اُجالوں کا سفر
سمیرا گل عثمان
’پت جھڑ سنگ بہار‘ نامی مجموعے میں شامل ایک طویل کہانی/ناولٹ
ڈاؤن لوڈ کریں
ہالینڈ کے شہر ڈین ہیگ کے ساحل کی گیلی ریت سورج کی روپیلی شعاعوں سے دمک رہی تھی۔ آج سورج روشن تھا اور ڈین ہیگ کے باسی دھوپ کو کسی رنگین تہوار کی مانند سیلبریٹ کرتے تھے۔
بیلا کی سرمئی اداس آنکھوں نے دور تک ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو دیکھا نیلگوں پانیوں میں جھلکتا اس کا عکس بے پناہ دلفریب تھا۔ جینز کے پائنچوں کو فولڈ کرتے ہوئے اس کا دل چاہا، وہ ایک ہی جست میں سارا سمندر پار کر جائے شاید اس کی ذات سے بچھڑا وہ ممتا کی شفقت سے بھرپور ہجر کا مارا وجود لہروں کے اس پار کہیں مل جائے۔ عجیب خواہش تھی سرمئی آنکھوں پر سایہ فگن پلکوں کی جھالر نم آلود ہو گئی۔
’’بیلا کم آن۔‘‘ وہ چاروں اسے بلا رہی تھیں کیتھرین نے فٹ بال اس کی سمت اچھال دیا تھا جسے اٹھانے کو وہ نیچے جھکی تو دور اپنی گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگا کر کھڑے مانیک کی نظریں اس کی گوری سڈول پنڈلیوں پر جم سی گئیں اس نے فٹ بال اٹھایا۔
فٹ بال لہروں پہ اچھلتا رینگتا ہوا اس کی سمت چلا آیا تھا اور وہ سنہری دھوپ سی لڑکی اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے اب اس کے مقابل کھڑی ہانپ رہی تھی۔ وہ بلاشبہ بہت حسین تھی یہاں موجود لڑکیوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اور ممتاز۔
اس نے آگے بڑھ کر فٹ بال اٹھا لیا اگرچہ یہ کافی نازیبا حرکت تھی مگر وہ اسے مزید کچھ پل نظروں کی گرفت میں رکھنا چاہتا تھا۔ نیچے بال اٹھانے کو جھکی بیلا نے اس بے ہودہ حرکت پر قدرے ناگواری سے اسے دیکھا تھا۔ مانیک کے لبوں پر دوستانہ سی مسکراہٹ تھی۔
’’فٹ بال واپس کرو۔‘‘ اس کا انداز روکھا سا تھا۔
وہ اپنی ماں الزبتھ کے ساتھ نیویارک میں رہتی تھی اس کا سارا بچپن لڑکپن اور جوانی کا ابتدائی دور وہیں گزرا تھا۔ الزبتھ استھما کی مریضہ تھی اس کی اچانک ڈیتھ کے بعد چند روز قبل وہ ہالینڈ اپنے ماموں رابرٹ کے گھر شفٹ ہوئی تھی جو اپنی بیوی جینفر اور اکلوتی بیٹی کیتھرین کے ساتھ رہتا تھا۔
مانیک کو پہلی بار اس نے دو روز قبل یونیورسٹی میں دیکھا تھا۔ وہ بلا کا ہینڈ سم اور ڈیشنگ تھا لیکن اس کا گیٹ اپ انتہائی لوفرانہ اور لا ابالی لڑکوں جیسا تھا۔ وہ چین اسموکر تھا اور بیلا سگریٹ پینے والوں سے سخت الرجک تھی۔
ہاں وہ وائلن بہت اچھا بجاتا تھا اور یونیورسٹی کی ہر لڑکی اس کے وائلن پر فدا تھی۔
وہ اور کیتھرین پری انجینئرنگ کی اسٹوڈنٹس تھیں جبکہ مانیک ایم بی اے کے فائنل سمسٹر میں تھا اور اپنی تمام تر فضولیات کے باوجود وہ یونیورسٹی کا ذہین اور فعال اسٹوڈنٹ تھا۔
جو اپنے اساتذہ کا بے حد احترام کرتا تھا اور بوقت ضرورت ہر کسی کے کام آتا تھا۔
کیتھرین نے یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے مانیک کے متعلق معلومات فراہم کر دی تھیں مگر بیلا کو وہ بالکل پسند نہیں آیا تھا تب ہی تو اس کی دوستانہ مسکراہٹ کے باوجود بھی اس کا انداز روکھا سا ہی رہا تھا۔
’’ہیلو مانیک! کم آن جوائن از‘‘ کیتھرین نے دور سے ہاتھ ہلاتے ہوئے اسے اپنے ساتھ کھیل میں شامل ہونے کی دعوت دی تو اس نے فٹ بال ہوا میں اچھال کر لہروں کے سپرد کر دیا۔
اب کیتھرین، جولیا، سوزین اور انجلین کے ساتھ وہ بھی کھیل رہا تھا جبکہ بیلا منرل واٹر کی بوتل منہ سے لگائے بنچ پر بیٹھی بے نیازی سے بالوں میں انگلیاں چلا رہی تھی۔
اسے مانیک کا کھیل میں شمولیت اختیار کرنا اچھا نہیں لگا جسے محسوس کرتے ہوئے مانیک کو افسوس سا ہوا۔
٭٭٭
واپسی پر انہوں نے گاڑی ایک اٹالین پزا شاپ پر روکی تھی۔ بیلا نے رسٹ واچ پر نگاہ دوڑاتے ہوئے آنکھوں کے خفیف سے اشارے کے ساتھ کیتھرین کو روکنا چاہا تھا جسے نظر انداز کرتے ہوئے وہ اس کا ہاتھ کھینچ کر گاڑی سے اتر گئی تھی۔
یہ ریڈلینڈ کروزر سوزین کی تھی وہ کیتھرین کی سب سے امیر دوست تھی اس کا شمار ڈین ہیگ کی ٹاپ اپر کلاس فیملز میں ہوتا تھا، وہ اپنی دولت بے دریغ دوستوں پر لٹایا کرتی تھی اس کی وجہ سے وہ لوگ ان جگہوں پر بھی گھوم چکے تھے عام حالات میں جہاں جانے کا تصور بھی ناگزیر تھا۔
کیتھرین کو لگ رہا تھا وہ کسی نئی دنیا میں قدم رکھ چکی ہے بوائے فرینڈ، اور ڈسکو پارٹیز اب زندگی کا لازمی جز تھے، بہت سی چیزیں تھیں جن کا ذائقہ اس نے پہلی بار چکھا تھا گناہوں کی لذت نے اس قدر مد ہوش کیا کہ اب رابرٹ کے اصول اور ان پر لگائی گئی پابندیاں انتہائی دقیانوسی لگنے لگی تھیں۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ نن نہیں بنے گی اب زندگی کو اسے اپنی مرضی سے جینا تھا۔
پزا شاپ سے وہ چاروں اکیلی باہر نہیں آئی تھیں۔ اب ان کے ساتھ ان کے بوائے فرینڈز بھی تھے اور سب کا ارادہ کیسینو جانے کا تھا۔
’’سوزین! مجھے راستے میں ڈراپ کر دینا۔‘‘ بیلا نے کیتھرین کی ڈھٹائی پر کڑھتے ہوئے سوزین سے کہا تو پہلا اعتراض انجلین نے کیا۔
’’گھر جا کر کیا کرو گی؟ ہمارے ساتھ چلو۔ دیکھنا! تمہیں کتنا انجوائے کرواتے ہیں۔‘‘
’’اگر وہ نہیں جانا چاہ رہی تو زبردستی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ جولیا نے اپنے لبوں پر سرخ لپ اسٹک کی تہہ جماتے ہوئے فوراً بیلا کی حمایت کی۔ اس نے نوٹ کیا تھا کہ ہیلر کا دھیان اس سے زیادہ بیلا پر تھا وہ تو دل سے چاہ رہی تھی کہ بیلا ان کے ساتھ نہ جائے۔ سوزین نے اسے قریبی اسٹاپ پر اتار دیا تھا۔
٭٭٭
’’کیتھرین کہاں ہے۔‘‘ جنیفر آنٹی نے کھانا میز پر لگا دیا تھا وہ فریش ہو کر نیچے آئی تو رابرٹ نے اس کے عقب میں دیکھتے ہوئے استفسار کیا۔ بیلا نے لب کھولے لیکن پھر جھوٹ بولنا پڑا۔
’’انکل! ایک ضروری اسائنمنٹ تیار کرنا تھی، وہ انجلین اور جولیا سوزین کے گھر گئی ہیں۔‘‘
’’اتنی رات کو …‘‘ ان کے ابرو تن گئے۔
’’بیلا! یہ سوپ پروفیسر صاحب کو دے آؤ۔ ان کو کل رات سے فلو ہے۔‘‘ جنیفر آنٹی نے اس کی مشکل آسان کر دی تھی۔ وہ جھٹ سے باؤل اٹھا کر غائب ہو گئی۔ ورنہ رابرٹ انکل بال کی کھال اتارنے والوں میں سے تھے۔ ویسے بھی ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا، وہ خود بھی چرچ میں بابو تھے اور ان کی خاندانی روایت کے مطابق کیتھرین کو آگے جا کر نن بننا تھا سو وہ بچپن سے ہی اس کی زندگی کے تمام معمولات پر گہری نگاہ رکھے ہوئے تھے۔
لیکن کیتھرین کے اندر جو بغاوتیں سر اٹھا رہی تھیں، بیلا ان کے متعلق سوچ کر کافی پریشان تھی۔
ان کے اپارٹمنٹ کے سامنے والا گھر پروفیسر ولیم کا تھا۔ وہ اکیلے رہتے تھے اور آج کل ریٹائرڈ لائف کے مزے لوٹ رہے تھے۔ بیلا اکثر فارغ وقت میں ان کے پاس آ جایا کرتی تھی، وہ کافی پر خلوص اور خوش مزاج انسان تھے بڑھتی عمر اور بیماری نے بھی ان کے خوش گوار موڈ پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں کیے تھے۔
بیلا کو ان کی پرانی یادیں سننے میں بہت مزا آتا تھا، وہ بھی انتہائی ذوق و شوق سے اپنے قصے سنایا کرتے تھے جس سے دونوں کا بہت سارا وقت اچھا گزر جاتا تھا۔
٭٭٭
گرمیوں کی چلچلاتی دوپہروں میں جب سب لوگ گھروں میں دبکے آرام دہ ٹھنڈے کمروں میں خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔ وہ عقبی صحن کے دالان میں ٹہلتی بے تحاشا بور ہو رہی تھی اسے شانی، ابا اور بی اماں سب یاد آ رہے تھے، وہ اس وقت کو کوس رہی تھی جب اس پر میڈیکل کی ڈگری کا بھوت سوار ہوا تھا اور وہ وادیِ کوہستان کی نرم ٹھنڈی خوش گوار فضاؤں کو چھوڑ کر یہاں لاہور میں آن بسی تھی حالانکہ اس کے ساتھ پھوپھو در نایاب اور زریاب بھی تھے۔
در نایاب تو یونیورسٹی سے آتے ہی کھڑکیاں بند پردے برابر کر کے بستر پہ ڈھیر ہو چکی تھی۔ رہا زریاب تو اس سے ابھی تازہ ترین جھگڑا ہوا تھا۔
دالان کے سامنے بڑا سا باغیچہ تھا جہاں آم کے درخت پر لگی کیریاں اسے دور سے ہی دکھائی دے گئی تھیں۔
’’علی پور کا ایلی‘‘ اس کے بیگ میں تھا جو وہ کل ہی کالج سے لے کر آئی تھی اور اب جھولے میں بیٹھی کیری کو نمک مرچ لگا کر کھاتے ہوئے ناول پڑھنے میں … منہمک تھی۔
جھولے کے اوپر بوگن ویلیا کی بڑی بڑی بیلیں تھیں، چمن کے گلابی اور سفید پھول ہوا کے مدھم جھونکوں کے ساتھ اس کے زرد آنچل دامن اور جھولے کے اردگرد خشک گھاس پر گر رہے تھے۔
ابھی اس نے ایک صفحہ بھی ختم نہیں کیا تھا جب کوئی پتلی سی چیز اس کے پاؤں کے اوپر رینگی اور ساتھ ہی زریاب کی چیخ نما آواز۔
’’سانپ سانپ۔‘‘ وہ ناول پھینک کر اچھلی اور بس پھر اس کی وحشت زدہ چیخوں نے سارا کمال ہاؤس ہلا دیا۔
گہری نیند میں ڈوبی در نایاب کی آنکھ کھلنے کی وجہ یہ شور اور ہنگامہ ہی تھا اس نے سرعت سے اٹھ کر کھڑکی کھولی اور عقبی لان میں جھانکا۔ مہک ایک ٹانگ پر کھڑی آنکھیں بند کیے مسلسل چیخ رہی تھی۔ کچھ فاصلے پر کھڑا زریاب اس کی حالت سے محظوظ ہو رہا تھا۔
’’کیا ہو رہا ہے یہ سب؟‘‘ اس نے آتے ہی کڑے تیوروں سے دونوں کو گھورا۔
’’پھوپھو۔ سانپ‘‘ مہک روہانسے لہجے میں بولی۔
’’کہاں ہے ؟‘‘ اس نے ادھر ادھر جھانکا پھر زریاب کا کان کھینچ کر بولی۔
’’کہاں ہے سانپ؟‘‘
’’کون سا سانپ۔‘‘ وہ یوں بولا جیسے سرے سے وہاں موجود ہی نہ ہو یا پھر صورت حال اس کے فہم سے بالاتر ہو یا یہ شوشا کسی اور کا چھوڑا ہوا ہو در نایاب نے کان پر گرفت مضبوط کر دی تھی۔ وہ درد سے بلبلا اٹھا۔
’’میرا کان تو چھوڑیں۔‘‘ اس نے مصنوعی دہائی دی۔ مہک نے بند آنکھوں کے ساتھ ہی اپنے پیروں کی سمت اشارہ کیا تھا۔ در نایاب نے نیچے جھک کر دیکھا اس کی شلوار کے ساتھ گندم کا سٹہ چمٹا ہوا تھا۔
’’مہک تم بھی نا۔‘‘ اس نے سٹہ اتار کر دور پھینکا۔
’’تو پہلے اس نے ہی شور مچایا تھا۔‘‘ وہ کھسیانی سی ہو کر بولی۔
’’تو تم نہ مچاتیں۔‘‘ وہ مزے سے بولا۔
در نایاب چلی گئی تو مہک خشمگیں نظریوں سے گھورتے ہوئے تن فن کرتی اس پر جھپٹی۔
’’میں تمہارا منہ نوچ لوں گی۔‘‘
زریاب نے اس کے دونوں بازو اپنی مضبوط گرفت میں جکڑ لیے تھے۔
’’نوچ کر دکھاؤ۔‘‘ وہ اس کی سنہری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اتنے گمبھیر لہجے میں بولا کہ مہک کی دھڑکنیں اتھل پتھل ہو کر رہ گئیں۔
’’میرا بازو چھوڑو۔‘‘ ساری اکڑفوں نکل گئی۔
زریاب ہنستے ہوئے پلٹ گیا تھا۔
اور وہ اپنا بازو سہلاتے ہوئے اس کی پشت کو گھورتی رہ گئی۔
٭٭٭
وہ فیس بک پہ بیٹھی مختلف ٹاپکس اور کمنٹس دے رہی تھی۔ جب اچانک ایک ونڈو باکس سامنے کھل گیا جہاں مختلف خاکے بنے ہوئے تھے اور ساتھ لکھی عبارت پر نگاہ پڑتے ہی اس کا چہرہ طیش کے باعث سرخ پڑ گیا ماؤس پٹختے ہوئے اس نے سسٹم شٹ ڈاؤن کر دیا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ کیتھرین اس کے بدلتے موڈ پر چونک پڑی۔
’’میری سمجھ میں نہیں آتا، یہودی اور عیسائی … مسلم پرافٹ کی شان میں ایسی گستاخانہ حرکتیں کیوں کرتے ہیں۔ کبھی تم نے کسی مسلم شخص کو دیکھا ہے کہ اس نے ہمارے یسوع کی شان میں کبھی کوئی گستاخی کی ہو … کبھی خاکے بنائے ہوں یا کوئی کالم لکھا ہو؟ جب وہ ہمارے یسوع کا اتنا احترام کرتے ہیں تو پھر ہمیں ایسی سطحی حرکتیں زیب نہیں دیتیں۔‘‘ غصے سے اس کا خون کھول رہا تھا۔ بس نہیں چلتا تھا کہ ایسے لوگوں کو گن گن کر شوٹ کر دے۔
’’تم اتنی ہائپر کیوں ہو رہی ہو؟ اس لیے کہ تمہارے ڈیڈ مسلم ہیں ؟‘‘ کیتھرین کو شاید اس کا اتنا شدید ردِّ عمل عجیب لگا تھا۔ جبکہ وہ اس کی بات پر مزید طیش میں آ گئی۔
’’مذہب کا تعلق انسانوں سے ہوتا ہے رشتوں سے نہیں۔‘‘
’’تم نے ہمارے۔ یسوع کہا۔ انٹرسٹنگ۔ جبکہ تم مقدس انجیل کو نہیں مانتیں۔ ’’کیتھرین کو خوشی ہوئی تھی لیکن انجانے میں پھر طنز کر گئی۔
’’میں مقدس انجیل کو تم سے زیادہ مانتی ہوں۔ ہاں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کو عقل تسلیم نہیں کرتی اور میں لکیر کی فقیر نہیں ہوں، میرے پاس عقل بھی ہے اور شعور بھی۔‘‘
’’کیوں خود کو الجھاتی ہو۔‘‘ کیتھرین کو اس پر بے پناہ ترس آیا۔
’’کیونکہ یہ الجھنیں مجھے وراثت میں ملی ہیں۔‘‘ آنکھیں موند کر اس نے منہ پر تکیہ رکھ لیا۔
٭٭٭
وہ پانچوں یونیورسٹی کے لان میں بیٹھی اپنے اپنے افیئرز ڈسکس کر رہی تھیں۔
’’انتھونی سے تو میں اکت اچکی ہوں۔ میری نظر آج کل اس ایشین لڑکے پر ہے اس کے بلیک ہیئر اور بلیک آئیز اتنی اٹریکٹو ہیں اف! میری تو ہارٹ بیٹ بڑھ جاتی ہے اسے دیکھ کر۔‘‘ جولیا نے دور کھڑے لڑکے کو دیکھ کر اک سرد آہ بھری۔ اس کی یہی بری عادت تھی، وہ جتنی جلدی کسی سے متاثر ہوتی تھی اتنی ہی جلدی اکتا بھی جاتی تھی۔ ابھی کل تک ایسے ہی انتھونی کے لیے مری جا رہی تھی۔
’’میں کل پیٹر کے ساتھ ڈیٹ پر جا رہی ہوں۔‘‘ انجلین نے اپنے پروگرام سے آگاہ کیا۔ یہ اس کی پہلی ڈیٹ تھی۔ اس وجہ سے وہ کافی پرجوش ہو رہی تھی۔
بیلا کچھ بددل سی ہو کر اٹھ گئی۔ اسے ان بورنگ باتوں میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں تھی، اس کا رخ لائبریری کی سمت تھا۔
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسے اپنے عقب میں قدموں کی دھمک محسوس ہوئی تھی۔ یوں جیسے کوئی اسے متوجہ کرنے کی خاطر زور زور سے زمین پر پاؤں مار رہا ہو۔ وہ بنا دیکھے بھی جان سکتی تھی کہ یہ کون ہو گا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ یونیورسٹی کے کسی بھی گوشے میں چلی جائے، دو نگاہیں ہمہ وقت اس کے تعاقب میں رہتی ہیں۔
ریک سے اپنی مطلوبہ کتاب نکال کر وہ کارنر والی ٹیبل پر آ کر بیٹھ چکی تھی اسے اپنی اسائنمنٹ تیار کرنا تھی۔ فی الحال وہ یکسوئی کے ساتھ مطالعہ کرنا چاہتی تھی۔
’’کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں۔‘‘ وہ گہری سرمئی آنکھیں اس کی آنکھوں میں ڈالے کہہ رہا تھا۔
’’شیور۔‘‘ وہ سپاٹ لہجے میں قدرے ناگواری سے کہہ کر دوبارہ سے اپنی کتابوں کی سمت متوجہ ہو چکی تھی۔ وہ اس سے الجھنا نہیں چاہتی تھی۔
اس سے قبل کہ وہ لفظوں کو ترتیب دیتا، حجاب کا آخری پردہ بھی گرا دیتا۔ کنارا ہی بہتر تھا وہ اپنے نوٹس سمیٹ کر اٹھ گئی تھی۔
مانیک کو عجیب سی ہتک کا احساس ہوا، وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ لڑکی یوں بھی اس کی ہتک کر سکتی ہے۔
٭٭٭
گھر آ کر کھانا کھانے کے بعد وہ ٹیرس پہ کھڑی کافی پی رہی تھی جب نظر پروفیسر انکل سے ٹکرا گئی۔ وہ میں ڈور کے باہر کھڑے پوسٹ باکس سے اپنی آج کی ڈاک نکال رہے تھے، بیلا نے دور سے ہی ان کی طبیعت کا پوچھا تھا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔ کچھ دیر قبل گرو سری کے لیے گیا تھا تمہارے لیے امرود لایا ہوں بس جلدی سے آ جاؤ۔‘‘ بالوں کو ربڑ بینڈ میں جکڑتے ہوئے اس نے شوز اتار کر سلیپر پہنے، اسکارف اوڑھا اور سیڑھیاں اترنے والی تھی جب اچانک ریک میں رکھی اس سیاہ کتاب کا خیال آیا تو وہ دو قدم پیچھے پلٹی اور اس کتاب کی جلد پر نرمی سے ہاتھ پھیرا۔
یہ اس کے ڈیڈی کی کتاب تھی۔ ممی نے اسے بہت سنبھال کر رکھا تھا نیویارک سے آتے ہوئے وہ اسے اپنے سامان کے ساتھ لے آئی تھی اس نے بارہا اس کتاب کو کھول کر دیکھا تھا لیکن نامانوس زبان کی وجہ سے وہ ان لفظوں کا مفہوم نہیں جان پائی تھی۔ اسے اس کتاب کو پڑھنے کا اشتیاق اس لیے بھی تھا۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ضرور اس کا تعلق ہسٹری سے ہو گا اور تاریخ کا مضمون اس کا جنون تھا۔
پروفیسر انکل ہسٹری کے استاد رہ چکے تھے، اس کے علاوہ کئی زبانوں کے ماہر بھی تھے۔ کچھ سوچ کر اس نے وہ کتاب اٹھالی۔
’’بس بہت ہو چکی فراغت، اب آپ کو میرا ایک کام کرنا ہے۔‘‘ امرود کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے اس نے پروفیسر انکل کو ذہنی طور پر تیار کرنے کی کوشش کی۔
’’اس کتاب کو انگلش میں کنورٹ کرنا ہے۔‘‘ وہ اٹھ کر میز پر رکھی کتاب اٹھالائی۔
پروفیسر انکل نے اس کے عنوان پر نگاہ جمائی۔‘‘
’’قصص الانبیائ۔‘‘
’’ہسٹری سے ریلیٹڈ ہے ؟‘‘ اسے جاننے کی جلدی تھی۔
’’ہاں۔‘‘ انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’انٹرسٹنگ! آپ آج سے ہی اپنا کام اسٹارٹ کر دیں۔‘‘
٭٭٭
’’میری شرٹ استری کر دینا۔‘‘ پانی پیتی مہک کے سر پر چپت لگاتے ہوئے اس نے آرڈر جاری کیا تھا جبکہ سر پر لگنے والے اس اچانک جھٹکے کے باعث وہ گلا پکڑے زور زور سے کھانسنے لگی تھی۔ کھانستے کھانستے اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا، ناک سرخ ہو گئی۔
’’سوری یار۔‘‘ وہ تاسف سے بولا۔ مگر جواب میں کچھ بھی کہے بغیر اس کی شرٹ اٹھا کر چلی گئی۔ وہ اس قدر تابعداری پر بے ہوش ہوتے ہوتے بچا تھا۔
در نایاب نے انجوکے ساتھ مل کر میز پر کھانا لگا دیا تھا۔
وہ تینوں تعلیم کے سلسلے میں لاہور میں رہائش پذیر تھے۔ انجو گھریلوکام کاج کے لیے ان کے ساتھ آئی تھی۔ ڈرائیور اور چوکیدار اس کے علاوہ تھے۔
مہک کا بھائی شانی اسکار شپ پر ایم ایس کے لیے بیرون ملک گیا ہوا تھا۔ زریاب اس کے چچا مجتبیٰ کمال کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کے چچا اور چچی کا پانچ سال قبل انتقال ہو چکا تھا۔ زریاب حویلی میں ان کے ساتھ رہتا تھا۔
در نایاب اس کی اکلوتی پھوپھو تھی۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے سائیکالوجی میں ماسٹرز کر رہی تھی۔ حویلی میں آج کل بی اماں اور اباہی تھے۔
’’آج پھر کریلے۔‘‘ زریاب نے ڈوں گا دیکھ کر منہ بسورا۔
’’آج پھر سے تمہاری کیا مراد ہے۔ پورے سترہ دن بعد بنائے ہیں، مہک اتنے دنوں سے کہہ رہی تھی۔‘‘ در نایاب اس کے نخروں سے عاجز تھی۔
’’نیم چڑھے لوگ ایسی ہی فرمائشیں کرتے ہیں۔ میں دیکھوں اس نے میری شرٹ استری کر دی ہے۔‘‘ بیٹھتے ہی وہ اچانک ہڑبڑا کر اٹھا اور استری اسٹینڈ کے اوپر رکھی شرٹ کو دیکھ کر اس کا منہ کھلا اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔
اس کی پسندیدہ قیمتی شرٹ کا گریبان سارا جلا ہوا تھا۔ ساتھ ایک نوٹ بھی تھا۔
’’شرٹ کا منہ کالا۔‘‘ اس نے لب بھنیچتے ہوئے بیڈ روم کے بند دروازے کو دیکھا جہاں وہ اب مزے سے بستر پر لیٹی واک میں سن رہی تھی۔
٭٭٭
وہ شام سے ہی کیتھرین کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے تھی جو اسے کافی مشکوک لگ رہی تھیں۔ اس کے باوجود کہ انکل رابرٹ کبھی بھی اسے نیم برہنہ لباس پہننے کی اجازت نہیں دیں گے، وہ اپنے لیے منی اسکرٹ لے کر آئی تھی۔ یونیورسٹی سے آ کر اس نے اپنی اسکن پالش کی تھی اور پھر نہا کر طبیعت خرابی کا کہہ کر سو گئی تھی۔
اور اب رات گیارہ بجے جب سب سو چکے تھے بیلا اپنی نوٹ بک کھولے کچھ لکھنے میں مگن تھی۔ اس نے کیتھرین کو اٹھ کر واش روم کا رخ کرتے دیکھا تھا۔ جب وہ باہر نکلی تو میرون منی اسکرٹ میں ملبوس تھی پھر اس نے اسے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر خوب میک اپ کرتے دیکھا تو پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔
’’کہاں جا رہی ہو۔‘‘
’’مارک اور میں آج کی رات ایک دوسرے کے ساتھ انجوائے کرنے والے ہیں۔‘‘ وہ سرگوشی نما آواز میں دورازے کی سمت دیکھتے ہوئے مزے سے بولی تو بیلا کا سانس اندر ہی کہیں حلق میں اٹک گیا۔
’’کیتھی آر یو کریزی؟‘‘ وہ بستر سے اٹھ آئی تھی۔
’’تم جانتی ہو یہ کتنا ناپاک کام ہے پلیز مت جاؤ۔‘‘ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسے کیسے روکے۔
’’میں کیسی لگ رہی ہوں ؟‘‘ میک اپ کو فائنل ٹچ دیتے ہوئے اس نے بیلا سے پوچھا تو اسے کیتھرین کے حسین چہرے سے کراہیت محسوس ہوئی۔
’’بدن کا حسن پاکیزگی ہے۔ ناپاکی کی نجاست … اس کو نہ چھوئے تو یہ چراغ کی مانند روشن رہتا ہے اور روشن چہرے کبھی اتنے بدصورت نہیں لگتے۔‘‘
’’بیلا۔‘‘ اس کی آواز صدمے سے ٹوٹ گئی۔
بیلا نے رخ موڑ لیا۔
’’اپنے باپ سے نہ ڈرو کیتھی! وہ بدن کو قتل کر سکتے ہیں، روح کو نہیں … اس سے ڈرو جو روح اور بدن دونوں کو جہنم میں ہلاک کر سکتا ہے۔‘‘
کیتھرین نے ایک بار پھر سے پلٹ کر دروازے کی سمت دیکھا۔ رابرٹ اور جنیفر سو رہے تھے۔ وہ احتیاط سے سیڑھیاں اترنے والی تھی جب بیلا کی آواز سماعتوں سے ٹکرائی تو ایسا لگا جیسے قدموں کو کسی نادیدہ طاقت نے جکڑ لیا ہو۔ وہ چاہ کر بھی دہلیز کے اس پار قدم نہیں بڑھا سکی تھی۔
’’کیا مصیبت ہے، یہاں ہر کوئی اپنی مرضی سے جیتا ہے۔ بس ان فضول پابندیوں کے لیے میں ہی رہ گئی ہوں۔‘‘ بڑبڑاتے ہوئے وہ بستر پر نیم دراز ہو گئی۔
بیلا کے لیے اتنا کافی تھا کہ وہ اب کہیں نہیں جا رہی تھی اس نے بیگ میں رکھی کتاب باہر نکالی وہ آج یہ کتاب لائبریری سے لے کر آئی تھی پہلے صفحے پر کسی نے گرین انک سے لکھا تھا۔
"BEILA I LOVE YOU”وہ کتنی ہی دیر گم صم سی بیٹھی ان لفظوں کو گھورتی رہی۔
٭٭٭
آج سوزین کے گھر ان کا ڈنر تھا، وہ جانا نہیں چاہ رہی تھی لیکن جب سے اس نے رابرٹ سے کیتھرین کی خفیہ سرگرمیوں کا دبے لفظوں میں ذکر کیا تھا، انہوں نے سائے کی طرح ہر جگہ اس کے ساتھ رہنے کی ہدایت کی تھی۔
سوزین کا گھر پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر تھا۔ جوں ہی انہوں نے میں روڈ سے ایونیو روڈ کا ٹرن لیا ریڈ فراری کے ٹائر ان کے عقب میں چڑچڑائے۔ دونوں اچھل گئیں مڑ کر دیکھا مانیک تھا اس نے لب بھینچ لیے تھے جبکہ وہ دوستانہ مسکراہٹ لبوں پر سجائے کیتھرین سے حال احوال پوچھنے میں مگن تھا۔
’’کیسی ہو کیتھی۔‘‘
’’اے ون! تم کہاں جا رہے ہو۔‘‘ کیتھرین کی خوشی کی انتہا نہیں رہی تھی کہ مانیک جیسا خوبرو اور ڈیشنگ لڑکا اس کے راستے میں گاڑی روکے کھڑا تھا۔
’’سوزین کے گھر … انکل سے کچھ کام تھا۔‘‘ وہ متانت سے بولا۔ جس پر بیلا نے ترچھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے مشکوک انداز میں گھورا تھا۔
’’اوہئیلی؟ ہم بھی وہیں جا رہے ہیں۔‘‘ کیتھرین نے ہنستے ہوئے بتایا۔
’’جب منزل ایک ہے تو کیوں نہ پھر ساتھ چلا جائے ؟‘‘ وہ بات کیتھرین سے کر رہا تھا لیکن اس کا سارا دھیان بیلا کی سمت تھا۔
’’ویلوٹ کی بلیک میکسی میں ملبوس وہ کوئی پری لگ رہی تھی سیدھے ریشمی بال سمیٹ کر ایک شانے پر ڈال رکھے تھے۔ کانوں میں آویزاں بڑی بڑی بالیاں صراحی دار اٹھی ہوئی گردن کی ہر جنبش پر ہلکورے لیتی تھیں۔
گہری سرمئی آنکھوں میں کاجل بھرا تھا۔
’’تمہارا لفٹ دینے کا انداز مجھے پسند آیا۔‘‘ وہ شاہانہ انداز میں کہتی بیلا کا ہاتھ تھام کر اس کی مزاحمت کے باوجود گاڑی میں سوار ہو چکی تھی مانیک نے راستہ بھر بیک ویو مرر کا رخ اس کی طرف کیا ہوا تھا۔
پورچ میں گاڑی رکتے ہی وہ اتر کر تیز قدموں سے سیڑھیاں چڑھ گئی پورا لاؤنج خالی تھا گول زینہ سیدھا فرسٹ فلور تک جاتا تھا اوپر سے نفری قہقہوں کی ملی جلی آوازیں نیچے راہداری تک آ رہی تھیں اس نے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پہلے کمرے میں جھانکا۔
انجلین جولیا اور سوزین تینوں نیچے قالین پر رکھے فلور کشن پر بیٹھی گپیں لڑا رہی تھیں۔
’’اتنا لیٹ؟ کب سے تمہارا اور کیتھی کا ویٹ کر رہے تھے۔‘‘ سوزین اسے دیکھتے ہی اٹھ گئی کیتھرین سیڑھیاں چڑھتے مانیک سے باتیں کرتے ہوئے آ رہی تھی۔
’’مانیک! ڈیڈ اسٹڈی روم میں ہیں۔‘‘ سوزین نے دروازے سے جھانکتے ہوئے مانیک کو اطلاع دی اور کیتھرین کے ساتھ واپس اندر آ گئی۔
بیلا کو آج پتا چلا تھا کہ مانیک اور سوزین کزن تھے۔
’’آج کچھ ڈفرنٹ ٹیسٹ کریں گے۔‘‘ سوزین گلاس میں نشہ آور مشروب انڈیل رہی تھی۔
’’بیلا! تم بھی لے لو۔‘‘ سوزین نے گلاس اس کی کی سمت بڑھایا۔
’’سوری! میں یہ سب نہیں پیتی۔‘‘ اس نے ناگواری سے ناک چڑھائی۔ کیتھرین نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا تھا۔ باقی تینوں کے لبوں پر بھی استہزائیہ مسکراہٹ بکھر گئی۔
’’کیتھی یار! تم میں اور تمہاری کزن میں کچھ بھی کامن نہیں ہے۔‘‘
’’منی اسکرٹ، بوائے فرینڈ ڈسکو کلب، مے نوشی، فحاشی اور عریانیت کو ہم نے اپنا کلچر بنایا، جبکہ ہمارے مذہب میں اس کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔ یہ سب یسوع کی تعلیم کا حصہ نہیں ہیں۔‘‘ کیتھرین کی خفگی کے باوجود اس نے دو ٹوک جواب دیا تھا۔
ایک لمحے کے لیے تینوں کی رنگت متغیر ہوئی۔ پھر سوزین نے کچھ سنبھل کر کہا۔
’’یہ ایک لاحاصل بحث ہے۔ کیتھی! تم اس روز مارک سے ملی تھیں ؟‘‘ اس نے بات کا رخ موڑ دیا۔ کیتھرین کا چہرہ اتر گیا۔ لاکھ کوشش کے باوجود بھی وہ سوزین جتنی بولڈ نہیں ہو سکتی تھی۔
بیلا وہاں سے اٹھ کر بالکونی میں آن کھڑی ہوئی۔
سامنے ستاروں بھرا آسمان روشن تھا اور نیچے اسٹریٹ لیمپ کی روشنی میں سارا منظر دمک رہا تھا۔ گلاب کی منہ بند کلیاں ہوا کی سرسراہٹوں سے جھوم رہی تھیں۔
مگر اس کی نظریں ان سب سے بے نیاز خلاؤں میں بھٹک رہی تھیں۔
’’کیا مجھے روشنی مل جائے گی؟‘‘ اس نے خود سے سوال کیا اور پھر الزبتھ کی یاد آ گئی۔ وہ ایک نن تھی۔ جسے احمد کمال کی محبت گرجا گھر سے نکال کر خار زار وادیوں میں لے آئی تھی۔ اس نے مرنے سے قبل کہا تھا۔
’’اچھا بیج بونے والا ابن آدم ہے اور کھیت دنیا ہے۔ اچھا بیج بادشاہی کے بندے اور کڑوے دانے شیطان کے فرزند ہیں۔ کٹائی، دنیا کا آخر ہے اور کاٹنے والے فرشتے ہیں۔ بس جیسے کڑوے دانے جمع کیے جاتے ہیں اور آگ میں جلائے جاتے ہیں، ایسے ہی دنیا کے آخر میں ہو گا۔‘‘
٭٭٭
بے ہنگم میوزک کی تیز آواز سے بچنے کے لیے مہک نے دونوں کانوں میں انگلیاں ٹھونس رکھی تھیں۔ مگر سب بے سود اور لاحاصل۔
آواز تھی کہ سماعتوں کے پردے پھاڑنے پر مصر تھی۔
در نایاب نے لاؤنج میں قدم رکھا اور چکرا کر رہ گئی۔ آج دونوں گھر میں تھے اور لاؤنج کا سارا نقشہ ہی بگاڑ رکھا تھا۔
انجو اس سارے ہنگامے سے بے نیاز دور باغیچے کے اس جانب تعمیر شدہ سرونٹ کوارٹر میں جا کر سوچکی تھی۔
لاؤنج میں کشن بکھرے ہوئے تھے۔ نمکو، چپس اور کوکیز کے ریپر ہر کونے میں اڑ رہے تھے۔ فرش پے شاید کولڈ ڈرنک گری تھی۔ وہاں مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔
’’دیکھ لیں پھوپھو! کل میرا ٹیسٹ ہے اور زریاب کے بچے نے جان بوجھ کر اسپیکر پھاڑ رکھے ہیں۔‘‘ مہک کھڑی دانت پیس رہی تھی۔
’’تم دونوں کے جھگڑے میری سمجھ میں تو نہیں آتے۔ وہ تپ اٹھی۔
’’جھگڑا پہلے وہ شروع کرتا ہے۔‘‘ اس نے تنک کر کہا۔
’’ہاں … اور تم تو بہت معصوم ہو جیسے۔‘‘ اسی وقت وہ بھی اپنے کمرے سے برآمد ہوا تھا۔ لڑاکا عورتوں کی طرح کمر پر ہاتھ ٹکائے بولا۔
’’میں نے تم سے کچھ کہا ہے ؟‘‘ وہ بل کھا کر پلٹی۔
’’کل تم نے میری شرٹ جلائی تھی۔‘‘ وہ باقاعدہ جرح پر اتر آیا۔
’’اور تم نے پرسوں مجھے گندم کے سٹے سے ڈرایا تھا۔‘‘ وہ دوبدو بولی۔
’’ہاں ! تو تم نے مجھے اپنے نوٹس کیوں نہیں دیے تھے ؟‘‘
’’تم تو بس اس بات سے جلتے ہو کہ میرے مارکس تم سے زیادہ کیوں آتے ہیں۔‘‘ اس نے بھنویں اچکائیں۔
’’دو نمبر زیادہ۔‘‘ وہ استہزائیہ ہنسا۔
’’اگر آگے پیچھے بیٹھی چڑیلوں کو گھورنا بند کر دو نا تو …‘‘،
’’بس …‘‘ در نایاب نے ہاتھ اٹھا کر دونوں کو خاموش کروایا۔ ورنہ یہ کھاتہ تو شیطان کی آنت کی طرح بڑھ رہا تھا۔
’’کہیں سے لگتا ہے کہ تم دونوں کسی مہذب گھرانے کے چشم و چراغ اور شہر کے مہنگے ترین اور بہترین ادارے کے اسٹوڈنٹس ہو؟ نہ بات کرنے کی تمیز، نہ شرم، نہ کوئی لحاظ … یہ مستقبل کے ڈاکٹروں کا حال ہے۔ اگر ایک آپریشن تھیٹر میں کبھی تم دونوں کو آپریٹ کرنا پڑا تو آپس کی بحث میں ہی مریض مر جائے گا۔ تم دونوں مجھے اب ایک دوسرے سے بات کرتے نظر نہ آؤ۔ ورنہ اس بار میں لالہ سے شکایت کروں گی۔‘‘ در نایاب نے انہیں تنبیہ کی۔
’’نہیں۔‘‘ دونوں احتجاجاً چلائے۔
ان کا یہی مسئلہ تھا کہ ایک دوسرے سے چونچ لڑائے بغیر رہ بھی نہیں سکتے تھے۔
’’پھوپھو پلیز! اب نہیں کریں گے لڑائی۔‘‘ زریاب کا انداز ملتجیانہ تھا۔
مہک نے بھی چہرے پر زمانے بھر کی مسکینیت طاری کر لی۔ کیونکہ وہ ایک بار لالہ سے ان کی شکایت کر چکی تھی۔ تب لالہ نے حتمی اندازہ میں کہا تھا کہ اب کوئی شکایت ملی تو دونوں کو ہاسٹل بھجوا دوں گا۔ ایک تو ہاسٹل کا مخصوص کھانا اور محدود ڈسپلن لائف سوچ کر ہی دم گھٹتا تھا۔
’’اوکے ! آج شام کا کھانا تم دونوں بناؤ گے اور اگر اس دوران کوئی جھگڑا کیا تو …‘‘ وہ کہہ کر رکی نہیں۔ پیچھے دونوں ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے۔
٭٭٭
’’اس کتاب میں بہت سی ایسی باتیں لکھی ہیں، جنہیں پڑھ کر تم جیسی کم سن لڑکی بھٹک سکتی ہے۔‘‘ پروفیسر انکل نے آج کے ترجمہ کیے ہوئے صفحات اسے نہیں دیے تھے۔ وہ پچھلے دو ماہ سے قصص الانبیاء کا مطالعہ کر رہی تھی۔ حضرت آدمؑ کی پیدائش سے لے کر حضرت سلیمانؑ تک کا سفر کرتے ہوئے اس کی معلومات میں حیرت انگیز اضافہ ہوا تھا۔ پروفیسر انکل بھی اب تک بہت انجوائے کر رہے تھے۔ کہیں بھی کسی بھی مقام پر ایسا محسوس نہیں ہوا تھا کہ اس کتاب میں لکھا کوئی قصہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔
’’کیسی باتیں ؟‘‘ اس نے وضاحت طلب نظروں سے انہیں دیکھا۔
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقدس کنواری مریم علیہ السلام کی گود میں گواہی دینا کہ میں اللہ کا نبی ہوں۔‘‘
’’تو کیا شک ہے اس میں ؟‘‘ اس بار حیران ہونے کی باری پروفیسر ولیم کی تھی۔
’’کیا تمہیں نہیں پتا یسوع اللہ کا …‘‘
’’پلیز! اس سے آگے کچھ مت کہئے گا۔ کہیں آپ کا شمار گناہ گاروں میں نہ ہو جائے۔‘‘ بیلا نے ہاتھ اٹھا کر ٹوک دیا۔
’’کیسی باتیں کر رہی ہو تم۔‘‘ وہ بے چینی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا نبی مانتی ہوں اور کچھ نہیں اور یسوع کا بھی یہی پیغام تھا کہ اللہ ایک ہے اور اس کی عبادت کرو …
حضرت آدمؑ جو بغیر ماں اور باپ کے پیدا ہوئے تھے تو کیا وہ بھی خدا ہیں ؟ نہیں نا … تو پھر حضرت عیسیٰؑ کو بھی اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائیں۔ ان کی ولادت ایک معجزہ تھی بس۔‘‘ آخری جملہ اس نے اتنی برہمی سے کہا تھا کہ رخساروں پر سرخی چھلکنے لگی۔ یہی وہ بات تھی، جسے بتیس انجیلوں میں پڑھ کر بھی اس نے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک نبی اللہ کا بیٹا کیسے ہو سکتا تھا۔ عقل تسلیم ہی نہیں کرتی تھی اور اتنے انبیاء علیہ السلام کا احوال پڑھنے کے بعد تو اس کے فہم میں مزید پختگی آ چکی تھی۔
’’بس! اسی بات کا ڈر تھا مجھے۔ تم سمجھنے کی کوشش کرو۔ یہ باتیں ہمیں گمراہ کرنے کے لیے ہی تو لکھی گئی ہیں۔ تم اس اسلامی تنظیم کے پروپیگنڈوں کو نہیں سمجھ سکتیں۔ میری مانو، اس کتاب کو مت پڑھو۔ تمہارا ذہن بھٹک جائے گا تم ڈبل مائنڈڈ ہو جاؤ گی۔‘‘
ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کس طرح اسے اس کتاب سے دور رکھیں۔
’’آپ کو پتا ہے نا! میری ماں کیتھولک تھی اور میرے ڈیڈ مسلم … میں تو پیدائشی ڈبل مائنڈڈ ہوں۔‘‘ وہ سپاٹ لہجے میں کہتی صفحات اٹھا کر چلی آئی۔
٭٭٭
’’بیلا! ناشتا کر لو۔‘‘ کیتھرین نے اس کے سر سے چادر اتاری۔ یونیورسٹی جانے کا ٹائم ہو چکا تھا اور وہ ابھی تک سو رہی تھی۔
’’مجھے ناشتا نہیں کرنا۔ میرا فاسٹ ہے۔‘‘ کسل مندی سے کہتے ہوئے اس نے کشن منہ پر رکھ لیا۔ کیتھرین نے دیوار گیر کیلنڈر پر نگاہ ڈالی۔ ان کے روزے شروع ہو چکے تھے۔ لیکن اتنا طویل روزہ وہ تو نہیں رکھ سکتی تھی۔ جبکہ بیلا نے روزے کا پورا اہتمام کیا تھا۔
’’عجیب بات ہے۔ تم یسوع کو نہیں مانتیں اور ان کی ساری باتیں مانتی ہو۔ روزہ رکھتی ہو، چرچ جاتی ہو، عبادت کرتی ہو، اپنے ہمسایوں کا خیال رکھتی ہو، ممی اور ڈیڈی کی اتنی عزت کرتی ہو، حرام کام نہیں کرتیں، ناپاک چیزیں نہیں کھاتیں، چوری نہیں کرتیں، جھوٹ نہیں بولتیں، مکمل لباس پہنتی ہو۔ کاش! تم میری جگہ ہوتیں تو ایک اچھی نن بیتیں۔ ڈیڈ کی خواہش تو پوری ہو جاتی۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ آج کے اس ماڈرن دور میں اس عجیب خاندانی روایت کی پاسداری کرنا کیوں ضروری ہے۔‘‘
’’تمہیں اگر کوئی پسند ہے تم شادی کر لو۔ میں انکل سے بات کر لوں گی۔‘‘ بیلا نے اس کے گال پہ چٹکی بھری۔
’’کیا؟ ابھی سے شادی کر لوں ؟ یہ انجوائے کرنے کی عمر ہے یار! میں یونیورسٹی جا رہی ہوں۔ اوکے ! بائے۔‘‘ تیز تیز بولتے ہوئے اس نے شوز پہنے اور چلی گئی۔
بیلا نے پھر سے کشن منہ پر رکھ لیا۔ ترجمہ کیے ہوئے وہ صفحات ابھی تک ویسے ہی دراز میں رکھے تھے۔ وہ پروفیسر انکل کے خدشات تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی۔
’’وہ اس کتاب کو اسلامی تنظیم کا پروپیگنڈہ کہہ رہے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ کتاب ہمیں گمراہ کرنے کے لیے لکھی گئی ہے۔ لیکن یہ کتاب تو ڈیڈ اپنے ساتھ پاکستان سے لائے تھے اور پھر یہ اُردو اور عربی زبان میں تھی۔
قاری محمد یٰسین جو اس کتاب کے مترجم تھے۔ کیا انہیں خواب آیا تھا کہ ڈین ہیگ(Den Haag) شہر کی ایک لڑکی بہتر سال بعد اس کتاب کو انگلش میں کنورٹ کروا کر اس کا مطالعہ کرے گی تو میں اسے گمراہ کرنے کے لیے کچھ تبدیلیاں کر دوں ؟‘‘
وہ کتنی ہی دیر لیٹے لیٹے خود سے الجھتی رہی اور پھر اٹھ کر ابھی دراز کھولی ہی تھی کہ جنیفر آنٹی اسے بلانے چلی آئیں۔
’’بیلا! تم سے ملنے کوئی لڑکا آیا ہے۔‘‘
’’لڑکا؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں ! اس کا نام مانیک ہے۔ وہ سوزین کا کزن ہے اور بتا رہا تھا کہ تمہارے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتا ہے۔‘‘
’’اوہ!‘‘ اس نے ہونٹ سکیڑے اور سر کھجاتے ہوئے بولی۔
’’آپ اس سے کہہ دیں کہ میں سو رہی ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے ! تم آرام کرو۔‘‘ وہ سر ہلا کر چلی گئیں۔ اس کی جگہ اگر کیتھرین ہوتی تو اس سے اچھی خاصی باز پرس کی جاتی۔ لیکن یہ بیلا تھی، جس پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کیا جا سکتا تھا۔ اس لیے جنیفر نے مزید کوئی تفصیل طلب نہیں کی تھی۔ جبکہ یہ سوچ کر کہ وہ اس کے گھر تک چلا آیا ہے۔ وہ بے حد پریشان ہو گئی تھی۔
٭٭٭
اگلے روز لائبریری کی سیڑھیاں اترتے ہوئے وہ اس سے ٹکرا گیا۔
’’ہیلو! آئی ایم مانیک۔‘‘ اس نے رک کر اپنا تعارف کروایا۔ بیلا نے محض ابرو اچکانے پر اکتفا کیا تھا۔
’’کیتھرین بتا رہی تھی کہ آپ کی طبیعت اچھی نہیں ہے۔ میں کل آپ کے گھر آیا تھا۔‘‘ اس کے سرد و سپاٹ تاثرات کے باوجود مانیک نے اپنا بیان جاری رکھا۔
’’آپ ہمارے گھر کیوں آئے تھے ؟‘‘ مروت سے عاری اکھڑ لہجے میں پوچھا۔
’’آپ کو اچھا نہیں لگا میرا آپ کے گھر آنا؟‘‘ اس نے الٹا سوال پوچھا۔
’’جی بالکل! مجھے آپ کا اپنے گھر آنا ذرا بھی اچھا نہیں لگا۔ میں نے آپ کو انوائیٹ کیا تھا یا میری آپ کے ساتھ کوئی اپائنمنٹ تھی؟‘‘ سر مئی آنکھیں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ لہجے کا تیکھا پن بدستور برقرار تھا۔
مانیک کو زندگی میں کبھی اتنی ہتک محسوس نہیں ہوئی تھی۔
’’میں شاپنگ کے لیے نکلا تھا۔ سوچا آپ کی خیریت دریافت کرتا جاؤں۔‘‘
’’آپ شاپنگ کرنے آئے تھے تو اپنا کام کرتے۔ آپ کے لیے میری خیریت پوچھنا اتنا ضروری بھی نہیں تھا کہ آپ اس کے لیے میرے گھر آتے۔‘‘ وہ کہہ کر آگے بڑھ گئی۔ جبکہ وہ ایک سکتے کی سی کیفیت میں کتنے ہی پل وہاں کھڑا رہا۔ ہاتھ میں پکڑا للی کے پھولوں کا گل دستہ اسے دینے کی ہمت ہی نہیں ہوئی تھی۔
٭٭٭
’’کریلے بنائیں ؟‘‘ مہک نے اسے چڑانے کو کہا۔
’’اپنی شکل جیسی ہی بات کرنا۔‘‘ وہ واقعی تپ گیا۔
’’تم سے تو اچھی ہے۔‘‘ وہ اترائی۔
’’خوش فہمی۔‘‘ وہ استہزائیہ ہنسا۔
’’خوش فہمی نہیں … خود شناسی ہے۔‘‘ اس نے تصحیح کرنا ضروری سمجھا۔
’’بکواس نہ کرو اور کوئی آسان سی ڈش منتخب کرو جلدی سے۔ پھر مجھے جم جانا ہے۔‘‘ دونوں لان کی سوکھی گھاس پر گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے تھے۔ مہک کے ہاتھ میں چاکلیٹ تھی اور زریاب بے زار شکل بنائے تنکے نوچ رہا تھا۔
’’رہنے دو یہ مشقت۔ جم وم جانے سے کوئی ہینڈ سم نہیں بنتا۔‘‘ وہ تپانے سے بار نہیں آئی۔
’’یہ جو تمہاری سہیلیاں ہیں نا۔ یہ سب میرے چکر میں تمہارے اردگرد منڈلاتی ہیں۔ سمجھا لینا ان کو میں ایسی ویسی لڑکیوں کو گھاس نہیں ڈالتا۔‘‘ کالر کھڑے کرتے ہوئے اس نے کہا تو مہک سلگ اٹھی۔
’’میں تو تمہیں ان سے متعارف کروا کر پچھتا رہی ہو۔ ایسے گھورتے ہو میری سہیلیوں کو جیسے وہ کوئی چاکلیٹ یا آئس کریم ہوں۔‘‘
’’یہ دونوں چیزیں تمہاری فیورٹ ہیں۔ مجھے پزا اور بریانی پسند ہے۔‘‘
’’ماش کی دال بنا لیں۔‘‘ وہ واپس موضوع پر آئی۔
’’نہیں وہ بہت چھوٹی ہوتی ہے۔‘‘ اس نے منہ بنایا۔
’’تمہیں اس کے چھوٹا ہونے پر کیا اعتراض ہے ؟‘‘ مہک نے آنکھیں نکالیں۔
’’مجھے تو تمہارے چھوٹا ہونے پر بھی بہت اعتراض ہے۔ بمشکل میرے کندھوں تک آتی ہو۔ تمہیں کم از کم ایک فٹ اور لمبا ہونا پڑے گا۔‘‘
’’بکو مت! اور بتاؤ کون سی دال؟‘‘
’’الف سے انا ہوتی ہے۔ دال میں سے الف نکال دو اور صرف دل کی بات کرو۔‘‘ اب اس کی باری تھی۔
’’بھاڑ میں جاؤ۔‘‘ وہ ریپر پھینک کر اٹھنے والی تھی۔ جب زریاب نے ہاتھ پکڑ کر واپس بٹھایا۔
’’سنو! مٹن قورمہ بناتے ہیں۔ پھوپھو کی ناپسندیدہ ترین ڈش … آخر کچھ سزا تو انہیں بھی ملنی چاہیے۔‘‘
’’ہاں ! یہ ٹھیک ہے۔‘‘ وہ فوراً متفق ہو گئی۔
’’لیکن پیاز تم کاٹو گے۔ میری آنکھیں جلتی ہیں۔‘‘
’’تو کیا میں نے آنکھوں میں بٹن فٹ کروا رکھے ہیں۔‘‘ وہ تنک کر بولا۔
’’لہسن تو چھیلو گے نا؟‘‘ اس نے اپنا دوسرا ناپسندیدہ کام اسے دینا چاہا۔ مگر اس نے فوراً عذر تراش لیا۔
’’میرے ناخن چھوٹے ہیں۔‘‘
’’تو تم کرو گے کیا؟‘‘ وہ بل کھا کر پلٹی۔
’’میں بس تمہیں ہدایات دوں گا۔‘‘ وہ مزے سے بولا۔
’’تمک مرچوں والے ڈبے کہاں ہیں۔ یہ انجو کو تو بلا کر لاؤ۔‘‘ کیبنٹ کے دراز کھولتے ہوئے وہ بے زاری سے بولی۔ کچن میں آتے ہی اس پر کوفت سوار ہونے لگی تھی۔
’’اس پر بھی بین لگ چکا ہے۔‘‘ زریاب نے یاد دلایا۔
’’یہ پھوپھو بھی نا۔‘‘ اس نے دو تین برتن پٹخے۔
’’فضول جلنے کڑھنے سے کیا فائدہ؟ آج ہم کونگ شو کریں گے۔‘‘ شرٹ کے کف موڑتا، وہ اس کے ساتھ آن کھڑا ہوا۔
در نایاب نے جب کچن میں جھانکا تو آدھے سے زیادہ برتن ان کے کوکنگ شو کی نذر ہو چکے تھے۔ مسالا جات کو مختلف کٹوریوں میں سجایا گیا تھا۔ کیبنٹ کھلے اور فرش پر آئل گرنے سے چکنے ماربل کا ناس ہو چکا تھا۔
’’یہ سب کون سمیٹے گا؟‘‘ اس نے دونوں کو گھورا۔
’’کم از کم ہم تو نہیں۔‘‘ مہک نے صاف انکار کر دیا۔
’’ہمارا کام محض اتنا ہی تھا۔‘‘ زریاب نے فوراً اس کی تائید کرتے ہوئے امن کا جھنڈا لہرایا۔ وہ دونوں آگے پیچھے کچن سے باہر نکل گئے۔ جس پر وہ بھنا کر رہ گئی۔ رہی سہی کسر مٹن قورمہ نے پوری کر دی تھی۔
’’انجو۔‘‘ وہ کچن کے دروازے میں کھڑی چلا رہی تھی۔ وہ لاؤنج سے باہر نکلتے ہی خوب قہقہہ لگا کر ہنسے تھے۔
٭٭٭
اگلے روز سنڈے تھا۔ اس نے نہا کر کپڑے پہنے اور سر پر اسکارف اوڑھ کر چرچ چلی آئی۔
کیتھڈرل کے باہر خوب رش لگا ہوا تھا۔
ایسٹر کے حوالے سے آج کیتھڈرل میں خصوصی بیان تھا۔ جس کے لیے امریکا سے بشپ آیا ہوا تھا۔ کچھ لوگ چرچ کے اندر موجود تھے۔ اس نے جا کر ایک شمع جلائی۔ سینے پر صلیب بناتے ہوئے اس کے ہاتھ رک گئے۔ وہ خاموشی سے جا کر ایک بینچ پر بیٹھ گئی۔
پوری ہو رہی ہیں سوچیں سبھی
ٹھنڈی پڑ رہی ہیں محبتیں سبھی
کیے وعدے توڑ نبھایا یسوع آنے والا ہے
لوگ ہاتھوں میں مشعل لیے ہوئے گیت گا رہے تھے۔ وہ اس گیت پر الجھ رہی تھی۔ پھر سر جھٹکتے ہوئے بشپ کا ویٹ کرنے لگی۔ آخر اکیس منٹ کے جان لیوا انتظار کے بعد ان کی آمد ہوئی۔
اور پہلے دس بار کا سنا ہوا بیان دہرا دیا گیا۔
وہ انجیل کا وہ باب سنا رہا تھا۔ جب یہودیوں نے حضرت عیسیٰ کے خلاف سازش کی اور ان کو صلیب پر چڑھا دیا گیا۔ آگے تین روز بعد ان کے دوبارہ جی اٹھنے کا ذکر تھا وہ اٹھ کر باہر نکل آئی۔ شدید سردی کے باعث اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے اور ناک سرخ ہو چکی تھی۔ آسمان کو سرمئی بادلوں نے نگل لیا تھا اور قطرہ قطرہ بوندیں برسنے کو بے تاب تھیں۔
یہاں کا موسم ہی ایسا تھا۔ دو روز میں ایک پہر بارش ضرور ہوتی تھی۔ وہ سڑک کے کنارے کھڑی کیب کا انتظار کر رہی تھی۔ جب سامنے اوپن ریسٹورنٹ میں وہ بیٹھا بلیک کافی سے لطف اندوز ہوتا دکھائی دیا۔
ٹپ … ٹپ … ٹپ
موٹی موٹی بوندیں ٹپکیں اور وہ بھاگ کر چھجے کے نیچے آن کھڑی ہوئی۔
وہ مبہوت سا بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کی کافی میں بوندیں گر رہی تھیں۔
وہ بھیگ رہا تھا۔
بیلا نے نظروں کا زاویہ بدل لیا۔
اس کی کافی چھلک رہی تھی۔ بال پیشانی سے چپک گئے تھے۔ مگر وہ جیسے ہر احساس سے عاری ہو چکا تھا۔ سارے جذبے سمٹ کر آنکھوں میں چھلک آئے تھے۔ اسے یوں لگ رہا تھا۔ جیسے ساری دنیا میں بس اس کی آنکھیں ہیں۔ جو زندہ ہیں … یا پھر وہ اک چہرہ تھا۔
وہ اک چہرہ جو اس کے لیے ساری کائنات تھا۔
وہ گھر آئی تو وہ بھول چکی تھی کہ اس نے کتاب میں کیا پڑھا۔ بشپ نے کیا کہا۔ وہ بھول گئی، اسے کیا کرنا تھا۔ کیا سوچنا تھا۔
بس اگر کچھ یاد تھا۔
تو وہ دو آنکھیں
جو اتنی گہری تھیں
اسے لگ رہا تھا، اس کا وجود ڈوب رہا ہے۔ وہ خود کو بچانا چاہتی تھی۔ لیکن وہ ڈوب رہی تھی۔
٭٭٭
’’کھانا لاؤ۔‘‘ جم سے آتے ہی وہ اس کے قریب صوفے پر ڈھیر ہو گیا۔ ساتھ آرڈر بھی جاری کر دیا گیا اور اس کی گود میں رکھا کشن اچک کر سر کے نیچے رکھ لیا۔
’’ابھی صبر کرو۔‘‘ وہ ٹی وی سے نظریں ہٹائے بغیر بولی۔ اس کے فیورٹ ڈرامے کا آخری سین چل رہا تھا۔
’’بندہ چاہے بھوک سے مر جائے۔ تم ڈراما دیکھتی رہنا۔‘‘ اس کے دوپٹے سے پسینہ پونچھتے ہوئے وہ بھنایا۔ مہک نے ایک پل کے لیے گردن ترچھی کر کے اسے گھورا تھا۔
’’ذرا جو میرا خیال ہو۔‘‘ اس کی بڑبڑاہٹیں عروج پر تھیں۔
’’ہاں ! تمہارا خیال کیوں ہو گا۔ ابھی جب میں چکن بنا رہی تھی تو بھونی ہوئی بوٹیاں کس نے دی تھیں ؟ اور دوپہر جو پکوڑے میں نے اپنے لیے بنائے تھے تو تمہارے لیے کس نے رکھے تھے ؟ ایک پراٹھا تھا بس۔ وہ بھی میں نے تمہیں دے دیا۔‘‘ وہ ریموٹ پٹخ کر شروع ہو چکی تھی۔
’’وہ تو میری نظر پڑ گ ئی تھی پراٹھے پر۔ ورنہ تم تو صاف انکار کر دیتیں اور آدھی بوٹیاں کھا کر جب دل بھر گیا تو مجھے لا کر دے دیں … باقی تین پکوڑوں کا احسان نہ جتاؤ مجھ پر۔‘‘ اسے بھی ساری خبر تھی۔
’’ اُف! کس قدر ندیدے ہو تم دونوں۔ جیسے کبھی کچھ کھایا ہی نہ ہو۔‘‘ در نایاب نے ملامتی نظروں سے دونوں کو گھورا۔ مگر مجال ہے، جو کوئی ذرا بھی شرمندہ ہوا ہو۔ وہ دوبارہ سے ٹی وی کی سمت متوجہ ہو چکی تھی۔
زریاب نے بے ساختہ پہلو بدلا۔
’’ریموٹ ادھر لاؤ۔ مجھے کارٹونز دیکھنے ہیں۔‘‘ وہ محض پانچ منٹ ہی ضبط کر سکا تھا۔
’’ہاں ! اسی لیے تو مجھے کچن میں بھیج رہے تھے۔‘‘ وہ بھی اس کی رگ رگ سے واقف تھی۔
’’تم ڈراما رپیٹ میں دیکھ لینا۔‘‘ وہ عاجزی سے بولا تو مہک اس کی جانب رخ موڑ کر گویا ہوئی۔
’’شکریہ! آپ نے مجھے اپنے قیمتی مشورے سے نوازا۔ مگر عمل کرنے کا میرا کوئی موڈ نہیں ہے۔‘‘
’’پھوپھو! دیکھیں اسے۔‘‘ وہ تلملا کر در نایاب کی سمت مڑا اس نے جو اسائنمنٹ لکھتے ہوئے ان کی چونچیں لڑاتے دیکھ رہی تھی، اٹھ کر ٹی وی کی لیڈ ہی نکال دی۔
’’ارے یہ کیا۔‘‘ وہ چلاتے رہے۔ مگر اس نے کان نہ دھرا۔
٭٭٭
’’کیا یار! تم بھی نا! رومیو بنے بیٹھے ہو۔ اس کا ہاتھ پکڑو اور کہہ دو، آئی لو یو۔‘‘ کلارک نے اسے گم صم اداس بیٹھے دیکھا تو ڈپٹ کر بولا۔
’’اور نہیں تو کیا۔ اس ایک لڑکی کی خاطر ہمیں کس بات کی سزا مل رہی ہے ؟ نہ پارٹیز، نہ کلب اور نہ ہی کوئی نیا ایڈونچر، بور کر دیا ہے تم نے۔‘‘ رالف تو پہلے ہی اس سے خار کھائے بیٹھا تھا۔ موقع ملتے ہی خوب بھڑاس نکالی۔ وہ دونوں اس کے بہترین دوست تھے۔
’’میں کہنے سے نہیں ڈرتا۔‘‘ وہ زچ ہو اٹھا۔
’’تو پھر؟‘‘ دونوں نے حیرت سے اسے دیکھا۔
’’میں اس کے انکار سے ڈرتا ہوں۔‘‘ بالآخر اس نے اپنے خدشے کو زبان دے ڈالی۔
’’پاگل ہو گیا ہے کیا؟ وہ تجھے ریجیکٹ کرے گی؟‘‘ کلارک نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ رالف کی بھی کم و بیش یہی حالت تھی۔
مانیک خاموش رہا۔ وہ انہیں نہیں سمجھا سکتا تھا کہ وہ کوئی عام لڑکی نہیں تھی۔ وہ اسے مسترد کر چکی تھی۔ اس کی آنکھوں میں چھلکتا ناگواری اور ناپسندیدگی کا تاثر وہ بارہا دیکھ چکا تھا۔
اسے یاد تھا، وہ دن جب اس نے پہلی بار اسے دیکھا تھا۔
ساحل پہ کھڑی وہ بادنسیم جیسی لڑکی جس کے وجود میں چڑھتا ہوا سمندر ہلکورے لے رہا تھا اس کے دل میں مد و جزر کی مانند اتھل پتھل مچا چکی تھی۔
اس کے ہر ہر عضو پہ کانسی کے مجسمے کا سا گماں ہوتا تھا۔ جیسے برسوں کی ریاضت کے بعد کسی سنگ تراش نے اپنا شاہکار تخلیق کیا ہو۔ وہ جہاں قدم رکھتی تھی، وہاں بھنور پڑتے تھے۔
وہ دم بخود سا اسے دیکھ رہا تھا۔ ملائی کی رنگت کے مومی نازک ہاتھوں کی انگلیاں کس قدر آرٹسٹک بناوٹ کی تھیں۔
غرور سے اٹھی ہوئی صراحی دار گردن
سیدھے آبشاروں جیسے بال اور بڑی بڑی سرمئی بادلوں جیسی آنکھیں
شفاف اتنی، جیسے نور کے ہالے میں لپٹی ہوئی چاندنی سادگی جس کا سنگھار تھی اور حیا اس کا وقار
’’میرے یار! وہ اپنی قسمت پہ رشک کرے گی۔ جسے تم مل جاؤ، اسے بھلا اور کیا چاہیے ؟‘‘ رالف نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے تسلی سے نوازا۔
بلاشبہ وہ بہت خوب صورت تھا اعلا تعلیم یافتہ دولت مند خاندان سے تھا دونوں نے مل کر اس پر اتنا زور دیا کہ اگلے روز یونیورسٹی میں صبح کے وقت جب ابھی کلاسز اسٹارٹ نہیں ہوئی تھیں اور اسٹوڈنٹس سیڑھیوں پہ، ٹیرس پہ، لان میں کھڑے خوش گپیاں لگا رہے تھے۔ مانیک نے قریب سے گزرتی بیلا کا ہاتھ پکڑ لیا۔
وہ بل کھا کر پلٹی۔ اس کے ابرو تن گئے اور پیشانی شکن آلود ہو گئی۔ رخسار سرخ اور لب بھنچے ہوئے، لیکن آنکھوں میں ہنوز بے یقینی تھی۔ وہ اس کی جرات پر حیران تھی۔
وہ اس کا ہاتھ تھامے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔ اگرچہ یہ کافی عجیب حرکت تھی۔ لیکن وہ ساری دنیا کے سامنے اسے پروپوز کرنا چاہتا تھا۔ پاس سے گزرتے، دور، قریب کھڑے تقریباً سب اسٹوڈنٹس ان کی جانب متوجہ ہو چکے تھے۔ کچھ من چلوں نے تو ہوٹنگ تک شروع کر دی تھی۔
اس کا ہاتھ ابھی تک مانیک کے ہاتھ میں تھا۔
’’ول یو میری می؟‘‘
تالیوں کا شور، سیٹیوں کی گونجتی فضا اور مانیک کی اس کی جانب اٹھی منتظر نگاہیں۔
’’واؤ۔ لڑکیاں بیلا کی قسمت پر رشک کر رہی تھیں۔
’’نو۔‘‘ وہ ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑا کر سیڑھیوں کی سمت بڑھ گئی اس کے جاتے ہی ہر سو جیسے سناٹا چھا گیا۔
مانیک اپنی جگہ ساکت سا بیٹھا تھا۔
رالف اور کلارک حیرت زدہ بے یقینی کا شکار بھلا کوئی لڑکی مانیک کو بھی انکار کر سکتی تھی۔
یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔
٭٭٭
’’بیلا! آئی ڈونٹ بلیو کہ تم نے اتنے اچھے لڑکے کا پروپوزل ریجکیٹ کر دیا۔ آئی تھنک ہی از اے پرفیکٹ چوائس فار یو۔‘‘ کھانے کی میز پر رابرٹ نے اس کے فیصلے پر اعتراض کرنے کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار بھی کیا تھا۔
’’ایم سوری انکل! بٹ آئی ڈونٹ وانٹ ٹو میری۔‘‘
اس نے نیپکن سے ہاتھ صاف کیے۔
’’یس ڈیڈ! کیونکہ اسے نن بننا ہے۔ تم چرچ کیوں نہیں جوائن کر لیتیں ؟‘‘ کیتھرین کا انداز استہزائیہ تھا۔
مانیک اسے بہت پسند تھا اور وہ یہ جان کر بے حد پر جوش تھی کہ وہ بیلا سے شادی کرنا چاہتا ہے۔
’’کیتھرین! بی ہیویور سیلف۔‘‘ رابرٹ نے اسے گھورا۔ جس پر وہ سر جھٹکتے ہوئے فرنچ فرائز کو کیچپ میں ڈبو کر کھانے لگی۔ اس نے رابرٹ اور جنیفر سے کسی بھی معاملے میں بحث کرنا چھوڑ دیا تھا۔ ایک سال بعد وہ اٹھارہ کی ہو جائے گی تو اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزارے گی۔ اس خیال کے تحت وہ سب چپ چاپ سن لیتی تھی۔
’’میرا مطلب تھا، مجھے ابھی شادی نہیں کرنی۔ میں پہلے خود کو اسٹیبل کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ وہ ٹیبل سے اٹھ کر اوپر اپنے کمرے میں چلی آئی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ مانیک کا سر پھاڑ دے۔ اس نے سمجھ کیا رکھا تھا۔ کیا وہ اتنی بے وقوف تھی کہ اس کے شادی کے جھانسے میں آ جاتی اور وہ اپنی نفسیاتی تسکین کی خاطر اسے استعمال کرتا۔
٭٭٭
ان کے تھیوری کے ایگزامز اور پریکٹیکل ہو چکے تھے۔ بس کیمسٹری کا وائیوا رہ گیا تھا۔ لیکن ابھی اس میں ایک ہفتہ باقی تھا۔ مگر کیتھرین نے آؤٹنگ کے پروگزامز بنانا شروع کر دیے تھے۔
وہ اسے شاپنگ پر چلنے کے لیے کہہ رہی تھی۔ بیلا نے چائے کا مگ حلق میں انڈیل کر سرتاپا کمبل تان لیا تھا۔
’’باہر اتنے گھنے بادل چھائے ہیں۔ کسی بھی وقت بارش ہو سکتی ہے۔ ٹھنڈ بہت زیادہ ہے۔ پھر میں چائے بھی پی چکی ہوں اور اب نرم گرم کمبل میں دبک کر سونے کی خواہش ہو رہی ہے۔ سوری کیتھی! میرا موڈ نہیں ہے جانے کا۔‘‘ اتنی طویل معذرت پر وہ جھلا اٹھی۔
’’پہلے ہی پھوٹ دیتیں کہ نہیں جانا۔ دس منٹ برباد کر دیے۔‘‘
’’پھر تم وضاحتیں طلب کرتیں۔‘‘ وہ کمبل سے منہ نکال کر بولی۔
’’سوتی رہو پورا ہفتہ۔‘‘ اس نے زور سے دروازہ بند کیا اور سیڑھیاں اتر گئی۔ خریدنا تو اسے بھی کچھ نہیں تھا۔ یوں ہی ونڈو شاپنگ کرتے ہوئے اس کی نگاہ مانیک سے ٹکرا گئی۔ وہ بھی اسے دیکھ چکا تھا۔
کیتھرین نے اسے اس روز کے بعد آج دیکھا تھا۔ وہ اسے کچھ پژمردہ سا لگا حالانکہ اس بات کو دو ماہ ہو چکے تھے۔
’’ہیلو کیتھی!‘‘ وہ اپنی جگہ رکی ہوئی تھی۔ مانیک ہی پاس آیا تھا۔
’’ہائے۔‘‘ وہ بدقت تمام مسکرائی۔
بیلا نے جو اس کے ساتھ کیا تھا۔ اس پر اسے خوامخواہ شرمندگی محسوس ہوئی تھی۔
’’کیسی ہو؟‘‘
’’ہمیشہ کی طرح حسین۔‘‘ اس نے بشاشت سے کہا اور پھر اس کا احوال دریافت کرنے لگی۔ ’’اور تم۔‘‘
’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ وہ ہلکے سے مسکرایا۔
’’لگ تو نہیں رہے۔‘‘ اس کا انداز مشکوک تھا۔
’’بیلا کیسی ہے ؟‘‘ اس نے بات بدل دی۔
’’اچھی ہے۔‘‘ وہ سنجیدہ ہوئی۔
’’وہ تمہارے ساتھ نہیں آئی؟‘‘ مانیک نے غیر محسوس انداز میں اس کے عقب میں جھانکا۔
’’اس کا موڈ نہیں تھا۔‘‘ وہ بہت سپاٹ انداز میں جواب دے رہے تھی۔
’’پلیز کیتھرین! اسے سمجھاؤ۔ میں اس کے بغیر مر جاؤں گا۔‘‘ وہ بے بس سا ہوا۔
’’تم کیوں اس کے پیچھے پڑے ہو مانیک! یونیورسٹی میں ہزاروں لڑکیاں ہیں۔ جس کو بھی اشارہ کرو گے، تمہارے ساتھ چل پڑے گی۔‘‘
’’ہاں ! مگر میری یہ مجبوری ہے کہ میں اسے چاہتا ہوں۔‘‘ اس کے لہجے میں بے بسی تھی۔
’’تمہیں کیا واقعی اس سے محبت ہے ؟‘‘ وہ متاثر ہو گئی۔ اسے بیلا کی قسمت پر رشک آ رہا تھا۔
’’نہیں۔‘‘ اس نے خفگی سے بھرپور نگاہ اس پر ڈالی۔ ’’میں شوق میں رومیو بنا گھوم رہا ہوں۔‘‘
’’اوکے۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کچھ سوچنے لگی۔ دونوں ساتھ چلتے ہوئے کافی شاپ پر چلے آئے۔
’’پہلے تو یہ حلیہ بدلو۔ ’’کیتھرین کا اشارہ اس کے لمبے بالوں، کانوں میں جھولتی بالی، آنکھوں میں پہنے اسٹونز اور گلے میں جھولتی ڈوری کی سمت تھا۔
’’بدل لیا … آگے۔‘‘ وہ بے چینی سے بولا۔ اسے اصل ہدف تک پہنچنے کی جلدی تھی۔
’’وہ سگریٹ سے الرجک ہے۔‘‘
’’چھوڑ دی۔‘‘
’’ہاں ! یہ سب تو تم چھوڑ سکتے ہو۔ روزمرہ روٹین سے ہٹنا اور برسوں کی عادتوں کو چھوڑنا اتنا مشکل نہیں ہوتا، لیکن تم اس کی خاطر اپنا عقیدہ تو کبھی نہیں بدل پاؤ گے۔‘‘ وہ پست آواز میں بڑبڑائی۔
’’ٹھیک ہے ! میرا تعلق پروٹسٹنٹ فرقے سے ہے۔ بٹ نو پرابلم، میں اس کی خاطر کیتھولک ہو جاؤں گا۔‘‘ وہ اطمینان سے بولا۔
’’وہ یسوع کو گاڈ(God) کا بیٹا نہیں مانتی۔‘‘
کیتھرین نے اس کے سر پر جیسے دھماکا کیا تھا۔ کتنی ہی دیر تو وہ جیسے کچھ بولنے کے قابل ہی نہیں رہا تھا۔
’’واٹ؟‘‘ اسے لگا، اسے سننے میں مغالطہ ہوا ہے۔
’’ہاں !‘‘ کیتھرین اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’سنو! اس نے پیچھے سے پکارا اور پھر خود بھی اٹھ کر اس کے ساتھ چلنے لگا۔
’’تم اسے سمجھاؤ۔‘‘
’’میں بات کروں گی۔‘‘ وہ اسے تسلی سے نوازتے ہوئے گھر لوٹ آئی۔ بیلا پر اسے نئے سرے سے غصہ آ رہا تھا۔
٭٭٭
اگلا پورا ہفتہ وائیوا کی تیاری میں گزر گیا۔ آج شام میں ڈنر کے بعد وہ دونوں فارغ تھیں۔ کیتھرین نے اسے واک پر چلنے کو کہا تھا۔ باہر کا موسم خاصا خوش گوار تھا۔ اس نے ساتھ چلنے کی ہامی بھرلی۔
لفٹ سے اٹھ کر دونوں سڑک پر آ چکی تھی۔ سڑک پر برقی لائیٹس، جگنو کی مانند جگمگا رہی تھیں۔ جھیل میں چاند نہا رہا تھا اور اس کے کنارے آبی نرگس کے سنہری پھولوں سے لدے ہوئے تھے۔
بلاشبہ یہ ایک خوشنما منظر تھا۔
وہ جھیل کے کنارے ہی رک گئی اور محویت سے چاند کو دیکھنے لگی۔ یوں لگتا تھا، جیسے پانی کی کٹوری میں کسی نے چاند لا کر رکھ دیا ہو۔ اتنا دلکش اور طلسماتی منظر اس کی آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا۔ نرگس کے پھول اس کے فیورٹ تھے۔ وہ ایک سنہری کلی توڑنے کے لیے جھکی۔ اچانک بارش کا پہلا قطرہ ٹپکا۔
اس کی نظروں میں پھر سے وہ کافی شاپ کا منظر گھوم گیا۔
برستی بارش، چھلکتی کافی، پیشانی سے چپکے بال۔ اور وہ گہری سمندری جیسی آنکھیں
ان آنکھوں میں بلا کی طلسماتی کشش تھی، جو انسان کو ہوش و خرد سے بیگانہ کر دے۔
’’کیا کسی مرد کی آنکھیں بھی اتنی خوبصورت ہو سکتی ہیں ؟‘‘ وہ اکثر خود سے سوال کرتی۔
’’ارے ! میں تو بتانا ہی بھول گئی۔‘‘ کیتھرین سر پہ ہاتھ مارتے ہوئے اس کے قریب آن بیٹھی۔ یہ بھی اسے متوجہ کرنے کا ایک انداز تھا۔
بیلا نے گردن گھما کر اسے دیکھا۔ اس کے ہاتھوں میں ایک سنہری کلی تھی۔ جسے ابھی اس نے توڑا نہیں تھا۔
’’انجلین کی انگیجمنٹ ہو چکی ہے، ٹومی کے ساتھ۔ بہت امیر لڑکا ہے۔‘‘ اس کا جوش دیکھنے لائق تھا۔
بیلا نے محض مسکرانے پر اکتفا کیا۔
اسے انجلین یا پھر اس کی منگنی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اسے تو کیتھی کی کوئی دوست اچھی نہیں لگتی تھی۔ کیتھی ہی اسے زبردستی ان کے بیچ لے جایا کرتی تھی۔
’’کاش! مجھے بھی کوئی ایسا مل جائے۔‘‘ وہ حسرت سے بولی۔
’’کیسا؟‘‘ بیلا نے تین کلیاں توڑ لی تھیں اور اب بالوں سے ربن اتار کر انہیں باندھ رہی تھی۔
’’ٹومی یا پھر مانیک جیسا۔‘‘
’’اس کا یہاں کیا ذکر؟‘‘ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’تمہاری جگہ اگر اس نے مجھے پروپوز کیا ہوتا تو میں خود کو سب سے اسپیشل تصور کرتی۔‘‘
’’حرکتیں دیکھی ہیں اس کی؟ وہ تمہیں ہی سوٹ کرتا ہے۔‘‘
’’کاش! وہ بھی ایک بار ایسا سوچ لیتا۔‘‘ وہ شرارت سے بولی۔
تو اس کی جگہ تم سوچ لو ایسا۔‘‘ بیلا نے بھی اسے چھیڑا۔
’’اوگاڈ۔‘‘ کیتھرین نے سر تھام لیا۔
’’بٹ ہی لوز یو۔‘‘
’’یہ پیار ویار کا تو بس ڈھونگ ہے۔ مرد کی محبت محض عورت کے وجود تک وابستہ ہوتی ہے۔ مطلب نکلا اور بھول گئے۔‘‘
’’تم بھول رہی ہو، اس نے تمہیں پروپوز کیا تھا۔‘‘ کیتھرین نے یاد دلایا۔
’’شادی تو ڈیڈ نے بھی کی تھی ممی سے۔‘‘ اس کی آنکھوں میں یاسیت اتر آئی۔ بہت سے لمحے نظروں کے سامنے گھوم گئے۔ سترہ برس تک اس کی ماں کی نظریں چوکھٹ سے لپٹی رہی تھیں۔ اس خیال سے کہ کہیں بھولا بھٹکا مسافر لوٹ نہ آئے، اس نے اپنا اپارٹمنٹ نہیں بدلا تھا۔
’’تم ہر شخص کو اپنے ڈیڈ کے ساتھ کمپیئر نہیں کر سکتیں۔‘‘
’’تم میرے سامنے اس کی حمایت مت کرو۔ مجھے کچھ نہیں سننا۔‘‘ وہ سنہری کلیاں جھیل میں پھینک کر وہاں سے بھاگ آئی۔
’’بیلا! سنو تو۔‘‘ کیتھرین نے پکارا بھی۔ مگر اس کا موڈ بہت خراب ہو چکا تھا۔
٭٭٭
اگلا پورا ہفتہ وہ اسے سمجھاتی رہی تھی۔ لیکن بیلا ہر بار یا تو اس پر بگڑ جاتی یا پھر بات کا رخ موڑ دیتی اور کبھی تو یوں ظاہر کرتی۔ جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔
تنگ آ کر اس نے مانیک سے معذرت کر لی۔ تب اس نے آخری بار ملوانے کا کہا تھا اور اب وہ اسے بہانے سے کلب لے آئی تھی۔
فلیش لائیٹ میں دمکتے چہرے، بے ہنگم میوزک اور ایک دوسرے کے پہلو میں لڑھکتے نیم برہنہ وجود۔ ہر کوئی مد ہوش سا اپنے ہال میں مست نظر آ رہا تھا۔
اس نے اک ناگوار سی نگاہ پورے ڈسکو ہال پر ڈالی اور دوسری کیتھرین پر، جو اس کی موجودگی سے بے نیاز اپنے نئے بوائے فرینڈ پیٹر کے ساتھ ڈانس کر رہی تھی اسے تو یوں آگے پیچھے ڈولنے میں کوئی چارم نظر نہیں آتا تھا۔
’’گڈ ایوننگ بیلا۔‘‘ کوئی اس کے سامنے آن کھڑا ہوا تھا۔ لبوں پہ مسکراہٹ لیے بالکل بدلے ہوئے گیٹ اپ کے ساتھ وہ معمول سے ہٹ کر خوبرو اور اسمارٹ لگ رہا تھا۔
بیلا کو اپنی دھڑکنوں میں گڑ بڑ سی محسوس ہوئی۔ اس نے سٹپٹا کر نظروں کا زاویہ بدل لیا اور کیتھرین کو آوازیں دینے لگی۔ مگر وہ سن کر بھی انجان بن رہی تھی۔
’’میں جا رہی ہوں۔‘‘ اس نے دور سے اشارہ کیا۔
’’ایکسکیوزمی۔‘‘ پھر مانیک کے پہلو سے نکل کر وہ باہر کی طرف لپکی۔
وہ بھی اس کے پیچھے ہی آیا تھا۔
باہر کی فضا میں خنکی کا احساس شدید تھا اور بادل خوب گرج گرج کر برس رہے تھے۔ بیلا نے دروازے سے ہاتھ باہر کیا۔ بارش کی دو بوندوں کو اس نے اپنی ہتھیلی میں اٹھایا اور پھر فوراً ہاتھ اٹھا کر جھٹک دیا۔ پانی بے حد ٹھنڈا تھا۔ اس نے کپکپاتے ہوئے دونوں ہتھیلیوں کو آپس میں رگڑ کر سردی کا احساس زائل کرنے کی کوشش کی۔
وہ باہر نکلا اور اس کا راستہ روک کر عین اس کے مقابل آن کھڑا ہوا۔ بارش کا پانی اسے بھگو رہا تھا۔ مگر اسے جیسے کوئی پروانہ تھی۔
بیلا کے ابروتن گئے۔
اس کی پرشوق نگاہیں اس کے گلابی ہونٹوں پر جمی ہوئی تھیں۔ لب خاموش تھے۔ مگر آنکھیں خاموش نہیں تھیں۔
ان سے لپکتے جذبوں کی حدت دیکھ کے بیلا کو دل کے کنارے پگھلتے ہوئے محسوس ہوئے۔ اپنی جنوں خیز نظریں کو اس پر ٹکائے وہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ پگھل رہی تھی، موم ہو رہی تھی اور پھر بالآخر وہ بول اٹھی۔
’’یوں بارش میں بھیگ کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہو تم۔‘‘
’’جو تمہیں میری شدتوں میں نظر نہیں آتا۔‘‘ وہ بے تاب لہجے میں بولا۔
’’وہ تو تم مر کر بھی ثابت نہیں کرپاؤ گے۔ کیونکہ مجھے تمہارا اعتبار نہیں ہے۔‘‘ اس نے بے نیازی سے سر جھٹک دیا۔
’’اور میں آج تمہیں وہ اعتبار دے کر رہوں گا۔ چاہے اس کے لیے مجھے موت کی حد سے ہی کیوں نہ گزرنا پڑے۔‘‘ وہ اطمینان سے بولا۔ بارش کی گرج چمک بڑھ چکی تھی اور مانیک کا ارادہ بھی اٹل تھا۔ بیلا نے ایک بار برستے آسمان کو دیکھا اور دوسری بار اسے۔
تب ہی اس نے اپنی جیپ سے ایک کارڈ نکال کر اس کی سمت اچھال دیا۔ جو پانی کی سطح پر تیرتا اس کے قدموں میں آن رکا۔
’’جاؤ! تم اپنے گھر چلی جاؤ اور صبح جب میں مر جاؤں تو میری موت کی اطلاع اس نمبر پر دے دینا۔ وہ آ کر میری ڈیڈ باڈی لے جائیں گے۔‘‘ وہ ایک طرف ہو کر اسے راستہ دیتے ہوئے بولا۔
’’تم ایسا نہیں کر سکتے۔‘‘ وہ ہنوز بے یقین تھی۔
’’میں ایسا ہی کروں گا۔‘‘ وہ ضدی لہجے میں بولا۔ وہ اس کی سمت دیکھنے پر مجبور ہو گئی۔ اس کا سارا وجود کپکپا رہا تھا اور ہونٹ نیلے پڑ چکے تھے۔ اپنی بات کہہ کر وہ ان سب سے بے نیاز اسے یوں دیکھ رہا تھا۔ جیسے کوئی مرنے والا زندگی کو دیکھتا ہے۔
اتنی حسرت، اتنی بے چارگی اور اتنی محبت وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ سکتی تھی۔
’’تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو نا تو میں تم سے شادی کرنے کو تیار ہوں … ابھی اور اسی وقت۔‘‘ وہ یہی سمجھ رہی تھی کہ دوسرے لڑکوں کی طرح وہ بھی اس سے محض فلرٹ کر رہا ہے۔ اپنی جانب سے اس نے یہ سب کہہ کر اسے بڑی آزمائش میں مبتلا کیا تھا۔ اس کا خیال تھا، وہ اب کوئی بہانہ بنائے گا۔
مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی، جب وہ دوبارہ اس کے مقابل آن کھڑا ہوا۔
’’چلو۔‘‘ وہ مکمل طور پر سنجیدہ تھا۔
’’بیلا! تم پاگل ہو چکی ہو۔‘‘ کیتھرین اسی وقت اس کے پاس چلی آئی۔ وہ ان کی گفتگو کا آخری جملہ سن چکی تھی۔
’’ایسے شادی کرو گی؟‘‘ اس نے روکنے کی سعی کی۔
مانیک جھٹ اپنی ریڈ فراری کا فرنٹ ڈور کھولے کھڑا تھا۔ بیلا نے کیتھرین کی بات کا جواب دینا بھی ضروری نہ سمجھا اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔
٭٭٭
’’نایاب! کہاں ہو تم؟ صبح سے کال کر رہا ہوں۔ آج یونیورسٹی بھی نہیں آئیں۔ مجھے آج تمہیں سرپرائز دینا تھا … مما سے ملوانے لے کر جانا تھا۔ وہ ویٹ کر رہی ہوں گی اور تم ہو کہ …‘‘ لان میں جھولے پر بیٹھی وہ مسلسل اس فون کال کو سوچے جا رہی تھی۔ در نایاب نہارہی تھی۔ اس کا فون مسلسل بج رہا تھا تو مہک نے ریسیو کر لیا۔ دوسری طرف کوئی لڑکا تھا۔
’’کون ہو سکتا ہے۔‘‘ لہجے کی بے قراری اور مخاطب کرنے کا اندازہ بتاتا تھا کہ شناسائی کے رنگ نئے نہیں ہیں۔
’’کوئی یونیورسٹی فیلو۔‘‘ اس کا شک گھوم کر ادھر ہی جا رہا تھا۔
’’مگر پھوپھو کسی سے محبت کیسے کر سکتی ہیں۔‘‘ اس کا دماغ سن ہو چکا تھا۔ ’’اگر ایسا ہوا تو یہ لاحاصل خواہش کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔
پھوپھو اپنے قبیلے کی روایات، اپنا خاندانی وقار اور برسوں پرانی طے شدہ بات سب کیسے فراموش کر سکتی ہیں۔
کیوں انہوں نے ایسی خار زار راہ پر قدم رکھا ہے۔‘‘
دونوں ہاتھ گود میں رکھے وہ اپنی سوچوں میں اس قدر الجھی ہوئی تھی کہ اسے زریاب کی آمد کا علم تک نہ ہو سکا۔ اس نے ڈرانے کے لیے جھولا پکڑ کر زور سے ہلایا۔ وہ گھٹنوں کے بل سوکھی خشک گھاس پر جا گری تھی۔ اس کے پاؤں میں شدید موچ آ گئی۔ درد سے آنکھوں کے کٹورے لبالب بھر گئے۔
’’سوری مہک۔‘‘ وہ شرمندہ ہوا۔
’’میرا مقصد تمہیں گرانا نہیں تھا۔‘‘ وہ وضاحتیں دے رہا تھا۔ مگر وہ پاؤں پکڑے خاموش بیٹھی آنسو بہائے جا رہی تھی۔‘‘
’’لگتا ہے، موچ آ گئی ہے۔ دکھاؤ! میں ابھی ٹھیک کر دوں گا۔‘‘ اس نے ہاتھ بڑھایا ہی تھا جب وہ چلا اٹھی۔
’’خبردار! مجھے ہاتھ لگایا تو۔‘‘ اس کا انداز انتہائی جارحانہ تھا۔
’’اچھا! چلو اٹھو اور اندر چلو۔ پھوپھو یہیں آ رہی ہیں۔‘‘ وہ صلح جوئی سے بولا۔
’’اچھا ہے ! پھوپھو کو بھی تمہاری بے ہودہ حرکتوں کا پتا چلے۔ دیکھنا! تمہاری شکایت تو میں اس بار خود ابا سے کروں گی۔ اس روز بھی تم نے مردہ چھپکلی میری گود میں رکھ دی تھی۔‘‘ سنہری آنکھوں میں بادل امڈ آئے۔ اس سے قبل کہ ٹپ ٹپ برسات ہوتی، زریاب نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔
’’اچھا! ایک بار معاف کر دو۔ اب تمہیں چھپکلی سے کبھی نہیں ڈراؤں گا اور ابھی جو لال بیگ میں تمہاری نوٹ بک میں رکھ کر آیا ہوں۔ وہ بھی نکال دوں گا۔‘‘ کیا معصومیت بھرا اعتراف تھا۔ مہک کی چیخ نکل گئی۔
’’میری نوٹ بک میں لال بیگ؟ زریاب! آئی ول کل یو۔‘‘ اس نے زمین پر ہاتھ مارا تو زریاب نے اس کے دونوں جوتے حفظ ماتقدم کے طور پر اٹھا لیے۔
’’چلو! ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔‘‘
’’ڈاکٹر کو گھر لے کر آؤ۔‘‘ قریب رکھی نوٹ بک اٹھا کر اس نے زریاب کا نشانہ لیا۔ مگر وہ مہارت سے کیچ کرتا پلٹ گیا۔
’’اب کہاں جا رہے ہو؟‘‘ وہ پیچھے سے چلائی۔
’’ڈاکٹر کو بلانے۔‘‘ وہ تحمل سے گویا ہوا۔
’’میں ڈاکٹر کے آنے تک یہیں بیٹھی رہوں گی کیا؟‘‘ وہ زچ ہو اٹھی۔
’’چل سکتی ہو؟‘‘ وہ گھوم کر واپس آیا تو وہ نفی میں سر ہلا گئی۔
’’مجھے فلمی ہیرو بننے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ پھوپھو کے آنے تک ادھر ہی چڑیوں کے ساتھ بیٹھو۔‘‘
بے مروّتی سے کہتا وہ چلا گیا۔ مہک پیچھے پیچ و تاب کھا کر رہ گئی۔
٭٭٭
چرچ میں دونوں کی شادی ہوئی۔ اس کے بعد مانیک اسے اپنے اپارٹمنٹ لے آیا۔ آج پہلی بار خوشی کے بھرپور احساس کو اس نے تمام تر شدوں کے ساتھ محسوس کیا تھا۔
بیلا اس کی ہو چکی تھی۔ مگر وہ اب بھی بے یقین سا تھا۔ اسے یہ سب ایک حسین خواب جیسا لگ رہا تھا۔ بار بار پلکیں جھپکتے ہوئے اس نے خود کو باور کروایا کہ یہ حقیقت ہے۔ حسین، خوشنما، دلفریب حقیقت، جو خوابوں سے کہیں زیادہ خوب صورت ہے۔
وہ اس کے اپارٹمنٹ میں اس کے ساتھ موجود تھی وہ اسے کچھ کنفیوز اور نروس بھی لگ رہی تھی۔
’’کیا لو گی؟‘‘ اچانک اسے آداب میزبانی یاد آئے۔
’’کافی۔‘‘ اس نے بغیر کسی جھجک کے کہہ دیا۔
وہ اٹھ کر کچن میں چلا آیا کافی پھینٹنے کے ساتھ ساتھ وہ ولیم جون کی خوب صورت نظم گنگنا رہا تھا۔
بیلا ٹیرس کی ریلنگ پر جھکی اس کی آواز سن رہی تھی۔ اسے لگا، اس گیت کو مانیک سے اچھا کوئی نہیں گنگنا سکتا۔
اس کی آواز میں ساز تھا، سوز تھا اور محبت تھی۔ محبت جو ہر چیز کو حسین بنا دیتی ہے۔
’’کافی۔‘‘ اس نے مگ ریلنگ پر رکھ دیا۔
’’کافی اچھی بناتے ہو۔‘‘ وہ ایک گھونٹ بھر کر بولی۔
’’یہ تعریف ہے ؟‘‘ وہ شرارت سے مسکرایا۔
’’سمجھ سکتے ہو۔‘‘ اس نے بے نیازی سے شانے اچکائے۔
’’کیا تم اپنے فیصلے پر پچھتا رہی ہو؟‘‘ مانیک نے ریلنگ سے ٹیک لگائی۔
ٹھنڈی سرسراتی ہوائیں شور مچارہی تھیں۔
’’میں خود اپنی کیفیت نہیں سمجھ پارہی۔ خوش بھی نہیں اور کوئی پچھتاوا بھی نہیں۔ بہرحال اتنا ضرور ہے کہ تم جیسا شخص میرا آئیڈیل نہیں تھا۔‘‘ اس نے صاف گوئی سے کہہ دیا۔
’’لیکن تم جیسی لڑکی ہی میرا آئیڈیل تھی … جو کبھی مجھ سے بے وفائی نہ کرے۔ مجھے بروکن فیملی سے بہت ڈر لگتا ہے بیلا … مجھے اور میرے اس گھر کو کبھی ٹوٹنے مت دینا۔‘‘ مانیک نے اسے شانوں سے تھام لیا۔
وہ اس کے لفظوں کی شدت پر ساکت رہ گئی۔ اس ایک لمحے میں وہ اسے دنیا کا سب سے سچا انسان لگا تھا۔ اس نے بے اختیار اپنے شانوں پر رکھے اس کے ہاتھوں کو چھوا، جو سنگریزوں کی مانند دہک رہے تھے۔
’’تمہیں بخار ہے ؟ تم بارش میں بھیگے تھے نا …
اومائی گاڈ! تمہیں نمونیہ نہ ہو جائے۔‘‘ وہ ایک پل میں کس قدر فکر مند ہو گئی تھی۔ مانیک کو اس کا اپنے لیے فکر میں مبتلا ہونا، اپنی پروا کرنا اچھا لگا تھا۔ اس کا دل چاہا، وہ خوشی سے چھلانگیں لگائے۔
٭٭٭
وہ فیصلہ جسے کرنے میں وہ تامل کا شکار تھی اور کل تک اسے اپنے احساسات کا خود بھی اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ وہ خوش تھی، اداس تھی یا پچھتا رہی تھی۔
لیکن آج اس نے صحیح معنوں میں خوشی کو اپنے من کے اندر کسی نوخیز کلی کی مانند چٹکتے محسوس کیا تھا۔ اس کے سب اندازے، جو وہ مانیک کے متعلق لگایا کرتی تھی، جھوٹ نکلے تھے۔
وہ اپنے سابقہ حلیے کے برعکس بہت محبت کرنے والا اور مہذب نوجوان تھا۔ کل اس نے کہا تھا، تم جیسا لڑکا میرا آئیڈیل نہیں تھا۔‘‘
مگر اب ایک ہی دن میں اس کے خیالات بدل چکے تھے۔ وہ اپنے دل میں اس کے لیے بے حد محبت محسوس کر رہی تھی۔ اس کی جانب نگاہ اٹھتی تو یوں لگتا، جیسے اس ساری کائنات میں بس ایک وہ ہی ہے، جو اس کا اپنا ہے۔ وہ اس پر حق جتا سکتی تھی۔ اس پر غصہ ہو سکتی تھی۔ اس سے لڑ سکتی تھی۔ خفا ہو سکتی تھی۔
آج مدتوں بعد جیسے کوئی رشتہ میسر آیا تھا۔
رابرٹ ماموں بھی اس کے اپنے تھے۔ آنٹی جنیفر اس کا کتنا خیال رکھتی تھیں۔ کیتھرین تو بہنوں جیسی تھی۔ مگر پھر بھی اس گھر میں اسے اجنبیت کا احساس ہوتا تھا۔ وہ اس گھر پر اس گھر میں موجود افراد پر کبھی بھی ایسا استحقاق نہیں جتا سکتی تھی۔ جیسا مانیک کے اپارٹمنٹ میں آ کر محسوس ہو رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا، جیسے وہ صدیوں سے اسی گھر میں رہ رہی ہو۔
ابھی بھی وہ کچن کے کیبنٹ سے ٹیک لگا کر کھڑی اسے کام کرتے دیکھ رہی تھی۔ وہ اس وقت بلیوپینٹ اور وائٹ ٹی شرٹ میں ملبوس تھا۔ سلکی بال ماتھے پہ بکھرے ہوئے تھے۔ آنکھوں میں نیند کا خمار تھا۔ وہ اس کی محویت پر چونکا۔
’’کیا سوچ رہی ہو؟‘‘
’’یہ یہی کہ تم ویسے نہیں ہو، جیسا میں سمجھتی تھی۔‘‘
’’تو پھر کیسا ہوں ؟‘‘ وہ کچن کی سلیب صاف کرتے ہوئے مسکرایا۔
’’اپنی تعریف سننا چاہتے ہو؟‘‘ وہ ہنسی۔
’’کیا میں اتنا لکی ہوں ؟‘‘ سلیب صاف کرتے اس کے ہاتھ رک گئے۔ وہ اب سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’بیلا تمہاری ہے۔ کیا یہ خوش بختی کی علامت نہیں ؟‘‘ اس نے اپنے گلے میں جھولتی چین گھماتے ہوئے شوخی سے کہا تو وہ برجستہ بولا۔
’’اور بیلا کا دل؟‘‘
’’وہ تو کب کا مجھ سے بے وفائی کر چکا ہے۔‘‘ اس نے مایوسی سے شانے اچکائے۔ مانیک کے لبوں پہ بڑی دلفریب مسکراہٹ امڈ آئی۔
’’تم نے بتایا نہیں کہ میں کیسا ہوں ؟‘‘ وہ اب ہاتھ دھو رہا تھا۔
’’بہت اچھے اور سب سے پیارے۔‘‘ اس نے آنکھیں میچتے ہوئے دونوں ہاتھ پھیلا کر کہا تو وہ دل پہ ہاتھ رکھے جیسے گرنے کے قریب ہو گیا۔ وہ اسے اس طرح گرتا دیکھ کر مسلسل ہنسنے جا رہی تھی۔ جب ہی ڈور بیل بجی۔
’’کون ہے، جس نے اتنے حسین پل کو خراب کیا۔‘‘ وہ منہ بسورتے ہوئے دروازے کی سمت بڑھا۔ بیلا بھی کچن کی دہلیز پر آن کھڑی ہوئی تھی۔
’’کس قدر خود غرض مطلبی اور طوطا چشم دوست ہو تم۔‘‘ دروازہ کھلتے ہی رالف کا چہرہ نمودار ہوا۔ مانیک کو دیکھتے ہی وہ نان اسٹاپ جلی کٹی سنانے پر اتر آیا۔
’’اکیلے اکیلے شادی کر لی۔ ایسی بھی کیا آفت آن پڑی تھی تم پر۔ کم از کم ایک کال ہی کر لیتے۔‘‘ پیچھے کلارک تھا۔ اس کا منہ بھی پھولا ہوا تھا۔
’’انہوں نے تو مجھے بھی سڑک پر چھوڑ دیا تھا۔ تم دونوں کو بلانے کی زحمت کیا کرتے ؟‘‘ کیتھرین کا موڈ بھی بگڑا ہوا تھا۔ ساتھ سوزین بھی تھی۔ جس کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔
بیلا اندازہ نہیں لگا پائی کہ وہ کن کیفیات کا شکار ہے۔
’’یار! سب اتنی جلدی ہوا کہ بس مت پوچھو۔‘‘ وہ وضاحتیں دینے لگا۔ وہ دونوں اسے بہت عزیز تھے۔ وہ کسی بھی صورت انہیں خفا نہیں کر سکتا تھا۔ بیلا کو پالینے کے بعد باقی رشتوں کی اہمیت اس کی نظر میں کم نہیں ہوئی تھی۔ وہ ہر رشتے کو بہت خوب صورتی کے ساتھ نبھانا جانتا تھا۔
’’یار! ہم تو تیری خوشی سے ہی خوش ہیں۔‘‘ آخر کلارک کو مصنوعی خفگی کا چولا اتارنا ہی پڑا۔ اگلے ہی پل دونوں اس سے لپٹ گئے۔
کیتھرین اس کے لیے ویڈنگ ڈریس لائی تھی۔ وائٹ نیٹ کے فراک میں وہ روایتی دلہن بنی اتنی پیاری لگ رہی تھی۔ مانیک سمیت کیتھرین، رالف کلارک اور سوزین کے لیے بھی اس پر سے نظریں ہٹانا مشکل ہو گیا۔
’’یار! ہالینڈ کی شہزادی تو تم نے چرالی۔‘‘ کلارک مانیک کے کانوں میں گھسا۔ سوزین کی نظریں مانیک کی سمت اٹھ گئیں جو محبت پاش نظروں سے بیلا کو دیکھتا کس قدر خوش اور مسرور دکھائی دے رہا تھا۔ اسے لگا، وہ اس کی دسترس سے بہت دور جا چکا ہے۔ وہ بیلا کو پسند کرتا تھا، وہ جانتی تھی۔ بلکہ سب سے پہلے اس نے یہ بات اسے ہی بتائی تھی۔ مگر اس نے سمجھا تھا، یہ وقتی جذبہ ہے۔ کچھ وقت گزرے گا اور بیلا اپنی کشش کھو دے گی۔ لیکن اس کے تو سان و گماں میں بھی نہیں تھا کہ مانیک اس کے ساتھ شادی بھی کر سکتا ہے۔
اب رالف ان دونوں کی تصویریں بنا رہا تھا۔ وہ چپکے سے اٹھ کر اپارٹمنٹ سے باہر نکل آئی۔ اس کا یوں اٹھ کر جانا مانیک کے سوا کسی نے بھی محسوس نہیں کیا تھا۔
’’ہماری پارٹی ڈیو ہے۔‘‘ رالف نے جانے سے قبل یاد دلایا۔
’’اتنا سب ٹھونسنے کے بعد بھی؟‘‘ مانیک نے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں۔
’’کیتھی! انکل رابرٹ اور آنٹی کیسے ہیں ؟‘‘ تنہائی ملتے ہی بیلا نے سب سے پہلے ان دونوں کا پوچھا تھا۔ اسے فکر ہو رہی تھی کہ اس کے اقدام کے بعد ان کا کیا رد عمل سامنے آیا ہے۔
’’ڈیڈ تم سے بہت ناراض ہیں۔ انہیں ہرگز امید نہیں تھی کہ تم ان کی موجودگی اور اجازت کے بغیر یوں شادی کر لو گی۔ حالانکہ وہ تمہیں اس شادی پر خود فورس کر رہے تھے۔ لیکن اس حرکت پر انہیں نہ صرف خاصا شاک لگا ہے۔ بلکہ گہرا دکھ بھی ہوا ہے۔‘‘ کیتھرین صاف گوئی سے بولی۔
بیلا کا چہرہ اتر گیا۔ اس نے ایسا تو کبھی نہیں چاہا تھا۔
’’میں انہیں منالوں گی۔‘‘ اس خیال نے اسے مطمئن کر دیا تھا۔
٭٭٭
ایونیو روڈ پر واک کرتے ہوئے دونوں اس جھیل کے کنارے چلے آئے تھے۔ جہاں آبی نرگس کی سنہری کلیاں تھیں اور جس میں چاند کا پورا عکس دکھائی دیتا تھا۔
وہ ہوا کے رخ پہ کھڑی تھی اور مانیک اس کے سامنے بیٹھا تھا۔ ہوا نے اس کے بال بکھیر کر ماتھے پر گرا دیے تھے۔ سنہری آنکھوں کا رنگ آبی نرگس کے پھولوں جیسا تھا۔ نیوی بلوپینٹ اور سرمئی شرٹ میں وہ ہمیشہ کی طرح بلا کا ہینڈ سم اور دلکش دکھائی دے رہا تھا۔
وہ اسے دیکھنے میں اتنا کھوچکی تھی کہ اب اسے مانیک کی آواز بھی سنائی نہیں دے رہے تھی۔
’’بیلا۔‘‘ اس نے ذرا سا آگے جھکتے ہوئے اس کے رخسار پر چٹکی بھری اور نرگس کے دو سنہری پھول توڑ کر اس کے بالوں میں سجا دیے۔ وہ اس وقت اسی وائٹ برائیڈل فراک میں ملبوس تھی اور ان دو نرگس کے سنہری پھولوں نے جیسے اسے سجا دیا تھا۔ فضا بھی نرگس کے پھولوں سے مہک رہی تھی۔
’’ہم ہنی مون کے لیے کہاں جائیں ؟‘‘ مانیک نے اپنے جوتے اتار دیے تھے اور اب اس کا ہاتھ تھام کر نم آلود گھاس پر چل رہا تھا۔
سردی ریڑھ کی ہڈی میں سرایت کر رہی تھی۔ مگر پروا کسے تھی۔ وہ بیلا کے ساتھ تھا۔ پورے چاند کی رات تھی۔ جھیل کا کنارا تھا۔ نرگس کے پھولوں کی مہک تھی۔ ٹھنڈی گھاس اور یخ بستہ ہوائیں۔ اسے سب بہت رومانٹک لگ رہا تھا۔
’’نیویارک۔‘‘ وہ اپنے شہر کو بہت مس کرتی تھی۔
’’کیوں ؟‘‘ مانیک نے تعجب سے سوال اٹھایا۔ وہ جانتا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کے سترہ سال نیویارک میں گزارے تھے۔ پھر وہاں جانے کی کیا وجہ تھی۔
’’مجھے تمہیں اپنی مما سے ملوانا ہے۔‘‘
’’لیکن ان کا تو انتقال ہو چکا ہے۔‘‘
’’تو کیا ہوا؟ ہم ان کی قبر پر جائیں گے۔ وہ ہم سے بات نہیں کر سکتیں۔ مگر ہمیں دیکھ تو سکتی ہیں اور مجھے تمہارے ساتھ خوش دیکھ کر ان کی روح کو کتنا سکون ملے گا۔‘‘
اس کی کلاس فیلو تھی، فاطمہ۔ جب اس کی والدہ کی وفات ہوئی تھی تو وہ ہر جمعے کو ان سے ملنے جایا کرتی تھی۔ اس نے کہا تھا، جسم مر جاتے ہیں، لیکن روحیں زندہ رہتی ہیں۔ جو ہمیں دیکھتی بھی ہیں اور سنتی بھی ہیں۔
مانیک کو اگرچہ ان باتوں میں کوئی سچائی نظر نہیں آ رہی تھی۔ مگر پھر بھی وہ انکار نہیں کر سکا تھا۔ وہ اس کا دل نہیں توڑ سکا تھا۔ اس نے ساتھ چلنے کی ہامی بھرلی تھی۔
’’اس کے بعد ہم برمنگھم جائیں گے۔ ڈیڈ سے ملنے اور پھر اسپین سے ہو کر سوئٹزرلینڈ۔‘‘
’’اچھا! اور اس کے بعد ؟‘‘ وہ دلچسپی سے بولی۔
’’اس کے بعد جیب خالی ہو جائے گی تو گھر لوٹ آئیں گے۔‘‘ اس نے مصنوعی بے چارگی سے ہاتھ جھاڑے تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
’’تمہیں پتا ہے، تم آج بہت خوب صورت لگ رہی ہو۔‘‘ اس نے آبی نرگس کے سنہری پھولوں کی ایک اور کلی اس کے بالوں میں سجادی۔
٭٭٭
’’میرے بیڈ روم کا ڈور کس نے لاک کیا ہے ؟‘‘ وہ کھڑکی میں کھڑا چلا رہا تھا۔
’’یہ کارنامہ میرے سوا کون سرانجام دے سکتا ہے۔‘‘ وہ سامنے ہی صوفے پر براجمان تھی۔ لبوں پہ دل جلادینے والی مسکراہٹ سجائے۔
’’مہک کی بچی! دروازہ کھولو۔ میں کالج سے لیٹ ہو رہا ہوں۔ میرا ضروری ٹیسٹ ہے۔‘‘ اس نے دانت پیسے۔
’’جی ہاں ! اور اتفاق سے وہ ٹیسٹ میرا بھی تھا۔ مگر تم نے مجھے جان بوجھ کر جھولے سے گرایا۔ اب پاؤں میں آئی موچ کی وجہ سے میں کالج نہیں جا سکتی۔ پھر تم نے میرے نوٹس چرا کر رات بھر ٹیسٹ کی تیاری کی ہے۔ تمہارے لیے تو آج میدان صاف ہے۔ مجھے غیر حاضر کروا کر نمبر ون پر آنا چاہتے ہو تو بات یہ ہے مسٹر زریاب شاہ! کہ میں نہیں جاؤں گی تو تم بھی نہیں جاؤ گے۔‘‘ وہ اپنی اور اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مزے سے بولی۔
’’توبہ! کس قدر کینہ پرور، شاطر دماغ اور مکار لومڑی ہو تم۔‘‘ وہ تلملا کر رہ گیا۔
’’حد ادب لڑکے ! مت بھولو کہ تم اس وقت میری حراست میں ہو۔‘‘ اس میں سچ مچ جلال الدین کی روح سرایت کر گئی تھی۔ مگر کھڑا ہونے کے چکر میں کراہ کر واپس بیٹھ گئی۔
’’ملکہ عالیہ! قیدی لڑکے پر تھوڑا ترس کھائیں۔ مجھے بھوک لگی ہے … دروازہ تو کھول دیں۔‘‘ آواز میں مصنوعی عاجزی اور انکسار سمٹ آیا۔
’’فی الحال تو میں رحم کے موڈ میں نہیں ہوں۔ کالج ٹائم گزر جائے تو سوچوں گی۔‘‘
’’یار! نہیں جاتا میں کالج … دروازہ تو کھولو … مجھے ناشتا کرنا ہے۔‘‘ اسے واقعی بھوک لگی تھی۔ یہ بات تو مہک بھی جانتی تھی کہ وہ بھوک کا کتنا کچا ہے۔ صبح آٹھ بجے ناشتے میں دو پراٹھے لیتا تھا اور اب تونو بج رہے تھے۔
’’پہلے حلف اٹھاؤ کہ تم آج کالج نہیں جاؤ گے۔‘‘ اس نے شرط عائد کی۔
’’بیوقوف لڑکی! جانتی نہیں کہ میں کتنی محبت کرتا ہو تم سے ؟ تمہارا کہہ دینا ہی میرے لیے کافی ہے۔‘‘ وہ ڈائیلاگز پر اتر آیا تھا۔ مگر وہ اس کی چالاکی سمجھ گئی۔
’’ڈائیلاگز نہیں چلیں گے … شرافت سے حلف اٹھاؤ اور آ جاؤ۔ دیکھو! ناشتا ٹیبل پر سج چکا ہے۔ تمہاری پسند کے گوبھی والے پراٹھے ہیں۔‘‘ ایک لقمہ منہ میں ڈالتے ہوئے اس نے باقی کا پراٹھا زریاب کی نظروں کے سامنے لہرایا، جس پر اس کی بھوک مزید چمک اٹھی۔
اب کالج نہ جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
’’خواہ مخواہ چھٹی کروا دی میری۔ اب میں سارا دن گھر میں کیا کروں گا۔‘‘ وہ باہر نکلتے ہی اس پر چڑھ دوڑا۔
’’میری سیوا۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے گویا ہوئی۔
٭٭٭
آج رات گیارہ بجے ان کی نیویارک کے لیے فلائٹ تھی۔ مانیک اپنی پیکنگ مکمل کر چکا تھا اپنا بیگ تیار کرنے کے بعد وہ اس کی سمت متوجہ ہوا۔
’’تم نے اپنا بیگ تیار کر لیا؟‘‘
’’بیگ کپڑوں سے تیار کیا جاتا ہے اور میں ایک ہی جوڑے میں تمہارے پاس آئی تھی۔‘‘ اس نے خفگی سے مانیک کو دیکھا تو وہ سر پہ ہاتھ مار کر بولا۔
’’اوہ! تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں ؟‘‘
’’تین روز سے مجھے ایک ہی لباس میں دیکھ کر بھی خیال نہیں آیا؟‘‘
’’جب تم سامنے ہوتی ہو تو باقی سب پس منظر میں چلا جاتا ہے یا پھر تم اتنی پیاری ہو کہ تمہیں سنگھار کی بھی ضرورت نہیں۔‘‘ وہ مکالمے بازی پر اتر آیا۔ بیلا متاثر ہوئے بغیر خفگی سے اسے دیکھتی رہی۔
’’چلو! تمہیں شاپنگ کروا کر لاتے ہیں۔ واپسی پر تمہارے انکل رابرٹ اور آنٹی سے بھی ملاقات ہو جائے گی۔‘‘ اس نے جلدی جلدی پروگرام ترتیب دیا۔ مگر انکل رابرٹ کے نام پر اس کا چہرہ اتر گیا وہ یہ سوچ کر پریشان تھی کہ وہ انہیں کیسے منائے گی اسے کبھی بھی کسی کو منانا نہیں آیا تھا۔
’’وہ نہیں ملیں گے۔‘‘ اس نے خود ہی اخذ کر لیا۔
’’یہ میرا ہیڈک ہے۔ میں منالوں گا۔‘‘ اس نے وثوق سے کہا۔
اور پھر واقعی اس نے انکل رابرٹ اور آنٹی کو منا کر ہی دم لیا تھا۔ دل میں تو ان کے ابھی بھی کچھ غصہ باقی تھا مگر بظاہر وہ اس سے اب کافی ہنس بول رہے تھے۔
٭٭٭
اپنے ملک کی سرزمین پر قدم رکھتے ہوئے اس کے احساسات عجیب سے ہو گئے۔ دل کسی ضدی بچے کی مانند ہمکنے لگا۔ رات کا آخری پہر بڑی مشکل سے گزرا۔
نیویارک میں صبح طلوع ہوئی اور اس نے بستر چھوڑ دیا۔ روم سروس والا آ کر ناشتا دے گیا۔
مانیک کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں مگر بیلا کی خاطر وہ جلدی اٹھ گیا تھا۔ وہ جانتا تھا وہ اپنی مما سے ملنے کے لیے بے چین ہے۔
شاور لینے کے بعد اس نے بلیک پینٹ پر سفید ہائی نیک جرسی اور بلیک سلیولیس جیکٹ پہنی تھی جس میں وہ اچھا خاصا خوبرو اور اسمارٹ لگ رہا تھا مگر بیلا اس کی تیاری سے مطمئن نہیں ہوئی تھی اس نے بیگ سے اس کے لیے بلیک ٹو پیس نکال دیا تھا۔
’’مانیک! اگر تم یہ پہنو تو۔‘‘ وہ اس کے سر پر آن کھڑی ہوئی۔ بالوں میں برش کرتا اس کا ہاتھ رک گیا۔ وہ کچھ کہنے نہ کہنے کی کیفیت میں الجھا کھڑا تھا اور یہی الجھن اس کی آنکھوں سے بھی جھلک رہی تھی۔ تب ہی اس نے وضاحت کر دی۔
’’میں چاہتی ہوں تم مما کو برطانیہ کے شہزادے سے زیادہ ہینڈ سم نظر آؤ۔‘‘ مانیک اس کی معصومانہ خواہش پر مسکرا دیا۔ وہ ایک مری ہوئی عورت کے لیے اتنی محتاط ہو رہی تھی۔ وہ اسے ٹوکنا چاہتا تھا۔ لیکن پھر اس کی خوشی کی خاطر اس نے بلیک سوٹ پہن لیا تھا۔
ناشتے کے بعد دونوں نیویارک کے قدیم چرچ یارڈ میں چلے آئے تھے۔
بیلا نے راستے میں رک کر سفید للی کا بکے خریدا۔
’’مما! دیکھیں، آپ سے ملنے کون آیا ہے۔‘‘ اس کی پلکیں نم ہونے لگیں۔‘‘ آپ کہا کرتی تھیں نا کہ میری بیٹی بالکل پریوں جیسی ہے اور اس کے لیے ایک دن کوئی بہت سندر سا شہزادہ آئے گا۔ دیکھیں ! وہ پریوں کی کہانی سچ ہو گئی۔ آپ میرے شہزادے سے نہیں ملیں گی؟‘‘ بیلا نے مانیک کا ہاتھ تھام کر قبر کے بالکل سامنے کھڑا کر دیا۔ مگر سامنے سفید سنگ مرمر کے سپاٹ پتھر تھے۔ جن میں زندگی کی کوئی رمق موجود نہیں تھی۔ وہ بے جان تھے۔ مگر اپنے اندر کیسے کیسے محبوب چہرے سمیٹے ہوئے تھے۔
اس پر وحشت سوار ہونے لگی۔ اس کا بس نہ چلتا تھا، وہ سارا قبرستان تہس نہس کر دے۔ وہ ان سفید پتھروں کو توڑ پھوڑ دے اور پھر جانے کب ہر منظر دھند لایا تھا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر روپڑی مانیک نے بڑی مشکل سے اسے سنبھالا۔
دو دن مزید وہاں رک کر وہ سب پرانے دوستوں سے ملی۔ اپنے شہر آ کر جیسے ہر زخم تازہ ہو گیا تھا۔ ہر یاد کسک دینے لگی تھی۔ ان گلی کوچوں میں اسے آج بھی اپنا بچپن اور الزبتھ کے قدموں کا لمس دکھائی دیتا تھا۔ اس نے آخری بار ان سب جگہوں کو دیکھا۔
اپنا پرانا گھر جہاں اب کوئی اور فیملی رہائش پذیر تھی۔ اپنا اسکول، اپنے گراؤنڈ جہاں وہ الزبتھ کے ساتھ ٹینس کھیلا کرتی تھی۔ وہ پارک جہاں ہر شام واک کرنے جاتی تھی۔
’’آئی پرامس بیلا! میں اب کبھی تمہیں تنہا نہیں ہونے دوں گا۔ ہم اپنی زندگی کو مل کر بہت خوب صورت اور خوش گوار بنائیں گے۔‘‘ وہ جھولے پر بیٹھی الزبتھ کے لمس کو محسوس کرنے کی کوشش کر رہی تھی، جب مانیک نے اس کے دونوں ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیے۔
بیلا نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس کے سینے پر سرٹکا دیا۔
٭٭٭
علامہ اقبال میڈیکل کالج سے ان دونوں کو پک کرنے کے بعد ڈرائیور نے گاڑی پنجاب یونیورسٹی کے سامنے روک دی تھی۔ زریاب نے جیب سے موبائل نکالا۔ وہ در نایاب کو ایس ایم ایس کرنا چاہ رہا تھا کہ وہ لوگ گیٹ پر کھڑے ہیں۔ تب ہی مہک کو اچانک اس روز والی فون کال یاد آئی۔ وہ بارہا اس شخص کے متعلق سوچ چکی تھی اور اس کے خیال میں وہ ضرور کلاس فیلو ہی تھا اور در نایاب اس میں انٹرسٹڈ تھی۔ آج ویسے بھی اس کا لاسٹڈ ے تھا۔
ایگزامز سے فارغ ہو کر وہ آج اپنی دوستوں سے ملنے یونیورسٹی آئی تھی۔
اسے لگا، وہ آج آسانی کے ساتھ اپنے ہدف تک پہنچ سکتی ہے۔
’’تم رہنے دو۔ میں پھوپھو کو خود بلا کر لاتی ہوں۔‘‘اس نے زریاب کو ٹوک دیا اور اپنی سمت کا دروازہ کھولنے لگی۔
’’تم کہاں تلاش کرتی پھرو گی؟ میں ایس ایم ایس کرتا ہوں۔ وہ آ جائیں گی۔‘‘ آدھا ادھورا ایس ایم ایس وہ پھر سے ٹائپ کرنے لگا تھا۔
’’اپنے ڈپارٹمنٹ میں ہی ہوں گی۔ مجھے پتا ہے، سائیکالوجی ڈپارٹمنٹ … کہاں ہے۔‘‘ وہ کہہ کر اتر گئی اور با آسانی نیو کیمپس چلی آئی۔
سائیکالوجی ڈپارٹمنٹ سامنے ہی تھا اور وہ دونوں لان میں بینچ پر بیٹھے دکھائی دے گئے تھے۔
در نایاب ایک پھول گود میں رکھے اس کی پتیاں نوچ رہی تھی۔
’’میں جلد مما کے ساتھ حویلی آؤں گا۔‘‘ اس شخص نے اپنے دونوں ہاتھ نایاب کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔
’’جانے کیوں مجھے ڈر سا لگتا ہے۔ حویلی کے اصول بہت سفاک ہیں اور روایات کی دیواریں اتنی بلند کہ انسان کی خواہشیں ان پتھروں سے سر پٹک پٹک کر دم توڑ دیں۔‘‘
’’تم پریشان کیوں ہوتی ہو؟ زمانہ بدل چکا ہے۔ اب کوئی ذات برادریوں کے چکر کو انا کا مسئلہ نہیں بناتا۔ لوگ آج کل لڑکا، گھر اور کاروبار دیکھتے ہیں اور اس لحاظ سے مجھ میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔‘‘ اس کے ہاتھ پر اپنا دباؤ بڑھاتے ہوئے اس نے دس بار کی کہی ہوئی باتوں کو دوہرایا۔
’’تم قبائلی اصولوں اور ضابطوں سے ناواقف ہو۔ زمانے کی گردشیں ہمارے اونچے شملوں کو جھکنے پر مجبور نہیں کر سکتیں۔ ہمارے ہاں رشتے نہیں، سودے ہوا کرتے ہیں۔ ہم پڑھے لکھے جاہل ہیں۔ ہمیں اسلامی اور ریاستی قوانین معلوم ہیں۔ قرآن کی صورت ایک کھلا ضابطہ حیات ہمارے سامنے ہے۔ پھر بھی ہم نے برسوں پرانے رواجوں اور اصولوں کو گلے کا ہار بنا رکھا ہے۔‘‘ وہ سسک اٹھی۔
’’نیا! پلیز یار …‘‘ وہ اس کے آنسوؤں پر تڑپ اٹھا۔
’’میں کل صبح واپس جا رہی ہوں۔ اگر مجھے پانا چاہتے ہو تو مجھے روک لو۔ ورنہ پھر شاید تم مجھے کبھی نہ دیکھ سکو۔ اس سے قبل کہ ہماری محبت ایک خواب بن کر رہ جائے ہمیں کوئی اسٹینڈ لے لینا چاہیے۔ تم مجھ سے نکاح کر لو ابھی اور اسی وقت۔‘‘
درخت کے اس پار کھڑی مہک کے پیروں تلے سے زمین سرک گئی اس کا دل نایاب کی عقل پر ماتم کرنے کو چاہ رہا تھا۔ کیا وہ اپنے لالہ احمد کمال شاہ کے ریسورسز اور سرداری جاہ و جلال سے ناواقف تھی؟ کیا وہ بھول گئی تھی کہ ایسی صورت میں اسے پاتال سے بھی ڈھونڈ کر تختہ دار پر لٹکا دیا جائے گا۔
’’نیا! میں تمہیں پوری عزت اور مکمل وقار کے ساتھ اپنانا چاہتا ہوں۔ نکاح کوئی گناہ نہیں ہے۔ جسے یوں چھپ کر کیا جائے۔ مجھ میں تمہارے لالہ کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت ہے۔ تم بس اپنا اعتبار سلامت رکھنا۔ حوصلہ مت ہار جانا۔ مجھے یقین ہے۔ ہم ضرور ملیں گے۔‘‘
’’میں اپنے لالہ سے نہیں لڑ پاؤں گی۔ مجھے ان سے بڑی محبت ہے۔‘‘ وہ بے بسی سے بولی۔
’’مجھے یقین ہے، اس کی نوبت نہیں آئے گی وہ اوپر آسمانوں پر جو قادر مطلق بیٹھا ہے نا! وہ ہمارے لیے ہر راستہ ہموار کر دے گا۔‘‘ اس کا یقین کامل تھا۔
در نایاب اسے اچانک سامنے دیکھ کر چونک اٹھی۔
’’تم؟‘‘ اس کی آنکھوں میں استعجاب اتر آیا۔
’’مم … میں بس یوں ہی یونیورسٹی دیکھنے چلی آئی تھی۔‘‘ وہ ہکلا گئی۔
’’آؤ چلیں ! زریاب باہر ویٹ کر رہا ہو گا۔‘‘
’’یہ کون ہیں ؟‘‘ وہ ڈھٹائی سے وہیں کھڑی رہی۔
’’یہ میرا کلاس فیلو ہے جہاں زیب۔‘‘ ناچار، در نایاب کو تعارف کروانا پڑا۔ کیونکہ وہ تو ٹس سے مس نہیں ہو رہی تھی۔
زریاب کی کال پھر آنے لگی تھی۔
’’اب چلو بھی۔‘‘ وہ جہاں زیب کے ساتھ علیک سلیک میں مصروف تھی۔ جب در نایاب نے عجلت میں کہا اور دونوں یونیورسٹی کے گیٹ کے سمت بڑھ گئیں۔
’’اگلے روز ان کی جیپ حویلی کی سمت گامزن تھی۔
٭٭٭
’’میں نروس ہو رہی ہوں مانیک! تمہارے فادر مزاجاً کیسے ہیں ؟‘‘ وہ آج ہی برمنگھم آئے تھے اور جیسے جیسے ان کا گھر قریب آ رہا تھا، وہ گھبراہٹ کا شکار ہو رہی تھی۔ اسے نئے لوگوں سے ملنا ہمیشہ سے ہی بہت عجیب سا لگتا تھا۔
’’ڈیڈ از ویری نائس بٹ ان کی مسز کچھ پراؤڈسی ہیں۔ انہیں تم زیادہ لفٹ نہ کروانا۔‘‘ تسلی دینے کا بھی کیا خوب انداز تھا۔
’’بیلا کو ہنسی آ گئی۔
اگلے چند لمحوں میں گاڑی ایک وسیع و عریض بنگلے کے سامنے رک چکی تھی۔ مانیک نے باہر نکل کر فرنٹ ڈور کھولا۔
’’آئیے لیڈی مانیک!‘‘ وہ اس وقت مکمل شوفربنا کھڑا تھا۔ بیلا نے اس کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا۔
’’دیکھو! میرے ساتھ ساتھ رہنا۔ یہ نہ ہو کہ مجھے اپنی فیملی میں بٹھا کر خود غائب ہو جاؤ۔ میں نئی جگہ اور نئے لوگوں میں بہت ان ایزی فیل کرتی ہوں۔‘‘ وہ اندر داخل ہونے سے قبل اپنی بات دوہرانا نہیں بھولی تھی۔
’’واش روم اگر جانا ہو تو تمہیں باہر چھوڑا جا سکتا ہے ؟‘‘ وہ مکمل سنجیدہ تھا۔
’’بکو نہیں۔‘‘ وہ برہمی سے گویا ہوئی جس پر اس کا قہقہہ نکل گیا۔ وہ مزید خفا ہو گئی۔
’’کم آن یار! ٹیک اٹ ایزی۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ تھامے اندر داخل ہوا۔ ٹومی سیڑھیوں سے اچھلتا ہوا نیچے آیا تھا۔
’’یا ہوبگ بی۔‘‘ وہ چھلانگ لگا کر اس سے لپٹ گیا تھا۔ پھر اس کی نگاہ، بیلا پر پڑی تھی۔
’’نیوگرل فرینڈ؟‘‘ وہ خوشی سے بولا۔
’’وائف۔‘‘ مانیک نے اس کا کان کھینچتے ہوئے تصحیح کی تو ٹومی نے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بے یقینی سے اس قدیم یونانی شہزادی کو دیکھا۔
وہ اس وقت نیلے ٹراؤزر پر گلابی ٹاپ جس پر گلابی اور نیلے رنگ کے بڑے بڑے پھول بنے ہوئے تھے میں ملبوس تھی۔ سیدھے کمر تک آتے بال سمیٹ کر اس نے دائیں کندھے پر پھیلا رکھے تھے۔ کانوں میں گلابی پنک بڑی بڑی بالیاں تھیں اور گلے میں موتیوں والی مالا تھی۔ نفاست سے کیے میک اپ کے ساتھ وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
ٹومی کو یقین تھا کہ اس نے آج سے قبل کسی لڑکی کو اتنا حسین، اسٹائلش اور باوقار نہیں دیکھا تھا۔
بیلا اس کی آنکھوں میں امڈتے پسندیدگی کے رنگ دیکھ چکی تھی۔ وہ اسے دیکھ کر مدھم سا مسکرائی۔
مگر ٹومی ابھی تک ہنوز آنکھیں پھاڑے کھڑا تھا۔
’’ڈیڈ کہاں ہیں ؟‘‘ مانیک نے انگشت سے اس کے ماتھے کو چھوا۔
’’بھائی! آپ نے واقعی شادی کر لی ہے ؟‘‘ وہ ابھی تک بے یقین سا کھڑا تھا۔
’’ہاں ! مگر تم اتنے شاکڈ کیوں ہو؟‘‘ اب کی بار بیلا نے جواب دیا تو وہ خاصے پراسرار انداز میں چلتے ہوئے اس کے پاس آن کھڑا ہوا۔
’’آپ نہیں جانتی مادام! کہ آپ کے شوہر نامدار کس قدر فلرٹی بندے ہیں۔‘‘
’’ٹومی۔‘‘ مانیک نے تنبیہی نظروں سے اسے دیکھا۔
’’مجھے کہنے دیں بھائی۔‘‘ اس نے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے گھوم کر بیلا کو سرتاپا دیکھا اور پھر بولا۔
’’یہ کسی ایک لڑکی کے ساتھ مہینہ بھر سے زیادہ نہیں رہ سکتے۔ مگر آپ جتنی حسین ہیں، مجھے بے حد ہمدردی محسوس ہو رہی ہے کہ مستقبل قریب میں آپ کے ساتھ بھی ایسا ہونے والا ہے۔ مگر گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اگر یہ آپ سے اکتا جائیں تو میں ہوں ناں ! ایک چانس مجھے ضرور دیجئے گا۔‘‘ مصنوعی کالر کھڑے کرتے ہوئے اس نے جس انداز میں کہا تھا، بیلا کی ہنسی نکل گئی۔ البتہ مانیک نے اس کی گردن دبوچ لی۔
’’تمہیں لگتا ہے کہ میں ان سے اکتا سکتا ہوں ؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ وہ چلاتے ہوئے نفی میں سر ہلانے لگا۔ پھر گردن ملتے ہوئے آزردگی سے بولا۔
’’جو بھی لڑکی مجھے پسند آتی ہے، وہ مجھ سے بڑی ہی کیوں ہوتی ہے ؟‘‘
’’کیونکہ سب پیاری لڑکیاں میرے لے بنی ہیں لٹل بوائے۔‘‘ مانیک نے ہنستے ہوئے اپنے گیارہ سالہ بھائی کو چڑایا تو بیلا اس کے سر ہو گئی۔
’’یہ سب پیاری لڑکیوں سے کیا مراد ہے تمہاری؟‘‘
مانیک تو برا پھنسا تھا۔ ٹومی سے اپنا قہقہہ ضبط کرنا دشوار ہو گیا۔
’’میرا مطلب تھا …‘‘ وہ سر کھجانے لگا۔ بیلا ہنوز اسے گھور رہی تھی۔
’’تم نے آتے ہی ہمیں لڑوا دیا۔ بہت شریر ہو گئے ہو تم۔ میں نے ڈیڈ کا پوچھا تھا۔‘‘ وہ ٹومی کی خبر لینے لگا۔
’’آفس۔‘‘ اس نے شانے اچکائے۔
’’اور تمہاری مدر؟‘‘
’’وہ پارٹی میں گئی ہے۔ آپ کچھ کھائیں گے ؟‘‘
’’ہاں ! کھانا لگوا دو۔ ہم فریش ہو کر آتے ہیں۔‘‘ وہ بیلا کے ساتھ اپنے بیڈ روم میں چلا آیا۔
گرین اور آف وائٹ رنگوں سے سجا اس کا کمرا کافی خوشنما تاثر دے رہا تھا۔ گل دانوں میں تازہ للی اور سفید گلاب کے پھول سجے تھے۔ جہازی سائز بیڈ پر سفید اور سبز پھولوں والی چادر بچھی تھی۔ کھڑکیوں کے دریچوں کے ساتھ دو جل پریوں کے مجسمے یوں ایستادہ تھے جیسے قدیم دور کی شہزادیاں اوٹ سے باہر جھانک رہی ہوں۔
دیواریں خوب صورت پینٹنگز سے آراستہ تھیں اور ان تصویریوں سے جھلکتے مناظر صدیوں پرانے دور میں لے جاتے تھے۔
یہ سب اس قدر آرٹسٹک اور دلفریب تھا کہ گھنٹہ بھر وہ تصویروں میں بسے مناظر سے کہانیاں تراشتی رہی تھی۔
لنچ کے بعد مانیک نے اسے سارا گھر دکھایا تھا۔
’’ہم یہاں نہیں رہ سکتے ؟‘‘ اونچے ستونوں والے اس خوب صورت اور آرٹسٹک بنگلے کو دیکھتے ہوئے اس نے یوں ہی پوچھا۔
’’تم یہاں رہنا چاہتی ہو؟‘‘ مانیک نے الٹا سوال پوچھا۔
’’میں تو بس تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ جہاں بھی تم رہو۔‘‘ دونوں اس وقت لان کے وسط میں بنے حوض کے کنارے چل رہے تھے۔ جس میں ڈھیروں مرغابیاں تیر رہی تھیں۔ بیلا کے ہاتھ میں چھوٹے چھوٹے اسٹون تھے۔ جن کو ایک ایک کر کے وہ پانی میں اچھا رہی تھی۔ جس سے پانی میں ارتعاش پیدا ہوتا تھا اور مرغابیاں اودھم مچاتی تھیں۔
’’ہالینڈ میں ڈیڈ کا بزنس ہے۔ جو اب مجھے ہی دیکھنا ہے۔‘‘
’’اور اگر میں یہاں رہنے پر اصرار کرتی تو؟‘‘ اس نے مٹھی میں بند سارے اسٹونز پانی میں پھینک دیے۔ مرغابیاں شور مچاتی باہر نکل گئی تھیں۔
مانیک نے رک کر سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
’’تو میں تمہاری خاطر سب چھوڑ دیتا۔‘‘
’’اگر زندگی میں کبھی کچھ چھوڑنے کا کہوں تو چھوڑ دو گے ؟‘‘ اسے نہیں پتا تھا کہ اس نے ایسا کیوں پوچھا تھا وہ تو بس یوں ہی بات کو طول دے رہی تھی۔
اور مانیک نے وعدہ کر لیا تھا کہ وہ جب بھی کبھی اسے کچھ ایسا چھوڑنے کو کہے گی، جو وہ نہیں چھوڑ سکتا۔ وہ تب بھی چھوڑ دے گا۔
٭٭٭
رات ڈنر پر اس کی ملاقات مسٹر اینڈ مسز انتھونی سے ہوئی تھی۔ بیلا کے تمام تر خدشوں کے برعکس مسٹر انتھونی نے خاصی خوش اخلاقی اور گرم جوشی کا مظاہرہ کیا تھا۔ مرین کا رویہ اگر بہت پرجوش نہیں تھا تو روکھا اور نخوت بھرا بھی نہیں تھا۔ بلکہ بیلا کو وہ اچھی ہی لگی تھیں۔
’’واپسی کا کیا پروگرام ہے ؟‘‘ وہ مانیک سے مخاطب تھے۔
اس دوران بیلا چپکے چپکے ان کا جائزہ لے چکی تھی۔ وہ کافی گریس فل اور ہینڈ سم تھے۔ مانیک ہو بہو ان کی کاپی تھا۔
’’آپ سے ملنا تھا، مل لیا۔ اب کل ہی واپسی کا اراردہ ہے۔‘‘ وہ بولا تو بیلا کو اس کا لہجہ کچھ سپاٹ سا لگا۔ وہ نوٹ کر رہی تھی کہ ٹونی کے علاوہ وہ اپنے فادر اور مرین کے ساتھ کافی لیے دیے سا رہتا تھا۔
شاید اس کی وجہ اس کی ممی کی طلاق تھی۔ ستر فیصد ویسٹرن فیمیلز کی طرح شادی کے چھ سال بعد جب وہ پانچ سال کا تھا تو دونوں نے اپنے راستے جدا کر لیے تھے۔ اس کی ممی کو انتھونی سے ہمیشہ یہی شکایت رہی تھی کہ وہ انہیں زیادہ وقت نہیں دیتے۔ ہر وقت بزنس اور اس کی مصروفیات۔ ایسے حالات میں جب انہیں جانسن ملے تو انہوں نے انتھوننی سے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ وہاں انتھونی کی زندگی میں بھی مرین آ چکی تھی دونوں نے دوبارہ شادی بھی کر لی۔ مگر اس کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں تھا۔ تب ہی اسے بورڈنگ بھجوا دیا گیا تھا۔
اس کی ماں سال میں ایک فون کال کرتی تھیں اور باپ سال میں دوبار ملنے آتا تھا۔ یوں دونوں اپنے اپنے فرض سے جیسے سبکدوش ہو جاتے تھے۔ وہ کیا چاہتا ہے کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔
’’رک جاؤ، ایک ہفتہ۔‘‘ ان کا انداز سرسری ضرور تھا لیکن لہجے میں چھپی حسرت وہ محسوس کر سکتی تھی۔ اب جب وہ اسے پاس رکھنا چاہتے تھے تو وہ دور بھاگتا تھا۔
’’بھائی پلیز! کچھ دن رک جائیں نا۔‘‘ اس کے نیم وا لبوں کو دیکھتے ہوئے ٹومی نے فوراً کہا تھا اور اب اس کا ہاتھ تھامے برابر اصرار کیے جا رہا تھا ’’میں نہیں جانے دوں گا۔‘‘
اور ٹومی کا دل وہ نہیں توڑ سکتا تھا۔ سو اس نے ایک ہفتہ رکنے کی ہامی بھر sلی تھی۔
٭٭٭
سوئٹزر لینڈ کے فلک بوس پہاڑ، بہتے جھرنے، پھولوں سے لدی وادیاں اور حسین شب و روز۔ ایک دوسرے کی ہمراہی میں گزارتے ہوئے زندگی جنت لگنے لگی تھی۔
’’کتنی پرسکون جگہ ہے۔ جی چاہتا ہے ہم ساری زندگی انہی پہاڑوں پر گزار دیں۔‘‘
سڑک پہ دور رویہ درختوں کی قطاریں تھیں درختوں کے پتے سرخ رنگ کے تھے جو سڑک کے اطراف میں بکھرے ہوئے تھے۔ دور تلک پھیلا یہ منظر بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔
مانیک نے اپنے بیگ سے کیمرہ نکال لیا اور کھٹا کھٹ اس کے ایک ساتھ کئی پوز اتارلیے۔
’’اب میں اکیلے کوئی تصویر نہیں بنواؤں گی۔ اس سے تو اچھا تھا کیتھی یا ٹومی کو ساتھ لے آتے۔ ہماری تصویریں ہی بن جاتیں۔‘‘ اس کا موڈ بگڑ گیا۔
’’تو اب کیا کیا جا سکتا ہے ؟‘‘ اس نے ہنستے ہوئے ایک اور تصویر اتارلی وہ خفا ہو کر درختوں کے مخالف سمت میں چلنے لگی۔
’’یار سنو تو۔‘‘ وہ پیچھے بھاگا۔
’’ایکسکیسوزمی۔‘‘ اس نے قریب سے گزرتے ایک ایشین لڑکے کو روکا۔
’’یہ کیمرہ پکڑو اور ہماری تصویریں بناؤ۔‘‘
لڑکے کا جواب سنے بغیر اس نے زبردستی کیمرہ اس کے ہاتھ میں تھمایا اور پلٹ کر مانیک کے ساتھ آن کھڑی ہوئی۔
’’بیلا! یہ کیا حرکت ہے۔‘‘ اس نے ہلکا سا ڈپٹا۔
’’سامنے دیکھو! ورنہ تصویر اچھی نہیں آئے گی۔‘‘ وہ کیمرے کی جانب دیکھتے ہوئے لاپرواہی سے بولی۔ مانیک سر جھٹک کر کیمرے کی سمت متوجہ ہو چکا تھا۔
’’آپ کا کیمرہ۔‘‘ شایان نے چند تصویریں بنانے کے بعد کیمرہ بیلا کی طرف بڑھایا۔
’’تھینکس برادر۔‘‘ کیمرہ لینے سے قبل اس نے مسکراتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔
شایان کی آنکھوں میں حیرت امڈ آئی۔ اس تعجب کی وجہ یہ تھی کہ ایک ویسٹرن لڑکی نے اسے بھائی کہا تھا۔
تب ہی اچانک ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی۔ میرا فراک بھیگا تو خراب ہو جائے گا۔
’’وہ درخت کچھ گھنا ہے۔ بارش رکنے تک ہم وہاں ٹھہر سکتے ہیں۔‘‘ مانیک نے ہاتھ سے کچھ قدم کے فاصلے پر خوب پھیلے ہوئے درخت کی سمت اشارہ کیا اور دونوں بھاگ کر وہاں جاکھڑے ہوئے۔
’’کیا تھا اس لڑکی میں مانوس سا۔‘‘ شایان بدستور کھڑا سوچ رہا تھا۔ جبکہ وہ دونوں اس کی موجودگی فراموش کیے اب اپنی باتوں میں مگن ہو چکے تھے۔
٭٭٭
’’شکر ہے ! تم لوگوں کی چھٹیاں ہوئیں۔ حویلی میں دیکھو تو کیسی رونق اتر آئی ہے۔‘‘ مرجان بیگم بچوں کو دیکھتی خوش ہو رہی تھیں۔
مہک ان کی گود میں سر رکھے لیٹی تھی۔ در نایاب سامنے کاؤچ پر گم صم اداس سی بیٹھی تھی۔ کھانا بھی اس نے برائے نام کھایا تھا اور پہلے کی طرح کسی بات میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی نہیں لے رہی تھی۔
زریاب نیچے فرش پر ٹھنڈے میٹھے رسیلے آموں کی ٹوکری لیے بیٹھا تھا۔
’’مقابلہ کرنا ہے میرے ساتھ؟‘‘ وہ مہک کو اکسا رہا تھا۔
’’میرا موڈ نہیں ہے۔‘‘ اس نے کہہ کر ایک بار پھر در نایاب کو دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اب اٹھ کر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے کمرے میں جا رہی تھی۔
اسے در نایاب کا دکھ رلا رہا تھا۔ وہ جانتے بوجھتے کیوں خود کو روگ لگا بیٹھی تھی۔
’’آ جاؤ! بس تھوڑے دنوں کی موجیں ہیں۔ اس کے بعد تم کہاں، ہم کہاں۔‘‘ وہ اس کے لیے پلیٹ میں آم کاٹ کر لایا۔
در نایاب کی تعلیم مکمل ہو چکی تھی۔ ابا نے کل رات کہہ دیا تھا کہ اب دونوں ہاسٹل میں رہیں گے۔ وہ ملول سی بیٹھی زریاب کو دیکھ کر سوچنے لگی۔
’’کیا اس سے شیئر کروں۔‘‘
’’نہیں ! یہ بھی تو اسی حویلی کا مرد ہے۔ فرسودہ رسم و رواج کے نام پر اپنی ہی بہن بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے والا ایک جابر سردار کا چشم و چراغ۔‘‘ اگلے ہی پل اس نے اپنا خیال جھٹک دیا۔
٭٭٭
سترہ روز سوئٹزر لینڈ میں گزارہ کر وہ واپس ہالینڈ آ چکے تھے۔
رالف اور مارک نے دونوں کو ڈنر پر مدعو کیا تھا۔ ویلوٹ کی پنک میکسی جس پر سلور کام ہوا تھا۔ اس نے زیب تن کر رکھی تھی۔ ہاف سلیو میں اس کے سڈول بازو چاند کی مانند دمک رہے تھے۔ دونوں کلائیوں میں پنک اور سلور چوڑیاں تھیں۔ پنسل ہیل پر اس کی دراز قامت مزید نمایاں ہو رہی تھی۔ سیدھے سلکی بالوں کو اس نے ہلکا سا پرم کیا ہوا تھا۔ کانوں میں جھمکیاں، صراحی دار گردن پہ سجا ڈائمنڈ نیکلس اور نفاست سے کیے گئے میک اپ کے ساتھ اس کی تیاری مکمل تھی۔
’’تم ہر رنگ میں پہلے سے زیادہ خوب صورت لگتی ہو۔‘‘ مانیک نے اسے سراہا۔ وہ مسکرا دی۔
’’اور تم ہر سوٹ میں چارمنگ۔‘‘
’’جوابی تعریف میں کبھی قبول نہیں کرتا۔‘‘ اس نے منہ بسورا۔
’’یہ جوابی تعریف نہیں۔ میرے دل میں بھی بے حد پیار ہے۔‘‘ وہ مسرت سے بولی۔
’’مگر مجھے ڈر لگتا ہے۔‘‘
’’کیسا ڈر۔‘‘ وہ ساکت ہو گئی۔
’’مجھے عجیب سا خواب آتا ہے بیلا۔‘‘ اس نے سر جھٹکا۔
’’خواب؟ اس کی استفہامیہ نگاہیں مانیک کے وجیہہ چہرے پر جمی تھیں۔
’’بس! تم مجھ سے بھاگ رہی ہو۔ میں تمہیں پکاراتا ہوں، روکتا ہوں۔ مگر تم نہیں رکتیں۔ کہیں کھو جاتی ہو۔ پھر میں تمہیں تلاشتا ہوں اور تم نہیں ملتیں۔‘‘ اس نے بے بسی سے کہتے ہوئے بیلا کے دونوں ہاتھ یوں وارفتگی سے تھام لیے۔ جیسے اسے روک لینا چاہتا ہوں۔
وہ اس کی بات سن کر حیرت کی زیادتی سے گنگ رہ گئی۔ اسے بھی تو ایسا ہی خواب آیا تھا۔
کیا یہ ممکن تھا کہ دو لوگوں کو ایک وقت میں ایک ہی جیسا خواب آ جائے۔
کیا قسمت اسے کوئی اشارہ دے رہی تھی۔ کیا وہ مانیک کو کھو دینے والی تھی۔ یہ تصور ہی اس قدر روح فرسا تھا کہ دل و دماغ میں جھکڑ سے چلنے لگے۔
’’مانیک! تم سے بچھڑ کر تو شاید میں مر ہی جاؤں۔‘‘ وہ روتے ہوئے اس سے لپٹ گئی۔ کیسا خوف تھا، جو لاشعور سے اٹھتا تھا اور دماغ کو اپنے شکنجے میں جکڑ کر سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفلوج کیے دیتا تھا۔
’’او، اکیسوی صدی کے رومیو! یہ رومانس پھر کبھی جھاڑ لینا ابھی تو … جلدی چلو۔ بڑے زور کی بھوک لگی ہے۔‘‘ رالف انہیں لینے آیا تھا۔
بیلا نے الگ ہوتے ہوئے اپنے آنسو صاف کیے۔
ڈنر خاصے خوشگوار ماحول میں ہوا۔ اس کے بعد چاروں اٹھ کر ہوٹل کے بال روم میں چلے آئے۔ فلیش لائٹ، چمکتے چہرے، بیک گراؤنڈ میں بجتا مدھم میوزک اور ڈانس کرتی چند لڑکیاں، جن میں سوزین بھی تھی۔
لوگ ان کے گرد دائرے کی شکل میں کھڑے تالیاں بجاتے محظوظ ہو رہے تھے۔
بیلا بھی مانیک کے ساتھ اسی دائرے میں جگہ بناتے ہوئے آن کھڑی ہوئی۔
سوزین نے دیکھا تو ڈانس چھوڑ کر چلی آئی۔
’’ہیلومانیک!‘‘ وہ بیلا کو سرے سے نظر انداز کر گئی تھی۔ وہ گلابی منی اسکرٹ میں ملبوس تھی۔ بالوں اور کلائیوں میں اس نے گلابی اور جامنی ربن باندھ رکھے تھے۔ تیز بھڑکیلا میک اپ تھوپا ہوا تھا۔
مانیک کو اس کا بیلا کو نظر انداز کرنا خاصا ناگوار گزرا۔
بیلا نے ایک نظر سرتاپا اسے دیکھا اور پھر مانیک سے مخاطب ہوئی۔
’’چلیں مانیک۔‘‘ مانیک بیلا کا ہاتھ تھام کر بال روم کی سیڑھیاں چڑھ آیا۔ سوزین کے تاثرات دیکھنے لائق تھے۔
٭٭٭
رالف اور کلارک انہیں اپنی گاڑی میں ڈراپ کرنے آئے تھے۔ جب اپارٹمنٹ سے کچھ فاصلے پر بیلا نے گاڑی روکنے کا کہا تھا اور رالف نے گاڑی سائیڈ پر لگا دی تھی۔
وہ سرعت سے اتر کر فٹ پاتھ پر چلنے لگی۔ مانیک، رالف اور کلارک کو ’’گڈ بائے‘‘ کہتا اس کے پیچھے بھاگا۔
وہ ایک درخت سے ٹیک لگائے بینچ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پہ نقاہت طاری تھی۔
’’کیا ہوا۔‘‘ وہ فکر مندی سے اسے دیکھتا گھٹنوں کے بل اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔
’’عجیب متلی سی ہو رہی تھی۔ اب ٹھیک ہوں۔‘‘ اس نے تسلی آمیز لہجے میں کہہ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے برابر پنچ پر بیٹھا دیا۔
’’کافی پیو گی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’چلو! میں تمہیں ڈاکٹر کو دکھادوں۔‘‘ وہ اب اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھا رہا تھا۔ بیلا مطمئن سی ہو کر اس کے ساتھ چل پڑی تھی۔
ابتدائی ٹیسٹ کے بعد۔ ڈاکٹر نے جو نوید انہیں سنائی تھی۔ اس نے بیلا کے نقاہت زدہ چہرے پہ گلال بکھیر دیا تھا۔ مانیک بھی بے حد خوش تھا۔
٭٭٭
حویلی کا میں گیٹ کھلا ہوا تھا۔ جہاں زیب کی گاڑی پورچ میں چلی آئی۔ انجو اپنی ہمراہی میں انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھا آئی۔
در نایاب کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا وہ دریچے سے ہٹ کر بیڈ پر آ بیٹھی۔ وہ لوگ اس کی دوست ندا کو ساتھ لے کر آئے تھے۔
کچھ پل گزرے تو اس کا بھی بلاوا آ گیا۔
دھڑکتے دل کو سنبھالتے ہوئے وہ بمشکل ڈرائنگ روم تک آئی۔ وہاں لالہ اور مرجان بھابی بھی موجود تھے۔
وہ ندا اور آنٹی سے مل کر کاؤچ پر بیٹھ گئی۔ اس نے جہاں زیب پر محض ایک ہی نگاہ ڈالی تھی۔ اسے وہ کافی شکست خوردہ سا لگا تھا۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔
احمد کمال کا سرخ چہرہ اس بات کا غماز تھا کہ خاتون اپنا مدعا بیان کر چکی ہیں۔
’’بیٹا! تم نے اپنی دوست کو بتایا نہیں تھا کہ تمہاری نسبت بچپن سے ہی شاہ میر سے طے ہو چکی ہے ؟‘‘ لالہ کا لہجہ بالکل بے تاثر اور سپاٹ تھا۔ پھر بھی وہ اس میں چھپی برہمی محسوس کر سکتی تھی۔ اس نے زخمی نظروں سے انہیں دیکھا تو وہ رخ موڑ گئے۔
ندا اور جہاں زیب اپنی جگہ ساکت سے بیٹھے تھے۔
شاہ میر اس کا چچا زاد بھائی تھا۔ وہ بچپن سے ہی اس کے ساتھ منسوب تھی۔ اس کے باوجود کہ شاہ میر اپنی جانب سے اسے آزاد کر چکا تھا۔ اس نے نیویارک میں اپنی کلاس فیلولیزا کے ساتھ شادی کر لی تھی اور اب اس کے دوبچے بھی تھے۔ مگر اسے تمام عمر ایسے شخص کے ساتھ منسوب رہنا تھا، جو نہ کبھی اس کا تھا، نہ ہو سکتا تھا۔
خاندان والوں نے شاہ میر کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ سب کو یقین تھا کہ رشتوں کی محبت پر بے چین ہو کر وہ ضرور لوٹ آئے گا۔
چاہے تب تک در نایاب کے بالوں میں چاندنی اتر آئے۔ چاہے تب تک امنگوں سے بھرا دل خالی ہو جائے۔ چاہے تب تک آنکھوں سے سب خواب مر جائیں۔ مگر اسے ایک نامحرم شخص کے نام پر تمام عمر بیٹھے رہنا تھا۔ یہ اس کی سزا تھی کہ اس نے حویلیوں میں جنم لیا تھا۔ یہ اس کا قصور تھا کہ وہ ایک سردار کی بہن تھی۔
جانے سے قبل وہ ایک لمحے کے لیے اس کے پاس رکا۔ وہ ستون سے ٹیک لگائے کھڑی تھی۔ آنکھوں کا کاجل پھیل چکا تھا اور سب کچھ کھودینے کا ملال دل کاٹ رہا تھا۔ وہ درد سے دوہری ہوئی جا رہی تھی۔
وہ شاید آج اسے آخری بار دیکھ رہی تھی۔
اس نے ایک نظر پر شکوہ عمارت کی اونچی دیواروں کو دیکھا اور پھر اس سے بولی۔
’’میں نے کہا تھا نا …‘‘ باقی کے لفظ آنسوؤں میں گم ہو گئے۔
’’میں تو اتنا مانتا ہوں کہ کاتپ تقدیر نے اگر تمہیں میرے نصیب میں لکھ دیا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس فیصلے کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ بس! فیصلے کی اس گھڑی کا انتظار کرنا۔‘‘ وہ جانے کس کو تسلی دے رہا تھا۔ اس کو، خود کو یا نصیب کو۔
’’اور اگر کاتب تقدیر نہ چاہے تو؟‘‘ اس کی آنکھیں جھلملا گئیں۔
’’تو پھر ہم اس کے فیصلوں سے بغاوت نہیں کر سکتے۔ لیکن نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ جیسے تم میرے لیے بنائی گئی ہو۔ یہ میرے دل کی گواہی ہے اور تم جانتی ہو میرا دل جھوٹ نہیں کہتا۔‘‘ اس کی آنکھوں میں امید تھی۔ دل میں یقین تھا اور رب پر اس کا ایمان اٹل تھا۔ مگر در نایاب کو یہ محض رسمی جملے معلوم ہوئے تھے۔ وہ جاتے جاتے اسے کیا دے گیا تھا۔
دونوں مٹھیاں اس نے زور سے بھینچ کر کھولیں … ہاتھ خالی تھے۔
٭٭٭
’’تم ابھی تک تیار نہیں ہوئیں ؟‘‘ وہ بیلا کو یونیورسٹی لے جانے کے لیے آئی تھی اور وہ مزے سے لیٹی ہوئی تھی۔
’’میں نے ہی منع کیا ہے۔ اب اسے یونیورسٹی جا کر کیا کرنا ہے ڈاکٹر نے بیڈ ریسٹ کی ہدایت کی ہے۔‘‘
کیتھرین نے بیلا کو دیکھا۔ اس نے بے نیازی سے شانے اچکا دیے۔
’’اوکے ! ٹیک کیئر۔‘‘ جانے سے قبل اس نے بیلا کو ماتھے پہ پیار کیا۔
کیتھرین کے جانے کے ایک گھنٹے بعد وہ بھی آفس کے لیے نکل گیا۔
’’کھانا وقت پر کھانا اور کوئی کام مت کرنا۔‘‘ اس کی ساری گفتگو آج کل محض اس کی ڈائیٹ کے گرد گھوم رہی تھی۔
بیلا کو اس کا اپنے لیے اتنا فکر مند ہونا اور پروا کرنا اچھا لگ رہا تھا۔ اس کی مما بھی ایسے ہی اس کا خیال رکھا کرتی تھیں۔
لنچ کے بعد وہ سو کر اٹھی تو اپارٹمنٹ سے باہر نکل کر جھانکا۔ آج پھر بارش ہوئی تھی اور ننھی منی بوندوں نے آسمان سے زمین تک ہر منظر کو نکھار دیا تھا۔ ہر طرف ہریالی اور کھلتے پھولوں کی مہک حواسوں پر اچھا تاثر قائم کرتی تھی۔
سنہری بالوں والے بہت سے بچے جھولوں پر بیٹھے خوش ہو رہے تھے۔ وہ انہیں دیکھنے میں اتنی مگن ہو چکی تھی کہ پاس کھڑے شخص کی موجودگی کو محسوس ہی نہ کر سکی۔
’’ہیلو بیلا۔‘‘ وہ آواز پر پلٹی۔ سامنے شایان کھڑا تھا۔ یہ وہی لڑکا تھا، جو اسے سوئٹزر لینڈ میں ملا تھا۔ جس سے دونوں نے اپنی تصویریں بنوائی تھی۔
’’تم یہاں کیسے ؟‘‘ وہ اچانک اسے ہالینڈ میں دیکھ کر اپنی حیرت چھپا نہیں پائی۔ وہ تو اسے سوئٹزر لینڈ کا ہی رہائش تصور کر رہی تھی۔ کیونکہ بعد میں اس نے ان دونوں کو بہت خوب صورت جگہ کی سیر بھی کروائی تھی۔
’’میں یہاں یوینورسٹی میں ایم ایس کر رہا ہوں۔ وہاں تو محض سیر و تفریح کی غرض سے گیا تھا۔‘‘
’’ویل! یہاں قریب ہی میرا اپارٹمنٹ ہے۔ آؤ! تمہیں اچھی سی کافی پلواتی ہوں۔‘‘
’’نو تھینکس! پھر کبھی۔‘‘ وہ ہاتھ ہلا کر چلا گیا۔ حالانکہ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ جا کر کافی پیے۔ لیکن آج اسے اپنا بہت ضروری اسائنمنٹ تیار کرنا تھا۔ سو اسے جلدی تھی۔
٭٭٭
مانیک شام میں گھر آیا تو اس کے ہاتھ میں ڈھیر ساری کتابیں تھیں۔ بیلا نے ایک بار اسے اور دوسری بار کتابوں کو دیکھا۔ اس کی حیرت بجا تھی۔
وہ کتابوں سے اتنا الرجک تھا۔ بیلا نے کبھی اسے کسی غیر نصابی کتب کا مطالعہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
اور آج وہ نہ صرف کتابیں لے کر آیا تھا۔ بلکہ آتے ہی اس نے ان کتابوں میں سے ایک کتاب اٹھائی تھی اور صوفے پر کشن کے سہارے نیم دراز ہو کر بیٹھ گیا۔
’’کیا پڑھ رہے ہو؟‘‘ بیلا نے اس کے ہاتھ سے کتاب اچک کر سرورق کو دیکھا تو بے ساختہ اک خوش گوار سی مسکان اس کے لبوں کو چھو گئی۔‘‘
وہ ساری کتابیں ’’ہاؤٹوسپنڈ پر یگنینسی پیریڈ‘‘ پر مشتمل تھیں۔
’’تم اپنا خیال نہیں رکھتیں۔ اب میں تمہارا خیال رکھا کروں گا۔‘‘ مانیک کی بات پر بیلا کا ڈھیروں خون بڑھ گیا۔
٭٭٭
وہ اور کیتھرین بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔ جب ڈور بیل بج اٹھی۔ کیتھرین آج کل ان کے اپارٹمنٹ میں رہ رہی تھی۔ کیونکہ ڈاکٹرز اسے ایک ہفتہ بعد کی تاریخ دے چکے تھے اور کیتھرین اس کی تنہائی کے خیال سے اس کے پاس آ گئی تھی۔
’’کون ہو گا؟‘‘ بیلا نے اس سے دریافت کیا۔
’’تم بیٹھی رہو۔ میں دیکھ کر آتی ہوں۔‘‘ وہ اٹھ کر چلی گئی اور جب دروازہ کھولا تو اجنبی چہرہ سامنے تھا۔
’’بیلا سے ملنا تھا۔‘‘ اس کا اعتماد بتا رہا تھا کہ وہ جو بھی ہے، بیلا کا کافی قریبی جاننے والا ہے۔ کوئی دوست یا پھر …
’’کم ان۔‘‘ وہ دروازے سے ہٹ گئی۔
شایان اس کی معیت میں چلتے ہوئے راہ داری سے ہو کر لاؤنچ میں چلا آیا۔
’’ویلکم ہوم۔‘‘ بیلا نے مسکراتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا اور سفید للی کے پھول لے کر گلدان میں سجا دیے۔
’’تم بہت دنوں سے نظر نہیں آئیں تو میں خود چلا آیا۔‘‘
’’اتنا فارمل ہونے کی ضرورت نہیں۔ بے تکلفی سے بتاؤ کیا کھاؤ گے ؟‘‘
’’کھاؤں گا نہیں، پیوں گا۔‘‘ جواباً وہ بھی مسکرایا۔
’’کافی۔‘‘
’’کیتھرین اس کی فرمائش پر اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔ بیلا اس سے باتیں کرنے لگی۔
’’اور سناؤ! سٹڈی کیسی جا رہی ہے ؟‘‘
’’ایم ایس کمپلیٹ ہو چکا ہے۔ اب چند دنوں میں پاکستان …‘‘ باقی کے لفظ اس کے لبوں پر ہی دم توڑ گئے۔ اس کی نظریں سامنے فریم میں لگی انلارج فوٹو پر جم سی گئی تھیں۔
بیلا نے واضح طور پر اس کی رنگت کو متغیر ہوتے دیکھا تھا۔
اگلے ہی پل وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
’’اچھا! میں چلتا ہوں۔ پھر آؤں گا۔‘‘ وہ کہہ کر تیزی سے باہر نکل گیا تھا۔ بیلا لب کھولے اس کی پشت کو گھور کر رہ گئی۔
’’تمہارا مہمان کہاں گیا؟‘‘ کیتھرین کافی لیے کھڑی تھی۔
’’اسے اچانک کوئی کام یاد آ گیا تھا۔‘‘ وہ کہہ کر خود سے الجھتے ہوئے اپنے بیڈ روم میں چلی آئی۔
پاکستان کے نام پر اس کی دھڑکنیں بھی منتشر ہوئی تھیں۔
ایک پار کیتھرین نے اس سے پوچھا تھا۔
’’کیا تمہیں اپنے ڈیڈ سے کبھی نفرت محسوس نہیں ہوئی؟‘‘
تب اس نے کہا تھا۔ ’’جس شخص کو میری ماں نے دیوانوں کی طرح چاہا ہو۔ اس سے میں نفرت کرہی نہیں سکتی۔ مجھے ان پر غصہ ہے کہ انہوں نے کیوں مما کو چھوڑ دیا۔ مگر میں دل سے چاہتی ہوں کہ وہ ایک بار مجھے مل جائیں۔ میں ایک بار انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں۔ ان کو بتا سکوں کہ میں ان کی بیٹی ہوں۔‘‘
٭٭٭
مہک کمرے میں آ کر دیر تک روتی رہی۔ اس کا دل عورت کی مظلومیت پر کڑھ رہا تھا۔
آج اسے منال یاد آ رہی تھی۔ اس کی گول مٹول سنہری کانچ سی آنکھوں والی بہن۔
وہ اس سے چھ سال بڑی تھی۔ در نایاب سے اس کی گہری دوستی تھی۔ دونوں ہر وقت اودھم مچائے رکھتیں۔ ان کے نقرئی قہقہے سارا دن حویلی میں گونجا کرتے تھے۔
وہ سیدھے بالوں کی مانگ نکال کر لمبی سی چٹیابنایا کرتی تھی۔ اسے فراک اور پاجامے پہننے کا بڑا شوق تھا۔ کانوں میں جھمکے، کلائیوں میں چوڑیاں پہنے وہ ہر وقت نک سک سے تیار تتلی کی مانند اڑتی پھرتی تھی۔ لائبریری میں رکھی بھاری بھر کم کتابیں اس نے بچپن ہی میں چاٹ لی تھیں۔ اسے اسکالر بننے کا بہت شوق تھا۔ اماں بی کی عینک لگا کر وہ بچوں کو قطار میں بٹھا کر کہانیاں سنایا کرتی۔
کبھی گڑیاں کی شادی کرتی تو کبھی درختوں پر جھولا ڈالتی اور کبھی انجو کے ساتھ کچن کا حشر بگاڑ رہی ہوتی۔ مہک زریاب اور شایان کو کرکٹ کھیلنا، سائیکل چلانا اور ہتھیلیوں کے بل پر جمپ لگانا اس نے سیکھایا تھا۔ وہ گھر بھر کی لاڈلی تھی۔ بچوں سے لے کر بڑوں تک کے لبوں پر ہر وقت اس کے نام کی پکار ہوا کرتی تھی۔
اور جس روز وہ حویلی سے دولہن بن کر گئی، اس دن حویلی میں شادیانوں کی بجائے ماتم ہوا تھا۔
نہر والی زمین پر تنازعے کے دوران مجتبیٰ کمال سے مخالف قبیلے کے سردار حشمت علی کے بیٹے کا قتل ہو گیا تھا۔ انہوں نے خون بہا میں لڑکی مانگی تھی اور جرگے کے فیصلے کے مطابق منال کو ونی کر دیا گیا تھا۔
لیکن ان کا انتقام ابھی پورا نہیں ہوا تھا۔
ڈیڑھ سال بعد انہوں نے مجتبیٰ کمال اور ان کی بیگم نیرہ کو جو اپنی جیپ میں شہر سے واپس آ رہے تھے، راستے میں روک کر گولیوں کا نشانہ بنایا۔ بروقت طبی امداد ملنے کے باوجود بھی دونوں جانبر نہ ہو سکے تھے۔ زریاب ان دنوں ہاسٹل میں تھا۔
احمد کمال نے جرگے میں منال کو واپس مانگنے کے سوا کوئی ڈیمانڈ نہیں کی تھی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وراثت میں ان کے بچوں کو دشمنیاں ملیں۔
یوں منال واپس تو آ گئی تھی۔ لیکن اس کی حالت دیکھ کر کوئی فرد بھی اپنی سسکیاں نہیں روک پایا تھا۔ کمزوری، نقاہت اور ٹی بی کا مرض۔ بہت علاج کروایا۔ لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ اس کی جواں مرگ نے ہر کسی کو سوگوار کر دیا تھا۔ تب شایان نے اس سے کہا تھا۔
’’مجھے نفرت ہے اس سسٹم سے جس نے میری بہن کو نگل لیا۔‘‘ اور اسے جانے کیوں یقین ہوا چلا تھا کہ وہ آئے گا تو ابا کو منالے گا۔ وہ ان روایات کو، اس سسٹم کو بدل دے گا۔
٭٭٭
’’کیتھرین پلیز یار! اسے سمجھاؤ الٹی سیدھی کتابوں اور ویب سائیٹ سے ریسرچ کے بعد اس نے میرا جینا محال کر رکھا ہے۔ ایسا کرو۔ ویسا نہ کرو۔ یہ کھاؤ۔ وہ نہ کھاؤ۔ جانے کیا الم غلم اٹھا کر لے آتا ہےا اور پھر زبردستی مجھے کھلا کر ہی دم لیتا ہے۔ اب میں نہیں جانے والی واک پر۔ باہر اتنی ٹھنڈ ہے اور مجھے نیند آ رہی ہے۔‘‘ اپنی اور مانیک کی تکرار سے تنگ آ کر اس نے کیتھرین کو اندر گھسیٹا تو اسے لب کھولتے دیکھ کر ہی مانیک نے ٹوک دیا۔
’’تم نہیں جانتیں کیتھی! اس کے لیے واک کتنی ضروری ہے۔‘‘ وہ بات کیتھرین سے کر رہا تھا لیکن دیکھ بیلا کو رہا تھا۔ تب ہی اس کے چہرے کی بدلتی رنگت دیکھ کر ٹھٹکا۔
’’بیلا! تم ٹھیک ہو۔‘‘ وہ لپک کر اس کے قریب آیا۔
’’مانیک! گاڑی نکالو۔ اسے اسپتال لے جانا ہو گا۔‘‘
کیتھرین نے سہارا دے کر اسے اٹھانے کی کوشش کی۔ مانیک تب تک گاڑی نکال چکا تھا۔
اگلے پندرہ منٹ بعد وہ دونوں لیبر روم کے باہر بے چینی سے ٹہل رہے تھے۔
دو گھنٹے بعد ڈاکٹر نے خوشخبری سنائی۔
’’مبارک ہو مانیک! بیٹا ہوا ہے۔‘‘
’’یس۔‘‘ وہ خوشی سے اچھل پڑا۔
اگلے آدھ گھنٹے میں اسے پرائیویٹ روم میں شفٹ کر دیا گیا۔ وہ تینوں اس ننھے سے وجود کے اوپر جھکے ہوئے تھے، جو اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھولے انہیں دیکھ رہا تھا۔ کیتھرین نے اس کے گال کو نرمی سے چھوا۔
’’کتنا کیوٹ ہے۔ اب تو میں تمہارے اپارٹمنٹ سے جانے والی نہیں۔ بس ہر وقت اس ننھے سے کھلونے کے ساتھ کھیلوں گی اور تم دیکھ لینا! یہ تمہیں ممی کہنے سے قبل مجھے آنی کہے گا۔‘‘ کیتھرین کو اس پہ بہت پیار آ رہا تھا۔
’’جی نہیں ! پہلے یہ مجھے ڈیڈ کہے گا۔‘‘ مانیک نے اس کا منا سا ہاتھ پکڑ کر ہلایا۔
بیلا ان دونوں کی نوک جھونک پر مسکراتے ہوئے اس روئی کے گڈے کو ہی دیکھے جا رہی تھی۔ جب اچانک اسے کسی غیر معمولی پن کا احساس ہوا۔
’’مانیک! اس نے آنکھیں بند کر لی ہیں۔‘‘ وہ بچے کو زور زور سے ہلانے لگی۔ کیتھرین نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے۔
’’ارے ! سورہا ہے۔‘‘
’’نہیں …‘‘ کسی انہونی کے احساس نے اس کی پلکوں کو نم کر دیا تھا ’’مانیک! ڈاکٹرکو بلاؤ۔‘‘ وہ روتے ہوئے بولی۔
مانیک جا کر ڈاکٹر کو لے آیا تھا اور ڈاکٹر نے آ کر اس کے بدترین خدشے کی تصدیق کر دی تھی۔
’’سوری! ہی از نومور۔‘‘ اس کا چہرہ سفید چادر سے ڈھانپ دیا گیا۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے۔‘‘ وہ شدید صدماتی کیفیت کے زیر اثر بچے کو زور زور سے ہلانے لگی۔ مانیک نے آگے بڑھ کر روکنے کی کوشش کی تو وہ اس کے بازوؤں میں مچل اٹھی۔
’’تم سب جھوٹ بولتے ہو۔ اس نے ابھی تو پلکیں اٹھا کر مجھے دیکھا تھا۔ اس کی آنکھوں کا رنگ ہیزل گرین تھا۔ وہ ہمیں دیکھ کر مسکرایا بھی تھا۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر میرے بازو کو چھوا تھا۔ وہ کیسے مر سکتا ہے۔ وہ زندہ ہے۔‘‘ وہ زور زور سے چلا رہی تھی۔
’’ڈاکٹر نے اسے سکون آور انجکشن دیا تھا۔ ایک ہفتہ مسکن دواؤں کے زیر اثر رکھنے کے بعد اسے ڈسچارج کر دیا گیا۔
اس بات کو دو ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ مگر وہ ابھی تک سنبھل نہیں پائی تھی۔ سٹف بھالو، مکی ماؤس، باربی ڈولز اور دیواروں پہ لگے پوسٹرز، ریک میں رکھے کھلونے ہر چیز اس نے تہس نہس کر دی تھی۔ مانیک کے ساتھ بھی آج کل اس کا رویہ بہت خراب ہو چکا تھا۔ اس کا دل چاہتا تھا، وہ یہاں سے کہیں دور چلی جائے۔ ہر چیز میں اس کی دلچسپی صفر ہو چکی تھی۔ بس روز پارک میں بیٹھ کر بچوں کو دیکھتے ہوئے کئی کئی گھنٹے گزار دیتی۔
اس وقت بھی اس کی نظریں دو ماہ کے بچے پر جمی ہوئی تھی۔ وہ پرام میں لیٹا ہوا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھ منہ میں ڈال رکھے تھے اور اپنی نیلی آنکھوں سے اوپر اڑتی چڑیا کو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔
’’بیلا۔‘‘ آہٹ پر اس نے مڑ کر دیکھا۔ شایان تھا۔
’’کیسی ہو؟‘‘ وہ اس روز کے بعد آج نظر آیا تھا۔
’’اچھی ہوں۔‘‘ وہ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔ جبکہ شایان اس کے عقب میں نظریں دوڑا رہا تھا۔
’’بے بی کو ساتھ نہیں لائیں ؟‘‘ اس نے اشتیاق سے پوچھا تو بیلا کی آنکھوں میں جمی برف پگھلنے لگی۔
ٹپ … ٹپ … ٹپ۔
’’بیلا کیا ہوا؟ سب ٹھیک تو ہے نا؟‘‘ اس کے آنسوؤں سے پریشان ہو گیا تھا۔
’’مائی بے بی از نو مور۔‘‘ وہ بمشکل آنسوؤں کے درمیان بولی۔ شایان کے دل پر جیسے گھونسا سا پڑا۔ وہ لب بھینچے کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا۔ پھر ہمت کر کے بولا۔
’’بہت دکھ ہوا بیلا! میرے چند لفظ تمہارے غم کا مداوا نہیں کر سکتے … مگر پلیز! اس طرح اپنی حالت خراب مت کرو۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے۔ جو ہوا، اس پر صبر کر لو اور زندگی کی سمت واپس لوٹ آؤ۔ مجھے ہنستی ہوئی بیلا اچھی لگتی ہے۔‘‘ شایان نے اس کے شانوں کے گرد بازوو پھیلا کر اس کا سر اپنے سینے سے لگا لیا۔
وہ کچھ دیر رونے کے بعد اب نارمل ہو چکی تھی۔ اس کا سر ابھی تک شایان کے سینے پر رکھا ہوا تھا۔ وہ اس کے بازوؤں کے حصار میں تھی۔ لیکن اس حصار میں اتنا تقدس اور احترام تھا۔ جیسے کوئی بہت ہی معتبر رشتہ گلے مل رہا ہو۔
’’آج مجھے کافی نہیں پلاؤ گی؟‘‘ اس نے ماحول کی سوگواری کو کچھ کم کرنے کے لیے اس سے پوچھا تو وہ اسے گھورتے ہوئے بولی۔
’’تم اس روز کی طرح بھاگو گے تو نہیں ؟‘‘ جواب میں اس نے سر تسلیم خم کر دیا۔
دونوں ساتھ چلتے ہوئے اپارٹمنٹ تک چلے آئے۔ بیلا اسے لاؤنج میں بٹھا کر خود کافی بنانے چلی گئی اور جب واپس آئی تو وہ اس کی مما اور ڈیڈ کی تصویر کے سامنے کھڑا تھا۔
’’بیلا یہ تصویر؟‘‘ اس کا انداز سرسری ضرور تھا۔ مگر لہجے میں عجیب سی کھوج تھی۔
’’مائی مام اینڈ ڈیڈ۔‘‘ وہ کہہ کر کشن درست کرنے لگی۔ شایان اس کے سامنے آن بیٹھا۔
’’جانتی ہو، میں کون ہوں ؟ اس کے انداز میں دبا دبا سا جوش تھا۔
’’میں شایان احمد کمال شاہ ہوں۔‘‘
’’تو … ؟‘‘ اس نے استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسے اپنا لمبا چوڑا نام کیوں بتا رہا ہے اور اتنا خوش کیوں ہو رہا ہے۔
’’احمق لڑکی! ہی از مائی فادر۔‘‘ اس نے تصویر کی سمت اشارہ کیا اور بیلا کے تاثرات ناقابل بیان حد تک سپاٹ ہو گئے تھے۔ یہ لڑکا اس کا بھائی تھا۔ وہ عجیب سی اس لڑکے کا اپنے بھائی ہونے پر نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ اس بات پر ہوئی تھی کہ اس کا بھائی عمر میں اس سے بڑا تھا۔
تو کیا اس کے ڈیڈ پہلے سے میرڈ تھے اور ستر فیصد ایشین مردوں کی طرح انہوں نے ممی کو جسٹ اپنے کسی مفاد کی خاطر سیڑھی بنایا تھا اور ایک وہ عورت تھی، جو عمر بھر ایک دھوکے باز اور بے وفا شخص کی خاطر خود کو روگ لگائے بیٹھی رہی۔
’’تمہیں خوشی نہیں ہوئی؟‘‘ وہ مایوس ہوا۔
’’نائس ٹومیٹ یو۔‘‘ وہ طنزیہ لہجے میں کہتی اٹھ کر بالکونی میں چلی آئی۔
باہر کا موسم بھی اس کے تاثرات کی مانند تھا۔ سرد اور سپاٹ۔ ابھی چند روز قبل وہ سوچ رہی تھی کہ کاش! ایک بار وہ شخص اسے مل جائے۔ ایک بار وہ اسے دیکھ سکے۔ چھوسکے۔ محسوس کر سکے اور اب جب ملنے کا یقین ہوچلا تھا تو دل چاہتا تھا کہ وہ ان سے کبھی نہ ملے۔
’’بیلا۔‘‘ وہ اٹھ کر اس کے پیچھے ہی چلا آیا تھا۔
’’ہم پاکستان جا رہے ہیں۔‘‘ وہ اسے دیکھ کر بولی اور پھر خود بھی حیران رہ گئی۔ یہ فیصلہ کس کا تھا۔ حالانکہ وہ ہرگز ایسا نہیں چاہ رہی تھی۔ پھر کیوں اس نے ایسا کہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا، جیسے اسے وہاں سے کچھ اور بھی ملنے والا تھا۔ کچھ ایسا جس کی تلاش میں وہ کب سے بھٹک رہی تھی۔
٭٭٭
مانیک کو منانا تھوڑا مشکل تھا۔ لیکن اس کی خوشی کی خاطر وہ مان گیا۔ ویسے بھی وہ چاہ رہا تھا کہ بیلا کچھ دنوں کے لیے یہاں سے دور چلی جائے۔ شاید آب و ہوا کی تبدیلی اس کے مزاج پر اچھے اثرات مرتب کر دے۔
لیکن اس سب کے باوجود وہ اندر سے بہت اداس تھا اور اس کے اندر کے وہم اور خدشات ایک بار پھر امڈ کر سامنے آن کھڑے ہوئے تھے۔ وہی خوف پھر دل کو جھنجھوڑ رہا تھا کہ جیسے وہ ہمیشہ کے لیے دور جا رہی ہو۔ لیکن وہ یہ سب اسے بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اسی لیے ہلکی پھلکی باتوں کے دوران اس کی پیکنگ کروا رہا تھا۔
’’بیلا! تم خوش ہو؟‘‘
’’خوش تو ہوں گی ہی۔ میری دیرینہ خواہش جو پوری ہو رہی ہے۔‘‘ وہ کپڑے تہہ کرتے ہوئے ہلکا سا مسکرائی۔ اپنے اندر کی بدلتی کیفیات کا اس نے مانیک سے ذکر نہیں کیا تھا۔ ویسے بھی اس خوشی کے معاملے میں ابھی تک وہ خود بھی بے یقین تھی۔
’’بیلا کیا تم کبھی کسی کے کہنے پر مجھے چھوڑ سکتی ہو؟‘‘ وہ ٹھوڑی پر ہاتھ جما کر بولا۔
’’کیا ہے مانیک! اب تنگ تو نہ کرو۔‘‘ وہ جھنجھلا گئی۔
’’بتاؤنا! میری تسلی کے لیے۔‘‘
’’نہیں ! میں کبھی بھی، کسی کے بھی کہنے پر تمہیں نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘ وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے دانت پیس کر بولی۔ وہ اس کے انداز پر ہنس پڑا۔
تب ہی شایان چلا آیا تھا۔
’’ہو گئی تیاری۔‘‘
’’سب کچھ تو پیک کر لیا ہے پھر بھی لگتا ہے، کچھ مسنگ ہے۔‘‘ وہ سر پہ ہاتھ رکھے سوچ رہی تھی۔ تب ہی اس کے تصور میں وہ سیاہ جلد والی کتاب چلی آئی۔ جسے شادی کے بعد وہ مکمل طور پر فراموش کر چکی تھی۔ اس کے ڈیڈ کی ایک ہی تو نشانی تھی اس کے پاس۔ پھر ابھی اس میں سے بہت کچھ جاننا باقی تھا۔ ترجمہ کیے ہوئے چند ورق بھی اس نے نہیں پڑھے تھے۔ مانیک جب سے زندگی میں آیا تھا اس نے مانیک سے محبت کے سوا اور کوئی کام نہ کیا تھا۔ اس کے اندر امڈتے سوال جیسے اپنی موت آپ مر گئے تھے۔ تحقیق کا عمل رک گیا تھا۔ اس کی بے چین روح مانیک کی سنگت میں سرشار ہو چکی تھی۔ مگر اب یوں لگتا تھا جیسے پورے مدارک اچکر کاٹ کر وہ پھر سے مرکز پر لوٹ آئی ہے۔
کتاب اسے بک شلیف میں ملی گئی۔
’’بیلا! تم واپس آؤ گی نا؟‘‘ ایئر پورٹ پر مانیک نے اداسی سے پوچھا۔
’’ہاں ! بس ایک ہفتے کی بات ہے۔ ٹیکسٹ فرائیڈے ہم ساتھ ہوں گے۔ میرے لیے بہت سارے فرنچ فرائز بنا کر رکھنا۔‘‘ وہ کہہ کر ڈیپارچر لاؤنج کی سمت بڑھ گئی۔
مانیک اس کے جہاز کے پرواز کرنے تک ادھر ہی کھڑا رہا۔
٭٭٭
’’تم نے ڈیڈ کو بتایا ہے ؟‘‘ وہ اپنے متعلق استفسار کر رہی تھی۔
’’نہیں۔‘‘ اس نے نفی میں سرہلایا۔
’’کیوں ؟‘‘ وہ سیٹ بیلٹ کھولتے ہوئے بولی۔
’’سرپرائز دینا چاہتا ہوں۔‘‘ بظاہر اس نے لاپرواہی سے کہا تھا۔ مگر ابا جی کا متوقع رد عمل اسے ہولا رہا تھا۔
’’تم کتنے بہن بھائی ہو؟‘‘ جہار اب آسمان کی بلندیوں پر پرواز کر رہا تھا۔ بادل کھڑکیوں سے اندر جھانک رہے تھے۔
’’پہلے دو تھے۔ اب تین ہو چکے ہیں۔‘‘ وہ اس کی جانب دیکھ کر مسکرایا۔
’’تفصیل سے بتاؤ۔‘‘
’’مجھ سے چھوٹی ہے، مہک اور زریاب میرا کزن ہے۔ دونوں ڈاکٹر ہیں۔ ان کے علاوہ گھر میں ایک پھوپھو ہیں۔ اماں بی اور ابا جان۔‘‘
پھر وہ راستے بھر اسے ان سب کی باتیں سناتا رہا تھا۔
حویلی پہنچنے تک وہ غائبانہ طور پر سب سے متعارف ہو چکی تھی۔
٭٭٭
’’السلام علیکم ایوری باڈی۔‘‘ لاؤنج میں داخل ہوتے ہی اس نے سب کو مشترکہ سلام کیا۔
صوفوں پر بیٹھے تمام اہل خانہ اپنی جگہ حیرت زدہ سے رہ گئے تھے۔
وہ بغیر اطلاع کے جو آیا تھا۔
’’شانی! میری جان۔‘‘ سب سے پہلے اماں اٹھ کر آئیں۔ باقی سب کی نظریں اس کے پیچھے کھڑی حسن کی دیوی پر جمی تھیں۔
’’کہیں یہ شادی تو نہیں کر آیا؟‘‘ مہک، زریاب کے کان میں گھسی۔ در نایاب نے سنا تو دونوں کو گھورتے ہوئے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ ابا جان کی موجودگی میں کسی کی جرات نہیں ہو رہی تھی کہ وہ اس لڑکی کے متعلق استفسار کرتا۔
’’شانی! تم میرے کمرے میں آؤ۔‘‘وہ اسے حکم صادر کرتے اپنے کمرے کی سمت مڑ گئے۔
شانی پر گھبراہٹ طاری ہونے لگی۔ پانی کا گلاس ایک ہی گھونٹ میں خالی کرتا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
’’شایان۔‘‘ وہ اسے اٹھتے دیکھ کر گھبرا گئی۔ سب اسے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
’’ڈونٹ وری! میں بس ابھی آتا ہوں۔ مہک! تم بیلا کو کمرے میں لے جاؤ اور خبردار! میرے واپس لوٹنے تک کوئی اس کا انٹرویو نہیں لے گا۔‘‘
تنبیہہ سخت تھی۔ دونوں منہ پھلا کر بیٹھ گئے۔ در نایاب نے اسکوائش سے بھرا جگ اور گلاس اس کے سامنے رکھا۔ اماں اٹھ کر اندر کمرے میں جا چکی تھیں۔ بیلا آرام سے بیٹھ گئی۔
’’یہ لڑکی کون ہے ؟‘‘ ابا جان کے انداز سے ہی برہمی جھلک رہی تھی۔
’’یہ الزبتھ کی بیٹی ہے۔ وہی الزبتھ جو آج سے اکیس سال قبل … آپ کو نیویارک میں ملی۔ پھر آپ نے اس سے شادی کی اور پھر چھوڑ دیا تھا۔‘‘ اس میں جانے اتنی ہمت کہاں سے آ گئی تھی کہ وہ بغیر جھجکے بولتا چلا گیا۔
الزبتھ کے نام پر ان کی آنکھوں میں جیسے کوئی سایہ سا لہرایا تھا۔ وہ ایک پل کو چونکے اور پھر ہار کر جیسے کرسی پر ڈھے گئے۔ انہوں نے شایان کو جانے کا اشارہ کر دیا۔
وہ چپ چاپ واپس پلٹ آیا۔ باپ کے مقابل کھڑے ہونے کی تربیت نہیں تھی اس کی۔ ویسے بھی اس کے باپ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سردار بھی تھے۔
اب سردار سے سوال و جواب کون کرتا۔
اماں بی کو برسوں پہلے کی گئی اس بے وفائی پر دکھ تو ہوا تھا۔ مگر حویلی کی عورتوں کے نصیب اس دکھ کے بغیر ادھورے سے رہتے تھے۔ وہ بھی شکوہ کرنے کے بجائے صبر کر گئی تھی۔
البتہ مہک کا شوق دیدنی تھا۔ بیلا کی بہت جلد اس سے دوستی ہو گئی۔ زریاب اسے چڑانے کی خاطر آج کل بیلا میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لینے لگا تھا۔ دونوں نے اسپتال سے چھٹیاں لے رکھی تھیں اور بیلا کو پہاڑوں کی خوب سیر کروا رہے تھے۔
مگر جس شخص کی خاطر وہ اتنی دور یہاں آئی تھی۔ وہ پچھلے تین روز سے حویلی نہیں آیا تھا۔ وہ کہاں تھا، وہ کسی سے بھی اس کے متعلق دریافت نہیں کر پارہی تھی۔ مہک نے اتنا کہا تھا کہ آج کل وہ زمینوں پر ہوتے ہیں۔
٭٭٭
’’الزبتھ کی بیٹی۔‘‘ آواز جیسے کسی ہتھوڑے کی مانند ان کے اعصاب پر برس رہی تھی اور وہ اپنی جگہ تڑپ کر رہ گئے تھے۔
جس وجہ سے انہوں نے اکیس برس قبل الزبتھ کو چھوڑا تھا، آج وہ وجہ حقیقت کا بھیانک روپ دھارے ان پر ہنس رہی تھی اور وہ اس سے نظریں چڑائے، منہ چھپائے پھر رہے تھے۔
احمد کمال شاہ کی بیٹی اور ایک غیر مسلم۔
یہ خیال ہی ان کی نیندیں حرام کیے ہوئے تھا۔
رات اپنے آخری پہر میں ڈھل رہی تھی چاند بھی کہیں دھند لکے میں کھویا ہوا تھا۔ جھینگروں اور الوؤں کی آوازیں مل کر ماحول کو وحشت ناک بنا رہی تھیں۔ وہ بے چین سے لان میں ٹہل رہے تھے۔
جب کسی کی نظروں کے ارتکاز نے انہیں سر اٹھانے پر مجبور کیا تھا۔ وہ اپنے بیڈ رم کی کھڑکی میں کھڑی انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔
نظروں کا تصادم ہوا۔ اور وہ سر جھٹک کر اسٹڈی میں چلے آئے۔
وہ الزبتھ کی اور ان کی حسین مشابہت تھی۔
یہ ان دنوں کی بات تھی، جب وہ خود اکیس سال کے تھے۔ حال ہی میں انہوں نے گریجویشن کیا تھا۔ وہ اعلا تعلیم کے لیے امریکا جانا چاہتے تھے۔ جب ان کے چچا محسن شاہ اچانک بیمار ہو گئے۔ ان کی اکلوتی بیٹی مرجان ان کی بچپن کی منگ تھی۔ جو ایک تو پڑھی لکھی نہیں تھی۔ دوسرا ان سے آٹھ سال بڑی تھی۔ وہ اسے کچھ خاص پسند نہیں کرتے تھے۔ مگر خاندانی روایات کے مطابق شادی کرنا پڑی۔
اور اس کے بعد اماں بی کی ایک نئی فرمائش شروع ہو گئی تھی کہ جب تک وہ پوتے کا منہ نہیں دیکھ لیتیں، وہ ملک سے باہر نہیں جا سکتا۔
ایک سال کے بعد جب شایان پیدا ہوا تو وہ نیویارک چلے آئے۔ یہاں انہیں الزبتھ مل گئی اور وہ اس کے حسن جہاں سوز کے آگے دل ہار بیٹھے۔ ملاقاتیں بڑھیں اور ایک روز انہوں نے اسے پروپوز کر دیا۔
وہ اپنے خاندانی روایت کے مطابق ایک نن بن رہی تھی۔ لیکن احمد کمال کی والہانہ محبت کے سامنے سارے خاندانی دستور دم توڑ گئے۔ وہ ان سے شادی کے بعد ان کے اپارٹمنٹ چلی آئی۔
ڈیڑھ سال پلک جھپکتے … گزر گیا۔ وہ ایک دوسرے کی رفاقت میں بے پناہ خوش تھا۔ ان کے مابین پہلا جھگڑا اس روز ہوا تھا، جب الزبتھ نے انہیں اپنی پریگنینسی رپورٹ دکھائی تھی۔ وہ اپنی جگہ ساکت سے رہ گئے تھے۔
ان کا پاکستان میں ایک بیٹا تھا۔ بیوی تھی۔ گویا ان کی فیملی مکمل تھی تو پھر الزبتھ کون تھی اور یہ بچہ؟
انہوں نے ہر پہلو پر سوچا تو جیسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ اپنی تعلیم مکمل کر کے واپس جانے والے تھے۔ انہیں یہاں کوئی فیملی نہیں بنانا تھی۔
’’تمہیں خوشی نہیں ہوئی؟‘‘ الزبتھ کو ان کی خاموشی پر گھبراہٹ ہونے لگی تھی اور جب وہ بولے تو ان کی سماعتیں لزراٹھیں۔
’’تم ابارشن کر والو۔ مجھے یہ بچہ نہیں چاہیے۔‘‘
’’احمد! تم پاگل تو نہیں ہو گئے ؟‘‘ اس کی آواز صدمے سے ٹوٹ گئی۔
’’میں جا رہا ہوں۔ جب میری بات مان جاؤ تو بتا دینا۔ میں آ جاؤں گا واپس۔‘‘ انہوں نے اپنا سامان سمیٹا اور دھاڑ سے دروازہ بند کر کے چلے گئے۔ انہیں یقین تھا کہ الزبتھ ان کے بغیر نہیں رہ پائے گی اور انہیں پانے کی خاطر وہ ضرور ابارشن کر والے گی۔
مگر وہ اپنی ممتا کے ہاتھوں ہار گئی اور پیار کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔
احمد کمال وطن واپس لوٹ آئے اور پھر مڑ کر کبھی ماضی میں نہیں جھانکا اور آج ماضی حال میں بدل کر پھر سے لوٹ آیا تھا۔
٭٭٭
وہ مہک اور زریاب کے ساتھ لان میں اسکوائش کھیل رہی تھی۔ جب حسب معمول دونوں جھگڑنے لگے۔ ان کی زبان اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ مگر ان دونوں کی نوک جھونک سے محظوظ ہوتی کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ ادھ کھلے دریچے سے احمد کمال باہر ہی جھانک رہے تھے۔
وہ فیروزی اور گلابی شلوار میں سوٹ زیب تن کیے بالوں کی لمبی چٹیا بنائے دوپٹا گلے میں ڈالے بیٹھی تھی۔ احمد کمال کو اس میں منال کا عکس جھلکتا دکھائی دے رہا تھا۔ وہ اتنی پیاری تھی کہ دل خود بخود اس کی جانب کھینچنے لگتا تھا۔
مہک اور زریاب کا جھگڑا ہا تھا پائی کی صورت اختیار کرنے والا تھا، جب اس نے اٹھ کر بیچ بچاؤ کروایا۔
’’آپی! آپ کو پتا ہے یہ کتنا بڑا چیٹر ہے۔‘‘ مہک کے گلابی رخساروں سے خون جھلکنے لگا۔ آج وہ پھر بری طرح سے ہاری تھی۔
’’ہارنے کے بعد ہی تمہیں میری چیٹنگ نظر آتی ہے مکار لومڑی۔‘‘ وہ تلملایا۔
’’اور تم خود کیا ہو بندر، الو، گھامڑ۔‘‘ وہ دو بدو بولی۔
’’ڈاکٹر کی شان میں گستاخی۔‘‘ اس نے مصنوعی رعب جمانے کی کوشش میں آنکھیں نکالیں۔
’’ڈاکٹر لگتے ہو کہیں سے تم دونوں ؟‘‘ در نایاب نے کچن کی کھڑکی سے جھانکا۔
’’اسپتال سے جا کر پوچھ لیں۔‘‘ وہ ڈھٹائی سے ہنسا۔
’’صحیح کہا ہے کسی نے، فطرت کبھی نہیں بدلتی تم دونوں کو بھی جھگڑا کیے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوتا۔‘‘ وہ ان کے لیے پکوڑے بنا کر لائی تھی۔
’’موسم اچھا ہے باہر چلیں۔‘‘ پکوڑوں سے انصاف کرتے ہوئے زریاب نے بیلا کو پیش کش کی وہ مہک کو چڑانے کے لیے آج کل بیلا میں خاصی دلچسپی لے رہا تھا۔
’’مہک بھی ساتھ چلے گی۔‘‘ اس نے محبت سے اپنی چھوٹی بہن کو دیکھا۔ چند ہی دنوں میں اس کی مہک سے بہت اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ صرف ایک وہ ہی گریزاں تھے، جن کی خاطر وہ اتنی دور چلی آئی تھی۔
’’دیکھ لیں ! پارٹی بدل رہی ہیں آپ۔‘‘ وہ خفگی سے بولا۔
’’تم اپنے جھگڑوں میں مجھے سینڈوچ مت بناؤ۔ میں خاصی امن پسند لڑکی ہوں اور دونوں کے ساتھ ہوں۔‘‘ اس نے سبز جھنڈی دکھائی۔
’’در نایاب! آپ بھی چلیں نا۔‘‘ برتن اٹھاتی در نایاب کے ہاتھ رک گئے۔ جب سے جہاں زیب کا رشتہ آیا تھا، تب سے ہی اس پر باہر کی دنیا کے دروازے بند کر دیے گئے تھے۔
’’میرا موڈ نہیں ہے۔ تم لوگ جاؤ۔‘‘ سپاٹ سا انداز تھا۔
٭٭٭
کسل مندی سے آنکھیں کھولتے ہوئے اس نے چہرے سے کمبل ہٹایا اور کمرے کے کارنر پر نگاہ پڑتے ہی اپنی جگہ مبہوت سی رہ گئی۔ بھلا کوئی اتنی عقیدت اور یکسوئی کے ساتھ بھی عبادت کر سکتا تھا۔
وہ کبھی پیشانی زمین پر رکھتی تھی اور پھر اٹھاتی تھی۔ کیسا منفرد سا انداز تھا اور کتنا پرسکون، سادگی اور معصومیت بھرا چہرہ تھا۔ سلام پھیرنے کے بعد اس نے دونوں ہاتھ اٹھا لیے۔ اس کے لب بہت آہستگی سے ہل رہے تھے۔ وہ دعا مانگ رہی تھی۔ اس کے انداز میں کچھ ایسی شدت اور گہرائی تھی کہ اس کا بے ساختہ دل چاہا تھا کہ وہ بھی اپنے معبود حقیقی کو اتنی ہی شدت سے پکارے۔
’’بہت بھٹک چکی ہوں میں۔ اب مجھے ڈیڈ کے مذہب کو قبول کر لینا چاہیے۔ ویسے بھی ان کی خواہش ہے کہ میں مسلمان ہو جاؤں اور پھر ایک گواہی وہ ہوتی ہے، جو دل دیتا ہے۔ میرا دل، میرا ضمیر، میری روح اس فیصلے پر سرشار ہے۔‘‘
کل اس کا سامنا احمد کمال سے ہوا تھا۔ وہ مہک کو آواز دے رہے تھے کہ وہ ان کی اجرک لے کر آئے اس نے سنا تو اجرک لے کر ان کے کمرے میں چلی آئی۔ وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑے خود پر پرفیوم اسپرے کر رہے تھے۔
’’آپ کی اجرک۔‘‘ اس نے نرمی سے کہا۔ وہ اسے آئینے میں دیکھ چکے تھے۔ اب خود پر مزید ضبط کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ آخر کو وہ ان کی بیٹی تھی۔ ان کی جائز اولاد، پھر خون کیسے جوش نہ مارتا۔ اجرک اس کے ہاتھ سے لے کر انہوں نے کاندھے پر رکھ لی تھی۔ مگر خود سے پہل کرنے میں متامل تھے۔
بیلا کی آنکھوں میں ڈھیروں پانی امڈ آیا۔
’’میں نے آپ کو بہت مس کیا۔‘‘ وہ روتے ہوئے ان کے سینے سے لگ گئی۔
’’مجھے معاف کر دو بیٹا! میں اتنے سال تمہارے وجود سے غافل رہا۔‘‘ وہ ہار گئے تھے خود سے لڑتے لڑتے غلطی تو بہرحال کی ہی تھی تو اب اس سے نظریں چرانا کیا معنی رکھتا تھا۔
’’آپ نے مجھے تسلیم کر لیا۔ میرے لیے اتنا کافی ہے۔‘‘ وہ اعلا ظرف تھی۔ باپ کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے بجائے اس نے درگزر سے کام لیا تھا۔ ویسے بھی جس سوسائٹی کا وہ حصہ رہی تھی، وہاں ہر دوسرا بچہ بروکن فیملی کا شکار تھا۔ وہ تو خوش قسمت تھی کہ اسے الزبتھ جیسی پرخلوص مہربان ماں کا ساتھ ملا تھا اور اس نے اسے باپ سے متعلق کبھی بدگمان نہیں ہونے دیا تھا۔ وہ ہمیشہ ہی اس شخص کا ذکر بڑی محبت سے کیا کرتی تھیں اور اس کے دل میں باپ سے متعلق جو ناراضی اور غصہ تھا، وہ اب باقی نہیں رہا تھا۔
’’بیلا! میری ایک خواہش ہے۔ اگر تم پوری کر دو تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔ میں سکون سے مر سکوں گا۔‘‘ انہوں نے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے اس کے ماتھے کا بوسہ لیا۔
بیلا کو اپنا وجود کسی قدر معتبر لگنے لگا۔ مگر وہ ان کے ملتجی لہجے پر بے چین ہواٹھی۔
’’آپ حکم کریں۔ میں ضرور مانوں گی۔‘‘
’’میں چاہتا ہوں کہ تم مسلمان ہو جاؤ۔‘‘
’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ مسلم ہیں اور میں عیسائی؟‘‘ اسے مسلم ہونے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ مگر وہ باپ کی خواہش کا جواز چاہتی تھی۔
’’اس فرق کی وجہ سے تو میں نے الزبتھ کو چھوڑا تھا۔‘‘ وہ کہہ کر چلے گئے۔ سرد کمرے کی منجمد فضا میں بیلا کی خاموش سماعتیں اور ان کے اعتراف کی بازگشت رہ گئی تھی۔
٭٭٭
در نایاب نے دعا مانگ کر منہ پر ہاتھ پھیرا اور جائے نماز اٹھا کر الماری میں رکھنے لگی۔ اس کا کمرہ بے حد سادہ تھا۔ بس ایک بیڈ اور الماری، جس میں کچھ کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ ایک ڈریسنگ، ٹیبل اور کپروں کی الماری بھی تھی۔
’’در نایاب! آپ سے کچھ پوچھنا تھا‘‘ اس نے باہر جاتی در نایاب کو پکارا تو وہ الٹے قدموں واپس چلی آئی۔
اتنا تو وہ جانتی تھی کہ تمام انبیاء علیہ اسلام مسلم تھے اور انہوں نے اپنی قوم کو اچھائی کا ہی پیغام دیا تھا۔ لیکن اسلام آخری اور مکمل دین تھا۔ جو تمام شعبہ زندگی کے متعلق نہ صرف مکمل رہنمائی کرتا تھا۔ بلکہ عملی طور پر ایک راستہ بھی دکھاتا تھا۔
ترجمہ کیے صفحات بھی وہ پڑھ چکی تھی۔
اس میں لکھا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب دوبارہ اس دنیا میں آئیں گے تو دین محمدی میں ہی رہیں گے۔ کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آئیں گے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو خوش خبری سنائی تھی کہ ایک رسول صلی اللہ علیہ و سلم آئے گا اس کا نام احمد ہو گا۔ انہوں نے اپنے حواریوں سے یہ بھی کہا تھا۔
کہ تم لوگ اپنے دین اور نبی آخرالزماں احمد مصطفی کے دین پر ایمان لاؤ اور اسی پر ثابت قدم رہو، تب تم نجات پاؤ گے۔
مگر ایک بات اس کے دماغ کو الجھا رہی تھی۔
’’در نایاب! میں بھی تو مانتی ہو کہ اللہ ایک ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو پھر میں مسلم کیوں نہیں ہوں ؟‘‘ اس نے الجھن آمیز نظروں سے اسے دیکھا۔
’’تب دین نامکمل تھا بیلا! اور اتنی گواہی کافی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی پر دین مکمل کر دیا۔ نبوت ان پر ختم ہو گئی تو کلمہ بھی مکمل ہو گیا۔ اب اس گواہی کے ساتھ یہ گواہی بھی ضروری ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ و سلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔‘‘
’’تو پھر مجھے مکمل کلمہ پڑھا دیں۔ میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں۔‘‘ جب یسوع کا بھی یہ ہی پیغام تھا تو وہ کیوں نہ مانتی۔ اسے ماننا ہی تھا۔ اس نے اللہ سے روشنی مانگی تھی، ہدایت مانگی تھی، سیدھا راستہ مانگا تھا۔ اسے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے زندگی نہیں گزارنا تھی۔ اس کے لیے اجالوں کا سفر منتخب ہو چکا تھا۔
در نایاب نے فرط محبت سے اس کے ہاتھ چوم لیے اور اسے لاؤنج میں چلنے کا اشارہ کیا۔
٭٭٭
’’لالہ جانی، بھابی، مہک، زریاب، شانی، اجو، رشیدہ، رزاق سب جلدی آؤ۔‘‘ اپنے جوش اور خوشی میں اس نے فیملی ممبز کے ساتھ ساتھ ملازموں کو بھی آواز دے ڈالی تھی۔
دیکھتے ہی دیکھتے سب کمروں سے نکل آئے۔
’’بیلا اسلام قبول کرنا چاہتی ہے۔‘‘ خبر تھی یا دھماکا۔ سب مسرت آمیز چہروں کے ساتھ بیلا کے گرد جمع ہو گئے۔
’’بیٹا! کیا تم نے اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کیا ہے ؟‘‘ احمد کمال اب بھی بے یقین تھے۔ ان کی دعائیں اتنی جلدی مستجاب ہو سکتی ہیں۔ ایسا سوچا نہیں تھا۔
’’جی بابا جان!‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلادیا تو انہوں نے سب کی موجودگی میں اسے کلمہ پڑھا دیا۔ سب کی آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔
’’مبارک ہو بیٹا! اب تم مسلمان ہو۔‘‘ ان کے بعد، باقی سب نے بھی گلے لگا کر مبارکباد دی۔ در نایاب سب کے لیے چائے اور مٹھائی لے آئی تھی۔
’’ہم آپی کا نام فاطمہ رکھیں گے۔‘‘ سب سے پہلے مہک کو ہی نام بدلنے کا خیال آیا تھا۔
’’بہت پیارا نام ہے۔‘‘ در نایاب نے اس کے ماتھے کا بوسہ لیتے ہوئے اپنے ساتھ لگا لیا۔
اگلے روز خاندان بھر کی دعوت ہوئی۔ جس میں اسے سب سے متعارف کروایا گیا تھا۔ کل تک احمد کمال جسے عزت کے زوال کا باعث سمجھ رہے تھے۔ آج وہ ان کا فخر بن چکی تھی۔
٭٭٭
وہ آج کل در نایاب سے نماز سیکھ رہی تھی۔ اسی دوران اس کی نگاہ اتفاق سے بیڈ پر رکھی اوندھی کتاب کے اندر پڑی تصویر سے ٹکرا گئی۔ ایک ہینڈ سم سا نوجوان تھا۔‘‘
’’کون ہو سکتا ہے۔‘‘ اس نے دل میں سوچا۔
’’شاید پھوپھو کسی کو پسند کرتی ہیں۔‘‘ اس نے قیاس آرائی کی۔ اس کا فون بجنے لگا۔ دوسری جانب مانیک تھا۔
’’ہاں ! میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘ وہ کمرے سے باہر نکل آئی۔
’’آنا تو تھا۔ لیکن بس کچھ پرابلمز ہو گئی تھیں۔‘‘ وہ فی الحال اس سے اپنے مذہب کی تبدیلی کا ذکر نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔ دوسری جانب وہ خفا ہو گیا۔
’’میں کچھ نہیں جانتا۔ بس تم واپس آؤ۔‘‘
’’دیکھو پلیز! تم غصہ نہ کرو۔ جتنا تم اداس ہو۔ اس سے کہیں زیادہ …‘‘ دوسری جانب لائن منقطع ہو چکی تھی۔ وہ مایوسی سے سیل فون کو دیکھنے لگی۔
’’فاطمہ!‘‘ پیچھے بابا جان کھڑے تھے۔
’’جی!‘‘ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’کس سے بات کر رہی تھیں ؟‘‘
’’مانیک سے۔‘‘ اس نے ایک بار پھر سیل فون کو دیکھا۔
’’کون مانیک؟‘‘ وہ انجان پن سے بولے۔
’’مانیک … میرا شوہر۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’بیٹا! وہ تمہارا شوہر تھا۔‘‘ وہ ’’تھا‘‘ پر زور دے کر بولے۔
’’کیا مطلب؟‘‘ وہ سمجھی نہیں۔
’’مطلب یہ کہ اب تم مسلمان ہو چکی ہو۔ مانیک سے تمہارا جو رشتہ تھا، وہ ختم ہو چکا۔ اب تم کسی مسلمان سے تو نکاح کر سکتی ہو۔ مگر عیسائی سے نہیں۔‘‘ وہ رسانیت سے بولے۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ آپ نے بھی تو مما سے شادی کی تھی۔‘‘ وہ شاکڈ رہ گئی۔ اس کی ماں کا شوہر ایک مسلم تھا تو وہ کیسے مان لیتی کہ اس کا شوہر عیسائی نہیں ہو سکتا۔
’’ہاں ! مگر مردوں کو اہل کتاب لڑکیوں سے نکاح کی اجازت ہے … عورتوں کو نہیں۔ تمہارا اب جلد ہی دوبارہ نکاح ہو جائے گا۔‘‘ وہ آگاہ کرنے کے بعد فیصلہ سنا کر چلے گئے اور فاطمہ اپنی جگہ جیسے پتھر کی ہو کر رہ گئی تھی۔
مانیک کو چھوڑنے کا تو وہ تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔
٭٭٭
’’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں فاطمہ کا نکاح زریاب سے کر دوں۔‘‘ چائے کا ایک گھونٹ بھرتے ہوئے انہوں نے رائے طلب نظروں سے مرجان بیگم کو دیکھا تو ان کی آنکھوں میں احتجاج امڈ آیا۔
’’زریاب کے لیے تو ہم نے مہک کا سوچ رکھا تھا۔‘‘
’’جانتا ہوں۔ لیکن …‘‘
’’لیکن ویکن کچھ نہیں شاہ جی! میں اپنی بیٹی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہونے دوں گی۔‘‘ اپنے لیے تو انہوں نے کبھی آواز بلند نہیں کی تھی۔ منال کی لاش کو بھی بڑے صبر سے رخصت کیا تھا۔ در نایاب کے ساتھ ہوئے ظلم کو بھی وہ خاموشی سے سہ گئی تھیں۔ مگر اب معاملہ ان کی اکلوتی لاڈلی بیٹی کا تھا۔ وہ اسے زندہ لاش بنا کر حویلی کے کسی زندان میں درگور نہیں کر سکتی تھیں۔
’’مہک کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔ جلیل شاہ کا بیٹا نبیل اپنی مہک کا ہی ہم عمر ہے اور وہ ایک دوبار مجھ سے اشارے کنائے میں ذکر بھی کر چکا ہے۔‘‘ انہوں نے اطمینان سے اپنے تایا زاد کے بڑے بیٹے کا نام لیا تھا۔
’’تو فاطمہ کو بیاہ دیں، نبیل کے ساتھ … زریاب ہی کیوں ؟‘‘ وہ اب بھی اپنی بات پہ ڈٹی ہوئی تھیں۔ زریاب انہیں مہک کے حوالے سے ہمیشہ بہت عزیز رہا تھا۔
’’ایک تو تمہاری عقل میں کوئی بات نہیں سماتی۔‘‘ وہ جھنجھلا گئے۔
’’وہ لوگ مہک کے طلب گار ہیں تو فاطمہ کا کیسے کر دوں اور پھر فاطمہ پہلے سے شادی شدہ تھی۔ نو مسلم بھی ہے۔ خاندان والے اس کے متعلق دل میں کدورت رکھتے ہیں۔ اس لیے تو میں اسے اپنے گھر میں ہی رکھنا چاہتا ہوں۔ تاکہ اس کے ایمان اور کردار پر کوئی انگلی نہ اٹھائے۔‘‘ انہوں نے گویا بات ہی ختم کر دی تھی۔
مرجان بیگم ہمیشہ کی طرح سرجھکا کر رہ گئیں۔
دروازے کے باہر کھڑی مہک کی ٹانگوں نے اس کا بوجھ سہارنے سے انکار کر دیا تھا۔ بڑی مشکل سے وہ خود کو گھسیٹتی کمرے میں لائی تھی۔
’’زریاب اور فاطمہ۔‘‘ اس کے لبوں پر اک زخمی سی جنبش ہوئی اور درد دل کے ہر کونے تک پھیل گیا۔ آنکھوں میں نہ جانے کیوں اتنا پانی امڈ آیا تھا۔
وہ رات فاطمہ اور مہک نے ایک دوسرے کی جانب سے کروٹ بدلے جاگ کر گزار دی تھی۔
اگلے روز وہ در نایاب کے پاس چلی آئی۔
’’مانیک سے ملنے کا کیا اب کوئی راستہ نہیں ہے ؟‘‘ اس کا لہجہ نم سا تھا۔
در نایاب کے دل کو کچھ ہوا وصل کا موسم بھلا ہر کسی کی قسمت میں کہاں ہوتا ہے۔ وہ تو خوش قسمت تھی، جس نے پا کر کھویا تھا۔ کچھ ساعتیں، تھوڑا سا وقت ہی سہی۔ مگر وہ ملے تو تھے۔ زندگی کو انہوں نے ایک ساتھ جیا تو تھا۔ ہر پہرے، ہر قید و بند سے آزاد ہو کر، خوابوں کی راہ گزر پر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے وہ تھوڑی دور ساتھ چلے تو تھے۔ اس کی طرح ملن سے قبل ہجر تو راہ میں حائل نہیں ہوا تھا اور اگر ہجر تھا بھی تو ابھی ملن کی امید تو باقی تھی۔
ایک وہ تھے جو پکی قبر بنا کر اب محض چراغ جلاتے تھے۔ جن میں روشنی تو تھی۔ مگر اُمید نہیں … اور امید کے بغیر تو اجالا بھی اندھیرا تھا۔
فاطمہ کی آس بھری سوالیہ نگاہیں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ اس نے گردن گھما کر اطراف پہ نگاہ ڈالی۔ حویلی کے چاروں جانب راہ داریاں تھیں۔ مگر اس کے لیے تو کوئی ایک راستہ بھی نہیں تھا۔
٭٭٭
مہک کتاب سامنے کھولے یوں ہی بیٹھی تھی۔ جب زریاب نے دروازے سے اندر جھانکا۔
’’ہیلو ڈیئر کزن۔‘‘ مہک بے نیاز بیٹھی رہی۔
’’بزی ہو؟‘‘ اسے متوجہ نہ دیکھ کر وہ پھر بولا۔ مہک نے سابقہ بے نیازی برقرار رکھتے ہوئے محض اثبات میں سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا تھا۔
’’میں نیٹ لگا کر آیا ہوں۔ آؤ! ٹینس کھیلیں۔‘‘
زریاب نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ کھینچا۔ جسے مہک نے چھڑا کر واپس اپنی گود میں رکھ لیا۔
’’پلیز! میرا موڈ نہیں ہے۔ تم جاؤ۔‘‘ وہ اٹھ کر دریچے میں آن کھڑی ہوئی۔
باہر فضا میں لیموں کی کھٹی میٹھی باس رچی ہوئی تھی۔ ایک چڑیا اور دو بلبلوں نے شور مچا رکھا تھا۔
زریاب کی جانب اس کی پشت تھی۔ مگر وہ اس کا بھیگا لہجہ محسوس کر چکا تھا۔
’’تم رو رہی ہو؟‘‘ وہ اس کے سامنے آن کھڑا ہوا۔
’’نہیں ! میرے سرد میں درد ہے۔‘‘ اس نے دونوں ہاتھ سے اپنی کنپٹیاں دبائیں۔
’’اچھا! میں کوئی پین کلر لا دیتا ہوں۔‘‘
’’مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اس نے ٹوک دیا۔
زریاب نے دروازے میں رک کر کچھ پل اسے دیکھا۔ مہک نے آگے بڑھ کر دروازہ بند کر دیا۔ آنسو پلکوں کی باڑھ پھلانگ کر رخساروں پر لرزنے لگے۔
٭٭٭
’’تمہارا ایک ہفتے کا وعدہ تھا اور اب دو ماہ ہو چکے ہیں۔ مجھے حویلی کیوں نہیں آنے دیا؟‘‘ وہ کل ہی پاکستان آیا تھا اسے واپس لے جانے کے لیے۔ مگر اس نے کہہ دیا تھا کہ تم حویلی مت آنا۔ میں کل خود تم سے ملنے آؤں گی اور اس وقت دونوں جھیل کے کنارے اونچے نیچے پتھروں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ موسم اچھا تھا۔ فضا خوش گوار مگر پھر بھی جیسے ہر سمت کچھ کمی سی تھی۔
اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کہاں سے اور کیسے بات شروع کرے۔
’’مجھے تم سے کچھ کہنا تھا۔‘‘
’’ہاں ! کہو۔‘‘ وہ ہمہ تن گوش ہوا۔ مگر اس کی سمجھ میں آ چکا تھا کہ وہ کمی کہاں تھی۔ وہ کمی بیلا کے انداز میں تھی۔ اس کے گریز میں تھی۔ وہ اپنے اور اس کے مابین فاصلہ رکھ کر بیٹھی تھی۔ وہ کمی اس ہاتھ بھر کے فاصلے پر تھی۔ وہ کمی تو اس کی آواز میں بھی تھی۔
اور شاید سب سے بڑھ کر وہ کمی اب دل میں تھی۔
’’مانیک! میں مسلمان ہو چکی ہوں۔‘‘
’’اف!‘‘ اس نے بے ساختہ ایک گہرا سانس خارج کیا۔ وہ کمی اب کہیں نہیں تھی۔
’’میں سمجھ رہا تھا کہ تم جانے ایسا کیا کہنے والی ہو۔ یقیناً تمہاری فیملی نے تمہیں مجبور کیا ہو گا۔ بہرحال مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘‘
’’مسلمان ہونے کے بعد میرا جو تم سے تعلق تھا، وہ ختم ہو چکا ہے۔ اب جب تک تم اسلام قبول کر کے مجھ سے نکاح نہیں کر لیتے۔ ہم ساتھ نہیں رہ سکتے۔‘‘ اگلے ہی پل اس نے مانیک کے حواسوں پر بم پھوڑا تھا۔
’’کیا بکواس ہے یہ؟ تم یہاں آ کر کن چکروں میں پڑ گئی ہو؟ چلو! واپس چلتے ہیں۔ ہماری اپنی ایک دنیا ہے۔ جہاں تم میری ہو اور میں صرف تمہارا۔ یہی حقیقت ہے۔ باقی سب …‘‘
’’میں تمہارے ساتھ نہیں چل سکتی۔‘‘ اس کا انداز اتنا قطعی تھا۔ مانیک اسے دیکھ کر رہ گیا۔ وہ کس قدر اجنبی لگ رہی تھی۔ جیسے وہ اس سے پہلی بار مل رہا ہو۔
’’بیلا۔‘‘
’’میرا نام فاطمہ ہے۔‘‘ اس نے ٹوک دیا۔
’’نام بدلنے سے تم اپنی پہچان نہیں بدل سکتیں۔‘‘
’’وہ بھی بدل جائے گی۔ اگر تم نہ مانے تو مجھے اپنا حوالہ بدلنا ہی پڑے گا۔‘‘ وہ زیر لب بڑبڑائی۔
’’کیوں کر رہی ہو تم ایسا؟‘‘ وہ بے بس ہوا۔
’’مانیک! پلیز تم میری بات مان جاؤ۔‘‘ اس کا اندازہ ملتجی تھا۔
’’کبھی نہیں۔‘‘ ’’راستہ تم نے بدلا ہے۔ واپس بھی تمہیں ہی آنا ہو گا۔‘‘ اس کے انداز میں ضد تھی۔
’’میں نے راستہ نہیں بدلا۔ محض اپنی سمت درست کی ہے۔‘‘
’’میرے نزدیک یہ حماقت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
’’اور میرے لیے یہ میری خوش نصیبی ہے کہ اللہ نے مجھے اپنے محبوب کا امتی ہونے کا شرف بخشا۔‘‘
’’تم ایک مذہب کی خاطر مجھے چھوڑ دو گی؟‘‘ وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’تم بھی تو مذہب کی خاطر مجھ سے دست برادری پر رضا مند ہو۔‘‘
’’تم نے کہا تھا تم کبھی بھی کسی کے بھی کہنے پر مجھے نہیں چھوڑو گی۔‘‘ اس نے یاد دلانا چاہا۔ مگر ایسا ایک عہد ان مہکتے شاداب لمحوں اور دلفریب قربتوں نے اسے بھی عنایت کیا تھا۔
’’تم نے بھی کہا تھا کہ جب کبھی میں کچھ ایسا چھوڑنے کو کہوں، جو تم نہیں چھوڑ سکتے۔ پھر بھی چھوڑ دو گے۔ اپنا مذہب چھوڑ دو مانیک! میں کبھی تمہیں نہیں چھوڑوں گی۔‘‘
’’میری بات کو مشروط نہ کرو۔ اپنے وعدے پر قائم رہو۔‘‘
’’میں یہ عہد نہیں نبھا سکتی۔ اللہ کے حکم سے انحراف میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ میں نے اپنی سب سے پیاری چیز اس کی راہ میں قربان کر دی ہے۔ اب کاش! وہ اجر کے طور پر میری وہ پیاری چیز مجھے واپس لوٹا دے۔ عجیب خواہش ہے۔ مگر اس سے تو کچھ بھی مانگا جا سکتا ہے نا۔‘‘ وہ ہار کر واپس لوٹ آئی۔ مانیک نے اسے ایک بار بھی پلٹ کر نہیں پکارا۔
وہ کمی اب ہر جگہ تھی ہمیشہ کے لیے۔
٭٭٭
جمعہ کے روز اس کا نکاح سادگی کے ساتھ زریاب شاہ سے ہو گیا۔ احمد کمال نے جب اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر فاطمہ کا پروپوزل پیش کیا تو وہ چاہ کر بھی انکار نہ کر سکا۔ بلا ارادہ اس کا سر اثبات میں ہل گیا۔
وہ اس سے دو سال بڑی تھی۔ وہ اس کی عزت کرتا تھا۔ مگر ایسا تو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔
’’مہک! اگر تم میرا ساتھ دو تو میں اسٹینڈ لے سکتا ہوں۔‘‘ وہ آخری کوشش کرنا چاہتا تھا۔
’’مسٹر زریاب شاہ! تم اپنے متعلق کچھ زیادہ ہی خوش فہمیوں کا شکار ہو۔ تم نے یہ سوچا بھی کیسے کہ تم میں اور مجھ میں کوئی ایسا جذبہ ہو سکتا ہے ؟ تم میرے اچھے کزن ہو، دوست ہو تو اس کا یہ مطلب …‘‘
کھنکتی چوڑیوں کی چھن چھن پر وہ سامنے پھولوں کی سیج پہ بیٹھی دلہن کی جانب متوجہ ہوا۔
اسے جیسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ سرخ زرتار میں چھپا وہ چہرہ مہک کا نہیں، کسی اور کا تھا۔
دونوں کو بچپن سے ہی پتا تھا کہ ان کی شادی آپس میں ہی ہو گی اور فطری طور پر اسے اس سے بے حد لگاؤ رہا تھا۔ اسے وہ ساری شرارتیں، جھگڑے، روٹھنا اور منانا یاد آ رہا تھا۔
’’ہرگز نہیں کہ تم سے شادی کر لوں۔‘‘مہک کا ادھورا فقرہ اس کی سماعتوں میں گونجا تو وہ بے قراری سے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ جانتا تھا، وہ جھوٹ بول رہی ہے۔
’’اور وہ تو ازل سے ہی جھوٹی تھی۔ پھر میں نے اس کا اعتبار کیونکر کیا۔ ’’اب اسے خود پہ غصہ آ رہا تھا۔ بے بسی سے اس نے اپنے بال نوچ ڈالے۔
احمد کمال نے بھی تو اسے سوچنے سمجھنے کا موقع نہیں دیا تھا۔ اس نے تو محض ان کی جذباتیت کا بھرم رکھا تھا۔ اب کیا معلوم تھا کہ وہ اگلے ہی روز نکاح کروا دیں گے۔
’’کاش! میں نے نکاح سے انکار کر دیا ہوتا۔‘‘ پچھتاوے اسے گھیرنے لگے۔
’’میں چینج کر لوں۔‘‘ فاطمہ اس کی جانب سے کوئی پیش قدمی نہ ہوتے دیکھ کر خود ہی اٹھ کر اس کے قریب چلی آئی۔
زریاب نے بلا ارادہ ہی اوپر دیکھا تھا اور اپنی جگہ مبہوت سارہ گیا خوب صورت تو وہ بہت تھی۔ مگر اس وقت اس کا حسن قیامت ڈھا رہا تھا۔
مگر وہ مہک کا نعم البدل تو نہیں ہو سکتی تھی۔
’’یہ ڈریسنگ روم ہے۔‘‘ وہ دائیں جانب اشارہ کرتا خود باہر نکل آیا۔
٭٭٭
آئینے میں اپنا پور پور سجا سراپا دیکھ کر وہ دشمن جان آج پھر بڑی شدت سے یاد آیا تھا۔
’’میرا دل چاہتا ہے تم دلہن بنو۔‘‘ وہ ادھ کھلے دریچے میں کھڑی سوئٹزر لینڈ کا نظارہ دیکھ رہی تھی، جب مانیک نے اسے اپنے بازوؤں میں بھرتے ہوئے ٹھوڑی اس کے نشانے پر ٹکا دی تھی۔
’’کتنی بار دلہن بناؤ گے ؟‘‘ وہ اس انوکھی فرمائش پر ہنس پڑی۔
’’وائیٹ میکسی والی نہیں یار! میں چاہتا ہوں، تم انڈین برائیڈل بنو … وہ جیسی ہم نے ہوٹل میں دیکھی تھی۔ سرخ لہنگے میں ملبوس ڈھیر سارا زیور پہنے، سولہ سنگھار کیے۔ وہ کیا ہوتا ہے ہاں ! بندیا، چوڑیاں، گجرے مہندی اور جانے کیا کیا۔‘‘ وہ سوچ سوچ کر بول رہا تھا۔ پتا نہیں اس نے یہ سارے الفاظ کس سے سیکھے تھے۔
اس نے پھولوں کے گجرے نوچ کر پھینک دیے۔ ایک ایک کر کے ساری چوڑیاں توڑ دیں۔ ان کے نوکیلے کانچ گوری ملائم کلائیوں کو زخمی کر گئے۔ زخموں سے خون رسنے لگا تھا۔
وہ دیوار سے ٹیک لگا کر اپنی جگہ بیٹھتی چلی گئی۔ آنکھوں میں ڈھیر سارا پانی امڈ آیا تھا۔
٭٭٭
آج کی رات کس قدر ظالم اور وحشت ناک تھی۔ سلیپنگ پلز نگلنے کے باوجود بھی اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ بستر پر کروٹیں بدل بدل کر پورا وجود دکھنے لگا وہ چت لیٹی چھت پر لٹکے فانوس کو گھور رہی تھی۔ پھر اس نے وال کلاک کی سمت دیکھا۔
رات کے تین بج رہے تھے۔
وہ دوپٹا اوڑھتی دروازے پر چلی آئی۔ آہستگی سے دروازہ کھولا۔ باہر کوئی نہیں تھا۔ راہ داری ویران پڑی تھی۔ ہر کمرے کا دروازہ بند تھا۔
وہ شال اوڑھ کر باہر نکل آئی۔ بند کمرے میں اب تو دم گھٹنے لگا تھا۔
رت جگے تو اب ہمارا مقدر ہیں دوست
تم کیوں جاگتے ہو اجاڑ راتوں میں
نیم تاریکی میں وہ اسے دیکھ نہیں پائی تھی۔ سامنے آیا تو اس کی پوروں میں جلتا ہوا شعلہ تھا۔ جس کا ایک کش لے کر اس نے دھواں مہک کے منہ پر چھوڑ دیا۔ وہ بے ساختہ کھانس کر رہ گئی۔
’’کیا بدتمیزی ہے یہ؟‘‘ اشتعال سے زیادہ اسے صدمہ ہوا تھا۔ اس نے سگریٹ کیوں پینی شروع کر دی۔
’’بدتمیزی …‘‘ وہ استہزائیہ ہنسا۔
’’بدتمیزی ابھی تم نے میری دیکھی کہاں ہے۔‘‘
ایک جھٹکے سے اس کا بازو جکڑتے ہوئے وہ غرایا۔ اس کی سرخ آنکھوں سے مہک کو خوف آنے لگا۔
’’بازو چھوڑو میرا۔‘‘ اس کی آواز میں نمی گھل گئی۔ آج سے قبل اس نے زریاب کو کبھی اس قدر ٹوٹی بکھری حالت میں نہیں دیکھا تھا۔ وہ شکستگی، لاچاری اور جنوں کی جس انتہا پر تھا مہک کو لگا، ابھی وہ اس کا گلا دبا کر سارے حساب بے باق کر ڈالے گا۔
’’کیوں کیا تم نے ایسا میرے ساتھ مہک … کیوں ؟‘‘
نیم دیوانگی میں اس نے مہک کو پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا۔ پھر اگلے ہی پل پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
’’زریاب! یہ کیا پاگل پن ہے۔‘‘ وہ بوکھلا کر رہ گئی۔
’’میں نہیں جی سکتا تمہارے بغیر۔‘‘
’’اب تمہاری زندگی فاطمہ سے وابستہ ہے زریاب … اور یہ کبھی مت بھولنا کہ فاطمہ میری بہن ہے۔‘‘
٭٭٭
’’اماں جی، بابا جان کے ساتھ بیڈ روم میں ہی ناشتا کیا کرتی تھیں۔ اس وقت ڈائننگ ٹیبل پر حسب معمول وہ چاروں موجود تھے۔
فاطمہ کو مہک کچھ دنوں سے بہت بدلی ہوئی اداس اور گم صم سی لگ رہی تھی۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی تو اسے خیال آیا کہ شاید دونوں میں کوئی جھگڑا چل رہا تھا۔ بات چیت تو تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی۔ دونوں کو ایک ہی اسپتال جانا ہوتا تھا۔ مگر دونوں الگ الگ گاڑیاں استعمال کرتے تھے۔
’’چائے اتنی پھیکی کیوں ہے۔‘‘ زریاب نے ایک گھونٹ بھر کر کپ واپس رکھ دیا۔ مہک خاموش رہی تھی۔ کیونکہ چائے وہی بنا کر لائی تھی اور وہ ہمیشہ سے ہی پھیکی چائے پیتا تھا۔
’’فاطمہ! میرے لیے چائے تم بنایا کرو۔ تم چائے بہت اچھی بناتی ہو۔‘‘ اگلے ہی پل پیار بھرے لہجے میں فاطمہ سے فرمائش کی گئی اور فاطمہ کو یاد نہ آیا کہ اس نے کب زریاب کے لیے چائے بنائی تھی۔
اپنے سب کام جو وہ پہلے مہک سے کروایا کرتا تھا۔ اب فاطمہ سے کروانے لگا تھا۔ سب کے سامنے ایسے ظاہر کرتا تھا۔ جیسے وہ دونوں ایک دوسرے کی سنگت میں بہت خوش حال زندگی گزار رہے ہوں اور تنہائی میں مکمل لاتعلق اور اجنبی بن جاتا۔
٭٭٭
سردیوں کی نرم گرم دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ پہاڑوں پر سورج سردیوں میں شاذ و نادر ہی جلوہ گر ہوتا تھا۔ فاطمہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم لے کر اوپر ٹیرس پر چلی آئی تھی، جہاں زریاب پہلے سے موجود کسی کیس ہسٹری میں مکمل طور پر محو تھا۔
’’آج کل اپنا زیادہ وقت مذہبی کتابوں کے مطالعے اور عبادت کو دے رہی تھی۔ جس سے نہ صرف اس کا وقت اچھا گزر جاتا تھا۔ بلکہ ایک روحانی سکون بھی ملتا تھا۔ وہ مانیک کو کبھی نہیں بھلا سکتی تھی۔ مگر اتنا ضرور چاہتی تھی کہ زندگی کو نئے رخ سے جینا سیکھ لے۔
’’یار! میں سوچ رہا ہوں۔ ہمیں کہیں ہنی مون کے لیے چلنا چاہیے۔‘‘
ٹیرس کی خاموش لاتعلق فضا میں اچانک زریاب کی پر جوش آواز ابھری۔ انداز ایسا تھا۔ جیسے گھنٹہ بھر سے وہ اس کے ساتھ ہی باتیں کر رہا ہو۔ مہک ابھی ابھی ٹیرس سے کپڑے اتارنے آئی تھی۔
’’ہنی مون۔‘‘ اس کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹ گیا۔ اسے سوئٹزر لینڈ کی وہ فلک بوس پہاڑیاں اور پھولوں سے مہکتی وادیاں یاد آ گئیں۔
’’بیلا! ہم سال میں ایک بار ہنی مون ضرور منایا کریں گے۔ میں تمہیں لے کر ملکوں ملکوں گھومنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’اچھا! اس سے کیا ہو گا؟‘‘ اس کی جذبے لٹاتی والہانہ نظروں سے شرما کر اس نے بے تکا سا سوال پوچھا تھا۔
’’ہمارا پیار ہمیشہ جوان رہے گا۔‘‘ مانیک نے اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔
’’پیار کبھی بوڑھا یا جوان نہیں ہوتا۔‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنسی۔
’’تم کبھی بدل تو نہیں جاؤ گی نا؟ دیکھو! وعدہ کرو کہ ہمیشہ مجھے یوں ہی چاہو گی۔‘‘
’’انسان بھی کبھی بدلا ہے ؟ آج جیسی ہوں، کل بھی ویسی ہی رہوں گی۔ گھبراؤ مت۔ میرے سر پہ سینگ نہیں نکلیں گے اور نہ ہی …‘‘ اپنی بات کا حظ اٹھاتی وہ خود ہی ہنسے جا رہی تھی۔
’’تم ہنستی ہوئی کتنی اچھی لگتی ہو۔ میں چاہتا ہوں، تمہاری ہنسی کا ترنم کبھی پھیکا نہ پڑے۔ جب بھی تمہیں دیکھوں۔ تم یوں ہی کھلکھلاتی رہو۔‘‘ وہ اب اسے گدگدا رہا تھا اور وہ ہنستے ہوئے اس سے دور بھاگ رہی تھی۔
’’مانیک! اسٹاپ اٹ۔‘‘
’’بتاؤ نا! کس ملک کی سیر کرنا چاہتی ہو؟‘‘ زریاب نے اسے خاموش دیکھ کر اس کا ہاتھ دبایا۔
فاطمہ کی ہتھیلی سلگنے لگی۔ اسے آج تک کبھی مانیک کے سوا کسی نے نہیں چھوا تھا اور وہ ہمیشہ اس کی ہو کر رہنا چاہتی تھی۔
اس نے غیر محسوس انداز میں اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا وہ جتنا بھی خود کو آمادہ کرتی، یہ پل صراط اس سے پار ہونے والا نہیں تھا۔
مہک چپ چاپ سیڑھیاں اتر گئی اور اس کے جاتے ہی زریاب واپس اپنے خول میں سمٹ گیا۔
٭٭٭
’’ہاتھ دکھاؤ اپنا۔‘‘ وہ ڈریسنگ کے سامنے بیٹھی اپنی چوڑیاں اتار رہی تھی، جب وہ تن فن کرتا اس کے سر پہ اپنا حکم نامہ لیے آن کھڑا ہوا۔
مہک نے الجھن آمیز نظروں سے اسے دیکھا۔ اس کے تاثرات خاصے برہم تھے۔ خشمگیں نظریں اس پہ جمائے وہ اسے مسلسل گھور رہا تھا۔
’’سنا نہیں تم نے ؟ اپنا ہاتھ دکھاؤ۔‘‘ اس کی حالت میں کوئی تبدیلی نہ آتے دیکھ کر وہ اتنی زور سے دھاڑا تھا کہ مہک بے اختیار سہم کر دو قدم پیچھے ہٹی تھی۔ پھر خاموشی سے اپنا ہاتھ اس کی سمت بڑھا دیا۔
اس نے نہایت درشتی کے ساتھ اس کے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی سے انگوٹھی اتار کر کھڑکی سے باہر اچھال دی۔
مہک ششدر سی رہ گئی اسے زریاب سے ایسی حرکت کی اُمید نہیں تھی۔
’’تم صرف میری ہو اور میں تمہیں کسی اور کا ہونے نہیں دوں گا۔ یاد رکھنا۔‘‘ اس کے بازو کو اپنی آہنی گرفت میں جکڑے ہوئے ایک جھٹکے سے پیچھے دھکیلتا جس طرح آندھی کی طرح آیا تھا۔ ویسے ہی واپس لوٹ گیا۔
وہ رونے لگی تھی۔ زریاب کا یہ جارحانہ روپ اس کے لیے بالکل نیا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس معاملے میں اس قدر جنون اور پاگل پن کا مظاہرہ کرے گا۔
٭٭٭
’’فاطمہ! زریاب آ چکا ہے۔ تم ایسا کرو اس کی چائے بیڈ روم میں ہی لے جاؤ۔‘‘ در نایاب کچن میں ٹرالی سیٹ کر رہی تھی۔ اپنے اور مہک کے لیے چائے نکال کر اس نے باقی لوازمات اس کی سمت بڑھا دیے۔
’’بھئی بڑی خاطریں ہو رہی ہیں میاں صاحب کی۔‘‘ راستے میں شایان ایک کپ اور سموسوں کی پلیٹ لے اڑا۔
فاطمہ سر جھٹک کر مسکراتے ہوئے کمرے میں چلی آئی۔
پہلے تو اسے کچھ نظر ہی نہیں آیا۔ دبی پردوں کے باعث سورج کی شعاعیں کھڑکیوں میں کھڑی جیسے محو انتظار میں تھیں کہ کوئی ان کو اندر جھانکنے کا راستہ فراہم کرے۔ اس نے سب سے پہلے ان کی خواہش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے پردے ہٹائے تو جیسے ہر منظر نکھر سا گیا۔
بستر پر اوندھا لیٹا زریاب ایک ٹانگ جھلا رہا تھا۔ کمرے کی فضا میں عجیب ناگوار سی بو رچی ہوئی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر ایش ٹرے ڈسٹ بن میں جھاڑی، جو سگریٹ کے ادھ جلے ٹکڑوں سے بھری ہوئی تھی۔ اسے یاد آیا کبھی وہ کہا کرتی تھی۔
’’آئی ہیٹ اسموکر۔‘‘
مانیک کو بھی اسی وجہ سے وہ کتنا عرصہ ناپسند کرتی رہی تھی مگر اس نے بیلا کی خاطر سب چھوڑ دیا تھا۔ پھر اب کیوں نہیں۔
اس کے دماغ میں سوال اٹھا اور پھر کیتھرین کی فون کال یاد آ گئی۔ پہلے تو وہ اس پر خوب ناراض ہوئی تھی۔ پھر واپسی پر اصرار کرنے لگی۔ اس نے مانیک کا پوچھا تو اس نے بتایا تھا کہ ایک گیٹ ٹو گیدر میں وہ زبردستی مانیک کو ساتھ لے گئی تھی۔ وہاں سوزین نے سب کے سامنے اس کا خوب مذاق اڑایا کہ تمہاری بیوی تمہیں چھوڑ کر اپنے کسی آشنا کے ساتھ پاکستان چلی گئی ہے۔ بس اسی روز کی فلائٹ سے وہ برمنگھم چلا گیا ہے۔ اسے سن کر بہت دکھ ہوا تھا۔
ڈر، خوف، وہم بعض اوقات انسان کے دل و دماغ پر اتنے حاوی ہو جاتے ہیں کہ پھر حقیقت کا روپ دھار کر ہی جان چھوڑتے ہیں اور جو رسوائی قسمت میں لکھی جا چکی ہو، وہ ہزار تدبیروں سے بھی موخر نہیں ہو سکتی۔
اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔
زریاب اس کی موجودگی کو محسوس کرتا اٹھ کر بیٹھ چکا تھا۔
’’چائے۔‘‘ فاطمہ نے کپ اس کی جانب بڑھایا۔
تب ہی زریاب کی نظر اٹھی۔ وہ سی گرین رنگ کے لباس میں ہمیشہ کی طرح فریش اور خوب صورت لگ رہی تھی۔ سیدھے بال چٹیا میں مقید تھے۔ سرمئی آنکھوں میں کتنی حیا اور پاکیزگی تھی۔
مگر کوشش کے باوجود بھی اس کا دل فاطمہ کی جانب ملتفت نہیں ہوتا تھا۔
’’یہ مٹھائی کہاں سے آئی ہے ؟‘‘ پلیٹ پر نظر پڑتے ہی وہ اچھا خاصا بدمزہ ہوا تھا۔
’’جلیل انکل کے گھر سے …‘‘ نبیل شاہ کے نام کی انگوٹھی آج ہی ذکیہ آنٹی مہک کی انگلی میں پہنا کر گئی ہیں۔‘‘ اس نے تو اپنی جانب سے خوش خبری سنائی تھی اس کے چہرے کے زاویے جانے کیوں بگڑ گئے۔
’’اٹھا کر پھینکو اس کو باہر۔‘‘ وہ کپ واپس پٹختے ہوئے ٹرالی کو ٹھوکر مارتا باہر چلا گیا اور فاطمہ کے ذہن میں اتنے دنوں سے جو کھٹک رہا تھا۔ وہ جیسے اس پر یقین کرنے میں ابھی تک متامل تھی۔
٭٭٭
’’مہک! تم سے ایک بات پوچھوں ؟‘‘ شام کی ٹھنڈی خوش گوار ہوا چل رہی تھی۔ دونوں لان میں بیٹھی چلغوزے کھا رہی تھیں۔ جب فاطمہ نے کہا۔ مہک کا دل دھک سے ہوا اب جانے وہ کیا استفسار کرنے والی تھی۔
’’پھوپھو کی کتاب میں ایک نوجوان کی تصویر دیکھی تھی میں نے۔ لگتا ہے وہ کسی کو پسند کرتی تھیں۔ کیا تم جانتی ہو؟‘‘ فاطمہ کی نظر بالکونی پر جمی ہوئی تھی۔ وہاں در نایاب ستون سے ٹیک لگائے، آسمان کی وسعتوں میں اڑتے پرندوں کو دیکھ رہی تھی۔
مہک نے ایک گہرا سانس بھرتے ہوئے اسے جہاں زیب کے متعلق بتا دیا تھا۔
’’ابا نے پھوپھو کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ اب انہیں تم سے پہلے ان کی شادی کرنی چاہیے۔‘‘ اسے واقعی دکھ ہوا تھا۔
’’پھوپھو کی شادی نہیں ہو سکتی۔‘‘ مہک کی آواز اتنی پست تھی کہ فاطمہ بمشکل سن پائی۔
’’کیوں ؟‘‘ حیرت کے ساتھ اس کی آنکھوں میں سوال بھی تھا۔
’’وہ شاہ میر کے ساتھ منسوب ہیں اور وہ لندن میں لیزا کے ساتھ شادی کر چکا ہے۔ اب پھوپھو تمام عمر اس کی منگ بن کر رہیں گی۔‘‘
’’واٹ ربش … کیا جہالت ہے یہ؟‘‘ پل میں اس کا چہرہ سرخ پڑ گیا۔
مہک اسے اپنی روایات، رسوم و رواج کے متعلق بتانے لگی۔ جنہیں سن کر اس کے ماتھے کی شکنوں میں اضافہ ہی ہوا تھا۔
وہ تن فن کرتی شایان کے سر پر پہنچ گئی تھی۔ جو ابھی عشاء کی نماز سے فارغ ہوا تھا۔
’’تمہیں نہیں لگتا کہ اللہ سے تمہارا تعلق محض ایک سجدے میں سمٹا ہوا ہے ؟ ایک سجدہ کیا اور گویا حق بندگی ادا ہو گیا … اور پھر باقی کے تمام معاملات زندگی میں تم اپنی مرضی چلا رہے ہوتے ہو۔ حالانکہ اللہ سے محبت کا تقاضا تو یہ ہے ناکہ ہر کام اس کی مرضی سے کیا جائے ؟‘‘ وہ بغیر کسی لاگ لپٹ کے شروع ہو چکی تھی۔ شایان نے تحمل سے اسے سنا اور پھر بولا۔
’’بات کیا ہے ؟‘‘
’’پھوپھو کو کس طرح آپ نے ایک جاہلانہ رسم کی بھینٹ چڑھا رکھا ہے۔‘‘ اس کے ابرو تن گئے۔
’’یہ برادری اور جرگوں کے فیصلے ہیں۔ تم نہیں سمجھو گی۔‘‘ اس نے ٹالنا چاہا۔ مگر وہ بھی مکمل تیاری کے ساتھ آئی تھی۔
’’آپ سمجھانے کی کوشش کریں تو ہو سکتا ہے آپ کے نادر خیالات، انمول اصول اور نایاب روایات میرے بھی اس کم عقل ذہن میں سما جائیں۔‘‘ وہ اطمینان سے کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔
’’دیکھو فاطمہ! مجھے بھی یہ سب پسند نہیں۔ لیکن صدیوں سے چلے آئے سسٹم کو یوں ایک دم سے تو نہیں بدلا جا سکتا ناں۔‘‘
’’تبدیلی کبھی بھی سمندر میں نہیں آتی۔ پہلے دریا کا رخ موڑنا پڑتا ہے۔ تم پہلا قدم تو اٹھاؤ۔‘‘ وہ اب کے ذرا جوش سے بولی۔
’’یہ سب اتنا آسان نہیں ہو گا۔ سارا قبیلہ ہم سے منہ موڑ لے گا۔ خاندان بھر میں ہماری بدنامی ہو گی اور …‘‘
’’اللہ کے احکامات کی پیروی پر شرمندگی کیسی؟‘‘ اس کی بات کاٹتے ہوئے فاطمہ نے اسے دیکھا تو ایک پل کے لیے وہ بھی لاجواب ہو کر رہ گیا۔
’’تمہیں پتا ہے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام شیر خوارگی میں بنی اسرائیل کو توریت پڑھ کر سنایا کرتے تھے تو سارے یہودی توریت کا کلام سنا کرتے تھے۔ لیکن جب انہوں نے اپنی قوم کو انجیل کا پیغام دیا تو بنی اسرائیل کے لوگ ان کے دشمن ہو گئے اور ان کو صلیب پر چڑھانے کی سازش تک کر ڈالی۔ ایسے ہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی تو طائف والوں نے ان پر پتھر برسائے۔ اللہ نے ہمیں عقل اور شعور کے ساتھ ایک مکمل ضابطہ حیات بھی دیا ہے تو ہم کیوں غور و تفکر سے کام نہیں لیتے ؟ اصل میں ہم ریجڈ ہیں وہی کریں گے جو ہم نے اپنے آباء و اجداد کو کرتے دیکھا تھا۔‘‘ اس نے تاسف سے سر ہلایا اور اپنی بات جاری رکھی۔ یہ ہمارا جاگیرانہ سسٹم بھی ایسا ہی ہے۔ بہت سے غیر انسانی رسوم و رواج اور طور طریقے ایسے بھی رائج ہیں مذہب میں جن کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ بلکہ بعض تو صریح گناہ ہیں۔ لیکن جب بھی کوئی ان میں تبدیلی لے کر آئے گا، وہ معتوب ٹھہرے گا۔ اس پر پتھر بھی برسائے جائیں گے اور صلیب پر بھی چڑھایا جائے گا۔‘‘
’’میں آپ کی فصیح و بلیغ گفتگو سے متاثر ہو چکا ہوں مادام! آج ابا زمینوں پر ہیں۔ کل بات کریں گے۔‘‘ اسے تو ابھی تک منال کا دکھ نہیں بھولا تھا۔ پھر در نایاب کو اس ظلم کی بھینٹ کیوں چڑھنے دیتا۔ بس ابا کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت نہیں تھی۔ وگرنہ ان رسموں کے وہ بھی دل سے خلاف تھا اور آج فاطمہ کی باتوں نے اسے اکسا دیا تھا وہ حق کے لیے اٹھے۔
فاطمہ بے پناہ خوش ہوئی۔ اسے اب شدت سے کل کا انتظار تھا۔
٭٭٭
اگلے روز احمد کمال زمینوں سے آ کر کھانا کھانے کے بعد اپنی اسٹڈی میں چلے گئے۔ فاطمہ ان کے فارغ ہونے کا انتظار ہی کر رہی تھی۔ وہ اٹھنے ہی والی تھی۔ جب سامنے سے زریاب چلا آیا۔
’’فاطمہ! یہ تمہاری شاپنگ ہے۔ دیکھ لو۔‘‘ اس نے دو، تین شاپنگ بیگز اس کی سمت بڑھائے۔ جنہیں فاطمہ نے لے کر سائیڈ پہ رکھ دیا۔ لاؤنج میں اب وہ اور مہک ہی تھیں۔ مہک اٹھنے کے لیے پر تولنے لگی۔ وہ خود ہی بیگز کھولنے لگا۔
’’یہ دیکھو! یہ سیٹ تو میں نے خاص تمہارے لیے خریدا تھا۔ ’’جیولری باکس کھول کر وہ اس کے بالکل برابر میں آ بیٹھا۔
فاطمہ نے اک سرسری سی نگاہ ڈالی۔
سفید یاقوت اور زمرد سے مزین وہ بہت خوب صورت نیکلس تھا۔ زریاب نے ایک جھمکا نکال کر اس کے کان میں لٹکا دیا۔
’’واؤ بیوٹی فل، تم جس چیز کو زیب تن کر لو وہ خوب صورت ہو جاتی ہے۔‘‘ وہ کچھ زیادہ ہی شوخ ہو رہا تھا۔
مہک چپکے سے اٹھ کر چلی گئی اور اس کے جانے کے بعد باقی کے شاپنگ بیگز بند ہی پڑے رہے۔
’’کاش مہک! تم میری بہن نہ ہوتیں تو میں خود تمہیں زریاب کی دولہن بناتی۔‘‘ وہ دل گرفتی سے سوچنے لگی۔ اس نئے رشتے کو نبھانے کے لیے ابھی کچھ وقت درکار تھا اور شاید یہی مجبوری زریاب کی بھی تھی۔
وہ دونوں ہی جدا جدا منزلوں کے راہی تھے۔ مگر رہ گزر شاید ایک ہی تھی سو وہ چل رہے تھے۔
’’چائے پیو گی؟‘‘ در نایاب کی آواز سے اس کے خیالوں کا تسلسل ٹوٹا۔ وہ ٹرے تھامے اس کے قریب کھڑی تھی۔ فاطمہ نے اٹھتے ہوئے دو کپ اٹھا لیے۔
’’ابا جان کے پاس بہت ضروری کام سے جا رہی ہو۔ دعا کیجئے گا، میرا کام ہو جائے۔‘‘
’’لالہ اب اتنے بھی کٹر نہیں ہیں اور تم سے تو بہت محبت کرتے ہیں۔ جس طرح تم نے ان کا مان رکھتے ہوئے زریاب سے نکاح کیا ہے، وہ بہت خوش ہیں تم سے۔ اُمید ہے کہ تمہارا کام ہو جائے گا۔‘‘ دعا کرنے کے بجائے وہ اپنے خیالات کا اظہار کرنے بیٹھ گئی تو فاطمہ نے مصنوعی خفگی سے اسے گھورا۔
’’آپ بس دعا کریں۔‘‘ وہ اپنی بات پر مصر تھی۔ در نایاب نے اثبات میں سر ہلا دیا اور جب وہ چائے لے کر اسٹڈی میں پہنچی تو وہ کرسی پہ بے ہوش پڑے تھے۔ ان کا دایاں بازو نیچے جھول رہا تھا اور گردن لڑھک کر ایک جانب کو ڈھلک چکی تھی۔
انہیں اس حالت میں دیکھ کر فاطمہ کی چیخ نکل گئی۔
اگلے ہی پل ملازموں سمیت تمام افراد خانہ اسٹڈی میں جمع ہو چکے تھے۔
’’شایان! ان کو اسپتال کے کر جاؤ۔‘‘ شایان کو دیکھ کر وہ چلائی۔ زریاب آگے بڑھ کر ان کی نبض ٹٹول رہا تھا۔
’’شایان! انہیں لاؤنج میں لے چلو۔‘‘ وہ مایوسی سے کہتا ان کے بازو اور سر سیدھا کر رہا تھا۔
سب کی آنکھوں میں بے تحاشا آنسو امڈ آئے۔ فاطمہ کا دل چیخ چیخ کے رو رہا تھا۔ وہ ہنوز بے یقینی کے عالم میں کھڑی تھی۔ در نایاب ساکت تھی اور مہک کو تو لگ رہا تھا، جیسے کسی نے بھری دنیا میں تنہا کر دیا ہو۔ مرجان بیگم کی حالت الگ خراب تھی۔ شام کے قریب انہیں سپرد خاک کر دیا گیا۔
زندگی رفتہ رفتہ معمول پر آنے لگی۔ دستار شایان کے سر پر سج چکی تھی اور زندگی میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا تھا۔ وہ اسے در نایاب کی شادی پر رضا مند کر چکی تھی۔
٭٭٭
’’فاطمہ! شام کا وقت تھا دونوں واک پر نکلی ہوئی تھیں۔ جب در نایاب نے کسی بات کی غرض سی اسے پکارا تو وہ پلٹ کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
’’تمہیں اس شام لالہ سے کیا کہنا تھا؟‘‘ وہ کتنے دنوں سے یہ سوال پوچھنا چاہ رہی تھی۔ آج موقع مل گیا۔
’’آپ کی شادی کی بات کرنا تھی۔‘‘ وہ صاف گوئی سے بولی۔ پارک سامنے ہی تھا۔ فاطمہ اسے باتوں میں لگا کر منزل کے قریب لے آئی تھی۔
’’شادی۔‘‘ وہ استہزائیہ ہنسی۔
’’تم نے لاحاصل کوشش کی؟ اب تو بہت دیر ہو چکی ہے۔‘‘
’’کیوں؟ اپنی محبت پر اعتبار نہیں ہے۔‘‘
’’اعتبار کی بات نہیں ہے فاطمہ! مگر اب جانے وہ کہاں ہو گا۔ شاید اس کا اپنا ایک گھر ہو …‘‘
’’بیوی ہو اور بچے بھی ہوں اور وہ اپنی دنیا میں مگن ہو۔ جانے اسے کبھی میری یاد بھی آئی ہو گی یا نہیں۔‘‘ اس کی بات اچک کر وہ بولے جا رہا تھا۔
فاطمہ ہنستے ہوئے ایک طرف چلی گئی در نایاب کو لگ رہا تھا، جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔ خوش رنگ تتلی کے پروں جیسا خواب، چھونے سے ابھی رنگ بکھر جائیں گے۔
’’چھو کر دیکھ لو۔ یہ میں ہوں۔ کوئی خواب نہیں۔‘‘ اس نے دھیرے سے در نایاب کا ہاتھ تھاما۔
’’جہاں زیب۔‘‘ اس کے لب بے آواز ہلے اور آنکھوں سے ساون برسنے لگا۔ اس نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اس زندگی میں دوبارہ کبھی اسے دیکھ بھی سکتی ہے۔
٭٭٭
اگلے ہی ہفتے وہ پھر سے اپنی مما کے ساتھ سوالی بن کر آیا تھا اور اب حویلی میں کسی کو بھی اس رشتے پر اعتراض نہیں تھا۔ در نایاب بہت خوش تھی اور اب اس کا سر کھا رہی تھی۔
’’تمہیں کیسے پتا چلا کہ میں اور جہاں زیب ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور تمہیں وہ کہاں ملا؟ یہ سب یوں اچانک؟‘‘ متجسس بھی تھی۔
’’بھول گئیں آپ، جہاں زیب نے آپ سے کہا تھا کہ اگر کاتب تقدیر نے تمہیں میرے نصیب میں لکھا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس فیصلے کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ مگر ملن کا بھی تو ایک وقت مقرر تھا اور جہاں زیب بھائی آپ کو وقت سے پہلے مانگنے آئے تھے۔ اسی لیے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔‘‘ وہ ہنوز غیر سنجیدہ تھی۔
’’بتاؤ نا! وہ کہاں ملے اور یہ سب کیسے ہوا؟‘‘ وہ اپنے سوال پر مصر تھی۔
’’بھئی! وہ تو آپ کے بڑے پکے عاشق نکلے۔ بس! اپنی یادوں کے ساتھ جی رہے تھے، جو آپ انہیں سونپ کر آئی تھیں۔‘‘ اس نے پھر گول مول سا جواب دیا تھا اور در نایاب اس بار ضبط نہیں کر پائی۔ کشن اٹھا کر اس کی جانب اچھالا تو وہ بمشکل اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی۔
’’جناب! وہ اسی یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں۔ ہم تو یونیورسٹی اسٹوڈنٹس ریکارڈ سے ان کا کوئی اتا پتا معلوم کرنے گئے تھے۔ مگر آپ کی قسمت یہ ہمیں خود مل گئے۔ ہمارا ارادہ تو حجلۂ عروسی میں آپ کو ان کا دیدار کروانے کا تھا۔ مگر مہک نے کہا اتنا ہی سرپرائز ٹھیک ہے۔ ورنہ پھوپھو کہیں مارے خوشی کے دنیا سے ہی نہ کوچ کر جائیں۔‘‘ حفظ ماتقدم کے طور پر اس نے دوسرا کشن اور تکیہ پہلے ہی اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔
خاندان بھر کی مخالفت کے پیش نظر در نایاب کو سادگی سے ہی رخصت کیا گیا تھا۔ مگر شایان کے خدشے درست نکلے۔ تایا جلیل شاہ اگلے ہی روز آ کر کافی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے منگنی کا سامان لوٹا گئے تھے۔
’’میری بیٹی کا اب جانے کیا ہو گا۔‘‘ مرجان بیگم کو دن رات ایک ہی فکر کھائے جا رہی تھی۔
’’اماں بی! آپ فکر کیوں کرتی ہیں۔ اللہ نے ہماری مہک کے لیے بھی کچھ اچھا ہی سوچا ہو گا۔‘‘ شایان انہیں تسلیاں دیتا اور فاطمہ خود سے نظریں چرانے لگتی۔ زریاب شاہ سے بات کرنے کا ارادہ تو وہ پہلے ہی کر چکی تھی۔
٭٭٭
فون کی چنگھاڑتی بیل پر کچن کی جانب بڑھتے اس کے قدم رک گئے۔
’’شاید پھوپھو کا ہو۔‘‘ وہ یہی قیاس کرتی فون سیٹ کی جانب آئی تھی۔
’’ہیلو فاطمہ؟‘‘ ریسیور کان سے لگاتے ہی دوسری جانب سے استفسار کیا گیا تھا۔ یہ آواز یہ لہجہ تو وہ سینکڑوں میں بھی پہچان سکتی تھی۔
مگر اب کیوں ؟‘‘
کتنے پل، پہر، موسم، اسے تو یوں لگتا تھا، جیسے صدیاں بیت چکی ہوں۔ اب تو اس نے موسموں کا، دنوں کا پہروں کا حساب رکھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ اب تو وہ اپنے نصیب پر صابر شاکر ہو کر تقدیر سے سمجھوتا کر چکی تھی۔
’’فاطمہ! میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس کے ملتجی لہجے پر وہ جیسے اپنے حواسوں میں واپس لوٹی۔
’’کیوں ؟‘‘ لاکھ چاہنے پر بھی وہ اپنا لہجہ تلخ نہ کر سکی۔
’’مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے۔‘‘ اس کی آواز میں اب کے دبا دبا سا جوش تھا۔ جس پر وہ متجسس ہوئے بغیر رکھائی سے بولی۔
’’اپنے لیے کوئی دوسرا سامع ڈھونڈ لو۔ مجھے اب اتنی فرصت کہاں۔‘‘ وہ بھلا اب اس سے ملنے کیسے جا سکتی تھی۔ اس کا حوالہ، اس کا نام، اس کی پہچان تک تو بدل چکی تھی۔ اب وہ بیلا مانیک کہاں رہی تھی۔ اب تو وہ فاطمہ زریاب بن چکی تھی۔
’’پلیز فاطمہ! بس ایک بار … میں تمہارا انتظار کروں گا۔‘‘ اس نے جگہ اور وقت بتا کر فون بند کر دیا۔
وہ کتنی ہی دیر شش و پنج کا شکار ریسیور ہاتھ میں تھامے کھڑی رہی اور پھر سر جھٹک کر اسے کریڈل پر پٹخ دیا۔ اس کا ارادہ کہیں جانے کا نہیں تھا۔
دوسری جانب اپنے بیڈ روم کے ایکسٹینشن سے اتفاقاً ان کی گفتگو سننے کے بعد زریاب کا خون کھول اٹھا۔
وہ اس سے کتنا ہی اجنبی اور لاتعلق سہی۔ مگر وہ تھی تو اس کی بیوی نا۔ ایسی عورتوں کو ان کے خاندان میں کاری قرار دیتے ہوئے سرعام سنگسار کیا جاتا تھا۔
تب ہی وہ کمرے میں چلی آئی۔ وہ اس پر ایک زہر خند سی نگاہ ڈالتا باہر نکل گیا۔ لان میں ٹہلتے ہوئے اس کی نگاہ اوپر اٹھی اور کتنے ہی پل خاموشی سے سرک گئے۔
’’عورتوں کو سرعام سنگسار کرتے ہو اور ایسے مردوں کے لیے کیا سزا تجویز کی ہے۔‘‘ کوئی اس کے اندر سے بولا۔ اس نے جھنجھلا کر مہک سے نظریں ہٹا لیں اور پاؤں پٹختا ہوا حویلی سے دور نکل گیا۔ اسے کل شام چار بجے کا بے چینی سے انتظار تھا۔
٭٭٭
دن بھر وہ معمول کے کام نبٹاتی رہی۔ مگر چار بجتے ہی اس کا دل معمول سے ہٹ کر دھڑکنے لگا۔
’’میں انتظار کروں گا۔‘‘ اس کے لفظ بار بار سماعتوں سے ٹکرا رہے تھے۔
’’مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے۔‘‘ بالآخر اس نے جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
آئینے میں اپنا آخری جائزہ لینے کے بعد وہ حویلی سے باہر نکل آئی۔ آج اس نے کوئی خاص بناؤ سنگھار نہیں کیا تھا۔ وہ اس وقت عبایا کے اوپر سیاہ حجاب لپیٹے ہوئے تھی۔ مطلوبہ جگہ پہنچ کر اسے مانیک سے اپنی آخری ملاقات یاد آ گئی۔ جس میں وہ اپنی محبت کا مان ہار چکی تھی۔ مانیک نے اسے کتنا مایوس کیا تھا۔
مگر شاید اس نے کہیں زیادہ مایوس تو وہ اسے کر چکی تھی۔
’’السلام علیکم!۔‘‘ ایک یک سراجنبی مرد نے اسے کسی کی تلاش میں سرگرداں دیکھا تو اٹھ کر قریب چلا آیا۔
فاطمہ اپنی جگہ حیرت کا بت بنی، منہ کھولے محض دیکھتی ہی رہ گئی۔
سفید، شلوار سوٹ میں ملبوس سر پہ کروشیے کی ٹوپی پہنے، ہلکی ہلکی داڑھی والا وہ خوبرو نوجوان کوئی اور نہیں مانیک تھا۔
’’وعلیکم السلام۔‘‘ حیرت کے جھٹکے سے سنبھلتے ہوئے۔ گویا ہوئی۔ ’’مانیک …‘‘
’’میرا نام علی ہے۔‘‘ وہ اس کے انداز میں بولا۔
’’کیا؟‘‘ اس کے دل میں چھن سے جیسے کچھ ٹوٹ گیا۔
علی نے اس کا ہاتھ تھام کر اپنے قریب بینچ پر بٹھا لیا۔ پھر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر شرارت سے بولا۔
’’محترمہ! اب تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ دیکھو! نام بھی تمہارے برابر کا رکھا ہے۔‘‘
’’یہ سب یوں اچانک …‘‘
’’اچانک نہیں۔‘‘ وہ ایک لمحے کے توقف سے بولا۔
’’جب تم مجھے ٹھکرا کر چلی گئی تھی تو میں بہت دل برداشتہ ہوا تھا۔ کتنے ہی دن تمہاری بے وفائی کے روگ نے مجھے بستر سے اٹھنے نہ دیا۔ ان دنوں سوزین نے میرا بہت خیال رکھا۔ پھر وہ شادی پر اصرار کرنے لگی اور جب میں نے دو ٹوک انکار کیا تو اس نے بھری محفل میں مجھے ڈی گریڈ کرنے کی کوشش کی۔ تمہارے حوالے سے مجھے ذلیل کیا۔ میرا دل تو اس ملک سے ویسے ہی اچاٹ ہو چکا تھا۔ میں نے سامان سمیٹا اور برمنگھم چلا آیا۔ میں تمہیں بے وفا کہتا تھا۔ مگر دل تمہاری بے وفائی کو تسلیم کرنے سے انکاری تھا۔ پہلے پہل میں اسے مختلف دلائل دے کر مناتا رہا۔ مگر جب یہ نہ مانا تو میں نے ہار مان لی۔ میں نے حقیقت پسندی سے سوچا کہ تم جو مجھ سے اتنی محبت کرتی تھیں۔ جس کے لیے میرے بغیر جینے کا تصور بھی محال تھا۔ تم نے محض ایک مذہب کی خاطر کیسے مجھے چھوڑ دیا۔ ایسا کیا ہے اس مذہب میں جس کی خاطر تم نے اپنی جان سے پیاری چیز اپنی محبت تک کو قربان کر دیا ہے۔‘‘ وہ ایک لمحے کو رکا اور اسے دیکھ کر مسکرایا۔
’’بس یہ خیال تھا، جو مجھے روز اکساتا تھا کہ میں تمہارے مذہب کا مطالعہ کروں اور جانوں کہ اس میں ایسی کیا کشش ہے، جو مجھ سے بڑھ کر تھی۔ مگر تم تو جانتی ہو کہ میں کتابوں سے کتنا الرجک تھا۔ کتنے ہی مہینے میں خود کو ٹالتا رہا۔ مگر جب بے چینی حد سے سوا ہوئی تو میں جا کر قرآن پاک لے آیا اور تم یقین نہیں کرو گی، چھتیس گھنٹے بغیر کچھ کھائے پیئے اپنے بیڈ روم میں محصور ہو کر میں نے محض اسے پڑھا۔
’’وہ جیسے سحر کی سی کیفیت میں بول رہا تھا۔ فاطمہ دم بخود اسے سن رہی تھی۔‘‘
’’اور تب میں جانا کہ تم نے مجھے کھو کر کیا پایا ہے۔ اس کے بعد میں نے اسلامک سینٹر جوائن کر لیا چھ ماہ تک وہاں سے احکام شریعت کی تعلیم حاصل کی۔ خود کو تمہارے قابل بنایا۔ میں آنا چاہتا تھا، جب اچانک ڈیڈ کی طبیعت خراب ہو گئی۔ ان پر فالج کا شدید اٹیک ہوا تھا۔ دو ماہ دن رات میں نے ان کی خدمت کی۔ مگر وہ صحت یاب نہ ہو سکے۔ ان کی وفات کے بعد جائیداد میں مما اور ٹومی کو ان کا حصہ دینے کے بعد پہلی فلائٹ سے پاکستان آیا ہوں اور اب …‘‘
’’تم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘ اسی لمحے زریاب نے ایک جھٹکے سے اس کا بازو پکڑتے ہوئے انتہائی درشت لہجے میں استفسار کیا۔ اس کی آنکھوں سے جیسے شرارے نکل رہے تھے۔
فاطمہ اسے یوں غیر متوقع طور پر سامنے دیکھ کر بوکھلا کر رہ گئی۔ اس پر اس کے بگڑے تیور، اسے جیسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنی یہاں موجودگی کا کیا جواز پیش کرے۔
’’ایکسکیوزمی مسٹر۔‘‘ علی نے اٹھ کر اس کا گریبان پکڑ لیا۔
’’علی! یہ میرا شوہر ہے۔‘‘ علی کی گرفت وہیں ڈھیلی پڑ گئی۔ وہ بے یقین نظروں سے فاطمہ کو دیکھنے لگا۔
’’چلو!‘‘ زریاب نے اسے چلنے کا اشارہ کیا۔
وہ مرے مرے قدموں سے اس کے ساتھ چلنے لگی تھی۔ لیکن اس کا سارا دھیان پیچھے کھڑے علی میں اٹکا ہوا تھا۔
جیپ کے قریب پہنچنے تک وہ ایک فیصلہ کر چکی تھی۔
زریاب نے اس کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ مگر وہ بیٹھنے کا ارادہ موقوف کر چکی تھی۔ دور کھڑا علی ابھی تک اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
’’زریاب! مجھے تم سے طلاق چاہیے۔‘‘ اس کے لہجے کی مضبوطی اور اطمینان بھرے انداز نے ایک پل کے لے زریاب کو ساکت کر ڈالا۔ جو بات، وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا، وہ کتنی آسانی سے بول گئی تھی۔
مگر اس کا یہ مطالبہ کسی صورت قابل عمل نہیں تھا۔ ان کے خاندان میں سات پشتوں تک کبھی کسی مرد نے عورت کو طلاق نہیں دی تھی۔
’’میں تمہاری اس حرکت کے لیے تمہیں معاف کر سکتا ہوں۔ مگر طلاق نہیں دے سکتا۔ یہ ایک نا ممکن سی بات ہے۔‘‘ ایک جھٹکے سے اسے گاڑی میں دھکیلتے ہوئے اس نے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔
٭٭٭
’’اتنی اداس کیوں کھڑی ہو؟ لگتا ہے منگنی ٹوٹنے کا کچھ زیادہ ہی ملال ہے ؟‘‘ وہ ٹیرس پہ کھڑی خشک اور بے رنگ درختوں سے سوکھے پتوں کو گرتے دیکھ رہی تھی، جب وہ اچانک اس کے عقب میں آ کر بولا۔ انداز ایسا جی جلانے والا تھا کہ وہ سر تاپا سلگ کر رہ گئی۔
’’دیکھو! بہت برداشت کر چکی ہوں میں اب اگر تم نے ایک بھی فضول اور بے ہودہ بات کی تو تمہارا منہ نوچ لوں گی۔‘‘
’’جہاں تک برداشت کرنے کی بات ہے، وہ تو اب تمام عمر کرنا پڑے گا … اور رہی فضول اور بے ہودہ بکواس تو ان کے کرنے کا تو جلد ہی باقاعدہ سرٹیفکیٹ ملنے والا ہے۔‘‘ اطمینان سے اطلاع دینے کے ساتھ ساتھ اس کی معلومات میں بھی اضافہ کیا گیا تھا۔
’’فاطمہ کہاں ہے ؟‘‘ اس کی بکواس کو سرے سے نظر انداز کرتے ہوئے اس نے متلاشی نظروں سے پورا لان بالکونی اور سیڑھیاں تک کھنگال ڈالیں۔ وہ غائب تھی اور ڈرائیور بھی خالی گاڑی لیے واپس آیا تھا۔
’’وہ جا چکی ہے، تمہیں سلام کہہ رہی تھی اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ زریاب سے میرا نکاح ضرور ہوا تھا مگر ہم آپس میں کسی طرح کا کوئی تعلق نہ جوڑ سکے۔ سو یہ رشتہ کاغذ تک ہی محدود رہا اور اسی پر ختم بھی ہو گیا۔ اب تم سے درخواست ہے کہ زریاب کا بہت خیال رکھنا۔ وہ تم سے بہت پیار کرتا ہے۔‘‘ ایک لائن کے سوا باقی سارے جملے اس کے اپنے تھے۔
گاڑی اسٹارٹ کرنے کے بعد جب اس نے فاطمہ کی آنکھوں سے آنسو گرتے دیکھے تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی رک گیا۔ اس کے دل نے کہا تھا۔
’’زریاب شاہ! کیوں زندگی کو سزا بنا دینا چاہتے ہو۔ تقدیر مہربان ہے اور منزل قریب۔ کشتی اگر بھنور سے نکل کر ساحل پر آ ہی چکی ہے تو پھر کیوں ڈبو دینا چاہتے ہو؟ خود کو بھی اور اپنے سے وابستہ تمام لوگوں کی خوشیوں کو بھی؟ تم وہ کیوں نہیں کرتے جو سیدھا اور آسان ہے ؟ بھلے ہی وہ اعتراف نہ کرے۔ مگر محبت تو تم سے ہی کرتی ہے نا۔‘‘
’’جاؤ فاطمہ! میں نے تمہیں آزاد کیا۔‘‘ اس کی آواز سرگوشی سے بلند نہیں تھی۔
فاطمہ نے بے یقین نظروں سے اسے دیکھا اور پھر بھیگی پلکوں سے مسکراتے ہوئے گاڑی سے اتر گئی۔
جس رہ گزر پر دونوں چل رہے تھے۔ اس کے اختتام پر دونوں کی منزل الگ تھی۔ سوراستے جدا کیونکر نہ ہوتے۔
’’تم نے انہیں جانے کیوں دیا؟ گھر لے کر آتے۔ پھر ہم دھوم دھام سے ان کی شادی …‘‘
’’بس! دوسروں کی شادیوں کا شوق ہے تمہیں … اور جو میں بکواس کر رہا ہوں، اس پہ کان نہ دھرنا۔‘‘ اتنے رومانٹک جملے کے بدلے ایسی فرمائش پر اسے تپ نہ چڑھتی تو کیا ہوتا۔ مگر وہاں جو ذرا پروا ہو۔
’’مجھے نہیں کرنی تم سے شادی۔ کتنی بار انکار کروں ؟‘‘
’’اب کیا اعتراض ہے تمہیں ؟‘‘ وہ کھول ہی تو اٹھا تھا۔
مہک مصنوعی گھبراہٹ کا مظاہرہ کرتی دو قوم پیچھے ہٹی۔
’’ایسے خونخوار انداز میں پرپوز کرو گے تو میں کیا، دنیا کی کوئی بھی لڑکی تم سے شادی نہیں کرے گی۔‘‘ خفگی سے کہتے ہوئے اس نے رخ موڑ لیا۔
’’یہ لو۔‘‘ اس نے سرخ گلابوں کا بکے اور چاکلیٹ اس کی جانب بڑھائیں۔
’’اب بھی انکار کیا تو زبردستی اٹھا کر لے جاؤں گا۔‘‘
’’بہت موٹی ہو چکی ہوں۔ ایسی حرکت سے احتراز ہی کرنا۔‘‘ وہ اس کی دھمکی پر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
’’قسم سے مہک! مجھے تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے اب تم مجھے کبھی نہیں مل سکو گی۔‘‘
’’اپنی وہ الٹی سیدھی تمام تر حرکتیں یاد ہیں تمہیں ؟
’’وہ تو بس تمہیں جیلس کروانا چاہتا تھا۔‘‘
’’اور میں جیلس ہو بھی جاتی۔ اگر فاطمہ میری بہن نہ ہوتی۔‘‘
’’اچھا! اور اگر فاطمہ آج بھی ہمارے درمیان ہوتی تو تم ساری زندگی میرے بغیر کیسے گزارتیں ؟‘‘ زریاب کو اس کا فاطمہ کی حمایت میں بولنا اچھا نہیں لگا تھا۔ وہی تو تھی جس نے دونوں کی ہنستی مسکراتی زندگی سے سارے رنگ چرا لیے تھے۔
’’تمہیں یاد ہے جہاں زیب پھوپھا نے کہا تھا کہ جو چیز ہمارے مقدر میں ہو، وہ ضرور ملتی ہے اور فاطمہ کہا کرتی تھی کہ مقدر میں لکھی چیزیں وقت سے پہلے نہیں ملتیں۔ یونو! تمہارے مقدر میں دو شادیاں لکھی تھی اور مجھے اپنے وقت کا انتظار تھا۔‘‘
’’لیکن پیار ایک ہی بار لکھا تھا اور میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔‘‘ وہ اس کی بڑی بڑی سنہری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔
مہک کے لبوں پہ مسکراہٹ بکھر گئی۔ سچی، شرمیلی اور محبت بھری مسکراہٹ۔
٭٭٭
’’مجھے افسوس ہے کہ میں نے زندگی کے دو سال تمہارے بغیر برباد کر دیے۔ کاش! کہ میں نے اس وقت تمہاری بات مان لی ہوتی۔ جب تم آخری بار مجھ سے ملنے آئی تھیں۔ ’’علی سے اس کا نکاح ہوئے چھ ماہ ہو چکے تھے۔ مگر اسے ان دو سالوں کا غم آج بھی تھا۔
’’تمہارے وہ ماہ و سال ضائع نہیں ہوئے۔ ان دو سالوں نے تمہیں ایک اچھا مسلمان بھی تو بنایا تھا۔ اگر تم تب میری بات مان لیتے تو اتنے اچھے با عمل مسلمان کبھی نہ بنتے اور اب اٹھ جاؤ! اذان ہو چکی ہے۔ یہ ڈائیلاگ آ کر جھاڑ لینا۔ ابھی تو رات باقی ہے۔‘‘ فاطمہ نے بمشکل تمام اسے باہر دھکیلا۔
’’ہاں ! تم سچ کہتی ہو۔ پھر واقعی میں اتنا اچھا با عمل مسلمان کبھی نہ بنتا تو گویا اللہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت یا مصلحت ضرور ہوتی ہے۔ مگر ہم ہی دیر سے سمجھتے ہیں۔‘‘ وہ سوچتے ہوئے چلتا جا رہا تھا۔ اس کا رخ مسجد کی جانب تھا۔
جہاں سے ’’حی علی الفلاح‘‘ کی صدا بلند ہو رہی تھی۔
٭٭٭
تشکر: کتاب ایپ
ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی باز تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں