اس بار نہیں
’ایک انجانے خوف کی ریہرسل‘ کتاب میں مشمولہ ایک طویل کہانی
مشرف عالم ذوقی
’’اس بار نہیں /اس بار جب میں اپنے چہرے پر درد لکھا دیکھوں گا/ نہیں گاؤں کا کوئی گیت/ تکلیف بھلا دینے کے لیے / اس بار زخموں کو دیکھنا ہے غور سے / تھوڑے لمبے وقت تک/ کچھ فیصلے / کہیں تو شروعات کرنی ہو گی/ اس بار یہی طے کیا ہے /‘‘
پرسون جوشی کی ایک کویتا سے
مہا بھارت میں یکشیہ، یدھشٹر سے پوچھتے ہیں — تمہیں اس دنیا میں سب سے انوکھی بات کیا لگتی ہے۔ یدھشٹر کہتے ہیں۔ سب جانتے ہیں، موت ہی سچ ہے۔ سب کو ایک دن مر جانا ہے۔ لیکن سب ایسے جیتے ہیں گویا کبھی نہ مرنے کے لیے اس دنیا میں آئے ہوں۔
اس وقت شام کے ساتھ بجے ہوں گے۔ آفس رسیپشن پر ٹی وی دیکھنے والوں کی بھیڑ جمع تھی۔ سیریل بم بلاسٹ۔ مارے گئے فدائین کے چہرے بار بار کیمرے کے آگے چمک رہے تھے۔ اینکر زور زور سے چلّا رہا تھا۔ پولس تفتیش کر رہی ہے۔ دھماکے کرنے سے پہلے ان کے ٹھکانے کون کون سے تھے۔ یہ کہاں سے آئے تھے۔ اعظم گڑھ سے کشمیر اور پاکستان تک، اینکر دہشت گردوں کے تار جوڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئی تھیں — چہرہ زرد — بدن میں کاٹو تو خون نہیں۔ وہ سر سے لے کر پاؤں تک لرز رہا تھا۔ جس وقت جینی سے اس کی نظریں ملیں، وہ جیسے اندر تک ننگا ہو چکا تھا۔ وہ ایک سکنڈ بھی وہاں ٹھہرا نہیں۔ سرعت سے باہر نکل گیا۔ جینی کو کچھ عجیب سا لگا۔ دوسرے ہی لمحے وہ اس کے چہرے کا تاثر پہچان گئی تھی۔ وہ تیزی سے اس کے پیچھے لپکی۔
’سنو تو۔ ‘
باہر شام کی سیاہی چھا چکی تھی۔ سڑک پر گاڑیاں دوڑ رہی تھیں۔ آفس سے دو قدم سگریٹ والی گمتی کے پاس وہ کھڑا تھا۔
جینی اس کے سامنے کھڑی تھی۔ پریشان اس کی آنکھوں میں جھانکتی ہوئی —
’اس طرح بھاگ کر کیوں آ گئے۔ پاگل ہو — یہ میں بھی جانتی ہوں کہ وہ تم نہیں ہو — ‘
اس نے سگریٹ سلگا لیا۔ دھوئیں کے چھلّوں میں اس کا بے جان اور سپاٹ چہرہ کسی مردہ کی طرح نظر آ رہا تھا۔
’کیا کسی نے کچھ کہا۔ کوئی تبصرہ کیا؟ نہیں نا — ‘ آہستہ سے جینی نے اس کا ہاتھ تھام لیا — صرف اس لیے کہ آتنک وادیوں کے نام تمہارے ناموں کی طرح ہوتے ہیں … وہ زور سے چلائی — پاگل مت بنو۔ خود کو کمزور اور جذباتی کرتے ہوئے کہیں نہ کہیں تم ان لوگوں کا ساتھ دیتے ہو۔ کوئی بھی پڑھا لکھا آدمی ان کے نام پر تمہیں یا عام مسلمان کو شک کی نظر سے نہیں دیکھا سکتا — سمجھ رہے ہو نا تم۔
آخری جملہ اس نے قدرے پیار سے ادا کیا تھا — ’بس اب اندر چلو اور ہاں — زیادہ سگریٹ پینا صحت کے لیے نقصان دہ ہے …‘
تھوڑی ہی دیر بعد دونوں آفس کی کینٹین میں بیٹھے ہوئے تھے — جینی کی آنکھیں اس کی آنکھوں میں ڈوبی ہوئی تھیں۔
’سنو سلیم درگاہی۔ اپنے اندر کے ڈر کو باہر نکالو۔ جب وہ اسلام یا مسلمان کہتے ہیں تو یہ تم نہیں ہوتے۔ تم کیوں نہیں سوچتے اس سطح پر۔ جیسے سنگھ، بجرنگ دل یا ہندوتو کے معنی جب میڈیا سمجھاتا ہے تو وہ میں نہیں ہوتی — میں جینی کشواہا۔ آتنک، ورلڈ مارکیٹ کا ایک پروڈکٹ ہے، جس کی آڑ لے کر طاقتور ملک اپنی سیاست کی روٹیاں سینک رہے ہیں۔ پھر چاہے وہ بش ہوں یا ابامہ۔
لیکن جیسے اسے کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ اس کی آنکھوں کی پتلیاں بے جان اور سرد تھیں۔ وہ چہرہ۔ وہ چہرہ اس کی آنکھوں میں ناچ رہا تھا۔ وہ اس معصوم چہرے کی زد میں تھا۔ وہ بڑی بڑی اندر اتر جانے والی آنکھیں جیسے اس کے اندر اندر سما گئی تھیں۔
جینی نے خاموشی سے اس کے ہاتھوں کو تھام لیا۔ اس نے بات کا رخ موڑتے ہوئے کہا۔
’چلو۔ ویستا میں چل کر بیٹھتے ہیں۔ ‘
لیکن جیسے کوئی آہٹ نہیں — آواز کی گونج نہیں — سنّاٹا اور سنّاٹے میں وہی چہرہ اس کی آنکھوں کی پتلیوں پر فریز کیا گیا تھا۔ چھوٹے بال پیشانی تک پھیلے ہوئے — سانولا رنگ۔ چہرے پر کیپ یا ہیٹ جیسی کوئی چیز نہیں۔ کالے کپڑوں میں دایاں ہاتھ تھوڑا سا اٹھا ہوا۔ تصویر شیشے کے پیچھے سے لی گئی ہے۔ جب اس کی ایک چھوٹی سی جھلک عمارت سے کافی فاصلے پر زمین لیے بہت سارے چینلس نے ایک ساتھ لی تھی — جب وہ کچھ دیر کے لیے شیشے نما کیبن میں نظر آیا تھا۔ بائیں ہاتھ میں اے کے فوٹی سیوین — دائیں ہاتھ کی کلائی میں بندھی ایک کالی پٹی۔ عمر یہی کوئی پچیس سے ستائیس برس۔
اندھا دھن چلتی گولیوں کے درمیان جیسے میڈیا کو ایک بڑی، سب سے بڑی بریکنگ نیوز مل گئی تھی۔ مگر وہ چہرہ — اس کی آنکھیں ایک پل بھی اس چہرے سے ہٹ نہیں رہی تھیں —
’یہ تم نہیں ہو۔ سمجھے تم۔ ‘ جینی ایک بار پھر غصے سے بولی — اس بار پلٹ کر اس نے جینی کو دیکھا۔ یہ میں ہی ہوں جینی۔ بس، الگ الگ بھیس میں میں ہی ہوں — اس کا گلہ رندھ گیا تھا۔
’ایک خاموش تماشائی بن گئے ہیں ہم۔ جن کی اوقات ایک جوکر سے زیادہ نہیں ہے۔ ہر بار گولی عام آدمی کو نہیں لگتی، ہمیں ہے۔ سیدھے یہاں دل میں۔ ہر بار جیسے پاگل کر دینے والے سوال ہمارا راستہ روک لیتے ہیں۔ ارے یہ بھی ہم۔ یعنی یہ بھی مسلمان — ارے گولی کہاں چلی — برفیلی پہاڑیوں میں — وہاں بھی کوئی اظہر یا سلیم ہی ملے گا — واردات نیپال میں ہو، یا کوہ قاف کی پہاڑی میں — کرنے والا مسلمان ہوتا ہے۔ اور یہاں پھٹتی ہے ہماری۔ کانپ ہم جاتے ہیں۔ بل میں دبکتے ہیں ہم — چاہے سڑک پر جاتے کسی نہتے پر گولی چلے۔ سنسد میں یا اکشر دھام میں۔ بھیڑ بھاڑ والے علاقے میں یا تاج میں۔ یہ فدائین سالے …‘ اس نے غصے میں گندی گالی بکی۔ یہ تو صرف ایک بار پولس کی گولی سے مر جاتے ہیں۔ اور یہاں ہم۔ بار بار مرتے رہتے ہیں۔ تمہیں وہ فلم یاد ہے۔ جس میں ایک انگریز ایک مسلمان سے کہتا ہے — سوال یہ نہیں ہے کہ ہر مسلمان دہشت گرد نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہر دہشت گرد مسلمان کیوں ہوتا ہے — ٹی وی کسی کے گھر سلنڈر پھٹنے کی بھی خبر دیتا ہے نا — تو لگتا ہے یہ کام بھی ہم نے کیا ہے — پھٹ جاتی ہے ہماری …‘
لیکن کون بول رہا تھا؟ کس سے ؟ کیا وہ خود سے بول رہا تھا — اس نے دیکھا — جینی پھٹی پھٹی نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی ہے — ’’چلو اٹھو۔ چائے بھی نہیں پی تم نے۔ تمہارے ہاتھ گرم ہیں۔ گھر چلے جاؤ۔ میں بھی آج چھٹی کر لوں گی۔ تمہارے پاس آ جاؤں گی۔ ‘‘
گھر ؟ کون سا گھر؟ وہ گھر نہیں جائے گا۔ یہ سوچ لیا ہے اس نے۔ لیکن وہ کہاں جائے گا۔ کس کے گھر؟ جینی کے گھر بھی نہیں۔ وہاں اس کے پیرنٹس رہتے ہیں اور وہ جانتا ہے۔ جینی کے پیرنٹس اس کی اور جینی کی دوستی کو پسند بھی نہیں کرتے۔ جینی نے ایک بار کافی پیتے ہوئے مذاق بھی کیا تھا۔ میرے ممی ڈیڈی تو تمہیں داماد بنانے سے رہے۔ جانتے ہو۔ تمہارے بارے میں ان کی کیا رائے ہے۔ مسلمان بھروسے مند نہیں ہوتے — معصوم لوگ — انہی خبروں پر رہتے ہیں، جو سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں — اور بس ایک عام سی رائے کسی کے بارے میں بُن لیتے ہیں۔ لیکن مجھے غصہ نہیں آیا — ‘‘
’کیوں ؟‘
’’کیونکہ وہ ان لاکھوں کروڑوں لوگوں میں سے ایک ہیں جو اپنے دماغ سے سوچتے ہیں نہ اپنے دماغ سے کوئی فیصلہ لیتے ہیں — وہ وہی سوچتے ہیں، جو اخبار، میڈیا اور چینلس ان کے دماغ میں ڈالنا چاہتے ہیں — پور فیلوز …‘‘
’’لیکن کیا صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ یہ وہی سوچتے ہیں جو انہیں سوچنے پر مجبور کیا جاتا ہے ؟ جب ایک دن ایسا سوچنے والوں کی ایک بہت بڑی جماعت بن جائے گی تو؟ وہ ہنسا تھا — اس وقت ہم تم جیسے اقلیت میں ہوں گے — یہ ہمیں پاکستان بھیج چکے ہوں گے۔ ‘‘
جینی سنجیدہ ہو گئی تھی — ’’کیا کروں میں سلیم درگاہی، یہ پیرنٹس ہیں میرے۔ زیادہ بولتی ہوں تو زمانے کی اونچ نیچ ہمیں سمجھانے لگتے ہیں۔ اتنا جانتی ہوں کہ برے نہیں ہیں وہ — لیکن ایسا سوچنے والے اگر اپنی فکر کا دائرہ اسی طرح بڑھاتے رہے تو — ایک دن خطرناک بھی بن سکتے ہیں۔ ‘‘
اس نے ایک بار پھر بات کو پلٹتے ہوئے کہا تھا —
’’ایک بات کہوں، برا تو نہیں مانو گے ؟
’’نہیں۔ ‘‘
’’سر کے بال جھڑنے لگے ہیں تمہارے — دیکھو — یہاں سے … اور یہاں سے … اف … پھر میرے علاوہ کوئی پیار کرنے والا بھی نہیں ملے گا تمہیں۔ ‘‘ وہ شرارت سے بولی تھی — ’’ایک ہیٹ لے آؤ — ہیٹ پہن کر اچھے لگو گے تم — میرا کہا مان لو، بولو تو میں ہی لے آؤں — ایک خوبصورت سا ہیٹ — ‘‘
جینی کی یہ ہمیشہ سے عادت تھی۔ سنجیدہ سے سنجیدہ بات کو اچانک کسی مذاق سے جوڑ دینا — لیکن اس دن گھر آنے کے بعد شیشے میں دیر تک وہ خود کو دیکھتا رہا — شاید جینی ٹھیک کہتی ہے۔ ایک ہیٹ کی ضرورت ہے اسے — مسکرانے کی کوشش کی تھی اس نے … مگر عمر کے بڑھتے احساس کو تو نہیں روک سکتا۔
ایک بار پھر وہ اسی دھواں دھواں منظر کی زد میں ہے — کہاں جائے ؟ گھر؟ اس کا اپنا گھر؟ کرایے کے دو کمرے کے فلیٹ کو اگر گھر کہا جا سکتا ہے تو … بے شک وہ بھی ایک گھر ہے۔ جہاں سر چھپا لیتا ہے وہ — خالی وقت میں اپنے لیے آم لیٹ اور چائے تیار کر لیتا ہے — مگر یہ کمرہ بھی کتنی مشکل سے ملا تھا۔ دلّی کے ان پانچ برسوں میں کتنے فلیٹ بدلے تھے اس نے۔ کوئی واردات ہو جاتی اور بدقسمتی سے اسے نئی پناہ گاہ تلاش کرنے کی نوبت آ جاتی تو … جیسے آنکھوں کے آگے، خوف کے ہزاروں مکڑی کے جالے تن جاتے۔ کتنی بار کمرہ بس ملتے ملتے رہ جاتا — کبھی بڑی خاموشی سے ٹال دیا جاتا — ’’سوری، آپ نے آنے میں دیر کر دی — یا ایڈوانس دی گئی رقم مسکراکر واپس کر دی جاتی — جو کرایہ دار پہلے تھے وہ واپس آ گئے۔ ‘‘
نام … نام … سلیم درگاہی — کہیں یہ نام تو کرائے کے مکان میں آڑے نہیں آتا؟ وہ بہت دنوں تک اپنی سوچ سے جنگ لڑتا رہا — نہیں ایسا ممکن نہیں ہے — وہ ایک خطرناک سوچ کی پگڈنڈی پر نہیں چلنا چاہتا ہے — کچھ بھی ہو جائے اسے اس خطرناک سوچ سے باہر نکلنا ہی ہو گا۔
لیکن باہر نکلتے نکلتے بھی رسّی کا ایک پھندہ گلے میں رہ جاتا ہے — یہ نیا فلیٹ بھی جینی کی وجہ سے ملا تھا۔ یا جینی کے رحم و کرم سے — مکان مالک نے غور سے جینی کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
’’آپ … ؟‘‘
’جینی کشواہا — ‘
’وائف ہسبینڈ … ؟‘
’’نو … نو … جینی شرارت سے مسکرائی تھی۔ ’ابھی ہیٹ نہیں لیا اس نے … جب ہیٹ لے لے گا تو …‘
’’ہیٹ؟‘‘
جینی نے ہنستے ہوئے بات بدلی تھی۔ ’آپ ٹرسٹ کر سکتے ہیں۔ ہم دونوں ایک ہی آفس میں ہیں …‘
’اوہ … !‘
کمرے کی Key لیتے ہوئے اس نے مالک مکان سے پوچھا — اگر جینی نہیں ہوتی تو آپ مجھے یہ فلیٹ نہیں دیتے نا؟
’’نہیں۔ نہیں — ایسی بات نہیں ہے …‘ مکان مالک گڑبڑا گیا تھا — نئے لوگوں کو مکان دینے سے پہلے کوئی گارنٹی چاہئے نا …‘‘
جینی ایک گارنٹی بن گئی تھی — اور اس گارنٹی نے اسے کرایے کا کمرہ دلایا تھا — یعنی یہاں جینی جیسی گارنٹی کے بغیر اس کا وجود ہی نہیں ہے — آئی ڈی اور پین کارڈ کے ہوتے ہوئے بھی اسے ایک گارنٹی چاہئے۔ وہ آہستہ آہستہ جیسے خود کو کمزور محسوس کر رہا تھا۔ خوفزدہ بھی — جیسے اسے اپنی پہچان کے لیے بھی کہیں نہ کہیں جینی کے وجود کی ضرورت ہے —
پرانے فلیٹ سے نئے فلیٹ میں سامان شفٹ ہو گیا — سامان تھا ہی کتنا — ایک عدد فرج ٹی وی۔ دو بڑی کتابوں کی ریک، ڈائننگ ٹیبل، ایک مسہری، صوفہ اور دو کرسیاں — لیکن اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ کافی بناتے ہوئے جینی اس سے بات کرتی جا رہی تھی۔
’میں جانتی ہوں تم کیا سوچ رہے ہو؟‘
کافی لے کر اس کے پاس ہی بیٹھ گئی جینی۔ ایک بات کہوں۔ بڑے گھسے پٹے سوال ہیں جو تم خود سے کرتے رہتے ہو۔ تم خود کو فریش کیوں نہیں رکھتے ؟ ہر وقت دم گھٹنے والے سوالوں کی زد میں کیوں رہتے ہو؟ اگر تم لندن میں ہوتے اور وہاں تم سے ایک اچھوت فارنر کی طرح سلوک ہوتا تو … ؟
وہ زور سے دہاڑا — ’لیکن یہ ہمارا ملک ہے — ہم یہاں اچھوت فارنر نہیں ہیں۔ ‘
’وہاں بھی نہیں ہو — اور یہاں بار بار اس سچ کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ’یہ تمہارا ملک ہے — ریلیکس …‘ وہ اس کی انگلیوں کو کس کر رہی تھی — لندن یا آسٹریلیا میں ہوتے تب بھی اجنبی بننے کی ضرورت نہیں تھی۔ کیوں کہ ہم اپنے وجود کے ساتھ جہاں بھی ہوتے ہیں، پاؤں پھیلانا جانتے ہیں۔ کچھ باتیں در گزر کرنے کے لیے ہوتی ہیں — سب سے آسان چیز ہے Ignore کرنا — اگنور کر لو۔ اور شان سے جیو۔ ‘
’اگنور کرنا آسان نہیں جینی۔ تم جانتی ہو، جب اس طرح کی وارداتیں ہوتی ہیں … کوئی ہمارے نام کا آدمی ٹی وی اسکرین کے سامنے ہوتا ہے۔ ہماری قوم کا، ہمارا ہم مذہب۔ جانتی ہو دل کیا چاہتا ہے ؟ ٹی وی میں آگ لگا دوں۔ پہنچ جاؤں اس کے سامنے — قتل کر دوں۔ کہ تم لوگوں نے جینا مشکل کر دیا ہے ہمارا۔ تمہاری وجہ سے ہمیں شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ تم یہ سب کرتے ہی کیوں ہو؟ سچ بتاؤ — مذہب کے لیے یا پیسوں کے لیے ؟ جانتی ہو جینی، گھر سے باہر نکلنے کے بعد لگتا ہے ایسی ہر واردات کے بعد دیواریں تک ہمیں گھور رہی ہوں۔ جیسے سب کچھ ہم نے کیا ہو۔ بے قصور ہو کر بھی ہم معصوم ذہن رکھنے والوں کے، شک کے دائرہ میں آ جاتے ہیں …‘
’’تمہاری غلطی یہ ہے کہ تم ہر بارایسی وارداتوں سے خود کو جوڑ کر دیکھتے ہو — سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ تم ایسا کرتے ہی کیوں ہو — مت کرو۔ ‘‘
وہ دھیرے سے آگے بڑھی۔ اس کے ہونٹوں پر اپنے گرم ہونٹ رکھ دیئے پھر پیچھے ہٹی۔
’’تمہارے تیزی سے اٹھتے ہوئے بالوں کو کم از کم میں نہیں دیکھ سکتی۔ کچھ کرو سلیم — نہیں تو اگلی بار … وہ مسکرا رہی تھی — جن پتھ سے تمہارے لیے ایک ہیٹ لے آؤں گی۔ ‘‘
اس نے ایک بار پھر بات کا رخ موڑ دیا تھا۔ لیکن شاید ہوا کے رخ کو نہیں موڑ سکی تھی —
رات تیزی سے سرک رہی تھی۔
ان دنوں شام میں ٹھنڈک بڑھ گئی تھی۔ وہ گھر جانا نہیں چاہتا تھا۔ کسی بھی قیمت پر نہیں۔ وہ دیر تک دوستوں کے نمبر چیک کرتا رہا۔ پھر بجھے دل سے اس نے عمران کو فون لگا دیا۔ چار سال پہلے ہی عمران سے دوستی ہوئی تھی۔
’’سوری ڈیئر، تمہیں بور کرنے آ رہا ہوں۔ ‘
’’آ جاؤ۔ ‘‘ دوسری طرف سے کہا گیا۔
’’سوری اس لیے کہ کب تک ٹھہروں گا نہیں کہہ سکتا۔ مگر پلیز میری مدد کرو۔ میں بہت پریشان ہوں۔ ‘‘
ساکیت، عمران کے فلیٹ پر چائے پیتے ہوئے، اچانک اس کے چہرے پر جھرّیوں کا جال سا بچھ گیا تھا۔ ٹی وی چل رہا تھا۔ بریکنگ نیوز میں واردات سے متعلق نئی نئی باتیں بتائی جا رہی تھیں۔ وہ آگے بڑھا۔ ایک جھٹکے سے ٹی وی بند کیا۔ اور صوفے پر دراز ہو گیا۔
کیا بات ہے ؟ عمران کے چہرے پر اداسی تھی۔
’’کچھ نہیں۔ ‘‘
’’ان خبروں کو لے کر پریشان تو نہیں … عمران آہستہ آہستہ چائے کا سپ لے رہا تھا۔ ’’جب تک مرضی رہ سکتے ہو۔ لیکن اپنے گھر سے کیوں بھاگ رہے ہو …‘‘
دماغ میں ہتھ گولے پھٹ رہے تھے۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے سر کو تھام لیا۔ ایک ہی سانس میں غٹ غٹ چائے پی گیا۔ مگر جیسے بم کے گولے مسلسل پھوٹ رہے تھے — وہ چہرہ بار بار آنکھوں کے آگے ناچ رہا تھا۔ ایک بھولے بھالے سے معصوم آدمی کا چہرہ —
اس آدمی کا چہرہ، جو فدائین حملوں میں مارا گیا تھا۔ قد پانچ فٹ دس انچ، سانولا رنگ — ٹی وی پر جو تصویر بار بار فلیش ہو رہی تھی … اس کے مطابق … اس کے بائیں ہاتھ میں A-K 47 اور دائیں ہاتھ میں ایک کالی سی پٹّی۔
وہ اس چہرے کو جانتا ہے۔ اس چہرے کے ساتھ اس نے تین دن گزارے ہیں — تین دن۔
بستر پر لیٹنے تک۔ دماغ میں سائیں سائیں چلتی آندھیاں۔ کسی حد تک کم ہوئی تھیں۔ مگر اب سارا منظر سامنے تھا۔ گھر سے ممی کا فون آیا تھا۔ بارش آنے والی ہے۔ چھت ٹپک رہی ہے۔ کچھ پیسے بھیج دو۔ آفس سے اس نے چھٹی کر لی۔ جینی نے پوچھا بھی۔ لیکن اس نے بات بدل دی۔ نہیں کچھ نہیں — وہ جینی سے بھی پیسے مانگ سکتا تھا اور جینی انکار بھی نہیں کرتی — مہینے کے آخری دن — گھر والے سمجھتے ہیں کہ وہ نوٹ چھاپنے والی مشین میں کام کرتا ہے۔ لیکن پیسے تو بھیجنے ہیں — ڈھابے میں کھانا کھایا۔ دیر تک سڑکوں پر آوارگی کرتا رہا — سڑک پر آمد و رفت کم ہو گئی تھی۔ ایک بس سے دوسری بس — ٹہلتا ہوا وہ اپنے نئے فلیٹ کی طرف چلا — ادھر ایک قطار سے جھگی جھوپڑیاں آباد تھیں۔ یہ وہ مزدور تھے جو میٹرو کے لیے کام کر رہے تھے۔ دکانیں بند تھیں۔ سڑک پر اکّا دکّا لوگ چل رہے تھے۔ رات کے گیارہ بج گئے تھے۔ گھر کی طرف بڑھتے ہوئے اچانک اس کے قدم ٹھہر گئے۔ سامنے ایک نوجوان تھا۔ سر پر ہیٹ لگائے — پیٹھ پر بیگ لٹکائے — ایسا بیگ، جیسے عام طور پر کالج اسٹوڈنٹس رکھتے ہیں وہ پریشانی کے عالم میں ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا — پھر اس کی طرف دیکھ کر جیسے ایک امید سی بندھی۔
وہ اشارہ کر رہا تھا — ’’یہاں پاس میں کوئی ہوٹل مل جائے گا۔ سستا سا۔ اگر مسلمان ہوٹل ہو تو …‘‘
’مسلمان‘ … وہ چونک گیا تھا … ’میرا نام سلیم درگاہی ہے۔ ‘
لڑکے کے چہرے پر ایک پل کو خوشی لہرائی … ’میں … اظہر کلیم … جوب کی تلاش میں ہوں … بس دو تین دن کے لیے … پھر یہاں سے غازی آباد چلا جاؤں گا۔ کوئی ہوٹل ہے آس پاس؟‘‘
ایک بار پھر اس نے لڑکے کا بہ غور معائنہ کیا — لڑکے میں کوئی بھی بات ایسی نہیں تھی جو اسے بلا وجہ شک میں مبتلا کر سکتی ہو — اس نے اشارہ کیا … وہاں میرا فلیٹ ہے کرایے کا … تم چاہو تو رہ سکتے ہو۔
لڑکے کے چہرے پر تذبذب کے آثار تھے — ’مجھے کچھ پرائیویسی چاہئے … وہ سنبھل سنبھل کر بول رہا تھا۔ اکزام کی تیاری کرنی ہے۔ اس لیے ہوٹل …‘
’’ہوٹل کا کرایہ تم مجھے دے دینا … اس بار وہ کسی تاجر کی طرح مسکرایا تھا … دو کمرے ہیں میرے پاس — اطمینان رکھو … تمہارے کمرے میں کوئی تمہیں ڈسٹرب بھی نہیں کرے گا۔
نوجوان کچھ لمحے کسی گہری سوچ میں ڈوبا رہا۔ لیکن جلد ہی فیصلہ لے لینے کی طمانیت اس کے چہرے پر موجود تھی۔
چلو …
کمرے میں آنے کے بعد اس نے نووارد کو اس کا کمرہ دکھا دیا — کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دینا۔ ٹائلیٹ، باتھ روم کمبائن ہے۔ تم چاہو تو اپنا دروازہ بند کر سکتے ہو — کچن کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے پوچھا تھا —
’’میں چائے بنانے جا رہا ہوں۔ تم چائے پینا پسند کرو گے ؟‘‘
’’نہیں۔ ‘‘
اس بار اس نے غور سے نووارد کو دیکھا۔ اس کے سر پر ایک گندی سی ہیٹ تھی۔ کپڑے بھی گندے ہو رہے تھے۔ اس نے آسمانی جینس اور سفید شرٹ پہن رکھی تھی۔ پاؤں میں ملٹری والے جوتے تھے۔ اپنے کمرے میں جاتے ہوئے اس نے اپنی بات پھر دہرائی … ’’پلیز مجھے ڈسٹرب نہیں کرنا … مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے … اس بیگ میں کھانے پینے کے سامان موجود ہیں … امید ہے تم مجھے آرام سے سونے دو گے۔ ‘‘
نووارد نے دروازہ بند کر لیا تھا۔
عجیب آدمی ہے … اس نے ایک لمحے کو سوچا پھر خیال آیا کہ اسٹوڈنٹس لائف میں سارے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ نہ سمجھ میں آنے والے — اس نے چائے بنائی۔ اندر سے موبائل پر کسی سے بات کرنے کی آواز آر ہی تھی۔ شاید وہ کسی سے بات کر رہا تھا۔
چائے پینے کے بعد اس نے اپنے کمرے کی لائٹ بجھا دی اور بستر پر سونے کے لیے لیٹ گیا — باہر کتّے زور زور سے بھونک رہے تھے جانے کتنی دیر تک وہ سوتا رہا۔ اچانک دروازہ کھلنے کی آواز سے وہ چونک گیا۔
رات کے دو بج گئے ہوں گے۔
سامنے اظہر کلیم تھا — دروازہ کھول کر اس نے لائٹ آن کر دی تھی۔
’سوری، تم جاگ رہے ہو … تمہیں ڈسٹرب کیا۔ ‘
اس کے کندھے پر اب بھی بیگ لٹکا ہوا تھا — نیند نہیں آ رہی ہے — نئی جگہ جلدی نیند نہیں آتی — ’’میں ذرا باہر گھوم کر آتا ہوں۔ جلدی آ جاؤں گا۔ ‘‘
اس کی آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔ کروٹ بدلتے ہوئے اس نے کہا — جلدی آ جانا۔ مجھے صبح دفتر بھی جانا ہے۔
آسمان پر چاند روشن تھا۔ لیمپ پوسٹ کی روشنی میں وہ اسے تھوڑی دور تک جاتے ہوئے دیکھتا رہا — پھر دروازہ بند کیا۔ لیکن آنکھوں سے نیند اچٹ چکی تھی۔ کم بخت۔ بیگ بھی ساتھ لے کر گیا۔ مسلمان ہو کر مسلمان پر بھی ٹرسٹ کرنا نہیں جانتا۔ بیگ لے جانے کی کیا ضرورت تھی — لیکن اسے خوشی بھی تھی۔ کسی پر ٹرسٹ نہ کر کے شاید ایسے لوگ اپنے اندر کے ٹرسٹ کو زندہ رکھتے ہیں۔ یہی ان نوجوانوں کے پریکٹیکل ہونے اور آگے بڑھنے کا راز ہے۔
اس نے دوبارہ چائے بنائی۔ فریج میں رکھا ہوا باسی پزا کے کچھ ٹکڑے منہ کے حوالے کیا۔ دیر تک کمرے میں ٹہلتا رہا — چار بجے کے قریب وہ واپس آیا۔ دروازے پر دستک دی۔ اس نے دروازہ کھولا — سوری کہہ کر وہ تیزی سے کمرے میں داخل ہو گیا۔ بستر پر لیٹنے سے پہلے اس نے فیصلہ کر لیا تھا — اس لڑکے سے اس کی نہیں بن سکتی۔ دوسرے دن وہ صاف کہہ دے گا … وہ اپنے لیے کسی ہوٹل کا بندوبست کر لے۔ آنکھیں بند کرنے سے پہلے اس نے جینی کے میسیج کو موبائل پر پڑھا — مس یو این لو یو — جلدی کوشش کرو کہ Miss you کہنے کی نوبت نہ آئے — تم پاس ہو گے تب بھی تمہیں Miss کروں گی۔ کیسے ؟ یہ مت پوچھنا۔ ‘‘
وہ زیر لب مسکرایا۔
دوسرے دن آٹھ بجے اس کی نیند ٹوٹی۔ ہڑبڑاہٹ میں اٹھا، تو تکیے کے پاس پانچ سو کے چار نوٹ اور ایک تحریر پڑی تھی — شکریہ … ہوٹل میں ہوتا تب بھی ایڈوانس تو دینا پڑتا — ابھی دو دن اور قیام رہے گا — آج سات بجے آؤں گا — پلیز شام مجھ سے پہلے پہنچ جانا۔
نوٹ ہاتھ میں لیتے ہوئے اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ نوجوان کے اب یہاں رہنے پر اسے کوئی اعتراض نہیں تھا … وہ جب چاہے، جتنے دن چاہے یہاں رہ سکتا ہے۔
ایک بار پھر دماغ میں پٹاخے چھوٹ رہے تھے — عمران دوسرے کمرے میں سو گیا تھا۔ اس کے خرّاٹے گونج رہے تھے۔ وہ دہشت بھری اُن خبروں کی زد میں تھا — شاید بھارت تیزی سے کٹّر پنتھی اسلام کے لڑاکوؤں کے لیے سب سے محفوظ ملک بنتا جا رہا ہے۔ اسے یاد آیا۔ اینکر زور زور سے چیخ رہا تھا — اگر آپ آتنک کی زد میں ہیں تب بھی مذہب آپ کی کوئی مدد نہیں کرنے والا۔ کیونکہ آتنک وادی مذہب دیکھ کر گولیاں نہیں چلاتے — وہ اندر سے پسینے میں ڈوب چکا ہے۔ شام کے ۶ بجے سارے چینلس پر ہاٹ بریکنگ نیوز — بھیڑ سے بھرے ریلوے اسٹیشن پر ۸ سے ۱۰ کلو آر ڈی ایکس سے بھرے دو تھیلے — اچانک فدائین حملے سے سارا شہر جیسے کسی گہرے صدمے میں ڈوب گیا۔ سیریل بم دھماکے — چینلس چیخ رہے ہیں — سرکار اور پولس کی لاپرواہی نے آتنک وادیوں کو اپنی مرضی سے حملہ کرنے کے لیے راستہ بنا دیا — وہ عمارت جس میں آتنک وادی چھپے تھے، کچھ گھنٹوں کی لگاتار فائرنگ کے بعد پولس آتنک وادیوں کو مار گرانے میں کامیاب ہوئی تھی۔
مگر وہ چہرہ — وہ واردات بھول چکا ہے۔ صرف وہ چہرہ یاد ہے۔ وہ چہرہ جو تین دنوں تک اس کے ساتھ رہا — پولس … فوجی کارروائی … آتنک واد — حکومت کے بیان۔ وہ کچھ بھی سوچنا نہیں چاہتا اس کے کانوں میں لگاتار یہی جملے گونج رہے ہیں … پولس تفتیش کر رہی ہے۔ حملہ کرنے سے پہلے آتنک وادیوں کے ٹھکانے کون کون تھے اور وہ کہاں کہاں ٹھہرے تھے؟
اس کی آنکھوں کی چمک بجھتی جا رہی ہے۔ وہ کانپ رہا ہے … بستر سے اٹھ کر اس نے چلنے کی کوشش کی — لیکن یہ کیا۔ سارے جسم میں لرزش طاری ہے — یقیناً وہ پکڑ لیا جائے گا۔ پولس کے ہاتھ کافی لمبے ہیں — وہ یعنی سلیم درگاہی — اس کے گھر پولس ریڈ کرے گی — بوڑھے ماں باپ … بھائی بہن … سب جیسے سناّٹے میں آ جائیں گے … پولس چارج شٹ لگائے گی … مالیگاؤں سے اعظم گڑھ تک کے تار جوڑنے کی کوشش ہو گی … کب سے جانتے تھے ؟ تم کن لوگوں سے ملے ہوئے ہو؟ کس کے لیے کام کرتے ہو؟ پاکستان میں تمہارا آقا کون ہے ؟ لشکر یا طالبان؟ یا اسلامی مجاہدین؟
اسے لگا جینی کے پاپا زور زور سے جینی سے کہہ رہے ہوں — میں کہتا نہ تھا — مسلمان بھروسے مند نہیں ہوتے۔
اسے لگا، جینی نے شرمندگی سے سر جھکا لیا ہے۔
نفرت کی ایک تیز آندھی آئی اور اسے بہا کر لے گئی۔ آگے بڑھ کر فریج سے پانی کی بوتل نکالی۔ پانی کے دوچار قطرے ہی گلے تک جا سکے۔ بیسن کے پاس لگے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھا — ایک زرد، بیمار چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے تھا — رات ہی رات جس پر جھریوں کا جنگل اگ آیا تھا۔ وہ ایک بار پھر بستر پر دراز تھا — وہ معصوم چہرہ ایک بار پھر نگاہوں کے سامنے تھا۔ جینی نے اس دن اس کے گھر رکنے کی خواہش کا اظہار کئی بار کیا۔ لیکن وہ خوبصورتی سے ٹال گیا — جینی نے برا بھی مانا تھا — چھ بجے شام اس نے آفس چھوڑ دیا۔ اس کے پڑوس میں للی آنٹی رہتی ہیں۔ عمر چالیس کے قریب — ان کی دو پیاری سی بیٹیاں بھی ہیں۔ ایک پندرہ کی دوسری تیرہ — اس دن تیزی سے کمرے کی طرف آتے ہوئے للی آنٹی مل گئیں۔ پھول کی طرح کھلا ہوا چہرہ — کیا بات ہے۔ گرل فرینڈ کو بلایا ہے کیا …
نہیں۔ ہاں …، وہ گڑبڑا سا گیا — ‘
للی آنٹی زور سے قہقہہ مار کر ہنس پڑی۔ شرماتے کیوں ہو۔ اچھی بات ہے — جاتے ہوئے وہ ایک بار پھر پلٹ کر بولیں — تمہاری فرینڈ کل بھی آئی تھی کیا؟ آگے بڑھنے سے پہلے انہوں نے ایک بار پھر زور سے قہقہہ لگایا — یہ لڑکیوں کو زیادہ کو کافی مت پلایا کرو۔ ہاضمہ خراب ہو جاتا ہے۔ ‘‘
آٹھ بجے اظہر کلیم دوبارہ آ گیا تھا۔ آج اس کے چہرے پر تازگی تھی۔ کپڑے بھی صاف ستھرے تھے۔ لیکن سر پر وہی گندی سی ہیٹ موجود تھی۔ آج وہ خوش لگ رہا تھا۔
’’چائے پلاؤ گے تو پی لوں گا — ‘‘
بیگ اندر رکھ کر وہ اس کے کمرے میں آ گیا۔ صوفے پر بیٹھ گیا۔
’’یہ کالی پٹّی کس لیے ہے ؟‘‘
’ماں کی نشانی ہے ‘ — وہ آہستہ سے بولا۔
رسمی سی بات چیت کے بعد چائے پیتے ہوئے اس نے صرف اتنا کہا — چائے اچھی بنا لیتے ہو۔ شاید میں کل کے دن اور رکوں — پھر تمہیں تکلیف نہیں دوں گا۔
اکزام کیسا گیا؟
’’اکزام آج نہیں تھا۔ ایک دن بعد ہے۔ صبح ہی نکل جاؤں گا — اس نے ایک سانس میں چائے ختم کر کے میز پر رکھ دیا — چائے کا بے حد شکریہ۔ ‘
اس رات وہ کہیں نہیں گیا۔ لیکن شاید وہ سو نہیں سکا تھا۔ دیر رات تک اس کے بند کمرے سے کھٹر پٹر اور موبائل سے فون کرنے کی آواز آتی رہی۔ ممکن ہے کوئی گرل فرینڈ ہو۔ یا وہ اپنے گھر والوں سے باتیں کر رہا ہو۔ مگر اتنی رات گئے … اسے کیا … اسے تو ہوٹل کا کرایہ مل رہا ہے۔
دوسرے دن بھی اظہر کلیم سویرے ہی نکل گیا۔ ہاں، تکیہ کے پاس پانچ سو کے دو نوٹ پڑے تھے۔ لیکن کوئی تحریر نہیں تھی۔
دوسرے دن وہ جینی سے اس واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا تھا۔ مگر اس نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا — پتہ نہیں جینی کیا سمجھے۔ ممکن ہے، وہ کہے کہ پیسوں کی ضرورت تھی تو اس سے کیوں نہیں لیا — جینی نے اس دن بھی گھر چلنے کی پر زور فرمائش کی۔ لیکن اس نے ٹال دیا — جینی کے چہرے پر شک کے بادل منڈلا رہے تھے۔
’’کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ تمہاری زندگی میں کوئی اور آ گیا ہے … ؟‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بول رہی تھی۔ اگر ایسا ہوا تو جانتے ہو کہ کیا ہو گا؟اسے بھی مار دوں گی اور تمہیں بھی۔ دوسرے ہی لمحے جینی محبت کی بارش میں شرابور تھی — ’’تمہیں تو مار بھی نہیں سکتی۔ ‘‘
اس دن وہ سات بجے کمرے میں لوٹ آیا تھا۔ ڈنر تیار کیا — تھوڑا سا ڈنر اظہر کلیم کے لیے بھی رکھ چھوڑا کہ شاید اسے بھوک لگی ہو — دیر تک پرانی میگزینس پڑھتا رہا — پھر اس کے آنے کی امید چھوڑ دی — رات گیارہ بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے دروازہ کھولا۔
’’السلام علیکم۔ سوری آج دیر ہو گئی … در اصل۔ ‘‘
اس نے محسوس کیا اظہر کلیم کے چہرے پر ایک خوفناک اداسی پسری ہوئی ہے — آنکھیں سوجی ہوئی — دن بھر کی تکان اور دوڑ دھوپ کا اثر اس کے چہرے سے صاف جھلک رہا تھا۔
’کھانا؟‘
کھا لیا —
’چائے بناؤں۔ ‘
’نہیں …، کمرے میں جاتے ہوئے وہ ایک لمحے کو ٹھہرا — کل صبح ہوتے ہی چلا جاؤں گا۔ ‘
اس رات اگر اس کا اندازہ غلط نہیں تو وہ جلدی سو گیا۔ ہاں، کچھ دیر تک موبائل سے، کسی سے بات کرنے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ مگر الفاظ صاف نہیں تھے — رات دو بجے ہوں گے کہ اچانک وہ بستر سے اٹھ گیا — کوئی رو رہا تھا — شاید وہی تھا۔ اس کے رونے کی دھیمی آواز وہ اس سناٹے میں بخوبی سن سکتا تھا — ایک بار خواہش ہوئی کہ وہ اس کا کمرہ نوک کرے — پھر اس نے اس ارادے کو ملتوی کر دیا — پھر جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ صبح آٹھ بجے نیند ٹوٹی تو بستر پر ہزار کے تین نوٹ پڑے تھے۔ یعنی ہوٹل کے روم کے حساب سے۔ اس نے خود ہی ایک رات کے دو ہزار روپے طے کر لیے تھے — چھ ہزار روپے — برے نہیں تھے — اسی دن آفس سے پوسٹ آفس جاتے ہوئے اس نے پانچ ہزار روپے گھر منی آرڈر کر دیئے۔
ٹھیک اسی دن، شام چھ بجے یہ فدائین حملہ ہوا تھا۔ پہلے ریلوے اسٹیشن پھر پاس کے ایک بزنس سینٹر کو فدائین نے اپنا نشانہ بنایا — پولس کارروائی کے پانچ چھ گھنٹوں کے دوران تین فدائین مار گرائے گئے تھے — وہ اس چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ بدن میں لرزش تھی اور شاید وہ یہی لمحہ تھا جب وہ ’کافکا‘ کے میٹا مار فوسیس میں تبدیل ہو گیا تھا۔ اور شاید وہ آوارہ سڑکوں پر تیز تیز دوڑ رہا تھا۔
دوسرے دن آٹھ بجے عمران نے اسے جھنجھوڑ کر اٹھا دیا۔ ’کیا ارادے ہیں ؟ آفس نہیں جانا کیا؟ نہیں جانا ہو تو یہ Key رکھ لو … میرے پاس ہے … کچھ کھانے کی خواہش ہو تو فرج سے نکال کر کھا لینا۔ ‘
عمران کے جانے کے کچھ ہی دیر بعد جینی کا فون آیا تھا — کہاں ہو؟
عمران کے گھر رہنے کی بات سن کر وہ زور سے چیخی — ’’پاگل ہو کیا؟ وہاں کیوں رکے ؟ اچھا کوئی بات نہیں۔ آفس ذرا جلدی پہنچ جاؤ۔ ‘‘
اس کی آواز کمزور تھی — ’شاید میں آج آفس نہیں آ پاؤں۔ ‘
اس نے فون کاٹ دیا۔ موبائل کو سائلنٹ پر کرنے کے بعد صوفے پر دھنس گیا — ایک بار ٹی وی آن کرنے کی خواہش ہوئی — پھر خوف کے احساس نے ایسا کرنے سے روک دیا — اسے یہ بھی احساس تھا، کہ وہ اپنے ساتھ عمران کو تو خطرے میں نہیں ڈال رہا ہے۔ نہیں، اسے یہاں نہیں رہنا چاہئے — اس کے پکڑے جانے کے بعد پولس عمران سے بھی پوچھ تاچھ کر سکتی ہے …
دس بجے اس نے عمران کا کمرہ چھوڑ دیا۔ دماغ اب بھی سائیں سائیں کر رہا تھا — اسے یقین تھا کہ میڈیا اور پولس دونوں اپنی اپنی پہنچ کا استعمال کر رہے ہوں گے۔ وہ کسی وقت بھی پکڑا جا سکتا ہے۔ اور پکڑے جانے کے بعد — سر چکرا رہا تھا — ذہن سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت سے معذور ہو چکا تھا۔ بے دلی سے وہ اپنے گھر کی طرف نکل پڑا — یہ دیکھنے کے لیے کہ پولس کے کتّے کہیں اس کی بو تو نہیں سونگھتے پھر رہے ہیں — گھر کے قریب آ کر وہ ٹھہر گیا۔ گومتی کے پاس والی دکان پر کچھ لوگ کھڑے تھے۔ گھر کے آگے ایک پولس والا تھا۔ وہ ایک کھمبے کی اوٹ میں ہو گیا — پولس والا کسی سے کچھ دریافت کر رہا تھا۔ پھر وہ اپنے اسکوٹر پر بیٹھا اور روانہ ہو گیا — اس کے بدن میں خون کا دوران تیز تھا — یہ آسانی سے سمجھا جا سکتا تھا کہ اب وہ پولس تفتیش کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ اور شاید کچھ ہی گھنٹوں میں …
سانس چلنے کی رفتار تیز تھی — جیسے چاروں طرف سے وہ سلگتے چلّاتے لفظوں کی زد میں تھا — کیمرے کے فلیش چمک رہے تھے۔ آنکھوں کے آگے سہمے سہمے سے گھروالوں کا چہرہ ناچ رہا تھا — یقینا وہ پکڑا جائے گا — لیکن وہ کیا کرے — کیا وہ پولس کے پاس جائے ؟ قریبی تھانے میں جاکر حلفیہ بیان لکھوائے ؟ کیا پولس اس کی بات مان کر چھوڑ دے گی؟ ہزاروں طرح کی جرح — کارروائی، تھرڈ ڈگری کا استعمال، گھر والوں سے پوچھ تاچھ — جینی سے، آفس سے، بوس سے، عمران سے …
اسے لگا جیسے ایک بے حد کمزور لمحے اس نے اپنے مستقبل کا ایسا داؤں کھیلا ہے۔ جہاں صرف موت ہے — موت کے سرخ سرخ دائرے، اس کی آنکھوں کے آگے پھیلتے جا رہے ہیں۔
اب بہت دیر ہو چکی ہے۔
کیا وہ خودکشی کر لے ؟ ٹرین کے آگے آ جائے ؟ نہر میں کود جائے۔ لیکن خودکشی کی وجہ … ؟ پولس کیا یونہی تفتیش کو بند کر دے گی؟ اور خدا نخواستہ تفتیش کے دوران اگر اظہر کلیم کو تین دن گھر ٹھہرانے کی بات کا پتہ چل جائے تو … کیا پولس اس کے ماں باپ کو چھوڑ دے گی؟ جینی کے باپ کا کہا گیا جملہ بار بار اس کے ذہن میں گونج رہا تھا … مسلمان بھروسے مند نہیں ہوتے۔
وہ دیر تک یونہی سڑک پر گشت کرتا رہا۔ بھوک پیاس سب اڑ چکی تھی — صرف آنکھوں کے آگے ٹھہری موت رہ گئی تھی — ایک بے رحم موت — وہ زندہ رہے یا مردہ، جیسے ایک بے رحم موت اس کا انتظار کر رہی ہے۔
نہیں معلوم وہ کتنی دیر تک سڑکوں پر یونہی آوارہ بھٹکتا رہا — پاؤں بوجھل تھے، سر میں چکر آ رہے تھے۔ تھکا ہارا وہ ایک ڈھابے میں آ گیا۔ مگر جیسے بہت ساری آنکھیں اس کے تعاقب میں تھیں — اس نے پیچھے پلٹ کر دیکھا۔ سامنے والا آدمی … اور وہ — پاس کے بینچ پر بیٹھا ہو اخبار پڑھتا ہوا آدمی … شاید وہ اخبار سے نظر بچا کر بس اس کی طرف دیکھ رہا ہے … اندر جیسے تیر کی طرح ایک ٹھنڈ لہر اترتی چلی گئی۔
وہ ٹھہرا نہیں … تیزی سے باہر نکل آیا — احساس ہوا، اخبار کنارے رکھ کر وہ آدمی بھی تیزی کے ساتھ اس کے پیچھے نکل آیا ہے۔
وہ تیز تیز سڑکوں پر دوڑ رہا ہے۔ بے تحاشہ … پاگلوں کی طرح۔
دماغ میں چلنے والی آندھیاں تیز ہو گئیں ہیں — جن پتھ … کناٹ سرکس … پالیکا بازار — یونہی پاگلوں کی طرح … وہ لوگوں کے درمیان سے گزر رہا ہے۔ سجی ہوئی دکانیں، شاپنگ کرتے لڑکے لڑکیاں — مگر جیسے سب پلٹ کر بس اسی کی طرف دیکھے جا رہے ہیں۔ یقینا اب اس کا بچنا محال ہے۔ شاید وہ پہچان لیا گیا ہے — کچھ ہی دیر، کچھ ہی لمحوں میں سارا کھیل ختم — دماغ میں میزائل چھوٹ رہے ہیں۔
میٹرو اسٹیشن۔ وہ چپ چاپ ایک خالی بینچ پر بیٹھ گیا۔ رونے کی خواہش ہو رہی تھی۔ لیکن شاید آنکھوں کے آنسو بھی خشک ہو چکے تھے۔ جیب سے موبائل نکالا۔ ہاتھوں کی ہتھیلیاں سرد تھیں اور بے جان۔ جینی کے کتنے ہی مسڈ کال تھے اور کتنے ہی میسج۔ آخری میسج پانچ بجے کے آس پاس بھیجا گیا تھا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے پڑھنا شروع کیا۔ لکھا تھا — شام چھ بجے میں تمہارے گھر پہنچ رہی ہوں۔ تالا بند ملا تو تالہ توڑ دوں گی۔ اس لیے پلیز مجھے اپنے گھر پر ملو۔
اسے یقین تھا۔ جینی ایسا کر سکتی ہے۔
اور اب جینی سے ملنے کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔ پلیٹ فارم پر آہستہ آہستہ ٹرین کے رینگنے کی آواز سنائی دے رہی تھی …
ایک بے حد اداس، بوجھل اور ڈراؤنا دن — وہ اپنے گھر کے دروازے پر تھا۔ اور اچانک ایک بار پھر چونک گیا تھا۔ وہی صبح والا پولس کا آدمی … وہ شاید اس کے گھر سے ہی باہر نکلا ہو گا۔ اسکوٹر پر بیٹھتے ہوئے اس نے ادھر اُدھر دیکھا۔ پھر اسکوٹر اسٹارٹ کیا اور روانہ ہو گیا —
دل میں دھک دھک کا اضافہ ہو چکا تھا … چند لمحے وہ ساکت و جامد وہیں کھڑا رہا — شاید آنے والے بے رحم وقت سے مقابلے کے لیے خود کو تیار کر رہا تھا۔ لیکن کیا ایسا کرنا آسان تھا؟ گھر کی طرف بڑھتے ہوئے للی آنٹی ایک بار پھر ٹکرا گئی تھی۔
’ارے سنو …‘
اس نے جبراً مسکرانے کی کوشش کی۔ مگر اسے احساس تھا، مسکراہٹ کی جگہ کافکا کے اسی کیڑے نے لے لی ہو، جو دھیرے دھیرے اس کے وجود پر حاوی ہو گیا تھا۔
’تمہاری دوست آئی ہے۔ اچھی ہے …‘ للی آنٹی مسکرا رہی تھیں۔ ایک Key اسے کیوں نہیں دے دیتے … وہ تو اچھا ہوا بیچاری میرے پاس آ گئی۔ تالہ کھل گیا۔ جاؤ انتظار کر رہی ہے تمہارا۔
جاتے ہوئے پلٹ کر ایک بار پھر للی آنٹی دھماکہ کر گئی تھیں … ’دو دن پہلے کون آیا تھا؟ آج کل کچھ زیادہ ہی کافی پینے لگے ہو …‘
ہنسنے کی آواز دماغ میں گرجنے والے میزائل کی آواز سے دب گئی تھی۔
آگے بڑھ کر اس نے اپنے گھر کی بیل پر انگلی رکھ دی۔
دروازہ کھلنے اور اندر داخل ہونے تک احساس ہوا، جینی کی آنکھیں اس کے سارے جسم کو ٹٹول رہی ہوں۔
’اچھا سنو۔ وہ پولس والا آیا تھا۔ صبح بھی آیا تھا۔ تم نے پاسپورٹ کے لیے اپلائی کیا تھا … کیا شکل بنا لی ہے … جینی نے دھیرے سے اس کے ہاتھوں کو چھوا … چلو … ہاتھ منہ دھو لو۔ ایسے لگ رہے ہو جیسے … ان دھماکوں میں تمہارا بھی ہاتھ ہو۔ ‘
وہ زور سے چیخی — ’کیا کرتے رہے سارے دن۔ ‘
اس نے ایک نظر کمرے پر ڈالی۔ جینی نے گھر کی صفائی کر دی تھی۔ ہاتھ منہ دھونے کے بعد وہ ڈرائنگ ٹیبل والی چیئر پر بیٹھ گیا۔ ذہن اب بھی سائیں سائیں کر رہا تھا … زور زور سے چیخنے کی خواہش ہو رہی تھی۔ اچانک وہ چونک گیا۔ جینی قریب تھی۔ اس کے سر کے بالوں کو سہلاتی ہوئی …
’کیوں ہو جاتے ہو ایسے … کبھی کبھی میں سچ مچ ڈر جاتی ہوں تم سے … جیسے یہ ملک میرا ہے۔ ویسے تمہارا بھی ہے۔ اور اس بات کو مجھ سے کہیں بہتر تم جانتے ہو۔ جانتے ہو نا … ؟ وہ قریب آ گئی — بالکل اس کے سانسوں کے قریب۔ ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا … ’’ایسی وارداتیں ہوتی ہیں۔ ہمیں بھی برا لگتا ہے مگر ہم … تمہاری طرح تو نہیں ہو جاتے ؟ میں جانتی ہوں تم بھیانک طریقے سے ڈر گئے ہو۔ مگر کیوں ؟ انہیں اپنا ہم نام یا ہم مذہب مانتے ہی کیوں ہو؟ وہ ایک آتنک وادی ہیں بس۔ ‘
اس کی آنکھیں پیار سے اس کی طرف دیکھ رہی تھیں — سنو ایک گفٹ ہے تمہارے لیے — گھر کی صفائی کرتے ہوئے ایک چیز ملی ہے مجھے … شیطان کہیں کے … مجھے بتایا کیوں نہیں۔ چلو … میں بتا دیتی ہوں … پہلے آنکھیں بند کرو۔
جینی ایک لمحے کو اٹھی۔ اندر کمرے کی طرف بھاگی۔ پھر دوسرے ہی لمحے واپس آ گئی — آنکھ بند پلیز …
اس نے آنکھیں بند کر لیں۔
جینی نے اس کے سر پر کچھ رکھا۔ پھر مسکراتے ہوئے بولی۔ اب آئینے میں خود کو دیکھو۔ اس نے چونک کر خود کو آئینے میں دیکھا — یہ وہی گنداسا ہیٹ تھا — اسے، اس چہرے پر حیرت تھی — بار بار آنکھوں کے آگے منڈراتے چہرے کے باوجود اسے لگ رہا تھا … کچھ چھوٹ رہا ہے۔ تو وہ یہ ہیٹ چھوڑ گیا تھا —
جینی ہنس رہی تھی …
وہ غور سے آئینے میں خود کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔
٭٭٭
ماخذ: ’ایک انجانے خوف کی ریہرسل‘ کتاب میں مشمولہ ایک طویل کہانی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید