فہرست مضامین
پھول چہرہ
تصنیف حیدر
گُل اندام
کوئی صندل بدن لڑکی
کوئی گل پیرہن لڑکی
مجھے جب دیکھ لیتی ہے
تو جیسے خواب کے خاموش پیکر مسکراتے ہیں
ہزاروں رنگ میری آرزوؤں میں سماتے ہیں
مرا دل چاہتا ہے
وہ مرے لفظوں کو
جینے کا ہنر بخشے
خیالوں کو صدف کا پیرہن دے
اور اتنے پاس آ جائے
کہ ہر لمحہ مجھے وہ ہجر کے موسم کا ڈر بخشے
کوئی صندل بدن لڑکی
کوئی گل پیرہن لڑکی
شبِ تنہائی میں جیسے کوئی شعلہ نفس ہے وہ
تھکے ہارے ہوئے قدموں کو آواز جرس ہے وہ
سرِ کنعانِ دل ،دستِ زلیخا کی ہوس ہے وہ
کہیں سعدیؔ اسے شیراز کا گل رو بتاتے ہیں
کبھی خسروؔ اسے ہم فطرتِ آہو بتاتے ہیں
ہزاروں شعر اس کو پیکرِ خوشبو بتاتے ہیں
کئی شاعر اسے بنگال کا جادو بتاتے ہیں
کبھی وہ آئینہ ہو جاتی ہے گنگا کی لہروں میں
جھلکتی ہے کبھی ہنستے ہوئے تلسی کے پتوں میں
کبھی گیتا کے پنوں میں تقدس ہے نہاں اس کا
اجنتا کے پہاڑوں میں ہے حسنِ جاوداں اس کا
کہیں وہ کرشن کی بنسی میں آکر مسکراتی ہے
کہیں رادھا کی صورت میں اسی کی یاد آتی ہے
کبھی ویدوں میں اس کی خواہشِ سیرت نگاری ہے
کہیں کشمیر ہے وہ اور کہیں کنیا کماری ہے
کوئی صندل بدن لڑکی
کوئی گل پیرہن لڑکی
مرے دل کے نہاں خانے میں اکثر مسکراتی ہے
مجھے اکثر ہنساتی ہے
مجھے اکثر رلاتی ہے
نہ جانے کیوں مجھے اس کے سحر انگیز چہرے پر
گلابی شام کے الجھے ہوئے منظر بھی ملتے ہیں
نہ جانے کیوں مجھے
اس کی سیہ زلفوں کے سائے میں
محبت کے بتوں کو پوجتے آذر بھی ملتے ہیں
سخن میں میرؔ کی غزلوں کا جادو آشکارا ہے
وہ جیسے آبشارِ زندگی کا استعارہ ہے
زبانِ شعر اس کو آئنہ دکھلا نہیں سکتی
غزل اس کے سراپا کو ابھی سمجھا نہیں سکتی
لبوں کو برگِ گل ،چہرے کو ایوانِ غزل کہیے
نظر کو خواہشوں کی جستجو کا ماحصل کہیے
نیازِ شوق کووہ سجدہ گاہِ ناز ہے جیسے
شہیدانِ جنوں کا آخری انداز ہے جیسے
جبینِ زندگی پر نقش ہیں شمس و قمر شاید
وہی دیتی ہے صبحِ شہر کو اذنِ سفر شاید
وہی صندل
گل پیرہن لڑکی
جس کے گلے پر تل ہے کالا سا
ہر اک انداز جس کا ہے زمانے سے نرالا سا
وہی صندل بدن لڑکی
وہی گل پیرہن لڑکی
جو میری دوست میری ہم نشیں معلوم ہوتی ہے
جو میری ہے مگر میری نہیں معلوم ہوتی ہے
٭٭٭
پھول چہرہ
اک پھول جیسی لڑکی
جب سے مجھے ملی ہے
میں کچھ بدل گیا ہوں
راہِ خیالِ غم سے
آگے نکل گیا ہوں
شبنم کی طرح میں بھی
گر کر سنبھل گیا ہوں
کچھ قافلے خوشی کے
ٹھہرے ہیں دل میں آ کر
کچھ خواب سرمئی سے
بادل پہ گھر بنا کر
مجھ کو پکارتے ہیں
قسمت سنوارتے ہیں
دنیا مری نہ جانے
کیسے بدل گئی ہے
اک پھول جیسی لڑکی
جب سے مجھے ملی ہے
میں جب کبھی جہاں کے
مکر و ریا سے تھک کر
مایوسیوں کے دل میں
آثار دیکھتا ہوں
خود کو ہر ایک شئے سے
بیزار دیکھتا ہوں
وہ میرے پاس آ کر
ہر ایک غم چرا کر
کہتی ہے مسکرا کر
فکریں سبھی اڑا کر
جیتے ہیں غم بھلا کر
لگتا ہے جیسے وہ بھی
تھوڑی سی فلسفی ہے
اک پھول جیسی لڑکی
جب سے مجھے ملی ہے
پایا ہے میں نے اس کو
تنہائیوں میں اکثر
اس کا ہنر یہی ہے
خاموشیوں کے در پر
وہ مسکراہٹوں کے
روشن دیے جلا دے
آنکھوں میں زندگی کے
کچھ آشیاں سجادے
اکثر ندی کی صورت
اک زندگی کی صورت
نازک لبوں سے اپنے
لفظوں کی خوبصورت
مالا بناتی ہے وہ
اور ٹوک دو تو خود پر
یوں مسکراتی ہے وہ
جیسے کسی پری سے
اک بھول ہو گئی ہو
جیسے دعائے الفت
مقبول ہو گئی ہو
یہ بھی مجھے لگا ہے
جیسے وہ اک پری ہے
دنیا کے غمکدے میں
بھولے سے آ گئی ہے
اک پھول جیسی لڑکی
جب سے مجھے ملی ہے
آنکھوں میں اس کے جیسے
برسات کھیلتی ہے
زلفوں کے سائے سائے
اک رات کھیلتی ہے
سانسوں سے خوشبوؤں کا
جھرنا سا پھوٹتا ہے
چہرے پہ نور آگیں
اک رنگ چھوٹتا ہے
ہونٹوں پہ اک گلابی
آہنگ جاگتا ہے
ماتھے پہ چاندنی کا
اک رنگ جاگتا ہے
اس کی ہر اک ادا میں
اک زندگی نہاں ہے
خوابیدگی کا پہلو
جگتے میں بھی عیاں ہے
خوش ہے نظر کا عالم
دل کی کلی کھلی ہے
اک پھول جیسی لڑکی
جب سے مجھے ملی ہے
٭٭٭
رفت و بود
وراثتیں
بدل گئیں
پرانے ہوتے جا رہے ہیں
خواب روزاس طرح
کہ جیسے پیرہن کوئی
صراحتیں
ہیں آبِ گُم کی طرح
اپنے آپ سے خفا
انا کی زد پہ جس طرح
کوئی شکستگی کا دُکھ
یہ حال ہے
تو رفت کیا ہے بود کیا
زیاں نہیں تو سود کیا
سحر کی اب نمود کیا
٭٭٭
بازیافت
شکستہ دل کوئی
اداس خواہشوں کے ساتھ
دست بستہ ایک
منبرِ سوال پر
خود اپنے آپ سے خطا ب کر رہا ہے اس طرح
طمانیت کے سارے راز جیسے
ڈھونڈ لائے گا
شکستہ دل کوئی
محبتوں سے دور ہو رہا ہے اس لیے
کہ راستوں کے نقشِ پا سے منزلوں کے
آئنے بنائے گا
مگر اسے خبر نہیں
یہ جس سے اپنے آپ کو فرار کر رہا ہے
وہ
غمِ سفر نہیں
ارادۂ سفر کی بازیافت ہی تو ہے
٭٭٭
دسترس
سرِ خیال
آئینہ سا کوئی ٹوٹتا ہوا
شفق کے پار
ایک غم کا آخری ثبات
دل
شکارِ بے حسی
نظر
ہر اک خمار سے پرے کسی کے انتظار میں
نہ جانے کتنے دن ستائیں گی یہ بے نوائیاں
عجیب بات ہے کہ ہر خوشی
لگے ہے جیسے
کوئی عارضی خیال ہے
عجیب بات ہے کہ غم
نہ با اثر نہ بے اثر
بس ایک آگہی کا درد ہے
جو روز اپنے آپ کوسمیٹتا ہوا
مثالِ مہر جا رہا ہے ایک غار کی طرف
جہاں سے پھر کبھی ابھر کے آ ہی جائے گا
مگر
ابھی تو اک سوال ’’دسترس‘‘ہے
مقصدِ حیات
سرِخیال
آئینہ سا کوئی ٹوٹتا ہوا
شفق کے پار
ایک غم کا آخری ثبات
٭٭٭
اپنی انیسویں سالگرہ پر ایک نظم
انیس برس کی خوشیوں کو، آنکھوں میں سجاکر رکھا ہے
انیس برس کے زخموں کو، سینے میں دبا کر رکھا ہے
کچھ دھوپ میں گھٹتے سایوں کو، کچھ شام میں بڑھتے سایوں کو
کچھ تنگ بداماں لوگوں کو، بھوکے ننگے ہمسایوں کو
اک شام کو بڑھتے دیکھا ہے، اک صبح کو گھٹتے دیکھا ہے
جب ہم نے بلکتے سورج کو، پانی پہ جھپٹتے دیکھا ہے
تنہائی کے اندھے جنگل میں، خاموشی شور مچاتی ہے
ماضی کے کنویں سے کیوں اکثر، آواز کسی کی آتی ہے
جب حال کی وسعت نے یکدم، ماضی کو سمٹ کر دیکھا ہے
آنکھوں سے ابلتے پانی نے، پتھر کو پلٹ کر دیکھا ہے
انیس برس کے داغوں نے، اک سوچ کا استقبال کیا
انیس برس کی یادوں نے کچھ رشتوں کو پامال کیا
کچھ رشتے جن سے راتوں کو خوابوں کا تسلسل باقی تھا
آنکھوں کی حرارت باقی تھی، قدموں کا تغافل باقی تھا
کچھ بھی تو نہ تھا بس لمحوں کی دھندلی تصویریں باقی تھیں
کچھ کاغذ تھے مُرجھائے سے، اُن پر تحریریں باقی تھیں
لیکن اب کچھ بھی باقی نہیں بس ایک ہی مقصد باقی ہے
دو حرف دعا کے جیسے ہیں اور میری منزل دور بہت
اب مجھ میں اور اس منزل میں حالات کی سرحد باقی ہے
٭٭٭
ماخذ:
http://tasneefsayyed.blogspot.in
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید