کلام نبویﷺ کے سایے میں
عبدالغفار عزیز
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان کے علاوہ بھی) اتنے نفلی روزے رکھتے کہ ہم سمجھنے لگتے اب آپﷺ روزے چھوڑیں گے ہی نہیں، اور کبھی آپﷺ اتنے دن نفلی روزے چھوڑ دیتے کہ ہم سمجھتے اب آپ مزید نہیں رکھیں گے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کے علاوہ کبھی پورا مہینہ روزے رکھتے نہیں دیکھا، اور شعبان کے علاوہ کسی مہینے اتنی کثرت سے روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ (بخاری، 1169)
ماہِ رمضان کے روزے تو خالق کائنات نے ہر مسلمان پر فرض کر دیے لیکن روزوں کی قدر و منزلت اس قدر زیادہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پورا سال روزوں کا اہتمام فرماتے۔ شوال میں چھے روزوں، ہر مہینے کی تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں کے روزوں، ہر ہفتے پیر اور جمعرات کے روزوں، یومِ عاشورہ کے دو روزوں اور یومِ عرفہ کے روزے کو تو نفلی روزوں میں نمایاں مقام و اہمیت حاصل ہے۔ آپ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم ان کے علاوہ بھی روزوں کا خصوصی اہتمام فرماتے۔ آپ نے سردیوں کے مختصر دنوں کے روزوں کو اللہ کی طرف سے خصوصی عطیہ قرار دیا۔ کبھی گھر میں کچھ کھانے کو نہ ہوا تو فوراً روزے کی نیت فرما لی۔ قرآن کریم میں مختلف گناہوں کے کفارے کے لیے روزوں کی تعداد مقرر کر دی گئی ہے۔ غیر شادی شدہ نوجوانوں کو خصوصی طور پر روزوں کی ترغیب دی___ اگر آپ کی پوری حیاتِ طیبہ میں روزے کا یہ خاص مقام ہے تو کیا ہم امتیوں کو صرف رمضان ہی کے روزوں پر اکتفا کر لینا چاہیے؟ رمضان رخصت ہو گیا۔ آیئے ابھی سے روزوں کی فضیلت کے بارے میں اپنے اس علم کو نیت و ارادے میں اور نیت و ارادے کو عمل میں بدلنے کا آغاز کر دیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت تم سے تمھارے جوتے کے تلوے سے بھی زیادہ قریب ہے اور اسی طرح جہنم کی آگ بھی۔ (بخاری، 6123)
نیکیوں سے جھولیاں بھر لینا کس قدر آسان ہے۔ ادھر دل میں نیکی کا ارادہ کیا اور ادھر نامۂ اعمال میں اجر ثبت ہو گیا۔ ارادے پر عمل بھی کر لیا تو اجر 10 سے 700 گنا تک بڑھ گیا۔ برائی سے نظریں پھیر لیں، اجر ثابت ہو گیا اور تو اور اپنے روزمرہ کے معمولات کو عادت کے بجائے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے جذبے سے کیا تو وہ بھی عبادت بن گئے۔دوسری طرف شیطان بھی ہر لمحے ساتھ لگا ہے۔ قدم قدم پر برائیوں کے پھندے لگائے بیٹھا ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ نیکی میں بھی بدنیتی کی آلائشیں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جہاد، شہادت، قربانی، تلاوت و دروسِ قرآن، اِنفاق، عبادات، غرض ہر نیکی کو ریا اور دکھاوے جیسی غیر محسوس برائیوں کے ذریعے ایسے کر دیتا ہے جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔
رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اسی حقیقت کی خبر دے رہے ہیں کہ قدم قدم پر جنت کی ہوائیں بھی ہیں اور دوزخ کی لپٹیں بھی۔ اب دونوں راستوں میں سے ایک کا انتخاب ہم میں سے ہر شخص نے خود کرنا ہے۔ پروردگار اسی انتخاب کے مطابق توفیق عطا کر دے گا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوہریرہ! کیا میں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانے کی طرف آپ کی رہنمائی نہ کروں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسول اللہ! آپ نے فرمایا: وہ خزانہ ہے: لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم (اللہ علی و عظیم کی مدد کے بغیر، کسی کے بس میں کوئی قوت و قدرت نہیں)۔ بندہ جب یہ کلمات کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے مجھ پر بھروسا کیا اور (اپنے تمام معاملات) میرے سپرد کر دیے۔ (مسنداحمد، ترمذی)
بندے کے دل میں یہ یقین راسخ ہونا ضروری ہے کہ کارخانۂ قدرت میں ہر چیز صرف اور صرف پروردگار کی محتاج ہے۔ اللہ کے فیصلے،اس کی توفیق اور اس کی قوت و قدرت کے بغیر کوئی پتّا اور کوئی ذرّہ بھی حرکت نہیں کرسکتا۔ انسان جس کے بارے میں خالق نے خود فرمایا کہ ’’کمزور پیدا کیا گیا ہے‘‘، ہر لمحے اور ہر حال میں اللہ کا محتاج ہے۔ اللہ کی حفاظت نہ رہے تو خوشیوں میں آپے سے باہر ہو کر بندگی کے دائرے ہی سے نکل جاتا ہے۔ مشکلات یا مصیبتیں آئیں تو مایوسی اور ہلاکت کی جہنم میں جا گرتا ہے۔ اقتدار و اختیار ملے تو خود کو فرعون اور دوسروں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے لگتا ہے۔ اختلافات کا شکار ہو تو اپنے ہی بھائیوں کے خون سے ہاتھ رنگ لیتا ہے، برائیوں اور اخلاقی غلاظت سے آلودہ ہو جائے تو جانوروں سے بدتر اور ذلیل ہو جاتا ہے۔ ایسے کمزور انسان کو شیطان ہر دم اپنے چنگل میں جکڑے رکھتا ہے لیکن اگر بندہ اس یقین کے حصار میں آ جائے کہ لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم تو رحمن کی رحمت اس خود سپردگی پر جھوم اُٹھتی ہے، کمزور بندوں کو تمام کمزوریوں اور شیطانی چالوں سے نجات و حفاظت عطا کر دیتی ہے۔ اسی لیے فرمایا: ’’جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ‘‘۔
حضرت ابو ایوب انصاری کی روایت کے مطابق جب سفر معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو ابو الانبیاء نے فرمایا: اے محمد(ﷺ) اپنی اُمت کو جنت میں اپنے لیے فصلیں بونے کا حکم دے دیجیے۔ آپ نے دریافت کیا: جنت کی فصل کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا: لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ وہ مختصر اور تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری، 6415)
اسلام کسی وقتی اُبال، عارضی طور پر اپنا لیے جانے والے اعمال، یا موسمی شغل اشغال کا نام نہیں، ہمہ وقت اور ہمہ پہلو اطاعت کا نام ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ سمیت سب نیکیاں یہی ہمہ وقتی خود سپردگی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اسی کو تقویٰ کہتے ہیں۔ قرآن میں تمام عبادات کا اصل ہدف یہی بتایا گیا کہ شاید تم اس سے تقویٰ حاصل کرسکو۔ احساسِ اطاعت کے تحت ہمیشہ کیا جانے والا چھوٹا سا کام بھی اللہ کے نزدیک انتہائی محبوب ہے۔ ہمیشگی ایک چھوٹے سے عمل کو بھی بڑا بنا دیتی ہے۔
بندے کی مختصر سی نیکی پسند آ جائے تو پھر یقیناً بندہ بھی خالق کا محبوب بن جاتا ہے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مفصل حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: خبردار! اللہ کی کتاب اور اقتدار جدا جدا ہونے والے ہیں۔ ایسے میں کبھی کتابِ الٰہی سے جدا نہ ہونا۔ خبردار! تم پر ایسے لوگ حکمران ہو جائیں گے جو تمھارے بارے میں (قرآنی تعلیمات کے خلاف) فیصلے کیا کریں گے۔ اگر ان کی اطاعت کرو گے تو وہ تمھیں گمراہ کر دیں گے اور اگر ان کی نافرمانی کرو گے تو وہ تمھیں موت کے گھاٹ اُتار دیں گے۔ صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! ایسا ہو تو ہم کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: وہی جو عیسیٰ بن مریم کے ساتھیوں نے کیا: انھیں آروں سے چیرا گیا، تختۂ دار پر لٹکایا گیا (لیکن انھوں نے حق کا ساتھ نہ چھوڑا)۔ اللہ کی اطاعت میں موت، اللہ کی نافرمانی میں زندگی سے زیادہ بہتر ہے۔ (طبرانی)
رحمن کے قرآن اور ہوس اقتدار کے مارے حکمرانوں کی راہیں یقیناً جدا جدا ہیں۔ ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے راہِ نجات واضح فرما دی کہ جان جائے تو جائے لیکن قرآن کا دامن چھوٹنے نہ پائے۔ اقتدار اگر اغیار کی غلامی پر تل جائے، اپنے ہی بھائیوں کو تہِ تیغ کرنے کے لیے دشمن کا سہارا بن جائے، لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والوں کو اقتدار کی چھتری فراہم کیے رکھے، فریب، جھوٹ، وعدہ خلافیوں اور اپنی قوم سے دغا بازی کو اپنا وتیرا بنا لے، عوام پر بھوک، بدامنی اور بدحالی مسلط کر دے، خود بھی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو اور قوم کو بھی اسی غلاظت کی نذر کر دے، تو اس اقتدار اور ان حکمرانوں سے اعلان برأت ناگزیر ہے۔ قوم اگر اللہ کی نافرمانی میں زندہ رہنے کے بجائے، اس کی اطاعت میں موت قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے تو پھر ایسے حکمرانوں سے نجات کی راہیں بھی کھل جاتی ہیں کیونکہ غالب تو بہرحال اللہ کے قرآن ہی نے رہنا ہے۔ ہزاروں فرعون و شداد آئے اور تباہ ہو کر نشانۂ عبرت بن گئے۔ قرآن اور اس سے وابستہ افراد ابد تک سربلند رہیں گے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ میل جول رکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں ملنے والی تکلیف و اذیت پر صبر کرتا ہے، وہ اس سے بہتر ہے کہ جو نہ لوگوں سے میل ملاپ رکھتا ہے، اور نہ ان کی طرف سے ملنے والی تکالیف پر صبر کرتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4032)
الگ تھلگ اور لوگوں سے کٹ کر رہنا، انسان کو بہت سی ممکنہ تکالیف سے محفوظ رکھتا ہے، لیکن ایک مومن ہمیشہ اجتماعیت سے جڑا رہتا ہے۔ تمام عبادات، پوری دعوتی، تربیتی، تحریکی اور معاشرتی زندگی، لوگوں کے اندر رہے بغیر ممکن ہی نہیں۔ رحمۃ للعالمینﷺ خود بھی صحابہ کے شانہ بشانہ اور ان میں گھل مل کر رہتے۔ ایسا بھی ہوا کہ کسی بدو نے آ کر شان میں گستاخی کر دی، لوگوں کی زبان ہی نہیں، ہاتھ سے بھی تکلیف پہنچی، لیکن آپ نے نہ صرف خود اس باہمی ربط کو نہ توڑا، بلکہ امت کو بھی یہی ترغیب دی۔ رہی اس کے نتیجے میں پہنچنے والی تکالیف، تو آپ نے ایک لفظ میں شافی علاج بتا دیا: صبر___ اور اللہ کی خاطر صبر___ دنیا اور آخرت میں کامیابی کی راہ یہی ہے۔
۞
حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو لشکر کا قائد بناکر بھیجا۔ اس نے ایک جگہ آگ روشن کی اور لشکر سے کہا: اس میں کود جاؤ۔ کچھ لوگوں نے اس کی بات مانتے ہوئے آگ میں کود جانے کا فیصلہ کر لیا۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ نہیں آگ ہی سے بچنے کے لیے تو ہم مسلمان ہوئے ہیں۔ واپس آکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعے کا ذکر کیا گیا تو جن لوگوں نے آگ میں کود جانے کا ارادہ کیا تھا ان سے مخاطب ہوکر آپ نے فرمایا: اگر تم آگ میں جاکودتے تو قیامت تک اسی میں رہتے۔ اور جن لوگوں نے آگ میں کودنے سے انکار کیا تھا آپ نے ان کی تحسین کی اور فرمایا: اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے کسی شخص کی اطاعت نہیں کی جا سکتی۔ اطاعت صرف نیکی کے کاموں میں ہے (مسلم، حدیث 3224)
مطلق اطاعت کا حق صرف رب ذو الجلال کے لیے ہے۔ باقی تمام اطاعتیں اسی بزرگ و برتر ہستی کی اطاعت سے مشروط ہیں۔ مذکورہ لشکر کا سربراہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقرر کردہ تھا، لیکن حکمت الٰہی نے اپنے حبیب کے امتیوں کی تعلیم کا انتظام کرنا تھا۔ یہ واقعہ روپذیر ہوا اور صحابہ کرام کے ذریعے پوری اُمت کو درس حاصل ہو گیا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سب پر مقدم ہے۔
اسی حدیث سے سمع و طاعت کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے، اگرچہ سربراہ کے حکم پر عمل نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن کئی صحابۂ کرام جذبۂ اطاعت میں اس کے لیے بھی تیار ہو گئے۔ حکم چونکہ اللہ کی تعلیمات کے صریحاً منافی تھا، اس لیے سب صحابہ کرام نے اتفاق راے سے اس پر عمل نہ کیا اور خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی تائید و تحسین فرمائی کہ اسلام اور اسلامی تحریک میں شمولیت کا اصل مقصد ہی رب کی اطاعت اور اس کی آگ سے بچنا ہے۔
حدیث یہ بھی واضح کرتی ہے کہ خودکشی کرنا اللہ کی صریح نافرمانی ہے۔ اللہ کی آگ سے بچنے کے اُمیدوار اس حرام فعل سے اجتناب کرتے ہیں۔
زندگی کے ہر گوشے کے لیے سنہری اور ابدی اصول عطا ہو گیا، خالق کی نافرمانی کرتے ہوئے مخلوق میں سے کسی کی ___ جی ہاں، کسی کی بھی اطاعت نہیں کی جا سکتی۔
۞
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے زہر پی کر خودکشی کی، جہنم کی آگ میں جاکر بھی اس کے ہاتھ میں زہر ہی ہو گا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہیں رہ کر بار بار زہر پی کر، بار بار مرتا رہے گا۔ (ابوداؤد، حدیث 3872)
زندگی اللہ کی امانت ہے۔ انسان کسی کی تو کجا، اپنی جان بھی نہیں لے سکتا۔ اگر کوئی اس جرم کاارتکاب کر لے تو یہ نہیں کہ بس مرگیا اور قصہ ختم، وہی اقدامِ خودکشی اس کی ابدی سزا بن جاتا ہے۔ دوسری احادیث میں ہے کہ کوئی بلندی سے خود کو گرا کر مرگیا تو وہ بار بار اسی طرح زندہ کیا جاتا رہے گا اور اسی طرح گر گر کر مرتا رہے گا۔ کسی نے تلوار یا کسی بھی ہتھیار سے خود کو قتل کر لیا وہ بھی اسی طرح___ زندگی کی پریشانیوں، مصیبتوں یا غصے کا علاج اور احتجاج کا راستہ خودکشی نہیں ہوسکتا، یہ تو ہمیشہ کا عذاب ہے۔
۞
حضرت عبد اللہ بن بریدہ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ اس نے بدعہدی کی اور ان کے درمیان قتل و غارت نہ بڑھ جائے۔ کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ اس میں فحاشی عام ہو جائے اور اس پر موت نہ مسلط ہو، اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ زکوٰۃ دینا چھوڑ دے اور اللہ نے اس کی بارش نہ روک لی ہو۔ (مستدرک حاکم، حدیث 2529)
عہد کی پاس داری، قرآن اور حدیث کی پاس داری ہے۔ انسان کی معاشرتی، معاشی، سیاسی زندگی اور لاتعداد اجتماعی مسائل کا حل اسی ایک اصول کی پابندی کا مرہون منت ہے۔ عہد کی خلاف ورزی سے اختلافات پیدا ہوں گے اور بالآخر نتیجہ جھگڑوں اور قتل و خوں ریزی کی صورت میں نکلے گا۔یہ اصول ابدی اور جامع ہے۔
حدیث سے دوسری اہم بات یہ واضح ہوئی کہ حیاداری نہ رہے تو معاملہ انسانی ضمیر اور نسل انسانی کی موت تک جاپہنچتا ہے۔ ایڈز جیسی ہلاکتوں کا رونا رونے اور اس کا مقابلہ کرنے لیے معصوم بچوں میں بے حیائی کی تعلیم کا پرچار کرنے والے ذرا یہ نسخۂ ’حیاداری‘ آزما کر تو دیکھیں، رسول رحمت کی حقانیت واضح ہو جائے گی۔
تیسرا اصول یہ عطا ہوا کہ زکوٰۃ کی ادایگی برکت ہی برکت ہے، رسول اکرم فرماتے ہیں کہ صدقات سے مال ہمیشہ بڑھتا ہی ہے، کبھی کم نہیں ہوتا۔ ہاں، جو بندہ مال کی محبت میں گرفتار ہو کر سمجھے کہ مال روک کر رکھنے سے مال بڑھے گا، وہ جان لے کہ پھر صرف وہی نہیں، پورا معاشرہ قحط سالی کا شکار ہو جائے گا۔
۞
حضرت علی کا ارشاد ہے کہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی سے یہ کہہ کر مخاطب ہوتے ہوئے نہیں سنا کہ: ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان‘‘ سوائے سعد بن مالک کے۔ آپ غزوۂ اُحد کے دوران انھیں فرمارہے تھے: ’’سعد تیر چلاؤ، میرے ماں باپ تم پر قربان!‘‘۔ (بخاری، حدیث 4059)
پوری کائنات جس ہستی پر فدا ہونا اپنے لیے اعزاز سمجھے وہ خود کسی کو کہہ دے ’’میرے ماں باپ تم پر قربان‘‘۔ سبحان اللہ! اس اعزاز و مرتبے پر جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے، لیکن ہم امتیوں کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ حضرت سعد کو یہ مقام و مرتبہ کیوں کر حاصل ہوا؟ غزوۂ اُحد کے واقعات اسی سوال کا جواب ہیں۔ ایسے وقت میں کہ جب مسلمانوں پر انتہائی کڑا وقت تھا، لشکر اسلام پر اچانک دوبارہ ہلہ بول دیا گیا تھا___ صحابۂ رسول رضی اللہ عنہم شہید ہورہے تھے ___ حضرت سعد تاک تاک کر دشمن پر تیر برسارہے تھے۔ یہی وہ لمحات تھے کہ جب حضرت سعد کو تاریخ کا سب سے منفرد اعزاز حاصل ہو گیا۔
آج جب پوری اُمت پر ادبار کا عالم ہے۔ دنیا کے سب ابلیس یک جا ہوکر حملہ آور ہیں، کون ہے جو حضرت سعد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دفاعِ اُمت کے لیے ان کی سی مہارت حاصل کرے۔ اُس وقت کے تیر آج ہر نوع کی عسکری، علمی، اقتصادی قوت اور ٹکنالوجی کے تمام جدید ذرائع کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ قرآن نے ایک لفظ میں پورا مضمون سمو دیا:ما استطعتم ’’جو کچھ بھی تمھارے بس میں ہے‘‘ دشمن کے مقابلے کے لیے تیار کرو۔
۞
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر قیامت کی گھڑی آ جائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں ایک بیج (یا پنیری) ہو جسے وہ بونا چاہ رہا ہو، تو اگر ایسا ممکن ہو کہ قیامت واقع ہو جانے سے پہلے پہلے وہ اسے بودے تو ضرور بودے۔ (مسند احمد، حدیث 13004)
جب قیامت ہی آ جائے گی تو ظاہر ہے سب کچھ ختم ہو جائے گا، لیکن اس تمثیل کے ذریعے، معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم عمل اور محنت کی عظمت بیان فرمارہے ہیں۔ رزق حلال کے حصول، اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی، معاشرے کی تعمیر و ترقی، دفاع اُمت اور انسانیت کی خدمت و فلاح کی خاطر آخری سانس تک کوشش، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلوب و محبوب ہے۔
۞
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چاہتا ہے کہ مصیبت کے لمحات میں اللہ اس کی دُعا قبول فرمائے، اسے چاہیے کہ عافیت کے لمحات میں زیادہ سے زیادہ دُعا کرے (ترمذی، حدیث 3382)
آزمایش اور مصیبت کے لمحات میں مسلمان ہی نہیں کفار بھی، اللہ ہی کو پکارنے لگ جاتے ہیں۔ بندے اور رب کے مابین تعلق کی اصل پرکھ، سُکھ کے لمحات میں ہوتی ہے۔ آسودہ حالی میں بندہ اپنے رب کو یاد رکھے، اس کے سامنے جھولی پھیلائے رکھے، اس کے ساتھ کیے گئے وعدوں کا پاس کرے، تو وہ غفور و رحیم ذات، تنگی، پریشانی اور مصیبت کے لمحات میں اپنے بندے کو یاد رکھتی ہے۔ پروردگار کی عطائیں جاری رہتی ہیں اور وہ بندے کی دُعاؤں کی لاج رکھتا ہے۔
عافیت کو عام طور پر صحت و تندرستی کا مترادف سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کا مفہوم بے حد وسیع اور زندگی کے ہر گوشے کا احاطہ کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر دُعا فرمایا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَ تَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ،
’’پروردگار میں تیری نعمتوں کے زوال اور تیری عافیت کے اُٹھ جانے سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘۔ دُنیا میں کتنے انسان ہیں جو خوش و خرم زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں اور اچانک عافیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اس کا تصور ذہن میں لاتے ہوئے اب ذرا حدیث اور اس کے مفہوم کا دوبارہ مطالعہ کرکے دیکھیے، رب سے کس طرح کا تعلق مطلوب ہے۔
۞
حضرت ثوبان سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اپنی امت کے ان لوگوں کو جانتا ہوں کہ جن کی نیکیاں قیامت کے دن کوہِ تہامہ جتنی بلند ہوں گی اور خوب چمک رہی ہوں گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو راکھ کے ڈھیر کی طرح اڑا دے گا۔ میں نے عرض کی:
یارسولﷺ اللہ ! ذرا ان لوگوں کی صفات بیان فرما دیں، ہمیں ان لوگوں کے بارے میں واضح طور پر بتا دیں، کہیں یہ نہ ہو کہ ہم بھی لاعلمی میں انھی لوگوں میں شمار ہو جائیں؟
آپﷺ نے فرمایا: وہ لوگ تمھارے ہی بھائی ہیں، تم ہی میں سے ہیں، تمھاری ہی طرح قیام اللیل کرتے ہیں، لیکن جب تنہائی میں ہوتے ہیں تو انھیں اللہ کی حدود پھلانگنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ (ابن ماجہ، حدیث ۴۲۴۵)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی صفات کی روشنی میں دیکھیں تو بظاہر نیک بندے کی تصویر ذہن میں آتی ہے۔ مسلمانوں ہی میں سے، انھی ہی کی طرح عبادات کا خوگر، فرائض سے بڑھ کر نوافل و تہجد تک کا اہتمام کرنے والا، روشن و چمک دار نیکیوں کے بلند پہاڑ اپنے ساتھ لے کر جانے والا، لیکن ایسا بدنصیب کہ بالآخر ساری محنت پر پانی پھیر دینے والا۔
اس بُرے انجام کا سبب؟۔ لوگوں کے سامنے تو برائی اور گناہوں سے اجتناب، لیکن تنہائی میں اللہ کے حرام کردہ اُمور کا ارتکاب۔ پارسائی کا دعویٰ اور غلط فہمی، لیکن اس دعوے کی اصل جانچ میں ناکامی۔ آج شیطانی دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار فحاشی و عریانی اور مالی و اخلاقی کرپشن ہے، فرمان نبویﷺ میں اس ابلیسی وار سے بچنے کے لیے اصل ڈھال فراہم کر دی گئی ہے: کھلے اور چھپے ہر حال میں اللہ کا خوف، ہر دم اللہ کی یاد۔ صحابہ کرام کی حرص آخرت بھی دیکھیے کہ فوراً دھڑکا لگ گیا، یہ نہ ہو کہ پتا ہی نہ چلے اور ہم بھی انھی میں شمار ہو جائیں۔
۞
حضرت معاویہ بن حَیدَہ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین طرح کے لوگ ہیں جن کی آنکھیں (جہنم کی) آگ نہیں دیکھیں گی۔ ایک وہ کہ جن کی آنکھ اللہ کی راہ میں پہرہ دیتی رہی، دوسرے وہ کہ جن کی آنکھ اللہ کے خوف سے رو دی، اور تیسرے وہ کہ جس نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے نگاہوں کو بچا لیا (بروایت طبرانی جسے علامہ البانی نے صحیح قرار دیا)
اسلامی ریاست اور اہل اسلام کی حفاظت، رضائے ربانی کا ذریعہ بنتی ہے، بشرطیکہ یہ کام صرف اللہ کی رضا کی خاطر کیا جائے۔ ترقی و کمال بھی اس اخلاص و محنت کا ایک طبعی نتیجہ ہے، لیکن اصل قوت محرکہ نہیں۔ یہاں اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسلمانوں کی حفاظت کی خاطر صرف جاگنے کا اجر یہ ہے، تو مسلمانوں کے خلاف جنگ کا حصہ بننا، جا بجا دھماکے، فائرنگ اور آتش زنی سے تباہی پھیلانا، لوگوں کی جان و مال، عزت و آبرو کو برباد کرنا، رب کی کتنی ناراضی اور مجرموں کے لیے کتنے عذاب کا سبب بنے گا۔
اللہ کے خوف سے آنکھیں نم ہو جانا، سوزِ دل اور اللہ سے تعلق کا سب سے اہم مظہر ہے۔ وہ نارِ جہنم کہ جس سے دنیا کی شدید سے شدید آگ بھی پناہ مانگتی ہے، بندے کی چشم نم سے بجھائی جا سکتی ہے۔ پھر وہ آنکھ جس نے اللہ کی محرمات سے آنکھیں پھیر لیں، جہنم سے چھٹکارا پا گئی___ آج جب قدم قدم پر فحاشی، اخلاقی غلاظت اور شیطانی ثقافت کا بازار گرم کیا جا رہا ہے، اس حدیث کو یاد رکھنے کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔
آئیے ذرا خوب دھیان سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات دوبارہ سنتے ہیں: یہ تینوں ’’آنکھیں جہنم کی آگ نہیں دیکھیں گی‘‘۔ سبحان اللہ! یہ نہیں فرمایا کہ جہنم میں نہیں جائیں گی، بلکہ فرمایا جہنم کی جھلک تک نہیں دیکھیں گی۔ اَللّٰھُمْ أجِرنَا مِنَ النَّارِ، پروردگار ہمیں جہنم کی آگ سے بچا۔ آمین!
۞
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی خادم کو یا خاتون کو نہیں مارا تھا، بلکہ آپ نے میدان جہاد کے علاوہ کبھی کسی کو نہیں مارا۔ اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کاموں میں سے ایک کو اختیار کرنا پڑا ہو اور آپ نے دونوں میں سے آسان تر کو پسند نہ کیا ہو،الا یہ کہ اس میں اللہ کی ناراضی کا کوئی پہلو ہو۔ اگر کسی کام میں گناہ کا کوئی پہلو ہوتا، تو آپ اس کام سے سب سے زیادہ دور رہنے والے ہوتے۔ آپ نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا۔ ہاں، اگر اللہ کی حدیں پامال ہو رہی ہوتیں، تو پھر آپ اللہ کی خاطر انتقام لیتے۔ (مسند احمد، ابن ماجہ، حدیث ۱۹۸۴)
ربیع الاول میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبت و عقیدت نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے۔ عشق و احترامِ نبی کے روشن تر ان لمحات میں، سیرت اطہر کا مطالعہ ایمان میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اُم المومنین رضی اللہ عنہا سے مروی اس حدیث میں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی تین اہم صفات و عادات ہر اُمتی کو دعوتِ فکر دے رہی ہیں۔
پہلی یہ کہ آپﷺ نے کبھی کسی کو تکلیف نہ پہنچائی، میدان جہاد کے علاوہ کبھی کسی کو نہ مارا۔ ہتھیار تو دور کی بات ہے کہ اس سے کسی کی طرف مزاحاً اشارہ کرنا بھی جہنم میں جگہ بنانا ہے، ہاتھ سے بھی کسی کو نہ مارا، کسی کمزور سے کمزور کو بھی نہیں۔ انسانی خون کی ہولی کھیلنے والے اگر مسلمان ہیں تو کس منہ سے عشق و محبت کا دعویٰ کرسکیں گے۔
دوسری یہ کہ اگر گناہ کے زمرے میں نہ آتی ہو تو ہمیشہ آسانی کو پسند کیا۔ دوسروں کو بھی یہی تعلیم دی کہ ’’یَسِّرُوا، آسانیاں پیدا کرو‘‘۔ اس سنہری اور جامع اصول کا اطلاق بھی، زندگی کے ہر گوشے پر ہوتا ہے، دین و مذہب سے لے کر حکومت و اقتدار تک۔ تحریک و جماعت سے لے کر ملازمت و بیوپار تک۔ خود پر وہ بوجھ مت ڈالو جو خالق نے نہیں ڈالا، اور اگر کسی معاملے میں دو راستے میسر ہیں اور کسی میں بھی اللہ کی نافرمانی نہیں، تو آسان کو مشکل پر ترجیح دو۔
تیسری یہ کہ اپنی ذات کے لیے انتقام، نبی کا شیوہ نہیں۔ ہاں، اگر کوئی خالق ہی کو ناراض کرنے پر تل جائے، تو آیندہ اسے اور دوسروں کو اس کارِ بد سے باز رکھنے کے لیے سزا بھی ناگزیر ہو جاتی ہے۔
۞
حضرت جابر بن عبد اللہ اور ابو طلحہ بن سہل انصاری سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو ایسے وقت میں تنہا چھوڑ دیتا ہے کہ جب اس کے جان و مال اور اس کی عزت پر حملہ ہو رہا ہو، تو اللہ تعالیٰ بھی اس شخص کو ایسے وقت میں تنہا چھوڑ دیتا ہے جب و ہ خود اللہ کی نصرت کا محتاج ہوتا ہے۔ اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ جو ایسے وقت میں اپنے بھائی کی نصرت کرے کہ جب اس کے جان و مال اور اس کی عزت پر حملہ ہو رہا ہو، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی نصرت ایسے وقت میں نہ کرے کہ جب وہ اللہ کی نصرت کا محتاج و طالب ہوتا ہے۔ (ابوداؤد، حدیث ۴۸۸۴)
بندہ سمجھتا ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کر رہا ہے حالانکہ درحقیقت وہ اپنی ہی مد د کر رہا ہوتا ہے۔ بندہ اپنے بھائی کے کام آتا ہے تو رب کائنات خود اس بندے کا نگہبان بن جاتا ہے۔ مسلم کی طویل حدیث کے مطابق ’’اللہ تب تک خود بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک کہ وہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے‘‘۔
رب کا انصاف ہر شے سے بالاتر ہے، جس نوع کی نیکی، اسی طرح کا اس کا اجر، اور جس طرح کا جرم، اسی نوع کی سزا و عذاب۔ افراد ہی نہیں اقوام و ممالک بھی اس حدیث کی روشنی میں اپنے حال و مستقبل کا فیصلہ خود کرسکتے ہیں۔ روزمرہ کے معمولات سے لے کر بین الاقوامی مسائل تک، اللہ نے یہ فیصلہ بندے پر چھوڑ دیا کہ وہ رب کی نصرت چاہتا ہے یا اس کی سزا و عذاب!
۞
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پر دوست بننے والے دو افراد میں اگر کبھی کوئی اختلاف و رنجش پیدا ہو جاتی ہے، تو اس کی اصل وجہ، دونوں میں سے کسی ایک سے گناہ کا سرزد ہو جانا ہے۔ (بخاری)
نیک و پُر خلوص دوست اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، اور اگر دوستی اللہ کی خاطر ہو تو دوجہاں میں اللہ کی محبت عطا کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ اسلام کی خاطر دوست دو افراد کو، خالقِ کائنات اس روز اپنے عرش کے سایے تلے جگہ دے گا جب کوئی اور سایہ میسر نہ ہو گا۔
دیگر نعمتوں کی طرح اس نعمت کے زوال کا اصل سبب بھی اللہ کی نافرمانی ہے۔ اگر اتنی عظیم نعمت کے چھن جانے کا سانحہ رو پذیر ہو جائے، تو جائزہ لیں کہ کیا گناہ سرزد ہوا ہے۔ یہ کافی نہیں کہ جب کوئی غلطی اور گناہ تلاش کریں تو وہ بھی صرف دوسروں میں۔ اگر ہر بندہ دیکھے کہ مجھ سے کیا گناہ سرزد ہوا تو پھر اس کا مداوا و استغفار ان شاء اللہ نعمت کی بحالی و دوام کا سبب بنے گی۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ غلطی و گناہ اس فرد سے درپیش معاملات ہی میں تلاش کیا جائے۔ کوئی بھی گناہ، زوالِ نعمت کا سبب بن سکتا ہے۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک طویل دُعا میں اللہ تعالیٰ سے یہ بھی درخواست ہوئی: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ، پروردگار میں تیری نعمتوں کے زوال سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
۞
حضرت مسروق نے حضرت عبد اللہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب بھی کوئی بے گناہ قتل ہوتا ہے، تو اس کے قتل کے گناہ میں سے ایک حصہ، آدم علیہ السلام کے اس بیٹے کو ملتا ہے (جس نے اپنے بھائی کو قتل کیا تھا) کیونکہ اس نے سب سے پہلا خون بہایا۔ (بخاری، ۷۳۲۱)
نیکی ہو یا بدی، اپنا ابدی اثر رکھتی ہے۔ بندے کا عمل نیک ہو اور دوسروں کے لیے بھی نیکیوں یا استفادے و منفعت کا سبب بنے، تو اجر و ثواب کا سلسلہ قیامت تک بھی جاری رہ سکتا ہے۔ ایک بار کیا جانے والا عمل، صدقۂ جاریہ میں بدل جاتا ہے۔
یہی عالم برائی کا ہے جو برائی جس نے ایجاد یا متعارف کروائی، اپنے قول یا عمل کے ذریعے، دانستہ یا نادانستگی میں دوسروں تک پہنچائی، تو وہی ایک بار کیا جانے والا گناہ، سیئات جاریہ میں بدل جاتا ہے۔ جب تک وہ برائی ہوتی رہے گی، وہ فحش بات دہرائی جاتی رہے گی، اس برائی کا آغاز و تعارف کروانے والے کو برابر کی سزا ملے گی۔ بے لباسی، بے حیائی، بسنت، بھتہ، تعصبات کی آب یاری، قتل و غارت، ضمیر فروشی، ملک و قوم سے غداری، منشیات کی لت، ذرائع ابلاغ کی بے راہ روی، غرض کوئی بھی گناہ ہو، بعد میں آنے والے کو جتنی سزا ملے گی، اتنی ہی پہلے والے کو بھی ملے گی۔ والعیاذ باللّٰہ!
۞
حضرت ابوبکرۃ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کسی مسلمان کے قتل میں تمام اہل ارض و سما بھی شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو منہ کے بل جہنم میں پھینک دے گا (طبرانی، ۵۶۵)
خالق کو اپنی ہر مخلوق عزیز ہے اور اس کی زندگی یا موت کا فیصلہ اس نے صرف اور صرف اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔مخلوق میں سے کوئی اگر خود کو دوسروں کی زندگی کا مالک سمجھنے پر تل جائے، تو خالق پھر اسے وہ سزا دیتا ہے جو کسی دوسرے کو نہیں دیتا۔
مومن کی زندگی کا معاملہ تو اور بھی نازک ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ مبارکہ میں ایک مومن کا قتل اللہ کے نزدیک،زمین و آسمان کے زوال سے بھی زیادہ سنگین ہے۔قتل تو ایک یا چند افراد ہی کریں گے لیکن زیر نظر ارشاد نبویﷺ کے مطابق، اس میں جتنے بھی افراد شریک ہوں،اللہ تعالی سب کو جہنم رسید کرے گا، خواہ دنیا جہاں کی تمام مخلوق ہی اس کی زد میں کیوں نہ آ جائے۔ قرآن عظیم کے الفاظ میں: وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہ وَاَعَدَّلَہ عَذَابًا عَظِیْمًا o (النساء۴: ۹۳) ’’رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے‘‘۔
ذرا آیت کو دوبارہ پڑھتے ہوئے گنیں، ایک نہیں دو نہیں،اکھٹی چار سزائیں اور سب ایک دوسرے سے زیادہ کڑی اور سنگین۔ یہ آیات و احادیث صرف قاتلوں ہی کے لیے نہیں معاشرے کے لیے بھی سوالیہ نشان ہیں کہ اس نے قاتلوں کا ہاتھ روکنے کے لیے کیا کیا؟ ان کا ہاتھ روکنے کی کوشش کی یا کسی خوف و لالچ کی خاطر ان ہی کے ساتھی بنے رہے۔
۞
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمیشہ درست اعمال کیا کرو۔ خود کو حق سے قریب تر رکھنے کی کوشش کیا کرو، اور (رحمتِ الٰہی کی) خوش خبری دیتے رہا کرو، (اور یاد رکھو) کسی کو بھی اس کا عمل جنت میں نہیں لے جائے گا۔ صحابہ کرام نے عرض کی : یارسولﷺ اللہ! آپﷺ کو بھی نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں، مجھے بھی نہیں،الا یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لے۔ (بخاری، کتاب الرقاق، ۶۴۶۷)
سبحان اللہ، شافع محشر بھی اپنے عمل پر نہیں، صرف اور صرف رحمت خداوندی پر بھروسا رکھتے ہیں۔ مجرد تواضع اورانکساری کی خاطر نہیں، بلکہ عبودیت کے کمال درجے پر پہنچتے ہوئے فرماتے ہیں: ہاں، رحمت ربی شامل حال نہ ہو تو مجھے بھی میرا کوئی عمل جنت میں نہ لے جائے گا۔
حدیث میں انتہائی شدید وعید بھی ہے اور اتنی ہی عظیم خوش خبری بھی۔ وعید یہ کہ خبردار تمھاری ٹوٹی پھوٹی نیکیاں،یا تمھارے دینی مناصب تمھیں کسی غلط فہمی یا غرور کا شکار نہ کر دیں۔ انسان ساری عمر بھی حمد و تسبیح اور اعمالِ صالحہ میں گزار دے، تب بھی جب تک رحمتِ حق کی آغوش میسر نہ ہو،کچھ نتیجہ نہ نکلے گا۔ خوش خبری یہ ہے کہ حق اور بھلائی کے پیمانے پر خود کو ناپتے رہا کرو۔اپنے تئیں اعمال کو درست اور سیدھا رکھنے کی کوشش کرتے رہا کرو اور پھر مایوسی نہیں خوش خبری پھیلاؤ کہ اللہ کی رحمت عطا ہو کر رہے گی۔
۞
حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نیک اعمال کرنے میں جلدی کیا کرو۔ فتنے رات کی تہہ در تہہ تاریکی کی طرح امڈتے چلے آئیں گے۔کئی مومن بھی صبح کے وقت ایمان کی حالت میں ہوں گے اور شام کفر کے عالم میں کریں گے۔ دنیا کی حقیر متاع کے لیے دین کا سودا کر لیں گے۔ (مسلم، کتاب الایمان، ۳۱۳)
دل میں نیکی کا ارادہ بھی اللہ کی عطا ہے۔ اللہ کی اس دین کو سُستی اور آیندہ پر ٹالتے چلے جانا، زوالِ نعمت کا سبب بنتا ہے۔ شیطان ہر نیکی اور نیک ارادے کو اکارت کرنے پر تلا رہتا ہے۔ بے عملی کو بد عملی میں بدلنے میں دیر نہیں لگاتا۔ یہاں تک کہ ایک بندۂ مومن اپنے قیمتی ترین سرمایے،یعنی ایمان کو، مچھر کے پَر سے بھی حقیر دنیا کے عوض بیچ دیتا ہے۔ یہ کام اتنی تیز رفتاری سے طے پاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے سب سے تیز رفتار عمل،یعنی گردش روز و شب اور بالخصوص رات کے وقت امڈی چلے آنے والی تاریکی کی مثال دی۔ ایک کے بعد دوسری آزمایش، ایک کے بعد دوسرا فتنہ، ہر دم چوکنا اور خبردار رہنے کی اہمیت کو واضح کر رہا ہے۔
۞
حضرت عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس سے اس کا رب براہ راست ہم کلام نہ ہو۔ دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہو گا۔ بندہ اپنے دائیں طرف دیکھے گا اسے کچھ دکھائی نہ دے گا، سواے اس کے کہ جو کچھ اس نے آگے بھیجا ہے۔ وہ اپنے بائیں طرف دیکھے گا تو، وہ اپنی آگے بھیجی ہوئی کمائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھے گا۔ وہ اپنے سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم کی آگ کے علاوہ کچھ دکھائی نہ دے گا۔ تو (اے لوگو) آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کا صدقہ دے کر۔ اور اگر اللہ کی راہ میں دینے کے لیے تمھارے پاس کچھ بھی نہ ہو تو اچھی بات کہہ کر ہی آگ سے بچو۔ (بخاری، ۷۵۱۲)
ہر بندے کو اصل فکر مندی اسی لمحے کی ہونی چاہیے جب خود رب ذو الجلال اس سے ہم کلام ہو گا۔ بندے کے ساتھ کچھ باقی رہے گا تو صرف اس کا عمل اور رب رحیم کی رحمت۔ رحمتوں کی طلب اور آگ سے بچاؤ کے لیے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے آسان راہ بتا دی___ اللہ کی راہ میں، صرف اور صرف اس کی رضا کے لیے، زیادہ سے زیادہ خرچ۔ اور کچھ نہیں تو کھجور کا ٹکڑا ہی سہی، وہ بھی نہیں تو خیرخواہی کے دو بول ہی سہی۔ اگر اس سارے عمل کا خلاصہ کہنا ہو تو یہ کہ دوسروں سے بھلائی۔
۞
حضرت ابو سعید خدری رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے جنت کو اس طرح بنایا کہ ایک اینٹ سونے کی، ایک اینٹ چاندی کی اور گارا (یعنی سیمنٹ) کستوری کا۔ پھر اسے کہا: بولو۔ جنت بولی: قَدْ اَفْلَح الْمُؤْمِنُوْنَ، مومنین یقیناً فلاح پا گئے۔ یہ سن کر فرشتوں نے کہا: کیا خوب ہے تو اے بادشاہوں کی رہایش گاہ۔
رہایش گاہ ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ دنیاوی گھر کے لیے ہر شخص کیا کیا خواب دیکھتا اور کیا کیا جتن نہیں کرتا۔ اس کی خاطر حرام کو بھی اپنے لیے حلال کر لیتا ہے۔ بڑے بڑے لینڈ مافیا وجود میں آ چکے ہیں، حالانکہ کسی کو نہیں معلوم کہ چاؤ سے بنائے جانے والے ان گھروں میں رہنا کب تک ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ جن کی تمام تر جدوجہد کا مقصد، آخرت کا ہمیشہ رہنے والا گھر بن جاتا ہے۔ دنیا میں بڑے سے بڑے قارون نے بھی ایسے گھر کا خواب تک نہ دیکھا ہو گا۔ کستوری کا گارا، سونے اور چاندی کی اینٹیں۔ اور ملے گا کس کس کو؟ اللہ کے حکم سے جنت خود جواب دیتی ہے: ’مومنین‘ کو کہ وہاں صرف ایمان و اخلاص اور تقویٰ و اطاعت کا سکہ چلے گا۔
دنیا میں حقیر، ناکام اور مٹھی بھر سمجھے جانے والے افراد کو خوش خبری ہو کہ فرشتے انھیں ’بادشاہوں‘ کے لقب سے یاد کر رہے ہیں، ان کے نصیب پر رشک کر رہے ہیں۔ شرط صرف اخلاصِ عمل اور اپنی ذمہ داری بھرپور انداز سے ادا کر دینے کی ہے۔
۞
حضرت جندب سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے صرف لوگوں کو سنانے کے لیے نیک کام کیا اللہ اس کی اصل حقیقت لوگوں کو سنا دے گا۔ اور جس نے صرف دوسروں کو دکھانے کے لیے نیکی کی، اللہ اس کی حقیقت لوگوں کو دکھا دے گا۔ (بخاری، ۶۴۹۹)
محرومی کی انتہا ملاحظہ ہو کہ بندہ نیکی کر کے بھی نہ صرف اجر و ثواب سے محروم رہا بلکہ خالق و مخلوق دونوں کی نظر سے گر گیا۔ رب ذوالجلال صرف اخلاص اور سچائی کو قبول کرتا ہے۔
۞
حضرت زیاد بن لبید سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ اس وقت ہو گا جب علم اٹھ جائے گا۔ میں نے عرض کی: یارسولﷺ اللہ! علم کیسے اٹھ جائے گا، جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی پڑھاتے ہیں اور ہماری اولاد اپنی اولاد کو پڑھائے گی اور اس طرح یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھاری ماں تمھیں روئے، میں تو تمھیں مدینہ کا سمجھ دار ترین شخص سمجھتا تھا۔ کیا یہ یہودی اور عیسائی تورات و انجیل نہیں پڑھتے، لیکن اس میں جو (احکامات) ہیں ان پر عمل نہیں کرتے۔ (ابن ماجہ حدیث ۴۰۴۸)
سید ابوالاعلیٰ مودودی کے الفاظ میں قرآن کریم شاہ کلید ہے جو مسائل حیات کا ہر قفل کھول دیتی ہے۔ لیکن اگر اس کتابِ حیات اور شاہ کلید کا مقصد صرف طاقوں پر سجانا اور دھو دھو کر پلانا ہی سمجھ لیا جائے، اس نسخۂ کیمیا کو صرف آواز و انداز کے حُسن اور سانس کی طوالت آزمانے کا ذریعہ سمجھ لیا جائے، تو یقیناً کائنات کی عظیم ترین نعمت پاس ہوتے ہوئے بھی، بندہ علمِ حقیقی سے محروم ہو جاتا ہے۔
صحابۂ کرام کو اسی لیے حیرت ہوئی کہ یارسولﷺ اللہ! کتابِ الٰہی ہمارے درمیان ہو گی اور پھر بھی علم نہ رہے گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت و تنبیہ سے عربوں کا معروف جملہ دہراتے ہوئے فرمایا: اپنی کتاب پڑھنے کا دعویٰ تو یہودی اور عیسائی بھی کرتے ہیں لیکن پھر بھی مغضوب علیہم اور ضالین ہو گئے۔
۞
حضرت ابو موسی الاشعری فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے جو علم و ہدایت دے کر بھیجا ہے اس کی مثال (بابرکت) بارش کی طرح ہے۔ کچھ زمین ایسی زرخیز ہوتی ہے کہ اس بارش سے خوب سرسبز و شاداب ہو کر لہلہا اٹھتی ہے۔ کچھ زمین ایسی پتھریلی ہوتی ہے کہ اس سے وہاں کوئی فصل و شادابی تو نہیں ہوتی، البتہ وہ پانی کو محفوظ کر لیتی ہے۔ (خود تو محروم رہتی ہے) لیکن لوگ اس سے خود بھی سیراب ہوتے ہیں اور اپنی فصلوں اور مال مویشی کو بھی سیراب کر لیتے ہیں۔ لیکن کچھ زمین ایسی صحرائی ہوتی ہے کہ نہ تو خود لہلہاتی ہے اور نہ پانی ہی محفوظ کرتی ہے۔ یہی مثال انسانوں کی ہے کہ کچھ نے اللہ کے دین کو سمجھ لیا اور اللہ نے میرے ذریعے بھیجی جانے والی ہدایت کو ان کے لیے فائدہ بخش بنا دیا۔ کچھ نے اس کو خود بھی اسے سیکھا اور دوسروں کو بھی سکھایا، اور کچھ نے اس کی جانب سر اٹھا کر بھی نہ دیکھا، اللہ نے جو ہدایت میرے ذریعے عطا کی ہے اسے قبول نہ کیا۔ (بخاری، حدیث ۷۹)
خیر و برکت کی موسلادھا ر بارش تو باغات، فصلوں، میدانوں، صحراؤں اور چٹانوں پر، ہر جگہ ہوتی ہے لیکن نصیب اپنے اپنے ہیں۔ معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم مثال دے کر سمجھا رہے ہیں کہ گھر آئی نعمت سے خود بھی جھولیاں بھر لو اور دوسروں کے نصیب بھی جگا دو۔
۞
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی بندہ بیمار پڑ جائے یا سفر میں ہو تو بھی اس کے اُن نیک اعمال کا اجر جاری رہتا ہے جو وہ (صحت مندی اور حضر میں) کیا کرتا تھا۔ (بخاری، حدیث ۲۹۹۶)
اللہ کے اجر و احسان کے پیمانے ہی مختلف ہیں۔ بندہ اپنے مہربان خالق کی عطاؤں کا تصور تک نہیں کرسکتا۔ بندہ نیکیوں اور حسن عمل کا خوگر بن جائے، نیت خالص رکھے، تو خدانخواستہ کسی معذوری کی صورت میں بھی ان نیکیوں کا اجر جاری رہتا ہے۔ گویا صحت، عافیت اور راحت کے لمحات میں بندے کی نیکیاں دگنی اہمیت رکھتی ہیں۔ نہ صرف اس لمحۂ موجود میں کامیاب کرتی ہیں بلکہ انھی کی بنیاد پر ہنگامی حالات میں بھی نیکیوں کے کھاتے جاری رہتے ہیں۔
۞
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم روزِ محشر ننگے پاؤں، ننگے بدن اور غیر مختون اٹھائے جاؤ گے۔ حضرت عائشہ نے عرض کی: یارسولﷺ اللہ! مرد و عورت سب اکٹھے۔۔۔؟ سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: صورت حال اتنی شدید ہو گی کہ اس جانب تو کسی کا دھیان تک نہ جائے گا۔ (بخاری، حدیث ۶۵۲۷)
قرآن و حدیث میں مذکور روز محشر کی تمام ہولناکیاں ذہن میں رکھتے ہوئے پھر اس حدیث کا مطالعہ کریں تو اصل بات سمجھ میں آتی ہے۔
انسان بالکل اس حالت میں اٹھائے جائیں گے کہ جس میں پہلی بار پیدا کیے گئے۔ مال و متاع، رشتے ناتے، القاب و عہدے، سب دنیا ہی میں رہ جائیں گے۔ صرف اور صرف بندے کے اعمال ساتھ دیں گے۔ ایک اور حدیث کے مطابق ساری خلقت اپنے اپنے اعمال کے مطابق، پسینے میں ڈوبی ہو گی۔ کچھ ٹخنوں تک اور کچھ لوگوں کا پسینہ ان کے ناک تک پہنچ کر لگام کی صورت میں ان کے منہ میں جا رہا ہو گا۔
حیرانی و پریشانی سے پوچھا گیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سوال دیکھیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جامعیت پر مبنی جواب۔ اس قدر ہولناک صورت حال میں بھلا کس کا دھیان اس جانب جائے گا کہ سب مرد و زن عریاں ہیں۔ سب کو اپنی نجات و آخرت کی فکر لگی ہو گی۔ مطلب یہ ہوا کہ دنیا میں بھی عریانی، فحاشی اور غلاظت و تباہی کا شکار وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو آخرت کی ہولناکیوں سے غافل یا بے خبر ہوں۔
۞
حضرت ابومسعود راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو گذشتہ انبیا کی جو باتیں عطا ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ: ’’اگر تم حیا نہیں کرتے تو جو چاہے کرتے پھرو‘‘۔(بخاری، حدیث ۶۱۲۰)
حیا انسان کا زیور ہی نہیں شیطان کے مقابلے کے لیے، اہم ترین ہتھیار بھی ہے۔ بندہ حیا کھودے تو اس نے سب کچھ کھو دیا۔ گویا پھر وہ اللہ کے ذمے سے نکل گیا، پھر وہ جانوروں سے بدتر ہے جو چاہے کرتا پھرے۔
مختصر حدیث اسلامی تہذیب کا اہم ترین اصول ہے اور اس کا اطلاق کسی محدود اخلاقی دائرے پر نہیں، زندگی کے ہر شعبے پر ہوتا ہے۔ حیا نہ رہی تو ہر معاملے میں حدود سے تجاوز ہو گا۔
۞
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ اسے جسمانی عافیت نصیب ہو، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ پُر امن ہو اور اس کے پاس اس روز کی خوراک ہو، تو گویا اسے ساری دنیا کی نعمتیں جمع کر کے دے دی گئیں۔ (ترمذی، حدیث ۲۳۴۶)
بندہ یہ تو محسوس ہی نہیں کرتا کہ عافیت سلامتی اور اپنوں کا ساتھ بھی کوئی نعمت ہے۔ کسی کے پاس صرف اس روز کے کھانے کا انتظام و گنجایش ہو تو لوگ اسے فقیروں میں بھی آخری درجہ دیتے ہیں۔ لیکن ارشاد نبویﷺ ہے: سمجھو دنیا کی ساری نعمتیں جمع ہو گئیں۔ نعمت کا شکر ادا ہو جائے تو جو خالق آج دے رہا ہے، وہی کل بھی ضرور دے گا۔
اللہ تعالیٰ کسی دنیاوی نعمت کی نفی نہیں کرتا، نہ اس سے منع ہی کرتا ہے لیکن نعمتوں کا احساس و اہمیت، دل و دماغ میں تازہ رہنا چاہیے تاکہ حقیقی شکر ادا ہوسکے اور دل اصل، یعنی آخرت کی کمائی سے جڑا رہے۔
۞
حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھانے کے (دوسری روایت میں ہے گندم کے) ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے۔ آپﷺ نے ڈھیر میں ہاتھ ڈالا تو انگلیوں کو نمی محسوس ہوئی۔ آپﷺ نے اس کے مالک سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: یارسولﷺ اللہ! اس پر بارش ہو گئی تھی۔آپﷺ نے فرمایا: ’’اس گیلی (گندم) کو اوپر کیوں نہ کر دیا کہ لوگ اسے دیکھ سکتے۔جس نے دھوکا دیا وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘۔ (ترمذی، حدیث ۱۳۱۵)
واقعے کے آخر میں فرمائے گئے چند الفاظ انتہائی جامع، بنیادی اور ہلا دینے والے ہیں۔ دھوکا دہی اور جعل سازی جس نوعیت کی ہو، جس میدان میں ہو، امتی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق سے محروم کر دیتی ہے۔ ’’وہ مجھ سے نہیں‘‘ یعنی میرا اس سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔۔۔ العیاذ باللہ۔ تھوڑا سا دنیاوی مفاد اور ہمیشہ کا خسران۔ اے اللہ! ہم سب کو اس نقصان سے محفوظ رکھ!
۞
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینے میں بھی شعبان سے زیادہ روزے نہیں رکھتے تھے۔ آپﷺ تقریباً پورا شعبان ہی روزے رکھتے۔ (بخاری حدیث ۱۸۶۹، مسلم حدیث ۱۱۵۶)
آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان سے کئی ماہ پہلے رمضان کی برکات پانے کی خصوصی دعائیں شروع کر دیتے، گویا مہمان مکرم کے انتظار میں ہیں۔ جیسے جیسے رمضان قریب آتا، ذوق و شوق میں اضافہ ہوتا چلا جاتا۔ ہم بھی ذرا اپنا اپنا جائزہ لیں، دل میں انتظارِ رمضان کی کیا کیفیت ہے؟ پھر یہ بھی کہ کیا ہم بھی حبیبﷺ رب العالمین کی طرح رمضان کی تیاری نوافل و روزوں کی کثرت سے کر رہے ہیں یا صرف نئے سے نئے پکوانوں کے اہتمام سے۔
۞
حضرت سلیمان رضی اللہ عنہ کو ایک بار احباب نے مزید کھانا کھانے پر اصرار کیا۔آپ نے فرمایا: بس مجھے اتنا کافی ہے۔ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ’’دنیا میں سب سے زیادہ پیٹ بھر کر کھانے والے کو، آخرت میں سب سے زیادہ بھوکا رہنا پڑے گا‘‘۔ (ابن ماجہ،حدیث ۳۳۵۱)
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور فرمان مبارک کے مطابق: ’’انسان اپنے پیٹ سے بدتر کوئی اور برتن نہیں بھرتا۔ ابن آدم کے لیے وہ چند لقمے کافی ہیں جن سے اس کی پشت سیدھی رہے‘‘۔ طبی تحقیقات بھی تقریباً ہر دور میں ثابت کرتی رہی ہیں کہ فاقہ کشی کے مقابلے میں پیٹ بھرا رہنے سے زیادہ بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ رسولِ رحمت ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کی تربیت ہی ایسی کی تھی کہ، جب تک بھوک خوب نہ چمک اٹھے کھایا نہ جائے اور جب کھائیں تو پیٹ نہ بھریں۔
یہ امر بھی رب ذو الجلال کی رحمتوں ہی کا حصہ ہے کہ رمضان المبارک کی روحانی و اخروی برکات کے ساتھ ہی ساتھ، دنیوی اور جسمانی برکات کا بھی اہتمام فرما دیا۔ کارخانۂ قدرت میں اس رحمت کا پرتو اکثر مخلوقات میں ملتا ہے۔ تقریباً تمام نباتات و حیوانات بھی گاہے بگاہے فاقوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ کھانے پینے سے یہی پرہیز ان کے لیے تجدید نشاط کا ذریعہ بنتا ہے۔ فصلوں کا پکنا اور پھلوں کا مٹھاس سے بھرنا تب تک ممکن نہیں ہوتا جب تک مزید پانی روک نہ لیا جائے۔
حدیث میں مذکور رحمت نبویﷺ جسمانی عافیت کو اصل فکر مندی سے وابستہ کر دیتی ہے کہ دنیا میں پیٹ بھرنے کی دوڑ، آخرت کی بھوک سے دوچار نہ کر دے۔ آخرت میں بھوک کے عذاب کا کوئی توڑ نہیں۔
۞
حضرت عمر بن الخطاب فرماتے کہ غزوۂ بدر کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی جانب دیکھا وہ ایک ہزار تھے اور آپﷺ کے ساتھی ۳۱۹ تھے (کئی روایات میں ۳۱۳ ہے)۔ آپ قبلہ رو ہو کر ہاتھ پھیلائے کھڑے ہو گئے اور اپنے رب سے سرگوشیاں کرتے ہوئے فرمایا: اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا فرما۔ اے اللہ! تو نے مجھے (جو کامرانی) عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے وہ مجھے عطا فرما۔ اے اللہ! اگر تو نے اہل اسلام کے اس گروہ کو ہلاک کر دیا، تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت نہ ہو گی۔ (مسلم ۴۵۸۸)
خاتم النبیینﷺ اپنی تمام جمع پونجی میدان بدر میں لے آئے۔ انسانی بس میں جو بھی تدابیر ہوسکتی تھیں کر ڈالیں، اور پھر رب علیم و قدیر کے آگے ہاتھ پھیلا دیے۔ یہ یقین تھا کہ اللہ اپنا وعدہ ضرور پورا فرمائے گا، لیکن احساس ذمہ داری، قافلۂ حق اور دعوت دین کے مستقبل کے بارے میں فکر مندی تھی کہ بے کل کیے دے رہی تھی۔ امت کو یہ تعلیم دینا بھی مقصود تھا کہ کامیابی کے دونوں ستون یکساں اہم ہیں: ہر ممکن انسانی کوشش اور اللہ پر مکمل اعتماد و بھروسا کرتے ہوئے دعا۔
اہل ایمان اس جنگ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے، لیکن مشیت الٰہی نے تمام تر انتظامات اس طرح کر دیے کہ عین نصف رمضان (۱۷ رمضان ۲ ہجری) میں فیصلہ کن غزوہ بدر رونما ہو جائے۔ قرآن کریم کے الفاظ میں ’’تاکہ اللہ حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کر دکھائے‘‘۔
فتح مکہ کی عظیم الشان کامیابی بھی رمضان المبارک میں عطا ہوئی (۲۰ رمضان ۸ ہجری)۔ دل دہلا دینے والا غزوۂ خندق شوال ۵ ہجری میں وقوع پذیر ہوا، لیکن اس کے لیے تیاری کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پورا مہینہ طویل و عریض خندق کھودنے میں لگے رہے۔
دیگر کئی عظیم معرکے اور فتوحات بھی ماہِ رمضان میں ہوئے۔ مثلاً رمضان ۹۱ ہجری میں فتح اندلس۔ رمضان ۲۲۳ ہجری میں خلیفہ معتصم باللہ کی قیادت میں فتح عموریہ۔ ۲۵ رمضان ۶۵۸ ہجری میں سیف الدین قطز کی قیادت میں تاتاریوں کو شکست۔ کتنے ہی معرکے ہیں کہ جن کے ذریعے اللہ بتا رہا ہے کہ رمضان المبارک سستی و کسل مندی اور بے جان پڑے رہنے کا نہیں، ماہِ فتوحات و جہاد ہے۔
۞
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے۔ آپﷺ سب سے زیادہ سخاوت رمضان میں کرتے، جب جبریل امین آپﷺ سے ملاقات کے لیے تشریف لایا کرتے تھے۔ حضرت جبریل رمضان کی ہر رات آپﷺ کے ساتھ مل کر دورۂ قرآن کیا کرتے۔ اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خوش گوار بادِ نسیم سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے۔ (بخاری، حدیث ۶، مسلم، حدیث ۲۳۰۸)
قرآن اور رمضان لازم و ملزوم ہیں۔ رمضان میں قرآن لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اتارا گیا اور یہ رات لیلۃ القدر کہلائی، ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر۔ رمضان میں قرآن قلب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی صورت نازل ہونا شروع ہوا۔ رمضان میں اللہ تعالیٰ جبریل امین کو خصوصی طور پر آپ کے پاس تلاوت قرآن کے لیے بھیجتے۔ نبیوں کا سردار اور فرشتوں کا سردار مل کر پورا مہینہ تلاوت قرآن کرتے۔ جس سال آپ کا وصال ہونا تھا، اس سال ماہ رمضان میں دو بار قرآن مکمل کیا۔
اس سے بڑھ کر اور کیا ترغیب و تحریص ہو گی کہ ہم سب بھی رمضان المبارک کو اس طرح ماہ قرآن بنا لیں کہ روز قیامت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش پا کی پیروی کرنے والے کہلا سکیں۔
انفاق فی سبیل اللہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ثانی نہیں۔ آپ کے جاں نثار چچازاد اور عظیم مفسرقرآن گواہی دے رہے ہیں کہ جس طرح خوش گوار تیز ہوائیں بلا تفریق سب کو نفع پہنچاتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر و برکت بھی بلا تقسیم و تفریق سب کو عطا ہوتی۔
۞
حضرت عبادہ بن الصامت روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لیلۃ القدر کے بارے بتانے کے لیے باہر نکلے۔ اس وقت مسلمانوں میں سے دو افراد آپس میں ایک دوسرے سے الجھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو اس لیے آیا تھا کہ آپ لوگوں کو بتاؤں کہ لیلۃ القدر کب ہوتی ہے، لیکن فلاں اور فلاں جھگڑ رہے تھے اس لیے مجھ سے اس کا علم واپس لے لیا گیا۔ شاید یہ تمھارے حق میں بہتر ہی ثابت ہو، اب تم اسے پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں میں تلاش کیا کرو۔ (بخاری، حدیث ۴۹)
رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شوق عبادت اور محنت وسعی اپنی معراج پر جا پہنچتے۔ آپ اعتکاف کا اہتمام فرماتے۔ خود بھی راتوں کو جاگ کر عبادت کرتے۔، اہل خانہ کو بھی جگاتے۔ ہر دنیاوی آرام و مصروفیت تج دیتے۔ نیکیوں کی بہار عروج پر ہوتی۔
آج بدقسمتی سے انھی مبارک ترین راتوں کو خصوصی طور پر بازاروں اور خریداریوں کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ وقت سے پہلے عید کی تیاری، ان اہم ترین لمحات کو آگ سے نجات کا ذریعہ بنا سکتی ہے۔
لیلۃ القدر کی تلاش یقیناً بندوں کے لیے بلندی درجات ہی کا سبب بنے گی۔ لیکن ذرا سوچیے اگر امت کو واضح طور پر لیلۃ القدر کا علم دے دیا جاتا تو یقیناً ہزار سال کی عباد ت سے بہتر رات پا لینا آسان تر ہو جاتا۔ دو ساتھیوں کا باہم الجھ جانا اس خیر کثیر سے محرومی کا سبب بنا۔ اُمت مسلمہ کا باہم خوں ریزی اور قتل و غارت کا شکار ہونا، تعصبات و تفرقوں میں بٹا رہنا، کس کس خیر سے محرومی کا سبب بن رہا ہو گا۔
۞
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جھوٹی بات اور اس پر عمل نہ چھوڑا، اللہ کو اس شخص کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں (بخاری، حدیث ۱۸۵۳)
آں حضور نے قول الزُّور کا لفظ استعمال کیا ہے اور الزُور کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس میں جھوٹ کے علاوہ ہر غلط و ناجائز بات شامل ہے۔ آج کی دنیا میں کوئی بھی سکہ، ڈگری یا دستاویز جعلی ہو تو اس کے لیے مُزَوَّر کا لفظ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح الزُّور میں ہر جھوٹ، دھوکا دہی، فحش و بے حیائی، گالم گلوچ، جھگڑا ور غیبت سب شامل ہیں۔ روزے میں انسان کھانے پینے جیسے حلال و طیب کاموں سے تو رُک جائے لیکن اصلاً حرام باتوں اور کاموں کا ارتکاب کرتا رہے، تو آخر کیسا روزہ اور کیسی نیکی؟
قرآن روزے ہی کا نہیں نماز، حج اور زکوٰۃ سمیت ہر عبادت کا مقصد بندے کے دل میں خوفِ خدا پیدا کرنا ہی بتاتا ہے۔ آپﷺ نے نوجوانوں کو شادی کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ’’اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے۔ یہ اس کے لیے ڈھال ثابت ہوں گے‘‘۔ ایک اور ارشاد مبارک میں آپؐ نے روزے کو عموماً ڈھال سے تشبیہ دی کہ جس طرح ڈھال دشمن کے وار سے بچاتی ہے، روزہ شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھتا ہے۔
٭٭٭
مآخذ:
http://tarjumanulquran.org/old/2010/08_august/fahim_hadith001/1.htm
http://tarjumanulquran.org/old/2009/october/fehim_hadith001/1.htm
http://tarjumanulquran.org/old/2009/december/fahim_hadith001/1.htm
http://tarjumanulquran.org/old/2010/02_february/fahim_hadith001/1.htm
http://tarjumanulquran.org/old/2010/04_april/fahim_hadith001/1.htm
http://tarjumanulquran.org/old/2010/06_june/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید