محبت نا محرم تو
صباحت رفیق چیمہ
تشکر: ’کتاب‘ ایپ
ڈاؤن لوڈ کریں
باب ۱
میری زندگی کی کتاب کا ہے لفظ لفظ یوں سجا ہوا
سر ابتدا سر انتہا ترا نام دل پہ لکھا ہوا
عدن۔۔۔! عدن۔۔۔! خدا کے لئے چپ ہو جاؤ یار۔۔ کیا پاگل پن ہے یہ؟ زمرہ نے عدن کے چہرے سے چادر ہٹاتے ہوئے کہا تو عدن نے اپنی سرخ انگارے کی طرح ہوتی آنکھوں پر بازو رکھ لیا اور کہا ’ہاں میں پاگل ہو گئی ہوں، اس کے عشق میں۔۔۔ میں نہیں رہ سکتی اس کے بغیر۔۔ وہ اگر نہ ملا مجھے تو میں مر جاؤں گی‘ وہ اسی طرح لیٹی رہی اور زمرہ نے زچ ہوتے ہوئے کہا
’بس بھی کرو ناں!، مریں تمہارے دشمن، پلیز اب اٹھ جاؤ، بس ایک دفعہ میری بات سن لو، پھر جو تمہارا دل چاہے تم وہ کرنا، میں تمہیں نہیں روکوں گی‘ زمرہ نے ساتھ ہی منت سماجت شروع کر دی اور عدن اٹھ بیٹھی، سائیڈ پہ رکھے کشن کو اپنے تکیے کے نیچے رکھ کر ٹیک لگا لی اور زمرہ نے بھی اپنے پیر اوپر کر کے بستر پہ آرام دہ انداز میں بیٹھ گئی، عدن کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اسے دیکھا اور کہا ’دیکھو، تم کہتی ہو کہ تمہیں وہی شخص چاہئیے وہ بھی محرم طریقے سے میرا مطلب وہ تم سے نکاح کر لے، کیوں کہ تمہیں لگتا ہے کہ تمہارے دل میں اس کی محبت اللہ نے ڈالی ہے؟‘ اس نے عدن کے ٹھوڑی پہ ہاتھ رکھ کر کہا ’میں صحیح کہہ رہی ہوں ناں؟‘ تو عدن نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’تو میری جان! مجھے یہ بتاؤ کہ اللہ نے کب نامحرم سے محبت کی اجازت دی ہے؟ اللہ نے کدھر لکھا ہے کہ جس کام کے لئے اس نے منع کیا ہے ہم اسی کام کے لئے میرا مطلب تھا گناہ کے لئے سجدوں میں جا جا کر رو رو کر دعائیں مانگیں گے تو اللہ قبول فرما لیں گے؟‘
عدن اسے دیکھتی رہ گئی اور زمرہ نے اپنی بات جاری رکھی۔
’عدن یہ جو محبت ہوتی ہے ناں، بہت ذلیل و خوار کرتی ہے، انسان کو رسوا کر کے رکھ دیتی ہے، جانتی ہو ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘ زمرہ نے عدن کو دیکھا اور چپ ہو گئی تھوڑی دیر بعد پھر بولنے لگی
’کیونکہ اللہ ہمیں نامحرم سے محبت کی اجازت نہیں دیتا اور پھر جو لوگ اللہ کی بات نہیں مانتے پھر وہ لوگ ذلیل و رسوا ہی ہوتے ہیں‘ زمرہ لمحے بھر کے لئے رکی تھی لیکن عدن بول پڑی۔
’لیکن زمرہ میں کیا کروں؟ میں اسے بھلانا چاہوں بھی تو نہیں بھلا سکتی، مجھے تو وہ ہر پل ہر دم یاد آتا ہے، پھر میں کیسے سجدہ رو ہو کر اس کے لئے دعا نہ مانگوں؟ جب سجدے میں جاتی ہوں آنسو خود بخود جاری ہو جاتے ہیں آنکھوں سے اور زبان پھر ایک ہی دعا مانگتی ہے، میرا خود پر قابو نہیں رہتا، میرا دل، میری سوچ، میرے الفاظ بھی جیسے اس کے لئے مقید ہو گئے ہوں! تھک گئی ہوں، کوشش کے باوجود بھی میں خود پہ قابو نہیں رکھ پا رہی، جانتی ہو؟ اب اگر میں اس سے بات نہ کی تو یقین کرو میں مر جاؤں گی‘ عدن نے بے بسی کی آخری حد پر پہنچتے ہوئے کہا اور زمرہ کے ہاتھوں پر اپنا چہرہ رکھ کر رونا شروع کر دیا، زمرہ سے اس کی یہ حالت غیر دیکھی ہی نہیں جا رہی تھی۔
٭٭
باب ۲
تم چاند کی چاہت کرتے ہو
تم کچھ کچھ پاگل لگتے ہو
گندمی رنگت براؤن آنکھیں گلابی ہونٹ کالے سلکی بال بھرپور جسامت (باڈی بلڈر جو تھا) والا حسیب دوسروں پہ چھا جانے کی مکمل صلاحیت رکھتا تھا جب وہ ہاف سلیوز شرٹ پہنتا تھا اس کے ابھرے ہوئے بازو اسے دوسروں میں ممتاز کر دیتے تھے۔ اور یہی وہ حسیب تھا جس پر عدن فدا تھی بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ محبت ایسی کہ مر مٹنے والی، اسے یونیورسٹی میں دیکھا تھا اور دل ہار بیٹھی، پر اپنی محبت کو دل کے نہاں خانوں میں چھپا کے رکھا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے الٹ تھے، عدن جو لڑکوں سے باتیں بھی نہیں کرتی تھی اس بات کو گناہ سمجھتی تھی تو وہیں حسیب لڑکیوں میں گھرا رہتا تھا اور کیفے میں بیٹھ کرا پنے دوستوں کے ساتھ لڑکیوں پہ کمنٹ پاس کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ عدن جو کہ گاؤں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خواب لئے پنجاب یونیورسٹی آئی تھی، سادہ لوح سی تھی، اس کا معصوم سا چہرہ اوراس کی آنکھیں اس کی معصومیت کی گواہی دیتے تھے۔ اس کی ایک ہی دوست بنی تھی زمرہ جو اس کی ہاسٹل میں روم میٹ بھی تھی اور کلاس فیلو بھی، پچھلے دو سال سے ان کی دوستی دن بہ دن گہری ہوتی جا رہی تھی۔
عدن نے جب سے حسیب کو دیکھا تھا تب سے ہی وہ ہر نماز میں اللہ سے ایک ہی دعا کرتی تھی، سجدے میں جا کر رونا اور ایک ہی دعا مانگنا۔
’اے میرے اللہ! میری محبت اس کے دل میں بھی پیدا کر دے، اسے میری قسمت میں لکھ دے، میری حق میں یہ دعا بہتر کر دے
عدن یہی چاہتی تھی کہ حسیب بات کرنے میں پہل کرے لیکن وہ اس سے بات کیوں کرتا؟ اسے کلاس میں صرف ایک لڑکی بری لگتی تھی اور وہ تھی ’عدن حاشر‘ سب سے پہلی بات وہ لڑکوں سے بات نہیں کرتی تھی اگر لڑکوں سے بات نہیں کرنی تھی تویونیورسٹی ہی نہ آتی۔۔ دوسری بات اس نے اپنی برتھ ڈے پارٹی پہ ساری کلاس کو انوائٹ کیا تھا لیکن عدن نہیں آئی تھی وش کرنا تو دور کی بات تھی یہ وہ باتیں تھیں جنہوں نے لا شعوری طور پہ اس کے ذہن میں جگہ بنا لی تھی اس امیر زادے نے خود سے عہد کر لیا تھا کہ وہ عدن حاشر کو اپنے سامنے جھکا کے ہی رہے گا۔ ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ اس نے اس کی آنکھوں کے رنگ پڑھ لیے تھے اور وہ انتظار میں تھا کے کب وہ اس سے بات کرے۔
٭٭
باب ۳
میرے دل کی تسلی کو فقط اتنا ہی کافی ہے
ہوا جو اس کو چھوتی ہے میں اس میں سانسیں لیتا ہوں
موسم ابرآلود تھا، عدن اور زمرہ کیفے سے باہر نکلیں، عدن کی کھوجتی نگاہیں زمرہ کو حیران کر رہی تھیں۔
’کہاں کھوئی ہوئی ہو؟ کسے ڈھونڈ رہی ہو میڈم؟‘ زمرہ کی بات پہ عدن کی آنکھیں ایک دم اداس ہو گئیں
’ہاں۔۔ نہیں۔۔ کچھ نہیں بس چلو‘ دونوں خاموشی سے چلتے ہوئے پارکنک ایریا میں آئیں اور رکشے میں بیٹھنے لگیں۔
سامنے سے حسیب اور اس کا دوست ہاشم گزرا تو زمرہ کو اچانک ہاشم کی کوئی بات یاد آ گئی وہی بتانے کے لئے عدن کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پہ مسکان تھی اور اس کی نظریں سامنے کھڑے حسیب پہ تھیں، اس نے بات کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ دونوں ہاسٹل آ چکی تھیں سارے دن کی تھکن اتارنے کے بعد میس سے کھانا کھا کر واک کے لئے ہاسٹل کے لان مین ٹہلنے لگیں، ادھر ادھر کی باتوں میں وقت گزار کر سونے چلی گئیں۔
عدن تو بے سدھ سو رہی تھی جبکہ زمرہ کو نیند ہی نہیں آ رہی تھی وہ اٹھی اور سامنے کھلے رجسٹر کو دیکھنے آئی، وہ عدن کی ٹیبل تھی، رجسٹرکے بیچ میں پین دبا ہوا تھا وہ کھولا تو ایک غزل کاغذ پہ جگمگا رہی تھی۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
جب واپسی کے سفر میں
دل میں اسے دیکھنے کی
معصوم سی خواہش جنم لیتی ہے
تو آنکھیں بیتابی سے
بھیڑ میں چاروں طرف
اپنے خوابوں کے شہزادے کو
ڈھونڈنے لگتی ہیں
لیکن پھر مایوس ہو کے
جھک جاتی ہیں اور پھر
بے پناہ اداسی لیے
واپسی کے سفر پے
قدم بڑھانے لگو تو اچانک
دل انوکھی طرز پہ
دھڑکنے لگتا ہے
آنکھیں دل کا پیغام پا کے
جب اوپر اٹھتی ہیں تو وہ
دشمن جان اپنی تمام تر
وجاہت لیے سامنے سے
آتا دکھائی دے تو
ایسا لگنے لگتا ہے کہ
اسے محسوس ہوتا ہے
جو میں اس کے لیے
محسوس کرتی ہوں
یہ محسور کن خیال
بہت مغرور کرتا ہے
اس کا نظر ہی آ جانا
بہت مسرور کرتا ہے
غزل پڑھنے کے بعد اور آج جس طرح اس نے حسیب کو دیکھا اس میں اب کسی شک کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی تھی۔ اگلے دن اس نے عدن سے بار ہا پوچھا جس پر پہلے پہل تو اس نے انکار کیا آخر میں اعتراف کر لیا جسے سن کر زمرہ نے مٹھی بھینچی اور اپنا سر دوسرے ہاتھ سے تھام لیا عدن کی سمجھ نہ آئے وہ آگے کیا کہے
’تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ہے؟ دو سال عدن دو سال تم نے ایسے انسان کے لئے ضائع کر دیئے جو کسی صورت تمہارے لائق نہیں! ایسا کیا دیکھ لیا تم نے اس میں؟ اس مسٹر بین میں کیا نظر آیا مجھے بھی بتاؤ، اس کا حسنِ اخلاق؟؟ اس کی اخلاق کی تو خیر بات ہی کیا کرنی وہ تو تم بھی اچھے سے جانتی ہو بلکہ سب ہی جانتے ہیں‘
زمرہ کی بات کے بعد اس نے کچھ بولنا چاہا تھا لیکن زمرہ کے غصے میں ہونے کی وجہ سے چپ ہو گئی۔
’اب کیا ہے؟‘ زمرہ نے ابرو اچکا کر پوچھا
’مجھے اس کا نمبر چاہئے، دیکھو میں بس اس سے ایک دفعہ بات کرنا چاہتی ہوں‘
’تم پاگل ہو کیا واقعی؟؟ دیکھو میں اس کا نمبر نہیں لے سکتی اور اگر ملا بھی تو تمہیں نہیں دوں گی‘ زمرہ کی بات پر عدن نے رونا شروع کر دیا وہ بضد تھی، روبرو تو اس میں بات کرنے کی ہمت ہی نہ تھی زمرہ نے کافی سمجھایا وہ نہ مانی روتی رہی ایسے میں زمرہ اسے سنبھال ہی نہیں پا رہی تھی اور G.R سے نمبر لینے کا وعدہ کر لیا تھا۔
٭٭
باب ۴
رب دی منگی ضایا نئی جاندی
منگ ویکھ دعا تیری جان چھٹے
اینج مار نہ مینوں قسطاں وچ
یک مشت مکا تیری جان چھٹے
’حسیب جہانگیر؟؟؟‘ عدن نے میسج ٹائپ کر کے اس کے نمبر پہ سینڈ کیا۔ میسج کی بیپ پہ وہ اٹھ بیٹھا لائٹ آن کی اور سائیڈ ٹیبل پہ رکھا سیل
فون اٹھایا۔ نامعلوم نمبر سے میسج تھا۔ (ہوز دئیر؟؟) لکھ کے اس نے سینڈ کر دیا۔ (عدن حاشر) وہ جو ٹیک لگا کے بیڈ پہ بیٹھا تھا میسج پڑھتے ہی سیدھا ہو کے بیٹھ گیا اور کھل کے مسکرا دیا دو سال میں تمہارے میسج کا انتظار کیا ہے بہت انتظار کروایا ہے تم نے اس نے سوچا اور (ہاں بولو) لکھ کے سینڈ کر دیا۔ تو عدن نے دھڑکتے دل کے ساتھ اپنی لکھی ہوئی غزل سینڈ کر دی۔ غزل پڑھ کے وہ مسکرا دیا دلآویزی سے۔ اور اس کا آخری مصرع زیر لب دہرایا۔۔ اس کا نظر ہی آ جانا، بہت مسرور کرتا ہے۔ اس نے ٹائپ کیا (میرے جیسے بندے کو ان باتوں کی سمجھ نہیں آتی)۔۔ (یہ تم میری انسلٹ کر رہے ہو) میسج پڑھ کے وہ قہقہہ لگا کے ہنس دیا کیا چیز ہے یہ اسے کیسے پتہ چل گیا کہ میں اس کی انسلٹ کر رہا ہوں (انسلٹ کیسی مجھے اتنی مشکل اردو سمجھ ہی نہیں آتی)۔ عدن کو اس کا میسج پڑھ کے لگا وہ جھوٹ بول رہا ہے (نا کرو ایسا میں مر جاؤں گی حسیب۔۔) میسج پڑھ کے اس کی عجیب سی کیفیت ہوئی تھی لیکن اس نے اگنور کر دیا (آئی ڈونٹ کیئر)۔۔ اس کا جواب پڑھ کے کب کے روکے ہوئے آنسو بہہ نکلے کیا اس شخص کو واقعی کوئی فرق نہیں پڑے گا؟؟؟ (اگر اتنی ہی نفرت ہے تو سچے دل سے مجھے مرنے کی دعا ہی دے دو سچے دل سے مانگی گئی دعا ضرور قبول ہوتی ہے)۔ اس کے دل کو پھر کچھ ہوا تھا لیکن کیوں؟؟؟ وہ سمجھنے سے قاصر تھا ساری خوشی اداسی میں بدل گئی لیکن کیوں؟؟ وہ اسے جھکا نا چاہتا تھا اور آج جب وہ جھک گئی تھی تو اس کی حالت کیوں عجیب سی ہو رہی تھی۔۔ (پلیز عدن۔۔۔ میں تمہاری کوئی بات نہیں مان سکتا۔ اور کوئی کسی کے لیے نہیں مرتا، محبت کچھ نہیں ہوتی۔۔۔ اور میں نکاح سے پہلے کی محبت پہ یقین نہیں رکھتا۔ مجھے نیند آ رہی ہے میں سونے لگا ہوں بائے۔۔)۔۔۔ (مرے ہوئے لوگ بہت یاد آتے ہیں حسیب تم دیکھنا ایک دن تمہیں بھی میں یاد آؤں گی لیکن تب بہت دیر ہو چکی ہو گی۔۔ تب تم بہت رو ؤ گے۔۔) اس نے میسج سینڈ کر کے سیل آف کر دیا اور تکیے میں چہرہ رکھ کے پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔۔۔
زمرہ واک کر کے آئی تو اسے اس طرح روتے دیکھا تو بہت مشکل سے اسے چپ کروایا اور اسے سمجھایا کے نا محرم سے محبت کرنا اسلام میں بھی جائز نہیں لیکن اب وہ جس طرح اس کے ہاتھوں پہ چہرہ رکھ کے روئی تھی خود اسے رونے پہ مجبور کر دیا تھا۔
اگلے دن عدن نے یونیورسٹی جانے سے انکار کر دیا تو زمرہ نے بھی اسے جانے کے لیے فورس نا کیا وہ سمجھ رہی تھی فی الحال وہ حسیب کا سامنا نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔ شام کو وہ دونوں ویک اینڈ گزارنے کیلیے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئیں۔
٭٭
باب ۵
تیری حیات کا ہر لمحہ شادماں گزرے
بہار سجدہ کرے تو جہاں جہاں گزرے
زمرہ ویک اینڈ گزار کے واپس آ ئی تو عدن ابھی تک نہیں آئی تھی اس نے دوپہر تک انتظار کیا لیکن جب وہ دوپہر تک بھی نہیں آئی تو اس نے اس کا نمبر ملایا لیکن وہ بند جا رہا تھا اس کی جو حالت تھی اس کے پیش نظر زمرہ کیا س کے لیے فکر مندی لازمی تھی اسی طرح تین دن گزر گئے لیکن اس کا نمبر مسلسل آف جا رہا تھا اگلا جمعہ آ گیا تھا آج صبح سے ہی اس کا دل گھبرا رہا تھا اس نے یونی سے بھی آج آف کر لیا تھا اس نے نماز جمعہ ادا کی اور سورہ کھف کی تلاوت کر کے اللہ سے سب اچھا ہونے کی دعا مانگی تو اس کے سیل پہ رنگ ہوئی اس نے دیکھا تو عدن کا لنگ جگمگا رہا تھا اس نے شکر کا کلمہ ادا کیا اور ایک منٹ کی تا خیر کیے بنا کال اٹینڈ کی اور ساتھ ہی نان سٹاپ بولنا شروع ہو گئی ” عدن کی بچی پتہ میں کتنا پریشان رہی ہوں پورا ہفتہ، بے مروت کوئی ایسا بھی کرتا ہے کے پکڑ کے موبائل ہی آف کر دو بس اب جلدی سے واپس آ جاؤ میں تمہاری اچھی خاصی کلاس لینی ہے۔ ” اسے اپنی بات کے جواب میں صرف ہچکیوں کی آواز سنائی دی تھی
"آپا، عدن آپا چلی گئی ہیں ہم سب کو چھوڑ کے۔۔۔ آپ بس جلدی سے آ جاؤ اپنی دوست کا آخری دیدار کر لو۔ ” یہ الفاظ تھے یا پگھلا ہوا سیسہ جو کسی نے اس کے کانوں میں انڈیلا تھا اسے لگا کے وہ مر گئی ہو جیسے اس کا سانس بند ہونے لگا ہو لیکن نہیں وہ زندہ تھی اس نے بے جان ہوتے جسم کے ساتھ ان کے گاؤں کا ایڈریس پوچھا تھا۔
۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔
غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلے آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی
انہیں گاؤں پہنچنے میں ڈھائی گھنٹے لگے تھے مغرب کے بعد جنازہ تھا اور مغرب ہونے میں صرف آدھا گھنٹہ رہ گیا تھا اس کی نظروں کے سامنے اس کی عزیز از جان دوست ساری دنیا سے ناراض ہو کے اب پر سکون نیند سو رہی تھی یہ حسین آنکھیں جنہوں نے حسیب کے سا تھ کے سپنے دیکھے تھے آج بند تھیں یہ پھول جیسے خوبصورت ہونٹ جو حسیب کو دیکھ کے مسکرا اٹھتے تھے آج خاموش تھے لوگ کہہ رہے تھے پہلی دفعہ "کسی میت پہ اتنا نور دیکھا ہے حسیب میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی تمہیں میری آہیں لگیں گی تمہاری وجہ سے میری دوست مجھ سے چھن گئی ہے بہن بھائی سے ان کی بہن چھن گئی ہے ماں باپ سے ان کی بیٹی چھن گئی ہی” جنازے کا وقت ہو گیا تھا وہ اسے لے کے جا رہے تھے اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے جسم کا کوئی حصہ نکال کے لے جایا جا رہا ہو
وہ اس کی امی اور بہن کے ساتھ لگ کے چیخیں مار مار کے روئی تھی۔
٭٭
باب ۶
کس کس ادا سے تجھے مانگا ہے رب سے
آ مجھے سجدوں میں سسکتا ہوا دیکھ
وہ رات انہوں نے ادھر ہی گزاری تھی ساری رات اس نے اور عدن نے عدن کی باتیں کرتے گزاری تھی اس نے عدن سے پوچھا "کیا ہوا تھا عدن کو؟؟؟”
"آپی جب اس دفعہ گھر آئی تھیں تو بہت چپ چپ اور اداس تھیں وہ زیادہ وقت اپنے کمرے میں ہی رہنے لگی تھیں اور جائے نماز پہ بیٹھ کے روتی رہتی تھیں میں نے اور امی نے بہت پوچھا تھا کہ کیوں روتی ہیں آپ؟؟ کیا ہوا ہے؟؟؟ تو بس اتنا ہی کہتی تھیں مجھے لگتا میرا اللہ مجھ سے ناراض ہے بس اسے ہی منا رہی ہوں جس دن اللہ نے مجھے معاف کر دیا میں خود بہ خود پر سکون ہو جاؤں گی اور پھر کل وہ جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد ہم سب کے درمیان آ کے بیٹھی تھیں ہم سب بہت خوش ہوئے وہ بات بات پہ مسکرا رہی تھیں لیکن ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ انہوں نے صوفہ سے ٹیک لگا لی میں نے
انہیں پکارا تو انہوں نے کوئی جواب نہ دیا امی نے آ پی کو ہلایا لیکن وہ بے جان ہو چکی تھیں ہم نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یوں اچانک آپی چلی جائیں گی” اس نے عدن کو اپنے ساتھ لگا لیا۔ اور صبح پھر جب وہ واپس آنے لگیں تو عدن نے سرخ رنگ کی ڈائری لا کے اسے دی ” یہ آپی کی ڈائری ہے آپ ان کی بیسٹ فرینڈ ہیں اس میں جو لکھا ہو سکتا آپی نے وہ آپ سے شیئر کیا ہو اور ہم سے نہ۔ تو جب انہوں نے اپنی زندگی میں کوئی بات ہمیں نہیں بتا ئی تو میں اب ان کے جانے کے بعد جاننا نہیں چاہوں گی اگر میں یہ ڈائری پاس رکھی تو ایک نہ ایک دن ضرور پڑھوں گی اس لیے یہ آپ ہی رکھ لیں۔” اس نے بڑی بہنوں کی طرح اسے اپنے ساتھ لگا کے پیار کیا اور ڈائری لیے واپس آ گئی۔
٭٭
باب ۷
اے محبت تجھے پانے کی کوئی راہ نہیں
تو، تو اس کو ملتی ہے جس کو تیری پرواہ نہیں
ساری ڈائری میں صرف ایک ہی شخص کی باتیں تھیں اس کی آنکھوں سے پھر ڈھیر سارے آ نسو بہ نکلے تھے ڈائری سے ایک فولڈ ہوا پیپر ملا اس نے اسے کھولا۔۔۔
"میری پیاری دوست زمرہ خدا تمہیں ہمیشہ سلامت رکھے یہ خط تم تک تب ہی پہنچے گا جب میں اس دنیا میں نہ رہوں گی اگر زندہ رہی تو پھر تو روبرو ہی ملاقات ہو جائے گی۔ پتہ نہیں مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے اب اللہ میری دعا قبول کر لیں گے مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں اتنی ہی زندگی لکھوا کے لا ئی ہوں مجھے نہیں پتہ میں کتنی گنہگار ہوں لیکن خدا گواہ ہے میں اپنی ساری زندگی گناہوں سے بچنے کی پوری کوشش کرتے گزاری ہے لیکن گناہوں سے بچتے بچتے بھی یہ عظیم گناہ سرزد ہو گیا ہے تم نے ٹھیک ہی کہا تھا اللہ نے تو قرآن پاک میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ نا محرم سے محبت جائز ہے اللہ نے تو نا محرم سے بات کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ لیکن زمرہ یہ بھی تو دیکھو نہ کہ اللہ نے تو کو ایجوکیشن میں پڑھنے سے بھی منع فرمایا ہے لیکن یہ گناہ تو کسی کو نظر نہیں آئے گا نا۔
دو سال میرے دل میں نا محرم کی محبت رہی اور حد یہ کہ میں سجدوں میں جا جا کے رو رو کے دعائیں مانگی ہیں اور تمہیں پتہ جب تک میں زندہ رہنا تھا میں ایسا ہی کرنا تھا اس کی محبت دن گزرنے کے ساتھ بڑھتی ہی جانی تھی سو اس لیے میں اللہ سے کہا کہ وہ مجھے مزید گناہ کرنے سے بچا لیں اور اب مجھے قوی یقین ہے کہ اللہ کسی بھی طرح مجھے مزید گناہ کرنے سے بچا لیں گے۔ جب میں اس دنیا میں نہ رہوں گی تو کیا پتہ پھر ہی میں اسے کبھی یاد آ جاؤں۔ اس نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا زمرہ؟؟ کیا وہ واقعی پتھر دل ہے؟؟؟ کیا اس پہ جذبے اثر نہیں کرتے؟؟؟؟ وہ نکاح سے پہلے کی محبت پہ یقین نہیں رکھتا چلو وہ جیسا بھی ہے اس سے یہ گناہ تو سرزد نہیں ہو گا نا؟ اور مجھے پتہ میں اسے کبھی یاد نہیں آؤں گی زمرہ میں اسے کہا تھا میں مر جاؤں گی تو اس نے کہا تھا مجھے پروا نہیں۔۔۔ کیا اسے سچ میں پروا نہیں ہو گی؟؟؟ کوئی اشرف المخلوقات ہو کے اتنا ظالم کیسے ہو سکتا ہے؟؟؟ میں پورا ہفتہ اللہ سے معافی مانگی ہے اور آج مجھے سکون ملا ہے ایسا لگ رہا ہے اللہ نے مجھے معاف کر دیا ہے نماز جمعہ کا وقت ہو گیا ہے تم ہمیشہ اپنا ڈھیر سا را خیال رکھنا۔۔۔ تمہاری دوست عدن حاشر”
وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔
٭٭
باب ۸
کاش کہ وہ لوٹ آئے مجھ سے یہ کہنے
میں کون ہوتا ہوں تم سے بچھڑنے والا
پتہ نہیں کیوں اس سے بات کرنے کے بعد اب افسوس ہو رہا تھا کہ اس کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور جب وہ اگلے دن یو نیورسٹی بھی نہ آئی تو اس کا دل بے چین ہوا تھا لیکن اس نے پھر اگنور کر دیا۔ لیکن جب وہ اگلا ہفتہ بھی نہ آئی تو اس کا دل اسے دیکھنے کیلیے مچلنے لگا۔ وہ ہفتہ کی رات تھی جب اس نے خود سے اعتراف کر ہی لیا کہ حسیب جہانگیر کو عدن حاشر سے آخر محبت ہو ہی گئی تھی اور آخر کیوں نہ ہوتی چاہا جانا کتنا خوبصورت احساس ہوتا ہے اور جب ہم دو سال سے کسی کی آنکھوں میں اپنے لیے خاموش محبت کے رنگ دیکھتے آ رہے ہوں، ابن آدم اعتراف کر رہا تھا بنت حوا کی بیٹی سے محبت کا لیکن کب؟؟؟؟؟ اس کے اس دنیا سے جانے کے اگلے دن۔ اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ صرف اس سے بچنے کے لیے یونی نہیں آ رہی تو اس نے اسے کال کرنے کا سوچا لیکن جب نمبر ملایا تو وہ آف تھا کوئی بات نہیں سوموار والے دن فیس ٹو فیس بات ہو جائے گی، اس نے سوچا۔ اس نے بہت مشکل سے اتوار کا دن گزارا تھا اور سوری کا خوبصورت سا کارڈ خریدا اور گولڈ کا نیکلس جس پہ باریک سا عدن حسیب لکھا تھا سپیشل آرڈر پہ بنوایا اسے پرپوز کرنے کے لیے۔ سوموار والے دن وہ ابھی کلاس میں داخل ہوا ہی تھا تو سب زمرہ کے گرد اکھٹے تھے اس نے بھی پاس جا کے پوچھا "ہیلو گائز کیا ہوا ہے؟؟؟”
"عدن کی فرائیڈے والے دن ڈیتھ ہو گئی ہے” اس کی کلاس فیلو جویریہ نے جواب دیا۔ وہ لڑکھڑایا تھا "تم مذاق کر رہی ہو نا؟؟؟”
اس نے جویریہ سے کہا
سب حسیب کی بات سن کے بے یقینی سے اسے دیکھنے لگے کہ اسے کیا ہوا اس کا رنگ ایسے ہو رہا تھا جیسے کسی نے سارا خون نچوڑ لیا ہو زمرہ نے حقارت سے اس کی طرف دیکھا تھا اور اٹھ کے کلاس سے باہر چلی گئی۔ حمزہ نے حسیب کو پکڑ کے کرسی پہ بٹھایا تھا "حسیب تم ٹھیک تو ہو نا؟؟” زاویار نے پوچھا تھا۔۔۔ اور اس نے اپنے دائیں ہاتھ کی مٹھی زور سے بھینچ لی جس کے اندر دو لفظ جگمگا رہے تھے۔ عدن حسیب۔ اسنے کرسی کی بیک پہ سر ٹکا کے آنکھیں موند لیں اووہ اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو چھپانا چاہتا تھا،
میری سانسیں گروی رکھ کے
کاش کوئی مجھے لوٹا دے
وہ گزرے وقت کی کچھ ساعتیں
جس میں پھر ایک بار
وہ مجھ سے اقرار محبت کرے
اور اس بار میں اس کے
حسین لبوں کو چوم لوں
اسے اپنا محرم بنا لوں
اسے اپنی محبت سے امر کر دوں
میں اپنی جان بھی اس پہ وار دوں
میں اس کی حسیں آنکھوں کے سارے
آنسو اپنے لبوں سے چن لوں
بس کوئی مجھے ایک بار پھر لوٹا دے
وہ گزرے وقت کی کچھ ساعتیں
٭٭٭
تشکر: ’کتاب‘ ایپ
www.idealideaz.com
www.kitaabapp.com
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں