ وہ بھی جلد مر جائیں گے۔ اس نے بہت مشکل سے جواب دیا
اور اب آنسوؤں کی باڑھ کو نہ روک سکا۔

گیتا نے کہا- ’’روتے کیوں ہو؟ ہم تو تمھارے سیوک
ہیں، بابا!‘‘

کپور بولا- ’’اب جلدی کرو، گیتا۔‘‘

گیتا نے دھیرے سے کہا- ’’ہاں، کامریڈ، بس ابھی
شروع کرتے ہیں۔‘‘

فیصلہ ہوا کہ پہلے زندہ لاشوں کا جائزہ لیا
جائے۔ دو آدمی ستّرے بہتّرے معلوم ہوتے تھے، جیسے جونکوں نے ان کا سب خون چوس لیا
ہو۔ ایک جھونپڑی میں بارہ برس کا ایک اناتھ چھوکرا دم توڑ رہا تھا۔ اس کے پاس ایک
پڑوسن سیوا کو موجود تھی جواب اپنے گھر میں اکیلی رہ گئی تھی۔ یہی بڑھیا بیچ بیچ
اٹھ کر ان ستّرے بہتّرے بڈھوں کے منھ میں پانی ٹپکا جاتی تھی۔ ایک جگہ پر ایک ننھا
بچہ اپنی ماں کی چوسی ہوئی گٹھلیوں جیسی چھاتیوں کو برابر چوستا جا رہا تھا… اب
اور ہمت کس میں تھی کہ ان بھیانک جھانکیوں میں الجھا رہتا۔

ساتوں ساتھیوں کا قافلہ اب قبرستان کی طرف چل
پڑا۔ اپنا اپنا سامان سب نے جلا ہے کی جھونپڑی میں چھوڑ دیا تھا۔ اپنے بچے کو گود
میں اٹھائے وہ جلاہا اس قافلے کو راستہ دکھا رہا تھا۔

گیتا نئی قبریں گنتی جاتی تھی اور کپور رجسٹر
پر نمبر چڑھاتا جاتا تھا۔ اتنی محنت سے تو کوئی تاریخ کی گزری ہوئی صدیوں کو نہ
گنتا ہو گا۔

قبرستان کے ساتھ ساتھ ایک دریا بہہ رہا تھا۔ نئی
قبریں ختم ہوتی نظر نہ آتی تھیں۔ وہ جلاہا ساتھ نہ ہوتا تو نئی اور پرانی قبروں میں
کچھ مغالطہ بھی ہو سکتا تھا۔ پر اب تو کسی طرح کی بھول کی امید نہ تھی۔

 ’’یا
اللہ!‘‘ جلاہا پیلی آنکھوں سے آکاش کی طرف دیکھ کر بولا۔ یہ اس کی بیوی کی قبر تھی۔
گیتا نے اس کو دھیرج بندھایا اور وہ ہانپتے ہوئے بیل کی طرح چل پڑا۔

اب تک گیتا ایک ایک قبر کے پاس پہنچ کر پوری
ہوشیاری سے گنتی کے نمبر لکھتی جاتی تھی۔ اب اتنا صبر نہ تھا۔ اب وہ دور ہی سے گنتی
کر لیتی۔ اب یہ بھی ضروری نہ رہ گیا تھا کہ ہر حالت میں جلا ہے کی تصدیق کے بعد ہی
گنتی کو ٹھیک سمجھا جائے۔ یہ پتا چل گیا تھا کہ باقی کاقبرستان صرف نئی قبروں کے
سبب بڑھتا چلا گیا تھا۔

وہ جلاہا اجازت لے کر واپس چلا گیا۔ جاتے ہوئے
وہ کہتا گیا کہ وہ اپنے قومی سیوکوں کے لیے تھوڑے دال بھات کا پربندھ کرنا اپنا
فرض سمجھتا ہے۔ موت تو آئے گی ہی کل نہیں تو پرسوں۔ زیادہ فکر تو آج کی تھی۔ اتیتھی
ستکار تو ضروری ہے۔

ساتوں ساتھی آگے ہی آگے چلے جا رہے تھے۔ ایک دل
دوز، خوفناک چیخ فضا میں گونج رہی تھی۔

اب وہ قبرستان کی انتم سیما پر پہنچ گئے تھے۔ یہ
ایک کونا تھا- ٹھیک ساٹھ کا کون بنا ہوا تھا۔

سامنے ایک قبر پرسویت بالوں والی ایک بڑھیا بیٹھی
تھی۔ گیتا بولی- ’’ہم شدھامرتیو کے آنکڑے پراپت کر رہے ہیں، ماں!‘‘

 ’’شدھامرتیو کے آنکڑے!‘‘ بڑھیا نے ایک گستاخ
قہقہہ لگایا۔

 ’’جنتا
کی لال پارٹی کی سیواہمارا آدرش ہے ماں!‘‘

 ’’لال
پارٹی!‘‘ بڑھیا نے پھر گستاخ قہقہہ لگایا۔

ماں، ہنسو مت۔ ہم تو شدھ مرتیو کے آنکڑے پرا پت
کر رہے ہیں۔ ہم نے جل پان بھی نہیں کیا۔ پگھلانے والی دھوپ بھی ہماری راہ نہ روک
سکی۔ ہم یہ گنتی سماچار پتروں کو بھیجتے ہیں اور اناج کی گاڑیاں دیش کے کھاتے پیتے
لوگوں سے کلکتے پہنچ رہی ہیں اور جگہ جگہ پر مفت لنگر کھولے جا رہے ہیں، ماں!‘‘

 ’’مفت
لنگر!‘‘ بڑھیا نے پھر قہقہہ لگایا۔

 ’’ماں،
ہنسو مت۔ ہم تو نئی قبریں گن رہے ہیں، ماں!‘‘

بڑھیا چپ ہو گئی۔ اس نے قہقہہ نہ لگایا۔ بولی- ’’
گن لو قبریں، راج کنیا!‘‘

 ’’ہاں،
ماں!‘‘

پتا چلا کہ قبروں سے دو گنی لاشیں دریا میں پھینکی  جا چکی تھیں۔ اور ایک بات اور بھی تو تھی۔ اس
قبر میں بڑھیا کے دو بیٹے پِلّوں کی طرح سوئے پڑے تھے۔ ان کے چار بیٹے اور بھی
تھے، وہ بھی بھوک کے بیمار تھے۔ ایک دن وہ ایک ساتھ مر گئے۔ وہ ان کے لیے ایک بھی
قبر نہ کھود سکی۔ ان ہاتھوں سے اس نے انھیں دریا میں پھینک دیا۔

گیتا بولی- ’’اس موت کا انت نہیں ہے سنسار میں۔،
پر ہم بھی تو تمھاری سنتان ہیں، ماں!‘‘

اب وہ بڑھیا رو رہی تھی۔ اس کو دھیرج بندھانے کی
شکتی گیتا میں تو نہ تھی۔ نہ جانے کتنے دنوں سے وہ اس قبر پر دھرنا دیے بیٹھی تھی،
جیسے اب اس نے موت پر جھپٹنے کا ارادہ کر لیا ہو۔

قافلہ لوٹ پڑا۔ سامنے پچھم میں سورج غروب ہو
رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی ایک خونی ہے اور ان گنت لوگوں کے خون سے ہاتھ
رنگ کر چھِتج میں پناہ ڈھونڈ رہا ہے۔ گیتا نے مڑ کر اس بڑھیا کی اور نگاہ دوڑائی
اور ایک بار پھر کلکتے کے فٹ پاتھ پر پڑے ہوئے بھوک کے ماروں کی چیخ و پکار اس کے
کانوں میں زندہ ہو اٹھی…سرو نیشے شدھا!…آمار پوڑا کپال…ابھاگ کون دے کے
جائے؟ …پوچے مر!…پوکا پوڑے مر!…یعنی سروناش کرنے والی بھوک! ہمارا جلا ہوا
بھاگیہ! ابھاگیہ کس اور جائے؟ سڑ کر مر!کیڑے پڑ، پڑ کر مر!…اور وہ تیز تیز قدم
اٹھانے لگی۔ اس کے پیچھے کپور تھا، پھر پراشر اور بھوشن، اور ان کے پیچھے علی
اختر، امجد اور جعفری۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ ساتوں ساتھی اس بڑھیا کے ساتوں بیٹے
تھے۔ جو دھرتی اور پانی کی قبروں سے اٹھ کر چلے جا رہے تھے، آگے ہی آگے، نئے
پھوڑوں کی طرح ابھری ہوئی قبروں کے بیچوں بیچ!

٭٭٭

پھر وہی کنج قفس

شِوپور جانے والے ساتھیوں کی طرف بیراگی بابا
مڑ مڑ کر دیکھتا رہا۔ اُس نے سوچا آگے چل کر وشنو پور والے بھی بچھڑ جائیں گے، اور
پھر کہیں رانگا ماٹی والے اس قافلے کو آخری سلام کریں گے۔ اپنی جنم بھومی کو کوئی
کیسے بھول سکتا ہے؟ اور جب بچھڑنے والوں کے چہرے پونم کی چاندنی میں تحلیل ہو گئے
تو وہ تیز تیز قدم بڑھا کر بیراگن ماتا کے قریب جا پہنچا۔ ہاں وہ بیراگی ہی تو تھے
کیوں کہ بیٹے اور بہو کی موت کے بعد لے دے کر ان کے پاس ایک نواسہ ہی تو رہ گیا
تھا۔

کچھ قافلے والے تو ہمت کھو بیٹھے تھے اور چاہتے
تھے کہ قافلے کا ساتھ چھوڑ دیں لیکن کچھ ایسے سخت جان تھے کہ چلنے کی سکت نہ رکھتے
ہوئے بھی دوسروں کو اپنے ساتھ گھسیٹنے کا جتن کیے جا رہے تھے۔ سب حیران تھے کہ وہ
آگے کیسے بڑھ رہے ہیں جبکہ ہر قدم آگے کو اٹھنے کی بجائے پیچھے ہٹتا محسوس ہو رہا
تھا۔

بوڑھے سوچ رہے تھے کہ کلکتے کے راستے میں تو
قافلہ خوب بھر گیا تھا کیوں کہ ہر دو را ہے پر نئے لوگ آ شامل ہوتے اور وہاں سے
چلتے وقت بہت کم لوگ قافلے میں شامل ہوئے۔ ہم نے چلا چلا کر ہر ساتھی سے کہا کہ اب
گاؤں چلنا چاہیے۔ جنم بھومی بلا رہی ہے اور نوجوان سوچ رہے تھے کہ کلکتے کی سڑکوں
پر تو موت پہلے ہی سے ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ بہت سوں کی تو لاشیں بھی دکھائی نہ
دیں۔ ہمارے اچھے بھاگ ہیں کہ ہم بچ کر آ گئے۔ اب ان بچی کھچی لڑکیوں ہی میں سے
ہمارے لیے دلہنیں چنی جائیں گی۔ اُن کی نگاہیں بار بار یہ کہنا چاہتیں کہ حسن تو سارا
کلکتے میں چھوٹ گیا اور لڑکیاں بھی دلوں میں سو سو بیاہ رچائی چلی جا رہی تھیں۔ وہ
سمجھتی تھیں کہ اب بھلا کون جہیز مانگے گا۔

وہ بس آہستہ آہستہ اپنی منزلیں طے کر رہے تھے۔
ہر قدم کے ساتھ ہر فرد کے چہرے پر ایک روشن مستقبل جھلک اٹھتا۔ اب گاؤں میں دھان ہی
دھان ہو جائے گا۔ دودھ ہی دودھ اور اپنے اندر ہزاروں نعمتیں لیے اپنا گاؤں ہمارا
سواگت کرے گا۔

کسی نے تھکی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’اب رانگا ماٹی
اور کتنی دور رہ گیا دادا؟‘‘

دادا (بڑے بھائی) نے چمک کر چھوٹے بھائی کی طرف
دیکھا۔ اور بولا:

 ’’یہ کیوں
نہیں پوچھتا گنیش کہ کلکتہ کتنا پیچھے رہ گیا؟ ہی ہی ہی۔ ارے کلکتہ بھی ہم نے دیکھ
ہی لیا۔ واہ رے کلکتے۔‘‘

گنیش نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ کبھی کلکتے
نہیں جائے گا اور اس وقت دادا کی بجائے کسی اور نے کلکتے کا ذکر چھیڑ دیا ہوتا تو
وہ اُسے ایسی ڈانٹ پلاتا کہ یاد ہی رکھتا۔

دادا اور گنیش نے اپنے نئے ساتھی کی طرف گھور
کر دیکھا اور پھر ہنس کر کہا، ٹھاکر ماما؟ تم پیچھے کہاں رہ گئے تھے؟

ٹھاکر ماما نہ جانے کیا سوچ کر ہنس دیا اور پھر
گنگنانے لگا۔

بندے ماترم!

سجلام سپھلام، شیا شیلاملام، ملیج شیتلام۔۔۔

شبھر جیوتسنا پلکت یامئیم

پھول کسمت ورم دل شو بھینم

سوہا سنیم سمدھر بھاشنیم

سکھ رام وردام ماترم

دادا اور گنیش آگے بڑھ گئے تھے۔ ٹھاکر ماما نے
ذرا رک رک کر سارے قافلے پر نگاہ دوڑائی جیسے وہ ’’آنند مٹھ‘‘ کے پھوانند کی تلاش
کرنا چاہتا ہو۔ اس نے کئی بار آنند مٹھ پڑھا تھا اور وہ ہمیشہ کسی بھوانند کی تلاش
میں رہتا تھا۔ وہ خود بھوانند کے منھ سے سننا چاہتا تھا کہ ’’جننی جنم بھومی سور
گاوپی گریسئی‘‘ یعنی ماں اور جنم بھومی سورگ سے بھی انمول ہیں اور وہ جو بھوانند
نے مہندر سے کہا تھا۔۔۔ ہم کسی اور ماں کو نہیں مانتے۔ ہم کہتے ہیں جنم بھومی ہی
ماں ہے ہماری نہ ماں ہے نہ باپ نہ گھر نہ دوار کوئی ہے تو یہی اچھے بل والی، اچھے
پھلوں والی، دھان سے ہری بھری دھرتی، جسے پچھوا ٹھنڈی اور سرسبز رکھتی ہے۔ اس کی یہ
روپہلی چاندنی سے بھر پور راتیں۔ اے ماں! یہ تیرے پھولوں اور کنجوں کی شوبھا۔ اے
ہماری ہنس مکھ، میٹھے بول بولنے والی، سکھ دینے والی، پروان دینے والی ماں!۔۔۔
ٹھاکر ماما کو حیرت ہوئی کہ اتنے دن ماں کا یہ روپ اُس کے ذہن سے کیسے اوجھل رہا۔
کلکتہ میں تو سب پر دیسی بستے ہیں۔ انھوں نے اونچے اونچے مکان بنا رکھے ہیں۔ کلکتہ
بھی کیسا شہر ہے۔ اونھ۔ کلکتہ ’’ماں‘‘ کو نہیں پہچانتا۔

اُدھر سے دو لڑکیاں ٹھاکر ماما کے قریب چلی آئیں۔
وہ آپس میں اُلجھ رہی تھیں۔

 ’’اب
کبھی کال نہیں پڑے گا، آرسی‘‘۔

 ’’اونھ۔۔۔ بہت سیانی بن رہی ہو، پدما! ارے ابھی
تو پہلا کال ہی ختم نہیں ہوا۔‘‘

تیز تیز قدم بڑھا کر آرسی اور پدما جھٹ دادا
اور گنیش کے قریب جا پہنچیں۔ گنیش نے آرسی کو دیکھا۔ وہ اُس سے کچھ پوچھنا چاہتا
تھا۔ مگر اصل سوال اس کے ذہن ہی میں کہیں کھو گیا تھا۔ اُس نے یوں ہی پوچھ لیا۔
تھک تو نہیں گئی، آرسی؟‘‘

اُدھر سے دادا نے پدما سے کہا: اب تو کبھی
کلکتے نہیں جاؤ گی نا، پدما۔‘‘

آرسی اور پدما نے مل کر قہقہہ لگایا جس میں گنیش
اور دادا کے سوال ہمیشہ کے لیے گھر گئے۔ گنیش سوچ رہا تھا کہ آرسی کمسن ہے اور گوری
بھی۔ اگر مجھے مل جائے تو بہت اچھا ہو اور دادا تو پدما سے بھی نبھا سکتے ہیں۔ وہ
ایسی سانولی تو نہیں جیسی اس وقت چاندی میں نظر آ رہی ہے۔

آرسی اور پدما آگے بڑھ گئیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ
سب سے پہلے رانگا ماٹی جا پہنچیں۔ آرسی کہہ رہی تھی ’’بھگوان ہی نے مدد کی کہ میں
اس نرک سے بچ نکلی۔ ہائے میں دس روپے میں بیچ دی گئی تھی۔‘‘

پدما بولی: ’’بکنے کی بجائے اگر تو اپنا گلا
گھونٹ کر مر جاتی تو اچھا ہوتا۔‘‘

دادا اور گنیش نے بھی اپنی رفتار تیز کر دی تھی
اور وہ آرسی اور پدما کی باتیں سننے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ جب گنیش نے یہ سنا کہ
آرسی کسی بیسوا کے ہاں سے بھاگ کر آ رہی ہے تو قریب تھا کہ اس کا وہ قلعہ ڈھے پڑے
جو اُس نے آرسی کی گھنگریلی لٹوں کو دیکھ کر تعمیر کیا تھا۔ لیکن یہ سوچ کر کہ نرک
سے کسی طرح بھی بھاگ آنا بڑی بہادری کا کام ہے، اس نے اپنے من کو سمجھا لیا۔

اُدھر بیراگی بابا اور بیراگن ماتا کے آگے آگے
ان کا جوان نواسہ تیز تیز قدم اٹھا رہا تھا۔ بیراگی بابا بولا۔ ’’رانگا ماٹی پہنچ
کر میں مَل مَل کر نہاؤں گا۔‘‘

بیراگن ماتا کہنے لگی ’’کیا ہم بیٹے اور بہو کو
گنوانے کے لیے ہی رانگا ماٹی سے کلکتے گئے تھے؟‘‘

 ’’اوہو۔۔۔ اچھا‘‘ پیراگی بابا نے بازو پھیلا کر
کہا ’’اب گوپال سب کام سنبھال لے گا۔ اس کی بہو بھی آ جائے گی۔‘‘

مگر گوپال کو بیاہ سے شاید کوئی سروکار نہ تھا۔
وہ چاہتا تھا کہ کسی کہانی کے شہزادے کی طرح اڑن کھٹولے میں بیٹھ کر جھٹ رانگا ماٹی
پہنچ جائے۔

پیچھے سے ایک عورت اپنی لڑکی کو لیے ہوئے آگے
بڑھ جانا چاہتی تھی۔ بیراگن ماتا نے انھیں پہچانتے ہوئے کہا۔ تم تو ہم سے بھی پہلے
رانگا ماٹی پہنچ جانا چاہتی ہو۔ اری منگل چنڈی، گوری کی دور مت بیاہنا‘‘

منگل چنڈی ہنس کر بولی ’’رانگا ماٹی پہنچ کر سب
کام تمھاری رائے سے کیا جائے گا، بیراگن ماتا۔ کلکتے کی اور بات تھی۔‘‘

بیراگن ماتا نہ جانے کیا سوچ کر جھٹ کہہ اٹھی۔
’’چاہو تو گھر جنوائی رکھ لینا، منگل چنڈی۔‘‘

سامنے سے گوپال نے پیچھے مڑ کر گوری کی طرف دیکھا۔
وہ کہنا چاہتا تھا کہ اس اکہرے بدن کی مریل سی چھو کری کے لیے میں تو کبھی گھر
جمائی ہونا پسند نہ کروں۔

گوری تیز تیز قدم اٹھا کر پدما اور آرسی کے قریب
چلی گئی اور گنگنانے لگی۔

مانشی ندیر پارے پارے

او ویدی!

شونار بندھو گان کورے جائے!

۔۔۔ ’مانسی ندی کے اُس پار کنارے کنارے سنہری
محبوب گاتے گاتے چلا جا رہا ہے۔

پدما نے اُسے ٹہوکا دیا۔ ’’مانسی ندی کا گیت مت
گاؤ گوری۔‘‘

گوری بگڑ کر بولی۔ ’’کیوں تجھے کاٹتا ہے میرا گیت؟‘‘

پدما نے قہقہہ لگا کر چوٹ کی۔ ’’ارے واہ۔ بڑی
سنتونتی بنی پھرتی ہے۔ نرک سے نکل کر جھٹ مانسی ندی کا گیت یاد آ گیا‘‘۔ آرسی نے بیچ
بچاؤ کرنا چاہا تو پدما اس پر بھی ڈائن کی طرح آنکھیں نکال کر جھپٹ پڑی ’’تم بھی
گوری کی بہن ہو آرسی۔ مجھے تو تمھارے خیال ہی سے شرم آ جاتی ہے۔ تمھارے جیسی لڑکیوں
کے لیے تو مانسی ندی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سوکھ جانی چاہیے۔‘‘ گوری اور آرسی جھینپ
کر اور بھی قریب آ گئیں اور پدما پرے ہٹ گئی۔ گوری بولی ’رانگا ماٹی پہنچ کر میں
روز مانسی ندی کا گیت گایا کروں گی‘‘۔

آرسی نے اُس کے گلے میں بازو ڈالتے ہوئے کہا۔
’’گھبراؤ نہیں دیدی۔ ہمیں سنہری محبوب ضرور پہچان لے گا۔‘‘

ٹھاکر ماما اور بیراگی بابا باتیں کرتے کرتے سب
سے آگے نکل جانا چاہتے تھے۔ ایک ہی جست میں وہ آرسی اور گوری کے پاس سے گزر گئے۔ بیراگی
بابا کہہ رہا تھا۔ ’’کوئیں کی مٹی کوئیں ہی میں کھپتی ہے۔‘‘

 ’’ہاں
ہا ہا‘‘ ٹھاکر ماما نے پونم کے چاند کی طرف بازو اٹھا کر کہا۔ ’’کلکتے میں تو کبھی
چاند اتنا خوبصورت نظر نہیں آیا تھا۔ رانگا ماٹی میں تو چاند بہت ہی سندر معلوم
ہوتا ہے۔ کلکتے میں مرنے سے تو یہی بہتر ہے کہ ہم رانگا ماٹی کے راستے ہی میں مر
جائیں‘‘ ۔

 ’’سچ
ہے ٹھاکر‘‘

 ’’میں
نے ایک گرنتھ میں پڑھا تھا، بابا کہ رانگا ماٹی تو ایک تیرتھ ہے جہاں چنڈی داس اور
کوی ودیاپتی گلے ملے تھے۔ ایسی رانگا ماٹی میں ہمارا جنم ہوا۔ اب ہم رانگا ماٹی ہی
میں مریں گے۔‘‘

کلکتے میں تو ہماری لاشیں سڑک کے کنارے پڑی سڑتی
رہتیں، ٹھاکر۔‘‘

گوری اور آرسی بھی بیراگی بابا اور ٹھاکر ماما
کی باتوں سے بندھی ہوئی آگے بڑھ رہی تھیں۔ وہ ذرا خاموش ہو گئے تو آر سی کا ذہن
پدما کی طرف پلٹ گیا اور وہ گوری کے گلے میں بازو ڈال کر بولی۔ پدما تو شروع کی
لڑاکا ہے، دیدی۔ اتنا بڑا کال بھی اُس کی طبیعت کو نرم نہ کر سکا۔

گوری کہہ اٹھی ’’بڑی ستونتی بنی پھرتی ہے۔ ست کیا
گھمنڈ کو کہتے ہیں! میں نہیں مان سکتی کہ کلکتے نے اُسے ستونتی چھوڑا ہو گا‘‘۔

 ’’اگر
وہ لوگ ہمیں پیچھے سے آ کر کر پکڑ لیں، دیدی تو کہو ہم کیا جواب دیں گی؟‘‘

 ’’پدما
کا بس چلے تو ہمیں پھر وہیں پہنچوا کر دم لے۔‘‘

اونھ۔۔۔ دیدی، پدما کی بات چھوڑو۔ وہ ان کے
پنجے میں پھنس جاتی تو وہیں رہ جاتی۔ لیکن ہمیں تو رانگا ماٹی کی یاد ستا رہی تھی۔
اور ہم بھاگ آئیں۔‘‘

آرسی اور گوری تیز تیز چلنے لگیں۔ اُدھر سے گنیش
نے انھیں دیکھا آرسی کی آواز اس کے کان میں یوں پہنچ رہی تھی جیسے بند مٹھی سے
آزاد ہو کر کیوڑے کے پھول کی تیز خوشبو آ رہی ہو اور وہ چاہتا تھا کہ دادا آگے نکل
جائے اور وہ ذرا آرسی کے قریب ہو جائے لیکن دادا بھی اُس کی رگ رگ پہچانتا تھا۔

دادا بولا: ’’وہ لوگ ابھی تک رانگا ماٹی ہی میں
ہوں گے۔ ساہو کار اور زمیندار۔‘‘

 ’’ہاں
دادا، گنیش نے چور نگاہوں سے آرسی کی طرف دیکھ کر کہا۔

 ’’اب
ہمیں واپس آتے دیکھ کر وہ کیا سوچیں گے؟‘‘

 ’’میں
کیا جانوں؟‘‘

 ’’کیوں
وہ خوش نہ ہوں گے۔ ‘

 ’’کیا
کہہ سکتا ہوں؟‘‘

 ’’ساہو
کار پھر قرض دے گا اور سود لے گا‘‘!

 ’’وہی
جانے۔‘‘

گنیش جواب دیتے دیتے تنگ آ چکا تھا لیکن دادا
سوال پہ سوال کیے جا رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ دادا سے کہے، اب چپ بھی کرو گے یا
نہیں؟ لیکن باپ کی غیر حاضری میں بڑے بھائی کی عزت بھی تو ضروری تھی اور اب دادا
بہت گہرائی میں چلا گیا تھا۔

 ’’ساہو
کار اور زمیندار مر کیوں نہیں جاتے؟‘‘

 ’’ہم
جو مرنے کے لیے ہیں۔‘‘

 ’’انصاف کا خون اسی طرح ہوتا رہے گا اور قانون کیا
یوں ہی رہیں گے؟‘‘

 ’’یہ
تو قانون بنانے اور انصاف کرنے والے ہی جانیں۔ میں کیا جانوں؟‘‘

اُدھر بیراگن ماتا منگل چنڈی سے کہہ رہی تھی۔
’’گوپال کے بیاہ پر ساہو کار سے قرض لینا ہو گا۔ وہ انکار تو نہیں کر دے گا۔؟‘‘

پاس سے بیراگی بابا نے بگڑ کر کہا۔ ’’انکار تو
جب کرے کہ ہم بے ایمان ہوں، چور ہوں، اٹھائی گیرے ہوں۔‘‘

منگل چنڈی نے سرد آہ بھر کر بیراگی بابا کی طرف
دیکھا اور پھر بیراگن ماتا کا بازو چھو کر بولی۔ ’’ہم تو بھلے آدمی ہیں۔ کسان،
بھگوان نہ روٹھ جائے، زمیندار اور ساہو کار کو تو منایا بھی جا سکتا ہے۔‘‘

ٹھاکر ماما خاموشی سے باتیں سن رہا تھا۔ جانے کیا
سوچ کر وہ چاند کی جانب دیکھنے لگا اور پھر بیراگی بابا کی طرف دیکھ کر بولا۔ ’’اب
تو چاندنی میں سلوٹیں پڑنے لگیں۔ بابا ہم رانگا ماٹی کے قریب پہنچ رہے ہیں۔‘‘

 ’’کل
رات بھی تم نے یہی بات کہی تھی ٹھاکر!‘‘ بابا نے دور ناریل کے درختوں کی طرف ایک
طویل نگاہ ڈال کر کہا۔ ’’یہ سب قدرت کا کھیل ہے۔ بہت دن اسی طرح بیت گئے۔ دن کو
مقام رات کو سفر۔ یہ زندگی بھی کیا زندگی ہے۔‘‘

 ’’کلکتے میں تو بھیک مانگنے پر بھی نہیں ملتی تھی
بابا۔ اب یہاں لوگ خود ہی کچھ نہ کچھ دے دیتے ہیں۔ کال کی بھٹی میں جیون سونے کی
طرح کندن بن کر نکلے گا، یہ کون جانتا تھا؟‘‘

’کندن! ہاہاہا۔ اب کیا رانگا ماٹی میں چاند اور
سورج ہمارا کہا مانیں گے؟

ٹھاکر ماما نے ہنس کر بات ٹال دی۔ بیراگی بابا
نے یہی سوچ لیا کہ ہاں اب رانگاماٹی میں چاند اور سورج ساہوکار اور زمیندار کی
بجائے لوگوں کا حکم مانیں گے۔ اُس نے خوش ہو کر اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کر دیا۔

قافلہ ایک دورا ہے پر پہنچ چکا تھا۔ کچھ لوگ
اپنے گاؤں کی طرف مڑ گئے۔ بیراگی بابا کو اب اتنی فرصت نہیں تھی کہ رُک کر ان کی
طرف دیکھتا رہے۔ ٹھاکر ماما نئی نئی باتیں سنائے جا رہا تھا۔ پُرانے زمانے میں
رانگا ماٹی کی زمین پر دو راجاؤں میں زبردست جنگ ہوئی تھی، اتنا خون گرا، اتنا خون
گرا کہ رانگا ماٹی کی زمین اب تک لال ہے۔ وہاں ہمیشہ سچائی پھلی پھولی ہے، ہمیشہ
سچائی ہی کی جیت ہوتی ہے۔ رانگا ماٹی کے ساہوکار اور زمیندار اب ہماری سچائی کے
سامنے ہار ماننے پر مجبور ہو جائیں گے۔

ٹھاکر ماما نے بیراگی بابا کو تیز تیز قدم
اٹھانے کی تلقین کرتے پھر کہا۔ ’’جیسے اچھے بھلے آم میں کیڑے پڑ جائیں بس کچھ اسی
طرح دیس میں کال پڑ گیا۔‘‘

اب رانگا ماٹی میں تو ہم ہمیشہ کے لیے کال کا
راستہ بند کر دیں گے۔‘‘ بابا نے تھکی ہوئی آواز میں نیا زور لاتے ہوئے کہا اب
رانگا ماٹی پر زمیندار اور ساہوکار کا حکم نہیں چل سکتا۔ وہ راجہ جو یہاں دوسرے
راجہ سے ہار گیا تھا۔ وہ تو بہت بڑا راجہ تھا نا۔ زمیندار اور ساہوکار کیا اُس سے
بھی بڑے ہیں، ہماری اور ان کی لڑائی شروع ہونے والی ہے۔‘‘

کسی تھکی ہوئی گھوڑی کی طرح کنوتیاں تانے بیراگن
ماتا ٹھاکر ماما اور بیراگی بابا کی باتیں سن رہی تھی۔ وہ کہنا چاہتی تھی کہ اس بک
بک کو بند کرو۔ ایسی ہی طاقت تھی تو وقت پر زور دکھایا ہوتا۔ اُس وقت تو کہیں سے
چاول کا ایک دانہ بھی نہ لا سکے۔ دبّو بن گئے۔ اب یوں ہی شیخیاں بگھار رہے ہو۔

ادھر گنیش اپنے بھائی سے بچھڑ کر آرسی اور گوری
کے ساتھ مل گیا تھا۔ گوری کہہ رہی تھی ’’گنیش پہلے تو بہت شرمیلا تھا۔‘‘

آرسی نے قہقہہ لگا کر گنیش کا مذاق اڑایا۔ ’’میں
نے تو گنیش کو کبھی شرمیلا نہیں سمجھا، گوری۔ اور اب تو کلکتے نے اُسے اور بھی ہوشیار
بنا دیا ہو گا!

گنیش کے جی میں تو آیا کہ صاف صاف کہہ دے، تمھیں
بھی تو کلکتے نے بہت کچھ سکھا دیا ہو گا۔ لیکن رانگا ماٹی کی روایتیں اُسے ان کے
اور اپنے بیچ میں دو ہاتھ کا فاصلہ رکھنے پر مجبور کر رہی تھیں۔ ہاں، اب روایتیں
از سرِ نو زندہ ہونے لگی تھیں۔

اُدھر منگل چنڈی اور پدما اب ساتھ ساتھ چل رہی
تھیں۔ اور منگل چنڈی کی کہانی نے پدما کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی
کہ سچ مچ وہ شہزادی، جسے آدم خور دیو نے قید کر رکھا تھا اور جو بہت مدت تک شہزادے
کا انتظار کرنے کے بعد خود ہی ہمت کر کے سات جزیروں اور سات سمندروں کو پار کرتی
اپنے دیس میں آ گئی تھی، آرسی اور گوری سے بہادر کیسے ہو سکتی ہے۔ لیکن ابھی تک اس
کا وقار اسے اجازت نہ دیتا تھا کہ وہ بڑھ کر اُن کے ساتھ جا ملے۔ اس نے دور سے دیکھا
کہ ان کے ساتھ ساتھ اب گنیش اور گوپال چلے جا رہے ہیں۔ اُسے خیال آیا کہ گنیش اور
گوپال ہی وہ شہزادے ہیں، جنھوں نے آرسی اور گوری کی کچھ مدد نہیں کی تھی اور اب وہ
بارِ ندامت سے کچھ بول نہیں سکتے۔ جانے کیا سوچ کر وہ منگل چنڈی سے بچھڑ گئی اور
ان کے قریب ہو کر چلنے لگی۔

گنیش گوری کی طرف تھا اور گوپال آرسی کی طرف۔
گوری اور آرسی قدم قدم پر قہقہے لگا رہی تھیں، جیسے وہ یہ جتانا چاہتی ہوں کہ اب
تو نیا زمانہ ہے۔ اب لڑکیاں لڑکوں کو چنا کریں گی۔ گنیش کے ذہن میں وہ گیت گونج
رہا تھا جو اُس نے کلکتے میں سنا تھا۔ ایک ندی کے کنارے ملنے سے مجبور۔ اور گوپال
سوچ رہا تھا کہ گوری کی ماں تو گھر جنوائی رکھنا چاہتی ہے۔ بھلا کوئی بتائے کہ میرے
بغیر بیراگی بابا اور بیراگن ماتا کیسے جئیں گے جن کا بیٹا اور بہو دونوں چل بسے
ان کا کیا رہ گیا؟ اب تو میرے ماں باپ یہی بیراگی بابا اور بیراگن ماتا ہیں۔ ہاں۔
ایک ندی کے دو کنارے ملنے سے مجبور۔ میں لاکھ سوچوں، گوری سے میرا بیاہ ہونا نا
ممکن ہے۔

قافلہ ناریل کے اونچے اونچے درختوں کے بیچ سے
گزر رہا تھا۔ جیسے کوئی فوج کسی درے کو عبور کر رہی ہو۔ درختوں سے چھن کر چاندی کی
سلوٹیں اور بھی گہری ہو گئی تھیں۔ اور ان سلوٹوں ہی کی طرح اجنبی اور مانوس آوازیں
آپس میں تحلیل ہو رہی تھیں۔ کچھ لوگ یوں زبان چلا رہے تھے جیسے آلو چھیلتے ہیں اور
کچھ یوں جیسے قینچی سے کپڑا کاٹتے ہیں۔ مریل سی آوازوں میں بھی تازگی آ گئی تھی۔

ٹھاکر ماما کہہ رہا تھا۔ ’’ہمارے بھاگ اچھے ہیں
کہ بابا ہم لوٹ کر رانگا ماٹی جا رہے ہیں۔‘‘

 ’’ہاں
ٹھاکر، رانگا ماٹی ہمیں بلا رہی ہے۔‘‘

رانگا ماٹی کا نام تو بڑے بڑے شاستروں اور
اتہاسوں میں آیا ہے، بابا۔!‘‘

 ’’ضرور
آیا ہو گا ٹھاکر۔‘‘

 ’’کہتے
ہیں یہاں بھگوان بدھ بھی آئے تھے بابا۔‘‘

 ’’کیوں
کلکتے میں تو بھگوان بدھ کبھی نہیں آئے تھے نا ٹھاکر۔‘‘

 ’’کوئی
جے دیو نے اپنے گیتوں میں رانگا ماتی کی سندرتا کا حال لکھا ہے بابا۔‘‘

 ’’واہ
ری رانگا ماٹی۔‘‘

یہ بھی لکھا ہے بابا ململ پہلے پہل ڈھاکے میں
نہیں رانگا ماٹی میں تیار ہونے لگی تھی اور دروپدی کی ساڑھی جسے دو شاشن اتارنا
چاہتا تھا، اسی رانگا ماٹی کی ململ سے تیار کی گئی تھی۔ اور لکھا ہے کہ یہاں اتنی
باریک ململ تیار کی جاتی تھی کہ کوئی بیس بیس تہیں جوڑ کر بھی پہنے تو انگ انگ نظر
آئے۔ اب وہ کاریگر جانے کہاں چلے گئے!‘‘

 ’’ہم
انھیں پھر بلا لائیں گے ٹھاکر۔‘‘

اور بابا باسمتی چاول کی جنم بھومی بھی اصل میں
رانگا ماٹی ہی ہے۔

 ’’اب
لاکھ کال پڑ جائے باسمتی کی جنم بھومی رانگا ماٹی کو چھوڑ کر یہ کہیں نہیں جائیں
گے ٹھاکر!‘‘

چاند ایک طرف لڑھک کر پھیکا پڑ گیا تھا لیکن
ابھی کافی رات باقی تھی۔ اور بیراگی نے سوچا کہ آج سورج رانگا ماٹی کی دھرتی پر ہی
نکلے گا۔ وہ کتنی شبھ گھڑی ہو گی۔ جب وہ وہاں کھڑے ہو کر کھیتوں کو پرنام کریں گے۔
اس وقت انھیں یاد بھی نہ رہے گا کہ وہ کلکتے میں بھیک مانگتے تھے اور دھتکارے جاتے
تھے۔

کسی نے چلا کر کہا۔ وہ رہا رانگا ماٹی کو جانے
والا راستہ‘‘

ٹھاکر بابا چلایا۔ اب ہم جلد پہنچ جائیں گے۔‘‘

بیراگی بابا کہہ رہا تھا۔ ’’قافلہ تو اور آگے
جائے گا۔ ہم قافلے سے چھٹی لے لیں گے۔‘‘

اور دو را ہے پر پہنچ کر بیراگی بابا بہت دیر
تک قافلے کی جانب دیکھتا رہا، جیسے کہہ رہا ہو۔ تمھارے گاؤں بھی اب دور نہیں،
قافلے والو۔ جلدی جلدی قدم اٹھاؤ۔ ٹھاکر ماما نے اس کا کندھا جھنجوڑا۔ ’’چلو بابا
ورنہ ہم سب سے پیچھے گاؤں پہنچیں گے۔‘‘

ہر کوئی بھاگنے لگا تھا اور یہی چاہتا تھا کہ ایک
ہی جست میں گھر کے سامنے جا پہنچے، اور سورج ابھی نکلا بھی نہ تھا کہ وہ رانگا ماٹی
جا پہنچے۔ کھیتوں کو پرنام کرتے ہوئے وہ گاؤں کی طرف چلے جا رہے تھے۔ جھونپڑیوں کی
حالت زار انھیں پھر سے تڑپانے لگی۔ ہر کوئی اپنی خستہ حال جھونپڑی کے اندر جھانکتے
ہوئے جھجکتا تھا اور جن جھونپڑیوں کے مالک کلکتے ہی میں رہ گئے تھے، ان کے بھوت شاید
اِن زندہ بچ کر آنے والوں سے پہلے ہی آ گئے تھے۔

پھر اُن کی نگاہیں ساہوکار کے گھر کی طرف اٹھ
گئیں۔ لیکن سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ پہلے زمیندار کے دوار پر جانا چاہیے۔ اور وہ
پورب کی طرف چل پڑے جدھر اُفق پر سورج ایک سنہری روٹی کی طرح نمودار ہو رہا تھا۔
انھیں وہ دن یاد آ گیا جب وہ رانگا ماٹی کو آخری سلام کر کے کلکتے کی طرف چل پڑے
تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ مرتے جائیں گے لیکن اس دھرتی کا منھ نہیں دیکھیں گے۔ مگر
جنم بھومی کی یاد انھیں پھر کھینچ لائی۔ وہ حیران تھے کہ انھوں نے اپنا فیصلہ کیسے
رد کر دیا۔ ساہوکار کا قانون اب بھی سود کا قانون ہو گا اور زمیندار لگان کے بغیر
بات نہیں کرے گا لیکن جئیں یا مریں، کلکتے سے تو رانگا ماٹی ہی بہتر ہے۔ اپنی جنم
بھومی تو ہے۔

اور زمیندار کے دوار پر پہنچ کر انھوں نے دیکھا
کہ ساہوکار بھی وہاں موجود ہے۔ سب نے ایک زبان سے کہا۔ نمسکار مہاراج! اور چند
لمحوں کے لیے ساہوکار ٹھٹھک کر رہ گیا۔ گویا اسے یقین نہیں آتا تھا کہ یہ آوازیں
زندہ انسانوں کی ہیں اور جب اُسے ہوش آیا تو اُس نے منھ پھُلا کر کہا۔ ’’بیراگی
بابا تم۔ اور ٹھاکر ماما، منگل چنڈی؟ کہاں رہے اتنے دن؟‘‘

بیراگی بابا نے آگے بڑھ کر کہا۔ ’’جہاں اَن جل
پھر اتا ہے وہاں پھرتے رہے مہاراج! بھاگ میں آپ کے درشن لکھے تھے سو بچ کر آ
گئے۔‘‘

 ’’باقی
کہاں ہیں؟‘‘ ساہوکار نے حیرت سے پوچھا۔

 ’’بہت
تومر گئے۔ کچھ وہیں رہ گئے۔‘‘

 ’’کوئی
بات نہیں۔ تم آ گئے تو وہ بھی آ جائیں گے۔‘‘

 ’’ہاں
مہاراج‘‘۔ بیراگی بابا نے عاجزی سے کہا۔

 ’’زمیندار
بابو تو تمھیں بہت مدت سے یاد کر رہے تھے۔‘‘

 ’’انہی
کا آسرا ہے ہمیں بھی مہاراج۔‘‘

اس اثنا میں زمیندار باہر نکل آیا اور سب نے
’’دھرتی راجہ بابو‘‘ کی جے کا نعرہ لگایا۔

آرسی گوپال کی طرف کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے سوچ
رہی تھی کہ ساہوکار مالدار آدمی ہے اور بیاہ کے لیے زیادہ قرض کی ضرورت بھی تو نہیں۔

گوری نے پدما کی طرف ایک طنز آمیز نگاہ پھینکی،
جیسے کہہ رہی ہو کہ میں ستونتی نہیں تو نہ سہی لیکن گنیش اب تمھارا ہونے سے تو
رہا۔

ساہوکار بولا۔

 ’’رانگا ماٹی میں کمی نہیں۔ تم لوگ ہل چلاؤ، فصلیں
اگاؤ۔ روپیہ ہم لگائیں گے۔‘‘

بیراگی بابا، ٹھاکر ماما اور گوپال کے مردہ
چہروں پر رونق سی آ گئی۔ ’’ہمیں آپ ہی کا آسرا ہے مہاراج‘‘ وہ یک زبان ہو کر کہہ
اٹھے۔

اُس وقت موقع دیکھ کر زمیندار نے ہاتھ کے اشارے
سے سب کو چپ کرایا اور ٹوٹی پھوٹی غربت کی ماری جھونپڑیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے
کہا۔ ’’دیکھو وہ لوگ بھی تو کام کر رہے ہیں۔ پگلو! میں نے تو جب بھی تم سے کہا تھا
کہ رانگا ماٹی چھوڑ کر مت جاؤ۔‘‘

٭٭٭

پریوں کی باتیں

میں اپنے دوست کے پاس بیٹھا تھا۔ اس وقت میرے
دماغ میں سقراط کا ایک خیال چکّر لگا رہا تھا- قدرت نے ہمیں دو کان دیے ہیں اور دو
آنکھیں مگر زبان صرف ایک تاکہ ہم بہت زیادہ سنیں اور دیکھیں اور بولیں کم، بہت کم!

میں نے کہا ’’آج کوئی افسانہ سناؤ، دوست!‘‘

وہ بولا۔ تو آؤ، آج میں تمھیں ایک عظیم الشان
افسانہ سناؤں:

دو بھیڑیں ایک جوہڑ کے کنارے پانی پی رہی تھیں۔

پانی پیتے ہوئے چھوٹی بھیڑ نے کہا:

میں اکثر سنتی ہوں اس گاؤں کے لوگ سندر، من
موہنی پریوں کی باتیں کیا کرتے ہیں!

بڑی بھیڑ پانی پیتی ہوئی ایک لمحہ کے لیے رک گئی
اور آہستہ سے بولی:

 ’’چپ
چپ بہن! یہ لوگ در اصل ہماری ہی باتیں کرتے ہیں۔۔۔‘‘

٭٭٭

پیرس کا آدمی

 ’’ وہ
مردہ سمندر کو ریگستان میں دفن کر کے چلے گئے۔۔۔ وہ پیرس میں پیدا ہوا اور اب دنیا
کا سفر کر رہا ہے۔۔۔‘‘

یہ عبارت آندرے مائیکل کی قبر پر لکھی ہوئی ہے۔

وہ کہتا ہے ’’یہ میں نہیں ہوں، آندرے ہے۔‘‘

 ’’آندرے کون؟‘‘ میں پوچھتا ہوں۔

وہ دیوار کی طرف اشارہ کرتا ہے، جہاں بینک کے
پاس چائے والے کی دوکان ہے اور دھوئیں نے ایک تصویر بنا دی ہے۔

 ’’یہ
آندرے کی تصویر ہے۔‘‘ کزان کہتا ہے۔

یہ تصویر ہمارا راستہ نہیں روکتی اور ہم آگے
بڑھ جاتے ہیں۔‘‘

 ’’اس
روز آندرے نہیں مرا تھا، میں مرا تھا۔‘‘ وہ کہتا ہے۔

 ’’آندرے کون؟‘‘ میں پھر پوچھتا ہوں اور وہ ہنس
کر بات ٹال دیتا ہے۔

ریگستان یہاں سے ڈھائی سو میل ہو گا اور سمندر
ہزار میل سے کم نہیں۔ آندھی چلتی ہے تو ریگستان شہر میں پہنچ جاتا ہے اور گھروں میں
صفائی کرتی ہوئی عورتوں کی زبان پر جانے کیسی کیسی گالیاں آ جاتی ہیں، اور جب بارش
ہوتی ہے سب کی نگاہوں میں سمندر گھوم جاتا ہے، لیکن عورتوں کی زبان پھر وہی گالیاں۔

سینماگھروں سے نکلتی ہوئی بھیڑ کبھی آندھی کا
سامنا کرتی ہے کبھی بارش کا۔ عجیب جوڑ توڑ کی بھیڑ ہوتی ہے۔ جیسے سب اُٹھائی گیرے
ہوں۔

آندھی آتی ہے تو وہ آسمان کی طرف اشارہ کرتے
ہوئے کہتا ہے۔ ’’وہ دیکھو اونٹ پر سوار بوڑھا مسافر آ گیا۔‘‘

میں کہتا ہوں ’’کزان، تم- تم ہی ہو یا پھر پیرس،
جہاں فیشن بھی آئیفل ٹاور جتنا بلند اور انقلاب کا جھنڈا بھی لیکن آندرے کون؟‘‘

میں کامائنی کی کہانی سناتا ہوں اور کزان صوفیہ
کا قصّہ لے بیٹھتا ہے۔

 ’’کون
صوفیہ؟‘‘ یہ سوال میرے ہونٹوں پر نہیں آتا۔ کس طرح میں سمجھ جاتا ہوں کہ وہ جو اس
روز مر گیا صوفیہ کا محبوب تھا۔ ہم سب جیب کترے ہیں یا گھس پیٹھیے۔ کسی کے پاس اپنی
بات نہیں۔ یہ سنتے سنتے کان پک گئے کہ تصویر ہزار لفظوں کے برابر ہوتی ہے۔

جو پیرس دیکھ آیا ہے اور وہ بھی تین دن، وہ ایسے
بات کرتا ہے جیسے پیرس میں ہی عمر گذاری ہو اور کزان جو پیرس کا آدمی ہے، پیرس کی
تصویر چھپائے رہتا ہے۔

وہ بالزاک کی تعریف کرتا ہے، جو آٹھ گھنٹے بارہ
گھنٹے، بیس گھنٹے نان سٹاپ کاغذ پر قلم چلانے کے لیے مشہور تھا۔ بیچ میں قلم کو
آرام دیتا تو کالی کافی پینے کے لیے اور کافی وہ اپنے ہاتھ سے تیار کرتا تھا۔ کہتے
ہیں وہ قلم کو بھی کافی پلاتا تھا۔

بالزاک کی کھڑکی کہاں سے کھل گئی؟ یہ سوچ کر
مجھے غصّہ آتا ہے۔

 ’’ہوا یہ
کہ اس روز آندرے کے ہاتھ میں بالزاک کی ایک کتاب تھی۔ وہ کہتے کہتے رک جاتا ہے۔
اور جھنجھلا کر پوچھتا ہوں۔ ’’کزان تم آندرے کی بات کر رہے ہو یا بالزاک کی کتاب کی؟‘‘

 ’’ایسے
ہوتے ہیں فرینچ لوگ۔ یہ ہے صوفیہ کا تکیہ کلام۔ آندرے نے بالزاک کی جو کتاب اُٹھا
رکھی تھی، اس میں سے سرک کر ہی یہ جملہ مجھ تک پہنچا تھا۔ آندرے نے اس کے نیچے لال
یا نیلی پنسل سے نہیں، ہری پنسل سے نشان لگا رکھا تھا‘‘ وہ مسکراتا ہے اور میں یہ
نہیں پوچھتا کہ آندرے نے ہری پنسل سے نشان لگانا ہی کیوں ضروری سمجھا۔

 ’’یہ
ان دنوں کی بات ہے، جب آندرے جیل میں تھا۔ وہ کہتا ہے اور میں جانتا ہوں کہ آندرے
جیل میں کیوں تھا۔‘‘

آندرے کی کہانی کو میں اپنے اوپر حاوی نہیں
ہونے دینا چاہتا۔ میرے لیے تو کزان ہی کافی ہے۔

ایک کپ کافی پر ہی پورا دن گزر جائے یا کبھی وہ
بھی نہ ملے۔ میں حیران ہو کر سوچتا ہوں، کزان کیسی تپسیّا کر رہا ہے۔ سات دن سے
نہایا بھی نہیں۔

کبھی یونانی پنیر کی تعریف کرتا ہے، کبھی یونانی
گھوڑے کی، کبھی مردہ سمندر کی مچھلیوں کی اور کبھی فارسی شعر سناتا ہے۔ ع

زبانِ یارِ من ترکی و من تُرکی نمی دانم

میں یوں منھ بنا لیتا ہوں۔ جیسے میرا اس شعر سے
کوئی واسطہ نہ ہو۔ وہ آنکھیں نچا کر اور ہاتھ لہرا کر اس شعر کا مطلب سمجھاتا ہے
کہ میرے یار کی زبان ترکی ہے اور میں ترکی نہیں جانتا۔

 ’’اُس
دن برف گر رہی تھی، وہ کہتا ہے اور میں سمجھ جاتا ہوں کہ یہ اُس دن کی بات ہے۔ جب
آندرے مرا تھا۔‘‘

 ’’کیا
وہ اخبار میں کام کرتا تھا؟‘‘ میں پوچھتا ہوں۔

 ’’تم
نے کیسے مان لیا؟‘‘ وہ مسکراتا ہے اور صوفیہ کا قصّہ شروع کر دیتا ہے۔

میں سمجھ جاتا ہوں کہ کزان کو صوفیہ کے ساتھ ایڈجسٹ
کرتے زیادہ دیر نہیں لگی۔ جیسے وہ بالزاک کی کوئی کتاب ہو، جسے پہلے وہ پڑھ رہا
تھا جو برف کے موسم میں وہ مر گیا اور بعد میں وہ کتاب کزان کے ہاتھ میں آ گئی۔

ہم بار بار قسمیں کھاتے ہیں کہ اب کے ہم ووٹ
بکنے نہیں دیں گے اور بڈھوں کی حکومت کو ختم کر کے ہی دم لیں گے لیکن جب ووٹ کا
موسم آتا ہے تو ہمارے ووٹ پھر بِک جاتے ہیں۔

جب سے وہ یہاں آیا ہے نہ سگریٹ کو ہاتھ لگاتا
ہے نہ بیڑی کو۔ ہر وقت چلم لیے رہتا ہے۔ چلم میں تمباکو بھرتے ہوئے چرسی کا نام لیتا
ہے۔

شاید اس نے تمباکو کے ساتھ آج پھر کچھ ڈال رکھا
ہے۔

بات اَمرتا، شیرگل کی کسی تصویر کی تو نہیں ہو
رہی ہے، نہ بڑے غلام علی خاں کے سنگیت کی میں نے اپنی ایک ٹریجڈی دے کر ایک کہانی
لکھی ایک میگزین میں، وہ میگزین گم ہو گیا اور جب وہ ملا تو اسے آدھے سے زیادہ دیمک
چاٹ چکی تھی۔

بھئی آنکھیں مت جھپکاؤ۔ کیا چرس کا نشہ شروع ہو
گیا۔

ستمبر کے بعد اکتوبر آتا ہے۔ ہر سال یہی چکّر
چلتا ہے۔ وہی گالی گفتار، وہی لِزلزی داستان۔ کہنے کو یہی کہا جاتا ہے شہر روم،
روم میں تناؤ محسوس کر رہا ہے۔

 ’’شیطان
کی آنکھ ریگستان!‘‘ میں کہتا ہوں۔

وہ کہتا ہے ’’آندرے کسی جنازے کے ساتھ جانا
پسند نہیں کرتا تھا لیکن جب بالزاک کی کسی کتاب میں کسی کی موت ہوتے دیکھتا تو
ہفتوں اُداس رہتا۔‘‘

 ’’یہ
بات تو میرے بارے میں بھی سچ ہے، کزان‘‘ میں کہتا ہوں۔

میرے ہاتھ میں چلم تھما کر وہ مجھے یقین دلاتا
ہے کہ چار کش لگانے سے پیرس کی آرٹ گیلری میں بالزاک کا بُت نظر آ سکتا ہے۔

پیرس سے بور ہو کر وہ بنارس پہنچا اور وہاں سے
اُکتا کر یہاں چلا آیا۔

میں سمجھ جاتا ہوں کہ بنارس میں چرسی بابا نے
اسے چرس کی لَت لگا دی اور وہ چلم اُٹھا کے یہاں بھاگ آیا۔

داستان کو پھلانگ کر تصویر کے سامنے آ کر کھڑے
ہو جاتے ہیں اور تصویر سے پیچھا چھوڑا کر پھر داستان میں چلے آتے ہیں۔

اس نے صوفیہ کو خط لکھا کہ پچاس ہزار جھگیاں
سرکار نے جلا دیں جیسے جنگل کا قانون لاگو کیا جا رہا ہو۔

میں نے اسے سمجھایا کہ اس طرح کی باتیں صوفیہ
کو لکھنے سے کیا حاصل۔ لیکن وہ یہ خط لکھ کر ہی مانا۔ میں نے سوچا صوفیہ کو یہ خط
ملے گا تو وہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہوا میں اُچھال دے گی۔ آتش دان میں پھینک دے گی۔
لیکن صوفیہ کا خط آیا تو کزان نے بتایا کہ صوفیہ نے جھگی والوں کے لیے گہری ہمدردی
کا اظہار کیا ہے۔

یہ بات ایسی نہیں کہ خود ہی چراغ جلایا اور خود
ہی بُجھا دیا۔ گالی گفتار میں ہم شیطان کی عبادت کرتے ہیں۔ خود ہی کیمرہ مین، خود
ہی ڈائریکٹر، خود ہی پروڈیوسر، کبھی لونگ شاٹ، کبھی مڈ شاٹ، کبھی کلوز اپ، کبھی ہم
گھوڑے کی نقل اُتارتے ہیں، کبھی ہاتھی کی اور کبھی خرگوش کی۔ نقل ہی نقل۔ اصل کا
تو محض نام ہے۔

 ’’وہ
جو برف کے موسم میں مرگیا۔ سمجھوتہ کرنے کو غدّاری سمجھتا تھا۔‘‘ کزان میرے ساتھ
قدم اُٹھاتے ہوئے کہتا ہے۔

جامع مسجد کا وہ کباڑی بازار دیکھنے کے لیے وہ
ہفتہ بھر انتظار کرتا ہے اور پٹری پر بچھی ہوئی کتابوں میں بالزاک کی کوئی کتاب
نظر آ جاتی ہے تو خوشی سے چلّاتا ہے۔ بالزاک بالزاک بالزاک۔

کباڑی بازار کی بھیڑ میں مجھے ہمیشہ بطخوں کی قیں
قیں سنائی دیتی ہے۔ چیز بکتی کم ہے۔ بھاؤ تاؤ زیادہ ہوتا ہے، لگتا ہے ہر لمحہ آوازیں
لمبی ہوتی جا رہی ہیں اور چہرے گڈمڈ ہوئے بنا نہیں رہتے۔

 ’’آندرے نے اپنے آخری خط میں صوفیہ کو لکھا تھا
کہ یہ بات میں نے بالزاک سے سیکھی کہ انسان وہی ہے جو اپنے آدرش کے ساتھ بے وفائی
نہیں کرتا۔ کزان مسکراتا ہے اور ہمارے سامنے پیڑ آ جاتا ہے جس پر بجلی گر چکی ہے۔
تھوڑی خاموشی کے بعد وہ پھر کہتا ہے ’’آندرے کی موت کے بعد میں صوفیہ کو اس بات پر
راضی کرنے میں کامیاب رہا کہ وہ مجھے اپنے محبوب کا دوست سمجھ کر میرے ساتھ ایڈجسٹ
کر لے۔ وہ مان گئی لیکن میں بے وفا نکلا کہ اُسے چھوڑ کر چلا آیا اور سچ تو یہ ہے
کہ ’’- وہ کہتے کہتے رُک جاتا ہے۔‘‘

وہ بالزاک کی لاش کے پاس کھڑے ہو کر وکٹر ہیوگو
نے پہلی بار بالزاک کے لیے عظیم لفظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا۔ ’’آج ایک عظیم ادیب
مر گیا۔‘‘ اور پھر گویا اپنی ہی بتائی ہوئی بات پر جھنجھلا کر کزان کہتا ہے۔ ’’اِٹ
اِز آل ایبسرڈ۔‘‘

وہ کالی کافی پیتا ہے اور بالزاک کی بات شروع
کر دیتا ہے، جسے نہ تمباکو سے الفت تھی نہ شراب سے۔ وہ تو بغیر دودھ کی کالی کافی
کا رسیا تھا ’’کالی کافی دیوتاؤں کا وَردان ہے‘‘ یہ تھا بالزاک کا تکیہ کلام۔
ناشتے کی پلیٹ لے کر نوکر اس کے کمرے میں اسی وقت داخل ہوتا جب گھنٹی بجتی ٹھیک
صبح کے آٹھ بجے اسے ہدایت تھی کہ وہ ناشتے کی پلیٹ میز پر رکھ کر چاندی کے شمع دان
سے ساتوں موم بتیاں بجھائے، پھر تینوں کھڑکیاں کھولے۔ تب بالزاک کاغذ سے سر اُٹھا
کر نوکر سے کہتا ہے۔ ’’ہیلو۔۔۔ نوکر کو ہدایت تھی کہ وہ آداب بجا لانے کی زحمت نہ
اُٹھائے۔

جب کزان غصّے میں ہوتا ہے تو بالزاک کو بھی
فراڈ کہہ ڈالتا ہے اور جب خوش ہوتا ہے تو چلم کے چار کش لے کر کہتا ہے ’’پیرس کا
سر ڈھول کی طرح بجتا ہے۔‘‘

میں کہتا ہوں ’’کزان کچھ نہ ہونے کا احساس گلے
میں کانٹے کی طرح چُبھتا ہے۔‘‘

 ’’اٹ
از آل ایبسرڈ!‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنستا ہے۔

ہم ہر بات کو اول جلول سمجھ بیٹھتے ہیں۔ یہ آج
کل فیشن ہے۔ لیکن بڑے غلام علی تو سنگیت کو اول جلول نہیں سمجھتے تھے۔ یہ اَمِرتا
شیر گل کینوس پر برش چلاتے ہوئے تصویر کو اول جلول سمجھتی تھی۔

نومبر کے بعد دسمبر آتا ہے۔ راستہ وہی مسافر وہی۔

 ’’آندرے اور صوفیہ کی بات چھوڑو‘‘ وہ میرے کندھے
پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے ’’بالزاک کی ہی بات تھی کسی لڑکی کو بانہوں میں بھر کر
کہتا ہے ڈارلنگ! میں تیزی سے لکھتا ہوں کہ جملے ادھورے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا ہوں۔
اکثر یہ کمپوزیٹر اپنی طرف سے میرے ادھورے جملوں کو پورا کر ڈالتا ہے۔ اس لیے یہ میرا
بیٹا بھی ہے، دوست بھی اور گورو بھی۔۔۔ اور وہ لڑکی کمپوزیٹر کے ہونٹ چوم لیتی۔۔۔‘‘

جیب سے آئینہ نکال کر وہ اپنا چہرہ دیکھتا ہے،
کندھوں پر لٹکتے ہوئے بال اور لمبوتری داڑھی، جس کا وجود محض ٹھوڑی پر ہے۔

میں کہتا ہوں ’’آندرے مر گیا۔ صوفیہ کہاں ہے؟‘‘

وہ چلتے چلتے کہتا ہے۔

 ’’صوفیہ
پیرس کے ٹیلی ویژن میں کام کرتی ہے۔ اس کے کندھوں پر سنہرے بال لہراتے ہیں۔ چہرے
پر دو نیلی جھیلیں ہیں جن میں مچھلیاں تیرتی ہیں۔ کوئی ان مچھلیوں کی تصویر نہیں
بنا سکتا۔‘‘

کچھ پتہ نہیں چلتا کہ دن بھر میں ہم کتنا راستہ
طے کر لیتے ہیں، پیرس، پیرس پیرس، اس کی زبان پر پیرس کا نام رہتا ہے۔

 ’’قصہ یوں
ہوا کہ اس دن آندرے بالزاک کی ایک کتاب پڑھ رہا تھا‘‘ وہ کہتا ہے۔

میرے سامنے بالزاک کی وہ کتاب کھل جاتی ہے جس میں
بوڑھا باپ اپنی دونوں بیٹیوں کو دیکھنے کے لیے ترس جاتا ہے جو اپنے اپنے شہروں کے
پاس رہتی ہیں۔

وہ کہتا ہے بالزاک کی طرح آندرے کو بھی کسی نے
زندگی میں عظیم نہیں کہا تھا۔ اور جب وہ مرا تو اس کی لاش کے پاس کھڑے ہو کر ایک
اداکار نے کہا۔ ’’آج ایک عظیم کرانتی کاری مرگیا۔‘‘

سینکڑوں آوازیں آپس میں گڈمڈ ہونے لگتی ہیں۔
کتاب کے ہر صفحہ پر عورت چاہیے اور ہر تصویر میں عورت کی گومائیاں۔ چھاپنے والا بھی
یہی چاہتا ہے اور پڑھنے والا بھی۔

ہر آدمی بِک رہا ہے۔ کوئی اونچے داموں، کوئی نیچے
داموں۔

دولت کی طلب، عزت کی طلب، طاقت کی طلب، شہرت کی
طلب، ہر طلب سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرتی ہے اور جو سمجھوتہ کرتا ہے وہ سینے پر گولی
نہیں کھانا چاہتا۔

وہ کہتا ہے۔ ’’جو پیرس میں مر گیا اس روز اس نے
سینے پر گولی کھائی تھی۔ صوفیہ نے اسے تحریک میں حصّہ لینے سے روکا لیکن آندرے کب
روکنے والا تھا۔‘‘

میں کہتا ہوں۔ ’’کزان کوئی سینے پر گولی نہیں
کھانا چاہتا لیکن زمین خون مانگتی ہے۔ اس روز جب پچاس ہزار جھگیاں جلائی جا رہی تھیں
اور جھگی والوں کو ٹرکوں میں لاد لاد کر راجدھانی سے بیس میل کے فاصلے پر کھلی زمین
میں چھوڑنے کے لیے جایا جا رہا تھا۔ اگر ہزار آدمی بھی سامنا کرنے پر تُل جاتے تو
گولی چل جاتی لیکن لوگوں نے یہ اتیاچار برداشت کر لیا۔ اسے کیا کہو گے؟‘‘

وہ چلم کا کش لے کر ایک میگزین کے اوراق پلٹتا
ہے اور میری نظریں گیلری کی تصویروں پر جم جاتی ہیں۔

بہت سے بُت کھڑے ہیں ان میں بالزاک کا بُت بھی
ہے جس نے پیرس کو لالچ، سازش اور نفرت کا جنگل کہا تھا۔

کیا بُت تراش نے پیرس کی تنقید کرنے والے سے
انتقام لیا ہے؟ یہ انتقام نہ لیا ہوتا تو اس کا پیٹ اتنا بڑھا ہوا کیوں دِکھاتا؟
لگتا ہے پیرس کی تنقید کرنے والا پیرس کو دیکھتے ہوئے اسی طرح کھڑا رہے گا۔ بڑی بڑی
مونچھیں اور چہرے پر بڑھاپے کے آثار۔ آنکھوں میں پاگل پن کو چھوتی ہوئی تیز نظر۔ جیسے
وہ بلیڈ سے کاغذ کاٹنے کی طرح ہر چیز کو کاٹ کر رکھ سکتا ہو۔

بالزاک نے کتنا کچھ لکھا۔ دن کو سوتا تھا۔ رات
کو لکھتا تھا۔ پریس والے اس سے تنگ تھے۔ کیونکہ وہ سولہویں دفعہ پڑھے ہوئے پروفوں
میں بھی اتنی تبدیلیاں کر ڈالتا تھا کہ اکثر پورے میٹر کو پھر سے کمپوز کرنا پڑ
جاتا، اور پریس کو کئی گنا دام دینے پڑتے۔

 ’’اِٹ
اِز آل ایبسرڈ‘‘ وہ ہنستا ہے۔

قلعے کے سامنے والے میدان میں بچوں کو بطخوں کے
پیچھے دوڑتے دیکھ کر وہ کہتا ہے۔ ’’ان بچوں کو کھانے کے لیے پنیر ملنا چاہیے۔ لیکن
ان سے پوچھو۔ کیا بڑے ہو کر تم بھی بوڑھوں کو ہی ووٹ ڈالتے رہو گے۔‘‘

کبھی آندھی سے ٹوٹ کر گرا ہوا پیڑ سڑک کے کنارے
اپنی کہانی سناتا ہے، کبھی رشوت کے الزام میں کرسی سے اُٹھائے ہوئے آدمی کی تصویر
سامنے آ جاتی ہے۔

 ’’چہرہ
فرشتے کا، عادتیں بھک منگوں کی۔ ایسی ہی ہماری سرکار، یہ الفاظ کئی بار میری زبان
پر آتے ہیں اور ہم کندھے سے کندھا بھڑائے کھڑے رہتے ہیں۔

وہ کاغذ پر اُلٹی سیدھی لکیریں کھینچ کر نیچے
لکھ دیتا ہے، یُدھ کا خوف۔

 ’’آندرے یُدھ کے خلاف تھا اور صوفیہ کی نیلی جھیلوں
میں اکثر وہ کہتے کہتے رک جاتا ہے اور چلتے چلتے میرا کندھا تھپتھپاتا ہے۔

ہر چورا ہے پر پولس کے سپاہی کی طرح یدھ کا خوف
کھڑا رہتا ہے۔ خود ہی کیمرہ مین، خود ہی ڈائریکٹر، خود ہی پروڈیوسر۔ ایسے میں یہ
بات ذرا بھی دلچسپ نہیں لگتی۔ بالزاک سولہویں دفعہ پڑھے ہوئے پروفوں میں بھی تبدیلیاں
کر ڈالتا تھا یا یہ کہ چرسی بابا نے تین شادیاں کیں اور پھر دنیا سے منھ موڑ کر
اشومیدھ گھاٹ کی پہلی سیڑھی اپنا لی اور چرس کے نشے میں اس کی آنکھیں جوان لڑکیوں
کی طرف اُٹھ جاتی تھیں۔

 ’’صوفیہ
کی بیٹی گریٹا کا چہرہ آندرے کی طرح لمبوترا ہے وہ کہتا ہے اور میں ہوں ہاں نہیں
کرتا۔ وہ آتا ہے تو پاس سے آتی ہوئی بطخوں کی قیں قیں اس کی ہنسی میں ڈوب جاتی ہے۔

وہ میرے کندھے پر اپنا سر ٹکا دیتا ہے اور میں
ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ بالزاک کے بارے میں پھر وہی بور کرنے والا قصہ نہ شروع کر دے
کہ وہ بیسویں بار پڑھے ہوئے پروفوں کو بھی چاقو یا قینچی سے کاٹ کر آگے پیچھے
چپکانے لگتا تھا۔

 ’’ایسے
ہوتے ہیں فرینچ لوگ۔‘‘ میں کہتا ہوں۔ ’’کمال کا چہرہ، نیلی آنکھیں، لمبی ناک،
کندھوں پہ لہراتے بال، ارے اگر تم یہ ٹھوڑی کا جنگل صاف کر ڈالو بلیڈ سے تو پتہ ہی
نہ چل سکے کہ تم لڑکا ہو یا لڑکی۔‘‘

وہ تیوری چڑھا کر غصہ ظاہر کرتا ہے۔

میں کہتا ہوں۔ ’’الّو کی دُم فاختہ‘‘ سڑک سے بھیڑوں
کی لمبی قطار گزرتی ہے تو پانچ منٹ کے لیے راستہ رُک جاتا ہے۔ وہ ہنس کر کہتا ہے۔
’’اب ہماری مصیبت یہی ہے کہ ہم کسی گڈریے کی بھیڑ میں نہیں بن سکتے۔‘‘

 ’’ایسے
ہوتے ہیں فرینچ لوگ۔‘‘ میں اس کے کندھے پر ہاتھ مار کر کہتا ہوں۔ ’’کزان میرا جی کیسے
لگے گا جب تم مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ گے، جیسے تم چرسی بابا کو چھوڑ آئے۔‘‘

 ’’اِٹ
اِز آل ایبسرڈ!‘‘ وہ مسکراتا ہے، جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ لگاؤ سب سے بڑی بے وقوفی
ہے۔‘‘

کسی کی کسی میں دل چسپی نہیں، ہر آدمی آپادھاپی
کا شکار ہے۔ نہ پیار کا کوئی ارتھ ہے، نہ ہمدردی کا، نہ کوئی کسی کا ہم سفرہے، نہ
ہم صنم، چار یاری چنڈال چوکڑی ہے۔

وہ کہتا ہے۔ ’’فرانس میں بلبل نہیں ہوتی۔ لیکن
آندرے صوفیہ کو بلبل کہا کرتا تھا۔ حالانکہ صوفیہ کو بلبل کہنا غلط ہے۔ کیونکہ وہ
گاتی کم ہے اور قسمیں زیادہ کھاتی ہے۔ جب آندرے زندہ تھا تو اس کی دیکھا دیکھی صوفیہ
کی بیٹی گریٹا کہہ اٹھتی تھی ممّی، ڈیڈی ٹھیک کہتے ہیں تم اتنی قسمیں نہ کھایا کرو
اور کبھی مجھ سے کہتی انکل کزان ممّی کو قسمیں کھانے سے روکو۔‘‘

اپنی بات اپنے ہی ڈھنگ سے کہی جانی چاہیے۔ اس
پر ہم دونوں کی ایک رائے ہے۔

چپکے سے بالزاک کا نام آ جاتا ہے۔ اس نے یہی
لکھا ہے۔ ’’ایسے ہوتے ہیں فرینچ لوگ جو اپنی بات اپنی ہی زبان میں یہی نہیں اپنے
ڈھنگ سے کہنے کے لیے نسل در نسل لڑ سکتے ہیں۔‘‘

بالزاک نے یہ بات کس کتاب میں لکھی ہے۔ وہ کچھ
اتہ پتہ نہیں بتاتا۔ میں بھی زیادہ پوچھ تاچھ نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ چلتے چلتے میں
بیس سال آگے بڑھ کر من ہی میں کہتا ہوں۔ ’’اب میں زندگی کو نہ تو واقعات کا سلسلہ
مانتا ہوں اور نہ چہروں کا البم۔ اب نہ لفظوں کے چہرے چونکاتے ہیں، نہ ان کی آواز،
نہ ان کے معنی سب اول جلول ہے۔ کوئی سلسلہ نہیں سب ایبسرڈ ہے۔ نہ پیرس اور یونانی
پنیر میں کوئی رشتہ ہے، نہ کزان اور چرسی بابا میں، نہ صوفیہ اور آندرے میں، نہ
بڑے غلام علی خاں کے سنگیت اور امرتا شیرگل کی تصویروں میں۔ اب پیرس سے آیا ہوا
آدمی مجھے اپنے ساتھ جامع مسجد کے کباڑی بازار کے چکر نہیں لگوا سکتا۔

سڑک کی بجلی آف ہو جاتی ہے تو بلیک آوٹ کا نقشہ
سامنے آ جاتا ہے۔ جیسے واقعی ہر چورا ہے پر یُدھ کا خوف کھڑا ہوا اور پھر سڑک کی
بتیاں جل اُٹھتی ہیں۔

 ’’جب
آندرے زندہ تھا ایک رات پیرس کی بجلی تین گھنٹے تک آف رہی۔ صوفیہ اور گریٹا ہمارے
ساتھ تھیں‘‘ اور وہ کہتے تھے رک رک کر کہتا ہے ’’پیرس کی قسم۔ صوفیہ کو ہر چوک میں
یدھ کا خوف کھڑا نظر آتا ہے۔‘‘

یہ ان دنوں کا قصّہ ہے جب صوفیہ کی بیٹی گریٹا
اپنی سہیلی للی کے ٹیلی ویژن پر اپنی ممّی کو ہر روز خبریں پڑھ کر سناتے دیکھا کرتی
تھی۔ ان کا ٹیلی ویژن خراب ہو گیا تھا۔ ایک روز للی سے گریٹا کا جھگڑا ہو گیا تو
گریٹا نے صوفیہ سے کہا۔ ’’ ممّی! تم سب کے ٹیلی ویژن پر خبریں پڑھ کر سنانا لیکن
للی کے ٹیلی ویژن پر کبھی نہیں۔‘‘

ہر لطیفے کی اپنی آنکھ ہوتی ہے۔ جیسے آندھی
طوفان کی۔ میری نظریں بالزاک کے بُت پر جم جاتی ہیں۔ وہ ہلکے سبز رنگ کے کاغذ پر لکھنے
کا شوقین تھا۔ رات کو جب لکھنے بیٹھتا تو سفید رنگ کا ڈھیلا ڈھالا چغہ پہن کر کمر
میں سونے کی زنجیر کس لیتا ہے۔ جس سے صلیب کی بجائے قینچی اور چاقو لٹکتے رہتے ہیں۔

 ’’اِٹ
اِز آل ایبسرڈ!‘‘ وہ مسکراتا ہے۔

وہ بنارس میں ڈیڑھ سال گزار آیا ہے اور گنگا کی
تعریف کرتا ہے۔

لیکن یہ بات اسے عجیب لگتی ہے کہ لوگ مرنے کے لیے
بنارس جاتے ہیں۔

میں کہتا ہوں۔ کزان یہ تو ایسے ہی ہے جیسے
بوڑھا ہاتھی مرنے کے لیے موت کی وادی میں آ کر بیٹھ رہتا ہے۔ جس طرح عیسیٰ کی نشانیاں
مردہ سمندر کی تہہ میں پڑی ہیں- باہر نکلنے کے انتظار میں۔

کامائنی کے دروازے پر ہم دستک دیتے ہیں تو وہ
ہمارا سواگت کرتی ہے اور ہماری آنکھوں میں بالزاک کی محبوبہ کا چہرہ گھوم جاتا ہے۔

کٹ گلاس کے پیالوں میں کالی کافی انڈیلتے ہوئے
کامائنی اس رات کا قصّہ شروع کر دیتی ہے جب اُسے رت جگا کرنا پڑا۔ رات بھر کوئی
دستک دیتا رہا۔ وہ دروازہ کھول کر باہر نکلتی تو یہ آواز رُک جاتی۔ اس آواز کے پیچھے
کبھی وہ ہوٹل کے پچھواڑے جاتی کبھی سمندر کے کنارے پھر واپس آ کر لیٹ رہتی اور
دروازے پر برابر دستک ہوتی رہتی۔

 ’’اس
رات میں نے تین دفعہ کالی کافی پی تھی۔‘‘ کامائنی مسکراتی ہے۔

وہ کالی کافی کی چسکی لے کر کہتا ہے۔ ’’اس رات
آندرے نے بھی تین بار کالی کافی پی تھی جو برف کے موسم میں مارا گیا سینے پر گولی
کھا کر۔۔۔‘‘

 ’’آندرے کون؟‘‘

 ’’وہ میں
-‘‘

 ’’آپ
تو یہاں موجود ہیں۔‘‘

 ’’نہیں
یہ میں نہیں ہوں آندرے ہے۔‘‘ وہ ہنستا ہے۔

سامنے کی دیوار پر ایک آئل پیٹنگ نے بہت سی جگہ
گھیر رکھی ہے۔

 ’’اس
رات، جب میں ایک پل کے لیے بھی سو نہیں سکی۔ یہ تصویر کوئی میرے کمرے میں چھوڑ گیا۔
کامائنی مسکراتی ہے۔

 ’’یہ
وہی ہو گا۔‘‘ وہ چلا جاتا ہے۔

ہم اُٹھ کر تصویر کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

کامائنی کہتی ہے۔ ’’ایک راستہ پہاڑ کو جاتا ہے
جہاں جنگل ہے۔ دوسرا راستہ شہر کو جاتا ہے۔ تیسرا راستہ سمندر کو اور چوتھا
راستہ۔۔۔‘‘

 ’’چوتھا راستہ، وہ چلّاتا ہے اور صوفے پر پاؤں
پھیلائے بیٹھا چلم پیتا رہتا ہے۔‘‘

کامائنی مسکرا کر کہتی ہے۔

 ’’جہاں
چاروں راستے آ کر ملتے ہیں وہاں جانے کس کا مقبرہ ہے۔ مقبرہ پہلے تیار کر لیا جاتا
تھا۔ قبر بعد میں بنتی تھی۔ اس مقبرے میں کسی کی قبر نہیں ہے۔‘‘

کزان کی نظریں تصویر پر جم جاتی ہیں۔ جیسے وہ
اس مقبرے میں اپنی قبر کی کلپنا کر رہا ہو۔

کامائنی پیرس کی بات شروع کر دیتی ہے۔ ’’دیکھیے
جب میں پہاڑ جنگل اور سمندر والے شہر کی یاترا کے بعد پیرس پہنچی تو اندولن چل رہا
تھا اور پولس کو ہفتے میں پچاس بار آنسو گیس کا استعمال کرنا پڑا۔‘‘

وہ ہوں ہاں نہیں کرتا، مسکراتا رہتا ہے۔

کامائنی اُٹھ کر اندر جاتی ہے تو میں کزان کے
کان میں کہتا ہوں۔ ’’گرمی کے موسم میں کامائنی دن میں بیس بار نہاتی ہے اور سردی
کے موسم میں دس بار۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جتنی بار کامائنی خود نہاتی ہے۔ اُتنی ہی
بار اپنے کتّے کو بھی نہلاتی ہے۔‘‘

سیڑھیوں سے کتے کے بھونکنے کی آواز آتی ہے۔ جیسے
وہ ہماری بات سمجھ رہا ہو۔

ہوں ہاں نہیں کرتا، شبد تھرتھراتے ہیں۔ ارتھ
اپنی بات نہیں کہہ پاتے۔

کامائنی واپس آ کر اپنی جگہ بیٹھ جاتی ہے اور
مسکرا کر کہتی ہے ’’میں آئیفل ٹاور دیکھنے گئی تو بلندی سے تصویر کی طرح نظر آ رہا
ہے۔ جس کو دیکھتے ہوئے میں نے سات بار اپنے جسم کی چٹکی لے کر اپنے آپ سے کہا، یہ
میں ہی ہوں جو آئیفل ٹاور کی بلندی پیرس کا چہرہ دیکھ رہی ہوں۔‘‘

وہ کچھ نہیں کہتا چِلم کے چار کش لگا کر دھوئیں
کی لکیروں کو دیکھتا رہتا ہے۔

کامائنی لوچ دار آواز میں کہتی ہے۔ ’’جب سے
واپس آئی ہوں، میں تو یہی سوچتی رہتی ہوں کہ میں اپنی زبان وہاں کیوں چھوڑ آئی۔‘‘

 ’’پیرس
کو تو کسی تصویر کی ضرورت نہیں ہوتی‘‘ وہ چلّاتا ہے ’’تم نے اپنی تصویر کہاں چھوڑی؟‘‘

 ’’پیرس
کے پاگل خانے میں‘‘

 ’’پاگل
خانے میں کس کے پاس؟‘‘

 ’’ایک
بڑھیا کے پاس؟‘‘

 ’’کون
بڑھیا؟‘‘

 ’’جو
کہتی تھی، میرا بیٹا اخبار میں کام کرتا ہے۔‘‘

 ’’اور
کیا کہتی تھی؟‘‘

 ’’کہتی
تھی بڈھوں کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے میرا بیٹا بڑی بڑی خبریں چھاپتا ہے۔‘‘

 ’’اور
بھی کچھ کہتی تھی بڑھیا؟‘‘

 ’’کہتی
تھی مردہ سمندر میں عیسیٰ کی ایک ایک نشانی ویسی کی ویسی موجود ہے اور جب مردہ
سمندر سوکھ جائے گا تو ایک ایک کر کے عیسیٰ کی سبھی نشانیاں دنیا کے ہاتھ آ جائیں
گی۔‘‘

 ’’کیا
بڑھیا نے کہا تھا کہ مردہ سمندر کب تک سوکھ جائے گا؟‘‘

 ’’بڑھیا
نے کہا تھا جب تک بڈھوں کی حکومت ختم نہیں ہوتی مردہ سمندر کے سوکھنے کی کوئی امید
نہیں۔ لیکن بڑھیا نے میری تصویر لے لی۔ بولی میں اسے مردہ سمندر میں پھینک دوں گی
تاکہ عیسیٰ کی نشانیوں کے ساتھ یہ تصویر بھی نکلے۔‘‘

 ’’بالزاک کی ایک ناول کی بڑھیا بھی یہی کہتی
ہے۔‘‘ وہ کش لگا کر دھُواں چھوڑتا ہے۔

کامائنی اس فلم کا ذکر کرتی ہے جس میں دکھایا گیا
تھا کانٹوں کا تاج پہنانے کے بعد۔۔۔ جب عیسیٰ کو صلیب پر لٹکایا گیا تو اس کے بعد
اس کی سبھی نشانیاں جارڈی ندی میں بہا دی گئیں جو بہتے بہتے مردہ سمندر میں جا
پہنچیں۔

وہ کہتا ہے ’’میں دیکھ رہا ہوں پاگل خانے میں
بڑھیا تالیاں بجا رہی ہے۔ بڈھوں کی حکومت کمزور پڑتی جا رہی ہے اور مردہ سمندر خشک
ہو رہا ہے۔‘‘

 ’’مردہ
سمندر کیسے خشک ہو سکتا ہے؟‘‘ کامائنی مسکراتی ہے۔

 ’’کیا
بڑھیا نے کچھ اور بھی کہا تھا؟ ’’وہ پوچھتا ہے۔‘‘

 ’’اس
نے کہا تھا، میری عمر سات اوپر اسی سال کی ہے اور تین سال بعد میں دس کم سو کی ہو
جاؤں گی۔‘‘

وہ بڑبڑاتا ہے ’’نیند میں بڑھیا مردہ سمندر کے
کنارے گھومتی ہے اس انتظار میں کہ مردہ سمندر سوکھ جائے گا اور عیسیٰ کی نشانیوں
کے ساتھ اس کی اپنی تصویر بھی نکلے گی جو اس نے سولہ سال کی عمر میں پھینکی تھی۔
اس کا پاگل پن تو در اصل اسی دن شروع ہو گیا تھا، جب اس نے اپنی تصویر مردہ سمندر
میں پھینکی۔‘‘

کامائنی کبھی تصویر کی طرف دیکھتی ہے کبھی کزان
کی طرف۔‘‘

 ’’تم یہاں
بیٹھو کزان! میں چلتا ہوں۔‘‘ میں کہتا ہوں۔

 ’’مجھے
تو خوشی ہو گی اگر کزان یہیں ٹھہر جائے۔۔۔ کامائنی مسکراتی ہے۔‘‘

 ’’تم
بھی یہیں رہ جاؤ نا‘‘ وہ کہتا ہے۔

 ’’نہیں،
کزان! مجھے جانا ہو گا۔‘‘

اس کے کندھوں پر لٹکتے ہوئے بال اور ٹھوڑی سے
شروع ہونے والی لمبوتری داڑھی، نیلی آنکھیں اور ہاتھ میں چلم۔ یہ سب اسے ایک فرشتے
کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔

وہ بات نہیں کرتا، مسکراتا ہے۔

 ’’آپ
بھی رہ جائیے نا۔‘‘ کامائنی کہتی ہے۔

 ’’میں
تو اب چلوں گا‘‘ میں اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہو جاتا ہوں۔

کامائنی میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے روکتی ہے۔
’’تھوڑا اور رُکیے نا، کزان کو لے جانا چاہیں تو بھی مجھے اعتراض نہیں۔ یہ رہنا
چاہے تو یہ گھر اس کا ہے۔ یا تو مردہ سمندر سوکھ بھی کیوں نہ جائے۔ اس میں سے میری
یا بڑھیا کی تصویر لینے کی بات تو دور عیسیٰ کی نشانیاں بھی ہرگز نہیں ملیں گی۔
اور یہ تصویر چوتھے راستے کا بھید نہیں بتاتی۔‘‘

صوفے سے اُٹھ کر وہ تصویر کے سامنے کھڑا ہو
جاتا ہے اور پھر تصویر کی طرف پیٹھ کر کے کہتا ہے۔ ہوا یہ کہ اس رات صوفیہ نے گریٹا
کو بتایا کہ تمھارا ڈیڈی آندرے دنیا کا سفر نہ کر سکا۔ وہ دنیا کے سفر کو مردہ
سمندر کا سفر کہا کرتا تھا اور وہ کہتا تھا کہ ہمارا دماغ مردہ سمندر ہے جس میں نہ
جانے کتنے لمحوں کی کتنی نشانیاں قائم رہتی ہیں، اور اسی رات میں نے صوفیہ کو
بتائے بغیر مردہ سمندر کا سفر شروع کر دیا۔

میں کہتا ہوں۔ ’’بالزاک کی نظر میں پیرس لالچ،
سازش اور نفرت کا جنگل تھا تو ہماری نظر میں یہ شہر کیا ہے۔‘‘

کزان کی نظریں کامائنی کے چہرے پر جمی رہتی ہیں۔
جیسے بغاوت اور پاگل پن کی سبھی آوازیں دب گئی ہوں۔‘‘

 ’’میں
چرسی بابا کی باتیں سننا چاہتا ہوں۔ کون!‘‘ میں کہتا ہوں۔

 ’’چرسی
بابا کون؟ کامائنی پوچھتی ہے۔‘‘

 ’’جو
بھیرو سنتے ہو، گھاٹ کی پہلی سیڑھی پر گھنٹوں روتے رہتے ہیں۔‘‘ میں کہتا ہوں۔

 ’’مجبوری کا نام چرسی بابا۔‘‘ وہ ہنستا ہے۔

 ’’ہم
سب بہروپیے ہیں۔‘‘ میں کہتا ہوں۔

تو کیا بالزاک بھی بہروپیا تھا جس نے لالچ،
نفرت اور سازش کا جنگل کہا تھا؟ اِٹ اِز آل ایبسرڈ!‘‘ وہ مسکراتا ہے۔

 ’’لفظوں کے چہرے گھائل ہیں۔ میں کہتا ہوں۔‘‘

وہ ہنس پڑتا ہے، کامائنی مسکراتی ہے۔ جیسے وہ
ہم دونوں کا مذاق اُڑا رہی ہو۔

کوئی سنے یا نہ سنے۔ ہم اپنی بات سنانے پر بضد
رہتے ہیں۔

 ’’وہ
جو پیرس میں مارا گیا۔ برف کے موسم میں کرسی خالی کر گیا جس پر وہ اخبار کے دفتر میں
بیٹھا کرتا تھا۔ لیکن کرسی خالی نہیں رہتی۔ اس پر کوئی اور آ بیٹھا۔‘‘ میں کہتا
ہوں۔

چلم چھوڑ کر وہ کہتا ہے۔ ’’مرنے سے پہلے آندرے
نے اپنے آخری خط میں مجھے لکھا تھا۔ برف پڑ رہی ہے۔ آج پچیس دسمبر ہے۔ کرسمس کی
رات صوفیہ سے پہلی ملاقات کو آج نو سال ہوئے۔۔۔ آج بھی اس کے ہونٹ اتنے ہی موٹے ہیں
جتنی میری ماں پاگل ہے۔ وہ گلی کے بچوں سے کہتی ہے۔ دیکھو بیٹا! تم میرے آندرے کے
پیچھے مت چلنا۔ ورنہ تم بھی صوفیہ کی نیلی جھیلوں میں ڈوب جاؤ گے۔ وہ میرے گالوں
پر ہاتھ پھیرتے پوچھتی ہے بیٹا! تمھیں صوفیہ کے ہاتھ اچھے لگتے ہیں یا میرے۔‘‘

کامائنی اس تصویر کی بات کرتی ہے جو اس رات کوئی
اس کے کمرے میں چھوڑ گیا تھا۔

میں کبھی بالزاک کے بڑھے ہوئے پیٹ والے بُت کی
تصویر دیکھتا ہوں۔ میگزین کے پورے صفحے پراور کبھی ایسا لگتا ہے کہ راہ چلتے کوئی
اسمگلر میرے کان میں کہتا ہے۔ کیا یہ سونے کی گھڑی خریدو گے۔ ایسی اِمپورٹیڈ گھڑی
ساری مارکیٹ میں نہیں ملے گی۔

کچن سے چینی کا برتن ٹوٹنے کی آواز آتی ہے اور
کالی کافی کا دوسرا دور شروع ہو جاتا ہے۔ وہی کٹ گلاس کے پیالے، وہی کالی کافی۔

بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ سرکار نے پچاس ہزار
جھگیاں جلا دیں۔ جیسے شرابی بچے پرندوں کے گھونسلے توڑ ڈالتے ہیں۔

کوئی نہیں جانتا کہ فاختہ پَر کیوں پھڑپھڑاتی
ہے۔

کوئی نہیں جانتا کہ مردہ سمندر کب خشک ہو گا۔

صاحب بی بی غلام کے بوڑھے گھڑی بابو کی طرح میں
قہقہہ لگا کر کہتا ہوں۔ سب بدل جائے گا۔‘‘

 ’’آج
کل پیرس کچھ زیادہ تیز ہو رہا ہے۔ آج کا اخبار تو یہی کہتا ہے۔‘‘ کامائنی مسکراتی
ہے۔

 ’’آندرے ہوتا تو پیرس کا رنگ دوسرا ہوتا۔‘‘

 ’’آندرے کون؟‘‘

 ’’وہی
جو اپنی تصویر کسی کے کمرے میں چھوڑ جاتا ہے۔‘‘

اتنے میں آندھی آ جاتی ہے۔ کامائنی کھڑکیاں بند
کرتے ہوئے کہتی ہے ’’آج تو آندھی کا رنگ کالا پیلا ہے۔ ہر سال ریگستان شہر پر حملہ
کرتا ہے لیکن انہی قدموں پر واپس چلا جاتا ہے۔ ریگستان شہر کو کیسے دفن کر سکتا
ہے؟‘‘

 ’’اور
خون کا داغ بھی برف کے نیچے کیسے دب سکتا ہے؟‘‘ کزان بڑبڑاتا ہے۔ اِٹ اِز آل ایبسرڈ۔
برف گر چکی ہے سب کچھ سفید ہو گیا۔ لیکن ایک جگہ خون نظر آتا ہے۔ ریلوے اسٹیشن کے
پاس۔ یہ اسی کا خون ہے۔ اسے پولس اٹھا لے گئی۔ برف پھر پڑے گی اور خون کا داغ برف
کے نیچے دب جائے گا۔ لیکن خون کا داغ، خون کا داغ برف کے نیچے کیسے دب سکتا ہے؟‘‘

٭٭٭

نیل یکشنی

ایک

اس بار پھر ایک آنچ کی کسر رہ گئی۔ چلو یونان،
چلو یونان!

فادر ٹائم نے یایاور کو سر سے پاؤں تک دیکھا
’’کہانی تو کہیں سے بھی شروع ہو سکتی ہے۔‘‘ آچاریہ مہاشویتم بولے۔

یایاور کے اغل بغل میں مون سون اور مِس فوک
لور۔

کتھا دوار پر کھُدے ان کے پیدائشی نام۔

وِینس اور اینٹگنی۔

ڈاکٹر سُنیتی کمار چٹرجی کے آشیرواد سے مِس فوک
لور یونیورسٹی میں گریک بھاشا وِبھاگ کی اونچی کرسی پر جا بیٹھی۔

زندہ باد

او صنم، او ہم صنم، او ہم صنم!

ہم نے ان کی راہ دیکھی۔ اب کا ہے کا غم، او ہم
صنم!

مس فوک لور کی سہیلی مِس مون سون- وِشو سندری۔
وہ شری لنکا کے مہاکوی کی تعریف کے پل باندھتی رہی۔

گُل ہما بولی ’’اِٹ از آل گریک فار می! میرے لیے
یہ سب کچھ گورکھ دھندہ ہے!‘‘

پانڈولپی کی آواز -او صنم، او ہم صنم، او ہم
صنم!

کتھا دوار پر کھدی یا یاور کی کویتا-

پُل کنجری کا اندھا ہاتھی، بھیس بدل کر آ پہنچا

بدمستی کے عالم میں بھی، سنبھل سنبھل کر آ پہنچا

ہاتھی ہو یا ہاتھی والا، اِک چکر میں رہتا ہے

لوک یان کا ہاتھی والا پیدل چل کر آ پہنچا

مہایان، ہیں یان، وجرّ یان اور اب اسی سلسلے میں
لوک یان۔

الوداع کہنے سے پہلے سُنیتی بابو فوک لور کے لیے
’’لوک یان‘‘ شبد دے گئے۔ اب یہ چلے گا جیسے گھنگھرو کی جھنکار۔

آچاریہ مہاشویتم بولے۔

کشمیر سے کنیا کماری تک ہمارا کتھا گھاٹ۔‘‘

 ’’موسموں کی سرائیں بہتر ہیں، گھر کے اندر اُداس
رہنے سے۔‘‘ ڈاکٹر ابو طالب گنگناتے رہے۔

اجی بال کی کھال کون اُتارتا ہے؟

محفل میں ایک سے ایک بڑھ کر، کیا راجہ ٹھاکر، کیا
اگھوری۔

امرت دِن مان کی پسند نادان کا کلام۔

 ’’وفا
کے شہر میں ٹوٹی ہے کوئی رسم قدیم

کہ اِک فقیر کا کتّا اُداس بیٹھا ہے

چندر دیپ کی کہانی ’’گُڑیا گھر‘‘ جس میں مِس
فوک لور بھی آ گئی، مِس مون سون بھی اور گُل ہما بھی۔

چندردیپ کی پتنی چمپا- سانولی، چھریری، مِرگ نینی،
سبھاشنی۔ اُس کی دو بیٹیاں- بڑی بِندو، چھوٹی اِندو۔ ماں بیٹیاں۔ گڑیا گھر کی گڑیاں۔

 ’’گھوڑوں کے نعل لگتے دیکھ کر گدھوں نے بھی پیر
آگے کر دیے۔‘‘ گڑیا گھر کی اُٹھان۔

جیسے خود کہانی یا یاور کو بلاتی ہو۔

کتھا دوار پر کھُدی یا یاور کی کویتا-

سُنی سُنائی کہتا رہتا۔ کاٹ کاٹ کے لکھتا رہتا

چیپی چیپی نئی لکھاوٹ۔ کاغذ بن گیا گتّا

رچنا تو انوبھو کی بات نا ویتن نا بھتّہ

سوکھی روٹی ایک پیاز۔ کن رس ہے البتّہ!

کون جانے کتنی بار یایاور شانتی نکیتن گیا اور
گُرودیو کا آشیرواد پراپت کیا۔

کشمیر سے کنیا کماری تک چپہ چپہ چھان مارا۔

ڈرائنگ روم میں گُرودیو کے ساتھ یایاور کی تصویر۔
گرودیو کی داڑھی سفید، یایاور کی کالی۔ نصف صدی کا قِصّہ القصّہ۔

یہی وہ تصویر تھی جسے دیکھ کر منٹو نے یایاور
کو ’’فراڈ‘‘ کہہ ڈالا تھا۔ اور یایاور مسکرادیا تھا۔

اب چالیس برس بعد دلّی کے ایک سیمینار میں یایاور
سے ملاقات ہونے پر فیض احمد فیض بولے۔ ’’ارے یہ تُو ہے؟ تُو ابھی زندہ ہے!‘‘ اور
دونوں دوست گلے مل گئے۔

تعارف اور اجنبیت کے بیچ- پیدائش، خاندان،
بچپن۔

جوانی گئی، بڑھاپا آیا۔ کیسا سوانگ رچایا؟

او صنم، او ہم صنم، او ہم صنم!

نصف صدی سے پہلے کی یایاور کی ایک کویتا-

 ’’کلکتے کے بازاروں میں ریشم اب بھی مل سکتا
ہے!‘‘

یایاور کی پانڈولِپی کویتا، کہانی اور ناٹک کا
سنگم۔ کتھا شیش اور شیش کتھا کے بیچ کا فاصلہ۔

 ’’گڑیا
گھر‘‘- چندردیپ کی کہانی۔ گڑیا گھر میں یایاور۔ جنم جنم کا ساتھ۔ ہاتھ میں ہاتھ۔

کاپی رائٹ بھارت ماتا کا‘‘- ایک پرانی یاد۔
لنکا یاترا سے یایاور کی واپسی پر دلّی میں آل انڈیا ریڈیو کے ڈائرکٹر جنرل
احمدشاہ بخاری (پطرس) نے کہا۔

 ’’اس
کنٹریکٹ پر دستخط کر دیجیے۔ رائلٹی آپ کو ملتی رہے گی۔‘‘

یایاور بولا۔

 ’’میں
دستخط کیسے کر سکتا ہوں؟‘‘

 ’’کیوں،
ایسی کیا بات ہے؟ بخاری صاحب نے پوچھا۔

 ’’کاپی
رائٹ بھارت ماتا کا۔‘‘ یایاور مُسکرایا، کھٹی، میٹھی یادوں کی برات۔

او صنم، او ہم صنم، او ہم صنم!

دو

کہانی کا مزا نہ تو سننے میں کم ہوا، نہ سنانے
میں، پانڈولِپی میں گڑیا گھر کا بکھان۔

یہی احساس کہ نئے راستے کھلتے گئے اور ننھے
ننھے پیروں کی آہٹ سانس لینے کی آواز میں گھلتی رہی۔

پانڈولپی کا ایک ادھیائے- ’’سکندر۔‘‘

 ’’سپنے
میں ملا سکندر۔ دونوں ہاتھ کٹے ہوئے‘‘

 ’’اس
کے سینے میں اُتر گئی۔ اس کی تلوار‘‘

 ’’سر
پر مرے ہوئے گھوڑے کا تاج‘‘

گزرا ہوا زمانہ بڑھتا ہوا ورتمان تک چلا آیا- جیسے
روتا ہوا بچّہ ماں کی چھاتی پر منھ مارتا رہا۔

محفل کافی ہاؤس کی

ریشم، ریشم، ریشم۔ اغل بغل ریشم ہی ریشم۔

ریشم چین سے آیا، کہانی یونان سے

کہانی نہیں، مِس فوک لور۔ گڑیا یونان کی۔

مس مون سون بھی ’’گریک ڈال۔‘‘

 ’’محرابوں والی بارہ دری‘‘- یادوں کا روزنامچہ ایک
روز مِس فوک لور کی کتاب چھپے گی۔

اپنے آپ سے ملاقات کرنے کی کوشش کے دوران گرہستی
کی ’’نون تیل لکڑی‘‘ یایاور کے ساتھ ہی یاترا میں بھی۔

جانے کِس کِس پہاڑ پر گیا، کس کس جنگل سے
گُزرا۔

ہیون سانگ جس یُگ میں آیا تھا بھارت میں، تب
کہاں تھا یایاور؟ کتھا شیش میں اُلجھا ہوا یا شیش کتھا میں۔

جب ابنِ بطوطہ آیا بھارت میں، تب کہاں تھا یایاور؟

کسی اندھیرے مندر میں دیپ بن کر جل رہا ہو گا۔

گڑیا گھر میں کیسے سمایا اتنا بڑا اِتہاس؟ چین
کی دیوار بھی آ گئی گڑیا گھر میں ہم قربان۔

واہ رے سابق مدیر! زندہ باد

ادارت کے آٹھ سال۔

میگزین کا نام — ’’دیش کال۔‘‘

سُن لو، من، سُن لو۔ ہو سکے تو کوئی سپنا بُن
لو۔

چھوڑو، اب یہ قصّہ چھوڑو۔ قصّہ القصّہ چھوڑو،
چھوڑو۔

آدی تال، تین تال، جھپ تال۔

آل دال، بیتال

کچّے کانوں میں پریم نویدن۔

سُن لو، من، سُن لو۔

ہونا نہ ہونا ایک سمان۔

بنارس یونیورسٹی میں ایم اے کے نصاب میں رکھی
گئی کتاب میں یایاور کی تصویر چھاپتے وقت نیچے لکھ دیا-

 ’’ایک
آریہ!‘‘

کتنا عجیب مذاق کیا تھا جے چندوِدیا النکارنے۔

واہ رے واہ ہم!

 ’’او صنم،
اوہم صنم، او صنم!‘‘

نادان بھگت کوئی اپنی، اے پاپی پاپ میں چین
کہا؟ /جب پاپ کی گٹھری سیس دھری، اب سیس پکڑ/ کیا رووت ہے!‘‘

وقت کب رُک پایا؟

کیا ٹھمری، کیا دادرا، کیا ٹپہ۔

کبھی موہن جودڑو، کبھی ہڑپّا!

 ’’جس
پر نظر جمائی، وہ نقشہ بدل گیا! ’’گُل ہما گنگناتی رہی۔

بار بار کاندھے جھٹکے۔

کتنا کچھ یاد آ گیا۔

رات بھر جاگ کر دیکھتا رہا یایاور۔

لوک یان کا پریم نویدن جیتے جی نہیں مٹ سکتا۔
سُنی اَن سُنی کیسے کر دیں؟ ’’کیسے کر دیں دیکھی اَن دیکھی؟

شاید آج پھر نئی تُک بندی کر ڈالی۔

آئینے کے سامنے مُنھ بنایا۔

لکھتے لکھتے سرگوشی کا انداز اپنایا۔

جانے کتنی بار زمین اُس کے پیروں تلے سے کھِسک
گئی۔ اور اس سے کچھ کہتے نہ بن پڑا۔

پورا نام- یایاور لوک یان۔

اس کا یہی تکیہ کلام-

 ’’ارے
بھئی، ٹوپی کا بھی مشورہ لے لو۔‘‘

جانے کس کس نے بُرا بھلا کہہ کر دل کی بھڑاس
نکالی۔

ہوا کا رُخ دیکھ کر سٹپٹایا یایاور۔ اور کسی کسی
محفل میں اُسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔

یایاور کے ڈرائنگ روم میں ریڈیو کے پاس۔

 ’’الگوزہ بجاتی اپسرا۔‘‘

اشٹ دھات کی پرتیما۔ شری لنکا کے مورتی کار، شری
رنگم ڈی سوزا کا چمتکار۔

اپسرا کی شکل – ہو بہو گل ہما کی سی۔

تین

مِس مون سون کی پسند یایاور کی پانڈولپی میں
پہلونٹی کی بِٹیا کویتا کی کہانی جو دکشن بھارت کے ایک اسپتال میں پیدا ہوئی، رات
کے دس بجے، پت جھڑ کے خوشگوار موسم میں۔

دلّی یونیورسٹی سے ہندی میں ایم اے کیا۔

دلّی میں ہی بیاہی گئی اور پھر دلّی کے ہولی فیملی
اسپتال میں ایک بچی کو جنم دے کر چل بسی۔

بچی کے تین نام —

سویٹی، کنچن، وپل جیوتسنا۔

کویتا سے چودہ برس چوٹی- الکا- الکا سے تین برس
چھوٹی- پارول۔ دونوں کی شادی ہو گئی۔

کویتا کی تصویر کے سامنے دونوں سرنگوں، بغل میں
ان کی ماں۔

یایاور کی وہی دھُن-

 ’’اوری
نیل یکشنی کویتا / اوری مُلت کیشنی کویتا‘‘

چار

جیسے سپنے میں چل رہا ہو کوئی۔ ہاتھ میں ہاتھ۔

ایک کسک، ایک ٹِیس

کھُل کھُل کر، گھِر گھِر کر برسے جیسے کالا میگھ۔

اپنا لاہور۔۔۔ اپنا نیلا گنبد۔۔۔

زندہ باد

ایک جستجو، ایک دھُن، سچّی لگن!

یایاور لاہور میں پڑھتا تھا۔ ڈی اے وی کالج میں،
جب ڈاکٹر اقبال نے اسے خودکشی سے بچایا۔

نیلا گنبد کے چوک سے جو نوجوان اسے ڈاکٹر اقبال
کی کوٹھی پر لے گیا تھا، وہ تھا عاشق حسین بٹالوی۔

لاہور میں ودیار تھی سمیلن کے سبھا پتی بن کر
آئے۔ گُردیو ٹیگور (1935 میں ) جب وہ ڈاکٹر اقبال سے ملنے گئے ان کے گھر۔

دونوں کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ گلے لگ کر ملے
ڈاکٹر اقبال نے کہا۔

 ’’اقبال بڑا اُپدیشک ہے من باتوں سے موہ لیتا ہے

 ’’گفتار کا غازی بن تو گیا کردار کا غازی بن نہ
سکا‘‘

گرودیو بولے-

 ’’کھوکا ماں کے شودھائے ڈیکے / اے لیم آمی کوتھا
تھیکے!‘‘

ار تھات مُنّا ماں کے پاس آ کر پوچھتا ہے۔ میں
کہاں سے آیا ہوں؟‘‘

لاہور میں ہی چھپی یایاور کی کتاب ’’میں ہوں
خانہ بدوش‘‘ (تقسیم سے سات برس پہلے)

دلّی میں چھپی یایاور کی کتاب ’’کتھا کہو، اروشی!‘‘
(تقسیم کے نو برس بعد)

اب آئی ’’نیل یکشنی۔‘‘

 ’’کتھا
کہو اروشی!‘‘ ’’اور ’’نیل یکشنی‘‘ کے درمیان چوتھائی صدی کا وقفہ۔

ایک روز یایاور نے بیوی کو، جو اس کی ہم سفر رہی
’’لوک ماتا‘‘ کا خطاب دے ڈالا۔

چائے کا پیالہ ٹکراتے ہوئے یایاور نے کہا۔

 ’’لوک
ماتا! آج کسی فلم کی نہیں، ہماری شادی کی گولڈن جوبلی ہے۔ چائے کا یہ پیالہ گذشتہ
پچاس برس کے نام۔‘‘

پانچ

کہاں مِلی نیل یکشنی؟

ریزرو بینک کے دروازے پر۔

مورتی کار رام کنکر شانتی نکیتن سے آیا۔

مورتیاں تو ہیں، مورتی کار اب نہیں رہا۔

پتھر کی وشال مورتی میں سیدھا کھڑا یکش گویا
وِچتر مُدرا میں بینک کے سامنے سے گزرنے والوں پر طنز کرتا رہا۔

نیلے پتھّر کی وشال یکشنی، اپنے بھیتر جھانکتی
سی کسی کھوئی چیز کے دھیان میں مگن۔

یکش ویسے ہی تھے جیسے کِنّر اور گندھر- وہ آریہ
نہیں، آریہ مِتر تھے۔

لکشمی نارائن وشنو نے یکش راج کُبیر کو اپنا
خزانچی بنایا تھا۔

بھارت سرکار کا ریزرو بینک گویا وشنو کا خزانہ۔

ریزرو بینک کا ڈائرکٹر- یکش راج کُبیر۔ اسی لیے
تو یکش یکشنی اس کے دوارپال۔

چھ

 ’’محرابوں والی بارہ دری‘‘ مس فوک لور کی کتاب۔

کتاب کا انتساب امرت دن مان کے نام۔

دیباچہ نگار- فادر ٹائم۔

سنسکرت ناٹک اور گریک ٹریجدی کے درمیان دوستی
کا پُل۔

ہاتھ میں ہاتھ۔۔۔ آنکھ میں آنسو۔۔۔ آنسو کا
سمندر۔۔۔

الگوزے پر راگ جوگیا

مس فوک لور یونیورسٹی میں گریک بھاشا وِبھاگ کی
اونچی کرسی پر براجمان نہ ہوتی تو ’’اجنتابُک کارنر‘‘ کے مالک جدو بابو نے کتاب کے
گیٹ اَپ پر روپیہ پانی کی طرح نہ بہایا ہوتا۔

چار سو صفحات۔ پُوری جلد کپڑے کی۔ گرد پوش پر
فوک لور کی تصویر، دائیں مس مون سون، بائیں گُل ہما۔

نیلے گرد پوش پر لیمی نیشن۔

راجہ ٹھاکر بولا۔ ’’اندھے کے ہاتھ بٹیر‘‘

گُل ہما نے کہا ’’پُستک نہیں کرسی چھپی۔‘‘

سات

کاغذ کے پیسے یایاور نے کیسے جُٹائے، یہ تو
پانڈولپی کی آتما ہی جانتی ہو گی۔

پرکاشکوں کا سامراج اُسے ایک آنکھ نہ بھایا۔

سوچا مٹھائی بن جائے گی تو گھنٹے والے کی دُکان
پر رکھ دیں گے۔ بِکری ہوتی رہے گی۔

دوستوں نے جب یہ سُنا کہ نیل یکشنی پریس میں چلی
گئی اور اُنھیں یقین ہو گیا کہ اب کتاب چھپ جائے گی۔

بات کرتے وقت یایاور کا سر ہلتا رہتا۔ اُس کی
تان یہیں ٹوٹتی کہ جاڑے کی شدت سے بچنے کے لیے سائبیریا کے سارس بھارت میں بھرت
پور کی گھنا جھیل پر چلے آتے ہیں، جسے اب بھارت سرکار نے ’’پکشی وِہار‘‘ ’’نیشنل
برڈ سینکچویری‘‘ کا نام دے دیا اور موسم بدل جانے پر واپس چلے جاتے ہیں۔

بات کرتے کرتے یایاور کبھی ہنس پڑتا، کبھی گمبھیر
ہو جاتا اور کبھی گنگنانے لگتا۔

 ’’اوری
نیل یکشنی کویتا / اوری مُکت کیشنی کویتا!‘‘

فادر ٹائم کے بار بار اصرار کرنے پر یایاور
اُسے گیت کا بول سُناتا-

مور کُونجاںنوں آکھدے / تہاڈی رہندی نت تیاری

جاں مورو تہاڈا دیش کجبھڑا، یاں تہاڈی کسے نال یاری

نال مورو ساڈ ڈیس کجبھڑا ناں ساڈی کسے نال یاری

بچڑے چھوڑ مسافر ہوئیاں، ڈاہڈے رب نے جوگ کھلاری

(مور سارسوں سے کہتے ہیں کہ جب دیکھو تم سفر کے
لیے تیار رہتے ہو۔ ارے سارسو، یا تو تمھارا وطن بُرا ہے یا تم یہاں کسی کے عشق میں
گرفتار ہو گئے۔ سارسوں نے جواباً کہا۔ ’’نہ تو ہمارا وطن بُرا ہے اور نہ ہی ہم کسی
کے عشق میں گرفتار ہوئے ہیں۔ لمبی اُڑان کا بس یہی کارن ہے کہ مالک نے ہمارا آب و
دانہ اتنی دور دور پھیلا دیا ہے۔ )

آٹھ

مِس فوک لور نے

بتایا کہ شری لنکا کے مورتی کار شری رنگم ڈیسوزا
نے گُل ہما کو اپسرا کا ماڈل بنایا تھا۔ جب وہ یاترا پر وہاں گئی تھی۔

الگوزہ بجاتی اپسرا

مورتی کار نے یہ اشٹ دھات کی مورتی اپنے دیش کے
مہا کوی سوم سندرم جے وردھن کو بھینٹ کر دی۔

مہاکوی نے مورتی کلا کا یہ شاہکار مس مون سون
کو ارپت کر دیا۔

مس مون سون نے یہ مورتی گُل ہما کو دے ڈالی اور
گل ہما نے یایاور کے ڈرائنگ روم میں سجاد ی یہ بیش قیمت مورتی۔

نو

فادر ٹائم کا یہی اعتراض کہ یایاور کی پانڈولپی
میں کہانی کا کہیں دور دور تک اَتہ پتہ نہیں۔

 ’’بھرت
پور لٹ گیو رات بگیّن میں! آواز بے نظیر بیگم کی-

آچاریہ مہا شویتم کی وہی تان-

 ’’یایاور
کی پانڈولپی سُنیتی بابو کا لوک یان‘‘

یایاور کو مِس مون سون کا انتظار۔ وہ آئے تو
اسے تیسری وِشو یاترا پر اپنے ساتھ لے جائے۔

 ’’او
صنم، اوہم صنم، او ہم صنم!‘‘

پانڈولپی کی پہچان- ہم امرت سنتان!

امرت دِنمان کے دماغ پر سوار فلم ڈائریکٹر
گوڈار کا فرمان-

 ’’سینما
از ٹروتھ ٹونٹی فور ٹائمز اے سیکنڈ‘‘ یعنی سینما کا ہر فریم ایک سیکنڈ میں چوبیس
بار گھوم جاتا ہے۔ بھلے ہی ہنستا ہوا چہرہ سامنے آئے یا روتا ہوا۔

پہلے قدرے پاس سے دیکھو، پھر ذرا دور سے، پاس کی
دوری بہت ضروری ہے!

مس فوک لور نے بھرت پور سے لوٹ کر اچانک یہ خبر
سنائی کہ سائبیریا سے آئے ہزاروں سارس اب کے موسم بدل جانے پر بھی واپس نہیں گئے!

٭٭٭

نئے دھان سے پہلے

یہ کنگلوں کی قطار تھی۔ ہو بہ ہو کمان کی طرح۔
ایک ساتھ کہیں سات آدمی کھڑے تھے تو کہیں دس۔، عورتیں اور بچے اور مرد، جوان اور
بوڑھے- سبھی ایک ترازو میں تل رہے تھے۔ سبھی بھوکے تھے۔ ننھے بچے سوکھی چھاتیوں کو
چچوڑ رہے تھے۔ بڑی عمر کے بچے قطار سے نکل کر لنگر کے دروازے پر پہنچنے کے لیے ضد
کر رہے تھے۔ لنگر والوں نے لاکھ جتن کیا کہ عورتوں اور مردوں کی الگ الگ قطار یں
بن جائیں، پر یہ بھاری بھرکم کمان اپنی جگہ پر ڈٹی رہی۔

قطار میں کھڑے کھڑے جے شری کے من میں ایک لفظ
گونج اٹھا- ’ستیہ یگ!‘ نہ جانے ستیہ یگ کب آئے گا۔ اور کون جانے آئے گا بھی یا نہیں۔
ستیہ یگ، تریتا، دواپر، کل یگ۔ اور کل یگ کے بعد پھرستیہ یگ آتا ہے۔ ستیہ یگ کتنے
ورش کا ہوتا ہے، کچھ معلوم نہیں۔ کل یگ کی عمر بھی تو کوئی نہیں جانتا۔ ہاں، یاد آیا-
تریتا بارہ لاکھ چھیانوے ہزار برس کا ہوتا ہے۔ اور دواپر آٹھ لاکھ چونسٹھ ہزار برس
کا۔ پروہت تو شاستر اور پُران پڑھتا ہے۔ اس نے ٹھیک ہی کہا ہو گا۔ کل یگ کی عمر
شاستر بھی نہیں جانتے۔ نہ جانے کل یگ کا انت بھی ہو گا یا نہیں۔ شاید کل یگ تریتا
سے بھی بڑا ہو۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے، یہی سنتی آئی ہوں کہ پاپ کی نیّا بھر چکی ہے
یہ اب ڈوبی کہ ڈوبی۔ اس کے دل میں ان گنت گدھ منڈلانے لگے۔ یہ سب گدھ اس پر جھپٹنے
کی کوشش میں تھے۔ اس نے سوچا کہ ستیہ یگ اب آئے یا نہ آئے، یہ گدھ تو ہم کنگلوں کو
نوچ نوچ کر کھا جائیں گے۔ ہم بچ نہیں سکتے۔ سب سہمے جا رہے ہیں۔ جیسے سب کو گدھ
نظر آ رہے ہوں۔ راکھال اس کا ہاتھ کھینچتے ہوئے ’ماں، بھوک! ماں بھوک ‘کی رٹ لگا
رہا تھا۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اس کا ہاتھ چھڑا کر بھاگ جاتا۔ پر اب اس کے بدن
میں اتنی طاقت نہ تھی۔

جے شری نے راکھال کی گردن تھپتھپاتے ہوئے سوچا
آٹھ سال سے میں اسے پالتی آئی ہوں۔ ارے، ارے! اس کا پیٹ تو کُپّا ہو رہا ہے۔ کس
طرح ہڈیاں نکل آئی ہیں۔ آج اس کا باپ زندہ ہوتا تو کہیں نہ کہیں مزدوری ڈھونڈ ہی لیتا۔
لنگر کے سامنے گھنٹوں کھڑے رہو، پھر کہیں تھوڑا دال بھات ملتا ہے۔ آخر ہم کیسے بچ
سکتے ہیں؟ اس کے دل میں بھوکے گدھ برابر منڈلاتے رہے۔ یہ گدھ راکھال پر بھی جھپٹنا
چاہتے تھے۔

راکھال نے ماں کا ہاتھ کھینچتے ہوئے پوچھا ’’ہمیں
دال بھات کب ملے گا؟ ماں گرم گرم دال بھات؟‘‘

 ’’ہماری
باری تو آلے راکھال‘‘، جے شری نے اسے چومنے کا جتن کرتے ہوئے کہا۔

نہ جانے ہماری باری کب آئے گی، شاید ہماری باری
آنے سے پہلے ہی سب دال بھات ختم ہو جائے گا۔ شاید ہم یہاں کھڑے کھڑے گر پڑیں گے
اور ان گنت گدھ ہمیں نوچ نوچ کر کھا جائیں گے۔ بھوک کے مارے پیٹ شمشان کی طرح جل
رہا ہے۔ ہائے رام! ہماری بھوک کا اب کبھی انت نہیں ہو گا۔ ہم بھوکے ہیں اور گدھ بھی
بھوکے ہیں۔ کوئی کہاں تک تسلی رکھے گا؟ نہ جانے ابھی اور کتنی دیر ہو گی؟ ادھک نہیں
تو تھوڑا ہی سہی۔ جلدی نہیں تو دیر سے ہی سہی۔ بس دال بھات ملے ضرور۔ یہ لنگر والے
بھی کتنے رحم دل ہیں۔ وہ ہمیں موت کے منھ سے بچانے کا جتن کر رہے ہیں۔

…جے شری، او جے شری!- گانو چھوڑتے ہوئے اس کے
پتی نے کہا تھا، پہلے میری موت ہو گی۔ جب تک میں زندہ ہوں، یمدوت تمھاری اُور دیکھ
بھی نہیں سکتے …یہ مت کہو پتی دیو! پہلے میں مروں گی۔ تم بچ جاؤ اور میرا راکھال
بچ جائے … ارے، ارے! جے شری، تمھیں چنتا کا ہے کی ہے؟ راکھال کا بال بھی بانکا
نہ ہو گا۔

اس نے سوچا کہ اس کل یگ میں یہ ایک ستیہ یگی
بات ہوئی کہ اس کا پتی وچن نبھا گیا۔ کنگلے کا جیون کسے پسند ہو گا؟ اور یہ جیون
بھی کوئی جیون ہے؟ یہ تو بوجھ ہے بوجھ، بھاری بھرکم بوجھ۔ ارے کوئی اسے کب تک
ڈھوتا رہے گا؟

…جے شری، او جے شری!کل کی بیلا سدا ہی ہری۔
جے شری،! ارے، ارے! تم تو گربھوتی ہو، جے شری! سات مہینے تو ہو بھی گئے، دو مہینے
رہتے ہیں۔ بیٹا جنمے گا تو سب کشٹ دور ہو جائیں گے اور اگر بیٹی آ گئی؟ اونہہ! بیٹی
نہیں چاہیے۔ بیٹا چاہیے، بیٹا۔ بیٹا جو دھرتی میں ہل چلائے گا، بیٹا جو برس برس کے
نیا دھان اگائے گا…

یہ بھیانک اکال اور میں گربھوتی ہوں۔ جے شری نے
جھنجھلا کر راکھال کا ہاتھ جھٹک دیا۔ جیسے سب کرودھ اسی پر انڈیل دینا چاہتی ہو۔
پر اگلے ہی پل وہ پہلے کی طرح اس کی گردن تھپتھپانے لگی- راکھال- چندا بیٹا- ہاں،
ہاں کل کی بیلا سدا ہری رہی۔

 ’’ سکھ
میں دان دیا جاتا ہے، دکھ میں دان کا پھل ملتا ہے۔‘‘ پیچھے سے ایک بڈھا کھانستا
ہوا کہہ رہا تھا۔، ’’ہم دان لینے پر مجبور ہیں۔‘‘

 ’’ایسا
اکال تو نہ دیکھا تھا نہ سنا تھا‘‘، ایک بڑھیا کہہ اٹھی، ’’پہلے تو اکال اسی وقت
پڑتا تھا جب بارش نہ ہوتی تھی اور دھان کی فصل ماری جاتی۔ پر اب کے اتنا دھان ہوا،
پھر بھی یہ بھیانک اکال- ہے بھگوان، یہ اکال کب ختم ہو گا؟‘‘

 ’’ہم
پھر اپنے گانو کو جائیں گے، دیدی!‘‘ ایک لڑکی نے شہہ دی، ’’جن کو مرنا تھا وہ کبھی
کے مر گئے۔ اب یہ لنگر والے ہمیں نہ مرنے دیں گے۔‘‘

 ’’ تم
جینا چاہو تو شوق سے جیو، بیٹی!‘‘بڑھیا بولی ’’مجھے تو بھگوان اپنے پاس بلا لے تو
لاکھ لاکھ دھنیہ و اد کروں۔‘‘

جے شری بڑے دھیان سے یہ باتیں سنتی رہی۔ دائیں
ٹانگ کا بوجھ بائیں ٹانگ پر ڈالتے ہوئے اس نے راکھال کا مکھ چوم لیا، بولی ’’تیرا
باپ تو ہمیں چھوڑ گیا، راکھال! اب تو ہی اس کی نشانی ہے، راجا بیٹا، چندا بیٹا!‘‘

 ’’سورگ
میں تو اکال نہ پڑتا ہو گا‘‘، بغل میں وہ لڑکی کہہ رہی تھی ’’بھوک کی مہاماری
بھوگتے ہوئے ہمیں کتنا کشٹ ہوتا ہے، یہ ہمارے دیوتا کیا جانیں؟‘‘

 ’’سکھیرلا
گیا اے گھر باندھینوں، انلے پوڑیا گیلو!‘‘ وہ بڑھیا گنگنا رہی تھی، ’’چنڈی داس
بابا سچ کہہ گئے- سکھ کے لیے یہ گھر بنایا تھا، ہائے یہ آگ میں جل گیا!‘‘

اور جے شری کو جھٹ اپنی جھونپڑی کا دھیان آیا۔
ابھی تو وہ اسی طرح کھڑی ہو گی۔ اس کے من میں شنکھ کی آواز گونج اٹھی۔ جیسے دیوتاؤں
کو جگایا جا رہا ہو۔ دیوتا تو سورگ میں رہتے ہیں، پر ان کی مورتیاں مندروں میں
استھاپت کی گئی ہیں۔ ہر روز انھیں رات میں سلایا جاتا ہے اور سویرے جگایا جاتا ہے۔
اشنان کے بعد طرح طرح کے بھوجن ان کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔ زمیندار بابو کے راج
محل سے ان کے لیے الگ پکوان پک کر آتے ہیں۔ شاید اسی لیے وہ زمیندار بابو کو کچھ
نہیں کہتے چاہے زمیندار بابو نردھن پرجا پر کتنا ہی اتّیاچار کیوں نہ کرتا رہے۔
مہاجن بھی دیوتاؤں کو خوش رکھتا ہے اور ہماری رہی سہی زمین ہڑپ کرتے ہوئے زمیندار
بنتا چلا جاتا ہے۔ دیوتا چپ ہیں۔ لٹے ہوئے لوگ ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں،
پتھر اور دھا تو کے دیوتا ان کا انصاف نہیں کر پاتے۔

پیچھے سے دھکے شروع ہو گئے تھے۔ جے شری نے جھٹ
راکھال کو سنبھال لیا۔ پیچھے مڑ کر دیکھنا کٹھن تھا۔ ان لوگوں کو شرم بھی تو نہیں آتی۔
آج انھیں دال بھات نہ دیا جائے توکل سے یہ آدمیوں کی طرح کھڑے ہوا کریں گے۔ پر جھٹ
اس کے دماغ میں دوسرے بھاگ سے آواز آئی۔۔۔ دال بھات کیوں نہ دیا جائے؟ یہ تو بڑی
کڑی سزاہو گی۔ وہ بھی کیا کریں؟ پیچھے سے یہ بھی تو دھکے کھا رہے ہیں۔

کٹہل کے پیڑ نہ ہوتے توسورج ان کے ادھ ننگے شریر
پر چبھوتا چلا جاتا۔ چھایا رہنے پر بھی وہ پسینہ پسینہ ہوئی جاتی تھی۔ راکھال نے
اس کا ہاتھ کھینچا۔ گردن گھما کر وہ ماں کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ ارے، ارے!
راکھال! تو بھی پسینہ پسینہ ہو رہا ہے۔ میرا راجا بیٹا۔۔۔ میرا چندا بیٹا، تجھے
بہت بھوک لگی ہو گی۔ ارے آج تو میں تجھے اپنے حصے میں سے تھوڑا سا دال بھات دے دوں
گی… پھر ذرا جھک کر اس نے راکھال کے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’ ہائے، یہ تیرے
پیٹ کو کیا ہو گیا؟ راکھال!ہائے رام یہ کیسا روگ ہے؟‘‘…اگلے ہی پل اس نے ہاتھ پھیر
کر راکھال کے ماتھے کے پسینے کی بڑی بڑی بوندیں پوچھتے ہوئے اس کا مکھ چوم لیا اور
کہا ’’راجا بیٹا، راجا بیٹا۔ ارے، ارے! آج تو گرم گرم دال بھات کھائے گا میرا راجا
بیٹا۔ ‘

وہ زور زور سے سر کھجا رہی تھی۔ موئی جوئیں،
لہو پینے والی جوئیں۔ نہ جانیں اتنی جوئیں کہاں سے پیدا ہوتی رہتی ہیں!نہ جانیں یہ
جوئیں مریں گی بھی یا نہیں! ہائے رام!یہ جوئیں میرا سب لہو پی جائیں گی، پیتی چلی
جائیں گی۔

 ’’نہ
جانے اب گانو کی کیا دشا ہو گی؟‘‘ پیچھے سے وہ بڈھا کہہ رہا تھا، ’’مجھے گانو
چھوڑے ڈھائی مہینے ہو گئے۔‘‘

 ’’اب
تو وہاں بھوت بستے ہوں گے بھوت‘‘، بڑھیا بولی، ’’ اب وہاں انسان کا کیا کام؟‘‘

 ’’چاول
کا دانہ دانہ گانو سے نکال کر لے گئے تو گانو والے گانو چھوڑنے پر مجبور ہوئے‘‘ ،
وہ لڑکی کہہ اٹھی ’’ اب کوئی اپنے گانو کو لوٹ کر نہیں جائے گا۔‘‘

 ’’کہاں
چلا گیا چاول؟‘‘ جے شری نے جھنجھلا کر کہا، ’’کون لے گیا چاول؟ تجھ سے یہ کیسے دیکھا
گیا بھگوان؟‘‘

قطار آگے کو سرک رہی تھی۔ ابھی لنگر کا دروازہ
دور تھا۔ اس طرح تو بہت وقت بیت جائے گا۔ پاؤ گھنٹہ، آدھا گھنٹہ، ایک گھنٹہ۔ نہ
جانے کتنے آدھ گھنٹے۔ جے شری کی انگلیاں اس کے بالوں میں دھنس گئی۔ پیچھے سے الجھا
الجھا سا شور سنائی دینے لگا۔ جیسے لوگ لنگر کے دروازے پر دھاوا بولنے کی سازش کر
رہے ہو۔ یہ شور قطار کے اگلے حصے کی طرف سرکنے لگا۔ ’’ہائے دال ہائے بھات!‘‘ کسی
نے نعرہ لگایا اور پھر پوری قطار پنکھے کی طرح ڈولتی دکھائی دی۔

یہ انتظاراسے ایک لمبانیرس سپنا معلوم ہوا۔ یہ
جیون ایک بوجھ ہے۔ اسے کب تک اٹھایا جائے؟ اس نے گھوم کر بوڑھے کی طرف دیکھا۔ وہ
شاید اسی لمحہ کے انتظار میں کھڑا تھا کہ یہ ادھیڑ عورت گردن گھما کر اس کی طرف دیکھے۔
وہ جے شری کو گھور رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو- باؤری، ہم سب مردے ہیں، مردے۔ قبروں
سے اٹھ کر ہم یہاں کھڑے ہو گئے ہیں۔ چلو پھر قبروں میں جا سوئیں، باؤری!

اسے باڑھ کا دھیان آیا۔ یہ باڑھ تو ہر سال آتی
ہے۔ بھگوان کا شراپ! کتنے گانو بہہ گئے۔ کتنے پشو ڈوب گئے۔ ہائے رام آدمی کتنے کشٹ
سہتا ہے۔ باڑھ کے بعد دھرتی میں دراڑیں ہی دراڑیں نظر آئیں۔ پوکھڑوں میں پانی کا
پانی گدلا اور کسیلا ہو گیا۔ ہے بھگوان! یہ باڑھ بند نہیں ہو سکتی- یہ بھوک کی
باڑھ؟ ہائے ہم ہی دھان اگائیں اور ہم ہی بھوک سے مریں۔ یہ کہاں کا نیائے ہے؟

سر کھجانے کے بجائے وہ اب نتھونوں کے بال اکھاڑ
رہی تھی۔ راکھال چاہتا تھا کہ بندر کی طرح اچھلے، اور ابھی لنگر کے دروازے پر پہنچ
جائے۔ اپنے اپنے حصے کا دال بھات لے کر ہر کوئی پرے ندی کی طرف چلا جاتا ہے۔ وہ بھی
اسی طرح کریں گے۔ اس نے سوچا کہ ماں کے حصے میں سے تھوڑا سا دال بھات ضرور لے گا۔
آج اسے اتنی بھوک لگ رہی تھی، آج تو وہ اپنے حصے میں سے ماں کو تھوڑا بھات بھی نہ
دے گا۔

پسینے کی بدبو متواتر بڑھتی چلی گئی۔ جے شری کے
من میں برابر گانو کا وچار چکر کاٹتا رہا۔ اب کسے پتا ہو سکتا ہے کہ وہ لوٹ کر
وہاں جائے گی یا نہیں۔ پتی نہیں راکھال تو ہے۔ راکھال محنت کرے گا اور اپنی زمین
چھڑا لے گا۔ راستے میں بھکاریوں کی طرح وہ کبھی اپنے بچے کے ساتھ ماری ماری نہ
پھرے گی۔ وہ ضرور اپنے گانو کو لوٹے گی۔

 ’’عمر
بھر کا پسینہ جیسے آج ہی ٹپک پڑے گا‘‘، لڑکی کہہ رہی تھی۔

بڑھیا بولی ’’کیا دھنوان، کیا نردھن، پسینہ تو
سب کے جسم سے ٹپکتا ہے۔‘‘

پیچھے سے بوڑھا کہہ اٹھا ’’میں پیاسا ہوں۔ میرے
بھیتر پانی کی ایک بوند بھی نہ ہو گی۔ پھر نہ جانے اتنا پسینہ کہاں سے نکل رہا
ہے؟‘‘

اور پھر بڈھے نے جے شری کو ٹہوکا دیا۔ جیسے
پوچھ رہا ہو- باؤری، تو کیوں چپ کھڑی ہے۔ پر جے شری نے گردن گھما کر بڈھے کی طرف یا
لڑکی کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہ سمجھی۔

سامنے سے ایک نوجوان نے گردن گھما کر دیکھا۔ جیسے
کہہ رہا ہو- ہوں تو میں تیرا کنہیا، رادھے! لیکن میں سچ مچ بھوک سے مرا جا رہا
ہوں، رادھے تو بھی بھوکی ہے۔ جے شری نے کنہیا اور رادھا کو دھیان سے دیکھا۔ کبھی
تو وہ بھی اپنی کنہیا کی رادھا تھی۔ پھر اسے اپنے پتی کے آخری دنوں کا دھیان آیا۔
اسے بھیک مانگنا پسند نہ تھا اور اس نے پران چھوڑ دیے۔ اس دن وہ کیسے بلک بلک کر
رو رہی تھی۔ پایل بیچ کر اس نے داہ سنسکار کے لیے لکڑی خریدی تھی۔ ہائے رام، آج اس
چتا کی راکھ کو ہوا ا ڑائے لیے پھرتی ہو گی! نہ جانے کہاں کہاں؟

اس کا من پھر گانو کی طرف گھوم گیا۔ ابھی کل تک
گانو میں اس کاسمّان بنا ہوا تھا۔ کہیں نہ کہیں سے یاترا والے آ نکلتے تھے۔ کنہیا
اور رادھا کا کھیل کھیلا جاتا۔ چنڈی داس کے پد گائے جاتے۔ جیون کو پنکھ لگ جاتے۔
ہر کوئی گانے لگتا۔ وہ ہرسال یاترا والوں کے لیے نئے دھان نکالا کرتی۔ اسے معلوم
تھا کہ وہ پیسے لے کے خوش رہتے ہیں۔ وہ مہاجن کی دکان پر چلی جاتی اور سستے داموں
پر دھان بیچ کر نقد پیسے لے آتی۔ رات کو مشعلوں کی روشنی میں جب یاترا والے تھالی
میں آرتی کا چومکھا دیپک رکھ کر ساری سبھا میں گھماتے تو وہ جھٹ اس میں پیسے ڈال دیتی۔
پچھلی بار اس کے لیے تین سو جمع ہو گئے تھے۔ پورے پچاس تو اکیلے زمیندار بابو نے دیے
تھے، پورے پچاس۔ اونہہ! یہ روپیے بھی تو ہمارے ہی تھے۔ ارے، کام کریں ہم اور موج
اڑائیں زمین دار بابو! دھنیہ ہے تیرا نیائے، ہے بھگوان، دھنیہ ہے تیری لیلا! اسے یاد
تھا کہ اس نے کیول ایک روپیہ دیا تھا۔ ایک روپیہ۔ کنہیا ناچے، رادھا ناچے۔ اس کا
تو کوئی مول ہی نہیں دیا جا سکتا۔ یاترا والوں کو جو کچھ بھی دیا جائے تھوڑا ہے۔
ارے، یہی تو ان کی کھیتی ہے۔ مردنگ کہتا ہے- کنہیا کی جے، رادھا کی جے۔ منجیرا
کہتا ہے -کنہیا سانورے اور رادھا گوری۔ رادھا گاتی ہے- میں برج کی گوپی مرلی والے
کے سنگ راس رچاؤں، ارے کہاں برج اور کہاں بنگلہ دیش۔ سارا دیش کنہیا سانورے اور
رادھا گوری کا ہی تو ہے۔

یہ بھیانک اکال۔ ارے، ارے، اسے رادھا گوری اور
کنہیاسانورے بھی نہ روک سکے۔ یہ سوچتے ہوئے جے شری نے لنگر کے دوار کی اور ایک لمبی
نظر دوڑائی۔ اس نے بانہیں پھیلانے کا جتن کیا۔ ایک بار پھر وہ گانو کی یاد میں کھو
گئی۔ اسے یاد تھا کہ کیسے چاول مہنگا ہوتا گیا اور کس طرح لوگ اندھے ہو کر چاول بیچتے
چلے گئے۔ مہاجن خوش تھے۔ وہ کسانوں کو سمجھا رہے تھے کہ اب مہنگے بھاؤ پر چاول بیچ
ڈالو۔ پھر سستے داموں چاول خرید لینا۔ وقت وقت کا جادو ہے۔ یہ موقع ہمیشہ تو نہیں
آتا۔ اور ہم مورکھوں نے اتنا بھی نہیں سوچا کہ دوسری فصل تک کھانے لائق ہی سہی،
چاول گھر میں تو رکھ لیں۔ چاول نکلتا گیا۔ گھر میں کھانے یوگیہ بھی چاول نہ رہا
تھا۔ آخر وہ بھیانک گھڑی بھی آئی کہ چاول کا دانہ سونے کے بھاؤ بکنے لگا کل یگ میں۔
ارے، ارے، ارے! یہ کیسا کل یگ ہے؟

پیچھے سے بڈھے نے جے شری کو ٹہوکا دیا۔ جے شری
نے مڑ مڑ کر اس کے طرف دیکھنے لگی۔ جیسے کہہ رہی ہو- ہاں بابا!ہاں بابا! دنیا
مسافر خانہ ہے۔ آج یہاں کل وہاں، اب ہم بھکاری رہیں گے- عمر بھر، راستے کے بھکاری روز
روز تو یہ دال بھات ملنے سے رہا۔ اسے یاد آیا کہ گانو چھوڑنے سے کچھ ہی دن پہلے اس
نے ہاٹ بازار میں ایک بڈھے کو رادھا اور کنہیا کی مورتیاں بیچتے دیکھا تھا۔ ارے،
ارے! وہ بڈھا تو اس بڈھے سے ملتا جلتا تھا۔ وہ کتنا مجبور تھا۔ جن مورتیوں کو ان
کے پرکھے پوجتے آئے تھے، انہیں وہ بہت سستے داموں بیچ رہا تھا۔ اس کے جی میں تو آیا
کہ وہ پوچھ لے، پر وہ چپ کھڑی رہی۔

پھر اس کے سامنے تاراپد کی شکل گھوم گئی۔ اس نے
ان دلالوں کی بری گت بنائی تھی جونگر سے عورتوں کی دلالی کرنے آئے تھے۔ حرامی،
سور، راکشش چلے آئے گانو میں۔ ارے، گانو کی کنّیائیں بھی کسی کی بیٹیاں ہیں، کسی کی
بہنیں۔ حرامی، سور، راکشش- یہ گالیاں اس کے من میں گونج اٹھیں … ہائے ری دنیا!
اسی تارا پد نے گانو کی سب سے سندرلڑکی کو پکڑ کر بیچ ڈالا۔ نہ جانے وہ کدھر نکل گیا۔
حرامی، سور، راکشش! گانو چھوڑنے سے پہلے وہ ایک، نہ دو، نہ تین، پوری سات کنّیاؤں
کو بیچ چکا تھا۔ اسے تو خوب بھات ملتا ہو گا۔ رس گلّے سندیش اور نہ جانے کیا کیا
مٹھائی۔ اسے ہماری طرح لنگر کے سامنے گھنٹوں انتظار نہ کرنا پڑتا ہو گا۔ اب تو وہ
بڑا دلال بن چکا ہو گا۔ سب سے بڑا دلال۔

اب لنگر کا دروازہ بھی قریب تھا۔ راکھال خوش
نظر آتا تھا۔ اب ماں کا ہاتھ کھینچ کر لنگر کے دروازہ تک اور دوڑ لگانے کی کچھ
ضرورت نہ تھی۔ گرم گرم دال، گرم گرم بھات۔ اپنے حصے کا دال بھات وہ خود کھائے گا۔
ماں لاکھ کہے گی کہ تھوڑا سا مجھے دے دو راکھال! بھگوان نے بڑا پیٹ لگایا ہے۔ اور
مجھے تم سے زیادہ بھوک لگتی ہے۔ وہ ایک نہیں سنے گا۔

…جے شری، او جے شری! سب زمین بندھک رکھ دی اور
ایک بوری چاول ملا۔ ایک بوری چاول۔ ارے جانتی ہے آج کل ایک بوری چاول کا کیا مول
ہے؟ سوا دو سو، بلکہ ڈھائی سو۔ ارے اب تو کوئی تین سو بھی مانگ لے تو کوئی پوچھنے
والا نہیں ….پتی دیو، سات دن سے ہم گھوئیاں کے پتّے کھا رہے ہیں، اور یہ پتّے بھی
کب تک ملیں گے؟ … ارے سن تو جے شری، آدھا بوری چاول کے لیے ایک بیگھہ زمین بیچ
کر آ رہا ہوں … پاپ مہا پاپ، یہ تو تم نے راکھال کا بھاگیہ بیچ ڈالا۔ ہائے رام!
اب راکھال یہ زمین کبھی نہ چھڑا سکے گا… ارے میں کیا کرتا…؟ مہاجن تو ساری زمین
کی رجسٹری کرانے کے بدلے دو بوری چاول دینے کو تیار تھا۔ میں نے سوچا، راکھال کا
سارا بھاگیہ کیوں بیچ ڈالوں۔ ارے ہماری زندگی میں تو کل یگ کا انت ہونے سے رہا، پتی
دیو! یہ اکال ہمیں کھا جائے گا۔ پھر ستیہ یگ آئے نہ آئے۔ چلو اب اس گانو سے نکل چلیں۔
اب ہم امان کی فصل کے لیے بھی لوٹ کر نہیں آئیں گے …

اسے یاد تھا کہ انھوں نے رات کے بڑھتے ہوئے
اندھکار میں گانو چھوڑا تھا۔ اس رات مہاجن کی بیل گاڑیاں بھی کسی چور بازار کے
لمبے طلسماتی سفرپر چل پڑی تھیں۔ چاول ہی چاول۔ اتنا چاول کہاں جا رہا تھا؟

اب وہ لنگر کے دروازہ کے سامنے پہنچ چکی تھی۔
اسے اس وقت پتا چلا جب راکھال نے اپنے حصے کا دال بھات لے لیا۔ اس نے بھی اپنے حصے
کا دال بھات سنبھال لیا۔

 ’’انّ
داتا، سدا ہی سکھی رہو!‘‘ وہ بولی ’’انّ داتا کی سداہی جے؟‘‘

 ’’ماں!
ٹھنڈی دال اور ٹھنڈا بھات۔‘‘ راکھال نے للچائی درشٹی سے ماں کا دل ٹٹولتے ہوئے کہا
’’یہ تو بہت تھوڑا سا ہے۔‘‘

 ’’تھوڑا بھی بہت ہے، بیٹا!‘‘جے شری اس کے سر پر
ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’ارے بیٹا، یہ بھی نہ ملتا تو ہم کیا کر لیتے؟‘‘

وہ ندی کی طرف چلے جا رہے تھے۔ پیچھے سے وہ لڑکی
جلدی جلدی قدم اٹھا تی ان کے ساتھ آملی۔

 ’’ذرا
رک کیوں نہیں جاتی، دیدی!‘‘ لڑکی بولی ’’میری ماں کو بھی آ لینے دو۔ ہم ایک ہی
گانو کے نہیں تو نہ سہی۔ بھگوان نے ہمارا ملاپ کرا دیا۔‘‘

 ’’ہاں
بہن، ہم دکھ کے ساتھی ہیں۔‘‘ جے شری نے اپنا آنچل سنبھالتے ہوئے کہا۔ اس وقت اس کی
آنکھوں میں حیرت کا منظر سا لہرا گیا۔ جیسے وہ کہہ رہی ہو- ارے، ارے! میرا تو وچار
تھا کہ تم اس نوجوان کے ساتھ بیٹھ کر دال بھات کھاؤ گی۔

پیچھے سے لڑکی ماں بھی آ گئی۔ آتے ہی اس نے
راکھال کی ٹھوڑی اٹھا کر اسے پیار سے چوم لیا اور بولی، ’’ارے چندا بیٹا، تھوڑا
دال بھات تو تجھے میں بھی دے سکتی ہوں اپنے حصے میں سے۔‘‘

لڑکی گھبرا گئی۔ وہ بولی، ’’ابھی تو سب کو زندہ
رہنا ہے، ماں! اپنے حصے کا دال بھات تو ہر کسی کو خود کھانا چاہیے۔‘‘

ندی کے کنارے پہنچ کر انھوں نے اپنا اپنا دال
بھات کھایا۔ راکھال کے پھولے ہوئے پیٹ پر نگاہ جماتے ہوئے لڑکی کی ماں کہہ رہی تھی
’’ارے بیٹا، تیرا پیٹ تو ایسے نظر آتا ہے جیسے کسی زمیندار کے بیٹے کا ہو۔‘‘

 ’’یہ
تو کمتی بھوجن کی بیماری کے کارن ہے، ماں!‘‘ جے شری بولی ’’ اب کون وید راکھال کو
اوشدھی دے گا؟‘‘

جے شری کی رانوں میں جیسے کسی نے سیسہ بھر دیا
تھا۔ اس کے کولہے بھی بری طرح درد کر رہے تھے۔ وہ دھرتی پر لیٹ گئی۔

راکھال بھی نڈھال ہو رہا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک
رنگ آتا تھا، ایک رنگ جاتا تھا۔ جیسے دیا بجھ رہا ہو۔ جیسے چاند ڈوب رہا ہو۔

جے شری اٹھ کر بیٹھ گئی۔ لڑکی اور اس کی ماں بھی
گھبرا گئیں۔ انھوں نے راکھال کو آرام سے لٹا دیا۔ ماں دھیرے دھیرے اس کا پیٹ
سہلانے لگی اور وہیں لیٹے لیٹے راکھال کی آنکھ لگ گئی۔

جے شری گھبرائی گھبرائی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔
بولی ’’کچھ تمھیں بھی معلوم ہے بہن کہ یہ کل یگ کب ختم ہو گا؟‘‘

 ’’یہ
تو بہت کٹھن سوال ہے، دیدی، اس کا جواب تو جنتا کے سیوکوں کو بھی معلوم نہیں ہو
گاجو ہمیں روز روز سمجھاتے ہیں کہ نیا یگ آنے والا ہے۔‘‘

لیٹے لیٹے راکھال نے کروٹ لی۔ اسے پتلا دست آیا۔
جے شری نے اسے پونچھ کر دوسری طرف لٹا دیا اور غلاظت کو ڈھانپ دیا۔ اس کا دل زور
زور سے دھک دھک کرنے لگا۔ اس بار وہ پھر راکھال کا پیٹ سہلاتی رہی۔

 ’’ستیہ
یگ- نیا یگ- یہ کب آئے گا، بہن؟‘‘جے شری نے اڑنے کے لیے تیار چڑیا کی طرح بانہہ پھیلاتے
ہوئے کہا۔

 ’’یہ
تو میں نہیں جانتی ہوں، دیدی! سنتی ہوں، نئے یگ میں زمیندار نہ ہوں گے۔ جو ہل
چلائے گا، وہی زمین کا مالک ہو گا۔‘‘

 ’’وہ یگ
کب آئے گا؟ ستیہ یگ؟‘‘

 ’’ہمارے ساتھی کہتے ہیں- دیدی، یہ دال بھات ہمیں
دان میں نہیں دیا جا رہا۔ اس پر ہمارا ادھیکار ہے۔ وہ کہتے ہیں، سب لوگ پھر اپنے
اپنے گانو کو لوٹیں گے۔ پھر نیا دھان ہو گا۔ ہم اتنا کھائیں گے کہ خوب موٹے ہو جائیں
گے۔‘‘ اس نے اپنی بانہوں کو پھیلاتے ہوئے کہا۔

جے شری نے بہت سے ہوائی قلعے بنائے۔ کل یگ ختم
ہوا۔ ستیہ یگ شروع ہو چکا تھا۔ اب اس ستیہ یگ کا کبھی انت نہ ہو گا۔ اس کی کلپنا
جاگ اٹھی۔ کنہیّا کی بانسری جاگ اٹھی۔ ایک نیا گان… یاترا والے سبھا میں چومکھا
دیا گھما رہے تھے۔ لوگ بڑھ بڑھ کر تھال میں پیسے ڈال رہے تھے۔ کنہیّا کہہ رہے تھے-
اب دیش میں اکال نہیں پڑے گا، رادھا! اور رادھا کہہ رہی تھی- دیکھو کنہیّا، اب کبھی
زمیندار کسانوں پر حکم نہ چلائیں، چور بازار بھی سب ختم ہو جائیں … کنہیا کہہ
رہے تھے- جو ہل چلائے وہی زمین کا مالک۔ زمیندار وہی جو ہل چلائے …

راکھال کی حالت خراب ہوتی گئی۔ جے شری گھبرا گئی۔
اس نے راکھال کا سر اپنی ران پر رکھ لیا۔ تو کیا یہ دیا بجھ جائے گا؟ جیسے وہ اسے
اپنے آنچل میں چھپا کر ہوا سے بچانے کا جتن کر رہی ہو۔ ارے، ارے! یہاں تو دیے کا تیل
ہی ختم ہو رہا ہے۔ ہائے رام میں لٹ جاؤں گی۔

لڑکی بولی ’’گھبراؤ مت دیدی! راکھال اچھا ہو
جائے گا۔‘‘

جے شری ہونی سے بے خبر نہ تھی۔ وہ موت کو دیکھ
سکتی تھی۔ راکھال کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے اس نے آکاش کی اور نگاہ اٹھائی۔ جیسے
وہ کسی چھپی ہوئی شکتی سے پرارتھنا کر رہی ہو۔ اس نے راکھال کی نبض پر ہاتھ رکھا
اور چیخ ماری۔ راکھال کی نبض ڈوب رہی تھی۔

اس کا لہو سب پانی بن چکا تھا۔ اب تو یہ پانی
بھی خشک ہو رہا تھا۔ سب کے دیکھتے دیکھتے اس نے پران چھوڑ دیے۔

لڑکی ستکار سمیتی والوں کو بلا لائی۔ وہ تین
آدمی تھے۔ جے شری نہیں جانتی تھی کہ ستکار سمیتی والے یہ کام سیوا بھاؤ سے کرتے ہیں۔
اس لیے اس نے اپنی کلائیوں سے چاندی کے کنگن انھیں دینے چاہے۔ پر انھوں نے سویکار
نہیں کیا، کیوں کہ اس کام میں لین دین تو ہوتا ہی نہیں۔

وہ دوڑ کر لکڑی لے آئے۔ ذرا ہٹ کر چتا بنائی گئی۔
جے شری نے اپنی چیتھڑا چیتھڑا چادر میں راکھال کو کفنا دیا۔ ستکار سمیتی والوں نے
اسے اٹھا کر چتا پر رکھا۔ جے شری نے اپنے ہاتھوں سے چتا میں آگ لگائی۔

لال لال لپٹوں کی پرشٹھ بھومی میں رات کے سائے
گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ جے شری بولی ’’ابھی کل یگ کا انت ہونے میں دیر ہے۔ ابھی ستیہ
یگ شروع نہیں ہو سکتا۔‘‘

سمیتی والے 
جا چکے تھے۔ جے شری چتا کے پاس لیٹ گئی۔ لڑکی اوراس کی ماں اسے دلاسا دیتی
رہیں … جے شری، او جے شری! جیسے اس کا پتی اس سے کہہ رہا ہو- ارے، میری نشانی تو
تیرے پاس رہے گی۔ ارے تو گربھوتی ہے، جے شری! اور پھر جیسے اسے مانسک دھکا سا لگا،
یہ بھوک- بھیانک بھوک! اور میں گربھوتی ہوں۔ میری بھوک کوئی آج کی بھوک تو نہیں۔ یہ
تو یگ یگ کی بھوک ہے۔ اور پھر اسے خیال آیا کہ یہ بھوک کا کل یگ کبھی ختم نہیں ہو
گا۔ ہائے رام، ستیہ یگ کیسے شروع ہو سکتا ہے؟

وہ رات رت جگے ہی میں کٹ گئی۔ سورج کے پہلے
کرنوں کے آکاش میں آتے ہی جے شری نے چتا سے راکھ کی چٹکی اٹھا کر ماتھے پر لگا لی۔

اس کی کلپنا میں پھر ان گنت گدھ منڈلانے لگے۔ یہ
گدھ بہت بھوکے تھے۔ جیسے وہ پوچھنا چاہتی ہو کہ کیا اب یہ گدھ زندہ انسانوں پر
جھپٹنا چاہتے ہیں۔

ایک دن، دو دن، تین دن۔

جے شری وہیں پڑی رہی۔ لڑکی اور ماں کے لاکھ
درخواست کرنے پر بھی وہ لنگر کی طرف جانے کے لیے راضی نہ ہوئی۔ وہ اسی طرح مر جانا
چاہتی تھی۔

 ’’تم
تو گربھوتی ہو، دیدی!اور گربھوتی کو سدا خوش رہنا چاہیے۔‘‘ لڑکی نے جے شری کے سینے
پر اپنا سر تھپتھپاتے ہوئے کہا۔

جے شری نے ناک سکڑتے ہوئے لڑکی کو پرے ہٹا دیا۔
اسے تو ادھر گربھوتی لفظ سے بھی نفرت ہو گئی تھی۔

ماں بولی ’’تیرے تو بیٹا جنمے گا، بیٹی جے شری!‘‘

جے شری اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس نے سوچا کہ اس کا بیٹا
ستیہ یگ میں جنم لے گا، اپنا بھاگیہ لائے گا، وہ ستیہ یگ میں پلے گا۔

لڑکی بولی ’’تم دیکھتی نہیں دیدی کہ دھرتی نئی
کروٹ لے رہی ہے، اب نیا یگ شروع ہو گا۔‘‘

 ’’نیا یگ-
ستیہ یگ؟‘‘

 ’’ہاں،
دیدی لوگ کہتے ہیں کہ انھوں نے سمے کی مڑتی ہوئی دھارا کو دیکھ لیا ہے۔‘‘

 ’’وہ
سچ کہتے ہوں گے۔‘‘

 ’’وہ
کہتے ہیں اب نیا پربھات شروع ہو گا، دھرتی کی کایا پلٹ جائے گی۔‘‘

 ’’سچ!‘‘

 ’’وہ
کہتے ہیں اب نیا دھان اگے گا، جنتا کے لیے دھان، سب کے لیے دھان۔‘‘

 ’’پھر
تو ستیہ یگ آ رہا ہے، ستیہ یگ!‘‘

پاس سے ماں نے چڑ کر کہا ’’ابھی ستیہ یگ کہاں
ہے؟ ابھی کل یگ ہے۔ مجھ سے پوچھو یہ کل یگ کبھی ختم نہ ہو گا۔‘‘

ماں نے ایک دلال کی بات چھیڑ دی۔ جے شری کی
آنکھوں میں تاراپد کا روپ گھوم گیا۔ ماں کہہ رہی تھی: ’’اور وہ مجھ سے میری بیٹی
مانگتا تھا۔ کہتا تھا- تیری بیٹی تو راج کنیا ہے، اس کے بھاگیہ میں تو رانی ہونا
لکھا ہے، بول اس کا کیا لے گی؟ نگورے نے رتّی بھر شرم نہ کی۔‘‘

 ’’تم
نے کیا جواب دیا، ماں؟‘‘ جے شری نے حیرانی سے پوچھا۔

 ’’میں
نے تو سو بات کی ایک بات کہہ دی۔ نہ بابا، میری لڑکی تو بھاگیہ وتی ہے۔ وہ اپنا
بھاگیہ خود چنے گی۔‘‘

جے شری نے سوچا تاراپد ادھر آ نکلا ہو، شاید وہ
تاراپد ہی ہو۔ لڑکی سر جھکائے بیٹھی رہی اور دھول پر گول گول گھیرے گھیرے بناتی رہی۔

 ’’حرامی،
سور، راکشش۔‘‘ جے شری نے تاراپد کو من ہی من میں گالیاں دیتے ہوئے کہا: ’’پاپوں کی
نیّا بھر کر ڈوبتی ہے۔‘‘

 ’’ہاں
بیٹی، پاپوں کی نیّا بھر کر ڈوبتی ہے۔‘‘

 ’’اس
دلال نے اپنا نام کیا بتایا تھا، ماں؟ تاراپد تو نہیں تھا اس کا نام؟‘‘

 ’’میں
نے پوچھا نہیں بیٹی، اور اس نے بتایا نہیں اپنا نام۔‘‘

 ’’دیکھنے
میں کیسا تھا وہ؟ بہت موٹا تازہ، گھنگھرالے بال، بڑی بڑی آنکھیں اور آواز ایسی جیسے
جھانجھ بجتی ہو- کہو نا ماں؟‘‘

 ’’تم
نے کیسے جان لیا بیٹی؟ وہ ٹھیک ایسا ہی تھا۔‘‘

 ’’وہ
وہی تاراپد ہو گا، وہی ہمارے گانو کا تاراپد۔‘‘

 ’’تمھارے گانو کا تاراپد؟‘‘

 ’’ہاں
ماں، پہلے تاراپد بھلا آدمی تھا۔ اس نے پہلی بار گانو میں آنے والے دلالوں کو پولس
کو حوالے کر دیا۔ پھر وہ خود دلال بن گیا۔ یہ کیسا کل یگ ہے؟ دیوتا بھی راکشش بننے
لگے۔‘‘

 ’’پہلے
کپڑا اجلا ہوتا ہے، بیٹی! میلا ہونے پر اسے دھویا بھی جا سکتا ہے۔‘‘

ادھر لڑکی دھول پر بہت بڑی چکر بنا چکی تھی۔ جے
شری نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا: ’’تم یہی کہنا چاہتی ہو نہ بہن کہ وقت
بھی ایک چکر ہے۔‘‘

 ’’ہاں
دیدی، اس کی ابتدا ہے نہ انتہا۔‘‘

 ’’ستیہ
یگ، تریتا، دواپر، کل یگ- کل یگ اور کل یگ کے بعد پھر ستیہ یگ آتا ہے۔ پہلے وستر
اجلا ہوتا ہے۔ پھر میلا ہو جاتا ہے۔ اور پھر جب یہ دھل جاتا ہے تو سمجھو ستیہ یگ آ
گیا۔‘‘

 ’’ستیہ
یگ ضرور آئے گا دیدی! اپنی دھرتی ہو گی، اپنے ہل، اپنے ہنسیے۔ اور دھان اگانے والے
کسان، کنگلوں کی طرح نگر کے سامنے کھڑے نہیں رہا کریں گے۔‘‘

جے شری زمین پر لیٹ گئی۔ ا س کے چہرہ کا رنگ
بدل رہا تھا۔ وہ گربھ وتی تھی۔ کیسی کیسی ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں؟ ابھی تو دو مہینے
باقی ہیں، اس نے سوچا۔ پر پچھلے تین دن سے پیٹ میں بچے کی حرکت بند ہو چکی تھی۔

ماں بولی: ’’چندا بیٹا تو وقت پر جنمے گا ہم تو
تیرے پاس ہی ہیں۔ تجھے چنتا کا ہے کی، جے شری؟‘‘

…جے شری او جے شری! ہم تو سو سو پیڑھیوں کے
کسان ہیں … ہاں پتی دیو، پر ہمارا زمیندار ہم پر ہمیشہ ظلم کرتا آیا ہے … جے
شری! ہماری حالت کبھی نہیں بدلی… ہاں پتی دیو! ہمارے گانو میں سدا سے اکال پڑ
رہا ہے …جے شری، او جے شری! یہ اکال پہلے سب اکالوں کی چرم سیما ہے … پر پتی دیو!
اب تو یگ پلٹ رہا ہے۔ کل یگ کے گربھ میں ستیہ یگ جنم لے رہا ہے۔ ان ٹیسوں کا اٹھنا
ضروری ہے …۔

 ’’ہائے، میں مر گئی، میری میّا!‘‘جے شری بار بار
چلّا اٹھتی تھی۔ اس کا کشٹ کوئی سادھارن کشٹ نہ تھا۔ لڑکی کہیں سے تھوڑا تیل مانگ
لائی تھی۔ اور ماں برابر ایک دائی کی طرح جے شری کے پیٹ پر مالش کرتی رہی۔

وقت سے پہلے بچے نے جنم لیا تھا۔ تھا تو بیٹا
پر مردہ۔ ماں نے جے شری کو سنبھالتے ہوئے کہا: ’’بچے کو ڈھنگ سے لے، بیٹی! ہائے
رام، بھاگیہ کو کون بدل سکتا ہے۔‘‘

جے شری بے ہوش پڑی تھی۔

ذرا ہوش آنے پر وہ ہلی۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔
جیسے وہ بچے کا چہرہ دیکھنے کے لیے ویاکل ہو رہی ہو۔ پر ایک دھچکے کے ساتھ وہ گر
پڑی۔ اس کا کشت سدا کے لیے مٹ گیا۔ نیا دھان اُگے یا نہ اُگے۔ اب اسے کیا؟

لڑکی نے مستقبل قریب کی طرف نگاہ دوڑاتے ہوئے
کہا: ’’جے شری نے کہا تھا نا ماں کہ کل یگ کا انت ہونے والا ہے اور پاپوں کی نیّا
ڈوبنے والی ہے کیا اپنے دھچکے سے جے شری نے نیّا کو ڈُوبانے کے لیے آخری زور تو نہیں
لگا دیا؟‘‘

٭٭٭

تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

حصہ اول

ورڈ
فائل

ای پب
فائل


کنڈل
فائل

حصہ دوم

ورڈ
فائل

ای پب
فائل

کنڈل
فائل

حصہ سوم 

ورڈ
فائل

ای پب
فائل

کنڈل
فائل

حصہ چہارم

ورڈ
فائل

ای پب
فائل

کنڈل
فائل