FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

راکھ

 

 

                ناصر ملک

 

 

 

ہونٹوں پہ لا کے چوم لیا مصطفیٰ کا نام

تب سے مرے طواف میں رہتی ہے روشنی

 

انتساب

 

اُن دوستوں کے نام جن سے محبت کا رشتہ اُستوار ہوا

حافظ مظفر محسنؔ

سہیل ثاقبؔ

معظم علی اعوان

اور گلریز امر ؔروحانی

 

 

 

غزلیں

 

 

مشاہدانِ رسا! کربِ نارساکوئی ہے؟

عزا نصیب سہی ، فکرِ کربلا کوئی ہے؟

 

وہ العطش کی صدا پھر سنائی دی ہی نہیں

فرات پوچھ رہا ہے،حُسین سا کوئی ہے؟

 

یہ دشت دیکھتا رہتا ہے سرخ مہرِ جبیں

کہ روبروئے خدا،بندۂ خدا کوئی ہے

 

نفس نفس میں شہادت کی جستجوکی دھمال

چراغ بجھ تو چکا ہے مگر اُٹھا کوئی ہے؟

 

رقم ہے فلسفہءِصبر اور بقائے دوام

بجز حسین کے تاریخ میں لکھا کوئی ہے؟

٭٭٭

 

 

 

اپنی تردید کا صدمہ ہے نہ اثبات کا دُکھ

جب بچھڑنا ہی مقدر ہے تو کس بات کا دُکھ

 

اب کوئی اور تمنا ہے عذابِ دل و جاں

اب کسی حرف میں تُو ہے نہ تری ذات کا دُکھ

 

میز پر چائے کے دو بھاپ اُڑاتے ہوئے کپ

اور بس سامنے رکھا ہے ملاقات کا دُکھ

 

مضمحل جسم سے ناراض سرکتی ہوئی شال

کیوں چھپانے سے چھپایا نہ گیا رات کا دُکھ

 

اَب مرے دل میں نہیں تیرے بچھڑنے کی کسک

اَب کے بیگانہ روی میں ہےمناجات کا دُکھ

 

خشک جنگل سے کسی دن تو دھواں اٹھتا ہے

اور جہالت بھی اُٹھاتی ہے فسادات کا دُکھ

 

اتنی چپ چاپ نہ رہ موجِ فراتِ ماضی

تُو نے دیکھا ہے بلکتے ہوئے سادات کا دُکھ

٭٭٭

 

 

 

 

اپنے والد گرامی ‘ ملک محمد بخش ‘ کے نام

 

مری رسائی زمانے تلک پدر سے ہے

مری حیات میں چھاؤں اسی شجر سے ہے

 

ثباتِ ضبط ! کسی شام رُوٹھ جا مجھ سے

کہ میرے غم کی نمو میری چشمِ تر سے ہے

 

وہ حرف حر ف مجھے زندگی سکھاتا رہا

سخن میں جان اُسی درسِ معتبر سے ہے

 

طلسمِ رونقِ دنیا بجھی تو علم ہوا

چراغِ رہ کو بقا بھی تو رہ گزر سے ہے

 

وہ میرا یار تھا، مرشد تھا پیرِ کامل تھا

مری شناخت اُسی صاحبِ نظر سے ہے

٭٭٭

 

 

 

میں سنبھلتا ہوں ، مرا یار مجھے توڑتا ہے

ہاں وہی لہجۂ بیزار مجھے توڑتا ہے

 

شام ڈھلتے ہی سجاتاہوں نگر خوابوں کا

ہر نئی صبح کا اخبار مجھے توڑتا ہے

 

یہ زمانہ تو مجھے توڑ نہیں سکتا مگر

دل کہ اس کا ہے طرف دار، مجھے توڑتا ہے

 

کیوں سناتا ہے لرزتی ہوئی آواز میں گیت

خود بھی تھک جاتا ہے، بیکار مجھے توڑتا ہے

 

سوچ میں گم ہے طلسمِ غمِ دوراں کا عدو

کب تلک میرا سزاوار مجھے توڑتا ہے

 

شوقِ تعمیر میں وہ چاک پہ رکھتا ہے مجھے

زعمِ تسخیر میں ہر بار مجھے توڑتا ہے

 

آنکھ میں تاب و طلب بر سرِ پیکار ہوئیں

یہ تماشا سرِ بازار مجھے توڑتا ہے

٭٭٭

 

 

 

بازیچۂ مقسوم بکھر جائے کسی روز

اس قید سے آگے بھی بشر جائے کسی روز

 

اِس بار محبت میں جنوں گھول دیا ہے

یہ بھوت مرے سر سے اُتر جائے کسی روز

 

یہ شخص تو مظہر ہے فقط غیظ و غضب کا

اللہ! یہ مزدور گزر جائے کسی روز

 

اس خوف سے میں دور تلک چلتا رہا ساتھ

وہ دشت کی وحشت سے نہ ڈر جائے کسی روز

 

خوش فہم ہوں اتنا کہ شبِ ہجر کے ہاتھوں

وہ اپنے عقیدے سے مکر جائے کسی روز

 

ہوتا ہے تہِ آب تماشائے وفا کیش

پاتال تلک تیری نظر جائے کسی روز

 

اس دل پہ نصیحت کا اثر کیا ہو کہ بد بخت

اس بھیڑسے اکتائے تو گھر جائے کسی روز

 

وہ شخص جنونی ہے مجھے مار نہ ڈالے

یا میری محبت میں نہ مر جائے کسی روز

٭٭٭

 

 

 

 

 

برسرِ نامِ خُدا آگ لگا ڈالے گی

اور پانی بھی یہی خلقِ خدا ڈالے گی

 

ایک مدت سے ہے چپ چاپ تماشائی حیات

جب بھی اُکتائی،نیا فتنہ جگا ڈالے گی

 

دیکھنا یہ ہے کہ تہذیب عزا داری میں

کب تلک قبر پہ جائے گی، رِدا ڈالے گی

 

بستیاں چھوڑ کے صحرا میں چلی آ ئی ہے

یہ ہوا نقشِ کفِ پا کو مٹا ڈالے گی

 

جب کوئی لفظ ادا کرنا ضروری نہ رہا

خامشی نغمہ سرائی کی بنا ڈالے گی

 

آخری زُعم سکوتِ شبِ ہجراں کا شہید

یہ حسینہ بھی کسی روز بھلا ڈالے گی

 

ناصرؔ اچھا ہے کڑی دھوپ کا عادی ہونا

ورنہ یہ چھاؤں کی خیرات جلا ڈالے گی

٭٭٭

 

 

 

عمر بھر کوئی بھی احسان نہ کرتے مجھ پر

میرے احباب مگر ایسے نہ ہنستے مجھ پر

 

فیصلہ کرتے ہوئے خوش تھا تو خوش ہی رہتا

اس کی آنکھوں سے کبھی اشک نہ گرتے مجھ پر

 

تم بھی مقتل میں چلے آتے تو اچھا ہوتا

چند احسان تمہارے بھی تو ہوتے مجھ پر

 

لوگ بے رحم تھے الزام مجھے دیتے رہے

تیرے ہاتھوں کے یہ پتھر تو نہ آتے مجھ پر

 

کتنا مشکل تھا نبھانا جو نبھا آیا ہوں

اس تعلق نے کئی ہاتھ اٹھائے مجھ پر

 

ایک دیوار سے مانگا تھا گھڑی بھر سایہ

اس نے پھینکے ہیں بھڑکتے ہوئے شعلے مجھ پر

 

میری رگ رگ میں سمایا ہے مرا فکرِ حلال

ورنہ اشعار تواتر سے اترتے مجھ پر

٭٭٭

 

 

 

تم کسی آنکھ کو جگنو یا ستارا کرتے

تیرہ بختی میں تمہیں لوگ پکارا کرتے

 

ہر جلے گھر سے اُبھرتی ہے المناک صدا

کیا ہی اچھا تھا، تماشائی کنارا کرتے

 

زندگی ایسی نہ ہوتی کہ ترے بعد بھی ہم

صبر کرتے ہوئے جی لیتے گزارا کرتے

 

ایسے اُکتائے ہوئے وصل سے بہتر تھا ہمیں

پیچ و خم کاکلِ ہجراں کے سنوارا کرتے

 

تُو جو یک مشت ہمیں دُکھ سے شناسا کرتی

زندگی! تجھ کو بھی قسطوں میں نہ مارا کرتے

 

کوئی بھی بارِ انا تھا نہ شکایت تھی مجھے

تم مگر ہاتھ سے رُکنے کا اشارا کرتے

 

تُو اگر سر بہ فلک تھا تو اُجالا دیتا

ہم سرِ شام تجھے چھت پہ اُتارا کرتے

٭٭٭

 

 

 

کربِ آدم سے نگہ پھیر کے دم سادھے ہوئے

زہر لگتے ہیں مجھے لوگ دعا دیتے ہوئے

 

کتنا کمزور تھا میں روک نہ پایا جو اُسے

ہائے میں آج بھی زندہ ہوں اسے بھولے ہوئے

 

میری پرواز کو حاصل ہے مری تابِ خیال

مجھ کو آکاش پہ جانا ہے یہاں رہتے ہوئے

 

میرے الفاظ لیے سانس تہِ آب گئی

ہو گئی وہ بھی گلو گیر جدا ہوتے ہوئے

 

وحشتِ حلقۂ تسخیر! ترے ہاتھ جلیں

ہو گیا دور مرا یار گلے ملتے ہوئے

 

چل پڑے درد مرے ساتھ بڑی بات نہ تھی

یہ بڑی بات کہ میں جھیل گیا ہنستے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

ہر شخص کسی اور کے پاؤں پہ کھڑا ہے

یہ شہر حوادث کی بناؤں پہ کھڑا ہے

 

غیرت نے اٹھائے ہیں جنازوں پہ جنازے

آسیب کہ مرتے ہوئے گاؤں پہ کھڑا ہے

 

اب مجھ کو تمنائے ملاقات بھی کیا ہو

وہ اور ہے جو تیری صداؤں پہ کھڑا ہے

 

اِترائے بھی کیا اپنی مسافت پہ ستم گر

یہ عشق جو چند آبلہ پاؤں پہ کھڑا ہے

 

دہلیز پہ ٹھہری ہوئی شب! دیکھ لے گھر میں

اس شام کا سورج بھی دعاؤں پہ کھڑا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اُس حسنِ مکمل کی اجازت سے چُنے ہیں

یہ پھول کہاں ہم نے بغاوت سے چُنے ہیں

 

شاہوں کی شجاعت سے نہ مرعوب کوئی ہو

تاریخ نے قصے تو ضرورت سے چُنے ہیں

 

مارا نہ اُسے قید کیا جیت کے ہم نے

کچھ زخم فقط مالِ غنیمت سے چُنے ہیں

 

حالات ہنر بخش رہے مجھ پہ ہمیشہ

کچھ خار بچھڑنے کی اذیت سے چُنے ہیں

 

فیضان مجھے ہجر کی راتوں سے ملا ہے

یہ لمحے کہاں تیری رفاقت سے چُنے ہیں

 

اس تشنہ مزاجی میں کچھ ایسا تھا کہ ہم نے

دیوار میں پتھر بھی محبت سے چُنے ہیں

 

ہم اتنے گئے گزرے ہوئے لوگ کہ ہم نے

مقتل بھی خداؤں کی مشیت سے چُنے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

دستکیں اتنی زیادہ ہیں کہ ڈر لگتا ہے

ذہن گویا کسی مقروض کا گھر لگتا ہے

 

میرے آنگن میں کڑی دھوپ سے لڑنے والا

ایک نادان ساپودا ہے ، شجر لگتا ہے

 

تلخیاں بھول ہی جاتی ہیں سرِ راہِ جنوں

جب کبھی نخلِ تمنا پہ ثمر لگتا ہے

 

آخرش ترکِ مراسم نے شفا یا ب کیا

اب کے تریاق بڑا زود اثر لگتا ہے

 

ہاتھ میں تھامی ہوئی فردِ گنہ بول پڑی

کب بھلا ایسے درختوں پہ ثمر لگتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میں زمیں زاد ، وہ تقدیسِ فلک، سمجھے بھی

مجھ کو سمجھائے بہت دیر تلک ، سمجھے بھی

 

میری سچائی گواہوں کی فراست میں نہیں

یہ زمانہ مرے لہجے کی کھنک سمجھے بھی

 

آشنا ہے تو اذیت سے نکالے مجھ کو

ایک لمحے کو مرے دل کی کسک سمجھے بھی

 

وہ مری چشمِ تحیر کا گلہ کرتا رہا

اپنے آنچل کی طلسماتی دھنک سمجھے بھی

٭٭٭

 

 

 

ہمارا قتل بالرضا؟ نہیں ، ابھی نہیں ہوا

کسی بھی بے قصور کا؟ نہیں ، ابھی نہیں ہوا

 

وہ ضامنوں کے درمیاں ہمارے قتلِ عام کا

ہوا ہے کوئی فیصلہ؟ نہیں ، ابھی نہیں ہوا

 

متاعِ دل سنبھالنے کے روگ میں ہوا کبھی

یہ نخلِ جاں بھی کھوکھلا؟ نہیں ، ابھی نہیں ہوا

 

کھڑی ہے میرے بام پر یہ سوگوار سی کرن

ہوا ہے کوئی سانحہ ؟ نہیں ، ابھی نہیں ہوا

 

بچھڑ کے تجھ سے وہ نئی مسافتوں کے شوق میں

کسی کے ساتھ ہو گیا؟ نہیں ، ابھی نہیں ہوا

 

بجھی بجھی سی رات میں چراغِ جاں نے کر لیا

ہوا سے طے معاملہ؟ نہیں ، ابھی نہیں ہوا

 

بھلا کہیں مفاہمت کے پیڑ پر ثمر لگے؟

کسی کو فائدہ ہوا؟ نہیں ، ابھی نہیں ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جانا ہے تجھے بھی تو اسی وقت بچھڑ جا

جی لوں گا کسی طور مَیں کم بخت بچھڑ جا

 

دو راہا غَلَط فہمی کے باعث نہیں آیا

سینچی ہے مری سوچ نے حد بست بچھڑ جا

 

مرنا ہے مجھے آج بغاوت کی بنا پر

جینا ہے تجھے وقت کے ماتحت ، بچھڑ جا

 

کیا یاد تجھے ہے کہ کبھی میں نے کہا تھا

یہ حبس کا موسم ہے بڑا سخت ، بچھڑ جا

 

ٹکڑوں میں سنبھالوں گا بھلا کیسے میں خود کو

احسان ترا ہو گا کہ یک لخت بچھڑ جا

 

افلاس زدہ لوگ نہ سمجھیں گے مری بات

انسان پہ بے فیض ہوا تخت ، بچھڑ جا

 

یہ دشت کبھی تجھ سے نہ سر ہو گا یقیناً

اچھا ہے کہ چپ چاپ اُٹھا رخت ، بچھڑ جا

٭٭٭

 

 

 

 

سوچ اِن فرقہ پرستوں سے الگ طور کی ہے

دشمنی میری خداؤں سے الگ طور کی ہے

 

میں نے اپنے ہی طریقے سے گزاری ہے حیات

میری پہچان بھی یاروں سے الگ طور کی ہے

 

عکس ایسا ہے کہ آنکھوں میں سمٹتا ہی نہیں

گویا تصویر بھی رنگوں سے الگ طور کی ہے

 

کوئی اس شخص کو مارے نہ اُسے قید کرے

آخری جنگ اصولوں سے الگ طور کی ہے

 

اس ہیولے کی سلگتی ہوئی سسکی کو بجھا

تیرگی ہجر کی راتوں سے الگ طور کی ہے

 

تجربہ کیجے کہ یہ عشق لکھی بات نہیں

اس کی تاریخ کتابوں سے الگ طور کی ہے

 

تم مرے ضبط کو دیکھو گے زمانے سے الگ

ہاں مری بھوک بھی لوگوں سے الگ طور کی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بندہ پرور! یہاں آپ ہی کی گواہی سے میں بچ گیا، آپ کا شکریہ

"فاترالعقل ہے، چھوڑ دیجے اسے” آپ نے بھی کہا ،آپ کا شکریہ

 

شعر کہتے ہوئے اشک روکے مگر اپنی آواز پر قابو پا نہ سکا

جو کہا، سو کہا، میں جو کہہ نہ سکا، آپ نے سن لیا، آپ کا شکریہ

 

آخرش چل پڑا جگنوؤں کے تعاقب میں تیرہ شبی کا فسوں دیکھیے

محوِ نظارہ ہے چشمِ حیرت فشاں شبنمی سی فضا، آپ کا شکریہ

 

ہجرتوں کا تقاضا یہی ہے کہ بارِ متاعِ دل و جاں اُتاروں یہیں

اس خزاں دیدہ سے آپ نے بھی کنارا اگر کر لیا، آپ کا شکریہ

 

انتظارِ ملاقات میں رقص کرتے ہوئے زندگی کو گزاروں گا میں

ایک عہدِ ملاقات کا شکریہ، آپ کا شکریہ ،آپ کا شکریہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

بر سرِ آشفتگی ہے ماجرائے سوختہ

اک تماشائے جنوں ہے انتہائے سوختہ

 

اک صدائے العطش نے بھید کھولے ہیں سبھی

ایک دریا بہہ رہا ہے ماورائے سوختہ

 

عمر بھر منظور تھی جلتے چراغوں کے لیے

رفعتِ شعلہ نوائی کو بقائے سوختہ

 

لکھ چکا ہے وقت بابِ مرقدِ تہذیب میں

آتشِ تر دامنی سے افترائے سوختہ

 

کربِ عصیاں مضطرب پیشانیوں سے جھڑ چکا

معبدوں میں اُڑ رہی ہے خاکِ پائے سوختہ

 

ابرِ باراں کی سخاوت پر دل و جاں ہیں نثار

چند بوندیں ڈھونڈ لایا ہے برائے سوختہ

 

کیا طلسمِ جاں کنی تھا لرزۂ ماہِ تمام

اک فغاں دریا سے پھوٹی، شعلہ ہائے سوختہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

خود سے ہی برسرِ پیکار اُٹھائی تم نے

ایک آواز جو اُس پار اُٹھائی تم نے

 

جرم کر لوں تو معافی کے لیے پاؤں پڑوں

بے سبب حشر کی تلوار اٹھائی تُم نے

 

ایک مدت کا سفر مُجھ کو یہاں لایا تھا

ایک لمحے میں یہ دیوار اُٹھائی تم نے

 

کون کہتا ہے پلٹ آنے میں توقیر بچی؟

اب کے تکلیف تو بیکار اُٹھائی تم نے

 

ایک لمحے کے تغافل سے خد و خال گئے

یہ ہزیمت میرے معمار! اُٹھائی تم نے

٭٭٭

 

 

 

 

جاگتے شہر میں خواب گلیوں میں ہیں

کیا ہوا ہے کہ مہتاب گلیوں میں ہیں

 

خوابگاہوں میں ہیں بے صدا سسکیاں

چیختے ہوئے مضراب گلیوں میں ہیں

 

کیوں تکلف بسر دل نشیں ہو گیا

اور کیوں دل کے اصحاب گلیوں میں ہیں

 

آئینے سے تجھے پوچھنا بھی ہے کیا

اک نظر دیکھ بے تاب گلیوں میں ہیں

 

کس نے دو نیم کر کے بکھیرا سخن

لفظ بازار، اعراب گلیوں میں ہیں

 

اک جبیں کے لیے اہتمامِ نماز

کتنے منبر و محراب گلیوں میں ہیں

 

گھر غلافوں میں ہیں اور آباد ہیں

اعتراض اور ایجاب گلیوں میں ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

سانس تو سانس کی تلافی ہے

یہ مَسافت مگر اضافی ہے

 

لکھ دیا زندگی کے بارے میں

اِس کا ہر نوٹ اختلافی ہے

 

مَرکزیت زمیں کو حاصل ہے

باقی جو کچھ ہے سب غلافی ہے

 

کچھ نہیں ہے خلا کے اندر، بس

اک وِچھوڑا ہے اور کافی ہے

 

کیوں مگر بولتے ہوئے مجھ پر

تیرا لہجہ ترا منافی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

(عاطف مرزا کے نام)

 

کیا کوئی بھولے ہوئے روگ اُچھالے جائیں

ناصر اِس عمر میں دُکھ اپنے سنبھالے جائیں

 

کیا خبر در بدری میں یہ بگولے آ کر

بھربھری ریت سے ہر نقش اُٹھا لے جائیں

 

باز آیا میں خریداریِ جنت سے کہ آپ

یہ دکاں بند کریں ، اپنا خدا لے جائیں

 

اتنے بے زعم کہ ہر روز بلا جبرِ سراج

اک سیہ رات کی جانب یہ اُجالے جائیں

 

عاطفِ دل زدگاں ! اتنی ہی تاخیر بہت

اب تو یہ عکسِ  تہِ آب چھڑا لے جائیں

٭٭٭

 

 

 

 

عجیب کر ب سا تحلیل قہقہے میں ہے

وہ بولتے ہوئے لگتا ہے رت جگے میں ہے

 

حیات جبر ہے، اچھا ہے موت آ جائے

اگر بقا بھی مری یار چھوڑنے میں ہے

 

اُمید ٹو ٹ ہی جاتی مگر ہوا بولی

یہ در کھلا ہے کہ مہمان راستے میں ہے

 

مجھے نکال کے یہ داستاں لکھی اُس نے

یوں میرا نامۂ اعمال حاشیے میں ہے

 

بچھڑ گیا ہے وہ مجھ سے مزے کے مو سم میں

مزے کی با ت ہے وہ ان دنوں مزے میں ہے

 

کوئی تو با ت ہے جو میں اُسے بھلا بیٹھا

کوئی تو با ت ہے کہ وہ بھی حوصلے میں ہے

 

میں ٹوٹتی ہوئی سانسوں سے جیت جا تا ہوں

یہ کیسا فیض مسیحا کے تھامنے میں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جو تلخیِ زوال سے اٹھی نوا بکف ہوا

دمِ فراق مجھ سے آ ملی صدا بکف ہَوا

 

زعیمِ حسن کو طلب تھی داستاں طراز کی

اُسی کی سمت شوق سے چلی نوا بکف ہَوا

 

عفونتِ غنیمِ امن بیچنے کو شہر میں

چلی ہے زہر میں بجھی ہوئی فنا بکف ہَوا

 

کسی کا حال پوچھنا بھی کارِ بد ہوا یہاں

نفس نفس رچی ہوئی ہے یوں اَنا بکف ہَوا

 

میں خوشبوؤں سے بھاگتا ہوں اس لیے بھی اِن دنوں

کہ سانس ہی کچل نہ دے کہیں عصا بکف ہَوا

 

چھپے ہوئے ہیں لوگ ایک دوسرے کے خوف سے

لرز رہی ہے سر زمیں زدِ بلا بکف ہَوا

 

یہاں کوئی شگاف زن بھی درمیاں نہیں رہا

سکوتِ شب سے ہم کلام ہے ندا بکف ہَوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

جانے کس دستِ ہنر کیش سے میں لکھا گیا

ہاں وہی گیت جو تجھ سے بھی نہیں گایا گیا

 

جس پہ جھپٹے ہیں مرے شہر کے مفلس زادے

حکمرانوں سے وہی لقمہ نہیں کھایا گیا

 

ایک ہچکی میں ہوا عمرِ گزشتہ کا حساب

ایک منظر کو کئی سال میں فلمایا گیا

 

حبس ایسا کہ اجل بام پہ رک جاتی ہے

ایسے حالات میں انسان مگر بھیجا گیا

 

کسی خود کش نے مری قوم کا منشور لکھا

قسط دَر قسط اسے کاٹا گیا ، مارا گیا

 

پہلے میں لائقِ تعزیر ہوا آنے پر

پھر اُسی شہر سے جاتے ہوئے کل روکا گیا

 

میری پہچان عداوت کے قفس میں ہوئی

توڑ کر دیکھا گیا، چھوڑ کے جھٹلایا گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

سجدۂ سہو کو پھر تابِ جبیں دی جائے

اب رعایت تو بہر حال نہیں دی جائے

 

بند کوچوں پہ ملامت کا اثر کیا ہوگا

با مِ احساس پہ دستک تو کہیں دی جائے

 

اس زمانے کو غریبوں نے لہو بیچ دیا

اجرتِ خون اسی وقت یہیں دی جائے

 

گھر بنانے کی سکت دستِ بریدہ میں نہیں

بس مری قبر کو تھوڑی سی زمیں دی جائے

 

یہ ریاست کا فریضہ ہے کہ ہر قا تل کو

قتل کرتا ہے جہاں ، موت وہیں دی جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

میں چل رہا ہوں ابھی الٹی سمت الٹے پاؤں

ہوا بھی ساتھ چلی، الٹی سمت الٹے پاؤں

 

نہ بھاگ وند نظر میں ، نہ لوٹنے کی خبر

چلی تھی بھاگ بھری، الٹی سمت الٹے پاؤں

 

رواں دواں ہے یہاں زندگی ازل تا ابد

یہ تم نے خوب کہی، الٹی سمت الٹے پاؤں

 

قدم قدم پہ عذابِ الیم حائل تھا

مگر وہ چلتی رہی، الٹی سمت الٹے پاؤں

 

تھا روبروئے اجل عشق سینہ تانے ہوئے

حیات پیچھے مڑی ، الٹی سمت الٹے پاؤں

 

ادھر ہے دشت کوئی یا قتیلِ شب کا مزار

گزر چکے ہیں کئی الٹی سمت الٹے پاؤں

 

چلے ہیں اگلے پڑاؤ کی سمت خانہ بدوش

مگر جو گرد اُٹھی، الٹی سمت الٹے پاؤں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بات سے بات مَیں نکالوں تو ؟

اور پھر قہقہہ اُچھالوں تو ؟

 

تیرا مذہب خفا نہیں ہو گا

ایک لقمہ اگر اُٹھا لوں تو ؟

 

آدھا جملہ سنبھال پاؤ گی

آدھا جملہ اگر چھپا لوں تو ؟

 

پھر تمہیں چائے پر بلاؤں گا

ایک چھوٹا سا گھر بنا لوں تو

 

اے محبت! تجھے بُرا نہ لگے

چند لقمے اگر کما لوں تو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

فقط وہی تو لکھی ہے مری لکیروں میں

کٹی جو عمر مری حرف کے عذابوں میں

 

دھنک سے روٹھے ہوؤں کا یہی تقاضا ہے

چلے بھی آؤ کبھی تم اداس لوگوں میں

 

لٹیں گے لوگ تمام عمر جس کہانی پر

فقط اُسے ہی لکھا جائے گا نصابوں میں

 

مرا خلوص مجھے ہارنے نہیں دیتا

کبھی وہ جیت بھی جائے اگر دلیلوں میں

 

میں اشک اشک بکھرتا ہوا مسافر تھا

میں بٹ چکا ہوں محبت کی داستانوں میں

 

کسی کو قتل پہ مسند نشین کرتے ہوئے

کسی کی لاش کو رکھا گیا سلاخوں میں

 

وہ جس میں وحدتِ ملت کا راز مخفی تھا

کتاب بند پڑی ہے ابھی غلافوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

یہ اقتدار کا نشہ اُترنے والا ہے

ترا تماش، ترا گھر، بکھرنے والا ہے

 

فقیر منش ڈرے گا بھلا کہاں تجھ سے

یہ اپنے غیظ و غضب ہی سے ڈرنے والا ہے

 

دِکھا چکے ہو نوالے بصارتوں کو مری

اسی سراب سے فتنہ اُبھرنے والا ہے

 

جواز ڈھونڈ تو لائی ہو بے وفائی کا

بھلا یہ زخم کسی طور بھرنے والا ہے؟

 

ٹپک رہا ہے مرا فاقہ مست کسبِ حلال

جو تیرے پرچموں کو سُرخ کرنے والا ہے

 

یہ دھول ہوتی مسافت ہے قافلے کا نصیب

یہ اپنے آپ سے آگے گزرنے والا ہے

 

میں جانتا ہوں زمانے تری جہالت کو

مرا شعور مرے ساتھ مرنے والا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بے حسی ہے، بے بسی ہے، بے کلی ہے

زندگی میں پھر بھی کتنی دل کشی ہے

 

ایک پسپائی سے ٹوٹا ہوں مَیں ایسے

درد تو جو ہے سو ہے، اک بوجھ بھی ہے

 

چونک اُٹھتا ہوں نجانے کیوں ابھی تک

جب صدا کوئی اُبھرتی ہے، ‘ کوئی ہے؟ ‘

 

حاجتیں دل سے بھی آگے چل رہی ہیں

یہ محبت تو یقیناً آخری ہے

 

راستوں کی بے ثباتی بھی بجا تھی

مجھ کو ٹھوکر میرے سائے سے لگی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تعریضِ خلا چشم براہی کو بہت ہے

دُشمن ہی مری پشت پناہی کو بہت ہے

 

تسلیم کیے میں نے سبھی تیرے بہانے

یہ اشک ترے دل کی گواہی کو بہت ہے

 

اِک دیپ سرِ شام تمنائے ملاقات

یہ زادِ سفر ہجر میں راہی کو بہت ہے

 

اب کتنے جواز اور ستم گار تراشے

خاموش لبی عذرِ گناہی کو بہت ہے

 

بے خوف چلا آگ کے دریا سے نمٹنے

اِک شوقِ شہادت ہی سپاہی کو بہت ہے

 

کارندۂ سرکار ہنسا حکمِ شَہی پر

تضحیک یہی ظلِ الٰہی کو بہت ہے

 

اسباب کا ہر باب یہیں ختم ہوا تھا

مفلوک سرشتی ہی تباہی کو بہت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

مرا خلوص، کوئی مجھ سے اجنبی نہ رہا

مرا نصیب، مرے پاس اِک وہی نہ رہا

 

قبائے شب سے لیا تھا چراغِ شب کے طفیل

کوئی شرر کہ جسے خوفِ تیرگی نہ رہا

 

غمِ حیات! مجھے غم ہے پائمالی کا

جو سربُریدہ ہوئے، زعمِ خود سری نہ رہا

 

سرشت اُس کی بدل جائے گی محبت میں

مجھے یہ وہم کسی حال میں کبھی نہ رہا

 

ستم ظریفیِ ترکِ تعلقات بجا

کہ زندگی تو رہی شوقِ زندگی نہ رہا

 

یہ چمنیوں سے نکلتا ہوا لہو سا دھواں

اُجاڑ دیکھتی آنکھوں میں اشک بھی نہ رہا

 

مہیب قحط پڑا ہے خدا کی بستی میں

سبھی روانہ ہوئے قافلے، کوئی نہ رہا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اک ملاقات چلو حسبِ ضرورت کر لیں

دل کے بہلانے کو اقرارِ محبت کر لیں

 

اتنے بے حس ہیں کہ سوچا ہی نہیں آج تلک

راہِ بے فیض سے ہٹ جائیں ، بغاوت کر لیں

 

آخری سانس تو پاکیزہ فضاؤں سے ملے

اب تعفن سے نکل جانے کی ہمت کر لیں

 

ابرِ نیساں ! تُو کہیں دُور سمندر پہ برس

ہم وہ کج رَو ہیں جو نعمت کو بھی آفت کر لیں

 

خانقاہوں سے نکل آئیں خریدارِ دُعا

گھر میں بیٹھے ہوئے ماں باپ کی خدمت کر لیں

 

ہم تو خود سر ہیں خلاؤں سے گزر جاتے ہیں

آسماں چُھو لیں اگر چھونے کی نیت کر لیں

 

اس زمانے سے تو کچھ ہم کو سکھایا نہ گیا

اَب کسی بھٹکے ہوئے شخص کی بیعت کر لیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اُلجھن میں پڑا ہوں مَیں نہ بہکایا ہوا ہوں

بس تجھ کو مناتے ہوئے اُکتایا ہوا ہوں

 

ہر درد نے مہمیز کیا میرے ہنر کو

اک تیرے تغافل سے ہی گہنایا ہوا ہوں

 

تشخیص نہ کر پایا زمانہ میرے غم کی

بکھرایا گیا ہوں میں کہ مرجھایا ہوا ہوں

 

اُس لمس کے ہیجان سے جاگی ہے تمنا

اُس لمس کے فیضان سے مہکایا ہوا ہوں

 

کچھ اور نہیں ، ایک تری دید کا جادو

اس بزمِ تحیر میں تو مَیں آیا ہوا ہوں

 

میں دشت سے نکلا ہوں ، مجھے پانی پلاؤ

اک عمر سے بے فیض ہوں ، ترہایا ہوا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

نموئے عشق کے لیے یہ بات ٹھان لی گئی

کسی کی سا نس لی گئی، کسی کی جان لی گئی

 

یہ دشمنی تھی پیڑ سے نہ حدتوں کا شوق تھا

بس اُس کی ذات کے لیے یہ دھوپ تان لی گئی

 

سمجھ نہیں سکا تری عنایتوں کا ماجرا

جو لفظ دے دیے گئے تو کیوں زبان لی گئی

 

مرا تمام زندگی یہی چلن رہا کہ جو

مزاج کو پسند تھی ، وہ بات مان لی گئی

 

سوائے چند آنسوؤں کے کیا ملا ہے آج تک

جنوں میں دشتِ زندگی کی خاک چھان لی گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دل کرب کٍ                  ے عالم میں دھڑکتے ہوئے لرزے

جب اشک کسی آنکھ سے نکلے ہوئے لرزے

 

حالات ، کہ ہارے ہوئے جملے سے عیاں ہیں

آواز ، کہ ترجیح بدلتے ہوئے لرزے

 

اک خار، بس اِک خار چبھا تھا مرے دل میں

جب ہاتھ بھکاری کے سمٹتے ہوئے لرزے

 

اک ہجر بکف شعر ہوا اور اچانک

اوراق مری میز پہ بکھرے ہوئے لرزے

آغوش میں ہر ماں کی تحفظ ہے بلا کا

جاگے ہوئے لرزے ہیں نہ سوئے ہوئے لرزے

 

مضبوط رہے صدیوں سفر کرتے ہوئے ہم

دو گام مگر تجھ سے بچھڑتے ہوئے لرزے

 

کافی ہے یہی زادِ سفر دل زدگاں کو

دو ہونٹ محبت سےمکرتے ہوئے لرزے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بھلا رِدائے شب سَروں پہ کب تلک تنی رہے

مگر زعیمِ وقت سے فقیر کی ٹھنی رہے

 

سدا جسے وفورِ شوق سے میں سینچتا رہا

دُعا ہے اُس وفا شعار میں فروتنی رہے

 

یہ خام سی طلب حیات میں رَچی ہے اِن دنوں

ثباتِ جاں کے ساتھ ساتھ اب کے پَر زنی رہے

 

ہوئی ہے مالامال جو عطائے ذوالجلال سے

یہ مامتا کی جُود ہے ، ہری بھری گھنی رہے

 

میں جی رہا ہوں اس نگر میں عرصۂ دراز سے

جہاں قدم قدم پہ اضطراب و جاں کنی رہے

 

عجیب حالِ فاقہ مست ہے مظاہر الجنوں

یہ بوریا نشیں ازل سے دل کے بھی غنی رہے

 

مرا مقام ہو گیا ہے مجھ سے بھی بلند تر

بنی ہوئی ہے اِن دنوں ، خُدا کرے بنی رہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

مجھ کو جانا ہے بہت دور تلک ، جانے دو

میں بھی انسان ہوں مقدور تلک جانے دو

 

حرص اتنی بھی تمہیں راس نہیں آئے گی

چند لقمے کسی مزدور تلک جانے دو

 

پا بہ زنجیر ہوں ، اتنی سی رعایت تو ملے

میرے افکار کو منشور تلک جانے دو

 

ابتلائے غمِ بے کس کا نظارا ہو گا

حاکمِ وقت کو مجبور تلک جانے دو

 

نسلِ نو مانگتی ہے تخت نشینی ہم سے

اس مسیحائی کو ناسور تلک جانے دو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

عصمتِ فتحِ بقا زیرِ نگیں کو چھو کر

گویا اقرار کو جینا ہے ‘نہیں ‘کو چھو کر

 

پی گئی تاب و تپش لاکھوں جنوں زادوں کی

کون دیکھے گا مگر ظرفِ زمیں کو چھو کر

 

حدتیں مانگ رہا تھا جو بدن کی مجھ سے

رُک گیا ہاتھ مری سرد جبیں کو چھو کر

 

ایک نقطے میں سمٹ آئے جہاں دار تو پھر

آسماں پھیل گیا خاک نشیں کو چھو کر

 

لمس تریاق سرِ خوابِ تمنا تھا مگر

نیند بھی ٹوٹی لبِ ماہ جبیں کو چھو کر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نیند سے جاگے ہوئے دیکھ ہی لیں گے رسماً

ہم بھی زندہ ہیں ، اُسے اتنا کہیں گے رسماً

 

جب ترازو میں مراسم کو رکھا جائے گا

ہم بھی اَوروں کی طرح چائے پئیں گے رسماً

 

کب تلک حیرتِ ہویت میں بسر ہوتی رہے

کب تلک ہم بھی زمانے سے ملیں گے رسماً

 

مے کدہ جاگتا رہتا ہے سحر ہونے تک

داستاں خواب طرازوں کی سنیں گے رسماً

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کسی کی سوچ کو دل سے نبھایا جائے گا

ہمارے ہاتھ کا لکھا مٹایا جائے گا

 

بتا رہا ہے ترا طرزِ حکمرانی مجھے

کہ خون بیچ کے لقمہ کمایا جائے گا

 

مرا وسیب اندھیرے تلاش کرتا ہے

ہر اِک چراغ سے چولھا جلایا جائے گا

 

سنپولیوں میں بھرا جا چکا ہے زہرِ حرام

کہ اگلی نسل کا بھٹہ بٹھایا جائے گا

 

کسی خیال سے مسمار کر دیا گیا ہوں

کسی یقین سے مجھ کو بنایا جائے گا

 

یہ حکم ہے کہ میں اپنے خلاف بول پڑوں

مرا شعور سرِ دار لایا جائے گا

 

مرے گناہ پہ دشمن کی داد کا مطلب

مرے گھرانے کو نیچا دِکھایا جائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

آخری رات، رات تھوڑی ہے

فرد عائد ہے بات تھوڑی ہے

 

کیا ملے گا کہ بار بار آؤں

یہ گلی سومنات تھوڑی ہے

 

سیکڑوں راستے نکلتے ہیں

یہ ملاقات گھات تھوڑی ہے

 

نامرادی ہے نامرادی مگر

برسرِ شش جہات تھوڑی ہے

 

تیری ہستی سمیٹ لے مجھ کو

تُو مری کائنات تھوڑی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

وصل کی پہلی گھڑی بَس بِنائے شوق بَس

ہجر میں جلنا مرا اِنتہائے شوق بَس

 

سانس کا بوجھ اور آگے موت کا جامِ فرار

آدمی تو زندگی بھر اُٹھائے شوق بَس

 

اور کتنی بار میں حالِ دل اُس سے کہوں

ہے بھی کیا اَب؟ کھا گئی سب بلائے شوق بَس

 

تم کہ اَب بھی خوش گماں ، خوش گمانی میں رہو

یہ پذیرائی مگر ماورائے شوق بَس

 

ساغرِ چشمِ رضا ڈوبتوں کی سلطنت

ایک بار ان کا اُبھرنا رضائے شوق بَس

٭٭٭

 

 

 

 

کپکپاتی ہوئی صدا ‘ ماتم ‘

ہائے! پھر بھی نہیں ہوا ماتم

 

بَین ، ہنگامہ گیر سناٹا

اَشک ، خاموش چیخ کا ماتم

 

جیسے تیسے گزر گئی اپنی

کس لیے اب کے روکنا ماتم

 

چُپ! بساطِ الم سمیٹ اپنی

بس! بہت ہو گیا مرا ماتم

 

لفظ صبرِ عظیم کی تفسیر

چودہ صدیوں پہ پھیلتا ماتم

 

زندگی! تُو پلٹ نہ پائے گی

ہاں ! ترا بھی تو ہو چکا ماتم

 

مسخرہ ٹوٹ کر بکھرتا گیا

ماتمی کر نہیں سکا ماتم

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

خاموش لبی تیری خرافات پہ یوں ہے

اک ردِّ عمل شورِ مراعات پہ یوں ہے

 

میں آج غمِ عصر سے بیگانہ کھڑا ہوں

احسان ترے دُکھ کا مری ذات پہ یوں ہے

 

چنتا ہوں میں ہر آنکھ سے اشکوں کے جواہر

ایمان مرا کارِ مناجات پہ یوں ہے

 

پتھرائی ہوئی آنکھ میں شکوہ نہ تغافل

حیران کوئی شورشِ صدمات پہ یوں ہے

 

سو جاؤں گھڑی بھر کو مگر خواب نہ دیکھوں

یہ ہجر تو مائل بھی رعایات پہ یوں ہے

 

پیروں میں مسلتا ہوں بدن اور ہنر مَیں

اک رقصِ جنوں خیز کمالات پہ یوں ہے

 

چپ چاپ، کسی سوچ میں گم اور فسردہ

وہ میرے تقاضائے ملاقات پہ یوں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ چاروں سمت جو ساگر دکھائی دیتا ہے

یہ میرے کرب کا دفتر دکھائی دیتا ہے

 

عجیب خامشی دھڑکن کی بے بسی میں ملی

عجیب رقص کہ شب بھر دکھائی دیتا ہے

 

ہر ایک حرف کی نیلی ہوئی ہے پیشانی

صدا کے ہاتھ میں خنجر دکھائی دیتا ہے

 

نجانے کیسی تھکن کو سمیٹ لایا تھا

کہ اپنے صحن میں بے گھر دکھائی دیتا ہے

 

کوئی تو گھیر کے مجھ کو کھڑا ہوا ہے یہاں

کوئی تو ہے مرے اندر دکھائی دیتا ہے

 

تو میری آنکھ سے آگے نہ جا خدا کے لیے

کہ آگے موت کا بستر دکھائی دیتا ہے

 

یوں میرے یار کی محفل سجی ہے تاروں سے

کوئی نہیں ہے جو کم تر دکھائی دیتا ہے

 

تمام دن وہ مجھے کیوں نظر نہیں آتا

جو بند آنکھ سے شب بھر دکھائی دیتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میں چلتا ہوں مگر اطراف کے منظر رُکے ہیں کیا ؟

مرے نقشِ کفِ پا مجھ سے آگے چل رہے ہیں کیا ؟

 

سہارے پر بھروسہ ہے تو پھر یہ کشمکش کیسی

تمہارے پاؤں میں پچھلےسفر کے آبلے ہیں کیا ؟

 

تم اپنے لمس کی خوشبوئیں رکھ جاتی ہو کمرے میں

تمہیں میری رفاقت کے زمانے روکتے ہیں کیا ؟

 

مقفل بابِ حیرت پر کھڑے ہیں سوچ میں ڈوبے

گزشتہ عمر کے سب راز ہم پر کھل چکے ہیں کیا ؟

 

ترے لہجے کی برفیلی کسک ، چائے بھی یخ بستہ

بدن کے ساتھ جذبے بھی کہیں گروی رکھے ہیں کیا ؟

 

طلسمِ آب سے پوچھا اُبھر کر زندگانی نے

یہ سانسیں ڈوب جاتی ہیں ، بدن بھی ڈوبتے ہیں کیا ؟

 

بڑی ہی مجرمانہ خامشی اَوڑھی ہے بستی نے

مرے فاقہ پرستوں کے جنازے اُٹھ گئے ہیں کیا ؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

قصۂ ہجر سب نہیں معلوم

کیسے گزری تھی شب نہیں معلوم

 

اپنا کردار لکھ دیا ہے مگر

اپنا نام و نسب نہیں معلوم

 

بس طلب تک اُڑان جاتی ہے

ماورائے طلب نہیں معلوم

 

یہ خبر ہے کہ حشر برپا ہے

وجہِ غیظ و غضب نہیں معلوم

 

اُس گھڑی پوچھتے پتا اُس کا

وہ کہاں ہے، یہ اَب نہیں معلوم

 

ایک ہجرت کا زخم سیتے ہوئے

رو رہا ہوں ، سبب نہیں معلوم

 

کیا ہوا ؟ کیوں کریدتے ہو مجھے

کیا بتاؤں کہ جب نہیں معلوم

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اِس عقدہ کشائی کو حیران سالہجہ ہو

انساں سے مخاطب ہو، انسان سا لہجہ ہو

 

بے ربط کہانی کا مجھ سے یہ تقاضا ہے

کردار ادھورے ہوں ، بے جان سا لہجہ ہو

 

کیوں گھر کی فضاؤں پہ دانش کا تسلط ہے

بچپن میں تو بچوں کا نادان سا لہجہ ہو

 

پسپائی مقدر ہو جاتی ہے مراسم کی

جب مدِ مقابل کا انجان سا لہجہ ہو

 

کیا خوب توقع ہے احبابِ مروت کی

اس شعلہ نوائی کو نروان سا لہجہ ہو

 

جب ترکِ تعلق ہی مقصود رہا اپنا

آسان سی باتیں ہوں ، آسان سا لہجہ ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

مجھ پہ کھلیں گے بھلا دُزدِ حنا تابکے

سر پہ مرے ہو شجر سایہ کشا تابکے

 

نخلِ عدو کا ثمر دار و رسن ہو تو پھر

خلقِ خدا پر رہے دستِ خدا تابکے

 

آنکھ بجھا چاہتی ہے کہ سفر پہ چلُوں

مجھ کو پکارے ترا رنگِ حیا تابکے

 

حدِ زماں تو نفَس تک ہی چلے اور بس

شورِ بلائے گہاں ، دشتِ وفا تابکے

 

جس میں لہو مقتلِ شب کی گواہی سنے

ایسی فضا میں لڑے گی یہ ہوا تابکے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بجھا بجھا سا جو سورج نکل رہا ہے اَبھی

شبِ وصال کی سرخی مسل رہا ہے اَبھی

 

اَبھی سے ترکِ مراسم کا تذکرہ مت کر

دِلا ٹھہر! کہ وہ پتھر پگھل رہا ہے اَبھی

 

کل اِس پہ اپنی صفائی میں بولنا ہے اُسے

جو اِس روش پہ اکیلا ٹہل رہا ہے اَبھی

 

کوئی گلہ نہ اُسے دو کہ وہ تمھاری طرح

جُدا ہوا تھا کسی سے ، سنبھل رہا ہے اَبھی

 

یہ واہمہ ہے کہ وہ میری سمت آئے گا

کہاں وہ اپنا رویہ بدل رہا ہے اَبھی

 

طلسمِ تیرہ شبی میں بھی حوصلہ ہے مجھے

کوئی تو ہے جو مرے ساتھ چل رہا ہے اَبھی

 

پڑاؤ چھوڑ کے وہ قافلہ تو جا بھی چکا

مگر یہ کون چراغوں میں جل رہا ہے اَبھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

حشر بے شک اُٹھا دیا جائے

اک دِیا تو جلا دیا جائے

 

رزق کرتے ہوئے زمیں کا مجھے

اس زمیں سے اُٹھا دیا جائے

 

کچی پنسل سے نام لکھا گیا

تاکہ اک دن مٹا دیا جائے

 

بولنا جُرم ہے تو جرم سہی

مجھ کو پتھر بنا دیا جائے

 

قہقہوں کے جلو میں اشکوں کو

اِس ہوا میں اُڑا دیا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہمارے درمیاں طے پا چکا ہے فیصلہ بالجبر

محبت شوق تھا لیکن وِچھوڑا خاتمہ بالجبر

 

کہاں تک حکمراں فرعون بن کر ظلم ڈھائیں گے

کسی دن بند کر دے گی یہ غربت ناطقہ، بالجبر

 

بھلا ہم کب گھڑی بھر کو الگ رہنے پہ راضی تھے

بڑھایا ہے مقدر نے ہمارا فاصلہ، بالجبر

 

تھیں مقدورِ جنوں سیاحتیں دشتِ تحیر کی

کہ دستِ مصلحت نہ روک پایا قافلہ بالجبر

 

زباں آور! مری ہر پیش قدمی ہے تری جانب

اگر قدرت میسر ہو تو مجھ کو روکنا، بالجبر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ایک لقمہ جو کمانے سے نہیں آیا ہوا

اے خدا تیرے خزانے سے نہیں آیا ہوا

 

تیرے اطوار نے کھولا ہے ترا نام و نسب

تُو کسی اچھے گھرانے سے نہیں آیا ہوا

 

میری توفیق سے بڑھ کر ہے چبھن زخموں کی

تیر دشمن کے ٹھکانے سے نہیں آیا ہوا

 

بُردۂ جاں پہ تمنائیں مسل رکھی ہیں

داغ اِک لفظ مٹانے سے نہیں آیا ہوا

 

تُو سمجھتاہے ، ترے حکم کی تعمیل ہوئی

میں سمجھتا ہوں ، بلانے سے نہیں آیا ہوا

 

وہ نہ آنے کے بہانے تو بہانے تھے مگر

میں ترے پاس بہانے سے نہیں آیا ہوا

 

میرا کردار ذرا غور طلب ہے ورنہ

میں کسی اور زمانے سے نہیں آیا ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

زندگی بوجھ ہے اُٹھانے تک

حشر بھی حشر ہے نہ دیکھے تک

 

ہَر کوئی شر پسند ہوتا ہے

پیٹ لگنے سے آنکھ بجھنے تک

 

ہجر مُورکھ ہے قبر کا راکھا

عشق جیتا ہے پہلے دھوکے تک

 

زندگی تھی ، گزار آیا ہوں

شعر پڑھنے سے شعر کہنے تک

 

سیکھ لوں گا مفاہمت کا چلن

چھوڑ دے یار تھوڑا آگے تک

 

اے مری خامشی! بتا دے مجھے

کیا میں زندہ ہوں سانس چلنے تک

 

اے شبِ داستانِ عشق سمٹ!

قصۂ خاک، خاک زادے تک

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنے آپ کو ڈھونڈ رہا ہوں شام ڈھلے

اور کتنا مایوس ہوا ہوں شام ڈھلے

 

دن بھر جس دہلیز سے کوسوں دور رہا

اُس دہلیز پہ آ بیٹھا ہوں شام ڈھلے

 

اُتنی صدیاں رات سے گن کر چھینوں گا

جتنی صدیاں دور گیا ہوں شام ڈھلے

 

میری دستک مجھ کو لینے نکلی ہے

اپنے دَر پر آن کھڑا ہوں شام ڈھلے

 

اپنے جینے کی ہر لحظہ قیمت دی

گویا اپنا خون بہا ہوں شام ڈھلے

 

دن بھر ہنستا رہتا ہوں میں لوگوں پر

خود کو دیکھ کے رو پڑتا ہوں شام ڈھلے

 

پوچھ رہی ہو، کیا ہے ٹھنڈے پانی میں ؟

آگ بھری ہے ، پی جاتا ہوں شام ڈھلے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

ثباتِ فکر میں ہے مہلتِ سوال کسے

یہاں عروج کسے ہے، یہاں زوال کسے

 

کسی شعور میں تابِ شمارِ غم ہی نہیں

لُٹی حیات کا ہو گا بھلا ملال کسے

 

رُکا ہوا ہوں سرِ مقتلِ وفا کہ مجھے

یہ دیکھنا ہے کہ مقدور ہے دھمال کسے

 

سبھی کو مسخ خد و خال ہو گئے مقبول

تو آب و تمکنتِ حسن ہو بحال کسے

 

بس ایک سمت مسافت برہنہ پائی کی

کوئی رُکے یا پلٹ جائے ، یہ مجال کسے

 

سحر بدست جدائی تھی تندو تیز بہت

شبِ وصال وگرنہ رہی محال کسے

 

ذرا سی دیر ٹھہر کر جو حالِ دل پوچھے

مرے اُجڑ نے کا دنیا میں ہے خیال کسے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سرِ بہارِ تمنا اجل رسیدہ ہوئی

حیاتِ آدمِ خاکی بڑی کبیدہ ہوئی

 

یہ واردات مجازِ جنوں میں عام رہی

کہ چشم تر نہ ہوئی تو سراب دیدہ ہوئی

 

جسے چھپانا تعلق میں تھا ضروری بہت

وہی عبارتِ دل خط میں خط کشیدہ ہوئی

 

خموش تھا تو بھرم تھا، بھرم بنا رہتا

صدائے عام تماشائے سر بُریدہ ہوئی

 

برہنہ پائی رہینِ دمِ قبولیت

قبائے ذات بدن اوڑھ کر دریدہ ہوئی

 

نہ کوئی بارِ امانت، نہ مہلتِ لذت

شکم پُری کو چلے تھے، کمر خمیدہ ہوئی

 

دلِ رہینِ فراقت پہ ضعف طاری رہا

یہ کیا ہوا کہ شبِ ہجر دل گزیدہ ہوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آخری بار شبِ وصل کے اسرار چُنوں

اُس کی باتوں سے کبھی عقدۂ انکار چُنوں

 

میری خواہش ہے کہ تعمیر اَمر ہو جائے

تیری خواہش ہے کہ دیوار میں فنکار چُنوں

 

چارہ جوئی کا تقاضا ہے کہ اس بار بھی میں

اپنی تہذیب کے تابوت میں افکار چُنوں

 

اسمِ قاتل کے علاوہ ہی خبر شائع ہوئی

کیا میں دیوارِ عدالت میں یہ اخبار چُنوں ؟

 

سوچنا جرم سہی، جرم کی پاداش میں کیا

میں تغافل میں دبی قوم کے آزار چُنوں ؟

 

آنکھ چن لیتی ہے اِس حال میں امید مگر

مجھ سے ممکن ہی نہیں آہ سے جھنکار چُنوں

 

مجھ پہ آفاق سے نوحے تو اُترنے سے رہے

میں زمیں زادخس و خاک سے اشعار چُنوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

اک تردد میں پڑا رہتا ہوں اُلجھایا ہُوا مَیں

دُھند میں لپٹی ہوئی آنکھوں سے فلمایا ہُوا مَیں

 

اتنی ٹھنڈک تو نہیں ہے، اتنا بوجھل تو نہیں ہوں

کتنے برفائے ہوئے تم ، کتنا اُکتایا ہُوا مَیں

 

کیا کوئی اصلِ تفاخر، کیا کوئی زعمِ اَنا ہو

اپنے ہونے کی اذیت میں ہوں زخمایا ہوا مَیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

تُو مرا غم گسار ہوگا نہیں

ہاں ! تجھے مجھ سے پیار ہو گا نہیں

 

مل تو جائے گا وہ مجھے لیکن

عمر بھر انتظار ہو گا نہیں

 

یہ شبِ مختصر جواز کہاں

بات میں اختصار ہو گا نہیں

 

گر بچھڑنا ہے تو بچھڑ جاؤ

پھر تمہیں اختیار ہو گا نہیں

 

حُسن! تُو کتنی بار پلٹے گا

عشق تو بار بار ہو گا نہیں

 

آج زندہ ہوں ، کھیل جی بھر کے

قبر پر تجھ سے وار ہو گا نہیں

 

شام ہو گی مگر زمانے کو

شام کا اعتبار ہو گا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

خیالِ زادِسفر، آنکھ میں ملال نہیں

عجب سفر ہے کہ منزل کا بھی سوال نہیں

 

بڑی ہی مصلحت اندیش ہو گئی ہے حیات

ترے بغیر بھی جینا مجھے محال نہیں

 

میں سچ کہوں تو بچھڑتے ہوئے ترا رکنا

مرا کمال ہے ، تیرا کوئی کمال نہیں

 

کسی نے جھوٹ کہا ہے کہ بولتا ہوں مَیں

ترا گلہ میں کرو ں گا؟ مری مجال نہیں

 

معاملات کسی اور ہی نہج پر ہیں

جو اُس سے رابطہ بھی اِن دنوں بحال نہیں

 

نظامِ ہست رُکا ہو کسی کے جانے پر

بھرے جہان میں ایسی کوئی مثال نہیں

 

تمہارا حسن پرویا گیا ہے شعروں میں

تمہارے حسن کو اندیشۂ زوال نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

لکھتا ہوں مقدر کی ڈھلی شام پہ میں قتل

ہوتا ہوں یہاں تلخیِ ایام پہ میں قتل

 

مجرم کو رعایت کہ گواہوں کو خریدے

کیا خوب عدالت ہے کہ الزام پہ میں قتل

 

فرقوں میں بٹی قوم کے اصنام گنے تھے

اس جرمِ کبیرہ میں ہوا بام پہ میں قتل

 

اک تشنہ ملاقات کی بخشش ہی بہت ہے

ہوتا ہوں بہت سوچ کے اس دام پہ میں قتل

 

یہ اپنے تقاضوں کو بھی خاطر میں نہ لایا

اس عشق پہ قربان کہ ہر گام پہ میں قتل

 

مسلک کی کہانی بھی عجب طور کی دیکھی

آغاز پہ وہ قتل تو انجام پہ میں قتل

 

کذاب کے ہاتھوں سے کئی بار ہوا ہوں

اے زندہ و جاوید! ترے نام پہ میں قتل

٭٭٭

 

 

 

 

 

سبز شالوں کے زرد فیتے ہوئے

بسترِ مرگ پر ہیں جیتے ہوئے

 

عہدِ نو کا سفر مبارک ہو

یاد رکھنا زمانے بیتے ہوئے

 

رقص شعلوں کا آخری نوحہ

بجھ گئی آگ پانی پیتے ہوئے

 

چل رہا تھا اجل سے ہارا ہوا

رُک گیا ہوں مگر میں جیتے ہوئے

 

زخم، بس اک نظر نہ دیکھا گیا

عمر گزری ہے زخم سیتے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

پرائے شہر میں جلتے چراغ رکھ آئے

یہ بچپنا تھا گھروں کے چراغ رکھ آئے

 

بچا نہ ایک بھی گھر کے لیے ہتھیلی پر

اندھیری راہ میں سارے چراغ رکھ آئے

 

چلے جو ذوقِ ضیا پاش لے کے بستی کو

ستم ظریف تھے اندھے چراغ رکھ آئے

 

خدا کرے ترے دل میں بھی حدتیں جاگیں

کہ سرد ہاتھ پہ بوسے چراغ رکھ آئے

 

ہر اِک پڑاؤ نے مانگا خراج کرنوں کا

جہاں رُکے تھے وہیں پے چراغ رکھ آئے

 

سیاہ رات کے فاتح نصیب مہ پارو!

ہوا کے ہاتھ پہ کتنے چراغ رکھ آئے

 

کوئی طلسم تھا ٹوٹے ہوئے تنفس میں

جو لُوٹنے بھی گئے تھے چراغ رکھ آئے

 

تمام عمر بجھائے نہ جا سکیں ناصرؔ

ہم اُس کے ہاتھ پہ ایسے چراغ رکھ آئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

فریبِ خفتگی میں رات آ کے خواب سو گیا

کہ آخری چراغ کو بجھا کے خواب سو گیا

 

تھمی تھی رت جگے میں نبضِ بزمِ آشنائے حق

مگر وہ داستاں سرا سنا کے خواب سو گیا

 

گریز پائے خواہشِ وصال کل ملا مجھے

عجیب شخص تھا کہ پھر دکھا کے خواب سو گیا

 

مشاہدے مسل چکے تھے شام تک مجھے تو مَیں

تھکی تھکی سی آنکھ میں چھپا کے خواب سو گیا

 

چبھی ہوئی تھے نامراد چشمِ تر میں شعلگی

دُلہن سے اپنا ہاتھ جب چھڑا کے خواب سو گیا

 

مجھے خبر نہیں کہ وحشتیں کہاں رُکی رہیں

میں عمر کی بساط پر بچھا کے خواب سو گیا

 

ستم ظریفیِ شبِ مفارقت کہ آج پھر

مجھے ادھوری نیند سے جگا کے خواب سو گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کوئی طفل تسلی دی کیا؟

بابا جی کو لاٹھی دی کیا؟

 

ہر لہجے میں آگ بھری ہے

گونگے نے پھر گالی دی کیا؟

 

تُو نے جس کی پوجا کی ہے

اُس نے تجھ کو روٹی دی کیا؟

 

شعروں سے اُکتانے والے

ماں نے تم کو لوری دی کیا؟

 

سانس کی وہ پاکیزہ ڈوری

جیسی لی تھی، ویسی دی کیا؟

 

اپنے گھر کی نیلامی میں

گھر والوں نے بولی دی کیا؟

 

عورت کے موضوع پہ چُپ ہو

اب قدرت نے بیٹی دی کیا ؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

قتیلِِ وقت سے تجرید کیسے ممکن ہے

اُصولِ قتل کی تجدید کیسے ممکن ہے

 

تمھارے وعظ میں یہ مصلحت بجا لیکن

یزیدِ وقت کی تائید کیسے ممکن ہے

 

اُجڑتے عہد میں سانسوں کو ہارتے لوگو!

یہ ماہ و سال کی تمہید کیسے ممکن ہے؟

 

ترے فسوں زدہ ناقد کے کانپتے لب سے

مرے شعور کی تردید کیسے ممکن ہے

 

زمیں اُجاڑ پڑی ہے یوں اشک مت ڈالو

کہ میرے بخت میں بالید کیسے ممکن ہے

 

تمہارے حوصلے کی داد دے رہا ہوں مگر

شبِ فراق میں ناہید کیسے ممکن ہے

 

مرے خیال سے ناآشنا زمانے میں

مرے کمال پہ تنقید کیسے ممکن ہے؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

ضبط کرتا ہوا انسان بچایا جائے

جتنا ممکن ہو اسے اُتنا رُلایا جائے

 

میرے اطراف میں سب اپنا لہو پیتے ہیں

مجھ کو اِتنا بھی زیادہ نہ ڈرایا جائے

 

دل کہ برباد ہوا جس کے تغافل کے سبب

کیوں پھر اُس شخص کو سینے سے لگایا جائے

 

بیٹیاں عمرِ ضعیفی میں سہارا دیں گی

ان کو بھی شوق سے پروان چڑھایا جائے

 

میرے اشعار کی تفہیم ضروری بھی نہیں

مجھ کو نقاد کے پنجوں سے چھڑایا جائے

 

پھر مری راہ میں پتھر کی طرح حائل ہے

یہ مرا دستِ دعا کاٹ گرایا جائے

 

رات کھا جائے گی سب نوحہ کناں بچوں کو

اس جنازے کو سرِ شام اُٹھایا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جب آنگن سے خوشیاں ہجرت کر جاتی ہیں

پھر بابل کی کُڑیاں ہجرت کر جاتی ہیں

 

مفلس باپ کی بیٹی پتھر ہو جاتی ہے

اِک اِک کر کے سکھیاں ہجرت کر جاتی ہیں

 

ا مّاں ! مجھ کو لوری سے محروم نہ کرنا

چپ نیندوں سے پریاں ہجرت کر جاتی ہیں

 

جس دھرتی پر سانپ بسیرا کر لیتے ہوں

اس دھرتی سے چڑیاں ہجرت کر جاتی ہیں

 

سوئے رہتے ہیں بے حس شہروں کے باسی

ناصرؔ اُن کی گلیاں ہجرت کر جاتی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

تُو نے جس بھوک میں کشکول اُٹھا رکھا ہے

میں نے اُس آگ سے اک دیپ جلا رکھا ہے

 

اے مرے جہل پہ پلتے ہوئے لوگو تم نے

چند لقموں کے لئے فتنہ جگا رکھا ہے

 

دیکھنا خواب ترے روند کے جائے گا وہی

تو نے جس شخص کو پلکوں پہ بٹھا رکھا ہے

 

آنکھ میں کو ئی تمنا ہے نہ خوابوں کاسراب

اک مگر بھیگا ہوا حرفِ دعا رکھا ہے

 

لوگ چلتی ہوئی سانسوں میں تعفن بھر دیں

ہم نے تصویر کو پھولوں میں چھپا رکھا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

عذابِ آشنائی کو تو سوچا بھی نہیں جاتا

یہ متروکہ تعلق ہے کہ بانٹا بھی نہیں جاتا

 

اگر شمس و قمر ضمنِ حیاتِ آدمیت ہیں

تو کیوں ٹوٹی ہوئی کرنوں کو جوڑا بھی نہیں جاتا

 

محبت جھوٹ ہو شاید مگر دستِ عداوت سے

سُفیدے پر کسی کا نام لکھا بھی نہیں جاتا

 

نظر انداز کر دینا تجھے صدیوں کا دُکھ لیکن

ترا حسنِ تلاطم خیز دیکھا بھی نہیں جاتا

تھکن سے چور جذبوں کی یہ خیراتیں سمیٹو بھی

کہ اُکتائی ہوئی زلفوں کو چوما بھی نہیں جاتا

 

دُعا تریاق ہے پژمردگی کے محبسوں میں تو

خدا کو بے دلی سے یوں پکارا بھی نہیں جاتا

 

مرا چپ چاپ رک جانا بڑا معیوب تھا لیکن

تعلق توڑنے والے کو روکا بھی نہیں جاتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیا ہی اچھا تھا کہ پیروں پہ کھڑا رہ جاتا

میرے حق میں بھی کوئی ایک دھڑا رہ جاتا

 

بیچ کر اچھا کیا گھر کا سبھی کاٹھ کباڑ

اک مگر ٹوٹا دِیا گھر میں پڑا رہ جاتا

 

سب کے سب خانہ بدوشوں کی طرح نکلے ہیں

کوئی اک شخص تو موقف پہ اَڑا رہ جاتا

 

یہ مرے عشق کا حاصل تھا رفو گر میرے

زخم موتی تھا، مرے دل میں جڑا رہ جاتا

 

عشق تو اپنے گواہوں کو بھی لے ڈوبتا ہے

ورنہ موجوں پہ کوئی کچا گھڑا رہ جاتا

 

بجھ گیا چاند بڑی دیر تلک ٹھہرا ہوا

کب تلک رات کے سینے میں گڑا رہ جاتا

 

مجھ سے وابستہ کئی لوگ تھے ورنہ میں بھی

تیری دہلیز پہ تا حشر کھڑا رہ جاتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

چاند چہرے کو زمانے سے چھپایا جائے

اور خواہش کہ اسے سامنے لایا جائے

 

با پ کی یاد جو آنکھوں میں لیے پھرتا ہو

ایسے بچے کو کھلونا نہ دکھایا جائے

 

قحط ٹلتا ہی نہیں ، پیاس بڑھی جاتی ہے

اب تو روٹھے ہوئے لوگوں کو منایا جائے

 

ایسے وہ میری کہانی کو بیاں کرتا ہے

جیسے گم نام جنازے کو اٹھایا جائے

 

رنگ و خوشبو کی تمنا سے نکل آئے ہیں

اب کے آنگن میں کوئی پیڑ لگایا جائے

 

تم نے تجدیدِ مراسم کی بنا ڈال ہی دی

یعنی پھر اجڑا ہوا شہربسایا جائے

 

حرف دم توڑ چکے گیت کی دہلیز پہ آج

ناصرؔ اب شعر میں اشکوں کوسجایا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

رُک گیا تھا مفاہمت سے مَیں

چَل پڑا ہوں مزاحمت سے مَیں

 

کر رہا ہوں نباہ دنیا سے

اور ڈرتا ہوں آخرت سے میں

 

اے درِ عشق! بند ہو جا اب

باز آیا مداخلت سے میں

 

سچ کہا فطرتاً محبت میں

کام لیتا ہوں مصلحت سے میں

 

اشک اپنے دکھا نہیں سکتا

رو رہا ہوں منافقت سے میں

٭٭٭

 

 

 

 

پُرسشِ جان کو آئے ہیں شب و روز تمام

درد کیا مجھ کو دِکھاتے ہیں شب و روز تمام

 

روکنا وقت کا دنیا کو سکھائیں گے کبھی

یہ عزا دار جو روتے ہیں شب و روز تمام

 

ہم کہ جو وصل کی خواہش کے گنہ گار ہوئے

ہجر کا بوجھ اُٹھاتے ہیں شب و روز تمام

 

میرا کردار کہانی میں نظر آئے بھی کیوں

میری وحشت نے چھپائے ہیں شب و روز تمام

 

وصل میں کوئی کسک ہے کہ پریشان ہوں میں

کتنے بے کیف سے لگتے ہیں شب و روز تمام

 

کل مری آنکھ میں خوابوں کا تھا آباد جہاں

اب کے ترتیب سے رکھے ہیں شب و روز تمام

 

اس شب و روز کا احسان مری ذات پہ تھا

لے ! ترے نام پہ کاٹے ہیں شب و روز تمام

 

مجھ سے مزدور کو محشر سے ڈراتے ہو عبث

میں نے مقتل میں گزارے ہیں شب و روز تمام

٭٭٭

 

 

 

 

 

دستک پہ کوئی چیخ اُٹھا ہے ، نہ ملے گا

اس گھر میں کوئی فرد رہا ہے نہ ملے گا

 

مانگا تھا ملاقات کا اک لمحۂ تسکین

اک عمر کے بعد ہم نے سنا ہے، نہ ملے گا

 

وہ قیس ہو رانجھا ہو، مہینوال یا پنّل

اس دشت میں جو شخص گیا ہے ، نہ ملے گا

 

جلتی ہوئی لڑکی کی ردا بول رہی ہے

اس دیس میں انصاف ملا ہے نہ ملے گا

 

کرتے ہیں بلکتے ہوئے بچوں پہ سیاست

اشراف میں اب خوفِ خدا ہے نہ ملے گا

 

اس شہر نے بخشا تھا مجھے اُس کا تصور

اس شہر کے لوگوں نے کہا ہے نہ ملے گا

 

رفتارِ زمانہ تو نگل جاتی ہے شاخیں

یہ پیڑ جو اَب سایہ کشا ہے، نہ ملے گا

٭٭٭

 

 

 

 

تیرا پروانہ فقط تا بہ سحر جاتا ہے

تیرے کوچے سے نکلتا ہے تو گھر جاتا ہے

 

روز اُکھڑی ہوئی سانسوں سے جگاتا ہوں طلسم

چاند جب ہجر کے آنگن میں اُتر جاتا ہے

 

جانے کس خاک سے مزدور کی تخلیق ہوئی

ورنہ اس بھوک میں انسان تو مر جاتا ہے

 

باپ کے ہوتے ہوئے موت سے لڑنے والا

بعد میں اپنے ہیولے سے بھی ڈر جاتا ہے

 

چھوڑ جاتا ہے اُسے سایہ سرِ شام یہاں

کب مگر اس کے تعاقب میں شجر جاتا ہے

 

لاش مہکی ہے سرِ شاخِ تمنا ورنہ

پھول کھلنے سے بہت پہلے بکھر جاتا ہے

 

دل کی بے راہ روی اتنی بھی معیوب نہیں

چوٹ جب عشق میں لگتی ہے سدھر جاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہم تجسس میں تعاقب پہ اِدھر آئے، غلط تھا

اپنے معیار سے بھی نیچے اتر آئے، غلط تھا

 

کتنا بہتر تھا سلا دینا تہِ خاک بدن کو

یہ جو حالات سے ڈرتے ہوئے گھر آئے، غلط تھا

 

عصمتِ حجر! تری عقدہ کشائی ہو سلامت

حاکمِ وقت درِ خاک بسر آئے، غلط تھا

 

زندگی شوق کی دہلیز کے اس پار کھڑی تھی

جب مرے نخلِ تمنا پہ ثمر آئے، غلط تھا

 

واجب القتل نہ تھے شہر میں ہم لوگ مگر جب

دشمنی بھول کے بے خوف و خطر آئے ،غلط تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

وحشتِ کرب کی تعدیل محبت میں ہوئی

یعنی ہر درد کی ترسیل محبت میں ہوئی

 

طبعِ نازک پہ گراں ہو تو یہ ملحوظ رہے

تیرے اطوار کی ترتیل محبت میں ہوئی

 

کیوں عطا کی تھی مجھے پیار کی خاموش صدا

کیوں مری ذات کی تذلیل محبت میں ہوئی

 

اتنا خوش باش نہیں بخت کا اخلاص میاں !

شوخیِ ہجر بھی تحلیل محبت میں ہوئی

 

کوئی اندیشہ نہ انعام کی خواہش تھی مجھے

تیرے ہر حکم کی تکمیل محبت میں ہوئی

 

میرے افکار کو دولت کی ترازو میں نہ رکھ

میرے کردار کی تشکیل محبت میں ہوئی

 

فیض محبوب کے ہونٹوں کے تبسم کا ملا

صورتِ حال جو تبدیل محبت میں ہوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

جب بھی قرطاس قلم کار سے ڈر جاتا ہے

حرفِ تخلیق بھی اظہار سے ڈر جاتا ہے

 

وصفِ میلانِ تغیر کے سبب اتنا ہوا

عشق اب اپنے سزاوار سے ڈر جاتا ہے

 

علمِ تاریخ سنگھاسن میں نمو پاتا رہا

یہ کہاں حاشیہ بردار سے ڈر جاتا ہے

 

اُنس پتھر میں تنفس کا جگاتا ہے طلسم

گھر نئے اسمِ خریدار سے ڈر جاتا ہے

روح بے فیض تعلق میں اجڑتے دیکھی

جسم اکتائے ہوئے پیار سے ڈر جاتا ہے

 

معبدِ وقت! زمیں سے بھی کوئی رشتہ رکھ

آدمی ہیبتِ مینار سے ڈر جاتا ہے

 

سانس لے سکتی نہیں سوچ کسی پنجرے میں

ذہن مانگے ہوئے افکار سے ڈر جاتا ہے

 

 

 

اے سانس پہ اِترائے ہوئے شخص! سنبھل بھی

اس خاک سے اُٹھا ہے تو اِس خاک پہ چل بھی

 

تجھ پر تو درِ خواب نے کھلنا ہی نہیں ہے

اک نانِ جویں پر میرے مزدور بہل بھی

 

صہبائے ملاقات! شبِ عیش سزاوار

شیشے میں اُتر، پیاس کے سینے پہ اُچھل بھی

 

اے مایا پرستی کے ستائے ہوئے لوگو!

اس خیمہ بسر شخص نے دیکھے ہیں محل بھی

 

اے رندِ بلا نوش ! کبھی آنکھ سے پی لے

انگور سے مہکے ہوئے بادل میں ٹہل بھی

 

رہبر ہے تو رہبر سی کوئی ایک ادا رکھ

اَب اپنے مفادات کے چکر سے نکل بھی

 

اِک بار پلٹ، مجھ کو بہاروں میں کھڑا دیکھ

اس برگِ گلِ جاں پہ اُتر اور پھسل بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

دُشمنی میری قد کشوں سے ہے

زعم قامت کا دوستوں سے ہے

 

تلخیِ ہجر چشم پوشی سی

چشم پوشی منافقوں سے ہے

 

اے مرے چارہ گر! ہنسا نہ مجھے

میرا جینا مرے غموں سے ہے

 

زُلف شب گوں ! عطا ہو آبِ حیات

دل زَدہ آخری دَموں سے ہے

 

جان جائے تو جان چھوٹے گی

مفلسی ایسی عادتوں سے ہے

 

شام ہوتے ہی جا کے ملتا ہوں

کیا عجب اُنس راستوں سے ہے

 

ہم نے بچنا ہے اتفاقی طور

جاں کو خطرہ محافظوں سے ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سانس کو لمحۂ موجود کی دستک نہ لکھوں ؟

اور میں حشر کو مسجود کی دستک نہ لکھوں ؟

 

میرا ہونا بھی نہ ہونے سے برا لکھ دینا

قلبِ انساں پہ جو محمود کی دستک نہ لکھوں

 

کانپتے ہاتھ ڈراتے ہیں مگر سوچتا ہوں

بخت کی آنکھ میں کیا دود کی دستک نہ لکھوں ؟

 

چیختے حرف سنوں اور میں خاموش رہوں

آخری باب میں مشہود کی دستک نہ لکھوں

 

ایک بے نور عقیدے نے مجھے روک لیا

"لا” کی تنبیہ کو میں بود کی دستک نہ لکھوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کب، کہاں اور کون جاگے تھے

لٹنے والے تمام سوئے تھے

 

اک ذرا دیر رقص سے پہلے

کتنے فتنے ہنسی سے اٹھے تھے

 

ہجر تڑپا تھا لاش پر میری

رات کے اس پہر تم آئے تھے ؟

 

رنگ بھیگی دھنک سے گرتے ہوئے

ہم لڑکپن میں روز چنتے تھے

 

کان میں مجھ کو یہ بتا جاؤ

خط محبت میں کتنے لکھے تھے

 

روکنا وقت کو ہتھیلی سے

جس طرح اشک روک لیتے تھے

 

بے ضمیروں کے شہر میں ناصرؔ

خالی قبریں تھیں اور کتبے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

کون ہے میرے در پر دستک دینے والا

رات گئے کوئی پاگل ہو گا آنے والا

 

اک لمحے میں کتنے چہرے یاد آتے ہیں

عشق تو سارے عشق تھے لیکن پہلے والا

 

کتنے دکھ ہیں لیکن تیرا دکھ یکتا ہے

یعنی آج برات میں تو ہی سہرے والا

 

قبر، کفن اور خاک میں ملنا، جلنا گلنا

ان دکھڑوں سے کٹ جاتا ہے مرنے والا

 

سرخ زمیں پر کانپ رہا تھا ہولے ہولے

رشتہ بوڑھے جسم سے مٹی گارے والا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کس طرح آسماں تلک جاتے

ہم خلا میں کہاں تلک جاتے

 

رخشِ تزویر دائرے میں تھا

لوٹنا تھا، جہاں تلک جاتے

 

سارے کردار گر حقیقی تھے

خامۂ داستاں تلک جاتے

 

اک عقیدہ تھا معترض ورنہ

نقشِ پا تو بتاں تلک جاتے

 

میں حقیقت پسند ہوتا اگر

کیوں بھروسے گماں تلک جاتے

 

لو دیے کی جہاں تلک جاتی

شب گزیدہ وہاں تلک جاتے

 

حضرتِ عشق رہنما ہوتا

دیدہ وَر لامکاں تلک جاتے

 

رنج دینا سرشت میں ہی نہ تھا

ورنہ شکوے زباں تلک جاتے

 

منزلیں آنکھ میں اگر ہوتیں

مشعلِ کار رواں تلک جاتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

عشق تکمیلِ ضرورت سے بھلا آگے بھی کچھ ہے

حسن جلتے ہوئے صحرا سے ذرا آگے بھی کچھ ہے

 

جستجو کے باب میں آسیب ہے میرے مقابل

نقشِ پائے رفتگاں پر دیکھنا، آگے بھی کچھ ہے

 

جب بھی رکتے ہیں قدم دشتِ تحیر میں ہمارے

گونج اُٹھتی ہے کوئی تشنہ صدا ، آگے بھی کچھ ہے

 

اِک ثباتِ جاں کنی ہے ، اِک غروبِ مہرِ جاں ہے

اے قتیلِ شب! سرِ دارِ فنا، آگے بھی کچھ ہے

 

رہبری مقدور تھی اُس کو طلسمِ گفتگو سے

دفعتاً جس نے پلٹ کر کہہ دیا، آگے بھی کچھ ہے

 

آنکھ سے گرتی ہوئی اس داستاں میں تھا بہت کچھ

دیکھنے کو بعد از عبرت سرا، آگے بھی کچھ ہے

 

لمحۂ آغاز سے عقبیٰ تلک محوِ مسافت

کارواں یہ سوچ کر چلتا رہا، آگے بھی کچھ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کہا تو تھا اسے ہر شخص نے ، پرے رہتا

جو ہم بھی لائقِ تعزیر تھے ، پرے رہتا

 

بھلے نہ دیکھنا تھا مجھ کو آسماں کی سمت

تو میری آنکھ تھی ، میں آنکھ سے پرے رہتا ؟

 

ڈبو گئی ہے مجھے ڈوبتے ہوؤں کی چپ

اگر یہ لوگ مجھے روکتے ، پرے رہتا

 

بڑا عذاب ہے خود آگہی مگر اب تک

میں اپنے آپ سے کیسے پرے پرے رہتا

 

تو میرے جسم کا اک منطقی تقاضا تھا

ترے وجود سے میں کس لیے پرے رہتا ؟

٭٭٭

 

 

 

 

بیٹھے بیٹھے ہی یہ کیا درد جگا بیٹھے ہیں

روٹھتے عشق کو بے وجہ منا بیٹھے ہیں

 

چل کے دیکھیں تو سہی ان کی فسوں کاری کو

آگ دامن میں جو اَشکوں سے لگا بیٹھے ہیں

 

ماں کی عصمت کا اُڑاتے ہیں سرِ عام مذاق

درس ہم کون سا بچوں کو پڑھا بیٹھے ہیں

 

چودہ صدیوں سے جو انسان شناسا نہ ہوا

سہل کوشی میں اسے دین تھما بیٹھے ہیں

 

وہ تغافل میں دبی یاد غنیمت تھی ہمیں

اب کے تنہائی میں کیا حشر اٹھا بیٹھے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

قبر میں جیتے جی اتار دیا

مجھ کو بھی کشمکش نے مار دیا

 

میری قسمت سے کھیلنے والے

زلف تھی جس کو پھر سنوار دیا؟

 

ٹوٹتی شب میں کچھ دیا اس نے ؟

ہاں بہت کچھ پسِ غبار دیا

 

حکمرانی کا فلسفہ پڑھ کر

ہم نے سارا نگر اجاڑ دیا

 

عمر کے آخری پہر میں بھی

ہجر نے وصل سا خمار دیا

 

دستِ شب نے لیا ہے یوں بدلہ

رکھ دیا ہے سرِ مزار دیا

 

اِک بھروسہ تھا عمر کا حاصل

ایک لمحے میں تم نے ہار دیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

نقصان سے ڈرتے ہو؟ نقصان تو ہو تا ہے

خواہش کے سفر میں گھر ویران تو ہوتا ہے

 

پلٹے گا کسی بھی دن؟ اک یہ بھی توقع ہے ؟

عاشق تو کوئی بھی ہو، نادان تو ہوتا ہے

 

یہ ہجر قیامت تک تم جھیل نہیں سکتے ؟

اچھا نہ لگے لیکن مہمان تو ہوتا ہے

 

دُکھ درد میں گھر اپنا مایوس نہیں کرتا

خاموش دِلاسے کو سامان تو ہوتا ہے

 

دو گام سہی، تم بھی اب ساتھ چلو میرے

درویش کے سینے میں ارمان تو ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کس لیے خط اسے لکھوں گا میں

اور پھر کیوں اداس ہوں گا میں

 

مقتلِ شب! ذرا سنبھال مجھے

ہجر! اب اور کیا جیوں گا میں

 

تیرہ بختی ! نصیحتیں کیسی؟

گھر میں رہ کر بھی کیا کروں گا میں

 

تتلیو ! جاؤ چوم آؤ اسے

پھر تمہیں آ کے چوم لوں گا میں

بے دھڑک آؤ میرے کمرے میں

اپنی اوقات میں رہوں گا میں

 

روٹھنا کس قدر ضروری تھا

مان جائے تو پوچھ لوں گا میں

 

قہقہے ، سسکیاں ، مناجاتیں

آج کچھ بھی نہیں سنوں گا میں

 

رنجشیں جس سے اور بڑھتی ہوں

بات ایسی بھی کیوں کروں گا میں

 

اس کے ملنے کے بعد بھی ناصرؔ

شہر والوں سے کیا ملوں گا میں

٭٭٭

 

 

 

 

کہو، اتفاقاً جدا ہو رہی ہو؟

کہ اب تم اصولاً جدا ہو رہی ہو؟

 

غلط فہمی کوئی نہیں درمیاں تو

مری جاں ! مزاجاً جدا ہو رہی ہو

 

نہایت برا فیصلہ ہے تمہارا

اگر انتقاماً جدا ہو رہی ہو

 

تردد کیا تھا بچھڑنے سے پہلے ؟

یا پھر ارتجالاً جدا ہو رہی ہو

 

کوئی کام کہتی نہیں ہو مہینوں

تو اَب تم یقیناً جدا ہو رہی ہو

 

سبب چھوڑ دو مجھ کو اتنا بتا دو

مذاقاً یا حتماً جدا ہو رہی ہو

 

مری بات کا تم برا مان بیٹھیں

کہ بس احتیاطاً جدا ہو رہی ہو؟

٭٭٭

 

 

 

 

کسی کی موت کو ٹالیں ،خُدا تلاش کریں

بشر کا تاج سنبھالیں ، خُدا تلاش کریں

 

خُدا تراش مقابر ، لہو لہو معبد

کہ اَب تو نامِ خدا لیں ، خدا تلاش کریں

 

خُدا کو ماننے منوانے کا ثواب بہت

دو نفل اور کما لیں ، خدا تلاش کریں

 

ضیا نہیں ہے اگر اَب سراجِ کہنہ میں

نئے چراغ جلا لیں ، خُدا تلاش کریں

 

نہیں جلاتا مُصور بھی اپنے شہ پارے

یہ خوف دِل سے ہٹا لیں ، خدا تلاش کریں

 

بڑا ہی سہل طریقہ بقائے ذات کا ہے

جو رُوٹھ جائے ،منا لیں ، خُدا تلاش کریں

 

رکھا ہے بارِ امانت میں ماجرائے دوام

چلو کہ ہم بھی اُٹھا لیں ، خدا تلاش کریں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اِس عداوت سے ملا کچھ بھی نہیں یار اُسے

ظرف میرا کہ کہا کچھ بھی نہیں یار اُسے

 

مجھ کو بھی ترکِ تعلق پہ شکایت نہ رہی

اور بچھڑنے سے ہوا کچھ بھی نہیں یار اُسے

 

میری آواز مری سانس میں تحلیل ہوئی

شور اتنا تھا سنا کچھ بھی نہیں یار اُسے

 

اس کو جمہوری عقیدے نے بہت خواب دیے

پَر حکومت نے دیا کچھ بھی نہیں یار اُسے

 

بے سبب اُس کے تجاہل کا گلہ تجھ کو ہوا

وہ تو کم سن ہے ، پتا کچھ بھی نہیں یار اُسے

٭٭٭

 

 

 

 

 

چونکہ روٹی تلک بھی رسائی نہیں

اس لیے جنگ اب کے پرائی نہیں

 

رہبروں میں لہو میر جعفر کا ہے

ان درختوں میں سایہ کشائی نہیں

 

خاک ہونے تلک یہ سمجھ آ گئی

آگ فرقوں کی ہم نے بجھائی نہیں

 

یہ بھی حرفِ جوازِ بقا جھوٹ تھا

دیس میں سالمیت تو آئی نہیں

 

عزمِ حاکم جواں اس لیے رہ گیا

اس نے بیٹے کی میت اُٹھائی نہیں

 

چند خالی مکانوں کو دیکھا کیے

پھر کوئی اور بستی بسائی نہیں

 

خون جس سے ٹپکتا رہا عمر بھر

ایک تصویر تھی جو ہٹائی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہائے تقسیم جو حالات نے پیہم رکھی

ہونٹ پر آگ رکھی، آنکھ میں شبنم رکھی

 

کب مرے حال سے واقف ہے مرا درد گسار

اس نے رکھی بھی نظر مجھ پہ تو برہم رکھی

 

دشت میں اپنی زبوں حال مسافت کے سبب

دل میں تعمیر کی خواہش بھی ذرا کم رکھی

 

دل نے جذبوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا تھا

سانس نے دیپ کی لو تال سے مدھم رکھی

 

اے سخی دیکھ ذرا اپنی عنایت مجھ پر

اک ملاقات کہ جب آنکھ بھی پرنم رکھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ سبز دریچے میں کھڑی خوفزدہ ہے

اور سرخ گلی میں بھی کوئی خوفزدہ ہے

 

روزی کے تعاقب میں سبھی بھاگ رہے ہیں

اس گاؤں کی ہر بھاگ بھری خوفزدہ ہے

 

اے عشق! ترا فیض سلامت ہو کہ مجھ سے

اب قیس کی شوریدہ سری خوفزدہ ہے

 

جس دشت سے پایا تھا محبت کا سلیقہ

اس ہجر سے اب جان مری خوفزدہ ہے

 

اس شہر کو ویران کیا جس کے عدو نے

اب خون کی وحشت سے وہی خوفزدہ ہے

 

جس شخص کو دیکھے ہوئے بیتا ہے زمانہ

دل اس کے بچھڑنے سے ابھی خوفزدہ ہے

 

پھر جسم نیا اوڑھ نہ لے مردہ دِلی پر

یہ روح بڑھاپے سے بڑی خوفزدہ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

لوگ کہتے ہیں صدا روک لیا کرتی ہے

یاراب تو ہی بتا، روک لیا کرتی ہے ؟

 

اے بچھڑتے ہوئے محبوب ذرا دیر ٹھہر

کہ عدالت بھی سزا روک لیا کرتی ہے

 

اے خدا!اتنا بتادے ، مری اوقات سدا

کیوں ترا دستِ عطا روک لیا کرتی ہے

 

زعم کیا اپنے مقدر پہ مجھے ہو کہ مری

آخری سانس ہوا روک لیا کرتی ہے

 

جب اُسے بھیج دیا دور خلاؤں کے پرے

کیوں مجھے اس کی ندا روک لیا کرتی ہے

 

میں اسے روک نہ پایا تو یہی سوچتا ہوں

را ستہ کیسے بلا روک لیا کرتی ہے

 

وقت نے چھین لیا مجھ سے منانے کا ہنر

اب مجھے میری اَنا روک لیا کرتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

خامشی کی بجھارتیں اور تم

یاد ہیں سب حکایتیں اور تم

 

کس قدر بے وفا مراحل ہیں

زندگانی، یہ راحتیں اور تم

 

نیلگوں رات ، جھیل اور آنسو

درد کی لہر، شدتیں اور تم

 

میری آنکھوں میں ثبت ہیں کب سے

وہ طلسمی شرارتیں اور تم

 

ہجر دامن میں ٹوٹتی شب کا

اس میں آئینہ ، حیرتیں اور تم

 

بس یہی زادِ راہ ملنا تھا

چند ادھوری سی قربتیں اور تم

 

بے خبر ایک دوسرے سے رہے

میری تنہائی، وحشتیں اور تم

 

خود فراموشیاں بجا لیکن

یاد ہیں اپنی ہجرتیں اور تم

 

کس قدر دور ہو گئے مجھ سے

عید کی شوخ ساعتیں اور تم

٭٭٭

 

 

 

 

کس نے کہا ہے تو کوئی عرشِ بریں خرید

بس دفن ہونے کے لیے دو گز زمیں خرید

 

کتنا ستم شعار تھا وہ پر خلوص شخص

جس نے کہا تھا سانپ رکھ اور آستیں خرید

 

مقتل کی ناگوار سی پھیلی ہوئی ہے بو

اس مسلکی دکان سے سودا نہیں خرید

 

نفرت کی آگ سے بچا اپنی نماز کو

فرقوں سے ناشناس ہو، ایسی جبیں خرید

 

انساں بکاؤ مال ہے سچ بولتا ہوں میں

خالی مکان کے لیے تو بھی مکیں خرید

٭٭٭

 

 

 

 

 

کسی پہ دوش کیا مجھے کہ فطرتاً غریب ہوں

مرے نقوش بولتے ہیں صورتاً غریب ہوں

 

متاعِ دل کہ خاک تھی، متاعِ جاں کہ راکھ ہے

وکالتاً غریب تھا، اصالتاً غریب ہوں

 

بڑا ہی مطمئن رہا ہوں اس لباس میں سدا

نصیب ساتھ دے بھی کیا، میں عادتاً غریب ہوں

 

کہاں سے آئے ہو میاں ؟ کوئی تمہارا ہے بھی کیا؟

مرے لبوں پہ آ گیا تھا دفعتاً ‘ غریب ہوں ‘

 

میاں ! تُو میری حیثیت کو تولتا ہے کس لیے

تُو نسبتاً امیر ہے ، میں نسبتاً غریب ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہجر میں تھوڑی سی رعایت ہو

ورنہ اس عشق سے بغاوت ہو

 

عشق دریا کے اِس کنارے پر

تُم ہو اُس پار ، باحفاظت ہو

 

رُوٹھنا ہے تو رُوٹھ ہی جاؤ

تُم کوئی آخری محبت ہو

 

دیکھتا ہوں تو سانس رُکتی ہے

یار! تم تو نری قیامت ہو

 

فاتر العقل ہیں جو کہتے ہیں

تُم کسی اور کی امانت ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

ناکام خواہشوں کے دلاسے کو چپ ہوں مَیں

اُجڑے ہوئے دیار سے پلٹی ہیں خالی ہاتھ

 

اُن ماؤں کے غموں کا مداوا نہ ہو سکے

جو گھر سے بیٹیوں کو اُٹھاتی ہیں خالی ہاتھ

 

بے چہرگیِ صبح پہ ماتم کناں تھی اَوس

کرنیں بھی آفتاب سے اُتری ہیں خالی ہاتھ

٭٭٭

 

 

 

 

 

دیے کی لو پہ جلی شام ، شام خود کُش ہے

سکوت قاتلِ ذی نفس، جام خود کُش ہے

 

لہو نچوڑ لیا ہے رگوں سے حاکم نے

یہ جاں بہ لب سا بدن بھی بنام خود کُش ہے

 

خُدا تراش زمانے کے ہاتھ چھلنی ہیں

یہ اپنے پَیرَو نگلتا ہے ، رام خود کُش ہے

 

عجیب شہر میں ہم نے پڑاؤ ڈال دیا

اَجل سفر میں چھپی ہے ، قیام خود کُش ہے

 

کوئی بچا نہیں سکتا اَجل رسیدوں کو

ہے سر کٹوں کا ہُجوم اور اِمام خود کُش ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نظمیں

 

 

خوابیدگی

 

کوئی گلہ نہ دیجئے ابھی میں ہوش میں نہیں

بھلے ابھی مری صدا بھی کپکپا نہیں رہی

بھلے ابھی مرے قدم بھی ڈگمگا نہیں رہے

نظر میں گھومتا ہوا جہان تھم گیا مگر

ابھی میں ہوش میں نہیں

تھکی تھکی سی تشنگی کے بل پہ رقص کیجئے

کہ آخری مسافتیں بھی سانس ہارنے چلیں

کسی کو بھی خبر نہیں ، سمٹ رہی ہے زندگی

سمٹ رہے ہیں فاصلے ، بکھر رہا ہے آشیاں

کوئی گلہ نہیں مجھے مرا لہو پلائیے

ابھی میں ہوش میں نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

احساسِ کم تری

 

ہر کوئی چھاتہ بردار افکار کے

میرے دل پہ اُتارے مگر جب وہی

ننگ و نامُوس کے پیرہن لَوٹ کر اس کو چھلنی کریں

تو مجھے اِک صدا پر صدا دینے لگتا ہے وہ

ہر کوئی درد میں ، رنج و تکلیف میں

چیختا ہے تو پھر اِک صدا پر صدا دینے لگتا ہے وہ

ہر کوئی جب لہو کے سوا کوئی منظر نہیں دیکھتا

اُس کے اطراف جلتے ہوئے بام و دَر جب ڈرانے لگیں

سسکیوں تک میں بارُود کی بُو اُچھلنے لگے

ہر قدم لوتھڑوں پر پڑے اور آنکھوں میں صحرا کی

بے آب سنگینیاں موج مستی کریں

تو مجھے اِک صدا پر صدا دینے لگتا ہے وہ

ہر کوئی حرفِ نا معتبر بن کے ہستی کے اوراق سے

ایسے مٹنے لگے کہ نشاں تک بھی اس کی خبر نہ بنے

ہر کوئی ظلم کرتا ہوا ظالموں کی اگر بھینٹ چڑھنے لگے تو کسی

آخری سانس کے جل بجھے ٹوٹتے حوصلے سے مجھے

اِک صدا پر صدا دینے لگتا ہے وہ

ہر کوئی ایک دیوار سی کھینچتا ہے کہ میں

اُس کے دیر و حرم سے بہت دور رہ کر اُسے دیکھتا ،سوچتا ہی ہوں

اُس کی حرمت کو حسرت کناں آنکھ سے دیکھتا ہی رہوں

جب وہ حرمت اُسی کے جنازے پہ ہذیان بکنے لگے

جب رِدائیں بھی عضوِ بریدہ پہ آہ و فغاں کے لیے

لفظ ڈھونڈیں مگر

لفظ اُن کی زبانوں سے چپکے ہوئے زندگی ہار دیں

تو مجھے اِک صدا پر صدا دینے لگتا ہے وہ

ہاں مگر ہر کوئی رقص کرتا ہوا

جھومتا، کھیلتا، کودتا، شادیانے بجاتا ہے جب

مَیں اُسے دیکھتا ہوں مگر وہ مجھے دیکھتا ہی نہیں ، جانتا ہی نہیں

میری آنکھوں کی ویران حسرت اُسے گھورتی ہے مگر

ایسی آنکھوں سے اُس کو شناسائیاں راس آتی نہیں

یعنی آہوں سے رشتہ مجھے ہے مگر

ہر کسی کی مسرت سے رشتہ نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

فتنہ

 

قیامت کو قیامت جو نہیں کہتا وہ فتنہ ہے

خُدا کا نام لیوا بھی اگر ڈرتا ہے ، مجرم ہے

فغاں باغی، یہ ماؤں کی سسکتی گودیاں مجرم

یہ بچوں کے جلے کپڑے ، کٹے اعضاء سبھی مجرم

یہ اُجڑے گھر کے ملبے پر کھڑے سب لوگ مجرم ہیں

یہ چلتی گولیوں کو ہاتھ سے روکیں تو مجرم ہیں

لہو آلود کپڑوں کو کلیجے سے لگاتی عورتیں باغی

گھروں سے موت کے ڈر سے نکل کر چیختے لوگوں

کے چہروں پر جو دہشت ہے

یہی در اصل خطرہ امن کو لاحق ہے ، فتنہ ہے

پدر کہ ڈھال بن کر اپنے بچوں کو بچاتا ہے یہ باغی ہے

یہ ماں بے پردگی اوڑھے ہوئے جو بین کرتی ہے ، یہ باغی ہے

یہ ایمبولینس کا ہوٹر، رضاکاروں کا جتھہ، باہمی امداد کا جذبہ

بھی مجرم ہے

نہتے خوبرو مردوں کا بے بس ہو کے رو پڑنا قیامت ہے

زُلیخاؤں کا ننگے سر کسی غیبی مدد کو ڈھونڈنا

پھر چیخ کر بے ہوش ہو جانا قیامت ہے

قیامت کفر کے انجام پر عائد ہوا کرتی ہے دنیا میں

مگر دنیا نظر انداز کر کے کھیل میں مشغول ہو تو ہو

کھلاڑی جب قیامت میں بھی ہنستے کھیلتے ہیں تو وہ مجرم ہیں

خدا کو ماننے منوانے کی جنگوں میں لڑتے لوگ بھی ایسی قیامت سے

چُرا لیتے ہیں گر آنکھیں تو وہ آنکھیں بھی فتنہ ہیں

یہ انسانی رویے جو کسی معصوم کے لاشے پہ روتے ہیں ، یہ باغی ہیں

یہ تہذیبی نمائندے اگر عورت کی پامالی پہ روتے ہیں ، تو جُرمی ہیں

نموئے زندگی پہ بحث کرتے لوگ جھوٹے ہیں یہ مجرم ہیں

یہی ظالم درندوں کے ہی احساسِ تفاخر کی

لہو سے آبیاری کر رہے ہیں اور جُرمی ہیں

٭٭٭

 

آخرش سانس گھر جلانے لگا

جل گیا تو کہا ، جہنم ہے

واعظا! کیوں ڈرا رہا ہے مجھے

کیا وہ اس سے بڑا جہنم ہے

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید