فہرست مضامین [show]
عبد الرحمان احسان دہلوی کی کچھ غزلیں
عبدالرحمان احسان دہلوی
جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
تمہاری چشم نے مجھ سا نہ پایا
دیا سرمہ بھی اور چپکا نہ پایا
خدا کو کیا کہوں پایا نہ پایا
کہ وصل بے خودی اصلاً نہ پایا
بہت صورت کو میں ترسا نہ پایا
نہ پایا وہ بہت ترسا نہ پایا
سحاب تر نے بحر خشک سب نے
ہمارا دیدۂ تر سا نہ پایا
چلے ہم دل جلے اس بزم سے یار
جلے ہاتھوں سے اک بیڑا نہ پایا
سدا سورج نے دن بھر اس کو ڈھونڈا
کبھی وہ چاند کا ٹکڑا نہ پایا
بہت اچھا ہوا اچھی ہے قسمت
مریض عشق کو اچھا نہ پایا
جو اس گردن کا نقشہ ہے وہ ہم نے
صراحی دار موتی کا نہ پایا
در اشک مسلسل اے شہ عشق
تری دولت سے یہ سہرا نہ پایا
بہت سیدھا بناؤں گا فلک کو
کہ اس کج کو کبھی سیدھا نہ پایا
٭٭٭
کچھ طور نہیں بچنے کا زنہار ہمارا
جی لے ہی کے جاوے گا یہ آزار ہمارا
کوچہ سے ترے کوچ ہے اے یار ہمارا
جی لے ہی چلی حسرت دیدار ہمارا
تو ہم کو اٹھا لیجیو اس وقت الٰہی
جس وقت اٹھے پہلو سے دل دار ہمارا
یارا ہے کہاں اتنا کہ اس یار کو یارو
میں یہ کہوں اے یار ہے تو یار ہمارا
ہم پادشہ مملکت عشق ہیں ناحق
منصور سا مارا گیا سردار ہمارا
کہہ دیجیو مکھولی کو اے گردش طالع
ہاں جلدی سے لا تخت ہوا دار ہمارا
بے غم ہیں ہر اک غم سے نہیں غم کا ہمیں غم
کیا غم ہو کہ غم تیرا ہے غم خوار ہمارا
ابرو کی تری بیت کی کیا بات ولیکن
ہے آہ کا مصرعہ بھی دھواں دار ہمارا
احساں ؔ تو غزل فارسی ہی اپنی کہا کر
دل ریختہ تیرے سے ہے بیزار ہمارا
٭٭٭
گلی سے تری جو کہ اے جان نکلا
گریباں سے دست و گریبان نکلا
تری آن پہ غش ہوں ہر آن ظالم
تو اک آن لیکن نہ یاں آن نکلا
یہی مجھ کو رہ رہ کے آتا ہے ارماں
کہ تجھ سے نہ کچھ میرا ارمان نکلا
مری آہ آتش فشاں دیکھتی ہے
لیے گھر سے ہر آن قرآن نکلا
مری جان شرط رفاقت نہیں یہ
نکل جان تو بھی کہ پیکان نکلا
کیا میں نے مجرا تو جھنجھلا کے بولا
کہاں کا مرا جان پہچان نکلا
عجب بے بہا ہے مرا اشک یارو
یہ کمبخت لڑکا تو طوفان نکلا
مجھے شیخ الفت سے مانع ہے احساں ؔ
ولی جس کو سمجھا تھا شیطان نکلا
٭٭٭
میاں کیا ہو گر ابروئے خم دار کو دیکھا
کیوں میری طرف دیکھ کے تلوار کو دیکھا
آنکھیں مری پھوٹیں تری آنکھوں کے بغیر آہ
گر میں نے کبھی نرگس بیمار کو دیکھا
دیکھے نہ مرے اشک مسلسل کبھی تم نے
اپنی ہی سدا موتیوں کے ہار کو دیکھا
ا توار کو آنا ترا معلوم کہ اک عمر
بے پیر ترے ہم نے ہی اطوار کو دیکھا
دیکھا نہ کبھو کوچۂ دل دار کو رنگیں
بس ہم نے بھی اس دیدۂ خوں بار کو دیکھا
اس میں بھی در اندازوں نے سو رخنے نکالے
احساں ؔ نے جو اس رخنۂ دیوار کو دیکھا
٭٭٭
نیم چا جلد میاں ہی نہ میاں کیجئے گا
نیم جانوں کا ابھی کام رواں کیجئے گا
طاقت گرمیِ خورشید قیامت ہے کسے
تاب کی داغ جگر سے نہ فغاں کیجئے گا
دل میں تم ہو نہ جلاؤ مرے دل کو دیکھو
میرا نقصان نہیں اپنا زیاں کیجئے گا
کہہ دو بقال پسر سے کہ مرا دل لے کر
قصد اخذ دل اغیار نہ ہاں کیجئے گا
دل سے دل پاس ہیں تو بھی ہے دلوں کی خواہش
کیا دلوں کی کہیں دلی میں دکاں کیجئے گا
اور بھی سوز جگر بزم میں ہو گا روشن
شمع ساں قطع اگر میری زباں کیجئے گا
یار جب ساتھ سفر میں ہو کہاں کی روزی
روز روزوں ہی میں عید رمضاں کیجئے گا
کس سے یا رب کہوں احوال یہ کہتا ہے وہ بت
اپنی یاں رام کہانی نہ بیاں کیجئے گا
وہ دھواں دھار سی زلفیں ہیں نظر میں ہر شب
ورد اب سورۂ واللیل و د وخاں کیجئے گا
شہر دل کی تمہیں آبادی کا کچھ بھی ہے خیال
یا جہاں رہیے گا ویراں ہی وہاں کیجئے گا
میری جانب سے کہو محتسب شہر سے یہ
سعیِ ارزانیِ مے از دل و جاں کیجئے گا
پانی پی پی کے تمہیں دیویں گے دشنام یہ رند
تم سبک ہو گے اگر بادہ گراں کیجئے گا
جلد احساں ؔ سے کہو وہ بت خود کام آیا
اب تو للہ کہیں بند زباں کیجئے گا
٭٭٭
ہر آن جلوہ نئی آن سے ہے آنے کا
چلن یہ چلتے ہو عاشق کی جان جانے کا
قسم قدم کی ترے جب تلک ہے دم میں دم
میں پاؤں پر سے ترے سر نہیں اٹھانے کا
ہماری جان پہ گرتی ہے برق غم ظالم
تجھے تو سہل سا ہے شغل مسکرانے کا
قسم خدا کی میں کچھ کھا کے سو رہوں گا صنم
جو ساتھ اپنے نہیں مجھ کو تو سلانے کا
نصیب اس کے شراب بہشت ہووے مدام
ہوا ہے جو کوئی موجد شراب خانے کا
بہت سے خون خرابے مچیں گے خانہ خراب
یہی ہے رنگ اگر تیرے پان کھانے کا
ہماری چھاتی پہ پھرتا ہے سانپ یاں احساں ؔ
وہاں ہے شغل اسے زلف کے بنانے کا
٭٭٭
مرتے دم نام ترا لب کے جو آ جائے قریب
جی کو ٹھنڈک ہو تپ غم نہ مرے آئے قریب
بوسہ مانگوں تو کہیں مجھ سے یے بلوا کے قریب
کس کا منہ ہے جو مرے منہ کے وہ منہ لائے قریب
ہاتھ دوڑاؤں نہ کیوں جبکہ وہ یوں آئے قریب
پاؤں پھیلاؤں نہ کیوں پاؤں جو پھیلائے قریب
پاس آؤں تو کہے پاس ادب بھی ہے ضرور
دور جاؤں تو وہاں جائے تقاضائے قریب
مجھ کو اے پیر مغاں محتسب ناہنجار
قرب محشر ہے کہ بے قربی سے بلوائے قریب
غم دوری سے ترے کوچے کے رویا عاشق
واں سے جب روضۂ رضوان اسے لائے قریب
میری بیداری سے اے دولت بیدار ہو کیا
بخت جاگیں جو مجھے اپنے تو بلوائے قریب
میرے نالوں سے نہ دن چین نہ شب کو ہے قرار
مرگ کے پہنچے ہیں اب تو مرے ہمسائے قریب
ایسی مجلس سے اگر رہیے بعید اولیٰ ہے
دل دماغ اپنا تو وہ اور یہ غوغائے قریب
پاس جاؤں تو مچل کر کہے چل یاں سے دور
دور بیٹھوں تو گھڑک کر مجھے فرمائے قریب
عشق کے پیچ میں ہوں چاہیئے ہم دم پس مرگ
عشق پیچاں ہی مری قبر کے لگوائے قریب
مشک و صندل ہو ترے رنگ سے بالوں ہم سر
غصہ دل کو مرے کس طرح نہ آ جائے قریب
کچھ ردیف اب کی بڑھا قافیہ احساں ؔ تو بدل
پھر قریب ایسے بٹھا تجھ کو وہ بٹھلائے قریب
٭٭٭
تیر پہلو میں نہیں اے رفقائے پرواز
طائر جان کے یہ پر ہیں برائے پرواز
یوں تو پر بند ہوں پر یار پروں پر میرے
جو گرہ تیری ہے سو عقدہ کشائے پرواز
ایک پرواز کی طاقت نہیں اس جا سے مجھے
اور جو حکم ہو صیاد سوائے پرواز
دیکھیو نامہ نہ لایا ہو کبوتر اس کا
کچھ مرے کان میں آتی ہے صدائے پرواز
بے پر و بالی پہ غش ہوں کہ یہ ہر دم ہے رفیق
تھی پر و بال ہی تک ہم سے وفائے پرواز
اپنے نزدیک تو اس دام میں پھنس کر صیاد
کسی کمبخت کو ہووے گا ہوائے پرواز
تو بھی اس تک ہے رسائی مجھے احساں ؔ دشوار
دام لوں گر پر جبریل برائے پرواز
٭٭٭
دل تو حاضر ہے اگر کیجئے پھر ناز سے رمز
ہیں ترے ناز کے صدقے اسی انداز سے رمز
رمز و ایما و کنائے تجھے سب یاد ہیں یار
ہم تو بھولے ہیں غم غمزۂ غماز سے رمز
اپنی نا فہمی سے میں اور نہ کچھ کر بیٹھوں
اس طرح سے تمہیں جائز نہیں اعجاز سے رمز
دل کو تو سہج میں لیوے گا یہ میں جان چکا
یہی نکلی ہیں تری سہج کی آواز سے رمز
ہم جئیں یا کہ مریں کچھ نہیں غم شوق سے آپ
مسند ناز پہ فرمائیے اعزاز سے رمز
میں اسی دم تری تروار سے کاٹوں گا گلا
تیغ دکھلا کے میاں عاشق جاں باز سے رمز
باز جدم سے در عدل شہ عالم ہے
بچۂ قاز بھی کرتا ہے یہاں باز سے رمز
کیا تعجب ہے اگر مردۂ صد سالہ جئیں
کم نہیں میرے مسیحا کے بھی اعجاز سے رمز
ہے تجھے خانہ خرابی ہی اگر مد نظر
کیجیو اے فلک اس خانہ بر انداز سے رمز
رمز احساں ؔ سے ہے یعنی کہ غزل اور بھی پڑھ
سیکھ جائے کوئی اس چشم فسوں ساز سے رمز
٭٭٭
دوش بدوش دوش تھا مجھ سے بت کرشمہ کوش
پردہ در خیام عقل رخنہ گر حریم ہوش
غازہ بہ رو مسی بہ لب پان بہ دہن حنا بکف
سلک در عدن بسر طرہ عنبریں بہ دوش
پل میں مریض وہ کرے دم میں شفا یہ دے مجھے
آہ وہ چشم مے پرست واہ وہ لعل بادہ نوش
مائل عیش جان کر جاہل بے وفا کہے
سائل بوسہ جبکہ ہوں چپکے کہے کہ چپ خموش
عشق میں سب ہے بہتری دیکھ بہ چشم گھڑی
رشک قمر ہے مشتریٔ دیدہ گہ فروش
منکر مے تھا شیخ کل آج یہ حال ہے کہ ہے
جام بہ دست و خم بہ سر شیشہ بہ لب و بہ دوش
نغمہ سرا ہو محسناؔ تاکہ وہ باغ باغ باغ
سوسن صد زبان ہو گل کی طرح تمام گوش
٭٭٭
پھر آیا جام بکف گلعذار اے واعظ
شکست توبہ کی پھر ہے بہار اے واعظ
نہ جان مجھ کو تو مختار سخت ہوں مجبور
نہیں ہے دل پہ مرا اختیار اے واعظ
انار خلد کو تو رکھ کے ہیں پسند ہمیں
کچیں وہ یار کی رشک انار اے واعظ
اسی کی کاکل پر پیچ کی قسم ہے مجھے
کہ تیرے وعظ ہیں سب پیچ دار اے واعظ
ہمارے درد کو کیا جانے تو کہ تجھ کو ہے
نہ درد یار نہ درد دیار اے واعظ
کیا جو ذکر قیامت یہ کیا قیامت کی
کہ یاد آیا مجھے قد یار اے واعظ
بھلائے گا نہ کبھی یاد گل رخاں احساں ؔ
کوئی وہ سمجھے ہے سمجھا ہزار اے واعظ
٭٭٭
نہ ادا مجھ سے ہوا اس ستم ایجاد کا حق
میری گردن پہ رہا خنجر بیداد کا حق
ناصحو گر نہ سنوں میں مری قسمت کا قصور
تم نے ارشاد کیا جو کہ ہے ارشاد کا حق
یاد تو حق کی تجھے یاد ہی پر یاد رہی
یار دشوار ہے وہ یاد جو ہے یاد کا حق
اپنی تصویر پہ صدقے ترے صدقے کر اسے
اسی صورت سے ادا ہووے گا بہزاد کا حق
حق کو باطل کوئی کس طرح سے کہہ دے اے بت
کہیں ثانی نہیں اس حسن خداداد کا حق
جاں کنی پیشہ ہو جس کا وہ لحق ہے تیرا
تجھ پہ شیریں ہے نہ خسرو کا نہ فرہاد کا حق
بار احساں سے نہیں سر بھی اٹھا سکتا ہوں
میرے سر پر ہی رہا اس مرے جلاد کا حق
سن کے کہتا ہے یہاں کون ہے سنتا مت سن
سننے والا ہی سنا اس مری فریاد کا حق
وہی انسان ہے احساں ؔ کہ جسے علم ہے کچھ
حق یہ ہے باپ سے افزوں رہے استاد کا حق
٭٭٭
آنکھوں میں مروت تری اے یار کہاں ہے
پوچھا نہ کبھو مجھ کو وہ بیمار کہاں ہے
نو خط تو ہزاروں ہیں گلستان جہاں میں
ہے صاف تو یوں تجھ سا نمودار کہاں ہے
آرام مجھے سایۂ طوبیٰ میں نہیں ہے
بتلاؤ کہ وہ سایۂ دیوار کہاں ہے
لاؤ تو لہو آج پیوں دختر رز کا
اے محتسبو دیکھو وہ مردار کہاں ہے
فرقت میں اس ابرو کی گلا کاٹوں گا اپنا
میاں دیجو اسے دم مری تلوار کہاں ہے
جن سے کہ ہو مربوط وہی تم کو ہے میمون
انسان کی صحبت تمہیں درکار کہاں ہے
دیکھوں جو تجھے خواب میں میں اے مہ کنعاں
ایسا تو مرا طالع بیدار کہاں ہے
سنتے ہی اس آواز کی کچھ ہو گئی وحشت
دیکھو تو وہ زنجیر کی جھنکار کہاں ہے
دن چھینے وو جب دیکھیو غارت گری اس کی
تب سوچیو خورشید کی دستار کہاں ہے
اس دن کے ہوں صدقے کہ تو کھینچے ہوے تلوار
یہ پوچھتا آوے وہ گنہ گار کہاں ہے
ہنستے تو ہو تم مجھ پہ ولیکن کوئی دن کو
روؤ گے کہ وہ میرا گرفتار کہاں ہے
اے غم مجھے یاں اہل تعیش نے ہے گھیرا
اس بھیڑ میں تو اے مرے غم خوار کہاں ہے
جب تک کہ وہ جھانکے تھا ادھر مہر سے ہم تو
واقف ہی نہ تھے مہر پر انوار کہاں ہے
اس مہ کے سرکتے ہی یہ اندھیر ہے احساں ؔ
معلوم نہیں رخنۂ دیوار کہاں ہے
٭٭٭
باغ میں جب کہ وہ دل خوں کن ہر گل پہنچے
بلبلاتی ہوئی گلزار میں بلبل پہنچے
صدمۂ شام اجل مجھ کو نہ بالکل پہنچے
گر مری داد کو کل تک بھی وہ کاکل پہنچے
دل بھی لے کر علم آہ مقابل پہنچا
نیزہ بازان مژہ جب بہ تغافل پہنچے
مہر کوچہ ترا جھاڑے ہے بہ جاروبشعاع
کہ اسی طرح بہم تجھ سے توسل پہنچے
اپنا یہ منہ تو نہ تھا آپ تلک ہم پہنچیں
آپ کا جب کہ ہوا ہم پہ تفضل پہنچے
ہم رہ یاس و الم دشت جنوں میں کل ہم
بہ تحمل بہ تأمل بہ تجمل پہنچے
گر ترے وزن پہ میں سارے قوافی باندھوں
دم ترا ناک میں اے باب تفعل پہنچے
خانہ آباد تمہارا ہو کہ ہم حضرت عشق
نفع کو تم سے بہ ایام توکل پہنچے
درد و غم یاس و الم سوز دل و داغ جگر
تحفے جو آپ نے بھیجے ہمیں بالکل پہنچے
جب گیا حسن تو آیا ترے اخلاص کا بار
اب ترقی ہے تب ایام تنزل پہنچے
قہر اک رند پہ قل پیر مغاں نے تھا پڑھا
شعر یہ ہم نے سنا سننے کو جب قل پہنچے
ترس عقبیٰ ہے تو مے خانہ میں رہ اے زاہد
تب بچو واں جو بجا کان میں قلقل پہنچے
رشک گل باغ میں بیٹھا تھا تو ہم بھی احساں ؔ
یہ غزل پڑھتے ہوئے واں بہتجاہل پہنچے
٭٭٭
پوچھی نہ خبر کبھی ہماری
لی خوب خبر اجی ہماری
ہم لائق بندگی نہیں تو
بس خیر ہے بندگی ہماری
اے دیدۂ نم نہ تھم تو ہرگز
ہے اس میں ہی بہتری ہماری
یاں تیری کمر ہی جب نہ دیکھیں
پھر ہیچ ہے زندگی ہماری
ہم جان چکے کہ جان کے ساتھ
جاوے گی یہ جانکنی ہماری
چلنے کا لیا جو نام تو نے
بس جان ابھی چلی ہماری
بگڑے ہو بھلے بھی بات کہتے
قسمت ہی بری بنی ہماری
اس زلف کے سلسلہ میں ہیں ہم
ہے عمر بہت بڑی ہماری
کیوں کر نہ کٹی زباں تمہاری
ہاں اور کرو بدی ہماری
کہتے ہیں پلٹ گیا وہ رہ سے
تقدیر الٹ گئی ہماری
اب ہنستے ہیں ہم پہ لوگ ورنہ
مشہور تھی یاں ہنسی ہماری
ہم ہٹتے ہیں ملک عشق سے کب
ہیٹی کسی نے کہی ہماری
کیا کام کسی سے ہم کو احسانؔ
ہم اور یہ بے کسی ہماری
٭٭٭
جان اپنی چلی جائے ہے جائے سے کسو کی
اور جان میں جان آئے ہے آئے سے کسو کی
وہ آگ لگی پان چبائے سے کسو کی
اب تک نہیں بجھتی ہے بجھائے سے کسو کی
بجھنے دے ذرا آتش دل اور نہ بھڑکا
مہندی نہ لگا یار لگائے سے کسو کی
کیا سوئیے پھر غل ہے در یار پہ شاید
چونکا ہے وہ زنجیر ہلائے سے کسو کی
کہہ دو نہ اٹھائے وہ مجھے پاس سے اپنی
جی بیٹھا ہی جاتا ہے اٹھائے سے کسو کی
جب میں نے کہا آئیے من جائیے بولے
ہم اور بھی روٹھیں گے منائے سے کسو کی
چپی میں جو کچھ بات کی میں نے تو یہ بولے
ہم تو نہیں دبنے کے دبائے سے کسو کی
یارو نہ چراغ اور نہ میں شمع ہوں لیکن
ہر شام کو جلتا ہوں جلائے سے کسو کی
پاتا نہیں گھر اس کا سمجھتا ہی نہیں ہے
اس بیت کے معنی بھی بتائے سے کسو کی
جب اس سے کہا میری سفارش میں کسو نے
حاصل بھی رلائے سے کڑھائے سے کسو کی
اک طعن سے یہ ہنس کے لگا کہنے کہ بے شک
ہم رولتے موتی ہیں رلائے سے کسو کی
کہتا ہے کہ احساں ؔ نہ کہے گا تو سنے گا
مطلع یہ کہا میں نے کہائے سے کسو کی
٭٭٭
دل بر یہ وہ ہے جس نے دل کو دغا دیا ہے
اے چشم دیکھ تجھ کو میں نے سجھا دیا ہے
تیغ ستم سے میرا جو خوں بہا دیا ہے
قاتل نے میرے دل کا یہ خوں بہا دیا ہے
نقش قدم گلی کا تیری بنا دیا ہے
کیوں کر اٹھوں کہ دل نے مجھ کو بٹھا دیا ہے
اے چشم گر یہ زا ہے رونے کو تیرے زحمت
رو رو کے ابر کو بھی تو نے رلا دیا ہے
سر رشتۂ وفا سے کیا شمع رو ہیں واقف
ہم نے پتنگ ان سے ملنا اڑا دیا ہے
دل دے کے جان کا مفت اک روگ ہی خریدا
دولت سے تیری میں نے یہ کچھ لیا دیا ہے
جاتے نظر جدھر ہی اک نور جلوہ گر ہے
مکھڑے سے آج پردہ کسی نے اٹھا دیا ہے
تو پان کھا کے ہنسنا اک سہل سا ہے سمجھا
یہ برق وہ ہے جس نے عالم جلا دیا ہے
کیوں ہم سے ہو بگڑتے ہم نے تو شیخ صاحب
ہولی سے پیشتر ہی تم کو بنا دیا ہے
کیوں کر نہ میرے دل کا شیشہ ہو ٹکڑے ٹکڑے
نظروں سے اس کو ظالم تو نے گرا دیا ہے
پاؤں سے کیا جگایا تو نے ہی مجھ کو گویا
ٹھوکر سے بخت خفتہ میرا جگا دیا ہے
کیا جانوں عشق کیا ہے لیکن کسی نے احساں ؔ
اک آگ کا سا شعلہ دل کو لگا دیا ہے
٭٭٭
ذات اس کی کوئی عجب شے ہے
جس سے سب واقعی عجب شے ہے
واقعی عاشقی عجب شے ہے
عاشقی واقعی عجب شے ہے
جس کے دل کو لگی وہی جانے
جان من دل لگی عجب شے ہے
اس میں ہرگز نہیں ہے جائے سخن
الغرض خامشی عجب شے ہے
بے خودی گر ہو خود تو آ کے ملے
اے خدا بے خودی عجب شے ہے
اوس پہ مرتا ہوں وقت بوس و کنار
تیرا کہنا نہ جی عجب شے ہے
ایک سے تیس دن نباہ کہ دوست
ایک سے دوستی عجب شے ہے
منہ پہ کہہ دینا عیب عیب ہے یہ
عیب پوشی اجی عجب شے ہے
کیا دھواں دار شعلہ رو ہے بنا
اودی پوشاک بھی عجب شے ہے
آرسی اس سے اہل دید کو ہے
مت کہو آرسی عجب شے ہے
سرو کو اس کے قد سے کیا نسبت
منصفو راستی عجب شے ہے
قبلہ و کعبہ اس کو سمجھے ہے
حرم شیخ جی عجب شے ہے
ایک بوسہ نہ دو نہ تین نہ چار
یار جی منصفی عجب شے ہے
ہونٹ ہوتے ہیں وقت خندہ جدا
چپ بھلی خامشی عجب شے ہے
٭٭٭
ستم سا کوئی ستم ہے ترا پناہ تری
پڑی ہے چار طرف اک تراہ تراہ تری
طریق پر جو نہیں تو ہے رہ نہ میرے ساتھ
وہ راہ میری ہے اے جان سن یہ راہ تری
دلا تو عشق میں ہر لحظہ اشک خونیں رو
کہ سرخ روئی اسی سے ہے رو سیاہ تری
میں اتنا بازیِ الفت میں کیوں نہ ہوں ششدر
جو مانگو پانچ دو پڑتے ہیں خواہ مخواہ تیری
غزل جوشت ہو احساں ؔ تو واہ واہ نہ کر
کہے گی خلق کہ وائے ہے واہ واہ تیری
٭٭٭
سن رکھ او خاک میں عاشق کو ملانے والے
عرش اعظم کے یہ نالے ہیں بلانے والے
یہ صدا سنتے ہیں اس کوچہ کے جانے والے
جان کر جان نہ کھو کون ہے آنے والے
چین تجھ کو بھی نہ ہو مجھ کو ستانے والے
تو بھی ٹھنڈا نہ رہے جی کے جلانے والے
کب ہیں اس دل سے بتاں ہاتھ اٹھانے والے
یہ وہ کافر ہیں کہ مسجد کے ہیں ڈھانے والے
جنگ ہی گر تجھے منظور ہے پھر آنکھ لڑا
یہ بھی اک جنگ ہے او آنکھ لڑانے والے
کی تو عیار سی سازش ہے ولے غنچہ دہن
چٹکیوں میں ہیں یہ جوبن کے اڑانے والے
ان کے ہنسنے پہ نہ جا ان کے ہنسانے سے نہ ہنس
تیرے ہنسنے پہ جو ہنستے ہیں ہنسانے والے
بن بلائے ترے آ کر تجھے بہکاتے ہیں
سخت نا خواندہ ہیں یہ تجھ کو پڑھانے والے
اشک خونیں کی ہوں میں سیل میں ڈوبا رہتا
یہ میرا رنگ ہے او پان چبانے والے
یوں گجر صبح کا جلدی سے بجے وصل کی رات
ارے بے رحم ارے دل کے ستانے والے
گزری جو مجھ پہ سو گزری ہے نہ گزری تجھ پر
گھڑی گھڑیال کی گھڑیال بجانے والے
کیوں نہ ان نالوں کو میں پاے بہ زنجیر رکھوں
اے جنوں کون ہیں یہ غل کے مچانے والے
جب کہا میں نے کہ سن حال کہا طعن سے یہ
تم سلامت رہو احوال سنانے والے
پاؤں کو ہاتھ لگایا تو لگا کہنے سرک
تجھ کو قربان کروں ہاتھ لگانے والے
مطلع مطلع احساں ؔ سے تو ہو رشک قمر
تجھ پہ عاشق ہوئے پیغام کے لانے والے
٭٭٭
غم یاں تو بکا ہوا کھڑا ہے
فدوی ہے فدا ہوا کھڑا ہے
ہلتا نہیں تیرے در سے یہ عشق
مدت سے ملا ہوا کھڑا ہے
خونیں کفن شہید الفت
دولہا سا بنا ہوا کھڑا ہے
ٹک گوشۂ چشم ادھر بھی کوئی
کونے سے لگا ہوا کھڑا ہے
دامن کا ہے گھیر گرد جاناں
کیوں جی وہ گھرا ہوا کھڑا ہے
یوں دل کو بغل میں میں نے پالا
یہ مجھ پہ پلا ہوا کھڑا ہے
کیا سمجھے نماز عشق ناصح
قبلہ سے بھرا ہوا کھڑا ہے
مجرے کو تمہارے ابروؤں کے
محراب جھکا ہوا کھڑا ہے
میزان نہیں ملتی میری اس کی
غصہ میں پلا ہوا کھڑا ہے
گھر سے تو نکل کہ در پہ احسانؔ
کیا غم میں گھرا ہوا کھڑا ہے
پلکوں سے گری ہے اشک ٹپ ٹپ
پٹ سے وہ لگا ہوا کھڑا ہے
٭٭٭
غیر کے دل پہ تو اے یار یہ کیا باندھے ہے
ہے وہ اک باد فروش اور ہوا باندھے ہے
بوالہوس جامۂ عریانٔی عشاق کو دیکھ
تو گریبان سے کیوں اپنا گلا باندھے ہے
یوں شرر چھڑتی ہیں جیسے کہ ہوائی ہے چھٹی
اک سماں آہ مری تا بہسما باندھی ہے
دل سرگشتہ بھی تو ایک بلا میں ہے پھنسا
کبھی کھولی ہے کبھو زلف دوتا باندھے ہے
یہ تو تجھ سے نہ ہوا آوے شب تار میں یار
تار شکوؤں ہی کا تو صبح مسا باندھے ہے
دیکھ کر توڑا گلے کا کوئی دل دیتا ہے
منڈچرا پن سے تو کیوں اپنا گلا باندھے ہے
بے وفا ماندہ کی رکھی تو نہ تجھ پاس رہوں
کیا کروں پاؤں مرا دست وفا باندھے ہے
ناف آہو میں نہ کس طرح سے جا کر وہ چھپے
مشک کی مشکیں تری زلف رسا باندھے ہے
ایک جھگڑالو کی دختر پہ ہوا ہے عاشق
دل مرا جان کے جھگڑے کی بنا باندھے ہے
جب جفا سے تری ہوتا ہوں خفا غصہ سے
ٹکٹکی میری طرف مہر وفا باندھے ہے
جب کہا میں نے کہ جوڑے کو مری جان تو باندھ
بند محرم کے میں باندھوں گا تو کیا باندھے ہے
کھول کر بالوں کو آشفتہ و برہم ہو کر
تیرے کہنے سے کہا میری بلا باندھے ہے
سہل یہ طور ہے احساں ؔ غزل اک اور بھی لکھ
ہے کھلا سب پہ تو مضمون بندھا باندھے ہے
٭٭٭
کیوں خفا تو ہے کیا کہا میں نے
مر کہا تو نے مرحبا میں نے
کیوں صراحی مے کو دے پٹکا
تو نے توڑا یا بے وفا میں نے
نا توانی میں یہ توانائی
دل کو تجھ سے اٹھا دیا میں نے
دے کے یہ تجھ کو یہ لیا کہ دیا
گوہر بے بہا لیا میں نے
کیوں خم مے کو محتسب توڑا
کیا کیا میں نے کیا کیا میں نے
کیوں نہ رک رک کے آئے دم میرا
تجھ کو دیکھا رکا رکا میں نے
گل ہزاروں میں شمع عیش احساں ؔ
جیسے اس گل کو دل دیا میں نے
٭٭٭
محفل عشق میں جو یار اٹھے اور بیٹھے
ہے وہ ملکہ کہ سبکبار اٹھے اور بیٹھے
رقص میں جب کہ وہ طرار اٹھے اور بیٹھے
بے قراری سے یہ بیمار اٹھے اور بیٹھے
کثرت خلق وہ محفل میں ہے تیری اک شخص
نہیں ممکن ہے کہ یکبار اٹھے اور بیٹھے
سر اٹھانے کی بھی فرصت نہیں دیتا ہے ہمیں
چو حباب سر جو یار اٹھے اور بیٹھے
خوف بدنامی سے تجھ پاس نہ آئے ورنہ
ہم کئی بار سن اے یار اٹھے اور بیٹھے
درد کیوں بیٹھے بٹھائے ترے سر میں اٹھا
کہ قلق سے ترے سو بار اٹھے اور بیٹھے
تیری دیوار تو کیا گنبد دوار بھی یار
چاہئے آہ شرر بار اٹھے اور بیٹھے
آپ کی مجلس عالی میں علی الرغم رقیب
بہ اجازت یہ گنہ گار اٹھے اور بیٹھے
آپ سے اب تو اس احقر کو سروکار نہیں
جس جگہ چاہئے سرکار اٹھے اور بیٹھے
حضرت دل سپر داغ جنوں کو لے کر
یوں بر عشق جگر خوار اٹھے اور بیٹھے
چوں دلیرانہ کوئی منہ پہ سپر کو لے کر
شیر خونخوار کو للکار اٹھے اور بیٹھے
کفش دوز ان کے جب اپنے ہی برابر بیٹھیں
ایسی مجلس میں تو پیزار اٹھے اور بیٹھے
زاہد آیا تو گوارا نہیں رندوں ہم کو
اپنی اس بزم میں مکار اٹھے اور بیٹھے
دونوں کانوں کو پکڑ کر یہی ہے اس کی سزا
کہہ دو سو بار یہ عیار اٹھے اور بیٹھے
بیٹھتے اٹھتے اسی طرح کے لکھ اور غزل
جس میں احساں ؔ ہو نہ پیکار اٹھے اور بیٹھے
٭٭٭
نہیں سنتا نہیں آتا نہیں بس میرا چلتا ہے
نکل اے جان تو ہی وہ نہیں گھر سے نکلتا ہے
جلا ہوں آتش فرقت سے میں اے شعلہ رو یاں تک
چراغ خانہ مجھ کو دیکھ کر ہر شام جلتا ہے
نہیں یہ اشک و لخت دل تری الفت کی دولت سے
مرا یہ دیدہ ہر دم لعل اور گوہر اگلتا ہے
کسی کا ساتھ سونا یاد آتا ہے تو روتا ہوں
مرے اشکوں کی شدت سے سدا گل تکیہ گلتا ہے
ملاتا ہوں اگر آنکھیں تو وہ دل کو چراتا ہے
جو میں دل کو طلب کرتا ہوں وہ آنکھیں بدلتا ہے
مرے پہلو و سینہ میں بتوں کے رہ گئے خنجر
خدا کا فضل جس پر ہو تو وہ اس طرح بہلتا ہے
صدا ہی میری قسمت جوں صدائے حلقۂ در ہے
اگر میں گھر میں جاتا ہوں تو وہ باہر نکلتا ہے
وہ بحر حسن شاید باغ میں آوے گا اے احساں ؔ
کہ فوارہ خوشی سے آج دو دو گز اچھلتا ہے
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں
ماخذ:
https://rekhta.org/poets/abdul-rahman-ehsan-dehlvi?lang=ur
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید