فہرست مضامین
- گیلے کاغذ پہ روشنائی
- جاوید ندیم
- رات کا پچھلا پہر ہے اور میں
- دیکھتے خود کو کبھی بھیڑ میں کھو کر تم بھی
- عذاب ٹھہرا ہمیں اپنا آئینہ ہونا
- کھوٹ اپنی کہہ سکیں جس سے کوئی ایسا بھی ہو
- خواب ، حقیقت ، سایہ میں
- برگشتہ اپنے پاؤں سے ہر رہ گزر ہُوئی
- زخم اگر گُل ہے تو پھر اُس کا ثمر بھی ہو گا
- گزرا ہے وَقت گر تو گزر کر کدھر گیا
- ہو رہے ہیں زندگی کے نِت نئے اِظہار گم
- کاغذ کی ناؤ کیا ہُوئی ، دریا کدھر گیا
- رات سوئی ہُوئی بستی ، سبھی رستے خاموش
- آنکھوں سے رنگ ، پھول سے خوشبو جدا رہے
- نیند ٹُوٹی تو خواب سے نکلے
- خود کو ہم نے جانا کب؟ اور ملے ہیں دانا کب؟
- بار لگتی ہے آشنائی اب
- وہ صدا کا عَلم اپنی اُونچا کرے
- جاوید ندیم
گیلے کاغذ پہ روشنائی
جاوید ندیم
رات کا پچھلا پہر ہے اور میں
جاگتا سوتا نگر ہے اور میں
میں کہ سنگ آسا ہُوا ہوں دوستو!
کیسے جادُو کا اثر ہے اور میں
حکم ہے جرعہ کشی کا دیکھئے
زہر لب پر قدح بھر ہے اور میں
زندگی صحرا سفر ہے جان لیں
سر پہ تپتی دوپہر ہے اور میں
پھول ، پودے اور بستی سوگئی
آرزو کا اِک شجر ہے اور میں
لوگ سارے بے سماعت ہو گئے
شور کرتا زخمِ سر ہے اور میں
آنکھ میں سب کی بسی ہے خُفتگی
تشنۂ ناظر ہنر ہے اور میں
ایسا لگتا ہے کہ میں صحرا میں ہوں
رات ہے جاوید گھر ہے اور میں
٭٭٭
دیکھتے خود کو کبھی بھیڑ میں کھو کر تم بھی
لوگ ہو کر نہیں ہوتے ، وہاں ہو کر تم بھی
میری خواہش تھی کبھی پاس تمہارے رُکتا
اپنے پیروں میں لئے پھرتے ہو چکّر تم بھی
اِن درختوں کے تلے پہلے بھی لوگ آئے تھے
نام لکھ جاؤ مرے دوست یہاں پر تم بھی
دِل مرا صبح کو بازار کا حصّہ ہو گا
ذہن کو لے کے نکل جاؤ گے دفتر تم بھی
رات رانی سی مہکتی ہُوئی یادیں میری
سوچ لو مجھ کو تو ہو جاؤ معطّر تم بھی
لوگ ہوتے ہی اذاں اپنے سفر پر نکلے
جاگ بھی جاؤ، سمیٹو ذرا بستہ تم بھی
میں نے رو رو کے کیا اپنے لہو کو پانی
آگ میں اپنی ہی جلتے رہے نشتر تم بھی
٭٭٭
عذاب ٹھہرا ہمیں اپنا آئینہ ہونا
کہ لمحہ لمحہ تنفّر سے سابقہ ہونا
ملے ہیں ہم کو اَمر بیل کی طرح احباب
شجر کا ہوکے ، شجر سے مگر جدا ہونا
اُٹھائے پھرنا اُجالے میں جھوٹ کا پرچم
اندھیرا ہوتے ہی پھر سچ سے آشنا ہونا
خیال رکھنا ہمیشہ مزاج کا اُس کے
اور اپنے آپ سے ہر دَم خفا خفا ہونا
نجات دیتا تھا مجھ کو ہر اِک اذیّت سے
وہ میرے حق میں ترا سر بہ سر دُعا ہونا
کیا جو اُس کو کبھی محترم تو ایسا لگا
کہ جیسے خود سے تکلف کا واسطہ ہونا
٭٭٭
کھوٹ اپنی کہہ سکیں جس سے کوئی ایسا بھی ہو
ہم تو پتھر ہیں ، سفر میں اِک عدو شیشہ بھی ہو
بے تعلق شخص سے بہتر ہے وہ ساتھی مرا
غم میں جو ہنستا بھی ہو ، تسکیں مگر دیتا بھی ہو
یاد کچھ آتا نہیں ، ہم نے اُسے دیکھا کہاں
کیا خبر وہ خود بھی ہو ، تصویر کا چہرہ بھی ہو
اُس کے چہرے پہ کبھی غم کی رَمق دیکھی نہیں
کوئی کیا جانے ، وہ تنہائی میں روتا بھی ہو
کربِ تنہائی ہے کیا شئے ، کاش وہ بھی جانتا
کتنا اچھا ہو کہ وہ ہم سا کبھی تنہا بھی ہو
یہ دَیارِ غیر تو سنسان صحرا ہے ندیم
کوئی اپنا ہو یہاں تو ، کوئی بے گانہ بھی ہو
٭٭٭
خواب ، حقیقت ، سایہ میں
رنگ اور خوشبو جیسا میں
میرے بِنا سب سُونا تھا
رنگِ بہاراں لایا میں
صُورت اپنی تکتا ہوں
آپ ہی خود کو بھایا میں
بزم کی رونق مجھ سے ہے
محفل محفل تنہا میں
دیکھا اُس نے بات نہ کی
شب بھر کتنا رویا میں
جنگل جنگل بھٹکوں میں
آہُو آسا ، گویا میں
پیچھے منزل چھوٹ گئی
جانے کہاں تھا کھویا میں
خود کو اب دوہرانا ہے
تم ہو کہانی ، قصہ میں
٭٭٭
برگشتہ اپنے پاؤں سے ہر رہ گزر ہُوئی
تم جو نہیں تو زندگی نا معتبر ہُوئی
آسان راستوں سے گزرتے رہے ہیں سب
دُشوار تھی جو راہ وہ میری ڈگر ہُوئی
پُرکھوں کی اُس عظیم حویلی کا کیا ہُوا
یہ دیکھتے ہی دیکھتے بے سقف و دَر ہُوئی
بے کاریوں کو کام میں لانے کی راہ ڈھونڈ
بے کاریوں کی بات بہت بے اثر ہُوئی
اُس کی بھی ہو گئی ہے بہت بے حِسی فزوں
ہم سے بھی احتجاج کی منزل نہ سر ہُوئی
اُس کو ہمارے حال پہ آیا تو کچھ یقیں
یعنی ہماری داستاں اب معتبر ہُوئی
حامی ہیں اب بھی لوگ تحفُّظ کے کیوں ندیم
فرقِ بلند و پست سے حالت دِگر ہُوئی
٭٭٭
زخم اگر گُل ہے تو پھر اُس کا ثمر بھی ہو گا
ہِجر کی رات میں پوشیدہ قمر بھی ہو گا
کون سُنتا ہے یہاں پست صدائی اِتنی
تم اگر چیخ کے بولو تو اثر بھی ہو گا
کچھ نہ کچھ رختِ سفر پاس بچا کر رکھنا
اِک سفر اور پسِ ختمِ سفر بھی ہو گا
مطمئن رہیئے ، کبھی خود کو تسلّی دیجئے
یہ ہی جینا ہے ، یہی جینے کا ہنر بھی ہو گا
عمر گزری ہے اِسی ایک تمنّا میں ندیم
مجھ سے بے گھر کا کہیں شہر میں گھر بھی ہو گا
٭٭٭
گزرا ہے وَقت گر تو گزر کر کدھر گیا
ساکن اگر رہا تو کہاں پر سفر گیا؟
اِک تم حِجابِ ذات سے باہر نہ آ سکی
اِک میں کہ اپنی حد سے بھی آگے گزر گیا
جانو کہ زندگی کی بقاء آرزو سے ہے
مشکل بہت ہے راہ جو شوقِ سفر گیا
خوشبو نہ تازگی نہ ہواؤں میں نغمگی
بے نُور دشتِ جاں ہے کہ دِل سے گزر گیا
دیکھو! تمہاری سطح سے اُونچا سوال ہے
کیسے بلندیوں پہ وہ بے بال و پَر گیا
میرے وجود سے تھا تماشہ یہاں ندیم
میں کیا گیا کہ ساتھ سبھی خیر و شر گیا
٭٭٭
ہو رہے ہیں زندگی کے نِت نئے اِظہار گم
سچ سے ہو جائیں گے کل سب کے سب کردار گم
راستے تو ہو گئے کتنے کشادہ دیکھئے!
راستوں کے بازوں سے ہو گئے اشجار گم
وہ حِصارِ ذات سے کبھی نکلا نہیں
سوچ میں اُس کی رہے ہیں ہم مگر بے کار گم
سلسلہ موجوں کا دریا سے ہُوا کب منقطع
کب درختوں سے ہُوئے ہیں بیج کے آثار گم
دے دیا احساس کو الفاظ کا جامہ مگر
صفحۂ قرطاس پر آ کر ہُوا اِظہار گم
شہر آخر کھا گیا قدرت کی سب رنگینیاں
پیڑ ، پودے ، جھیل ، میدان ، گھاٹیاں ، کُہسار گم
ابتدا اور اِنتہا کے بیچ حائل کون؟ مَیں
حال ماضی اور فردا میں سب اَدوار گم
٭٭٭
کاغذ کی ناؤ کیا ہُوئی ، دریا کدھر گیا
بچپن کو جو ملا تھا وہ لمحہ لمحہ کدھر گیا
معدوم سب ہُوئیں وہ تجسس کی بجلیاں
حیرت میں ڈال دے وہ تماشہ کدھر گیا
پھر یوں ہُوا کہ لوگ مشینوں میں ڈھل گئے
وہ دوست لب پہ لے کے دِلاسہ کدھر گیا
یہ کیا کہ مل گئے تو اِشارہ کیا چلے
بانہوں میں بھینچنے کا طریقہ کدھر گیا
کیا دشتِ جاں کی سوختہ حالی کہیں اِسے
چاہت میں چاند چھُونے کا جذبہ کدھر گیا
تاریکیاں ہیں ساتھ میرے اور سفر مدام
کل تک تھا ہم قدم جو فرشتہ کدھر گیا
جو رہ نُما تھے میرے ، کہاں ہیں وہ نقشِ پا؟
منزل پہ چھوڑتا تھا جو رستہ کدھر گیا
فائل کے میری سارے ہی اوراق گم ہُوئے
رکھا تھا کاٹ کر جو تراشہ کدھر گیا
٭٭٭
رات سوئی ہُوئی بستی ، سبھی رستے خاموش
اور ہم ہیں کہ کسی دیپ سے جلتے خاموش
جھوٹ بازار کے چہرے پہ چمکتا سُورج
سچ کے جنگل کے سبھی پیڑ پرند خاموش
فلسفی چُپ ہیں سبھی ، اور مفکر ساکت
زندگی تیرے مقابل ہُوئے سارے خاموش
اُس کے جانے سے ہیں موسم کی بہاریں بے رَس
پیڑ چُپ چاپ ، ہَوا بند ہے ، غُنچے خاموش
سچ کو پیرانِ طریقت تہہ دستار رکھیں
زیرِ محراب ہُوئے سارے صحیفے خاموش
خونِ مقتول ہی بولے گا ، گواہی دے گا
ہونٹ گونگے ہیں تو آنکھوں کے دریچے خاموش
علم کچھ اُس کا ہمیں خود بھی نہیں ہے جاوید
اب سے پہلے نہ ہُوئے ہم کبھی اِتنے خاموش
٭٭٭
شہر سارا سوچکا ہے ،سب دَر و دیوار چپ
اِک فقط ہم جاگتے ہیں ، جیسے ہو بیمار چپ
لے چُکی ہے زندگی سب کا یہاں پر اِمتحاں
کامراں کتنے ہُوئی؟ مجذوب چپ ، ہوشیار چپ
اِک عجب سی کش مکش ہے ذہن و دِل میں اِن دِنوں
شب کے سنّاٹے میں جیسے صبح کے آثار چپ
یہ کھنڈر ، تہذیبِ رَفتہ کے کہو مدفن اِنہیں
بُوم کی فریاد میں ہے ہر گنبدِ مسمار چپ
دیجئے عصری غزل کو اب کوئی لہجہ نیا
کس لئے ہونے لگی ہے جدتِ اِظہار چپ
دِل سے اُٹھ کر دُور تک ہے مرتعِش موجِ اَلم
پیڑ ، پودے ، جھیل ، جھرنے ، قریہ و کُہسار چپ
رائیگاں لگنے لگی کیوں اپنی ہر کاوِش ہمیں
جو سخن کرتے تھے کل تک ہیں وہی اشعار چپ
٭٭٭
آنکھوں سے رنگ ، پھول سے خوشبو جدا رہے
رُوٹھی رہے حیات وہ جب تک خفا رہے
اِتنے قریب آ کہ نہ کچھ فاصلہ رہے
سانسوں کے ماسوا نہ کوئی سلسلہ رہے
دستک کوئی نہ در پہ ہو لیکن لگن رہے
ہر لمحہ انتظار یہ کسی کا لگا رہے
ڈسنے لگے نہ قرب کی یکسانیت کہیں
اچھا یہی ہے مل کے بھی کچھ فاصلہ رہے
وحشت کو اپنی دیکھنے والا کوئی نہ ہو
اب اُس جگہ چلیں نہ جہاں دُوسرا رہے
پھر دِن میں میرے ساتھ کوئی حادثہ نہ ہو
دِل ہے کہ ساری رات یہی سوچتا رہے
انجان بستیوں سے تو شہرِ عدو ہی ٹھیک
یہ کیا کہ دُور تک نہ کوئی آشنا رہے
٭٭٭
نیند ٹُوٹی تو خواب سے نکلے
زندگی کے سراب سے نکلے
ہم فضا میں بکھر گئے ایسے
جیسے خوشبو گلاب سے نکلے
وہ حقیقت تہہ حقیقت ہے
کاش! اِک دِن نقاب سے نکلے
جب سمندر کو رُو برو پایا
ہم بھی اپنے سراب سے نکلے
کتنا اچھا لگا ، بدن چھوٹا
ہم مسلسل عذاب سے نکلے
تم بھی پِیری میں ہو گئے داخل
ہم بھی اپنے شباب سے نکلے
تم نے جاوید کیسا سوال کیا
کتنے پہلو جواب سے نکلے
٭٭٭
خود کو ہم نے جانا کب؟ اور ملے ہیں دانا کب؟
ہم کو جو بتا پاتے کیا ہے زندگی ، زندگی آخر
خاک سب کو ہونا ہے ، خاک ہی سے ہونا ہے
آخری سفر اپنا ، بن کے روشنی آخر
یوں تو سب سہانا تھا ، پر تمہارا جانا تھا
لے گئے ہو موسم کی ، ساری تازگی آخر
اُس کا لب کُشا ہونا ، پھول کا نِدا ہونا
گھل گئی فضاؤں میں ، کیسی نغمگی آخر
حسرتوں کا صحرا ہے ، آب ہے نہ سایہ ہے
لمحہ لمحہ وحشت ہے اور ہے بے بسی آخر
تم نے دشت چھانا ہے ، یعنی خوب جانا ہے
زندگی کے جنگل میں ، کیا ہے دیدنی آخر
حالِ دِل سُنانا تھا ، زخم بھی دِکھانا تھا
ہو گئی مگر مانع اُس کی بے رُخی آخر
٭٭٭
بار لگتی ہے آشنائی اب
گیلے کاغذ پہ روشنائی اب
سارے طائر ، شجر ، بشر ، خُفتہ
جاگتی ہے فقط خدائی اب
شہر جلنا تھا جل چکا صاحب
کرتے رہیئے گا چارہ جوئی اب
طے شدہ منظروں کے عادی تم
سچ نہ دے گا تمہیں دِکھائی اب
گن چکے مرے سب محاسن تم
ڈھونڈیے مجھ میں کچھ برائی اب
اُڑ چکیں سب وِصال کی پریاں
بس ہے نوحہ کُناں جدائی اب
ہو نہ دیوار گھر میں ، چھوڑا گھر
بد گُماں کیوں ہے میرے بھائی اب
یعنی دھوکہ ہے چاہ دُنیا کی
بات اپنی سمجھ میں آئی اب
فَن کو لے کر کہاں چلے جاوید!
سب پہ حاوی ہے کم نگاہی اب
٭٭٭
وہ صدا کا عَلم اپنی اُونچا کرے
سننے والا کہاں ہے نہ پوچھا کرے
اب ہے دامن تہی حرف و اِظہار کا
لفظ خود سے معانی کو منہا کرے
منحصر ہیں طلب اور رسد پر سبھی
کوئی اب بے سبب کس سے رِشتہ کرے
کتنی اَفواہیں اُس کے تعاقب میں ہیں
کیا گلی سے یہ لڑکی نہ گزرا کرے
فلسفہ، شاعری (فَن) چھلاوا ہیں سب
کوئی پاگل ہی اب اُن کا پیچھا کرے
لفظ کرتے ہیں اُس کے الگ گفتگو
بات لیکن الگ اُس کا لہجہ کرے
زندگی ہے سفر ، اِس میں راحت کہاں
دِل ترستا ہے راحت کو ، ترسا کرے
صبح مسجد سے آتی ہے بانگِ اذاں
خواب بستر پہ جاوید دیکھا کرے
٭٭٭
شاعر کی اجازت کے ساتھ۔ تشکر: ایم۔ مبین
ان پیج سے تبدیلی، تدوین و تہذیب اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید