فہرست مضامین
- قبض زماں
- شمس الرحمٰن فاروقی
- شیخ ابن سکینہ نے فرمایا۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ( قادر ہے کہ اپنے کسی بندے کے لیے زمانے کو پھیلا دے اور وقت کو دراز کر دے،جب کہ وہ دوسروں کے لیے بدستورکوتاہ رہے۔ اسی طرح،اللہ تعالیٰ کبھی قبض زماں فرماتا ہے کہ زمانۂ دراز کوتاہ معلوم ہوتا ہے۔
- عجب پر بہار باغ ہے کہ بہار کو بھی اس بہار پر داغ ہے۔ نخل سر سبز و شاداب، جوبن پر گلاب،نسرین و نسترن بشکل معشوقان پر فن،سرو و شمشاد جس سے قد محبوب کی یاد،رنگ گلہائے چمن شکل عارض محبوب گلبدن۔ ہوائے سرد چل رہی ہے،نشۂ بادۂ محبت سے لڑکھڑاتی ہے،ہر ایک شاخ شجر سے سر ٹکراتی ہے،لیکن دبے پاؤں چل رہی ہے۔ خیال ہے کہ ایسا نہ ہو پاؤں کی دھمک سے گرد اڑے اور عارض گل پر پڑے۔ نہریں بصد آب و تاب جوش زن،بہار پر ہر چمن،جام و صراحی موجود،اپنے رنگ پر ثمر ہائے امرود۔ شراب شبنم سے جام لالہ مملو ہے،اور مشک و عنبر کی اس میں خوشبو ہے۔ قمریاں نخل سرو پر بصد رعنائی و زیبائی بیٹھی ہیں۔ صدائے حق سرہٗ بلند،قلندر مشرب صدائے کو کو سے دردمند۔ صاف ثابت ہوتا ہے کہ کوئی درویش گوشہ نشیں یا ہو!یاہو!کر رہا ہے۔ لباس خاکستری زیب جسم،ہر وقت یاد الٰہی میں مصروف ہے۔ اس کی صدائے حق سرہ’پر ناپائداری دنیا موقوف ہے۔
- (نوشیرواں نامہ،جلد اول،از شیخ تصدق حسین،ص 19)
- شمس الرحمٰن فاروقی
قبض زماں
شمس الرحمٰن فاروقی
شیخ ابن سکینہ نے فرمایا۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ( قادر ہے کہ اپنے کسی بندے کے لیے زمانے کو پھیلا دے اور وقت کو دراز کر دے،جب کہ وہ دوسروں کے لیے بدستورکوتاہ رہے۔ اسی طرح،اللہ تعالیٰ کبھی قبض زماں فرماتا ہے کہ زمانۂ دراز کوتاہ معلوم ہوتا ہے۔
[کنز الکرامات، یعنی مولانا جامی کی نفخات الاُنس سے چند کرامات کا اردو ترجمہ، از: حامد حسن قادری]
میں بستر پر کروٹیں بدل رہا تھا،اس وجہ سے نہیں کہ میرے ذہن میں کوئی خلفشار تھا یا دل میں کوئی خلش تھی۔ کبھی کبھی شام ڈھلتے ہی اور بستر پر جانے کے پہلے احساس ہو جاتا ہے کہ آج کی رات نیند نہ آئے گی۔ مجھے کیفی اعظمی کے مصرعے یاد آئے،لیکن یہ خیال میں نہ آسکا کہ میں نے انھیں کب اور کہاں پڑھا تھا ؎
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
ہم ہندوستانیوں کے لیے گرمی سے بہت زیادہ سردی آزار رساں ہے (کم از میرا تو یہی خیال ہے) لیکن ہم گرم ملک کے رہنے والے،مئی جون کی کٹھور دھوپ میں چٹیل میدانوں میں ننگے پاؤں چلنے والے،ہمیں گرمی۔ ۔ اف گرمی۔ ۔ ۔ لگتا ہے آ سمان سے آگ برس رہی ہے۔ ۔ زمین یوں تپ رہی ہے کہ دانہ ڈالو تو بھن جائے۔ ۔ ۔ وہ دھوپ ہے کہ چیل انڈا چھوڑتی ہے (یہ محاورہ میں نے بچپن میں کہیں پڑھا تھا،اب تو سننے میں بھی نہیں آتا،لیکن اسی وقت سے مجھے خلجان رہتا تھا کہ آخر چیل ہی کیوں ؟اور انڈا چھوڑنے کے کیا معنی ہیں ؟ اگر یہ کہ چیل انڈے پر بیٹھی تھی اور اب اسے انڈے کو سینے کی ضرورت نہیں بھی کہ گرمی کے مارے انڈا خود ہی سے جائے گا،تو پھر بہت سے پرندے ایسے ہوں گے،بچاری چیل ہی کیوں ؟شاید اس لیے کہ چیلیں صرف مئی جون میں انڈا دیتی ہیں ؟مگر یہ بات کچھ دل کو لگتی نہیں۔ اس وقت تو نہیں سمجھ سکا تھا،لیکن ذرا علم لسان کی شد بد ہوئی تو معلوم ہوا کہ زبان یوں ہی الل ٹپ ہوتی ہے۔ لفظ "الل ٹپ” سے اب شاید بہت سے لوگ واقف نہ ہوں، اس لیے اس کا انگریزی ترجمہ arbitrary عرض کیے دیتا ہوں (گویا اس لفظ کے جاننے والے بہت سے ہوں گے)۔ ۔ ۔ بچپن میں ایک بار "الف لیلہ”(اب اس کو کیا کیجیے کہ بہت سے پڑھے لکھے لوگ اسے "الف لیلیٰ”سمجھتے ہیں، یعنی شاید الف ب کی وہ کتاب جسے لیلیٰ پڑھتی تھی)۔ ۔ ۔ خیر میں اسی "الف لیلیٰ ” کی سند باد جہازی والی کہانی فارسی میں پڑھ رہا تھا۔ کہانی یوں شروع ہوتی تھی کہ اس دن اس قدر گرمی اور تپش تھی کہ "جگر حربا می سوخت۔ "بھلا یہ "حربا”کون ہے؟مولوی صاحب نے بتایا کہ اسے اردو میں "گرگٹ” کہتے ہیں (بلکہ ہماری طرف تو اسے "گرگٹان” کہتے تھے،شاید اس لیے کہ اس طرح گرگٹ اور زیادہ زہریلا معلوم ہوتا تھا)۔ اس وقت بھی مجھے یہ فکر لگی تھی کہ آخر بچارا گرگٹان ہی کیوں ؟اور بھی تو ایسے جانور ہوں گے جنھیں گرمی بہت لگتی ہو گی؟ لیکن یہ معما اب تک حل نہ ہوا۔ مجھے زوالوجی(Zoology)پڑھنی چاہیے تھی۔ (آج کل بہت سے لوگ اسے "جولاجی”کہتے ہیں۔ پھر فرق کیا پڑتا ہے؟علم تو وہی ہے۔ )
کیفی صاحب مرحوم کی نظم (اگر یہ نظم ان کی ہے)کے دو مصرعوں نے مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ یہ بہر حال حقیقت تھی کہ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی، اور ہوا بھی کچھ گرم تھی۔ آخر اپریل کی رات تھی،مئی جون نہ سہی،اور میں اپنے آبائی گاؤں کے آبائی مکان کے دروازے پر دور تک پھیلی ہوئی کھلی زمین پر نیم کے نیچے سورہا۔ ۔ ۔ نہیں، بلکہ سونے کی کوشش کر رہا تھا۔ پرانی وضع کا بھاری پلنگ،جسے کئی لوگ مل کر میری خاطر اٹھا کر اندر میری دادی کے کمرے سے لے آئے تھے۔ اس کی نواڑ ابھی اچھی حالت میں تھی،دادی کے زمانے کی دریاں اور چادریں بھی مہیا تھیں۔ دادی کا زمانہ؟اب ان کو غریق رحمت ہوئے چھ دہائیوں سے زیادہ گذر چکی تھیں۔ خاندان کے لڑکے لڑکیاں جواب کم و بیش تمام دنیا میں پھیلے ہوئے تھے،ان کے لیے ساٹھ برس سے بہت کم کی مدت بھی قبل تاریخ کا زمانہ معلوم ہوتی تھی۔ فرینک کرموڈ نے کہیں لکھا ہے کہ آج کل کے طالب علم کے لیے ہر کتاب قبل تاریخ کے زمانے کی ہے اگر وہ پندرہ، یا ا س سے زیادہ برس پہلے لکھی گئی تھی۔
دادی کے زمانے میں ان کے پلنگ،بلکہ سبھی کے پلنگ، کھٹملوں کا صدر مقام تھے۔ تمام رات انھیں کاٹتے گذرتی تھی مگر ہم لوگوں کی رات بے کھٹکے جاتی تھی کیوں کہ ہماری نیندیں ایسی نہ تھیں کہ کوئی کھٹمل، کوئی مچھر،انھیں فتح کر سکے،یا ان کی دیواروں میں ذرا سا رخنہ ہی ڈال دے۔ لیکن میر کاشعر اکثر میرے ایک چچازاد بھائی کی زبان پر اکثر رہتا تھا ؎
آخرش شام سے ہو شب بیدار
کھیلتا ہوں میں کھٹملوں کا شکار
خدا جانے اس پلنگ میں مچھروں کے کتنے شہر،کتنے قلعے،کتنی فصیلیں اب بھی باقی ہوں گی۔ مجھے تو ابھی کچھ خاموشی ہی لگ رہی تھی لیکن اس خاموشی کا کچھ اعتبار نہیں۔ نہ جانے کب، کس طرف سے حملہ کر دیں۔ مجھے یاد آیا کہ امریکہ کے بعض جنوبی شہروں میں ہندوستان پاکستان کے لوگ ٹریفک پولیس والوں کو اسی لیے کھٹمل کہتے ہیں کہ خدا جانے کہاں سے بالکل اچانک بر آمد ہو کر آپ کا پیچھا کرنے لگتے ہیں۔ اور اگر ایک بار وہ آپ کے تعاقب میں لگ گئے تو آپ ان سے بچ نہیں سکتے۔ وہ آپ کا چالان کر ہی کے چھوڑیں گے۔
ہمارے آبائی گھر کے آگے کوئی صدر دروازہ یا چہار دیواری نہ تھی،پتہ نہیں کیوں۔ دور تک بنجر زمینیں، کچھ کھیت اور دو چار پرانے پرانے درخت تھے۔ رات میں باہر سونے والوں کو وسعت، بلکہ غیر دلچسپ لیکن بے پرواوسعت کا احساس ہوتا تھا۔ (یہ بات میں اپنی طرف سے کہہ رہا ہوں، کیونکہ اس وقت بھلا کون دس برس کے بچے پر اپنے تاثرات ظاہر کرتا،اور خود میں کبھی اکیلا کھلے میں سویا نہ تھا۔ )مجھے تو وہ سارا منظر مجھ سے،لہٰذا ہم انسانوں کی زندگی سے بے نیاز لگتا تھا۔ گویا اسے کوئی غرض نہ ہو کہ یہاں کون سو رہا ہے، کون جاگ رہا ہے،کون جلد اٹھنے والا ہے،کون دن چڑھے تک سوتا رہے گا۔ لیکن ذرا ٹھہرئیے۔ اس زمانے میں ہمارے دروازے پرسونے والوں میں کس کی مجال تھی کہ دن چڑھے تک سوتا رہتا؟اور کچھ نہیں تو بدلتی ہوئی ہوا کی بے خوابی،دل شب کے طے ہو جانے کے بعد اس کا بتدریج ہلکا پڑتا ہوا بہاؤ،اس کی بے چین آواز میں کمی، اندھیرے کی آہستہ، بہت آہستہ پسپائی، افق کے دھیرے دھیرے نزدیک آتے چلنے کا احساس،جو شعور کی کسی بہت گہری سطح پر سیاہی کی ٹھوس دیوار کا کسی بہت ہی نامحسوس لیکن یقینی عمل کے اثر سے ملگجے پتوں اور سر کنڈوں کی ڈالیوں کے گھنے اور پھر ہلکے سبز ارتعاش میں بدلتا دکھائی دیتا ہے،یہ سب اور بہت سی باتیں الفاظ جن کا بیان نہیں ہو سکتا،ان کے ہوتے ہوئے کھلے آسمان تلے کشادہ زمین پر سونے والا دن چڑھے تک سو بھی کہاں سکتا تھا؟
اب تو ہمارے بھی شہروں میں آسمان پردہ پوش رہنے لگا ہے۔ اور میں اس جگہ سے آیا تھا جہاں اگر کبھی ستارے دکھائی دے جائیں تو اسے قابل ذکر واقعہ خیال کیا جاتا ہے۔ اور یہاں کا عالم نہ پوچھیے۔ آدھا چاند آسمان پر،نیم کی چھوٹی پتیوں کا جھرمٹ بنائے ہوئے پیڑ کی شاخیں، ہوا ذرا سی بھی سنکتی تو چاند کی ایک آدھ کرن مجھ تک پہنچ ہی جاتی۔ مجھے ناسخ کا شعر یاد آیا ؎
ہجر میں اب کس طرح بے یار جاؤں باغ کو
سارے پتوں کو بنا دیتی ہے خنجر چاندنی
میرے وطن اقامت و اختیاری میں تو ہم لوگ کام کے لیے نکلتے تھے تو روشنی پوری طرح پھیلی نہ ہوتی تھی۔ کسی کو بیس میل جانا تھا،کسی کو پچیس میل،کسی کو اور بھی دور۔ صاحب استطاعت اور ہم لوگوں سے بھی زیادہ کاہل تر لوگوں کے پاس ہیلی کاپٹر تھے۔ وہ ہم لوگوں سے بہت بعد میں نکلتے تو تھے،لیکن لفٹ کے ذریعہ چھت پر جا نے کے پہلے وہ اپنی خواب گاہوں یا طعام خانوں میں ہوتے۔ چاند انھیں بھی نہ دکھائی دیتا۔ اور واپسی تک تو سب کے لیے شام اچھی طرح پھول ہی چکی ہوتی تھی۔ سب لوگ اوپر کی فضا سے بے خبر (بشرطیکہ کہیں آندھی نہ آئی ہو)اپنی اپنی محفوظ دنیاؤں میں واپس چلے جاتے تھے۔
"زندہ غنودگی”،مجھے رابرٹ لوئیس اسٹیونسن(Robert Louis Stevenson)کی بات یاد آئی۔ فرانس کے نیم کوہستانی علاقوں میں تنہا گھومتے پھرنے اور جگہ جگہ کا ذائقہ چکھنے کے بعد (جس میں کھلے آسمان کے نیچے کئی راتیں گذارنے کا مزا بھی شامل تھا)اس نے ایک سفر نامہ نما چھوٹی سی کتاب لکھی۔ اس میں کھلے میں رات گذارنے کا بیان ایک جگہ لکھا ہے اور ایسالکھ دیا ہے کہ میں سو برس بھی کوشش کروں تو نہیں لکھ سکتا۔ اسی میں یہ فقرہ Living slumber (زندہ غنودگی) بھی ہے۔ مگر میں کہاں کا شاعر یا افسانہ نگار کہ اسٹیونسن یا کسی اور کی طرح لکھنے کا ارمان رکھوں۔ مسعود حسن رضوی ادیب صاحب مرحوم نے لکھا ہے کہ انھوں نے اسٹیونسن کا اثر قبول کیا ہے۔ بے شک۔ ان کی نثر ایسی شستہ اور سجل اور رواں ہے کہ بس پڑھتے جائیے۔
نیند تو مجھے بہر حال نہ آ رہی تھی۔ مجھے یاد آیا کہ ہمارے گھر کے سامنے کچھ فاصلے پر،یعنی سبحان اللہ دادا کے مکان کے پیچھے ایک بڑا چھتنار اور جسیم درخت تھا۔ یہ یاد نہیں کہ کاہے کا پیڑ تھا،بس راتوں کوایسا لگتا تھا کہ وہ درخت کچھ نزدیک آگیا ہے۔ ہم لوگوں میں مشہور تھا کہ اس پیڑ پر ایک برم رہتا ہے جو ہر آنے جانے والے کو،اور خاص کر آٹھ دس برس کی عمر کے لڑکوں کو للچائی ہوئی نظر سے دیکھتا رہتا ہے۔ تو وہ کیا چاہتا ہے؟اس بات کا جواب کسی کے پاس نہ تھا۔ الگ الگ قیاس آرائیاں تھیں۔ کوئی کہتا وہ جس کو پکڑ لے اسے بھی اپنی طرح کا برم بنا لے گا۔ اور اسی لیے اسے لڑکوں کی زیادہ ہوس تھی کہ وہ آسانی سے برم بن جائیں گے۔ کوئی کہتا،نہیں، اس کے بدن پر کھا ل اور ہڈیاں ہیں، اور کچھ نہیں ہے۔ اس کا منصوبہ ہمیشہ یہی رہتا ہے کہ کسی کو پکڑ پائے تو اس کا گوشت اپنے بدن پر چڑھا لے۔ لڑکوں کو پسند کرنے کا منشا یہی تھا کہ ان کا گوشت نرم ہوتا ہے۔ ایک لڑکا کہتا تھا کہ نہیں، وہ برم کسی وجہ سے اس درخت میں قید ہے۔ اسے کسی انسان کی ضرورت اس لیے ہے کہ وہ راتوں کو اس پر سوار ہو کر دور دور کے گاؤں جا کر مویشیوں اور انسانوں کا خون کر سکتا تھا۔ سنا گیا کہ ایک بار برم نے ایک نوجوان کسان کو پکڑ ہی لیا تھا۔ اس نے کہا کہ تو میری راتوں کی سواری بن جائے تومیں تجھے گھوڑے کی طرح طاقتور بنا دوں گا۔ دن بھر اپنی کھیتی کسانی آسانی سے کرتے رہیو۔ کسی جھگڑے لڑائی میں بھی کوئی تجھ پر قابو نہ پاسکے گا۔ وہ کسان اس کے چنگل سے چھوٹا کیسے،یہ بات کسی کو نہ معلوم تھی۔ شاید ہمارے دادا نے اسے کوئی تعویذ پہنا دیا تھا کہ ایسے ہی کسی سنکٹ میں کام آئے۔
سنا ہے بہت دن پہلے ہمارے دادا کا ایک کارندہ راتوں کو کھلیان کی حفاظت پر مامور تھا۔ ایک دن وہ ٹھٹھرتا، کانپتا آیا، جیسے اسے جاڑا دے کر بخار چڑھا ہو۔ اس نے دادا سے کہا کہ مولوی جی، میں اب کھلیان کی رکھوالی نہ کروں گا۔ سامنے والے پیڑ میں ایک بیتال آگیا ہے۔ وہ مجھے رات بھر دانت دکھا دکھا کر خوخیاتا رہا اور کہتا رہا کہ کل تجھے نہ چھوڑوں گا۔ دادا نے اس کی پیٹھ ٹھونکی اور ایک تعویذاسے لکھ دیا اور کہا کہ لے اسے گلے میں پہن لے۔ جا،اب وہ بیتال تیرا کچھ نہ بگاڑے گا۔ اور ایساہی ہوا۔ ہمارے ایک بڑی عمر کے چچا زاد بھائی قسم کھا کر کہتے تھے کہ دادا نے تعویذ میں بھوجپوری زبان میں یہ لکھا تھا کہ دیکھو جی، یہ آدمی ہمارا رکھوالا ہے۔ کوئی اس سے ہرگز کچھ تعرض نہ کرے۔
واللہ اعلم یہ بیان سچا ہے کہ جھوٹا،لیکن مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں گھر کے سامنے کا برم والا پیڑ رات کو کچھ نزدیک اس لیے لگتا تھا کہ وہ برم اسی پیڑ کو اپنی سواری بنا ڈالنے کی کوشش میں اسے کچھ آگے پیچھے کرتا رہتا تھا۔
آج رات وہ گھنا کالا پہاڑ جیسا پیڑ مجھے دکھائی نہ دیتا تھا۔ سامنے سبحان اللہ دادا کا گھر سہ منزلہ ہو گیا تھا اور پیچھے کی تمام وسعتیں، تمام شجر حجر کی آبادیاں نظر سے اوجھل ہو گئی تھیں۔ صبح اگر میں بچ رہا تو دن کی چمکتی نیلی دھوپ میں جا کر اس پیڑ کو ضرور دیکھوں گا۔
بچ رہا؟ کیا مطلب؟کیا میں خرچ ہو رہا ہوں، یا گھٹتا جا رہا ہوں کہ بچ رہنے کی بات میرے ذہن میں آئی؟میں تو بس کل بھر کے لیے یہاں ہوں۔ شاید میں کہنا چاہ رہا تھا "ٹھہر گیا” اور کسی وجہ سے،شاید نیند کے کسی جھونکے میں "بچ رہا”کہہ گیا تھا۔ یہاں کوئی ڈر کی بات تو ہے نہیں۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ بچپن میں ان سب بھوت،بیتال،برم،چڑیل وغیرہ کی باتوں سے ہمیں (یا کم سے کم مجھے) موت کا خوف نہ آتا تھا۔ وہ خوف تو عجب طرح کا تھا،کسی جنس غیر کے قبضے میں چلے جانے کا، گرفتار ہو جانے کا خوف،انجانی شے کا خوف۔ موت ان میں سے کسی مد حساب میں نہ تھی۔ بے شک ہم لوگوں نے سنسان یا اجنبی گھروں کے آسیب زدہ ہونے کے بارے میں کئی ڈراؤنی کہانیاں پڑھی تھیں اور ان میں سے اکثر کا انجام کسی نڈر شخص کی موت پر ہوتا تھا،لیکن اپنے اصلی اور حقیقی بھوتوں پریتوں سے ہمیں موت کا ڈر نہ تھا۔
مثلاً ایک قصہ جو میں نے پڑھا تھا، وہ اس طرح تھا کہ ایک شخص کسی اجنبی جگہ مہمان اترتا ہے،اور اسے رات رہنے کے لیے جو کمرہ دیا جاتا ہے وہ اسے ناپسند کر کے بخیال خود ایک زیادہ پر فضا کمرہ اختیار کرتا ہے، در حالے کہ میزبان اسے متنبہ کرتا ہے کہ اس کمرے میں کوئی آسیب ہے۔ خیر،وہ مہمان ہنسی خوشی اس کمرے میں شب باشی کے لیے جا کر کمرہ اندر سے بند کر لیتا ہے۔ جب دن چڑ ھ آنے کے بہت دیر بعد تک دروازہ نہیں کھلتا اور نہ دروازہ کھٹکھٹانے کا کوئی نتیجہ نکلتا ہے تو دروازہ توڑ کر لوگ اندر داخل ہوتے ہیں۔ مہمان وہاں موجود تو ہے،لیکن وہ گھٹنوں کے بل ہے، اس کے دونوں ہاتھ آگے بڑھے ہوئے ہیں، گویا وہ کسی چیز کو روکنا یا پیچھے دھکیلنا چاہتا ہے۔ یا کسی چیز سے منت کر رہا ہے کہ اور آگے نہ آؤ۔ اس کی آنکھیں بند ہیں لیکن چہرہ وفور خوف سے ٹیڑھا ہو رہا ہے۔ میزبان اسے جلد از جلد اسپتال لے جاتا ہے لیکن راستے ہی میں مہمان کی موت ہو جاتی ہے۔
اس طرح کی خرافات سے ہم لوگوں کا دماغ ان دنوں کسی بھوت بنگلہ جیسی چیز سے کم نہ تھا۔ اب میں خیال کرتا ہوں تو زیادہ خوف (کم از کم مجھے)جنون کا تھا،کہ ایسی باتیں مجھ پر گذریں تو میں ہوش حواس کھو کر پاگل یا مجذوب ہو جاؤں گا۔ مجھے سڑک پر گھومنے والے پاگل یا فاتر العقل لوگوں اور شراب کے نشے میں چور لوگوں سے بہت ڈر لگتا تھا۔ ہمارے شہر میں ایک عورت سڑکوں پر آوارہ پھرتی تھی،خدا معلوم بوڑھی تھی کہ ادھیڑ،لیکن اس کے سر پر تھوڑے بہت بال جو تھے وہ سیاہ تھے۔ ایک گندہ،کچیلا سا کرتا اور ویسا ہی آڑا پاجامہ اس کا لباس تھے۔ وہ پان بے انتہا کھاتی، اس کے منھ سے پان کی پیک مسلسل ٹپکتی رہتی تھی اور اس کا گریبان دور تک بالکل سرخ رہتا تھا۔ ایک بار میں اپنے خیالوں میں گم (اس وقت میں کوئی دس برس کا تھا لیکن خیالوں میں گم رہ کر راستہ چلنا میری عادت تھی۔ اس زمانے میں سڑکوں پر صرف پیدل راہگیر،یا سائیکل سوار،یا اکا دکا رکشے اور یکے ہوتے تھے)کہیں سے چلا آ رہا تھا کہ گھر کے پاس ہی اچانک کسی چیز سے ٹکرا گیا۔ چونک کر اوپر دیکھا تو وہی مجنونہ تھی۔ بظاہر اس پر اس بات کا کوئی اثر نہ تھا کہ میں اس سے ٹکرا گیا تھا۔ وہ مجھے بالکل خالی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی لیکن راستہ اس نے پھر بھی نہ چھوڑا تھا۔ میرے منھ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی اور اس کا راستہ کاٹ کر اندھا دھند گھر کو بھاگا۔
میں بھی کس قدر بچکانہ مزاج کا شخص ہوں۔ اتنی عمر ہونے کو آئی لیکن چھ ساڑھے چھ دہائی پہلے کی وہ سب باتیں کہیں نہ کہیں دل میں کھبی ہوئی ہیں۔ وہ اتنی دور بھی نہیں ہیں کہ ان کو کھنچ کر ہوش کی سطح پر آ جانے میں کچھ دیر لگے،یا سوچنا اور خود کو کھنگالنا پڑے۔ ایک زمانے میں مجھے بھوت پریت،مافوق العادت یا مافوق الفطر ت باتوں اور واقعات،خوف اور گھناؤنے پن والے واقعات (مثلاً آدم خوری)پر مبنی افسانے پڑھنے کی بہت چیٹک تھی۔ اب بھی میرے پاس ایسے افسانوں کے مجموعوں اور ناولوں کا بڑا ذخیرہ ہے،اگرچہ ایک بار میں نے جگہ کی تنگی کے باعث ایسی بہت ساری کتابوں کو دے ڈالیں (جس کا اب تک مجھے افسوس ہے)پھر بھی، اس وقت میرے پاس اچھی خاصی لائبریری باقی رہ گئی جس میں وقتاً فوقتاً اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔
مجھے نیند تو آ رہی ہے،لیکن بہت ہی ہلکی سی۔ شاید یہ نیند نہیں ہے،میرا تھکا ہوا ذہن ہے۔ انگریز شاعر ٹامس لَو پیکاک(Thomas Love Peacock)کی بہت سی نظمیں بھوتوں کے بارے میں ہیں۔ (Peacock)،بھلا یہ بھی کوئی نام ہوا،مگر انگریزوں میں ایسے، بلکہ ان سے بھی بڑھ کر عجیب نام ہوتے ہیں۔ ایک اور شاعر صاحب کا نام تھا John Drinkwater،اور LongاورShort نام تو اب بھی بہت سننے میں آتے ہیں۔ بلیک(Black, Blake)، وائٹ(White, Wight) گرے(Gray, Grey)،ڈارک(Dark)،گرین(Green, Greene)،یہ نام بھی شاذ نہیں ہیں۔ ٹائگر(Tiger) اور اسنیک (Snake)میں نے نہیں دیکھے،لیکن اٹھارویں صدی کے مشہور ڈراما نگار Sheridanکے سب سے کامیاب ڈرامے میں ایک کردار اسنیک (Snake) نام کا ہے،مگر خیر وہ تو طنزیہ مزاحیہ طور پر ایجاد کردہ نام تھا۔ لیجیے میں تو ناموں کی کھتونی لے کر بیٹھ گیا (یا پڑ گیا)۔
تو پیکاک صاحب کی جو نظم مجھے بہت پسند تھی، افسوس کہ اب مجھے اس کے دو ہی تین مصرعے یاد ہیں۔ نظم میں ایک بھوت ہے جو ایک حسینہ پر عاشق ہے۔ وہ ہر رات اس کے سرہانے آ کر ایک گیت گاتا ہے کہ”مر جا، ارے مر جا۔ ” نظم کا اختتام یاد نہیں، لیکن شروع کے چند مصرعے یاد ہیں:
A ghost that loved a lady fair,
Soft by midnight at her pillow stood,
Ever singing, "Die, Oh Die”
اس وقت،بلکہ آج بھی جو بات مجھے اس نظم میں سب سے حیرت ناک لگتی ہے، وہ یہ نہیں کہ کوئی بھوت کسی لڑکی پر عاشق ہو جائے۔ ہمارے یہاں تو عورتوں پر آسیب،شیخ سدو،جن،پری،آتے ہی رہتے ہیں۔ (حضرت غوثی علی شاہ صاحب کے یہاں لوگ ایسے معاملات میں تعویذ مانگنے آتے تھے۔ آپ تعویذ دے تو دیتے،لیکن اکثر فرماتے کہ انگریز کی عورتوں پر کوئی جن یا آسیب کیوں نہیں آتا؟انگریز کا اقبال بلند ہے اس لیے اس کی عورتیں بھی محفوظ ہیں۔ بات تو مزے دار ہے،لیکن میرے خیال میں اصل معاملہ عقیدے کا ہے۔ انگریز کو جن اور پری اور شیخ سدو وغیرہ پر نہیں، لیکن بھوت اور روح پر عقیدہ ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ ان کا اثر عورتوں یا مردوں پر نہیں بلکہ گھروں پر ہوتا ہے۔ ہمارا عقیدہ، اسلامی عقیدے کے مطابق،بھوت پریت پر نہیں، لیکن جنات،پری وغیرہ پر ہے۔ )
میرے لیے پیکاک صاحب کی نظم میں اصل حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس بھوت کو پورا یقین تھا کہ اس کی معشوقہ مر کر بھوت(یا بھوتنی؟)ہی بنے گی۔ واللہ اعلم۔ ان کی ایک نظم اور تھی جس میں دو بھوتوں کی ملاقات ہوتی ہے تو ایک پوچھتا ہے،کہو کیا حال ہے؟دوسرا کہتا ہے،پتہ نہیں جی،میں تو کل ہی مرا ہوں۔ اردو میں یہ معاملہ اضحوکہ لگتا ہے،لیکن انگریز شاعر نے خفیف سے مزاح کے ساتھ خوف یا سنسنی کی تھرتھری بھی رکھ دی تھی(شاید اس لیے کہ انگریز قوم کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان بھی بھوتوں پر اعتقاد رکھتی ہے)۔
ابھی صبح نہیں ہونے والی۔ ہمارے گھر کے پیچھے ایک خاصا بڑا تالاب تھا جسے لوگ "گڑھی” کہتے تھے۔ اب مجھے خیال آتا ہے کہ "گڑھا”کی تانیث کے اعتبار سے تو "گڑھی” بمعنی "بہت چھوٹا گڑھا "ہونا چاہیے تھا۔ اتنے بڑے تالاب کو "گڑھی” کہنا چہ معنی دارد؟لیکن میری مرحومہ جنت نشین بھی اپنے آبائی تالاب کو،جس میں مچھلیاں وافر ہوتی تھیں، "گڑھیا” کہتی تھیں۔ زبان کے کھیل نرالے ہیں۔ بہرحال، ہماری گڑھی میں مچھلیاں نہیں، لیکن جونکیں، گھونگھے،اور پانی کے چیونٹے بے شمار تھے۔ یہ پانی کے چیونٹے بھی خوب تھے،نہایت دبلے پتلے،بالکل جیسے وہ تنگ اور پتلی اور لمبی،ہلکی بادبانی کشتیاں جنھیں Pinnacle کہتے ہیں، یا جیسے کشمیری شکارے،بے حد ہلکے پھلکے۔ سیاہ بھورا رنگ،جسےSteel Greyکہیے،اور اس قدر لمبی لمبی ٹانگیں جیسے وہ سرکس کے جوکروں کی طر ح پاؤں میں بانس باندھے ہوئے ہوں۔ وہ پانی کی سطح پر اس قدر تیز دوڑتے جیسے دوڑ کے میدان میں گرے ہاؤنڈ کتے دوڑتے ہیں۔ مجھے اب یہ تو نہیں یاد کہ وہ کتنی دور تک دوڑتے نکل جاتے تھے(گڑھی خاصی چوڑی تھی،یا مجھے وہ چوڑی لگتی تھی۔ )مجھے یاد نہیں کہ کوئی چیونٹا کبھی اس پار سے اس پار پہنچتا ہوا دکھائی دیا ہو۔ لیکن وہ جانور بالکل ننھے منے اور ہلکے پھلکے تھے اور گڑھی کا پانی بھی کچھ بہت روشن نہ تھا،اس لیے اگر وہ اس پار نکل بھی گئے ہوتے تو مجھے نظر نہ آسکتا تھا کہ وہ اس کنارے پر پہنچ ہی گئے ہیں۔ لیکن جہاں تک مجھے یاد آتا ہے ان کی دوڑ یہی کوئی دو ڈھائی فٹ کی ہوتی تھے اور مجھے ایک چھوٹے سے آبی منطقے میں دوڑتے بھاگتے نظر آتے تھے، اپنے تئیں ایک عجب اہمیت کا احساس اور خود نگری کا رنگ لیے ہوئے،گویا وہ سارا پانی انھیں کے لیے بنا یا گیا تھا۔ اکثر میں دیکھتا کہ وہ ایک طرف دوڑتے ہوئے گئے،پھر دفعۃً کنی کاٹ کر کسی اور طرف نکل گئے۔ چراگاہوں میں کلیلیاں کرتے ہوئے آہو بچوں اور الل بچھیروں کی طرح انھیں ایک دم قرار نہ تھا۔
اپنی دوڑ میں منہمک چیونٹوں کو کبھی کبھی میں فرض کرتا کہ وہ جنگی جہاز ہیں اور جنگی تیاریوں میں مشغول، یاسمندر پار کرنے والے ہلکے جہاز ہیں جنھیں کچھ گنے چنے مسافروں کو لے آنا اور واپس لے جانا ہو گا۔ ایسے مفروضے میں جہاز رانی اور مہم جوئی اور جوکھموں کو ہنستے کھیلتے انگیز کر لینے کا بھی سنسنی آمیز احساس بھی شامل ہو جاتا تھا۔ چونکہ میں نے انھیں کبھی ڈوبتے نہ دیکھا تھا،اس لیے مجھے یقین تھا کہ وہ بڑے ماہر جہازی ہیں، سند باد جہازی کی طرح نہیں ہیں کہ جس کا جہاز آئے دن طوفانی ہو جایا کرتا تھا۔
گھونگھے وہاں بہت تھے،گول، لمبے، ٹیڑھے بدنوں والے،جیسے کسی سادھو کے سر پر لپیٹی ہوئی لمبی جٹائیں۔ مجھے کبھی ان سے دلچسپی نہ ہوئی۔ کہاں وہ میرے جری اور خوبصورت اور صبا رفتار چیونٹے اور کہاں یہ بھونڈے، بھدیسل، ایک جگہ پڑے رہنے والے گھونگھے۔ کبھی کبھی میرا ہاتھ لگ جاتا تو بڑے چپچپے اور گیلے معلوم ہوتے۔ (نہیں، ان میں سے کچھ خشک بھی ہوتے تھے۔ )آخر وہ تھے ہی کس مصرف کے؟پانی میں رہنے والے(ایسا میرا خیال تھا)لیکن پانی پر تیرنے سے کترانے والے۔ دریا کے کنارے وہ لمبوترے، ہلکے پھلکے اور سفید گلابی رنگ کے گھونگھے اور ہی چیز تھے جن کے درشن مجھے بہت ہی کم ہوتے تھے کیوں کہ ہمیں دریا پر جانے کی سخت ممانعت تھی۔ اور ان دریائی گھونگھوں کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ مردہ ہوتے تھے،لہٰذا ان سے کوئی خطرہ،یا کسی چپچپاہٹ، کسی گھن کے احساس کا خطرہ نہ تھا۔
جونکیں تو میں نے شاید وہاں دیکھیں نہیں، لیکن گول،مندر نما گھونگھوں کے نیچے سے دو لمبی، سرخ، مٹ میلی بھوری پتلی زبانیں سی کبھی کبھی نکل آتی تھیں۔ میرے گاؤں والے ساتھی مجھے خبردار کرتے تھے کہ انھیں کبھی ہاتھ نہ لگانا،کیوں کہ یہ بھی جونک کی طرح خون نکال لیتی ہیں، سرپت کی تیز پتی کی طرح یا چھوٹے سے دھار دار چاقو کے پھل کی طرح یہ تمہارے بازوؤں یا ہاتھ پر لمبی سی خونی لکیر چھوڑ جائیں گی۔ اب مجھے خیال آتا ہے کہ یہ سب بچوں کا جھوٹا خوف یا شرارت بھرا ڈھونگ تھا،کیوں کہ اب مجھے معلوم ہے کہ وہ لمبی سی دھاگے سے چیزیں در اصل گھونگھے کے پاؤں ہیں۔
اس گڑھی کے کنارے،ہمارے مکان کے پچھواڑے کی طرف،اور اتنا نزدیک کہ میں راتوں کو اس کی(دن کو) چمکیلی (رات کو)سیاہ پتیوں میں ہوا کو غل مچاتے،لمبی لمبی سانسیں بھرتے، بند کمرے میں اپنے پلنگ پر سے گذرتے سنتا اور محسوس کرتا تھا۔ وہ راتیں میرے لیے بڑی قیامت کی ہوتی تھیں۔ میری ماں تو دادی کے گھر میں دوسری بہوؤں کے ساتھ کھانا پکانے،کھلانے،اور کھانے میں لگی رہتیں۔ اور میرے باپ رات کی نماز (شاید عشا،شاید مغرب)کے بعد دادا کی محفل میں دیر تک بیٹھے رہتے۔ خدا معلوم کیا کیا باتیں کرتے ہوں گے۔ لڑائی کے دن تھے (میرا خیال ہے وہ سال 1943یا 1944رہا ہو گا)، اس لیے لڑائی میں انگریزوں کی فتح یا پسپائی کے چرچے ضرور ہوتے ہوں گے،اور چونکہ سارا گھرانہ بہت مذہبی تھا،اس لیے اللہ رسول کی باتیں بھی ہوتی ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ سب لوگ مجھے اپنے باپ کے گھر میں پوری طرح محفوظ اور گہری نیند میں ہر خوف اور ہر وجود سے بے خبر سمجھتے ہو ں گے۔ گھر،جس کے ایک سرے پر،گڑھی کی پرلی طرف ایک سنسان بیت الخلا تھا جسے کوئی استعمال نہ کرتا تھا،لیکن وہ بند بھی نہ رہتا تھا، مگر گڑھی کی جانب اس میں کوئی کھڑکی یا دروازہ نہ تھا،لہٰذا اسے ہر طرح محفوظ سمجھاجاتا تھا۔ چاروں طرف اونچی دیوار بھی تھی،خاص کر پیپل کے درخت اور گڑھی کے رخ پر،اور جس کا دروازہ شاید کھلا رہتا ہو گا،لیکن اس گھر کی جائے وقوع ایسی تھی کہ دروازے پر آنے والا کئی لوگوں کی نگاہ میں رہتا(یا کم سے میرے باپ ماں کا یہی خیال رہا ہو گا)۔ ایسی صورت میں آٹھ نو سال کے سمجھ دار،اسکول جانے والے اور انگریزی پڑھنے والے لڑکے کے لیے کسی خوف کی بات واقع ہونے کا امکان ہی کہاں تھا؟
لیکن آہ،میرے والدین کو کیا معلوم تھا کہ وہی پیپل کا درخت جو دن کو انتہائی دوستدار اور خوشگوار اور ہریالا سایہ دار پڑوسی تھا،شام پھولتے ہی دشمن، اور مجھ سے خدا جانے کس قصور کا بدلہ لینے یا خدا جانے کب کی دشمنی نکالنے پر آمادہ، خون خشک کر دینے والا آسیبی وجود بن جاتا تھا۔ اور وہ ہوائیں، جنھیں وہ بار بار مجھے دھمکانے کے لیے میرے سر کے اوپر، میری چھت کے اوپر،سرپٹ دوڑنے والے گھوڑے کی طرح دوڑاتا تھا۔ اور کیا رات کے وقت وہ سارے گھونگھے اور وہ میرے دوست چیونٹے،اور شاید پانی کی تہ میں خفیہ زندگیاں گذارنے والی مخلوق،سب اس پیپل پر چڑھ کر چڑیل اور جنات بن جاتے تھے؟یا شاید وہ پیپل کا گھنا،لمبا،گرانڈیل پیڑ ہی کوئی جنات بن جاتا تھا؟یا ہواؤں کے شور کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی چڑیل،کوئی برم، کوئی پشاچ،چپ چاپ پیپل سے اتر کر مجھ کو دبوچنے ہی والا ہے؟
خدا جانے پیپل کے پیڑ میں اتنی قوت کہاں سے آتی تھی۔ آج بھی اس قوت کا مظاہرہ میں اس طرح دیکھتا ہوں کہ شہر میں جہاں اب میں رہتا ہوں، ایک پیپل وہاں سے کم سے کم ایک ڈیڑھ میل کی دوری پر سڑک کے اس پار کھڑا ہے۔ وہاں کئی درخت اور بھی ہیں، جیسے کہ سڑکوں پر ہوتے ہیں۔ آندھی تو ایک طرف،تیز ہوا بھی شہر کے اس حصے میں کبھی کبھی ہی بہتی ہے۔ لیکن میرے گھر کی کوئی دیوار،لان کا کوئی گوشہ،اندرونی آنگن کا کوئی بھی حصہ ایسا نہیں جہاں پیپل کے پودے تکلیف دہ اور پریشان کن تواتر سے نہ اگ آتے ہوں۔ ہزار بار اکھڑواتا ہوں، سینکڑوں بار خود نوچ کر پھینکتا ہوں، لیکن توبہ کیجیے،وہ کہاں ہار مانتے ہیں۔ میں ہار مانتے مانتے رہ جاتا ہوں۔ جانتا ہوں کہ ان پودوں کو اگر بڑھنے دیا گیا تو یہ موذی دیوار، چھت، سب کو توڑ پھوڑ ڈالیں گے۔ اس لیے ہر مہینے دو مہینے مالی کو تاکید کرتا ہوں، دوسروں کی ہمت افزائی کرتا ہوں کہ بھائی انھیں ٹھہرنے مت دینا۔ مگر وہ پھر آ جاتے ہیں۔ پیپل نہ ہوا،ایڈگر ایلن پو(Edgar Allen Poe)کی نظم The Ravenکا وہ کچھ شیطانی ساپربت کاگ ہو جسے نظم کا متکلم ہزار کوشش اور ترغیب کے باوجود اپنی کھڑکی،بلکہ یوں کہیں کہ اپنے سینے سے ہٹا نہ سکا تھا۔
ہر رات میری اور پیپل کے چھتنار، دشمن،بھوت جیسے سیاہ فام، غیر انسانی وجود اورپچاسوں ریل گاڑیوں کے ایک ساتھ کسی پل پر گذرنے کے شورجیسا ہنگامہ کرنے والی ہواؤں سے جنگ ہوتی۔ اور ہر صبح کو وہ پیپل وہی پہلے جیسا سایہ دار، ٹھنڈا، اور ہلکی شیرینی لیے ہوئے گول گول چھوٹے چھوٹے پھلوں والا گھر بن جاتا۔ نہ جانے کتنی دوپہریں اپنے والدین کی آنکھ بچا کر وہاں میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پیپل کی گوندنیاں چننے اور مزے لے لے کر کھانے میں گذاری ہیں۔ ایک بار میرے ایک ساتھی نے غلطی سے بکری کی ایک مینگنی بھی گوندنی سمجھ کر منھ میں ڈال لی تھی(میں آپ کو یقین دلاتا ہوں وہ میں نہیں تھا)۔ یہ واقعہ ہم لوگوں کے لیے تھوڑی بہت تفریح کا سبب بنا ضرور تھا،لیکن ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ اس کی خبر ہمارے بڑوں کو لگ گئی تو بڑی ڈانٹ (اور اغلب یہ کہ مار بھی)پڑے گی،اس لیے ہم لوگوں نے بہت جلد ہی اس موضوع کو اپنی گفتگو سے خارج کر دیا۔
آج خدا جانے کتنی مدت بعد میں گاؤں واپس آیا ہوں۔ کل مجھے دادا کی زمین پر نو تعمیر اسکول کا افتتاح کرنا ہے۔ دادا کے دروازے پر نیم کا پیڑ،جس کے نیچے خاندان کے لوگوں کے ساتھ گاؤں کا ہر اجنبی مسافر کھانا کھاتا تھا،اب نہیں ہے۔ جس درخت کے سائے میں اس وقت میں لیٹا ہوا سونے کی کوشش کر رہا ہوں، اس کی عمر بمشکل تیس چالیس برس ہو گی۔ وہ گڑھی اور وہ پیپل تو اس طرح صفحۂ وجود سے محو ہو چکے ہیں گویا کبھی تھے ہی نہیں۔ ہم تو جیسے یہاں کے تھے ہی نہیں خاک تھے آسماں کے تھے ہی نہیں جون ایلیا نے ہجرت کے پس منظر میں کہا تھا۔ ان بچاروں کو کیا معلوم کہ ہم لوگ جو یہیں کے تھے اور کہیں نہ گئے،ہم لوگوں کا سارا بچپن، سارا لڑکپن، تمام اٹھتی ہوئی جوانیاں، تمام دوستیاں اور رقابتیں ان اشجار کے ساتھ گئیں جو کٹ گئے،ان تال تلیوں کے ساتھ ڈوب گئیں جو سوکھ گئے،ان راہوں سے اٹھا لی گئیں جن پر گھر بن گئے۔ اے تو جو شہر کے باہر کھڑا اس طرح بے تحاشا رو رہا ہے،بول تو نے اپنی جوانی کے ساتھ کیا کیا؟مجھے ورلن کے مصرعے یاد آئے۔ لیکن میں نے تو کچھ کر کے دکھا دیا ہے،میں آج دور شہر سے بلایا گیا ہوں کہ اسکول کی عمارت کا افتتاح کروں۔ میں تو اب کچھ خاصا اہم آدمی ہوں، وہ چھوٹا سا لڑکا نہیں جو دل ہی دل میں اپنے باپ سے ناراض رہتا تھا کہ رات کے کھانے کے بعد مجھے آم اور خربوزوں میں سے اتنا حصہ کیوں نہیں ملتا جتنا میں چاہتا ہوں ؟ لیکن اس گلی سے کسی نے نہ کہا تھا کہ جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں۔ میں تو یہیں کا تھا،یا شاید نہیں تھا۔ بھلا کون اپنے دل میں اورسر پر ان بھوت پریتوں، چڑیلوں، جناتوں، تیز چل کر ڈراتی ہوئی ہواؤں اور بھیانک مسکراہٹ مسکرا کر دور سے اشارہ کر کے بلانے والی بلاؤں کا پیلا، گندہ، سیاہ خون لیے لیے پھر سکتا تھا؟
مگر وہ دنیا ہر طرف متحیر کرنے والی،ہر طرح سے جرأتوں کو آواز دینے والی،ہر لمحہ وسعتوں اور گہرائیوں کا احسا س دلانے والی دنیا تھی۔ جس بیت الخلا کا ذکر میں نے ابھی کیا(خدا جانے کیوں ہم لوگ بھی اسے بیت الخلا کہتے تھے،پاخانہ نہیں )،اس کے بارے میں مشہور تھا کہ اگر کوئی چالیس دن تک متواتر اس میں جا کر "سلام علیکم” کہے تو اکتالیسویں دن اس کی ملاقات ایک جنات سے ہو جائے گی جو وہیں رہتا ہے۔ میں نے سنا تھا کہ ایک بار ایک صاحب نے چالیس دن تک "سلام علیکم”وہاں جا کر کہا تو اکتالیسویں دن واقعی ایک شخص انھیں نظر آیا، جو تھا تو انسانوں جیسا،لیکن اس کا قد آسمان کو چھوتا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ بیت الخلا کی چھت بہت اونچی نہ تھی،لیکن اس وقت اتنی اونچی، اتنی اونچی ہو گئی تھی کہ ٹھیک سے نظر نہ آتی تھی۔ "وعلیکم السلام” ایک بڑی گونجتی ہوئی سی آواز آئی،جیسے بہت بڑا نقارہ بج اٹھا ہو،یا جیسے کوئی بہت بڑا،بہت ہی بڑا سانڈ ڈکار رہا ہو۔
اس کے بعد کیا ہوا،یہ بتانے والا کو ئی نہ تھا۔ لیکن وہ پیپل اب پھر میرے سامنے ہے۔ ۔ ۔ نہیں، پیپل نہیں، لگتا ہے کوئی شخص کہیں بلندی سے اتر رہا ہو،شاید نیم کے اس پیڑ سے جس کے تلے میں سو رہا ہوں۔ دھندلی، لمبی صورت،نہیں بہت لمبی نہیں، لیکن کچھ گھنی گھنی سی۔ اور وہ پیپل اب اس کے پیچھے ہے اور اس پیپل سے اب کچھ نیلی،کچھ سیاہ سی روشنی پھوٹ رہی ہے۔ بہت ہلکی روشنی،لیکن وہ صورت،وہ پیپل کا پیڑ۔ ۔ ۔ نہیں، وہ انسانی صورت،مجھے صاف دکھائی دیتی ہے۔ کوئی انسان ہے،ڈرنے کی کیا بات ہے؟کوئی بوڑھا،پرانا مسافر ہو گا جو یہاں رات کے لیے جگہ مانگنے آیا ہے۔ صبح کو چلا جائے گا۔ مگر،مگر اس کے کپڑے تو بہت ہی پرانے زمانے کے ہیں۔ ہم لوگ ایسے موقعے پر "دقیانوسی” لفظ استعمال کرتے تھے،اب بہت دن سے یہ لفظ سننے میں نہیں آیا۔
اجنبی آ کر میرے پلنگ کی پائینتی کھڑا ہو گیا ہے۔ نہیں، میں اسے اپنے پلنگ پر رونے نہ دوں گا۔ رونے؟ نہیں سونے۔ ہرگز سونے نہ دوں گا۔ میں چاہتا ہوں اٹھ کر اس سے پوچھوں، کون ہو تم؟ اورساتھ ہی سامنے کوئی پچاس قدم دور پر دادا کی مسجد میں سوئے ہوئے موذن کو آواز دوں۔ لیکن میرا بدن کچھ اکڑ سا گیا ہے۔ آواز کے عضلات (عضلات بھی کیا فضول لفظ ہے جیسے بہت سارے موٹے پتلے تار جھنجھنا گئے ہوں ) میں وہ لچک نہیں رہ گئی جس کے ذریعہ آواز بنتی ہے۔
گرمی تو کچھ خاص نہیں ہے،لیکن میرے سارے بدن میں، خاص کر ماتھے پر، گریبان اور بغل میں عجیب طرح کی تری ہے۔ مجھے چاہیے کہ اٹھ کر پسینہ خشک کروں، ہو سکے تو کہیں سے پنکھا جھلنے کے لیے کسی چیز کا اہتمام کروں۔
روشنی اب اس اجنبی کے پیچھے ہی نہیں، اس کے اطراف میں بھی ہے۔ اب میں اسے اچھی طرح دیکھ سکتا ہوں۔ یہ کمبخت کچھ بولتا کیوں نہیں ؟متوسط قد،گٹھا ہوا بدن،سر پر بھاری لیکن مضبوط بندھی ہوئی پگڑی،سیاہ کپڑے کی،جس میں سفید دھاریاں ہیں۔ بدن پر سوتی شلوکا،کچھ اونچا لیکن آستین دار۔ کپڑے کا رنگ اس وقت متعین کرنا مشکل ہے۔ شلوکے پر آدھی آستیوں کا انگرکھاکسی پھولدار موٹے کپڑے کا، زین کے کپڑے کا اونچا پاجامہ،پنڈلیوں پر چست لیکن کمر کے نیچے ڈھیلا۔ پاجامے کی لمبائی پنڈلیوں کے نیچے تک نہیں ہے۔ کمر میں ایک ڈوپٹہ بہت تنگ کساہوا،اس میں ایک خنجر یا چھرا آویزاں۔ (یہ کوئی خونی قاتل وغیرہ تو نہیں ؟)لیکن خنجر میان میں ہے۔ میان بہت سادہ کسی لکڑی یا سینگ کی بنی ہوئی ہے۔ خنجر کا قبضہ بھی نقش و نگار سے عاری ہے۔ پاؤں میں جوتیاں ہیں کہ نہیں، پتہ نہیں لگتا۔ گلے میں مختصر سا ہار کسی پتھر کا،لیکن قیمتی یا چمک دار نہیں۔ مونچھیں کچھ کچھ طویل لیکن بہت گھنی نہیں، ہاں دہانے کے دونوں طرف انھیں بل دے رکھا تھا۔ داڑھی ایک مٹھی سے کم، لیکن خاصی نمایاں اور تل چاولی۔ ڈاکو تو نہیں لگتا۔ اور ڈاکو اس طرح چپکے چپکے تن تنہا تھوڑا ہی آ جاتے ہیں۔
میں نے دوبارہ اٹھنا چاہا،لیکن فضول۔ آواز بھی اسی طرح بند تھی،گلا اسی طرح خشک تھا۔
"بندگی عرض کرتا ہوں حضور خان دوراں، عالی جاہ۔ مزاج سرکار کا کیسا ہے؟”
عجیب سی آواز تھی۔ کچھ کھوکھلی سی۔ لہجہ بھی ہماری طرف کا نہ تھا۔ لیکن مغربی اضلاع والوں جیسا بھی نہ تھا۔ لگتا تھا یہ شخص مدتوں فارسی بولنے والوں کے ساتھ یا آس پاس رہا ہو۔ پچھم والے ذرا ٹھہر ٹھہر کر بولتے ہیں۔ ایرانی،یعنی آج کے ایرانی،الفاظ کو تیزی سے ادا کرتے ہیں۔ اس شخص کی بھی ادائیگی ذرا تیز تھی۔ حرکات و سکنات بدن میں فدویانہ پن کے باوجود لہجے میں کچھ قوت اور سختی تھی۔
نیند کا ایک جھونکا آیا۔ میری آنکھیں بند ہوتی چلی گئیں، ہوا بھی ٹھنڈی اور شیریں ہو گئی تھی۔
خداوند عالم سکندر سلطان لودی ابن سکندر سلطان لودی فرماں روا عرصہ بیس سال سے ملک ہندوستان، پنجاب، دو آبۂ ہند و شرق،اور بنگالے سے بندیل کھنڈ تک کے علاقے پر نہایت شان اور دلجمعی اور انصاف و عظم و شان کے ساتھ تھے۔ یہ آخری برس (923) ان کی حکومت بابرکت کا تھا۔ لیکن خبرکسی کو کیا تھی کہ اقبال سکندری کا یہ آفتاب اب لب بام ہے۔ بلاد روم کے آگے مشرق میں دار الخلافۂ اسلام،شہر فرحت و قوت التیام، یعنی حضرت دہلی کو چھوڑ کر خداوند عالم نے ایک نیا شہر گوالیار سے کچھ اوپر دہلی کے جنوب میں آگرہ نام کا سنہ910تعمیر کر کے اسے اپنا دار السلطنت ٹھہرایا تھا۔ خداوند عالم کا بیشتر وقت نئے شہر کی تزئین اورتوسیع میں صرف ہوتا تھا۔ حکومت میں ساری دبدبۂ خداوند عالم کے بل پر امن و امان ہر طرف تھا۔ کہیں بھی،کچھ بھی، طول و عرض سلطنت با حشمت میں واقع ہوتا،خداوند عالم کو پلک مارتے میں خبر اس کی لگ جاتی تھی۔ لوگوں میں عقیدہ عام تھا کہ خداوند عالم حضور سلطان سکندر کے قبضے میں کئی موکل ہیں، جیسا کہ کہا جاتا ہے قبضے میں سکندر ذوالقرنین کے بھی تھے۔ اور یہ موکلان سلطان سکندر کے،انھیں آگاہ و باخبر کلیۃً رکھتے تھے۔ کسی کو مجال ظلم رانی نہ تھی۔
میں گل محمد، عمر کوئی پچاس سال(صحیح عمر والدہ کو میری معلوم تھی لیکن اب وہ مدت ہوئی اس دنیا میں نہیں ہیں )،اپنے آبائی گاؤں سے باپ اپنے کے ساتھ دہلی آگیا تھا۔ اس وقت میر ا لڑکپن تھا،فارغ البالی کے دن تھے۔ باپ خان جہاں لودی جو مشہور عالم مسند علی خان کے نام سے تھے،ان کی ڈیوڑھی پر تا عمر دربان رہے۔ میں اکیلی اولاد،کھیلنے کھانے سے فرصت نہ ملتی تھی۔ تاہم باپ میرے نے مجھے خان جہاں کے دوسرے نوکروں کے بچوں کے ساتھ حویلی کے مولوی کے سپرد کر دیا۔ بعد ازاں عمر ابھی گیارہ ہی برس کی تھی کہ مجھے مشہور زمانہ، شیخ عصر شاہ اللہ دیا صاحب جونپوری کے فرزند جگر بند شیخ بھکاری صاحب دہلوی کے مدرسے میں ڈال دیا گیا۔ تین چار برس تک مدرسے میں خوب کٹائی منجھائی ہوئی۔ شیخ بھکاری صاحب کو تقریر سے زیادہ تحریر سے شغف تھا،اس لیے اصل کام تعلیم کا ان کے شاگردوں کے سپرد تھا۔ میں نے جہاں تک ہو سکا پڑھائی محنت سے کی۔ تھوڑا بہت لگاؤ شعر گوئی سے تھا،اس لیے مطول اور المعجم اور بعد میں اسرار البلاغۃ اور اعجاز القران اور البیان والتبئین میں تھوڑا بہت درک حاصل کیا۔ باقی معقولات ہوں یا منقولات، ایک ذرا سے علم انجم شناسی اور علم ہیئت کے سوا کچھ میرے پلے نہ پڑا۔
میں نے حضرت شیخ جمالی کنبوہ کی خدمت میں حاضری دینی شروع کی اور فن شعر کے کچھ نکات ان سے حاصل کیے۔ لیکن مجھ میں ملکہ شعر گوئی کا حقیقتاً نہ تھا۔ ایک دن میری غزل پر خط تنسیخ پھیر کر انھوں نے فرمایا:
"میاں صاحب،شما شاعر نہ خواہید شد۔ می بینیم کہ شما مذاق شناوری و کشتی گیری دارید۔ پیشۂ سپہ گری ہم براے شما خوب می باشد۔ ”
مجھے برا تو بہت لگا۔ افسوس بھی بے حد ہوا،لیکن اس کو کیا کیجیے کہ حضرت شیخ نے مجھے متعدد بار کنار جمنا پر پتنگ اڑاتے،یا بابا سلطان جی صاحب کی باؤلی میں شناوری کرتے، یا استاد بھوپت رائے ماہر کشتی گیری کی خدمت میں حاضر ہوتے بھی دیکھا تھا۔ بسنت پھولتی یا میلاد شریف کے دن آتے یا ہولی کا تیوہار ہوتا،میں ہر اس جگہ موجود رہتا جہاں مواقع سیر اور گلچھروں کے مہیا ہوتے۔ حضرت شیخ کا آنا جانا کہاں نہ تھا،تغلق آبادسے لے کر کوٹلہ فیروز شاہ تک ان کے شاگرد پھیلے ہوئے تھے۔ از صبح تا شام وہ اپنی پالکی میں شہر کی سیر کرتے یا شاگردوں اور عقیدت مندوں کے دیوان خانوں میں شعر و سخن کی محفلوں کے صدر مجلس ہوتے۔ انھیں خوب معلوم تھا کہ بندہ بھی نہ ٹلد گل محمد جیسا تھا،اپنے شوق اور اپنے لہو و لعب کو ترک کرنے والا میں نہ تھا۔
اس طرح نہ تو میں شاعر بن سکا،نہ ہی عالم۔ بس یہ ضرور تھا کہ عربی فارسی کی شد بد،تھوڑا بہت علم الحساب،جو میں کسب کر سکا تھا،میرے بہت کام آیا۔ اپنے کھلنڈرے دوستوں میں تو میں مولانا گل محمد دہلوی کے نام سے معروف ہو گیا تھا۔ باپ کا گھر سونے اور کھانے کے لیے،اور دہلی کا شہر سیر سپاٹوں اور کھیل کود کے لیے،پھر اور کیا چاہئے تھا۔ یہ ضرور ہے کہ باپ نے شادی میری برس اٹھارہ کے سن میں کر دی۔ بی بی اور گرہستی سے لگاؤ مجھے اتنا ہی تھا جتنا کسی ایسے جوان کو ہوتا جسے شہر کی ہوا لگ گئی ہو۔
باپ کے ہوتے فکر بال بچوں کی کسے ہوتی۔ کبھی کبھی تیج تیوہار کے زمانے میں گھر ہو لیے،گھر والی کے لیے شیرازی جوتیاں، بھاگل پوری نینو اور بنارسی کمخواب دست بقچے میں باندھے، بچوں کے لیے متھرا اور بداؤں کے پیڑے،جو دہلی میں مفرط ملتے تھے،ہانڈیوں میں رکھوائے اور چاند دسنے کے کچھ پہلے گھر پہنچ لیے۔ میری شادی کے تیسرے سال باپ نے اچانک مرض فرنگ میں جان دی۔ فرنگی تو ہمارے یہاں دور دور تک نہ تھا۔ لیکن کہتے ہیں کہ اب سے دور ایک بار سارے ملک فرنگ میں مرض طاعون کا پھیلا اورایسا پھیلا کہ مسافروں، یا شاید جناتوں اور شیطانوں کے توسط سے بلاد شرق میں بھی جگہ جگہ متمکن ہو گیا۔ تب سے ہر دو چار سال بعد کسی نہ کسی علاقے میں ہندوستان کے یہ موذی مرض پھوٹ پڑتا اور صدہا جانیں لے کر ہی جاتا۔ اس وقت سے لوگ طاعون کو مرض فرنگ کہنے لگے۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ در اصل مرض آتشک مرض فرنگ ہے،کیونکہ یہ بلا بھی انھیں دیار و امصار سے ہم تک پہنچی تھی۔ لیکن یہ قول قوی نہیں۔ میں نے سنا ہے کہ شیخ الرئیس اور امام رازی کی کتابوں میں بھی ذکر آتشک کا ہے۔ پس دریں صورت آتشک کو مرض فرنگ کیونکر کوئی کہوے۔
باپ کے مرنے کا غم میں نے بہت کیا۔ اور دوسرا اتنا ہی بڑا غم کسب معاش اور پرداخت خاندان کا تھا۔ بارے میرے مرحوم باپ کی نوکری اور توسلی رشتے یہاں بھی کام آئے۔ خان جہاں لودی نے جب میری بدحالی سنی اور دیکھی تو مجھے خان دوراں اسد خان ابن مبارک خان کے رسالے میں احدی بحال کرا دیا۔
سن رہے ہو صاحب، آپ سن رہے ہو نہ؟
"ہاں سن رہا ہوں، ” میں نے بیزاری سے کہا اور دوسری کروٹ سو گیا۔ یا شاید سونے کی کوشش کرنے لگا۔ رات کچھ ٹھنڈی سی ہو رہی تھی۔ میں نے بستر کی چادر میں خود کو لپیٹ لینے کی کوشش کی۔
احدی سے آپ کو یہ گمان نہ ہو کہ میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے زمانے کے احدیوں میں شامل ہو گیا۔ اکبر بادشاہ اس وقت کہاں تھا۔ اور اکبر کے احدی تو یوں سمجھیے آپ کہ وظیفہ یاب قسم کے نفر تھے،مفت کی روٹی توڑتے تھے۔ خداوند عالم سلطان سکندرابن سلطان سکندر کے احدی فوجی ہوتے تھے، سلطان کے ہمہ وقت جاں نثار اور دن رات سینہ سپر کرنے کو تیار۔ ہمیں اپنا گھوڑا،اپنی ڈھال تلوار، خنجر، فوجی کپڑے اور اسلحہ کی دیکھ بھال کا انتظام خود کرنا پڑتا تھا۔ عوض اس کے ہمیں خداوند عالم کی بارگاہ سے در ماہہ ملتا تھا اور سر چھپانے کو خیمہ یا بڑے بڑے گھر ملتے تھے جن میں دس دس یا اور بھی زیادہ احدیوں کے سونے کا اہتمام رہتا تھا۔
کہنے کو میں نوکر تھا خان دوراں اسد خان ابن مبارک خان کا، لیکن در حقیقت آقا میرا خداوند سلطان سکندر تھا۔ خان دوراں کی ذمہ داری صرف اس قدر تھی کہ بخشی فوج تک مجھے پہنچانا اور اس بات کی ضمانت روبروئے کوتوال لینا کہ میں زمرۂ بد معاشان میں نہ تھا اور نہ کبھی میں نے ساتھ کسی بھی باغیان حکومت کا دیا تھا۔ اگر مجھ سے کوئی جرم سرزد ہوتا،یا میں ادائے فرض میں کوتاہ پایا جاتا تو پہلی جواب دہی انھیں کی تھی۔ مجھے جو سر چنگ ملنی تھی وہ تو ملتی ہی۔
جب میرا باپ اس دنیا سے سدھارا تو سلطان خداوند عالم ابن سلطان سکندر لودی کو تخت سلطانی پر متمکن ہوئے دس سال ہو چکے تھے۔ چار دانگ علم میں سلطان کے غلغلے تھے۔ داب سلطنت کے شہرے اور سکہ و خطبہ کا نفوذ از ہند تا سند،از پنجاب تا بنگال اور از دہلی تا دھور سمدرا تھا۔ سلطان کی حق بینی اور انصاف پرستی کا ایک واقعہ ان دنوں زباں زد خاص و عام تھا کہ علاقۂ سنبھل کے ایک غریب مزارع کو اپنے کھیت میں ایک دن ایک کانسے کا گھڑا ملا جس میں سلطان علاء الدین کے زمانے کی پانچ سوسلطانیاں، یعنی سونے کے سکے تھے۔ حاکم صوبۂ سنبھل کو پرچہ لا گا تو اس نے بفور وہ سلطانیاں ضبط کر لیں۔ بیکس مزارع سلطان کی بارگاہ میں عرض پرداز کسی نہ کسی طور ہوا تو بازپرس حاکم سنبھل سے ہوئی۔ اس بدبخت نے باب حکومت میں یہ پاسخ بھیجا کہ خداوند عالم کی خدمت اقدس میں عرض کیا جائے کہ وہ مزارع ایک مرد نا مشخص ہے اور ہر گز لائق و مستحق اس خزانے کا نہیں۔
خداوند عالم نے فرمان صادر فرمایا کہ اے احمق، جس نے یہ خزانہ اس مفلس کشا و رز کو ارزانی کیا ہے وہ مجھ سے اور تجھ سے زیادہ جانے والا ہے کہ کون مستحق کس مہربانی کا ہے۔ اشرفیاں اس غریب کی فوراً پھیر دی جائیں ورنہ آتش غضب سلطانی تجھے دم کے دم میں بستر نرم سے خاکستر گرم پر سلا دے گی۔ حاکم سنبھل اتنا سراسیمہ ہوا کہ اشرفیوں کی گاگر خود لیے ہوئے اس دہقان بچے کی جھونپڑی پر پہنچ گیا اور سو تنکے اپنی طرف سے دے کر اس نے مزارع سے راضی نامہ لکھوایا۔
ایک بار تھانیسرکے علاقے سے اطلاع آئی کہ ہندوان نے ایک تالاب قدیم کو از سر نو تعمیر کر کے وہاں میلہ ایک ماہ بماہ منعقد کرنا شروع کیا ہے اور پوجا پاٹھ بھی کرتے ہیں اور گھنٹ ناقوس بھی بجاتے ہیں۔ پس اس باب میں حکم عالی کیا صادر ہوتا ہے؟سلطان والا شان نے مفتی اعظم سے مشاورت کر کے فرمان لکھوایا کہ وہ اپنے مذہب پر ہیں، پس جب تک ان کے مناسک و رسوم کے باعث کوئی خطر امن و امان کے لیے نہ ہو،ان سے ہرگز کچھ تعرض نہ کیا جائے۔
انتظام سلطنت میں ہشیاری اور خبر داری غرض سے حضرت دہلی اور اس کے گرد و نواح میں اسی ہزار مسلح فوج ہر وقت تیار رہتی تھی۔ کہیں سے ذرا بھی بد امنی کی خبر آئی اور جیوش سلطانی حرکت میں آ گئے۔ تغلق آباد،غیاث پور،بیگم پورہ،سیری اور کیلو کھیڑی جو پایہ تخت کے پرانے شہر تھے،ان سب میں میدان وسیع و مرتفع و مسطح دیکھ کر فوجوں کے خیام کے لیے مقرر کر دئیے گئے تھے۔ میں جس فوج میں تھا وہ غیاث پور سے ذرا ورے کنار جمنا پر قیام کرتی تھی۔ اس ندی کو جن نے دیکھا ہے وہی اس کے وسیع پاٹ کا قیاس کر سکتے ہیں۔ برساتوں میں ندی پر دریائے اعظم کا گمان ہو نے لگتا۔ غازی آباد میں ہنڈن کے ورلے کنارے سے کچھ آگے جنوب کی طرف سے لے کر اوکھلے تک سارا علاقہ پانی سے بھر جاتا۔ اسی بنا پر اس علاقے کو خلق اللہ طنزاً پٹ پڑ گنج کہنے لگی تھی،حالانکہ وہاں مچھروں، پسوؤں، جونکوں اور دیگر لساع کیڑوں کے سوا گنج کے نام پر کچھ نہ تھا۔
واللہ وہ بھی کیا زمانے تھے۔ بارہ برس میں میرا درماہہ بارہ تنکے سے بڑھتے بڑھتے بیس ہو گیا تھا۔ اس زمانے میں پانچ تنکہ ماہانہ خرچ کر نے والے اجلے خرچ سے رہتے تھے۔ سلطان بہلول لودی کو اللہ بخشے،ان کا جاری کیا ہوا تانبے کا سکہ بہلولی کہلاتا تھا۔ وہ اب بھی رائج تھا اور اس میں طاقت اس قدر تھی کہ آدمی یہاں سے کول تک کا سفر اپنے گھوڑے کے ساتھ کرتا تو ایک بہلول اس کے لیے کافی ہوتا۔ مجھے اپنے گھوڑے کے ساز و یراق، سائیس اوراسلحہ کی دیکھ بھال پر بہت صرف کرنا پڑتا تھا،پھر بھی میں ہر مہینے تین سے چار تنکے گھر بھجوا دیا کرتا تھا۔ شراب کی لت مجھے نہ تھی،لیکن بازاروں اور کنچنیوں پر کچھ خرچ تو لازم ہی آتا تھا اور ایسی محفلوں میں کچھ شراب کچھ نقل تو بہر حال ضروریات میں تھی۔ مولانا گل محمد اب ذرا پیچھے چھوٹ گئے تھے اور گل محمد اوپچی کچھ آگے آ گئے تھے۔
اب سلطان سکندر کا یہ اکیسواں سنہ جلوس تھا۔ میری بیٹی بارہ برس کی ہو کر تیرہویں میں لگی تھی۔ گھر سے خبر آئی کہ اس کی سگائی اور پھر بیاہ آئندہ برساتوں سے پہلے ہو جائے تو خوب ہو۔ مجھے بلایا گیا تھا کہ جا کر سب معاملات طے کر دوں۔ ہر چند کہ خداوند عالم سلطان سکندر ابن سلطان سکندر نے شرع شریف کی پابندی پر بہت کچھ زور دیا تھا،لیکن ہم ان اطراف کے گنوارمسلمانوں میں ہندوؤں کی بو باس ابھی بہت کچھ باقی تھی۔ جمعے کے سوا ہر دن ہم لوگ ہندوانی دھوتی پہنتے تھے۔ جمعے کو البتہ دو بر کا ڈھیلا سفید پاجامہ گاڑھے کا اور محمودی کا کرتا پہنا جاتا تھا۔ ہماری عورتیں گھر سے باہر نکلتی تھیں لیکن لمبا گھونگھٹ کاڑھ کر۔ ہر گھر میں ایک صندوق تھا جس میں دیوالی اور دسہرے اور عید بقر عید شبرات کے لیے روپیہ پس انداز کیا جاتا تھا۔ شادی کی رسمیں بہت کچھ ہندوانہ تھیں۔ کنیا دان یا جہیز کی صورت نہ تھی لیکن لڑکے والے شادی سے پہلے منگنی لے کر ضرور آتے اور اس موقعے پر شادی سے کچھ ہی کم خرچ ہوتا۔ نکاح کے بعد رخصتی (جسے ہم لوگ گون یا گونا کہتے تھے) اکثر بہت دیر سے ہوتی تھی۔ ہندوؤں کی طرح ہمارے یہاں بچکانہ شادی کا رواج تو نہ تھا لیکن منگنی پھر نکاح پھر گون کی رسمیں کچھ نہ کچھ وقفے سے ادا ہوتی تھیں۔
جیٹھ نکل کرا ساڑھ کی آمد آمد تھی جب میں نے گھر جانے کا ارادہ کیا۔ تین ساڑھے تین سوتنکے کا انتظام میں نے کر لیا تھا کہ مصارف شادی اس سے کم بھلا کیا ہوں گے۔ ارادہ تھا کہ شام ہونے کے پہلے لیکن عصر کے بعد چل نکلوں کہ موسم ٹھنڈا ہو چکا ہو گا۔ ایک منزل کرتے کرتے غروب آفتاب ہو نے لگے گا، کہیں کوئی اچھی سرائے دیکھ کر رات گذار لوں گا اور صبح ٹھنڈے ٹھنڈے اپنے گاؤں ننگل خورد پہنچ لوں گا۔ زاد سفر بہت تھوڑا رکھا،تحفہ تحائف کی ضرورت نہ تھی کہ سارا سامان شادی اور دیگر رسوم شادی کے لحاظ سے گھر کی عورات ہی کو خرید کرنا تھا۔ سواری کے لیے گھوڑا تھا ہی،اور کچھ درکار سپاہی کو نہ تھا۔ میرا راستہ نہر فیروز شاہی کے بائیں کنارے سے لگا ہوا کئی کوس چل کر پھر نہر سے کٹ جاتا تھا۔
وزیر پور پر نہر فیروز شاہی خود ہی خم کھا کر کرنال اور حصار کی جانب رواں ہو جاتی تھی۔ دو رویہ گھنے پیڑ اور آتی برسات کے بادلوں کی دھندلی روشنی نے نہر کے دونوں طرف نیم تاریکی سی پیدا کر دی تھی۔ ایک جگہ خم اس قدر سخت تھا کہ خم کے پہلے اور بعد دونوں سرے نظر نہ آتے تھے۔ خم میں داخل ہو جائیں تو گویا دونوں طرف کی راہ بند ہو جاتی تھی۔ لیکن خطر کوئی نہ تھا۔ حکومت میں سلطان والا شان کی راہیں سب محفوظ تھیں اور یہ جگہ تو حضرت دہلی سے کوئی پانچ ہی چھ کروہ تھی۔ در حقیقت میرے لیے جگہ رات کے پڑاؤ کی یہاں سے بہت دور نہ تھی۔ میں گھوڑے پرسوار گنگناتا دلکی چلتا چلا جا رہا تھا۔ سامنے ایک پلیا تھی جس کے نیچے نالہ ابھی خشک تھا۔ پلیا کے ورلی طرف ایک بڑھیا،نہایت تباہ حال نظر آئی،مجھے دیکھتے ہی اس نے کچھ دعائیہ لہجے میں مگر ذرا بلند آواز میں پکارا:
اکیلے دوکیلے کا اللہ بیلی!
پھر اس نے بہت مسکین لیکن پھر بھی بلند آواز میں مجھ سے کہا:
"اللہ کی راہ میں کچھ دے دو بیٹا۔ بیوہ دکھیا پر ترس کھاؤ۔ ”
میں نے سوچا، سفر میں ہوں، نیک کام کے لیے جا رہا ہوں، اس وقت اسے کچھ دے دوں تو نیک شگون ہو گا۔ پھر میں نے گھوڑا آہستہ کیا،راس کو بڑھیا کی طرف موڑ کر جھکا، شلوکے کی جیب میں ہاتھ ڈالا کہ کچھ نکال کر بڑھیا کودے دوں۔ یک مرتبہ کسی نے مجھے پیچھے سے دھکا دیا۔ میں غصے میں اس کی طرف مڑ کر گالی دینے والا تھا کہ کسی اور نے ایک دھکا اور دیا۔ میں بے قابو ہو کر بائیں طرف کو لڑکھڑایا۔ گھوڑا الف ہونے لگا۔ راس میرے ہاتھ سے نکل گئی۔ گھوڑا الف ہو کر کدھر گیا،یہ میں نہ دیکھ سکا کہ کسی نے اتنی دیر میں میرے سر پرکالا کپڑا ڈال کر مجھے اندھا کر دیا تھا۔ کپڑا اتنا موٹا اور پسینے کی بد بو سے بھرا ہوا تھا کہ مجھے ابکائی آ گئی اور میری سانس رکنے لگی۔ کپڑا فوری طور پر میری گردن پر کس دیا گیا تو میں سمجھا کہ یہ بٹ مار ہیں۔ جان نہ بچے گی،میری بیٹی کا کیا ہو گا،میں نے کمر سے خنجر نکالنا چاہا کہ ایک دو کو ختم ہی کر دوں۔ یہ قرم ساق نہیں جانتے کہ کس کے گھر بیعانہ دیا ہے۔ ایک دو کو تو مار ہی کر مروں گا۔
میری سانس ا ب بالکل ہی رکی جا رہی تھی۔ ابکائیوں اور خنجر نکالنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے کی کوششوں میں سانس ٹوٹی جاتی تھی۔ میں نے پوری قوت سے چلا کر ان حرام زادوں کو ماں کی گالی دینی چاہی لیکن اب تک میری مشکیں بھی کس لی گئی تھیں۔ پھر ٹانگیں بانھ کر مجھے ایسا بنا دیا گیا جوں کر کہ بکرے کو ذبح کے اس کی ٹانگیں بانھ کر کہیں اور لے جاتے ہیں۔ میری کمر میں ہمیانی بندھی ہوئی تھی۔ اسے نہایت صفائی سے کاٹ کر نکال لیا گیا۔ گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سنائی دی،پھر کسی نے اس کو چمکارا اور چپ کیا۔ گھوڑوں کی چوری میں بھی ظالم اس غضب کے مشاق تھے کہ بظاہر گھوڑا بھی پلک جھپکتے میں رام ہو گیا۔ سارا کام مکمل خاموشی میں ہوا تھا۔ پھر میرے سر پر کپڑا کھینچ لیا گیا لیکن اس کے پہلے کہ میں کچھ کر سکتا،میرے منھ میں ایک اور کپڑا،پہلے سے بھی بد بو دار اور متعفن،ٹھونس کر ساتھ ہی ساتھ آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی۔ پھر کچھ دوڑتے ہوئے قدموں اور گھوڑے کی ہلکی ٹاپ کی آواز۔ دونوں آوازیں بہت جلد مدھم ہو کر غائب ہو گئیں۔ کسی کے سانس لینے کی بھی آواز نہ سنائی دی تھی،بات کرنے یا کھانسنے کھنکھارنے یا ہنسنے کی تو بات ہی کیا تھی۔ میں یہ تو سمجھ ہی گیا کہ یہ پرلے درجے کے مشاق بٹ مار ہیں اور وہ بڑھیا ان سے ملی ہوئی تھی۔ لیکن یہ بھی تھا کہ وہ مجھے جان سے مارنا نہ چاہتے تھے۔ ان کا منشا محض یہ تھا کہ مجھے بے دست و پا کر چھوڑ دیں اور اتنی دور نکل جائیں کہ میں ان کا تعاقب نہ کر سکوں اور نہ کسی کو آگاہ ان کے بارے میں کر سکوں۔
مجھے رنج سے بڑھ کر غصہ تھا کہ میں، سارے عالم میں مانے ہوئے سلطان کی سارے عالم میں مانی ہوئی فوج کا سپاہی اور یوں کسی کچھوے کی طرح پکڑ لیا جاؤں کہ مدافعت اپنی میں ایک وار بھی نہ کر سکوں۔ لعنت ہے ایسی سپہ گری پر اور تف ہے ایسی سلطانی پر کہ رعایا یوں بے کھٹکے دن دہاڑے لٹ جائے۔ میں یہاں یوں ہی مجبور پڑا رہا تو کیا پتہ رات میں کسی موذی جانور کا شکار ہو جاؤں۔ کیا خبر مجھے کوئی اور بٹ مار قتل کر کے جو کچھ میرے بدن پر کپڑے اور تھیلی میں ستو اور جلیبیاں ہیں اور شلوکے کی جیب میں چند سکے بہلولی ہیں انھیں بھی لے کر چمپت ہو جائے۔ میں نے چیخنا چاہا،لیکن وہ متعفن کپڑا میرے حلق تک یوں ٹھنسا ہوا تھا کہ میں اگر بولنے کوشش میں منھ یا حلق پر کچھ زیادہ زور ڈالتا تو کپڑا شاید میرے حلق کے اندر ہی اتر جاتا۔ وقت کتنا گذر گیا تھا،مجھے اس کا کچھ علم نہ تھا۔ مغرب تو ہو ہی چکی تھی۔ لیکن کہیں دور سے بھی اذان کی آواز یا مندروں میں گھنٹے کی پکار، یا چراگاہ سے واپس ہوتے ہوئے کسان یا چرواہے کے ساتھ مویشیوں کے ریوڑوں کی گھنٹیوں کی آواز کچھ بھی نہ سنائی دیتی تھی۔ دانہ دنکا چن کر اپنے گھونسلوں کو لوٹنے والی چڑیوں کے جھنڈ اگر تھے تو یا تو ابھی واپس نہ ہو رہے تھے یا وہ بھی شام کی تنہا شفق میں چپ چپاتے نکل گئے تھے۔ یا اگر آواز کوئی سنائی دینے والی تھی بھی تو زور سے چلانے کی کوشش سے میرے کانوں میں سائیں سائیں اس قدر ہو نے لگی تھی کہ کچھ سن لینا مشکل تھا۔
کیا بہت دیر ہو گئی تھی؟کیا اب کوئی آنے والا نہیں ہے؟ابھی ابھی میں شیر کی دہاڑسنی تھی کیا؟شیر تو اس علاقے میں تھے نہیں، ہاں گلدار بہت تھے۔ گلدار تو جمنا کے کنارے کی کچھاروں میں دہلی سے کرنا ل تک چھوٹے ہوئے سانڈوں کی طرح بے روک ٹوک گھومتے تھے۔ اور بھیڑیے بھی۔ گلداروں کی تو ہمتیں اس قدر کھلی ہوئی تھیں کہ دہلی کے مضافات میں جو آبادیاں بوجہ نقل مکانی کے ذرا چھدری ہو جاتیں، ان کے خالی گھروں میں گلدار آباد ہو جایا کرتے تھے۔ یہاں تو میں جمنا کے کنارے سے دور تھا۔ سلطان فیروز شاہ خلد مکانی نے یہ نہر بنوائی ہی اسی لیے تھی کہ جمنا کا پانی جن علاقوں میں پہنچتا نہیں ہے وہاں بذریعہ اس نہر کے پہنچ جائے۔ لیکن یہاں بھی اب درختوں کے گھنے اور نہر کی رطوبت نے کچھار جیسا سماں پیدا کر دیا تھا۔ سلطان فیروز کو اللہ نے جنت میں اونچا مقام ضرور دیا ہو گا۔ انھوں نے اس راہ میں، اور کول کی راہ میں جگہ جگہ شاہی سرائیں بنوائیں تھیں جہاں کوئی بھی مسافر کچھ رقم دیے بغیر ٹھہر سکتا تھا۔ اور اچھا ہی تھا کہ انھوں نے یہ حکم دے دیا تھا کہ سراؤں کا خرچ تمام خزانۂ سلطانی سے ادا ہو،ورنہ مجھ جیسے لٹے پٹے مسافر کو تو راہ میں ایک وقت کی روٹی اور سر چھپانے کے لیے چھت کے لالے پڑ جاتے۔
میں نے بہت چاہا کہ راہ کے کسی پتھر سے رگڑ کر اپنے ہاتھوں کو بندش سے آزاد کرالوں۔ لیکن ایک تو اس اندھیرے میں پتھر کہا ں ملتا پھر میری آنکھوں پر اندھیری جو چڑھی ہوئی تھی اور ہاتھ پیٹھ پر بندھے ہوئے تھے۔ پاؤں کے بند کو رگڑ کر کاٹنے کی کوشش میں جگہ جگہ خراشوں کے سوا کچھ ہاتھ نہ لگا تھا۔ کیا سب لوگوں کو خبر ہو گئی تھی کہ یہ راہ بٹ ماروں نے ہتھیا لی ہے اور شام ڈھلے آنا ادھر انھوں نے چھوڑ دیا تھا؟کتے بھی نہ بھونکتے تھے،یا شاید گیدڑوں کا ایک غول کہیں کھیت میں غل مچا رہا تھا۔ کبھی کبھی ملک چین کے سفیرملک میں ہمارے آتے تھے تو ان کے سپاہیوں سے میں سنتا تھا کہ ان کے یہاں اصول حرب کے ماہرین نے کچھ فن ایسا ایجاد کیا کہ جب ہاتھوں اور پاؤں کو ان کے باندھتے ہیں تو وہ بدن کو اپنے کچھ اس طرح پھلا لیتے ہیں کہ کیسا ہی بند ہو،بندھنے کے بعد ڈھیلا ہو جاتا ہے کیونکہ بدن پھر اپنی حالت اصلی پر آ جاتا ہے۔ اس طرح اگر کبھی انھیں کوئی باندھ کر بالکل بے چارہ بھی کر دے تو وہ بباعث بندھنوں کے ڈھیلا ہونے کے،خود کو ذرا سی کوشش کے بعد رہا کرا لیتے ہیں۔ افسوس کہ مجھے وہ فن آتا نہ تھا اور اگر آتا بھی کیا ہوتا۔ میں تو بے خبری میں مار لیا گیا تھا۔
رات تو بیشک ہو چکی ہو گی۔ کہیں درختوں کے پیچھو کچھ کھسر پسر تو نہیں ہو رہی ہے؟کہیں وہ حرامی واپس تو نہیں آ رہے ہیں ؟یہ کچھ آواز سی کیسی ہے؟میں نے بہت غور سے سننا چاہا،لیکن کانوں میں کچھ سائیں سائیں اب بھی ہو رہی تھی۔ ہاں یہ کچھ نئی سی آواز تھی۔ ٹھہر ٹھہر کر آ رہی تھی۔ کہیں کسی مندر میں گھنٹ ناقوس تو نہیں بج رہا؟نہیں، یہ تو گہری اور دور تک پھیلنے والی آواز تھی۔ ٹن۔ ۔ ۔ ٹن۔ ۔ ۔ ٹن۔ ۔ ۔ ذرا رک رک کر۔ ۔ ۔ کوئی فیل نشین ادھر آ رہا تھا۔ ۔ ۔ میرا دل بلیوں اچھلنے لاگا۔ شاید میری جان بچ ہی جائے گی۔ ہاتھی کی گھنٹیوں کی آواز نزدیک آئی،آہستہ ہوئی،ٹھہر گئی۔
"معتبر سنگھ،ذرا دیکھنا۔ یہ راہ میں کیا پڑا ہوا ہے؟”مضبوط،ٹھہری ہوئی آواز،لیکن کسی فوجی عہدہ دار یا شاہی اہل کار کی نہیں، بلکہ کسی ایسے شخص کی تھی جو عیش و عشرت میں پلا بڑھا رئیس زادہ ہو۔ "نہیں، ابھی اترو نہیں، پاس سے دیکھو۔ ”
میں نے ہاتھ پاؤں ہلانے کی سعی اور تیز کر دی کہ مہاوت سمجھ لے کہ میں زندہ ہوں۔
"عالی جاہ، لگتا ہے ڈاکوؤں نے کسی شخص کو گھائل کر کے ڈال دیا ہے۔ ” نہایت مودب لیکن کچھ ڈری ڈری سی آواز آئی۔
"اچھا؟کوئی زخمی ہے؟ ہاں شاید اس کا کوئی دشمن اسے یہاں نہر میں پھینکنے لا رہا تھا،ہم کو دیکھ کر بھاگ نکلا۔ ہاتھی ذرا اور پاس لے چلو۔ ”
"حضور کہیں کوئی چال اس میں نہ ہو،”آواز اب اور بھی ڈری ہوئی سی تھی۔ "ایساتو نہیں کہ ہمیں ہی دھوکے سے کچھ۔ ۔ ۔ کچھ کر ڈالنے کا چکر ہو۔ ۔ ۔ ”
میں نے اپنی کشمکش اور تیز کر دی۔ اس بار میں کچھ غیں غیں سی آواز نکالنے میں بھی کامیاب ہو گیا۔
"چال ؟چال بھلا اس میں کیا ہو گی؟تم بھی عجب تھڑ دلے آدمی ہو معتبر سنگھ۔ ہم ہاتھی سے اتریں گے نہیں تو ہمیں کوئی کچھ کیا کر دے گا؟اور اگر تیر کا نشانہ بنانا ہوتا تو اب لگ کئی تیر چل چکے ہوتے۔ چلو، نیچے اترو۔ اس غریب کی کیفیت دریافت کرو۔ ”
"سرکار۔ ۔ ۔ ” معتبر سنگھ کے لہجے میں کچھ شک اور بہت سارا ڈر تھا۔
میں اپنی غیں غیں اور تیز کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
"اے میاں تم تو بالکل ہی بودے نکلے۔ اچھا یوں کرو۔ ہاتھی کو ذرا اور آگے لے جا کر کہو کہ سونڈ سے اس آدمی کو اٹھا کر اوپر میرے پاس لے آئے۔ چلو،شاباش۔ ”
معتبر سنگھ نے ہاتھی کو کچھ آگے بڑھایا،لیکن کتنا،اس کا مجھے اندازہ نہ ہو سکا۔ لیکن معتبر سنگھ نے ہاتھی سے سرگوشی میں کچھ کہا،اور کئی بار کہا۔ پھر مجھے لگا کہ کوئی بہت ہی طاقتور اور کئی گز لمبا موٹا اجگر مجھے بانھ کر لپیٹ کر بلوں میں اپنے اٹھائے لیے جا رہا ہے۔ میں نے سہم کر خود کو چھوٹا کرنے کی کوشش کی،لیکن کہاں میں اور کہاں وہ زبردست بادلوں جیسا زور۔ آن کی آن میں ہاتھی نے مجھے رئیس کے ہودے کے آگے مہاوت اور مالک کے بیچ کی جگہ میں دھانس دیا۔ بلا سے جگہ تنگ تھی لیکن اب میں ضیق جان سے تو بچ نکلا تھا۔
معتبر سنگھ نے، یا شاید مالک نے بھی اس کا ہاتھ بٹایا، مجھے بآسانی اس عفونت سے بھرے اور شاید تیل اور تھوک سے بھی چکٹے ہوئے میرے حلق میں ٹھنسے ہوئے کپڑے اور آنکھ کی پٹی سے آزاد کر لیا گیا۔ تاہم مجھے اپنی آواز دوبارہ حاصل کرنے میں کچھ وقت لگا۔ تھوک کو بمشکل گھونٹتے ہوئے میں نے فیل نشین کے سوال کے جواب میں مختصر لفظوں میں اپنی بپتا کہہ سنائی۔
"تو سپاہی جی،تم دوہرے خوش نصیب تھے۔ ان قرم ساقوں نے تمہیں زندہ چھوڑ دیا اور پھر ہم ادھر آ نکلے۔ ”
"بندے کا بال بال آپ کے احسان سے گندھا رہے گا۔ میں تو سمجھا تھا کہ شیر بھیڑیا کوئی نہ کوئی مجھے کھا ہی لے گا۔ ”
خیر، رسیدہ بود بلائے۔ ۔ ۔ ہوا سو ہوا۔ میں بہادر گڈھ جا رہا ہوں۔ وہاں تک بآسانی تمہیں پہنچا دوں گا۔ آگے جو تمہارا جی چاہے۔ بہادر گڈھ میں بھی قیام شب کا انتظام ہو سکتا ہے۔ ”
"بندہ پروری ہے آپ کی۔ بہادر گڈھ تک بہت ٹھیک رہے گا اگر حفاظت میں جناب کی چلا چلوں۔ کل صبح دہلی واپس چلا جاؤں گا۔ "میں نے ٹھنڈی سانس بھری اور دل میں ابلتے ہوئے رنج کو دباتے ہوئے کہا۔
"بہت مناسب۔ معتبر سنگھ آگے بڑھو۔ اور ہاں، سپاہی گل محمد، ایک بار خوب غور سے دیکھ لو، کچھ تمہارا یہاں چھوٹ تو نہیں رہا؟”
"چھوٹنے کو اب کیا رہا ہے جناب۔ بندگان حضور نے جان بچا لی،میں اسی پر خوش ہوں۔ فیل کو آگے بڑھنے کا حکم فرمائیں۔ ”
اثنائے راہ میں معلوم ہوا کہ فیل نشین کا اسم سامی رگھو راج بہادر سنگھ تھا۔ وہ اپنے کسی عزیز کی شادی میں شرکت کی غرض سے بہادر گڈھ کے کہیں آگے تشریف لے جا رہے تھے۔ بہادر گڈھ میں انھوں نے مجھے ایک سرائے کا سامنے اتار دیا۔ دوبارہ بندگی اور اظہار تشکر کر کے میں نے ان سے رخصت لی۔
اگلے دن میں دہلی آگیا۔ میرے شلوکے میں چار چھ بہلولی جو بچ رہ گئے تھے وہ مصارف کے لیے کافی سے زیادہ تھے۔ ایک بہلولی میں سولہ اور ایک تنکے میں چونسٹھ چھدام ہوتے تھے۔ میں نے ایک بہلولی بھنائی اور سرائے کے مصارف اور مصارف بہلی میں سفر کے بخوبی ادا کیے۔ بہلی میں میرے ساتھ چار مسافر تھے۔ خدا کا شکر بھیجتا ہوں کہ ان میں سے کسی کو عارضہ تجسس اور کرید کا بہت نہ تھا۔ نہ انھوں نے پوچھا کہ میں بہادر گڈھ کس تقریب سے آیا تھا اور نہ میں نے ظاہر کیا۔
٭٭٭
دہلی میں کچھ بھی تو نہ بدلا تھا۔ میری ہی مت بدل گئی تھی۔ میں تین ساڑھے تین سو تنکے کا انتظام اتنی جلد کہا ں سے کرتا؟میرے ساتھی سپاہی مجھ سے زیادہ خرچیلے اور تہی دست تھے۔ خان دوراں تو ان دنوں خداوند عالم کی معیت میں آگرے میں تشریف رکھتے تھے۔ خان جہاں شاید کسی مہم پر گئے ہوئے تھے۔ انھیں دونوں سے مجھے کچھ توقع ہو سکتی تھی۔ بھکاری شاہ صاحب سے کچھ مدد مل سکتی تھی،لیکن کہتے شرم آتی تھی کہ خدمت استاد کی کرنے کی جگہ انھیں سے خدمت لوں۔ اور سپہ گری اختیار کر نے کے بعد آنا جانا بھی میرا طرف مدرسے کے بہت کم ہو گیا تھا۔ اور یہ بھی تھا کہ میں موٹا مشٹنڈا مسلح سپاہی، چار کو مار کے پھر کہیں چوٹ کھانے کا دعویٰ رکھنے والا،اور اتنی آسانی سے چند بے حقیقت ڈکیتوں کا شکار ہو جاؤں، یہ تو منھ چھپانے کی بات تھی نہ کہ ہر کسی سے بتانے کی۔
دن بہت چڑھ آیا تھا جب میں اپنی خیمہ گاہ میں پہنچا۔ حسن اتفاق سے کم ہی لوگ اس وقت باہر دکھائی دیتے تھے۔ ممکن ہے نواب کے یہاں حاضری کے لیے بلا لیے گئے ہوں۔ میں نے اپنے خیمے میں قدم رکھا تھا کہ میرے قریبی دوست محمد عالم بہاری نے پکار ا کہ” اوئے تو یہاں کیسے؟تجھے تو ننگل خورد میں ہونا تھا۔ ”
چار و نا چارمیں نے اس کی طرف نگاہ کی۔ وہ اپنی چوکی پر کچھ لیٹا کچھ بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں لمبی سی تسبیح تھی۔
"محمد عالم،تم؟ ابھی تک باہر نہیں گئے؟ جی تمہارا ماندہ ہے کیا؟”
"نہیں، سب ٹھیک ہے۔ میں نے ایک منت مانی تھی اسے ہی پوری کرنے میں لگا ہوں۔ مگر تم واپس کیسے آ گئے؟ سب خیر تو ہے؟”
"مشفق من، خیر ہوتی تو یہاں کیوں دستا۔ میں تو لٹ لٹا کر گھر کو آگیا۔ ”
"اجی بجھوّلیں کیوں بجھاتے ہو،بتاؤ کیا گذری تم پر؟”
جبراً میں نے سارا قصہ عالم کو سنادیا۔ مگر میری کہانی ختم ہونے کے پہلے ہی وہ بول اٹھا:
"ارے رے رے،ارے رے رے،تو تم اس شیطان بڑھیا اور اس کے تینوں ابلیس بچوں کے ہاتھ پڑ گئے۔ اجی میں سمجھے ہوئے تھا تم ان کے بارے میں جانتے ہو۔ یہاں کا تو بچہ بچہ جانے ہے۔ ۔ ۔ ”
"اجی کیا جانے ہے؟تم یوں ہی امیر خسرو کی طرح پہیلیاں کہو گے کہ کچھ بتاؤ گے بھی؟”
"یارا میرے،میں واللہ یہ سمجھے ہوئے تھا کہ تم جانتے ہو۔ نہیں تو میں خود تمہیں آگا ہی دے دیتا کہ وزیر پور کے آگے نہر کے موڑ پر معاملات سانجھ کے پھولتے ہی مخدوش ہو جاتے ہیں۔ وہ کمبخت ڈائن، پلیا کے ایک طرف بیٹھی ہوئی بظاہر بھیک مانگا کرتی ہے۔ پرلی طرف پلیا کے نیچے اس کے تینوں حرام کے جنے پوشیدہ رہتے ہیں۔ جب تین یا زیادہ مسافر گذرتے ہیں تو وہ پکارتی ہے،”جماعت میں سلامت ہے!” اور جب دو یا ایک مسافر ہوتا ہے تو پکارتی ہے "اکیلے دوکیلے کا اللہ بیلی!” اور یہ اشارہ سن کروہ تنیوں برم راچھس کی طرح بچارے راہگیر کو آ لیتے ہیں۔ کسی کا جان وہ کبھی نہیں مارتے،لیکن لوٹ کراسے باندھ کر وہیں مرنے کے لیے چھوڑ کر چنپت ہو جاتے ہیں۔ ”
"لاحول ولا قوۃ،” میں بڑ بڑا یا۔ "مجھے ہی ان کا ہدف بننا تھا۔ پر اب کیا کروں ؟ اتنی رقم تنکے کہاں سے لاؤں۔ کون دے گا مجھے اور دے بھی دے تو ادا کہاں سے کروں گا؟”میں نے کف افسوس ملتے ہوئے کہا۔
"اجی میاں جی، دینے والے تو بہتیرے ہیں۔ کسی بھی ساہوکار کنے چلے جاؤ۔ مال ہی مال ہے۔ لیکن مال کے پہلے وہ کھا ل کھنچوا لے گا۔ ”
"تو پھر میں کیا کروں ؟” میں نے جھونجھل میں آ کر تیز لہجے میں کہا۔ ” مار مروں تو میری بیٹی کون بیاہے گا؟”
محمد عالم کچھ چپ ساہو گیا۔ میں بھی دل ہی دل میں خفیف ہو رہا تھا کہ بے وجہ اسے جھڑک دیا۔ وہ بچارا تو میری مدد ہی کرنا چاہے تھا۔ پر جب اللہ ہی کو منظور نہ ہو تو بندے کا کیا چارہ۔ افسوس اور رنج میں میں یوں ہی بارہ باٹ ہو رہا تھا،مجھے ایسے سنکٹ کے سمیں میں دوستوں اور نیک صلاح مشورے کی ضرورت تھی۔
تھوڑی دیر بعد عالم نے سر اٹھا یا اور کچھ شرمندہ سی مسکراہٹ مسکرا کر بولا۔ "کیوں نہ ہم لوگ دوستوں سے اپنا حال کہیں۔ تھوڑا تھوڑا کر کے بہت نہ سہی، کچھ تو ہو جائے گا۔ ”
"نہ، نہ بابا۔ بالکل نہ۔ بیٹی کو کیا منھ دکھاؤں گا؟بیٹی سن لے گی کہ جمعہ واری چندہ لے کر اس کا بیاہ ہو رہا ہے تو وہ کچھ کھا کر سو رہے گی۔ ”
"اے لو میں چندے کو کب کہہ رہا ہوں۔ میں تو کہہ رہا تھا کہ سب سے تھوڑا تھوڑا ادھار بٹور کے۔ ۔ ۔ ”
"کون مان کے دے گا کہ ادھار بھی چندے کی طرح بٹورے جاتے ہیں ؟میں بھی نہ مانوں گا۔ اور بالفرض میں مان بھی گیا تو دنیا کو کیا سمجھاتا پھروں گا۔ ۔ ۔ سنو رے بھائیو، یہ خیر خیرات نہیں، چندہ ہے۔ توبہ توبہ،مجھے باتوں میں نہ اڑاؤ محمد عالم صاحب۔ "مجھے رونا سا آگیا۔
محمد عالم نے مجھے غور سے دیکھا۔ شاید اسے بھی لگا کہ میرا پیالہ بھرنے کو ہے۔ اس نے سر جھکا لیا۔ شاید وہ مجھ سے آنکھیں چار کرنے سے کترا رہا تھا۔ میں نے غصے میں اپنی پگڑی اتار کر پٹک دی اور کہا،”گھر جاتا ہوں۔ وہاں اپنی عورت کے مائکے والوں کے سامنے ہاتھ پھیلاؤں گا۔ پھر تا عمر اس کے سامنے نکو بنا رہوں گا۔ ۔ ۔ ابے حرام زادے عالم تو نے مجھے آگاہ کیوں نہ کر دیا تھا کہ وہ جگہ۔ ۔ ۔ ”
"رسان سے کام لے بھائی،”عالم نے سر اٹھائے بغیر کہا۔ "اپنی بوٹیاں نوچنے سے کیا پائے گا؟”
"تو کیا کروں تیرا خون پی جاؤں ؟”
وہ ہلکی سی ہنسی ہنسا۔ "اس سے کچھ بنتا ہو تو ابھی لے میں نبض پر خنجر سے نشتر کئے دیتا ہوں۔ پی لے۔ ”
میں نے سر پر دو ہتڑ مارے اور کہا،”اچھا ٹھیک ہے۔ میں بفور ننگل خورد چلا جاتا ہوں۔ ہو سو ہو۔ ”
عالم ایک لمحہ چپ رہا،پھر ذرا ٹھہر ٹھہر کر بولا،”استاد ایک بات ہے۔ ۔ ۔ پر تو خفا تو نہ ہو گا؟”
میں نے منھ بنا کر کہا،”اس سے کچھ کام بنے تو وہ بھی کر دیکھیں گے۔ ”
"نہیں ذرا دھیان سے سن۔ تو نے۔ ۔ ۔ تو نے امیر جان کا نام سنا ہے؟”
"کون،وہی امیر جان جے پور والی جو رئیسوں جیسے ٹھاٹھ سے رہتی ہے ؟”
"ہاں ہاں، بالکل وہی۔ گل خان تم نے سنا ہے کہ وہ تم سے مصیبت زدوں کی مدد بے کھٹکے کرتی ہے؟”
"مدد؟ وہ کیا مدد کیا کرے گی،ہے تو وہی کسبن مالزادی۔ وہ ہتھیاتی ہے نہ کہ مٹھی کھولتی ہے۔ ” میں نے جھلا کر کہا۔ "اس کی کوئی عزت اور آدر بھی ہے؟”
"اماں سنو تو سہی،ذرا چھری تلے دم لو،”عالم نے شاید دیکھ لیا تھا کہ میں اس کی بات سننے کو تیار ہوں، اس لیے اب وہ بے کھٹکے بول رہا تھا۔
” سن تو رہا ہوں، کیا تمہاری بغل میں گھس جاؤں ؟”
"کہا یہ جاتا ہے کہ وہ پیدائشی کسبن نہیں ہے۔ کسی غریب پر غیرت دار ماں باپ کی بیٹی ہے۔ صورت شکل،ہنر، سگھڑاپا،سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کوئی اس کا ہاتھ تھامنے کو تیار نہ تھا۔ ”
"تو پھر؟ یہ سب مجھ سے زیادہ کون جانے ہے؟میری یتھا مجھ سے بڑھ کر کون جانے گا۔ ”
"پھر یہ کہ ایک ڈھونگی شریف زادے نے اس کی نسبت بالآخر مانگی اور بہت زور دے کر مانگی۔ اندھے کو کیا چہیئے دو آنکھیں۔ با پ ماں نے کچھ پوچھے سمجھے بغیر اس کے ہاتھ پیلے کر دیے۔ ”
وہ چپ ہو گیا،شاید اسے میرا خیال آگیا تھا کہ کہیں ہم بھی ایسا ہی نہ کرنے والے ہوں۔ میں بھی چپ رہا۔ قصے کا انجام کچھ کچھ سمجھ میں میری آ رہا تھا۔
عالم نے سر جھکائے جھکائے کہا:
"ان ذات شریف نے اس بچی کو جی بھرکے خراب کیا،پھر یہاں لا کر ایک بالا خانے پر بیچ دیا۔ گھر والوں کو خبر ہوئی تو باپ نے تو نہیں، پر ماں نے بہت بلوایا،دودھ کا واسطہ دیا،مگر اس کو نہ جانا تھا نہ گئی۔ اور جلد ہی اس نے ساری دہلی جیت لی۔ اب کسی کے ہاں جاتی نہیں ہے۔ ۔ ۔ ”
میں نے اچانک بات کو سمجھا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر بولا:
"تو اسی وجہ سے امیر جان۔ ۔ ۔ ”
"بالکل۔ یہی بات ہے۔ اسے معلوم ہو جائے کہ تم پر کیا بپتا پڑی ہے تو وہ بے کھٹکے تمہیں قرض دے دے گی۔ ”
"پر۔ ۔ ۔ وہاں جاؤں کیسے؟اور وہ میری بات کیا یوں ہی مان لے گی؟”
"میں ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔ فیروز شاہ جنت آرام گاہ کے کوٹلے سے ذرا ادھر اس کی شاندار حویلی ہے۔ دروازے پر ہاتھی جھومتے ہیں۔ ”
"کوئی وسیلہ،کوئی ذریعہ بھی تو ہو۔ "میں نے مایوس لہجے میں کہا۔ ” اس پاس مجھ جیسے بیسیوں پہنچتے ہوں گے۔ اسے کیا پتہ کہ میں چور ہوں کہ ٹھگ ہوں۔ ”
"تمہارا باپ خان جہاں کے یہاں نوکر تھا۔ خان جہاں وہاں جاتے آتے ہیں۔ شاید اپنے باپ کا ذکر اور ان کا نام اور خان دوراں سے ہمارا توسل۔ ۔ ۔ کیا پتہ کام بن جائے۔ سب لوگ ایک ساں تھوڑی ہیں۔ پولی پولی آنچ جدی ہوتی ہے۔ ”
میں سوچ میں ڈوب گیا۔ میرے آگے راہ کوئی نہ تھی۔ امیر جان کے یہاں خان جہاں جیسے لوگ پہنچتے ہیں تو میرے لیے کیا ذلت ہے۔ میں بھی ان کوچوں سے نا آشنا نہ تھا۔ البتہ میری اڑان امیر جان جیسیوں کے بام تک نہ تھی۔ کام اگر بن گیا تو بہت خوب اور اگر نہ،تو میرا کچھ نہ بگڑے گا۔ جتنا بگڑنا تھا سو تو بگڑ ہی چکا۔
میں نے ٹھنڈی سانس لی۔ "کب چلو گے؟”
"بس ابھی۔ نیک کام میں استخارہ اور حیص بیص کیسا؟اپنا وظیفہ میں واپس آ کر پورا کر لوں گا اور تمہارا کام بن گیا تو حضور غوث الوریٰ کو ایصال ثواب کے لیے ایک وظیفہ اور پڑھوں گا۔ ”
"جزاک اللہ۔ یہ احسان تمہارا مجھ پر رہا۔ ”
"احسان کاہے کا،کبھی تم بھی کام آؤ گے۔ چلو اٹھو اب تاخیر نہ کریں۔ ”
میر جان کی حویلی،یا قلعہ دیکھ کراوسان میرے اڑ گئے۔ اللہ اللہ اتنا بلند مکان بھی کسی کو بہم پہنچ سکے ہے۔ بہت بڑا اونچا پھاٹک، دونوں جانب محافظ خانہ،محافظ خانے کے اپر دو منزلہ حجر ے جو شاید حوالی موالیوں کے لیے ہوں گے۔ محافظوں میں کوئی مرد نہ تھا،کوئی ہندی بھی نہ تھا۔ لمبی تڑنگی بہت مضبوط ہاتھ پیر والی، قزاقستان یا ترکستانی نسل کی، مسلح اور مکمل بارہ عورتوں کا دستہ۔ گورے لیکن گرم کیے ہوئے تانبے جیسے تمتمائے ہوئے رخسار،بادام کی طرح آنکھیں، کسی ہوئی چھاتیاں، تنگ شلوکوں سے ابھرے ہوئے ڈنڈ ابٹتے ہوئے بلکہ اگلے پڑتے ہوئے،برمیں چست پایجامے،اس قدر چست کہ رانوں پر گویا مڑھے ہوئے ہوں، لیکن ایسے نہیں کہ جسم کی نمائش کی جھلک بھی ہو۔ شلوکے کی آستینیں کلائیوں تک، دامن پیٹ کے ذرا نیچے تک، اس طرح کہ کنارے دامن کے ڈوپٹے سے کچھ ڈھک گئے تھے۔ سروں پر زری کی ٹوپی اور کمر میں زر نگار ڈوپٹے کے سوا کوئی آرائش ان کے بدن پر نہ تھی۔ شلوکا،پاجامہ،ڈوپٹہ،سب سیاہی مائل نیلے رنگ کے تھے،تاکہ تاثر مردانہ وجاہت کا مزید تقویت پائے۔ ٹوپیاں آسمانی مخمل کی تھیں، مگرسونے سے اس قدر لپی ہوئیں کہ نیلا رنگ بہت کم دکھائی دیتا تھا۔ سب بالکل تنی ہوئی کھڑی تھیں اور آتی جاتی دنیا کو نخوت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں۔
دروازے پر واقعی دو ہاتھی مہیب و بالا جھوم رہے تھے۔ جھولیں ان کی زربفت اور کمخواب کی،ان پر آسمانی مخمل سے مڑھا ہوا اور چاندی کے ڈنڈوں والا ہودہ، ہاتھیوں کے لمبے لمبے دانتوں پر آٹھ آٹھ چوڑ ے سونے کے،بھسونڈوں پر زعفرانی نقش و نگار،مستتکیں گیرو سے رنگی ہوئی،تانبے کی جگمگاتی گھنٹیاں، ہاتھی دونوں پھاٹک کے دونوں طرف جمنا کے رخ پر کھڑے ہوئے تھے۔ کوئی آدھے کوس، یا کچھ کم کے فاصلے پر دریا اور اس کے گھاٹ، اور سطح پر ندی کے تیرتی ہوئی کشتیاں اور جہاز صاف نظر آتے تھے۔
اپنی عہدہ دار کا اشارہ پا کر،یا شاید آپ ہی آپ، ایک اردا بیگنی آگے آئی اور مجھ سے بے جھجک آنکھیں ملا کر بولی:
"کہیے؟”
میں نے اٹک اٹک کر اظہار مدعا کیا کہ میں غریب سپاہی پیشہ اور مصیبت زدہ ہوں، ملنا چاہتا ہوں۔
"اور یہ آپ کے ساتھ ہیں، کیوں ؟”
میں نے محمد عالم کا تعارف کرایا تو اس نے ذرا ہمت کر کے مسکرا کر ہم لوگوں کا توسل خان جہاں اور خان دوراں سے ظاہر کیا۔
کہیں سے کوئی اشارہ پا کر ایک اردا بیگنی اندر گئی۔ ہم لوگ یوں ہی دھوپ میں کھڑے رہے۔ کسی نے ہمیں قریب آنے یا بیٹھ جانے کی دعوت نہیں دی۔ امیر جان کی حویلی جس گلی میں تھی اس میں ایک ہی دو گھر اور تھے،اس لیے لوگوں کی آمد و رفت بہت کم تھی۔ بس ایک شربت عطر کی دوکان کی اور ایک پھولوں کے گجرے والاسامنے اپنا ٹھیہا جمائے ہوئے تھا۔ میں نے سوچا،ایک موتیا اور گلاب کا ہار میں بھی خرید لوں، نذر کر دوں گا۔ لیکن ہیاؤ نہ کھلا۔ خدا معلوم اس کا کیا مطلب نکالا جائے۔ میری ہستی ہی کیا تھی،ایک مجہول سا احدی جس کا سارا تعارف اس کے مالکان تھے۔
ہم کھڑے سوکھتے رہے۔ بڑی دیر بعد میں مایوس ہو کرواپس ہونے کی سوچ ہی رہا تھا کہ اندر سے بلاوا گیا۔ جلد جلد ہاتھوں سے پسینہ پونچھ کر اور ہاتھوں کو چپکے چپکے ڈوپٹے پر خشک کر کے ہم اندر گئے۔
میں نے سمجھا تھا کہ محافظ خانے کے اندرونی دروازے بعد سہ رویہ بارہ دریاں ہوں گی،بیچ میں چمن ہو گا، ذرا سایہ اور خنکی کا ماحول ہو گا۔ لیکن وہاں تو دائیں ہاتھ کو ایک تنگ لیکن اونچا سا زینہ تھا اور ہمارے سامنے ایک لمبا گلیارا تھا جس میں جگہ جگہ روزن تھے اور طاقوں میں چراغ روشن تھے۔
ہم چلتے چلے گئے۔ خدا خدا کر کے گلیارہ ختم ہوا۔ پھیر ایک دالان اور کچھ کمرے،ایک کمرے میں ہمیں ٹھہرا دیا گیا۔ کچھ انتظار کھینچنے کے بعد پھیر بلاوا آیا۔ اب ہم ایک بڑے ایوان میں اللہ اللہ نقش و زیبائش اس ایوان کے بھلا کون بیان کر سکے ہے۔ اور سچ پوچھیے تو مجھے آنکھ اٹھانے کی ہمت نہ ہو رہی تھی۔ بس یہی کہہ سکوں ہوں کہ ہر طرف روشنی بے شمار ہو رہی تھی۔ جا بجا بیضے اور کنول روشن تھے۔
"تسلیمات،” ایک بہت ہی میٹھی لیکن صاف اور جھانجھن سی بجتی ہوئی آواز میں کسی نے کہا۔ "آپ خان جہاں لودی مسند علی خان کی سرکار میں نوکر ہیں ؟”
"جی۔ ۔ ۔ جی نہیں۔ میرا باپ ان سے متوسل تھا۔ ہم دونوں دراصل خان دوراں اسد خان بن مبارک خان بہادر کے فوجی دستے میں سپاہی ہیں۔ ”
رک رک کر،سر جھکائے جھکائے، میں نے اپنی رام کہانی سنائی۔ اس دوران تھوڑا بہت مشاہدہ کرنے کی ہمت پڑی لیکن میں امیر جان کا حلیہ نقشہ بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ ان کی پشت پر دو خواصیں پنکھا جھل رہی تھیں، دائیں بائیں باہر والیوں جیسی دو اردا بیگنیاں مودب تھیں۔ کوئی سامان وہاں نشاط و غنا کا نظر نہ آتا تھا۔ پیتل کے بڑے بڑے پنجڑوں میں کئی خوش نوا پرند ضرور تھے،لیکن میں ان میں سے کسی کو پہچان نہ سکا۔ مجھے خیال آیا کہ حضرت عرش آرام گاہ فیروز شاہ تغلق کے بارے میں مشہور تھا کہ انھوں نے اپنے کوٹلے کے سامنے ایک الگ عمارت میں دنیا جہان کے عجائب جانور اور انسان اور لاکھوں کروڑوں برس پہلے کے وحوش و طیور کی ہڈیاں جمع کر رکھی تھیں۔
ہمارا پورا حال سن کر امیر جان نے پشت پر کھڑی ہوئی ایک خادمہ کو اشارہ کیا۔ وہ کسی بغلی دروازے سے باہر گئی اور تھوڑی دیر بھی نہ ہوئی تھی کہ چار بدرے لے کر حاضر ہوئی۔ دوسرے اشارے پر وہ بدرے اس نے میرے ہاتھ کی طرف بڑھائے۔ میں نے ایک کیفیت اضطراری سے مغلوب ہو کر ہاتھ بڑھا یا اور بدروں کو لے لیا۔
"یہ چار سو تنکے ہیں۔ ساڑھے تین سو جو آپ نے گنوائے اور پچاس میری طرف سے آپ کی بیٹی کو جہیز قبول کیجیے۔ ”
"میں۔ ۔ ۔ م۔ ۔ ۔ مگر یہ قرض فوراً ادا نہ کر سکوں گا۔ ”
"پچاس تو قرض ہی نہیں، بقیہ کے لیے آپ کو اختیار ہے۔ آپ کی نیت صاف ہو،یہ شرط ہے۔ ”
میں کچھ اور عرض معروض کرنے والا تھا کہ امیر جان نے منھ پھیر لیا اور ان کی خادماؤں نے جھک کر ہمیں سلام کیا،یہ گویا ہماری رخصت تھی۔
٭٭٭
میری لاڈلی بیاہی گئی اور بڑی دھوم دھام سے بیاہی گئی۔ شری رگھو راج بہادر سنگھ کو بھی میں نے اپنی ماں کی دعاؤں کے ساتھ رقعہ بھیجا۔ انھوں نے ایک دوپٹہ بنارسی، پانچ تنکے اور مٹھائی بھیجی۔ سلطان عالی مقام کے بموجب فرمان کے میں نے پورا لحاظ اس بات کا رکھا کہ کوئی رسم غیر شرعی نہ ہو،یعنی ایسی نہ ہو جو محض ہندوؤں میں رائج ہو۔ ایک بات پھر بھی ایسی تھی جو مسلمانوں میں رائج تھی،پر کم،اور وہ یہ کہ نکاح کے کئی مہینے بعد رخصتی ہوئی۔ نکاح کے دس ہی بیس روز بعد خبر اڑی کہ سلطان والا شان خداوند عالم سکندر لودی آگرے سے دہلی کی راہ میں واصل بحق ہوئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اس شان و جاہ و دبدبے کا سلطان چشم فلک اب کیا دیکھی گی۔ دہلی سے آگرے انتقال میں شاید فال نیک اس کے لیے نہ تھی۔ آگرہ اتنا کچھ نہ بن سکا جتنا میرے مرحوم سلطان کی تمنا تھی۔ اور دہلی انھیں بار بار نزول اجلال کرے ہی بنے۔ ہر چند کہ سلطان کی صحت اب گرتی جا رہی تھی،لیکن کسی کے شان گمان میں بھی نہ تھا کہ انجام زندگی اس قدر نزدیک ہے۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ دہلی نہ چھوٹتی تو شاید جان بھی نہ چھوڑنی پڑتی۔ یہ حادثہ دہلی کی راہ ہی میں وقوع پذیر ہوا تھا۔
سلطان کے جنت نشین ہونے پر ارباب حکومت میں تغیر و تبدل ہونا ہی تھا۔ نہ معلوم خان جہان اب کون بنتا اور خان دورا ں کا عہدہ کسے ملتا اور اسد خان بہادر کی کیا حیثیت بندگان عالی کی بارگاہ مبارک میں ہوتی۔ میں بہانہ رخصتی کا کر کے ساری مدت گھر پر ہی رکا رہا۔ رخصتی کے بعد میں جورو اپنی کو سمجھاتا رہا کہ سکہ خطبہ بدلا ہے،دیکھیں ابھی کیا ظہور میں آتا ہے۔ خان اسد خان کا رسالہ شاید رہے نہ رہے۔ جب وہ بلوا بھیجیں گے تو چلا جاؤں گا۔ ابھی مجھے کھیتی باڑی دیکھنے دو،کچھ آرام کرنے دو۔ پھر دیکھیں گے۔
ایک سال گذر گیا۔ پھر دو سال۔ کہتے ہیں داماد کی تقدیر در حقیقت بیٹی کی تقدیر ہوتی ہے۔ میری بیٹی اس قدر بھاگوان نکلی کہ اس کے میاں کا کام نجاری کا بہت جلد اور بہت خوب چل نکلا۔ ان کا گاؤں ننگل خورد کے پاس ہی تھا،اس لیے انھیں ہمارے یہاں آتے رہنے میں کوئی پریشانی نہ تھی۔ پھر داماد سے معرفی حاصل کر کے لوگ میرے پاس سپہگری کے فنون،کشتی کا داؤ پیچ،تلوار اور نیزے کی دیکھ بھال اور بناوٹ کے طریقے سیکھنے آنے لگے۔ مجھے گھر بیٹھ رہنے کا اچھا بہانہ ہاتھ آیا،اور اس سے بڑھ کر یہ کہ امیر جان کا قرض ادا کر سکنے کی سبیل نکل آئی۔ میں اپنے اوپر رہتا تو یہ قرض تین کہ چار سال میں بھی ادا نہ ہو سکتا تھا۔ سپہگری کا حال میں آپ کو سنا چکا ہوں کہ آرام تھا لیکن دولت نہ تھی۔ مجھے اللہ کی ذات سے امید تھی واپس دہلی جاؤں گا تو اپنے سب شوق بند کر کے جیسے بھی ہو ماہ بہ ماہ چار تنکے بچاؤں گا۔ گھر بھیجنا بھی ایک تنکہ کم کر دوں گا۔ اس طرح اگر نئی مصیبت کوئی نہ آ گھیرتی تو چھ سات برس میں ادائیگی کی صورت بن سکتی تھی۔ اب یہاں مجھے جو کام ملنے لگا اور گھر کی کھیتی میں اتنا پیدا ہونے لگا کہ مجھے الگ سے کچھ لگانا نہ پڑتا تھا۔ بیٹی کا خرچ کچھ تھا نہیں، سواے اس کے کہ تیج تہوار، پیدائش، شادی بیاہ پر کچھ دینا دلانا پڑتا۔ بیٹا میرا بھی اب بڑا ہو کر بہنوئی کے پاس کام سیکھنے لگا تھا۔
تیسرا سال ختم ہونے کو تھا جب میں نے دیکھا کہ اب میں بہت جلد امیر جان کا قرض چکا سکوں گا۔ خداوند عالم ابراہیم لودی نے دارالخلافہ دہلی پھیر لیا تھا۔ لیکن خان جہاں اور دوراں کے عہدے اب لگ خالی تھے۔ میں نے سنا کہ سلطان کا خیال تھا کہ ان بڑے بڑے عہدہ داروں کے بغیر ہی کار سلطانی چل سکتا ہے۔ میرے خان نے شاید اپنا رسالہ دوبارہ ترتیب نہ دیا تھا،یا شاید ترتیب دیا تھا تو مجھے بلوایا نہ تھا۔ عالم بہاری کی جانب سے بھی کچھ نامہ و پیام نہ تھا۔ شاید وہ رسالہ برہم ہی ہو گیا ہو،میں نے سوچا۔
میری بیٹی کو اللہ نے ایک چاند سا بیٹا دیا تو خوشیوں کا نیا موقع ہم سب کے ہاتھ لگا۔ میں نے دل میں کہا کہ یہ دہلی واپس جانے اور امیر جان کا قرض ادا کرنے کے لیے اچھا شگون ہے۔ اب کی بار مہوٹین تھیں، موسم بہت خوشگوار اور ترو تازہ کن تھا۔ میں نے اللہ کا نام لیا، امام ضامن بازو پر بندھوایا، میری ماں نے کسی ہندوانی دیوی کا صدقہ بھی اتارا اور میں صبح کے وقت عازم دہلی ہوا۔ سنہ 928،بکرید گذار کر ذی الحجہ کا مہینہ ختم پر تھا۔ کوار کا مہینہ لگ چکا تھا۔ دن بھی خوب چمک رہا تھا،پرآسمان پر کہیں کہیں بادلوں کی جھلک موسم کی سردی کا دھیان دلاتی تھی۔ چیل کوے گوریاں درختوں اور آسمانوں میں شور مچاتے پھرتے کہ سردیاں اب واپس آنے والی ہیں۔ باغوں میں موروں کی کثرت تھی۔ کالے تیتر اپنے اپنے بھٹ سے نکل کر اتراتے پھر رہے تھے۔ تنو مند، بلند و بالا نیل گائیں، بارہ سنگھے، چھریرے چیتل، کانکر، لمبی پیچ دار سینگوں والے کالے، ٹھگنے چو سنگھے،سبھی طرح کے ہرن ہر موڑ پر اور ہر کھلی جگہ پر دکھائی دیتے اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے۔ گھوڑا میرے پاس تھا نہیں، اور یوں بھی لمبی رقم ساتھ لے کر تنہا چلنے کا خمیازہ میں کھینچ چکا تھا۔ اب واقعی جماعت میں سلامت تھی۔
دوسرے دن میں دہلی پہنچا۔ دنیا پہلے جیسی لگ رہی تھی۔ سلطان نیا تھا تو کیا ہوا،شہر تو وہی تھا۔ فیروز شاہ جنت آشیانی کے کوٹلے کے پہلے کچھ آبادی نہ تھی۔ مٹکا شاہ صاحب کی درگاہ،پھیر قلعۂ کہنہ، اور ان کے درمیان کہیں بی بی فاطمہ سام کی درگاہ،سب کچھ یوں ہی تھا۔ مٹکا شاہ صاحب کی درگاہ پر اب بھی ہیجڑے اور زنانے حسب معمول جھاڑو لگاتے،زائرین کو پانی پلاتے، حسب معمول جھاڑو لگاتے،زائرین کو پانی پلاتے، بابا نظام الدین صاحب سلطان جی کے گن گاتے۔ سب ویسا ہی تھا۔ میرے سلطان سکندر لودی صاحب کا مزار تکمیل کے قریب تھا۔ سلطان بہلول لودی عرش آشیانی تو بہت دور خواجہ قطب صاحب کے کچھ پہلے ذرا ہٹ کر ابدی نیندسو رہے تھے لیکن ان کا سکہ ہنوز رواں تھا۔
مجھے امید تو نہ تھی،لیکن ایک خیال سا تھا کہ خان دوراں سابق کا رسالہ ابھی موجود ہو گا تو شاید میرا دوست بھی وہیں مل جائے اور رات ٹھہرنے کا سہارا ہو جائے۔ موٹی رقم میری ہمیانی میں تھی،اسے ساتھ لیے لیے پھرنا،یا کسی ان جانی سرائے میں لے جا نا اور رات گذارنا، کچھ بہت دلچسپ بات نہ تھی۔ غیاث پور بھی حسب معمول وہیں تھا،لیکن رسالے کا خان دوراں کے کہیں پتہ نہ تھا۔ ادھر ادھر پوچھا تو پتہ لگا کہ خان دوراں کو بہرائچ کسی مہم پر بھیج دیا گیا ہے لیکن ان کی فوج اور رسالے کہاں ہو ں گے،اس باب میں کچھ کہنا مشکل تھا۔ مجبور ہو کر میں نے فیروز شاہی سرائے میں رات رہنے کی ٹھانی۔ سب سے قریبی سراے تغلق آباد کی سرحد پر بدر پور میں تھی۔ وہاں سے دہلی بہت دور تھی اور کوٹلہ فیروز شاہ،جس کے پچھواڑے والے گاؤں فیروز آباد میں جا کر مجھے امیر جان کا قرض اتارنا تھا،اور بھی دور تھا۔ پر مرتا کیا نہ کرتا،اب پرانے دوستوں کو کہا ں ڈھونڈوں، سرائے کی بھٹیارن ہی کی مہمانداری پر قناعت کر لوں گا۔
صبح ہوئی تو میں نے توجہ معمول سے زیادہ اپنی تراش خراش اور درست کرنے اپنی وضع قطع میں لگائی۔ سب سے پہلے تو ہمیانی ہی کو ٹٹول کر دیکھا تھا کہ سلامت ہے کہ نہیں۔ بارے سب محفوظ تھا۔ امیر جان کا قرض چکانے یا شاید ان کو دیکھنے کا ذوق اس قدر تھا کہ میں ناشتا ہی نکل کھڑا ہوا۔ کئی فرسنگ کا فاصلہ تھا،ایک گھوڑا کرائے پر لیا اور عام فیروز آباد ہوا۔
سفر میں ایک گھنٹے سے کچھ اوپر لگا۔ جمنا پر چہل پہل ویسی ہی تھی۔ پر یہ کیا؟وہ حویلی تو کچھ خالی خالی سی لگ رہی تھی۔ نہ وہ فیل ہائے کوہ پیکر،نہ وہ اردا بیگنیاں، نہ وہ سامنے عطر فروش اور گل فروش تھے۔ یا اللہ یہ ماجرا کیا ہے۔ کچھ دیر یوں ہی کھڑا فکر میں ڈوبا رہا۔ کیا انھوں نے حویلی چھوڑ دی،کہ دہلی ہی چھوڑ دی؟ کسی سے شادی کر کے شوہر کے پاس تو نہیں اٹھ گئیں ؟والدین نے راضی کر کے انھیں جیپور واپس بلا لیا کیا؟
ناگاہ ایک بھلے مانس سے آدمی ادھر سے گذرے اور مجھے چپ چاپ کسی فکر میں غرق دیکھ کر ٹھٹکے اور بولے:
"کیا جناب کو کہیں جانا ہے؟راستہ بھول گئے ہیں ؟”
"جی نہیں۔ ۔ ۔ ایسا تو کچھ نہیں۔ وہ۔ ۔ ۔ بات یہ ہے کہ سامنے والی حویلی میں۔ ۔ ۔ ”
"امیر جان کو پوچھتے ہیں آپ۔ حضت وہ تو اللہ کو پیاری ہوئیں۔ ”
"اللہ کو پیاری۔ ۔ ۔ کیا بات کہتے ہیں جناب۔ میں جب ملا تھا تو وہ اچھی خاصی جوان جہاں تندرست تھیں۔ یہاں حویلی پر شان اور ہی تھی۔ ”
"تھی صاحب من۔ مگر عرصہ کوئی ایک سا ل ایک کا ہوا کہ ان کابلاوا آگیا۔ ”
"کیوں۔ ۔ ۔ کیسے۔ ۔ ۔ معافی چاہتا ہوں، آپ سے جرح نہیں کر رہا ہوں۔ اطمینان اپنا چاہتا ہوں کہ کہیں کچھ۔ ۔ ۔ ”
"جی نہیں میاں صاحب، کہیں کچھ اور نہیں۔ سب کچھ وہیں ہوا۔ "انھوں نے دریا کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
"جی میں سمجھا نہیں۔ ”
"بات یہ ہوئی کہ انھوں نے اپنے لیے ایک مور پنکھی نئی بنوائی تھی۔ اسے اتارنے کی دریا میں عجلت انھیں بہت تھی۔ لوگوں نے کہا کہ چندے توقف کریں، دریا ان دنوں چڑھائی پر ہے۔ پر عورت ذات ضدی تو ہوتی ہی ہے،پھیر آپ جانو ان کے ناز اٹھانے والے بے شمار۔ مور پنکھی کوسازوسامان سے آراستہ کر کے اس میں کچھ اور لوگوں کے ساتھ بیٹھیں اور رسہ کھولنے کا حکم دیا۔ ندی کیا تھی کہ بپھرا ہوا دیو تھی، پانی کے ریلے پر ریلے آ رہے تھے۔ ابھی ٹھیک سے آگے بھی نہ آئے تھے کہ ایک زور کی لہر آئی اور مور پنکھی کو منجدھار میں کھینچ لے گئی۔ پھر تو یہ جا،وہ جا۔ مور پنکھی کی بساط ہی کیا؟ آناً فاناً میں ہچکولے کھانے لگی اور اس کے پہلے کہ مرجئے اور ملاح پانی میں اتریں اتریں، کشتی میں سوار سب لوگوں کی کشتی حیات طوفانی ہو گئی۔ سب ختم ہو گیا۔”
"انا للہ وانا الیہ راجعون۔ "میں نے حزن بھرے لہجے میں کہا۔ لا الٰہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین مجھے حضرت یونس کی قرآنی دعا یاد آئی۔ مگر امیر جان کو کسی مچھلی نے نہیں نگلا تھا۔ انھیں تو مچھلی کے مستقر کو اپنا مستقر بنانا بدا تھا۔
"لاش نہیں ملی؟”میں ہمت کر کے پوچھا۔
"ملی۔ تیسرے دن آپ ہی آپ کنارے آ لگی۔ ”
"کہاں مدفون ہوئیں ؟ کیا جیپور لے جائی گئیں ؟”
"نہیں، ان کی وصیت تھی کہ جب بھی میں مروں مجھے سیدی مولیٰ صاحب کے مزار کے سامنے والے قبرستان میں دفن کیا جائے۔ وہی ہوا۔ "ایک لمحہ چپ رہ کر انھوں نے ٹھنڈی سانس لی۔ "اللہ بخشے بڑی نیک بی بی تھیں۔ ”
"سنا ہے ڈوب کر مرنے والے شہید ہوتے ہیں۔ ”
"ان کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ "انھوں نے سنسان حویلی کی طرف سر کا ہلکا سا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"ہم سب کو وہیں جواب دہی کرنی ہے۔ میں متشکر ہوں کہ آپ نے زحمت کی،سب حال بیان فرمایا۔ ورنہ میں تو بھٹکتا ہی رہتا۔ ”
ہم دونوں نے مصافحہ کیا،پھر وہ اپنی راہ چل دیے۔ میں کھڑا سوچتا رہا۔ اب امیر جان کا قرض تو ادا ہو گا نہیں۔ ان تنکوں کا کیا کروں اور خود کہاں جاؤں ؟شاید سب سے پہلا فرض میرا تو یہ ہے کہ قبر پر ان کی جاؤں اور فاتحہ پڑھوں۔ سیدی مولیٰ صاحب کا مزار اور اس کے سامنے کا قبرستان مجھے خوب جانا بوجھا تھا۔ نظام الدین صاحب سلطان جی کی درگاہ کے کچھ ہی ورے تو تھا،بیچ میں کھلی زمین صحرا کی طرح تھی۔ اس کے ذرا آگے غیاث پور کا گاؤں تھا۔ پھولوں اور پیڑوں کے بباعث قبرستان خاصا پر فضا تھا۔ قمریاں اور کبوتر اور فاختائیں کے غول ہر طرف یا ہو اور غٹرغوں کرتے دانہ چنتے نظر آتے تھے۔ مور بھی کثرت سے تھے۔ کبھی کبھی تیتر،لومڑیاں اور خرگوش بھی دکھائی دے جاتے۔ بابا سلطان جی صاحب کے نام نامی پر لگائی ہوئی سبیل پر پانی ہر وقت موجود رہتا۔ فاتحہ پڑھنے والے ہر وقت ہی آتے جاتے رہتے تھے۔ میں ابھی چلا چلوں تو اس کام سے فراغت ہو جائے۔ پھیر حضرت سلطان جی صاحب اور امیر خسرو کے آستانے پر بھی ماتھا ٹیک لوں گا۔
گھوڑا میرے پاس تھا ہی، میں فوراً چل پڑا۔ سیدی مولا صاحب کے مزار پر رونق ان دنوں کچھ کم رہتی تھی۔ مجھے ان کے عروج کے زمانے یاد آئے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ انھیں دست غیب تھا۔ روز ایک اشرفی سے کم نہ خرچ کرتے تھے۔ خاص موقعوں پر اور بھی داد و دہش تھی لیکن ذریعۂ آمدنی بظاہر کوئی نہ تھا۔ دوسرے پیر فقیروں کی طرح وہ فتوح، نذرانہ، ہدیہ کچھ قبول نہ کرتے تھے۔ وہ کون تھے،کہاں سے آئے تھے،یہ بھی کھلتا نہ تھا۔ سیدیوں کی نسل سے ہونے کے بسبب بہت لمبے،قوی ہیکل،سیاہ فام تھے۔ اور سیدیوں کے برخلاف داڑھی نہایت لمبی،گھن کی اور گھونگر والی تھی۔ آنکھیں ہر وقت سرخ رہتی تھیں۔ کہتے ہیں دن ہو یا رات،ہر وقت کوئی نہ کوئی ان کے پاس بیٹھا رہتا تھا اور سب دیکھتے تھے کہ وہ کسی وقت سووتے نہیں ہیں۔ بہت سے بہت خانقاہ میں کسی ستون سے ٹیک لگا کر کچھ دیر کو آنکھیں بند کر لیتے تھے لیکن کسی بھی نئے شخص کی آہٹ پر آنکھیں کھول کر اس کی جانب متوجہ ہو جاتے تھے۔ وہ خود بھی اسلحہ باندھتے تھے اور دوسروں کو بھی تلقین کرتے کہ سنت ہے۔ آدمی کے لیے بہتر ہے کہ کوئی بھی سنت نہ چھوٹے۔
وہ کسی رئیس،کسی فوجی عہدے دار،کسی سلطانی صاحب اختیار،حتیٰ کہ سلطان وقت کے وہاں بھی نہ جاتے تھے۔ دھیرے دھیرے ان کے یہاں اتنا مرجوعہ ہونے لگا اور سب کے سب اسلحہ بند،کہ کوتوال شہر کو ان پر شک ہونے لگا کہ یہ کچھ کرنے والے تو نہیں ہیں۔ سلطان جلال الدین خلجی کا زمانہ تھا، سلطان کو کوتوالی پرچہ لگا کہ سیدی مولیٰ کے لچھن برے معلوم ہوتے ہیں۔ سلطان جلال الدین ہر چند کہ نہایت نرم دل اور صلح جو حاکم تھا،لیکن بار بار کے پرچۂ اخبار اور پھر اس کے اپنے اپنے مخبروں کی اطلاعات یہی کہتی تھی کہ سیدی مولیٰ کے مریدان سب مسلح رہتے ہیں۔ کچھ نذر فاتحہ نہیں لاتے لیکن کھانا سب کو پیٹ بھر ملتا ہے۔ ان کی خانقاہ میں آنے والوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔
سلطان روز روز کی خبروں سے متوحش ہوا اور اس نے متعددبارسیدی مولیٰ کو دربار میں طلب کیا۔ لیکن وہ کہاں سننے والے تھے۔ اب سلطان کا شک یقین میں بدل گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ اس نے اپنے درباری مفتی سے فتویٰ طلب کیا کہ ایسے شخص کی کیا سزا ہو جو بارہا طلبی پر بھی دادگاہ سلطانی میں حاضر نہیں ہوتا۔ مفتی صاحب کو سلطان کے عندیے کی خوب فہم تھی۔ انھوں نے اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسولٖ و اولی الا مر منکم کی دلیل پر فتویٰ دیا کہ ایسا شخص واجب القتل ہے۔ سلطان کو تو بس حیلۂ شرعی کی تلاش تھی۔ اس نے فوراً سیدی مولیٰ کو بجرم حکم عدولی سلطان عادل قتل کرا دیا اور ان کی خانقاہ لٹوا کر کھدوا ڈالی اور منادی کرا دی کہ سیدی مولیٰ کے مریدین فوراً توبہ کریں ورنہ عتاب سلطانی کے مستوجب ہوں گے۔
اللہ کی شان،جہاں میلہ لگا رہتا تھا اور حلوے کی دیگیں گرم ہوتی تھیں اور نان کے تندور دہکتے تھے وہاں اب پرندہ بھی پر نہ مارتا تھا۔ اصحاب دل کی آنکھیں بھر آئیں۔ کچھ نے تو کھلے بندوں کہا کہ سلطان نے اچھا نہیں کیا۔ بے گناہ خون رنگ لائے بغیر نہ رہے گا۔ اور یہی ہوا۔ کچھ ہی مدت گذری تھی کہ سلطان کے سگے بھتیجے علاء الدین نے کڑا کے مقام پر قتل اسے کرا کے لاش دریائے گنگ میں پھکوا دی۔ تاج تواس کا ایک مچھیرن کے ہاتھ لگا لیکن سر کہیں نہ ملا۔ سیدی مولیٰ کا مزار ازسر نو بنا اور زیارت گاہ خاص و عام ہوا اور اب لگ یوں ہی ہے۔ لیکن آج ڈھائی سو برس بعد بھی مزار پر شہید کے جلال اس قدر برستاہے کہ کوئی دیر تک وہاں ٹھہرتا نہیں۔ میں نے مزار کے سامنے سے گذرتے گذرتے سلام کیا اور نیت کی کہ امیر جان کے یہاں فاتحہ خوانی کے بعد آپ کے مزار پر فاتحہ پڑھوں گا،پھر سلطان جی کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔
قبر ڈھونڈنا امیر جان کی چنداں مشکل نہ تھا کہ قبر کے کچھ ہی فاصلے پر پانی کی سبیل تھی۔ اگرچہ وہاں اس وقت سناٹا تھا،لیکن لوح مزار دیکھ کر میں فوراً پہچان گیا۔ طاق میں کالک کا داغ بہت ہلکا تھا،گویا چراغ یہاں کبھی ہی کبھی جلتا ہو۔ مجھ پر اچانک رقت طاری ہو گئی۔ آہ زندگی میں کیا رونقیں تھیں اور اب کیا بے سرو سامانی ہے۔ اول و آخر فنا ہی فنا ہے۔ مولائے کریم سب کا انجام بخیر کرے۔ لیکن یہ کیا، پرلی طرف قبر میں ایک شگاف سا نظر آ رہا تھا۔ ہائے افسوس،بجو اور کفن دزد یہاں بھی باز نہیں آتے۔ میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی کہ کچھ جھاڑی جھنڈی خس و خاشاک ہو تو مٹی پتھر ملا کر شگاف کو بند کر دوں۔ چشم زدن میں سب مہیا ہو گیا اور میں شگاف کے اپر آیا کہ احتیاط سے اسے پاٹنے کی سبیل کروں۔ لیکن میں ڈر کر پیچھے ہٹ گیا۔ قبر کے اندر روشنی سی تھی۔ اندر کوئی چور تھا کیا؟ لیکن ایسا دلاور چور کہاں جو قبر کے اندر چراغ لے کر جائے۔ میں نے دور ہی دور سے آنکھیں گڑا کر دیکھا۔ کچھ سبز سے رنگ کی روشنی تھی، آنکھیں ٹھنڈی ہوئی جا رہی تھیں۔ ہمت کر کے میں دوبارہ نزدیک گیا،لیکن اس کے پہلے میں چاروں جانب نگاہ دوڑائی کہ کوئی اور نظر آ جا تو اس سے امداد کی التجا کروں۔ کوئی بھی نہیں تھا۔ ساری قمریاں، کبوتر، مور،سب بالکل چپ ہو گئے تھے،جوں کر سورج گرہن کے اندھیرے میں وحوش و طیور سب چپ ہو جاتے ہیں۔ مجھے اور بھی ڈر لگ رہا تھا لیکن وہ روشنی مجھے اپنی طرف کھینچتی سی لگ رہی تھی۔ اب جو غور سے دیکھا تو روشنی کچھ بڑھ سی گئی تھی اور لگتا تھا کہ شگاف میں کسی نے میرے لیے مشعل رکھ دی ہو۔ لیکن دن چڑھ کر اب نصف النہار کے قریب تھا۔ ایسے میں مشعل کی کیا لم ہو سکے ہے؟مجھے بلانا مقصود تھا تو۔ ۔ ۔ لاحول ولا قوۃ یہ میں کیا سوچ رہا ہوں۔ قبر میں سے کوئی کسی کو بلاتا ہے اور میں ہوں بھی کون کہ مجھے بلایا جائے۔ میں امیر جان کے ساتھ سرسری جان پہچان کا بھی دعویدار نہ ہو سکتا تھا۔ تو کیا یہ آسیبی کارخانہ ہے؟میری زبان پر بے اختیار آیت الکرسی جاری ہو گئی۔ پھر میں نے معوذتین کا ورد کیا۔ پھر آیت الکرسی کی تلاوت کی۔ معاً میرے دل میں خیال آیا کہ قرآنی آیتیں اتنی پڑھ ہی میں چکا ہوں، انھیں کو فاتحہ قرار دے کر ایصال ثواب کروں اور الٹے پاؤں۔ ۔ ۔ مگر اس روشنی میں عجب سی کشش ہے۔ یا پھر یہ سب میرا وہم ہے۔ کیا معلوم سیدی مولیٰ صاحب جیسا کوئی صاحب تصرف یہاں بھی دفن ہو اور کسی بنا پر اثر ان کا مجھ پر ہو رہا ہو۔ یہاں سے چل لینا ہی۔ ۔ ۔ میں نے جلد جلد دل ہی دل میں امیر جان کو ایصال ثواب کیا۔ یا اللہ اگر یہ کوئی کارخانہ آسیب کا یا نعوذ باللہ عذاب قبر کا ہے تو اپنے حبیب کے صدقے تو اس اپنی ناچیز بندی کو اس مصیبت سے اس قہر سے نجات دے دے۔ میں نے منت مانی کہ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ امیر جان پر کوئی عذاب نہیں ہے اور یہ روشنی آسیبی نہیں ہے تو یہاں سے اٹھتے ہی سلطان جی صاحب کے مزار پر پورے ساڑھے تین سو تنکوں کی دیغ پکوا کر محتاجوں کو کھلاؤں گا۔ مگر دل میرا یہاں سے جانے کو بھی چاہ رہا ہے۔ ذرا اور جھک کر دیکھوں کہ اندر کیا ہے۔ اب جو غور کرتا ہوں تو پہلوئے قبر میں کوئی شگاف نہیں بلکہ چور دروازہ سا ہے بالکل ٹھیک ٹھاک بنا ہوا۔ اور روشنی بھی کچھ ایسی ہے گویا کئی شمعیں فانوسوں میں روشن ہوں۔ اور یہ تو کچھ زینہ سا ہے اندر اترنے کا، جیسا کہ تہ خانوں میں ہوتا ہے۔ میرے قدم خودبخود اٹھتے جا رہے ہیں بڑھتے جا رہے ہیں۔ میں چور دروازے میں داخل ہو گیا ہوں۔ اب میں نیچے اتر رہا ہوں۔ کہیں وہ چور دروازہ بند تو نہ ہو جائے گا؟مجھے علا ء الدین کا جادوئی چراغ یاد آیا۔ جب علا ء الدین نے چراغ دینے سے انکار کیا تو اس کے ماموں نہیں۔ ۔ ۔ اس کے چاچا نے غار کا دروازہ باہر سے بند کر دیا تھا اگر یہ چور دروازہ بھی بند ہو گیا تو۔ ۔ ۔ لیکن مجھے کون سی چیز وہاں سے لا کے کس چاچا ماما کو دینی ہے مجھے کاہے کا ڈر لیکن اگر دروازہ بند نہ ہوا غائب ہو گیا؟ پھیر میں واپس کیونکے آسکوں گا؟وا پس لوٹ چلتے ہیں۔ ابھی تو چور دروازے سے آتی ہوئی باہر کی روشنی دکھائی دے رہی ہے ابھی وقت ہے۔
بہت بڑا، دور تک پھیلا ہوا، باغ۔ اس میں نہریں اور حوض اور مرمریں فوارے چھلچھلاتے ہوئے ہلکے کیوڑے کی آمیزش لیے ہوئے، معطر، پانی کی بوندوں سے روشن۔ شاخساروں میں بلبلیں اور کئی ایسے پرند جنھیں میں پہچانتا نہیں، چہچہاہٹ پوری فضا میں ٹھنڈی پھواریں چھوڑ رہی ہے۔ سرخی مائل بالوں والی گلہریاں درختوں میں آنکھ مچولی کھیل رہی ہیں۔ سامنے مرغزار کا سا سماں، سفید ہرن، چیتل، خرگوش، مور، سرخاب، آ آ کر حوض سے پانی پی رہے ہیں۔ ایک ہرن پانی پیتے پیتے ٹھٹک کر رک گیا ہے اور لمبی موہنی گردن کو موڑ کربڑی بڑی حیرت زدہ آنکھوں سے کچھ دیکھ رہا ہے۔ دور آسمان میں بڑے بڑے پرند، عقاب اور سیمرغ جیسے،لیکن ان سے کسی کو گزند کا خوف نہیں۔ ایک دو عقاب کبھی غوطہ مار کر نیچے آ جاتے ہیں تو ان کا سایہ پانی میں پڑتا ہے،ہرن شاید اسی سے بھونچکا ہو گیا ہے۔
٭٭٭
عجب پر بہار باغ ہے کہ بہار کو بھی اس بہار پر داغ ہے۔ نخل سر سبز و شاداب، جوبن پر گلاب،نسرین و نسترن بشکل معشوقان پر فن،سرو و شمشاد جس سے قد محبوب کی یاد،رنگ گلہائے چمن شکل عارض محبوب گلبدن۔ ہوائے سرد چل رہی ہے،نشۂ بادۂ محبت سے لڑکھڑاتی ہے،ہر ایک شاخ شجر سے سر ٹکراتی ہے،لیکن دبے پاؤں چل رہی ہے۔ خیال ہے کہ ایسا نہ ہو پاؤں کی دھمک سے گرد اڑے اور عارض گل پر پڑے۔ نہریں بصد آب و تاب جوش زن،بہار پر ہر چمن،جام و صراحی موجود،اپنے رنگ پر ثمر ہائے امرود۔ شراب شبنم سے جام لالہ مملو ہے،اور مشک و عنبر کی اس میں خوشبو ہے۔ قمریاں نخل سرو پر بصد رعنائی و زیبائی بیٹھی ہیں۔ صدائے حق سرہٗ بلند،قلندر مشرب صدائے کو کو سے دردمند۔ صاف ثابت ہوتا ہے کہ کوئی درویش گوشہ نشیں یا ہو!یاہو!کر رہا ہے۔ لباس خاکستری زیب جسم،ہر وقت یاد الٰہی میں مصروف ہے۔ اس کی صدائے حق سرہ’پر ناپائداری دنیا موقوف ہے۔
(نوشیرواں نامہ،جلد اول،از شیخ تصدق حسین،ص 19)
میں بڑھتا چلا گیا۔ حیرت کی بات یہ بھی دیکھی کہ سارے باغ میں باغبانیاں ہی باغبانیاں تھیں، ایک سے بڑھ کر ایک طرح دار، اور مرد باغبان کوئی نہ تھا۔ نظر کی حد سے ذرا ادھر ایک بہت بڑی عمارت تھی۔ میں نے دو ہی چار قدم بڑھائے تھے کہ عمارت بالکل نزدیک آ گئی۔ امیر جان کی حویلی،ہو بہو جیسی میں دہلی میں ابھی دیکھ کر چلا آ رہا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ حقیقی حویلی بھورے اور سیاہی مائل سرخ پتھر کی تھی اور یہ حویلی سفید سنگ مر مر کی تھی۔ جیسے ٹھنڈے دودھ سے بھری چینی کی صراحی،اس قدر تری اور خنکی تھی کہ جی چاہتا تھا اٹھا کر منھ میں رکھ لیجیے۔ سامنے ہاتھی ویسے ہی جھوم رہے ہیں۔ تھوڑی دور پر جمنا اسی طرح بہ رہی ہے۔ گھاٹ پر نہانے والے کوئی نہیں ہیں لیکن بجرے، بادبانی کشتیاں، با ر بردار جہاز، سب حسب معمول رواں۔ ہم لوگ پہلی بار حویلی اصلی پر گئے تھے تو دن کا وقت تھا لیکن اس وقت شام لگتی تھی۔ اردا بیگینیوں کا کہیں پتہ نہ تھا۔ میں درانہ اندر گھستا چلا گیا۔ ویسا ہی گلیارا،دائیں طرف ویسا ہی تنگ اور اونچا زینہ،لیکن اس بار ہر طرف وہی ہلکی سبز، کچھ نیلی گلابی روشنی، روشنی۔ گرمی یا حرارت کا بالکل شائبہ نہ تھا۔ اس بار جی نے کہا کہ گلیارے میں دھنسنے سے پہلے زینوں پر چڑھ کر دیکھوں وہاں سے کیا نظر آتا ہے۔
خلاف توقع اس بار زینہ بالکل روشن تھا۔ جوں کر روشنی میرے پیچھے پیچھے ہو، ساتھ ساتھ ہو کہ جہاں جاؤں وہاں روشنی پہلے ہی پہنچ جائے۔ مجھے بڑا ڈر لگا۔ یہ کیا اسرار ہے۔ جناتی کارخانہ ہے یا کچھ سحر و ساحری کا چکر ہے۔ مجھے آگے بڑھتے ہی جانا تھا،نہ جانے کیوں واپسی کا خیال اب میرے دل سے محو ہو چکا تھا۔ پیچدار زینہ لیکن تنگ نہیں، جیسے کہ قطب صاحب کی لاٹھ کے اندر جانے کے لیے زینے تھے۔ تو کیا یہ لاٹھ تھی اور بہت موٹی،چوڑی؟میں نے سیڑھیاں گننی شروع کیں۔ مگر جلد ہی گنتی فراموش ہو نے لگی۔ ہر دس بیس زینہ چڑھنے پر لگتا میں گنتی بھول گیا ہوں۔ یاد کرنے کی کوشش کرتا تو اور بھی خلجان ہوتا کہ سیڑھیاں گننا بلکہ سیڑھیاں چڑھنا درست ہے بھی نہیں۔ میں کتنی ہی سیڑھیاں طے کر لوں، انجام کچھ نہ ہو گا۔ میرا جی متلانے لگا اس خیال سے اب میں تا قیامت سیڑھیاں ہی چڑھتا جاؤں گا لیکن اب تو مراجعت کی بھی ہمت نہ تھی۔ میں نے ایک شخص کے بارے میں سنا تھا کہ اس نے شرط بدی کہ سامنے والے بہت ہی اونچے پیڑ کی پھننگ تک چڑھ جاؤں گا۔ درخت اتنا تنو مند تھا کہ پھنگی بھی اس کی بہت موٹی معلوم ہوتی تھی۔ لیکن جب وہ اوپر پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ پھنگی تک پہنچے کے لیے جس ڈال پر چڑھنا ضروری تھا وہ ٹوٹی ہوئی ہے۔ آگے جانا غیر ممکن ہو گیا تھا۔ اس کا دل مایوسی سے بھر گیا لیکن اس نے گھوم کر نیچے دیکھا تو زمین بہت دور لگی،اتنی دور کہ اس کے پاؤں لرزنے لگے۔ اتنی دور نیچے کس طرح اتروں گا میں۔ اس کا دل مایوسی اور خوف سے بھر گیا اور وہ چلانے اور رونے لگا کہ بچاؤ بچاؤ میں گرا جاتا ہوں۔ بالآخر اس کے دوستوں اور گاؤں والوں نے سیڑھیا ں لگا کر اور رسیاں اوپر پھینک کر اسے بہزار خرابی نیچے اتارا۔
لیکن یہاں تو کوئی دوست کوئی گاؤں والا نہیں ہے۔ میرا کیا ہو گا؟ اچانک زینے ختم ہو گئے،سامنے کھلی ہوئی چھت تھی جس پر وہی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ میں چار قدم آگے بڑھا۔ دور قطب صاحب کی لاٹھ صاف نظر آتی تھی۔ تو میں ابھی اسی قبرستان میں ہوں ؟ سامنے میرے ایک بارہ دری مرمریں، دالان میں ایک دروازہ کھلا اور میں اندر چلا گیا۔
وہی منظر،قسم ہے اللہ کی بالکل وہی منظر تھا۔ امیر جان کسی سلطان کی طرح صندلی پر متمکن،پیچھے دو خواصیں مور چھل لیے ہوئے،دائیں بائیں اردا بیگنیاں۔ کہیں پردے کے پیچھے ارغنوں بج رہا تھا۔ کوئی دھیمے سروں میں گا رہا تھا۔ ہلکے سروں کی بوندیاں پڑ رہی تھیں۔ ہر طرف عطر کی دھیمی دھیمی پھوار برس رہی تھی۔ دور کہیں چڑیاں زفیل رہی تھیں، لیکن اس بار میں پہچانا کہ وہ لال تھے جو برسات میں خوب بولتے ہیں۔ لگتا تھا زفیلیں ان کی چھت کے اپرسے آ رہی ہیں۔
"ل۔ ۔ ۔ لی۔ ۔ ۔ لیجیے، میں آپ ک۔ ۔ ۔ کا ق۔ ۔ ۔ قرضہ و۔ ۔ ۔ واپس کرنے۔ ۔ ۔ "بدقت میرے منھ سے نکلا۔
لیکن میری بات ختم ہونے کے پہلے ہی امیر جان گویا خواب سے چونکیں۔ ان کے چہرے پر برہمی اور بیزاری کے آثار نمایاں ہوئے۔ وہ ساری نرمی چہرے کی اور نزاکت بشرے کی مبدل بہ سختی ہو گئی۔
"تم یہاں کیسے آئے؟ تم یہاں کیوں آئے؟ چلو،فوراً باہر نکلو۔ ” انھوں نے کچھ اس طرح کہا گویا مجھے پہچانتی ہی نہ ہوں۔
"جی۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ میں گل محمد ہوں، خان دوراں کے دستے میں ملازم ہوں۔ ۔ ۔ ملازم تھا۔ آپ نے۔ ۔ ۔ ”
اب ان کی بیزاری اور بھی نمایاں ہونے لگی تھی۔ انھوں نے صرف رخ پھیر کر بلکہ پہلو میری طرف سے موڑ کراردا بیگنیوں کی طرف دیکھا اور چیں بجبیں ہو کر حکم دیا:
"کھڑی دیکھتی کیا ہو؟جانتی ہو نا محرم کو یہاں آنے کی اجازت نہیں۔ اسے دھکے دے کر نکالو، دفع کرو اسے۔ ”
دونوں میں سے ایک اردا بیگنی خنجر ہاتھ میں لے کر میری طرف بڑھی۔ دوسری نے ہلکے سے تالی بجائی تو کئی اور بھی پردے کے پیچھو سے نکل آئیں۔ پہلی اردابیگنی چار قدم میں میرے سامنے آ گئی تھی اور میں مارے استعجاب اور خوف کے وہیں جم کر رہ گیا تھا۔ پھر اس خنجر زن کا حسن بھی ایسا تھا کہ رئیس بھی اچھے اچھے مبہوت ہو جاویں۔
"چلو،ایوان خالی کرو ورنہ پیٹ میں خنجر اتار دوں گی۔ "اس نے سرد لہجے میں کہا اور اشارہ دروازے کی طرف کیا۔
مجھ پر جیسے عالم خواب طاری تھا۔ ارادہ اور ادراک سلب ہو گئے تھے۔ قاتل اس خنجر گذار پر سے نگاہ نہ ہٹتی تھی۔ اتنے میں کئی اور اردابیگنیاں جو پردے سے باہر آئی تھیں میرے چاروں طرف حلقہ زن ہو گئی تھیں۔ ان میں سے ایک زنگن تھی،مجھ سے بہت زیادہ قد آور تھی۔ اس نے میرا شانہ ہلایا جیسے سووتے کو جگاتے ہیں اور ہلکے سے مجھے دھکا دیا۔
میں گویا آپ سے آپ چل پڑا اور آپ سے آپ ہی زینے اتر گیا۔ اس بار زینے پیچدار نہ لگتے تھے۔
وہی زنگن میرے پیچھو پیچھو آئی۔ روشنیاں پہلے ہی کی طرح میرا تعاقب کر رہی تھی۔ نیچے اندرونی دروازہ باہر کی طرف کھلتا تھا۔ زنگن نے دروازے کو اپنی طرف کھینچ کر کھولا اور کچھ کھلنڈرے سے انداز میں میری پیٹھ تھپتھپا کر ہلکے سے باہر دھکیلا گویا زبان حال سے کہہ رہی ہو کہ اگر وقت اور جگہ مساعد ہوتی تو۔ ۔ ۔
صدر دروازے کے سامنے وہ باغ اب نہ تھا۔ یا شاید میں کسی اور دروازے سے باہر کیا گیا تھا۔ نغموں اور چہل پہل سے فضا گونج رہی تھی۔ میں نے گھبرا کر پیچھے مڑ کر طرف زنگن کے دیکھا،لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔ دروازہ اس طرح تیغا ہو گیا تھا گویا کبھی کھلا ہی نہ تھا۔
بازار،بہت روشن اور پر رونق بازار۔ حسن اس بازار کا کیا بیان کروں۔ جوانان رعنا، خوبصورت، حسین و جمیل، ہر طرف اینڈتے پھرتے ہیں۔ چادروں میں سے جن کی حسن کی روشنی پھوٹتی ہے ایسی زنان جمیلہ،پالکیوں اور محافوں کے غرفوں سے لگی ہوئی بڑی بڑی سیاہ،شربتی،جامنی آنکھیں، کبھی کبھی جھلک مار دیتی ہیں تو دل دماغ میں فرحت دوڑ جاتی ہے۔ دکانیں جنس اور مال اور سامان تجارت سے پٹی پڑی ہیں۔ ہجوم خریداروں، مول بھاؤ کرنے والوں کا،اور آزاد ٹہلتے ہوئے بے فکروں کا۔ بیچ میں بازار کے ایک نہر، تازہ خوش گوار پانی کی رواں، اس کے دو رویہ درخت پھولوں اور پھلوں سے لدے ہوئے۔ مگر کسی کو یارائے گل چینی نہیں۔ ثمر ہائے شیرین و پختہ کو ملازمان شاہی چن چن کر توڑتے اور مونج کی سبد میں اکٹھا کرتے ہوئے۔ نہر کا پانی خس و خاشاک سے پاک آئینے کی مانند۔ باٖغبانیاں، گری ہوئی پتیوں اور پنکھڑیوں کو جال سے سمیٹتی ہوئی۔ کیا مجا ل جو کوئی بے خیالی میں بھی کوئی تنکا،کوئی خاش، کوئی دھجی،نہر میں ڈال دے۔ محتسبان بازار کا یہ بھی ایک کام ہے۔ سونٹے لیے ہوئے پھرتے ہیں۔ جہاں کسی نے ایک دھج بھی گرائی،سونٹا لہرا کے اس سے کہا کہ اٹھا، ورنہ پیٹھ لہو لہان کر دوں گا۔
دور بازار کے ایک سرے پر ایک قصر فلک جناب،سرخ پتھر کا بنا ہوا گویا کوئی جوان رعنا اور قوی ہیکل ہو جس کے گالوں سے خون شباب ٹپک رہا ہو۔ اس کے سامنے کھلا میدان جس میں بھانت بھانت کے لوگوں کا جم غفیر۔ ہر چند کہ بازار میں دنیا جہان کی تحفہ تحفہ چیزیں فروخت ہو رہی تھیں، میرے پاؤں خود بخود اس قصر کی طرف کھنچ گئے جس کے سامنے میلہ سا لگا ہوا تھا۔ تین طرف نہر،سامنے سے کھلا ہوا وہ چوک نہ تھا، نمونہ اور خزینۂ عجائبات تھا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ امیر جان کی سفید حویلی اور وہ باغ و سبزہ نظر آتے ہیں کہ نہیں۔ مگر وہاں تو دور تلک بازار ہی بازار تھا۔ سامنے نفیری اور شہنائی بج رہی تھی،ایک طرف مرغے لڑائے جا رہے تھے۔ ایک جانب ٹھیلے پر ٹھاٹر سا باندھ کر چڑیوں کے رہنے بسنے کے لیے کھوکھے اور چٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ طرح طرح کے پالتو پرند،لال،پدڑی،کوئل،بلبل،ہزار گلا،پیلک،سفید قمری،لال قمری، فاختہ، سرخ اور کالے رنگ کی مہوکی،اور نہ جانے کتنے انھیں کی طرح کے جانور،ان چلتے پھرتے بسیروں میں اور ان کے آس پاس اڑتے پھرتے تھے۔ لگتا ہی نہ تھا کہ انھیں جنگل سے پکڑ کر سدھایا گیا ہو گا۔
تانپورے پر سر سدھ رہے ہیں۔ گھونگھرو کی چھُن چھُن،چھُنا چھُن بھی دھیرے دھیرے سنائی دے جاتی ہے۔ فارسی عربی پڑھا ہوا ہونے کے بباعث مجھے شعر و شاعری سے تو تھوڑی بہت رغبت ایک زمانے میں ضرور تھی،پر گانے بجانے،رقص و غنا سے محض تماش بینوں اور شوقینوں والا رشتہ تھا۔ سریلی آوازسن کر کان متوجہ بے شک ہو جاتے تھے۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ایک بڑے سے لکڑی کے چبوترے پر فرش بچھا ہوا، اور اس کے اوپر پال کی چھت،چاروں طرف گجروں اور پھول ہا رکا جوش۔ سارا ماحول روشنیوں سے جھل جھلاولا ہو رہا تھا۔ لکڑی کے چبوترے پر ایک بارہ چودہ برس کے سن کی لعبت کافر و مومن فریب جلو ریزی حسن و غنا کے لیے تیار ہو رہی ہے ؎
وہ کافر حسن پر تھی اپنے مغرور
سراپا مثل برق شعلۂ طور
بھرا سینے میں جوش نوجوانی
زباں مصروف لفظ لن ترانی
قد موزوں سراپا نور میں غرق
برنگ مصر ع برجستۂ برق
عیاں ہر عضو سے شان قیامت
سراپا جان و ایمان قیامت
دم رفتار گرتا ہے قدم پر
بجائے سایہ رنگ روئے محشر
وہ کافر زلف یا دود جگر ہے
دل زاہد سے بھی تاریک تر ہے
غضب ہے جا کے پھر آنا ادھر کا
اثر ہے زلف میں تار نظر کا
وہ پیشانی کہ جس کا بدر مشتاق
درخشاں کوکب اقبال عشاق
ہمیشہ دیکھ کر شام و سحر کو
ہے لی ساجدیں شمس و قمر کو
ہرا ک ابرو ہے تیغ خوش نظارہ
سراپا جوہر مو ج اشارہ
دم جنبش ادا اس فتنہ گر کی
مبارک باد ہے زخم جگر کی
خمار آلودگی آنکھوں سے پیدا
نظر سے کیف مستانہ ہویدا
نگاہ مست پھرتی ہے جدھر کو
غشی آتی ہے مایوس نظر کو
وہ مژگاں وقت آرائش کریں گھر
دل آئینہ میں مانند جوہر
کنار بام وہ رخسارۂ پر نور
نظر آتے تھے جیسے شعلۂ طور
یہی کہتا ہے ہر مشتاق مضطر
سوا نیزے پہ ہے خورشید محشر
دہن گرداب صہبائے معانی
زباں موج شراب لن ترانی
تبسم بن کے ہر لب سے ہویدا
تقاضا شوخی طبع جواں کا
زنخداں جلوہ گر مانند گرداب
برنگ آب گوہر خشک و سیراب
صفت گردن کی افزوں حوصلے سے
وہی جانے جو لگ جائے گلے سے
ہر اک شانہ برنگ دستۂ گل
زیارت گاہ صبح عید بلبل
عیاں سینے سے آغاز جوانی
نمو پستاں کی غماز جوانی
نزاکت سے عجب عالم کمر کا
گماں سب کو رگ تار نظر کا
کسی صورت نظر آتی نہیں صاف
مگر ہے خلق کو میم کمر ناف
ہر اک زانو طرب انگیز عشاق
بظاہر جفت خوبی میں مگر طاق
نمایاں پائچے سے ساق پر نور
تہ فانوس جیسے شمع کافور
بہار حسن ہے جوش صفا سے
عیاں رنگ حنا ہے پشت پا سے
(نوشیرواں نامہ، جلد اول، از شیخ تصدق حسین،ص852 تا952)
اس کے بعد مجھے خبر نہ لگی کہ اس قاتل عالم کی جلوہ گری کب تک رہی،اس نے کیا گایا اور کیا ناچا۔ اگر ننگل خورد نہ ہوتا اور میرے بیوی بچے نہ ہوتے۔ ۔ ۔
مجھے جھر جھری سی آئی۔ آنکھ سی کھل گئی۔ کیا وہ صحبت خواب تھی؟ نہیں، ابھی لوگ پہلے ہی کی طرح آ جا رہے تھے،تماشبین بھی کئی موجود تھے۔ ایک طرف تیغ زن اپنے فن کی نمائش کر رہے تھے،ایک طرف ریچھ والا اپنے ریچھ اور اس کے بچے کے ساتھ مجمع لگا رہا تھا۔ حسینوں اور معشوقوں کا جوش حسب دستور تھا۔ مجھے اب چلنا چاہیے۔ کل صبح تک متعین کرنا ہے کہ دہلی میں رہوں یا گاؤں واپس جا کر زر اندوختہ کو کسی کارو بار میں لگاؤں۔
مگر واپسی کس طرح اور کدھر سے ہو؟یہاں تو سارے کارخانے جناتی سے لگتے تھے۔ کیا مجھے قدرت خد اسے کسی نئے شہر میں پہنچا دیا گیا ہے اور مجھے اب یہیں رہنا ہے؟پھر میرے گھر بار بیوی بچوں، بوڑھی ماں، ان سب کا کیا ہو گا؟پر یہ شہر نیا شہر ہے کہ کچھ اور؟اگر نیا شہر ہے تو میں امیر جان کی قبر میں داخل ہو کر یہاں کیونکر پہنچا؟اور امیر جان کی حویلی کے بالا خانے سے جو شہر مجھے دستا تھا وہ تو دہلی ہی تھا۔ ۔ ۔ قطب صاحب کی لاٹھ اور کہیں تو ہے نہیں۔ مانا جو ندی میں نے دیکھی وہ جمنا نہ تھی،مگر وہ لاٹھ تو قطب صاحب ہی کی تھی۔ کیا پتہ قدرت کے کارخانے میں کہیں کوئی اور قطب صاحب بھی ہوں، ان کی لاٹھ بھی ہو،بس وہ سلاطین و حاکمان نہ ہوں جو دہلی میں ہو گذرے تھے۔ تو امیر جان مجھے کیونکے ملیں ؟اور یہاں کیونکے ملیں ؟کیا امیر جان بھی ایک سے زیادہ تھیں اور جو یہاں مریں وہ کوئی اور تھیں ؟
بات سمجھ میں کچھ نہ آتی تھی۔ میرا سر چکرا نے لگا۔ میں نے گھبرا ادھر ادھر نگاہ کی۔ کوئی برف والا، قفلی والا یا کوئی عطار ملے تو مداوا اپنی گردش سر کا کروں۔ مگر دائیں بائیں جلد جلد سر گھمانے سے گھوم اور بھی فزوں ہوئی۔ میں چرخ کھا کر گرا اور بیہوش ہو گیا۔
پتہ نہیں میں کب تک بیہوش رہا۔ مجھے تو لگا کہ فوراً ہی طبیعت بحال آ گئی ہے،مگر جب آنکھ کھلی تو وہ میلہ نہ تھا۔ امیر جان کی قبر کے چور دروازے کو جاتی ہوئی روش البتہ صاف دستی تھی۔ میں سر پٹ روش پر دوڑا کہ کہیں حال پھر دگر گوں نہ ہو جائے۔ بہت جلد زینے طے کر کے میں چور دروازے سے باہر آگیا۔ میں نے دیکھا تو نہیں، مگر مجھے لگا کہ دروازہ بند ہو گیا اور وہ روشنیاں بھی غائب ہو گئیں۔ کچھ دورپرسید بھورے شاہ صاحب یا شاید بابا نظام الدین سلطان جی صاحب کی چوکھٹ پر بہت اونچائی پر ایک دیا البتہ روشن تھا۔ شام ہو رہی تھی۔
٭٭٭
شام،نہیں۔ ۔ ۔ بالکل نہیں۔ ۔ ۔ شام کا کوئی محل نہ تھا۔ میں اس قبر ( جو بھی اسے کہیں )کے اندر بہت سے بہت دو یا ڈھائی ساعت رہا تھا اور جب داخل ہوا تھا تو زیادہ سے چار گھڑی دن چڑھا تھا۔ ظہر کا وقت بھی دور تھا،مغرب کا کیا سوال تھا۔ میں نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔ سارے قبرستان میں جھاڑیوں، جھنڈیوں، خار دار جھڑ بیریوں، برّوؤں اور مہندی کے گھنے جھنڈ سے ڈھکے ہوئے قطعات زمین کے سوا کچھ نہ نظر آتا تھا۔ قبریں سب نابود ہو چکی تھیں یا اگر تھیں تو جھاڑ اور جھاڑیوں تلے دب کر غائب ہو چکی تھیں۔ میں نے سرا سیمہ ہو کر امیر جان کی قبر کی طرف دیکھا۔ مگر وہاں تو کوئی قبر نہ تھی۔ مانا کہ ان کے مزار کی لوح بہت اونچی نہ تھی۔ لیکن دکھائی تو دیتی تھی۔ اب تو یہاں کچھ بھی نہ تھا۔ اور وہ سلطان جی کے نام پر لگائی ہوئی وہ سبیل اور اس سے ملحق کنواں کدھر تھا؟یہیں بس یہیں تو تھا۔ اسی سبیل سے میں نے امیر جان کی قبر کی شناخت کی تھی۔
میں نے گھبرا کر اندھا دھند بھاگنا شروع کیا لیکن صاف راستہ کیا،تنگ جادہ بھی نہ دکھائی دیتا تھا۔ اور اگر کہیں افراتفری میں پاؤں میرا کنویں میں جا رہا تو۔ ۔ ۔ میں رک گیا،جیسے کسی نے بھاگتے گھوڑے کی راس کھینچ لی ہو۔ مگر یہاں سے باہر تو نکلنا ہی تھا۔ کیا رات یہیں گذاروں گا اور خدا جانے کن کن طرح کی بلاؤں اور عفریتوں اور جناتوں کا شکار بن جاؤں گا۔ میں نے جی کڑا کر کے پھیر اپنے گرد و پیش دیکھا۔ وہ کنواں تو اب ہرگز وہاں نہ تھا۔ شاید اس کا پانی ٹوٹ گیا ہو تو کسی نے بند کرا دیا ہو۔ م۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ مگر اتنی جلدی کک۔ ۔ ۔ کیسے سوکھ گیا ہو گا آج صبح ہی کی تو بات ہے کہ میں کنویں میں۔ ۔ ۔ نہیں نہیں۔ ۔ ۔ قبر میں اترا تھا۔ ۔ ۔ نہ جانے کون سی منحوس گھڑی تھی وہ جب میں نے۔ ۔ ۔ میں نے۔ ۔ ۔ کیا؟میں نے تو کچھ بھی نہ کیا تھا۔ میں نہ دنیا میں پہلا احدی تھا اور نہ پہلا شخص بیٹی بیاہنی کا جو باپ ہو۔ کیا بیٹی کو بیاہنے کے لیے قرضہ لینا کچھ گناہ ہے؟
میں نے پھونک پھونک کر دیکھ بھال کر قدم رکھنا شروع کیا۔ جس اونچی روشنی کا ذکر میں نے کیا ہے کہ قبر۔ ۔ ۔ قبر سے باہر آ کر جسے میں نے دیکھا تھا،اسے خوب دھیان میں رکھ کراس کی طرف چلنے لگا۔ چلنے کیا لگا،کہیں خود کو کھینچ کر آگے بڑھاتا،کہیں دونوں ہاتھوں پر پگڑی لپیٹ کر اپنے ہاتھوں سے خار زاروں میں راستہ بناتا،کہیں بلا مبالغہ چاروں ہاتھ پاؤں کے بھل،سر اور منھ کو چھپا کر بس انداز لگا کر آگے بڑھتا۔ ان خار زاروں بلکہ جہنم زاروں میں بچھو تو کیا ہوں گے لیکن زہریلے گرگٹوں اور سانپوں کا ڈربے شک تھا۔ پر میں تو تقدیر اپنی پہلے ہی ٹھونک چکاتا تھا۔ سانپ سے ڈسوانا آپ کو منظور تھا مگر اس قبرستان میں بلکہ اس کے محاظ میں بھی ٹھہرنا منظور نہ تھا۔
بارے میں باہر آیا۔ اندھیرا خوب پھیل چکا تھا۔ اب جب میں مسطح زمین پر تھا تو وہ روشنی کچھ اور واضح دکھائی پڑتی تھی۔ سیدی مولیٰ صاحب کا مزار کہیں درختوں کے پیچھو چھپا ہوا تھا۔ میں نے اسی روشنی کو مشعل راہ بنا کر بڑھنا شروع کیا۔ حضرت سلطان الاولیا کی درگاہ اور سیدی مولیٰ صاحب کے مزار کے بیچ میں صرف بھورے شاہ صاحب تھے اور باقی سب جنگل تھا۔ بھورے شاہ صاحب کی بھی ایک جھلک اب دکھائی دی۔ اکا دکا چراغ روشن تھے مگر وہ اونچی روشنی ابھی دور تھی۔ جنگل میں پہلے ایک پگڈنڈی ان دونوں کو ملاتی تھی پر اب کچھ سڑک سی بن گئی تھی۔ اکا دکا مزار اور دروازے بھی نظر آتے تھے۔ پہلے،پہلے کیا معنی؟کیا میں یہاں بہت دیر کے بعد آیا ہوں ؟
سلطان جی صاحب کا دروازہ سامنے تھا۔ بلند روشنی کی کرنوں نے درگاہ کی چوکھٹ کو منور کر دیا تھا۔ لوگ آ جا رہے تھے۔ بہت سے لوگ مغرب کی نماز پڑھ کر حضرت امیر خسرو کی درگاہ پر قوالیاں سن رہے تھے۔ کچھ تو فارسی میں قوالیاں تھیں اور کچھ کسی ایسی زبان میں تھیں جسے میں ہندی کے طور پر سمجھ لیتا تھا لیکن مجھے لگا کہ میں اسے بول نہیں سکتا۔ مگر یہ ملک تو ہند ہی ہے،یہ شہر تو دہلی ہی ہے۔ ۔ ۔ اچھا ان لوگوں کے لباس بھی کچھ مختلف تھے۔ بڑی مہری کے دو بر کا پائجامہ، سر پر پگڑی،لیکن بدن پر کرتے کے اوپر کوئی لباس تھا جس کی آستینیں آدھی تھیں اور کچھ کی آستینیں پوری تو تھیں لیکن اوپر سے لمبائی میں آدھی کٹی ہوئی تھیں۔ ہم لوگوں کے برخلاف ان کے کرتے رنگین پھولدار اور پائجامے رنگین دھاریوں والے کپڑوں کے تھے۔ میں نے غور کیا تو کپڑے نہ سوتی تھے نہ ریشمی،کچھ ملواں بناوٹ کے تھے۔ مجھے وہ کپڑے خوبصورت مگر عجیب لگے کیوں کہ ہم لوگوں میں مرد ہمیشہ رنگین لیکن بھاری رنگوں والے ماشی،سیاہی مائل سبز،مونگیا،تیلیا رنگ کے کرتے پائجامے پہنتے تھے۔ ہاں پگڑیاں ہماری طرح ان لوگوں میں سے کسی کی سیاہ،کسی کی سفید،اور زیادہ تر لوگوں کی رنگین دھاری دار تھیں۔
میں ہونقوں کی طرح درگاہ فلک اشتباہ کے سامنے کھڑا ایک ایک کا منھ تک رہا تھا۔ کچھ لوگوں نے شاید میرے لباس یا میر ی صورت کو اجنبی جان کر کبھی کبھی کنکھیوں سے مجھے دیکھا۔ شاید ایک دو ایسے بھی تھے جو ٹھٹکے،لیکن ٹھہرا کوئی نہیں۔ آخر میں نے ہمت کر کے ایک شخص کو بھلا آدمی جان کر سلام کے اشارے سے روکا:
"اے صاحب،ذرا ایک بات بتائیے گا۔ ”
اجنبی شخص مجھے غور سے دیکھتا ہوا ٹھہر گیا۔ میں کوئی سائل تو ہو نہ سکتاتھا،مسافر ممکن تھا۔ اس نے نرم لہجے میں کہا:
"جی،فرمائیے۔ کیا خدمت کرسکتا ہوں ؟”
اس کے لہجے میں ایک لوچ اور شیرینی تھی۔ آواز کے اتار چڑھاؤ میں جلدی یا رعونت کا شائبہ تھا۔ ان کے مقابلے میں مجھے میرا ہریانی لہجہ اکھڑ اور کرخت سا لگا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں ان لوگوں کی طرح کی ہندی نہ بول سکوں گا۔ گڑبڑا کر میں نے فارسی میں کہا:
"آقائے من۔ ایں شہر دہلی می باشد،یا نہ؟”مجھے اپنی فارسی اپنی ہندی سے بہتر لگی۔
اجنبی نے خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا:
"چہ خوش گفتید آقائے من سلامت۔ ایں شہر البتہ دہلی می باشد۔ گمان تاں چیست؟”
"مگر۔ ۔ ۔ مگر ایں ہمہ چنداں متلون است از آں دہلی کہ ما می شناختیم۔ ”
"قربان شما،آغا پس از چند مدت تشریف ایں جا آوردہ باشید؟”
میں اس کے جواب میں کیا کہتا۔ مجھے گھبراہٹ اور خلفشار ذہن کے بباعث بڑے زور کا چکر آیا اور پھر میں دوبارہ ہوش کھو بیٹھا۔
جب مجھے ہوش آیا تو میں اپنے اجنبی محسن کے گھرکے باہری دالان میں لیٹا ہوا تھا۔ حکیم صاحب آ کے مجھے لخلخہ سنگھا کے اور کوئی مفرح دوا میرے منھ میں ڈال کے جا چکے تھے۔ دوا کا ذائقہ اب بھی میرے منھ میں تھا۔ تشخیص یہ تھی کہ ضعف معدہ اور ایک مدت سے بلا خورد و نوش رہنے کی وجہ سے نفخ بخارات معدے سے قلب کی جانب ہوا جس کی بنا پر فشار قلب نے دماغ کو متاثر کر دیا،ورنہ مجھے صرع یا اس جیسا کوئی موذی مرض نہ تھا۔ میں خوش ہوا کہ مجھے اپنی اصلیت بتانے کی ضرورت بھی نہ پڑی تھی۔ میرے اجنبی محسن نے،جن کا نام مجھے معلوم ہوا کہ حمید الدین تھا۔ گمان کیا کہ میں مسافر تھا۔ دہلی سے دور ترین جگہ جو مجھے معلوم تھی وہ ملک سند میں ایک قصبہ عیسیٰ خیل تھا۔ پس میں نے یہی بتا یا کہ میں عیسیٰ خیل میں ایک رئیس کے دروازے پر سپاہی تھا۔ اپنے حالات کی بہتری کی تلا ش میں دہلی کل ہی آیا تھا۔ راستہ بھول جانے کی وجہ سے اور خلفشار ذہنی کی وجہ سے میں اپنی سراے واپس نہ جاسکتا تھا اور رہبری کی تلاش میں تھا کہ اپنے مستقر پر پہنچ جاؤں۔
حمید الدین نے گمان کیا کہ مزار سلطان جی پر میری اوٹ پٹانگ باتیں دراصل میری پریشانی اور گم کردہ راہی کے بہ سبب تھیں۔ لہجے کا اختلاف اور فارسی گفتگو میں میری روانی کی وجہ بھی یہی تھی کہ میں سند کا تھا اور پورب پہلی بار آیا تھا۔ لیکن دیر سے معدہ میرا خالی تھا،اس کا کیا مطلب ہو سکتا تھا،اس نے تعجب کیا ہو۔ اس سے زیادہ تعجب تو مجھے تھا۔ آخر صرف آج صبح ہی میں نے کچھ نہ کھایا تھا اور امیر جان سے ملنے چل کھڑا ہوا تھا۔ ان کے مزار میں (شاید وہ مزار تھا یا کچھ اور)مجھے بمشکل دو ڈھائی ساعتیں لگی تھیں۔ ایسے شخص کو کئی دن کا تو بھوکا نہ کہہ سکے ہیں۔
میری پہلی مشکل یہ تھی کہ اس معاملے کا تصفیہ کیونکے ہو کہ میں دہلی میں تو تھا لیکن وہ دہلی اجنبی میرے لیے بڑی حد تک تھی۔ ایسا کیوں ؟یہ آسان لگا کہ حمید الدین سے سلسلۂ گفتگو یوں چھیڑوں کہ میرا راز نہ کھلے کہ میں در حقیقت کہاں کا تھا اور یہ مجھ پر کھل جائے کہ کیفیت اس وقت دہلی شہر کی کیا ہے۔ شکر اللہ کا کہ میرا یہ کہنا کہ میں عیسیٰ خیل میں دروازے کا سپاہی تھا،میرے لیے آسانی بھی پیدا کر گیا۔ حمید الدین نے جواب میں کہا:
"بہت خوب تو جناب ایک طرح سے ہم پیشہ میرے ہیں۔ ”
"جی وہ کیوں کر؟”
"میں بھی گھڑ سوا رسپاہی ہوں، خان دوراں عبدالصمد خان صاحب کی ڈیوڑھی پر متعین ہوں۔ ”
"ڈیوڑھی”،یہ لفظ میرے لیے نیا تھا لیکن”خان دوراں "سے تو میں خوب واقف تھا۔
"تو کیا اسد خان بن مبارک خان اب خان دورانی سے ہٹ گئے؟ ”
"اسد خان بن مبارک خان؟یہ خان دوراں کب تھے،مجھے نہیں معلوم۔ عبد الصمد خان تو عہد فردوس آرام گاہ محمد شاہ بادشاہ غازی کے وقتوں سے خان دوراں ہیں۔ ”
میرا سر پھر چکرانے لگا۔ میں نے خود کو بہت قابو میں کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا:
"تو کیا خداوند عالم ابراہیم لودی اب سلطان دہلی نہیں ہیں ؟”
ایک شکن گہری حمید الدین کے ماتھے پر آئی۔ وہ کچھ توقف کے بعد بولے:
"آپ شاید کچھ بھولتے ہیں صاحب۔ ابراہیم لودی نام کا بادشاہ تو یہاں کبھی نہیں ہوا۔ ۔ ۔ ہاں بابر بادشاہ نے ایک سلطان ابراہیم لودی کو شکست دے کر ملک ہند اس سے بزور شمشیر لے لیا تھا۔ ابراہیم لودی پانی پت میں مدفون ہے۔ ”
یک مرتبہ میری آنکھوں کے سامنے پھیر گہرا اندھیرا چھا گیا۔ ابراہیم لودی میرے خداوند عالم، میرے سلطان عالی مقام مدفون ہیں پانی پت میں ؟اور یہ شاہ و بادشاہ کا کیا مذکور ہے؟ہمارے حاکمان خود کو سلطان ہمیشہ کہتے اور لکھتے تھے۔
میرے رنگ کو متغیر دیکھ کر حمید الدین نے کہا:
"جناب کا مزاج ابھی بھی برہم نظر آتا ہے۔ میری سمجھ میں تو آپ کچھ تناول فرما لیں اور یہیں لیٹ رہیں۔ کیا فرمایا تھا جناب نے،فیروز شاہی سرائے؟اس نام کی سرائے سے بندہ واقف نہیں ہے۔ لیکن ایک عرب سرائے کچھ فاصلے پر خواجہ صاحب سے متصل ہے۔ وہ مگر اب محلۂ اقامت ہے،سرائے نہیں۔ ممکن ہے وہاں کچھ معلوم ہو جائے۔ کل وہاں جا کر دیکھیں گے۔ ”
"جہاں ہم ہیں اس جگہ کا نام کیا فرمایا تھا آپ نے مشفق من؟”
"جی یہ بدر پور کے مضافات میں کھڑکی گاؤں ہے۔ یہاں کی مسجد کا ذکر آپ نے سنا ہو شاید۔ ”
"کھڑکی!”میرا دل بلیوں اچھلا۔ یہ جگہ تو میرے زمانے میں شہر سے بالکل باہر تھی۔ اور لاٹ فیروز شاہ کی اور کوٹلہ فیروز شاہ کا یہاں سے بہت دور تھے۔ اب میرا یہ بہانہ کہ میں راہ بھول گیا تھا،اور قوی معلوم ہو گا۔ مگر شکر خدا کہ اس وقت کی چیزیں بہت سی باقی ہیں۔ شاید فیروز شاہی سرا بھی تغلق آباد اور بدر پور کی سرحد پر ابھی باقی ہو۔ مگر میرے سلطان ابراہیم سے لے کر اب تک زمانہ کتنا گذر چکا ہے یہ کیسے معلوم ہو؟جب میں گھر سے چلا تھا تو سنہ928 تھا،اب کس اٹکل سے معلوم کروں کہ یہ کون سا سنہ ہے؟ابھی چپ ہی رہنا بہتر ہے میں زبان اور ذہن پر پوری طرح قابو رکھے رہوں، اسی میں بہتری ہے۔ کل تک کچھ نہ کچھ کھل جائے گا۔ کیا معلوم وہ سرائے بھی اب بھی وہیں ہو؟
اللہ حمید الدین کا بھلا کرے،ان کے اصرار پر میں چند لقمے کھائے اور وہیں باہری دالان میں لیٹ رہا۔ میں نے انھیں راضی کر لیا کہ کل دن چڑھتے ہی میں ایک گھوڑا کرائے پر لے کر دہلی چلا جاؤں گا(نہ جانے اس بچارے گھوڑے پر کیا بیتی جسے میں قبرستان کے باہر چھوڑا تھا۔ کوئی لے ہی گیا ہو گا۔ اس سرائے والے کو شکایت رہ گئی ہو گی جس سے میں نے گھوڑا کرائے پر لیا تھا۔ )حمید الدین کو میں نے پوری طرح یقین دلایا کہ اب ملاقات ہو گئی ہے تو انشا اللہ قائم رہے گی۔ میں کل تنہا ہی دہلی چلا جاؤں گا۔
گھوڑا میں نے کرائے پر لے تو لیا پر یہ خدشہ مجھے کھائے جا رہا تھا کہ بچارے اس بے زبان کا بھی وہی حشر نہ ہو جو کل والے گھوڑے کا ہوا تھا۔ میں جان بوجھ کر سیدی مولیٰ صاحب کے مزار اور اس قبرستان سے ہو کر گذرا جہاں کل والا واقعہ پیش آیا تھا۔ مزار کے چاروں طرف کچھ آبادانی تھی،بظاہر کچھ خانہ بدوشوں نے کبھی وہاں مسکن بنایا تھا اور وہیں رہ پڑے تھے۔ ساری آبادی پر خانہ بدوشوں کے طرز حیات کے علامات تھے۔ عورتیں بے پردہ،کم و بیش آدھا جسم عریاں، اونچا لہنگا اور اس پر ایک ہلکی سی چادر جس کے پیچھے بدن صاف نظر آتا تھا۔ ننگے سر،ننگے پاؤں، کانوں اور ناک میں بڑے بڑے بالے اور نتھ۔ گھر کا سارا کام کاج کرتی ہوئی،مرد چارپائی پر اینڈتے ہوئے اور کسی قسم کی نالی کو ایک بند پیالے میں ڈالے ہوئے نالی کو منھ میں لے کر گڑگڑاتے اور دھواں چھوڑتے ہوئے،توبہ کیا قبیح حرکت تھی۔ مگر سامنے کے قبرستان میں کوئی قبر،کوئی مزار،کوئی مجاور نہ تھا۔ میرا دل کانپ اٹھا۔ کل میں یہیں تھا۔ یہ کون سی جگہ ہے میرے اللہ۔ کیا امیر جان نامی کوئی تھی بھی کہ نہیں ؟کیا خود میں ہوں کہ نہیں ؟کیا میں کوئی بھوت یا آوارہ بے خانماں روح ہوں ؟مگر ہم مسلمانوں کو بھوت پر اعتقاد ہے نہ بے خانماں روحوں پر۔ ہمارا اعتقاد قبر پر،برزخ پر، جنت اور جہنم پر ہے اور حشر پر ہے۔ ہم میں سے کوئی کبھی بھوت پریت شیطان بد روح نہیں بنتا۔ لاحول ولا قوۃ۔ اللہ مجھے معاف کرے۔ اس وقت جو ہو رہا ہے شایدکسی بزرگ کا تصرف ہے۔ مجھے صبر کرنا اور حالات کے کھلنے کا امیدوار رہنا چاہیے۔
غیاث پور،سیری،کیلوکھیڑی،یہ سب بڑی حد تک سنسان دکھائی دیے۔ سلطان جی کی درگاہ کے ذرا آگے بھورے شاہ صاحب کے مزار کے قریب لیکن ایک طرف کو ہٹی ہوئی میں نے ایک بے حد بلند اور دلکش عمارت دیکھی،سنگ مرمر اور سرخ پتھر سے بنی ہوئی،اس کا گنبد کچھ بالکل نئی وضع کا تھا،ذرا سا پیاز کی شکل کا،لیکن اس قدر متناسب اور موزوں کہ بس۔ چونکہ وہ عمارت ذرا مرتفع جگہ پر تھی اس لیے دور سے بھی مجھے دکھائی دے گئی۔ کئی منزلیں اور چو رویہ دالان تھے،بہت بلند کرسی اور ہر طرف وسیع اور پر فضا باغ۔ سارے میں عجب فرحت اور ٹھنڈک برس رہی تھی۔ یہ کوئی قلعہ یا قصر تو ہو نہیں سکتا تھا،کسی کا مزار ہی ہو گا مگر مزاروں کے گرد ایسے باغ کہاں ہوتے ہیں۔ خوش نصیب ہے وہ شخص جس نے ایسی اولاد پیدا کی۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مقبرہ اول مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے بیٹے ہمایوں کا تھا اور اس کے کئی اخلاف بھی وہیں مدفون ہیں۔
بی بی فاطمہ سام کے مزار سے میں نے گھوڑا دائیں جانب بڑھایا۔ زیادہ تر وہی رنگ بے رونقی تھا جو پہلے دیکھ آیا تھا۔ ہر چند کہ میرے زمانے میں وہ شان پرانے شہروں کی نہ تھی جو اس وقت رہی ہو گی جب کہ سلاطین ان کے نے ان کی بنا ڈالی تھی۔ تاہم آج جیسا صحرائی ماحول نہ تھا۔ اب تو ایسا لگتا تھا کہ جنگل دھیرے دھیرے کر اپنی گذشتہ املاک واپس لے آیا ہو۔ مٹکا شاہ صاحب کے مزار پر سبیل ضرور یوں ہی تھی جیسی ان وقتوں میں تھی مگر اس کے گرد جو آبادیاں اس وقت تھیں اب بہت چھدرا گئی تھیں۔ شاید خواجہ صاحب کو جانے والوں نے یہ راہ چھوڑ کر کو ئی نئی راہ بنا لی تھی۔ مگر قلعۂ کہنہ سے گذرتے وقت میں بے اختیار رو دیا۔ قلعۂ مبارک کا بڑا حصہ کھنڈر ہو گیا تھا۔ وہ باب عالی جہاں حاضر ی کے وقت شاہوں اور بڑے بڑے فوجی عہدہ داروں اور راجاؤں کے قدم لرزتے تھے،جہاں انھیں پانچ سو قدم پہلے ہی سوار ی چھوڑ کر پا پیادہ ہونا پڑتا تھا،جہاں سے وہ فرمان جاری ہوتے تھے جن کے دبدبے سے ارباب اقتدار کی حویلیوں میں رعشہ پڑ جاتا تھا اب چند جھونپڑیوں سے دبا ہوا پڑا تھا۔ جہاں محلات تھے وہاں کھلا میدان تھا اور اونچے نیچے ٹیلے تھے۔ گھانس ہر طرف اگ رہی تھی۔ اونچی گھانس میں کبھی کبھی کوئی خرگوش،کوئی لومڑی،کوئی چیتل جھلک پڑتا اور غائب ہو جاتا اور دیکھنے والے کوشک رہتا کہ وہ حیوان اس نے واقعی دیکھے بھی تھے کہ اس کی چشم خیال نے اسے بھرمایا تھا۔
میں دیر تک کھڑا آنسو بہاتا رہا،عربی شاعروں کی طرح جو اپنے قصائد میں ذکر کرتے ہیں دوبارہ گذرنے کا ان صحرائی فرود گاہوں پر سے جہاں ان کے معشوق نے کبھی رات قیام کیا تھا اور اب وہاں ایک دو ادھ جلی لکڑیوں، ٹوٹی ہوئی طنابوں، ہوا میں پھٹ پھٹاتے ہوئے بوسیدہ اور موسم خوردہ خیموں کے پھٹے ہوئے سراپردوں کے سوا اب کچھ نہ تھا۔ ہائے ہائے انسان کس قدر ضعیف البنیاد ہے۔
اب مجھے یقین آنے لگا تھا کہ میرے سلاطین، میرے مربی،میرے آقا،اب مملکت ہند کے مالک نہ تھے۔ اب وہ کہاں تھے،شاید قبروں میں آرام کرنا بھی انھیں نصیب ہوا کہ نہیں۔ میرے سامنے خداوند عالم سلطان ابن سلطان ابراہیم لودی اپنے عظیم الشان باپ کا مقبرہ مکمل کر نے کا حکم صادر فرما چکے تھے۔ کام بھی شروع ہو گیا تھا۔ یہیں کہیں سلطان جی کی درگاہ جنت نگاہ سے مغرب کو گوڑ گاؤں کی طرف جو راہ جاتی تھی،اس پر کوئی نیم فرسخ کی دوری پر وہ مقابر بن رہے تھے۔ لیکن اب تو خود سلطان ابراہیم کا مزار دور پانی پت میں کہیں تھا۔ نہ معلوم لودیوں کے مزارات پورے ہو بھی سکے تھے یا نہیں۔
قلعۂ کہنہ کے آگے آبادی بڑھنی شروع ہوئی۔ فیروز شاہ کے کوٹلے تک آئیے تو شہر کا سا سماں بننے لگتا تھا۔ لیکن خود کوٹلہ پر کچھ نہ تھا۔ بس وہی لاٹ جو سلطان خلد آشیان نے کس جتن سے اور کس جر ثقیلی حکمت سے کام لیتے ہوئے دور پنجاب سے اٹھوا کر یہاں نصب کی تھی،یوں ہی اپنے اونچے چبوترے پر فخر اور وقار کے ساتھ سر افراز کھڑی تھی۔ اب اطراف کوٹلہ میں آبادی اور بھی زیادہ ہو گئی تھی لیکن خود کوٹلہ سنسان پڑا تھا۔ میں نے کوٹلے سے کچھ آگے نکل کر گھوڑے کو دائیں جانب دریا کی طرف موڑا کہ فیروز آباد اسی طرف تھا۔
آبادی کے نام پر تو وہاں کچھ نہ تھا،چند جھونپڑے مچھیروں اور ملاحوں کے تھے۔ دریا بھی اب ذرا دور چلا گیا تھا اور اب گاؤں سے دکھائی نہ دیتا تھا۔ امیر جان کی حویلی بے وجود تھی،ہاں ایک دھنڈار سا ضرور آبادی کے سرے پر تھا،اسے ہی حویلی یا حویلی کا ماتم دار کہہ لیں تو کہہ لیں۔ اب میرا شک اور بھی پختہ ہو گیا کہ وہ زمانے اب کہیں بہت پیچھے چھوٹ گئے۔ میں نے اپنی ہمیانی کو ٹٹولا تو وہ بجنسہٖ موجود تھی،حاملہ عورت کی طرح سکوں سے بوجھل اور میری کمر سے لپٹی ہوئی، گویا اسے بھی خوف ہو کہ میں کہیں چلا جاؤں گا اور وہ دنیا میں اکیلی رہ جائے گی۔ پچھلے وہ زمانے تھے ضرور،نہیں تو یہ سکے میرے پاس کہاں سے آتے؟
میں نے گھوڑے کا رخ دریا سے متصل بائیں طرف سمت شمال میں موڑا کہ ادھر آبادی بہت نظر آتی تھی۔ ہر طرف سواریوں کی ریل پیل،بیل گاڑیاں، رتھ، دو پہیے ا ور ایک گھوڑے والی کھلی ہوئی گاڑیاں جن میں ایک یا دو یا تین مسافر پاؤں پھیلا کر آرام سے سفر کر رہے تھے۔ یہ سواریاں میرے وقت میں نہ تھیں اس لیے مجھے بہت دلچسپ اور انوکھی لگیں۔ کسی نے اسی وقت پکار ا "او میاں تانگے والے،او بھائی تانگے والے ہوت!”تو اس گاڑی کو ہانکنے والے نے مڑ کر دیکھا اور رک گیا۔ اس سے میں نے جانا کہ اسے "تانگہ” کہتے ہیں۔ عجب بد وضع لیکن ظاہرا آرام دہ سواری تھی۔ پالکیاں، سجے ہوئے زرق برق محافے،ہاتھی، اونٹ، کیا نہیں تھا جو اس بازار میں رواں تھا جس کی سمت میں بھی رواں تھا۔ تانگے کی طرح سواریوں کی شق میں ایک نئی چیز اور دکھائی پڑی کہ جس کا نام مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ نالکی تھا۔ نالکی کیا تھی،لکڑی کا ایک منقش، رنگین اور مزین بلند گنبد تھی جس کے دروازے کے اوپر ایک اور بھی اونچا چھجا تھا کہ اندر بیٹھنے والے کو دھوپ سے بچاؤ رہے اور اگر پردہ اٹھا دیا جائے تو ہوا بھی ملتی رہے۔ اور اگر بارش ہو تو چھینٹیں اندر نہ آئیں۔
جس بازار کی طرف ان سواروں اور سواریوں اور پا پیادہ چلنے والوں کو میں رواں دیکھ رہا تھا،اس کے بارے میں مجھے خیال سا تھا کہ جو پر رونق بازار میں نے امیر جان۔ ۔ ۔ امیر جان۔ ۔ ۔ یا جو بھی وہ ہستی تھی،اس کے مقبرے میں دیکھا تھا،وہ اس موجودہ بازار سے کچھ مشابہ تھا۔ مگر میں نے ادھر کا رخ نہ کیا اور ندی کا کنارہ کم و بیش تھام کر شمال کی سمت چلتا گیا کہ ادھر ہجوم کم تھا۔ بازاریوں میں، خواہ وہ لوطی بے فکرے رہے ہوں یا اہل حرفت،یا شرفا، میں نے سب کو ہتھیار بند دیکھا۔ شاید ان دنوں خلقت میں جنگجوئی کا ذوق افزوں تھا،یا شاید لوگ اس زمانے میں خود کو کم محفوظ سمجھتے تھے۔ مجھے یہ بھی اندیشہ تھا کہ کہیں ہجوم میں اگر کسی سے ٹکرا گیا یا گھوڑے کی ٹاپ کسی کو لگ گئی تو خواہی نخواہی جھگڑا ہو سکتا تھا۔ میں اجنبی اور سراسیمہ بے گھر مسافر ایسے کسی جنجال کے لیے تیار نہ تھا۔
شمال میں ذرا آگے ہی میں گیا تھا کہ ایک نہایت دلکش مسجد نظر آئی۔ اس شہر میں مسجدوں اور مزارات کی کثرت تھی۔ ہم لوگوں کے زمانے میں ایسا نہ تھا۔ مسجد کے دو مینارے قلم کے نیزوں کے مانند چھریرے اور بہت ہی بلند تھے۔ مسجد سے بالکل متصل ایک سرائے بھی تھی۔ سرائے کے دروازے پر اونٹ، گھوڑے،پالکیاں، خومچے والے، اس طرح کے بہت سے لوگ دکھائی دے رہے تھے۔ یعنی یہ سرا اب لگ آباد تھی اور میں یہاں ٹھہر سکتاتھا۔
میں مسجد کی عمارت کی طرف کھنچتا چلا گیا۔ صدر دروازے پر جو کتبہ تھا اس کے مطابق اس مسجد کا نام زینت المساجد تھا اور اسے محی الدین اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ غازی کی بیٹی زینت النسا بیگم نے 1119۔ ۔ ۔ ؟ 1119 میں ؟۔ ۔ ۔ بنوایا تھا۔ میں نے آنکھوں کو خوب رگڑ کر صاف کیا،پھر ہر طرح غور کر کے دیکھا،وہی تاریخ 1119 نظر آئی۔ واللہ ایسا اسرار مجھ پر نازل ہو،یہ نہیں ہو سکتا۔ ارے صاحب جب میں ننگل خورد سے چلا تھا تو سنہ 928 تھا مجھے اچھی طرح یاد ہے اور سلطان ابراہیم لودی کو فرمانروائی کرتے چار سال ہو رہے تھے۔ تو کیا یہ مسجد اس کے کوئی دو سو برس بعد بنی تھی؟تو کیا واقعی ابراہیم لودی ہی نہیں اور بھی بہت کچھ میرے ننگل خورد چھوڑنے سے لے کر اب تک ہو چکا تھا؟
میں لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے اندر گیا۔ صحن مسجد میں ایک طرف کسی کا مزار تھا۔ میں نے قریب جا کر لوح دیکھی تو معلوم ہوا کہ یہ اسی شہزادی زینت النسا بیگم کا مزار ہے اور وہ 1123 میں واصل بحق ہوئی تھی۔ مسجد پرانی معلوم ہوتی تھی۔ بیشک شہزادی زینت النسا کے وصال کو کچھ برس ہو چکے تھے۔ اس وقت بھلا کچھ نہیں تو سنہ1140ہو گا۔ شاید اور بھی زیادہ ہو۔ شاید یہ احمد شاہ بادشاہ جن کا نام حمید الدین نے لیا تھا بارہویں صدی میں نہیں تیرہویں میں ہوں۔
میں نے جوتے اتارے،حوض پر جا کر وضو کیا اور سجدے میں جا کر اللہ کے حضور میں خود کو متوجہ کر کے گڑگڑا کر کہنے لگا کہ الٰہ العالمین تو دانا اور بینا ہے تو رحمٰن اور رحیم ہے۔ اپنے حبیب کے صدقے ان کی پیاری بیٹی بی بی فاطمہ کے صدقے مجھے اس عذاب سے نجات دلا دے۔ میرے اللہ میری بیاہی بی بی کا میرے بیٹے کا کیا حال ہوا ہو گا میری ماں پر کیا گذری ہو گی۔ اگر تیری مرضی نہیں ہے تو مجھے ان سے نہ ملا،لیکن مجھے یہاں سے اٹھا لے۔
میں روتے روتے نڈھال ہو گیا۔ اس اثنا کئی لوگ میرے پاس سے گذرے لیکن شاید کسی کو مجھ سے دریافت حال کا ہواؤ نہ ہوا۔ ایک اچھی خاصی عمر کے روتے بلکتے مرد سے کون کچھ پوچھنے کی ہمت کرتا۔ بھلے لوگ ڈر گئے ہوں گے کہ خدا جانے یہ بادشاہ کا معتوب ہے یا غضب الٰہی کا شکار ہوا ہے۔
جب میرے آنسو تھمے تو دل میرا مجھے کچھ ہلکا لگا،خدا جانے کتنی دہائیوں بلکہ صدیوں کے بعد آج میں رویا تھا۔ میں نے حوض پر جا کر تجدید وضو کی اور دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ سے پھر دعا مانگی کہ مجھے صحیح راستہ ملے،میرا خوف کم ہو،مجھے میرے گھر بار کی خبر ملے۔ ۔ ۔ مگر دو سوادو سو برس کے بعد میرا گھر بار کہاں رہ گیا ہو گا؟نہ صحیح۔ مجھے پتہ تو لگے کہ اب وہاں کیا ہے،کون ہے،کچھ ہے بھی کہ نہیں ؟اللہ میرا جانتا ہے میں نے کچھ ایسا گناہ نہ کیا تھا کہ جس کی سزا مجھے یوں ملتی اور مسلسل ملتی۔ ۔ ۔ اب کے بعد میں کیا کروں۔ ۔ ۔ مجھے ایک طرح سے نئی زندگی ملی تھی۔ میں اس نئی زندگی کو گذارنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کروں۔ ۔ ۔ فقیری لے لوں کہ پھر سے گھر گھرہستی جماؤں۔ ہر چند کہ میری عمر ڈھائی سو برس سے متجاوز تھی لیکن اضمحلال قویٰ میں میرے مطلق نہ تھا۔ یا اگر تھا تو اتنا ہی جتنا کسی بوڑھا ہوتے ہوئے مرد کے ہاتھ پاؤں میں ہوتا ہے۔
آگے تو مجھے عبادات اور وظائف سے اتنا ہی شغف تھا جتنا کسی سپاہی پیشہ کو ہوتا ہے۔ کبھی کبھی اولیا اللہ کے دربار میں ضرور حاضر ہو جایا کرتا تھا ورنہ نماز جمعہ کا بھی اہتمام کچھ نہ کرتا تھا۔ لیکن اس وقت نماز اور دعا سے میرا دل کچھ ہلکا تو ہوا ہی تھا، مگر شاید ان عفت مآب شہزادی کی نیتوں اور اعمال نیک کی برکت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں کئی ارادے ڈال دیے جن کو قوۃ سے فعل میں لا کر میری اگلی زیست کا کچھ نقشہ مترتب ہو سکتا تھا۔ سب سے پہلے تو میں نے زینت النسا بیگم کی سرائے پر جا کر بھٹیارن اور اس کے مرد کے سامنے خود کو ملک سند سے آیا ہوا مسافر ظاہر کیا اور بتایا کہ میں تلاش معاش میں دہلی آیا ہوں، جب تک کوئی صورت نوکری کی نہ نکلے، میں سرائے ہی میں مقیم رہوں گا۔ انھوں نے میرا نام تو پوچھا لیکن جہاں سے آیا تھا وہاں کی تفصیل اور میرے اثاثے کے بارے میں کچھ نہ پوچھا۔ میں نے خود ہی بتا دیا کہ دہلی سے باہر وزیر آباد پر نہر کے پاس میں لٹ گیا تھا اور گذشتہ رات میں نے ایک دوست کے یہاں کھڑکی گاؤں میں گذاری تھی۔ اس کے آگے میں نے کچھ نہ کہا اور نہ ہی بھٹیاری نے میرا اعلام لکھوانے کے باب میں کوئی تعجیل ظاہر کی۔
میں نے کرایہ پوچھا تو معلوم ہوا کہ ڈیڑھ پیسہ روز کے حساب سے میں کئی دن قیام کر سکتا ہوں۔ کھانا جو مطلوب ہو گا پکا دیا جائے گا۔ اس کی قیمت الگ سے دینی ہو گی۔ سرائے سے کچھ دور پر دریا گنج میں کئی حمام تھے وہاں غسل و طہارت کا انتظام تھا۔
میرے پاس زر مقامی تو تھا نہیں۔ جب میں نے اپنے چھدام بھٹیاری کو دکھائے تو وہ خوف زدہ ہو کر بولی کہ میاں صاحب یہ جناتی سکے کہاں سے لائے،میں نے انھیں کبھی دیکھا نہیں اب چھونے سے ڈرتی ہوں۔ مجھے تو اس شہر اور اس زمانے کے پیسے درکا رہیں۔ میں نے بہتیری کوشش اسے سمجھا نے کی کہ جہاں سے میں آیا ہوں وہاں یہی سکے رائج ہیں۔ لیکن جب میں نے زیادہ زور دے کر اسی بات کو کہنا چاہا تو اس کے چہرے پر شک کے آثار پیدا ہوئے۔ شاید اسے خیال آیا ہو کہ میں کوئی ڈکیت تھا اور مجھے کسی پرانی حویلی میں گڑا خزانہ ہاتھ لگ گیا تھا۔
"میاں صاحب، میری مانو تو ان پیسوں کو کوتوالی میں لے جا کر دکھا ؤ۔ وہ پہچانیں گے کہ یہ کیا مال ہے اور اس کی قیمت کیا ہے۔ مجھے تو بالکل درکار نہیں۔ ”
اس کی آواز کچھ بلند ہوتے دیکھ کر بھٹیارا بھی ہماری طرف متوجہ ہوا تھا کہ ایک دو مسافروں کو بھی تجسس ہوا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ دہلی والے میرے زمانے میں بھی جھگڑے تماشے پر مجمع لگانے کے بہت شوقین تھے۔ اب شاید وہ ذوق اور بھی افزوں ہو گیا تھا۔ اس کے پہلے کہ میں کسی مجمعے کی توجہ میں آ جاتا،میں نے اپنے گلے کا کنٹھا اتار کر بھٹیارن کو دے دیا۔ اس میں کچھ دانے چاندی کے اور ایک دانہ سونے کا تھا۔ ایک آدھ دانہ شاید مرجان کا بھی رہا ہو،باقی رنگین شیشوں کے تھے۔ میں نے کہا:
"نیک بخت، اتنے کہ میں بازار جا کر اپنا کام ڈھونڈوں، تو یہ رکھ لے اور ایک کوٹھڑی پر تالا میرے نام کا ڈال دے۔ باقی حساب ہوتا رہے گا۔ ”
بھٹیارن کا مزاج کچھ ٹھنڈا پڑا اور میں اپنی دادی کو دعائیں دیتا ہوا کہ ہار یہ انھیں مرحومہ کا تھا اور میرے باپ نے مجھے میری شادی پر مجھے پنھایا تھا، سرائے کے باہر آگیا اور اسی راہ پر چل پڑاجس پر میں نے سواروں اور پیدلوں کو چلتے دیکھا تھا۔ بہت بلند اور بہت گراں جثہ دروازہ،جیسا کسی قلعے کے لیے مناسب ہوتا۔ دونوں طرف اونچی فصیل،لیکن زینت المساجد کی طرف سے آنے جانے والوں پر کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ دروازہ دہلی دروازہ کے نام سے موسوم تھا مگر اب بہت سے لوگ دہلی کے بجائے دلی کہنے لگے تھے۔ وجہ اس کی معلوم نہ ہوئی پر بعد میں میں نے سنا کہ یہاں کے ایک شاعر بقا صاحب نے ایک اور شاعر صاحب جن کا نام میر تھا،ہجو میں ان کی کہا تھا ؎
پگڑی اپنی سنبھالیے گا میر
اور بستی نہیں یہ دلی ہے
مجھے تو دہلی کی جگہ دلی نام بالکل پسند نہ آیا۔ ہمارے زمانے میں لوگ عموماً کہتے تھے دہلی جنت کی دہلیز ہے۔ کئی گنوار لوگ اور بھی اچھا کہتے کہ دہلی جنت کی دہری۔ لفظ دہری بمعنی دہلیز شاید علاقۂ بہار سے یہاں آیا تھا کہ دکن سے،مگر لوگ بولتے ضرور تھے۔ بازار کا نام معلوم ہوا کہ دریا گنج ہے۔ مساجد کے علاوہ بھی یہاں لوگوں کی آؤ جاؤ کے سامان بہت تھے۔ ایک بات میں نے یہ دیکھی کہ اس شہر میں اب تجارت اور سامان کی وہ کثرت تھی جس کا ہمارے وقتوں میں تصور محال تھا۔ ہر جگہ ہر طرح کا سامان خریدار کی آنکھ کو متوجہ کرتا تھا۔ کہتے تھے دنیا کا ہر سامان دریا گنج میں لے لو اور وہاں اگر نہ ملے تو چار قدم آگے چل کر جاؤ چاندنی چوک میں ملے گا ہی ملے گا۔ کیا شے تھی جس کے مشتری یہاں نہ تھے اور جس کے مشتریٰ بھی یہاں نہ تھے۔ ان میں سے کئی تو گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے آواز لگا لگا کر پکارتے تھے اور کئی نے اپنے نوکر باہر کھڑے کر رکھے تھے جو ہر آنے جانے والے،حتیٰ کہ پالکی سواروں کو بھی روکنے کی کوشش کر کے بتاتے کہ ان کے یہاں کون سا مال ملتا ہے۔ ہر طرح کے دکاندار نے اپنے مال کے موافق دلچسپ آوازیں وضع کر رکھ ی تھیں۔ مثال کے طور پر سوئی دھاگے پیچک والے یوں پکارتے تھے:
اے میاں یہ اصفہان کی سوئیاں ہیں آنکھوں میں کھبتیاں ہیں !
اے صاحب یہ لو ڈھاکے والی ململ کا دھاگا، جس کو چاہو کچے دھاگے میں باندھ لو۔ چاہو کرتا شلوار سلوا لو!
بھائی میاں ذرا دیکھتے جائیو یہ ملک یمن کے ریشمی دھاگے ہیں، ان سے بنتے حضرت سلیمان کے راگے ہیں !
اے جی صاحب ان سوئیوں میں تلواروں کا لویا ہے،ان سے ہم نے موتیوں کو پرویا ہے!
عجب لطف کا سماں تھا۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے تاجر بھی اور رنگ رنگ کے لباس وضع قطع والے خریدار بھی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ صراف یہاں بے شمار تھے۔ قدم قدم پر ان کی دکانیں، اور کئی تو یوں ہی سر راہ دری بچھا کر اپنی تمام ملکیت کی نمائش کرتے تھے۔ میں نے جگہ جگہ رک کر بغور لیکن خود کو نمودار کیے بغیر دیکھا کہ مال کیا ہے اور گاہک کیسے ہیں، تو معلوم ہوا کہ صرافوں کا عجب عالم ہے۔ ان کے پاس طرح کا اور ہر ملک کا سکۂ رائج الوقت موجود تھا۔ عراق کے دینا رسے لے کر ایران کا تمن اور روم کا ریال اور ملک فرنگ کا فرانک اور پیسو اور پونڈ،سب مہیا تھے۔ گاہک بھی چین و ترکستان سے لے کر دکن و روم و فرنگ کے تھے۔ جس کے پاس جو تھا اسے خرید رہا تھا یا بیچ رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ گاہک ہویا بیچنے والا ہو،کسی سے کوئی کچھ پوچھتا نہ تھا۔ لیکن میرے سکوں جیسے پرانے سکوں کا لینے والا یا بیچنے والا دکھائی نہ دیتا تھا۔
میں نے ہمت کڑی کر کے ایک ایسے صراف کی طرف رجوع کیاجس کے ہاں بہت ازدحام نہ تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے السلام علیکم کہا۔ اس نے مسکراکر اور گرم جوشی سے کہا:
"وعلیکم السلام میاں جی صاحب،کہیے کیا خد مت کروں ؟”
شاید میرے لہجے اور میرے لباس سے وہ مجھے غیر ملکی سمجھا تھا،کیوں کہ ہندی میں جواب اس نے ٹھہر ٹھہر دیا تھا۔ میں نے بھی قیافہ پہچان لیا کہ وہ مجھے یہاں کا نہیں سمجھتا۔ ایک تنکہ جو کہ میں نے پہلے ہی ہمیانی سے نکال کر شلوکے کی جیب میں ڈال رکھا تھا،میں نے اسے نکالا اور اپنی ہتھیلی پر رکھ کر اسے دکھا یا اور کہا:
"اینہا را چہ بہا می دہید آغا؟”
صراف نے جھک کر تنکے کو بڑے غور سے دیکھا۔ پھر بولا:
” می توانم کہ من برایں مسکوک ا نگشت نہم آغا، و در دست من گیرم؟”
میں نے کچھ سوچ کر کہا،”درست۔ ”
صراف نے وہ تنکہ میرے ہاتھ سے لے کر انگلیوں سے رگڑا،الٹا پلٹا،ایک اور چاندی کے سکے سے ٹکرا کر کھنکایا،پھر بولا:
"آغا ایں سکہ را از کجا آوردہ باشید؟”
مجبوراً میں نے وہی کہانی سنائی کہ ملک سند سے آیا ہوں۔ وہاں یہ سکہ چاندی کے معیاری ایک تولہ والے مصری درہم کے برابر گنا جاتا ہے۔
میری فارسی اس کے لیے بالکل قابل فہم تھی،لیکن میرا لہجہ شاید اسے کچھ بھاری پڑ رہا تھا۔ میری ہندی بہت مختلف تھی،لیکن مجھے ہندی بولنے کی مشق ضرور تھی۔ باقی گفتگو میں وہ زیادہ تر فارسی اور میں زیادہ تر ہندی بولا۔ حاصل یہ ہوا کہ پاس پڑوس کے بڑے صرافوں سے پوچھ کر اور مشورہ کر کے تصفیہ ہوا کہ ایک تنکے کے بدلے ڈھائی روپئے دہلوی ملیں گے۔ اگر تنکے زیادہ ہوں اور یک مشت فروخت کرنے ہوں تو کچھ زیادہ مل سکیں گے۔
میں نے کہا کہ میں پانچ تنکے بدلواؤں گا،فی الحال یہ ایک بدل لیا جائے۔ پھر میں نے وہ چند چھدام نکالنے چاہے جو میں نے بہادر گڈھ میں بھنائے تھے اور وہ بہلولی جو ابھی میرے پاس تھے۔ لیکن میرا دل دفعۃً درد سے بھر گیا۔ آہ کیا وہ دن واقعی تھے،یا اب یہ دن واقعی ہیں، کیا بہادر گڈھ کی وہ سرائے اب بھی ہو گی،کیا بہادر گڈھ ہی ابھی ہو گا؟میں نے خیال کیا کہ یہ سکے یادگاری رکھ لوں، مگر کس کی یاد گار،اور وہ کس کے مطلب کے ہوں گے،ان سوالوں کا جواب میرے پا س نہ تھا۔ جوں کر کوئی بوڑھا اپنے زمانۂ صبا کا کوئی کھلونا یا اپنی ٹوپی یا مشق کی تختی کہیں سے پا جائے اوراس کا دل اس زمانے کی کھٹی میٹھی یادوں سے بھر جائے اور اس کی آنکھوں میں آنسو جاری ہو جائیں۔ اس کا دل بے طرح چاہے کہ میں اس یاد گار کو رکھ لوں، مگر کیوں اور کس کے لیے،یہ اس کی سمجھ میں نہ آتا ہو۔
بازار میں گھومتے پھرتے،لوگوں کی باتیں سنتے اور کبھی کبھی خود بھی ایک دو سوال تجاہل عارفانہ کے ساتھ پوچھ دینے سے کئی امور مجھ پر روشن ہوئے۔
اس وقت کے بادشاہ کا نام واقعی احمد شاہ تھا۔ یہ اس کے سنہ جلوس کادوسرا سال تھے۔ یہ لوگ سنہ ہجری اور سنہ ہندی کے ساتھ سنہ جلوس بھی گنتے تھے،یعنی باد شاہ حال کو فرمانروائی کرتے کتنے برس گذرے۔ شاہی کواغذ اور فرامین میں اور رسمی مواقع پر سنہ جلوس مندرج کرنے یا اس کا اعلان کرنے کا التزام تھا۔
یہ باد شاہ خاندان مغلیہ کے تھے اور ان کا سلف ظہیر الدین محمد بابر ہے جو کابل میں مدفون ہے اور جس نے ابراہیم لودی سے سلطنت چھینی تھی۔
سنہ ہجری کے حساب سے یہ سال 1161ہے۔ اس طرح میں نے امیر جان کے مزار کے اندر ڈھائی گھنٹے نہیں، کوئی ڈھائی سو برس گذارے تھے۔
ان بادشاہوں پر کئی سال سے گاڑھا سماں تھا، پھر بھی ہاتھی لاکھ لٹے گا تو سوالاکھ کا ہو گا کے مصداق ابھی دہلی کی بادشاہت کا سکہ ہر جگہ رواں تھا۔
اب میں آہستہ آہستہ اس صدمے اور شاق اور ضعف جاں کے عہدے سے باہر آ رہا تھا جس کا شکار میں اس وقت سے تھا جب میں امیر جان کے مزار سے باہر آیا تھا۔ اب مجھے اس بات کی زیادہ فکر نہ تھی کہ امیر جان کا مزار واقعی کوئی جگہ تھا جس میں مجھے وہ سب کچھ عجائب و غرائب دیکھنے کو ملے تھے۔ اتنا تو مجھے یقین کامل تھا کہ میں تھا۔ میں گل محمد سلطان سکندر ابن سلطان سکندر لودی کے عساکر میں خان دوراں کے دامن سے متوسل احدی تھا۔ امیر جان سے قرض ساڑھے تین سو تنکے میں نے لیے تھے،بالضرور لیے تھے۔ میں نے اپنی بیٹی کی شادی اسی زر مقروضہ سے کی تھی۔ اس میں بھی کوئی شک نہ تھا۔ جب وہ واصل بحق ہوئے تھے تو سال 924تھا۔ جب میں نے آخری بار اپنا وطن چھوڑا،وہ سال 928 تھا۔
اس درمیان، میں یا تو مر چکا تھا،یا کہیں پڑا ہوا کوئی خواب دیکھ رہا تھا۔ اگر مر گیا تھا تو پھر میں یہاں زندوں کی طرح، اور گذشتہ یادوں کے ساتھ کیونکے موجود تھا؟کیا اسی کا نام برزخ ہے،یعنی جس شہر سے میں پوری طرح مانوس تھا،اسی شہر میں لیکن کسی نامانوس زمانے میں ڈال دیا جاؤں ؟مگر اس سے اللہ کی کون سی مصلحت،کون سی مرضی پوری ہوتی تھی؟ کیا اللہ تعالی کو مجھ سے کام کوئی لینا ہے؟کیا میری تقدیر ایک محض احدی کی تقدیر نہیں ہے؟یا ایسا ہے تو ابھی پردہ اسرار سے اٹھے گا۔ شاید مجھے کچھ بشارت ہو گی۔ قدرت کے کھیل نرالے ہیں۔ ان معاملات میں مجھے کیا کسی کو دخل دینے یا دم مارنے کی جرأت نہیں ہو سکتی۔ مجھے صبر سے انتظار کرنا چاہیے۔
یا میں مر ضرور گیا ہوں لیکن ملک الموت کی کسی غلطی سے میری روح راستے ہی میں کہیں ملک ا لموت کے چنگل سے چھوٹ گئی اور پھر فرشتوں نے مجھے یوں ہی بھٹکتا ہوا دیکھ کر واپس میرے شہر میں ڈال دیا۔ کیا ایسا ہوتا ہے؟یہاں ان دنوں ایک سے بڑھ کر عارف کامل اور واصل بالحق موجود ہے۔ ابھی بازار ہی میں ایک صاحب کسی شاہ ولی اللہ صاحب اور ان کے مدرسے کا ذکر کر رہے تھے۔ یہ بے یقینی اور تلاطم ذہنی کی آندھیاں رکیں، میرے پاؤں کہیں ٹھہریں، تو میں سوچ سمجھ کران سے یا کسی اور بزرگ سے دریافت کروں۔
اچھا،اگر میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں تو کیا ایسابھی ہوتا ہے کہ خواب دو ڈھائی سو برس بعد شروع ہو؟اپنے حسابوں تو میں حد سے حد پانچ دن پہلے اپنے آبائی گاؤں میں تھا۔ اب ڈھائی صدیاں سووتے سووتے پھلانگ گیا ہوں۔ واہ، کیا خوب کہی۔ آخر کتنا طویل المدت خواب ہے یہ۔ اور کیا خوابوں میں دن رات کی گنتی بھی ہوتی ہے؟میں تو بخوبی گن سکتا ہوں کہ میں کھڑکی گاؤں میں کب تھا اور یہاں اس سراے زینت النسا بیگم میں کب آیا۔
پھر۔ ۔ ۔ ایسا تو نہیں کہ میں مر تو چکا ہوں مگر کوئی مجھے خواب میں دیکھ رہا ہے اور میں بھی وہی خواب دیکھ رہا ہوں۔ ۔ ۔ یعنی کوئی دیکھ رہا ہے کہ میں مرگیا،لیکن اس کے خواب میں کہیں میں موجود ہوں یا اس نے مجھے اپنے خواب میں زندہ کر کے مجھے بھی اس خواب کا ایک فرد بنا دیا ہے۔ اب لگتا ہے کہ میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں، کام کر رہا ہوں، گھوڑ سواری کر رہا ہوں، امیر جان۔ ۔ ۔ مگر امیر جان تو کوئی تھی نہیں۔ ۔ ۔ غلط،سراسر غلط۔ امیر جان تھی۔ میری بیٹی ایک تھی اور اب بھی ہے۔ میں اسے بیاہی اور گود میں ایک پیارا سا بچہ کھلاتے چھوڑ آیا ہوں۔ تو پھر امیر جان اگر تھی تو اس کی موت بھی تھی اور اس کی موت تھی تو اس کا مزار بھی تھا اور اگر مزار تھا تو وہ سب واقعات۔ ۔ ۔ نہیں یہ کیا لغو اور واہی تباہی بیان ہے۔ اصلیت یہی ہے کہ مجھے دو ڈھائی صدیوں کے پار یہاں لا بٹھا یا گیا ہے۔ مگر کیوں ؟ کہا نہ کہ خدا کی باتیں خدا ہی جانے۔ کسی کو ان باتوں میں دم مارنے کا یارا نہیں۔ تو کیا یہ اور لوگوں کے ساتھ بھی ہوا ہے یا ہوتا ہے؟ہوتا ہو گا۔ تمہیں کیا خبر یہ لوگ جن کے کھوے سے میرا کھوا چھل رہا ہے ان میں سے کتنے اس زمانے کے ہیں اور کتنے تمہارے زمانے کے یا تمہارے بھی زمانے کے پہلے کے ہیں ؟
الف لیلہ میں نے نہیں لکھی،پڑھی بھی بہت نہیں۔ اس طرح کی خرافات میں میرا دل لگتا نہیں ہے۔ لیکن وہاں بھی توسنا ہے شیشے کے اندر سے جنات ہزاروں ہزار سال بعد نکل آتے ہیں۔ کیا معلوم میں بھی کوئی جنات ہوں۔ جب میں اس قبر میں داخل ہوا تو گل محمد احدی تھا، جب باہر آیا۔ ۔ ۔ جب باہر آیا۔ ۔ ۔ تو جنات تھا۔ نہیں۔ ذرا ٹھہرو۔ تمہیں کیسے معلوم کہ تم باہرواپس آ گئے ہو؟کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ جس دنیا میں تم نے وہ رقاصہ دیکھی، جس بالا خانے سے تم نے قطب صاحب کی لاٹھ دیکھی،اسی دنیا میں تم ابھی یہ سب بھی دیکھ رہے ہو؟
یک مرتبہ مجھے بخار جیسی کپکپی چڑھ آئی۔ بڑے زور کا پیشاب لگا۔ قریب تھا کہ میرا پیشاب نکل جائے کہ مجھے ایک مسجد نظر آ گئی۔ اللہ بخشے مسجدوں کے بنانے والوں کو۔ میں جھپاک سے اندر گیا۔ مسجد کے استنجا خانے میں گھس کر دروازہ بند کر کے بیٹھ گیا۔ بڑی دیر بعد باہر نکلنے کے لیے ہمت کو مجتمع کر سکا۔ مگر اب یہاں دیر کیا اور زود کیا معنی رکھتا تھا؟مجھے ہر دن،ہر ساعت،ہر گھڑی یوں جینی تھی گویا وہ بالکل حقیقی ہو اور آخری بھی ہو۔
تعفن،تاریکی اور تنگی جا کے باوجود میرا جی نہ چاہتا تھا کہ پیشاب خانے سے باہر نکلوں۔ باہر کی دنیا نا مفہوم، اجنبی،پر اسرار اور بڑی حد تک تہدید سے بھری ہوئی لگتی تھی۔ ایسا میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ دنیا میں کوئی بالکل ایکلا بھی ہو سکتاہے۔ بے باپ ماں کا ہو گا کوئی تو بھی اس کا گھر تو ہو گا۔ نگھرا تو کوئی ہوتا نہیں۔ اور اگر گھر بھی نہیں تو گاؤں گراؤں دھام کچھ تو ہو گا۔ پر مجھے تو یہ معلوم بھی نہیں کہ گھر میرا اس صفحۂ ہستی پر ہے بھی کہ نہیں۔ مجھ سا بے کس اور بے کو بھلا کوئی ہو گا۔ بالکل ہی بے یاور اور بے یارا، اب میرا ہو گا تو کیا ہو گا۔ ۔ ۔ مجھے لگا کہ شاید کوئی دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔ کسی کو بہت عجلت ہے یا مجھے ہی شاید دیر بہت ہو گئی ہے۔ نمازیوں کے دل میں سو طرح کے چتے آ رہے ہوں گے کہ یہ شخص مر تو نہیں گیا،بیہوش تو نہیں ہو گیا۔
میں کچھ ہڑبڑایا سا باہر نکلا۔ دروازے پر تو کوئی نہ تھا مگر اندھیاری سے نکلنے کے بباعث کچھ میں چوندھیا سا گیا تھا،یا شاید حواس ہی میرے پراں تھے۔ قدم مسجد سے باہر نکالا ہی نکالا تھا کہ ایک صاحب سے ٹکرا گیا۔ میں نے شرمندگی کی وجہ سے سر بھی نہ اٹھایا۔ شکل اور وضع قطع میری یوں ہی اجنبیوں جیسی تھی،یہ صاحب مجھے کیا گردانتے ہوں گے،کوئی ملکی گنوار سمجھ کر شاید معاف کر دیں شاید میرے ساتھ کھلی بازیاں کریں کہ نیا پکھیرو کہیں سے بھٹکا ہوا آ گرا ہے۔ مگر سر نہ اٹھاسکنے کے بوجہ میں ٹھیک سے آپ کو سنبھال نہ سکا اور دوبارہ انھیں صاحب سے ٹکرا گیا۔
"اجی حضت کیا ڈوڈا پی رکھا ہے جناب نے؟”انھوں نے ہنستے ہوئے کہا۔ "قدموں پر قابو نہ ریا تھا تو گھر ہی میں بیٹھ کر غین رہتے۔ ”
میں مارے خفت کے گھبرا کر وہیں دروازۂ مسجد پر بھد سے بیٹھ گیا تھا۔ ان صاحب نے بڑی شفقت سے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا،”بارے اب اٹھیے،کہیں چوٹ ووٹ تو نہیں آئی؟”
"جی۔ ۔ ۔ جی۔ ۔ ۔ شک۔ ۔ ۔ شکر ہے۔ ۔ ۔ شکریہ جناب کا۔ میں۔ ۔ ۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ "میں نے بدقت سر اٹھایا اور اٹک اٹک کر کہا۔ ” جناب در گذر فرمائیں۔ اچانک مجھے کچھ چکر سا آگیا تھا۔ ”
"اے ہے،بچارے غریب شہر لگتے ہو۔ ڈھارس رکھیں جناب گھبرائیں نہیں۔ کیا میں جناب کو فرود گاہ تک آپ کی پہنچا دوں ؟”
میں نے اب ان صاحب کو دیکھا اور بھیچک رہ گیا۔ واللہ کیا نازک نقوش تھے۔ لیکن مردانہ وجاہت میں پھر بھی کمی نہ تھی۔ کشیدہ قامت،چھریرا بدن،گورا رنگ،مسکراتی ہوئی آنکھیں، گہری سیاہ۔ بہت بڑی بڑی آنکھوں سے زیادہ حیرت زا ان کی پلکیں تھیں، کیا کسی شہزادی یا پری کی ایسی پلکیں ہوں گی۔ میں نے سنا تو تھا کہ کچھ لوگوں کی پلکیں ان کی آنکھوں پر پردہ سا ڈالے رہتی ہیں، لیکن دیکھا کبھی نہ تھا۔ جب وہ مژگاں اپنی کھول کر دیکھتے تھے تو لگتا تھا منھ پر چراغ دو روشن ہو گئے ہیں۔ بہت نفیس کتری ہوئی ڈاڑھی،لمبی بالکل نہیں لیکن کم بھی نہیں۔ مونچھیں ذرا نمایاں، بل دی ہوئیں نوکدار لیکن لمبی نہیں۔ پتلے پتلے ہونٹھ، ان پر ہلکی سی سرخی،شاید تنبول کی دولت سے،یا شاید ان کا رنگ ہی سرخ گلابی تھا۔ سر پر پٹے جو شانے کے ذرا اوپر تک آئے ہوئے تھے،اوپر سنہری دھاریوں کا آسمانی رنگ کا ریشمی چیرہ،خوب بل دیا ہوا،اس طرح کہ سر سے گویا ہم آغوش لگتا تھا۔ بہت باریک ململ کا کرتا،اسی آسمانی رنگ کا،لیکن رنگ اتنا ہلکا کہ نیچے کا بدن جھلکتا تھا۔ کرتے پر وہی لباس جس کی آستینیں اوپر سے کٹی ہوتی ہیں۔ کاشانی مخمل،جس پر ہلکی ہلکی جواہرات کی بیل ٹکی ہوئی، لیکن بہت متناسب۔ ریشمی دھاری دار کپڑے کا پاجامہ، کاکریزی یا شربتی رنگ کا، جو ان کے گورے بدن پر عجب بہار دے رہا تھا۔ کرتے کے ہلکے لطیف کپڑے کے مقابلے میں پاجامے کا کپڑا بھاری تھا،اتنا کہ پاؤں کی ٹھوکر سے کچھ بڑھا ہوا تھا۔ سیاہ چمکیلے چمڑے کی جوتیاں جن پر زری کا بھاری کام،کمر میں ڈوپٹے کے بجائے نیلے کیمخت کا پٹکا،جس پر زری کا کام اور کہیں کہیں سرخ قیمتی پتھر ٹکے ہوئے،کمر میں جڑاؤ خنجر جس کی میان بھی جڑاؤ تھی۔ گلے میں موتیوں کا سہ لڑا مالا،لگتا ہے اسی گردن کی زیب و زینت کے لیے وہ موتی بنائے گئے ہوں گے۔ ایک بھی دانہ غیر متناسب نہیں، آب و تاب میں ذرا دودھیا دھندلے،جیسے کہ سچے موتی ملک سیلان کے ہوتے ہیں۔
ان کی عمر یہی کوئی میری سی ہو گی،یعنی پچاس کے لگ بھگ۔ مگر چہرے پر ایسی نرمی اور اس قدر تازگی تھی گویا ابھی مدرسے سے اٹھ کر چلے آ رہے ہوں۔ ان کے پورے شخص سے روشنی سی پھوٹتی محسوس ہوتی تھی۔ میں نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ کتنی بڑی بد مذاقی کر رہا ہوں کہ انھیں دیکھے جا رہا ہوں۔ ان کی بات کا جواب بھی نہیں دیا ہے۔ لیکن شاید وہ صاحب اس طرح سے دیکھے جانے کے عادی تھے۔ انگشت نمائے عالم ہونا نئی کوئی بات ان کے لیے نہ تھی۔ وہ پورے اطمینان اور دلجمعی سے سمت میری میں دیکھتے رہے۔ شاید وہ بھی محسوس کر چکے ہوں کہ میں انھیں دیکھ کر مبہوت ہو گیا ہوں، اور کوئی باعث خاموشی کا میری نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مجھ سے آنکھیں نہ چرا رہے تھے۔ بے شرمی سے چار چشم بھی نہ تھے لیکن میرے استغراق کو انھوں نے عجب خندہ پیشانی سے لیا اور شرمائے بھی بالکل نہیں، بس انتظار میں رہے کہ میں آپ میں واپس آؤں تو سلسلہ تکلم کا آگے بڑھے۔ ان کے کسی میں انداز میں اتراؤنے بناؤنے کا شائبہ تک نہ تھا۔
اچانک مجھے لگا کہ صرف میں ہی ان اجنبی شاہ خوباں کو نہیں دیکھ رہا ہوں، کچھ لوگ مجھے بھی دیکھ رہے ہیں اور شاید زیر لب مسکرا بھی رہے ہیں اور کچھ لوگ ان اجنبی گل خوبی کو بھی کچھ اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے انھیں بھی یہ اچھا لگتا ہو کہ لوگ انھیں رو کریں۔ میں نے چونک کر گویا نیند سے آنکھیں کھولیں اور ایک قدم آگے بڑھ کر چاہا کہ ان کا دامن تھام لوں۔ لیکن یہ کس قدر بد تہذیبی کی بات ہوتی۔ میں جھجک کر رک گیا اور بولا:
"جناب، معافی کا خواستگار ہوں۔ میں واقعی غریب الدیار ہوں۔ ۔ ۔ ”
ابھی میں بات پوری نہ کر پایا تھا کہ ایک صاحب مسجد کے اندر سے لپکتے ہوئے آئے اور بے تکلفی سے ان اجنبی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اسے چوم کر بولے:
"اے واللہ میر صاحب،کیا بھاگ ہیں میرے جو آپ یہاں توقف کر گئے،”انھوں نے میری طرف مختصر سا اشارہ کیا۔ ” اور مجھے دست بوسی کا موقع مل گیا۔ کئی دن سے نیت کر رہا تھا کہ ڈیرے پر جناب کے حاضر ہوں گا۔ ”
"السلام علیکم میاں شرف الدین پیام صاحب۔ خوب ملے آپ۔ میں ابھی ان نئے دوست اپنے سے معرفی حاصل کر ہی رہا تھا۔ ۔ ۔ بھئی آپ کا وہ شعر تو کیا غضب کا تھا میاں شرف الدین صاحب،ٹوپی والوں نے قتل عام کیا۔ ۔ ۔ لیکن ذرا غم کھائیں۔ "پھر وہ مجھ سے مخاطب ہو کر بولے:
"میاں صاحب آیا کہیں دور سے تشریف لائے ہیں ؟ جناب میں عرض کر رہا تھا مستقر جناب کا کہاں ہے؟”
واللہ کیا سریلی،کھنکتی ہوئی سی لیکن مردانہ آہنگ والی آواز تھی، اتنی صاف اور کھلی ہوئی گویا محفل میں شعر سنا رہے ہوں۔
"جی میں یہیں قریب ہی مسجد زینت النساکے پا س والی سرامیں اترا ہوا ہوں۔ ملک سند سے آیا ہوں۔ گل محمد مجھے کہتے ہیں۔ ”
کچھ لوگوں کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ مجھے زینت المساجد کہنا چہیے تھا۔ ہو گا،میں نے دل میں اپنے بیزار ی سے کہا۔ کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ میں نو آمدہ ہوں۔ آہ،میں نو آمدہ تھا لیکن اجنبی نہ تھا۔ ہائے رے تقدیر کے تماشے۔
"تو میاں صاحب ابھی آپ نے دلی کچھ دیکھی بھی نہ ہو گی۔ چلیے آپ کو چاندنی چوک کی سیر کرائیں اور کہیں بیٹھ کر قہوہ پی لیں۔ "انھوں نے شرف الدین پیام صاحب کی طرف دیکھا، جیسے مستفسر ہوں کہ آپ کا کیا ارادہ ہے۔ پیام صاحب تو غالباًاسی امید میں کھڑے تھے کہ میر صاحب مجھے ساتھ چلنے کو کہیں۔
"بہت درست۔ بندہ بھی ادھر ہی مدرسۂ رحیمیہ کو جا رہا تھا۔ میر صاحب کو امر ناگوار نہ ہو تو میں بھی مشائعت کر لوں۔ "پیام صاحب کے لہجے میں مسرت اور اشتیاق ان کے دبائے بھی دب نہ رہا تھا۔ میر صاحب نے مسکراکرفرمایا:
"اجی صاحب،نیکی اور پوچھ پوچھ۔ آپ کی معیت میں لطف سیرکا دوبالا ہو جائے گا۔ ”
"میں بسرو چشم حاضر ہوں، بسم اللہ،”میں نے کہا۔
٭٭٭
ہم لوگ مسجد کی سیڑھیاں اتر کر بازار میں آئے۔ ہر دوسرا تیسرا شخص میر صاحب کو سلام کرتا اور اکثروں کی کوشش ہوتی کہ انھیں روک کر ان سے دو باتیں کر لیں۔ میر صاحب انتہائی خوش اسلوبی ا ور خندہ پیشانی سے عناں گیروں کو ٹالتے، ایک دو فقرے کہہ کر آگے بڑھتے جاتے۔ میں نہایت دلچسپی سے انھیں دیکھتا اور ان کی باتیں سنتا چل رہا تھا۔ کبھی کبھی میں جان بوجھ کر ان کے ایک دو قدم پیچھے ہو جاتا کہ ان کی چال کو بھی دیکھتا چلوں کہ ان کی صورت اور ان کی گفتار ہی کی مانند دلربا تھی۔ رفتار ان کی میانہ سے کچھ تیز تھی، اور وہ دم رفتار اپنے دونوں ہاتھ یوں آگے پیچھے کرتے تھے گویا چپو چلا رہے ہوں، اور چال ان کی اتنی سہج تھی کہ بس لہریں سی اٹھتی ہوئی لگتی تھیں۔
باتیں ان کی نہایت دلکش،بذلہ سنجی اور ظرافت سے معمور،کبھی کبھی راہ چلتوں پر ایک آدھ فقرہ بھی چست کر دیتے۔ کوئی سنتا بھی تو برا نہ مانتا،خوش طبعی سے مسکرا دیتا۔
"ان میاں صاحب زادے کو ذری دیکھیو،کل سے مدرسے کیا بیٹھنے لگے ہیں کہ سرہی گھٹا لیا،جیسے چھلا ہو اکسیرو۔ ”
"کیوں شرف الدین پیام میاں صاحب، وہ سامھنے والوں کی نگاہیں کسی سے نامہ و پیام کر تی ہیں گی یا میں ہی یک چشم ہو ریا ہوں ؟”
پیام صاحب مسکرا کر بولے:”کوئی آپ سے چشمک کرے تو سامھنے ہی کی پھوٹیں۔ ”
اب میر صاحب نے رعایتوں اور تلازموں کا بازار گرم کر دیا:
"جی جناب،کوئی ستارۂ آسمان سے دیدہ درائی کرے اور کسی کو چشمۂ آفتاب بھی نظر میں نہ آوے۔ ہم سے چشمکیں کر کے کوئی کیا پالے گا۔ ہم نے تماشا گاہ دنیا کی طرف سے آنکھیں موند لی ہیں صاحب۔ سامنے چشمہ ہے جا کے منھ دھو آئے پھر ہمیں آنکھیں دکھائے۔ ہم نے تو پری رخوں کی آنکھیں دیکھی ہیں۔ منھ دھل جائے تو شاید دیدے تارا سے روشن ہو جائیں، ورنہ ایسا کسی کا منھ کہاں کہ ہمارے منھ آئے۔ ”
"مگر صاحب طفل اشک تو مچل کر منھ آ ہی جاتا ہے۔ سنیے حضرت میرسوز صاحب فرماتے ہیں اور کیا خوب فرماتے ہیں ؎
اے طفل اشک تجھ کو آنکھوں میں میں نے پالا
تس پر بھی گرم ہو کے تو منھ پہ میرے آیا”
"جی،خوب کہا۔ مگر یہ میں میں کی تکرار ایسی لگی جیسے کوئی ممیا رہا ہو۔ "یہ کہہ کر وہ ذرا سا مسکرائے،جیسے اپنی مسکراہٹ کی شیرینی سے اس تعریض کی تلخی کو ضائع کرنا چاہتے ہوں۔
انھیں خوش گفتاریوں میں راستہ کٹ گیا۔ اچانک میرے پاؤں من من بھر کے ہو گئے۔ لگا، کسی نے میرے دل کو شکنجے میں کس دیا ہو اور سارے بدن کا خون کہیں اور جا کر جم گیا ہو۔ میں نے چکرا کر کسی دکان کے تختے کا سہارا لینا چاہا لیکن میرا بدن ہی لڑکھڑا گیا تھا۔ میر صاحب نے میری حالت نہ جا نے کیونکر بھانپ لی تھی۔ انھوں نے میرا شانہ مضبوطی سے جکڑ لیا اور میں ثابت قدم ٹھہرا رہا۔ اتنے چھریرے اور بید مجنوں جیسے جسم میں اتنی قوت؟میں حیرت زدہ رہ گیا۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ میر صاحب تمام فنون حرب سے بخوبی آشنا تھے،اکھاڑے میں پابندی سے زور آزمائی کرتے تھے اور لکڑی کھیلنے میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ مگر اس وقت تو میں بار دیگر امیر جان کی قبر میں پہنچ گیا تھا۔ ۔ ۔ سامنے وہی سر بفلک،دیو آسا،سنگ سرخ کا قلعہ تھا اور اس کے آگے وہی بازار جس میں اس ناظورۂ قتالہ کا رقص میں نے دیکھا تھا۔ قلعے کے ذرا ورلی طرف سے وہی نہر لہراتی بل کھاتی چلی آتی تھی اور اسی طرح طراوت افزا کیفیت میں بازار کے وسط میں بہتی تھی۔
یہ سب میں خواب میں۔ ۔ ۔ نہیں، امیر جان کی گور کے اندر لیکن بہوش و حواس اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا۔ اگر چند مجھے پہلے ہی یقین ہو چکا تھا کہ میں اس وقت اپنے اصل زمانے سے کم از کم دو سوا دو سوبرس اوپر آگیا تھا لیکن اب تک جو میں نے دیکھا تھا ان میں سے کوئی چیز میں نے اس گور کے اندر نہ دیکھی تھی۔ اب جو نظروں کے سامھنے تھا وہ پہلے بھی آ چکا تھا۔ اب مجھے یوں لگ رہا تھا گویا میں کسی نئے شہر میں ہوں بھی اور نہیں بھی ہوں۔ اب مجھے اپنے نگھرے ہونے کا پوری طرح یقین ہو گیا تھا اور ستم یہ کہ یہ ایسے وقت ہوا جب میں کچھ دوست،کچھ ملاقاتی اپنے لیے حاصل کرنے کا کچھ امکان رکھتا تھا۔
"کیا ہوا میاں صاحب؟کیا کچھ جی ماندہ ہے آپ کا؟”انھوں نے اس طرح پوچھا گویا وہ حقیقتاً فکر مند ہوں کہ مجھے کیا ہو گیا ہے۔
"نہیں، کچھ نہیں۔ بس یوں ہی چکر سا آگیا تھا۔ آج سارا دن شہر میں آپ کے گھومتا رہا ہوں۔ "میں نے بات بنانے کی کوشش کی۔
"آئیے وہ سامنے ہی قہوہ خانہ ہے۔ وہاں بیٹھ کر تھکے ہوئے پاؤں کو آرام دیتے ہیں۔ ”
قہوہ خانے کی فضا میں کئی طرح کی جدید خوشبوئیں تھیں، لیکن نہایت گوارا۔ تنبول سے میں واقف تھا،اگرچہ ہمارے زمانے میں چلن اس کا بہت نہ تھا۔ لیکن یہ تنباکو عجب شے تھی۔ لوگ اسے کٹوروں میں ڈال کر سلگاتے اور پھر ایک لمبی نے سے اس کا دم لگاتے۔ بڑا فرحت افزا اور معطر دھواں نکلتا اور ماحول کو عجب انوکھی سی خشک اور بہت لطیف، گر م،خوشبو سے بھر دیتا۔ دھواں جہاں تک پھیلتا وہاں تک خوشبو جاتی،چاہے دھواں زائل ہی کیوں نہ ہو گیا ہو۔ بظاہر قہوہ خانے میں کئی طرح کے تنباکو بکار لائے جاتے تھے کیونکہ میں الگ الگ دھوئیں اور الگ الگ خوشبوئیں محسوس کر سکتا تھا۔
معلوم ہو اجس آلے کو یوں تنباکو پینے کے کام میں لاتے ہیں، اسے ایرانی قلیان اور ہندی بھنڈا کہتے تھے۔ اس کے ہر حصے کے الگ الگ نام تھے:چلم،نیچہ،پیچوان، نے،مہنال،یہ نام تو اسی دن قہوہ خانے میں شنید ہو گئے تھے۔ اور تنباکوئے نوشیدنی الگ شے تھی اور تنباکوئے خوردنی الگ شے تھے۔ موخر الذکر میں بھی عطریات وافر ہوتی تھیں لیکن بڑا عیب اس میں کھا کر کر تھوکنے کا تھا۔ پان کے ساتھ کھائیں تو تھوکنا لازم آتا تھا۔ قہوہ خانے میں جگہ جگہ اگال دان،پیک دان،موجود تھے۔ لوگ پیک تھوکنے یا اگال الگ کرنے میں خاصے محتاط تھے لیکن اپنے کرتے پر کی چھینٹوں کا کیا کرتے۔ کئی لوگوں کے دامن میں نے کم یا زیادہ بہاری دیکھے۔ میر صاحب سے رسمی سلام و کلام کرنے والوں کے علاوہ کئی ان کے دوست یا ملاقاتی تھے۔ سب ایک گوشے میں یکجا بیٹھے،نئے دوست بھی جو آتے تو اسی کنج بے تکلف میں اپنے لیے جگہ بنا لیتے۔ لمبی،کچھ تنگ اور نیچی سی چوکیاں، ان پر صاف کھاروے کا دسترخوان یا محض پوشش،چارو ں طرف مخملی گدے۔ بھنڈا عند الطلب حاضر کیا جاتا تھا۔ کچھ کھانے کی خواہش ہوئی تو قہوہ خانے کا ملازم لونڈاپاس کے نانبائی یا حلوائی سے مطلوبہ سامان جھپاک سے لے آتا۔
قہوہ خانے کی گفتگوؤں اور چہلوں میں خاصا وقت نکل گیا۔ میری گھبراہٹ بھی اب کم ہو چلی تھی۔ اب مجھے اپنے اجنبی کرم فرما کے بارے میں کچھ معلوم ہو گیا تھا۔ نام ان کا سید محمد علی اور تخلص حشمت تھا۔ یہ لوگ کشمیری الاصل تھے لیکن کئی پشتوں سے دہلی میں مقیم اور بادشاہ وقت یا کسی نمودار امیر کی نوکری بصیغۂ سپہ گری کرتے تھے۔ دو ان کے برادران عابد یار خان اور مراد علی خان مشہور جوہری تھے اور معاملات تیغ و تبر میں بھی ماہر ہونے کے بسبب محمد شاہ بادشاہ فردوس آرام گاہ کے جواہر خانے میں نوکر تھے۔ اس خانوادے میں زر و جواہر کی وہ ریل پیل تھی گویا لکشمی جی نے ان کے آنگن میں نہر اپنی بہا دی ہو۔
بوجہ فراوانی زر اور بوجہ ذوق فطری،میر محمد علی نے کسی کی نوکری نہ کی تھی،شعر گوئی اور دوستداری میں شب و روز ان کے گذرتے تھے۔ میر محمد علی حشمت فارسی میں زیادہ کہتے تھے،ریختہ میں کم۔ فارسی میں اپنے وقت کے مشہور فارسی گو میرزا عبد الغنی بیگ قبول کشمیری کے شاگرد ہوئے۔ ریختہ میں کسی کے آگے زانوئے تلمذ تہ نہ کیا لیکن خود انھوں نے ریختہ میں کئی شاگرد بہم پہنچائے تھے جن میں میر عبدالحئی تاباں کا نام ہر طرف مشہور تھا۔ استاد سے تاباں کوایسی محبت تھی کہ اسے ضرب المثل کہیں تو بیجا نہ ہو گا۔ استاد کے بارے میں ان کا شعر بہت مشہور ہوا تھا ؎
نہ مانے جو کوئی حشمت کو تاباں
وہ دشمن ہے محمد اور علی کا
استاد کا نام چونکہ محمد علی تھا، اور خود میر عبد الحئی موصوف موسوی سید تھے، اس وجہ کر شعر اور بھی با مزہ ہو گیا تھا۔
دھیرے دھیرے میں دہلی والوں میں گھلنے ملنے لگا،لیکن بعد از خرابی بسیار۔ اس عمل میں جو تاخیر ہوئی اور جو روحانی کرب مجھے اٹھانے پڑے ان کا تذکرہ کر کے آپ کو بے مزہ نہ کروں گا۔ دہلی والوں میں میرا خلا ملا سب سے زیادہ تو اس بات کے چلتے ہوا کہ میر محمد علی حشمت نے اپنی ذمہ داری پر مجھے سواروپئے مہینے پر ایک مناسب مکان کوچہ چیلاں میں دلوا دیا تھا۔ پکانے ریندھنے کے لیے ایک شریف بڑھیا ماما بھی آٹھ آنے درماہہ اور دو وقت کے کھانے پر مجھے دلوا دی تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انھوں نے اپنی ذمہ داری پر مجھے اپنے مربی نواب قطب الدین خان بہادر فوجدار مراد آباد کے رسالے میں بصیغۂ سپہگری رکھوا دیا تھا۔ آپ کو ان امور پر شگفت و حیرت نہ ہونا چاہیے۔ ایک عالم میر حشمت کی خوبیوں کا قائل اور مداح تھا۔ یہ بات دہلی میں عام تھی کہ مردان مشاہیر دہلی میں حیا و حمیت و اہلیت و آدمیت کی دولت سے بہرۂ وافر رکھنے والا، زائد الوصف اور مستغنی عن الثنا،ا گر کوئی تھا تو وہ میر محمد علی حشمت تھے۔
حسن اتفاق یہ کہ چند روز پہلے میر محمد علی بھی اسی رسالے میں دنگل عہدہ داری پر متعین ہو گئے تھے۔ حسن اتفاق کہیں یا یوں کہیں کہ ان کی مدت حیات سپری ہو چکی تھی۔ قضا کو بہانے کی تلاش تھی اور وہ اس نوکری نے بآسانی مہیا کر دیا۔
میر محمد علی حشمت کی صحبت میں رہ کر مجھے جلد ہی شعر و سخن میں دلچسپی دوبارہ پیدا ہو گئی۔ میرے زمانے کے شہر دہلی میں تو مولانا جمالی کے سوا کوئی مشہور و معروف استاد فن شعر میں نہ تھا۔ اور یہ بھی ہے کہ ان وقتوں کی دہلی میں شعر و سخن کا چرچا اس قدر اور اتنا عام نہ تھا جتنا آج کی دہلی میں تھا۔ کیا فارسی کیا ریختہ،کیا ہندو کیا مسلمان،ہر شخص ناظورۂ شعر کا متوالا اور شمع سخن پر مثال پروانہ جان دینے والا تھا۔ دہلی کی گلیاں شاعروں، زباندانوں اور استادان فن سخن سے پٹی پڑی تھیں۔ اپنے مختصر دور حیات میں مجھے ان سب سے ملنے تو کیا،ان کے ناموں سے بھی آشنا ہونے کا موقع نہ مل سکا۔
زبان و کاروبار علم و لسان و بیان کے باب میں سب سے عجب بات یہ تھی کہ یہ لوگ خود کو ایرانیوں سے بہمہ وجوہ بہتر سمجھتے تھے۔ ٹیک چند بہار اور آنند رام مخلص جیسے لغت داں ا ور محاورۂ اہل زبان پارسی کے محققین، سراج الدین علی خان آرزو جیسے فنون شعر و نحو و لغات میں منتہیٰ المدققین، میاں نور العین واقف اور خواجہ میر درد اور میرزا مظہر صاحب جان جاناں نقش بندی جیسے جید فارسی گو،جدھر جاؤ نیا عالم نظر آتا تھا۔ صوفی سنتوں اور اہل اللہ اور علما کی تو گنتی ہی نہ تھی۔ خود میرزا مظہر صاحب مغتنمات روز گار صوفیہ میں سے تھے۔ شاہ ولی اللہ صاحب محدث کے شہرے مکے مدینے تک تھے۔ پھر ان کے صاحب زادگان، اور علاوہ برآں بزرگواراں حضرت سید حسن رسول نما،حضرت شاہ محمد فرہاد، قطب شہر حضرت شاہ کلیم اللہ صاحب جہان آبادی، جدھر دیکھو علم و عرفان اور معرفت کے چراغ جگمگا رہے تھے۔ سوائی راجہ جے سنگھ ہیئت اور ریاضی میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ استاد خیر اللہ مہندس کے شاگرد از ہند تا ایران پھیلے ہوئے تھے۔
مجھ سے کچھ زمانہ قبل میر حشمت کے استاد قبول کشمیری صاحب کے ساتھ بڑا پر لطف معاملہ گذرا تھا۔ شیخ علی حزیں ایک بد دماغ ایرانی شاعر اور حق یہ ہے کہ بہت مستند شاعر وارد شاہجہاں آباد تھے۔ وہ مقامی لوگوں سے عموماً نفور رہتے۔ ایک بار عبد الغنی بیگ صاحب ان کی ملازمت حاصل کرنے ڈیرے پر ان کے پہنچے تو شیخ علی حزیں نے کہلا دیا کہ شیخ گھر پر نہیں ہیں، ہر چند کہ اندرون خانہ تھے۔ مرزا قبول بیگ صاحب اگلے دن کئی اپنے شاگردوں کے ساتھ،کہ ان میں میر محمد علی بھی تھے،شیخ موصوف کی حویلی پر پہنچے اور کہلا دیا کہ جب تک شیخ ہم سے ملاقی نہ ہوں گے،ہم ان کی راہ دیکھیں گے۔ چار و ناچار شیخ علی حزیں کو دیوان اپنا کھلوا کر ان سے ملنا پڑا۔ میرزا قبول بیگ صاحب اور ان کے شاگردوں نے دیر تک اپنا کلام سنایا کہ آپ کا کلام تو ہم سنتے ہی رہتے ہیں، آج ہمارا کلام آپ سماعت کریں۔ شیخ بچارے جز بز ہوئے اور منھ بنائے سنتے رہے۔ پھر شیخ نے ا ز راہ تواضع کچھ اپنے کلام سنانا چاہا،مگر وہاں کون سنتا تھا۔ شیخ بہت خفیف ہوئے اور شہرہ اس بات کا شہر سارے میں پھیلا۔
لیکن بات میر عبد الحئی تاباں کی ہو رہی تھی کہ استاد سے ان کی محبت کا ذکر بچے بچے کی زبان پر ان دنوں تھا۔ اور اس سے بھی بڑھ کر شہرے میر صاحب کے حسن کے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ میر عبد الحئی کے سامنے بڑی بیگمات بھی اگر ہوتیں تو ماند پڑ جاتیں۔ میں نے تو یہاں تک سنا کہ بادشاہ وقت اعلیٰ حضرت احمد شاہ پادشاہ غازی بھی کبھی کبھی جب میر صاحب کے دروازے پر سے گذرتے اور میر صاحب گھر اپنے کے باہرنشست گاہ میں تشریف فرما ہوتے تو بادشاہ کسی بہانے اپنا فیل رکوا کر انھیں ایک نظر دیکھ لیا کرتے تھے۔ مجھے میر عبد الحئی صاحب کو دیکھنے کا بڑا اشتیاق تھا،لیکن سوئے اتفاق کہ میں اور وہ کبھی یکجا نہ ہو سکے تھے۔ ملنے کے لیے مواقع تو بہت تھے،لیکن میں ان کے حسن کے اذکار سے اس قدر مرعوب تھا کہ چاہتا تھا ایسی ملاقات ہو جس میں میر محمد علی صاحب بھی شریک ہوں تاکہ میں پہلے ہی ملنے میں ان سے بے تکلف ہو سکوں۔
اور پھر میر عبد الحئی صاحب کی بلا نوشیوں کے چرچے،وہ تو چار دانگ عالم میں گونجتے سے لگتے تھے۔ جہاں بھی ان کا مذکور آتا، لوگ سب سے پہلے یہی پوچھتے،آنجناب عالم سکر میں ہیں کہ عالم صحو میں ہیں ؟ ہر چند کہ یہ اصطلاحیں بخود تصوف کے عالم سے تھیں لیکن یہاں اس نہج سے بہت مناسب لگتی تھیں کہ تاباں صاحب جب نشے میں نہ ہوتے تو بڑی عقل کی باتیں کرتے تھے۔ اور نشے کی جھونک میں وہ کسی کو کچھ بھی کہہ گذر سکتے تھے،الا اپنے استاد کے کہ وہ ان کے مرشد اور محبوب اور دوست،سب کچھ تھے۔ کسی کو آج تک یہ نہ معلوم ہو سکا تھا کہ تعلقات کی تاباں صاحب اور حشمت صاحب کے درمیان نوعیت کیا تھی۔ ان دنوں ایک اور شاعر ریختہ شیخ مبارک آبرو کی مثنوی آداب معشوق کے مضمون میں بہت ذکر میں آتی تھی۔ انھوں نے جو نصائح معشوق کو کیے تھے ان میں شہوت اور اختلاط باطنی تو کیا،اختلاط ظاہری بھی کے لیے کچھ جا نہ تھی۔ فرماتے ہیں ؎
پر خبر رکھنا کوئی خندہ نہ ہو
بوالہوس ناپاک دل گندہ نہ ہو
کوئی پاجی یا کوئی لچا نہ ہو
بات کہنا اس ستی بیجا نہ ہو
اب زمانے کے رجالے ہیں کچھ اور
سیکھ کر ہندوستاں زادوں کا طور
گھورتے ہیں خوبصورت کے تئیں
دل میں رکھتے ہیں کدورت کے تئیں
جس کو جانے یوں کہ دل میں پیار نئیں
اس کی جانب دیکھنا درکار نئیں
لیکن اندر کا حال کسے معلوم ہے۔ درست کہ محتسب را درون خانہ چہ کار،مگر کہنے والے کی زبان کون پکڑ سکے ہے۔ ابھی کچھ مدت پہلے ایک شاعر ریختہ میر جعفر زٹلی نے امرد پرستی کی ہجو میں بہت شعر لکھے تھے۔ ان سے بڑھ کر یہ کہ اس زمانے کے ایک بہت ہی محترم شاعر فارسی کے تھے میرزا عبد القادر بیدل،انھوں نے امرد پرستی کے خلاف ایک ہجو لکھی ہے جو خود ہی نہایت فحش ہے۔ مجھے ان باتوں میں کچھ طوع نہ تھا۔ مجھے تو یہ جاننے کی فکر تھی کہ کیا کوئی بندۂ خدا میر محمد علی حشمت سے بھی بڑھ کر حسین ہو سکے ہے۔ میر محمد علی با وصف کہ میری ہی عمر کے تھے اور یہ عمر بڑھاپے کی نہیں تو جوانی کے زوال کی بیشک تھی،لیکن وہ مجھے بہت کمسن اور کبھی کبھی اپنی اداؤں کے بباعث الھڑ معلوم ہوتے تھے۔ پھر بھی ان کی آواز اس لوچ اور باریکی اور اونچے سروں سے خالی تھی جن سے امردوں کو متصف کیا جاتا ہے۔ ان کے جسمانی قویٰ کی قوت کا حال میں لکھ چکا ہوں۔ ان کی جرأت کا عالم یہ تھا کہ ایک بار انھوں نے بھرے میلے میں ایک بپھرے ہوئے سانڈ کی سینگیں پکڑ کر اسے بالکل جامد کر دیا تھا۔ جب تک لوگ رسے اور کمندیں لے کر آئیں، کیا مجال کہ سانڈ کہیں ٹس سے مس ہو جاتا۔
عمدۃ الملک امیر خان انجام کے قتل کو ابھی چند ہی برس ہوئے تھے۔ لوگ اکثر انھیں یاد کرتے اور کہتے تھے کہ جس نے عمدۃ الملک امیر خان انجام کو نہ دیکھا ہو وہ میر محمد علی کو دیکھ لے،بس فرق تھا تو اتنا تھا کہ عمدۃ الملک چھوٹے قد کے تھے اور میر صاحب کا قد کشیدہ تھا۔ عمدۃ الملک کبھی کبھی زنانہ لباس بھی پہن لیتے اور وہ بھی ان پر بہت پھبتا تھا۔ میر محمد علی کو تحویل لباس کا کوئی شوق نہ تھا۔ عمدۃ الملک سے متوسل وہ بھی رہے تھے اور ان کے قتل کے بعد نواب قطب الدین خان کے یہاں ان کا آنا جانا ہو گیا تھا۔ یہیں ان کی ملاقات میر عبد الحئی تاباں سے ہوئی۔ تاباں ان دنوں شاہ حاتم کے شاگرد تھے لیکن میر حشمت سے ملتے ہی ان کے گرویدہ اس قدر ہوئے کہ ان کے شاگرد ہو گئے اور انھیں کے ہو رہے۔
میر عبدالحئی تاباں مدت سے قزلباش خان امید کی سرکار سے متوسل تھے۔ مشہور تھا کہ میر صاحب کے گھر پر ہر شام نو خیز خوش جمالوں کی محفل جمتی۔ تاباں ان میں سے چند کو قزلباش خان امید کی حویلی پر رقص و موسیقی کی مجلسوں اور شاید کچھ کو شب باشی کے لیے بھی لے جاتے۔ واللہ اعلم۔ میں نے اپنی تھوڑی سی مدت ملاقات میں ایسی کوئی بات نہ دیکھی،الا یہ کہ تاباں صاحب کا منظور نظر ایک نوخیز،سبزہ آغاز، معشوق صفت لڑکا سلیمان نامی تھا اور وہ اس کے بغیر کہیں نہ جاتے تھے۔ لیکن میر محمد علی صاحب کے یہاں جلسوں میں میاں سلیمان ہمیشہ حاضر نہ رہتے،یہ بھی میں نے سنا۔ میر عبد الحئی کا دوسرا آماجگاہ میرزا مظہر صاحب جانجاناں کا جماعت خانہ تھا۔ وہ وہاں تیسرے چوتھے البتہ حاضر ہوتے،شعر و سخن کی بات ہوتی،کچھ لطیفے اور مطائبے سنے سنائے جاتے،پان اور قہوے کا دور چلتا۔ گھڑی دو گھڑی بعد یہ انجمن اٹھ جاتی اور میرزا صاحب کے درس اور بیانات معرفت و تعلیم عرفان اور تلقین خیرات کا دور چلتا جو بعد عشا بھی جاری رہتا۔ ان مجلسوں میں صرف خاص خاص مریدین شامل ہو سکتے تھے۔
میں نہیں کہہ سکتا کہ ایسی صحبتیں اٹھانے والا اور ایسے شب و روز گذارنے والا سید زادہ، اور قزلباش خان امید، یا کسی اور کے یہاں امارد و لوطیان کو بار دلوانے کا وسیلہ بنتا ہو۔ میں نے تو انھیں بہت ہی کم دیکھا لیکن ہمیشہ سنجیدہ اور بردبار دیکھا۔ ہاں ہنسی مخول اور لطیفہ بازی کی بات اور ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہماری پہلی ہی ملاقات میں پہلی بات جو میں نے ان سے سنی وہ ایک لطیفہ تھا۔
جو کہ میں محمد علی صاحب کی حویلی کے بہت قریب تھا لہٰذا نماز عشا کے فوراً بعد وہاں پہنچ گیا۔ محمد علی صاحب نے مجھے کہا تھا کہ آج عشا بعد میرزا صاحب کی محفل سے اٹھ کر عبد الحئی ادھر آویں گے۔ تم بھی آنا،کچھ خاص دوست اور ہوں گے،سب مل کر دھمال مچائیں گے۔ کچھ شعر خوانی بھی ہو گی۔ میاں تاباں نے ایک غزل مجھ پر لکھی ہے،اسے سنانے کے بیحد وہ مشتاق ہیں۔ میں نے دل میں کہا کہ میر عبد الحئی اگر میرزا صاحب جیسے متدین بزرگ کے وہاں جائیں گے تو غالباً شراب پی کر نہ جائیں گے۔ میرا خیال صحیح نکلا۔ حشمت صاحب کے دیوان خانے میں قدم دھرتے ہی تاباں نے استاد کے ہاتھ چومے،قدم چھوئے،ان کے رخساروں کو بوسہ دیا،پھر ہاتھ باندھ کر مسکراتے ہوئے بولے:
"استاد کو معلوم ہے بندے نے شام کہاں گذاری۔ قسم ہے خواجۂ شیراز کی،حلق سوکھتا ہے،جان لبوں تک آئی ہے۔ للہ ساقی کوثر کا صدقہ اس سرخ و سفید ارمنی کو گلے لگا لوں تو خدمت میں حضور کی ایک گرم لطیفہ گذرانوں۔ ”
میر محمد علی مسکرائے،ایک نوکر دائیں جانب مودب کھڑا تھا۔ آنکھ کا اشارہ پاتے ہی سدھا ہوا خدمت گار بغل کا پردہ ہٹا کر اندر گیا اور پل مارتے میں ایک تھالی میں دو لمبی پتلی گردنوں والے شیشے اور ایک تھالی جوڑ جام نقشین اور چند پیالوں میں کاجو،اخروٹ،بادام لے آیا اور پورا سامان اس نے نہایت ادب اور اہتمام سے تاباں صاحب کے سامنے ایک تپائی پر دھر دیا۔ ایک شیشے میں سرخ رنگ کا مشروب تھا،ایک میں بالکل بے رنگ۔ میں ان شرابوں سے بالکل ناواقف تھا۔ لفظ ارمنی سے میں نے گمان گیا کہ یہ ارمنی یا پرتگالی شرابیں ہوں گی۔ تاباں اس درمیان قالین پر گاؤ تکیے کے سہارے حشمت صاحب کے زانو بزانو بیٹھ چکے تھے۔ حشمت صاحب نے فرمایا:
"اماں شیخ سلارو، گل محمد صاحب بھی تو شوق فرمائیں گے۔ ان کے لیے تو جام تم لائے نہیں۔ ”
"میاں، بھول ہو گئی۔ ابھی حاضر کرتا ہوں۔ "یہ کہہ کر شیخ سلارو نے معاً ایک جام اسی کے جوڑ کا لا کر میرے سامنے رکھ دیا۔ تاباں صاحب نے بھنڈے سے شوق کرنا شروع کر دیا تھا اور آئندہ لمحات میں دخت رز سے ہم آغوشی کے رنگین تصور نے ابھی سے ان کی آنکھوں میں گلابی ڈورے لانے شروع کر دیے تھے۔ مجھے بھی موقع ملا کہ میں تاباں صاحب کو ٹھیک سے دیکھ سکوں۔
اگر محمد علی حشمت کا حسن مردانہ رنگ میں وجاہت اور نسائی رنگ میں نزاکت کا انتہائی نمونہ تھا تو عبد الحئی تاباں کا حسن نسائی رنگ میں صباحت اور مردانہ رنگ میں نزاکت کا نمونہ تھا۔ عمران کی کوئی چونتیس یا پینتیس رہی ہو گی لیکن ان کے اوپر حسن اس طرح پھوٹا پڑتا تھا کہ کمسن لگتے تھے۔ اور جتنے وہ کمسن لگتے تھے اتنے ہی با وقار،تمکنت سے بھر پور اور رعب دار تھے کہ مجھے یقین تھا یہ شخص اگر لچوں، شہدوں، بازاری اچکوں میں تنہا بھی گھر جائے تو کوئی اس کے قریب آنے کی جرأت نہ کر سکے گا،چھو لینا تو بہت بڑی بات ہے۔ یہ سب تھا پر اپنے حسن اور جوانی پر اتراونے کا کہیں سے اشارہ تک نہ تھا۔
درست کہ کثرت شراب نے ان کے بشرے پر کچھ ایسی چونے جیسی خشکی سی پھیر دی تھی کہ دوسری نظر میں ان کے چہرے پر تھوڑی سی فرسودگی کاسا اثر جھلکتا ہوا لگا تھا۔ مگر کیا مجال کہ کوئی انھیں بیس چوبیس برس سے زیادہ کا سمجھ لے۔ سر پر ریشمی چیرہ،جس میں سنہری اورسبز نیلی دھاریاں پر طاؤس کا گمان پیدا کرتی تھیں۔ بہت گورا رنگ، سوتواں ناک لیکن بیچ میں ذرا سی اٹھی ہوئی، بڑی بڑی روشن اور باخبر آنکھیں سبزی مائل نیلگوں، چہرے پر خط لیکن ہلکا اور سلیقے سے ترشا ہوا۔ مونچھیں باریک،بالکل خط کے برابر،لیکن ان پر ذرا سے بل کا گمان ہوتا تھا۔ کتابی چہرے پر کلے کی ہڈیاں ذرا نمایاں، لیکن مغل بادشاہوں جیسی نہیں۔ ڈھاکے کی ہلکی زرد ململ کا کرتا،اس پر انگرکھے (اب میں اس لباس کا نام جان گیا تھا) کی جگہ ٹخنوں تک پہنچی ہوئی قبا جس کے بند سب کھلے ہوئے تھے۔ قبا کا رنگ سنہرا سبز،تافتہ لیکن کچھ بنارسی پوت کی جھلک لیے ہوئے۔ فاختئی رنگ کا ریشمی مگرسادہ پائجامہ، کمر میں قرمزی ڈوپٹہ، لیکن قبا کے کھلے ہونے کی وجہ سے بہت ڈھیلا بندھا ہوا۔ گلے میں تسبیح کے دانوں کے برابر یاقوت اور زمرد کے بیضوی دانوں کا ہار،اور اس پر سے کلابتو کے پرتلے سے شانہ و گردن میں تعبیہ کیا ہوا خنجر، کہ جسے دیکھیے تو تعجب بھی ہو اور لطف بھی آئے کہ کیا بہار آسا انداز ہے۔ دونوں ہاتھوں کی ایک ایک انگلی میں انگوٹھی اور داہنی کلائی میں آبنوسی ایک چوڑا،بالکل سادہ،جو گوری کلائی پر بہت بھلا لگ رہا تھا۔ سارے بدن میں ان کے کچھ آبداری سی تھی،جیسے پردے کے پیچھے شمعیں جلتی ہوں۔
اگر چند کہ لوگ کہتے تھے،اور خود شعرا بھی کہتے تھے کہ حسینوں کے منھ پر خط آ جائے پر حسن زائل ہو جاتا ہے،چنانچہ خود حشمت صاحب کا یہ شعر بہت مشہور تھا ؎
خط نے ترا حسن سب اڑایا
یہ سبز قدم کہاں سے آیا
جو کہ خط کو سبزے سے تشبیہ دیتے ہیں اور منحوس شخص کو بد قدم بھی کہتے ہیں اور سبز قدم یا سبز پیرا بھی کہتے ہیں، پس دوسرے مصرعے کا لطف بیان سے باہر ہے۔ اور پھر قدم کی مناسبت سے آیا بھی بہت خوب ہے۔ میر عبد الحئی تاباں نے بھی کہا تھا اور سبز ی کی مناسبت دے کر بہت نئی بات کہی تھی ؎
وہ رنگ کہ تھا جس کی ملاحت کا نپٹ شور
اس رنگ پہ کس طرح سے سرسبز ہوا خط
یہاں بھی یہ لطف ہے کہ سانولے شخص کو سبزہ رنگ کہتے ہیں اور خط کو سبزہ کہتے ہی ہیں۔ لہٰذا خط کاسر سبز ہونا ایک نیا مضمون بن گیا ہے جو حسینوں کے خلاف بھی جاتا ہے اور موافقت میں بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ سب صحیح،پر حشمت اور تاباں صاحبان کے منھ پر خط اتنا بھلا لگتا تھا کہ واقعی جیسے سبزہ زار آنکھوں میں کھبا جا رہا ہو۔
میر محمد علی کی طرح میر عبد الحئی نے بھی محسوس کیا کہ میں انھیں دیکھ رہا ہوں، اور جس طرح میر حشمت اپنے دیکھنے والوں سے باخبر لیکن بے پروا نظر آتے تھے،بالکل وہی انداز تاباں کا تھا۔ جب انھوں نے قرینہ سے سمجھ لیا کہ میں انھیں ٹھیک سے دیکھ چکا ہوں، تو میری طرف ہاتھ بڑھا کر بولے:
"واللہ حضت، آپ ہی ہیں مولوی گل محمد،”انھوں نے نیم قد اٹھ کر مجھ سے مصافحہ کیا۔ "ہمارے حضرت بکثرت ذکر آپ کا کرتے رہتے تھے، اس قدر کہ مجھے بھی اشتیاق بیحد تھا کہ بالمواجہہ آپ کو دیکھوں۔ بارے آج وہ ارمان پورا ہوا۔ ”
باوجود اس کے کہ میاں تاباں عمر میں مجھ سے بہت چھوٹے تھے میں نے سرو قد اٹھ کر انھیں تعظیم دی اور مسکرا کر کہا:
"امید وار ہوں بارگاہ الٰہی میں کہ مجھ سے مایوس نہ ہوئے ہوں۔ ”
"مایوس، بھلا مایوس کیوں، میں نے تو آپ کو اس سے بھی بہتر پایاجیسا کہ اعلیٰ حضرت نے فرمایا تھا۔ لیجیے،شوق فرمائیے۔ "یہ کہتے ہوئے انھوں نے بھنڈے کی نے،اور ایک جام بھرکر میرے سامنے رکھا اور ایک خود اپنے لیے بھر کر غٹا غٹ چڑھا گئے۔ واللہ کمال ہے،میں نے دل میں کہا،بلا نوشی ہو تو ایسی ہو۔ انھوں نے شاید میری نگاہوں سے کچھ بھانپ لیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر بولے:
"جی جناب من، ہمارے ا علیٰ حضرت کے دوست اور کرم فرما حضرت خواجہ ناصر عندلیب کے صاحب زادے میر درد اطال اللہ عمرہم کا ایک مطلع ملاحظہ ہو،فرماتے ہیں ؎
نشہ کیا جانے وہ کہنے کو مے آشام ہے شیشہ
جہاں میں دختر رزسے عبث بد نام ہے شیشہ
کیوں مولوی صاحب،سچ کہنا۔ میر درد صاحب ابھی نام خدا جوان بلکہ کمسن ہیں کہ ناچیز سے چھوٹے عمر میں ہیں، بھلا ایسا شعر اعجاز نہیں تو اور کیا کہا جائے گا؟”
میں نے دل ہی دل میں شعر پر وجد کیا اور اس سے زیادہ اس بات پر کہ تاباں نے کس خوبصورتی سے بلا نوشی کے اعتراض سے بری اپنے کو کر لیا تھا اوراس کی دلیل بھی یوں پیش کی تھی کہ خود کو انسان نہیں بلکہ شیشۂ شراب قرار دیا تھا۔ اللہ اللہ میرے زمانے میں ایسے شعر گو فارسی میں بھی نہ تھے،ہندی تو بچاری ابھی گھٹنیوں چلنا سیکھ رہی تھی۔ لیکن یہ بات میں کسی سے کہہ نہ سکتا تھا۔ میرے دل میں گھٹن ہونے لگی۔ پر یہ تو دھندا روز ہی کا تھا،کن کن امور پر اپنا کلیجا میں پانی کرتا۔
"سبحان اللہ،”میں کہا۔ "میر صاحب کی روشن ضمیری کی داد دوں کہ دوسرے میر صاحب یعنی خواجہ میر صاحب کے کلا م بلاغت التیام پر سردھنوں۔ واللہ مجھے تو یوں ہی سرور ہو گیا۔ ”
عبدالحئی تاباں مسکرائے۔ اس بیچ وہ پہلا جام خالی کر کے دوسرے کو نصف حلق میں اپنے اتار چکے تھے اور میں نے دو ہی جرعے ابھی نذر دل و جگر کیے تھے۔ میر محمد علی حشمت نے میری جانب ہمت افزایانہ دیکھا،گویا کہہ رہے ہوں، مولوی صاحب اپنی چال آپ چلیں، میر عبد الحئی کو اپنے حال پر چھوڑیں۔ ان کے لچھن ہی اور ہیں ان کے طور ہی دیگر ہیں۔
میں یہ پوچھنے کی ہمت کرنے والا تھا کہ خود محمد علی صاحب کے ہاتھ میں جام کیوں نہیں ہے کہ ان کے ملازم نے افیون کی پیالی اور ایک فنجان میں قہوہ،اور ایک بڑی پیالی میں چائے کشتی میں لگا کر ان کے سامنے رکھ دی۔ حشمت صاحب نے گھولوے سے ایک چسکی لی،گرم میٹھی چائے کا ایک گھونٹ پیا اور کچھ لطف کے سے عالم میں آنکھیں بند کر کے ایک بار جھوم گئے۔ پھر جو آنکھیں انھوں نے کھولیں تو وہ کچھ اور بھی دلآویز لگ رہی تھیں۔ میں نے دیکھا تھا کہ افیونیوں کی آنکھیں چندھیائی ہوئی سی ہوتی ہیں اور افیون کے سرور کے ساتھ ساتھ ان کی چوندھ افزوں ہو تی جاتی تھی۔ مگر وہ محمد علی حشمت ہی کیا جو ہر بات میں دنیا سے نرالا نہ ہو۔
عبد الحئی صاحب دوسرا جام خالی کر کے تیسرے کی تیا ری کر رہے تھے کہ ملازم نے اندر آکرسکھ راج سبقت کے ورود کی خبر دی۔
"اہلاً و سہلاً۔ فوراً تشریف لے آئیں۔ "میر حشمت نے کہا۔ "میاں سلارو،لالہ صاحب کے لیے بھی جام کا بندوبست کرو۔ ”
"بہت بہتر جناب،”کہہ کر سلارو میاں باہر گئے اور فوراً ہی سبقت صاحب کو لے کر اندر آئے۔ میر حشمت نے نیم قد کھڑے ہو کر اور ہم دونوں نے سرو قد ہو کر تعظیم دی۔ سبقت صاحب جھک کر حشمت صاحب سے بغل گیر ہوئے اور ہم لوگوں سے مصافحہ کر کے اپنا داہنا ہاتھ بائیں طرف سینے پر رکھا،گویا کہہ رہے ہوں آپ کی جگہ ہمارے دل میں ہے۔
میرزا عبد القادر بیدل کے شاگرد سکھراج سبقت کو دہلی کا بچہ بچہ جانتا تھا۔ وہ لاجواب فارسی گو اور علم مجلسی کے ماہر تھے۔ اعتماد الدولہ معین الدین خان عرف میر منو سے متوسل تھے اور ان کی شہادت کے بعد اب وہ اپنا خاندانی کام دیکھنے لگے تھے۔ ان کا یہ شعر ساری دہلی میں ضرب المثل تھا ؎
او بفکر منست و من فارغ
إبندگی ہا خدائیے دارد
عبد الحئی تاباں صاحب سے ان کی پرانی دوستی تھی،ہر چند کہ وہ عمر میں ان سے بڑے تھے۔ یہی بات کشن چند اخلاص صاحب کے ساتھ بھی عبد الحئی تاباں کی تھی کہ عمر میں بڑے ہونے کے باوجود وہ اخلاص صاحب کے زمرۂ دوستاں میں شامل تھے،چنانچہ ان کا شعر ہے ؎
سخن میں ان کے محبت کی بو ہے اے تاباں
رکھیں ہیں تب تو کشن چند جی سے ہم اخلاص
اخلاص صاحب کو گذرے ہوئے زیادہ عرصہ نہ ہوا تھا۔ سبھی لوگوں کے دلوں میں ان کی جگہ باقی تھی اور پھر ان کا تذکرۂ شعرا موسوم بہ گلشن ہمیشہ بہار اکثر گفتگو کا موضوع بنتا تھا۔ سکھراج سبقت نے بعد مصافحے اور معانقے کے کہا:
"اجی میاں عبد الحئی، کئی دن سے دل تمہارے لیے ہوک رہا تھا۔ آج ادھر سے گذار ا تو ہرچند کہ ساعت بے ساعت ہوتی تھی،جی نہ مانا کہ یہاں میر صاحب کی ملازمت کو حاضر نہ ہوں۔ اور دل سے میں نے کہا کہ تمہاری بھی خیر خبر مل جائے تو سونے پر سہاگا سمجھیو۔ پس یوں ہی ہوا۔ اللہ بڑا کارسازہے۔ ”
"اعلیٰ حضرت کی بارگاہ کو اپنا ہی دربار سمجھیے جناب۔ میں ہمیشہ یہی عرض کرتا تھا۔ "تاباں نے کہا۔ "بارے آج آپ کو اللہ نے توفیق دی۔ لیجیے شوق فرمائیے،”انھوں نے شراب کی صراحی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
اس بار جو شراب تھی وہ شیشے میں نہ ہو کر صراحی میں تھی۔ اغلباً وہ فرنگی نہ رہی ہو۔ میرے زمانے میں فرنگی شراب اور شراب ہی کیوں، تمامی اہل فرنگ کو کوئی جانتا پوچھتا نہ تھا۔ لیکن اب ان کی شرابیں اور کہیں کہیں ان کی فوجیں بھی متداول ہو رہی تھیں۔ میں پرانے وقت کا سپہگری پیشہ،مجھے ان سب اعلیٰ شرابوں کے لیے کہاں ظرف تھا۔ فرنگی سرخ شراب کا ایک جام جو میں چڑھا چکا تھا وہی مجھے بڑی تلخ اور سخت نشہ آور لگ رہی تھی۔ خدا جانے جو لوگ انھیں پیتے تھے ان کے کام و دہن عادی ہو جاتے ہوں گے۔
سکھراج سبقت کی تشریف آوری سے مجھے ایک موقع گفتگو میں براہ راست حصہ لینے کا ملا۔ میں نے تاباں کو یاد دلایا کہ وہ لطیفہ ابھی باقی ہے۔ میر حشمت نے بھی کہا کہ ہاں ان کا تو دماغ سرور شراب سے گرم ہو چکا ہو گا، میر عبد الحئی وہ لطیفہ تو سنا ؤ جو موعود تھا۔
تاباں کے چہرے پر شراب نے کچھ نئی ہی شگفتگی پیدا کر دی تھی۔ گورے چہرے پر سرخی کی بہار عجب پھبن دے رہی تھی۔ منھ تمتما گیا تھا اور آنکھوں میں سرور کے ڈورے اس طرح لہرا رہے تھے جیسے غروب آفتاب کے فوراً بعد شفق کے لہریے سیاہ آسمان پر دوڑتے چلے جا رہے ہوں۔ پتلے پتلے ہونٹوں سے خون سا ٹپک رہا تھا۔ لیکن نہ ان کی آواز میں لرزش تھی اور نہ زبان میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ۔ بالکل پہلے ہی کی طرح تن کر بیٹھے تھے گویا ابھی ابھی آئے ہوں۔ میری زبان پر بے ساختہ میرزا جلال اسیر کا مصرع آ گیا۔۔ ع
شراب روغن گل شد چراغ رنگ ترا
میر محمد علی کہاں تو افیون کے ہلکے سرور میں تھے اور کہاں دفعۃً اٹھ کر بیٹھ گئے۔
"ہائے ظالم کیا مصرع پڑھا۔ محفل کا سرور دوبالا بلک سہ بالا کر دیا۔ خدا خوش رکھے۔ کس کا ہے؟”یہ کہہ کر انھوں نے عجب شیریں لحن سے مصرع پھر دہرایا۔ میں نے پہلی بار انھیں شعر پڑھتے سنا تھا کہ کلام اپنا وہ سناتے نہ تھے۔ ان کی آواز میں ایسی جادوگرانہ لرزش تھی کہ اس کا بیان نہیں ہو سکتا۔ ادھر سکھراج سبقت اور عبد الحئی تاباں بھی اسی مصرعے کی کیفیت سے مغلوب تھے۔ تاباں کے چہرے پر اب بھی کسی حیا کا تاثر نہ تھا،گویا وہ ایسی توصیف کو اپنا حق فطری سمجھتے ہوں۔ خوش وہ بہت تھے،لیکن انکسار اپنے حسن کے باب میں انھیں بالکل نہ آتا تھا۔
"میرزا جلال اسیرکا مطلع ہے جناب۔ "اب میں نے پورا شعر پڑھ دیا ؎
پیالہ رنگ دگر زد رخ فرنگ ترا
شراب روغن گل شد چراغ رنگ ترا
"ہائے ہائے،”میر محمد علی نے زانو پر ہاتھ پٹک کر کہا۔ "سبقت صاحب ذری دیکھیو،بے چارہ ملک ہند کبھی نہ آیا لیکن ہمارے رنگ کا شعر کہتا تھا۔ ”
"درست فرمایا۔ یہ ہماری طرز ہے،ہماری ادا ہے۔ اہل ایران بچارے اسے کیا جانیں اور کیا سمجھیں۔ ” سبقت صاحب نے کہا۔
تاباں نے بڑی بڑی روشن آنکھیں کھولیں۔ "ہمارے خان آرزو صاحب غلط تھوڑا ہی کہتے ہیں۔ ان روزوں اہل ہند ہی اہل زبان ہیں۔ ”
میں ذرا مشوش ہوا کہ اب زبان اور شاعری کی باریک بحثیں چھڑ جائیں گی تو میرا کیا ہو گا۔ گذشتہ دو صدیوں میں جو ہوا تھا میں اس سے بیگانۂ محض تھا۔ جلال اسیر صاحب کا یہ شعر تو مجھے اس لیے یاد تھا کہ کل ہی پرسوں کہیں قوالی ہو رہی تھی۔ میں ذرا کی ذرا ٹھہر گیا تھا کہ سنوں کیا پڑھا جا رہا ہے۔ بس یہ شعر میرے ذہن میں چپک کر رہ گیا تھا۔ میں نے فوراً عرض کیا:
"بجا اور درست۔ مگر صاحب وہ لطیفہ۔ ۔ ۔ ؟”
"ہاں صاحب،وہ لطیفہ تو سنوایے میر عبد الحئی۔ "میر حشمت نے فرمایا۔
"جی،عرض کرتا ہوں۔ وہ جو ایک صاحب ہیں، نئے نئے منصب دار بنے ہیں۔ پہلے ان کے یہاں پھلوں کی آڑھت ہوتی تھی۔ ۔ ۔ ”
"بس ٹھیک ہے میر عبدالحئی،”حشمت نے کہا۔ "ان کا نام زبان پر نہ آئے تو انسب ہے۔ ”
"بہت درست پیر و مرشد۔ تو ان صاحب نے سن رکھا تھا کہ عمدۃ الملک شہید جب نور بائی صاحب کے وہاں تشریف لے جاتے تو دونوں میں چوٹیں چلتی تھیں۔ اب ان بچاروں میں نہ وہ سلیقہ،نہ وہ بذلہ سنجی،انھیں مگر شوق پیدا ہوا کہ نور بائی نہ سہی شمشاد بائی تو ہے،اور عمدۃ الملک امیر خان نہ سہی،ہم تو ہیں۔ ”
"چہ خوش،کہاں راجا بھوج کہاں گنگوا تیلی،”حشمت نے کہا۔ "خیر،تو پھر؟”
"جی،وہ تشریف لے گئے۔ شمشاد بائی نے ان کی تواضع نچلی منزل میں نہ کی،بالا خانے میں انھیں بار دی،گویا بڑا خیال کیا۔ اب ا س گاؤدی احمق زماں کو دیکھیے کہ وقت رخصت کہتا ہے،بائی صاحب،بالا خانہ اپنا تو آپ نے بہت خوب دکھا یا۔ لیکن وہ آپ کی نچلی منزل کہاں ہے،اس کا راستہ کہاں سے ہے؟”
"لاحول ولا قوۃ کیا بد مذاقی ہے۔ "سبقت صاحب نے کہا۔
"جی ہاں۔ تو بائی صاحب بولیں، سرکار اسی منزل سے تو ہو کر تشریف لائے ہیں۔ ”
بڑے زور کا قہقہہ پڑا۔ اس اثنا میں کئی لوگ اور بھی آتے گئے تھے۔ شرف الدین پیام صاحب کو تو میں پہچانتا تھا۔ اوروں میں سے کچھ کے نام سے آشنا تھا اور کچھ کو بالکل نہ جانتا تھا۔ دیر تک محفل رہی۔ میں نے دیکھا کہ بظاہر تو ان لوگوں کو شعر و شاعری اور عاشقی و معشوقی کے سوا کچھ کام نہ تھا،مگر درحقیقت یہ لوگ زمانے کے سرد و گرم سے آشنا اور وقت کے بدلتے ہوئے طوروں سے خوب واقف تھے۔ اس رات بھی جو باتیں اکثر ذکر میں آئیں ان میں نادر گردی تھی جسے کوئی دس بارہ برس ہو چکے تھے لیکن ان زمانوں میں دہلی پر جو بیتی تھی اسے کوئی بھلا نہ سکا تھا۔ اس وقت کی آفت اور قتل اور غارت اور تاراجی کے اذکار سے زیادہ جو بات سب لوگوں کی زبان پر تھی وہ محمد شاہ بادشاہ غازی فردوس آرام گاہ کے امرا اور عمائد اور سردارن مملکت کی آپسی رقابتیں، عداوتیں اور خود غرضیاں تھیں۔ سب کو اس بات کا رنج تھا کہ دلی کی شان اور رونق بھلے ہی واپس آ گئی ہو لیکن حکومت اب اس طرح کی اور اس نہج پر نہ ہو گی جب تک بادشاہ اور اس کے امرا مل کر سر جوڑ کر نہ بیٹھیں اور اتحاد کو قائم رکھیں۔ دہلی اب مرکز عالم نہ رہے گا اگر یہی لیل و نہار رہے۔
محفل ختم ہونے کو تھی،کچھ لوگ اٹھنے کا ارادہ کر رہے تھے کہ تاباں نے کہا:
"پیر و مرشد،ایک بات تو رہی جاتی ہے۔ وہ جو غزل میں نے آپ کی مدح میں لکھی تھی۔ ۔ ۔ ”
محمد علی حشمت مسکرائے۔ "میں امید کر رہا تھا کہ تم وہ بات بھول گئے ہو گے۔ چلو خیر سناؤ۔ حضرات سماعت فرمائیں، میاں تاباں نے مجھ ہیچمداں کے ذکر میں کچھ شعر کہے ہیں۔ ”
سب لوگ پھر سے متوجہ ہو گئے۔ تاباں دو زانو بیٹھ گئے اور انھوں نے غزل شروع کی ؎
ہوا ہوں اس جہاں میں دل سے تیرا آشنا حشمت
کروں میں دولت دنیا کے تیں اب لے کے کیا حشمت
جو تیرا آشنا ہو اس کو سیم وزرسے کیا حاجت
میں تیرے ربط کے تیں جانتا ہوں کیمیاحشمت
نہ ہوں محتاج دنیا میں کسی شاہ و گدا کا میں
رہے لطف و کرم ایسا ہی گر مجھ پر ترا حشمت
تری باتوں میں اپنا درد و غم سب بھول جاتا ہوں
کروں کس طرح تجھ کو آپ سے اک دم جدا حشمت
ہے سب کو آرزو ظل ہما کی مجھ کو کیا پروا
قیامت تک رہے سر پر مرے سایہ ترا حشمت
سخن کے بحر میں آ کے مری کشتی تباہی تھی
کنارے آ لگی جب سے ہوا تو نا خدا حشمت
پرستش کیوں نہ دنیا میں کریں ہم اس کی اے تاباں
ہمارا قبلہ حشمت دین حشمت رہنما حشمت
سایہ ترا حشمت والا شعر بہت پسند کیا گیا اور بار بار پڑھوایا گیا۔ اس میں یہ بھی کنایہ تھا کہ اگر حشمت کا سایہ مجھ پر تا قیامت رہے گا تو میں بھی تا قیامت رہوں گا۔ کسی کو کیا خبر تھی کہ قیامت بہت دور اور موت بہت نزدیک تھی اور یہ سارا پیکھنا دم کے دم میں اٹھ جاوے گا۔ مجھے یہ بات اس غزل میں بہت لحاظ کے لائق لگی کہ کسی بھی شعر،بلکہ کسی بھی لفظ سے عشق اور ہوس اور معشوقی کی خفیف ترین بو بھی نہ تھی۔
محفل اٹھی تو میں بھی کوچہ چیلاں اپنے گھر کو چلا،سکھراج سبقت صاحب بھی میرے ساتھ چلے کہ ان کا ڈیرہ حوض قاضی میں معین الملک کی حویلی کے پاس ہی تھا۔ راستے میں وہ بار بار جلال اسیر کا مطلع پڑھتے اور داد دیتے رہے۔
چند مہینے یوں ہی گذرے۔ تاباں، حشمت،اور دوسرے کئی شعرا سے بھی ملنا ملانا ہوتا رہا۔ ایک آدھ بار میں نے میرزا رفیع، شاہ حاتم اور صرف ایک بار میاں میر تقی میر کو دیکھا اور سنا۔ شعر گوئی مجھ سے پھر بھی ہمیشہ کی طرح روٹھی ہی رہی،ہاں دہلی کی شعر سے معطر اور تر فضا میں مجھے شعر شناسی البتہ آ گئی۔ مزید علیہ، خود کو دہلی کے گلی کوچوں سے آشنا کرنے اور یہاں اپنا دل پوری طرح لگانے کے سب جتن میں نے کیے۔ اور اس میں مجھے یک گونہ کامیابی ہونے لگی تھی کہ ایک بات ایسی ہوئی جس نے مجھے یقین دلا دیا کہ اس دنیا میں انصاف نہیں ہے اور میرے مقدر میں یوں ہی محروم رہنا اور تنہا بھٹکنا لکھا ہے۔ کبھی کبھی جی میں آتی،شادی کر لوں۔ گھر بسالوں گا تو زندگی میں اور ذہنی حالت میں اعتدال آئے گا۔ لیکن دوسری شادی کے خیال سے وحشت اور آشفتگی پیدا ہوتی تھی۔ جیسے میں اپنی بیاہی بی بی کو چھوڑ کر اس پر سوت لا رہا ہوں۔ ہر چند کہ دو سے زیادہ صدیوں کے بعد میری بی بی کیا میرا خاندان بھی شاید کہیں نہ ہو گا، مگر پھر بھی یہ مجھے بڑی بے وفائی لگتی تھی۔
پایان کار میں نے خود کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ ننگل خورد کسی کو بھیج کر معلوم کراؤں کہ وہاں میرے لوگ کوئی ہیں کہ نہیں اور ہیں تو کس حال میں ہیں۔ کئی دن انتظار کیا۔ راتوں کو برے خواب دیکھتا اور دن کو سب کی سلامتی دعا کرتا۔ میں اس قدر وارفتہ ہو رہا تھا کہ یہ بھی نہ سمجھا کہ اب ڈھائی صدی بعد میں کس کی سلامتی کے لیے دست بدعا ہو سکوں گا۔ بالآخر میرا ہرکارہ واپس آیا۔
میر گھر تو کیا،وہاں میرا گاؤں بھی اب نہ تھا۔ بہت پوچھ گچھ کے بعد پتہ لگا کہ بہت دن پہلے،کوئی ہزاروں برس پہلے،ننگل ندی،جس کے کنارے میرا گاؤں آباد تھا، بری طرح چڑھ آئی تھی۔ اسی زمانے میں جمنا میں بھی زبردست باڑھ آئی اور جمنا کا بہت سارا پانی نہر کے بند توڑ کر نہر کو ہڑپ کر کے چاروں جانب پھیل گیا۔ اس دو طرفہ یلغار نے میرے گاؤں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر نیست و نابود کر دیا۔ اب وہاں کچھ ویران زمینیں ہیں اور زیادہ تر جنگل ہیں۔
ہزاروں برس؟ ہزاروں نہیں، صدیوں برس تو ہو ہی گئے تھے۔ کیا عجب میرے دوسری بار دہلی جانے کے فوراً بعد یہ قیامت ٹوٹی ہو۔ لیکن مجھ پر تو آج ٹوٹ رہی تھی۔
میں کئی دن گھر سے باہر نہ نکلا۔ اکثر راتوں کو چراغ بھی نہ جلنے دیتا،ماما کے گھر چلے جانے کے بعد چراغ بجھا کر کھانا کھائے بغیر منھ لپیٹ کر پڑ جاتا۔ صبح کو ماما کے آنے سے پہلے زیادہ تر کھانا محلے کے کتوں، آوارہ گایوں، سانڈوں، بلیوں کو جلد جلد کھلا کر پھر آ کر پڑ رہتا۔ ماما آتی تو یوں آنکھیں ملتا ہوا اٹھتا گویا ابھی آنکھ کھلی ہو۔
مانا کہ یہ سب بے فائدہ،بے مزہ، بے صرفہ تھا۔ یہ بات تو مجھے شروع ہی سے معلوم تھی کہ میرا کوئی نہیں ہے،گھر بھی نہیں ہے،اقارب بھی نہیں ہیں، سنگی ساتھی بھی نہیں ہیں۔ میں در حقیقت ایک جنات ہوں جو انسان کی جون میں زبردستی ڈال دیا گیا ہوں۔ لیکن پھر بھی میرے دل میں امید کا ایک تار سا معلق تھا کہ شاید۔ ۔ ۔
اس شاید کی جھونک ایسی تھی جو مجھے امید کے پالنے میں جھلائے جاتی تھی۔ چلو میری بی بی بیٹی بیٹا وہاں نہ ہوں گے، ان کے اعقاب تو ہوں گے۔ سگے نہ ہوں گے رشتے کے تو ہوں گے۔ کچھ نہ ہو گا تو میرا گاؤں تو ہو گا۔ کوئی تو میری زمینوں کی کاشت کر رہا ہو گا۔ میرا پرانا باغ سوکھ گیا ہو گا، دیمک کھا گئے ہوں گے لیکن اس کی جگہ نیا باغ تو کسی نے لگا لیا ہو گا۔ اس میں پپیہے اور کوئلیں تو کوکتی ہوں گی۔ اس پر بارش کی پہلی پھوار سے گرد آلود آم کے پھلوں کا منھ تو اب بھی دھل جاتا ہو گا؟
لیکن عینی شاہد اور عقلی شاہد سب میرے خلاف تھے۔ تو اب میں جی کر کیا کروں گا؟خود کشی بھی تو کوئی بات ہے۔ میر محمد علی اور میر عبد الحئی میرے لیے گور و کفن تو مہیا کر ہی دیں گے۔ مگر خود کشی تو حرام ہے۔ میری دادی کہتی تھیں خود کشی کرنے والا بد روح بن جاتا ہے۔ ۔ ۔ تو میں کیا کسی بد روح سے کم ہوں۔ ۔ ۔ ؟
کئی دن اور گذرے۔ اب میری ماما کو بھی شک ہونے لگا تھا کہ شاید میاں کے حواس بجا نہیں ہیں۔ مجھ سے تو اس نے کچھ نہ کہا مگر محلے والوں تک دبی زبان سے بات پہنچا دی۔ دلی والوں کو تو ایک تماشا در کار ہے، چاہے وہ گھر ہی پھونک کیوں نہ ہو۔ جہاندیدہ لوگوں نے قیاس کیا کہ میرا دل کہیں آیا ہوا ہے۔ ایک آدھ بار انھوں نے کٹنیاں بھیجیں کہ جاؤ کیفیت معلوم کرو اور پرانے سلسلے کو دوبارہ باندھو اور وہ ممکن نہ ہو تو نیا سلسلہ جنباں کرو۔ لیکن میں نے انھیں کچھ انعام دے کر رخصت کیا۔ قصہ یہ بتایا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ گھر پر میرے لوگ بے حد مقروض ہو گئے ہیں۔ میں اسی ادھیڑ بن میں رہتا ہوں کہ تدارک کیا اس کا کروں۔ کئی جگہ سے مجھے کچھ قرض ملنے کی امید ہے لیکن سود بہت زیادہ ہے اور واپسی جلد ہونی ہے۔ بس انھیں فکروں میں دن رات کا جینا حرام ہو گیا ہے۔
وہ کٹنیاں ہزار بلائے بے درماں سہی لیکن جہاں دیدہ،ہزاروں دروازے دیکھے ہوئے اور بیسیوں کنوؤں کا پانی پیے ہوئے تھیں، سمجھ گئیں کہ ان تلوں میں تیل نہیں اور یہ معاملہ نہ زن کا ہے نہ زر کا،یہ تو کچھ جناتی کارخانے ہیں۔ پھر سب نے میرا پیچھا چھوڑ دیا۔
لیکن کٹنیوں کے دفان ہونے کے دو ہی چار دن بعد محمد علی حشمت کا ہرکارہ آیا کہ فوری معاملہ ہے،بستر باندھو اور میرے ہاں پہنچو۔ مجھے تھوڑا سا تعجب تو ہوا لیکن ایک امید سی بھی ہوئی کہ شاید یہاں کچھ بہتری کا آثار ہو۔ یوں کچھ نہ ہو لیکن تبدیل حال میں ایک امید تو ہوتی ہے۔ میں نے بستر باندھا،گھر کی کلید پاس کی مسجد کے امام صاحب کے حوالے کی،ماما کو کہا کہ نیک بخت تو میری راہ دیکھ لیجو میں چند دن میں واپس آ جاؤں گا۔ دو چار گھڑی کے بعد میں میر حشمت صاحب کی حویلی پر حاضر تھا۔
میں پر امید تھا تو دل میں ڈرا بھی ہوا تھا۔ میرے زمانے سے اب تک طریق جنگ اور اسلحہ سب بہت بدل چکا تھا۔ یہاں گولہ،بارود،بندوق،توپ سے جنگ ہوتی تھی اور ہمارے لوگوں کو بندوق کی ہوا بھی نہ لگی تھی۔ ہم نے بارود کی بو بھی نہ سونگھی تھی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ میرے خداوند عالم سلطان ابراہیم لودی شہید کی افواج کو مکمل ہزیمت چند ہی ساعتوں میں اس سبب سے ہو گئی تھی کہ ان کے ہاتھی گولہ بارود کا سامنانہ کر سکے تھے اور فوج میں بھگدڑ مچ گئی تھی۔ میں نے جب یہ سامان یہاں دیکھے تو بہت متوحش ہوا تھا کہ ان چیزوں کو میں کیا سنبھال پاؤں گا۔ بہت کچھ مشق کر کے اب میں تھوڑا بہت عادی سلاح آتش کا تو ہو گیا تھا لیکن معرکے کی گرمی میں کہاں تک میں بندوق یا توپ کا ساتھ دے سکوں گا،یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
"خوب آئے میاں صاحب،”انھوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔ مراد آباد کے لیے رخت سفر باندھ لو، ابھی اور اسی وقت چل دیجیے۔ میں اور بقیہ رسالہ بھی ساتھ ہو گا۔ ”
میر دل دھڑکا۔ یہ تو کچھ فوجی کارروائی جیسا رنگ لگتا تھا۔ "بہت مناسب۔ میں حاضر ہوں، پر معاملہ کیا ہے؟”
میر حشمت کے مفصل اظہار کا ماحصل یہ تھا کہ روہیلہ نواب علی محمد خان کی اچانک موت کے بعد علاقہ ٔ روہیل کھنڈ میں بد امنی کا خدشہ پھیل گیا تھا۔ علی محمد خان کے دونوں بڑے بیٹے عبداللہ خان اور فیض اللہ خان قندھار میں جلاوطن تھے۔ تیسرا بیٹاسعد اللہ خان کم عمر تھا۔ کسی بنا پر نواب قطب الدین علی خان،فوجدار مراد آباد کو گمان تھا کہ جب تک بڑے بھائیوں کی جلاوطنی کی منسوخی کا فرمان قلعۂ معلیٰ سے نہ صادر ہو،خطۂ روہیل کھنڈ میں عملداری براہ راست شاہ جمجاہ کی رہے گی۔ اور سعد اللہ خان کو دہلی بلا کر زیر نگین دارالخلافت رکھا جائے گا۔ جہاں تک میر محمد علی کو معلوم تھا،ان مضامین کو محتوی کوئی فرمان قضا شیم بارگاہ بادشاہ جمجاہ سے جاری نہ ہوا تھا لیکن خیال تھا کہ نواب قطب الدین خان نے مہابلی کو حالات سے آگاہ رکھا ہو گا۔ بہر طور، روہیلوں کو یہ گوارا نہ تھا کہ نوعمر نواب زادہ اپنے وطن اور اپنے لوگوں سے جدا کر دیا جائے اور پورے خطے پر شاہی اہلکار قابض ہو جائیں۔ فلہٰذا وہ بڑی جمعیت اکٹھا کر کے سعد اللہ خان کا تحفظ اور اس کو ہر قیمت پر اپنے ہی پاس رکھنا چاہتے تھے۔
ان حالات کے پیش نظر فوجدار مراد آباد نے حکم دیا کہ رسالۂ فوجداری کے سب سپاہی بفور مراد آباد پہنچ مقابلہ روہیلوں کا کریں اور ان کو عتاب شاہی اور خفگی جناب عالم پناہی کا مزہ چشید کرائیں۔ فوجدار بنفس نفیس مراد آباد پہنچ چکے تھے۔ پس ہم لوگوں کو بھی وہیں پہنچ جانا چاہیئے۔
شام ہوتے ہوتے رسالے کی جمعیت پانچ سو کے قریب ہو گئی تھی۔ دوسری صبح ہم عازم مراد آباد ہوئے اور دھاوے کے طور پر سفر کرتے ہوئے چوتھے دن وہاں وارد ہوئے تو معلوم ہوا کہ یہاں سے کئی کوس پر دھام پور کوئی مقام ہے، نواب قطب الدین خان وہاں فروکش ہیں۔ روہیلوں کا بھی مجمع وہیں قریب میں ہے۔ نواب منتظر ہمارے ہیں کہ ہم پہنچیں تو معرکہ گرم ہو۔
کمر یں کھولے بغیر ہم نے دھاوے کے طور پر دھام پور کا رخ کیا۔ فوجدار صاحب دھام پور سے دو کوس ادھر ایک اجاڑسی گڑھی میں خیمہ زن تھے۔ ان کے جاسوسوں نے خبر دی تھی کہ روہیلے کنار دریائے رام گنگا مجمتع اور جیش شاہی سے محاربے کے منتظر ہیں۔ نواب نے پوری فوج کے ساتھ قلعے سے باہر نکل کر ایک مناسب عرصۂ مصاف دیکھ کر قیام کیا اور ایک ٹکڑی مقدمۃ الجیش کے طور پر آگے روانہ کی۔ نواب نے اپنی فوج کی پشت پر گھنے خار دار جنگل کا وسیع قطعہ رکھا تھا،اس خیال سے کہ اگر بالفرض محال پیچھے ہٹنا پڑا تو ہم جنگل میں چھپ جائیں گے۔ وہاں غنیم کا داخلہ محال ہو گا کیونکہ جب وہ جنگل میں داخل ہو گا تو ہمیں اس کی نقل و حرکت کی خبر از خود مل جائے گی اور ہم اسے گولیوں کی باڑھ پر رکھ لیں گے۔
فوجداری جمعیت میں بڑی یا چھوٹی توپیں نہ تھیں، حتیٰ کہ دمامۂ شتری اورفیلی تو کیا شتر نال بھی نہ تھے۔ نواب قطب الدین خاں صاحب کا خیال تھا کہ مٹھی بھرتو روہیلے ہوں گے،ہزار دو ہزار بھی ہوئے توہم انھیں جنگ دو بدو میں مار لیں گے۔ توپ کے لیے میدان درکا رہے،ہمیں ان کی ضرورت کچھ نہ ہو گی۔
نواب کی تجویز بظاہر صائب تھی۔ لیکن ان کے مخبروں نے ان کے ساتھ دغا کی تھی۔ روہیلوں کا ایک بڑا جتھا اس جنگل میں پہلے ہی سے موجود تھا۔ ایک طرف دریائے رام گنگا، دوسری طرف دھام پور کا قصبہ،پیچھے خارستان۔ فوجدار کے مقدمۃ الجیش سے کچھ تو بے خبری میں وہیں مار دیئے گئے۔ کچھ بچے کھچے جو تھے وہ حواس باختہ یہ خبر لے کر آئے کہ ہم ہر طرف سے گھر گئے ہیں۔ روہیلے کم سے کم دس ہزار ہیں اور ہر طرف، حتیٰ کہ دریا کے ورلی طرف بھی ہیں۔
ابھی ان کا اظہار تمام نہ ہوا تھا کہ روہیلوں کے رسالوں نے ہم پر گو لہ باری شروع کر دیں، ہر چند کہ وہ ابھی کچھ دور تھے۔ پاس آتے ہی آتے انھوں نے گولیاں چلانی شروع کر دیں۔ کوئی دس ہزار رہے ہوں گے۔ نواب نے جم غفیر دیکھ کر جنگل کو مراجعت کا حکم دیا۔ لیکن وہاں تو کوئی بیشہ،کوئی جھاڑی،کوئی جھنڈی ایسی نہ تھی جس کے پیچھے روہیلے مسلح اور مکمل جمے ہوئے نہ ہوں۔
قطب الدین علی خان بڑی بے جگری سے لڑے۔ ان سے بڑھ کر محمد علی حشمت کی جگر داری تھی۔ لگتا تھا انھوں نے ملک الموت سے کہہ رکھا تھا کہ میرے کنے نہ آنا۔ میں ان کے ساتھ ساتھ تھا لیکن نہ جائے رفتن نہ پاے ماندن والا معاملہ تھا۔ سردیوں کے دن تھے،کنار دریا اور جنگل کے متصل ہونے کی وجہ سے سردی اور بھی کڑاکے کی پڑ رہی تھی۔ ہم لوگوں کا خون بہنے بھی نہ پاتا تھا کہ وہیں جم رہتا۔ زوال کے پہلے پہلے ہم سب مار لیے گئے۔ کوئی متنفس زندہ نہ بچا۔
٭٭٭
جیسے زلزلے کے جھٹکے نے میرا پلنگ زور سے ہلا دیا ہو،میں ہڑبڑا کر اٹھا اور پلنگ سے گرتے گرتے بچا۔
"کیا کہا؟سب مار لیے گئے؟کوئی بھی نہ بچا؟”
"نہیں جناب۔ کوئی بھی نہیں۔ "اس نے پست اور افسردہ آواز میں کہا۔
"تو کیا۔ ۔ ۔ تو کیا تم مردہ ہو؟”
"یہ تو میں خود بھی نہیں جانتا جناب۔ شاید آپ یہ معاملہ بہتر طے کرسکتے ہیں۔ ”
افسردہ آواز اور بھی دھیمی پڑتی جا رہی تھی۔ پھر جیسے بولنے والا دور ہوتا جا رہا ہو۔ پھر شہنائی پر بھیروی کی نفیر دھیرے دھیرے اٹھی۔ وہ بھی دور ہوتی چلی گئی۔
***
عبد الحئی تاباں نے جب محمد علی حشمت کی سناونی سنی تو دستار اتار کر پھینک دی اور گریباں چاک ہو کر محمد علی حشمت کا شعر پڑھا ؎
جب آ خزاں چمن میں ہوئی آشنائے گل
تب عندلیب رو کے پکاری کہ ہائے گل
اس دن سے عبد الحئی تابا ں جامۂ آبی پہن کر گوشہ نشین ہو گئے۔ ساری محفل آرائیاں چھوڑ دیں، حتیٰ کہ میرزا مظہر جانجاناں صاحب کے یہاں بھی جانا چھوڑ دیا۔ انھوں نے بلوا بھی بھیجا لیکن انھوں نے کہلا دیا کہ میرزا صاحب کی خدمت میں ہاتھ جوڑ کر کہہ دیجو کہ تاباں اب وہاں نہیں ہے۔
پھر انھوں نے شراب چھوڑ دی۔ ہر چند کہ اطبا نے سختی سے منع کیا، کہا کہ شراب تمہارے رگ و ریشے میں بجائے لہو جاری ہے۔ شراب تمہارے لیے اخلاط میں سے ایک خلط بن گئی ہے تمہارے مزاج میں جا گزیں ہو گئی ہے۔ شراب چھٹے گی تو مر جاؤ گے۔ لیکن تاباں نے ایک نہ سنی۔ انھوں نے بس یہی کہا کہ میں نے توبہ کر لی ہے۔ اب دوبارہ پینے لگوں تو خدا کو کیا منھ دکھاؤں گا۔ میر حشمت کو کیا منھ دکھاؤں گا۔
شراب چھوڑتے ہی تاباں نے تمام دوستوں کو رقعے لکھے کہ اب میرا وقت آخر ہے۔ آ کر منھ دکھا جاؤ۔ میرا منھ بھی دیکھ لو۔ کوئی تقصیر مجھ سے ہوئی ہو تو معاف کر دو کہ میں جس طرح ہلکا آیا تھا اسی طرح ہلکا جاؤں۔ لوگ ہر روز آتے رہے، کچھ تو ان کا منھ دیکھ کر رو پڑتے اور فوراً واپس چلے جاتے۔ کچھ وہیں ان کی طرح پلنگ کی پٹی پکڑ کر بیٹھ جاتے، لطیفوں اور مطائبوں سے ان کا دل بہلاتے۔
دوستوں کومراسلے بھیجنے کے آٹھویں دن میر عبد الحئی تاباں نے دنیا سے منھ موڑ لیا ؎
داغ ہے تاباں علیہ الرحمہ کا چھاتی پہ میر
ہو نجات اس کو بچارا ہم سے بھی تھا آشنا
٭٭٭
مشمولہ سہ ماہی ’سمت’ شمارہ ۳۷، جنوری تا مارچ ۲۰۱۸ء
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید