فہرست مضامین
- دل ٹوٹے آواز نہ آئے
- نعت
- میسر ہو اگر ایمانِ کامل
- چاہے تن من سب جل جائے
- اس دیوانے دل کو دیکھو کیا شیوہ اپنائے ہے
- پھر رہے ہیں خود نمائی کو وہ بے پردہ کئے
- بزمِ تکلفات سجانے میں رہ گیا
- محشر میں کانپتے ہیں ستم گر الگ الگ
- جتنی شمعیں تھیں سب بجھ گئیں
- ہر سکوں کی تہ میں سو آتش فشاں رکھتا ہوں میں
- تمام رات آنسوؤں سے غم اجالتا رہا
- بے سہاروں کا انتظام کرو
- سمٹے بیٹھے ہو کیوں بُزدلوں کی طرح
- یہ بات نرالی دلِ خوددار کرے ہے
- عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
- کہاں یہ سطح پسندی ادب کو لے آئی
- ?کس کس انداز سے فطرت نے مجھے خوار کیا
- سوز نہ ہو تو سازِ حیات
- چاہے تن من سب جل جائے
- کارواں چاہے مختصر ہو جائے
- دار و رسن نے کس کو چنا دیکھتے چلیں
- بڑے ادب سے غرورِ ستمگراں بولا
- ایسی آسانی سے قابو میں کہاں آتی ہے آگ
- مہرباں وہ لبِ جو آج ہوا پانی پر
- نہیں ہوتیں کبھی ساحل کے ارمانوں سے وابستہ
- سوز نہ ہو تو سازِ حیات
- باد صبا! یہ ظلم خدارا نہ کیجیو
- دار و رسن نے کس کو چنا دیکھتے چلیں
- وادیِ حسن ! ہم اس سیر و سفر سے گذرے
- کہاں کے مالک و مختار ہم تو کچھ بھی نہیں
- نہ شوخیوں سے نہ سنجیدگی سے ملتی ہیں
- آخرش چوٹ کھا گئی دنیا
- کتنے اہلِ ہوش کس کس طرح بہکانے اٹھے
- اف رے شکایت جفا، واہ رے شکوۂ ستم
- کسی جبیں پر شکن نہیں ہے کوئی بھی مجھ سے خفا نہیں ہے
- ہم توجہ کے سزا وار نہ تھے
- اس دور بے ضمیر میں جینا سکھا دیا
- گداز دل سے ملا ،سوزشِ جگر سے ملا
- چھیڑ دو دل کی داستاں لوگو
- آباد رہیں گے ویرانے ،شاداب رہیں گی زنجیریں
- دل فروشوں کے لیے کوچہ و بازار بنے
دل ٹوٹے آواز نہ آئے
حفیظؔ میرٹھی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
حفیظؔ میرٹھی
(شاعر۔ میرٹھ، ہندوستان)
(آمد:۱۹۲۲ء/ر فت:۸؍ جنوری ۲۰۰۰ء)
نعت
میسر ہو اگر ایمانِ کامل
کہاں کی الجھنیں کیسے مسائل
نہیں جن میں تمھارا عکس شامل
وہ نقشے ہیں مٹا دینے کے قابل
ثبوتِ عظمتِ انسانیت ہیں
محمد مصطفیٰ انسانِ کامل
تمھارا ہر قدم شمعِ ہدایت
تمھارا نقشِ پا تصویرِ منزل
ہزار آزادیوں سے لاکھ بہتر
تمھارے عشق کے طوق و سلاسل
تمھارے قولِ فیصل سے ہوئی ہے
نمایاں خیرو شر کی حد فاصل
سکوں مجھ کو نہیں درکار آقاؐ
بڑھا دیجئے مری بے تابیِ دل
اجازت ہو تو شاہاؐ پیش کر دوں
مرے پہلو میں ہے ٹوٹا ہوا دل
حفیظ اس عشقِ احمدؐ کی بدولت
مجھے ہے دولتِ کونین حاصل
٭٭٭
چاہے تن من سب جل جائے
سوز دروں پر آنچ نہ آئے
شیشہ ٹوٹے، غُل مچ جائے
دل ٹوٹے آواز نہ آئے
بحر محبت توبہ! توبہ!
تیرا جائے نہ ڈوبا جائے
اے وائے مجبوری انساں
کیا سوچے اور کیا ہو جائے
ہائے وہ نغمہ جس کا مغنّی
گاتا جائے روتا جائے
عزت دولت آنی جانی
مل مل جائے چھِن چھِن جائے
جس کو ہو کہنی دل کی کہانی
سرتا پا دھڑکن بن جائے
میخانے کی سمت نہ دیکھو
جانے کون نظر آ جائے
کاش ہمارا فرض محبت
عیشِ محبت پر چھا جائے
٭٭٭
اس دیوانے دل کو دیکھو کیا شیوہ اپنائے ہے
اس پر ہی وشواس کرے ہے جس سے دھوکہ کھائے ہے
سارا کلیجہ کٹ کٹ کر جب اشکوں میں بہہ جائے ہے
تب کوئی فرہاد بنے ہے تب مجنوں کہلائے ہے
میں جو تڑپ کر روؤں ہوں تو ظالم یوں فرمائے ہے
اتنا گہرا گھاؤ کہاں ہے ناحق شور مچائے ہے
تم نے مجھ کو رنج دیا تو اس میں تمہارا دوش نہیں
پھول بھی کانٹا بن جائے ہے وقت برا جب آئے ہے
ایسے نرالے فریادی کی کیسے ہو گی داد رسی
پہلے تو فریاد کرے ہے پھر آنسو پی جائے ہے
پوچھے ہے یاں کون میاں اربابِ علم و دانش کو
جو چلّا کر بولے ہے وہ محفل پر چھا جائے ہے
صرف زباں کی نقّالی سے بات نہ بن پائے گی حفیظؔ
دل پر کاری چوٹ لگے تو میرؔ کا لہجہ آئے ہے
٭٭٭
پھر رہے ہیں خود نمائی کو وہ بے پردہ کئے
اس ہوس نے کیسے کیسے خوبرو رسوا کئے
ہم ضرورت اور انا کی کشمکش دیکھا کئے
بھیک ٹھکرایا کئے دامن بھی پھیلایا کئے
میں نے تو محرومیوں سے حوصلے پیدا کئے
جو خزانے تم نے پائے تھے وہ آخر کیا کئے؟
دیکھنے دیتے نہیں کچھ سوچنے دیتے نہیں
وہ جو بیٹھے ہیں نگاہ و فکر پر قبضہ کئے
بزدلوں میں ڈھونڈھتے ہو کیوں حمیت کا جلال
مدتیں گزریں انہیں اس آگ کو ٹھنڈا کئے
یہ نہ سننا، یہ نہ پڑھنا، یہ نہ بن جانا کہیں
شوق کے دروازے ان پابندیوں نے وا کئے
وار کو ان کے کبھی خاطر میں لایا ہی نہیں
کتنے دشمن میں نے اس تدبیر سے پسپا کئے
چاند کا کردار اپنایا ہے ہم نے دوستو
داغ اپنے پاس رکھے روشنی بانٹا کئے
رشک مجھ کو بے ضمیروں پر نہیں آیا حفیظؔ
لاکھ میرے حال پر وہ طنز فرمایا کئے
٭٭٭
بزمِ تکلفات سجانے میں رہ گیا
میں زندگی کے ناز اٹھانے میں رہ گیا
تاثیر کے لئے جہاں تحریف کی گئی
اک جھول بس وہیں پہ فسانے میں رہ گیا
سب مجھ پہ مہر جرم لگاتے چلے گئے
میں سب کو اپنے زخم دکھانے میں رہ گیا
خود حادثہ بھی موت پہ اس کی تھا دم بخود
وہ دوسروں کی جان بچانے میں رہ گیا
اب اہلِ کارواں پہ لگاتا ہے تہمتیں
وہ ہمسفر جو حیلے بہانے میں رہ گیا
میدانِ کار زار میں آئے وہ قوم کیا
جس کا جوان آئینہ خانے میں رہ گیا
وہ وقت کا جہاز تھا کرتا لحاظ کیا
میں دوستوں سے ہاتھ ملانے میں رہ گیا
بازار زندگی سے قضا لے گئی مجھے
یہ دور میرے دام لگانے میں رہ گیا
یہ بھی ہے ایک کارِ نمایاں حفیظؔ کا
کیا سادہ لوح کیسے زمانے میں رہ گیا
٭٭٭
محشر میں کانپتے ہیں ستم گر الگ الگ
جانا ہے پیش داور محشر الگ الگ
جب رات ہو گئی تو فلک پر بچھا لیے
تاروں نے اپنے نور کے بستر الگ الگ
بھاشن فساد کے کبھی تقریر امن کی
جادوگروں کو یاد ہیں منتر الگ الگ
یکجا نہ ہو سکیں گے یہ رہبر بڑے بڑے
ہیں خاص مچھلیوں کے سمندر الگ الگ
یلغار ایک ہو کے مجھی پر کریں گے سب
خیمے الگ الگ سہی لشکر الگ الگ
اس بدنصیب شہر میں چلتے ہیں آدمی
اک دوسرے کے سائے سے بچ کر الگ الگ
مل بیٹھنے کی بات کریں کیسے اے حفیظ
ناراض دوستوں کے ہیں تیور الگ الگ
٭٭٭
جتنی شمعیں تھیں سب بجھ گئیں
روشنی دے چراغِ یقیں
تم جوابِ وفا دو نہ دو
اس سے کچھ فرق پڑتا نہیں
راہ زن سوچ میں پڑ گئے
میں نے مل کر دعائیں جو دیں
تیرے دامن سے نادم ہوں میں
میری آنکھوں میں آنسو نہیں
جب سہاروں نے طعنے دیئے
ہم نے بیساکھیاں پھینک دیں
تجربوں سے بھی کچھ سیکھتے
آپ نے بس کتابیں پڑھیں
میں نے واللہ میرے وطن
تجھ کو چاہا ہے پوجا نہیں
جب کہا میں نے میں بھی ہوں کچھ
خامیاں مجھ پہ ہنسنے لگیں
٭٭٭
ہر سکوں کی تہ میں سو آتش فشاں رکھتا ہوں میں
ضبط کا اک رخ نمایاں اک نہاں رکھتا ہوں میں
اے پرستاران نغمہ! چھوڑ کر تار رباب
آج کچھ دکھتی رگوں پر انگلیاں رکھتا ہوں میں
ہائے رے نیرنگیاں ہوں تو چراغ اب بھی مگر
روشنی رکھتا تھا پہلے اب دھواں رکھتا ہوں میں
آج تک گزری اجل کی آرزو میں زندگی
زندگی سے آج بھی دلچسپیاں رکھتا ہوں میں
مجھ سے کب ہوتی بھلا پابندی رسم وجود
ان کی دلداری کی خاطر جسم و جاں رکھتا ہوں میں
ہیچ ہیں میری نظر میں آشیان و گلستاں
آدمی ہوں عزم تعمیر جہاں رکھتا ہوں میں
اب بھی وہ اپنا سمجھ کر مجھ کو اپنا لیں حفیظؔ
کون جانے ورنہ پھر یہ سر کہاں رکھتا ہوں میں
٭٭٭
تمام رات آنسوؤں سے غم اجالتا رہا
میں غم اجال اجال کر خوشی میں ڈھالتا رہا
جوان میری ہمتیں، بلند میرے حوصلے
حصار توڑتا رہا، کمند ڈالتا رہا
بہت ہی تلخ تجربہ تمہاری بزم میں ہوا
ہر آدمی مری انا کے بل نکالتا رہا
ہیں التوا کی گود کے پلے سب اس کے مسئلے
کسی کو حل نہیں کیا، ہمیشہ ٹالتا رہا
ترے خلاف اس لیے مری زباں نہ کھل سکی
میں اپنی خامیوں پہ بھی نگاہ ڈالتا رہا
خیال یار تیری نگہداشت اس طرح ہوئی
دماغ تھک کے سوگیا تو دل سنبھالتارہا
حفیظؔ کیا سناؤں اپنی خواہشوں کی داستاں
پلا پلا کے دودھ کتنے سانپ پالتا رہا
٭٭٭
بے سہاروں کا انتظام کرو
یعنی اک اور قتلِ عام کرو
خیر خواہوں کا مشورہ یہ ہے
ٹھوکریں کھاؤ اور سلام کرو
دب کے رہنا ہمیں نہیں منظور
ظالمو! جاؤ اپنا کام کرو
خواہشیں جانے کس طرف لے جائیں
خواہشوں کو نہ بے لگام کرو
میزبانوں میں ہو جہاں اَن بَن
ایسی بستی میں مت قیام کرو
یہ ہنر بھی بڑا ضروری ہے
کتنا جھُک کر کسے سلام کرو
سانپ آپس میں کہہ رہے ہیں حفیظؔ
آستینوں کا انتظام کرو
٭٭٭
سمٹے بیٹھے ہو کیوں بُزدلوں کی طرح
آؤ میدان میں غازیوں کی طرح
کون رکھتا ہمیں موتیوں کی طرح
مل گئے خاک میں آنسوؤں کی طرح
روشنی کب تھی اتنی مرے شہر میں
جل رہے ہیں مکاں مشعلوں کی طرح
داد دیجئے کہ ہم جی رہے ہیں وہاں
ہیں محافظ جہاں قاتلوں کی طرح
زندگی اب ہماری خطا بخش دے
دوست ملنے لگے محسنوں کی طرح
کیسے اللہ والے ہیں یہ اے خدا
گفتگو، مشورے، سازشوں کی طرح
میری باتوں پہ ہنستی ہے دنیا ابھی
میں سنا جاؤں گا فیصلوں کی طرح
تم بھی دربار میں حاضری دو حفیظؔ
پھر رہے ہو کہاں مفلسوں کی طرح
٭٭٭
یہ بات نرالی دلِ خوددار کرے ہے
تڑپے ہے مگر درد سے انکار کرے ہے
دُنیا کا یہ انداز سمجھ میں نہیں آتا
دیکھے ہے حقارت سے کبھی پیار کرے ہے
تسلیم اسے کوئی بھی دل سے نہیں کرتا
وہ فیصلہ جو جبر کی تلوار کرے ہے
اس دشمنِ ایماں نے کیا شیخ پہ جادو
کافر جو کہے ہے وہی دیندار کرے ہے
اب اپنے بھی سائے کابھروسہ نہیں یارو
نزدیک جو آئے ہے وہی وار کرے ہے
تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن
وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے
شرماتا ہوں فنکار سمجھتے ہوئے خود کو
جب جھوٹی خوشامد کوئی فنکار کرے ہے
یہ ناچتی گاتی ہوئی اس دور کی تہذیب
کیا جانیے کس کرب کا اظہار کرے ہے
مانگے ہے حفیظ اور ہی کچھ شعر کا بازار
کچھ اور طلب شعر کا معیار کرے ہے
٭٭٭
عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے
یہ بانکپن تھا ہمارا کہ ظلم پر ہم نے
بجائے نالہ و فریاد شاعری کی ہے
ذرا سے پاؤں بھگوئے تھے جا کے دریا میں
غرور یہ ہے کہ ہم نے شناوری کی ہے
اسی لہو میں تمھارا سفینہ ڈوبے گا
یہ قتل عام نہیں، تم نے خودکشی کی ہے
ہماری قدر کرو چودھویں کے چاند ہیں ہم
خود اپنے داغ دکھانے کو روشنی کی ہے
اداسیوں کو حفیظ! آپ اپنے گھر رکھیں
کہ انجمن کو ضرورت شگفتگی کی ہے
٭٭٭
کہاں یہ سطح پسندی ادب کو لے آئی
جہاں نظر کی بلندی نہ دل کی گہرائی
اب آدمی کا ٹھکانہ، نہ کائنات کی خیر
سنا ہے اہلِ خرد ہو گئے ہیں سودائی
ہزار حیف کہ ہم تیرے بے وفا ٹھہرے
ہزار شکر کہ ہم کو ہوس نہ راس آئی
اب اپنے جیب و گریباں کا کیا سوال رہا
جنوں کا ہاتھ بٹانے کو خود بہار آئی
حیات پوچھ رہی تھی سکون کا مفہوم
تڑپ کے دل نے ترے درد کی قسم کھائی
اسی کی راہ میں آنکھیں بچھائے گی منزل
وہ عزم جو نہیں محتاجِ ہمت افزائی
مشاعروں میں حفیظؔ آج کل وہی جائے
کہ جس کو حد سے زیادہ ہو ذوقِ رُسوائی
٭٭٭
?کس کس انداز سے فطرت نے مجھے خوار کیا
کہیں مجبور بنایا کہیں مختار کیا
نیم باز آنکھوں سے یہ کیا نگہ یار کیا
نہ تو معصوم ہی چھوڑا نہ گنہگار کیا
میں تو اس درد کے انجام سے تھراتا ہوں
جس کے آغاز نے تم کو مرا غمخوار کیا
ہائے مجبوریِ الفت کہ بایں سوز و گداز
ہم نے ہنس ہنس کے ترے عشق سے انکار کیا
رکھ لیا ہاتھ مرا اپنے دھڑکتے دل پر
میں نے جب عہدِ وفا کے لیے اصرار کیا
٭٭٭
سوز نہ ہو تو سازِ حیات
بس اک روکھی پھیکی بات
جل اٹھ، جل اٹھ، شمعِ یقیں
رات ہے اور اندھیری رات
آہ، یہ حسن کی نایابی
اف یہ جلووں کی بہتات
ان کا کھیل دل آزادی
اور مرے نازک جذبات
جان ہتھیلی پر رکھ لے
کہنی ہے گر سچی بات
٭٭٭
چاہے تن من سب جل جائے
سوزِ دروں پر آنچ نہ آئے
شیشہ ٹوٹے، غل مچ جائے
دل ٹوٹے آواز نہ آئے
بحرِ محبت توبہ، توبہ
تیرا جائے نہ ڈوبا جائے
اے وائے مجبوریِ انساں
کیا سوچے اور کیا ہو جائے
ہائے وہ نغمہ جس کا مغنی
گاتا جائے، روتا جائے
عزت، دولت، آنی جانی
مِل مِل جائے چِھن چِھن جائے
جس کو ہو کہنی دل کی کہانی
سر تا پا دھڑکن بن جائے
دنیا کا اپنانا ہی کیا
کانٹے اپنے پھول پرائے
میخانے کی سمت نہ دیکھو
جانے کون نظر آ جائے
کاش ہمارا فرضِ محبت
عیشِ محبت پر چھا جائے
٭٭٭
کارواں چاہے مختصر ہو جائے
کوئی رہزن نہ ہمسفر ہو جائے
خام اب بھی نہیں ہے عشق، مگر
چوٹ کھا لے تو پختہ تر ہو جائے
بارِ مرہم بھی زخم پر منظور
تاکہ تسکینِ چارہ گر ہو جائے
اس فریب سکون و راحت پر
اتنا ہنسیے کہ آنکھ تر ہو جائے
ہو نہ تقدیر کا اگر قائل
آدمی، آدمی کے سر ہو جائے
دھڑکنیں ہیں اب اہلِ دل کا پیام
سننے والا قریب تر ہو جائے
٭٭٭
دار و رسن نے کس کو چنا دیکھتے چلیں
یہ کون سربلند ہوا، دیکھتے چلیں
آئے گا پھر چمن پہ تصرف کا وقت بھی
پہلے قفس کی آب و ہوا دیکھتے چلیں
جاتے تھے ہم تو پھیر کے منہ جلوہ گاہ سے
لیکن دل و نظر نے کہا، دیکھتے چلیں
تہذیبِ نو کے عہد میں انسانیت کے ساتھ
انساں نے کیا سلوک کِیا، دیکھتے چلیں
ہاں اک نظر حفیظؔ پہ عبرت کے واسطے
کیا رہ گئی ہے قدرِ وفا، دیکھتے چلیں
٭٭٭
بڑے ادب سے غرورِ ستمگراں بولا
جب انقلاب کے لہجے میں بے زباں بولا
ابھی سے ہوش اڑے مصلحت پسندوں کے
ابھی میں بزم میں آیا ابھی کہاں بولا
حصارِ جبر میں زندہ بدن جلائے گئے
کسی نے دم نہیں مارا مگر دھواں بولا
چمن میں سب کی زباں پر تھی میری مظلومی
مرے خلاف جو بولا تو باغباں بولا
یہی بہت ہے کہ زندہ تو ہو میاں صاحب
زمانہ سن کے مرے غم کی داستاں بولا
تلے ہیں قتل پہ پھولوں میں تولنے والے
ایک ایسا بول میں جھوٹوں کے درمیاں بولا
تکو گے یونہی ہواؤں کا منہ بھلا کب تک؟
یہ نا خداؤں سے اک روز بادباں بولا
کہا نہ تھا کہ نوازیں گے ہم حفیظ تجھے
اڑا کے وہ مرے دامن کی دھجیاں بولا
٭٭٭
ایسی آسانی سے قابو میں کہاں آتی ہے آگ
جب بھڑکتی ہے تو بھڑکے ہی چلی جاتی ہے آگ
خاک سر گرمی دکھائیں بے حسی کے شہر میں
برف کے ماحول میں رہ کر ٹھٹر جاتی ہے آگ
پاسباں آنکھیں ملے ،انگڑائی لے ،آواز دے
اتنے عرصے میں تو اپنا کام کر جاتی ہے آگ
آنسوؤں سے کیا بجھے گی دوستودل کی لگی
اور بھی پانی کے چھینٹوں سے بھڑک جاتی ہے آگ
حل ہوئے ہیں مسئلے شبنم مزاجی سے مگر
گتھیاں ایسی بھی ہیں کچھ جن کو سلجھاتی ہے آگ
یہ بھی اک حساس دل رکھتی ہے پہلو میں ضرور
گد گدا تا ہے کوئی جھونکا تو بل کھاتی ہے آگ
جب کوئی آغوش کھلتا ہی نہیں اس کے لیے
ڈھانپ کر منہ راکھ کے بستر پہ سوجاتی ہے آگ
امن ہی کے دیوتاؤں کے اشاروں پر حفیظؔ
جنگ کی دیوی کھلے شہروں پہ برساتی ہے آگ
٭٭٭
مہرباں وہ لبِ جو آج ہوا پانی پر
چھیڑ کر پاؤں سے احسان کیا پانی پر
ہو گیا شیخ کی مہمان نوازی کا شکار
اکتفا رند کو کرنا ہی پڑا پانی پر
لیجیے مل گئی بیچارے غریبوں کو دوا
پڑھ کے اک شخص نے کچھ پھونک دیا پانی پر
کتنے پانی میں ہوں میں جان گیا یہ پانی
اک جھجک نے ہی بھرم کھول دیا پانی پر
جھیل میں ڈوب گیا جان سے بیزار بدن
تیر تارہ گیا مٹی کا گھڑا پانی پر
٭٭٭
نہیں ہوتیں کبھی ساحل کے ارمانوں سے وابستہ
ہماری کشتیاں رہتی ہیں طوفانوں سے وابستہ
ہمارا ہی جگر ہے یہ ہمارا ہی کلیجہ ہے
ہم اپنے زخم رکھتے ہیں نمکدانوں سے وابستہ
نہ لے چل خانقاہوں کی طرف شیخ حرم مجھ کو
مجاہد کا تو مستقبل ہے میدانوں سے وابستہ
میں یوں رہزن کے بدلے پاسباں پردار کرتا ہوں
مرے گھر کی تباہی ہے نگہبانوں سے وابستہ
ہماری بے قراری کو نہ چھیڑ و مطمئن لوگو !
کہ تقدیرِ سکوں ہے ہم پریشانوں سے وابستہ
کہیں مسلی ہوئی کلیاں ،کہیں روندے ہوئے غنچے
بہت سی داستانیں ہیں شبستانوں سے وابستہ
مورخ ! تیری رنگ آمیز یاں تو خوب ہیں لیکن
کہیں تاریخ ہو جائے نہ افسانوں سے وابستہ
ابھی یہ چلتے چلتے دیکھ لیتے ہیں خراشوں کو
ابھی کچھ اور زنجیریں ہیں دیوانوں سے وابستہ
محبت خامشی بھی ،چیخ بھی ،نغمہ بھی ،نعرہ بھی
یہ اک مضمون ہے کتنے ہی عنوانوں سے وابستہ
حفیظ میرٹھی کو کون پہچانے کہ بے چارہ
نہ ایوانوں سے وابستہ ،نہ دربانوں سے وابستہ
٭٭٭
سوز نہ ہو تو سازِ حیات
بس اک روکھی پھیکی بات
جل اٹھ جل اٹھ شمع یقیں
رات ہے اور اندھیری رات
آہ یہ حسن کی نایابی
اف یہ جلووں کی بہتات
ان کا کھیل دل آزادی
اور مرے نازک جذبات
جان ہتھیلی پر رکھ لے
کہنی ہے گر سچی بات
٭٭٭
سمٹے بیٹھے ہو کیوں بزدلوں کی طرح
آؤ میدان میں غازیوں کی طرح
کون رکھتا ہمیں موتیوں کی طرح
مل گئے خاک میں آنسوؤں کی طرح
روشنی کب تھی اتنی مرے شہر میں
جل رہے ہیں مکاں مشعلوںکی طرح
داد دیجے کہ ہم جی رہے ہیں وہاں
ہیں محافظ جہاں قاتلوں کی طرح
زندگی اب ہماری خطا بخش دے
دوست ملنے لگے محسنوں کی طرح
کیسے اللہ والے ہیں یہ اے خدا
گفتگو ،مشورے ،سازشوں کی طرح
میری باتوں پہ ہنستی ہے دنیا ابھی
میں سنا جاؤں گا فیصلوں کی طرح
تم بھی دربار میں حاضری دو حفیظؔ
پھر رہے ہو کہاں مفلسوں کی طرح
٭٭٭
باد صبا! یہ ظلم خدارا نہ کیجیو
اس بے وفا سے ذکر ہمارا نہ کیجیو
غم کی کمی نہیں ہے جہانِ خراب میں
اے دل ترس ترس کے گذارا نہ کیجیو
بدتر ہے موت سے بھی غلامی کی زندگی
مر جائیو مگر یہ گوارا نہ کیجیو
اے صاحبِ عروج تو بامِ عروج سے
سورج کے ڈوبنے کا نظارا نہ کیجیو
ایسا نہ ہو کہ لوگ ہمیں پوجنے لگیں
اتنا بھی احترام ہمارا نہ کیجیو
ساحل اگر نصیب بھی ہو جائے اے حفیظؔ
طوفاں سے بھول کر بھی کنارا نہ کیجیو
٭٭٭
دار و رسن نے کس کو چنا دیکھتے چلیں
یہ کون سر بلند ہوا ؟ دیکھتے چلیں
آئے گا پھر چمن پہ تصرف کا وقت بھی
پہلے قفس کی آب و ہوا دیکھتے چلیں
جاتے تھے ہم تو پھیر کے منہ جلوہ گاہ سے
لیکن دل و نظر نے کہا ’’دیکھتے چلیں ‘‘
تہذیبِ نو کے عہد میں انسانیت کے ساتھ
انساں نے کیا سلوک کیا ؟ دیکھتے چلیں
ہاں اک نظر حفیظؔ پہ عبرت کے واسطے
کیا رہ گئی ہے قدرِ وفا دیکھتے چلیں
٭٭٭
وادیِ حسن ! ہم اس سیر و سفر سے گذرے
دل لرزا ٹھا وہ نظارے نظر سے گذرے
راہ روکے ہوئے خود راہنما بیٹھے ہیں
اب کوئی قافلہ گذرے تو کدھر سے گذرے
اف یہ جادہ کہ جسے دیکھ کے جی ڈرتا ہے
کیا مسافر تھے جو اس راہ گذر سے گذرے
حسن منزل کی قسم ،زندگیِ دل کی قسم
رقص کرتے ہوئے ہم برق و شرر سے گذرے
کوئی چپکے سے دیا د ل کا جلا کر سوجائے
کاروانِ مہ و انجم جب ادھر سے گذرے
جانے کیا کہہ گئے ماحول سے ،جاتے جاتے
وہ اندھیر ے جو ابھی چاکِ سحر سے گذرے
٭٭٭
کہاں کے مالک و مختار ہم تو کچھ بھی نہیں
فریب دے نہ درِ یار ہم تو کچھ بھی نہیں
مری جھجک پہ وہ ساقی سے شیخ کا ارشاد
’’بس اک یہی تو ہیں دیندار ہم تو کچھ بھی نہیں
کہاں وہ گرمیِ گفتار ’’ہم ہی سب کچھ ہیں ‘‘
کہاں یہ سردیِ کردار ’’ہم تو کچھ بھی نہیں ‘‘
ادھر جو چھاؤں سی دیکھی تو آ کے بیٹھ گئے
لرز نہ سایۂ دیوار ! ہم تو کچھ بھی نہیں
نکالنا تھا چمن سے حفیظؔ کو پہلے
یہی ہے واقعی اک خار ہم تو کچھ بھی نہیں
٭٭٭
نہ شوخیوں سے نہ سنجیدگی سے ملتی ہیں
وہ لذتیں جو تری برہمی سے ملتی ہیں
جب اس کے غم کے سوازیست کچھ نہیں ہوتی
وہ ساعتیں بڑی خوش قسمتی سے ملتی ہیں
نہیں ضرور کہ قربت ہو وصل کا حاصل
کہ دوریاں بھی تو وابستگی سے ملتی ہیں
دل تباہ مری بات کا خیال نہ کر
ملامتیں بھی تو ہمدرد ہی سے ملتی ہیں
نقاب حسن کو جلووں سے مختلف نہ سمجھ
نظر کو دید کی راہیں اسی سے ملتی ہیں
جو درد و غم کی طلب ہے سنو کلام حفیظ
یہ بخششیں کسی محروم ہی سے ملتی ہیں
٭٭٭
آخرش چوٹ کھا گئی دنیا
اپنی ہی زد میں آ گئی دنیا
آدمی نے کب آنکھ کھولی ہے
آہ جب مٹ مٹا گئی دنیا
ہم ابھی جرم بھی سمجھ نہ سکے
فیصلہ بھی سنا گئی دنیا
رات کو رات کہہ دیا میں نے
سنتے ہی بوکھلا گئی دنیا
ساتھ چلنا تو خیر مشکل تھا
روکنے سے بھی کیا گئی دنیا
تجھ سے پھیرا تری قسم دے کر
کیا کروں بھید پا گئی دنیا
کس نے سمجھا ہے میرے غم کو حفیظؔ
گدگدا کر رلا گئی دنیا
٭٭٭
کتنے اہلِ ہوش کس کس طرح بہکانے اٹھے
آپ کے کوچے سے اٹھنے تھے نہ دیوانے اٹھے
رنج و راحت کا وہ یوں مفہوم سمجھا نے اٹھے
راہ میں کانٹے بچھا کر پھول برسانے اٹھے
ظرفِ ساقی ہی نہ جب دیکھا تو پھر کیا بیٹھتے
آنسوؤں سے بھر کے ہم آنکھوں کے پیمانے اٹھے
آج کی بد حال دنیا کے بھی دن پھر جائیں گے
اے مورخ ہم اگر تاریخ دہرانے اٹھے
غمگسار آئیں نہ آئیں بزم برپا ہو نہ ہو
دل جلوں سے دل جلے کہہ سن کے افسانے اٹھے
اب خدا حافظ متاعِ دین و دانش کا حفیظ
واعظِ کج فہم بھی تقدیر فرمانے اٹھے
٭٭٭
اف رے شکایت جفا، واہ رے شکوۂ ستم
ہنستے رہے حضور میں ، رو دیے دور جا کے ہم
دستِ ہوس میں سیف ہے ، جہل کے ہاتھ میں قلم
معرکۂ حیات میں رہ گئے خالی ہاتھ ہم
ہائے یہ کیا مقام ہے ، ہائے یہ کیا نظام ہے
عشق کی آستیں بھی نم ، حسن کی آستیں بھی نم
ایسا بھی انقلاب کیا ، شیخ تمھیں یہ کیا ہوا
رخ تو ہے سوئے بتکدہ ، پشت ہے جانب حرم
شاید اسی طرف سے کچھ ، لطف میں ہو گئی کمی
جانب کو ے دوست جو آج نہ اٹھ سکے قدم
٭٭٭
کسی جبیں پر شکن نہیں ہے کوئی بھی مجھ سے خفا نہیں ہے
بغور میرا پیام شاید ابھی جہاں نے سا نہیں ہے
سفینۂ عہدِ نو پہ چھایا ہوا ہے بہروپیوں کا لشکر
یہاں ہر اک نا خدا نما ہے مگر کوئی نا خدا نہیں ہے
خیال کے دیوتا بھی جھوٹے عمل کے سب سورما بھی جھوٹے
خرد بھی فریاد رس نہیں ہے جنوں بھی مشکل کشا نہیں ہے
ہر ایک میکش کے ظرف سے باخبر ہے کتنی نگاہِ ساقی
کسی کو ہے حکمِ جاں نثاری ،کسی کو اذنِ وفا نہیں ہے
کہاں کا شاعر خدائے شعر و سخن بھی ہم اس کو مان لیتے
حفیظؔ میں یہ بڑی کمی ہے کہ بندہ خود نما نہیں ہے
٭٭٭
ہم توجہ کے سزا وار نہ تھے
سیدھے سادے تھے اداکار نہ تھے
ہم سے کیوں بچ کے زمانہ گزرا
ہم کوئی سنگ نہ تھے خار نہ تھے
اس لیے گر گئے نظروں سے تری
ہم ترے حاشیہ بردار نہ تھے
ا ن کو تو چارہ گروں نے مارا
اتنے بیمار یہ بیمار نہ تھے
دیکھتے رہ گئے حق اور سبھی
لے اڑے چند جو حق دار نہ تھے
بات منصب سے نہ دولت سے بنی
کیونکہ ہم صاحبِ کردار نہ تھے
پاس آ کر بھی کوئی کیا لیتا
ہم کوئی سایۂ دیوار نہ تھے
خوفِ رسوائی سے پیچھا چھوٹا
دشت میں کوچہ و بازار نہ تھے
مول پانی کے بکا خونِ جگر
مطمئن پھر بھی خریدار نہ تھے
ہم بھے رندوں کے بھی غمخوار حفیظؔ
یہ الگ بات کہ مے خوار نہ تھے
٭٭٭
اس دور بے ضمیر میں جینا سکھا دیا
حالات نے ہمیں بھی منافق بنا دیا
جب اس نے میرے فن کا مجھے واسطہ دیا
اک نام اپنی نظم سے میں نے ہٹا دیا
جینے ہی دے مجھے نہ وہ مرنے ہی دے مجھے
خنجر چلا دیا کبھی مرہم لگا دیا
پھر داغدار ہو گیا دامانِ گلستاں
لو آج پھر کسی نے نشیمن جلا دیا
دیتے پھر و ثبوتِ وفا اب جہاں تہاں
الزام بے وفائی کا اس نے لگا دیا
ہتھیار پہلے عقل نے ڈھالے نئے نئے
دنیا کو پھر جنوں کا نشانہ بنا دیا
چنگاریوں کو اب کوئی پاگل ہوا نہ دے
شعلہ تو جیسے ہو سکا ہم نے بجھا دیا
معیارِ زندگی کو اٹھانے کے شوق نے
کردار پستیوں سے بھی نیچے گرا دیا
یہ بھی تو سوچیے کبھی تنہائی میں ذرا
دنیا سے ہم نے کیا لیا ؟ دنیا کو کیا دیا ؟
بربادیوں سے لینا ہے کچھ کام اے حفیظؔ
یوں مرثیے کو ہم نے ترانہ بنا دیا
٭٭٭
گداز دل سے ملا ،سوزشِ جگر سے ملا
جو قہقہوں میں گنوایا تھا چشم تر سے ملا
تعلقات کے اے دل ہزار پہلو ہیں
نہ جانے مجھ سے وہ کس نقطۂ نظر سے ملا
کبھی تھکن کا کبھی فاصلوں کا رونا ہے
سفر کا حوصلہ مجھ کو نہ ہم سفر سے ملا
میں دوسروں کے لیے بے قرار پھر تا ہوں
عجیب درد مجھے میرے چارہ گر سے ملا
ہر انقلاب کی تاریخ یہ بتاتی ہے
وہ منزلوں پہ نہ پایا جو رہگزر سے ملا
نہ میں نے سوزہی پایا نہ استقامت ہی
حجر حجر کو ٹٹولا ،شجر شجر سے ملا
جدا ہے سارے زمانے سے اپنے فن کا مزاج
نہ کوہکن سے ملا اور نہ شیشہ گر سے ملا
حفیظؔ ہو گیا آخر اجل سے آغوش
تمام شب کا ستایا ہوا سحر سے ملا
٭٭٭
چھیڑ دو دل کی داستاں لوگو
آپ بندھ جائے گا سماں لوگو
میں نے اقبال جرم کر تو لیا
دیر اب کیا ہے حکمراں لوگو
ظلم تھک کر سوال کرتا ہے
کیوں نہیں مرتے سخت جاں لوگو
تب جمیں گے قدم جزیرے میں
جت جلا دو گے کشتیاں لوگو
دیکھ پاؤ گے کیا گھروں کے زخم
راستے کے رواں دواں لوگو
ہم اگر ترکِ گفتگو نہ کریں
اور بڑھ جائیں تلخیاں لوگو
جن کو اہلِ خرد کا ہاتھ لگا
اور الجھیں وہ گتھیاں لوگو
بات جب ہے کہ فاصلہ نہ رہے
فکر اور فن کے درمیاں لوگو
کھوئے کھوئے حفیظؔ پائے گئے
امتحاں پھر ہے امتحاں لوگو
٭٭٭
آباد رہیں گے ویرانے ،شاداب رہیں گی زنجیریں
جب تک دیوانے زندہ ہیں پھولیں گی پھلیں گی زنجیریں
آزادی کا دروازہ بھی خود ہی کھولیں گی زنجیریں
ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی جب حد سے بڑھیں گی زنجیریں
جب سب کے لب سل جائیں گے ہاتھوں سے قلم چھن جائیں گے
باطل سے لوہا لینے کا اعلان کریں گی زنجیریں
اندھوں بہروں کی نگری میں یوں کون توجہ کرتا ہے
ماحول سنے گا ،دیکھے گا جس وقت بجیں گی زنجیریں
جو زنجیروں سے باہر ہیں ،آزاد انھیں بھی مت سمجھو
جب ہاتھ کٹیں گے ظالم کے اس وقت کٹیں گی زنجیریں
یہ طور بھی ہیں صیادی کے ،یہ ڈھنگ بھی ہیں جلادی کے
سمٹیں ،سکڑیں گی زنجیریں ،پھیلیں گی ،بڑھیں گی زنجیریں
مجبوروں کو ترسائیں گی ،یوں اور ہمیں تڑپائیں گی
زلفوں کی یاد دلائیں گی جب لہرائیں گی زنجیریں
زنجیریں تو ہٹ جائیں گی ،ہاں ان کے نشاں رہ جائیں گے
میرا کیا ہے ظالم تجھ کو بدنام کریں گی زنجیریں
لے دے کے حفیظؔ ان سے ہی تھی امید وفا دیوانوں کو
کیا ہو گا جب دیوانوں سے ناتا توڑ یں گی زنجیریں
٭٭٭
دل فروشوں کے لیے کوچہ و بازار بنے
اور جانبازوں کی خاطر رسن و دار بنے
بس یہی دوڑ ہے اس دور کے انسانوں کی
تیری دیوار سے اونچی مری دیوار بنے
چھین کر غیر سے اپنوں نے مجھے قتل کیا
آپ ہی ڈھال بنے ،آپ ہی تلوار بنے
ہو گئے لوگ اپاہج یہی کہتے کہتے
ابھی چلتے ہیں ذرا راہ تو ہموار بنے
مجھ کو ممنون کرم کر کے وہ فرماتے ہیں
آدمی سوچ سمجھ کر ذرا خود دار بنے
خود شناسی کے نہ ہونے سے یہی ہوتا ہے
جن کو فن کار نہ بننا تھا وہ فن کار بنے
تجھ سے کتنا ہے ہمیں پیار کچھ اندازہ کر
ہم ترے چاہنے والوں کے روادار بنے
شان و شوکت کے لیے تو ہے پریشان حفیظ
اور میری یہ تمنا ترا کردار بنے
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید