FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

معمول

 

 

رشید سندیلوی

سن اشاعت۔۔  جنوری ۲۰۲۴ء

مشاورت۔۔  ضمیر قیس

انتساب

اپنی بیٹی مروا رشید کے  نام

1

میں رستے میں کھو سکتا تھا

ہنستے ہنستے رو سکتا تھا

قد سے اونچی تھیں دیواریں

زنداں میں کیا ہو سکتا تھا

خار و خس تھے چاروں جانب

گل کیسے میں بو سکتا تھا

چل سکتا تھا کانٹوں پر بھی

پتھر بھی میں ڈھو سکتا تھا

٭٭٭

2

جب ترے عشق میں مشغول نہیں ہوتا تھا

اس قدر درد کا معمول نہیں ہوتا تھا

جبر کے چرچے تو ہوتے تھے نگر میں لیکن

ہر گلی کوچے میں مقتول نہیں ہوتا تھا

دل کے پردے پہ منقش ہیں ہزاروں چہرے

پہلے کچھ بھی یہاں منقول نہیں ہوتا تھا

جس قدر اب کے وہ اترا ہے دل و جاں میں مرے

اس طرح پہلے تو مبذول نہیں ہوتا تھا

کھینچ لاتی تھی سدھارتھ کو محل سے الفت

خود کوئی تخت سے معزول نہیں ہوتا تھا

وہ بھی دن تھے کہ چمکتا تھا ستاروں جیسا

ان دنوں پاؤں کی میں دھول نہیں ہوتا تھا

اس کے پیغام مجھے دل سے ملا کرتے تھے

اس کا مکتوب تو موصول نہیں ہوتا تھا

بات کرتے ہوئے تعزیر کی شق لگتی تھی

شعر لکھتا تھا جو مقبول نہیں ہوتا تھا

جن کی راہوں میں بچھا ڈالی تھیں آنکھیں ہم نے

ان کے ہاتھوں میں کبھی پھول نہیں ہوتا تھا

٭٭٭

3

 

اپنی خوشبو اٹھا کے لے جاؤ

رنگ سارے چرا کے لے جاؤ

پھنس گیا ہوں میں ریگ زاروں میں

مجھ کو اونچا اڑا کے لے جاؤ

اپنی تلوار پھینک بیٹھا ہوں

مجھ کو قیدی بنا کے لے جاؤ

سر کے کٹنے کا ڈر نہیں کوئی

جب بھی چاہو بلا کے لے جاؤ

میں کھڑا ہوں تمہارے رستے میں

رخ سے پردہ ہٹا کے لے جاؤ

٭٭٭

4

ہر ایک پل کسی لمبے سفر میں رہتا تھا

میں گھر سے جا کے بھی اپنے ہی گھر میں رہتا تھا

اک اضطراب میں مَیں نے حیات کاٹی تھی

کسی طلسم کے ہر دم اثر میں رہتا تھا

وہ ایسا شہر تھا جس میں نہیں تھے ہم سائے

میں ایک دشت کے اندر کھنڈر میں رہتا تھا

مرے وجود کے چہرے پہ اس کی آنکھیں تھیں

جہاں بھی جاتا میں اس کی نظر میں رہتا تھا

کسی بھی ایک جگہ پر نہ تھا قیام مرا

کبھی خلا میں کبھی بحر و بر میں رہتا تھا

٭٭٭

5

دل کی آواز سنانے کے لئے آیا ہوں

سنگ کو شیشہ بنانے کے لئے آیا ہوں

ورنہ یہ باپ کی تربت تو مرے اندر تھی

پھر بھی دو اشک بہانے کے لئے آیا ہوں

شب کی ظلمت سے پریشان مرے یار نہ ہوں

سب چراغوں کو جلانے کے لئے آیا ہوں

میرا شیرازہ کسی وقت بکھر سکتا ہے

میں ترے پاس تو جانے کے لئے آیا ہوں

اب یہاں جنگ کے شعلے نہیں بھڑکیں گے کبھی

امن کا شہر بسانے کے لئے آیا ہوں

٭٭٭

6

ہم اپنے خون سے اس کا بدن تراشتے ہیں

بڑے خلوص سے شکلِ وطن تراشتے ہیں

ترے خیال کی لو سے نگار خانے میں

کسی چراغ کا پھر بانکپن تراشتے ہیں

ہماری حسرتِ تعمیر پر نہ نام رکھو

کہ کم سواد بھی اپنا چمن تراشتے ہیں

کبھی یہ دشت میں مجھ کو خیال آتا ہے

کہ عشق پیشہ یہاں کیسے بن تراشتے ہیں

کبھی بناتے ہیں کس شوق سے وہ زلفِ سیہ

کبھی وفور میں چاہِ ذقن تراشتے ہیں

ہمارے اشک نہیں یہ فلک کے تارے ہیں

ہمارے لفظ نہیں ہم سخن تراشتے ہیں

٭٭٭

7

ایک نظارہ سا امکان میں رکھا گیا تھا

مجھکو اک دیدۂ حیران میں رکھا گیا تھا

میں بھی تھا زندہ بشر جنگ سے پہلے پہلے

پھر کوئی لوتھڑہ میدان میں رکھا گیا تھا

تخت پر پاس بٹھایا تھا مجھے یوسف نے

کوئی برتن مرے سامان میں رکھا گیا تھا

ایک پل میں ہی بدل جاتی تھی خوشبو جس کی

پھول ایسا مرے گلدان میں رکھا گیا تھا

جس سے پائی تھی سدا زندگی کی ضو میں نے

وہ دیا میرے بھی وجْدان میں رکھا گیا تھا

٭٭٭

8

بات کرتا ہوں تو چٹکی میں اڑا دیتے ہیں

شعر الفاظ کو تصویر بنا دیتے ہیں

قطع کر لیتے ہیں بیماروں سے رشتے سارے

پیڑ بوڑھا ہو تو آرا سا چلا دیتے ہیں

اتنے مجبور ہیں افلاس میں جکڑے ہوئے ہم

اپنے بچوں کو بھی دریا میں بہا دیتے ہیں

حوصلہ جب کسی سالار کا مر جاتا ہے

لشکری ہاتھ سے تلوار گرا دیتے ہیں

جس نے تاریخ سے کچھ سیکھا نہیں ہوتا ہے

ایسی ہر قوم کو مٹی میں ملا دیتے ہیں

٭٭٭

9

بچھڑ کے تجھ سے محافل میں شعر خوانی کی

بجھے چراغ اندھیروں نے ترجمانی کی

ہمارے لب پہ تبسم کے پھول مرجھائے

تمہارے لب نے ہمیشہ ہی گل فشانی کی

شجر کی شاخ پہ کوئی بھی آج پھول نہیں

خزاں کی رت میں عبث ہم نے باغبانی کی

عجیب آگ نے مجھ کو گلے لگایا تھا

کہ سن رہا تھا کہانی میں لن ترانی کی

ترے غیاب میں یوں ہم نے پا لیا تجھ کو

ترے خیال سے ہر دم خیال خوانی کی

٭٭٭

 

10

 

خوشبو سی مہک جائے جب ذکر ترا آئے

اک نور جھمک جائے جب ذکر ترا آئے

اس غرفے کی جالی میں جب چاند ہویدا ہو

اک بجلی چمک جائے جب ذکر ترا آئے

پائل کی کھنک تیری اک لمحے کو رکتی ہے

پھر چوڑی چھنک جائے جب ذکر ترا آئے

میں تجھ کو بھلا دوں گا لیکن بڑا مشکل ہے

دل میرا دھڑک جائے جب ذکر ترا آئے

ہر صبح سہانی ہو ہر شب ہو سکوں والی

اک غنچہ چٹک جائے جب ذکر ترا آئے

٭٭٭

11

میں نے دیکھا ہے ترے ہجر کا ایسا موسم

چار سو مجھکو نظر آتا ہے ہو کا موسم

کچھ بھی حاصل نہیں مدقوق تجسس کے سوا

کھل اٹھا خاک سے امسال گزشتہ موسم

کوئی تو رنگوں کی برسات عطا کرتا ہے

کوئی سینے میں چبھوتا ہے سلگتا موسم

کسی منظر پہ وہ ہرگز نہ ٹھہر پائے گا

جس نے دیکھا ہو ترے حسن کا کھلتا موسم

میں نے یہ عمر گزاری ہے سدا روتے ہوئے

کبھی دیکھا ہی نہیں آنکھ نے اچھا موسم

٭٭٭

12

پھول باقی ہے نہ خس باقی ہے

پھر بھی جینے کی ہوس باقی ہے

اب کے موسم کی ثمر باری میں

کچھ مزہ اور نہ رس باقی ہے

جسم سارا ہے کسی وحشت میں

آنکھ کا نور ہی بس باقی ہے

پوچھتا ہوں میں شجر کاروں سے

یہ نمو کتنے برس باقی ہے

شہر کا شہر زمیں بوس ہوا

ایک پیتل کا کلس باقی ہے

٭٭٭

13

راستے کھو گئے اور لوگ خفا ہو بیٹھے

جن سے بھی ہاتھ ملایا وہ خدا ہو بیٹھے

وہ جو بے حس تھے انہیں دل سے لگائے رکھا

جن پہ تکیہ تھا وہی ہم سے جدا ہو بیٹھے

چار سو دشت میں دیکھے ہیں وہ پیاسے کانٹے

ہم نہ چل کر بھی یہاں آبلہ پا ہو بیٹھے

ہم کو تو خیر نہ خوشبو کا ہی جھونکا بھی ملا

اور کچھ آپ کے دامن کی ہوا ہو بیٹھے

اس کے کوچے میں ٹھہرنے کا عجب عالم ہے

جو بھی آئے تھے یہاں سنگِ صفا ہو بیٹھے

٭٭٭

14

میں جنگ لڑ رہا تھا اکیلا محاذ پر

پھر آ گیا قبیلہ بھی میرا محاذ پر

پھر بھی بڑے وقار و متانت سے بات کی

ہر چند انہدام تھا اپنا محاذ پر

تلوار سے تھے دونوں ہی بازو کٹے ہوئے

ایسا بھی ایک شخص ڈٹا تھا محاذ پر

اپنے مرے خلاف ہی خنجر بدست تھے

دشمن نے وہ بنایا تھا نقشہ محاذ پر

نا حق لہو بہانا بھی ظلمِ عظیم ہے

مارو نہ اپنے بھائی کو نیزہ محاذ پر

٭٭٭

15

 

کشتیاں بھی جلا کے جیتے ہیں

اپنا جذبہ بڑھا کے جیتے ہیں

 

ہم نے سیکھا ہے یہ شہیدوں سے

اپنی ہستی مٹا کے جیتے ہیں

 

قوتِ بازو پر بھروسہ ہے

دل کو نیزہ بنا کے جیتے ہیں

 

اپنے لشکر کے دم قدم سے ہی

ہم بھی گردن اٹھا کے جیتے ہیں

٭٭٭

16

زباں پہ چھالے ہیں پر اس قدر مَیں بولوں گا

کسی بھی شخص کو اپنا خدا نہ مانوں گا

زمیں کی حد سے نکلنا اگرچہ مشکل تھا

مَیں سطحِ چاند پہ گاڑی کو جا کے روکوں گا

دبا ہی دوں گا میں تشکیک کے بھی سب عنصر

خدا کے بارے میں اتنا نہیں مَیں سوچوں گا

اگر کلام کو میرے قبولِ عام ملا

اداس لوگوں کے غم پر بھی نوحہ لکھوں گا

مجھے زمیں کی کشش پھر زمیں پہ کھینچ نہ لے

خلا کے بیچ میں کچھ نوری سال ٹھہروں گا

٭٭٭

17

میں کھو گیا ہوں مرے خال و خد تلاش کرو

مرے حروف مرے شد و مد تلاش کرو

یہ ہست و مرگ کا خم دار راستہ ہے کوئی

ازل کے دیس میں شہرِ ابد تلاش کرو

کسی بھی طور مجھے بھولنا نہیں ممکن

نہ میرا قتل کرو اور نہ رد تلاش کرو

کہیں بھی پانی نہیں ایسی خشک سالی ہے

کسی جزیرے میں آبِ رسد تلاش کرو

جہاں غبار میں تم مجھ کو چھوڑ آئے تھے

اسی غبار میں میری لحد تلاش کرو

٭٭٭

18

اشک میرے زمیں پہ گرنے لگے

جیسے شعلے زمیں پہ گرنے لگے

میں نے پوچھا کہ یہ فنا کیا ہے

زرد پتے زمیں پہ گرنے لگے

ہو نہ جائیں مرے بھی ٹکڑے کہیں

مرے ورثے زمیں پہ گرنے لگے

وقت نے ایسے بے وفائی کی

سب ستارے زمیں پہ گرنے لگے

میں نے دیکھا تھا سانحہ ایسا

خوں کے قطرے زمیں پہ گرنے لگ

٭٭٭

19

ابر کے آنے سے برسات نہیں ہوتی ہے

وصل کے دن بھی ملاقات نہیں ہوتی ہے

دیکھتا ہوں میں سرِ طور تجلی کوئی

بات کرتا ہوں تو پھر بات نہیں ہوتی ہے

تو نے دینا ہے تو اپنے ہی کرم سے دے دے

ہم سے اب منتِ حاجات نہیں ہوتی ہے

لوگ پتھر کو بھی آئینہ بنا دیتے ہیں

ہم سے تسخیر تری ذات نہیں ہوتی ہے

عزم جن کے کبھی کمزور نہیں پڑتے ہیں

مات کھا کر بھی انہیں مات نہیں ہوتی ہے

ایسے لگتا ہے کہ کچھ کھو سا گیا ہے میرا

جب تری یاد مرے ساتھ نہیں ہوتی ہے

روزِ روشن کی طرح ان کی جبیں ہے روشن

اب زمستاں میں سیہ رات نہیں ہوتی ہے

٭٭٭

20

نا ممکن بھی اب ممکن ہے

اس دنیا میں سب ممکن ہے

عمریں ساری لگ جاتی ہیں

اس کا ملنا کب ممکن ہے

زخم یہ اچھے ہو جائیں تو

سینہ کوبی تب ممکن ہے

دیکھو ڈھونڈو مل جائے گا

دل کے اندر رب ممکن ہے

٭٭٭

21

 

الجھے رستے کی طرح زندہ ہوں

گویا اندھے کی طرح زندہ ہوں

آگ اور پھول کی پہچان نہیں

کسی بچے کی طرح زندہ ہوں

ہر سو کندہ ہیں خد و خال مرے

اک نظارے کی طرح زندہ ہوں

کوئی بھی عکس مجھے یاد نہیں

صرف شیشے کی طرح زندہ ہوں

اک شکنجہ ہے مرے چاروں طرف

میں پرندے کی طرح زندہ ہوں

اب جہاں چاہے ہوا لے جائے

ابر ٹکڑے کی طرح زندہ ہوں

کوئی بھی شکل نہیں ہے واضح

اک ہیولے کی طرح زندہ ہوں

٭٭٭

 

22

اپنی تجرید کو اشکال میں ڈھالوں کیسے

شورِ گریہ میں وہ آواز سنبھالوں کیسے

جنگ میدان میں جذبے سے لڑی جاتی ہے

گر چکی ہے مری تلوار اٹھا لوں کیسے

ہر طرف رات کے لشکر کا کڑا پہرہ ہے

اس اندھیرے میں نشیمن کو اجالوں کیسے

اس سے بہتر تھا کہ مر جاتا کسی کے ہاتھوں

زخم جو تم نے دیے ہیں وہ سنبھالوں کیسے

خواب بھی شیشے کے برتن کی طرح ہوتے ہیں

اپنے خوابوں کو بلندی سے گرا لوں کیسے

٭٭٭

23

راستہ راستے کے اندر تھا

آدمی جمگھٹے کے اندر تھا

ہو گیا راکھ ہی وہ جلنے سے

جو کوئی دائرے کے اندر تھا

بس یہی جانتا تھا میں کہ آب

کوہ کے سلسلے کے اندر تھا

وہ کسی نیند سے نہیں پایا

جو سکوں رتجگے کے اندر تھا

روشنی ملگجے میں پنہاں تھی

عکس بھی آئینے کے اندر تھا

٭٭٭

24

اس طرح اختتام ہو میرا

عشق میں انہدام ہو میرا

یہ کیا ہے کہ گم شدہ ہوں میں

تذکرہ صبح و شام ہو میرا

آپ کا حسن جاوداں ٹھہرے

اور دکھ میں دوام ہو میرا

کتنا عرصہ اداس گزرا ہے

ابر آئے نہ کام ہو میرا

جا کے دیکھیں کہاں ٹھہرتا ہے

خواب بھی تیز گام ہو میرا

٭٭٭

25

کچھ بھی نہیں درکار تری ذات بہت ہے

اس حبس کے موسم میں بھی برسات بہت ہے

لبریز ہوں درویش کی سینے کی طرح میں

اس شب کے اجالے میں ترا ساتھ بہت ہے

پہلے تو مجھے زخم رسیدوں کی خبر دو

کر لیں گے ملاقات ابھی رات بہت ہے

اغیار بھی سینے پہ لگاتے ہیں کچوکے

اور یاروں کی بھی مجھ پہ عنایات بہت ہے

زندوں کو میں روتا ہوں کہ قبروں پہ کھڑا ہوں

اس شہر میں سنگینیِ حالات بہت ہے

٭٭٭

26

ان کی نفرت کو بھی اندازِ محبت سمجھا

میرے یاروں نے مجھے مالِ غنیمت سمجھا

دودھ کی نہریں بہاتا رہا شیریں کے لئے

کارِ فرہاد کو میں کارِ مذلت سمجھا

اک بلندی سے جو حالات نے پھینکا ہے مجھے

اپنی مسماری کہاں قابلِ عبرت سمجھا

میں نے اک عمر گزاری ہے کسی زنداں میں

گرم جھونکوں کو بھی میں اپنی سعادت سمجھا

کتنا سادہ تھا عقیدت کے صنم خانے میں

اپنے قاتل کو بھی میں پیرِ طریقت سمجھا

٭٭٭

27

رات پڑتی ہے تو گر پڑتا ہوں سونے کے لئے

اب تو فرصت بھی میسر نہیں رونے کے لئے

میری سانسوں کے چراغوں کو بجھایا اس نے

کچھ بھی باقی نہ بچا دہر میں کھونے کے لئے

سرد جھونکوں نے بنا ڈالا ہے پتھر ان کو

میں نے جو اشک چنے دل کو بھگونے کے لئے

کر دیا اس کو جدا ہم نے انا کی خاطر

اب کوئی تاب نہیں زخم کو دھونے کے لئے

ہجر کے داغ تو ہستی کو مٹا دیتے ہیں

چھید بنتے گئے کشتی کو ڈبونے کے لئے

٭٭٭

28

دیکھا ہی نہیں میں نے اک خواب مکمل

ہر لمحہ گزارا ہے بے تاب مکمل

ہر نقش دریچے کا بھی ماند پڑا تھا

ٹوٹا تھا فصیلوں کا ہر باب مکمل

زنگار میں بدلی تھی شیشوں کی چمک بھی

ہر حوض شکستہ تھا بے آب مکمل

جس طرح نکلتا ہے گھر سے کوئی لاشا

اس طرح سے نکلا تھا مہتاب مکمل

اس شوخ نے چہرے سے جب پردہ ہٹایا

ماحول پہ چھایا تھا زر تاب مکمل

٭٭٭

29

عجیب عکس مرے آئینے کے اندر تھا

اسی لئے تو عدو مخمصے کے اندر تھا

مجھے خبر تھی کہ کتنا اداس رہتا ہے

بچھڑ کے اس سے بھی میں رابطے کے اندر تھا

جو سوز ہم نے تری گفتگو میں دیکھا ہے

کسی ندی نہ کسی زمزمے کے اندر تھا

بڑا محال تھا اس دشت سے نکل جانا

بلا کا کرب مرے دائرے کے اندر تھا

مرے خیال کئی نقشِ پا بناتے تھے

وہ اضطراب مرے وسوسے کے اندر تھا

٭٭٭

30

کوئی دم گھر میں نظر آؤں گا میں

پھر تو دیوار پہ سج جاؤں گا میں

تم نے خنجر اٹھا کے دیکھ لیا

تم پہ خنجر نہیں اٹھاؤں گا میں

جب بھی بارود کا چھائے گا دھواں

امن کی روشنی بن جاؤں گا میں

جو بجھا ڈالے تھے یاروں نے کبھی

ان چراغوں کو بھی جلاؤں گا میں

٭٭٭

31

اپنے گزرے ہوئے ادوار نظر آتے ہیں مجھے

وہ ہی غرفے وہی مینار نظر آتے ہیں مجھے

ان کے بارے میں عجب باتیں سنی ہیں میں نے

جو بھی اعلیٰ کہیں کردار نظر آتے ہیں مجھے

جب بھی پھولوں پہ پڑے اوس کے قطرے دیکھوں

وہ سلگتے ہوئے رخسار نظر آتے ہیں مجھے

جانے کیا سوچ کے بندوق اٹھا لیتے ہیں

لوگ تو اور بھی لاچار نظر آتے ہیں مجھے

ایک حیرت ہے میرے دل کے گلی کوچوں میں

جس طرف دیکھ لوں اَسرار نظر آتے ہیں مجھے

٭٭٭

32

تیری آواز سُن رہا ہوں میں

زرد کلیاں سی چُن رہا ہوں میں

تیرے اجمال کا نہ عکس ملا

کرچیاں گو کہ چُن رہا ہوں میں

تُو تو جل کے بھی بن گئی کندن

اب بھی شعلوں پہ بھُن رہا ہوں میں

غم نہ کر خواب کے بکھرنے کا

پھر نئے خواب بُن رہا ہوں میں

٭٭٭

33

عرشے پہ کمال میں نے دیکھا

وہ حسن و جمال میں نے دیکھا

آنکھوں کی میں جھیل میں جو ڈوبا

پانی کا اچھال میں نے دیکھا

بجلی تھی کہ تھا تھرکتا پارہ

جو وقتِ دھمال میں نے دیکھا

سپنے کئی تم نے رنگیں دیکھے

اور عکسِ زوال میں نے دیکھا

دیکھا اسے قید ہو کے میں نے

اک حسن کا جال میں نے دیکھا

٭٭٭

34

آپ بھی درد کا چارہ نہیں کرنے والے

ہم بھی اظہار دوبارہ نہیں کرنے والے

وہ چلے جائیں مرے دل کی گھٹن سے باہر

جو مرے ساتھ گزارہ نہیں کرنے والے

دید کے خیمے لگائے ہیں بیابانوں میں

شہرِ کوفہ کا نظارہ نہیں کرنے والے

تیری ناموس پہ ہم جاں تو چھڑک سکتے ہیں

تیری رسوائی گوارہ نہیں کرنے والے

٭٭٭

35

اب وہ ملتے ہیں نہ ہم ملتے ہیں

راہ میں نقشِ قدم ملتے ہیں

ایسے مل لیتے ہیں ہم کیفے میں

جیسے دو آبے بہم ملتے ہیں

بڑھ گئی قیمت اشیاء لیکن

اب بھی ارزاں سبھی غم ملتے ہیں

دل کی باتیں ہوں فون پر کیسے

چائے پر شام کو ہم ملتے ہیں

اور سخنور ضمیر قیس کے سے

عام ملتے نہیں کم ملتے ہیں

٭٭٭

36

ہر گھڑی دل اداس رہتا ہے

تیری جانب قیاس رہتا ہے

جتنا مفہوم کھولتے جائیں

پھر بھی کچھ التباس رہتا ہے

میرا اپنا ہی چھوڑ کر مجھ کو

اب کہیں آس پاس رہتا ہے

باندھ کر بند کیا ملا دل کو

آنسوؤں کا نکاس رہتا ہے

سخت پہرہ ہے ان فصیلوں پر

پھر بھی خوف و ہراس رہتا ہے

٭٭٭

37

بات کرنے کی سہولت دے دے

چند لمحوں کی رفاقت دے دے

کھل اٹھیں پھول مرے گلشن میں

پھر بہاروں کی بشارت دے دے

دیکھوں دیوار کے ہے پیچھے کیا

میری آنکھوں کو بصارت دے دے

حوصلہ باقی نہیں ہے میرا

پھر مجھے لڑنے کی طاقت دے دے

جس طرح دل کو مرے کھولا ہے

شعر کہنے کی بھی قدرت دے دے

برف لپٹی ہے مری شاخوں پر

میرے جذبات میں شدت دے دے

٭٭٭

38

شبنم نہ پڑ سکے گی غم کے الاؤ پر

دلہن تو بن گئی وہ گھر کے دباؤ پر

وہ ہم سفر سبھی تو ساحل پہ رک گئے

میں سیر کر رہا تھا تنہا ہی ناؤ پر

اس نے بھی اپنے نیزے کی نوک تیز کی

مرہم لگا دیا ہے میں نے بھی گھاؤ پر

رستہ اگر ملے گا ان پانیوں کے بیچ

آ کر ملیں گے ہم بھی شب کو کٹاؤ پر

نفرت کی بات ہو تو سب مرحبا کہیں

قدغن لگائے بیٹھے ہیں دل کے چاؤ پر

٭٭٭

39

ہر شخص اپنے اپنے تفاخر میں گم ہوا

بیڑا یہ رفتہ رفتہ سمندر میں گم ہوا

بارش تھی اک ہوا تھی وہ موسم بہار تھا

لیکن میں ایک اور ہی منظر میں گم ہوا

جس نے مرے حواس ہی معزول کر دیئے

میں عمر بھر اسی کے تصور میں گم ہوا

جس کو ہے شہر شہر میں ڈھونڈا گیا بہت

وہ آدمی خدا کی قسم گھر میں گم ہوا

اک دوست تشنگی کی رفاقت کو چھوڑ کر

پھولوں کے بیچ آبِ معطر میں گم ہوا

٭٭٭

40

وقت ڈھلتا ہے تو حالات بدل جاتے ہیں

شہر کے ساتھ مضافات بدل جاتے ہیں

ہم نے بھی سمجھا تھا رشتوں کو مقدس لیکن

دل بدلتا ہے تو جذبات بدل جاتے ہیں

ایسی گفتار پہ شکوہ بھی نہیں ہو سکتا

بات تو کرتے ہیں پر بات بدل جاتے ہیں

میں نے موسم سے عبث کالی گھٹائیں مانگیں

ابر چھاتے ہیں تو دن رات بدل جاتے ہیں

رات کو جتنی بھی تسکین فراہم کر لیں

دھوپ پڑتی ہے تو ذرات بدل جاتے ہیں

٭٭٭

41

اپنی اپنی انا کی دنیا ہے

آگ پانی ہوا کی دنیا ہے

جس طرف دیکھو اک تحیر ہے

کیسی کیسی خدا کی دنیا ہے

ماورا ہے وہ ہر تصور سے

حیرت و انتہا کی دنیا ہے

کون پوچھے ہے خشک پتوں کو

گل کی یادِ صبا کی دنیا ہے

دور دیکھا نہیں مسرت کا

رنج و آہ و بکا کی دنیا ہے

٭٭٭

42

تختِ لاہوت اٹھا کے لایا ہوں

تاجِ جبروت اٹھا کے لایا ہوں

دفن ہیں جس میں ہماری لاشیں

ایسا تابوت اٹھا کے لایا ہوں

مصر کا شہر سجا ہے اور میں

گھر سے بس سوت اٹھا کے لایا ہوں

منہدم شہر کے ملبے سے میں

چہرہ مبہوت اٹھا کے لایا ہوں

شعروں کا پیش ہے یہ نذرانہ

جیسے شہتوت اٹھا کے لایا ہوں

٭٭٭

43

دل میں تمہاری یاد کا منظر نہیں رہا

آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر نہیں رہا

میں نے بھی کیا کسی سے نبھانی ہے دوستی

میں اب تو خاک کے بھی برابر نہیں رہا

گفتار میری سلب ہوئی خستگی کے ساتھ

مجھ میں غزل سرائی کا جوہر نہیں رہا

قوس و قزح کا رنگ بھی پھیکا سا پڑ گیا

حسن و جمالِ یار کا ہمسر نہیں رہا

صد شکر میں نے چھو لی ستاروں کی روشنی

تیری مناسبت سے میں کمتر نہیں رہا

٭٭٭

44

مجھ سے بھی اختلاف اس نے کیا

خود سے بھی انحراف اس نے کیا

سب گواہوں کے رو برو اپنے

جرم کا اعتراف اس نے کیا

اس کی باتوں سے مجھ کو لگتا تھا

مرے دل میں شگاف اس نے کیا

علم کی معتبر دلیلوں سے

مجھ کو میرے خلاف اس نے کیا

میں خطا کرتا تھا تواتر سے

ہر قدم پر معاف اس نے کیا

میں تو سمجھا تھا سب ہی اچھا ہے

زخم کا انکشاف اس نے کیا

وسوسے ہوں یا کوئی الجھن ہو

دل کے شیشے کو صاف اس نے کیا

٭٭٭

45

یہ اور بات ترا انتظار کرتے تھے

تمام رات ستارے شمار کرتے تھے

سلامی دیتے تھے بادل بھی سات رنگوں کی

ہوا کے جھونکے تجھے سبزہ زار کرتے تھے

تمہارے قرب کی دنیا عجیب دنیا تھی

خزاں کی رت کو بھی بادِ بہار کرتے تھے

تمہارا نام ہی لکھتے تھے ہم درختوں پر

تمہارے ذکر سے دل اشکبار کرتے تھے

تمہارے پہلو میں ہم کو سکون ملتا تھا

تمہارے کوچے پہ ہم جاں نثار کرتے تھے

زہے نصیب کہ ساحل پہ ڈوبنے والے

بڑے خلوص سے دریا کو پار کرتے تھے

٭٭٭

46

تھے ترے شہر کے منظر سبھی دیکھے دیکھے

میں نے بادل سے نکلتے ہوئے شعلے دیکھے

ایک ہی عکس نظر آتا تھا چاروں جانب

ہر طرف میں نے بکھرتے ہوئے شیشے دیکھے

تو نے دیکھا ہے کوئی شام کا رنگیں منظر

میں نے تو خون میں ڈوبے ہوئے چہرے دیکھے

ہر نئے موڑ پہ تعمیر بدل جاتی تھی

ہم نے سو بار ترے شہر کے نقشے دیکھے

تجھ سے مل کر مجھے محسوس یہی ہوتا ہے

میں نے اڑتے ہوئے آزاد پرندے دیکھے

٭٭٭

47

کوئی بے نقص دکھائی نہیں دے گا مجھے

ایک بھی شخص دکھائی نہیں دے گا مجھے

جس کی ہر تال پہ دل میرا بھی جھومتا ہے

اس کا پھر رقص دکھائی نہیں دے گا مجھے

میں جسے چاہتا ہوں دل و جاں سے مری جاں

اس میں تو نقص دکھائی نہیں دے گا مجھے

اس کی آہٹ مجھے واضح سنائی دے گی پر

آنکھ میں عکس دکھائی نہیں دے گا مجھے

٭٭٭

48

پھر بہار آنے کو ہے

اک نکھار آنے کو ہے

رستہ گم ہو جائے گا

یوں غبار آنے کو ہے

عمر بھر جلتے رہے

اب قرار آنے کو ہے

زخم سب اچھے ہوئے

غم گسار آنے کو ہے

کون روکے گا اسے

جو فشار آنے کو ہے

٭٭٭

49

اُس سے بھی بات نہیں ہو سکتی

پھر وہ برسات نہیں ہو سکتی

جب تلک چاند نہیں چمکے گا

چاندنی رات نہیں ہو سکتی

یہ ملاقات غنیمت ہی تو ہے

پھر ملاقات نہیں ہو سکتی

میری حاجت نہ سمائے جس میں

وہ تری ذات نہیں ہو سکتی

مر تو سکتا ہوں لڑائی میں مَیں

مجھ کو اب مات نہیں ہو سکتی

٭٭٭

50

میں جب بھی ان کو سناتا ہوں غم کے افسانے

بڑے ہی ناز سے لگتے ہیں زلف سلجھانے

اب اس مقام پہ ہم کو انّا نے دے مارا

کہ جس مقام پہ اپنے ہوئے ہیں بیگانے

بہارِ ابر سے پیڑوں کی گود خالی ہے

مگر وہ راکھ پہ بارش لگے ہیں برسانے

کسی بھی بات پہ میں نے زباں نہیں کھولی

اسی سکوت سے پھیلیں گے میرے افسانے

غموں کی تیز نکیلی چٹانیں ڈھو ڈھو کر

بدن کے ساتھ پھٹے ہیں انا کے دستانے

٭٭٭

51

میں ترے انتظار میں گم تھا

ایک لمبی قطار میں گم تھا

تو بھی گم تھا جہان میں اپنے

میں بھی اپنے دیار میں گم تھا

حوصلہ تو جواں تھا میرا بھی

راستہ ہی غبار میں گم تھا

اس سمے ہی خزاں نے دستک دی

جب شجر برگ و بار میں گم تھا

بھول بیٹھا تھا اپنا ہونا بھی

ایسا اس کے خمار میں گم تھا

٭٭٭

52

دل مرا دل میں بولتا ہے

رگوں میں خون کھولتا ہے

کم سوادوں کی دنیا میں وہ

مٹی سے موتی رولتا ہے

اہلِ بینش میں بیٹھا بیٹھا

اپنی اوقات تولتا ہے

چمک اٹھتا ہے کونہ کونہ

جب وہ بالوں کو کھولتا ہے

اس سے محوِ کلام ہوں میں

جس طرح موسیٰ بولتا ہے

٭٭٭

53

جاری ہے فیضِ عام ہمیشہ حسین کا

اونچا رہا مقام ہمیشہ حسین کا

مٹ جائے گا یزید کا نام و نشان بھی

زندہ رہے گا نام ہمیشہ حسین کا

کرب و بلا کے شہر کو میرا سلام ہو

دل سے ہے احترام ہمیشہ حسین کا

اجداد بھی حسین کے ادنیٰ غلام تھے

میں بھی ہوں اک غلام ہمیشہ حسین کا

یارب مری زبان کو اتنا فصیح کر

لکھتا رہوں سلام ہمیشہ حسین کا

٭٭٭

54

ان رستے ہوئے چھالوں میں آگ لگا دی تھی

جب شام ہوئی خیموں میں آگ لگا دی تھی

جب جل اٹھی آنکھیں بھی دل کی حرارت سے

سورج نے بھی شاخوں میں آگ لگا دی تھی

بجلی کی چمک سے گھر بھی ہوئے خاکستر کچھ

کانٹوں نے چمن زاروں میں آگ لگا دی تھی

روتے تھے پر کچھ غم بے چارہ بھی ہوتے تھے

وحشت نے ہی سب سینوں میں آگ لگا دی تھی

پانی دیکھ کے حالت دیدنی تھی میری

پھر بجھتے ہوئے شعلوں میں آگ لگا دی تھی

٭٭٭

55

گرد آلود بام و در نہ دھلے

خوں کے دھبے تو عمر بھر نہ دھلے

گریہ زاری سے شب نہیں کٹتی

اشکِ بلبل سے برگ و بر نہ دھلے

مینہ پڑتا رہا تواتر سے

داغ دل کے مرے مگر نہ دھلے

عمر کاٹی ہے آبشاروں میں

خاک میں لتھڑے بال و پر نہ دھلے

٭٭٭

56

بات سے جب بھی بات ملتی ہے

عشق کی واردات ملتی ہے

پوچھتا ہوں میں اہلِ بینش سے

دکھ سے کیسے نجات ملتی ہے

ہر قدم پر یہ دل دھڑکتا ہے

ہر قدم پر ممات ملتی ہے

کتنی صدیاں سفر گزرتا ہے

تب کہیں یہ حیات ملتی ہے

جب بھی میں کام سے پلٹتا ہوں

راستے میں ہی رات ملتی ہے

٭٭٭

57

دلِ خود دار بھی ضروری ہے

اس سے گفتار بھی ضروری ہے

گفتگو پر یقین ہے میرا

اور تلوار بھی ضروری ہے

ساتھ ہی ساتھ اچھے شعروں کے

اچھا کردار بھی ضروری ہے

دیکھ سکتے نہیں چھپے منظر

چشمِ خوں بار بھی ضروری ہے

مجھ کو منصور نے ہے سمجھایا

تختۂ دار بھی ضروری ہے

٭٭٭

58

کون دیکھے گا مرے دشت کی ویرانی کو

میں نے آنکھوں میں سجایا ہے بیابانی کو

جب بھی کھلتا ہے گلابوں کا دریچہ کوئی

شہر کا شہر چلا آتا ہے دربانی کو

گھر سے جاتا ہے تو پھر لوٹ کے آ جاتا ہے

کوئی زنجیر نہ ڈالے مرے سیلانی کو

کفر کا فتویٰ لگایا ہے مرے یاروں نے

میں نے سمجھا تھا مقدس تری پیشانی کو

اس کی کیا بات تھی کیا ظرف تھا اللہ اللہ

بھول جاتا تھا وہ اکثر مری نادانی کو

میرا لہجہ مرے اسلوب میں ڈھل جاتا ہے

میں نے بخشا ہے نیا رنگ غزل خوانی کو

٭٭٭

59

یہ حقیقت ہے کہ مر جاؤں گا

گہرے پانی میں اتر جاؤں گا

ہر قدم پر فنا کا عالم ہے

میں بھی دنیا سے گزر جاؤں گا

تو نے ملنا تو نہیں ہے مجھ کو

کوچے کوچے میں مگر جاؤں گا

تری الفت کے ہی بل بوتے پر

جو نہ کرنا تھا وہ کر جاؤں گا

ہر طرف خون ٹپکتا ہو گا

جس طرف دیدۂ تر جاؤں گا

٭٭٭

60

غم بٹانے کئی غم خوار بھی چل پڑتے ہیں

عشق سچا ہو تو اشجار بھی چل پڑتے ہیں

یوں تو قدموں کی مسافت بھی بڑی مشکل ہے

جن کو چلنا ہو افق پار بھی چل پڑتے ہیں

رک ہی جاتے ہیں سبھی یار مرے رکنے سے

چلنے لگتا ہوں تو اغیار بھی چل پڑتے ہیں

ہر کوئی جاں کی اماں تو نہیں پانے والا

کچھ تو ایسے ہیں سوئے دار بھی چل پڑتے ہیں

یہ ضروری نہیں مل جائے سبھی کو عیسیٰ

عشق کے زعم میں لاچار بھی چل پڑتے ہیں

٭٭٭

61

عجب اک بے قراری ہے غزالاں تم تو واقف ہو

فضائے مرگ طاری ہے غزالاں تم تو واقف ہو

تری گلی میں جب جانا وہیں کا ہو کے رہ جانا

وہ صورت ایسی پیاری ہے غزالاں تم تو واقف ہو

مرے دلبر کے جانے سے جلا ہے یہ چمن میرا

یہ فرقت مجھ پہ بھاری ہے غزالاں تم تو واقف ہو

کسی بھی ملنے والے کو میں حالِ دل سناؤں کیوں

جو دل پر ضرب کاری ہے غزالاں تم تو واقف ہو

وہ لہجہ جس کی الفت میں سبھی کچھ ہے گنوا ڈالا

وہ لہجہ کاروباری ہے غزالاں تم تو واقف ہو

٭٭٭

62

وہ بچھڑ جانے کا عالم نہیں دیکھا جاتا

ہم سے ہر روز کا ماتم نہیں دیکھا جاتا

جب کناروں کی طلب دل میں سما جاتی ہے

پھر سمندر کا تو موسم نہیں دیکھا جاتا

دیکھ سکتا ہوں ترے ہجر کے زندانوں کو

بس کسی زخم کا مرہم نہیں دیکھا جاتا

ان کی آنکھیں تو تبسم کا پری خانہ ہیں

ان کی آنکھوں کو تو پرنم نہیں دیکھا جاتا

کیا کہوں کتنی نزاکت سے تجھے دیکھا ہے

تو کسی طور ہو برہم، نہیں دیکھا جاتا

٭٭٭

63

سجی ہے بزم کہ یاروں کی آمد آمد ہے

چمن میں سینہ فگاروں کی آمد آمد ہے

ہمارے شہر میں پہنچے گی روشنی کی چمک

کہ رفتہ رفتہ ستاروں کی آمد آمد ہے

تمام زیست گزاری اداس روتے ہوئے

کھلیں گے پھول بہاروں کی آمد آمد ہے

اسی غبار سے رخ کا جمال چمکے گا

نئے سفر کے اشاروں کی آمد آمد ہے

رشید پھول چنیں ہم گلاب پاشی کو

جنوں کے عشق کے ماروں کی آمد آمد ہے

٭٭٭

64

جب تعلق سزا ہو جاتا ہے

درد بھی لا دوا ہو جاتا ہے

باقی رہتا نہیں نشاں اس کا

آدمی یوں فنا ہو جاتا ہے

جس کو ہاتھوں سے ہم بناتے ہیں

وہ بھی آخر خدا ہو جاتا ہے

جس کو مثلِ نماز پڑھتے ہیں

وہ بھی بندہ قضا ہو جاتا ہے

جب بھی ڈھلتا ہے شام کا سورج

سایہ قد سے بڑا ہو جاتا ہے

٭٭٭

65

رزق کی میرے گھر میں فراوانی ہے

ہر گھڑی رونے کی مجھ کو آسانی ہے

یادوں کا میرے دل میں ہے میلا کوئی

ایسی رونق ہے ہر سو کہ حیرانی ہے

میرے دل میں خیال آتا ہے سادہ دل

کیوں خرابے میں جل جانے کی ٹھانی ہے

تیرے آنے سے کھلتی ہیں کچھ کلیاں

ورنہ کانٹوں کی چمن میں ارزانی ہے

دشت کی دھوپ میں اس طرح زندہ ہوں

دانہ مجھ کو میسر نہ ہی پانی ہے

٭٭٭

66

ہجر کی پہلی شام بھی رویا

میں اور دل ناکام بھی رویا

میں جو زنداں میں کم تڑپا

آ کر زیرِ دام بھی رویا

میں بھی روتا رہتا تھا اور

ساتھ وہ ماہِ تام بھی رویا

کون گیا جاں سے کوچے میں

در بھی روئے بام بھی رویا

ساری عظمت کھو گئی میری

مجھ پر میرا نام بھی رویا

٭٭٭

67

دل کا صحرا ہرا ہو گیا

یہ بھی اک معجزہ ہو گیا

تیرا بیمار اچھا ہوا

یہ بھی کیا اے خدا ہو گیا

اب مسیحا کوئی کیا کرے

عشق جب لا دوا ہو گیا

تن بدن مضمحل ہو گئے

کیا سے کیا حادثہ ہو گیا

کس طرح تیرا ماتم کروں

میرا سب کچھ فنا ہو گیا

٭٭٭

68

ایسا تھا مرا جرم کہ معتوب ہوا میں

عیسیٰ کی طرح ہی سے تو مصلوب ہوا میں

رہتی ہیں سدا دشت پہ گھنگور گھٹائیں

ایسا ترے بالوں سے جو منسوب ہوا میں

آنکھوں کی یہ بینائی بھی کمزور ہوئی ہے

رو رو کے ہمہ وقت ہی یعقوب ہوا میں

اس طرح پجاری بھی تو جاذب نہیں ہوتے

جس طرح پری زاد کا مجذوب ہوا میں

میں نے کسی غنچے کی تو خوشبو نہیں چاہی

اپنی ہی چنبیلی سے ہوں مرعوب ہوا میں

٭٭٭

تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل