FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

سربکف

 

                شمارہ ۳

نومبر، دسمبر ۲۰۱۵ء

 

مجلسِ مشاورت

مفتی آرزومند سعد ﷾

مولانا ساجد خان نقشبندی﷾

مفتی محمد آصف﷾

عباس خان﷾

جاوید خان صافی﷾

جواد خان﷾

نعمان اقبال﷾

مدیر: فقیر شکیب احمد

 

 

 

 

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ

پڑھو اپنے پروردگار کا نام لے کر جس نے سب کچھ پیدا کیا۔(سورہ ۹۶، العلق:۱)

 

اداریہ

 

دو رنگی چھوڑ دے …

 

                مدیر

 

ایک بلند ٹیلہ تھا۔تمام لوگ نیچے تھے، اور ’’ھوہ‘‘ اوپر تھا۔ زمانے کی آنکھ نے رشک سے اس ٹیلے کو دیکھا جس پر اس کے مبارک قدم ٹکے ہوئے تھے، لوگوں نے اسے  اس بلند ٹیلے پر چڑھ کر ایک پیش گوئی کرتے سنا، ایک سچی پیش گوئی۔۔۔جسے دنیا نہ اس وقت جھٹلا پائی، نہ قیامت تک جھٹلا سکے گی۔

’’کیا تم اس چیز کو دیکھتے ہو جس کو میں دیکھ رہا ہوں؟ میں وہ فتنے دیکھ رہا ہوں جو تمہارے گھروں پر اس طرح برس رہے ہیں جس طرح مینہ برستا ہے۔ ‘‘(صحیح بخاری، کتاب المناقب، رقم:۳۵۹۷)

’’وہ‘‘   وہی تھا جسے بلندی دو جہان کے خالق نے عطا کی تھی۔

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ   (سورہ ۹۴، الانشراح:۴)

ہم نے تیرا ذکر بلند کر دیا۔

اور جس نے قیامت تک کے لئے اپنے راستے پر چلنے والوں کو رفعت و معراج، کامرانی وسربلندی کا مژدۂ جانفزا سنایا تھا۔

وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ(سورہ ۳، آل عمران:۱۳۹)

تم ہی سربلند ہو گے۔

رفعت والے نبی ﷺ کی چشمِ نبوت نے فتنوں کو بارش کے پانی کی طرح برستے دیکھا۔ اور جو ہماری نظر سے پوشیدہ تھا، وہ ہمیں بتلا دیا گیا۔

وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ(سورہ ۳، آل عمران:۱۳۹)

تم إِنِّی أَرَى الْفِتَنَ تَقَعُ خِلَالَ بُیُوتِكُمْ مَوَاقِعَ الْقَطْرِ

’’ میں وہ فتنے دیکھ رہا ہوں جو تمہارے گھروں پر اس طرح برس رہے ہیں جس طرح مینہ برستا ہے۔ ‘‘

اللہ اکبر!کیسی سچی پیش گوئی ہے ! پتہ نہیں اُن پیارے لوگوں کے وقت ان فتنوں کا کوئی تصور ہو گا بھی یا نہیں۔

پہلے زمانے میں تھیٹر ہوا کرتے تھے۔ اس وقت تھیٹر دیکھنے کے لئے ٹکٹ خریدنا ہوتا تھا، قطار لگانی ہوتی تھی، لیکن آج نہ وہ تھیٹر ہے نہ تھیٹر کے باہر کی قطار ہے۔ سب کچھ جیب میں موبائل کی صورت میں سماچکا ہے۔

اس وقت ساری دنیا کے سامنے ظاہر تھا کہ یہ شخص آج تھیٹر دیکھ رہا ہے، چھپ نہیں سکتے، بچ نہیں سکتے، کوئی پہچان والا دیکھ سکتا تھا۔اور اب ساری دنیا بے خبر ہے …   لحاف کے اندر چھپا تھیٹر ہے، باتھ روم و بیت الخلاء کے اندر تھیٹر ہے۔

پھر اس تھیٹر میں کیا ہوتا ہو گا؟ کچھ مار دھاڑ ہوتی ہو گی۔ کچھ ایکشن ہوتا ہو گا۔ کچھ جاسوسی اور سسپنس (Suspense) ہوتا ہو گا، کچھ رومانس ہوتا ہو گا، کچھ عریانیت بھی ہوتی ہو گی۔

اور اس موبائل میں… فحاشی اور بے حیائی کا وہ سیلاب ہے جو ساری شرم و حیا بہا کے لے جائے …   شیطان جن سے شرمانے لگے۔

آج، خداوندِ قدوس کی عزت و جلالت کی قسم، فتنوں کو بارش کی طرح برستے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ دیکھ لو دن بدن نت نئے فتنوں میں اضافہ ہی ہو رہا ہے، کمی کہیں نہیں ہے، انصاف رسوا ہے، قانون بکاؤ ہے، انسانی زندگی کھیل تماشا ہے، ننگا ناچ ایک آرٹ ہے، عریانیت اور فحاشی ایک فیشن ہے، فضا گناہوں سے آلودہ ہے،  ہر گھر میں ناچ گانے کی آواز ہے، ، ہر سو بے حیائی کا شیطانی رقص ہے ، ہر سمت موسیقی کی جھنکار ہے، ہر آن شیطان کے قہقہے ہیں۔

فتنوں کی اس دھواں دھار بارش میں…

کچھ لوگ اکھڑ جاتے ہیں۔

کچھ لوگ فتنوں کے خلاف ثابت قدم "نظر آتے ہیں”۔

کچھ لوگ ان فتنوں کے مقابل ثابت قدم ہوتے ہیں۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی دو اقسام بتائی ہیں:

ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ (سورہ ۶۴، التغابن: ۲)

وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر تم میں سے کچھ انکار کرنے والے ہیں، اور کچھ ایمان لانے والے ہیں۔

یوں مجموعی طور پر انسان دو اقسام میں بٹ جاتا ہے۔

١۔ماننے والے

٢۔ نہ ماننے والے

یہ ماننے اور نہ ماننے والے، اعمال کی بنیاد پر چار طرح کی زندگی گزارتے ہیں۔

١۔ قالب کی زندگی

قالب جسم کو کہتے ہیں۔ ان لوگوں کی زندگی صرف اپنے جسم کے لئے ہوتی ہے۔ ان کی ساری کارکردگی کا لب لباب اپنے بدن کو لذت پہنچانا ہوتا ہے۔ چنانچہ کافر کی ساری زندگی صرف کھانا، پینا اور اپنی شہوات کو پورا کرنا، اسی کے گرد ختم ہو جاتی ہے۔ ان کا اس کے سوا اور کوئی مقصد ہی نہیں ہوتا۔ ان کے بارے میں اللہ نے کہا:

اُولٰیىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ

وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں

بَلْ ہُمْ اَضَلُّ(سورہ ۷، الاعراف:۱۷۹)

بلکہ جانوروں سے بھی بدتر(بھٹکے ہوئے ) ہیں۔

کیونکہ جانوروں کی زندگی میں بھی صرف یہی کام ہیں۔ یا تو کھائے گا، پئے گا، یا پھر جماع کرے گا۔اور یہ بھی انہیں کاموں میں مگن ہے۔

جانوروں کو عقل نہیں ہوتی، یہ سمجھ بوجھ بھی رکھتا ہے۔چنانچہ اللہ نے آگے ترقی کر کے کہا:

بَلْ ہُمْ اَضَلُّ- یہ ظالم تو چوپایوں سے بھی بدترین ہیں کہ چوپائے گو نہ سمجھیں لیکن آواز پر کان تو کھڑے کر دیتے ہیں، اشاروں پر حرکت تو کرتے ہیں، یہ تو اپنے مالک کو اتنا بھی نہیں سمجھتے۔ (تفسیر ابنِ کثیر، تفسیر آیتِ مذکورہ)

٢۔ قلب کی زندگی

یہ لوگ ایمان والے ہوتے ہیں۔ اور دین کے بنیادی احکام پر عمل بھی کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ سارے کفار و مشرکین والے کام بھی انجام دیتے ہیں۔ فیشن اور ٹپ ٹاپ میں رہنا انہیں پسند ہوتا ہے۔ مغربی طرزِ زندگی سے انسیت ہوتی ہے اور انہیں کے طریقے پسند ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ

جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا، وہ انہیں میں سے ہو گا۔

چنانچہ ان کے دوست احباب بھی اسی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ مجالس بھی اسی طرز کی ہوتی ہیں۔ اور ان کا اٹھنا بیٹھنا اسی روش پر ہوتا ہے۔ یہ پیٹ اور مال کے پجاری ہوتے ہیں، اور صرف نام کے مسلمان ہوتے ہیں۔ موت سے انہیں خوف آتا ہے۔

٣۔ ایمان کی زندگی

یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو نماز کے پابند ہوتے ہیں۔ ان کا لباس سنت کے مطابق ہوتا ہے۔ چہرہ نبی پاک ﷺ کی سنت یعنی داڑھی سے مزین ہوتا ہے۔ دین داروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ نشست و برخاست دین داروں کے ساتھ ہوتی ہے۔  دین کی محنتیں کرتے ہیں۔ اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں۔ دین کے کام میں دوڑ دوڑ کے حصہ لیتے ہیں۔ خوب وقت لگاتے ہیں۔ ذکر و تسبیح کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ دین کے سمجھنے اور جاننے والے ہوتے ہیں۔

اور تو اور، دین کی بات کرتے ہیں، دعوت دیتے ہیں۔ لوگوں کو دین کے مطابق زندگی گزارنے پر ابھارتے ہیں۔ وعظ و نصیحت بھی کرتے ہیں۔ تصنیف و تالیف بھی کرتے ہیں۔

لیکن جب انہیں گناہ کا موقع ملتا ہے تو گناہ بھی کر بیٹھتے ہیں۔ شیطان ان کو ذرا سا پُش Push کرے تو فوراً اس کے پیچھے چلنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔یہ لوگ جلوت میں متقی اور خلوت میں گناہ گار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ چھُپ کر گناہ کرتے ہیں۔لوگوں کے سامنے مولانا ہوتے ہیں۔ لوگ انہیں متقی اور پرہیزگار سمجھتے ہیں۔ علم بھی انہیں خوب ہوتا ہے۔ ان کی نیکیاں کثیر تعداد میں ہوتی ہیں۔ لیکن یہ اوپر سے لا الٰہ ہوتے ہیں اور اندر سے کالی بلا ہوتے ہیں۔یہ لوگ اس لئے گناہ سے بچتے ہیں کہ "لوگ دیکھ رہے ہیں” یعنی اللہ کے ڈر کی وجہ سے گناہوں سے نہیں بچتے، بلکہ لوگوں کے ڈر سے بچتے ہیں۔

انہیں گناہ کرنے کا احساس بھی ہوتا ہے، اور یہ گناہ سے بچنا بھی چاہتے ہیں۔ رب تعالیٰ کے سامنے روتے بھی ہیں۔ لیکن جونہی انہیں گناہ کا موقع ملتا ہے تو فوراً شیطان کے پیچھے ہولیتے ہیں۔ یعنی کلیتاً ان کا تزکیہ نہیں ہوا ہوتا…   ۱۰۰ گناہوں میں سے ۹۵ نہیں کرتے البتہ ۵ ضرور کرتے ہیں۔ کبھی ۹۸ نہیں کرتے لیکن ایک دو گناہ ایسے ضرور ہوتے ہیں جس میں یہ لگے رہتے ہیں۔

چنانچہ یہ اعلانیہ طور پر تو خدا پرست ہوتے ہیں، البتہ خفیہ طور پر نفس پرست اور ہویٰ پرست ہوتے ہیں۔

بقول مرشدی پیر ذوالفقار نقشبندی دامت برکاتہم:

’’یاد رکھیں!زن پرستی، زر پرستی، شہوت پرستی، نفس پرستی… یہ سب کی سب بت پرستی ہی کی اقسام ہیں… خدا پرستی کوئی اور چیز ہے !‘‘

(جاری……)

فقیر شکیبؔ احمد عفی عنہٗ

٢١ نومبر، بروز سنیچر، ١٠:٥٠بجے صبح

٭٭٭

 

نوٹ

 

قرآن پاک کی آیات کے حوالے کے متعلق ایک معیار کا تعین ضروری تھا۔ اس کے لئے عموماً انگریزی میں کولون کے بائیں طرف سورہ نمبر، اور دائیں جانب آیت نمبر لکھا جاتا ہے (مثلاً 1:3 یعنی پہلی سورہ کی تیسری آیت)۔ البتہ اس ترتیب کو اردو میں کرنے پر سورہ نمبر دائیں طرف اور آیت نمبر بائیں طرف کیا جاتا ہے (مثلاً ٣:١ ) لیکن انگریزی کے اس فارمیٹ سے مانوس ہونے کے سبب ہم اسے الٹا (یعنی ١:٣)پڑھ بیٹھتے ہیں۔ اور اگر اسے انگریزی ہی سے ہم آہنگ کر کے ١:٣ لکھیں گے تو اردو میں لکھا ہوا ہونے کے سبب ہو سکتا ہے بعض احباب اسے بھی الٹا پڑھ لیں۔اس کے علاوہ اس طرز پر سورہ کا نام بھی آنا ضروری ہوتا ہے، بعض لوگوں کو اس میں سہولت ہوتی ہے۔ چنانچہ اسی آیت نمبر کو الفاتحہ: ٣ کے طرز پر لکھتے ہیں۔اس فارمیٹ کی خامی یہ ہے کہ اس میں سورہ نمبر نہ لکھا ہونے کی وجہ سے قرآن کی ساری فہرست میں مطلوبہ سورہ ڈھونڈنی پڑتی ہے اور اس کے بعد آیت نمبر کی باری آتی ہے۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے قرآنی آیات کا Standard Format چنا ہے وہ یوں ہے۔ سورہ ١، الفاتحہ:٣۔ اس میں بغیر کسی ابہام کے حوالہ بھی مکمل دستیاب ہوتا ہے اور تمام جزئیات بھی سمٹ جاتی ہیں۔ مضمون نگاروں سے گزارش ہے کہ حوالوں کے لئے اپنی آیندہ تحریر میں اس فارمیٹ کا استعمال کریں تاکہ مجلہ پروفیشنل ٹچ سے مزید قریب ہو سکے۔ (مدیر)

 

 

 

 

فَذَكِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ     45

لہذا قرآن کے ذریعے ہر اس شخص کو نصیحت کرتے رہو جو میری وعید سے ڈرتا ہو۔(سورہ ۵۰، ق:۴۵)

 

دعا اور اللہ مجیب الدعوات

 

                حافظ عماد الدین ابو الفداء ابنِ کثیر ﷫

 

وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙفَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْابِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ۔ ١٨٦

اور (اے پیغمبر) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو ( آپ ان سے کہہ دیجئے کہ) میں اتنا قریب ہوں کہ جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں۔ لہذا وہ بھی میری بات دل سے قبول کریں، اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ راہ راست پر آ جائیں۔ (آسان ترجمہ قرآن- سورہ ٢، البقرہ: ١٨٦)

 

ایک اعرابی نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! کیا ہمارا رب قریب ہے ؟ اگر قریب ہو تو ہم اس سے سرگوشیاں کر لیں یا دور ہے ؟ اگر دور ہو تو ہم اونچی اونچی آوازوں سے اسے پکاریں، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاموش رہے اس پر یہ آیت اتری (ابن ابی حاتم)

ایک اور روایت میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس سوال پر کہ ہمارا رب کہاں ہے ؟یہ آیت اتری (ابن جریر) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ جب آیت (ادعونی استجب لکم) نازل ہوئی یعنی مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرتا رہوں گا تو لوگوں نے پوچھا کہ دعا کس وقت کرنی چاہئے ؟ اس پر یہ آیت اتری (ابن جریج)

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے ہر بلندی پر چڑھتے وقت اور ہر وادی میں اترتے وقت بلند آوازوں سے تکبیر کہتے جا رہے تھے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس آ کر فرمانے لگے لوگو! اپنی جانوں پر رحم کرو تم کسی کم سننے والے یا دور والے کو نہیں پکار رہے بلکہ جسے تم پکارتے ہو وہ تم سے تمہاری سواریوں کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے، اے عبداللہ بن قیس ! سن لو! جنت کا خزانہ لاحول ولاقوۃ الا باللہ ہے (مسند احمد) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا بندہ میرے ساتھ جیسا عقیدہ رکھتا ہے میں بھی اس کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرتا ہوں جب بھی وہ مجھ سے دعا مانگتا ہے میں اس کے قریب ہی ہوتا ہوں(مسند احمد)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جب مجھے یاد کرتا ہے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر میں ہلتے ہیں میں اس کے قریب ہوتا ہوں اس کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ اس مضمون کی آیت کلام پاک میں بھی ہے فرمان ہے آیت (ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ہم محسنون ) جو تقویٰ واحسان و خلوص والے لوگ ہوں ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے، حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے فرمایا جاتا ہے آیت (انی معکما اسمع واری) میں تم دونوں کے ساتھ ہوں اور دیکھ رہا ہوں، مقصود یہ ہے کہ باری تعالیٰ دعا کرنے والوں کی دعا کو ضایع نہیں کرتا نہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ اس دعا سے غافل رہے یا نہ سنے اس نے دعا کرنے کی دعوت دی ہے اور اس کے ضایع نہ ہونے کا وعدہ کیا ہے، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بندہ جب اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ بلند کر کے دعا مانگتا ہے تو وہ ارحم الراحمین اس کے ہاتھوں کو خالی پھیرتے ہوئے شرماتا ہے (مسند احمد)

حضرت ابو سعید خدر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ سے کوئی ایسی دعا کرتا ہے جس میں نہ گناہ ہو نہ رشتے ناتے ٹوٹتے ہوں تو اسے اللہ تین باتوں میں سے ایک ضرور عطا فرماتا ہے :

1۔ یا تو اس کی دعا اسی وقت قبول فرما کر اس کی منہ مانگی مراد پوری کرتا ہے

2۔یا اسے ذخیرہ کر کے رکھ چھوڑتا ہے اور آخرت میں عطا فرماتا ہے

3۔ یا اس کی وجہ سے کوئی آنے والی بلا اور مصیبت کو ٹال دیتا ہے

لوگوں نے یہ سن کر کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر تو ہم بکثرت دعا مانگا کریں گے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر اللہ کے ہاں کیا کمی ہے ؟ (مسند احمد)

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ روئے زمین کا جو مسلمان اللہ عزوجل سے دعا مانگے اسے اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے یا تو اسے اس کی منہ مانگی مراد ملتی ہے یا ویسی ہی برائی ٹلتی ہے جب تک کہ گناہ کی اور رشتہ داری کے کٹنے کی دعا نہ ہو (مسند احمد)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :جب تک کوئی شخص دعا میں جلدی نہ کرے اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ جلدی کرنا یہ ہے کہ کہنے لگے میں تو ہر چند دعا مانگی لیکن اللہ قبول نہیں کرتا (موطا امام مالک) بخاری کی روایت میں یہ بھی ہے کہ اسے ثواب میں جنت عطا فرماتا ہے، صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ نا مقبولیت کا خیال کر کے وہ نا امیدی کے ساتھ دعا مانگنا ترک کرے دے یہ جلدی کرنا ہے۔ ابو جعفر طبری کی تفسیر میں یہ قول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان کیا گیا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ دل مثل برتنوں کے ہیں بعض بعض سے زیادہ نگرانی کرنے والے ہوتے ہیں، اے لوگوں تم جب اللہ تعالیٰ سے دعا مانگا کرو تو قبولیت کا یقین رکھا کرو، سنو غفلت والے دل کی دعا اللہ تعالیٰ ایک مرتبہ بھی قبول نہیں فرماتا (مسند احمد)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے دعا کی کہ الہ العالمین! عائشہ کے اس سوال کا کیا جواب ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے مراد اس سے وہ شخص ہے جو نیک اعمال کرنے والا ہو اور سچی نیت اور نیک دلی کے ساتھ مجھے پکارے تو میں لبیک کہہ کر اس کی حاجت ضرور پوری کر دیتا ہوں(ابن مردویہ) یہ حدیث اسناد کی رو سے غریب ہے۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا اے اللہ تو نے دعا کا حکم دیا ہے اور اجابت کا وعدہ فرمایا ہے میں حاضر ہوں الٰہی میں حاضر ہوں الٰہی میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں اے لاشریک اللہ میں حاضر ہوں حمد و نعمت اور ملک تیرے ہی لئے ہے تیرا کوئی شریک نہیں میری گواہی ہے کہ تو نرالا یکتا بے مثل اور ایک ہی ہے تو پاک ہے، بیوی بچوں سے دور ہے تیرا ہم پلہ کوئی نہیں تیری کفو کا کوئی نہیں تجھ جیسا کوئی نہیں میری گواہی کہ تیرا وعدہ سچا تیری ملاقات حق جنت و دوزخ قیامت اور دوبارہ جینا یہ سب برحق امر ہیں(ابن مردویہ)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے اے ابن آدم! ایک چیز تو تیری ہے ایک میری ہے اور ایک مجھ اور تجھ میں مشترک ہے خالص میرا حق تو یہ ہے کہ ایک میری ہی عبادت کرے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔ گویا میرے لئے مخصوص یہ ہے کہ تیرے ہر ہر عمل کا پورا پورا بدلہ میں تجھے ضرور دوں گا کسی نیکی کو ضایع نہ کروں گا مشترک چیز یہ ہے کہ تو دعا کر اور میں قبول کروں تیرا کام دعا کرنا اور میرا کام قبول کرنا (بزار)

دعا کی اس آیت کو روزوں کے احکام کی آیتوں کے درمیان ٭ وارد کرنے کی حکمت یہ ہے کہ روزے ختم ہونے کے بعد لوگوں کو دعا کی ترغیب ہو بلکہ روزہ افطار کے وقت وہ بکثرت دعائیں کیا کریں۔حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ روزے دار افطار کے وقت جو دعا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ افطار کے وقت اپنے گھر والوں کو اور بچوں کو سب کو بلا لیتے اور دعائیں کیا کرتے تھے (ابوداود طیالسی)

ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے اور اس میں صحابی کی یہ دعا منقول ہے :

اللہم انی اسألک برحمتک اللتی وسعت کل شئی ان تغفرلی

یعنی اے اللہ میں تیری اس رحمت کو تجھے یاد دلا کر جس نے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو میرے گناہ معاف فرما دے اور حدیث میں تین شخصوں کی دعا رد نہیں ہوتی عادل بادشاہ، روزے دار اور مظلوم اسے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ بلند کرے گا مظلوم کی بددعا کے لئے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے میری عزت کی قسم میں تیری مدد ضرور کروں گا گو دیر سے کروں(مسند، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ )

٭٭٭

 

 

 

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ

جس نے رسول کی اطاعت کی، حقیقت میں اُس نے اللہ کی اطاعت کی۔(سورہ ۴، النساء:۸۰)

 

الاحادیث المنتخبہ

 

                پیش کش: مدیر

 

 

 

اگرچہ ایک ہی آیت ہو

 

حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ أَخْبَرَنَا الْأَوْزَاعِیُّ حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَطِیَّۃَ عَنْ أَبِی کَبْشَۃَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ بَلِّغُوا عَنِّی وَلَوْ آیَۃً وَحَدِّثُوا عَنْ بَنِی إِسْرَایِیلَ وَلَا حَرَجَ وَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنْ النَّارِ

ابو عاصم ضحاک بن مخلد اوزاعی حسان بن عطیہ ابو کبشہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: میری بات دوسرے لوگوں کو پہنچا دو اگرچہ وہ ایک ہی آیت ہو۔ اور بنی اسرائیل کے واقعات (اگر تم چاہو تو) بیان کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور جس شخص نے مجھ پر قصداً جھوٹ بولا تو اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لینا چاہئے۔

(صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 718 )

ادارتی نوٹ: اس حدیث کے تینوں ٹکڑے عام طور پر الگ الگ مواقع پر مستعمل ہیں۔ البتہ حدیث کے مطابق چونکہ تینوں یکجا ہیں، سو تینوں ٹکڑوں کو الگ الگ عنوانات کے تحت نہ لاتے ہوئے ایک ہی جگہ درج کیا گیا ہے۔

مکررات: ٭ جامع ترمذی:جلد دوم، حدیث نمبر 578٭سنن دارمی:جلد اول، حدیث نمبر 541٭ مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 1974، 1983، 2087، 2379، 2496

 

ہدایت دینے والا میں ہوں

 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ وَابْنُ أَبِی عُمَرَ قَالَا حَدَّثَنَا مَرْوَانُ عَنْ یَزِیدَ وَہُوَ ابْنُ کَیْسَانَ عَنْ أَبِی حَازِمٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَمِّہِ عِنْدَ الْمَوْتِ قُلْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ أَشْہَدُ لَکَ بِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَأَبَی فَأَنْزَلَ اللَّہُ إِنَّکَ لَا تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ الْآیَۃَ

محمد بن عباد، ابن ابی عمر، مروان، یزید یعنی ابن کیسان، ابوکیسان، ابو حازم، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے چچا سے ان کی موت کے وقت فرمایا لا اِلٰہ اِلا اللہ کہہ دو میں قیامت کے دن اس کی گواہی دے دوں گا ابوطالب نے انکار کر دیا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (اِنَّكَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَا ءُ وَہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ)سورہ 28، القصص : 56) نازل فرمائی یعنی بے شک تو ہدایت نہیں کرسکتا جسے تو چاہے لیکن اللہ ہدایت کرتا ہے جسے چاہے اور وہ ہدایت والوں کو خوب جانتا ہے۔

(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 137)

مکررات: ٭ صحیح بخاری:جلد اول، حدیث نمبر 1298 ٭صحیح بخاری:جلد دوم، حدیث نمبر 1117 ٭صحیح بخاری:جلد دوم، حدیث نمبر 1859 ٭صحیح بخاری:جلد دوم، حدیث نمبر 1975

٭٭٭

 

 

 

اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِىَ اَحْسَنُ ۭ

اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور خوش اسلوبی سے نصیحت کر کے دعوت دو، اور (اگر بحث کی نوبت آئے تو) ان سے بحث بھی ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو۔ (سورہ ۱۶، النحل:۱۲۵)

 

بھائی شمیم احمد / سنیل کمار سے ایک ملاقات

 

                احمد اوّاہ

 

احمد اوّاہ:السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

شمیم احمد:وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

س:شمیم بھائی آپ دہلی کب اور کہاں سے آئے ہیں ؟

ج:میں دہلی پرسوں آیا تھا، میں اصل میں جماعت میں چار مہینے لگا کر لوٹا ہوں، ہماری جماعت نے بہار مونگیر ضلع میں چار مہینے لگائے ہیں، حضرت سے فون پر پہلے بات ہو گئی تھی کہ ۱۳ ؍ تاریخ کی شام کو دہلی میں ملاقات ہو جائے گی، اس لئے مرکز میں رک گیا تھا، آج گھر جانے کا ارادہ ہے۔

س:جماعت کہاں کی تھی اور امیر صاحب کہاں کے تھے ؟

ج:جماعت میں الگ الگ جگہ سے لوگ تھے، پانچ لوگ میرٹھ کے تھے، دو پانی پت ہریانہ کے، امیر صاحب غازی پور کے ایک قاری صاحب تھے جو مرکز کے ایک مدرسہ میں پڑھاتے ہیں، دو ہم، میں اور میرے چھوٹے بھائی نسیم احمد، جماعت میں سبھی ساتھی بہت اچھے تھے بس میرٹھ کے ایک بڑے میاں بہت ہی گرم مزاج کے تھے، مگر امیر صاحب بہت ہی نرم سوبھاؤکے تھے، ذراسی دیر میں منا لیتے تھے۔

س:جماعت کی کچھ خاص باتیں بتایئے ؟

ج:ہم گاؤں کے لوگ وہ بھی ہریانہ کے، خاص بات کیا بتائیں ؟بس ایک بات چار مہینے تک دل و دماغ پرچھائی رہی، مرکز نظام الدین میں حضرت مولانا ابراہیم دیولا صاحب کے بیان میں آخرت اور جنت و دوزخ کاذکرسنا تھا، اس طرح انھوں نے بیان کیاجس طرح دیکھنے والا کمنٹری بیان کرتا ہے، رات کوسویاتوخواب میں دیکھا کہ حشر کے میدان میں ہوں اورحساب کتاب ہو رہا ہے، ایساہولناک منظر ہے کہ بس تصور بھی نہیں کیاجا سکتا، گناہ گاروں کا حال ایسابراہے کہ بس اللہ بچائے، دوزخ بھی سامنے دکھائی دے رہی تھی، اور جنت بھی، میرا حال ڈھل مل ہے کبھی لگتا ہے جہنم میں ڈالا جائے گا کبھی ہوتا ہے کہ نہیں جان بچ گئی، آنکھ کھلی تو مجھ پراس قدر خوف طاری ہوا کہ نیند اڑ گئی، اگلے روزسفرتھا، ٹرین میں بھی نیند نہ آئی، رات میں فضائل اعمال کی تعلیم ہوئی تو اور بھی نقشہ سامنے آ گیا، ایک ہفتہ تک مجھے ایک منٹ کو نیند نہیں آئی، کئی ڈاکٹروں کو دکھایا، امیر صاحب نے سرکی مالش کرائی ساتھیوں نے پاؤں بھی دبائے، ساتھیوں کا مشورہ ہوا کہ اس کوواپس گھر بھیج دیا جائے، مگر میں نے صاف منع کر دیا کہ اللہ کے راستہ میں موت آ جائے گی تو آ جائے، چار مہینے سے ایک دن پہلے میری میت بھی نہ لے جائی جائے۔

امیر صاحب بہت پریشان تھے مگر ان کی عادت تھی کہ ہر مشکل میں دو رکعت صلوٰ ۃ الحاجۃ پڑھ کر اللہ سے فریاد کرتے تھے، ایک رات انھوں نے ساتھیوں کو میری مالش اور خدمت وغیرہ کے لئے لگایااورخودمسجدکے ایک کونے میں جا کر دعا شروع کی، الحمدللہ مجھے نیند آ گئی، میں نے سوتے میں خواب دیکھا، میں محشر کے میدان میں ہوں اور بہت ڈر رہا ہوں، کہ میراحساب کس طرح ہو گا؟

میں نے دیکھا کہ لوگوں میں شور ہونے لگا، ہمارے نبی ﷺ تشریف لا رہے ہیں، میں شور کی طرف کو بڑھا تو اللہ کے رسول ﷺ ایک خوب صورت چادر اوڑھے ہوئے ہیں، اور آپ نے دورسے اتنی بھیڑ میں مجھے آواز لگائی، میں جلدی جھپٹا، بھیڑ کو ادھر ادھر کرتے ہوئے آپ کے پاس پہنچا، آپ نے اپنی چادر کا ایک حصہ میرے سرپرڈال دیا، اور مجھے ایسالگاجیسے میں کسی رحمت کے سایہ میں آ گیا ہوں، اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی، نیند نہ آنے کی شکایت تو دور ہو گئی مگر دل و دماغ پر ہر وقت آخرت کا منظر اور جنت و دوزخ جیسے بالکل ہی آنکھوں کے سامنے ہوں، میرا حال جماعت میں یہ رہا کہ امیر صاحب اکثر مجھ سے ہی بات کرواتے تھے، اور میرا حال یہ تھا کہ مجھے بس موت کے بعد کی زندگی دنیا میں ہی دکھائی دیتی تھی، اس لئے بس موت کے بعد، میدان حشر، جنت و دوزخ کی باتیں کرتا تھا، میرے ساتھی کہنے لگے کہ تم تو جنت و دوزخ کاذکرایسے کرتے ہو جیسے سامنے ہو، امیر صاحب کہنے لگے کہ تمھارے ساتھ وقت لگا کر پوری جماعت کا ایمان، ایمان ہو گیا ہے۔

س:ماشاءاللہ بہت قابل رشک حال ہے، یہ حال تو صحابہ کا ہوتا تھا، کہ وہ کہتے تھے اگر ہم جنت اور جہنم کو دیکھ لیں تو ہمارے ایمان میں کوئی اضافہ نہ ہو!

ج:صحابہ کے ایمان کی تو کیا بات ہے، میرا حال توبس مولانا ابراہیم صاحب کے بیان کی برکت سے، اس کا ایک قطرہ اس گندہ کو میرے اللہ نے دکھا دیا، میرے لئے یہ بھی بڑی نعمت ہے کہ اللہ تعالی بس اس کو باقی رکھیں اور موت کے وقت کام آ جائے، مگر یہ بات ضرور ہے کہ موت کے بعد کی زندگی کا یہ خیال انسان کی زندگی کو بدل دیتا ہے، اتنی احتیاط جیون میں آ جاتی ہے، اصل یہ ہے کہ اس حقیقت کے سامنے آنے کے بعد زندگی ہی الگ ہے، انسان بالکل انسان بن جاتا ہے، ایک بار میں دہلی میں حضرت کی گاڑی میں سونی پت گیا تو حضرت کے ایک خادم حافظ شہاب الدین ساتھ تھے، حضرت پنجاب جا رہے تھے، گاڑی میں جگہ تھی، حضرت نے کہا کہ سونی پت تک ساتھ چلو، بات بھی ہو جائے گی اور تم وہاں سے نکل جانا، راستہ بھر حافظ شہاب الدین حضرت سے بس جنت کی بات کرتے رہے، کبھی کہتے حضرت جنت میں تو جب آپ کا قافلہ چلا کرے گا تو پوری دنیا کے اتنے سارے لوگ ہوں گے، وہاں تو جام نہیں ملے گا؟کبھی کہتے وہاں ٹریفک پولیس کی ضرورت تو نہیں ہو گی، کبھی کہتے حضرت وہاں آپ کے ساتھ ذکر کی مجلس بھی ہو گی ؟کبھی کہتے حضرت جنت میں خود آپ کے ساتھ دنیا جڑ جائے گی، ایسانہ ہو کہ ہم دیہاتیوں کو آپ سے ملنے بھی نہ دیا جائے، حضرت بھی ان کی اس طرح کی دیوانگی کی باتوں سے بہت خوش ہو رہے تھے اور مزے لے رہے تھے، میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ حافظ جی کیسی نشہ والوں کی طرح دیوانگی کی باتیں کر رہے ہیں، اور حضرت بھی ان کی ہر بات کا جواب دے رہے ہیں، اس بار جماعت میں میرے اللہ نے بس ایک خواب دکھا دیا تو آنکھیں کھل گئیں، ایسالگاجیسے کسی سوتے کو خواب دیکھتے ہوئے کوئی جگا دے، پہلے مجھے حافظ جی کی بات خواب اور نشہ دکھائی دے رہی تھی مگر اب لگتا ہے کہ میں خواب اور نشہ میں تھا اب جاگا ہوں، اور جھوٹ کا نشہ اترا ہے، اورسچ میرے اللہ نے مجھے دکھا دیا ہے، بس میرے اللہ میرے اس حال کو باقی رکھے، میرے نبیﷺ نے کتنی سچی بات فرمائی کہ ہوشیار وہ ہے جو آخرت کی حقیقی اور ہمیشہ کی زندگی کو یاد رکھے اور فانی دنیا کی طرف نظر نہ لگائے۔

س:آپ نے واقعی بڑے پتہ کی بات کہی، آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیں ؟

ج:میں ہریانہ کے ضلع بھوانی کے ایک لالہ خاندان میں ۲ ؍اپریل ۱۹۶۹ ء میں پیدا ہوا، میرے پتاجی نے میرا نام سنیل کمار رکھا، میرے ایک بڑے بھائی اور تین بہنیں تھیں، دو مجھ سے بڑی اور ایک چھوٹی تھیں، میرے پتاجی گاؤں میں مٹھائی کی دوکان کرتے تھے، سنہ ۱۹۴۷ ء میں دیش کے بٹوارہ کے وقت مین روڈ پر ایک چھوٹی سی مسجدمیں، جومسلمانوں کے مارے جانے اورپاکستان جانے کی وجہ سے ویران ہو گئی تھی، اس کی ایک دوکان اور ایک مکان مسجدسے لگا ہوا تھا جو امام کے لئے بنایا گیا تھا، پتاجی نے اس دوکان میں اپنی دوکان کر لی تھی، وہاں جاتے اور مٹھائی سموسے وغیرہ بنا کر بیچتے تھے، وہ اچھی چلی اور بعد میں انھوں نے وہاں ریسٹورینٹ کر لیا تھا۔

س:مسجدکی جگہ میں ریسٹورنٹ بنا لیا تھا؟

ج:نہیں، پتاجی جب تک زندہ رہے وہ مسجدکابہت ادب کرتے تھے صبح اندھیرے اندھیرے مسجدمیں جھاڑو خود لگاتے تھے۔ اور وہاں منبر پر ایک قرآن شریف رکھا تھااس کو لوبان اور دھوپ بتی کی دھونی دیتے، اوراس کاسنسکارکرتے، بہت لوگوں نے چاہا کہ مسجدمیں مورتی رکھ کراسے مندر بنا لیا جائے مگر پتاجی نے کبھی ایسانہ کرنے دیااسی کی وجہ سے کئی بار پتاجی کو مار بھی کھانی پڑی، وہ کہتے تھے کہ جب تم لوگ شیو مندر میں شیو جی کو ہٹا کر ہنومان کو نہیں رکھتے تو اللہ کے مندر میں دوسروں کوکیسے رکھنے کو کہتے ہو، ۲۰۰۷ ء میں میرے پتاجی کا دیہانت (انتقال ) ہو گیا، میں اور میرے بڑے بھائی دونوں ریسٹورنٹ کرتے تھے، اورسب سے بڑے بھائی گاؤں کی دوکان میں کرانہ کی دوکان کرتے تھے، اب میں نے ریسٹورنٹ چھوڑ دیا ہے اور ایک دوکان روہتک میں بہت اچھی جگہ لے لی ہے، مگر اب جماعت کے بعد میں نے ارادہ کیا ہے کہ بس اب تو اصل کاروبار آخرت کا کرنا ہے، ابھی ارمغان ملا، اس پر ماجد دیوبندی کا شعر پڑھنے کو ملا:

کاروبارِ دعوتِ اسلام بڑھتا ہے سدا

کیا خبر اس کو کہ جس نے یہ تجارت کی نہیں

یہ پوری دنیا اچھے سے اور اچھے کی طرف بڑھ رہی ہے کوئی گاؤں میں کام کرتا ہے، اسے شہر میں کوئی اچھی دوکان مل جائے تو ایک آن میں سب کچھ چھوڑ کر گھر بار بیچ کر شہر میں آ جاتا ہے، سناہے ایک ہزار خاندان روزانہ دہلی آکربس جاتے ہیں، اس لئے کہ انھیں وہاں اپنے گاؤں اور شہروں سے زیادہ اچھاکاروباراوررہناسہنادکھائی دے رہا ہے، جس کاروبار میں انسان کو معلوم ہو جائے کہ نفع زیادہ ہو رہا ہے تو آدمی ساری پونجی بیچ کراپناسب کچھ کاروبار میں لگا دیتا ہے، بلکہ قرض تک لے کر لگا دیتا ہے، اگر دنیاوی زندگی دھوکہ ہے اور فانی ہے اوراس میں کیا شک ہے جب دنیا بنانے والے رب نے ہی اسے متاع الغرور بتایا ہے اور آخرت ہمیشہ کے لئے ہے، وہاں کا نفع اصل نفع اور وہاں کا گھاٹا اصل گھاٹا ہے، تو آخرت کی تجارت کے لحاظ سے دعوت سے بڑا کوئی دھندہ نہیں، اس لئے بھائی اگراس سے زیادہ نفع کا کوئی دھندہ اوربزنس ہوتاتواس دنیا کے سب سے ہوشیار لوگ نبی اوررسول وہی کام کرتے۔

ہمارے حضرت خوب پتہ کی بات کہتے ہیں، اس دھندہ میں محنت بھی کم اور پونجی بھی کم لگتی ہے، لوگ کمائیں اور ہمارے کھاتے میں جمع کرتے جائیں، ایک آدمی ایمان میں آ گیااس کے قبول ایمان کا اور زندگی بھر جو نیکیاں نماز، روزہ، ذکر و تلاوت، صدقہ اور دعوت جو بھی وہ نیک کام کرے گااس کے تمام اعمال کا مقبول اجر ایمان کی دعوت دینے والے کو ملتا رہے گا، اوراس کی نسلوں میں قیامت تک جتنے لوگ ایمان میں آئیں گے، ان کے ایمان اور اعمال کا اجر ذریعہ بننے والے کے کھاتہ میں جمع ہوتا رہے گا، گویا یہ دھندہ ایساہے کہ دعوت کے تاجر کا ہر گاہک اس کا رٹیلر اور تجارتی نمائندہ بھی بنتا جاتا ہے، اس لئے ماجد صاحب کا یہ شعر بالکل سچالگاکہ یہ تجارت مسلسل بڑھتی ہی رہتی ہے، اس میں خسارہ کاسوال ہی نہیں۔تومیں نے اپنے وقت اور صلاحیت کو جو میری سچی پونجی ہے روہتک کی دوکان چھوڑکراس بڑے بزنس میں لگا دینے کا ارادہ کر لیا ہے۔

س:پھرآپ نے روزگار کے لئے کیاسوچا؟

ج:مولانااحمد!آپ اپنے ماتحتوں کو کچھ بانٹ رہے ہوں اور ایک آدمی اس وقت آپ کے کسی کام میں مشغول ہو تو کیا آپ اس کو نہیں دیں گے ؟آپ یقیناًاس کا حصہ اوروں سے زیادہ محفوظ کریں گے، یہ تو ہمارا دھوکہ ہے کہ ہم کماتے ہیں، رزّاق تو اللہ کی ذات ہے اگراس کے دین کے لئے اپنے کو وقف کر دیں گے تووہ دوسروں سے اچھا کھلائیں پلائیں گے، میرا تو پکا یقین ہے۔

س:اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیں ؟

ج:پتاجی کے دیہانت کے بعد تین سال تک میں اور میرے بڑے بھائی مسجدکی صفائی کرتے اور صبح و شام قرآن مجید کو دھوپ بتی کی دھونی دیتے اور دن چھپتے ہی مسجدمیں چراغ جلاتے کام ٹھیک چل رہا تھا، میرے مالک کو اپنے گھرکی خدمت کا بدلہ مجھے دینا تھااس لئے میرے گھر ایک شیطان کو بھیجا، میرے بھتیجے کی شادی ہوئی، پھرتے پھرتے جس پنڈت جی کو بلایا وہ ہمارے ریسٹورنٹ کے پاس والے گاؤں کے تھے، انھوں نے شادی کے بعد مجھے گھر آ کر ملنے کے لئے کہا اور بتایا کہ میں نے پترے میں تمھارے بھوشیہ (مستقبل )کے بارے میں ایک بات دیکھی ہے، وہ بتانی ہے، بات کچھ اس طرح کہی کہ میں بے چین ہو گیا، اور شادی کے تیسرے دن پنڈت جی کے گھر پہنچا، پنڈت جی نے پہلے تو اپنے جیوتش وگیان کا مجھ پر رعب جمایا، فلاں منتری کو میں نے اتنے دن پہلے بتا دیا تھا وہ ہار گیا، فلاں جیت گیا، اس نے بتانے سے فیکٹری کھولی کروڑ پتی بن گیا، پھر مجھ سے کہا مجھے شیو جی کی طرف سے آدیش ہوا ہے کہ تمھارے پتاجی بڑے بھگت تھے اس لئے میں تمھارے ریسٹورنٹ پر کچھ دن تک آ کر جاپ کروں اور آرتی اتاروں، ورنہ آپ کے کاروبار اور جان پرشنی کاسایہ پڑ جائے گا، میں آپ سے اس کے لئے کوئی خرچ بھی نہ لوں گابس کوئی جگہ مجھے تنہائی میں جاپ کرنے کی چاہئے، میں نے بھائی سے مشورہ کیا تو انھوں نے اجازت دے دی، مسجدکے صحن میں ایک جگہ ان کودے دی گئی، جہاں انھوں نے آرتی کرتے کرتے مورتی رکھ لی، وہ روڈ پر جگہ تھی وہاں ان کی خوب دوکان جم گئی، وہ مجھے اور میرے بھائی کوسمجھاتے رہے اور ہمیں تیار کر کے قرآن مجید وہاں سے اٹھوا کر محراب میں مورتی رکھوا دی، وہ تو کہہ رہے تھے کہ اس قرآن کو باندھ کرکسی کنویں میں ڈال دیں، مگر ہم نے پتاجی کی یادگارسمجھ کر گھر میں لا کر رکھ لیا، جس روز مورتی رکھی گئی، ریسٹورنٹ میں گیس سلنڈرمیں آگ لگ گئی، جس سے ہم لوگ کسی طرح بچ گئے، تین دن کے بعد میرے بڑے بھائی موٹرسائیکل سے گرے اور ان کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی، ہم نے ماں سے مشورہ کیا، ماں نے کہا وہ پنڈت جی تمھارے ساتھ راکشس (شیطان ) لگ گیا، سارے جیون سے مالک کے گھرکاسنسکارکرتے تھے چین سے جی رہے تھے، اب اس کے چکر میں پڑ کر تم دکھی ہو گئے ہو، ہم دونوں بھائیوں نے پنڈت جی کو وہاں سے چلتا کرنے کی سوچی، مگر ایک سال میں ان کا بہت میدان بن گیا تھا، ایک دن ایسے ہی میں نے پنڈت جی سے کہا آپ نے مالک کے مندر میں شیو جی کی مورتی رکھ دی ہے اس سے اوپر والا مالک بہت ناراض ہے، آپ سے ہم سے بھی زیادہ ناراض ہے اگر آپ یہاں سے جگہ چھوڑ کر نہ گئے، تو ایک ہفتہ میں آپ کی پتنی یا بچے مر جائیں گے، مجھے پتاجی نے سپنے میں بتایا ہے۔

س:آپ کوایساسپنادکھائی دیا تھا کیا؟

ج:نہیں، میں نے ایسے ہی ڈرانے کے لئے کہا تھا، کہ زبردستی اس سے کرنا مشکل تھی، سوچا تھا شاید ڈر جائے اور ہمارا کام بن جائے۔

س:توپھرکیاہوا؟

ج:پنڈت جی کو اپنے دھندے کے لئے ایسی مین روڈ کی جگہ کہاں ملتی، وہ جگہ چھوڑنے کو تیار نہ ہوئے، مالک کا کرنا ایک رات پنڈت جی اپنی بیوی کے ساتھ سوئے، بیوی پہلے اٹھتی تھی، مگر صبح کو پنڈت جی اٹھے تو پتنی کوسوتے ہوئے پایا، اٹھایا تو معلوم ہوا کہ ہمیشہ کے لئے سوچکی ہے، پنڈت جی کا حال خراب ہو گیا، مجھے معلوم ہوا تو مجھے دکھ بھی ہوا کہ بیچارے کے ساتھ حادثہ ہوا، مگر خوشی زیادہ ہوئی کہ میرا تیر اندھیرے میں لگ گیا، تین دن کے بعد میں نے بات ذرا اور پکی کی، کہ پنڈت جی میں نے ایک سپنااوردیکھاہے کہ کل تک پنڈت جی یہ مورتی یہاں سے ہٹا کر نہ جائیں گے تو ان کے تینوں بچے مر جائیں گے، پنڈت جی ڈرے ہوئے تھے انھوں نے وہ مورتی وہاں سے اٹھائی اوراپنابستربھی وہاں سے ہٹا لیا، میں نے قرآن شریف لا کر وہیں رکھ دیا، جب سے ہم نے مورتی وہاں رکھی تھی ہمارے ریسٹورنٹ کو بھی جیسے کسی نے باندھ دیا ہو، جیسے ہی قرآن وہاں واپس رکھا، دوبارہ کاروبار اچھی طرح چلنے لگا، ایک روز ظفر نام کے ایک ڈاڑھی والے صاحب میرے پاس آئے اور بولے میں پہلے ہندو تھا اب مسلمان ہو گیا ہوں، میں یہاں فیکٹری میں کام کرتا ہوں یہاں کئی مسلمان رہتے ہیں، ان کو نماز کی بہت پریشانی ہے، آپ مالک کے گھر کو صاف کرتے ہیں، یہاں پر چراغ جلاتے ہیں مالک کی پوجا کے لئے یہ مسجدکسی نے بنائی ہو گی، آپ یہ مسجدمسلمانوں کے سپردکردو، اور ہم تمھیں اس کے بدلہ میں پیسے بھی دے دیں گے، دو تین بعد وہ دو لوگوں کولے کر آئے، اور ڈھائی لاکھ ان سے لے کران کوسُپردکرنے کی بات ہو گئی، مگر ان پیسوں کے آنے سے میرے بیوپار کی برکت ہی اڑ گئی، اورریسٹورنٹ بالکل ٹھنڈا پڑا گیا، مسجدبہت موقع کی تھی نمازی بڑھتے گئے، جمعہ کے دن دورسڑک تک صفیں بن جاتیں، ایک روز ظفر صاحب ممبئی کے ایک حاجی صاحب کولے کر میرے پاس آئے اور بولے کہ آپ اس ریسٹورنٹ اور گھر کو مسجد کو بڑھانے کے لئے دے دیں اور آپ روہتک میں کوئی جگہ لے کر وہاں دوکان کر لیں، آپ کاریسٹورنٹ یہاں چل بھی نہیں رہا ہے، ہم نے ماں سے مشورہ کیا، ماں نے کہا ٹھیک ہے کر لو، ساڑھے سات لاکھ روپئے میں بات طے ہو گئی، چار مہینوں کا وقت پیسوں کے لئے طے ہوا، چار مہینوں میں پیسوں کا انتظام نہ ہو سکاتوظفرصاحب کوکسی نے مولانا محمد کلیم صاحب کا پتہ اور فون نمبر دیا، وہ دہلی گئے، حضرت سے ملے، حضرت نے مجھ سے فون پر بات کی اور دو مہینے اور بڑھانے کو کہا، میں نے دو دن بعد دو مہینے وقت اور بڑھا دیا، ظفر صاحب نے ڈیڑھ مہینہ میں پیسے لا کر مجھے دے دیئے، میں نے ایفی ڈیوٹ بنا کر دے دیا، اوراپناسامان اٹھا لیا، اس کے بعد اگلے جمعہ کو ظفر صاحب نے حضرت کو وہاں آ کر جمعہ پڑھانے کو کہا، حضرت نے وقت دے دیا، ظفر صاحب نے کہا بڑے مولانا صاحب ہمارے دھرم گرو آ رہے ہیں آپ دونوں بھائی ان سے ضرور مل کران سے دعا اور آشیر واد لے لیں، جمعہ سے پہلی رات میں نے خواب دیکھا کہ دس بڑے سانپ ہیں، وہ مسجدسے نکلے اور ہمارے گھرکی طرف دوڑ رہے ہیں، لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ دسوں تمھارے گھر والوں اور تمھارے کاروبار کو کھالیں گے، میری آنکھ کھلی تومیں بہت ڈرا ہوا تھا، ڈر کی وجہ سے میں صبح دس بجے مسجدپہنچ گیا، میرے بڑے بھائی ساتھ تھے، حضرت ۱۲ ؍ کے بعد آئے، ہم نے ان کے ساتھ ناشتہ کیا اور حضرت سے میں نے اپنے خواب کے بارے میں بتایا، کہ ڈھائی لاکھ مسجدکے اورساڑھے سات لاکھ گھراورریسٹورنٹ کے ہوئے، دس لاکھ روپئے اس مسجدکے میں نے لئے ہیں، حضرت نے کہا یہ مالک کا گھر ہے، اور ہم سب مالک کے بندے ہیں، فرمانبردار غلام اور بندے بن کر ہمیں خودمسجدمیں پیسہ لگانا اور اپنے اکیلے مالک کی عبادت کرنی چاہئے، آپ نے پیسے لے کر یہ مسجدخالی کی ہے یہ آپ کے لئے حلال نہیں، اور ہمارے نبی ﷺ نے بتایا ہے کہ حرام مال کو گنجے سانپ کی شکل میں دوزخ میں لایا جائے گا تو حرام کھانے والے کوڈسے گا، حضرت کے ساتھ حاجی شکیل صاحب بھی تھے، حضرت نے مجھے اور میرے بھائی کو الگ مولانا کے حجرہ میں بات کرنے کے لئے بھیج دیا، حاجی صاحب نے ہمیں بہت محبت سے سمجھایااوراسلام کی دعوت دی، زندگی کے حالات میں خود ہم لوگ اندرسے اسلام کے قریب تھے، رات کے خواب کا اثر تازہ تھا، ہم دونوں نے کلمہ پڑھ لیا، حضرت نے کلمہ پڑھوایا، حضرت نے میرے بھائی کا نام محمد شکیل اور میرا نام محمد شمیم رکھا، ہمیں وضو کرائی اور ہم نے حضرت کے ساتھ پہلی جمعہ کی نماز پڑھی نماز کے بعد ہم نے حضرت سے وعدہ کیا کہ دس لاکھ روپئے ہم دونوں بھائی جلدی یا تو روہتک کی دوکان بیچ کریاکسی طرح انتظام کر کے لوٹا دیں گے، حضرت نے کہا ٹھیک ہے، آپ نیت پکی رکھو اللہ تعالی سہولت سے جب انتظام کرا دیں لوٹا دینا، اس سے اس مسجدکی دوبارہ بڑی عمارت بنانا شروع کریں گے، بھائی ظفرستمبرمیں جماعت میں چلّے کو جا رہے تھے، انھوں نے حضرت سے فون پر بات کرائی، حضرت نے ہمیں مشورہ دیا کہ آپ دونوں بھائی جماعت میں چالیس روز ضرور لگا لیں، پہلے ایک بھائی چلے جائیں اس کے بعد دوسرے بھائی چلے جائیں، ماں سے مشورہ کیا، کون پہلے جائے، ماں نے کہا دھرم کے کام میں دیر نہیں کرنی چاہئے تم دونوں ساتھ چلے جاؤ، ظفر بھائی کے ساتھ ہم نے پہلا چلہ ستمبر۲۰۱۱ ء میں لگایا، واپس آ کر ہم نے پہلے ماں کو آ کر پوری جماعت کی کارگذاری سنائی، وہ الحمدللہ بہت آسانی سے اسلام قبول کرنے کو تیار ہو گئیں، اس کے بعد ہمارے بچے اور گھر والیاں بھی تھوڑی تھوڑی کوشش سے ایمان میں آ گئیں۔

س:مسجدکے وہ دس لاکھ روپئے واپس ہو گئے ؟

ج:اللہ نے نیت کی برکت سے بالکل آسانی سے کام کرا دیا ہم لوگوں نے ایک نئی آبادی میں ایک پلاٹ ابھی کچھ روز پہلے دو لاکھ روپئے کا خریدا تھا، اچانک اس علاقہ کے پاس ایک ہائی وے روڈ نکل گیا، مٹی ڈالتے ہی زمین کے بھاؤدس گنے بڑھ گئے، یہ پلاٹ بیس لاکھ روپئے کابک گیا، ہم نے دس لاکھ روپئے ظفر بھائی کو دیئے، دونوں بھائیوں کی طرف سے پچاس پچاس ہزار روپئے مزیدمسجدبنوانے کے لئے اپنی طرف سے دیئے، اور نو لاکھ روپئے کی ایک دوکان روہتک میں خرید لی، بیس فد دوکان ہے۔ الحمدللہ ریسٹورنٹ کے لئے بہت اچھی جگہ پر ہے، بڑے بھائی اس میں بیٹھ رہے ہیں۔

س:آپ نے اپنے گھر والوں کے دین سیکھنے کا کچھ انتظام کیا؟

ج:ہمارے یہاں ایک قاری صاحب ہیں جوہانسوٹ گجرات میں پڑھے۔ان سے ہم سب گھر والے قرآن شریف اردو اور دینیات پڑھ رہے ہیں۔

س:دعوت کے لئے کیا کر رہے ہیں آپ ؟

ج:الحمدللہ علاقہ کے جماعت کے کام میں جڑتے ہیں۔۱۲ء میں اور۱۳ء میں چلہ لگایا، اس سال چار مہینے بھی اللہ نے لگوا دیئے، اور الحمد للہ نے وہ پنڈت جی جنھوں نے مسجدمیں مورتی رکھی تھی وہ بھی ایمان میں آ گئے ہیں، کچھ لوگ تو شوق سے مانتے ہیں، کچھ لوگوں کو خوف سے ماننا پڑتا ہے، پنڈت جی ایک کے بعد ایک حادثہ سے ڈرکراسلام میں آئے ہیں۔

س:ان کے بارے میں بتایئے ؟

ج:اب مجھے جانا ہے، ہماری گاڑی کا وقت ہے، میں ان کولے کر آؤں گا، ان کی کہانی ان سے ہی سنوادوں گا۔

س:ارمغان پڑھنے والوں کو کچھ پیغام دیجئے ؟

ج:دنیاکے کسی افسرمنتری کے گھریااس کی پارٹی کا کچھ کام کوئی کر دے، تووہ اس کو ضرور نوازتا ہے، سارے حاکموں کے حاکم، کن کے اشارے سے ساری کائنات کو بنانے والے کے گھرمسجدمیں اس کے دین کی ذرا خدمت کر کے تو دیکھے کیسے نوازتے ہیں میرے مالک! میرے پتاجی نے ذراسی جھاڑواس کے گھر میں لگائی، اس کے کلام کاسنسکارکیا، ہمارے پورے خاندان کو دین سے اجڑے دیار ہریانہ میں اوراس کے بھی بھوانی کے ویران ترین علاقہ میں کس طرح ہدایت سے نوازا، ہر ایک اس کا تجربہ کر کے دیکھ لے۔

س:واقعی بہت کام کی بات آپ نے کہی۔جزاکم اللہ۔فی امان اللہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ

ج:وعلیکم السلام دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیا سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو شیطان اغوا کر لیتا تھا؟

 

                محسن اقبال ﷾

 

 

ایک شیعہ نے تاریخ طبری سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے  سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ پر اعتراض کیا ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بعض اوقات شیطان اغواء کر لیتا تھا۔

تاریخ طبری کی یہ روایت سخت ضعیف ہے۔ اس کی مکمل سند درج ذیل ہے۔

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَمِّی، قَالَ : حَدَّثَنَا سَیْفٌ، وَحَدَّثَنِی السَّرِیُّ بْنُ یَحْیَى، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعَیْبُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ، عَنْ سَیْفِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِی ضَمْرَۃَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عَدِیٍّ،

اس روایت کا ایک راوی سیف بن عمر سخت ضعیف ہے۔ اس کی تحقیق درج ذیل ہے۔

أہل السنۃ والجماعۃ

 

1۔إمام أہل الجرح یحیى بن معین المتوفى (232 أو 233 ہ ) . قال عن سیف : ( فَلْس خیر منہ ) .لكامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی ج4 ص507 رقم 851، تہذیب الكمال ج10 ص326 .)

2۔محمد بن عبداللہ بن نُمَیْر الہمْدانی المتوفى (234 ہ): سیف الضبی تمیمی، وكان جُمَیْع یقول : حدثنی رجل من بنی تمیم، وكان سیف یضع الحدیث، وكان قد اتہم بالزندقۃ ). المجروحین لابن حبان ج1 ص345 – 346، المیزان للذہبی ج3 ص353 رقم 3642 )

3۔أبو زرعۃ الرازی المتوفى (246ہ) قال : ( ضعیف الحدیث ).تہذیب الكمال ج12 ص327

4۔قال أبو داوود المتوفى (246ہ) صاحب السنن فی سیف : ( لیس بشیء ).سؤالات الآجری لأبی داود ج1 ص214 رقم 216)

5۔أبو حاتم الرازی المتوفى (277ہ) قال عنہ : ( متروك الحدیث ).الجرح والتعدیل ج4 ص278 رقم 1189)

6۔أورد النسائی المتوفى (303ہ) صاحب السنن فی كتابہ ( الضعفاء والمتروكین ) وقال عنہ : ( سیف بن عمر الضبی : ضعیف ).الضعفاء والمتروكین للنسائی رقم 256)

7۔الإمام عبدالرحمن بن أبی حاتم الرازی المتوفى (327ہ) صاحب كتاب الجرح والتعدیل قال فی سیف : ( وسیف متروك الحدیث ).الجرح والتعدیل ج7 ص136 رقم762)

8-وقال ابن حبان المتوفى (354 ہ) ذكر سیف بن عمر فی المجروحین فقال : ( یروی الموضوعات عن الاثبات، وقالوا : سیف یضع الحدیث وكان قد اتہم بالزندقۃ ).كتاب المجروحین لابن حبان ج1 ص 345 – 346

9-الحاكم النیسابوری المتوفى (405 ہ) صاحب المستدرك قال فی سیف : ( اتہم بالزندقۃ وہو فی الروایۃ ساقط )تہذیب التہذیب ج4 ص296

10۔وذكرہ ابن الجوزی المتوفى (571 ہ) فی الضعفاء، وقال أیضاً : ( وہذا حدیث موضوع بلا إشكال وفیہ جماعۃ مجروحین، وأشدہم فی ذلك سیف وسعد، وكلاہما متہم بوضع الحدیث ).الموضوعات لابن الجوزی ج1 ص362 رقم 444۔

11۔الذہبی المتوفى (847 ہ ) قال عن سیف : ( متروك باتفاق ) .المغنی ج1 ص460 رقم 2716)

12۔جلال الدین السیوطی المتوفى (911 ہ) قال عن سیف : بعد أن عقب على حدیث ہو فی سندہ فقال : ( موضوع، فیہ ضعفاء أشدہم سیف ). اللیالی المصنوعۃ للسیوطی ج1 ص392۔

13۔وقال علی بن أبی بكر الہیثمی المتوفى (807 ہ) فی حدیث ضعفہ لأجل سیف قال : ( وفیہ سیف بن عمر متروك ) فیض القدیر شرح الجامع الصغیر للمناوی ج1 ص460۔

14۔محمد بن علی الشوكانی المتوفى (1250 ہ) قال عن سیف : فی سند ہو فیہ : ( وفی إسنادہ سیف بن عمر، وہو وضاع ). الفوائد المجموعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ ص 491

15۔قال الشیخ المحدث محمد العربی التبانی توفی نحو (1390 ہ ) فی كتابہ القیم ( تحذیر العبقری من محاضرات الخضری ) . (1/275) ( سیف بن عمر الوضاع المتہم بالزندقۃ المتفق على أنہ لا یروی إلا عن المجہولین )

الشیعۃ

 

۔1، قال الخوئی المتوفى ( 1413ہ) : ( سیف بن عمر الوضاع الكذاب ).معجم رجال الحدیث ج11 ص 207)

۔2۔قال الأمینی المتوفى (1390 ہ) عن سیف :” راوی الموضوعات، المتروك، الساقط، المتسالم على ضعفہ، المتہم بالزندقۃ” .ونقل العلامۃ الأمینی أقوال أہل الجرح والتعدیل فیہ. (الغدیر ج8 ص 84 – 85 و 140 – 141 و 327 و 351)

سیف بن عمر کو شیعہ علماء نے بھی ضعیف اور متروک کہا ہے۔

شیعہ عالم الامینی کا یہ قول ایران سے  شیعہ عالم سیستانی کے مکتب سے شایع کی گئی کتاب السلف الصالح میں بھی پیش کیا گیا ہے کہ سیف بن عمر متروک اور ضعیف ہے۔

اس کے علاوہ شیعہ کا اصل اعتراض اس روایت کے لفظ اغوینّھم پہ تھا اور شیعہ کا استدلال تھا کہ

قرآن کی آیت یہ ہے : قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَیْتَنِی لَأُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِی الْأَرْضِ وَلَأُغْوِیَنَّہُمْ أَجْمَعِینَ ﴿٣٩﴾ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِینَ ﴿٤٠﴾

اس نے کہا کہ پروردگار جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں ان بندوں کے لئے زمین میں ساز و سامان آراستہ کروں گا اور سب کو اکٹھا گمراہ کروں گا,علاوہ تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے خالص بنا لیا ہے۔

یہاں پر اغوینّھم کا لفظ ہے ، یعنی میں انہیں اغوا کروں گا۔

ابوبکر کہتا ہے کہ مجھے کبھی کبھار شیطان اغوا کر لیتا ہے جبکہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ شیطان اللہ تعالی کے خالص بندوں‌ کو اغوا نہیں‌ کر پائے گا۔ تو ابوبکر کیسے خلیفہ تھے جو کہتے ہیں کہ مجھے شیطان اغوا کر لیتا ہے۔ ماننا پڑے گا کہ ابوبکر مومن نہیں تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام زین العابدین ؒ نے بھی اپنے لئے انہی الفاظ کا استعمال کیا ہے جس کا ذکر شیعہ کتب میں موجود ہے۔

روایت یہ ہے

یقول الإمام زین العابدین فی مناجاتہ : «إلہی إلیك أشكو نفسا بالسوء أمارۃ، وإلى الخطئیۃ مبادرۃ، وبمعاصیك مولعۃ، ولسخطك متعرضۃ، تسلك بی مسالك المہالك، وتجعلنی عندك أہون ہالك، كثیرۃ العلل، طویلۃ الامل، إن مسہا الشر تجزع، وإن مسہا الخیر تمنع، میالۃ إلى اللعب واللہو، مملوء‌ۃ بالغفلۃ والسہو، تسرع بی إلى الحوبۃ وتسوفنی بالتوبۃ. إلہی أشكو إلیك عدوا یضلنی، وشیطانا یغوینی، قد ملأ بالوسواس صدری، وأحاطت ہواجسہ بقلبی، یعاضد لی الہوى، ویزین لی حب الدنیا، ویحول بینی وبین الطاعۃ والزلفى. إلہی إلیك أشكو قلبا قاسیا، مع الوسواس متقلبا، وبالرین والطبع متلبسا، وعینا عن البكاء من خوفك جامدۃ، وإلى ما یسرہا طامحۃ. إلہی لا حول ولا قوۃ إلا بقدرتك، ولا نجاۃ لی من مكارہ الدنیا إلا بعصمتك. فأسألك ببلاغۃ حكمتك، ونفاذ مشیتك، أن لا تجعلنی لغیر جودك متعرضا، ولا تصیرنی للفتن غرضا، وكن لی على الأعداء ناصرا، وعلى المخازی والعیوب ساترا، ومن البلایا واقیا، وعن المعاصی عاصما، برأفتك ورحمتك یا أرحم الراحمین.

(الصحیفۃ السجادیۃ ص 236.)

اب شیعہ کو چاہئے کہ یہ لفظ بیان کرنے پہ جو فتوی وہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پہ لگاتے ہیں وہی فتوی امام زین العابدین پہ لگائیں کہ کیا امام زین العابدینؒ کو بھی شیطان نے اغوا کر لیا تھا؟؟؟

اگر ان کے نزدیک یہ لفظ بیان کرنے سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مومن نہیں ہیں تو پھر یہی لفظ بیان کرنے سے امام زین العابدینؒ بھی مومن نہیں ہو سکتے۔

غلامِ خاتم النبئینﷺ

محسن اقبال

٭٭٭

 

 

 

 

ردِّ قادیانیت کورس

( قسط۔ ١)

 

                منظور احمد چنیوٹی عفااﷲ عنہ

 

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

 

الحمدﷲ وحدہ والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ،

اما بعد:

دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈو الہ یار سندھ سے فراغت کے بعد ملتان میں امیر شریعت سید عطا اﷲ شاہ صاحب بخاری ؒ کے قائم کردہ ختم نبوت مدرسہ میں رد قادیانیت کی تربیت حاصل کرنے کیلئے 1951ء میں بندہ ناچیز داخل ہوا، فاتح قادیان استاذ محترم حضرت مولانا محمد حیات صاحب ؒ سے تربیت حاصل کی، ہم کل چار ؍پانچ ساتھی تھے۔ 1952 کے اوائل میں فارغ ہوا اور اس کے بعد مدرسہ دار الہدی ٰ چوکیرہ ضلع سرگودہا میں تدریس کی خدمت پر مامور ہو گیا، درسی کتب پڑھانے کے ساتھ ساتھ طلبا ء کو رد قادیانیت کی تربیت دینا بھی شروع کر دی، وہاں سے 1954ء میں اپنے آبائی شہر چنیوٹ آ کر جامعہ عربیہ کی بنیاد رکھی، اورحسب معمول طلباء کی تربیت جاری رہی، پھر میرے مربی اور شفیق استاد حضرت علامہ مولانا سید محمد یوسف بنوری ؒ کے حکم پر شعبان کی تعطیلات میں کراچی میں ان کے جامعہ علوم الاسلامیہ میں مدت تک یہی خدمت سرانجام دینے کی سعادت حاصل کرتا رہا، اسی طرح تنظیم اہل سنت کے زیر اہتمام ملتان میں بھی حضرت علامہ دوست محمد قریشی ؒ اور حضرت علامہ عبدالستار تونسوی مدظلہ کے حکم پر دس ؍پندرہ روزہ تربیتی کورس کراتا رہا۔ اپنی کاپی جو راقم نے اپنے استاد مرحوم فاتح قادیان سے دوران تربیت لکھی تھی اس سے ضروری حوالہ جات طلبا ء کو

لکھواتا تھا اور بندہ نے اپنے تجربہ کی روشنی میں ایک نئی ترتیب دیدی جس میں استاد محترم کی تربیت کے برعکس پہلا موضوع بجائے ’’حیات عیسی علیہ السلام‘‘ کے ’’ مرزا قادیانی کے صدق و کذب ‘‘ کو اصل موضوع قرار دیا اور قادیانیوں سے موضوع گفتگو طے کرنے کیلئے عقلی اور نقلی دلائل سے ثابت کیا کہ اصل موضوع مدعی نبوت کی ذات اور کردار ہے۔اگر وہ ایک سچا اور شریف النفس انسان بھی ثابت ہو جائے تو ہمیں دوسری بحثوں ’’حیات مسیح علیہ السلام ‘‘ اور ’’ختم نبوت‘‘ کے موضوعات پر گفتگو کرنے اور فریقین کا وقت ضایع کرنے کی ضرورت نہیں، ہم بغیر کسی قسم کی بحث کئے اسے اپنے تمام دعاوی میں سچا مان لیں گے اور اگر وہ اپنی تحریرات سے شریف اور سچا انسان ہی ثابت نہ ہو بلکہ پرلے درجہ کا کذاب، بد زبان، بدکردار، بد اخلاق، شرابی اور زانی، انگریز کا ٹاؤٹ ثابت ہو رہا ہو تو پھر دوسری بحثوں میں پڑنا فریقین کا وقت ضایع کرنا ہے جیسا کہ مرزا قادیانی اور اس کے دونوں جانشینوں نے خود اس بات کا فیصلہ دے دیا ہے اس لئے میری ترتیب میں پہلا عنوان ’’تعین موضوع‘‘ ہے اور یہی اصل موضوع ہے جس پر راقم نے عقلی، نقلی دلائل پیش کئے ہیں اس موضوع کو طے کر لینے کے بعد حدیث رسول کریم ﷺ کی مطابق قادیانی کے کذاب و دجال ہونے پر چند دلائل دئے گئے ہیں اس کے بعد ’’ حیات مسیح‘‘ پھر ’’ ختم نبوت‘‘ کا موضوع پیش کیا گیا ہے۔

جامعہ علوم اسلامیہ اور دفتر تنظیم اہلسنت میں تیاری کراتے ہوئے شریک درس طلباء سے نوٹس تیار کرنے کیلئے کہا، ان نوٹس کی جانچ پڑتال کر کے ایک کاپی تیار کی۔آیندہ ہرسال اسی کاپی کی فوٹو سٹیٹ اپنے طلبہ میں تقسیم کر دی جاتی۔اس طرح ان نوٹس سے طلبا ء کا وقت بھی بچا اور دوران تحریر وہ عجیب غریب غلطیوں ے بھی بچ گئے۔ دوران کورس قادیانی کتب سے حوالہ جات دکھا دئے جاتے تاکہ انہیں عین الیقین ہو جائے اور حوالہ جات کی مزید تشریح زبانی کر دی جاتی۔

اسی کاپی کی مدد سے مسجد نبوی شریف میں کئی سال مغرب اور عشاء کے درمیان یونیورسٹی کے طلبہ کو عربی میں پڑھاتا رہا۔ ۱۹۸۵ء میں مدینہ یونیورسٹی کے چانسلر نے شاہ فہد کی خصوصی اجازت سے سرکاری طور پر اس حقیر کو دعوت دی تو بندہ یونیورسٹی میں طلبا ء کو عصر سے مغرب تک اسی کاپی کی مدد سے تیاری کراتا رہا۔ ایشیا کی عظیم اسلامی یونیورسٹی اور ہماری مادر علمی دار العلوم دیوبند کے منتظمین نے 1990ء میں دارالعلوم میں ایک تربیتی کیمپ کا انتظام کیا، پورے ہندوستان سے منتخب علما ء کو جمع کیا گیا اور دارالعلوم سے فارغ ہونے والے طلبا ء کی ایک کثیر تعداد اس کے علاوہ تھی۔

بندہ نے ان نوٹس کی ایک کاپی وہاں ارسال کی کہ اس کی فوٹو سٹیٹ کروا لیں تاکہ حاضرین کورس میں تقسیم کی جا سکے۔ چونکہ حاضرین کی تعداد زیادہ تھی اسلئے انہوں نے دو ہزار کے قریب اسی کاپی کو چھپوا لیا۔

چونکہ قلمی کاپی کی نسبت پرنٹ کاپی کے صفحات کی تعداد کم تھی نیز اکابرین علماء دیوبند کی خواہش تھی کہ اس کاپی کو کتابی شکل میں بھی شایع کیا جائے ، اگرچہ راقم اس رائے سے کچھ زیادہ متفق نہیں تھا کیونکہ اس کا کامل فائدہ باضابطہ پڑھنے سے ہی ہوتا ہے ، لیکن اکابر کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے بندہ ناچیز نے اس کی اجازت دے دی۔ چنانچہ میرے مشورہ اور رائے سے اس میں چند مفید اضافے کر کے اور کچھ ترتیب درست کر کے عزیز محترم مولانا سلمان منصور پوری اطال اﷲ عمرہ نائب مفتی واستاذ جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد، نواسہ حضرت شیخ العرب و العجم مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ نے اسے کتابی شکل میں ترتیب دیدیا۔میری نظر ثانی اور چند ضروری اضافہ جات کے بعد اب یہی کتاب ’’ رد مرزائیت کے سنہری اصول‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں تقریباً اڑھائی سو صفحات پر مشتمل کتاب دارالعلوم دیوبند کی کل ہندمجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام چھپ چکی ہے اور وہاں سے دستیاب ہو سکتی ہے۔

اس تمام وضاحت کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ یہ واضح ہو جائے کہ یہ کوئی باضابطہ تصنیف نہیں ہے بلکہ میرے ضروری نوٹس ہیں۔اگرچہ ہر اردو پڑھا لکھا عالم، غیر عالم اپنی استعداد کے مطابق اس سے استفادہ کرسکتا ہے مگر اس سے مکمل استفادہ وہی کرسکتا ہے جو شریک دورہ ہو کر باضابطہ طور پر پڑھے اور سمجھے کیونکہ دوران تدریس ان حوالہ جات کی تشریح میں اور کئی مفید باتیں بھی آ جاتی ہیں جو اس پندرہ روزہ کورس میں درج نہیں یا جو صرف دوران سبق ہی بتائی اور سمجھائی جا سکتی ہیں۔

اﷲ تعالیٰ راقم موصوف کی اس کاوش اور محنت کو قبول فرمائیں اور گم گشتہ راہ قادیانیوں کے لئے ذریعہ ہدایت بنائیں۔

بندہ نے اس میں مزید اضافہ کر کے اسے ایک مستقل کتاب ’’ردّ مرزائیت کے زرّیں اصول ‘‘ کے عنوان سے ترتیب دے دیا ہے۔ جو کہ ادارہ مرکزیہ دعوت و ارشاد چنیوٹ سے دستیاب ہے۔

تمام حضرات سے درخواست ہے دعا کریں کہ اﷲ تعالیٰ میری اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشیں۔ آمین

احقر

منظور احمد چنیوٹی عفااﷲ عنہ

 

                ﴿باب اول ﴾

 

مرزا غلام احمد قادیانی کا مختصر تعارف

 

خاندانی پس منظر

’’ میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ (برطانیہ) کا پکا خیر خواہ ہے۔ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفا دار اور خیر خواہ آدمی تھا جن کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور۱۸۵۷ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کو مدد دی تھی یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت سرکار انگریز ی کی امداد میں دئے تھے ان خدمات کی وجہ سے جو چھٹیات خوشنودی حکام ان کو ملی تھیں مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہو گئیں مگر تین چھٹیات جو مدت سے چھپ چکی ہیں ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر خدمات سرکاری میں مصروف رہا اور جب تیموں کے گزر پر مفسدوں کا سرکار انگریزی کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریزی کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا۔ پھر میں اپنے والد اور بھائی کی وفات کے بعد ایک گوشہ نشین آدمی تھا تاہم سترہ برس سے سرکار انگریزی کی امداد اور تائید میں اپنی قلم سے کام لیتا ہوں۔‘‘

(کتاب البریہ مندرجہ روحانی خزاین جلد ۱۳ ص۴ تا ۶)

 

نام و نسب

’’اب میرے سوانح اس طرح پر ہیں کہ میرا نام غلام احمد میرے والد کا نام غلام مرتضی اور دادا صاحب کا نام عطاء محمد اور میرے پردادا صاحب کا نام گل محمد تھا اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے ہماری قوم مغل برلاس ہے اور میرے بزرگوں کے پرانے کاغذات سے جو اَب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں سمر قند سے آئے تھے۔‘‘

(کتاب البریہ ص۱۴۴ بر حاشیہ روحانی خزائن ص ۱۶۲، ۶۳ ج ۱۳، مثلہ سیرۃ المہدی حصہ اول ج۱ ص۱۱۶۰

 

تاریخ و مقام پیدائش

مرزا غلام احمد قادیانی بھارت کے مشرقی پنجاب ضلع گورداسپور تحصیل بٹالہ قصبہ قادیان میں پیدا ہوا۔ اپنی تاریخ پیدائش کے بارے میں اس نے یہ وضاحت کی ہے :

’’ اب میرے ذاتی سوانح یہ ہیں کہ میری پیدایش۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی ہے اور میں ۱۸۵۷ء میں سولہ برس کا یا سترھویں برس میں تھا۔‘‘

(کتاب البریہ ص۱۵۹ حاشیہ روحانی خزاین ص۱۷۷ ج۱۳)

 

ابتدائی تعلیم

مرزا قادیانی نے قادیان ہی میں رہ کر متعدد اساتذہ سے تعلیم حاصل کی جس کی تفصیل خوداس کی زبانی حسب ذیل ہے :

’’ بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا۔جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الہی تھا۔اور جب میری عمر تقریباً دس برس کی ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کیلئے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدائے تعالی کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ’ فضل‘ ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرَف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو اِن سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ان کا نا م گل علی شاہ تھا ان کو بھی میرے والد نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کیلئے مقرر کیا تھا اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے۔‘‘

(کتاب البریہ بر حاشیہ۶۱ ۱تا۱۶۳۔روحانی خزائن ج ۱۳ ص ۱۷۹ تا ۱۸۱)

جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی خود لکھتا ہے کہ

’’ تمام نفوس قدسیہ انبیاء کو بغیر کسی استاد یا اتالیق کے آپ ہی تعلیم اور تادیب فرما کر اپنے فیوض قدیم کا نشان ظاہر فرمایا۔‘‘

(دیباچہ براھین احمدیہ ص ۷، روحانی خزائن ص۱۶ج۱)

 

ملازمت

مرزا غلام احمد قادیانی کا بیٹا لکھتا ہے :

’’ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمہارے دادا کی پنشن وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین بھی چلا گیا جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان آنے کے باہر لے گیا اور ادھر اُدھر پھراتا رہا پھر اتا رہا پھر جب آپ نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے واپس گھر نہیں آئے اور چونکہ تمہارے دادا کا منشاء رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہو جائیں اس لئے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہو گئے۔ ‘‘

(سیرۃ المہدی حصہ اول ص ۴۳ روایت نمبر ۴۹، مصنفہ صاحبزادہ بشیر احمد صاحب قادیانی )

واضح رہے کہ پنشن کی یہ رقم سات صد روپیہ تھی۔

(سیرۃ المہدی ج ۱ ص ۱۳۱ روایت نمبر ۱۲۲)

 

منکوحات مرزا

مرزا غلام احمد قادیانی کی تین بیویاں تھیں، پہلی بیوی جس کو ’ پھجے کی ماں‘ کہا جاتا ہے اور اس کا نام حرمت بی بی تھا اس سے ۱۸۵۲ء یا ۱۸۵۳ ء میں شادی ہوئی۔

دوسری بیوی جس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے اس سے نکاح ۱۸۸۴ء میں ہوا۔ اس کی ایک اور بیوی بھی تھی جس کے ساتھ بقول اس کے اس کا نکاح آسمانوں پر ہوا تھا، جس کا نام محمدی بیگم تھا مگر اس کے ساتھ اس کی شادی ساری زندگی نہ ہو سکی اس کا مفصل تذکرہ آیندہ پیش گوئی نمبر۶ کے ذیل میں آئے گا۔

 

اولاد

۱۔ مرزا سلطان احمد

۲۔مرزا فضل احمد

یہ دونوں مرزا پر ایمان نہ لائے تھے میرزا فضل احمد مرزا قادیانی کی زندگی میں مر گیا لیکن مرزا نے اس کا جنازہ نہ پڑھا۔

( روزنامہ الفضل قادیان ۷ جولائی۱۹۴۳ء ص ۳ )

جبکہ مرزا سلطان احمد کو مرزا نے عاق کر دیا تھا۔

مرزا کی دوسری بیوی سے درج ذیل اولاد ہوئی :

لڑکے ﴾مرزا محمود احمد۔مرزا شوکت احمد۔ مرزا بشیر احمد اول۔ مرزا شریف احمد۔ مبارک احمد۔بشیر احمد ایم اے۔

لڑکیاں﴾مبارکہ بیگم۔ امۃالنصیر۔ امۃ الحفیظ بیگم۔عصمت

ان میں سے فضل احمد، بشیر اول، شوکت احمد، مبارک احمد، عصمت اور امۃ النصیر کا مرزا کی زندگی میں ہی انتقال ہو گیا تھا جبکہ باقی اولاد( سلطان احمد، محمود احمد، بشیر احمد، شریف احمد، مبارک بیگم، امۃ الحفیظ بیگم ) مرزا قادیانی کی موت کے بعد بھی زندہ رہی۔

(دیکھئے نسب نامہ مرزا، سیرۃ المہدی حصہ اول ص ۱۱۶ روایت ۱۱۶)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مرزا کے ہاں دونوں بیویوں سے آٹھ لڑکے اور چار لڑکیاں پیدا ہوئی تھیں۔چار لڑکے اور دو لڑکیاں مرزا کی زندگی میں انتقال کر گئیں جبکہ چار لڑکے اور دو لڑکیاں زندہ رہیں۔

٭٭٭

(جاری ہے …)

٭٭٭

 

مرض الموت میں حضرت مولانا سید انور شاہ کشمیری نے اپنی چارپائی اٹھوائی اور دارالعلوم دیوبند کی مسجد کے محراب کے پاس رکھوا کر آخری وصیت ارشاد فرمائی ہے کہ:

’’ اس امت کیلئے اب تک قادیانیت سے بڑھ کر فتنہ وجود میں نہیں آیا۔ مسلمانوں کے ایمان کو اس فتنۂ ارتداد سے بچا ؤ اور اپنی ساری قوتیں اس میں صرف کر ڈالو۔ یہ ایسا جہاد ہے جس کا بدلہ جنت ہے ، میں اس بدلے کا ضامن بنتا ہوں ‘‘

یہ روایت حضرت علامہ مولانا شمس الحق افغانی رحمۃ اﷲ علیہ نے بیان فرمائی جسے نقل کر کے ان کے تصدیقی دستخط کروا لئے گئے حضر ت افغانی نے فرمایا کہ حضرت شاہ صاحب کی یہ روایت مجھے مولانا محمد صدیق صاحب جو حاضر مجلس تھے کی وساطت سے پہنچی تھی، انہوں نے فارسی میں خط لکھا جس کا ایک جملہ یہ تھا:

’’ دریں بارہ کلام پر اثر نمود کہ سنگ خار ہ موم مے کرد‘‘

٭٭٭

 

 

 

ردِ غیر مقلدیت

 

فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْن

میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سُنت تم پر لازم ہے۔ (سنن ابی داؤد، ج۲ص۲۹۰باب فی لزوم السنۃ)

 

جھوٹے اہل حدیث

 

(تیسری اور آخری قسط )

 

                مفتی آرزومند سعد ﷾

 

جھوٹ نمبر ٨:

ابو اقبال سلفی اپنی کتاب مذہب حنفی کا دین اسلام سے اختلاف نامی کتاب میں لکھتا ہے۔

حنفیہ سفر کے رخصت والی آیات کو نہیں مانتے۔ ص ۲۳۔

الجواب:یہ بھی اس کا صریح جھوٹ ہے۔ فقہ حنفی کے تمام کتابوں میں یہ مسئلہ درج ہے کہ مسافر کے لئے نماز قصر ہے اور روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے۔ فقہ حنفی کے ہر کتاب میں اس کے لئے الگ باب قائم ہے۔ مثلاً کنز الحقائق کی شرح البحر الرائق میں ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق مشكول – (5 / 82)

بَابُ الْمُسَافِرِ ) أَیْ بَابُ صَلَاۃِ الْمُسَافِرِ۔

اس طرح ہر کتاب میں یہ باب قائم ہے۔ لیکن تعصب اور ضد میں آ کر اس غیر مقلد نے احناف پر اتنا بڑا جھوٹ بول دیا کہ ایک عام آدمی بھی اس کے جھوٹ کو جان سکتا ہے۔

 

جھوٹ نمبر ٩:

ص ۳۶ پر ایک اور جھوٹ لکھا ہے کہ رفع الیدین کو نقل کرنے والے پچاس صحابہ ؓ ہیں۔

الجواب: یہ بھی صریح جھوٹ ہے جو ان کے بڑوں سے متواتر چلا آ رہا ہے۔ غیر مقلدین کے لئے ہمارا کھلا چیلنج ہے کہ آپ پچاس کے بجائے صرف پچیس صحابہ کرام ؓ سے اپنی رفع یدین ثابت کر دیں۔یعنی چار رکعت والی نماز میں دس جگہ ہمیشہ کرنے اور نہ اٹھارہ جگہ نہ کرنے کی۔ہم ان کو فی صحیح روایت انعام دینے کو تیار ہیں۔

 

جھوٹ نمبر ١٠:

ص ۳۷ پر لکھا ہے کہ احناف آمین کی احادیث کو نہیں مانتے۔

الجواب: یہ بھی سفید جھوٹ ہے۔ احناف کے اردو، عربی، فارسی بلکہ ہر زبان کی نماز سے متعلق کتاب اٹھا کر دیکھا جا سکتا ہے کہ احناف کے نزدیک آمین کی کیا حیثیت ہے۔ایک ان پڑھ شخص بھی دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ یہ اللہ کا بندہ کتنا جھوٹ بولتا ہے۔(فلعنۃ اللہ علی الکاذبین)

اسی صفحہ پر لکھا ہے کہ صحیح احادیث سے آمین کا بالجہر کہنا ثابت ہے۔حالانکہ صفت صلوۃ النبی ﷺ میں غیر مقلدین کے شیخ البانی نے لکھا ہے کہ مقتدی کے اونچی آواز میں آمین کہنے پر کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔

 

جھوٹ نمبر ١١:

ص ۴۴ پر تو حد کر دی۔کہتا ہے کہ صبح کی نماز کے قائم ہونے کے بعد والی احادیث کو نہ ماننے والا کب مسلمان رہ سکتا ہے۔لیکن اسلام کے علاوہ ایک حنفی مذہب ہے جو اس کی اجازت دیتا ہے۔

الجواب: قارئین کرام اس جھوٹ پر تبصرہ کرنے کے بجائے آپ ان احادیث کا مشاہدہ کریں جن میں صحابہ کرام ؓ سے نماز صبح کے قائم ہوتے ہوئے صبح کی سنتیں پڑھنا منقول ہیں۔

٭حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے صبح کی جماعت کھڑی ہونے کے بعد دو رکعت سنت پڑھی(مصنف ابن ابی شیبہ جلد ۲ ص ۲۵۱)

٭طبرانی میں حضرت عبد اللہ بن ابی موسی ؒ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ امام صبح کی نماز پڑھا رہے تھے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے ستون کے پاس کھڑے ہو کر اس کو ادا کیا۔

٭حضرت ابو درداء ؓ کا عمل منقول ہے کہ آپ مسجد میں داخل ہوئے  دیکھا کہ لوگو نما ز صبح با جماعت ادا ء کر رہے ہیں پھر بھی آپ نے صبح کی سنتیں پڑھ کر جماعت میں شرکت کی۔

٭حضرت ابو عثمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم عمر بن الخطاب ؓ کے پاس آتے اس حال میں کہ ہم نے صبح کی سنتیں اداء نہ کی ہوتی تو ہم مسجد کے آخر میں سنتیں پڑھ کر جماعت میں شریک ہو جاتے۔طحاوی جلد ۱ ص ۲۵۲۔

الغرض ابو اقبال صاحب کا یہ کہنا کہ صرف احناف ہی اس کے قائل ہیں یہ نرا جھوٹ ہے اور اس نے اس فتویٰ کے ذریعہ جن صحابہ کرام کو دین اسلام سے خارج کر دیا ہے اس کا حساب اللہ تعالی خود لے گا۔

ص ۴۹ پر لکھا ہے کہ احناف جمع بین الصلوٰتین کی احادیث کو نہیں مانتے۔٭

الجواب:یہ بھی اس کا جھوٹ ہے احناف کے ہاں جس سفر یا کسی سخت مجبوری کی وجہ سے جمع صوری کی احادیث پر عمل کرنا جائز ہے۔ جس کا طریقہ احادیث کی کتابوں میں اس طرح منقول ہے کہ ظہر کو موخر کر کے اخیر وقت میں اداء کیا جائے اور عصر کو مقدم کر کے ابتدائے وقت میں ادا کیا جائے اس طرح مغرب کی نماز کو موخر کر کے اخیر وقت میں ادا کیا جائے اور عشاء کی نماز کو مقدم کر کے اول وقت میں پڑھا جائے۔اس کو جمع صوری کہا جاتا ہے اور اس کا انکار کسی حنفی نے نہیں کیا۔چنانچہ فقہ حنفی کے معتبر کتاب تبئین الحقائق میں ہے۔

تبئین الحقائق شرح كنز الدقائق – (1 / 423)

احْتَرَزَ بِقَوْلِہِ فِی وَقْتٍ عَنْ الْجَمْعِ بَیْنَہُمَا فِعْلًا بِأَنْ صَلَّى كُلَّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا فِی وَقْتِہَا بِأَنْ یُصَلِّیَ الْأُولَى فِی آخِرِ وَقْتِہَا وَالثَّانِیَۃَ فِی أَوَّلِ وَقْتِہَا فَإِنَّہُ جَمْعٌ فِی حَقِّ الْفِعْلِ

اس طرح فتاویٰ شامی میں ہے۔

حاشیۃ رد المختار على الدر المختار – (1 / 382)

ما رواہ مما یدل على التأخیر محمول على الجمع فعلا لا وقتا أی فعل الأولى فی آخر وقتہا والثانیۃ فی أول وقتہ

ناظرین احناف کا مسئلہ بالکل وہی ہے جو حدیث میں ہے۔اس لئے یہ صاف جھوٹ ہے کہ احناف ان احادیث کو نہیں مانتے ، البتہ آج کل کے غیر مقلدین جو جمع حقیقی کرتے ہیں کہ ظہر کے وقت میں عصر اور ظہر دونوں پڑھ لیتے ہیں اور مغرب کے وقت میں عشاء پڑھ لیتے ہیں یہ شیعہ کا مسلک ہے۔اہل سنت میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے۔

ص ۵۱ پر لکھا ہے کہ احناف سبحان اللہ والی احادیث کو نہیں مانتے۔٭

الجواب :احناف کے فقہ کے معتبر کتابوں میں یہ مسئلہ مذکور ہے کہ جب امام سے کوئی غلطی ہو جائے تو مقتدی سبحان اللہ کہہ کر امام کو لقمہ دے سکتا ہے۔ مثلاً عنایہ، مبسوط اور بدایع یہ مسئلہ اس طرح ہے۔

العنایۃ شرح الہدایۃ – (2 / 142)

إذَا نَابَتْ أَحَدَكُمْ نَایِبَۃٌ فِی الصَّلَاۃِ فَلْیُسَبِّحْ فَإِنَّ التَّسْبِیحَ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِیقَ لِلنِّسَاءِ

المبسوط للسرخسی مشكول – (2 / 74)

وَإِذَا مَرَّتْ الْخَادِمُ بَیْنَ یَدَیْ الْمُصَلِّی فَقَالَ : سُبْحَانَ اللَّہِ أَوْ أَوْمَأَ بِیَدِہِ لِیَصْرِفَہَا لَمْ تُقْطَعْ صَلَاتُہُ ) لِمَا رَوَیْنَا { أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَشَارَ عَلَى زَیْنَبَ فَلَمْ تَقِفْ وَقَالَ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا نَابَتْ أَحَدَكُمْ نَایِبَۃٌ فَلْیُسَبِّحْ، فَإِنَّ التَّسْبِیحَ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِیقَ لِلنِّسَاءِ

بدایع الصنایع فی ترتیب الشرایع – (2 / 445)

وَلَوْ دَفَعَ الْمَارَّ بِالتَّسْبِیحِ أَوْ بِالْإِشَارَۃِ أَوْ أَخَذَ طَرَفَ ثَوْبِہِ مِنْ غَیْرِ مَشْیٍ وَلَا عِلَاجٍ لَا تَفْسُدُ صَلَاتُہُ لِقَوْلِہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ { فَادْرَءُوا مَا اسْتَطَعْتُمْ }، وَقَوْلِہِ { إذَا نَابَتْ أَحَدَكُمْ نَایِبَۃٌ فِی الصَّلَاۃِ فَلْیُسَبِّحْ فَإِنَّ التَّسْبِیحَ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِیقَ لِلنِّسَاءِ }

ناظرین کرام یہ فقہ حنفی کا مسئلہ بالکل واضح ہے اور احادیث کے مطابق ہے لیکن کیا کیا جائے تعصب کا کہ ابو الاقبال سلفی صاحب اس جھوٹ کو احناف کے ماتھے تھوپ کر لعنت کے مستحق بن گئے۔

ابو اقبال صاحب اور کے ہمنوا جماعت کا یہ شیوہ رہا ہے کہ جھوٹ بول کر اپنے مسلک کو فروغ دینا چاہتے ہیں ہم عوام سے یہی عرض کرتے ہیں کہ جو شخص ۱۰۰ صفحات کے ایک رسالہ میں اتنے جھوٹ بولتا ہے اس پر دین کے بارے میں اعتماد کرنا نادانی ہے۔اللہ تعالی امت کو اس فتنہ کے شرور سے محفوظ کرے۔آمین۔

٭٭٭

 

 

 

 

عقائد علماء اہلحدیث

 

(تیسری اور آخری قسط)

 

                عباس خان ﷾

 

عقیدہ نمبر 31

اگر امام کی نماز فاسد ہو جائے تو فقط امام نماز لوٹائے مقتدی نہیں۔

امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب فرماتے ہیں:

امام حالت جنابت یا بغیر وضو کے نماز پڑھا دے یا کسی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہو جائے تو فقط امام اپنی نماز لوٹائے مقتدیوں کو لوٹانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی امام کا ذمہ ہے کہ وہ مقتدیوں کو یہ بتائے کہ میں نے اس حالت میں نماز پڑھا دی ہے۔ (نزل الابرار ج 1 ص 101)

جبکہ نبی کریمﷺ نے امام کو ضامن قرار دیا ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کی نماز صحیح ہو گی تو مقتدیوں کی بھی صحیح ہو گی اور اگر اس کی نماز فاسد ہو گی تو مقتدیوں کی بھی فاسد ہو گی۔

حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا امام ضامن ہوتا ہے اور مؤذن امانت دار ہوتا ہے۔

(مسند احمد ج 9 ح 4341)

 

عقیدہ نمبر 32

نا پاک اور پلید کپڑوں میں نماز بالکل صحیح ہے۔

نواب نور الحسن صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں:

ناپاک کپڑوں (جن پر پیشاب، پاخانہ وغیرہ گند لگا ہو) میں نماز صحیح ہے۔ (عرف الجادی ص 21)

نواب صدیق حسن خان صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں:

’’نمازی کے جسم پر نجاست (پیشاب، پاخانہ) لگا ہوا ہوا ہو تو بھی نماز باطل نہیں‘‘۔ (بدور الاہلہ ص 38)

 

عقیدہ نمبر 33

گدھی کتیا سورنی سب کا دودھ اہلحدیث کے ہاں پاک ہے۔

مجدد اہلحدیث نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں

’’ گدھی کتیا، سورنی سب کا دودھ پاک ہے ‘‘۔ (بدور الاہلہ ص 18)

امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:

’’کتے اور خنزیر کا جواٹا پانی، دودھ وغیرہ بھی پاک ہے ‘‘۔ (نزل الابرار فقہ نبی المختار ج 1 ص 30)

 

عقیدہ نمبر 34

توسل شرک اور ناجائز ہے۔

مولوی محمد احمد غیر مقلد صاحب لکھتے ہیں:

وسیلہ کا یہی وہ غیر مشروط طریقہ ہے جو انسان کو شرک میں مبتلا کر دیتا ہے۔ (فتاویٰ صراط مستقیم ص 75)

طالب الرحمٰن زیدی صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں:

کسی فوت شدہ نبی یا وی کا وسیلہ دینا جائز نہیں۔ (آیئے عقیدہ سیکھئے ص 159)

جبکہ حدیث میں ہے کہ

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ کے زمانے میں قحط پڑتا تو حضرت عمرؓ حضرت عباسؓ کے وسیلے سے اس طرح دعا کرتے

«اللَّہُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْكَ بِنَبِیِّنَا صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَسْقِینَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْكَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا» (بخاری ج1 ص 137)

ایک اور حدیث میں ہے

حَدَّثَنَا طَاہِرُ بْنُ عِیسَى بْنِ قَیْرَسَ المُقْرِی الْمِصْرِیُّ التَّمِیمِیُّ، حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ وَہْبٍ، عَنْ شَبِیبِ بْنِ سَعِیدٍ الْمَكِّیِّ، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الْخَطْمِیِّ الْمَدَنِیِّ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ، عَنْ عَمِّہِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَیْفٍ ’’ أَنَّ رَجُلًا كَانَ یَخْتَلِفُ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی حَاجَۃٍ لَہُ , فَكَانَ عُثْمَانُ لَا یَلْتَفِتُ إِلَیْہِ , وَلَا یَنْظُرُ فِی حَاجَتِہِ , فَلَقِیَ عُثْمَانَ بْنَ حَنِیفٍ , فَشَكَا ذَلِكَ إِلَیْہِ , فَقَالَ لَہُ عُثْمَانُ بْنُ حَنِیفٍ: ایْتِ الْمِیضَأَۃَ فَتَوَضَّأْ , ثُمَّ ایْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ فِیہِ رَكْعَتَیْنِ , ثُمَّ قُلِ: اللَّہُمَّ , إِنِّی أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّہُ إِلَیْكَ بِنَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَا مُحَمَّدُ إِنِّی أَتَوَجَّہُ بِكَ إِلَى رَبِّكَ عَزَّ وَجَلَّ فَیَقْضِی لِی حَاجَتِی , وَتَذْكُرُ حَاجَتَكَ , وَرُحْ إِلَیَّ حَتَّى أَرُوحَ مَعَكَ , فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ , فَصَنَعَ مَا قَالَ لَہُ عُثْمَانُ , ثُمَّ أَتَى بَابَ عُثْمَانَ , فَجَاءَ الْبَوَّابُ حَتَّى أَخَذَ بِیَدِہِ , فَأَدْخَلَہُ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ , فَأَجْلَسَہُ مَعَہُ عَلَى الطِّنْفِسَۃِ , وَقَالَ: حَاجَتُكَ؟ فَذَكَرَ حَاجَتَہُ , فَقَضَاہَا لَہُ , ثُمَّ قَالَ لَہُ: مَا ذَكَرْتَ حَاجَتَكَ حَتَّى كَانَتْ ہَذِہِ السَّاعَۃُ , وَقَالَ: مَا كَانَتْ لَكَ مِنْ حَاجَۃٍ , فَأْتِنَا , ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِہِ , فَلَقِیَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَیْفٍ , فَقَالَ: لَہُ جَزَاكَ اللَّہُ خَیْرًا , مَا كَانَ یَنْظُرُ فِی حَاجَتِی , وَلَا یَلْتَفِتُ إِلَیَّ حَتَّى كَلَّمْتَہُ

حضرت عثمانؓ بن حنیفؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت عثمانؓ کے پاس ضرورت کیلئے آیا جایا کرتا تھا اور حضرت عثمان (غالباً مصروفیت کی وجہ سے ) اس کی طرف توجہ نہ فرماتے وہ شخص حضرت عثمان بن حنیفؓ سے ملا اور اس کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا کہ وضو کر کے مسجد میں جا کر دو رکعات نماز پڑھو اور پھر کہو اے اللہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں آپکی طرف متوجہ ہوتا ہوں ہمارے پیارے نبیﷺ کے وسیلے سے۔

(معجم الصغیر ج 1 ص 183-184 صحیح )

 

عقیدہ نمبر 35

عیسائیوں کا قبضہ بھی دارلاسلام ہوتا ہے۔

وکیل اہلحدیث محمد حسین بٹالوی صاحب لکھتے ہیں:

ہندوستان باوجود یہ کہ عیسائی سلطنت کے قبضہ میں ہے دارالاسلام ہے۔ ٭(الاقتصاد فی مسائل اجہاد ص 25)

 

عقیدہ نمبر 36

حضرت عیسیٰؑ کے والد کا اثبات۔ العیاذ باللہ

مشہور غیر مقلد عالم عنایت اللہ اثری صاحب لکھتے ہیں:

عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ تو اپنا شوہر اور اس کا باپ بتا رہی ہے اور باپ بیٹا بھی دونوں اسے تسلیم فرما رہے ہیں مگر صدیوں بعد لوگوں نے انہیں بے پدر بتایا اور آپ کی والدہ کو بے شوہر بتایا کیا خوب ہے۔ (عیون زمزم ص 40)

نوٹ:

اس عقیدہ میں حضرت عیسیؑ کے لئے والد ثابت کیا گیا ہے حالانکہ حضرت عیسیٰؑ بغیر باپ کے پیدا ہوئے قرآن یہی بتاتا ہے۔

 

عقیدہ نمبر 37

مرزئیوں کے پیچھے نماز پڑھنا

مولوی عبد العزیز صاحب سیکرٹری جمعیہ مرکزیہ اہلحدیث ہند لاہور صاحب، غیر مقلد ثناء اللہ امرتسری صاحب (جو کہ فرقہ اہلحدیث کے  ہاں شیخ الاسلام ہیں )کے بارے میں لکھتے ہیں۔

’’آپ (ثناء اللہ امرتسری صاحب) نے لاہوری مرزئیوں کے پیچھے نماز پڑھی‘‘۔

’’آپ نے فتویٰ دیا کہ مرزئیوں کے پیچھے نماز جائز ہے ‘‘

’’آپ نے مرزئیوں کو عدالت میں مرزئی وکیل کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے مرزئیوں کو مسلمان مانا‘‘۔

العیاذ باللہ

(فیصلہ مکہ ص 36)

 

عقیدہ نمبر 38

جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا ضروری نہیں۔

چنانچہ نواب نور الحسن خان صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں:

ذبح کرتے وقت بسم اللہ نہ پڑھی تو خیر ہے کھاتے وقت پڑھ لے۔ (عرف الجادی 239)

 

عقیدہ نمبر 39

کپڑوں پر اگر حلال جانوروں کا پیشاب پاخانہ لگا ہوا ہو تو اس میں پڑھنی درست ہے۔

چنانچہ فرقہ اہلحدیث کے  ایک بڑے عالم لکھتے ہیں:

’’اور جس کپڑے پر وہ (حلال جانوروں کا پیشاب پاخانہ) لگا ہوا ہو اس میں نماز پڑھنی درست ہے ‘‘۔٭

(فتاویٰ ستاریہ ج 1 ص 105)

 

عقیدہ نمبر 40

نماز کی طرف دعوت دینا درست نہیں۔

فرقہ اہلحدیث کے بڑے عالم طالب الرحمن صاحب کی ایک بڑی حماقت لکھتے ہیں:

’’کیا لوگوں کو نماز کی دعوت دینا اسوۂ رسولﷺ ہے۔ اگر نہیں تو پھر نبیﷺ کے طریقے کو کیوں نہیں اپنایا جاتا‘‘۔ (یعنی نماز کی دعوت نہ دی جائے )٭

(تبلیغی جماعت عقائد و نظریات ص 10)

 

عقیدہ نمبر 41

کتا پاک ہے اور اس کا پاخانہ بھی نجس نہیں۔

فرقہ اہلحدیث کے ایک بڑے  عالم جنہیں فرقہ اہلحدیث امام شوکانی کے نام سے جانتی ہے لکھتے ہیں:

حدیث کی وجہ سے صرف کتے کا لعاب نجس ہے علاوہ ازیں اس کی بقیہ مکمل ذات یعنی گوشت، ہڈیاں، خون بال وغیرہ پاک ہے کیونکہ اصل طہارت ہے اور اس کی ذات کی نجاست کے متعلق کوئی دلیل موجود نہیں‘‘۔

(فقہ الحدیث ص 147)

کتے کا پاخانہ بھی پاک ہے۔

چنانچہ امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:

اور لوگوں (غیر مقلدین) کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ کتے کا پاخانہ نجس ہے یا نہیں لیکن حق بات یہ ہے کہ اس کے نجس ہونے کی کوئی دلیل نہیں‘‘۔(نزل الابرار ص 50)

نواب نور الحسن خان صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں:

کتے اور خنزیر کے پلید ہونے کا دعویٰ ٹھیک نہیں۔(عرف الجادی ص 10)

 

عقیدہ نمبر 42

صحابہ کرامؓ میں سے بعض لوگ فاسق تھے العیاذ باللہ

امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:

’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ میں سے جو فاسق تھے جیسے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہائے ہی   معاویہ رضی اللہ عنہ، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ، مغیر بن شیبہ رضی اللہ عنہ اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے متعلق۔

(نزل الابرار ج 3 ص 94)

نعوذ باللہ من ذالک

 

عقیدہ نمبر 43

رام چندر اور لکشمن نبی ہیں اور انہیں نبی ماننا واجب ہے۔

فرقہ اہلحدیث کے امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں۔

ہمارے لئے جائز نہیں کہ ہم دیگر انبیاء کی نبوت کا انکار کریں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نہیں کیا اور کافروں میں تواتر کے ساتھ وہ معروف ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نیک انبیاء تھے جیسے رام چندر لچھمن کرشن جی جو ہندوؤں میں ہے اور زراتشت جو فارسیوں میں ہیں اور کنفیوشس اور مہاتما بدھ جو چین اور جاپان میں ہے اور سقراط جو یو نان میں ہیں ہم پر واجب ہے کہ ہم یوں کہیں ہم ان تمام انبیاء پر ایمان لائے اور ان میں کسی ایک میں بھی فرق نہیں کرتے  اور ہم سب کے فرمان بردار ہیں۔(ہدایۃ المہدی ص 85)

حافظ عبد القادر صاحب روپڑی غیر مقلد اس کا دفاع کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں بعض انبیاء کا ذکر آیا ہے اور بعض کا نہیں آیا۔۔۔۔ آگے فرماتے ہیں۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے عرب کے سوا اور نبیوں کا ذکر نہیں کیا جیسے ہندوستان، چین، یونان، فارس، یورپ افریقہ، امریکہ جاپان اور برما وغیرہ۔۔۔۔ اس لئے  ان نبیوں کی نبوت سے انکار کرنا جائز نہیں۔۔۔۔ (آگے امام اہلحدیث وحید الزمان صاحب کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں۔) پس ہم پر واجب ہے کہ ہم کل انبیاء پر ایمان لاویں اور ان میں سکی میں تفریق نہ کریں۔٭

(فتوحات اہلحدیث ص 148)

اگر قرآن پاک میں سب انبیاء کا ذکر نہیں آیا تو اس کا کیا مطلب ہے کہ کہیں سے بھی پکڑ پکڑ کے انبیاء کی تعداد کو پورا کیا جائے ؟ اور انہیں نبی ماننے کو واجب قرار دے دیا جائے ؟ اور واجب کا انکاری گنہگار ہوتا ہے لیکن غیر مقلدین کے ہاں واجب اور فرض ایک ہی ہیں لہذا   ان کے عقیدے کے مطابق رام چندر وغیرہ کو نبی نہ ماننے والا کافر ہوا؟

 

عقیدہ نمبر 44

نبی کریمﷺ ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔

مشہور اہلحدیث نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں:

’’چنانچہ حضور اکرمﷺ نماز پڑھنے والوں کی ذات میں موجود اور حاضر ہوتے ہیں اسلئے نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ اس بات کا خصوصیت کے ساتھ خیال رکھے اور آپﷺ کی اس حاضری سے غافل نہ ہو‘‘۔

(مسک الختام فی شرح بلوغ المرام ص 259-260)

 

عقیدہ نمبر 45

غیر اللہ سے مدد

غیر مقلد عالم غلام رسول صاحب نبیﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

رحم یا نبی اللہ ترحم

یعنی رحم کر اے اللہ کے نبی رحم کر

چونکہ جاہل غیر مقلدین کے ہاں کفر و شرک کے کوئی اصول متعین نہیں اسلئے ان کا جہاں جی چاہتا ہے کفر کفر کے فتوے لگاتے ہیں۔

امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب فرماتے ہیں:

قبلۂ دیں مددی، کعبۂ ایماں مددی

ابن قیم مددی قاضی شوکاں مددی

ترجمہ:

اے میرے دین کے قبلہ مدد کر اے میرے ایمان کے کعبہ مدد کر اے ابن قیم مدد کر اے قاضی شوکانی مدد کر۔

(ہدیۃ المہدی صفحہ 23)

نواب صدیق حسن خان صاحب فرماتے ہیں :

یا سیدی یا عروتی و وسیلتی

و یا عدتی فی شدۃ ورخائی

قد جیت بابک ضارعا متضرعا

متاوھا بتفنس الصد بتنفس الصعداء

مالکی ورایک مستغاث فارحمن

یا رحمۃ للعالمین بکائی

ترجمہ:

اے میرے آقا اے میرے سہارے اور اے میرے وسیلے اور اے خوشحالی و بدحالی میں میری متاع میں روتا گڑگڑاتا اور ٹھنڈی آہیں بھرتا۔ آپ کے در پہ آیا ہوں آپ کے علاوہ میرا کوئی فریاد رس نہیں۔ سو اے رحمۃ للعالمین میری گریہ و زاری پر رحم فرما۔(ماثر صدیقی ج 2 ص 30- 31)

غیر مقلدین سے سوال ہے کہ کیا ان کے یہ علماء مشرک ہوئے یا نہیں؟

چونکہ غیر مقلدین کے ہاں کسی پر کوئی فتوی دینا یا اس کی تکفیر کرنے کوئی احتیاط نہیں اسلئے غیر مقلدین کے ان علماء کا مشرک ہونا لازم آتا ہے۔

 

عقیدہ نمبر 46

زیادہ بھوک لگتی ہو تو روزہ معاف

نواب نور الحسن صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں:

روزہ رکھنے کیلئے استطاعت شرط ہے اس لئے جس کو بہت بھوک پیاس لگتی ہو یا جس کو بہت بھوک لگتی ہو اس کو روزہ رکھنا واجب نہیں۔

(عرف الجادی ص 80)

 

عقیدہ نمبر 47

عام عورتوں کو پردہ کرنے کی ضرورت نہیں

امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:

عورتوں کو جائز ہے کہ غیر مردوں کو دیکھیں البتہ ازواج مطہرات کو یہ منع تھا۔(نزل الابرار ج 3 ص 74)

مجدد اہلحدیث نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں:

پردہ کی آیات خاص ازواج مطہرات ہی کے بارے میں وارد ہوئی ہیں امت کی عورتوں کے واسطے نہیں ہیں۔

(البیان المرصوص ص 168)

نور الحسن صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں:

وہ آیت جن میں پردہ کرنے کا حکم ہے وہ صرف رسول خداﷺ کی بیویوں کے ساتھ مختص ہے۔

(عرف الجادی ص 52)

 

عقیدہ نمبر 48

ماں بہن بیٹی وغیرہ کی قبل و دبر کے سوا پورا بدن دیکھنا جائز ہے۔

نور الحسن صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں:

ماں بہن بیٹی وغیرہ کی قبل و دبر (یعنی اگلی پچھلی شرمگاہ) کے سوا پورا بدن دیکھنا جائز ہے۔ (عرف الجادی ص 52)

 

عقیدہ نمبر 49

کافر کے پیچھے نماز جائز

امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:

ولو اخبر بعد الصلوۃ بانہ کافر فلا یعیدون

نماز پڑھانے کے بعد کافر نے  بتلایا کہ وہ کافر ہے تو بھی مقتدی اپنی نماز کو نہیں دہرائیں گے۔ (کنز الحقائق ص 24)

غیر مقلدین کا اس پر عمل:

خود غیر مقلدین کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب مرزئیوں کے پیچھے نماز پڑھتے تھے (فیصلہ مکہ ص 36)

 

عقیدہ نمبر 50

قضا نمازیں معاف

نور الحسن خان صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں

اس پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ جو نماز بلا عذر شرعی چھوڑ دی گئی ہو اس کی قضا واجب ہے۔ (عرف الجادی ص 35)

 

علماء اہل حدیث اور ان کی تربیت کردہ ان کی نجس عوام کے چند عقائد و نظریات جو ان میں پائے جاتے ہیں اور کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔

1۔کرامت صاحب کرامت کے اختیار میں ہوتی ہے اللہ کے نہیں۔

2۔فقہاء سب گمراہ تھے۔

3۔نماز میں آہستہ آمین کہنے والا یہودی ہے۔

جبکہ خود یہ لوگ صرف فرض نماز میں دو جگہ اونچی آمین کہتے ہیں اور بقیہ 22 جگہ پر یہودیوں کی طرح کھڑے رہتے ہیں اور عورتیں تو ان کی ہر وقت ہی یہودیوں کی طرح نماز پڑھتی ہیں۔

4۔اجماعی اور غیر اجتہادی مسائل میں اجتہاد کا کرنا

5۔قرآنی تعویذ لٹکنا بھی شرک ہے۔

6۔جہاں اللہ اب موجود ہے وہاں مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے موجود نہ تھا

7۔قبر میں جسم عذاب و ثواب سے بری ہوتا ہے۔

8۔تین طلاق تین نہیں۔

9۔ قبر میں روح کے لوٹنے کا انکار

جبکہ قبر میں روح کا لوٹنا صحیح صریح حدیث سے  بھی ثابت ہے۔

’’ حضرت براء بن عازبؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک انصاری کے جنازہ کیلئے نکلے  اور قبرستان میں پہنچے لیکن ابھی تک قبر تیار نہیں ہوئی تھی آپﷺ بھی وہاں جلوہ افروز ہوئے اور ہم بھی آپﷺ کے پاس ہی بیٹھ گئے آپ نے (ایک طویل حدیث میں) مومن اور کافر کی وفات کا تذکرہ فرمایا اس میں مومن کے بارے میں یہ ارشاد مذکور ہے کہ :

’’مومن کی روح کو پھر (مرنے کے بعد) ساتوں آسمان پر پہنچا دیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے کا نام علیین میں درج کر دو اور اس کو زمین کی طرف لوٹا دو کیونکہ میں نے ان کو زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی میں ان کو لوٹاؤں گا اور اسی سے دوسری مرتبہ نکالوں گا پس اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں ’’من ربك‘‘ تمہارا رب کون ہے۔۔۔ الخ‘‘

اور اسی حدیث میں کافر کے بارے میں یہ الفاظ مذکور ہیں کہ

’’آسمانوں کے دروازے اس کیلئے نہیں کھلتے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی کارگذاری اور نام وغیرہ سجین میں لکھ دو جو ساتویں زمین میں ہے پھر اس کی روح وہاں سے پھینکی جاتی ہے پھر آپؐ نے ارشاد خداوندی پڑھا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے پس گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اس کو پرندے اچک کر لے گئے یا ہوا نے  گہرے گڑھے میں ڈال دیا۔ اور پھر اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں ’’من ربك‘‘ تیرا رب کون ہے۔۔۔ الخ‘‘

امام حاکمؒ اس روایت کی متعدد اسانید نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

«ہَذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ، فَقَدِ احْتَجَّا جَمِیعًا بِالْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو وَزَاذَانَ أَبِی عُمَرَ الْكِنْدِیِّ، وَفِی ہَذَا الْحَدِیثِ فَوَایِدُ كَثِیرَۃٌ لِأَہْلِ السُّنَّۃِ وَقَمْعٌ لِلْمُبْتَدِعَۃِ وَلَمْ یُخَرِّجَاہُ بِطُولِہِ، وَلَہُ شَوَاہِدُ عَلَى شَرْطِہِمَا یُسْتَدَلُّ بِہَا عَلَى صِحَّتِہِ» .

’’یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ (آگے فرماتے ہیں) اس حدیث میں اہل سنت کے لئے کئی فوائد اور اہل بدعت کے عقائد کے قلع قمع کا خاصا ثبوت موجود ہے ‘‘۔

[المستدرك على الصحیحین : کتاب الإیمان :أَمَا حَدِیثُ مَعْمَر]

10۔اللہ کی صفت حاضر ناظر کا انکار

11۔ بدعی طلاق کو واقع نہ کرنے فتویٰ دینا

12۔ سلف احناف پر لعن طعن کرنا۔

13۔بزرگ گان دین کے اشعار اور صوفیا کی عبارات میں سے من پسند عقیدہ اخذ کر کے اس کی تکفیر کر لینا۔

14۔ اولی الامر سے فقیہ مراد لینے کو غلط کہنا

حضرت جابر بن عبداللہ ؓ’’ اس آیت (أَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْكُمْ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں ہیں کہ أُولِی الْفِقْہِ وَالْخَیْر’’اولی الامر سے مراد فقہ والے ہیں‘‘ یعنی کہ فقہاء کرام ہیں۔امام حاکمؒ اس کو حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ ہَذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ ’’یہ حدیث صحیح ہے ‘‘۔(مستدرک علی الصحیحین جلد۱ص۲۱۱:صحیح)

محدثین کے قاعدے کے مطابق صحابی کی تفسیر مسند اور مرفوع ہوتی ہے  یعنی آنحضرتﷺ کا فرمان ہوتی ہے اور اس کی طرح حجت ہوتی ہے۔

★امام حاکم ؒ فرماتے ہیں:

’’ تَفْسِیرَ الصَّحَابِیِّ حَدِیثٌ مُسْنَدٌ‘‘۔(المستدرك على الصحیحین ج۱ صفحہ ۷۲۶)

’’صحابی کی تفسیر مسند ہوتی ہے ‘‘۔(یعنی آنحضرتﷺ کا فرمان ہوتی ہے )

15۔ائمہ اربعہؒ کے اجتہادی اختلافات کو قرآن سنت کی طرح لوٹانے کا دعویٰ کر کے خود عقائد میں بھی ایک دوسرے سے اختلاف کر لینا۔

16۔ ائمہ کے اجتہادی اختلافات کو گمراہی قرار دینا اور اپنے فروعی و اصولی دونوں اختلافات کو حق قرار دینا۔

17۔فقہ کے متعلق بدگمانیاں پھیلانا۔

18۔فقیہ کے کسی غیر شرعی فعل پر کوئی شرعی حکم بتانے کو غلط کہنا۔

19۔ قرآن و سنت سے مسائل اخذ کرنے کا دعویٰ کرنا اور گند اور کچرا جمع کرنا۔

20۔اپنے آپ کو فقہاء سے زیادہ حدیث کے سمجھنے والا کہنا۔

21۔ قرآن و حدیث کے ظاہری معنی پر اکتفاء کر لینا اور تفقہ حاصل نہ کرنا۔

22۔سماع موتیٰ کو شرک قرار دینا

جبکہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:

«وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، إِنَّہُ لَیَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِہِمْ حِینَ یُوَلُّونَ عَنْہُ»[ المستدرك على الصحیحین (ج/1ص/536) سندہ صحیح]

’’ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے وہ (مردہ) اسوقت جوتیوں کی کھٹکھٹاہٹ سنتا ہے جب لوگ اس سے واپس ہوتے ہیں‘‘۔

امام حاکمؒ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ہَذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ یعنی یہ حدیث صحیح ہے مسلم کی شرط پر۔

اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ مردہ دفن کے بعد قبر میں قبر سے واپس ہونے والے لوگوں کی جوتیوں کی کھٹکھٹاہٹ اور آواز سنتا ہے اور جب یہ سنتا ہے تو انسانوں کی آواز بطریق اولیٰ سنتا ہے۔ لیکن اس کے سننے سے یہ بات نہیں کہ وہ سن کر کسی کی کوئی مدد بھی کر سکتا ہے جیسا آج کل جاہل مشرکین کا خیال ہوتا ہے اور یہ بھی نہیں کہ ان مشرکین کے ڈر سے بندہ نبیﷺ کی حدیث کا ہی انکار کر دے۔

23۔غیر مدخولہ کو ایک لفظ سے تین طلاق دینے کو واقع نہ سمجھنا۔

24۔علماء سلف کی عبارات کو توڑ موڑ کر پیش کرنا اور ان کی طرف جھوٹ منسوب کر دینا۔

25۔فقہاء کرام پر کافروں والی آیات فٹ کرنا۔

26۔حدیث کے معنی میں صحابی کو بھی چھوڑنا تابعی کو بھی چھوڑنا اور ان کے خلاف اپنا من گھڑت معنی بیان کرنا۔

27۔اللہ کی ذات جہاں مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے تھی اب وہاں نہیں ہے۔

28۔عرش اور اللہ کی ذات کے درمیان بھی ایک فاصلہ غیر اللہ یعنی مخلوق ہے۔

29۔تین طلاق کو تین ماننا گمراہی ہے۔

30۔حدیث اور سنت میں کوئی فرق نہیں۔

31۔عورتیں بھی مردوں کی طرح ٹانگیں چوڑی کر کے نماز پڑھیں

32۔جماعت اہلسنت حنفی شافعی مالکی حنبلی کے مقابلے میں شیعوں اور مرزئیوں کے عقائد و مسائل کو ترجیح دینا

33۔ فاتحہ کے قرات ہونے کا انکار

34۔تواتر کا انکار

35۔قرآن حدیث کو جان چھڑانے کا ذریعہ بنانا۔

36۔ضعیف اور موضوع حدیث میں کوئی فرق نہ کرنا۔

37۔اپنی ذاتی تحقیق سے فقہ لکھ کر اسے نبیﷺ معصوم کی طرف منسوب کر دینا۔

38۔نبیﷺ کی قبر اطہر کے پاس یہ عقیدہ رکھ کر صلاۃ سلام پیش کرنا ہے کہ نبیﷺ یہ نہیں سن رہے

39۔ اپنی ہر غلطی کو اجتہادی خطا کا نام دے دینا

40۔اللہ کی صفات متشابہات کو لغت سے سمجھنا۔

41۔امام ابو حنیفہؒ پر لعن طعن کرنا۔

42۔ بلا دلیل بات کی پیروی کو اتباع کہنا غلط ہے۔

43۔طلاق کی دل میں نیت سے بھی نکاح نہیں ہو گا بلکہ زنا ہو گا

44۔حد نہیں کا مطلب جائز ہونا ہوتا ہے۔

غیر مقلدین کے کئی جاہل علماء نے فقہ کے خلاف اپنی کتب اور تقاریر میں ایسا کہا ہے اور کہتے ہیں اور ان کی عوام بھی یہی کہتی ہے۔

اب ذرہ یہ لوگ ایک سوال کا جواب دیں کہ

پیشاب پینے پر کتنی حد ہے ؟

اگر حد ہے تو حد دکھائیں اگر نہیں ہے تو پی کر دکھائیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

عقیدہ وحدت الوجود

 

                جاوید خان صافی ﷾

 

اہل حدیث عرف وکٹورین علماء دیوبند پر بہتان لگاتے ہیں کہ علماء دیوبند وحدتُ الوجود کا عقیدہ رکھتے ہیں جو کہ ایک کفریہ شرکیہ عقیدہ ہے۔ یہ بتاون فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل چند جہلاء نے پھیلایا ہوا ہے اور اپنی طرف سے عوام کواس مطلب بتلاتے ہیں پھر ان سے کہتے ہیں یہ علماء دیوبند کا عقیدہ ہے ، اس باب میں ایک مختصر مگر جامع مضمون لکھنا چاہتا ہوں۔

1۔علماء حق علماء دیوبند پر ایک بہتان چند جہلاء و نام نہاد اہل حدیث کی طرف سے یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالی کے لئے حُلول و اتحاد کا عقیدہ رکھتے ہیں جس کو ’’ وحدتُ الوجود ‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کا مطلب و مفہوم یہ لوگ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ( معاذاللہ ) اللہ تعالی تمام کائنات کے اجزا مثلاً حیوانات جمادات نباتات وغیرہ ہر چیز میں حلول کیا ہوا ہے یعنی مخلوق بعینہ خالق بن گیا اور جتنی بھی مشاہدات ومحسوسات ہیں وہ بعینہ اللہ تعالی کی ذات ہے۔(معاذاللہ ثم معاذاللہ وتعالی اللہ عن ذالک علوا کبیرا )

ناحق بہتان و الزام لگانے والے جہال و متعصبین کا منہ کوئی بند نہیں کرسکتا اور نہ کوئی مقرب جماعت علماء اس سے محفوظ رہ سکتی ہے اور ہر زمانے میں کمینے اور جاہل لوگوں نے علماء ربانیین کی مخالفت و عداوت کی ہے ، لہذا جو لوگ اپنی طرف سے ’’ وحدتُ الوجود ’’ کا یہ معنی کر کے اس کو علماء دیوبند کی طرف منسوب کرتے ہیں اور عوام الناس کو گمراہ کرتے ہیں یقیناًایسے لوگ اللہ تعالی کے پکڑ سے نہیں بچ سکیں گے علماء دیوبند اور دیگر صوفیہ کرام ’’ وحدتُ الوجود ‘‘ کے اس کفریہ معنی و مفہوم سے بری ہیں۔ واضح رہے کہ کچھ بدبخت لوگ اس بیان و تصریح کے بعد بھی یہ بہتان لگاتے رہیں گے کیونکہ ان کا مقصد حق بات کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد وحید توابلیس کی پیروی کرتے ہوئے علماء حق علماء دیوبند کی مخالفت و عداوت ہی ہے چاہے علماء دیوبند ہزار بار یہ کہیں کہ ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے ہماری نصیحت تو ایسے عام ناواقف لوگوں کے لئے ہے جوایسے جھوٹے اور جاہل لوگوں کی سنی سنائی باتوں کی اندھی تقلید کر کے اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں۔ اور اس بارے میں امام شعرانی شافعی رحمہ اللہ کے یہ نصیحت آمیز کلمات ذہن میں رکھیں قسم اٹھا کر فرماتے ہیں کہ:

جب بتوں کے پجاریوں کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ اپنے معبودان باطلہ کو عین اللہ تعالی کی ذات تصور کریں بلکہ انہوں نے بھی یہ کہا جیسا کہ قرآن میں ہے

مَا نَعْبُدُہُمْ إِلَّا لِیُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّہِ ( سورہ ٣٩، الزمر: 3 )

یعنی ہم ان بتوں کی عبادت اس لئے کرتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں تو اولیاء اللہ کے متعلق یہ بہتان لگانا کہ وہ، حلول و اتحاد، کا عقیدہ رکھتے تھے سراسر بہتان اور جھوٹ ہے اور ان کے حق میں ایک محال و نا ممکن دعوی ہے جس کو جاہل و احمق ہی قبول کرے گا۔

2۔جن صوفیہ کرام اور بزرگان دین کے کلام میں ’’ وحدتُ الوجود ‘‘ کا کلمہ موجود ہے اور ایسے لوگوں کی فضل وعلم تقوی و ورع کی شہادت کے ساتھ ان کی پوری زندگی اتباع شرع میں گذری ہے تو اس حالت میں ان کے اس کلام کی اچھی تاویل کی جائے گی جیسا کہ علماء محققین کا طریقہ ہے اس قسم کے امور میں۔اور وہ تاویل اس طرح کہ ایسے حضرات کی مراد ’’ وحدتُ الوجود ’’ سے وہ نہیں ہے جو ملحد و زندیق لوگوں نے مراد لیا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ اس کلمہ اور اس طرح کے دیگر کلمات جو صوفیہ کرام کی کتب میں وارد ہوئے ہیں جو بظا ہر خلاف شرع معلوم ہوتے ہیں ان کی مثال اس اعرابی کی طرح ہے جس کی دفاع خود آپ ﷺ نے کی ہے صحیح بخاری ومسلم کی روایت ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ جنگل بیابان میں اپنی سواری پر سفر کر رہا تھا اس پر اس کا کھانا پینا بھی تھا لہذا وہ تھکاوٹ کی وجہ سے آرام کے کے لئے ایک درخت کے سایہ میں لیٹ گیا جب اٹھا تو دیکھا کہ سواری سامان سمیت غایب ہے وہ اس کو تلاش کرنے کے لئے گیا لیکن اس کو نہیں ملا لہذا پھر اس درخت کے نیچے مایوس ہو کر لوٹ آیا اور موت کے انتظار میں سو گیا پھر جب اس کی آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی سواری بھی موجود ہے اور کھانا پینا بھی وہ اتنا خوش ہوا بلکہ خوشی و فرحت کے اس انتہا پہنچا کہ اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے

ﺍللھم انتَ عبدی وانا ربُک

یعنی اے اللہ تو میرا بندہ میں تیرا رب، اسی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی بندہ کی توبہ سے اِس آدمی سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں۔

جاء فی الحدیث الذی رواہ الإمام مسلم للہ أشد فرحاً بتوبۃ عبدہ حین یتوب إلیہ من أحدکم کان على راحلتہ بأرض فلاۃ فانفلتت منہ وعلیھا طعامہ وشرابہ فأیس منھا فأتى شجرۃ فاضطجع فی ظلھا وقد أیس من راحلتہ فبینما ھو کذلک إذ ھو بھا قائمۃ عندہ بخطامھا، ثم قال من شدۃ الفرح : اللھم أنت عبدی وأنا ربک ! أخطأ من شدۃ الفرح

اوکما قال النبی ﷺ

اب اس حدیث میں اس آدمی کا قول اے اللہ تو میرا بندہ میں تیرا رب کیا ان ظاہری الفاظ کو دیکھ کر نام نہاد اہل حدیث وہی حکم لگائیں گے جو دیگر اولیاء و علماء کے ظاہری الفاظ کو لے کر اپنی طرف سے معنی کر کے حکم لگاتے ہیں ؟ یا حدیث کے ان ظاہری الفاظ کی تاویل کریں گے ؟خوب یاد رکھیں کہ ’’ وحدتُ الوجود ‘‘ کا مسئلہ نہ ہمارے عقائد میں سے ہے نہ ضروریات دین میں سے ہے، نہ ضروریات اہل سنت میں سے، نہ احکام کا مسئلہ ہے کہ فرض واجب سنت مستحب مباح کہا جائے بلکہ صوفیہ کرام کے یہاں یہ ایک اصطلاحی لفظ ہے اور یہ صوفیہ کرام کے یہاں محض احوال کا مسئلہ ہے فقط اور اس سے وہ صحیح معنی ومفہوم مراد لیتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

نام نہاد اہل حدیث کے پچاس سوالات کے جوابات

 

                عبد الرشید قاسمی سدھارتھ نگری ﷾

 

(1) تقلید کسے کہتے ہیں؟

جواب: غیر منصوص مسائل میں مجتہد کے قول کو تسلیم کر لینے یا بالفاظ دیگر دلیل کی تحقیق اور مطالبہ کے بغیر محض اس حسن ظن پر کسی کا قول مان لینے کو تقلید کہتے ہیں کہ وہ دلیل کے موافق ہی بتائے گا۔

(2)تقلید ضروری کیوں ہے ؟

جواب: اس لئے کہ ہر فرد شریعت کا مکلف ہے، اور اس کے احکامات پر عمل کرنا ضروری ہے، اور ہرکس وناکس براہ راست قرآن و حدیث سے مسائل کا استنباط واستخراج نہیں کرسکتا، اس لئے غیر مجتہد کے لئے تقلید ضروری ہے۔

(3)تقلید کس کی ضروری ہے ؟

جواب: مجتہد، اہل الذکر، اولو االامر اور منیب الی اللہ کی۔

(4)کیوں میں حنفی ہوں؟

(5)کیوں میں مالکی ہوں؟

(6)کیوں میں شافعی ہوں؟

(7)کیوں میں حنبلی ہوں؟

جواب: آپ کچھ بھی نہیں ہیں، آپ کی تو دنیا ہی الگ ہے، ہاں جو لوگ ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کو مجتہد و منیب الی اللہ سمجھ کر ان کے اجتہادی فیصلوں پر عمل کرتے ہیں، اور غیر منصوص مسائل میں ان کی اتباع اور تقلید کرتے ہیں، وہ اسی اتباع اور تقلید کی وجہ سے حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کہلاتے ہیں۔

(8)کیا تقلید کرنا فرض ہے ؟

جواب: تقلید فرض نہیں بلکہ واجب لغیرہ ہے، اور وہ غیر شریعت کی پاسداری ہے۔

(9)تقلید کب تک کرنا ضروری ہے ؟

جواب: جب تک مکلف کے اندر اجتہادی اور استنباطی واستخراجی صلاحیت نہ ہو جائے۔

(10)جب عیسی علیہ السلام دنیا میں پھر سے نازل ہوں گے تو ان چار اماموں میں سے کس کی تقلید کریں گے ؟

جواب: کسی کی بھی نہیں، بلکہ وہ خود مجتہد ہوں گے، اور مجتہد کے لئے اجتہاد واجب اور تقلید حرام ہے۔

(11)عیسی علیہ السلام جس امام کی تقلید کریں گے وہ حق پر ہو گا کیوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں؟

جواب: کسی امام کی تقلید کریں گے ہی نہیں، پھر حق و ناحق کا مسئلہ کیسا؟

(12)چار اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کرنے کا حکم کس نے دیا؟ اللہ نے ؟ رسول نے ؟ خود ان اماموں نے ؟ یا آج کے مولویوں نے ؟

جواب: سب نے دیا ہے، اللہ نے بھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی، اور خود ائمہ اور علماء نے بھی،

اس لئے کہ سب نے قرآن وسنت پر عمل کرنے کی ترغیب دی ہے، اور یہ غیر مجتہد کے لئے اجتہادی مسائل میں کسی مجتہد کے اجتہادی فیصلے کو تسلیم کئے بغیر ہو ہی نہیں سکتا، اور اسی کا نام تقلید ہے۔

(13)اسلام میں صرف چار طرح کا حکم ہے، فرض، واجب، سنت اور نفل، تو پھر ان چار اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کرنا کیا ہے، فرض، واجب، سنت یا نفل؟

جواب: واجب لغیرہ ہے، اور وہ غیر جس کی وجہ سے تقلید واجب ہوئی احکام شرعیہ کی پاسداری ہے

اگر نفل ہے تو پھر آپ کے لئے فرض کیسے بن گئی؟

جواب: کس نے کہا کہ فرض ہے ؟

جب ہم نے نہ نفل کا دعویٰ کیا نہ فرض کا، تو نفل کا اثبات اور فرض کا استفہامیہ انکار چہ معنی دارد؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اب تک جو تقلید آپ کے یہاں حرام، شرک، ناجائز اور نہ جانے کیا کیا تھی، وہ اب نفل ہو گئی؟

(14)صحابہ کون تھے ؟ حنفی، مالکی، شافعی یا حنبلی؟

جواب: صحابہ کس کی قرأت پر قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے ؟ اور حدیث کی کونسی کتاب پڑھتے تھے ؟ بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابوداؤد یا ابن ماجہ؟

جس طرح قراء سبعہ اور ائمہ محدثین سے پہلے صحابہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے اور حدیث پڑھتے پڑھاتے تھے، اسی طرح فقہ ائمہ اربعہ کی تدوین سے پہلے احکام شرعیہ پر عمل بھی کرتے تھے۔

(15)کیا صحابہ میں کوئی ایک صحابی اس قابل نہیں تھا کہ ان کو اپنا امام بنا دیا جائے ؟

جواب: کیا صحابہ میں کوئی اس قابل نہیں تھا کہ اس کی قرأت پر قرآن کریم کی تلاوت کی جائے اور اس کی کتاب پڑھی پڑھائی جائے اور اسی کو اپنا مستدل بنایا جائے ؟

(16)صحابہ کا درجہ بڑا ہے یا بعد والے امتیوں کا؟ پھر ان میں سے کوئی امام کیوں نہیں بنا؟

جواب: صحابہ کا درجہ بڑا ہے یا بعد والے امتیوں کا؟ پھر ان کی قرأت اور کتاب کیوں نہیں پڑھی پڑھائی جاتی؟

(17)ہم تو چار امام کو مانتے ہیں، لیکن شیعہ تو بارہ امام کو مانتے ہیں، تو پھر ہم ان کو گمراہ کیوں کہتے ہیں؟

جواب: ائمہ کی تعداد گمراہی کا سبب نہیں، اور نہ ہم اس وجہ سے انہیں گمراہ کہتے ہیں، ورنہ تو آپ کو شیعوں سے بھی بڑھ کر گمراہ سمجھتے۔

بلکہ گمراہی کا سبب فساد عقیدہ ہے، ہم ائمہ اربعہ کو اولو االامر، اہل ذکر، مجتہد و منیب، قانون دان، شارح اور غیر معصوم سمجھتے ہیں، جب کہ شیعہ اپنے بارہ ائمہ کو قانون ساز، شریعت ساز اور معصوم عن الخطاء سمجھتے ہیں، جو یقیناً گمراہی ہے۔

(18)کیا ان چار اماموں میں سے کسی ایک امام کا نام قرآن و حدیث میں آیا ہے ؟

جواب: جس طرح شریعت پر عمل کرنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کا حکم قرآن و حدیث میں آیا ہے، لیکن ائمہ محدثین اور قراء سبعہ کا نام نہیں آیا۔اسی طرح احکام شرعیہ کی پاسداری کا حکم تو قرآن و حدیث میں آیا ہے، لیکن ائمہ اربعہ کا نام نہیں آیا۔

(19)جو لوگ ان چار اماموں کے پیدا ہونے سے پہلے مر چکے ان کا کیا ہو گا ؟

جواب: ان کی فکر چھوڑئے، پہلے آپ اپنی فکر کیجئے کہ مرنے کے بعد آپ کا کیا ہو گا؟ اس لئے کہ ائمہ اربعہ سے پہلے کا زمانہ خیر القرون کا زمانہ تھا، لوگوں کے اندر تدین، تقوی، خوف آخرت، خشیت الہی اور اتباع شریعت کا غلبہ تھا، وہ آپ کی طرح خواہش پرست اور ہوا وہوس کے دلدادہ نہیں تھے کہ…..

میٹھا میٹھا ہپ ہپ

کڑوا کڑوا تھو تھو

(20)ان چار اماموں کے والدین کس امام کی تقلید کرتے تھے ؟

جواب: قراء سبعہ اور ائمہ محدثین کے والدین کس کی قرأت پر قرآن اور کس کی حدیث کی کتاب پڑھتے تھے ؟

(21)امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد (رحمہم اللہ) کونسے امام کو مانتے تھے ؟

جواب: سارے ائمہ کو مانتے تھے، البتہ کسی امام کی تقلید نہیں کرتے تھے، اس لئے کہ وہ خود مجتہد ومستنبط تھے، اور مجتہد کے لئے اجتہاد واجب ہے۔

(22)اگر میں ایک امام کو مانتا ہوں تو کیا باقی امام حق پر نہیں؟

جواب: ہم تو سارے ائمہ کی امامت تسلیم کرتے بلکہ برحق مانتے ہیں، ہاں اگر ماننے کا مطلب اس کے فیصلہ کے مطابق شریعت پر عمل کرنا ہو، تو یہ بتا دیں کہ اگر آپ ایک نبی کو مانتے ہیں اور ایک قاری کی قرات پر قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، تو کیا باقی انبیاء اور قراء حق پر نہیں؟

(23)اگر سب امام حق پر ہیں تو پھر میں ایک ہی امام کے پیچھے کیوں ؟

جواب: اس لئے کہ آپ خواہش پرست اور ہوا وہوس کے دلدادہ ہیں، اور شریعت خواہش پرستی سے منع کرتی ہے۔

(24)امام ایک دوسرے کے استاذ شاگرد تھے تو پھر ان کی فقہ الگ الگ کیوں ؟

جواب: جس طرح ائمہ محدثین کی کتابیں ایک دوسرے کا شاگرد ہونے کے باوجود الگ الگ ہیں، اسی طرح ائمہ کی فقہ بھی الگ الگ ہو گئی۔

(25)اگر سب امام حق پر ہیں تو پھر ان کے اندر آپس میں اختلاف کیوں ؟

جواب: جس طرح سارے صحابہ اور سارے قراء کا حق پر ہونے کے باوجود آپس میں اختلاف ہے، اسی طرح ائمہ کا بھی اختلاف ہے، اس لئے کہ کسی بھی امام کا کوئی ایسا قول نہیں جو کسی صحابی سے ثابت نہ ہو۔

(26)ان چار اماموں میں سے باقی تین اماموں کی اپنی لکھی ہوئی کتاب آج بھی موجود ہے، لیکن ابوحنیفہ کی لکھی ہوئی کتاب کا نام کیا ہے ؟ یہ کتاب حنفی مسجدوں میں کیوں نہیں پڑھائی جاتی؟

جواب: اگر اطاعت و فرماں برداری یا تقلید و اتباع کے لئے مطاع و متبوع کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب کا ہونا ضروری ہے، تو یہ بتایئے کہ امام الائمہ بلکہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک یا صحابہ کرام کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کونسی کتاب دنیائے اہل حدیث میں موجود ہے، جسے آپ لوگ اپنی مساجد میں پڑھ پڑھا کر عمل کرتے ہیں؟

(27)اگر امام کو نہ ماننا گناہ ہے، تو ایک امام کو ماننے سے دوسرے تین امام چھوٹ جاتے ہیں، اس کا گناہ میرے سر پر کیوں؟

جواب: جس طرح ایک نبی اور ایک قاری کو ماننے سے باقی انبیاء اور قراء نہیں چھوٹتے، اسی طرح ایک امام کو ماننے سے دوسرے ائمہ بھی نہیں چھوٹتے، اس لئے کہ سب کی تعلیم ہے کہ شریعت پر عمل کرو اور خواہشات کی اتباع نہ کرو، اور یہ ایک امام کی مان کر ہی ہو سکتا ہے، آپ گناہ کی بالکل فکر نہ کریں۔

(28)جب اماموں نے اپنے آپ کو حنفی، شافعی، مالکی یا حنبلی جیسی نسبتوں سے نہیں جوڑا، تو پھر میں کیوں اپنے آپ کو ایسی نسبتوں سے جوڑتا/جوڑتی ہوں؟

جواب: جب امام الانبیاء خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے آپ کو محمدی، اہل حدیث، اہل اثر اور سلفی اثری وغیرہ نسبتوں سے نہیں جوڑا، تو پھر آپ کیوں آپ آپ کو ان نسبتوں سے جوڑتے /جوڑتی ہیں؟ اور ان ناموں سے متعارف کراتے /کراتی ہیں؟

(29)کیا ہمارے امام نے ہم سے کہا ہے کہ صرف میری ہی تقلید کرنا، اور میرے علاوہ کسی کی بھی تقلید نہ کرنا؟

جواب: امام نے یہ کہا ہے کہ قرآن وسنت پر عمل کرنا اور خواہشات کی پیروی مت کرنا، اور یہ ایک امام کی ہی تقلید سے ہو سکتا ہے، جیسا کہ علماء امت نے صراحت کی ہے۔

(30)کیا میرا منہج وہی ہے جو ہمارے امام کا تھا ؟

جواب: جی ہاں ہمارا منہج تو وہی ہے جو ہمارے امام کا ہے، البتہ چونکہ آپ کا کوئی امام ہی نہیں اس لئے آپ لا منہج اور لامذہب ضرور ہیں

(31)میں اپنے امام کے بارے میں کتنا جانتا ہوں ؟

جواب: جب آپ کا کوئی امام ہی نہیں، تو آپ کیا جانیں گے، البتہ اتنا ضرور بتا دیجئے کہ جس نبی کا آپ کلمہ پڑھے ہیں، اور جن کی امامت اور رسالت و نبوت کا اقرار جزو ایمان ہے، ان کے بارے میں آپ کتنا جانتے ہیں ؟

(32)کتنی کتاب اب تک میں نے یا میرے گھر والوں نے اپنے امام کی پڑھی ہے ؟

جواب: جب آپ اور آپ کے گھر والوں کا کوئی امام ہی نہیں، تو اس کی کتاب کیا پڑھیں گے ؟ ہاں یہ ضرور بتا دیجئے کہ آپ یا آپ کے گھر والوں نے اب تک امام الائمہ بلکہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کی اب تک کتنی کتابیں پڑھی ہیں ؟

(33)قبر میں فرشتے کیا مجھ سے یہ پوچھیں گے کہ بتا تیرا امام کون ہے ؟

جواب: یہ تو نہیں پوچھیں گے، البتہ جو سوال کریں گے ان کا جواب ان ائمہ کی تقلید کے بغیر مشکل ہے۔

(34)قیامت کے دن کیا مجھ سے یہ سوال کیا جائے گا کہ بتا تیرا امام کون تھا؟ اور تو اس کی تقلید کرتا تھا؟

جواب: یہ پوچھا جائے گا کہ بتا تو نے شریعت کے احکامات پر عمل کیا یا نہیں؟ اور شریعت کے غیر منصوص احکام پر غیر مجتہد کے لئے کسی مجتہد کی تقلید کے بغیر عمل کرنا دشوار ہے۔

(35)قبر میں یا قیامت کے دن باقی تین اماموں کے بارے میں کیا جواب دوں گا ؟

جواب: آپ اگر کسی ایک کی مان کر احکام شرعیہ پر عمل کر لئے تو باقی ائمہ کے بارے میں آپ سے پوچھا ہی نہیں جائے گا، تو جواب کی تیاری کیسی؟

ہاں اگر عامی اور جاہل ہونے کے باوجود کسی کی نہیں سنے، تو آپ کی جہالت آپ کو نہیں بچا سکے گی، اور یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ جب معلوم نہیں تھا تو اپنی خواہش پرستی ونفس پرستی کے مقابلے میں کسی اولو االامر اور اہل ذکر سے پوچھ کر عمل کیوں نہیں کیا ؟

(36)اگر میں نے اپنے امام کا نام بتا بھی دیا، اور اگر مجھ سے یہ سوال ہو گیا کہ صرف اس امام ( مثلاً امام شافعی) کی ہی تقلید کو کیوں چنا؟ تو اس کا میں کیا جواب دوں گا ؟؟

جواب: ایسی صورت میں کسی اور کے بارے میں پوچھا ہی نہیں جائے گا، اس لئے کہ کسی ایک امام کی تقلید سے مقصود اصلی (احکام شرعیہ پر عمل) حاصل ہو جاتا ہے۔

(37)کیا میری یا میرے والدین کی یا میرے علماء کی اتنی حیثیت ہے کہ کس امام کو مانا جائے اور کس کو چھوڑا جائے ؟

جواب: حیثیت نہیں، بلکہ بتوفیق الہی صحیح اور غلط، اور حق و باطل کی تمیز اور صحیح راستے کی رہنمائی ہے، جسے توفیق خداوندی اور ارایۃ الطریق کہا جاتا ہے، اور یہی ارایۃ الطریق کا فریضہ ہم آپ کے ساتھ بھی انجام دے رہے ہیں،

اللہ ہماری اور آپ کی راہ راست کی رہنمائی فرمائے، اور تا حیات اس پر قائم رکھے۔

(38)کیا یہ لوگ امام سے زیادہ تقوی والے اور علم والے ہیں ؟

جواب: امام سے زیادہ تو نہیں، البتہ آپ، آپ کے علماء اور والدین سے علم و تقویٰ میں زیادہ ہونے میں کوئی شک نہیں، اس لئے کہ آپ کے علماء (جو درحقیقت جہلاء ہیں) خود دین حق سے جاہل اور غلط راستے پر ہیں، تو پھر ان کے شانہ بشانہ چلنے والے آپ اور آپ کے والدین کے پاس کہاں سے علم اور تقوی آئے گا۔

(39)اور ایک خاص سوال یہ ہے کہ جب یہ امام نہیں تھے تو مسلمان کس کی تقلید کرتے تھے ؟

جواب: جس طرح قراء سبعہ اور ائمہ محدثین سے پہلے قرآن کریم کی تلاوت اور حدیث پڑھی پڑھائی جاتی تھی، اسی طرح غیر منصوص مسائل پر عمل بھی ہوتا تھا۔

٭بھائیو! اگر آپ کے پاس ان سوالات کے جوابات نہیں ہیں، تو معاف کرنا، آپ نہ حنفی ہیں، نہ مالکی اور نہ حنبلی

جواب: سارے سوالات کے جوابات بحمد للہ ہیں، بلکہ دے بھی دیئے، اور یقیناً ہم مسلکاً حنفی ہیں، والحمد للہ علی ذلک

٭اور شاید آپ کو یہ بھی نہیں پتہ کہ آپ کیا ہیں ؟؟

جواب: ہمیں تو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہم دیناً مسلم، مسلکاً حنفی اور نسبتاً دیوبندی ہیں، البتہ آپ کیا ہیں؟ اس کی وضاحت ضرور فرما دیں۔

اور کچھ سوالات:

جواب: جی! فرمائیں، ہم بھی خدمت کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔

(40)وہ کونسا امام ہو گا جو اللہ کے آگے ہماری سفارش کے لئے سجدہ میں جائے گا ؟

جواب: خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم، اور انہی کے لائے ہوئے دین پر عمل کرنے کے لئے ہم نے ائمہ کی تقلید اختیار کیا ہے۔

(41)وہ کونسا امام ہو گا جس کی سفارش ہمارے حق میں اللہ قبول کرے گا ؟

جواب: امام الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ و سلم، اور دیگر مقبول بارگاہ خداوندی، جنہیں خاص اجازت حاصل ہو گی۔

(42)وہ کونسا امام ہو گا جو حوض کوثر پر کھڑا ہو گا ؟

جواب: خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہوں گے، اور اپنے لائے ہوئے دین میں تبدیلی کرنے والوں کو سحقا سحقا لمن بدل دینی کہہ کر حوض سے دور بھگائیں۔

 

(43)وہ کونسا امام ہو گا جس کے بارے میں ہم سے قبر میں سوال ہو گا ؟

جواب: خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم، اور انہی کی شریعت پر عمل کرنے کے لئے ہم نے ائمہ مجتہدین کے دامن کو پکڑا ہے۔

(44)وہ کونسا امام ہے جس کی اطاعت اللہ کی اطاعت اور جس کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے ؟

جواب: خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم، اور اسی اطاعت کے جذبہ اور نافرمانی سے بچنے کے لئے ہم نے ائمہ مجتہدین کی تقلید اختیار کیا ہے۔

(45)وہ کونسا امام ہے جس کا کلمہ ہم نے پڑھا ہے ؟

(46)وہ کونسا امام ہے جو اپنی امت کی خاطر رویا ہے ؟

(47)وہ کونسا امام ہے جس کے لائے ہوئے دین پر ایمان لانا نجات کے لئے ضروری ہے ؟

جواب: خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم، اور انہی کے لائے ہوئے دین اور شریعت پر عمل کرنے اور خواہش پرستی سے بچنے کے لئے ہم نے ائمہ کی تقلید کی ہے۔

(48)سوچئے ! کیا ہم اتنے غافل ہیں اسلام سے ؟

جواب: اگر ہم اسلام سے غافل ہوتے، تو اس کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے کسی اولو االامر اور اہل ذکر کی تقلید ہی کیوں کرتے ؟ آپ کی طرح مادر پدر آزاد گھومتے پھرتے نہیں ؟؟

(49)کیا تقلید کی وجہ سے یہ امت فرقوں میں نہیں بٹتی ؟

جواب: نہیں، اس لئے کہ مقلدین کا باہمی جو اختلاف ہے وہ وہی ہے جس میں صحابہ و تابعین باہم مختلف تھے، اور یہ کوئی معیوب نہیں!

البتہ اس سے شاید کسی بھی عقلمند کو انکار نہ ہو کہ جب تک ہند وپاک میں تقلید پر اتفاق رہا، سارے مسلمان باہم شیر و شکر تھے، کسی کے اندر اسلام کی طرف غلط نگاہ بھی اٹھانے کی ہمت نہیں تھی، لیکن افسوس! کہ جب آپ کے آباء و اجداد نے ترک تقلید اور مادر پدر آزادی کا نعرہ لگایا، اسی وقت سے آج تک امت ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہو سکی، اور وہ مسلمان جو اب تک شیر و شکر تھے، باہم دست و گریباں ہونے لگے، اور آج اس کے نتیجہ میں جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے، دنیا دیکھ رہی ہے،

یہ کوئی لفاظی نہیں بلکہ وہ حقائق ہیں جنہیں آپ کے بڑوں نے بھی تسلیم کیا ہے۔

(50)اگر اختلاف اس امت کے لئے رحمت ہے تو پھر ہم اور زیادہ اختلاف کریں ؟

جواب: ہند و پاک میں آپ کے جنم لئے ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے، اور ان ایام میں آپ نے جمہور امت ( جو ائمہ اربعہ کی تقلید پر متفق تھی) سے قادیانیت، نیچریت، انکار حدیث، مودودیت اور نہ جانے کتنے فرقے اپنی کوکھ سے جنم دیئے، اب باقی کیا رہ گیا ہے، جو اور کریں گے۔

خدا را امت کو اب اور فرقوں میں مت تقسیم کیجئے، بہت ہو گیا، اختلاف کا جو مقصد تھا وہ بھی آپ کو حاصل ہو گیا، جاگیریں اور جائیدادیں بھی ملیں، انگریز ملک چھوڑنے کے باوجود اب تک آپ کے احسانوں کو فراموش نہیں کرسکا،

فی الحال اسلام پر ہر چہار جانب سے حملے ہو رہے ہیں، سب کا نشانہ واحد اسلام ہے، سب کی نگاہیں اسلام کی طرف اٹھی ہوئی ہیں، ہر ایک موقع کی تلاش میں گھات لگائے بیٹھا ہے، ایسے وقت میں امت مسلمہ کے اتحاد کی سخت ضرورت ہے،

خدا را! خدا را! امت کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کرو، اور جو ایک ہیں ان میں انتشار نہ پیدا کرو۔

اللہ ہم سب کو صحیح راستے پر چلنے اور باطل و گمراہ راستے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اللہم اھدنا الصراط المستقیم

اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔

٭٭٭

 

 

 

 

عورتوں کی امامت کا مسئلہ اور غیر مقلد علماء کا جھوٹ، خیانت اور دھوکہ

 

حافظ محمود احمد(عرف عبد الباری محمود)

 

قارئین کرام! علمائے اہلحدیث (غیر مقلدین علماء) کو احناف اور فقہ حنفی سے اس قدر چڑھ ہے کہ وہ جہل، جھوٹ، خیانت اور بد دیانتی کا سہارا لے کر آئے دن فقہ حنفی اور احناف کو بدنام کرتے رہتے ہیں جس کا ایک نمونہ یہاں پیش کیا جاتا ہے ملاحظہ فرمائیں۔

فرقہ اہلحدیث کے ایک بہت بڑے عالم جن کا نام ابوالاقبال سلفی ہے، اپنی کتاب "اصلی اسلام کیا ہے ؟ اور جعلی اسلام کیا؟” میں جگہ جگہ جھوٹ، خیانت اور بد دیانتی کا مظاہرہ کیا ہے، (تفصیل جاننے کیلئے دیکھئے : مولانا مرتضیٰ حسن صاحب سدھارتھ نگری کی کتاب "ضدی ابلیس” اور "پردہ اُٹھ رہا ہے ")

اس کتاب کے صفحہ۴۷۹/پر عورتوں کی امامت سے متعلق دو روایتیں نقل کرتے ہیں:

عَنْ اُمِّ وَرَقَۃَ اَمَرَھَا اَنْ تَؤُمَّ اَھْلَ دَارِھَا. (ابوداؤد باب امامت النساء)

رسول اللہ ﷺ نے (حضرت، ناقل) ام ورقہ(رضی اللہ عنہا، ناقل) کو اپنے گھر والوں کی امامت کرانے کا حکم دیا۔

عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّھَا تَؤُمُّ النِّسَاءَ وَتَقُوْمُ وَسْطَھُنَّ. (مستدرک حاکم باب امامت المرأۃ)

حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا صف کے بیچ میں کھڑی ہو کر عورتوں کی امامت کراتی تھیں۔”

پھر لکھتے ہیں:

"دونوں حدیثیں بالکل صاف اور واضح ہیں۔ ایک میں رسول کا حکم ہے … دوسری میں زوجۂ رسولؐ کا اس پر عمل ہے۔ لیکن حنفی مذہب اللہ کے رسول کے اس حکم کو نہیں مانتا۔ نہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کے اس حکم (یہاں سلفی صاحب نے اپنی جہالت سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کے "عمل” کو "حکم” بنا دیا ہے، ناقل) پر عمل کرنے کو پسند کرتا ہے۔ بلکہ اپنی طرف سے گڑھ کر فتوی دیتا ہے۔ اور اس حکم رسولؐ کی مخالفت کرتا ہے۔ ”

یہی سلفی صاحب اپنی ایک دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:

"ناظرین یہ ہیں صحیح احادیث جن سے صاف طور پر ثابت ہے کہ عورتیں عورتوں کی امامت کرسکتی ہیں۔ لیکن حقانی اور حنفیہ ان تمام صحیح حدیثوں کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ عورت عورتوں کی امامت نہیں کرا سکتی۔ یہ امت حنفیہ ہے اس لئے اسلام کے رسول کا حکم یہ کیوں کر مان سکتی ہے۔ ” (مذہبِ حنفی کا دینِ اسلام سے اختلاف، صفحہ ۴۵)

اس فرقہ کے ایک اور بڑے عالم حکیم صادق سیالکوٹی اپنی کتاب "سبیل الرسول” میں لکھتے ہیں:

"حنفی بھائیو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو صرف عورتوں کو بھی جماعت سے نماز پڑھنے کی اجازت دیں۔ عورت کی امامت عورت کے لئے روا رکھی، لیکن فقہ میں یہ کام منع قرار پائے کہ حدیث کی برابری کتنی بری چیز ہے ” (صفحہ ۱۵۷)

اسی فرقہ کے ایک اور مشہور غیر مقلد عالم فاروق الرحمٰن صاحب یزدانی حضرت عائشہؓ کی مستدرک حاکم اور ابوداؤد کے حوالہ سے روایت مع ترجمہ نقل کر کے لکھتے ہیں:

"اس روایت سے کس قدر واضح ہے کہ عورت عورتوں کی امامت کرا سکتی ہے۔ ابوداؤد شریف کی روایت میں ام ورقہ رضی اللہ تعالی عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود جماعت کرانے کا حکم دیا ہے اور مستدرک حاکم کی روایت میں فرض نماز کا بھی ذکر ہے کہ وہ امامت فرض نماز کی ہوتی تھی۔ مگر کیا کیا جائے اس رائے و قیاس کے مرض کا کہ حدیث پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت اس نے اپنا شعار بنا لیا ہے چنانچہ فقہ حنفی میں لکھا ہے :

ویکرہ للنساء ان یصلین وحدھن الجماعۃ [ہدایہ ج۱، ص۱۲۵، کتاب الصلوٰۃ، باب الامامۃ، شرح وقایہ ۱۷۶/۱، قدوری ص۴۴]

یعنی مکروہ سمجھا گیا ہے کہ عورتیں علیحدہ جماعت سے نماز پڑھیں۔ یعنی مردوں کی جماعت کے علاوہ جماعت کرائیں۔”

مزید لکھتے ہیں:

"قارئین اوپر آپ نے حدیث پڑھی اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ام ورقہؓ کو جماعت کرانے کا حکم دیا ہے مگر یہ فقہ حنفی ہے کہ اسے مکروہ سمجھ رہی ہے۔ تو گویا جس کام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم کرنے کا مشورہ ہی نہیں بلکہ کرنے کا حکم دیں لیکن فقاہت کا تقاضہ ہے کہ اس کو نا پسند کیا جائے۔ یہ حال ہے امت کے دعویداروں کا۔” (احناف کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اختلاف، صفحہ ۳۱۸ و ۳۱۹)

***الجواب***

قارئین کرام! نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کو اس کی اجازت دے رکھی تھی کہ اگر عورتیں اپنی جماعت کریں تو ان کی نماز باطل نہیں ہو گی بلکہ جائز ہو گی لیکن ابوالاقبال سلفی، حکیم صادق سیالکوٹی اور فاروق الرحمٰن یزدانی نے اس کو ایسا بیان کیا ہے کہ گویا صحابہ کرام اور اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں اس پر برابر عمل ہوتا رہا ہے جبکہ صورت حال یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام کے زمانہ میں استمرار کے ساتھ اس پر عمل نہیں تھا (جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہو گا)

لیکن ابوالاقبال سلفی، حکیم صادق سیالکوٹی اور فاروق الرحمٰن یزدانی کو چونکہ فقہ حنفی کو بدنام کرنا تھا اس لئے ایسا بیان کیا۔

قارئین کرام! ابوالاقبال سلفی اور صادق سیالکوٹی نے ہدایہ کو حدیث کے خلاف بتانے کے لئے ایک عبارت تو نقل کر دی لیکن وہ عبارت اڑا دی جس سے کہ حدیث کے خلاف نہیں بلکہ اس کے موافق ہو رہی تھی. دیکھئے ہدایہ میں صاف لکھا ہے :

وان فعلن قامۃ الامام وسطہن

یعنی عورتیں اگر خود جماعت کریں تو جو عورت امام ہو ان کے بیچ میں کھڑی ہو. (دلیلیں آگے آ رہی ہیں)

قارئین! ہدایہ کی یہ عبارت کتنی صاف ہے کہ اگر عورتیں ایسا کریں تو ان کی نماز درست ہو گی اور ان کی جماعت کا طریقہ بھی بتلا دیا مگر اقبال سلفی اور صادق سیالکوٹی نے از راہ خیانت اس عبارت کو گول کر دیا اور جھوٹ بولتے ہوئے یہ بتلایا کہ فقہ حنفی میں عورتوں کی جماعت منع ہے . (لعنت اللہ علی الکٰذبین)

قارئین! رہا مسئلہ فقہ حنفی میں عورتوں کی جماعت کے مکروہ ہونے کا، ، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث میں خود اس کو نا پسند کیا گیا ہے۔ دیکھئے عورتوں کی جماعت سے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے :

"لا خیر فی جماعۃ النساء الا فی المسجد او فی جنازۃ قتیل

یعنی عورتوں کی جماعت میں کوی بھلائی نہیں ہے الا یہ کہ مسجد میں یا مقتول کے جنازہ میں”

(رواہ احمد والطبرانی فی الاوسط بحوالہ اعلاء السنن جلد۴ صفحہ ۲۴۲)

اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کی جماعت میں خیریت (یعنی بھلائی) کی نفی فرمائی ہے جو اس کے کراہیت کی کافی دلیل ہے۔

اور خلیفۂ راشد حضرت علی فرماتے ہیں:

"لا تؤم المرأۃ۔یعنی عورت امامت نہ کرے ” (المدونۃ الکبریٰ جلد ۱ صفحہ ۸۶)

*مرد و عورت کی امامت کی جائے قیام میں فرق کی دلیل*

مرد امامت میں آگے کھڑا ہو گا اس لئے کہ حضرت سمرہ بن جندبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ جب ہم تین (آدمی) ہوں (اور با جماعت نماز پڑھنے لگیں) تو ہم میں ایک آگے ہو جایا کرے۔ (ترمذی شریف جلد ۱، باب ماجاء فی الرجل یصلی مع الرجلین)

اور حضرت جابرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اس سلسلہ کا اپنا واقعہ یوں بیان کیا ہے ایک موقع پر:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھما کر مجھے اپنی داہنی طرف کھڑا کر لیا، اتنے میں (حضرت) جبار بن صخرؓ بھی وضو کر کے آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم دونوں کے ہاتھ پکڑ کر پیچھے کر دیا (اب ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہم سے آگے )۔ دیکھئے : صحیح مسلم، کتاب الزہد والرقاق)

جبکہ عورت امام کی جائے قیام کے بارے میں درج ذیل روایتیں آئی ہیں۔

(۱) حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ: "تؤم المرأۃ النساء تقوم فی وسطھن

یعنی عورت (اگر) عورتوں کی امام بنے تو ان کے درمیان کھڑی ہو” (مصنف عبدالرزاق جلد ۳ صفحہ ۱۴۰)

(۲) حضرت ریطہ حنفیہؓ روایت کرتی ہیں:

(ایک دفعہ) حضرت عائشہؓ نے فرض نماز میں عورتوں کی امامت کرائیں تو ان کے درمیان کھڑی ہوئیں۔ (مصنف عبدالرزاق، جلد ۳ صفحہ۱۴۱)

(۳) یحیٰ بن سعید خبر دیتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نفل نماز میں عورتوں کی امامت کراتی تھیں تو ان کے صف میں کھڑی ہوتی تھیں۔(حوالہ سابق)

(۴) حضرت عائشہؓ ماہ رمضان میں عورتوں کی امامت کرتی تھیں تو بیچ میں کھڑی ہوتی تھیں۔

(کتاب الآثار، باب المرأۃ النساء…)

(۵) نصب الرایہ کتاب الصلاۃ میں ہے کہ:

عن ام الحسن انھا رأت ام سلمۃ زوج النبی صلی اللہ علیہ و سلم تؤم النساء فتقوم معھن فی صفھن

یعنی حضرت ام حسن سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بیوی حضرت ام سلمہؓ کو دیکھا کہ وہ عورتوں کی امامت کرتی تھیں تو ان کے ساتھ ان کے صف میں کھڑی ہوتی تھیں.

فائدہ: ان احادیث و آثار سے معلوم ہوا کہ مرد امامت میں صف میں آگے کھڑا ہو گا، جبکہ عورت امامت میں صف کے آگے نہیں، بلکہ درمیانِ صف کھڑی ہو گی۔ اور یہ بھی صاف معلوم ہوا کہ عورتوں کی اپنی جماعت فی نفسہ جائز ہے  لہذا اگر وہ اپنی جماعت کرنا چاہیں تو منع نہیں ہے، لیکن شریعت کی نظر میں یہ بہتر و پسندیدہ بھی نہیں ہے جیساکہ اوپر میں گزر چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس میں خیریت (یعنی بھلائی) کی نفی کی ہے جو "لا خیر فی جماعۃ النساء الا فی المسجد او فی جنازۃ قتیل” سے واضح ہے۔

یہی وجہ ہے کہ زمانہ خیر القرون میں اس کا رواج نہ تھا۔ حضرت عائشہؓ، حضرت ام سلمہؓ نے جو امامت کرائی ہیں تو یہ ابتداء اسلام میں تھا، بعد میں منسوخ ہو گیا۔ چنانچہ ابوداؤد کی شرح بذل المجہود میں ہے :

الا ان جماعتھن مکروہۃ عندنا و عند الشافعی مستحبۃ کجماعۃ الرجال و یروی فی ذلک احادیث لکن تلک کانت فی ابتداء الاسلام ثم نسخت …

"یعنی ہمارے نزدیک عورتوں کی جماعت مکروہ ہے امام شافعیؒ کے نزدیک مستحب ہے جیسے مرد کی جماعت اور یہ کہ جو روایت کی گئی ہے عورتیں امامت کرواتی تھیں تو یہ ابتداء اسلام میں تھا بعد میں منسوخ ہو گیا” (جلد ۴ صفحہ ۲۰۹)

اسی طرح مولانا عبد الحی لکھنویؒ فرماتے ہیں:

فاین ذالک من ابتداء الاسلام

لکن یمکن ان یقال انہ منسوخ

"یعنی تو ایسا ہے کہ یہ ابتداء اسلام سے، لیکن ممکن ہے کہ اسے منسوخ کہا جائے ” دیکھئے : (حاشیۂ ہدایہ)

لہذا خلاصہ کلام یہ کہ:

عورتوں کی اپنی جماعت فی نفسہ جائز ہے  لہذا اگر وہ اپنی جماعت کرنا چاہیں تو منع نہیں ہے، لیکن شریعت کی نظر میں یہ بہتر و پسندیدہ بھی نہیں ہے۔

اللہ پاک ہم کو صحیح سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

٭٭٭

 

 

 

ردِّ بریلویت

 

حضرت گنگوہیؒ پر تکذیب رب العزت کا بہتان اور اس کا جواب

 

                مولانا ساجد خان نقشبندی ﷾

 

 

مولوی احمد رضا خان اپنی تکفیری دستاویز ’’حسام الحرمین‘‘ پر مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ :

پھر تو ظلم و گمراہی میں اس کا حال یہاں تک بڑھا کہ اپنے ایک فتوے میں جو اس کا مہری دستخطی میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے بمبئی وغیرہ میں بارہا مع رد کے چھپا صاف لکھ دیا کہ جو اللہ سبحانہ و تعالی کو بالفعل جھوٹا مانے اور تصریح کر دے کہ معاذ اللہ اللہ تعالی نے جھوٹ بولا اور یہ عیب اس سے صادر ہو چکا تو اسے کفر بالائے طاق، گمراہی درکنار، فاسق بھی نہ کہو اس لئے کہ بہت سے امام ایسا کہہ چکے ہیں جیسا اس نے کہا بس نہایت کار یہ ہے کہ اس نے تاویل میں خطا کی۔۔۔یہی وہ ہیں جنھیں اللہ تعالی نے بہر ا کیا اور اس کی آنکھیں آندھی کر دیں (حسام الحرمین مع تمہید ایمان ص 71مکتبۃ المدینہ)

قارئین کرام حضرت گنگوہی ؒ کی طرف کسی ایسے فتوے کی نسبت کرنا سراسر افتراء اور بہتان ہے حسام الحرمین کی اس سے پہلی والی بحث یعنی تحذیر الناس میں تو مولوی احمد رضا خان نے تحذیر الناس کی متفرق عبارتیں جوڑ کر کفر کی مسل تیار بھی کر لی تھی یہاں تو یہ بھی ناممکن ہے۔بحمد اللہ ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مرحوم کے کسی فتوے میں یہ الفاظ مرقوم نہیں ہیں نہ ہی کسی فتوے کا یہ مضمون ہے۔بلکہ درحقیقت یہ صرف خان صاحب یا ان کے کسی دوسرے ہم پیشہ بزرگ کا افتراء اور بہتان ہے۔بفضلہ تعالی ہمارے اکابر اس شخص کو کافر، مرتد، ملعون سمجھتے ہیں جو خداوند تعالی کی طرف جھوٹ کی نسبت کرے اور اس سے بالفعل صدور کذب کا قائل ہو بلکہ جو بد نصیب اس کے کفر میں شک کرے ہم اس کو بھی خارج از اسلام سمجھتے ہیں۔حضرت مولانا رشید احمد صاحب ؒ جن پر خان صاحب نے یہ ناپاک اور شیطانی بہتان لگایا خود انہی کے مطبوعہ فتا وی میں یہ فتوی موجود ہے :

ذات پاک حق تعالی جل جلالہ کی پاک و منزہ ہے اس سے کہ متصف بوصف کذب کیا جائے۔معاذ اللہ تعالی اس کے کلام میں ہرگز ہرگز شائبہ کذب کا نہیں قال اللہ تعالی: و من اصدق من اللہ قیلا(فتاوی رشیدیہ جلد اول ص118وتالیفات رشیدیہ ص96(

جو شخص اللہ تعالی کی نسبت یہ عقیدہ رکھے یا زبان سے کہے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے وہ قطعاً کافر و ملعون ہے اور مخالف قرآن و حدیث کا اور اجما ع امت کا ہے۔ و ہ ہرگز مومن نہیں تعالی اللہ عما یقول الظلمون علوا کبیرا(ایضا)۔

ناظرین انصاف فرمائیں کہ اس صریح اور چھپے ہوئے فتوے کے ہوتے ہوئے حضرت ممدوح پر یہ افتراء کرنا کہ معاذ اللہ وہ خدا کو کاذب بالفعل مانتے ہیں یا ایسا بکنے والے کو مسلمان کہتے ہیں کس قدر شرمناک کاروائی ہے۔ ؟؟الحساب یو م الحساب۔

شرم۔۔۔شرم۔۔۔شرم۔۔۔

رہا مولوی رضا خان صاحب کا یہ لکھنا کہ ’’میں نے ان کا وہ فتوی مع مہر و دستخط بچشم خود دیکھا‘‘اس کے جواب میں ہم صرف اتنا عرض کریں گے جب اس چودہویں صدی کا ایک عالم و مفتی ایک چھپی ہوئی کثیر الاشاعت کتاب (تحذیر الناس)کی عبارتوں میں قطع و برید کر کے ص3,14,28کی عبارتوں میں تحریف کر کے ایک کفریہ مضمون گھڑ کے تحذیر الناس کی طرف منسوب کرسکتا ہے تو کسی جعلساز کیلئے کسی کے مہر و دستخط بنا لینا کیا مشکل ہے ؟ (آپ حضرات اکثر سنتے ہوں گے اخبارات و ٹی وی میں کہ فلاں جگہ سے جعلساز پکڑے گئے جن سے جعلی سرکاری مہریں برآمد ہوئی ہیں جو پاسپورٹ پر لگانے کے کام آتی تھی وغیرہ وغیرہ )کیا دنیا میں جعلی سکے جعلی نوٹ جعلی دستاویز تیار کروانے والے موجود نہیں؟مشہور ہے کہ بریلی اور اس کے گرد و نواح میں اس فن کے بڑے بڑے ماہر رہتے ہیں جن کا ذریعہ معاش ہی یہی ہے۔

بہرحال مولوی احمد رضا خان نے حضرت گنگوہی ؒ کے جس فتوے کا ذکر کیا ہے اس کی کوئی اصل نہیں فتاوی رشیدیہ جو تین جلدوں میں چھپ کر آ چکی ہے (اس وقت یہ مجموعہ تالیفات رشیدیہ کے ساتھ بھی چھپ چکا ہے جس میں حضرت گنگوہی ؒ کی تمام تصانیف کو جمع کر دیا گیا ہے )وہ بھی ا س کے ذکرسے خالی ہے۔بلکہ اس میں تو اس کے خلا ف چند فتوے موجود ہیں جن میں سے ایک اوپر نقل بھی کیا جا چکا ہے۔اور اگر فی الواقع خان صاحب نے ا س قسم کا کوئی فتوی دیکھا ہے تو وہ یقیناً ان کے کسی ہم پیشہ بزرگ یا ان کے کسی پیشرو کی جعلسازی اور دسیسہ کاریوں کا نتیجہ ہے۔

حضرات علمائے کرام و مشائخ کرام رحمھم اللہ کی عزت و عظمت کو مٹانے کیلئے حاسدوں نے اس سے پہلے بھی اس قسم کی کاروائیاں کی ہیں۔اس سلسلے کے چند عبرت آموز واقعات ہم یہاں عرض کر دیتے ہیں:

٭ امت کے جلیل القدر فقیہ اور محدث اعظم اما م احمد حنبل ؒ اس دنیا سے کوچ فرما رہے ہیں کہ اور کوئی بد نصیب حاسد عین اسی وقت تکیہ کے نیچے لکھے ہوئے کاغذات رکھ جاتا ہے جن میں خالص ملحدانہ عقائد اور زندیقانہ خیالات بھرے ہوئے ہیں۔ کیوں؟صرف اس لئے کہ لوگ ان تحریرات کو امام احمد بن حنبل ؒ ہی کی کاوش دماغی کا نتیجہ سمجھیں گے اور جب ان کے مضامین تعلیمات اسلامی کے خلاف پائیں گے تو ان سے بد ظن ہو جائیں گے اور لوگوں ک دلوں سے ان کی عظمت نکل جائے گی۔پھر ہماری دکان جو امام کے فیض عام سے پھیکی پڑ چکی تھی چمک اٹھے گی۔

٭ امام لغت علامہ فیروز آبادی صاحب قاموس ؒ زندہ تھے مشہور امام و مرجع خواص و عام تھے حافظ حجر عسقلانی ؒ نے ان کے خرمن علم سے خوشہ چینی کی۔حاسدین نے ان کی اس غیر معمولی مقبولیت کو دیکھ کر ان کی اس عظمت کو بڑ لگانے کیلئے ایک پوری کتاب حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کی مطاعن میں تصنیف کر ڈالی جس میں خوب زور و شور سے امام اعظم ؒ کی تکفیر بھی کی اور یہ جعلی کتاب ان کی طرف منسوب کر کے دور دراز تک شایع کروا دی۔حنفی دنیا میں علامہ فیروز آبادی ؒ کے خلا ف نہایت زبردست ہیجان پیدا ہو گیا لیکن بیچارے علامہ ؒ کو اس کی خبر بھی نہ تھی یہاں تک جب وہ کتاب ابو بکر الخیاط البغوی الیمانی کے پاس پہنچی تو انھوں نے علامہ فیروز آبادی کو خط لکھا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟علامہ موصوف اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ :

اگر وہ کتاب جو افتراء میں میری طرف منسوب کر دی گئی ہے آپ کے پاس ہو تو فورا اس کو نذر آتش کر دیں خدا کی پناہ !میں اور حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کی تکفیرو انا اعظم المعتقدین فی امام ابی حنفیہ۔اس کے بعد ایک ضخیم کتاب امام ابو حنیفہ ؒ کے مناقب میں لکھی۔

٭ امام مصطفی کرمانی حنفی ؒ نے نہایت جانکاہی سے ’’ مقدمہ ابو اللیث سمرقندی‘‘کی مبسوط شرح لکھی جب ختم کر چکے تو مصر کے علما ء کو دکھلانے کے بعد اس کی اشاعت کا ارادہ کیا۔تصنیف الحمد اللہ کامیاب تھی۔بعض حاسدوں کی نظر میں کھٹک گئی انھوں نے سمجھ لیا کہ اس کی اشاعت سے ہماری دکانیں پھیکی پڑ جائیں گی اور تو کچھ نہ کرسکے البتہ یہ خباثت کی کہ اس کے ’’باب آداب الخلاء‘‘ کے اس مسئلہ کے حاجت کے وقت آفتاب و ماہتاب کی طرف رخ نہ کرے۔اپنی دسیسہ کاری سے اتنا اضافہ کر دیا کہ ’’چونکہ ابراہیم ؑ ان دونوں کی عبادت کرتے تھے ‘‘معاذ اللہ۔علامہ کرمانی ؒ کو اس شرارت کی کیا خبر تھی انھوں نے لا علمی میں وہ کتاب مصر کے علماء کے سامنے پیش کر دی جب ان کی نظر ا س دلیل پر پڑی تو سخت برہم ہوئے اور تمام مصر میں علامہ ؒ کے خلاف ہنگامہ کھڑ ا ہو گیا قاضی مصر نے واجب القتل قرار دے دیا۔بیچارے راتوں رات جان بچا کر مصر سے بھاگ گئے ورنہ سر دئے بغیر چھوٹنا مشکل تھا۔

یہ گنتی کے چند واقعات تھے ورنہ تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو حاسدوں کی ان شرارتوں سے تاریخ کے واقعات بھرے پڑے ہیں۔

پس اگر بالفرض فاضل بریلوی اپنے اس بیان میں سچے ہیں کہ انھوں نے اس مضمون کا کوئی فتوی دیکھا ہے تو یقیناً وہ اسی قبیل سے ہے۔ لیکن پھر بھی فاضل بریلوی کو اس بنا پر کفر کا فتوی دینا ہرگز جائز نہ تھا جب تک کہ وہ خود خوب تحقیق نہ کر لیتے کہ یہ فتوی حضرت مولانا کا ہی ہے یا نہیں؟فقہ کا مسلم اور مشہور مسئلہ ہے کہ ’’الخط یشبہ الخط‘‘ یعنی ایک انسان کا خط دوسرے انسان سے مل جاتا ہے اور خود خان صاحب بھی اس کی تصریح فرماتے ہیں کہ :

تمام کتابوں میں تصریح ہے کہ الخط یشبہ الخط، الخط لا یعمل بہ (ملفوظات حصہ دوم ص170فرید بک اسٹال لاہور)۔

رہے وہ دلائل جو خان صاحب نے اس فتوے کے صحیح ہونے کیلئے اپنی کتاب تمہید ایمان میں لکھے تو وہ نہایت لچر اور تار عنکبوت سے زیادہ کمزور ہیں قارئین کرام ذرا ان کو بھی خود دیکھ لیں اور جانچ لیں:

یہ تکذیب خدا کا ناپاک فتوے اٹھارہ برس ہوئے 1308ھ میں رسالہ صیانۃ الناس کے ساتھ مطبع حدیقۃ العلوم میرٹھ میں مع رد کے شایع ہو چکا ہے۔پھر 1318ھ میں مطبع گلزار حسینی بمبئی میں اس کا مفصل رد چھپا پھر 1320ھ میں پٹنہ عظیم آباد میں اس کا ایک قاہرہ رد چھپا اور فتوی دینے والا جمادی الاخر ۱۳۲۳ ھ میں مرا اور مرتے دم تک ساکت رہا نہ یہ کہا کہ وہ فتوی میرا نہیں حالانکہ خود چھپائی ہوئی کتابوں سے اس کا انکار کر دینا سہل تھا نہ یہی بتلایا کہ وہ مطلب نہیں جو علمائے اہلسنت بتلا رہے ہیں بلکہ میرا مطلب یہ ہے۔ نہ کفر صریح کی نسبت کوئی سہل بات تھی جس پر التفات نہ کیا۔(تمہید ایمان ص 49)

حشو و زائد کو حذف کر دینے کے بعد خان صاحب کی اس دلیل کا صرف حاصل یہ ہے کہ :

(١) یہ فتوی مع رد کے مولانا ممدوح ؒ کی زندگی میں تین دفعہ چھپا۔

(٢) انھوں نے تازیست اس فتوے سے انکار نہیں کیا نہ اس کا کوئی مطلب بتلایا۔

(٣) اور چونکہ معاملہ سنگین تھا اس لئے خاموشی کو عدم التفات پر بھی محمول نہیں کیا جا سکتا لہٰذا ثابت ہو گیا کہ یہ فتوے انہی کا ہے اور اسی بنا پر ہم نے ان کی تکفیر کی اور تکفیر بھی ایسی کہ من شک فی کفرہ فقد کفر۔

اگرچہ خان صاحب کے ان دلائل کا لچر پوچ و مہمل ہونا ہمارے نقد تبصرے کا محتاج نہیں۔ہر معمولی سی عقل رکھنے والا بھی تھوڑے سے غور و فکر کے بعد اس کو لغویت سمجھے گا تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ہر ہر جز پر تھوڑی سی روشنی ڈال دی جائے تاکہ آپ سے خان صاحب کے علم و مجددیت کی کچھ داد دلوا دی جائے۔

خان صاحب کی پہلی دلیل کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ:

یہ فتوے مولانا کی حیات میں تین دفعہ چھپے۔

اس مقدمے میں سے اتنا تو معلوم ہو گیا کہ یہ فتوے مولانا کے مخالفین نے چھاپے۔مولانا یا آپ کے متوسلین کی طرف سے کبھی اس کی اشاعت نہیں ہوئی (خیر اس راز کو تو اہل بصیرت ہی سمجھ سکتے ہیں )ہم کو تو اس کے متعلق صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ اگر خان صاحب کے بیان کو صحیح سمجھ لیا جائے کہ یہ فتوی متعدد بار بمع رد کے حضرت گنگوہی ؒ کی حیات میں شایع ہوا جب بھی لازم نہیں آتا کہ حضرت کے پاس بھی پہنچا ہو یا ان کو اس کی اطلاع بھی ہوئی ہو۔اگر ان کے پاس بھیجا گیا تو سوال یہ ہے کہ ذریعہ قطعی تھا یا غیر قطعی؟پھر کیا خان صاحب کو اس کی وصولیابی کی اطلاع ہوئی ؟اگر ہوئی تو وہ ذریعہ قطعی تھا یا ظنی؟ بحث کے پہلوؤں سے چشم پوشی کر کے کفر کا قطعی فتوی دینا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے ؟۔بہرحال جب تک قطعی طور پر ثابت نہ ہو جائے کہ فی الواقع حضرت گنگوہی ؒ نے کوئی ایسا فتوی لکھا تھا جس کا قطعی اور متعین مطلب وہی تھا جو مولوی احمد رضا خان نے لکھا اس وقت تک ان تخمینی بنیادوں پر تکفیر قطعاً ناروا بلکہ معصیت ہے۔حضرت مولانا ممدوح ؒ تو ایک گوشہ نشین عارف باللہ تھے جن کا حال بلا مبالغہ یہ تھا

بسو دائے جانان زجان مشتغل

بذکر حبیب از جہاں مشتغل

خان صاحب کے دوسرے مقدمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ:

مولانا ؒ نے اس فتوے کا انکار نہیں کیا نہ ا س کی تاویل کی۔

اس کے متعلق تو پہلی گزارش یہی ہے کہ جب اطلاع ہی ثابت نہیں تو انکار کس چیز کا اور تاویل کس بات کی ؟اور فرض کر لیجئے کہ ان کو اطلاع ہوئی لیکن انھوں نے نا خد ا ترس مفتریوں کی اس ناپاک حرکت کو ناقابل توجہ سمجھا ان کو بحوالہ خدا کر کے سکوت فرمایا۔

رہا یہ کہ کفر کی نسبت کوئی معمولی بات نہ تھی جس کی طرف التفات نہ کیا جائے۔تو اول تو یہ ضروری نہیں کہ دوسرے بھی آپ کے نظریہ سے متفق ہوں۔ہو سکتا ہے کہ انھوں نے اس کے انکار کی ضرورت نہ سمجھی ہو۔کہ ایمان والے خود ہی اس ناپاک افتراء کی تکذیب کر دیں گے۔ یا انھوں نے یہ خیال کیا ہو کہ اس گند کو اچھالنے والے علمی اور مذہبی دنیا میں کوئی مقام نہیں رکھتے لہٰذا ان کی بات کا کوئی اعتبار نہیں کرے گا۔بہرحال سکوت کیلئے یہ وجوہ بھی ہو سکتی ہیں۔پھر قطع نظر ان تمام باتوں سے یہ کہنا ہی غلط ہے کہ کفر کا معاملہ سنگین تھا بے شک خان صاحب کی ’’مجددیت ‘‘ کے دور سے پہلے تکفیر ایسی غیر معمولی اہمیت رکھتی تھی لیکن خان صاحب کی روح اور ان کی موجودہ ذریت مجھے معاف فرمائے کہ جس دن سے افتاء کا قلمدان خان صاحب کے بے باک ہاتھوں میں گیا ہے اس روز سے تو کفر اتنا سستا ہو گیا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ندوۃ العلماء والے کافر جو نہ مانے کافر، اہلحدیث کافر جو نہ مانے کافر، دیوبندی کافر جو نہ مانے کافر، مولانا عبد الباری فرنگی صاحب کافر اور تو اور تحریک خلاف میں شرکت کے جرم اپنے برادران طریقت عبدالماجد صاحب بدایونی، عبد القادر بد ایوانی کافر اس کو بھی چھوڑو مصلی رسول ﷺ پر کھڑا ہونے والا شخص آئمہ اسلام سب کافر۔کفر کی وہ بے پناہ مشین گن چلی کہ الٰہی توبہ! بریلی کے ڈھائی نفر انسانوں کے سوا کوئی مسلمان نہ رہا۔پس ہو سکتا ہے کہ خان صاحب کسی اللہ والے کو کافر کہیں اور وہ اللہ والا اس کو نباح الکلا ب (کتوں کا بھونکنا)سمجھتے ہوئے خاموشی اختیار کرے۔

اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مولانا مرحوم ؒ کو اس فتوے کی اطلاع ہوئی اور مولانا ؒ نے انکار بھی کیا ہو مگر خانصاحب کواس کی اطلاع نہ ہوئی پھر عدم اطلاع سے عدم انکار کیوں سمجھا جا سکتا ہے ؟کیا عدم علم عدم الشئی کو مستلزم ہے ؟۔اہل علم اور ارباب عقل و دانش غور فرمائیں کہ کیا اتنے احتمالات کے ہوتے ہوئے بھی تکفیر جائز ہو سکتی ہے ؟دعوی تو یہ تھا کہ :

ایسی عظیم احتیاط والے (یعنی خود بدولت جناب خانصاحب)نے ہر گز ان دشنامیوں (حضرت گنگوہی ؒ وغیرہ)کو کافر نہ کہا جب تک یقینی، قطعی واضح، روشن، جلی طور سے ان کا صریح کفر آفتاب سے زیادہ روشن نہ ہو گیا۔جس میں اصلا اصلا ہر گز کوئی گنجائش کوئی تاویل نہ نکل سکے۔ (تمہید ایمان ص 55)

اور دلیل اس قدر لچر کے یقین کیا ظن کو بھی مفید نہیں۔اور اگر ایسی ہی دلیلوں سے کفر ثابت ہوتا ہے تو پھر تو اسلام اور مسلمانوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔ کوئی جاہل اور دیوانہ کسی با خدا کو کافر کہے اور وہ اس کو ناقابل خطاب سمجھتے ہوئے اعراض کرے اور ا سکے لئے اپنی صفائی پیش نہ کرے بس خان صاحب کی دلیل سے کافر ہو گیا۔چہ خوش۔

گر ہمیں مفتی و ہمیں فتوی

کار ایماں تمام خواہد شد

ادھر فقہاء کی یہ تصریحات کہ ۹۹ احتمالات کفر کے ہوں صرف ایک احتمال اسلام کا پھر بھی تکفیر جائز نہیں ادھر یہ مجدد کہ محض خیالی و وہمی مقدمے جوڑ کر کہتا ہے کہ من شک فی کفرہ فقد کفر۔اللہ کی پناہ۔

یہی وہ خیالات و واقعات ہیں جسکی بنیاد پر ہم سمجھتے ہیں کہ خان صاحب نے فتاوی کفر کسی غلط فہمی یا علمی لغزش پر جاری نہ کئے تھے بلکہ درحقیقت اس کی تہ میں صرف حسد و جاہ پرستی اور نفس پرستی کا بے پناہ جذبہ کارفرما تھا۔

٭٭٭

 

 

شعر و ادب

 

اِنَّ مِنْ الشِّعْرِ حِکْمَۃً

بلا شبہ کتنی ہی شاعری حکمت و دانائی سے لبریز ہوتی ہے۔ (صحیح بخاری، جلد سوم:حدیث نمبر ۱۰۹۸ )

 

 

گریۂ خوں

 

                عارف باللہ حضرت شاہ حکیم محمد اختر صاحب ﷫

 

جب کبھی دل سے آہ کرتا ہوں

منزلیں پیشِ راہ کرتا ہوں

عشق کی نامراد وادی میں

اپنے غم سے نباہ کرتا ہوں

ساری خلقت سے دور ہو کے کبھی

دشت کو خواب گاہ کرتا ہوں

صبر کو شکوہ و گلہ کیوں ہے

ضبطِ غم بے پناہ کرتا ہوں

گریۂ اشک عشق میں کیا ہے

گریۂ خوں بھی گاہ کرتا ہوں

دردِ دل جب شدید ہوتا ہے

یاد میں اُن کی آہ کرتا ہوں

لذتِ ذکر کیا کہوں اخترؔ

جھوم کر واہ واہ کرتا ہوں

 

دل کی لگی

 

                خواجہ مجذوبؒ ؒؒؒ

 

یہ دنیا اہلِ دنیا کو بسی معلوم ہوتی ہے

نظر والوں کو یہ اجڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے

یہ کس نے کر دیا سب دوستوں سے مجھ کو بیگانہ

مجھے اب دوستی بھی دشمنی معلوم ہوتی ہے

طلب کرتے ہو دادِ حسن تم، پھر وہ بھی غیروں سے !

مجھے تو سن کے بھی اک عار سی معلوم ہوتی ہے

میں رونا اپنا روتا ہوں تو وہ ہنس ہنس کے سنتے ہیں

انہیں دل کی لگی، اک دل لگی معلوم ہوتی ہے

نہ جائیں میری اس خندہ لبی پر دیکھنے والے

کہ لب پر زخم کے بھی تو ہنسی معلوم ہوتی ہے

اگر ہمت کرے پھر کیا نہیں انسان کے بس میں

یہ ہے کم ہمتی جو بے بسی معلوم ہوتی ہے

٭٭٭

 

قَالَ فَأَخْبِرْنِی عَنْ الْإِحْسَانِ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ

جبریل ؑ نے پوچھا احسان کی حقیقت بتایئے ؟ رسول ﷺ نے فرمایا : احسان کی حقیقت یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو اگر یہ مرتبہ حاصل نہ ہو تو (تو کم از کم) اتنا یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ تم کو دیکھ رہا ہے۔ (صحیح مسلم، جلد اول:حدیث نمبر ۹۶)

٭٭٭

 

 

تصوف و سلوک

 

حُسنِ ادب اور اُس کی اہمیت

 

(قسط۔١)

 

                حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی ﷫

 

 

بڑوں کا ادب و احترام، اساتذہ و شیوخ کا اکرام و خدمت گزاری اور اُن کا پاس و لحاظ ہمیشہ سے اکابر دین علماء سلف کا امتیازی وصف رہا ہے مگر آج آزادی کے غلط تصور اور مغرب زدگی کے اثر سے یہ چیزیں رفتہ رفتہ ختم ہو رہی ہیں۔ آج سے پچیس تیس سال پہلے ہمارے دینی مدارس کے طلبہ میں جو شائستگی و تہذیب جو متانت وسنجیدگی اور جو ادب و احترام پایا جاتا تھا آج اُس کی جھلک بھی کہیں مشکل ہی سے نظر آتی ہے ، یہ کمی بڑی افسوسناک کمی ہے۔ علومِ دینیہ کے حاملین کو اسلامی تہذیب، اسلامی آداب، اور اسلامی اخلاق کا حامل ہونا چاہئے۔ ہمارے لئے ہمارے اکابر واسلاف کی روش قابل تقلید ہے اسی میں ہماری عزت وسربلندی ہے اور اسلاف کی مستحسن روش ہی پر چل کر ہم اسلام کے تقاضے کو پورا کرسکتے ہیں۔ ہمارے مذہب نے جس طرح عقائد و عبادات اور معاملات و اخلاق کے سبق ہم کو بتائے ہیں اسی طرح اُس نے ہم کو آداب بھی سکھائے ہیں، نیک روش، اچھے چال چلن اور عمدہ طور طریق کی تعلیم بھی دی ہے اوردوسرے امور دین کے ساتھ ساتھ ادب و وقار سیکھنے اورسکھانے کی تاکید بھی کی ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ان الھدی الصالح والسمت الصالح والاقتصاد جزء من خمسۃ و عشرین جزء من النبوۃ۔رواہ احمد۔

(عمدہ روش، اچھے انداز او رمیانہ روی نبوت کے پچیس اجزاء میں سے ایک جزء ہے یعنی یہ چیزیں انبیاء علیھم السلام کے عادات و فضائل میں سے ہیں ) اسی لئے علماء نے فرمایا :یسن ان یتعلم الادب والسمت والفضل والحیاء وحسن السیرۃ شرعا و عرفا (الآداب الشرعیہ ١/٤٧٢)یعنی ادب و وقار، فضل و حیا اورحسن سیرت سیکھنا شرعاً و عرفاً مسنون ہے۔

نیز حدیث نبوی میں وارد ہے : لان یؤدب الرجل ولدہ خیرلہ من ان یتصدق بصاع۔ (ترمذی ) آدمی اپنی اولاد کو ادب سکھائے تو یہ ایک صاع خیرات کرنے سے بہتر ہے اور فرمایا :مانحل والد ولدا من نحلۃ افضل من ادب حسن۔ کسی باپ نے اپنی اولاد کو عمدہ ادب سے بہتر کوئی عطیہ نہیں دیا، اور ا رشاد ہے کہ بیٹے کا ایک حق باپ پر یہ بھی ہے کہ اس کو اچھا ادب سکھائے (عوارف)۔ ایک اور حدیث میں ہے : تعلموا العلم، وتعلموا للعلم السکینۃ والو قار وتواضعوا لمن تعلمون منہ۔ (طبرانی ) علم سیکھو اور علم کے لئے سکون وقار سیکھو، اورجس سے استفادہ کرواس کے لئے تواضع کرو۔ اس مضمون کا ایک اثر بھی حضرت عمر سے مروی ہے۔ (الآداب الشرعیۃ ٢/٥١ و ١/٢٥٤)۔حضرت عمر سے یہ بھی مروی ہے تأدبوا ثم تعلموا (الآداب الشرعیہ ٥٥٧٣) ادب سیکھو پھر علم سیکھو۔ ابو عبداللہ بلخی نے فرمایا ادب العلم اکثر من العلم علم کا ادب علم سے زیادہ ہے۔ امام ابن المبارک نے فرمایا کہ آدمی کسی قسم کے علم سے با عظمت نہیں ہو سکتا جب تک اپنے علم کو ادب سے مزین نہ کرے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آیت کریمہ : قوا انفسکم واھلیکم ناراً کی تفسیر ادبوھم وعلموھم سے فرماتے تھے یعنی اپنے اہل و اولاد کو آگ سے بچانے کا مطلب یہ بیان فرماتے تھے کہ ان کو ادب سکھاؤ اور تعلیم دو۔ عبداللہ ابن المبارک فرماتے ہیں کہ مجھ سے مخلد بن الحسین نے فرمایا کہ ہم بہت ساری حدیثوں کے سننے اور پڑھنے سے زیادہ محتاج ادب سیکھنے کے ہیں۔ (الآداب شرعیۃ ٣/٥٥٨)

حضرت حبیب ابن الشہید (جوامام ابن سیرین کے شاگرد ہیں ) اپنے لڑکے سے کہا کرتے تھے کہ بیٹے ! فقہاء و علماء کی مجلسوں میں بیٹھ کر ان سے ادب سیکھو یہ چیز میرے نزدیک بہت ساری حدیثوں کے جاننے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ حضرت فضیل بن عیاض نے بعض طلبہ حدیث کی کچھ خفیف حرکتیں دیکھیں تو فرمایا کہ اے وارثان ِانبیاء ! تم ایسے رہو گے ؟ حضرت وکیع نے بعض طلّاب کی کچھ نازیبا باتیں اور حرکتیں سنیں اور دیکھیں تو فرمایا کہ کیا حرکت ہے ، تم پروقار لازم ہے۔ (آداب شرعیۃ ١/٢٤٣) ایک بار عبداللہ بن المبارک سفر کر رہے تھے لوگوں نے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے ؟ فرمایا بصرہ جا رہا ہوں، لوگوں نے کہا، اب وہاں کون رہ گیا ہے جس سے آپ حدیث نہ سن چکے ہوں، فرمایا ابن عون کی خدمت میں حاضری کا ارادہ ہے، ان کے اخلاق اور ان کے آداب سیکھوں گا۔ عبدالرحمن بن مہدی فرماتے ہیں کہ ہم بعض علماء کی خدمت میں علم حاصل کرنے نہیں جاتے تھے بلکہ صرف اس مقصد سے حاضری دیتے تھے کہ ان کی نیک روش ان کا طرز و انداز سیکھیں گے۔ علی ابن المدینی وغیرہ متعدد ائمہ حدیث یحیٰ ابن سعید قطان کے پاس بعض اوقات صرف اس لئے حاضر ہوتے تھے کہ ان کی روش و انداز دیکھیں۔ اعمش کہتے ہیں کہ طالبین علم فقیہ ( استاذ) سے ہر چیز سیکھتے تھے حتی کہ اُسی کی سی پوشاک اورجوتے پہننا سیکھتے تھے (آداب)۔حضرت امام احمد کی مجلس میں پانچ ہزار سے زائد آدمی شریک ہوتے تھے جن میں سے صرف پانچ سو کے قریب آدمی تو اُن سے حدیثیں سن کر لکھتے تھے اور باقی سب لوگ ان سے حسن ادب اور وقار و متانت سیکھتے تھے۔ (آداب ٢/١٣)

ادب سیکھنے اور سکھانے کی اس اہمیت کو واضح کرنے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عالم کا حق، اور ان کے اجلال و احترام کے احکام بھی ذکر کر دیئے جائیں۔

اُستاذ کا مرتبہ :

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی بتا دیا میں اُس کا غلام ہوں، وہ چاہے مجھے بیچے یا آزاد کر دے یا غلام بنائے رکھے۔امام زرنوجی نے اس کو ذکر کرنے کے بعد خود فرمایا ہے :

رأیت احق الحق حق المعلم

و اوجبہ حفظا علی کل مسلم

سب سے زیادہ واجب الرعایۃ اور ضروری حق ہر مسلمان کے ذمہ معلم (اُستاذ) کا حق میں نے پایا

لقد حق ان یھدی الیہ کرامۃ

لتعلیم حرف واحد الف درھم

وہ اس لائق ہے کہ ایک حرف بتانے کی قدر دانی میں اس کوا یک ہزار درہم ہدیہ پیش کیا جائے

”شرح الطریقۃ المحمدیۃ ” میں ایک حدیث بھی بایں الفاظ مذکور ہے : من علم عبد اآیۃ من کتاب اللّٰہ فھو مولاہ، لاینبغی ان یخذ لہ ولا یستأثر علیہ احدا یعنی کسی قرآن پاک کی ایک آیت سکھا دے وہ اس کا آقا ہے اس کو کبھی اس کی مدد نہ چھوڑنی چاہئے ، نہ اس پر کسی کو ترجیح دینی چاہئے۔ ناچیز کہتا ہے کہ اس حدیث کی اسنادعوارف المعارف میں یوں مذکور ہے :

اخبرنا الشیخ الثقۃ ابوالفتح محمد بن سلیمان قال اما ابو الفضل حمید قال انا الحافظ ابو نعیم قال ثناسلیمان بن احمد قال ثنا انس بن اسلم قال ثنا عتبۃ بن رزین عن ابی امامۃ الباھلی عن رسول اللّٰہﷺ۔ (عوارف علی ھامش الاحیاء ٧٤/١)

اورمجمع الزوائد میں ہے کہ اس حدیث کو طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کیا ہے۔ (١/١٢٨)

شرح الطریقۃ المحمدیۃ میں یہ بھی مذکور ہے کہ استاذ کا حق ادا کرنے کو ماں باپ کا حق ادا کرنے پر مقدم جانے ، اس کے بعد یہ واقعہ لکھا ہے کہ جس وقت امام حلوانی بخارا چھوڑ کر دوسری جگہ چلے گئے تو امام زرنجری کے علاوہ ان کے سب شاگرد سفر کر کے ان کی زیارت کو گئے، امام زرنجری ماں کی خدمت میں مشغول رہنے کی وجہ سے نہ جا سکے ، مدت کے بعد جب ملاقات ہوئی تو انھوں نے غیر حاضری پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے یہی معذرت پیش کی، امام حلوانی نے فرمایا کہ خیر تم کو عمر تو ضرور نصیب ہو گی مگر درس نصیب نہ ہو گا یعنی درس میں برکت اور بکثرت لوگوں کا ان کے درس سے فائدہ اُٹھانا نصیب نہ ہو گاچنانچہ ایساہی ہوا اوران کا حلقۂ درس کبھی نہ جما۔ الآداب الشرعیہ میں ہے :وذ کر بعض الشافعیۃ فی کتابہ فاتحۃ العلم ان حقہ آکد من حق الوالد (ا/٤٩٦) یعنی بعض شوافع نے اپنی کتاب فاتحۃ العلم میں لکھا ہے کہ معلم کا حق باپ کے حق سے زیادہ مؤکد ہے۔

اُستاذ اور ہر عالم کے حقوق :

امام خیر اخری نے فرمایا کہ عالم کا حق جاہل پر اور اُستاذ کا حق شاگرد کے ذمہ یکساں ہی ہے اور وہ یہ ہے (١) بے علم یا شاگرد عالم یااستاذ سے پہلے بات شروع نہ کرے (٢) اس کی جگہ پر نہ بیٹھے (٣) اس کی بات غلط بھی ہو تو رد نہ کرے ٭ (٤)اس کے آگے نہ چلے۔

تعلیم المتعلم میں ہے کہ اُستاذ کی تعلیم و توقیر میں یہ بھی داخل ہے کہ (١) اُس کے پاس مباح گفتگو بھی زیادہ نہ کرے (٢) جس وقت وہ تھکا ماندہ ہواُس وقت اُس سے کوئی سوال نہ کرے (٣) لوگوں کو مسائل بتانے یا تعلیم دینے کا کوئی وقت اُس کے یہاں مقرر ہے تو اُس وقت کا انتظار کرے (٤) اس کے دروازے پر جا کر دروازے نہ کھٹکھٹائے بلکہ صبروسکون کے ساتھ اُس کے از خود برآمد ہونے کا انتظار کرے۔

شرح الطریقۃ المحمدیہ میں بھی منقول ہے کہ استاد کا ہاتھ چومنا بھی داخل تعظیم ہے اور ابن الجوزی نے مناقب اصحاب الحدیث میں لکھا ہے :   ینبغی للطالب ان یبالغ فی التواضع للعالم ویذل نفسہ لہ ومن التواضع للعالم تقبیل یدہ۔یعنی طالب علم کے لئے زیبا ہے کہ عالم کے لئے تواضع میں مبالغہ کرے اور اپنے نفس کو اس کے لئے ذلیل کر دے اور عالم کے لئے تواضع کی ایک صورت اس کا ہاتھ چومنا بھی ہے۔(آداب شرعیہ ٢/٢٧٢)

استاذ کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اس کے آنے جانے کے وقت شاگرد کھڑا ہو جائے 1٭۔استاد عالم کے لئے قیام کا جواز بلکہ استحباب آداب شرعیہ میں بھی مذکور ہے اور اس باب میں امام نووی کا ایک مستقل رسالہ ہے۔ شرح الطریقۃ میں یہ بھی ہے کہ استاد کی کوئی رائے یا تحقیق شاگرد کو غلط معلوم ہوتی ہو2٭ تو بھی اس کی پیروی کرے جیسا کہ حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کے قصہ سے ثابت ہے۔ استاذ کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اس کے سامنے تواضع سے پیش آئے ، چاپلوسی کرے، اس کی خدمت کرے، اس کی مدد کرے اور علانیہ و خفیہ اس کے لئے دعاء کرتا رہے۔ (شرح الطریقہ)

امام غزالی نے احیاء العلوم میں یہ فرمایا ہے :ینبغی ان یتواضع للمعلم ویطلب الثواب والشرف بخدمتہ (١/٣٨) چاہئے کہ معلم کے لئے تواضع کرے اور اس کی خدمت کر کے شرف و ثواب کمائے، اس کے بعد ایک حدیث نقل کی ہے۔لیس من اخلاق المومن التملق الا فی طلب العلم یعنی مؤمن کے اخلاق میں تملق (چاپلوسی ) کی کوئی جگہ نہیں ہے مگر طلب علم کی راہ میں(رواہ ابن عدی من حدیث معاذ وابی امامۃ باسنادین ضعفین)۔

تعلیم المتعلم (ص٧) میں ہے کہ استاذ کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اس کی اولاد اور متعلقین کی توقیر کرے ترغیب وترہیب منذری میں حدیث مرفوع ہے تواضعوا لمن تعلمون منہ یعنی جس سے علم حاصل کرو اس کے لئے تواضع کرو۔ فردوس دیلمی کے حوالہ سے ایک حدیث نبوی منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: بڑوں کے آگے چلنا کبائر میں سے ہے ، بڑوں کے آگے کوئی ملعون ہی چل سکتا ہے ، پوچھا گیا یارسول اللہ! بڑوں سے کون مراد ہیں، فرمایا علماء اور صلحاء۔ مراد یہ ہے کہ ان کی عظمت و منزلت کا لحاظ نہ کر کے استخفافاًآگے چلنا مذموم و قابلِ نکیر ہے۔ شرح الطریقۃ المحمدیہ میں ہے کہ علم زوال کا ایک سبب معلم کے حقوق کی رعایت نہ کرنا بھی ہے اور فرمایا کہ استادکو جس شاگرد سے تکلیف پہنچے گی وہ علم کی برکت سے محروم رہ جائے گا۔

کسی اور عالم کا قول ہے کہ جو شاگرد اپنے استاذ کو نا مشروع امر کا ارتکاب کرتے دیکھ کر اگر اعتراض وبے ادبی سے کیوں کہہ دے گا وہ فلاح نہ پائے گا، یعنی نا مشروع پر ٹوکنے کے لئے بے ادبی مباح نہیں ہے۔دوسرے سے تنبیہ کرائے یا خود ادب و احترام کے ساتھ استفسار کی صورت میں کہے یا اس طرح کہے کہ نصیحۃ مسلم معلوم ہو۔

اجلال علم و علماء :

ابوداؤد میں مروی ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بوڑھے مسلمان اور عالم و حافظ قرآن اور بادشاہ عادل کی عزت کرنا خدا کی تعظیم میں داخل ہے۔ الآداب الشرعیہ میں بروایت ابی امامہ یہ حدیث مرفوع منقول ہے کہ تین باتیں خدا کی تعظیم کی فرع ہیں اسلام میں بڑھاپے کی عمر کو پہنچنے والے کی توقیر اور کتاب اللہ کے حامل کا احترام اور صاحب علم کا اکرام خواہ چھوٹاہویابڑا(١/٢٥٦)۔اسی کتاب میں حضرت طاؤس سے مروی ہے من السنۃ ان یوقر اربعۃ العالم وذوالشیبۃ والسلطان والوالد یعنی عالم اور بوڑھے اور بادشاہ اور باپ کی توقیر سنت ہے۔ایک اور حدیث مرفوع میں اہل علم کے استخفاف کومنافق کا کام بتایا گیا ہے۔ (مجمع الزوائد ١/١٤٧)

ایک اور حدیث میں ہے کہ جوہم میں کے بڑے کی عزت نہ کرے اور چھوٹے پر رحم نہ کھائے اور عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری اُمت سے نہیں ہے۔ ابن حزم نے لکھا ہے (اتفقوا علی ایجاب توقیر اھل القرآن والاسلام والنبیﷺ وکذلک الخلیفۃ والفاضل والعالم ) یعنی حاملین قرآن واسلام اور نبی ﷺاسی طرح خلیفۂ وقت اور فاضل، عالم کی توقیر کو واجب قرار دینے پر اجماع ہے۔ (الآداب الشرعیہ ١/٤٩٥)

امام مالک فرماتے ہیں کہ ہارون رشید نے میرے پاس آدمی بھیج کر سماعِ حدیث کی خواہش ظاہر کی میں نے کہلا بھیجا کہ علم لوگوں کے پاس نہیں جایا کرتا۔رشید یہ جواب پاکر خود آئے اور آ کر میرے پاس دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے میں نے کہا : یا امیر المومنین ! ان من اجلال اللّٰہ اجلال ذی الشیبۃ المسلم یعنی خدا کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ بوڑھے مسلمان کا احترام کیا جائے۔ ہارون کھڑے ہو گئے پھر میرے سامنے شاگردانہ انداز سے بیٹھے ایک مدت کے بعد پھر ملاقات ہوئی تو کہا یا اباعبداللّٰہ تواضعنا لعلمک فانتفعنا بہ ہم نے آپ کے علم کے لئے تواضع کیا تو ہم نے اس سے نفع اُٹھایا۔ (آداب شرعیہ ٢/٥٥)

امام بیہقی نے روایت کی ہے کہ خلیفہ مہدی جب مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور امام مالک ان کے سلام کو گئے تو مہدی نے اپنے دونوں لڑکوں ہادی اور رشید کو امام مالک سے حدیث سننے کا حکم دیا، جب شہزادوں نے امام مالک کو طلب کیا تو انھوں نے آنے سے انکار کر دیا۔ مہدی کواس کی خبر ہوئی اور اس نے ناراضی ظاہر کی تو ا مام نے فرمایا کہ العلم اھل ان یوقرویؤتی اھلہ یعنی علم اس بات کا حقدار ہے کہ اس کی توقیر کی جائے اور اس کے اہل کے پاس آیاجائے۔ اب مہدی نے خود لڑکوں کو امام صاحب کے پاس بھیجا، جب وہ وہاں پہنچے تو شہزادوں کے اتالیق نے امام سے خواہش ظاہر کی کہ آپ خود پڑھ کرسنادیں، امام نے فرمایا کہ جس طرح بچے پڑھتے ہیں اور معلم سنتا ہے اسی طرح اس شہر کے لوگ محدث کے پاس حدیثیں پڑھتے ہیں جہاں خطا ہوتی ہے محدث ٹوک دیتا ہے۔ مہدی کو اس کی خبر پہنچائی گئی اوراس نے اس پربھی اظہار عتاب کیا، تو امام مالک نے مدینہ کے ائمہ سبعہ کا نام لے کر فرمایا کہ ان تمام حضرات کے یہاں یہی معمول تھا کہ شاگرد پڑھتے تھے اور وہ حضرات سنتے تھے۔یہ سن کر مہدی نے کہا کہ تو انہیں کی اقتداء ہونی چاہئے اور لڑکوں کو حکم دیا کہ جاؤ تم خود پڑھو، لڑکوں نے ایسا ہی کیا۔ (آداب شرعیہ ٢/٥٥) ایک مرتبہ امام احمد کسی مرض کی وجہ سے ٹیک لگا کر بیٹھے تھے اثنائے گفتگو میں ابراہیم بن طہمان کا ذکر نکل آیا ان کا نام سنتے ہی امام احمد سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ یہ نا زیبا بات ہو گی کہ نیک لوگوں کا ذکر ہو اور ہم ٹیک لگائے رہیں۔ (آداب شرعیہ ٢/٢٦)

اُستاذ کا لحاظ پہلے لوگوں میں :

امام شعبی کا بیان ہے کہ حضرت زید بن ثابت سوار ہونے لگتے تو حضرت ابن عباس رکاب تھام لیتے تھے اور کہتے تھے کہ علماء کے ساتھ ایسا ہی کرنا چاہئے اسی طرح حضرت ابن عمر (صحابی ) نے مجاہد( تابعی) کی رکاب تھامی۔امام لیث بن سعد امام زہری کی رکاب تھامتے تھے۔مغیرہ کہتے ہیں کہ ابراہیم نخعی کی ہیبت ہم پر ایسی تھی جیسی بادشاہ کی ہوتی ہے اور یہی حال امام مالک کے شاگردوں کا امام مالک کے ساتھ تھا۔ ربیع کہتے ہیں کہ امام شافعی کی نظر کے سامنے ان کی ہیبت کی وجہ سے مجھے کبھی پانی پینے کی جرأت نہیں ہوئی۔ (الآدب الشرعیہ ١/٢٥٦)

(٢) ثابت بنانی حضرت انس کے شاگرد اور تابعی ہیں یہ جب حضرت انس کی خدمت میں جاتے تو ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے اس لئے حضرت انس اپنی لونڈی سے کہا کرتے تھے کہ ذرا میرے ہاتھوں میں خوشبو لگا دے وہ آئے گا تو بے ہاتھ چومے نہ مانے گا۔ (مجمع الزوائد ١/١٣٠)٭

(جاری ہے )

٭٭٭

 

قرآنِ پاک کی ترتیب و تفہیم

 

                نور سعدیہ شیخ

 

انسانی احساسات جُوں جُوں پروان چڑھتے جاتے ہیں ویسے ویسے زندگی میں آنے والے نشیب و فراز سوالات کی پٹاری کھولے زندگی کو سوالیہ نشان بنا دیتے ہیں۔یہ سوال ہماری زندگی کا مقصد متعین کرتے ہیں کہ ان جوابات کی روشنی میں زندگی گزارنا ہی بطریقِ احسن ہے۔

لفظ میرا سرمایہ ہے۔مجھے جینے کا طریقہ لفظوں نے سکھایا ہے۔ میری زندگی میں پہلا لفظ اس ہستی کے لئے نکلا، جس نے مجھے تخلیق کیا۔ احساس نے مجھے ”ماں” اور ”اللہ ” دو الفاظ سکھائے اور میری جستجوِ لفظ نے سوالات کا انبار میرے سامنے رکھ دیا ہے۔ زندگی میں انسان خود سے بہت زیادہ سولات کرتا ہے۔ جب سوالات کا جواب تشفی بخش نہیں ملتا تو تلاش میں نکل پڑتا ہے۔میں نے ایک حدیث کی تحقیق کے لئے اصحاب و تابعین کو ایک بر اعظم کونے سے دوسرے کونے میں سفر کرتے ہوئے پڑھا تو حیرت نہیں ہوئی کہ اسلام کا حکم یہی کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ . لفظ میرا سرمایہ ہیں… کبھی کبھی دل کرتا ہے ان لفظوں کو چوموں جو حقِ باری تعالی کا کلام ہیں… نوری کلام جو انسان کے قلم کی پیداوار نہیں ہے۔

مجھ تک قرآنِ پاک الفاظ سے پہنچا۔ میں جب بھی یہ الفاظ سنتی تھی مجھ پر سحر طاری ہو جاتا اور ہر دفعہ میں سوچا کرتی تھی کہ میں نے اس کو سمجھ کر پڑھا نہیں ہے مگر اس کے اندر پھر بھی اتنی تاثیر ہے۔اس احساس نے مجھے قرآنِ پاک کا ترجمہ پڑھنے پر مجبور کر دیا۔ ٭ جب ترجمہ پڑھا تو مجھ پر انکشافات ہوئے ، سوالات کے جوابات کو پا کر مزید خود کو تشنہ پایا کہ قرآنِ پاک ایسی کتاب ہے کہ اس کے ہر ہر لفظ کے گیارہ گیارہ پرتیں ہیں، جانے کب یہ اسرار کھلے ، جانے کب میں اس کلام پر عبور حاصل کر پاؤں۔ مجھے یہ احساس، یہ احساس رُلاتا ہے کہ میں نے عمر گنوا دی مگر نوری کلام دل میں سما نہ پایا۔ خود پر بہت ملامت محسوس ہوئی۔ اس ملامت کے نتیجے میں میں جو لکھ رہی ہوں۔ وہ آپ کے سامنے ہے۔ میرے لفظ، میرے احساس سے اور میرا احساس سوالات کی مرہون منت ہے۔ زندگی میں سوال کے جواب پانا مرا مقصدِ حیات ہے۔

قرآنِ پاک میں اخفاء کیا ہے ؟ اور کیا ظاہر ہے ؟ اس کا اسرار بے چین رکھتا ہے اور میری جستجو ساری عمر جاری رہے گی جب تک کہ اسرار سے پردہ اٹھا کر جان نہ لوں۔قرآن پاک کی کتابت اور تدوین جناب سیدنا حضرت عثمان   کے دور میں ہوئی اور احادیث کی تدوین جناب حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دور میں ہوئی۔مزید کچھ لکھنے سے پہلے کچھ نقاط ذہن میں ہیں۔ اسلامی قوانین کے بنیادی ماخذ درج ذیل ہیں۔قوانین کو دو پرائمری اور سیکنڈری ماخذ میں تقسیم کیا گیا ہے۔

بنیادی ماخذ

1:قرآنِ پاک

کلامِ الہی ہے۔ اس میں کمی و بیشی کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ چودہ سو سال سے آج تک یہ جُوں کا تُوں ہے۔

2: سنت

کلامِ الہی کے ہر حکم پر عمل پیرا ہو کے ایک ہستی چلتا پھرتا بن گئی جن کو دنیا پیارے پیارے محمد صلی علیہ و آلہ و سلم کے نام سے جانتی ہے۔

حدیث اور سنت، دونوں ماخذ حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی ذاتِ اقدس سے منسلک ہیں۔ سنت وہ ہے جس کی حضور پاک صلی علیہ و آلہ و سلم نے عمل کی ذریعے ترغیب دی جبکہ حدیث وہ الفاظ ہیں جو حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے اقوال یا حرکات و سکنات مراد لی جاتی ہیں۔

ثانوی ماخذ

1۔ رواج:

عربوں میں کچھ رواج جو حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے جاری رکھے اوور کچھ کے احکامات بطور ممانعت نازل ہوئے۔ مثال کے طور پر شراب جائز سمجھی جاتی جب تک کہ شراب سے متعلق احکامات جاری نہ ہو گئے۔ اسی طرح خواتین کا پردہ اسلام کے پھیل جانے کے بعد بطور رواج روایت میں شامل نہیں تھا جب تک کہ اس کے احکامات نازل نہ ہو گئے۔ان معاملات پر حضرت عمر رض کی رائے بطور سند لی گی کہ ان کی رائے اللہ تعالیٰ کو پسند آیا کرتی تھی۔ اسی وجہ سے ان کو صاحب الرائے کہا جاتا ہے۔

 

2۔اجماع (consensus of opinion):

قرآن ِ پاک اور احادیث کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسلامی قانون سازی کی گئی۔ اسلام قانون سازی کا سب سے بڑا ماخذ قرآنِ پاک اور پھر حضور پاک صلی علیہ والہ و سلم کی ذات اقدس ہے۔ ”اجماع” کو ”قیاس” بھی کہا جاتا ہے۔١٭ عہد ِ وقت کے تمام علماء کا اسلام کے قانون کے ماخذ میں سے ایک پر اکتفا کرتے ہوئے رضامند ہو جانا ایک نیا قانون سامنے لے کر آتا تھا۔ یہ قانون اس وقت تک جاری رہتا تھا جب تک علماء حیات ہوتے تھے ، اس کے بعد نئے آنے والے علماء اجماع کے ذریعے نیا قانون بناتے تھے۔ اجماع کی بنیاد سب سے پہلے جناب امام ابو حنیفہؒ نے رکھی اور اس کے بعد امام مالک ﷫، امام شافعی، امام احمد حنبل اور اصولی مسلک سے تعلق رکھنے والوں اس کو نہ صرف اپنایا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قوانین کو شدت سے عملی جامہ بھی پہنایا گیا۔٢٭

کچھ ماخذ پر اختلافات کی وجہ سے صرف نام لکھنے پر ہی اکتفا کروں گی۔ ان میں قیاس، فقہی صوابدید یا استحصان، استدلال وغیرہ شامل ہیں۔ بعض کی نسبت بعض نے ان پر شدت سے اکتفاء کیا۔

قرآنِ پاک ہم عجمیوں کی زبان نہیں ہے اس لئے ا سمیں چھپے اسرار اور مخفی علوم کو ہم حاصل کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے برصغیر میں جس ہستی نے کام کیا وہ حضرت شاہ ولی اللہ ﷫ ہیں۔ جنہوں نے ایک بڑے پیمانے پر ایک مدرسہ قائم کرنے کے بعد قرآنِ پاک کا فارسی میں ترجمہ کیا۔ جبکہ ان بیٹے شاہ عبد القادر نے قرآنِ پاک کا اُردو میں ترجمہ کر کے قرآنی تعلیمات کو عام کیا۔ اس طرح قرآنِ پاک عربی سے لشکری زبان اور فارسی زبان میں پھیلتا چلا گیا۔ اس کے پھیلنے کے بعد، ترجمہ پڑھ لینے کے بعد ہمارے اعمال، احکام کے مطابق نہ ہو پائیں تو سمجھ لیں کہ ہم نے قرآنِ پاک کو ٹھیک سے پڑھا ہی نہیں۔

 

قرآنِ پاک کی ترتیب

قرآنِ پاک کی ترتیب کے دو طرز ہیں۔

1۔ ترتیبِ نزولی

2۔ کتابی ترتیب

قرآنِ پاک کی کتابت کا کام حضرت عثمانؓ   نے کیا تھا۔ اس پیاری کتاب کے احکامات کو سمجھنے کے لئے نزولی ترتیب کو سمجھا جاتا ہے۔ قرآن ِ پاک کے احکامات ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے پھیلنے کا دور اور اسلامی ریاست کا دور۔۔ قیامِ مکہ کا عرصہ وہ دور تھا جس میں عزت مآب حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے اسلام کو پھیلانے کے تمام کوششیں بروئے کار لائیں۔ ہجرت کے بعد وہ آیات یا نشانیاں نازل ہوئیں جن کے براہِ راست احکام انسانی زندگی، معاشرت، نظامِ حکومت اور سیاست سے متعلق تھے۔ اس لئے اس کے نزولی ترتیب اس کے احکامات کی سمجھنے میں درست سمت عطا کرتے ہوئے کلام الہی کو سمجھنے میں مدد دے گی۔ اکثر ایک حکم کی کئی نشانیاں موجود ہیں۔ اگر ان نشانیوں یا آیات کو اکٹھا کیا جائے تو مزید احکامات سے پردہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ یہی قرآنِ پاک کو درست سمجھنے کا طریقہ ہے۔ اس سے ہی ہماری زندگیاں سنور سکتی ہیں کہ انسان دنیا میں آیا ہی ایک امتحان دینے ہے۔ اس(امتحان) کو پاس ہم ان احکامات کی روشنی میں کرسکتے ہیں۔

قرآنِ پاک کی تعلیمات کے علاوہ اس کی ایک اور بڑی خوبی اس کی ترتیل ہے ، قرآن پاک کے ابتدائی احکامات میں اس کے پڑھنے پر زور دیا گیا ہے اور اس کے لئے سورۃ مزمل میں لفظ ترتیل استعمال کیا گیا جس سے مراد ہے کہ اس کو اس انداز سے پڑھا جائے جس سے آواز میں موسیقیت پیدا ہو جائے۔١٭ قرآنِ پاک کے لفظ ایک خاص قسم کے پچ اور حیطہ رکھتے ہیں اور یہ پچ اور حیطہ تقریباً پورے قرآنِ پاک میں ایک جیسا ہے ، اس لئے جب یہ کلام نازل ہوا تو عرب، جو کہ خود کو فصاحت میں ید طولیٰ رکھتے تھے، کہہ دیا کہ انسانی کلام ایسا نہیں ہو سکتا۔ قرآنِ پاک میں احکامات کے ساتھ دو باتوں پر خاص طور پر زور دیا گیا۔ایک زُبان، اس زبان میں نازل ہو جو زبان عربیوں کی ہے اور دوسرا عربوں میں فصیح و بلیغ وہی کہلاتا تھا جس کا کلام بہترین شاعری کی صورت لئے ہوئے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے احکامات کے ساتھ عربیوں کو مانوس رکھنے کے لئے قرآن پاک کو بصورت شاعری ٢٭اتارا کہ لوگ اس حکمت بھری کتاب میں شاعری کے اسرار و رموز سمجھتے ہوئے اس کو ترتیل سے پڑھیں۔ اس کو ترتیل سے پڑھنے سے تلاوت دلوں پر اثر کرتی ہے کہ جس طرح موسیقی کا اثر دلوں پر ہوتا ہے۔٭ اس لئے ہم جو قرآنِ پاک کا علم نہیں رکھتے جب یہ کلام سنتے ہیں تو دل مسحور ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے جو کہ انسانی کمالات کی حد سے پرے ہے۔

 

ترتیب نزولی کے لحاظ سے پہلی قرآنِ پاک کی سورۃ :العلق

بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِی خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3) الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ (5) كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَیَطْغَى (6) أَنْ رَآہُ اسْتَغْنَى (7) إِنَّ إِلَى رَبِّكَ الرُّجْعَى(8) أَرَأَیْتَ الَّذِی یَنْہَى (9) عَبْدًا إِذَا صَلَّى (10) أَرَأَیْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْہُدَى (11) أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى (12) أَرَأَیْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى (13) أَلَمْ یَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّہَ یَرَى (14) كَلَّا لَیِنْ لَمْ یَنْتَہِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِیَۃِ (15) نَاصِیَۃٍ كَاذِبَۃٍ خَاطِیَۃٍ (16) فَلْیَدْعُ نَادِیَہُ (17) سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ (18) كَلَّا لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ (19)

ترجمہ

پڑھو! اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو !تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ انسان کو وہ(علم)سکھایا جو نہ جانتا تھا۔ ہاں ہاں بیشک آدمی سرکشی کرتا ہے۔ اس پر کہ اپنے آپ کو غنی (بے نیاز) سمجھ لیا، بیشک تمہارے رب ہی کی طرف پھرنا یا لوٹنا ہے۔ تم نے دیکھا اُس شخص کو جو ایک بندے کو منع کرتا ہے جبکہ وہ نماز پڑھتا ہو ؟ بھلا دیکھو تو اگر وہ (بندہ) راہِ راست پر ہو یا پرہیزگاری کی تلقین کرتا ہو ؟ تمہارا کیا خیال ہے اگر (یہ منع کرنے والا شخص حق کو ) جھٹلاتا ہو اور منہ موڑتا ہو ؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے ؟ ہر گز نہیں، اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اُس کی پیشانی کے بال پکڑ کو اُس کو کھینچیں گے ، اس پیشانی کو جو سخت جھوٹی اور خطا کار ہے۔

 

میں نے قرآن پاک کی پہلی نشانی اُٹھائی اور لفظ ”اقراء” پر غور کرنا شروع کیا۔ زندگی میں پہلی دفعہ میرا دماغ مفلوج ہو گیا۔ تین دن میرا ذہن لفظ ”اقراء” میں پھنسا رہا ہے۔ اس بات نے مجھے بے قرار رکھا کہ میں اکثر ایک دو نظر سبق پڑھ کر اپنے آپ کو پاس کروا لیتی ہوں۔زندگی کا ایک بڑا امتحان میرے سامنے ہے۔میں پہلے لفظ میں کھوئی ہوئی ہوں۔ میری رفتار کیا ہے ؟ میں بہت کُند ذہن ہوں۔ میں نے اللہ کے سامنے اپنی کم علمی کا اعتراف کیا کہ مالک میرا سجدہ قبول فرما لے ، میری گریہ قبول فرما لے۔میرا لئے یہ زندگی کا سب سے بڑا مشکل امتحان ہے کہ جس میں قدم قدم پر آزمائش شرط ہے۔ جہاں جستجو ہو، وہاں دُعا رائیگاں نہیں جاتی۔ چار دن بعد میری نظر لفظ ”اقراء” سے ہوتی ہوئی ”العلق” پر گئی ہے۔ اقراء کا مطلب ”پڑھ ” ہے مگر اس کا عنوان ”العلق ” ہے۔ اس کشمکش نے مجھے بہت رُلایا ہے۔ بہت غور و فکر کے بعد میں اک نتیجے پر پہنچی ہوں۔۔ اس سورۃ نے کاینات کی تفسیر بیان کر دی ہے۔ اگر یہ کاینات کی تفسیر ہے تو پورا قرآنِ پاک کیا ہو گا۔۔۔ہائے ! میرا احساس ندامت !!! احساس! میری غفلت کا ہے ، میری سرکشی کا ہے ، میری نافرمانی کا ہے۔

”العلق” کیا ہے ؟ کیا ایک انسان ہے ؟ ایک انسان کے دو حصے ہیں ؟ حیوانات کے دو حصے ہیں ؟ نباتات کے دو حصے ہیں؟ آخر کیا ہے ؟ حیوانات و نباتات کی ابتدا ”جوڑوں ” کی بصورت مذکر و مونث سے ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر ہر شے جو تخلیق کی صلاحیت رکھتی ہے اس کے جوڑے مختص کر دئے ہیں۔ العلق کا لفظ جاندار نوع کی ابتدا کی تفسیر ہے۔ بالخصوص اس سورۃ میں انسان کی بات کی گئی ہے۔ انسان کی ابتدا کیسے ہوئی ہے۔ انسان بڑا کثیف ہے۔ ہائے ! اس کی کثافت اس کو گُناہ کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ کثافت لطافت میں کیسے بدلی جائے ؟ انسان کی نجات کیا ہے ؟ میں ! میری ابتدا کہاں سے ہوئی ہے مجھے بتا دیا گیا ہے مگر انتہا کیا ہے ؟

اس بات سے پہلی دفعہ میرے دل میں سچا خوف پیدا ہوا ہے۔ اس سے پہلے میں سوچا کرتی تھی کہ میں اللہ سے محبت کروں گی کہ خوف نہ کھاؤں گی۔مجھے جنت اور دوزخ نہیں چاہئے۔ خیر ! یہ تو بچپن کی سوچ ہے اور بچپن تو ہوتا ہے معصوم ہے۔ جہاں میں سوچا کرتی تھی کہ میں نے ایک گناہ کیا ہے اور معافی مانگ لی ہے اور میں پاک ہو گئی ہوں۔ مجھے کیا پتا تھا میں جب بڑی ہو جاؤں گی مجھے خود کو کتنی دفعہ ”سفل ” کہنا ہو گا کہ میں نے اکثر ایسا کہا ہے۔۔اس میں دُکھ تھا کہ میری روح بڑی ناپاک ہے اور روح ناپاک ہے کہ میں جھوٹ بولوں، میں منافق بن جاؤں، میں دھوکا دوں، میں اللہ کا خیال نماز میں نہ لاؤں اور ٹکر مارتی جاؤں۔ بہت سے ایسے گناہوں جن کو میں کبیرہ اور صغیرہ کہتی ہوں میں نے اپنی زندگی میں کئے ہیں۔۔۔ ان گُناہوں نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں لکھوں کہ شاید ہدایت پا جاؤں۔ شاید میرا نامہ اعمال کی سیاہ کاریاں کم ہو جائیں۔۔ !!!

اب کہ ”العلق” سے خیال میرا براہِ راست "اقراء’ کی طرف آیا۔۔ اس میں تو ” پڑھ ” کا لفظ لکھا ہوا تھا۔ میں نے آج تک بہت کتابیں پڑھ ڈالیں مگر مجھے کچھ حاصل نہ ہوا۔ میرا من خالی ہے ِ؟ جانے یہ دل میخانہ کیوں نہ بنا ؟ جانے یہ دل کب میخانہ بنے گا؟ یہ سوال تو بڑا تڑپاتا ہے !!! میں جب پہلی دفعہ اسکول میں داخل ہوئی تو اس میں سب سے پہلے مجھے حروفِ تہجی سکھائی گئی اور پھر مجھے لکھنا سکھایا گیا جب میں نے لکھنا سیکھ لیا تو میرا امتحان لیا گیا۔ میرا امتحان مجھے اگلے درجے میں پہنچا گیا۔ اس کا ادراک مجھے پہلی دفعہ یہ سورۃ پڑھتے ہوئے کہ اس سورۃ کی تفسیر تو میری زندگی کی تعمیر و تخریب کی کہانی سناتی ہے کہ میں جو چاہوں راستہ اختیار کر لوں۔میں نے قرآن پاک پڑھا۔۔ ارے ! میں پڑھ رہی ہوں مگر مجھے دو لفظوں کی مار نے ایسا رُلایا کہ میں اتنا کبھی نہیں روئی۔ میں اس بے قراری کو کیا کہوں۔۔۔؟ اگر اس طرح میں نے پورا قرآن پاک پڑھا تو کیا میں میرا عمل خالی رہ جائے گا؟

بات سمجھ میں آ گئی۔۔۔ میں نے پڑھا اور اس کو سمجھا !! اس کے بعد میں نے عمل کو لکھا۔ کیسے ! اس سوچ میں ہوں کہ ایک لکھنا تو وہ ہے کہ مجھے بات سمجھ آ گئی اور میں نے جو سمجھا لکھا ؟ سب سے پہلے اس کو دماغ کی سلیٹ پر لکھا ہے۔ اس کے بعد اس سلیٹ سے میں نے کاغذ پر لکھنا شروع کر دیا۔ اب جو میں نے لکھا ہے اس کو میں نے اچھا جانا ہے تو میں عمل اچھا کروں گی اور اگر اس کو سمجھ کر بھی میں اس پر عمل نہ کرسکی تو؟ اس سوالیہ نشان پر مجھے ناکامی کا احساس یاد آیا ہے کہ زندگی میں خواب ٹوٹ جائیں تو ناکامی بڑا ستاتی ہے۔ ناکامی نہ جینے دیتی ہے اور نہ مرنے نہ دیتی ہے۔۔ ہائے ناکامی۔۔ وائے کامیابی۔۔۔ وائے کامیابی۔۔ کیسے اس کامیابی کو حاصل کیا جائے ؟ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی۔میں نے محنت شروع کر کے اعمال سنوارنے کی کوشش کی ؟ یا میں نے پیغام سمجھ لینے کے بعد اَن سُنی کر دی۔

کچھ طالب علم ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے اندرونی انتشار کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے اور بعض اوقات وہ ناکام ہو جاتے ہیں۔یہ تو زندگی کے امتحان ہوتے ہیں، اس اندرونی انتشار کا سامنا ہم کو آخری امتحان روزِ محشر نہ ہو۔ ورنہ میں اور آپ تو بڑے پھنس جائیں گے۔ناکام کی کی جگہ اس دنیا میں کم ہوتی ہے دنیا کامیابی کے پیچھے بھاگتی ہے . اس طرح آخرت کی طرف دوڑنے والے کامیاب ہو جائیں گے . سب سے بڑا استاد خالق ہے اور اس کے شاگرد اس کو چیلنج کریں تو کیا اس کی غیرت یہ گنوارا کرے گی ؟ وہ بہت رحیم و رحمان ہے . فضل و کرم ان پر کرتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان کو سزا دیتا ہے جن کے دل قفل لگ جانے کی وجہ سے گرد سے اٹ جاتے ہیں . گرد تالے کے اوپر جمع ہو جاتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ تالا یا قفل زنگ آلود ہو جاتا ہے ، پرانے تالوں پر چابیاں کام کرنا چھوڑ جاتی ہے . اللہ تعالیٰ کا کلام چابی ہے . یہ کلام ہر روح پر کارگر ہے ، ہر روح پر اسرار اس کلام کے ذریعے کھلتے ہیں . مگر جن کی عقل کام کرنا چھوڑ دے ، جن کا دل و نگاہیں بصیرت و بصارت کھودیں، جن کے آنکھیں حقائق کو دیکھ کر ماننے سے انکار کر دیں ان کے دل پر تالے ہیں. ان کے تالے کیسے کھلیں کہ عرصہ گزر جانے کے بعد رحمانی کلام کی چابی سے دل کے قفل نہیں کھولے گئے . کہاں جائیں گے وہ لوگ؟ کہاں جائیں گے َ ؟ ان کا ٹھکانہ کیا ہو گاَ؟ ان کے حصے میں ناکامی ہے ؟ ان کا ٹھکانہ کیا ہو گا؟

 

اس بات سے مجھے اللہ تعالیٰ کا فرمان یاد آ گیا . جب حضرت ابراہیم نے اپنے باپ تارخ کے لے دُعا کی . بعض مورخین کے نزدیک ان کے والد کا نام آذر تھا جبکہ ان کے چاچا کا نام تارخ تھا . آپ نے اللہ سے ان کی مغفرت کی دعا مانگی . ایک شخص جس کی ساری زندگی انکار میں گزری ہو اور وہ روح پر قفل لگائے جہاں فانی سے کوچ کر جائے تو اس کا کیا ٹھکانہ ہو سکتا ہے ؟ اس کا ٹھکانہ اللہ تعالیٰ نے خود بتادیا . ایک پیغمبر جو خلیل اللہ تھے ان کی بات قبول نہ کی . اس بات سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ محشر میں قرابت و رشتہ داری کام نہ آئے گا .اگر کام آئے گا تو ایک سچا رشتہ جو مجھے اللہ سے جوڑے اور خالق سے نکلے جتنے رشتے …ان رشتوں سے اگر میں محبت کر سکی تو .. میں اس قابل ہو جاؤں گی اپنی پناہ کی التجا کر سکوں . ورنہ مجھے ڈر ہے .. مجھے اپنی آخرت کا ڈر ہے .. مجھے روزِ محشر سے ڈر لگتا ہے ، مجھے عالم برزخ سے ڈر لگتا ہے جس کا دروازہ مجھ پر کھلے تو وہ جنت کی ٹھنڈی چھاؤں بھی ہو سکتا ہے اور دوذخ کی گرم ہوا بھی … اور مجھے سچ میں بہت ڈر لگا … یوں لگا میرے آگے اندھیرا چھا گیا ہے .. اس سے آگے کا تصور میں کر نہیں سکی … کیا کروں … ڈر لگتا ہے … بہت ڈر لگتا ہے … مجھے اس کا نافرمان نہیں بننا …. مجھے کوشش کرنی ہے کہ میں اللہ کے راستے پر چل سکوں۔

اس خیال کے آتے ہیں مجھے خیال آیا کہ اس صورت کے بھی چار حصے ہیں ….

.1. انسان کی مادی تخلیق و ارتقاء

.2. انسان کی روحانی تخلیق و ارتقاء

.3. جبرو قدر کا فلسفہ …اختیار و مرضی کا تعلق

.4. برائی کا انجام …جہنم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِی خَلَقَ۔۔خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔۔اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ۔۔الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔۔ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ۔

یہ انسان کی روحانی تربیت کے بارے میں بتاتا ہے۔ انسان کی روحانی تربیت پڑھنے سے شروع ہوتی ہے۔ اور پڑھنے کے بعد اس کی سمجھ نمو پاتی ہے اس کے ساتھ ہی دوسری آیت میں انسان کی ابتدا کے بارے میں بتایا گیا۔ انسان کی ابتدا کثافت سے ہوئی مگر اس کی کثافت، روح کی لطافت بڑھانے سے کم ہو سکتی ہے۔ روح کو لطافت پڑھنے سے ملتی ہے۔ جو جتنا پڑھتا جائے گا اس کی لطافت کثافت کو ختم کرتی جائے گی۔ پیغمبروں کو اس لئے معصوم کہا جاتا ہے کہ ان میں لطافت لطافت ہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جناب حضرت محمد ﷺ لطافت طایف کے سفر میں لہولہان ہو جانے کے باوجود بد دعا کے لئے ہاتھ اٹھا نہ سکے مگر وہ پیارے ہاتھ دعا کے لئے اٹھ گئے۔ اس روحانی تربیت کی مثال کہاں ملے گی کہ اپنی شان میں گستاخی کرنے والوں کو دعا دئے جارہے تھے۔ ہم پیارے نبیﷺ کی پیروی کرتے ہوئے گناہوں سے پا ک ہو کر روح کو بلند مقام کی طرف لے جا سکتے ہیں۔مگر اس کے لئے ہمیں پڑھنا اور سمجھنا ہی نہیں ہے ، ان اعمال کو لکھنا ہے ، عمل کرنا ہے ، اچھائی کی طرف جانا ہے ، قلم ہمارا متحرک رہے ، ہمارا دماغ اچھے کو قبول کر کے اچھے کی طرف آمادہ کرے۔۔۔ یہاں دو طرح کا لکھنا ہے ایک وہ قلم جس سے کاغذ پر لکھا جاتا ہے اور ایک وہ قلم ہے جس کو دماغ لکھتا ہے ، اس قلم سے عمل بنتا ہے۔ قلم جب چلتی ہے ، دماغ جب چلتا ہے تو انسان وہ علم سیکھتا ہے جن علوم کو وہ جانتا ہی نہیں۔ اب ہم کس حد تک اس قلم یعنی دماغ کو چلا کے روح کی تربیت کر کے مرشد کامل کے راستے پر چلتے ہوئے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

 

كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَیَطْغَى Aya-6 أَنْ رَآَہُ اسْتَغْنَى Aya-7. إِنَّ إِلَى رَبِّكَ الرُّجْعَى Aya-8. أَرَأَیْتَ الَّذِی یَنْہَى Aya-9. عَبْدًا ِذَا صَلَّى Aya-10.

جبرو قدر کا فلسفہ سورۃ کے اس حصے میں بیان کیا گیا ہے۔ انسان کی سرشت میں سرکشی ہے اور اپنے آپ کو روحانی تربیت سے بے نیاز کر کے حق کی طرف رجعت سے انکار کر دیتا ہے۔ دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے۔ اس عارضی ٹھکانے میں کب تک رہے گا؟ آخر کو اس دنیا سے کوچ کر کے موت کی طرف جائے گا۔ اس بات کا بالخصوص ذکر سورۃ ”ق’ ‘ میں ذکر ہے۔ انسان کی ہڈیاں کھا لی جائیں گی۔ اس کے اعضاء ریشہ ریشہ ہو جائیں گے مگر اللہ تعالیٰ اس بکھرے ہوئے حصوں کو مجتمع کر لیں گے۔ اور اس میں روح ڈال کر اس سے حساب لیں گے۔ اس کے بعد اس کی سرکشی کس کام کی َ ؟ کہ دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے۔۔۔”اریت” کے معنی دیکھنا۔۔” ینہی” بمعنی منع کرنا۔۔۔ کسی چیز سے منع کرنا۔۔ "عبد”۔۔ بندے کو۔”۔ صلیََ ”۔۔۔ نماز و عبادت کرے۔۔ وہ بندہ جو سرکش ہے۔ تاریخی حوالہ تو جناب پیارے حضور پاکﷺ اور ابو جہل سے متعلق ہے۔ مگر یہاں یہ ہر اس انسان پر لاگو ہے جو حق راہ پر چلنے والوں کا راستہ روکے اور عبادت مٰیں رخنہ ڈالیں۔۔ ان کا ٹھکانہ کیا ہو گا۔۔۔ جو اللہ کے آگے جھک جاتے ہیں وہ اس کے بندے ہوتے ہیں اور جو اس کے محبوب بندوں کو تنگ کریں وہ کس راہ پر ہوں گے ؟ سوچئے نا! وہ جو اس محبوب بندوں کو ایک سیدھی راہ پرچلنے دیں کہ ان کے دل تاکے کھاچکے ہیں مگر اپنے ساتھ نقصان تو یہ لوگ کرتے ہی ہیں، ساتھ ساتھ اللہ کے نیک بندوں کے درمیاں رخنہ ڈال دیتے ہیں تاکہ عبادت میں رکاوٹ پیدا ہو جائے۔ ایسے بندوں کے لئے سخت وعید ہے۔

أَرَأَیْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْہُدَى Aya-11.أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى Aya-12. أَرَأَیْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى Aya-13.أَلَمْ یَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّہَ یَرَى Aya-14. كَلَّا لَیِنْ لَمْ یَنْتَہِ لَنَسْفَعَنْ بِالنَّاصِیَۃِ Aya-15. نَاصِیَۃٍ كَاذِبَۃٍ خَاطِیَۃٍ Aya-16.فَلْیَدْعُ نَادِیَہُ Aya-17. سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ Aya-18. كَلَّا لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ Aya-19.

”ارایت” بمعنی دیکھنے کے۔۔” کان ”بے شک۔۔ ”علی”۔۔اوپر یا کی جانب۔۔ کیا ہدایت پاجانے والے بندے کو نہیں دیکھا۔۔ بے شک حضرت محمدﷺ کی طرف اشارہ ہے اور ساتھ ساتھ ہر اس شخص کے لئے اشارہ ہے ، جو نبیﷺ کا پیرو کار ہے کہ وہ ہدایت پر ہیں۔۔ امر۔۔ بمعنی حکم کے۔۔ پرہیز گاری کے حکم کو اپنائے ہوئے ہے یا اس کو تقوی پر استوار کر دیا گیا ہے۔ اس شخص کو جو اللہ تعالیٰ کی راہ ہر ہے اس کو اگر اس کو فتنہ ساز تنگ کرے گا تو کیا ہو گا؟ کذب۔۔ جھوٹا اور ”تولی”۔۔۔ بمعنی حق سے رو گردانی کرنا ہے۔۔۔ کہ یہ فتنہ ساز جھوٹے اور حق سے رو گردانی کرنے والے ہیں۔۔۔”الم ”۔۔۔ کیا نہیں، ”یعلم”۔۔ جانتا۔۔” یری ”۔۔ دیکھنے کے روپ میں۔۔۔اللہ تعالیٰ کیا نہیں دیکھ رہا کہ جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ اور جب اللہ جانے تو اس کا کیا سلوک ہو گا۔ بے شک یہ ایک وعید ہے ، ایک تنبیہ ہے۔کہ ان کو پیشانیوں کے بل کھینچا جائے گا۔۔۔ پیشانی وہ جگہ جو دماغ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دماغ جب اندھا ہو جائے تو اس کو اس کی پیشانی سے پکڑ کر جہنم واصل کیا جائے اور تب اس کے ساتھی اس کے کام نہیں آنے والے۔۔ اور جو لوگ پرہیز گار ہیں۔۔۔ جو عبادت کرتے ہیں۔۔۔ اس کو سنا دیا گیا کہ ان سے ڈرو مت۔۔۔ تم حق پر ڈٹے رہو۔۔۔تاکہ۔۔۔ اللہ کا قرب حاصل ہو۔

٭٭٭

 

اظہارِ خیال

 

اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ   42؀

یقیناً اس بات میں ان لوگوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔(سورہ ۳۹، الزمر: ۴۲)

 

سوشل نیٹ ورک کی عفریت

 

                فیضان الحق معراجی﷾

 

ہم تفریح طبع کے لئے سوشل نٹے ورک پر کیسے کیسے مباحث میں مصروف رہتے ہیں کہیں اسلامی مسئلہ، کہیں مسلکی مسئلہ، کہیں سیاسی تو کہیں نظریاتی الغرض ہم میں سے ہر ایک خواہ وہ عقل پر لٹھ کے بجائے سینک لے کر گھوم رہا ہو مگر اختلافی موضوعات میں نوے فی صد حصہ لے رہا ہے اس بات سے قطع نظر کہ وہ اختلافی موضوعات کس قسم کے ہیں۔

مگر سوشل نٹا ورک(عفریت) کے صارفین ان چھوٹی چھوٹی تفریحوں کے فوائد و نقصانات کا اندازہ جب لگتا ہے جب ہم ان کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں چنانچہ ہم میں سے کوئی بھی جب اپنا اکاؤنٹ بناتا ہے اس وقت مالکان سوشل نٹورک ہم سے کچھ ایسے معاہدے کرواتے ہیں کہ اگر ہم ان کو بغور پڑھیں اور ان کی گہرائی کو سمجھیں تو شاید کسی سایٹ پر اکاؤنٹ بناتے ہوئے ہم سب کا کلیجہ منہ سے باہر گر جائے۔

وہاں ان کے معاہدے کچھ اس طرح ہوتے ہیں کہ آپ کی محفوظ کردہ دستاویز کو مالکان کسی بھی صورت استعمال کرنے کا جواز رکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اب اس ضمن میں دیکھا جائے تو ابھی کچھ ہی روز کا معائنہ تھا کہ خود ہمارے ملک "ہندوستان” میں کسی خبر سے بدامنی پھیلانے کے لئے صرف "دس منٹ” کا وقت صرف ہونا ہے۔

اسی طرح ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنی کالا بازاری اور پروجکٹ کی کامیابی کے لئے کون سا علاقہ زیادہ موزوں ہے اس کے لئے وہ سب سے پہلے سوشل نٹورک مالکان سے رابطہ کرتے ہیں کہ ان کا یہ پروجکٹ کس علاقہ میں کس حد تک نفع کما سکتا ہے ؟ اور چونکہ ہم اس معاہدے کے تحت ہیں اس لئے مالکان سوشل نٹورک ہماری رائے ان کو بلا جھجھک فروخت کرتے ہیں اور اس طرح وہ ہماری اس چیز کو جو ہم صرف تفریح طبع کے لئے استعمال کر رہے ہیں اس کو وہ اپنے مفاد کے لئے بلا عوض استعمال کر رہے ہیں۔اور یہیں پر بس نہیں بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی مذہبی، مسلکی، سیاسی نظریات میں کون کون کس کس طرح کے رویہ کا خوگر ہے اور کس علاقہ کے سرکردہ اور غیر سرکردہ لوگ اس مسئلہ میں کس نظریہ کے حامی ہیں ان تمام باتوں کو باقاعدہ طور سے سوشل نٹورک سے حاصل کیا جاتا ہے اور یہ بیش قیمت معلومات دینے کے لئے ہم بھولی عوام جانتے بوجھتے ہوئے خود کا نظریہ بلا عوض ان تک پہونچاتے ہی نہیں بلکہ اس پر خود کے قیمتی اوقات کے ساتھ اپنی خطیر رقم بھی اس پر شوق سے گنوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور وہ اسی کو بڑی بڑی رقم میں دوسروں کو فروخت کرتے ہیں۔

بات صرف فروختگی تک محدود ہو تو تسکین خاطر ہو جائے اور صبر کر لیا جائے تاہم یہاں بات صرف فروختگی کی نہیں ہے۔۔۔

بلکہ بات یہاں ان دشمنان انسانیت کی ہے جن کو صرف اپنی بالا دستی اور لیڈر شپ کے لئے رذیل سے رذیل پروپگنڈوں کو انسانیت کے انہدام کے لئے استعمال کرنے کی ہے اور خود کی حکمرانی اور تانا شاہی کی برقراری کی ہے لہذا ضروری ہے کہ ہم سے ہر ایک ایسے مباحث میں بہت محتاط انداز سے محض اصلاحی فکر کا جذبہ کار فرما رکھ کر اس سوشل نٹورک کا استعمال کرے۔

اور جہاں جہاں برساتی مینڈک بیٹھے بیٹھے ٹرٹر کر رہے ہیں ان کو بہت ہی خوش اسلوبی سے سمجھائے اگر وہ وار کرتے ہیں تو اس انداز سے دفاع ہو کہ وہاں ہم سب کا نظریہ ہار اور جیت بالکل نہ ہو بلکہ ہمارا نظریہ سمجھنا اور سمجھانے کے ساتھ متلاشی حق اور اصلاحی ہو اس طرح اس سوشل نٹورک سے نفع اٹھا کر ہم ہی پر وار کرنے والوں کے منحوس اذہان کو شکست اور ان کے ناپاک پروپگنڈوں کا قلع قمع بھی کیا جا سکتا ہے اور ساتھ میں بے جا الزامات اور کذب بیانی کرنے والوں کے گلے میں پھندا بھی ڈالا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

عالمی تبلیغی مرکز نظام الدین کی حاضری

 

                مزمل اختر ﷾

 

اللہ کی قدرت :

جس کے ناموں کی نہیں ہے انتہا

ابتدا کرتا ہوں   اس کے    نام سے

 

بڑی مشکل سے مجھے اللہ نے چلہ کے لئے قبول کیا، بات تو یہی ہے کہ اصل اللہ ہی قبول کرتا ہے ورنہ ہماری کیا بساط کہ ہم اس کے راستے میں نکلیں۔ وہ جسے چا تا ہے بلاتا ہے، (13/04/12 ) بروز جمعہ مسجد وارث پورہ میں بعد نماز مغرب بیان کے    بعد تشکیل ہوئی تب عاجز (مزمل اختر غفرلہُ)کو معلوم ہوا ضمیر بھائی (اللہ آپ کی عمر میں برکت عطا فرمائیں اور آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں کہ آپ ہی عاجز کے نظام الدین جانے کا ذریعہ بنے ) چلہ کے لئے جا رہے ہیں ہم نے تب نام نہ لکھایا دوسرے دن (13/04/13) بروز سنیچر کو ہمارا سعید نگر مسجد میں گشت ہوتا ہے تو بی بی کالونی کے کچھ حضرات آتے ہیں ان میں عمران بھائی (پولس والے ) بھی تھے انھوں نے عاجز کی تشکیل کی اور ہمت افزائی کی عاجز تیار ہو گیا اور (13/04/16) بروز منگل عاجز اور ضمیر بھائی صبح 07:15 بجے کی ٹرین سے کامٹی اسٹیشن سے چھتیس گڑھ (منیندرگڑھ) کے لئے روانہ ہوئے .اللہ کے فضل سے پورا چلہ عافیت سے لگایا-( بحمد للہ)

چلہ میں تقریباً 15 دن بعد سے نظام الدین کا معاملہ شروع ہوا وہاں ایک حضرت تھے عبدالحق صاحب (ان کی طبیعت تھوڑی خراب رہتی ہے ان کے لئے بھی دعاء کریں بہت اللہ ان سے بھی بہت کام لے رہا ہے اللہ آگے بھی لے ) انھیں کی وجہ سے عاجز کا آدھا کام آسان ہو گیا۔ کامٹی کے شوریٰ حضرات سے انہیں نے سفارش کی تھی، کہا عاجز کو اپنی خدمت کے لئے لے جا رہے ہیں (مگر اس نالائق نے ان کی ذرا بھی خدمت نہ کی بلکہ نظام الدین کے نورانی ماحول میں کھو گیا )

عاجز کی گزارش ہے اس کام کو سمجھنے کے لئے نظام الدین کا سفر ضرور کریں اور اپنی فکروں میں اضافہ کریں سچ کہتا ہوں وہ منظر وہ کیفیت کیسے بیان کروں یہ تو وہی سمجھ سکتا ہے جو وہاں ہو یا وہاں گیا ہو۔ جب ضمیر بھائی نے بتایا حضرت جی مولانا یوسف صاحب ﷫حیاۃ الصحابہ یہاں بیٹھ کر لکھا کر تے تھے یہاں اس حجرے میں جو کہ پہلے الیاس صاحب اور بعد میں یوسف صاحب رحمہما اللہ کا حجرہ تھا یہاں پر   مشورہ ہوتا ہے اور پہلے یہاں ہوتا تھا واہ کیا منظر تھا عاجز وہیں کھڑا تھا۔وہ کیفیت وہ سکون اسے لکھا نہیں جا سکتا اسے وہاں جا کر صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔

زیرِ نظر تحریر میں وہاں کی کچھ عجیب باتیں جو فقیر نے محسوس کیں، کچھ اکابرین کے ملفوظات اور کئی اور چیزیں قارئین کے فائدے کے تحت لکھنے کا ارادہ ہے۔ جن حضرات کا فائدہ ہو خصوصی و عمومی دعاؤں میں عاجز (مزمل اختر غفرلہُ )اور ( ضمیر بھائی، عبدالحق صاحب، عمران بھائی، ہمارے حضرت جی مرشدی مولانا صلاح الدین سیفی صاحب دامت برکاتہم ) ان تمام حضرات کے لئے خوب دعائیں کریں اور خاص دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مزید کی توفیق دیں اور اس مبارک کام کے لئے قبول فرمائیں۔

اور ایک خاص بات جو عاجز نے محسوس کی ہمارے کام کرنے والے حضرات اکابرین کے نام لیتے ہیں تو کچھ ادھورا ادھورا سا لگتا ہے  دیکھئے اکابر علماء دیوبند کا ایک مقام ہے بس ہم چاہتے ہیں وہ مقام باقی رہے۔ ہمارے علماء حضرات کو دیکھئے انھیں حضرات کے نام کتنے پیار سے لیتے ہیں ہمارے اکابرین نے اس دین کے لئے کیا کچھ نہیں کیا، کیا ہم ان کا صحیح طریقے سے  پورا پورا نام بھی نہیں لے سکتے ؟ ہمارے ساتھی کہتے ہیں :

’’ مولانا سعد صاحب فرماتے ہیں۔۔۔ ‘‘

اسی کو اس طرح کہا جائے تو کیا ہی اچھا ہو:

’’حضرت مولانا سعد صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ۔۔۔‘‘

آپ کہہ کر دیکھیں، آپ کو خود اپنی بات(مذاکرہ ) میں فرق نظر آئے گا۔ دلیل کے لئے، کچھ ہفتے پہلے اسلم صاحب کے فرزند مولوی عبد اللہ صاحب دامت برکاتہم نے مرکز وارث پورہ کامٹی میں بیان کیا تھا انہوں نے ہر مرتبہ ایسے ہی ہر اکابر حضرات کا نام لیا تووہ کہتے تھے  :

’’حضرت شیخ مولوی محمد یوسف صاحب فرمایا کرتے تھے۔۔۔‘‘

اسی طرح عاجز نے بارہا حضرت مفتی اسحاق صاحب دامت برکاتہم سے اکابرین کے نام اس طریقے سے لیتے ہوئے سنا ہے۔ دیکھئے یہ دین علماء حضرات سے ہم تک آیا ہے ، یہ لوگ حضور ﷺ کے وارث ہیں، ہمارا فرض ہے ہم انھیں سے ہر چیزیں سیکھیں اور ان کی بہت عزت کریں۔ جزاک اللہ۔

دعا جو و دعا گو

مزمل اختر غفر لہُ

 

پہلی نشست (13/05/25) بروز سنیچر

حضرت مولانا یعقوب صاحب دامت برکاتہم                                                       بعد نماز مغرب

وقت:-08:03 pm سے  08:57 pm

1)آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے جب تمھیں تکلیفیں دی جائیں تو میری تکلیفوں اور مصیبتوں کو یاد کرنا تم اپنی تکلیفوں کو بھول جاؤ گے۔

2) دیکھو دین اجتماع   سے نہیں پھیلے گا – اجتماع کے تین بڑے نقصان ہوتے ہیں۔

الف) نقد جماعتیں ادھار ہو جاتی ہیں

ب) خرچ زیادہ ہوتا ہے ( عوام کی نظریں اللہ کی بجائے مالداروں کے جیب پر آ جاتی ہے )

ت)جماعتوں کو امیر نہیں ملتے (زیادہ جماعتوں کے بننے کی وجہ سے ہر جماعت کو مناسب امیر ملنا آج کے دور میں تھوڑا مشکل ہے )

3) حضرت نے تین سے چار مرتبہ کہا ہر ایک کو اپنا سمجھیں۔ پہلے عداوت آئے گی پھر دوستی ہو جائے گی۔

4) ہم اسلئے یہاں آتے ہیں تاکہ ہماری فکریں ایک ہو جائیں۔

 

نشست دوم (2013/05/26) اتوار

حضرت مولانا ابراہیم دولا صاحب دامت برکاتہم                                 بعد نماز فجر

وقت: – pm05:23 سے 06:50 pm

1) کام کی حفاظت کریں۔ اس کام کی حفاظت کریں گے تو اس کا اثر نظر آئے گا۔

(بقول موجودہ حضرت جی کہ یہ کام تعارف کی سطح سے اوپر چلا گیا ہے ہر کوئی جانتا ہے کام کیا ہے تم لاکھ اس کام کے خلاف پرچے چھاپ لو قسم خدا کی اس کام کو ذرہ برابر نقصان نہیں پہچا سکتے اب کام کو نقصان غیروں سے نہیں بلکہ کام کو نقصان کام کے کرنے والوں سے ہے ) اس لئے حضرت کہہ رہے اس کام کی حفاظت کام کرنے والے کریں۔

2)ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے آپ کو کام کے تابع کریں، نہ کہ کام کو اپنے تابع کریں۔

ورنہ پھر اس کام کے کرنے کا دل چاہے گا کریں گے نہ چاہے گا تو نہ کریں گے۔

جو شخص اپنے آپ کو نماز کا پابند کرے گا تو نماز کا اثر ہو گا، وہ برائی سے رکے گا یہ نہیں کہ نماز کو اپنا پابند کر لیا کہ دل چاہا، پڑھ لی نہ ہوا، نہ پڑھی – اپنی نماز کو مؤمن والی نماز بناؤ نماز کے پابند ہو جاؤ گے۔ ٭

3)دین کا کام ہماری ذمہ داری ہے ترقی اسی کو ہو گی جو ذمہ داری پوری کرے گا۔

4)اس کام کی برکت سے اللہ کا تعلق پیدا ہو گا۔ اس لئے اس کام سے لگے رہیں۔

مولانا یوسف صاحب ﷫ فرمایا کرتے تھے (اس کام سے لگے رہو ) اخلاص آئے گا۔

5) حق کی ابتدا دشواریوں سے ہوتی ہے اور اس کی انتہاء کامیابیوں سے ہوتی ہے۔

6) اپنے آپ کو ہم کام سے گزاریں، اپنے آپ سے کام کو لیں۔

7) اپنے کاموں کی فہرست میں دین کی بھی محنت کو لاؤ۔

8) اپنے دین کا بھلا چاہو اور دین والوں کا بھلا چاہو دوسروں کا بھلا چاہنا یہ دین کا ایک اہم جز ہے۔

9) دین کی محنت میں اخلاق کا ظہور ہوتا ہے۔

10) اس محنت کا اثر یہ ہے  کہ تمہارے دشمن تمہارے ساتھ ہو جائے گا۔

(ہمارے ایک ساتھی کہہ رہے تھے یہ کام ایسا ہے اگر ہم استقبال میں کڑے ہوں اور ہمارا کوی دشمن بھی آئے تو اسے بھی گلے لگانے کو کہتا ہے )

11 )کوئی غلطی بتائے تو تبلیغ کا مخالف….؟؟نہیں بلکہ وہ تو ہمارا خیر خواہ ہے۔ جیسے نماز میں کوئی لقمہ دے تو نماز کا مخالف نہیں۔ اس نے تو ہماری نماز صحیح کی ہے اس لئے اس کا احسان مانیں، تسلیم اور تصحیح ہر عمل میں شامل ہے۔

12) تجارت ایسے کرو کہ جو اپنے سے اوپر ہے اس سے دین لو اور جو اپنے سے نیچے ہے اسے دین دو۔

13) نیچے جاؤ تو راستے کھلتے ہیں۔آپ ﷺ اوپر سے بہت ساری چیزیں لاتے اور پھر نیچے گئے چھوٹوں کے ساتھ (غریبوں کے ساتھ) رہے ۔

14) سرمہ پتھر تھا اس کی پٹائی ہوئی، پسائی ہوئی، تو کیا مقام ملا….!!!!! آنکھوں تک پہنچ گیا۔ ہم بھی اپنی پٹائی اور پسائی کروائیں۔

15) انصار کے اندر یہ خوبی تھی کہ مشکل کام اپنے ذمہ لیتے تھے۔

16) ایسے عمل کرو جس میں اللہ کے لئے اخلاص ہو اور مخلوق کے لئے اخلاق ہو۔

 

تیسری نشست (13/05/26) بروز اتوار

حضرت مولانا سعد صاحب دامت برکاتہم

وقت: – 10:10 سے 12:19 تک

ہمار ے یہاں کے بڑے ذمہ داروں میں ایک اہم شخصیت ہے جنہیں عموماً لوگ اسلم صاحب کے نام سے جانتے ہیں۔ کافی کم عمر سے حضرت کام سے لگے اور اللہ نے ان سے بہت کام لیا اور ابھی بھی لے رہے ہیں۔ حضرت اس زمانے کے ہیں آپ لوگ خود ہی سوچ سکتے ہیں کتنی مشقتیں اٹھائی ہوں گی۔ اس پر بھی ایک مرتبہ حضرت فرما رہے تھے جو کہ ہم نے کسی معتبر شخص سے سنا، حضرت کہہ رہے تھے :

” جب پہلی مرتبہ حضرت مولانا سعد صاحب دامت برکاتہم ( اسلم صاحب کا پتہ نہیں، مگر ہم سے جنھوں نے کہا انھوں نے دامت برکاتہم نہیں کہا تھا۔۔۔ اللہ توفیق دیں ) سو جب انھوں نے پرانوں کے مجمع میں بات کی تو مجھے ایسا لگا کہ ہم نے اب تک کوئی کام ہی نہیں کیا۔”

1) کارگزاری کمیت کی نہیں ہے کہ اتنے اتنے نکلے، بلکہ کارگزاری تو کیفیت کی ہے۔

2) حضرت نے فرمایا مفتی زین العابدین صاحب جب بھی یہاں (مطلب نظام الدین) آتے تو تمام چیزیں لکھ کر لے جاتے اور دوسروں کو دکھاتے۔

3) سمجھ میں آئے نہ آئے کرنا وہ ہے جو ہم کہہ رہے ہیں۔

4) جتنی ترقی ہماری صحابہ پر نظر رکھنے سے ہو گی اتنی کہیں نہیں ہو سکتی، اپنے کاموں کو سنتوں پر لائیں، دعوت کا کوی ایک جز ایسا نہیں ہے جس کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہ ہو اور صحابہ سے عملی طور پر کروایا نہ ہو۔

5) متحرک وہ ہے جن کے سالانہ چلہ لگ رہے ہوں۔

6) اپنے مجمع کو شروع سے اللہ کے راستے کے خروج کی اہمیت بتائیں۔

7) مجمع کیوں نکلے یہ بات سامنے آنی چاہئے۔صحابہ سے ایک سال کا خروج چھوٹنے کی وجہ سے اللہ اور نبیﷺ کی ناراضگی کے واقعات پیش کریں۔

8) جب تک اللہ کے راستے کے خروج کو نہ بتائیں گے تب تک مجمع متحرک نہ ہو گا۔

9) حضرت فرماتے تھے، ہمارے مجمع کا جمع ہونا بکھیرنے کے لئے ہے۔ ٭

10) لوگوں سے کہیں کہ 5 اعمال آپ عملی طور پر کر کے دکھلا دیں تب عام مجمع اس کام پر آئے گا۔

11) جماعتوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے ہی علاقوں میں چلاؤ نئے لوگوں کو مسجد وار جماعت سے جوڑو تاکہ ان کے اندر فکر آئے اور پرانوں کو شب گزاری سے جوڑو۔

12) جماعت کو لمبے خروج کے لئے تیار کرو صحابہ کی قربانیوں کے ذریعہ سمجھاؤ(نکلنا کیوں ضروری ہے نہ نکلنے کا کیا نقصان ہے )

13)(اپنے علاقوں میں گھروں کی تعلیم کو خوب عام کریں اور اس کو خوب مضبوط کریں ہماری بسیج میں کوئی ایسا گھر نہ بچے جہاں تعلیم نہ ہوتی ہو ) حضرت نے فرمایا حضرت ( حضرت شیخ مولوی محمد یوسف صاحب ﷫) نے مسجد میں حیاۃ الصحابہ کی تعلیم کی۔ پھر گھر گئے حالت کافی خراب تھی تعلیم شروع کی تو گھر والوں نے کہا آپ کی حالت ٹھیک نہیں ہے آپ نے مسجد میں تعلیم کی ہم نے سن لی (کیونکہ آپ کا حجرہ مسجد سے متصل تھا ) آپ نے کہا تم لوگوں نے سنا ہو گا لیکن وہ میری مسجد کی تعلیم تھی یہ میرے گھر کی تعلیم ہے۔

14) 6 نمبر کے مذاکرے کا مقصد یہ ہے کہ گھروں میں مستورات کے اندر فکر آئے۔

15) طلبہ بھی مسجد کی جماعت کے ساتھی ہیں، اگر ان کا مشورہ الگ ہو گا تو وہ اپنے آپ کو الگ سمجھیں گے۔ مشورہ سے یہ محسوس نہ ہو کہ یہ عمل اس طبقہ کا ہے۔

16) روزانہ کی فکروں میں طلبہ نہیں رہیں گے تو طلبہ بے فکر ہو جائیں گے۔

17) ہم تو چاہتے ہیں کہ طلبہ میں پورے عالم کی فکر ہو اسلئے ہر عمل میں طلبہ کو بھی شریک کریں۔

18) منتخب احادیث کی تعلیم کو عام کرو تاکہ عام سے عام آدمی کو حدیث کی روشنی میں چھ نمبر بولنا آ جائے ۔

19) اس کام کی وجہ بصیرت اور استقامت آئے گی۔

20) جب وہ دیکھتا ہے میری نماز ٹھیک ہو گئی، دین ٹھیک ہو گیا تو اب میں کیوں نکلوں؟ اسلئے لوگوں کے سامنے خروج کی اہمیت بتائیں اور تشکیل کریں۔

 

چوتھی نشست(26/05/13)بروز اتوار

پروفیسر عبد العلیم صاحب.                                                  بعد نماز مغرب

وقت: -08:05 سے 09:03

1) دیکھو دو رخ ہیں اس کام کے (الف) نقل و حرکت. (ب) مقام پر رہ کر کام کرنا

2) خروج کا بدل اور کوئی عمل نہیں ہے۔ مقامی کام اس کی بھٹنے . سے حفاظت کرتا ہے۔

جتنا مقامی کام مضبوط ہو گا اتنی ہی نقل و حرکت مضبوط ہو گی۔نفس پر سب سے بھاری مقامی کام ہوتا ہے۔

3) مقامی کام کے لئے مسجد ہونا شرط نہیں ہے۔ فرانس میں درخت کے نیچے کام کیا اور چار ماہ کی جماعت نکالی۔

4) عمومی گشت ریڑھ کی ہڈی ہے۔ بہت سی روحانی بیماریوں کا علاج ہی عمومی گشت ہے۔

5) اگر کوئی عالم کمزوری بتائے تو اسے فوراً قبول کریں دلیل پیش نہ کرے نہ ہی صفائی پیش کریں۔

6) ایک مرتبہ کسی نے کہہ دیا دوبارہ میرے پاس نہ آنا تو پھر اس کے پاس جانا(اور بار بار جانا) اور اس کے پاس جانا نہ چھوڑنا یہ سوچیں کہ وہ آپ ﷺ کا امتی ہے ، اس وجہ سے اس کے پاس جانا۔دل تو اللہ کے قبضہ میں ہے جب چاہے بدل دے۔

7) 70 برس کی دادی اماں ہے اس سے بھی مذاکرہ کرائیں تاکہ وہ بھی اللہ سے ہونے کے بول کو بولتے ہوئے اللہ کے پاس جائے

8) شیر خوار بچہ بھی ہے تو ماں اس کو ساتھ لے کر بیٹھے حالاں کہ وہ سمجھ نہیں رہا ہے مگر تعلیم کا نور اس کے اندر داخل ہوتا ہے۔جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اذان دی جاتی ہے نا ؟ وہ سمجھ نہیں رہا ہوتا ہے مگر اذان دی جاتی ہے۔

 

پانچویں نشست (26/05/13)بروز اتوار

حضرت مولانا سعد صاحب دامت برکاتہم               عشاء بعد حیات الصحابہ

وقت: -11:10 سے 11:26

( حضرت عشاء پڑھا کر اپنے حجرے میں چلے جاتے ہیں جس کا دروازہ مسجد کی تقریباً چوتھی صف میں ہے۔ پھر نمازوں سے فارغ ہو کر آتے ہیں۔ ان کے پیچھے ان کے تینوں بیٹے فرمانبردار بیٹوں کی طرح نہایت ہی ادب سے  حضرت کے پیچھے چلتے ہیں اور حضرت کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں اور آپ بیٹے بھی وہی آس پاس بیٹھ جاتے ہیں۔ ان میں ہر ایک کے پاس کتاب ہوتی ہے۔مولوی سعد صاحب دامت برکاتہم کتاب پڑھتے ہیں اور دونوں بیٹے کتاب کھول کر سنتے ہیں اور پورا مجمع اس منظر کو خوشدلی کے ساتھ دیکھتا ہے اور اور تعلیم سنتا ہے تعلیم سے پہلے حضرت کچھ اہم بات کرتے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں )

1) اس راستے میں آنے والی مشکلوں کو صحابہ کی زندگی میں تلاش کرو۔ جو یہ نہ کرے اس کے اندر استقامت نہیں ہو گی۔

2) لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کام استقبال سے شروع ہوں۔جو لوگ کام کرنے کے لئے حالات کے بدلنے کا انتظار کریں گے تو حالات ان کے لئے کبھی نہیں بدلیں گے۔

(اس کے بعد حضرت نے کتاب پڑھنی شروع کی )

(جاری ہے ……)

٭٭٭

 

 

 

 

فکریئے

 

                ابنِ غوری، حیدر آباد، ہند

 

جنوں…خرد

 

مولوی رام ولاس پاس وان، مولوی رام کرشنا بیگڑے، مولوی اندر کمار گجرال… واہ واہ!

مسٹر……الدین۔ مسٹر……شریف۔ مسٹر……خان……آہ!

٭سمجھے نا آپ!………وہ تو باریش اور یہ بے ریش۔

 

دو نعمتیں

 

اللہ نے ہوا کی نعمت کو اتنا عام کیا ہے کہ کوئی اس سے بچنا چاہے تو بچ نہیں سکتا۔

٭خیر امت کو، دعوت کی محنت اتنی عام کرنا چاہئے کہ کوئی اس سے بچنا چاہے تو نہ بچ سکے۔

 

منہ کی کھائیں گے

 

مکان کی تعمیر میں /بیٹے کی تعلیم میں/بیٹی کی شادی میں/……رکاوٹ معلوم ہوتی ہے ……آپ دور کر دیتے ہیں، ما شاء اللہ!

٭دین پر چلنے میں رکاوٹ معلوم ہوتی ہے ……آپ خاموش رہتے ہیں……انا للہ……

 

کوالٹی

 

ماہر ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا آپ نے استعمال کی لیکن صحت نہیں ہوئی۔ پتا چلا کہ دوا کی کوالٹی ٹھیک نہیں ہے۔

٭آپ عرصۂ دراز سے نمازی اور روزے دار ہیں لیکن آپ میں تقوی پیدا نہیں ہوا! ذرا دیکھیں کہیں آپ کی عبادت کی کوالٹی تو خراب نہیں ہے ؟

 

ندامت بھی نادم

 

بم باری جاری تھی کہ اذان ہو گئی۔ مقامی لوگ مسجد کو جانے لگے لیکن بعض لوگ چائے اور سگریٹ نوشی میں مست تھے حالاں کہ وہ پناہ گزیں تھے، اور اور خشوع خضوع سے منتظر تھے اللہ کی مدد کے !

ع

اس بے حسی پہ کون نہ چلائے اے خدا!

٭٭٭

 

 

خبر نامہ

 

اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰى   26؀

بلاشبہ اس میں نصیحت کا سامان ہے، ان کے لئے جو (اللہ سے )ڈرتے ہیں۔(سورہ ۷۹، النازعات:۲۶)

 

 

                دبئی میں اس سال تقریباً ڈیڑھ ہزار کا قبول اسلام

 

دبئی(ایجنسی، ماہنامہ اللہ کی پکار) متحدہ عرب امارات میں امسال اسلام قبول کرنے والوں کی مجموعی تعداد 1460 رہی۔ اسلام قبول کرنے والے افراد کا تعلق مختلف ممالک سے ہے۔ دبئی کی حکومت کے ذریعے چلائی جانے والی دارالبر سوسایٹی کے اسلامی معلومات مرکز نے اس سلسلے میں جان کاری فراہم کی ہے۔  اطلاع کے مطابق رمضان کے مقدس مہینے میں اسلامی مرکز کے ذریعے سینکڑوں مختلف مقامات پر اجتماعی افطار و عشائیہ کا نظم کیا گیا، جب کہ اس سے متعلق 17 تقریبات کا انعقاد کیا گیا اور غیر مسلموں میں ہزاروں کتابچے تقسیم کئے گئے۔ اس کا نتیجہ تھا کہ غیر مسلموں نے اس سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔ اسلامی مرکز نے اسلام قبول کرنے والوں کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئی بتایا کہ اس سال 1460 افراد مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اسلامی مرکز کے منیجر راشد جنینی نے کہا کہ سوسایٹی نے کامیابی کے ساتھ سیکڑوں لیکچروں کے ذریعے غیر مسلموں میں اسلام کی صحیح تعلیمات پیش کرنے کی سعی کی، جب کہ حق کے متلاشی سیکڑوں افراد یومیہ کی بنیاد پر اسلامی مرکز کا دورہ کرتے رہے۔ سیکڑوں نومسلموں کا تبدیلی مذہب کا سرٹی فیکٹ بھی جاری کیا گیا ہے جبکہ مرکز ایسے افراد کی شادی کا بھی انتظام کر رہا ہے جو کسی مسلم یا مسلمہ سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے متمنی ہیں۔

دبئی میں دار البر کے نام سے 20 سال قبل سوسایٹی قائم کی گئی تھی جس کی کوششوں سے اب تک 20 ہزار سے زائد افراد مشرف بہ اسلام ہو چکے ہیں۔ سوسایٹی کے مطابق 2013ء میں 2115 افراد نے اسلام قبول کیا تھا۔

تبصرہ نگار:آج کل ہر ایک تنظیم کا دعویٰ ہے کہ وہ صحیح کام کر رہی ہے، جبکہ کون کیا کر رہا ہے اور صحیح کر رہا ہے یا غلط، اس کا فیصلہ اللہ عنقریب ہو جائے گا۔

"پھر تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے، اس وقت میں تمہیں بتاؤں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔”(سورہ 31، لقمان: 15)

 

                پیرس حملوں نے شامی صدر پر مغرب کا نظریہ تبدیل کر دیا، پیوٹن

 

منیلا/ماسکو(جنگ نیوز)روس صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ پیرس حملوں نے شامی صدر کے معاملے پر مغرب کا نظریہ تبدیل کر دیاجبکہ امریکی صدر بارک اوباما کا کہنا ہے کہ شام میں امن کے قیام کے لئے داعش اور اسد کا خاتمہ ضروری ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا کہنا ہے کہ ماسکو اب بھی اپنے موقف پر قائم ہے ، شامی صدر بشارالاسدکے بناء شام میں ا من ممکن نہیں اور اس کے علاوہ تنازع کے حل کا کوئی دوسرا راستہ نہیں، دوسری جانب امریکی صدر بارک اوباما نے منیلا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور روس داعش کے ایک بڑا خطرہ تسلیم کر چکے ہیں لیکن شام میں روسی سرگرمیاں اسد کو مزید مضبوط بنانے کے مترادف ہیں، شا م میں باغیوں اور فوج کے مابین روزہ جنگ بندی کے لئے دمشق کے نزدیک مذاکرات کئے گئے ہیں، تفصیلات کے مطابق روس صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ پیرس حملوں نے شامی صدر کے معاملے پر مغرب کا نظریہ تبدیل کر دیا، روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا کہنا ہے کہ ماسکو اب بھی اپنے موقف پر قائم ہے ، شامی صدر بشارالاسدکے بناء شام میں ا من ممکن نہیں اور اس کے علاوہ تنازع کے حل کا کوئی دوسرا راستہ نہیں، دوسری جانب امریکی صدر بارک اوباما نے منیلا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور روس داعش کے ایک بڑاخطرہ تسلیم کرچکے ہیں لیکن شام میں روسی سرگرمیاں اسد کو مزید مضبوط بنانے کے مترادف ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ پیرس حملوں کے بعد گونتامابے کو بند کرنے کے حوالے سے پارلیمنٹ کے دبایو کا سامنا ہے ، انہوں نے یہ اپنے دورہ ملائیشیا کے دوران کولالمپور میں جمہوریت کے فروغ پر زور دیا۔ ادھرشا م میں باغیوں اور فوج کے مابین روزہ جنگ بندی کے لئے دمشق کے نزدیک مذاکرات کئے گئے ہیں۔علاوہ ازیں کینیڈا کے نئے وزیر اعظم جسٹن ٹرُوڈو نے کہا ہے کہ ہم عراق اور شام میں داعش کے خلاف جاری مہم کا اہم حصہ ہیں۔

تبصرہ نگار: فرانس کے حملوں کے بعد ساری دنیا کے مسلمانوں کو ایک نئی دشواری کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ صحافت کے میدان میں باقاعدہ سروے شروع ہیں کہ آیا یہ حملوں کو مسلمانوں کے لئے ایک اور ناین ایلیون ثابت ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ جنگ رپورٹر سید شہزاد عالم کا کہنا ہے پیرس حملوں کا ملبہ جلد یا بدیر مشرق وسطیٰ اور یورپ کے مسلمانوں پر ہی گرے گا جو یورپ اور امریکہ میں مسلمان ہونے کے باعث پہلے ہی مختلف مسائل کا شکار ہیں اور اب ان حملوں کے بہانے مزید پابندیوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔

٭٭٭

تشکر: مدیر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید