فہرست مضامین
ہند کہانی
(حصہ اول)
انتخاب و ترجمہ: عامر صدیقی
ڈاؤن لوڈ کریں
اور ہوا خاموش ہو گئی
اُوما
رات گہری ہوتی جا رہی ہے اور میں بہتی جا رہی ہوں۔ تھم نہیں سکتی ہوں، کوئی سرائے میرے لئے نہیں بنی ہے۔ میرے لئے تو ہیں ارد گرد کے بکھرے مناظر۔ اب وہ چاہے جیسے بھی ہوں، ان سے آنکھیں نہیں پھیر سکتی میں۔ اپنے ساتھ لائی کچھ بھلی بری بوؤں کو، راہ میں پھیلاتی جاتی ہوں تو وہاں موجود سناٹے اور شور کے ٹکڑوں کو سمیٹ لے جاتی ہوں۔ کچھ پرانے چیزیں پھر بھی پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ کھرچن کی طرح چپک جاتی ہیں، انہیں اتاریں تو بھی نشان رہ ہی جاتے ہیں۔ ان سے پیچھا چھڑانے کے لئے کچھ ایسا ہی کرتی ہوں میں، جیسا آپ پیتل کی کڑھائی کے ساتھ کرتے ہیں، قلعی کرواتے ہیں یا جیسے دیواروں کے ساتھ کرتے ہیں، نئے رنگ دھندلاہٹ کو چھپا دیتے ہیں۔ میں بھی نئی بوؤں کا لبادہ لپیٹ لیتی ہوں۔ اتنی گہرائی تک اترتی ہوں، جہاں تک کوئی پہنچ ہی نہیں پاتا، کوئی پہنچ بھی جائے تو پھر اس کی واپسی کبھی نہیں ہوتی۔۔ ۔ پر میری ہوتی ہے۔ جسم کی اندھی گلیوں میں اترتی ہوں۔ اندر کا زہر مجھ پر اثر نہیں کرتا۔ میں زندہ رہتی ہوں۔ گاتی ہوں میں، کراہوں بھرا گیت، غم زدہ گیت، چنچل گیت، مایوسی سے لبریز گیت۔ بیشمار آوازوں کی پناہ گا ہوں میں۔ ہوا ہوں میں۔
میں پانی کے اندر بھی بہتی رہی ہوں۔ اسی پانی میں، میں نے ہیر کو بھی دیکھا تھا۔ اس کے گھڑے میں سمائی تھی میں۔ ایک طلسم رچا تھا میں نے۔ ہیر کے دل میں اتری اور سمیٹ لائی اس کے اندر کی تمام خوشبو اور اتار دی رانجھے کے بدن میں، لیکن رکی نہیں میں، چلتی رہی۔ بنجارہ پن مجھ میں ہے یا میں بنجارے پن میں، کہنا مشکل ہے ذرا۔ اور یوں ہی کہتے کہتے، یوں ہی بہتے بہتے، ایک دن تڑپ اٹھی میں۔ مجھے رحم چاہیے تھا، نہیں ملا، اُنہیں بھی چاہیے تھا، نہیں ملا۔ ایک قطرہ بھی نہیں۔ اُن کی بے چارگی میری بے چارگی سے آن ملی، میں عورت بن گئی۔ میں ان عورتوں کی طرح ہی کانپ رہی تھی، جو بٹوارے کی بھینٹ چڑھیں۔ زیادتیوں کی گواہ تھی میں، مگر ٹھہر نہیں سکتی تھی۔ میری چال چیخوں میں بدل گئی۔ سال پیچھے چھوٹ سے گئے، بہت سی چیخوں کا بوجھ اتارا، لیکن جو پوروں میں بس گئی تھیں ان کا کیا؟ دھرم، مذہب بہانہ بنا تھا ان دنوں رنگ برنگی چنریوں کو تار تار کر دینے کا۔ اذانوں کی آوازوں اور آرتیوں کی دھنوں میں بھی زہر گھل گیا تھا۔ زہر کا اثر اب جاتا رہا ہے، آج ایک بار پھر اذانوں اور آرتیوں کی آوازیں کانوں سے ٹکرا رہی ہیں۔
’’گنپتی بپّا موریا۔۔ ۔ ‘‘ کی گونج پورے ماحول میں بکھری ہے، پر زہر کا اثر کیا واقعی ختم ہو گیا ہے! محسوس کر رہی ہوں اس لمحے کی سچائی۔ اس لمحے میری سانسیں تیز ہو رہی ہیں۔ اُس کی طرح، اُس کی طرح یعنی، وہ جو سامنے اسکوٹی پر بیٹھی سی ہے۔ اسکارف اور ہیلمٹ سے مکمل طور پر منہ ڈھکی ہے وہ۔ ایک لڑکی۔۔ ۔ یا عورت بھی کہہ سکتے ہیں، کپڑے اب کئی معنوں میں آزاد ہیں۔ وہ نہ صرف آپ کا جسم ڈھانپتے ہیں، بلکہ آپ کا اشتہار بھی بن جاتے ہیں۔ آپ کتنے پانی میں ہیں؟ یہ بھی بتاتے ہیں وہ۔ تو ایسا اسے دیکھ کر لگا کہ وہ کوئی حیران پریشان روح ہے۔ ایک روح۔۔ ۔ ایک زنانہ بدن کے اندر۔ یہ بات اور ہے کہ اس کا بدن اس کی روح پر ہر بار بھاری پڑتا ہے۔ سنبھلتا ہی نہیں بدن، اس سے بھی شاید نہیں سنبھل رہا، وہ کبھی سمٹ رہی ہے، کبھی اسکوٹی پر اپنا پورا وزن لاد دیتی ہے، کون جانے کتنا بوجھ ہو اس کے بدن پر۔ جیسے۔۔ ۔ ابھی ایک دم سے وہ ایک طرف جھکی، پاس سے کوئی گزر رہا تھا شاید۔ اتنا بھی پاس نہیں تھا، جتنے پاس اجالا لپٹا تھا اس سے۔ اجالا، تیز اجالا، رات کے نو بجے!
یہ جے پور شہر کا بھیڑ بھاڑ والا چوراہا ہے۔ شہر والوں کے پسندیدہ موتی ڈونگری گینش جی کے مندر سے ہوتی ہوئی یہ روڈ، سانگانیری گیٹ کی طرف جاتی ہے۔ شہر کے چار دروازوں میں ایک دروازہ۔ گنیش پرتمائیں، اپنی تاریخ، گاتھاؤں، گیتوں، بھجنوں اور تماش بینوں کی فوج کے ساتھ پرانے شہر پر چڑھائی کرنے جا رہی ہوں جیسے۔ سچ میں سڑکوں پر سرپٹ دوڑتی گاڑیوں کا شور ہتھیار ڈال رہا ہے، سرپٹ بھاگتی گاڑیاں، یہاں وہاں کسی محفوظ گلی کی تلاش میں ہیں۔ وہ عورت بھی شاید کسی محفوظ گلی کی تلاش میں تو نہیں۔ میں اتری اس کے اندر، ڈر کی بو سمائی مجھ میں یا میں ہی کچھ خوف چھوڑ آئی وہاں، کہنا مشکل ہے۔
خیر ڈر سے پہلے بات آج کے دن کی، کچھ خاص ہی دن ہے آج کا۔ آج گینش جی کی شوبھا یاترا نکالی جا رہی ہے۔ کل حیرت انگیز اتفاق تھا۔ گنیش چتُرتھی اور عید ایک ہی دن منائی گئیں۔ یہ اتفاقات ہماری زمین پر نئے نہیں ہیں، مگر یہ ڈر بھی تو نئے نہیں ہیں۔ ریوا۔۔ ۔ ریوا نام ہے اس عورت کا، کہیں اسی خوف کو تو نہیں جی رہی وہ۔ میں ریوا کے ارد گرد ہوں، وہ بڑبڑا رہی ہے، لیکن اس کی اپنی آواز ’’ جے گنیش‘‘ کی گونج میں دفن ہوتی جا رہی ہیں۔
سبز رنگ کے اونچے کرتے، لیگنگ اور باریک دوپٹے میں سمائی، عام سی قد و قامت والی ریوا نے شاید تیس موسمِ بہار تو دیکھے ہی ہوں گے، محسوس ہوا ہو گا کہ کتنی ہی بار کی راتیں اس سے ہی جواں ہوتی ہیں، لیکن ریوا کو تو ابھی موسم کی مہک سے کوئی لینا دینا نہیں۔ بہت دیر سے ٹریفک جام میں پھنسی ہے وہ۔ جھنجھلاہٹ میں اس نے ہیلمٹ اور اسکارف اتارا، ڈھیلی پڑ چکی پونی ٹیل کو درست کیا۔ سانولی رنگت اور تیکھے نین نقش کے بیچ فکروں کی لکیریں دوڑ رہی ہیں۔ گہری سیاہ آنکھیں کاجل سے اور بھی گہری نظر آ رہی ہیں، شکوک کے ڈورے ان گہرائیوں میں پھر بھی نہیں ڈوبے، بلکہ اچھل کر گھڑی پر جا ٹپکے۔
’’۔۔ ۔ نو بج گئے ہیں، چینو کے سونے کا وقت ہو رہا ہے۔ اے گینش جی مہاراج آپ کی پرتماؤں کو دیکھنے کا سکھ ادبھت ہے، لیکن اب ذرا جلدی جاؤ جی۔ ‘‘ ریوا پاس کھڑے ٹریفک سپاہی سے پوچھتی ہے، ’’ارے بھائی کتنی دیر لگے گی راستہ کھلنے میں۔ ‘‘
’’آپ آرام سے گاڑی کھڑی کر لو میڈم، ٹائم لگے گا ابھی۔ ‘‘ سرد اور تھکے لہجے میں گھنی مونچھوں والے ٹریفک سپاہی نے کہا۔
’’کتنا؟‘‘
’’کچھ پتا نہیں ہے۔ ‘‘
’’اسے کہتے ہیں پڑھی لکھی گنوار۔ ‘‘ ریوا نے آہستہ سے اپنے کان میں سرگوشی کی۔ کانا پھوسی خود سے چلتی رہی۔۔ ’’ صبح سے خیال آ رہا تھا کہ شام کو راستہ بند مل سکتا ہے۔ شوبھا یاترا نکلنی ہے۔ پر نہیں جی، اپنے دماغ پر ہی کچھ بھروسہ کم ہے۔ نکل پڑیں میڈم، اب بھگتو۔ ‘‘
پھر خود سے جرح کرتی ہوئی بولی، ’’ ہاں ٹھیک ہے بھگت رہی ہوں نہ پچھلے ایک گھنٹے سے۔ بس چینو کی فکر ستائے جا رہی ہے۔ پتہ نہیں کچھ کھایا بھی ہو گا اس نے یا نہیں۔ اس کے کھانے سے زیادہ ڈر تو اس کے پاپا کا ہے۔ بس ابھی فون آتا ہی ہو گا، ابھی چیخیں گے کہ اپنے آپ کو زیادہ ہوشیار سمجھتی ہو، مجھ سے پوچھ تو سکتی تھیں، جانے سے پہلے۔
کیوں؟ کیا پوچھنا تھا ان سے۔ دس دن ہو گئے کہتے کہتے کہ چینو کی فیس جمع کروانی ہے، اس کا بیگ بھی خراب ہو رہا ہے، ہاتھ کی سلائی بھی بھلا کبھی رکتی ہے بیگ پر۔۔ ۔ لیکن نہیں جناب، انہیں کوئی مطلب نہیں ان چیزوں سے۔ ایک نوکری تک تو وہ خود کیلئے ڈھونڈ نہیں سکتے۔ ان کی بلا سے بھوکے مرو۔۔ ۔ ‘‘ ریوا بڑبڑاتی جا رہی تھی کہ اچانک کسی کا ہاتھ اس کی پیٹھ پر زور سے پڑا۔
’’ہائے ریوا ’’، جینس اور کرتے میں اس کی ہم عمر، لیکن ذرا کھلنڈری سی نظر آنے والی لڑکی نے ہنسی کو ہوا میں بکھیرتے ہوئے کہا۔
’’ارے جیتو تو یہاں کیا کر رہی ہے۔ ‘‘
’’میرا کون سا خصم بیٹھا ہے گھر میں راہ دیکھنے کو۔ دیدی کا فون آیا تھا، ذرا کام تھا اُسے، بس اسی بہانے کی ڈور پکڑ کر آوارہ گردی کر رہی ہوں اور توُ؟‘‘ ارد گرد موجود بھیڑ پر نظریں دوڑاتے ہوئے اس نے کہا۔
’’ارے چینو کے لئے کچھ خریدنا تھا۔ دیر ہو گئی۔ کتنا گھومتے گھامتے یہاں تک پہنچی ہوں۔ جوہری بازار میں گاڑیوں کی نقل و حرکت بند کر دی گئی ہے۔ چَوپڑ سے کشن پول ہوتے ہوئے آئی ہوں، بیوقوفی کی کہ اجمیری گیٹ سے نہیں مڑی۔ سوچا راستہ کھلا ہے، تو آگے بھی کھلا ملے گا۔ یہ تو سوچا ہی نہیں کہ گنپتی سواری تو گنیش مندر سے سانگانیری گیٹ کی جانب ہوتے ہوئے ہی نکلتی ہے۔ ‘‘
’’ارے تو اب پریشان نہ ہو۔ کتنے سالوں بعد ایسے نظارے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ‘‘ کندھے سے ذرا نیچے ادھر ادھر بکھرے اپنے گھنگھریالے بالوں میں انگلیاں پھنساتے ہوئے اس نے کہا۔
’’ہاں وہ تو ہے، بچپن میں دیکھی تھی ایک بار۔ اس کے بعد سے توبہ کر لی۔ ‘‘ پھر سے اس حادثے کا ری ٹیک نہ ہو، اس لئے بالکل درمیان میں اسکوٹر کھڑا کر دیا۔ ٹریفک سپاہی کیلئے بنی چوکی کے پاس۔ ’’زیادہ ہوا تو وہیں جا کر کھڑی ہو جاؤں گی۔ ‘‘ریوا کی نظریں چوکی پر گئیں۔
چوکی مکمل طور پر بچوں کے حوالے تھی۔ ان کی ننھی ہتھیلیاں جام ہوئے راستے میں بھی راہ دکھا رہی تھیں۔ ننھے ہاتھوں نے جدھر اشارہ کیا، ریوا کے خیال بھی ادھر مڑ گئے اور چینو سے جا ملے۔ فکر کی لکیریں چہرے پر بکھر گئیں۔ اس نے نظریں وہاں سے ہٹا کر جیتو پر ٹکا دیں۔
’’ہاں، بھیڑ سے مجھے بھی گھبراہٹ ہوتی ہے، دیر تو مجھے بھی ہو رہی ہے۔ لینڈ لارڈ تالا لگا دیں گے۔ ‘‘ جیتو پر تشویش کے جراثیموں نے دھاوا بول دیا۔
’’ارے میں چھوڑ دوں گی نا، تیرا گھر تو ویسے بھی راستے میں ہے۔ ‘‘دوسری جانب سے ریوا کے تسلی میں لپٹے لفظ آئے۔
’’ٹھیک، پر پہلے یہ بتا کہ تجھے کیا ہوا ہے؟ آفس میں بھی پریشان دکھائی دے رہی تھی۔ سوچ رہی تھی کہ بات کروں، لیکن آج کام بہت زیادہ تھا، بتانا کیا ہوا؟‘‘ جیتو نے پوچھا۔
’’کیا کہوں؟ کچھ نیا تو نہیں ہے۔ سارا دن گھر میں رہ کر بھی وہ چینو سے لا پروا ہی رہتے ہیں۔ بھابھی کے بھروسے چھوڑ کر آتی ہوں اسے، لیکن کب تک۔ مجھے بھابھی کو کچھ کہنا بھی اچھا نہیں لگتا۔ انہیں لگتا ہو گا کہ ان کے لئے کچھ کرنے کی بجائے، ہم نے اپنی ذمہ داری بھی انہیں سونپ دی۔ ‘‘
’’وہ تو گھر میں ہی رہتی ہیں نا۔ اپنے بیٹے کے ساتھ تیری بیٹی کو رکھ لینے میں حرج بھی کیا ہے۔ اور پھر دو چار گھنٹے کی تو بات ہے۔ اسکول سے آنے میں ہی اسے تین بج جاتے ہوں گے۔ ‘‘
’’ہمم۔۔ ۔ وہ تو ٹھیک ہے، لیکن گھر سے جلدی نکلتی ہوں تو گھر کے سارے کام بھی نہیں کر پاتی ہوں۔ پاپا جب دیکھو، تب سنا دیتے ہیں۔ سب کے سامنے کہہ دیتے ہیں کہ بڑی بہو ہے، تبھی چھوٹی نوکری کر پا رہی ہے۔ نہیں تو اس کے بس کا کچھ نہیں۔ بہت برا لگتا ہے۔ اپنے اُن سے کہتی ہوں کہ تھوڑا سا کام پیچھے سے سنبھال لیں، لیکن وہ سنتے ہی نہیں۔ نہ ان سے باہر کا کام ہوتا، نہ گھرکا۔ چینو کی فیس بھی دو ماہ سے نہیں دی۔ اس کا بھی انتظام کرنا تھا مجھے، لیکن ہوا نہیں۔ پاپا سے بھی نہیں مانگ سکتی۔ بڑے بیٹے کے جانے کے بعد سے بڑی بہو اور پوتے کی ذمہ داری انہوں نے سنبھال لی ہے۔ وہی دیتے ہیں اس کی فیس۔ بھابھی زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہے، اس لئے جاب بھی نہیں کر سکتی۔۔ ۔ ‘‘
’’ارے دیکھو ریوا۔۔ ۔ کیسے یہ لوگ منہ سے آگ کی لپٹیں نکال رہے ہیں۔ ‘‘ جیتو نے اداس باتوں کا سلسلہ منقطع کیا۔ ریوا بھی اس کی کوششوں میں ساتھ دیتے ہوئے بولی۔ ’’ہاں یار۔ یہ منہ سے نکال رہے ہیں اس آگ کو، جو حلق کے نیچے نہیں اتری ہے، یہاں میرے جسم میں بسی آگ کو کون نکالے گا۔ ‘‘
ٹھیک چورا ہے پر کھڑی ریوا اور جیتو، گنیش جی اور دیگر دیوی دیوتاؤں کی پرتماؤں کی شوبھا یاترا کے ساتھ ہی، لوک فنکاروں کے کرتب بھی دیکھ رہی تھیں۔ ساتھ ہی سوچ رہی تھیں کہ کیسے وہ ابھی تک کسی کی دھکم پیل کا شکار نہیں بنی ہیں۔
’’ارے ریوا کیا ٹائم ہوا؟‘‘
’’ٹائم تو بڑا برا ہے۔ ‘‘ ریوا نے کہا ہی تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی۔
’’ہاں، ہیلو۔۔ ۔ ہیلو۔۔ ۔ ہاں زور سے بولو، آواز سنائی نہیں دے رہی۔ ‘‘
’’کتنی دیر لگے گی۔۔ ۔ ’’فون سے آواز آئی۔
’’بس ابھی، راستہ بند ہے، یاترا نکل رہی ہے۔ ‘‘
’’تو، کوئی ضروری تھا تمہارا آج ہی شاپنگ کرنا دیوی جی۔ ‘‘
’’آ رہی ہوں، کہا نا۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے، اچھی بات ہے۔ تم اب کماتی ہو۔ تمہیں کسی سے پوچھنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ جب دل کرے، تب آ جانا۔ میں جا رہا ہوں۔ رات دیر سے آؤں گا۔ تمہاری طرح نہیں ہوں، جو نہیں بتاؤں۔ تمہاری تو ناک آج کل زیادہ اونچی ہو گئی ہے، رکھو اپنی ناک سنبھال کر۔ ‘‘
لفظوں کو ادھوراسا چھوڑتا فون، ریوا کے چہرے پر بھی ادھوراپن چھوڑ جاتا ہے۔ بہت بھاؤ آئے اور گئے اس کے چہرے سے۔ جیتو سمجھ گئی۔ دوست جو ہے اس کی۔
’’پتی دیو؟‘‘
’’چل چھوڑ نہ، ان کی پرواہ نہیں مجھے۔ لیکن چینو پریشان ہو رہی ہو گی۔ بول کیا کریں؟‘‘
’’ہمم۔۔ ۔ چل، گاڑی کو گھسیٹ کر لے جاتے ہیں، دیکھتے ہیں شاید پیدل گھسیٹ کر لے جانے کی اجازت دے دے۔ ذرا گزارش کر ہی لیتے ہیں۔ ‘‘
جیتو کی تجویز پر ریوا کی خاموش مہر لگتی ہے اور اسکوٹر ان کی بات مانتا ہوا گھسٹتا ہے آہستہ آہستہ۔
’’۔۔ ۔ ارے۔۔ ۔ ارے میڈم، آگے نہیں لے جا سکتیں آپ۔ ‘‘ ٹریفک کا سپاہی اپنے ہونے کا ثبوت دیتا ہے اور اسکوٹر کی ہیڈ لائٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے پیچھے کی طرف لوٹنے کا اشارہ کرتا ہے۔
’’پلیز بھیا جی، دیکھئے نہ دیر ہو رہی ہے، چھوٹی بچی راہ دیکھ رہی ہے۔ ‘‘
’’تو میں بھی تو راہ دکھا رہا ہوں نہ آپ کو۔ آپ ایسا کرو جی، سائیڈ والی گلیوں میں سے ہوتے ہوئے نکل جاؤ۔ دیکھئے اور لوگ بھی جا رہے ہیں۔ بس، بس وہیں سے، راستہ آگے جا کر مین روڈ میں مل جائے گا۔ ‘‘ اس نے ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہوئے سمجھایا۔ اپنی عادت سے الٹ کچھ مٹھاس اس کے لفظوں میں تھی، لہذا بات فوری طور پر مان لی گئی۔
ریوا گاڑی کو آگے گھسیٹ رہی ہے، ڈر پیچھے گھسیٹ رہا ہے، ’’نہیں، ریوا نہیں۔ آگے نہ جانا۔ تُو کبھی اس راستے پر نہیں گئی ہے۔ تُو جانتی نہیں ریوا، مسلم علاقہ ہے۔ رات کے گیارہ بجنے کو ہیں۔ ساری عورتیں تو اندر ہوں گی۔ وہ جو رحم کر سکتی ہیں، مدد کر سکتی ہیں، جو مسلم ہونے سے پہلے عورتیں ہیں، تجھے ان میں سے ایک بھی نظر نہیں آئے گی۔ ‘‘
سچ۔۔ ۔ ایک بھی نظر نہیں آئی تھی مجھے۔۔ ۔ زندہ۔ پیچھے چھوٹ چکے وقت کو گرفت میں لیتی ہوں۔ تمام تہوں کے پیچھے گذرتے زمانے کی چیخیں سنائی دینے لگی ہیں۔ نہیں۔۔ ۔ نہیں اذانوں اور آرتیوں کی آوازوں میں، میں پھر سے چیخوں کو شامل نہیں ہونے دوں گی۔ میں ریوا کے ارد گرد لپٹ جاتی ہوں۔
’’پھنس گئے جیتو۔ اب کیا کریں؟ کتنی تاریکی ہے ان گلیوں میں۔ سمجھ میں ہی نہیں آ رہا کہ کون سی گلی آگے جا کر بند نکلے گی اور کون سی گلی سڑک کی جانب۔ ‘‘خوف میں بھیگے الفاظ ریوا کے منہ سے چھوٹ پڑے۔
’’ارے ڈرو نہیں۔ دیکھو نا آگے دو اسکوٹر والے بھی جا رہے ہیں۔ بس انہی کے پیچھے ہو لو۔ ‘‘
’’کتنی پتلی اور تاریک گلیاں ہیں۔ ہر لمحہ سویا ہوا ہے یہاں۔ کون سنے گا، اگر چیخنا بھی پڑا تو۔ ‘‘ ریوا نے کہا۔
پیچھے بیٹھی جیتو، ریوا کو تسلی دینے لگی اور ہولے سے کندھے کو دبا دیا۔ دبا کیا دیا، اپنا بھی ڈر ظاہر کر دیا۔ جیتو کو یاد آ رہا ہے کہ اس کے بھائی تو دن میں بھی اسے مسلمانوں کی بستی میں نہیں جانے دیتے۔ کیا بھروسہ ان کا۔ انہیں تو ہندو بیری نظر آتے ہیں۔ نفرت کی کوئی نہ کوئی وجہ مل ہی جاتی ہے دونوں دھرموں کے لوگوں کو۔ تو کیا اس نفرت کا خمیازہ بھگتنے کی باری آج ہماری ہے۔ نہیں نہیں، یہ باتیں پرانی ہو چلی ہیں، ہمارے شہر نے ہر پرانی بات پر مٹی ڈال دی ہے۔ خود کو تسلی دیتی جیتو کی نظریں گلی کے ترا ہے پر اٹکیں۔ پتلی سی گلی یہاں اور پتلی ہو کر دو حصوں میں تقسیم ہو رہی تھی۔ کچھ وائے کی شکل میں تھی گلی، جہاں سے دو حصے ہو رہی تھی، وہیں ایک بوسیدہ مکان کھڑا تھا اور اس کے آگے اسی مکان سے ملتا جلتا ایک شخص۔
’’ریوا دیکھو ان سے پوچھو نہ، یہ بوڑھے بابا کھڑے ہیں، بھلے ہی نظر آ رہے ہیں۔ ‘‘ جیتو نے دل کی کہہ ڈالی۔
’’نہیں، پاگل ہے تُو، ہم کسی سے نہیں پوچھیں گے۔ اسکوٹر کے پیچھے چلتے ہیں نا۔ بیوی بچوں کے ساتھ ہے وہ۔ اس کے ساتھ ساتھ چلنا زیادہ محفوظ ہے۔ ‘‘
یہ کیا اسکوٹر نے تو لیفٹ ٹرن لے لیا، ریوا کی نظر تاریک گلی میں دوڑتے اسکوٹر کو پکڑنا چاہتی تھی، لیکن پکڑ نہ سکی۔ نظریں پیچھے کی راہ پر پلٹنے کے لئے گردن کے ساتھ گھوم گئیں اور اسکوٹر خود بہ خود رک گیا۔ پیچھے ہلچل تھی تو بس اندھیرے کی۔ ہارن کی آواز جو اکثر کوفت پیدا کرتی ہے، ریوا کو آج اسی کی تلاش تھی۔ بیتاب آنکھیں پھر پلٹیں اور بوڑھے آدمی سے جا ٹکرائیں۔ ٹھیک اسکوٹر کے سامنے بوسیدہ دیوار کی طرح کھڑا تھا وہ۔ کیا توڑ دوں اس دیوار کو،اسکوٹر چڑھا دوں۔۔ ۔۔ اتنی بھی بوسیدہ عمارت نہیں، جو منہدم ہو جائے گی۔۔ ۔ ریوا کے خیال فرار کی فراق میں تھے۔ پسینہ بھی سوکھنے لگا تھا۔ ریوا کچھ کہنا چاہ رہی تھی، لیکن زبان نے ساتھ نہ دیا۔ اس کے ہونٹ کپکپائے۔۔ ۔
’’ہاں بیٹا، ادھر اس گلی سے پھر وہاں مڑ جانا، سڑک آ جائے گی۔ ‘‘ بوڑھے نے بہت تسلی بھرے لہجے اور اپنائیت سے کہا۔
ریوا کو کہاں تسلی تھی۔ اس نے فوری طور پراسکوٹر آگے بڑھا لیا، لیکن ہڑبڑاہٹ میں مناسب طریقے سے سمجھا نہیں۔ کوسا خود کو۔ کتنے بھلے تھے نا بابا۔ پہلے بھی تو دو لوگوں کو راستہ بتایا تھا اور ہمیں تو بغیر پوچھے ہی بتایا۔ ناحق ہی اتنا ڈر رہے تھے۔ ریوا نے کچھ سکون کی سانس لی، پھر یاد آیا کہ ارے کون سا موڑ؟
’’جیتو بتانا کہاں مڑنے کے لئے کہا تھا۔ ‘‘
’’رائٹ کی طرف۔ ‘‘
’’نہیں، شاید سیدھا چلنے کے لئے کہا تھا۔ ‘‘
’’نہیں، رائٹ کی طرف۔ ‘‘
تبھی پاس سے ایک موٹر سائیکل گزری، بھیدتی سی نظریں اور چہرے پر ٹیڑھی مسکراہٹ کا زیور پہنے۔ وہ کوئی چور تو نہیں تھا، پر چور سے کچھ زیادہ ہی خطرناک لگ رہا تھا۔
’’رائٹ میڈم رائٹ۔ ‘‘ آنکھوں اور گردن سے ایک ساتھ اشارہ کرتے ہوئے اس نے ایسے کہا کہ سوچ نہ جانے ریوا کو کون سے خوفناک انجام تک لے گئی۔
’’تم سے پوچھا میں نے۔ ‘‘ ریوا چلائی اور گاڑی سیدھی آگے بڑھا دی، دائیں جانب کی اگلی گلی سے بھی آگے بڑھنے کو ہوئی، تو سامنے دیکھا کہ راستہ کچھ بند سا لگ رہا ہے۔ ریوا کی سانس پھولنے لگی،اسکوٹر تو بند ہی ہو گیا۔ نہ جانے کیسا اسکوٹر ہے۔ ’’جب بھی اسپیڈ کم کرو تو بند ہو جاتا ہے۔۔ ۔ ‘‘ریوا بڑبڑاتی جا رہی تھی، کوس رہی تھیاسکوٹر کو، جیسے کوئی بری سی گالی سن کر اس کا انجن جاگ اٹھے گا اور وہ اسٹارٹ ہو جائے گا۔ ا سٹارٹ ہوا اسکوٹر، لیکن تیسری کک سے۔۔ ۔
’’ شکر ہے اسٹارٹ ہو۔ ‘‘ ریوا نے تسلی کی سانس لی۔
جیتو بولی۔ ’’چل اب واپس بیک لے اسکوٹر کو، کہا تھا نہ سنتی ہی نہیں میری۔ ‘‘
ریوا نے گاڑی بیک کی۔ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے نظریں پھر انہی نظروں پر ٹھہر گئی۔ اسکوٹر بھی ٹھہر گیا۔ اسی ترا ہے کے ٹھیک بیچ کھڑا تھا وہ، جہاں سے ریوا کو ٹرن لینا تھا۔ سڑک پر اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں اس کا چہرہ دیکھ پا رہی تھی ریوا۔ ریوا کو وہ خود سے کم عمر لگا، لیکن عمر سے کیا مطلب۔ مضبوط قد کاٹھی تھی اس کی۔ سیاہ رنگ کے لباس میں سمایا اس کا رنگ بھی گہرا ہی تھا۔ شرٹ کے اوپر کے دو بٹن کھلے تھے، لمبی سی چین اس کی گردن میں جھول رہی تھی۔ اس کے بال ذرا بھی نہیں ہل رہے تھے، بالوں میں انگلیاں پھرا کر وہ زبردستی انہیں ہلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہنسی اس کے چہرے پر مست مولا سی بکھری تھی۔ وہ گھورتا رہا ریوا کو اور ہنستا رہا، ریوا ٹھہری رہی اور ڈرتی رہی۔ اس بار اس نے منہ سے کچھ نہیں بولا، ریوا کے منہ سے بھی کوئی بول نہیں پھوٹا۔ اندھیرے کے منہ سے بھی نہیں۔
ریوا زور سے ہانپنے لگی، دوبارہ بیٹھی جیتو بھی۔ موٹر سائیکل والا لڑکا پہلے کی طرح ٹیڑھی مسکراہٹ بکھیر رہا ہے۔ کہہ کچھ نہیں رہا۔ بس ہاتھ سے اشارہ کیا۔ مگر یہ کیا؟ اشارہ تو کوئی نامناسب نہیں تھا۔ اس نے پھر رائٹ کی گلی کی جانب ہاتھ سے اشارہ کیا۔ ریوا نے فوراً رائٹ کی جانب ٹرن کیا۔ ایک بار لڑکے کو پیچھے مڑ کر دیکھا، کہیں وہ پیچھے تو نہیں آ رہا۔ نہیں، وہ ابھی وہیں کھڑا ہے۔ گاڑی آگے بڑھ رہی ہے، خوف پیچھے چھوٹ رہا ہے اور سچ میں چھوٹ ہی گیا پیچھے، وہ لڑکا بھی۔
ایک طویل گہری سانس لی دونوں نے۔ ریوا، جیتو اوراسکوٹر تینوں اب مین روڈ پر تھے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو گنیش جی کے لوازمات نظروں سے دور ہو رہے تھے۔ جیتو اور ریوا زور سے ہنسیں، بہت زور سے۔
میں بھی زور سے ہنسی۔ ہنسی چادر کی طرح بچھ گئی ڈر کی تہوں پر۔ مضبوطی سے لپیٹ لیا چادر کو کہ کہیں ڈر پھر منہ باہر نہ نکالے۔ وہ چلیں آگے آگے اور میں ان کے آگے پیچھے، لپٹتی سی، خوف کو ذرا سا چھٹکتی سی۔ لوازمات پیچھے چھوٹ رہے تھے۔ روشنی بھی پہلی جیسی نہیں رہی تھی۔ ریوا نے جلدی سے جیتو کو ڈراپ کیا۔ ریوا کی گاڑی اب تیز دوڑنے لگی، مجھ سے بھی تیز دوڑ سکتی ہو! میں سوچ رہی ہوں، وہ بھی کچھ سوچ رہی ہے، اپنے اپنے وقت کے زخم کچھ مختلف اور الگ الگ پیکیجنگ میں تیار ملتے ہیں۔ اندھیرے کو چیرتا ہوا اسکوٹر اور بہانوں کو بُنتی ریوا اپنے مقام پر پہنچی، دروازہ ریوا کے انتظار میں کھلا ہی تھا اور بھی کچھ تھا اس کے انتظار میں۔ ایک تیکھی بو۔
’’آ گئیں آپ، بڑی جلدی آئیں۔ ‘‘، ریوا کے شوہر کی آواز تھی۔
’’میں نے بتایا تو تھا تمہیں، اب کیا دس بار کہوں۔ ‘‘
’’ زبان مت چلاؤ مجھ سے، کچھ زیادہ ہی ہواؤں میں اڑنے لگی ہو آج کل، میں کم پڑتا ہوں نہ تم کو۔ ‘‘
’’اتنا ہے تو تم کماؤ نا، کیوں بھیجتے ہو مجھے باہر۔ ‘‘
’’چھوٹ دی تو یہ گل کھلاؤ گی۔ ‘‘
’’ذرا شرم ہے، گھر میں سب سن رہے ہیں۔ ‘‘
’’مجھے کہاں شرم۔ شرم تو تمہیں ہے جو چھنالوں کی طرح رات کو گھومتی ہو۔ ‘‘
’’اور تم۔۔ ۔ تم بھی تو جانے والے تھے۔ ‘‘
’’اوہ۔۔ تو اس لئے آپ دیر سے آئیں کہ میں تو جا رہا ہی ہوں، مجھے کیا پتہ چلے گا۔ میں اتنا پاگل نہیں ہوں، جتنا تم سمجھتی ہو۔ ‘‘
’’بس کرو۔ ‘‘
’’ہاں، میری کیا اوقات کہ کچھ کہوں۔ ‘‘ وہ غصے میں دروازہ بند کرتے ہوئے باہر نکل جاتا ہے۔
ریوا پیچھے پیچھے جاتی ہے۔ ’’رات کو بارہ بجے کون سی کھیتی کرنے جا رہے ہو؟‘‘
’’مجھے تمہاری اجازت کی ضرورت نہیں ہے سمجھیں، تمہاری وجہ سے میں ویسے ہی لیٹ ہو چکا ہوں۔‘‘
’’سارا دن گھر میں پڑے رہتے ہو، مجھے اپنا تاؤ نہ دکھاؤ۔ ‘‘
’’ریوا، بس چپ کرو، جانے دو، بچے جاگ جائیں گے، پاپا بھی سن رہے ہیں، اندر آؤ۔ ‘‘، بھابھی ہاتھ پکڑتی ہوئی اندر گھسیٹتی ہے۔ اور دروازے پر چٹخنی چڑھاتی ہے اور ریوا آنکھوں سے آنسوؤں کو نیچے گراتی رہتی ہے۔
روتی جاتی ہے ریوا اور بولتی جاتی ہے۔ ’’چینو کی فیس کا انتظام کرنے گئی تھی بھابھی، خود کوئی کام نہیں کرتے اور مجھ پر رعب جماتے ہیں۔ ‘‘
’’میں سمجھتی ہوں۔ مت دو اسے صفائی۔ اچھا بتاؤ ہوا انتظام۔ ‘‘
’’نہیں بھابھی، پورا نہیں۔ مِینل کے گھر گئی تھی، اس نے دو ہزار دیئے ہیں۔ چینو کا بیگ لے آئی، اب اس میں فیس تو جمع ہوتی نہیں اس لئے۔ ‘‘
’’کتنے چاہئیں؟‘‘
’’تین ہزار اور چاہئیں۔ ‘‘
’’کرتی ہوں کچھ انتظام۔ ‘‘
’’نہیں بھابھی، آپ کہاں سے لائیں گی۔ آپ پریشان نہ ہو۔ راستے میں جیتو بھی ملی تھی، اس نے کہا کہ وہ کچھ انتظام کر دے گی۔ کس کام کا ایسا باپ، اپنی بچی کو پڑھا بھی نہیں سکتا۔ ‘‘
’’ایسا مت کہہ ریوا، ایک چھایا تو ہے۔ ‘‘
’’نہیں ضرورت ایسی چھایا کی۔۔ ۔ زہر چھوڑتی ہوں جس کی پتیاں، اس درخت کی چھایا سے کیا مطلب بھابھی۔ ‘‘
’’ایسا مت بول ریوا، تو نہیں سمجھے گی، شوہر کا نہ ہونا کیا ہوتا ہے۔ چل غصہ چھوڑ، پہلے کھانا کھا لے، چینو نے کھا لیا ہے، سو گئی ہے۔ کپڑے بدل کر باورچی خانے میں آ جا۔ ‘‘
آنسو پونچھتی ہوئی۔ ’’میں لے لوں گی بھابھی آپ سوجاؤ۔ ‘‘
ریوا اپنے کمرے میں جاتی ہے۔ چینو کو چومتی ہے اور کپڑے بدلتی ہے۔ بھوک کے درد کو پیچھے دھکیلتی ہے، پھر باورچی خانے میں پہنچتی ہے اس بات سے بے خبر کہ کوئی سایہ ہے پیچھے۔ ریوا روٹی اور سبزی تھالی میں رکھ رہی ہے اور اس کی بھوک بھڑک رہی ہے۔ بھوک کسی اور کی بھی بھڑک رہی ہے۔ ریوا جلدی جلدی ایک کٹوری میں دہی نکالتی ہے اور کٹوری تھالی میں رکھتی ہے کہ ایک ہاتھ گردن کے پیچھے سے سانپ کی طرح بڑھتا ہوا آتا ہے۔ اور ریوا کی روح میں زہر چڑھا دیتا ہے۔ چونکتی ہے وہ، پیچھے دیکھتی ہے۔
’’پاپا!‘‘ ہونٹ کپکپاتے ہیں، آواز دفن ہو جاتی ہے۔
’’دیکھ تو پیسے کے لئے اتنی پریشان نہ ہو، میں تو بس فیس کے پیسے دے رہا تھا۔ وہ تو نالائق ہے۔ توُ تو سمجھدار ہے نا۔ رونا بند کر اب، کھانا کھا لے۔ ‘‘
ریوا کی آنکھوں سے ندی بہہ نکلتی ہے اور ساری امیدیں اس میں بہہ جاتی ہیں۔ ریوا زور سے ان کو دھکا دیتی ہے۔ دروازے کے ٹھیک باہر رکھے اسٹول سے وہ ٹکرا کر نیچے گرتے ہیں۔ کمزور ہو چکا بدن ان سے سنبھلتا نہیں ہے۔
گرنے کی آواز سن کر بھابھی دوڑی چلی آئی۔
’’کیا ہوا۔ ‘‘ وہ پوچھتی ہیں۔
’’کچھ نہیں، میں اندھیرے کی وجہ سے گر گیا۔ ‘‘ جھینپ مٹاتے ہوئے پاپا کہتے ہیں۔
ریوا کی آنکھیں کچھ اور نظارہ بیان کرتی ہیں۔ پاپا اپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔
’’ریوا کیا ہوا؟‘‘ بھابھی سہمی نظروں سے اسے دیکھتی ہے۔
بھابھی۔۔ ۔ پاپا نے۔۔ ۔۔ ‘‘ساری باتیں ایک ہی سانس میں کہہ جاتی ہے، جو لفظ ٹوٹتے ہیں انہیں ریوا کے آنسو پورا کر دیتے ہیں۔
’’ریوا! خاموش۔ ‘‘
’’بھابھی!‘‘چہرے کی لکیریں سوال پوچھتی ہیں۔
’’ہاں، ریوا خاموش، آس پاس والے سن لیں گے اور بھول کر بھی یہ بات اپنے اُس نامراد شوہر سے مت بتانا۔ اگر وہ ہی کسی قابل ہوتا تو اس کے باپ کی اتنی ہمت ہوتی؟‘‘
’’اور اگر وہ نہ ہو تو؟ شوہر نہ ہو تو، کیا نوچ کھائیں گے؟‘‘
’’ہاں ریوا، نوچ کھائیں گے۔ ‘‘
ریوا ایک ٹک بھابھی کی طرف دیکھتی رہتی ہے۔
ان کی آنکھوں میں آنسو نہیں ہیں، صرف ایک کھائی ہی نظر آتی ہے، جس میں دفن ہیں ساری چیخ۔
ریوا کو سنائی دینے لگتی ہیں وہ ساری خاموش چیخیں۔ تھکی ہوئی، ہاری ہوئی چیخیں۔ اس کے کانوں سے ہوتی ہوئی چیخیں دل تک اترتی ہیں۔ ریوا کی سانس ان سے الجھ کر اٹکنے لگی ہے۔
اس سانسوں میں گھلی میں بھی اٹک جاتی ہوں وہاں۔ آہستہ آہستہ نکلتی ہوں اور اس وقت کی تمام چیخیں انہی آنکھوں میں دفنا دیتی ہوں، جن میں کھائی گہری ہوتی جا رہی ہے۔ ان حادثوں کو یہی دفن کرتی ہوئی، میں نکل جاتی ہوں۔ ان خاموش چیخوں کا بوجھ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔۔ ۔۔ بالکل نہیں ہوتا۔
***
اور صرف ایک دن یوں ہی
بھارتی گور
’’تم نے کبھی اس بارے میں کچھ سوچا ہے؟‘‘
’’کس بارے میں؟‘‘
’’اس آدمی سے شادی کیوں کی تم نے؟‘‘
’’پھر وہی بات وید، کیوں شروع جاتے ہو ہر وقت؟‘‘
’’جب تک تم جواب نہیں دے دیتیں۔ میں پوچھتا رہوں گا ورندا۔ ‘‘
’’کرتے رہو کوشش۔ ‘‘
’’ہمیشہ کروں گا۔ ‘‘
’’پاگل ہو؟‘‘
’’جو چاہو سو سمجھو۔ ‘‘
اور میں اسے ہمیشہ اسی طرح خاموش کراتی رہتی، اس کے معصوم سوالات کا جواب تو تھا میرے پاس، لیکن کیا فائدہ تھا دینے کا اور نہ ہی میں دینا چاہتی تھی۔ اگرچہ سوال تو وید جائز ہی کرتا تھا۔ میری شادی تو اب دس برس پرانی ہو چلی تھی، لیکن میرے لئے تو کیا نئی اور کیا پرانی۔ شِو نے تو مجھے کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی اور میں نے جب بھی ان کے بارے میں جانے کی کوشش کی تو انہوں نے جاننے ہی نہیں دیا۔ شادی کا مطلب شِو کیلئے صرف ویسا اور اتنا ہی تھا جتنا کہ زیادہ تر لوگوں کے لئے ہوتا ہے یا کہ قریب قریب سب کے لئے ہوتا ہے۔ اب جب آگ کے سات پھیرے لے ہی لیے ہیں تو ساتھ تو رہنا ہی ہے، ایک ہی چھت کے نیچے، ایک ہی بستر پر سونا، دن، ہفتے، مہینے، سال۔ مسلسل ایک دوسرے سے بغیر بات کئے گزار دینا۔ لوگوں کے سامنے ایک دوسرے کی تعریف کر کے انہیں جلانا اور ان کی اس غلط فہمی کو ہوا دیتے رہنا کہ ہاں ہم ایک مثالی جوڑا ہیں۔ اور کیا مطلب ہے ان سب باتوں کا؟ کہ ہاں ہم دو شادی شدہ لوگ ہیں؟ واہیات سچ ہے اور کچھ نہیں۔ صورتیں تک یاد نہیں ایک دوسرے کی۔ حد ہے یہ تو۔
وید ہمیشہ میرے زخموں کو کریدنے کی کوشش کرتا، یقیناً اس کے حساب سے تو یہ اس کا میری پرواہ کرنے کا ایک نایاب طریقہ ہوتا تھا، لیکن میرے لئے تو بالکل ہی نہیں۔
’’ورندا تم خود پر ایک احسان کرو اور آزاد کرو اس شادی سے اپنے آپ کو، ایک اجنبی شادی کو کیوں لئے گھوم رہی ہو وہ بھی اتنی شدت سے۔ میری سمجھ سے باہر ہوا جاتا ہے سب۔ ‘‘
وید نہ جانے یہ نصیحت کتنی بار کر چکا تھا۔ ویسے یہ نصیحت کم اس مجھ پر ترس کھانا زیادہ تھا۔ شِو کو لے کر جتنا مسئلہ وید کو تھا، اس سے کہیں زیادہ مجھے تھا۔ آخر کیوں رہ رہے تھے ہم ساتھ؟ ایک ہی چھت کے نیچے اجنبیوں کی طرح رہنے سے تو ایک ایک لمحہ بھی ایک ایک سال کے برابر لگتا ہے، پھر ہم تو دس برس ساتھ رہ رہے تھے۔ ایک عمر گزار دی ہو جیسے اور پایا کچھ بھی نہیں۔
’’وید، ہم مل سکتے ہیں؟‘‘
’’ہر وقت ورندا۔ ‘‘
’’کل ملتے ہیں دو بجے، دیر سے مت آنا۔ ‘‘
’’پہلے ایسا کبھی ہوا ہے کیا؟‘‘
’’جو کبھی نہ ہوا ہو وہ ضروری تو نہیں آگے بھی کبھی نہ ہو۔ ‘‘
’’میں ہر وقت تمہارے بلانے پر وقت پر ہی آؤں گا۔ ‘‘
وید سے میری اس طرح کی ملاقاتیں جو اکثر بنا مطلب کے ہی ہوتی تھیں، ہوتی رہتی تھیں۔ جب میں پہلی بار اس سے ملی تھی، تب سے لے کر آج تک بس وہ ہی مجھے سمجھنے کی کوشش کرتا رہا تھا۔ میں تو خود میں ہی مصروف تھی۔ شِو کو نہیں جان پائی اس لئے کسی کو بھی جاننے میں دلچسپی نہیں رہی تھی۔
’’وید آپ ہمیشہ وقت پر کیوں آتے ہو؟‘‘
’’کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ تمہیں دیر سے آنے والوں پر کوفت ہوتی ہے۔ ‘‘
’’تم میرے بارے میں بہت کچھ جانتے ہونا؟‘‘
’’نہیں، ایسا بہت کچھ ہے جو میں نہیں جانتا، لیکن جاننا ضرور چاہتا ہوں۔ ‘‘
’’کوئی بات نہیں سب کچھ جاننا ضروری نہیں۔ اچھا ایک بات بتاؤ؟ میں تمہیں یوں کبھی بھی ملنے کیلئے بلا لیتی ہوں اور تم بغیر کچھ پوچھے آ بھی جاتے ہو، کیوں؟‘‘
’’ابھی تم نے کہا نہ کہ سب کچھ جاننا ضروری نہیں۔ ‘‘
’’ہمم، بدلہ لے رہے ہو۔ ‘‘
’’کس بات کا؟‘‘
’’تمہارے سوالوں کا جواب جو نہیں دیتی۔ تو تم بھی ویسا ہی کچھ کر رہے ہو۔ ‘‘
’’بدلہ لینے کے لئے پوری دنیا پڑی ہے۔ تو تم سے ہی کیوں؟‘‘
’’تمہاری شرٹ اچھی لگ رہی ہے۔ ‘‘
’’تمہاری ساڑی زیادہ اچھی لگ رہی ہے۔ ‘‘
’’شِو لائے تھے۔ ‘‘
’’اوہ! بہترین پسند ہے شِو کی۔ ‘‘
’’شاید!‘‘
’’شاید کیا، تم ہو نہ اس کی پسند، تمہیں کوئی شک ہے کیا؟‘‘
’’تمہاری گھڑی اچھی لگ رہی ہے اور یہ تم پر بہت زیادہ جچ بھی رہی ہے، تمہارے ہاتھ کے لئے ہی بنی ہو شاید۔ ‘‘
’’آج کچھ خاص ہے کیا؟‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’نہیں، تمہارے منہ سے تعریف۔۔ کیا واقعی؟‘‘
’’تمہاری کبھی کسی نے تعریف نہیں کی کیا؟‘‘
’’کسی کے کرنے سے کیا ہوتا ہے۔ جن سے چاہتے ہیں، وہ کریں تو بات الگ ہوتی ہے نا۔ ‘‘
’’اسی لئے سہہ نہیں پا رہے ہو نا۔ ‘‘
’’ہو سکتا ہے۔ ‘‘
’’تمہارا تھیٹر کیسا چل رہا ہے؟‘‘
’’چل رہا ہے، تم کب آ رہی ہو دیکھنے؟ نیا ڈرامہ کرنے جا رہا ہوں میں کچھ ہی دنوں میں۔ ‘‘
’’واہ کیا بات، وید تمہارا صحیح ہے۔ خود کو جتانے کا ذریعہ ہے تمہارے پاس، خوش نصیب ہو۔ ‘‘
’’کیوں جو خود کو جتا سکتے ہیں وہ خوش نصیب ہوتے ہیں کیا؟‘‘
’’بے شک۔ ‘‘
’’تو تمہیں کس نے روکا ہے، تم بھی تو کرتی تھیں پہلے تھیٹر، دوبارہ کیوں نہیں آ جاتیں!‘‘
’’شِو کو اعتراض ہے۔ ‘‘
’’کس بات پر!‘‘
’’یہی کہ میں اب کوئی اور کام کروں، تھیٹر نہیں۔ انہیں یہ سب ناٹک وغیرہ پسند نہیں۔ اول تو انہیں میرا گھر سے باہر جا کر کوئی کام کرنا ہی پسند نہیں۔ ‘‘
’’اچھا! شِو کو ڈرامہ پسند نہیں! دیکھنا یا کرنا!‘‘
’’کیا مطلب!‘‘
’’مطلب تو تم خوب سمجھتی ہو ورندا۔ ڈرامہ پسند نہیں اور تم دونوں خود جو دس سالوں سے کر رہے ہو، اس کے بارے میں کیا خیال ہے!‘‘
’’تم پھر شروع ہو گئے۔ ‘‘
’’ورندا تم نے شِو سے شادی کیوں کی!‘‘
’’کیونکہ شادی سب کو کرنی ہوتی ہے۔ ‘‘
’’مذاق کر رہی ہو!‘‘
’’نہیں، کرنی ہوتی ہے اس لئے کر لی۔ ‘‘
’’اور اس کے بعد کیا کرنا ہوتا ہے!‘‘
’’بہت کچھ۔ ‘‘
’’اور وہ بہت کچھ تم نے کیا کیا!‘‘
’’ہم یہاں کب سے بیٹھے ہیں، کافی تو پی ہی سکتے ہیں۔ ‘‘
میں نے کافی کا آرڈر دیا جو ہمیشہ میں ہی دیتی تھی، وید کی تو جیسے کوئی پسند ہی نہیں تھی۔
’’وید وہاں دیکھو، کتنی خوبصورت پینٹنگ ہے نا!‘‘
’’ورندا، جب جیتے جاگتے لوگ خوبصورت نہیں لگتے نا تب یہ ہی چیزیں دل بہلاتی ہیں۔ ‘‘
’’نہیں، ایسا تو بالکل نہیں، تم مجھے خوبصورت لگتے ہو، بہت خوبصورت ہو تم۔ ویسے تم مجھ کتنے چھوٹے ہو!‘‘
’’یہی کوئی تین یا چار سال۔ ‘‘
’’اوہ!‘‘
’’اور تم شِو سے کتنی چھوٹی ہو!‘‘
’’یہی کوئی نو یا دس سال۔۔ ۔ شاید دس سال۔ ‘‘
’’مذاق کر رہی ہو کیا!‘‘
’’تمہیں میری ہر بات ہی مذاق لگتی ہے۔ ‘‘
’’ارے کیا مطلب ہے اس کا یار، دس سال چھوٹی! تم یہ شادی کیوں کی!‘‘
’’ہا ہا ہا۔۔ ۔ تمہارا یہ ایک رٹا رٹایا سوال بڑا معصوم ہے!‘‘
’’ورندا، ایک نیا ڈرامہ ہے، ہیروئین کی تلاش ہے، تم کر لو نا۔ ‘‘
’’لیکن کس طرح، ایک تو شِو نہیں مانیں گے، اوپر سے مجھے دس سال ہو گئے، میں تواب اداکاری بھی بھول چکی۔ ‘‘
’’کیا بات کر رہی ہو، تمہاری اداکاری اب تو مزید بالغ ہو چکی ہے۔ ‘‘
’’اب تم مذاق کر رہے ہو!‘‘
’’ارے کیسا مذاق! تم اور شِو جو گھر میں دس سالوں سے کر رہے ہو، تم جو یہ میرے سامنے کرتی ہو، لوگوں کے سامنے کرتی ہو، یہ اداکاری نہیں تو اور کیا ہے!‘‘
’’اچھا کافی اتنی ٹھنڈی کر کے جو پیتے ہو، کولڈ کافی ہی منگا لیا کرو۔ ‘‘
’’ایک بار پھر شاندار اداکاری۔ ‘‘
’’میں شِو سے بات کر کے دیکھوں گی، اگر مان جائے تو۔۔ ۔ ‘‘
’’ورندا تمہاری ساڑی واقعی خوبصورت نظر آتی ہے۔ شِو کی پسند لاجواب ہے۔ ‘‘
’’ معنی خیز ڈائیلاگ وید صاحب۔ ‘‘
’’اب میڈم تھیٹر کرتا ہوں، اتنا تو بنتا ہے۔ ویسے بھی سیدھا سادہ ڈائیلاگ آج کل لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے۔ ‘‘
’’ویسے ڈرامہ ہے کیا، کس نے لکھا ہے! بندوپادھیائے جی نے ہی لکھا ہے یا پہلے سے لکھا ہوا ہے!‘‘
’’لکھا ہے کسی نے، تم نہیں جانتیں نیا ہے۔ ‘‘
’’تو میں چلوں، شِو کو منانا آسان نہ ہو گا۔ ‘‘
’’پہلے اسے تم نے کتنی باتوں کے لئے منایا ہے ویسے۔ ‘‘
’’کوئی خاص تو نہیں۔ ‘‘
’’تو مطلب تمہیں اس کا بھی کوئی تجربہ نہیں!‘‘
’’ہاں نہیں ہے، کیونکہ کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ ‘‘
’’شادی کے دس سال، دس سال بڑا شوہر اور ضرورت اور تجربہ کسی بھی چیز کا نہیں، آپ تو عظیم ہیں میڈم، بندہ آپ کو سلام کرتا ہے۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے لے لیا تمہارا سلام، اب میں چلوں!‘‘
’’تمہاری مرضی۔ ‘‘
شِوسے آج تک کچھ مانگا نہیں میں نے۔ انہوں نے بھی اپنی طرف سے کبھی کچھ دیا نہیں۔ جواب مجھے معلوم ہی تھا لیکن کوشش کرنا ضروری ٹھہرا۔ اور رات کو ہمیشہ کی طرح وہی مکالموں کی تکرار۔۔ ۔۔
’’کھانا لگا دوں!‘‘
’’ہمم۔ ‘‘
’’ یہیں یا اُس کمرے میں! ‘‘
’’کہیں بھی لگا دو۔ ‘‘
اس سے زیادہ تھا کیا ہمارے درمیان بات کرنے یا احساس دلانے کے لیے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ یا پاس بیٹھے ہیں۔ ان کا فون ان سے زیادہ نزدیک تھا یا یوں کہوں کہ صرف وہ ہی نزدیک تھا۔
’’میں گھر پر یوں بیٹھی بیٹھی پریشان ہو جاتی ہوں۔ ‘‘
’’ذرا نمک پکڑانا۔ ‘‘
’’سوچ رہی ہوں کچھ کام کر لوں۔ ‘‘
’’نمک واقعی کم ہے یا صرف مجھے ہی لگ رہا ہے!‘‘
اور مجھے اپنی خاص باتوں کو درمیان میں ہی چھوڑ کر اس بے جان سبزی کو چکھنا ہی پڑا۔
’’نمک تو ٹھیک ہی ہے۔ ‘‘
’’کل رات بھی پانی زیادہ گرم کر دیا تھا، آدھی رات تک بھی پینے کے قابل نہیں ہوا تھا۔ ‘‘
’’ خیال رکھوں گی۔ ‘‘
’’سبزی میں کوئی ذائقہ نہیں آ رہا لے جاؤ۔ ‘‘
یہی طریقہ تھا شِو کا، جب بھی میں ان کو اپنے زندہ ہونے کا احساس دلاتی تھی تب یہی سب ہوتا تھا، ایک بار پھر کوشش کرتی ہوں۔۔ ۔
’’میں تھیٹر دوبارہ کرنا چاہتی ہوں۔ ‘‘
’’کیوں!‘‘
’’کیونکہ مجھے خود کو مصروف رکھنا ہے۔ ‘‘
’’گھر کے کام کم پڑنے لگے ہیں!‘‘
’’گھر کے کام کوئی کام نہیں ہوتے ہیں اور انہیں کرنا آنا یا نہ آنا کوئی اچھی یا بری چیز نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی قابلیت کی بات ہے۔ ‘‘
’’تھیٹر مجھے قطعی پسند نہیں۔ ‘‘
’’کیا برائی ہے!‘‘
’’اچھائی کیا ہے، نری نوٹنکی۔ ‘‘
’’اسے اداکاری کہتے ہیں۔ ‘‘
’’جو بھی ہو، جو بھی کہتے ہو، فضول سا کام ہے نہایت۔ مجھے صبح آفس جانا ہے، نیند بھری ہے آنکھوں میں۔ ‘‘
اور شِو کے کہنے کا یہی مطلب تھا کہ سونا ہے تو سو جاؤ نہیں تو مجھے تو سونے ہی دو۔ اور میں بھی شاید بہت رات تک یہی سوچتی رہی تھی کہ اب آگے کیا! آنکھ کب لگی پتہ نہیں کچھ۔۔ ۔ ویسے اس کے بعد۔۔ ۔
’’وید، مل سکتے ہیں!‘‘
’’ہمیشہ۔ ‘‘
’’دو بجے۔ ‘‘
’’وقت پر پہنچ جاؤں گا۔ ‘‘
وہ ہمیشہ کی طرح حاضر تھا پہلے ہی۔
’’وید آج کولڈ کافی پیتے ہیں!‘‘
’’ کیوں طبیعت تو ٹھیک ہے!‘‘
’’بالکل ٹھیک ہے، ہمیشہ ایک سا کیا کرنا، یہ بہت بورنگ ہوتا ہے نا ہمیشہ وہی وہی کرتے جانا بغیر مطلب کے اور صرف۔۔ ۔ ‘‘
’’کیا ہوا ورندا، تم ٹھیک تو ہو!‘‘
’’ٹھیک ہے سب، کچھ نیا کریں! تبدیلی ضروری ہے۔ ‘‘
’’ ہاں، لیکن کیا ہوا۔۔ ۔۔ تمہاری طبیعت۔ ‘‘
’’سنیں بھائی صاحب! دو کولڈ کافی پلیز۔ ‘‘
’’تم بھی کولڈ کافی پیو گے!‘‘
’’ہاں وہ تبدیلی ضروری ہے نا۔ ‘‘
’’تو وید، وہ ڈرامہ کیا ہے کچھ بتاؤ گے۔ ‘‘
’’کیا!‘‘
’’وہ ڈرامہ، کہہ رہے تھے نہ اس دن۔۔ ‘‘
’’آج تو تیور بدلے ہوئے ہیں۔ اجازت مل گئی کیا!‘‘
’’کیوں، اجازت نہیں ملے گی تو کچھ ہو گا نہیں کیا!‘‘
’’کیا مطلب، ورندا مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو کیا!‘‘
’’شِو نہیں مانے، بالکل نہیں۔ ‘‘
’’تو پھر!‘‘
’’تو پھر، تو پھر کیا! جب مجھے حق دینا آتا ہے، تو واپس لینا کیوں نہیں آئے گا۔ ‘‘
’’بغاوت! ہا ہا ہا۔۔ ۔ ‘‘
’’جی نہیں، ریٹرن۔ ‘‘
’’دس سال بعد!‘‘
’’زندگی ختم ہونے سے پہلے آ گئی یہ کیا کم بات ہے؟‘‘
’’مذاق کر رہی ہو، میں جانتا ہوں یہ تمہارے لئے بالکل بھی آسان نہیں ہو گا۔ ‘‘
’’میرے لئے آسان تو ویسے بھی کچھ بھی نہیں۔ ‘‘
’’لیکن ورندا!‘‘
’’ڈرامہ کیا ہے وید؟ کل سے آ جاؤں!‘‘
’’ورندا، کیا ہوا ہے، تم ٹھیک نہیں نا؟‘‘
’’ہاں میں ٹھیک نہیں، لیکن اب میں ٹھیک ہونا چاہتی ہوں۔ ‘‘
’’کیا ہوا ہے اب تو مجھے میرے سوالات کا جواب دے دو۔ ‘‘
’’کیا میں کل سے آ سکتی ہوں؟‘‘
’’کیوں نہیں۔ ‘‘
’’اتنے سالوں بعد کیا مجھے وہاں سب لوگ۔۔ ۔ ‘‘
’’تمہیں وہاں کون نہیں جانتا۔۔ ۔ تمہارے لئے وہاں کے ہر دروازے پر تمہارا نام لکھا ہو گا۔ تم آؤ تو سہی۔ ‘‘
’’تم وہیں ملو گے نا!‘‘
’’اور کہاں جاؤں گا، میں انتظار کروں گا۔ ‘‘
’’میں وقت پر پہنچ جاؤں گی۔ ‘‘
’’مجھے ہمیشہ سے ہی یقین ہے۔ ‘‘
’’تو پھر میں چلوں؟‘‘
’’تمہاری مرضی۔ ‘‘
وہ یہ کہنا کبھی نہیں بھولتا۔ مجھے تو کل ہر حال میں وقت پر پہنچنا ہی تھا، پہنچنے کی جلدی بھی تھی۔ اور کیوں نہ ہوتی بھلا ایک عمر بس سوچنے بھر میں اور خود کو تلاش کرنے بھر میں ہی گزار دی تھی۔۔ اب اور کیا جی ہاں؟ اب تو راستے سامنے تھے۔
’’شِو، کل سے میں تھیٹر شروع کر رہی ہوں۔ ‘‘
’’روز روز ایک ہی سوال کا جواب نہیں دے سکتا میں۔ ‘‘
’’سوال کس نے کیا ہے، اور کون مانگ رہا ہے جواب، میں تو صرف بتا رہی ہوں۔ ‘‘
’’کیا مطلب!‘‘
’’مطلب وہی جو تم سمجھ رہے ہو۔ ‘‘
’’لیکن میں انکار کر رہا ہوں نا، مجھے نہیں پسند یہ سب۔ ‘‘
’’اجازت نہیں مانگ رہی ہوں۔ ‘‘
’’کیا ہوا ہے؟‘‘
’’کچھ ہونے کا انتظار کروں کیا اب؟‘‘
’’مجھ سے یہ ٹیڑھی باتیں نہیں کی جاتیں، جو کہنا ہے سیدھے کہو۔ ‘‘
’’کل سے میں تھیٹر دوبارہ شروع کر رہی ہوں، یہ رہی سیدھی بات۔ ‘‘
’’میں انکار کروں تب بھی یہ ہو گا؟‘‘
’’بالکل۔ ‘‘
’’کوئی انرجی ڈرنک پی آئی ہو لگتا ہے۔ ‘‘
’’جی نہیں، کافی۔ ‘‘
’’کس کے ساتھ؟‘‘
’’کافی پینے کے لئے کافی کی ضرورت ہوتی ہے کسی کے ساتھ نہیں۔ ‘‘
’’پھر بھی۔۔ ۔ ‘‘
’’وید۔ ‘‘
’’اوہ، وید! تو اور کیا سکھایا وید نے؟‘‘
’’اگر مجھے وید ہی سے سیکھنا ہوتا، تو اتنا وقت میں نے تم پر لگایا ہی کیوں ہوتا۔ ‘‘
’’اچھا؟ خیراب جب یہی بات ہے تو یہ بھی بتا دو کہ اور کیا خواہش ہے تمہاری!‘‘
’’میری کوئی خواہش نہیں، اب یہ میری ضرورت ہے۔ ‘‘
’’آخری فیصلہ ہے؟‘‘
’’میری طرف سے لیا ہوا تو پہلا ہی ہے۔ ‘‘
’’میں اس کے حق میں نہیں، بالکل نہیں۔ آگے تم ذمہ دار ہو۔ میرے ہر اس فیصلے کی جو تمہارے اور ہماری شادی کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔ ‘‘
’’شِو، جانتے ہو ہم دونوں کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے۔۔ ۔ ہماری یہ شادی، اور اس بیگانی اور غیر ضروری شادی سے زیادہ ہم دونوں کے خلاف اور کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ ‘‘
’’بہت خوب ورندا! یہ آج دس سال بعد سمجھ آیا تمہیں؟‘‘
’’نہیں کوئی شِو۔۔ ۔ یہ تو شادی کے پھیرے کے وقت ہی سمجھ آ گیا تھا، لیکن صرف سمجھنے سے کیا سلجھتا ہے، سلجھانا پڑتا ہے۔ ‘‘
’’کیا چاہتی ہو؟‘‘
’’آج تک تو کچھ سمجھے نہیں۔ نہ بولنے سے اور نہ ہی خاموش رہنے سے۔ اب آگے سمجھتے ہو تب بھی ٹھیک اور نہیں سمجھتے ہو تو تب بھی ٹھیک۔ ‘‘
اس رات کے یہ آخری الفاظ تھے جو میں نے کہے تھے، شِو کے مزید سوالوں کیلئے میں اس کمرے میں رکی نہیں۔ اور اس رات مجھے نیند بھی آ ہی گئی تھی، جو ہمیشہ مجھ سے دور بھاگتی تھی۔ دوسرے دن جب میں تھیٹر پہنچی۔
’’ویلکم ورندا۔ ‘‘
وہاں کے ہر دروازے پر وید کے تحریر کردہ یہی دو الفاظ لکھے تھے۔ اسٹیج کی طرف جاتے ہوئے کانوں میں الفاظ آ جا رہے تھے، شاید وید کسی ڈرامہ کی لائنز دوہرا رہا تھا۔
’’اور پھر ایک دن سِیانے آگ کی آزمائش دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا، ’’ اگر میری آزمائش دینے سے ہی میری آبرو ثابت ہوتی ہے، تو مجھے انکار ہے ایسی آزمائش سے، میں آنے والی نسلوں کو ایسی کوئی سوغات نہیں دینا چاہتی، جس سے آگ کی آزمائش ایک نظیر کے روپ میں قائم ہو جائے اور ہر عورت کے خلاف ایک اوزار کی طرح کام میں لائی جائی۔ ‘‘
’’ارے ورندا آ گئیں تم۔ میں وہ ذرا ڈرامہ میں۔۔ ‘‘
’’اچھی لائنز تھی وید، تمہیں اسی ڈرامہ کے لئے ہیروئین کی تلاش تھی کیا؟‘‘
’’ ہاں بالکل۔ ‘‘
’’تو سمجھو تمہاری تلاش پوری ہوئی۔ ‘‘
’’واقعی، سمجھ لوں آخر؟‘‘
’’سمجھ لو۔ ‘‘
***
دیدی کا پیڑ
یو گیش کناوا
دفتر کے باہر، کوؤں کی تیز کائیں کائیں سن کر کچھ لوگ باہر آئے۔ مجھے دیکھ کر ان کو کائیں کائیں کی وجہ سمجھ آ گئی تھی، لیکن ڈر کے مارے وہ نزدیک نہیں آ پا رہے تھے کہ کہیں کوئی کوا غصے میں آ کر چونچ نہ مار جائے۔ دفتر کے لوگوں سے ملنے کیلئے، اپنے ان دوستوں کو پیار سے پھسلا کر میں دفتر میں چلا گیا۔ نئے لوگوں کو یہ نظارہ حیرت انگیز لگ رہا تھا۔ بھلا کوا بھی انسان کا اتنا گہرا دوست اور وہ بھی اتنے برسوں بعد۔
شام سے ہی کافی گہما گہمی تھی، لوگوں کا آنا شروع ہو گیا تھا۔ بھاگ دوڑ کر کے سبھی باتیں دیکھنی تھیں۔ کہیں کوئی بھول چوک نہ ہو جائے۔ سبھی مہمانوں کی خاطر داری میں کوئی کمی نہ رہے۔ آج پورے ایک سال کی ہو گئی ہے میری بیٹی، بس اسی کے جنم دن کی ڈنر پارٹی رکھی تھی کالونی میں ہی۔ کھانا بنانے والے سے لے کر سارے انتظامات دیکھنے تھے۔ ٹھیک سات بجے میں نے بیٹی کے ہاتھ سے ایک نیم کا پودا اپنے کوارٹر کے باہر ہی لگوایا۔ تمام مہمانوں نے اس پر اپنے اپنے حساب سے رائے ظاہر کی۔ کوئی ماحولیات کی بات کر رہا تھا، کوئی طویل عرصے تک یاد رکھنے والی سوغات بتا رہا تھا۔ بس اسی گہما گہمی میں رات کافی ہو گئی تھی۔ تمام مہمانوں کو رخصت کر کے اب ہم تینوں بھی یعنی میں، میری بیوی اور میری بیٹی آرام کرنا چاہ رہے تھے۔ میں من ہی من میں بہت خوش تھا کہ پوری کالونی کا ڈنر ارینج کیا تھا اور کھانا بھی بہت اچھا بنا تھا۔ بڑی ہی دھوم دھام سے پورا دن نکل گیا۔ بیٹی میری گود میں ہی سو گئی تھی، اسے بیڈ پر لیٹا کر، اب ہم آج کے پورے انتظام اور پارٹی میں آئے مہمانوں کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے سو گئے۔
وقت کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ پتہ ہی نہیں چلتا ہے کہ کب ہاتھ سے پھسل جاتا ہے۔ بیٹی اب پورے سات سال کی ہو گئی تھی۔ ہر سال ایک پودا لگانا اس کے جنم دن کا ایک لازمی حصہ بن گیا تھا۔ میری تنخواہ کے مطابق مجھے اب بی ٹائپ کے کوارٹر کے بجائے سی ٹائپ کے کوارٹر میں شفٹ ہونا تھا۔ بیٹی کا لگاؤ پرانے کوارٹر سے ہی تھا، اس میں وہ پلی بڑھی تھی، سو لگاؤ ہونا فطری تھا اور اس پر اس کی پیدائش کے دن پر ہر سال لگائے گئے چھ پیڑ، آہستہ آہستہ بڑے ہو گئے تھے۔ پہلا پیڑ کافی بڑا ہو گیا تھا۔ ہم لوگ اب سی ٹائپ کے کوارٹر میں شفٹ ہو گئے تھے۔ پرانے والے کوارٹر میں دفتر کا ہی ایک اور ملازم رہنے لگا تھا۔ ایک دن اس نے نیم کے بڑے والے درخت کو جو بیٹی کے پہلے پیدائش کے دن پر لگایا تھا، چھٹوا دیا۔ یا یوں کہیں کہ تقریباً ساری بڑی ٹہنیاں کٹوا دیں۔ اب صرف تنا اور اوپر کی دو تین موٹی ٹہنیاں ہی بغیر پتوں کے نظر آ رہی تھیں۔ میری بیٹی جیسے ہی اسکول سے واپس آئی، وہ زور زور سے رونے لگی۔ بڑی مشکل سے اس نے بتایا کہ پرانے والے کوارٹر میں جو انکل آئے ہیں، انہوں نے میرا درخت کاٹ دیا ہے۔ میرے درخت کو بہت درد ہو رہا ہے، بہت گندے ہیں یہ انکل۔ وہ ایک چھوٹا سا ڈنڈا لے کر باہر جانے لگی۔ کہنے لگی کہ اس ڈنڈے سے ان انکل کو ماروں گی۔ انہوں نے میرا درخت کاٹ دیا، بہت گندے ہیں یہ انکل۔ بس اسی طرح سے سارا دن روتی رہی۔ ہمارے لاکھ سمجھانے پر بھی وہ نہیں مانی اور نہ ہی اس نے کھانا کھایا۔ بس روتے روتے ہی سو گئی۔ ہمیں بھی کافی افسوس ہو رہا تھا، پر اسے کیسے سمجھاتے کہ اس پیڑ کے لیے چھٹوانا ضروری تھا ورنہ چُورُو کی آندھیاں اس کو تنے سے اکھاڑ دیتیں۔
کچھ وقت کے بعد اس پیڑ پر پھر سے نئے پتے دکھائی دینے لگے۔ میری بیٹی بہت خوش تھی۔ شام کو میں جب دفتر سے واپس گھر آیا، تو کالونی کے مین گیٹ پر ہی وہ کھڑی میرا انتظار کر ہی تھی۔ بہت خوش تھی آج وہ۔ جیسے ہی اس نے مجھے دیکھا چہک کر بولی کہ پاپا میرے والے پیڑ کے خوبصورت پتے آئے ہیں، چلو دکھاتی ہوں۔ میں کافی تھکا ہوا تھا، لیکن بیٹی کا من رکھنے کیلئے میں اس کے ساتھ چل پڑا۔ آج اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ کالونی کے سارے بچوں کو ایک ہی بات کہہ رہی تھی کہ میرے پیڑ کے پتے آ گئے۔ میرے پاپا صحیح کہتے تھے، نئے پتے آئیں گے، اس میں آ گئے۔
اب میری بیٹی تیرہ سال کی ہو گئی تھی۔ اسی وقت میری منتقلی ہو گئی۔ جب ہم لوگوں نے دوسرے شہر کے لئے جانا طے کیا، تو میری بیٹی سب سے زیادہ اداس تھی۔ وہ بار بار کالونی میں لگائے اپنے پیڑوں کے پاس جا کر بیٹھ رہی تھی۔ پورے بارہ پیڑ تھے۔ باری باری وہ سبھی پیڑوں کے پاس جا کر بیٹھ رہی تھی، گویا کہہ رہی تھی کہ تم ٹھیک سے رہنا، اپنا خیال رکھنا۔ اب شاید دوبارہ نہیں آؤں گی یہاں، پر تم مجھے بھولنا مت، میں بھی نہیں بھولوں گی۔
نئے شہر میں، میں نے اپنا گھر خرید لیا تھا۔ شہر بڑا اور جگہ کی کمی تھی۔ ایسے میں گھر کے باہر پیڑ لگانا نا ممکن تھا۔ اس بار کی سالگرہ پر پودا کہاں لگائیں، یہی فکر مجھے اور میری بیٹی کو ستا رہی تھی۔ بہت سوچ بچار کے بعد گھر کے سامنے والے پارک میں، ایک بیلو پتر کا پودا لگانے پر اتفاق ہوا۔ ہم نے ایک پودا پھر سے بیٹی کے ہاتھوں سے لگوا دیا۔ اس بار ایک پودا میرے بیٹے نے بھی لگایا۔ روزانہ پانی دینا، اس کی دیکھ بھال کرنا، دونوں کے معمول کا حصہ ہو گیا تھا، لیکن اب ہر بار ایک پودا لگانا ممکن نہ تھا۔ آس پاس جگہ کی کمی اور دور جا کر پودا لگانے کا مطلب ہے اسے لا وارث چھوڑنا، جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہی سوچ کر اب صرف گملے میں ایک پودا ہر سال لگانے کی بات سوچی۔
پچھلا شہر چھوڑے ہمیں تقریباً سات آٹھ سال ہو گئے تھے۔ اچانک ہی مجھے ایک محکمہ جاتی کام سے اپنے پرانے دفتر، چُورُو کے دورے پر جانے کا حکم ملا۔ میں سوچ رہا تھا چلو اس بار پرانے لوگوں سے کئی برسوں بعد ملاقات ہو گی۔ ویسے تو ایک دو لوگوں سے میرا رابطہ ابھی تک مسلسل بنا ہوا ہے، لیکن صرف ٹیلی فون پرہی بات چیت ہو پاتی تھی، ملے ہوئے عرصہ گزر گیا تھا۔ شام کو دفتر کا کام ختم کر کے جب میں گھر پہنچا، تو میں نے بتایا کہ مجھے تین دن کے سرکاری کام سے چُورُو جانا ہے۔ بیٹی بہت خوش ہوئی اور کہا کہ ارے واہ چُورُو جانا، لیکن پاپا ابھی مت جاؤ نا، میرا ایگزام ہو جائے تب چلنا نا، میں بھی اپنے پیڑوں کو دیکھ کر آؤں گی۔ میں نے کہا کہ بیٹا سرکاری کام ہے نا، ابھی جانا ہی پڑے گا۔
میں صبح سویرے ہی بس سے چُورُو کے لئے روانہ ہو گیا۔ سات آٹھ برسوں میں کافی تیزی سے تبدیلی آ گئی تھی۔ فتح پور سے چُورُو جانے والی سڑک اب ہائی وے بن چکی تھی۔ بس سرپٹ دوڑی جا رہی تھی۔ میں پرانی یادوں میں کھو گیا۔ کہاں وہ دن تھے جب فتح پور سے چُورُو کا یہ چھتیس کلو میٹر کا چھوٹا سا ٹکڑا ہی پورے دو گھنٹے کا سفر ہوتا تھا۔ ہچکولے کھاتی بس پیٹ میں کھایا پیا سب ہلا کر رکھ دیتی تھی۔ پورا جسم ٹوٹ سا جاتا تھا۔ اور آج دیکھو صرف تیس منٹ میں ہی یہ سفر مکمل ہو گیا ہے۔ بھئی واہ! ترقی تو بڑی ہی تیز رفتاری سے ہو رہی ہے۔ کوئی پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد میں اپنی منزل پر پہنچا۔ وہاں کا نظارہ دیکھ کر تو میں دنگ ہی رہ گیا۔ چوڑی چوڑی سڑکیں، سڑکوں پر ڈیوائیڈر، لائیٹیں، گویا پورا شہر ہی بدل گیا ہو۔ میں سب سے پہلے ہوٹل جا کر اپنا سامان رکھنا چاہ رہا تھا اور میں نے وہی کیا۔ ٹھیک گیارہ بجے میں اپنے دفتر پہنچا۔ وہاں پہنچنے پر میری حیرت کا ٹھکانا نہیں رہا۔ جن کو میں بھلا چکا تھا، وہ ہی میرے استقبال کا سب سے پہلے جیسے انتظار کر رہے تھے۔ میں یقین نہیں کر پا رہا تھا، ہاں میرے پالے ہوئے کوے، میرے دوست، جن کو میں اب کبھی کبھار ہی یاد کرتا تھا، وہ مجھے اتنے برسوں کے بعد بھی بھول نہیں پائے تھے۔ میں دفتر کے دروازے پر ہی پہنچا تھا کہ چالیس پچاس کوے کائیں کائیں کی آواز کے ساتھ میری طرف آئے۔ گویا ان میں دوڑ لگی ہو کہ پہلے مجھ سے کون ملتا ہے۔ میں وہیں باہر ہی رک گیا۔ اپنے ان بے لوث دوست کی محبت سے چور انہیں دُلارتا رہا۔ میں اپنے ماضی میں کھو سا گیا تھا۔ یہی میرے دوست، جن کے لئے میں کوارٹر کی چھت پر گھنٹوں کھڑا رہتا تھا۔ ان سے باتیں کرتا تھا۔ یہ بھی تو کبھی میرے کندھوں پر، کبھی سر پر بیٹھ جاتے تھے۔ لوگ مجھے پاگل سمجھتے تھے۔ کئی بار کہتے تھے کوے کا سر پر بیٹھنا بڑا ہی منحوس ہوتا ہے، کوئی ٹوٹکا کرو۔ میں لوگوں کی باتوں کو سنا ان سنا کر کے، بس اپنی ہی دنیا میں مست تھا، اپنے خاندان اور اپنے دوست کوؤں کے ساتھ۔ مجھے یقین ہی نہیں تھا کہ اتنے برسوں کے بعد بھی، یہ مجھے اس طرح سے ملیں گے۔
دفتر کے باہر، کوؤں کی تیز کائیں کائیں سن کر کچھ لوگ باہر آئے۔ مجھے دیکھ کر انہیں کائیں کائیں کی وجہ سمجھ آ گئی تھی، لیکن ڈر کے مارے وہ نزدیک نہیں آ پا رہے تھے کہیں کوئی کوا غصے میں آ کر چونچ نہ مار جائے۔ دفتر کے لوگوں سے ملنے کیلئے، اپنے ان دوستوں کو پیار کر کے میں دفتر میں چلا گیا۔ نئے لوگوں کو یہ نظارہ حیرت انگیز لگ رہا تھا۔۔ بھلا کوا بھی آدمی کا اتنا گہرا دوست اور وہ بھی اتنے برسوں بعد۔
انہوں نے تقریباً گھیر کر زبردستی مجھے کالونی جانے کے لئے مجبور کر دیا۔ میری حیرت کا تب ٹھکانا نہیں رہا، جب وہ مجھے زبردستی اس پیڑ کے پاس لے کر گئے، جو بیٹی کے پہلے جنم دن پر لگایا تھا۔ پیڑ کو مکمل طور پر کاٹ دیا گیا۔ اب صرف ایک ٹھونٹھ ہی بچا تھا۔ سبھی کوے جیسے مجھ سے شکایت کر رہے تھے، دیکھو دیدی کے پیڑ کا کیا حال کیا ہے ان لوگوں نے۔ مجھے دیکھ کر بڑا ہی افسوس ہوا۔ آخر یہ بے زبان پیڑ کیا تکلیف دے رہا تھا لوگوں کو۔ میں وہیں بیٹھ گیا۔ شاید مجھ سے زیادہ افسوس ان کوؤں کو تھا، لیکن وہ بیچارے کر کچھ بھی نہیں پائے تھے۔ تبھی اس کوارٹر میں رہنے والا ملازم باہر آیا، اس نے بتایا کہ ان کوؤں نے اس مزدور کا سر چونچیں مار مار لہولہان کر دیا تھا، جس کو اس پیڑ کو کاٹنے کا ٹھیکہ دیا تھا۔ کوؤں کے ڈر سے وہ یہ ٹھونٹھ آج تک کاٹنے نہیں آیا۔
یہ بات سن کر میں نے ان کوؤں کے تئیں اپنی محبت جتانے لگا۔ انہیں اپنے ساتھ لایا بچا کھانا کھلایا، جیسے پہلے ہر دن صبح صبح کھلاتا تھا۔ میں اس رات سو نہیں پایا۔ سوچتا رہا انسانوں سے تو زیادہ سمجھدار یہ بے زبان ہے، جو اپنا لالچ نہیں جانتے۔ اس پیڑ کاٹنے والے مزدور کو بھگانے کے لئے ان کوؤں کی کوششوں کا تصور کر رہا تھا کہ کس طرح سے انہوں نے میری بیٹی کے لگائے پیڑ کی حفاظت ہے۔ مبارک ہو یہ ہی سچے دوست ہیں میرے ماحول کے، انسانوں سے تو صرف اور صرف تباہی کی ہی امید کر سکتے ہیں، لیکن یہ کبھی تباہی نہیں کر سکتے۔
تین دن تک میں ان دوستوں کے ساتھ گھنٹوں گزارتا رہا تھا۔ آخر آج واپسی کا وقت آ گیا تھا۔ مجھے ان سے بچھڑنا بہت بھاری لگ رہا تھا۔ انہیں بھی شاید یہ سمجھ آ گیا تھا کہ مجھے واپس لوٹنا ہے۔ آج شام وہ زیادہ اچھل کود نہیں کر رہے تھے۔ خاموش۔ بس ایک دم خاموش۔ میرے اچانک ہی آنسو آ گئے، میں خاموشی وہاں سے چل دیا، بِنا کچھ بولے۔
***
بھکاری
چھوی سکسینہ
’’کہنے کو تو لوگ مجھے بھی بھکاری کہتے ہیں، پر میرے ایشٹ دیو کی سوں۔ میں نے آج تک بھیک نہیں مانگی۔ ‘‘
’’بھگوان کے نام پہ کچھ دے دے بابا!‘‘
’’بھگوان تمہارے بال بچوں کو خوش رکھے!‘‘
اف کتنا شور مچا رہے ہیں یہ لوگ!
کبھی اپنے بے سرے راگوں سے، تو کبھی اپنے پیالے میں کھنکھناتے ان سکّوں سے!
نادان اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ قسمت میں روٹی ہوئی تبھی تو آج پیٹ کی آگ ٹھنڈی ہو گی؟ ورنہ میری طرح بھوک سے پیٹ میں مروڑ اٹھتے رہیں گے۔ پر کوئی جھانکنے تک نہ آوے گا۔ قسمت سے آگے اور وقت سے پہلے کسی کو کبھی کچھ ملا ہے بھلا؟ پھر بیکار میں رحم کی بھیک کیوں مانگنا؟
مجھے بھی اس خوبصورت مندر کے چبوترے پر پڑے ہوئے ایک عرصہ ہونے کو آیا ہے۔ کب اور کیسے یہاں آیا، کچھ یاد نہیں۔ میرا نام کیا ہے یا کیا تھا، یہ بھی معلوم نہیں یا ذہن کے نہاں خانوں پر اگر زور ڈالوں تو اپنا نام ’’راجکمار‘‘ یاد آتا ہے!!مگر کسی کو بتاؤں بھی تو کیسے؟کتنا مضائقہ خیز نظر آئے گا!
کہنے کو تو لوگ مجھے بھی بھکاری کہتے ہیں، پر میرے ایشٹ دیو کی سوں، میں نے آج تک بھیک نہیں مانگی۔ اور کیوں مانگوں بھلا؟ کیوں اپنی پیاس سے تڑپتی ہوئی جِبوا کو تکلیف دوں؟ اگر بھگوان مجھے پیاسا ہی مارنا چاہتا ہو گا، تو شفاف و تازگی بھرے پانی سے لبریز برتن بھی میرے گلے کو تر کرنے سے پہلے ٹوٹ ہی جاوے گا۔ پھر کیوں بیکار ہی گلا پھاڑنا۔
میں اپنے بوریے پر چپ چاپ دن بھر پڑا رہتا ہوں۔ پنچھیوں کی چہچہاہٹ کے ساتھ جیسے ہی بھگوان کے بھگتوں کی آمدورفت شروع ہوتی ہے، ویسے ہی میرے دائیں بائیں بیٹھے میرے بھائی بند اپنے گلوں سے التجاؤں کا آلاپ شروع کر دیتے ہیں اور کافی دیر تک بے چین نظروں سے ہر ایک یاتری کی توجہ اپنی بے چارگی پر کھینچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان مورکھوں کو نجانے اتنی طاقت کہاں سے آ جاتی ہے خالی پیٹ میں۔
مجھے دیکھو!نہ میں زبان ہلاتا ہوں اور نہ نظریں۔ بس آنکھیں موندے پڑا رہتا ہوں اور ان لوگوں سے زیادہ بٹور لیتا ہوں۔
لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے کی میں سست یا کاہل ہوں۔ کتنی محنت سے میں اپنے چہرے پر درد بھرے جذبات لئے آنکھیں موندے، بیماری کا ناٹک کھیلتا ہوں۔ اتنا ہی کافی نہیں۔ گذشتہ اتوار مندر کی سیڑھیوں کے کنارے سے میرے کوڑھ سے سڑتے ہوئے دائیں پاؤں میں جو چوٹ لگی تھی، اس کی بھی تو نمائش کرتا ہوں۔ زخم پر شہد کی مکھیوں نے ننگا ناچ مچا رکھا ہے، پر مجال ہے جو میں کبھی انہیں اڑا دوں۔ ارے بھائی ہاتھ ہلانے سے کیا حاصل ہو گا، جب کوڑھ سے سڑتے اس زخم کی قسمت سے، مجھے لوگوں کی رحم دلی کی وجہ سے دو وقت کی روٹی نصیب ہو جاتی ہے۔
روز کی طرح آج بھی میرے حصے میں ان بھکاریوں سے کہیں زیادہ سکے اور کھانا آیا ہے۔ یقیناً وہ سب میری کامیابی اور خوشحالی دیکھ کے جل رہا ہوں گے۔ آج تو رات تک کے کھانے کا انتظام ہو گیا۔ اب کچھ دیر چین کی نیند لینے کا سوچ رہا ہوں، پر کمبخت ان بھکاریوں کے سرکش رویے رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ویسے اب اتنا کیا سوچنا۔ اگر نصیب میں سکون بھری نیند لکھی ہو گی تو کھلی آنکھوں سے بھی بڑی آسانی سے پوری ہو جاوے گی۔
میں کتنی دیر سے سپنوں کی وادیوں میں گھومنے پھرنے میں لگا ہوا تھا، یہ تو یاد نہیں، لیکن جیسے ہی سپنوں کی ڈور ٹوٹی، مندر کی آب و ہوا پر دھیان گیا۔ خوشبودار اور معطر ماحول، بھگتوں کی چہل قدمی بھی آج کچھ زیادہ ہی ہے۔ لگتا ہے آج کوئی تہوار ہے۔ آج تو دعوت کا دن ہے۔ میرے بھکاری بھائی بندوں کو بھی آج رحم کی التجائیں زیادہ بلند نہیں کرنی پڑیں گی۔ بلکہ آج تو کھانے میں چناؤ کے اختیار بھی مل رہے ہیں، بوندی کے لڈو، پوری کچوری، کھیر، وغیرہ۔ آج لگتا ہے واقعی اپنے نام کو صحیح ثابت کا ایک موقع ملا ہے۔ ’’ راجکمار‘‘۔۔ ۔ آہا۔ کتنا خوشیوں بھرا ہوا ہے یہ احساس۔ نہ ہاتھ ہلانا، نہ ہی زبان۔ یہاں تک کہ دماغ بھی لڑانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نجانے کیوں میرے بھکاری بھائی آج بھی محنت کر رہے ہیں؟ شاید ان کی عادت ہی خراب ہو گئی ہے۔ جب بھی کوئی شریف آدمی ان کے کٹوروں میں کچھ دان دیتا ہے، وہ بار بار ہاتھ اٹھا کر، زبان ہلا کر انہیں دعائیں دیتے جاتے ہیں۔
’’ بھگوان تمہیں خوش رکھے بچہ!‘‘ اب انہیں یہ کون سمجھائے کے بھگوان تو انہیں خوشیاں دے ہی رہا ہے، تبھی تو وہ وہاں اور ہم یہاں ہیں۔ فالتو کی زبان اور ہاتھوں کی کسرت سے خود کو کیوں تکلیف دینا بھلا؟
اب دیکھئے نا! لمحے بھر پہلے کا مزاحیہ واقعہ، ایک عورت ہاتھ میں پرشاد کی پوری اور حلوا لئے میری ہی جانب چلی آ رہی تھی۔ مجھے دینے کے ارادے سے اس نے قدم آگے تو بڑھائے، پر میرے میلے کپڑوں اور زخم سے اٹھتی تیز بو سے شاید وہ وہیں رک گئی اور بڑی کوشش سے اس نے میرے جتنے پاس ہو سکتا تھا اتنے پاس وہ دونا رکھا اور چلی گئی۔ ستم ظریفی تو دیکھئے! میرے پیٹ میں بھوک کی آگ دہک رہی ہے اور کھانا ہے پورے ایک بالشت کے فاصلے پر۔ میری قسمت مجھ تک آتے آتے رہ گئی۔ اب کون زحمت کر کے اٹھ کر بیٹھے اور بالشت بھر فاصلے کے لئے ہاتھ بڑھائے۔ نہیں! نہیں! میں سست نہیں ہوں! وہ نوالہ کسی اور کا ہی ہو گا، تبھی تو میرے تک نہ پہنچا۔
اور دیکھو نا میں نے صحیح ہی سوچا تھا۔ میرے سامنے والا وہ لنگڑا بھکاری لنگڑاتے ہوئے آگے بڑھا اور لپک کر وہ دونا ہاتھ میں لے کر اپنی دعوت کے مزے لینے لگا۔
مجھ میں صبر کی کوئی کمی نہیں ہے۔ میں انتظار کر لوں گا، پر ہاتھ نہیں پھیلاؤں گا!
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
کافی وقت گزر گیا ہے، پر روز و شب ایک سا ہے، ہاں اگر کچھ بدلا ہے تو صرف موسم۔ دسمبر کی ایک سرد صبح ہے آج۔ سوریادیو گذشتہ کئی روز سے روٹھے ہی بیٹھے ہیں۔ اس بورے سے کام نہیں بنتا اب تو۔ کچھ اوڑھنے کو مل جاتا تو ٹھٹھرن کچھ کم ہوتی۔ سنا ہے آج کوئی دیالو انسان مندر میں غریبوں کو کمبل بٹوا رہے ہیں۔ مندر کی سیڑھیاں اترتے ہوئے وہ دائیں بائیں بیٹھے بھکاریوں کو بھی کمبل دان میں دے رہے ہیں۔
کاش میں آج سیڑھیاں سے اٹھ کر چار قدم کے فاصلے پر بنے اس چبوترے پر نہ آیا ہوتا تو میرا بھی کچھ بھلا ہو جاتا۔ اب یہاں اپنے بورے پر ٹھٹھرتا ہوا سا پڑا ہوں۔ اگر ٹھنڈ سے بچنا میرے نصیب میں ہو گا، تو اس دیالو انسان کی نظر خود بخود مجھ پر پڑے گی اور ایک کمبل مجھے بھی اوڑھا دیا جائے گا، ورنہ تو قطار میں بھی شامل ہونے پر میرے باری آتے آتے کمبل کم ہی پڑ جائیں گے۔ اب دیکھو نا۔۔ ۔ وہ کانا چھگن اور مریل رگھو بھی تو مایوسی بھرے چہرے لئے رہ گئے ہیں خالی ہاتھ۔ انہیں بھی تو کمبل نہیں مل پایا۔ لگتا ہے ان کی اور میری قسمت ایک ہی سیاہی سے لکھی گئی ہے، وہ بھی آج میری ہی طرح سردی سے جھگڑتے ہوئے رات گزاریں گے۔
بھوکے پیاسے پڑے پڑے صبح سے شام ہو گئی ہے اور سڑکوں پر بھی اب سناٹا ہونے لگا ہے۔
ٹھنڈ بڑھتی جا رہی ہے اور سردی اتنی لگ رہی ہے کہ بھوک پیاس کچھ محسوس نہیں ہو رہی۔ اب تو زندہ رہنے کی امید میں میری نظریں آس پاس تیزی سے بھٹک رہی ہیں۔ کچھ ایسا تلاش کرنے کے لئے جو میں اوڑھ سکوں۔
’’آہا۔۔ ۔ یہ کیا ہے، نیلا نیلا؟‘‘
آنکھوں پر ذرا زور ڈالا تو دیکھا کہ مندر کے باہر پھولوں کی دکان لگانے والے نے اپنے ٹھیلے پر بچھنے والی اس نیلی پلاسٹک کی شیٹ کو نیچے پھینک دیا ہے۔ شاید کہیں سے پھٹ گئی ہو گی۔
اس کا نیلا رنگ اتنا دل نشین ہے کہ اسے اوڑھ کر تو ایسا لگے گا گویا سارا امبر ہی اوڑھ لیا ہو۔
وہ پلاسٹک کی شیٹ اتنی تو بڑی ہو گی کی مجھے پورا ڈھک لے؟ میں اپنے بورے پر بیٹھا اسے نظروں سے ناپ تول رہا ہوں۔
کیا فائدہ؟ اتنی دور اس ٹھنڈ میں اٹھ کر جاؤں اور وہ پلاسٹک کی شیٹ پھر کسی کام کی ہی نہ نکلے تو؟
بیکار میں کیوں برباد کروں اپنی اس بچی کھچی توانائی کو؟
ویسے پلاسٹک کی شیٹ ہے تو بڑی اور اس کے نیچے چھپ کے ہوا بھی نہیں۔۔ ۔۔
ارے! یہ کیا! وہ نیلے امبر سی پلاسٹک کی شیٹ زمین سے اٹھ کر چار ہاتھوں میں آ گئی۔
ارے یہ ہاتھ تو چھگن اور رگھو کے ہیں، جو فخریہ مسکان لئے بڑے اعتماد سے اس پلاسٹک کی شیٹ کو لے کر زمین پر لیٹ گئے ہیں اور اس کو اوڑھ کر سونے جا رہے ہیں۔
ہائے ری میری قسمت! آج تو یقیناً میرا یم لوک سے بلاوا آ جاوے گا! رات گہری ہوتی جا رہی ہے اور آس پاس جلائے سبھی الاؤ بھی ٹھنڈے ہونے لگے ہیں۔
اب نیند آئے گی یا سیدھے موت، کون جانے؟
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
صبح ہو گئی ہے شاید! میری نیند تو ٹوٹ گئی ہے، پر میری آنکھیں نہیں کھل پا رہی ہیں۔ میرے کانوں میں کچھ شور سا سنائی دے رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے کوئی بھیڑ میرے پاس امڈ آئی ہو۔ جسم ہونے کا احساس تو جیسے معدوم ہو گیا ہے۔ ہاتھ پیر تک نہیں ہل رہے میرے۔ ٹھنڈ سے جکڑ گئے ہیں۔ لوگوں کے بحث کا موضوع کیا ہے، یہ مجھے صاف سنائی نہیں دے رہا۔ میرے سوچنے، سمجھنے اور محسوس کرنے کی طاقت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ کسی نے مجھے ہاتھ لگایا بس اس سے زیادہ اور کچھ نہیں معلوم ہوا میرے حواسوں کو اور اس شور و غل کے باوجود بھی میری آنکھوں کے سامنے چھا گیا ہے ایک گہرا سیاہ سناٹا!
کافی دیر کی بیہوشی کے بعد جب میں ہوش میں آیا، تو اپنے نیچے جو محسوس ہوا وہ نہ تو زمین جیسا تھا اور نہ ہی میرے اُس بورے جیسا۔ کچھ کھردرا سا تھا۔ ہاتھ پاؤں اب بھی نہیں چل رہے تھے اور آنکھیں اب بھی نہیں کھل رہی تھیں۔ پر دل کی رکی سی دھڑکن نے اب کچھ رفتار پکڑ لی تھی ہے۔ میں شاید ایک پورے موسم ہی بیہوش پڑا تھا۔ کیونکہ اب جو مجھے محسوس ہو رہا ہے وہ گرمیوں کی بھیانک شکل ہے۔
میرے کانوں میں پڑنے والے جملے، اب مجھے صاف سنائی دے رہے ہیں۔
’’انسان کی زندگی تو فانی ہے۔ لیکن آتما امر ہے۔ بھگوان اس کی آتما کو شانتی دے!‘‘
میں چونک پڑا!! مجھے اب جا کر معلوم ہوا کہ میں اپنی ہی چتا پر زندہ پڑا ہوا ہوں۔ پر ہاتھ پیر ہلانے کی طاقت اب بھی مجھ میں نہ تھی۔ ہاں جبوا کچھ ساتھ دے سکتی تھی۔ پر ساری خواہشات مل ہی گئیں ہیں۔ اب کون بچائے اس فانی جسم کو؟ کون موقع دے اپنے آپ کو اس تباہ حال زندگی کو دوبارہ جینے کا؟ اگر مرنا نہ ہوتا تو آج یوں چتا پر تو نہ ہوتا! کیا کروں گا اس ادھ جلے بدن کا؟ اب تو یہ اور بھی تکلیف ہی دے گا! کیا پتہ اس فانی جسم کو دان کر کے اگلے جنم میں حقیقی ’’راجکمار‘‘ بن ہی جاؤں؟ پھر تو ہاتھ پیر بھی نہ ہلانا ہوں گے اور ساری خواہشیں خود بخود پوری ہو جایا کریں گی۔
خود کو بچانے کے کی کوشش کر تو سکتا تھا اگر چاہتا۔ ویسے جانے دو۔ وقت پورا ہی ہو گیا ہو گا، تبھی تو شمشان تک آ پہنچا ہوں۔
ستم ظریفی تو دیکھئے کہ ان آخری پلوں میں میری آنکھیں آخر کار کھل ہی گئیں اور کیا دیکھنے کو ملا؟۔ اپنا خاتمہ!!
***
گوری شنکر ’’پردیسی ‘‘
اَرپن کمار
گوری شنکر دوبے ہر صبح باقاعدگی سے سیر پر نہیں جا پاتے تھے۔ انہوں نے زندگی بھر فقط اپنی مرضی چلائی۔ ہر بات میں۔ پہننے اوڑھنے سے لے کر کھانے پینے تک ہر چیز میں، جو اپنے دل نے چاہا وہی کیا۔ نئے نئے جب کالج گئے تھے، تب انہیں این سی سی جوائن کرنے کا دل چاہا۔ باپو کی جانب سے خریدی گئی اپنی سائیکل پر فخریہ انداز میں سوار وہ اپنے کالج کے ’’پلے گراؤنڈ‘‘ میں گئے۔ وہاں انسٹرکٹر کی طرف سے کرائے جانے والے لیفٹ رائٹ ان کو اپنے من موافق نہیں لگے، تو انہوں نے دوبارہ اس کی طرف کبھی دھیان ہی نہیں دیا۔ خیر، کالج سے نکلتے نکلتے ان کا ایک سرکاری نوکری کیلئے انتخاب ہو گیا اور ان کی پہلی تقرری دہلی میں ہوئی۔ پھر ممبئی میں اور آج کل وہ جے پور میں ہیں۔
شہروں کی تبدیلیاں گوری شنکر بابو پسند کرتے ہی رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ منتقلی سے محض انسان کا جسم ہی کسی نئی جگہ پر نہیں جاتا ہے، بلکہ اس سے خود اس پر اور اس کے بال بچوں کے اندر بہت سی اقسام کی جدتوں کا داخلہ بھی ہوتا ہے۔ اس سے زندگی میں ایک قسم کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ ان کی بیوی کو، جو بہار کی ایک خالص قصباتی ثقافت سے آئی ہیں، شروع شروع میں اپنے شوہر کے ان تبادلوں سے بہت پریشانی ہوتی تھی۔ بعد میں وہ بھی اپنے شوہر کی رو میں بہنے لگیں۔
جے پور میں رہائش کیلئے گوری شنکر بابو کو چند دنوں میں ہی ایک سرکاری رہائش گاہ مختص کر دی گئی۔ تھوڑی مشقت کے بعد ایشیا کی سب سے بڑی کالونی کہے جانے والے ’’مان سروور‘‘ کے ایک اچھی انگریزی میڈیم درسگاہ میں اپنے اکلوتے صاحبزادے کا انہوں نے داخلہ بھی کرا دیا۔ لیکن ذرا رکیئے یہ کہانی گوری شنکر بابو ہے نا! تو یہاں درسگاہ اور داخلے جیسے الفاظ ان کے حساب سے ٹھیک نہیں رہیں گے۔ ہمیشہ اپنے اسٹیٹس سمبل کو لے کر محتاط رہنے والے گوری شنکر بابو کے صاحبزادے کا درسگاہ میں داخلہ نہیں، بلکہ اسکول میں ایڈمیشن ہوا تھا۔ اپنے اکلوتے بیٹے پر وہ جی کھول کر خرچ کرتے ہیں۔
’’پیسہ بچا کر کیا کریں گے۔ اپنے ساتھ سورگ میں تھوڑے ہی نہ لے جائیں گے۔ ‘‘بیوی کی چّلم چّلی پر ہر بار یہی کہہ کر اسے چپ کرا دیتے ہیں گوری شنکر بابو۔ ہر مہینے صرف اسکول فیس کے نام پر یہی کوئی چھ ہزار روپے کا خرچ وہ خوشی خوشی برداشت کرتے ہیں۔ مہینے دو مہینے میں کسی نہ کسی ایکٹویٹی کے نام پر کبھی پانچ سو تو کبھی ہزار کا چونا مزید لگ ہی جاتا ہے۔ ایسے میں درسگاہ اور داخلہ جیسے الفاظ انہیں پانی کی طرح خرچ ہونے والے اپنے پیسے کی توہین لگتے ہیں۔
زندگی بھر تعلیم سے محبت کرنے والے گوری شنکر دوبے کی ترقی کا سفر کوئی کم طویل نہیں ہے۔ ایکدم اجڈ دیہاتی سے ایک مہذب شہری بننے تک کا طویل سفر۔ کئی دہائیاں لگیں ان کو یہاں تک پہنچنے میں۔ جسمانی اور ذہنی، منطقی اور روحانی، سماجی اور ثقافتی، ہر سطح پر کتنی تیاریاں کرنی پڑیں ہیں انہیں اس کیلئے۔ گرودت کے اسٹائل میں اپنی ہلکی مونچھوں کے بیچ مسکراتے ہوئے کہیں نہ کہیں وہ اپنی اس پیش رفت پر دل ہی دل اِتراتے بھی ہیں۔ کہاں تو وہ اپنے گاؤں میں روزانہ کی حاجتوں سے فراغت حاصل کرنے کیلئے کھیتوں کی سیر کیا کرتے تھے، دریا تالاب کے کنارے جایا کرتے تھے۔ بھری برسات میں جب ہر جگہ پانی کھڑا ہوتا تھا، تو کسی اونچی جانب چڑھنے پر دباؤ کا آزاد ہونا انہیں آج بھی خوب یاد ہے۔ تب کتنی مشکل سے وہ کچھ دیر بیٹھ پاتے تھے۔ بیچ راستے پر بیٹھنا کتنا برا لگتا تھا مگر جب ہر طرف پانی میں انسانوں کے فضلات تیر رہے ہوں، ایسے میں نیچے کسی کھیت کی منڈیر پر بیٹھا بھی تو نہیں جا سکتا نہ! جانے کیوں گوری شنکر شروع سے اپنے ہر طرح کے رویے کو لے کر یا یوں کہیں کہ اپنی طرزِ زندگی کو لے کر بے انتہا محتاط اور حساس تھے۔ وہ ہر وقت ذاتی تو کبھی اجتماعی ترقی کی اور بہتر طرزِ زندگی کی باتیں سوچا کرتے تھے۔ انہیں اپنے گاؤں سے کوئی چڑ نہیں تھی، مگر وہ یہاں بھی محدود وسائل میں ہی سہی، ایک معیاری زندگی بسر کرنے کا طریقہ تلاش کرنا چاہتے تھے۔ گاؤں میں صبح صبح مسواک رگڑتے لوگوں کے کثیر اجتماع میں گوری شنکر اپنے ٹوتھ برش پر پیسٹ لگائے اور اسٹیل کے ایک جگ میں پانی لئے برش کر رہے ہوتے۔ ایک دن کی ہی بات ہے، ایسی ہی ایک صبح گوری شنکر کے ہم جماعت سنجو پاسوان کے والد رام دین پاسوان آ گئے۔ انہیں ہرکسی کو کوئی نہ کوئی عرفیت دینے کی عادت تھی۔ مٹی اور گھانس کے کچے مکان میں رہنے والے، تھے تو وہ ایک غریب آدمی ہی اور ان کے پاس یہی کوئی ایک آدھ بیگھا کھیت بھی مشکل سے ہی ہو گا۔ گاؤں میں کبھی اِس کا، تو کبھی اُس کا کھیت بٹائی پر لے کر وہ اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالا کرتے تھے۔ مگر اپنی اقتصادی حالت سے الگ وہ گاؤں کے سب سے بڑے ہنر مند اور قصہ گو تھے۔ چٹکلے باز ان جیسا کوئی نہیں، حاضرجواب ان جیسا کوئی نہیں۔ اس صبح بھی ایک جگ لے کر گوری شنکر ہمیشہ ہی طرح گاؤں کے ’’بتھان ‘‘ پر بیٹھے برش کر رہے تھے۔ باقی لوگ جہاں نیم، بانس، آم، پیلو یا کسی اور درخت کی شاخ سے کوئی ملائم، لچکتی، کچی لکڑی توڑ کر مسواک کر رہے تھے وہیں گوری شنکر بابو، بناکا ٹوتھ پیسٹ اور برش کے ساتھ مزے سے اپنے دانت چمکانے میں مصروف تھے۔ ٹوتھ پیسٹ اور برش کا استعمال تو وہ کر رہے تھے، لیکن ان کے اندر کا دیہاتی یہاں بھی اپنا کام دکھا رہا تھا۔ وہ برش کرتے ہوئے بھی تقریباً اتنا ہی وقت لگا رہے تھے جتنا لوگ مسواک کرنے میں لگاتے ہیں۔ اسی لیے ان کے برش کے ریشے جلد ہی ایک طرف جھکی ڈال کی طرح مڑ جایا کرتے تھے۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
معاشرے میں رہتے ہوئے ہماری ہر حرکت پر ایک ساتھ کئی نگاہیں پڑ رہی ہوتی ہیں۔ تبھی تو گاؤں کی عورتیں اپنے بچوں کے ماتھے پر کاجل کے بڑے بڑے ٹیکے لگا کر انہیں باہر بھیجتی ہیں۔ جو شہروں میں آ کر کچھ پوشیدہ انداز میں بچے کے کان اور سر کے بال کے درمیان کہیں، آسانی سے نہ دکھائی دیئے جانے والی کسی جگہ پر لگا دیے جاتے ہیں۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے گاؤں کی عورتیں اپنی مانگ میں خوب لمبا اور گہرا سندور لگاتی ہیں، وہیں شہر کی عورتیں بالوں سے ڈھکی اپنی مانگ میں کہیں کہیں ایک نقطے کی طرح چھوٹا سا ٹیکا لگا کر رہ جاتی ہیں۔ رام دین پاسوان بھی ایک تیز مشاہدے والے اور ناقد ٹھہرے۔ وہ گوری شنکر کے طرزِ عمل پر مسلسل نظر جمائے ہوئے تھے۔ مگر اب تک دعا سلام تک ہی ان کا رشتہ تھا گوری شنکر سے۔ اپنی مذاقیہ فطرت کے برعکس وہ گوری شنکر کے ساتھ سنجیدہ ہی رہا کرتے تھے۔ مگر اس صبح انہیں جانے کیا سوجھا کہ وہ گوری شنکر کے سامنے اپنے اصلی روپ میں آ گئے۔ کافی دیر تک وہ گوری شنکر کو چھیڑتے رہے۔ گوری شنکر پانی پانی ہو گئے۔ گاؤں والوں نے اس دن گوری شنکر کی ٹانگ کھنچائی کا کافی مزہ لیا۔ ان کا یہ مزہ دوبالا ہو رہا تھا، کیونکہ ان سب کے دوران گوری شنکر مسلسل جھینپتے چلے جا رہے تھے۔ اور پھر یہ کیا، اپنے ٹریڈ مارکہ انداز میں عوام کو محظوظ کرتے ہوئے رام دین پاسوان نے اس صبح گوری شنکر کا آخر کار ‘ ‘ نام کرن ‘ ‘ کر ہی دیا۔۔ ۔ گوری شنکر پردیسی۔
’’ آج سے گوری شنکر دوبے، گوری شنکر پردیسی کہلایا کریں گے۔ ‘‘رام دین پاسوان کی طرف سے بھرے اجتماع میں جو یہ اعلان ہوا تو پورا اجتماع ‘ ‘ہو ہو ہو’ ‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔ اور پھر یہ نام ایسا چل پڑا کہ گاؤں میں تو کیا پورے علاقے میں ہی گوری شنکر دوبے ہمیشہ کے لئے گوری شنکر پردیسی ہو گئے۔ یہی تو خاصیت تھی رام دین پاسوان کی کہ ان کا دیا ہوا نام بالکل فٹ بیٹھتا تھا اور گاؤں والوں کے منہ پر ایسے چڑھ جایا کرتا تھا، جیسے کھیت سے واپس آنے کے بعد ان کے پورے جسم پر مٹی چڑھ جایا کرتی ہے۔
خیر، گوری شنکر تو اس دن کافی جھینپے، تلملائے۔ مگر گاؤں کے بڑوں، بزرگوں کے بیچ کیا کر سکتے تھے۔ بعد میں تو لوگ انہیں اسی نام سے پکارنے لگے۔ دیکھو گوری شنکر پردیسی آ رہا ہے۔ وہ جتنا چڑتے لوگ انہیں اتنا چڑاتے۔ پھر ایک دن انہیں لگا کہ اس مذاق کا مزہ انہیں بھی لینا چاہئے۔ اور پھر کیا تھا، اپنے اس نام کے زبان زدِ عام ہونے پر وہ خود بھی قہقہہ مار کر ہنسنے لگے۔ ایک عرصہ گذرنے پر مذاق بھی سچ کا روپ لینے لگتا ہے۔ گوری شنکر سوچنے لگے، کیا ان کا رہن سہن واقعی ان کے سنگی ساتھیوں، ان کے گاؤں والوں سے کافی مختلف ہے یا پھر خواہ مخواہ ہی ان کے کچھ شہری انداز کو ضرورت سے زیادہ طول دیا جا رہا ہے۔ کوئی گوری شنکر کو کہتا کہ دیکھو پردیسی آ رہے ہیں، تو وہ ایک ہلکی ہنسی ہنس کر اس کی بات کو ان سنا کر دیتے، مگر اگلے ہی لمحے دل ہی دل وہ خود کو گوری شنکر پردیسی کہہ کر دیکھتے۔ اور ’’پردیسی‘‘لفظ پر کچھ دیر ضرور ٹکتے۔
حالانکہ یہ گوری شنکر کو معلوم تھا کہ نیم جیسے مفید اور معالجاتی اہمیت کے حامل درخت کی تازہ اور لچکدار لکڑی سے دانت صاف کرنا کتنا مفید ہے، مگر روز روز ان کو توڑنے کے چکر سے وہ بچنا چاہتے تھے۔ اگر ایک بار کسی سے تڑوا کر رکھ بھی لو، تو وہ آہستہ آہستہ خشک ہونے لگتی ہیں۔ پھر ان کے باپو جب کبھی باہر سے آتے ٹوتھ پیسٹ، برش، صابن، سرف جیسے گھر کے ضروری سامان لانا نہیں بھولتے تھے۔ گوری شنکر کو اچانک اپنے باپو کی یاد آ گئی اور ان کا سر اپنے آپ ان کو یاد کر کے جھک گیا۔ ان کے باپو فوج میں تھے اور سن باسٹھ کی کئی کہانیاں، خوشی غمی کے مخلوط جذبات لئے وہ سنایا کرتے تھے۔ ان کی کہانیوں کو سننے کے لئے پورا گاؤں چوپال میں جمع ہو جایا کرتا تھا۔ ہمیشہ کی ہی مانند ایک دن صبح سویرے اپنے معمول کے مطابق ان کے باپو گاؤں میں بڑے سے عوامی کنویں پر آرام و سکون سے نہا رہے تھے کہ اچانک ان کا پاؤں پھسلا، وہ اینٹوں کے بنے پختہ فرش پر ایسے گرے کہ پلک جھپکتے میں وہیں شہید ہو گئے۔ پورا گاؤں اپنے اس بہادر سپاہی کی یوں اچانک ہوئی موت پر غمزدہ تھا۔ گوری شنکر کو اپنے باپو کی خدمت کرنے کی بڑی عادت تھی۔ اکثر وہ اپنے خوابوں میں اپنے باپو کے پاؤں دباتے رہتے تھے۔ مگر ایک ’’ایکس سروس مین ‘‘ کا جذبہ ان کے والد میں ایسا بھرا ہوا تھا کہ وہ کہا کرتے تھے۔
’’بیٹا گوری شنکر، تم اپنے کام میں مست رہو۔ تمہارا باپ ایک جواں ہمت فوجی ہے۔ وہ جب تک جئے گا، اپنی طاقت کے بل بوتے پر جئے گا۔ ‘‘
جاتے جاتے بھی ایکس سروس مین نے اپنے قول کی لاج رکھی۔ اس دن اپنے باپو کی موت پر گوری شنکر کو یہی باتیں یاد آتی رہیں اور وہ کافی دیر تک دل ہی دل میں سسکتے اور سوچتے رہے کہ باپو جی ٹھیک کہا کرتے تھے، انہیں شاید اپنی موت کا پیشگی علم تھا۔ وہ کتنے بڑے خوددار نکلے۔ اپنی پوری زندگی بغیر کسی پر بوجھ بنے گزار دی۔ کسی کے لئے کچھ بھی کرنا انہیں منظور تھا، مگر کسی کی مدد لینے سے وہ ہر دم بچنا چاہتے تھے۔ وہ ہر دم ایشور سے دعا کیا کرتے تھے کہ انہیں ایسا دن نہ دیکھنا پڑے، جب کسی کے آگے انہیں اپنی جھولی پھیلانی پڑے۔ ایشور نے ان کی دعا شاید سن لی تھی۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
یہاں دور دراز جے پور میں آج گوری شنکر کو اپنے فوجی والد کافی دیر تک یاد آتے رہے۔ اور آئیں بھی کیوں نہیں، یہاں ان کے گھر سے تھوڑی ہی فاصلے پر دہلی کے انڈیا گیٹ (حالانکہ سائز اور جگہ کے حساب سے دونوں کا کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا) کی طرز پر ایک شہداء یادگار بنی ہوئی ہے۔ جب کبھی وقت ملتا ہے، گوری شنکر وہاں ٹہلتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ وہاں دیواروں پر ملک کے لئے شہید ہونے والے راجستھانی فوجیوں کے نام کھدے ہیں۔ وہ کئی بار وہاں موجود ایک ایک نام کو بڑے احترام کے انداز سے اور کانپتے ہاتھوں سے دیر تک چھوتے ہوئے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے۔ اس کے ٹھیک پیچھے ایک بڑا سا بین الاقوامی معیار کا اسٹیڈیم ہے، جس میں وہ کئی بار تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے برسک واک کیا کرتے۔
گوری شنکر نے اپنی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں کو پونچھ ڈالا۔ انہیں اچانک بڑی شدت سے یہ محسوس ہوا کہ انہیں ایک ایسے بہادر شخص کی موت کو یاد کر کے رونا نہیں چاہئے۔ پہلے وہ ملک کے ایک سچے سپوت تھے۔ ان کے باپو تو وہ بعد میں تھے۔ اپنے باپو کے جذبے کے آگے انہیں اپنا قد بڑا بونا محسوس ہوا۔ انہیں اپنا اس طرح سسکنا اپنی بزدلی کی نشانی لگا۔ انہوں نے دل ہی دل فیصلہ کیا کہ ہو سکا تو وہ بھی کبھی ملک و قوم کے لئے کچھ کر کے دکھائیں گے اور آج کے بعد کبھی بھی اپنے باپو کو یاد کر کے یوں پھوٹ پھوٹ کر نہیں روئیں گے۔
جے پور میں گوری شنکر کے گھر کے ساتھ ایک بنگالی مارکیٹ ہے، جہاں ایک چھوٹی سی سبزی منڈی قائم ہے۔ وہاں ہر ہفتہ بنگال، بہار کے مختلف علاقوں سے سبزیاں آتی ہیں اور کئی بار گوری شنکر بھی وہاں جا کر سبزیاں خرید چکے ہیں۔ اس کے علاوہ صبح ٹہلتے ہوئے وہ یوں ہی اُدھر کا رخ کر لیتے ہیں۔ بانس کی کھپچیوں سے عارضی سا گھر بنا کر رہنے والے عمر رسیدہ مرد اور عورتوں کو وہ بڑے دھیان سے اور دیر تک دیکھتے رہتے۔ گوری شنکر سوچتے، ہم کتنے بڑے ہو جائیں۔ کتنی دور آ جائیں۔ کسی طرح کا بھی کام کرنے لگیں۔ ہماری پرانی خاص طور بچپن اور نوجوانی کی کہانیاں بھلائے نہیں بھولتیں۔ کئی بار گوری شنکر جے پور میں صبح کی سیر کرتے ہوئے اپنے گاؤں اور اپنی نوجوانی کے دھندلے ہوتے ہوئے قصوں کو چپکے سے یاد کر لیتے ہیں۔ تب آدھے گھنٹے کی اپنی سیر کے دوران وہ دیکھ تو جے پور کو رہے ہوتے ہیں، مگر ان کے اندر کہیں بہت گہرائی میں، کسی فلم کی مانند ان کا گاؤں چل رہا ہوتا ہے۔
انہیں بنگالی مارکیٹ میں مردوں کا لنگی اور عورتوں کا ساڑی پہنے ہوئے ادھر ادھر چلنا کچھ عجیب نہیں لگتا ہے۔ کیونکہ وہ خود آٹھویں جماعت سے لنگی پہننے لگے تھے۔ مغربی بنگال، بہار، جھاڑکھنڈ، اڑیسہ جیسی ریاستوں سے آئے تارکینِ وطن مزدوروں کی یہ دنیا انہیں ایک جانی پہچانی دنیا ہی لگتی۔ انہیں ایک خاص قسم کا اطمینان اور اپنا پن لگتا ایسے علاقوں میں گھومتے ہوئے اور ان سے مول بھاؤ کرتے ہوئے۔ مگر صرف اسی بنیاد پر گوری شنکر کا مزاج ان سے نہیں مل سکتا تھا۔ کیونکہ طویل عرصے سے باہر رہتے ہوئے دوبے جی کو اب تک دنیا کے کئی رنگوں سے واسطہ پڑ چکا تھا۔ اسے آپ گوری شنکر کے اندر کی مزاحمت بھی کہہ سکتے ہیں یا پردیس میں مقامی بمقابلہ غیر مقامی کی باہمی جد و جہد بھی سمجھ سکتے ہیں۔ کیونکہ ایسی صورتِ حال میں بہت سے دلچسپ واقعات وجود میں آتے تھے اور زیادہ تر معاملوں میں گوری شنکر کو اپنے علاقے کے ان مزدوروں کے اپنے تئیں کئے جانے والے طرز عمل کو لے کر کچھ اچھے تجربات نہیں ہوا کرتے تھے۔ حالانکہ اس کے لئے وہ خود کو بھی کم مجرم نہیں مانتے تھے۔ ان کی کڑک آواز، ان کے تیکھے نین نقش، فوری طور پر غصے میں آ جانے کی ان کی عادت۔ آج کے زمانے میں کون کس کا احترام رکھتا ہے اور جہاں تک سسرے ان مزدوروں کی بات ہے، یہ ہر ایرے غیرے سے ڈریں گے، اگر وہ مقامی ہے اور اگر آپ اس کے ہی طرح پوربیا ہیں تو آپ اس کے ٹھیے پر تو پہنچیں گے بعد میں، وہ آپ کو پہچان دور سے ہی لے گا اور آپ کی مستقل رہائش کی ٹوہ لے لے گا۔ ہر مخصوص علاقے کی چال ڈھال اور بول چال میں چند ایسی خاصیتیں ہوتی ہیں کہ بندہ اپنے علاقے والوں کے ریڈار تلے گرفت میں آ ہی جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے اگلے ٹھیے والا آپ کو یہیں کا سمجھے، مگر کیا مجال ہے کہ کوئی پوربیا دکاندار آپ کی پہچان میں کبھی کوئی غلطی کرے اور آپ اس وہم میں نہ رہیں کہ وہ آپ کے کپڑوں یا آپ کی نفاست کے رعب میں آئے گا۔ بھائی صاحب وہ صرف اتنا سوچتا ہے کہ جس طرح میں پردیس میں کسی طرح اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پال رہا ہوں ویسے ہی یہ حضرت یہاں آئے ہیں۔ پھر چاہے آپ لاٹ کلکٹر ہوں، آپ کی بلا سے۔ وہ آپ کی وجہ سے یہاں تھوڑے ہی نہ ٹکا ہوا ہے۔ پردیس میں سبھی طرح کی جد و جہد اور ذلت بھرے زندگی نے ننگی اور سخت دھوپ میں انہیں کچھ اس طرح تپا دیا ہے اور ایسا لوہا بنا دیا ہے کہ ان کے اندر کی ساری نرماہٹ تباہ ہو چکی ہے۔ ایسے میں آپ اس سے تاؤ میں بات کریں گے تو ہو سکتا ہے کسی ‘ ‘لوکل’ ‘کا تاؤ تو وہ کچھ دیر کے لئے سہہ بھی لے، مگر وہ آپ کا نہیں سہے گا۔ وہ سماجیات کے لحاظ سے ایک دم نچلی سطح پر کھڑا ہوا ہے۔ وہ خود اپنی اس حالت کو دل ہوا تو مان لے گا، مگر آپ اُسے اس کی کم حیثیت ہونے کا احساس دلائیں گے، تو وہ بپھر پڑے گا۔ یہ ٹھیک بھی ہے۔ کوئی خود کو کم کیوں سمجھے۔ گوری شنکر کئی بار سامنے والے کی نگاہ سے بھی دنیا کو دیکھتے۔ ایسا ہی کردار تھا گوری شنکر کا، جنہیں ناپسند کرتے ان سے بھی دیر تک ناراض نہیں رہ پاتے۔ اپنی بیوی سے کہتے۔
’’چلو ہمارا کیا جاتا ہے، اچھا برتاؤ کرے یا برا۔ اس کی بلا سے۔ ‘‘
مگر کہیں اندر ہی اندر گوری شنکر دگرگوں حالات میں ان کی جانب سے کئے جانے والی جد و جہد کو سلام بھی کیا کرتے اور ان کی ظاہری اکھڑ کو اپنے دفاع کی ٹیپیکل دیسی ٹیکنک بھی مانتے تھے۔
گوری شنکر کی کالونی میں ملک کے مختلف علاقوں سے آئے بہت سے گھرانے رہا کرتے تھے۔ شروع شروع میں گوری شنکر کو لگا کہ چلو اچھا ہے۔ ایک ہی جگہ پر منی ہندوستان دیکھنے کو ملے گا اور اپنے اس خیال سے وہ کچھ پر جوش بھی ہوئے۔ مگر جس کلرفل انڈیا کی چمک دیکھنے کی انہیں امید تھی، وہ تو انہیں وہاں نہیں دکھا، بلکہ اس کی جگہ ٹوٹے پھوٹے لوگ اور ان کی پریشانیاں ہی سامنے آئیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے جھگڑوں پر آپس میں لڑتے جھگڑتے اور ایک دوسرے سے منہ پھلاتے بڑے لوگ ہی انہیں نظر آئے۔ انہیں تعجب ہوا کہ کیا شہری بھارت یہی ہے!کیا سوفیسٹی کیٹڈ لائف اسٹائل اسے ہی کہتے ہیں۔ گوری شنکر ان دنوں بات بات میں کندھے زیادہ اچکانے لگے تھے۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
جے پور میں صبح سویرے اکیلے پیدل سیر کرتے ہوئے وہ زیادہ تر گاؤں کی باتیں سوچا کرتے تھے۔ گھر میں آ کر بھی وہ اکثر و بیشتر اپنی بیوی کے سامنے ایسا ہی کوئی معاملہ چھیڑ دیتے۔ ان کی بیوی شوبھنا کچھ سمجھتی اور کچھ نہیں سمجھتی۔ وہ اپنے شوہر کو ایک حد تک تو سمجھتی تھی، مگر کوئی کسی کے اندر چاہے کتنا ہی کیوں نہ اتر جائے، اس کو پوری طریقے سے نہیں سمجھ سکتا۔ پھر چاہے وہ آپس میں میاں بیوی ہی کیوں نہ ہوں۔ شوبھنا ایک دن اپنے شوہر کے اندر جھانکنے کی ایسی ہی ایک کوشش کرتی ہوئی بولی۔
’’آپ جو اس طرح اکیلے گھومتے ہیں، اس سے تو اچھا ہے نہ کہ ہم دونوں ساتھ ساتھ گھومیں ’’
گوری شنکر کیا بولتے۔ مگر انہیں اپنی بیوی کی ہوشیاری کو تاڑتے دیر نہ لگی۔ شوبھنا کچھ کچھ ان پر شک کرتی ہے، اس کا احساس انہیں پہلے بھی ہوا تھا۔ مگر وہ سوچتے، دنیا کی کون سی بیوی ایسی ہے، جو اپنے شوہر پر شک نہیں کرتی۔ پر حقیقت میں انہیں اچھا ہی لگا۔ چلو جو باتیں وہ اپنے اندر کرتے ہیں، اب وہی باتیں وہ بیوی کے ساتھ کر لیا کریں گے۔ اپنی جن یادوں کی دنیا میں وہ خود ڈوبتے ابھرتے رہتے ہیں، اب اس کی گہرائی میں کوئی اور بھی ان کے ساتھ ہو لیا کرے گا۔ وہ فوراً بولے۔
’’ٹھیک ہے، کل سے ساتھ چلیں گے۔ ‘‘
اگلے دن ان کی بیوی شوبھنا اور خود گوری شنکر صبح سویرے پہلی بار اکٹھے سیر کو نکل پڑے۔ سب سے پہلے نچلی منزل پر رہنے والے مسٹر بھاردواج نے انہیں غور سے دیکھا اور مسز بھاردواج نے مسکرا کر دونوں کا دل سے استقبال کیا۔ اس کالونی میں وہ دونوں پہلی بار صبح کی سیر پر ایک ساتھ باہر نکل رہے تھے۔ چند قدم چلنے پر سوسائٹی کا گیٹ آیا، جہاں تعینات گارڈ نے کچھ مزید ادب سے آج دونوں کو سلام کیا۔ سامنے ہی آسمان میں سورج پوری طرح نکلنے کی تیاری کر رہا تھا۔ اس کی کرنوں نے گویا دونوں کو ایک ساتھ منور کیا۔ سڑک کے کنارے لگے گل مہر، املتاس کے پھول کھلے ہوئے تھے۔ نیم میں بھی پھول آئے ہوئے تھے۔ پڑوس کی کالونی میں درختوں کے جھرمٹ سے کوئل کی کوک رہ رہ کر کانوں تک آ رہی تھی۔ سامنے مرکزی سڑک پر آتے ہی بھیروں بابا جمے تھے۔ پہلے گوری شنکر نے اور پھر شوہر کی پیروی کرتے ہوئے شوبھنا نے بھی اپنا سر جھکا کر ان کو پرنام کیا۔ پھر دونوں دائیں طرف مڑ گئے۔ شوبھنا نے اچانک اپنی رفتار تیز کی۔ گوری شنکر تھوڑا پیچھے رہ گئے۔ ان کے اندر کا مرد کہیں شکست کھا کر گر پڑا۔ پیچھے سے ہی آواز لگائی۔
’’ارے ہاں بھئی، اتنی تیز کیوں چل رہی ہو۔ ‘‘
بیوی نے بغیر پیچھے مڑے ہی آواز لگائی۔ ‘‘دوبے جی آپ بھی اپنی رفتار بڑھائیں۔ اس طرح چہل قدمی کرنے سے کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ تھائیرائیڈ کا ٹی۔ ایس۔ ایچ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ ‘‘
گوری شنکر کیا بولتے۔ وہ اپنی عادت سے مجبور تھے۔ ایک تو ان کو صبح اٹھنا ہی بھاری لگتا تھا اور پھر پسینے میں تر بتر ہو کر تیز تیز چلنا، آج تک انہیں کبھی اچھا ہی نہیں لگا تھا۔
’’دیکھو شوبھنا، میں تو یوں ہی چلتا ہوں خراماں خراماں۔ فطرت اور ماحول کا بھرپور جائزہ لیتا ہوا۔ میں تو ان میں دل لگاتا ہوں۔ ان کا ہو جاتا ہوں ’’، گوری شنکر نے تھوڑے فاصلے سے کچھ تیز آواز میں کہا۔
ادھر شوبھنا اپنے بڑھتے وزن اور ٹی۔ ایس۔ ایچ کے اضافے کی فکر میں کچھ سننے کو تیار کہاں تھی۔ وہ تو صبح کی سیر کو ایک ٹاسک کے طور پر لے کر اپنے گھر سے نکلی تھی۔ دونوں میاں بیوی میں یہی تو فرق ہے۔ ایک کہاں اپنے دماغ کا غلام، تو دوسرا کہاں اپنی ہر سرگرمی کو بڑے ناپ تول کر پورا کرنے والی اور پھر بھی دونوں کو ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے یہی کوئی پندرہ ایک برس تو ہو ہی گئے ہوں گے۔ گوری شنکر دل ہی دل اپنی شادی کا سال یاد کرنے لگے۔
کہاں تو شوبھنا تیز تیز قدموں سے چل کر اپنے جسم کا زیادہ سے زیادہ پسینہ بہانا چاہ رہی تھی اور کہاں گوری شنکر بابو جے پور کی سڑکوں پر یہاں کے مقامی باشندوں کی ناپسندیدہ اور نظروں سے چھپی رہنے والی سوہانجے کی پھلیوں کی طرف دیکھ کر کسی سوچ میں مگن آہستہ آہستہ چلے جا رہے تھے۔ جن درختوں پر سوہانجے کی پکی اور سوکھ چکی پھلیاں دِکھتیں وہاں وہ غمگین ہو جاتے اور جہاں سبز اور تازہ پھلیاں دیکھنے کو ملتیں وہاں وہ للچائی آنکھوں سے ان کی طرف دیکھتے۔ کسی نہ کسی طریقے سے وہ اسے توڑ لینا چاہتے تھے۔ مگر شہری کھِسّو پنے کے مارے گوری شنکر صرف دل مسوس کر رہ جاتے۔ پھر بھی اس درخت کے نیچے وہ کچھ دیر تک ضرور منڈلاتے۔ آج بھی اپنی بیوی کے ساتھ چلتے ہوئے وہ کچھ دیر کے لئے اپنے ایسے ہی پیارے سوہانجے کے ایک درخت کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ ذائقے کا چسکا آدمی کو اپنا غلام بنا دیتا ہے۔ مگر یہاں تو بات اس سے بھی بڑھ کر تھی۔ ایک طویل عرصہ یا کئی سال ہو گئے تھے گوری شنکر کو سوہانجے کی سبزی کھائے ہوئے۔ دال میں ڈوبی ہری ہری پتلی پتلی ڈنڈیاں چوسنے میں کتنا سکون ملتا تھا انہیں اپنے بچپن میں۔ سچ آج بھی گوری شنکر سوہانجے کے اس ذائقہ کو بھولے نہیں ہیں اورسوہانجا ہی کیوں اپنے بچپن کی جانے کتنی چیزوں کو وہ اپنی یادوں میں بسائے ہوئے ہیں۔ پھر چاہے گاؤں کے باہر بنی اونچی نیچی فیلڈ پر دن دن بھر فٹ بال کھیلنا ہو، پڑوس والے گاؤں کے گنے کے کھیتوں سے گنے چرانا ہو، دیا سلائی کی ڈبیوں سے مٹی کی اینٹوں بنانی ہوں، رات رات بھر بھوجپوری چیتا گانا ہو یا پھر کچھ اور انہیں سب کچھ یاد ہے۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
آج کل جے پور میں گوری شنکر کا پیٹ کچھ زیادہ نکل آیا ہے۔ یہاں کے ان کے کچھ ساتھی ملازمین اس بات پر ان کی ٹانگیں بھی کھینچنے لگے ہیں۔ دوبے صاحب سوچتے اور دل ہی دل اپنی اس سوچ پر ہنس پڑتے، بھلا یہ کون سی بات ہوئی۔ ساری کرامات پیٹ کی ہو اور کھنچائی ٹانگ کی۔ یہ تو ٹانگوں کے ساتھ سراسر نا انصافی ہوئی۔ ایسے ہی باتوں باتوں میں ایک دن ان کے ایک سینئر ساتھی آر کے جین کہنے لگے۔
’’یار دوبے صاحب، آپ صبح صبح سیر کیوں نہیں کرتے۔ آپ کے ٹھیک پڑوس میں جے پور کا اتنا بڑا سینٹرل پارک ہے۔ پورے جے پور کے وی آئی پیز وہاں دوڑتے ہیں۔ ’’یوگا‘‘ کرتے ہیں، ورزش کرتے ہیں۔ آپ بھی جایا کرو۔ ‘‘
دوبے صاحب کیا کہتے۔ بات تو پتے کی کہی تھی آر کے جین نے۔ مگر دوبے جی کو عین موقع پر مذاق سوجھ گیا۔ چھوٹتے ہی بولے۔
’’جین صاحب میں وی آئی پی نہیں ہوں نہ! ’’
پھر دونوں مل کرا یکبارگی زور سے ہنسے تھے۔ خیر صاحب یہ تو دوبے صاحب کا ایک رخ تھا مذاقیہ اور ہنسوڑ۔ مگر ان کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو ان کے اندر کہیں چھپا ہوا ہے۔ وہ ایک باریک بیں معائنہ کار اور توسیع پسند خیالات والے شخص ہیں۔ وہ جہاں کہیں جاتے ہیں، وہاں کچھ زمین جائداد لینے کی سوچنے لگتے ہیں۔ پتہ نہیں کبھی کسی پرانے زمیندار کے ایک وارث نے گوری شنکر جی سے کہہ دیا تھا۔
’’دوبے صاحب میرا تو یہ ماننا ہے کہ آدمی کی اگر قسمت ہو تو ایسی ہو کہ وہ زمین کے جس حصے پر بھی پیشاب کر دے، وہ زمین اسی کی ہو جائے۔ ‘‘
بہت پہلے کہی گئی یہ بات گوری شنکر کو آج بھی یاد ہے۔ وہ جہاں کہیں جاتے ہیں، سب سے پہلے وہاں پیشاب ضرور کرتے ہیں۔ یہاں جے پور میں بھی کیا اور چاہے اس بات سے کوئی تعلق ہو یا نہ ہو، مگر یہاں بھی انہوں نے دو سال کے اندر اندر سو گز کا ایک پلاٹ خرید لیا۔ مگر چاہے ملک کے کسی بھی کونے میں رہ لیں، گوری شنکر کی روح آج بھی گویا اپنے گاؤں میں ہی بستی ہے۔ یہاں جے پور میں وہ جس علاقے میں رہتے ہیں، راجستھان کے بارے میں ایک مشہور تصور سے بالکل مختلف یہاں کافی ہریالی ہے۔ ساتھ ساتھ ان کے کمپلیکس کے علاوہ کئی دوسرے سرکاری محکموں کے بھی اس علاقے میں اپنے اپنے رہائشی کمپلیکس ہیں۔ ایسے میں مناسب طور پر بھرپور نہ سہی، پھر بھی کافی کھلی جگہ رکھتے ہوئے فلیٹوں کو تعمیر کیا گیا ہے۔ فلیٹ بھی عموماً چار منزل تک ہی ہیں۔ کمپلیکس کے اندر خالی جگہوں میں درختوں کے پودے بھی ٹھیک ٹھاک تعداد میں لگائے گئے ہیں۔ بچوں کے کھیلنے کے لئے چھوٹے پارک، بیڈ منٹن کورٹ وغیرہ کی بھی سہولیات ہیں۔ مجموعی طور پر ماحول کافی حد تک نیچرل ہے۔ اس لئے گوری شنکر کا من یہاں لگا رہتا ہے۔ جب وہ اپنے برآمدے میں بیٹھے ہوتے ہیں، تب کوئل کی کوک ان کا دل موہ لیتی ہے۔ انہیں اس طرح درختوں سے گھرے ماحول میں رہنا اچھا لگتا ہے۔ بچوں کو اسکول کے لئے روانہ کرنے اور سیر سے واپسی کے بعد عموماً دونوں میاں بیوی برآمدے میں پلاسٹک کی کرسیوں پر بیٹھ کر ایک ساتھ ہی چائے پیتے ہیں۔ سامنے برآمدے سے راجستھان اسمبلی کا گنبد دکھائی دیتا ہے۔ آج صبح ہی کی تو بات ہے۔ کوئی ہفتے بھر بعد گوری شنکر اپنے بچوں کو اسکول بس تک چھوڑنے کیلئے، اپنے من پسند پلنگ سے اٹھ کر تیار ہوئے۔ اس بیچ یہ ذمے داری شوبھنا ہی انجام دیتی رہی تھی۔ وہ بھی اس لئے کہ کل رات ان کا اکلوتا بیٹا گورَو دوبے، ان سے اپنے بس ڈرائیور کی شکایت کر رہا تھا۔
’’پاپا، آج کل پھر سے ہمارے ڈرائیور انکل ہمارے ساتھ غلط برتاؤ کرنے لگے ہیں۔ اگر میں کتاب نکال کر پڑھنے لگتا ہوں تو وہ ڈانٹ دیتے ہیں۔ یا پھر ہم دو دوست، کھڑے ہو کر بات کرنے لگتے ہیں تو کئی بار بس کے تیز مڑنے پر ہم اچانک گر پڑتے ہیں۔ ہمیں چوٹ لگ جاتی ہے۔ ٹرننگ پر بھی وہ بس سلو نہیں کرتے ہیں۔ ‘‘
گورَو عادتاً تھوڑا رک رک کر اپنے اسکول ڈرائیور کی شکایت اپنے پاپا سے کر رہا تھا۔ دوبے صاحب کو غصہ تو خوب آ رہا تھا، مگر کیا کریں، یہاں جسے دیکھو وہی بدتمیزی پر اترا ہوا ہے۔ کس کس کو سُدھاریں۔ پھر کون کس کی سن بھی رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں تو بس کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر دونوں سے ان کی ٹھیک ٹھاک لڑائی ہوئی تھی۔ مگر پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔ گوری شنکر خون کا گھونٹ پی کر رہ گئے۔ پھر اپنے بیٹے کو ہی سمجھایا۔
’’بیٹا کھڑا ہو کر آپ کو بات کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ خواہ مخواہ گر جاتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ بس تیز چلانا اس کی عادت ہو گئی ہے۔ پچھلی بار بھی اسے اتنا سمجھایا تھا، مگر کتے کی دم ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی رہتی ہے۔ ‘‘
گوری شنکر گالی نہیں دینا چاہ رہے تھے، مگر جوش میں ان کو اپنی زبان پر کنٹرول نہ رہا اور پھر گوری شنکر کسی بھی صورت میں اپنے بیٹے کو غیر محفوظ اور کمزور نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔
صبح کی سیر میں کہاں تو آدمی صاف ہوا کو زیادہ سے زیادہ اپنے پھیپھڑوں میں اتار لینے کے مقصد سے باہر نکلتا ہے اور کہاں ادھر ذہن میں دنیا بھر کی الجھنیں چلتی رہتی ہیں۔ گوری شنکر اپنی سوسائٹی کے گیٹ کے باہر آئی اسکول بس میں اپنے بچے کو بٹھا کر ایک سخت نگاہ ڈرائیور پر ڈالنا نہ بھولے۔ مگر واضح طور پر کچھ نہ بولے۔ انہیں بہت پہلے کسی بزرگوار نے کہا تھا۔
’’گوری، کئی بار سخت نگاہ ڈالنے بھر سے آدمی ڈر جاتا ہے۔ کم از کم تب تو بالکل ہی جب وہ سراسر غلطی پر ہو۔ ‘‘
دنیا بدلی، لوگ بدلے، ملک بدلا، کہاوتیں بدلیں۔ کہاں کچھ ہوتا ہے۔ ان سب کے باوجود پرانی کہاوتوں میں بچی کھچی طاقت کی وہ کچھ قدر کرتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی حکمتِ عملی بنا لیتے ہیں۔ جب تک سامنے کی سڑک سے بس بائیں جانب نہ مڑ گئی، تب تک وہ پیلے رنگ کی اسکول بس کو، ایک جگہ کسی پتھر کی مورتی کی مانند کھڑے، اسے جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔ گورَو بھی عادتاً پیچھے گردن گھمائے بڑی دیر تک اپنے باپ کی طرف دیکھتا اور ہاتھ ہلاتا رہا۔ صبح سویرے جے پور کی سڑک پر راجستھان اسمبلی سے تھوڑے ہی فاصلے پر یہ منظر بڑا دلچسپ تھا، جب دو باپ بیٹے اس طرح ایک دوسرے کو اوجھل ہونے تک دیکھتے رہے اور ایک دوسرے کی طرف ہاتھ ہلاتے رہے۔ سارے ماحول میں وارفتگی کی گرماہٹ تیرتی گئی۔ اپنی دھوپ کی گٹھری کو صدیوں سے اٹھائے ہوئے سورج کو، اس وقت وارفتگی کی گنگا میں ڈوبے گوری شنکر تمام نسلوں کو پیدا کرنے والا پہلا باپ محسوس ہوا۔ خود اعتماد گوری شنکر سڑک پر چہل قدمی کرتے ہوئے فطرت کی جولانیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے۔ وہ راہ چلتے ہوئے کئی بار سورج کی طرف دیکھتے اور جتنی بار بھی دیکھتے اتنی بار ہی ان کا سر احتراماً خم ہو جاتا۔
گوری شنکر اپنے آس پاس موجود درختوں اور پودوں کے حالات کا بغور جائزہ لیتے اور انجان لوگوں کی سرگرمیوں پر کسی جاسوس کی سی نظر رکھتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں میں ایک ایک لیٹر دودھ کی دو تھیلیاں جھلاتے واپس اپنے گھر کی طرف واپس آ رہے تھے۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
جب سے گوری شنکر نے کار لی ہے، سبزی لانے، بچے کے اسکول میں پیرنٹس میٹنگز کے اجلاس میں حصہ لینے، رات میں کہیں ڈنر پر جانے جیسے کئی چھوٹے موٹے کام وہ کار ہی کرنے لگے تھے۔ گوری شنکر گاڑی چلا کر خوش تھے اور شوبھنا اور ان کا بیٹا اس میں بیٹھ کر۔ ایسے ہی ایک دن پیر کی صبح میاں بیوی سبزی ترکاری لانے کے لئے اپنی گاڑی پر نکلے۔ بیٹا اسکول جا چکا تھا۔ اس وقت دونوں میاں بیوی ہی تھے۔ گورَو کی موجودگی میں شوبھنا، گوری شنکر کے ساتھ آگے والی سیٹ پر کم ہی بیٹھ پاتی تھی۔ مگر جب کبھی دونوں یوں اکیلے ہوتے، شادی کے پندرہ سال بعد بھی دونوں کے چہرے پر ایک یکساں لالی آ جاتی۔ گوری شنکر کچھ بھی اوٹ پٹانگ سا بول کر اپنی بیوی کو چھیڑتے۔ دبلی پتلی اور اسمارٹ شوبھنا ہنس ہنس کر دوہری ہوتی چلی جاتی۔ ایسے میں اگر کوئی باہر سے اندر کے منظر کو کچھ دیکھ پاتا، اس کے خیال میں دونوں میاں بیوی کم اور پریمی جوڑا زیادہ لگتے۔ آج گوری شنکر کچھ زیادہ ہی موڈ میں تھے۔ طلوع آفتاب کے وقت تیز بارش ہوئی تھی۔ صبح کا موسم کافی سہانا ہو رہا تھا۔ صاف ستھری سڑک اور نہائے دھلے درخت، پودے سبھی ان کے اندر موجود روما نیت میں اضافے کا کام کر رہے تھے۔ گوری شنکر عموماً گاڑی آہستہ چلایا کرتے تھے، مگر آج کچھ تیز اور انوکھے انداز میں وہ گاڑی کو چلا رہے تھے۔ مانو گاڑی ان کی کوئی محبوبہ ہو جیسے۔ ویسے کئی بار شوبھنا، گوری شنکر کو طعنے مار چکی تھی۔
’’اجی چھوڑیے دوبے جی، آپ مجھ سے زیادہ اپنی گاڑی اور لیپ ٹاپ سے محبت کرتے ہیں۔ ضد کر کے یہ دونوں چیزیں بہترین لانے کو میں نے ہی کہا تھا۔ آخر کچھ ہی چیزیں تو ایسی ہوتی ہیں، جو ہم بار بار نہیں خریدتے۔ تو کیوں نہ ایسی خریدی جائیں کہ جس سے ہمیں مکمل اطمینان مل سکے۔ مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ ان کی خوبصورتی کا نشہ آپ پر ایسا چڑھے گا کہ آپ انہیں ہم سب سے بچاتے پھریں گے۔ لیپ ٹاپ کا بیگ اور گاڑی کی چابی آپ کہاں رکھتے ہیں، ہم ماں بیٹے کو تو ان کا اندازہ تک نہیں ہوتا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ میں اپنے لئے یہ دو سوتنیں خرید رہی ہوں۔ آپ نے اتنا پیار تو مجھے ان پندرہ سالوں میں بھی نہیں کیا، جتنا گزشتہ سال بھر میں لیپ ٹاپ اور گاڑی کے ساتھ کر چکے ہیں۔ ‘‘
گوری شنکر مسکرا کر رہ گئے۔
ہمیشہ سنجیدہ رہنے والے گوری شنکر کو یوں مسکراتا دیکھ کر شوبھنا بھی اندر ہی اندر بہت خوش ہو رہی تھی۔ مگر کہتے ہیں نہ کہ کئی بار کوئی بڑی انہونی آنے سے پہلے آدمی خوشی اور مسرتوں کی ایسے ہی لہروں میں ہچکولے کھاتا ہے۔ اب جس بڑی سڑک پر آ کر اپنی گاڑی کو گوری شنکر بائیں موڑنے والے تھے، پیچھے سے تیز آتی اِنووا نے ان کی گاڑی کو بڑے زور کی ٹکر ماری۔ فٹ پاتھ سے لگ کر گاڑی دو بار پلٹی۔ ویسے دوبے صاحب کی گاڑی بھی ایک سیڈان ہی تھی، اس لیے دو بار پلٹنے کے بعد گاڑی خود تو پچک گئی، مگر دوبے صاحب اور ان کی بیوی کی جان بچ گئی۔ گوری شنکر خود کو اور اپنی بیوی کو کسی طرح سے گاڑی سے باہر نکالنے کی کوشش کرنے لگے۔ تب تک نکڑ پر چائے بیچنے والا بھگت، اونٹ چلا نے والی، محلے کے افراد اور راہ چلتے لوگوں نے آ کر مل جل کر دونوں میاں بیوی کو گاڑی سے باہر نکالا۔ شوبھنا کا سر پھٹ گیا تھا اور گوری شنکر کے بائیں ٹانگ اور دائیں ہاتھ کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ دونوں میاں بیوی کو ہسپتال لے جایا گیا۔ شوبھنا کے سر کے بال کاٹے گئے اور پھر کوئی سات آٹھ ٹانکے لگائے گئے۔ گوری شنکر کے دائیں ہاتھ میں لوہے کا راڈ لگایا گیا اور پھر ہڈیوں کو اس کے سہارے جوڑ کران پر پلاسٹر چڑھایا گیا۔ ان کی بائیں ٹانگ میں بھی پلاسٹر چڑھایا گیا۔ شکر تھا کہ کوئی ہفتے بھر کے اندر اندر شوبھنا اپنی پرانی حالت میں واپس آ گئی تھی۔ اتنے دنوں کے لئے پورا گھر درہم برہم ہو گیا تھا۔
گوری شنکر تو کوئی مہینے بھر بستر پر ہی پڑے رہے۔ اس دوران دفتر میں ان کی غیر موجودگی سے نجانے کتنے طرح کے مسئلے در پیش ہوئے۔ دن میں ان کا معاون کئی کئی بار فون پر معلومات لیتا۔ کیا ڈی۔ پی۔ ڈی، کیا آر۔ ٹی۔ آئی، کیا اسٹاف ممبران کا ٹریولنگ بل، جانے کتنے سارے محکمے ان کے پاس تھے۔ دائیں ہاتھ میں پلاسٹر چڑھا ہوا تھا۔ سو موبائل بائیں ہاتھ میں پکڑے، دیر دیر تک فون پر ہی وہ کچھ نہ کچھ احکامات دیتے رہتے۔ کبھی اپنے اس ‘ ‘امپورٹینس’ ‘ کا خیال آتے ہی اندر اندر ان کی چھاتی چوڑی ہو جاتی۔ مگر ایک ہی بات جب ان کا معاون بار بار پوچھتا اور لاکھ سمجھانے کے بعد بھی کسی نہ کسی الجھن میں گھرا ہی رہتا، تو وہ جھنجھلا سے اٹھتے۔ فون پر ہی اس کی ہوا نکالنے لگتے۔ شوبھنا ایک لمحے کے لئے پس و پیش میں پڑ جاتی۔ سوچنے لگتی، وہ اپنے جس شوہر کو اتنا ’’گارنٹڈ‘‘ لے کر چلتی ہے، کیا وہ واقعی اتنا بڑا افسر ہے اور لوگ اس کی دہاڑ کو اتنا برداشت کرتے ہیں۔ دل ہی دل اسے اپنے شوہر کے ایسے رتبے پر بڑا فخر محسوس ہوتا، مگر اگلے ہی لمحے وہ کندھے اچکا کر کچن میں چلی جاتی۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
ایک سنسان دوپہر گوری شنکر اپنی بیوی کو کہنے لگے۔
’’دیکھو شوبھنا، مجھے تو میری نوجوانی کے دنوں میں ہی میرے گاؤں والوں نے گوری شنکر پردیسی کا نام دے دیا تھا۔ آج سوچتا ہوں، تو تب کا مذاق سچ لگتا ہے۔ شاید رام دین چچا میری اس قسمت کو جانتے تھے۔ تبھی انہوں نے میرا ایسا نام کرن کیا تھا۔ آج سے کوئی تیس سال پہلے جو میرا نام کرن کیا گیا، مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ مذاق سچ ثابت ہو گا۔ آج دیکھو اس کار حادثے میں، میں اپنا ایک پاؤں تڑوائے ہوئے بیٹھا ہوں۔ بائیں پاؤں میں پلاسٹر ہے اور دائیں ہاتھ میں راڈ لگی ہوئی ہے۔ بستر میں دن دن بھر اکیلا پڑا رہتا ہوں۔ سوسائٹی کے لوگوں کو اپنی موج مستی سے فرصت کہاں ہے، ایسے میں گاؤں بڑا یاد آتا ہے۔ ‘‘
شوبھنا نے میٹھے انداز میں کہا، ’’تو بنائیں نا پروگرام گاؤں کا۔ چلتے ہیں وہاں۔ آخر وہ آپ کی جنم بھومی ہے۔ آپ کے سگے بھائی رہتے ہیں وہاں۔ کچھ بھی ہو جائے خون کا رشتہ کبھی پھیکا نہیں پڑتا ہے۔ ‘‘
اپنی رو میں شوبھنا کیا کیا کہتی گئی اور کسی اسٹیچو کی طرح گوری شنکر اپنی بیوی کی طرف دیکھتے رہے۔ ساری باتیں سن کر بھی وہ خاموش ہی رہے۔ گویا کوئی بت بستر پر پڑا کسی کو ایک ٹک دیکھ رہا ہو۔ بیوی سے رہا نہ گیا۔ ان کا بازو سہلاتی ہوئی بولی۔
’’کیا بات ہے، ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں؟ کچھ بولتے کیوں نہیں؟‘‘
کمرے کی چھت کی جانب سونی آنکھوں سے گھورتے ہوئے وہ کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر بہت ہی دھیمی آواز میں کہنا شروع کیا، جیسے خود کو ہی سنا رہے ہوں۔
’’کیا بولوں، آج دور دور تک مجھے کوئی صورت نہیں سوجھ رہی ہے۔ کیا یہ صورتحال صرف آج کے حالات کی وجہ سے ہے، جو سبھی لوگ اس طرح الگ تھلگ ہیں۔ یا پھر اس کی بنیاد کہیں بہت پہلے ڈلی تھی۔ کیا انسان کے پاس اگنور کئے جانے کی ایسی کوئی صورتحال اچانک آتی ہے۔ ‘‘
’’اجی چھوڑیے بھی چھوٹا سا حادثہ ہے، آپ اسے اتنا دل پر کیوں لے رہے ہیں۔ ‘‘
بیوی نے ان کی توجہ کسی اور طرف بٹانا چاہی۔ بہت دیر سے بستر پر لیٹے ہوئے تھے گوری شنکر۔ لیٹے لیٹے مانو ان کی کمر اکڑ گئی ہو، تھوڑا اٹھ کر بیٹھنا چاہ رہے تھے۔ شوبھنا نے انہیں اٹھانے میں مدد کی۔ اپنی پیٹھ کو پلنگ کے سرہانے لگاتے ہوئے گوری شنکر کو بڑا آرام ملا۔ بائیں ٹانگ میں تو پلاسٹر ہی لگا تھا۔ دائیں ٹانگ گھٹنے سے موڑتے ہوئے گوری شنکر اپنی بیوی کی طرف دوبارہ مخاطب ہوئے۔ اپنے جسم کی اس بدلی حالت سے انہیں تھوڑا آرام محسوس ہوا۔ انہوں نے اپنی بات آگے جاری رکھتے ہوئے کہنا شروع کیا۔
’’دیکھو شوبھنا، بات چھوٹے یا بڑے حادثے کی نہیں ہے۔ بات ہے کہ کسی واقعے سے ہم کیا سیکھتے ہیں۔ اگر ہم وقت کی نبض کی بدلتی دھڑکن کو اپنے سینے میں محسوس نہ کر سکیں، تو ہمارے انسان ہونے کا مطلب ہی کیا ہے۔ ‘‘
پھر ذرا سنبھلتے ہوئے گوری شنکر آگے بولنے لگے، ’’دیکھو شہر میں ہر کوئی فلیٹ کی بود و باش کا اسیر ہوتا چلا جا رہا ہے اور اسے حاصل کر کے یا اس میں رہتے ہوئے فخر محسوس کر رہا ہے۔ در اصل وہ ایک چھوٹے پنجرے نما دڑبے میں رہنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ’نہ اُدھو کو لینا، نہ مادھو کو دینا ‘کے مردہ اصول کے ساتھ۔ ‘‘
’’لیکن آپ تو خود اس اصول کی وکالت کیا کرتے تھے جی۔ ‘‘ شوبھنا نے حیرت بھری نظروں سے اپنے شوہر کی جانب دیکھا۔ کسی نے گہری نیند میں چٹکی لی ہو جیسے، گوری شنکر تڑپ اٹھے اور کہنے لگے۔
’’بس یہی سمجھو شوبھنا کہ میں اب تک ایک نوع کی مد ہوشی میں جی رہا تھا۔ شہر کی جو کشش ہوتی ہے، اس کی خماری میں جی رہا تھا اب تک۔ مگر ایک چھوٹے سے واقعے نے کہیں بہت اندر تک مجھے متاثر کیا ہے۔ لگتا ہے شہر کی چکاچوند میں جو چیز پہلے دفن ہوتی ہے، وہ آدمی کی انسانیت ہی ہوتی ہے۔ یہاں کی تیز رفتار زندگی میں سب سے پہلے ہمارے اندر کی تعلق داری ہی دبتی اور مرتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہم اسے ماڈرن اور شارپ ہونا کہتے ہیں۔ ‘‘
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
گوری شنکر نے دل ہی دل میں دوبارہ اپنے گاؤں کی مٹی سے جڑنے کا ارادہ کیا اور وقفے وقفے سے گاؤں جاتے رہنے کا فیصلہ بھی۔ انہیں اچانک اپنے ریٹائرمنٹ کی تاریخ کا خیال در آیا اور لگا کہ فرصت کے دن گاؤں میں ہی گزارے جائیں۔ اپنے گاؤں سے جڑی کئی یادیں ان ذہن میں کوندنے لگیں۔ انہیں اپنے بیتے بچپن اور اپنے موجودہ بڑھاپے کی کڑی اپنا گاؤں ہی لگا۔ انہیں لگا کہ ان کی اس مصنوعی شہری زندگی کی ہی طرح گاؤں پر چھینٹا کشی کرنے کا ان کا خیال بھی نقلی تھا۔ گاؤں، اب بھی اپنی لاکھ برائیوں کے باوجود رہنے کے قابل بچا ہوا ہے۔ اجتماعیت کی وجہ سے کمزور سے کمزور آدمی کا بھی وہاں عام طور پر ہی مناسب گزر بسر ہو ہی جاتا ہے۔ چھوٹے موٹے بحرانوں میں لوگ ایک دوسرے کی مدد عمدہ طریقے سے کرتے ہیں۔ اس مدد میں احسان کا بوجھ بھی نہیں محسوس ہوتا ہے۔ اچانک گوری شنکر کو چہارم جماعت میں پڑھی کہاوت یاد آئی، ’’لوٹ کے بدھو گھر کو آئے ‘‘۔ ان کے چہرے پر پشیمانی کی ایک ہلکی سی لکیر بنی اور پھر گہری ہوتی چلی گئی۔ تبھی انہیں چہارم جماعت کی ہی ایک دوسری کہاوت یاد آ گئی، ’’صبح کا بھولا اگر شام میں آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے ‘‘۔ گوری شنکر دوبے کے دل میں طمانیت کا تاثر ابھر آیا۔ ان کے چہرے پر امید کی کرن دوڑ گئی۔ ان کے اندر کی رجائیت جوش مارنے لگی۔ انہیں لگا کہ گاؤں کی اقتصادی اور سماجی حالت بھی وقت کے ساتھ بدلے گی۔ وہاں بھی ترقی کی بادِ نسیم چلے گی۔ لوگوں کی مفلسی کچھ کم ہو گی اور مرجھائے چہروں پر مسکراہٹ کی روشنی چمکے گی۔ وہ خود بھی اس تبدیلی کا حصہ بنیں گے۔ شہر میں ہانپتے کانپتے بڑھاپے کو ڈھونے سے بہتر ہے کہ اسے شان سے اپنے گاؤں میں صاف ہوا، پانی کے درمیان جیا جائے۔ اب گاؤں میں بھی تو زیادہ گہرائی کے برمے لگنے لگے ہیں۔ اتھلے کنوئیں اور برمے تو جانے کب کے سوکھ گئے۔ ویسے ہے تو یہ المناک ہی، مگر پینے کے پانی کے معیار میں مجبوری میں ہی سہی بہتری تو آئی ہے۔ انہیں لگا کہ شہر میں کیڑے مکوڑے کی طرح جینے اور زندگی بھر ایک پہچان کے لئے ترستے رہ جانے سے بہتر ہے کہ گاؤں میں با عزت، شاندار اور پر وقار اندازسے جیا جائے۔ وہاں رہ کر کچھ خاص نہیں بھی کر سکے، تو وہ خود کے بل بوتے پر گاؤں کی آئندہ نسل کو تعلیم و تربیت دینے کا کام تو کر ہی سکتے ہیں۔ یہ سب سوچتے ہوئے انہوں نے ساتھ رکھا ایک پرانا ریڈیو چلا دیا۔ یہ ریڈیو ان کے باپو نے ان کی زمانہ طالب علمی میں ان کی سترہویں سالگرہ پر تحفے میں دیا تھا۔ ’’وِوِدھ بھارتی‘‘ پر ساحر کا لکھا گیت آ رہا تھا۔۔ ۔۔
وہ صبح کبھی تو آئے گی،
وہ صبح کبھی تو آئے گی،
وہ صبح کبھی تو آئے گی
ان کالی صدیوں کے سر سے
جب رات کا آنچل ڈھلکے گا،
جب دکھ کے بادل پگھلیں گے،
جب سکھ کا ساگر چھلکے گا،
جب امبر جھوم کے ناچے گا،
جب دھرتی نغمے گائے گی۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
مٹی کا بھی ہے کچھ مول مگر،
مگر انسانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں
انسانوں کی عزت جب جھوٹے سکوں میں نہ تولی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی، وہ صبح کبھی تو آئے گی،
وہ صبح کبھی تو آئے گی
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
اس دوپہر گوری شنکر نے شوبھنا سے دنیا جہاں کی باتیں کیں۔ زیادہ تر اپنے گاؤں کے قصے کہانیاں اور یہاں شہر میں رہتے ہوئے اپنے اندر کہیں گہرائی میں سماتی جاتی تنہائی کو بھی پہلی بار کھل کر بانٹا گوری شنکر نے اپنی بیوی سے۔ گاؤں اور شہر کا موازنہ کرتے ہوئے گوری شنکر کو کب جھپکی آ گئی، یہ انہیں پتہ ہی نہیں چلا۔ شوبھنا اپنے شوہر کی معصومیت پر مسکر اکر رہ گئی۔ گوری شنکر خواب میں رام دین پاسوان سے باتیں کر رہے تھے۔ رام دین چچا۔۔ ۔ دیکھئے گوری شنکر واپس اپنے گاؤں آ گیا ہے۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ وہ تو گھر والوں کے لئے میں باہر گیا تھا چاچا جی۔ اب میں ریٹائر ہو کر یہیں رہوں گا آپ سب کے درمیان۔ گوری شنکر نے خواب میں دیکھا کہ رام دین پاسوان ایک دم سے ضعیف ہو گئے ہیں۔ اپنے بستر سے اٹھ بھی نہیں پاتے۔ ان کا بیٹا سنجو پاسوان دن رات ان کی خدمت میں لگا رہتا ہے۔ اسی سے گوری شنکر کو پتہ چلا رام دین چچا اب اونچا بھی سننے لگے ہیں۔ گوری شنکر ان کے کان کے پاس اپنا منہ لے جا کر زور سے بولا۔
’’رام دین چچا اپنا رکھا نام اب واپس لے لیجئے۔ گوری شنکر پردیسی اب گوری شنکر دیسی ہو گیا ہے۔ سن رہے ہیں آپ۔ گوری شنکر پردیسی اب گوری شنکر دیسی ہو گیا ہے۔ خواب اتنا حقیقی تھا کہ ان کے برابر بیٹھی ان کی بیوی شوبھنا نے بھی اپنے شوہر کی گنگناہٹ سنی۔
’’گوری شنکر پردیسی اب گوری شنکر دیسی ہو گیا ہے۔ ‘‘
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
مگر خواب سے الگ ایک حقیقت کی دنیا ہوتی ہے۔ دونوں جدا جدا ہوتی ہیں، مگر کئی بار یا کہیے اکثر دونوں کو انسان ایک ساتھ جیتا ہے۔
گوری شنکر کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ان کے گاؤں سے سنجو پاسوان کا فون آیا۔ اس کے والد رام دین پاسوان کے بائیں پاؤں میں گھٹنے کے نیچے لقوہ مار گیا تھا۔ گاؤں میں کچھ لوگوں نے جے پور کے قدرتی طریقہ علاج کے کلینک میں دکھانے کا مشورہ دیا تھا۔ سنجو بھی اپنے والد کے پاؤں کے لئے ہر امکان کو ٹٹولنا چاہتا تھا۔ اسی سلسلے میں سنجو نے اسے فون کیا تھا۔ اس رات سنجو سے اور پھر رام دین پاسوان سے گوری شنکر کی دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ گوری شنکر کو بڑا اچھا لگا کہ ان کے اتنے پیارے بزرگ ان کے گھر پر آ رہے ہیں۔ مگر ان سے ملنے میں ابھی کوئی دو ہفتے کا وقت تھا۔ اسے مسرت ہوئی کہ وہ اس کے گھر پر اس کے ساتھ رہیں گے۔ وہ ان سے اپنے پرانے دنوں کو تازہ کر سکے گا۔ وہ اس ملک میں جانے کہاں کہاں تک گھوم آئے، مگر انہیں رام دین چچا جیسے تجربہ کار اور گپ باز، منجھے ہوئے طنز نگار اب تک نہیں ملے تھے۔ ہر معاملے میں، وہ بہت درست اور چبھتا ہوا تبصرہ کیا کرتے تھے۔ گوری شنکر کی آج جو اور جتنی بھی عمدہ زبان دانی تھی، اس کا ایک بڑا کریڈٹ رام دین چچا کو جاتا ہے۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
آخر کار وہ دن بھی آ گیا، جب گوری شنکر، رام دین چچا سے ملے۔ وہ ان کو لانے خود اسٹیشن پر گئے تھے۔ ریلوے کے سلیپر کوچ سے جیسے ہی رام دین چچا نکلے، ان کے پوپلے چہرے اور انتہائی کمزور جسم کو دیکھ کر وہ فریبِ نظری سے باہر نکل آئے۔ رام دین چچا کی جو تصویر ان کے شعور میں تھی، اس سے بالکل الگ یہ ایک تھکے ہارے اور تباہ و برباد بوڑھے کی جسمانی حالت تھی۔ انہیں دل ہی دل، اپنے دوست سنجو پر غصہ آیا۔ کیا اسے ان جیسی اتنی بڑی شخصیت کا دھیان ٹھیک سے نہیں رکھنا چاہئے تھا۔ ایسے لوگ صرف کسی کے ایک والد نہیں ہوتے، وہ معاشرے کا ثقافتی ورثہ ہوتے ہیں۔ کیا اسے اتنی سی بات بھی پتہ نہیں ہے۔ رام دین چچا کے دھول میں اٹے پیروں کی طرف جب گوری شنکر کا دایاں ہاتھ بڑھا، تو رام دین چچا نے انہیں درمیان میں ہی روک کر ان کے ماتھے اور سر کے بالوں کو سہلایا۔ مگر ان کے کانپتے ہاتھوں کو وہاں تک پہنچنے میں کچھ وقت لگا۔ گوری شنکر کو یاد آیا۔ پہلے بھی جب کبھی، وہ ان کے پیروں کو چھونے آگے بڑھتے تھے، وہ انہیں درمیان میں ہی روک کر جی بھر کر آشیرباد دیا کرتے تھے۔ آج بھی وہ یہی کر رہے تھے۔ مگر آج یہ کرتے ہوئے وہ کتنے قابلِ رحم لگ رہے تھے۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
ہسپتال، ڈاکٹر، ٹیسٹ لیب، کیمسٹ وغیرہ کے چکروں میں سنجو کے ساتھ گوری شنکر بھی دن رات ایک کئے ہوئے تھے۔ ان کے بائیں پاؤں میں گھٹنے سے نیچے لقوہ مار گیا تھا۔ کبھی بالکل تندرست اور چاق و چوبند رہنے اور دِکھنے والے رام دین چچا کا وزن اب کافی کم رہ گیا تھا۔ ان کا چہرہ تو ایکدم پوپلا ہو گیا تھا۔ اندر کا طنز نگار مرا تو نہیں تھا، مگر وقت کے تھپیڑوں سے مرجھا ضرور گیا تھا۔ گوری شنکر پورے دو برس کے بعد اپنے رام دین چچا کو دیکھ رہے تھے۔ ان کی یادوں سے یکسر مختلف۔ مانو یہ ایک دوسرے ہی رام دین تھے۔ تعلق کا رس ٹپکتا تو ضرور تھا، مگر اب اس بوڑھے ہو چکے پھل میں رس مانو برائے نام ہی رہ گیا تھا۔ گوری شنکر، کئی بار آگے بڑھ کر بات چیت کی پہل کرتے، مگر رام دین چچا کی طرف سے ضروری طاقت کی کمی پاتے۔ گوری شنکر خود پچاس کو چھونے والے تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد، اپنے گاؤں میں ہی بسنا چاہتے تھے۔ وہ اس بابت رام دین چچا سے آگے کا صلاح مشورہ کرنا چاہتے تھے۔ مگر رام دین چچا کی صحت درست نہیں ہو پا رہی تھی۔ وہ چاہ کر بھی ان سے کچھ پوچھ نہیں پا رہے تھے۔ پھر آج کل ان کی اداسی بھی گوری شنکر کو ان کے قریب جانے نہیں دے رہی تھی۔ ڈاکٹر اپنا کام کر رہے تھے۔ کچھ دوائیں، پیروں کے مساج اور کچھ ان کی ورزشیں چل رہی تھیں۔ مگر ان کا سب سے زیادہ زور صحت بخش کھانے پر تھا۔ انہیں شک تھا کہ رام دین جی کو ان کے گاؤں میں صحیح کھانا شاید نہ مل پا رہا ہو۔ گوری شنکر کی تیز چلنے والی عقل ڈاکٹروں کا اشارہ سمجھ رہی تھی۔ ہفتہ کی شام کھانا کھانے کے بعد، گھر سے باہر گوری شنکر ٹہلنے گئے اور ساتھ میں سنجو کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ وہ اسے گاؤں میں رام دین چچا کے لئے ہر طرح کے ضروری بندوبست کرنے کو کہہ رہے تھے۔ سنجو خاموشی سے سن رہا تھا۔ گوری شنکر سے سنجو کے گھر کے حالات پوشیدہ نہیں تھے۔ انہوں نے سنجو کو ہر ممکن حد تک مدد کرنے کی پیشکش بھی کی۔ سنجو چپ رہا۔ گوری شنکر کسی بھی حالت میں رام دین چچا کو خوش رکھنا چاہتے تھے۔ اپنے باپو کے بعد وہ گاؤں میں کسی اور سے اگر جڑے ہوئے تھے، تو وہ رام دین چچا ہی تھے۔ اگلے دن اتوار کی شام، گاؤں کے لئے ان دونوں کی ٹرین تھی۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
دیکھتے دیکھتے دو ہفتے گزر گئے تھے۔ گوری شنکر نے رام دین چچا کی خدمت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ گوری شنکر کی کل چھٹی تھی۔ صبح آرام آرام سے ان کے اور گھر کے دیگر معمولات چل رہے تھے۔ آج صبح سے ہی رام دین چچا کچھ کچھ اپنے پرانے روپ میں واپس آ رہے تھے۔ کچھ تو مہمان داری کا احساس تو کچھ آج کی الوداعی ملاقات، رام دین چچا صبح سے ہی کسی نہ کسی بہانے کوئی نہ کوئی بات کیے چلے جا رہے تھے۔ گوری شنکر نے آخر کار اپنے من کی بات آج ان سے ہی کہہ ڈالی۔
’’چچا جی، میں سوچتا ہوں۔۔ ۔ کیوں نہیں ریٹائرمنٹ کے بعد گاؤں ہی شفٹ کر جاؤں۔ آپ کیا کہتے ہیں؟ ‘‘
عادتاً اپنے دونوں ہونٹوں کو کستے ہوئے رام دین چچا بولے، ’’اس سے پہلے کہ میں تمہیں اپنی رائے دوں، تم مجھے یہ بتاؤ کہ کیا اب تک کی اپنی نوکری سے تم نے یہاں کوئی گھر لیا ہے۔ ‘‘
گوری شنکر، رام دین چچا کی اس بات کو بخوبی سمجھ رہے تھے۔ آرام سے انہوں نے کہنا شروع کیا، ’’جی، تھوڑے فاصلے پر ایک پلاٹ لیا ہے۔ ‘‘
رام دین چچا کی آنکھوں میں روشنی کی کرن کوند گئی، جیسے یہ کامیابی خود ان کے بیٹے کی ہو۔ بولے، ’’بہت اچھے گوری شنکر۔ ہمیں تم سے یہی امید تھی۔ اب اپنے سوال کا جواب سنو۔ بیٹے، گاؤں میں اب پہلے والی کوئی بات نہیں رہی۔ تم چاہے شہر میں جتنے ہوشیار بنے پھرتے رہو، مگر گاؤں والے تمہیں مناسب احترام کبھی نہیں دیں گے۔ وہ تمہیں اپنے بیچ سے نکلا ہوا ایک شخص مانیں گے اور تمہارے ساتھ بھی وہی برتاؤ کریں گے، جو وہ آپس میں کرتے ہیں۔ تمہیں یہ سب ٹھیک نہیں لگے گا۔ ‘‘
گوری شنکر بھی چپ رہنے والے کہاں تھے، ’’مگر چچا جی، یہ تو اچھی بات ہے نا۔ لوگ آپ سے برابری کا برتاؤ کریں۔ اس میں آخر ہرج کیا ہے۔ ہمیں ایسی کسی جاگیردارانہ ذہنیت سے باہر آنا چاہئے۔ ‘‘
رام دین چچا نے اس بیچ پانی کا ایک گلاس مانگا۔ بیوی کو منع کر کے گوری شنکر خود ان کے لئے پانی لائے۔ رام دین، جانے پہچانے انداز میں، پانی کو چائے کی طرح چسکی لے کر پیتے ہوئے آگے بولنے لگے۔
’’دیکھو، گوری شنکر میں برابری کے کسی خیال کا مخالف نہیں ہوں۔ یہ تم جانتے ہو۔ مگر وہ برابری پر بات نہیں کرتے بیٹا، بلکہ اس کے بہانے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہیں۔ تم یہ سب طویل وقت تک نہیں سہہ پاؤ گے۔ ‘‘
گوری شنکر بھی اپنی پوری رو میں آ گئے تھے، ’’کیوں اب بھی تو میں بیچ بیچ میں گاؤں جاتا ہی ہوں نا۔ سب تو ٹھیک ہی لگتا ہے۔ ‘‘
رام دین مسکرا دیے، ’’پچھلی بار گاؤں کب آئے تھے گوری شنکر اور کتنی دیر کے لئے؟‘‘
گوری شنکر چپ رہے۔
اپنی عادت کے مطابق رام دین چچا نے پہلے سوال کیا اور بعد میں خود ہی جواب دیا، ’’ گوری شنکر بیٹے، مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ تم دن بھر رک کر شام کی گاڑی سے ہی واپس ہو گئے تھے۔ کیوں پردیسی بابو اور یہ بات کوئی دو سال پرانی ہے۔ ‘‘
گوری شنکر، اپنے پیارے چچا کے محبت بھرے اس جواب سے کسی پھول کی طرح کھل گئے اور کہنے لگے، ’’چچا جی، آپ کو یہ سب کچھ یاد ہے۔ ‘‘
رام دین بھی اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکرا دیئے، ’’ارے بیٹا گوری شنکر، تم بھول گئے شاید، یہ نام میرا ہی رکھا ہوا ہے۔ ‘‘
’’کیسے بھول سکتا ہوں چچا جی۔ شروع میں میں کتنا چڑھتا تھا اپنی اس عرفیت سے۔ ہر کوئی آپ کی ہی طرح مجھے اس نام سے چھیڑ نے لگا تھا ’’، گوری شنکر نے مصنوعی غصہ دکھاتے ہوئے کہا۔
رام دین چچا مسکرا کر رہ گئے۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
ٹرین میں دونوں کو بٹھا کر، ابھی گوری شنکر کوچ سے نیچے اتر ہی رہے تھے کہ محبت سے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے رام دین چچا نے بِنا اشکوں کی آنکھوں سے کہا، ’’ گوری شنکر، ویسے تو کہنا نہیں چاہئے، مگر کہہ رہا ہوں، تم پردیسی ہی ٹھیک ہو۔ اور اب تو اس شہر میں تم نے زمین کا ایک ٹکڑا بھی خرید لیا ہے۔ اس پر ایک اچھا سا گھر بناؤ۔ یہیں اپنا گھر پریوار سنبھالو۔ بچوں کو پڑھاؤ لکھاؤ۔ ہاں۔۔ بیچ بیچ میں اپنی زمین جائیداد کی کھوج خبر لینے گاؤں ضرور آ جایا کرو۔ ”
گوری شنکر نے رام دین چچا کے پاؤں چھوئے اور پھر خاموشی سے ٹرین سے نیچے اتر گئے۔ ٹرین آہستہ آہستہ پلیٹ فارم سے کھسک رہی تھی۔ گوری شنکر اس کی مخالف سمت میں تھکے اور اداس قدموں سے آگے بڑھے چلے جا رہے تھے۔
***
خاموشیوں کا نیلا رنگ
تسنیم خاں
’’لو ساب، آپ کی چاکلیٹ۔ ‘‘
’’ارے کٹیِال صاحب آئیے، کیا لائے ہیں۔ آج بڑی دیر لگا دی۔ ‘‘
پربھات کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی اس نے دونوں چاکلیٹ اس پر پھینک دیں، ’’ایک تو آپ یہ مجھے کٹیِال ساب مت کہا کرو۔ ‘‘ اس نے ہونٹوں کو باہر نکالتے ہوئے منہ بنا لیا۔ پربھات نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے پاس بٹھایا۔ کندھے پر ہاتھ رکھ اپنے سے چپکاتے ہوئے کہا، ’’تو کیا کہوں کٹیِال صاحب۔ ہاہاہا!‘‘
پربھات کا ہنسنا اس کو اور بھی ناراض کر گیا۔
’’اچھا، تو اب نہیں کہوں گا، پکا۔ لیکن پھر تم مجھے صاحب کیوں کہتے ہو؟‘‘
اس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی، پھر بھی اس نے اپنے آپ کو سوبر دکھانے کے انداز میں کہا، ’’آپ تو ہو ہی ساب۔ ‘‘
’’کیوں یہ صاحب کی زندگی تمہیں اتنی اچھی لگتی ہے۔ ‘‘
اس بار اس نے ہاں میں بس گردن ہلا دی۔
پربھات کا فوجی ہونا اسے خوب پر کشش بناتا تھا۔ ایک تو اس کے چہرے کا رعب، دوسرا اس کی طویل قامت اور گٹھیلے جسم پر فوجی وردی خوب پھبتی۔ چہرہ تھر کے ریگستان سے زیادہ سنہرا اور اس پر سورج سی چمک۔ وہ اسے دیر تک دیکھا کرتا اور کہتا، ’’آپ ہیرو کیوں نہیں بن جاتے۔ ‘‘
اس پر پربھات بس ہنس دیتا۔
روشن قریب آٹھ سال کا ہو گا۔ رنگ بھورا اور بال بھی۔ اس کے گالوں پر سرخ نشان ہمیشہ پڑے رہتے۔ کبھی کبھی تو اتنے پھٹ جاتے کہ خون صاف دکھائی دینے لگتا، لیکن وہ ان سب سے بے فکر، اپنے چھوٹے ریچھ سے ملتے جلتے جھبرے بالوں والے کتے کو چپکائے گھومتا رہتا۔ اسے وہ اپنی زبان میں کُکّر کہتا۔
وہ کہیں بھی رہے، لیکن دن کے گیارہ بجتے بجتے کالی ندی کے کنارے آ جاتا۔
اسے پتہ ہوتا کہ پربھات یہیں اس کا انتظار کر رہا ہو گا۔ ایک اٹھائیس انتیس سال کے جوان اور آٹھ سال کے بچے کی دوستی تھی بھی اتنی گہری کہ وہ سارے کام چھوڑ کراس وقت ایک دوسرے سے باتیں کرنے آتے۔
عمروں کی طرح ہی ان دونوں کی باتیں بھی جدا ہوتیں، لگ بھگ الگ دنیا کی۔
روشن کی باتیں پہاڑ کے نیچے کی زندگی سے اس اونچی برف کی چوٹی تک ہوتیں، تو پربھات کے خیال تھر کے ریگستان سے اس برف کی اونچائی تک کا سفر کیا کرتے۔
پربھات نے ایک چاکلیٹ اس کے ہاتھ میں تھما دی۔ اب دونوں خاموش تھے اور چاکلیٹ کھانے میں مگن۔ بس ندی کی کل کل مسلسل ان کی خاموشی کو توڑ رہی تھی۔ پربھات کے دل میں پھر ہوک سی اٹھی۔
’’یہ ندی نہ ہوتی تو شاید یہ جزیرے سی لگنے والی برف کی چوٹی بھی اکیلی ہی ہوتی۔ کوئی آواز نہیں، بس خاموشی ہی خاموشی بکھری ہوتی، پر قدرت نے اِس کے ساتھ نا انصافی نہیں کی اور اسے آواز سے گلزار رکھا۔ تبھی تو گونجی کے دونوں طرف ندیاں بہہ رہی ہیں۔ کالی اور کُٹی۔ ‘‘
’’یہ بھی تو ریگستان ہی ہے برف کا۔ ‘‘اس نے دل ہی دل کہا، ’’دور دور تک کوئی ہریالی نہیں۔ بس برف کے درمیان سے جھانکتی اکا دکا جھاڑیاں۔ ویسے ہی جیسے اَوسیاں کے ریت کے ٹیلے۔ جہاں بمشکل ہی کوئی کٹیلا پودا بھی ملا کرتا۔ ہوتا تو بھی مٹی کے کئی فٹ اونچے ٹیلوں میں سے اس کا اوپری سرا ہی جھانکتا ملتا۔ ‘‘
’’اپنی زندگی بھی تو صحرا ہوتی جا رہی ہے۔ ریت کی طرح تپتا من اور سردخاموشیوں کا نیلا رنگ
تسنیم خان/عامر صدیقی
ہندی کہانی
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
’’لو ساب، آپکی چاکلیٹ۔ ‘‘
’’ارے کٹیِال صاحب آئیے، کیا لائے ہیں۔ آج بڑی دیر لگا دی۔ ‘‘
پربھات کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی اس نے دونوں چاکلیٹ اس پر پھینک دیں، ’’ایک تو آپ یہ مجھے کٹیِال ساب مت کہا کرو۔ ‘‘ اس نے ہونٹوں کو باہر نکالتے ہوئے منہ بنا لیا۔ پربھات نے اس کا ہاتھ پکڑ کرکھینچتے ہوئے پاس بٹھایا۔ کندھے پر ہاتھ رکھ اپنے سے چپکاتے ہوئے کہا، ’’تو کیا کہوں کٹیِال صاحب۔ ہاہاہا!‘‘
پربھات کا ہنسنا اس کو اور بھی ناراض کر گیا۔
’’اچھا، تو اب نہیں کہوں گا، پکا۔ لیکن پھر تم مجھے صاحب کیوں کہتے ہو؟‘‘
اس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی، پھر بھی اس نے اپنے آپ کوسوبر دکھانے کے انداز میں کہا، ’’آپ تو ہو ہی ساب۔ ‘‘
’’کیوں یہ صاحب کی زندگی تمہیں اتنی اچھی لگتی ہے۔ ‘‘
اس بار اس نے ہاں میں بس گردن ہلا دی۔
پربھات کا فوجی ہونا اسے خوب پر کشش بناتا تھا۔ ایک تو اس کے چہرے کا رعب، دوسرا اس کی طویل قامت اور گٹھیلے جسم پر فوجی وردی خوب پھبتی۔ چہرہ تھر کے ریگستان سے زیادہ سنہرا اور اس پر سورج سی چمک۔ وہ اسے دیر تک دیکھا کرتا اورکہتا، ’’آپ ہیرو کیوں نہیں بن جاتے۔ ‘‘
اس پر پربھات بس ہنس دیتا۔
روشن قریب آٹھ سال کا ہو گا۔ رنگ بھورا اور بال بھی۔ اس کے گالوں پر سرخ نشان ہمیشہ پڑے رہتے۔ کبھی کبھی تو اتنے پھٹ جاتے کہ خون صاف دکھائی دینے لگتا، لیکن وہ ان سب سے بے فکر، اپنے چھوٹے ریچھ سے ملتے جلتے جھبرے بالوں والے کتے کو چپکائے گھومتا رہتا۔ اسے وہ اپنی زبان میں کُکّر کہتا۔
وہ کہیں بھی رہے، لیکن دن کے گیارہ بجتے بجتے کالی ندی کے کنارے آ جاتا۔
اسے پتہ ہوتا کہ پربھات یہیں اس کا انتظار کر رہا ہو گا۔ ایک اٹھائیس انتیس سال کے جوان اور آٹھ سال کے بچے کی دوستی تھی بھی اتنی گہری کہ وہ سارے کام چھوڑ کراس وقت ایک دوسرے سے باتیں کرنے آتے۔
عمروں کی طرح ہی ان دونوں کی باتیں بھی جدا ہوتیں، لگ بھگ الگ دنیا کی۔
روشن کی باتیں پہاڑ کے نیچے کی زندگی سے اس اونچی برف کی چوٹی تک ہوتیں، تو پربھات کے خیال تھر کے ریگستان سے اس برف کی اونچائی تک کا سفر کیا کرتے۔
پربھات نے ایک چاکلیٹ اس کے ہاتھ میں تھما دی۔ اب دونوں خاموش تھے اور چاکلیٹ کھانے میں مگن۔ بس ندی کی کل کل مسلسل ان کی خامو شی کو توڑ رہی تھی۔ پربھات کے دل میں پھر ہوک سی اٹھی۔
’’یہ ندی نہ ہوتی تو شاید یہ جزیرے سی لگنے والی برف کی چوٹی بھی اکیلی ہی ہوتی۔ کوئی آوازنہیں، بس خاموشی ہی خاموشی بکھری ہوتی، پر قدرت نے اِس کے ساتھ نا انصافی نہیں کی اور اسے آواز سے گلزار رکھا۔ تبھی تو گونجی کے دونوں طرف ندیاں بہہ رہی ہیں۔ کالی اور کُٹی۔ ‘‘
’’یہ بھی تو ریگستان ہی ہے برف کا۔ ‘‘اس نے دل ہی دل کہا، ’’دور دور تک کوئی ہریالی نہیں۔ بس برف کے درمیان سے جھانکتی اکا دکا جھاڑیاں۔ ویسے ہی جیسے اَوسیاں کے ریت کے ٹیلے۔ جہاں بمشکل ہی کوئی کٹیلا پودا بھی ملا کرتا۔ ہوتا تو بھی مٹی کے کئی فٹ اونچے ٹیلوں میں سے اس کا اوپری سرا ہی جھانکتا ملتا۔ ‘‘
’’اپنی زندگی بھی تو صحرا ہوتی جا رہی ہے۔ ریت کی طرح تپتا من اور سردبرف کی طرح جمتی رشتوں کی گرماہٹ۔ ‘‘
پربھات نے ایک طویل سانس لی اور اپنی چاکلیٹ ختم کرتے کرتے کہا، ’’جانتا ہے آج کس خوشی میں چاکلیٹ کھا رہے ہیں۔ ‘‘
’’ ہاں، ہو گا آج بیگم جی کیا جنم دن یا چیلی کا یا ایجا کا یا پھر باجیو کا۔ ‘‘ روشن نے کئی سارے نام گنوا دیے۔
’’نہیں، اس سے بھی بڑی بات کہ آج میں چاچو بن گیا۔ ‘‘
’’وہ تو پہلے ہی تھے، چینو کے۔ ‘‘
’’ ہاں، یہی تو نا، چینو کا چھوٹا بھائی ہوا ہے۔ تم کیا کہتے ہو اسے۔۔ ۔ ‘‘
’’ ہاں، داجیو ہوا ہے۔ ‘‘
’’اچھا۔۔ ۔ ‘‘
’’ ہاں، آج صبح ہی سیٹیلائٹ فون پر کویتا سے بات ہوئی۔ اسی نے بتایا۔ پتہ ہے میں تو خوشی کے مارے اچھل پڑا۔ اس کے بعد سے تو دل ہی نہیں لگا۔ بس سوچ ہی رہا تھا کہ کب تم آؤ اور تم خوشی بانٹو۔ ‘‘
’’اچھا بس بیگم جی سے بات کی۔ ایجا (ماں ) اور باجیو (باپ) سے نہیں۔ ‘‘
’’تجھے بتایا تو تھا نہ کہ وہ بھی امریکہ گئے ہیں۔ بھیا، بھابھی کے پاس۔ اب تو ان سے بھی بات نہیں کر سکتا۔ ‘‘ اس نے پھر ایک طویل سانس لی۔
گونجی ویسے بھی سطح سمندرسے ۱۰۵۵۰ فٹ کی اونچائی پر واقع ہے۔ ہائی ایلٹی ٹیوڈ کی وجہ سے یہاں آکسیجن کم ہوتی ہے، اسی لئے لمبی سانس لینا، یہاں کے لوگوں کی زندگی کے لئے ضروری ہے۔ پربھات اور اس جیسے لوگوں کیلئے بھی، جو یہاں کے ماحول کے عادی نہیں ہوتے۔
’’پتہ ہے، یہ برفیلی چوٹیاں جتنی خوبصورت ہیں نا، اس سے کہیں زیادہ مشکل یہاں کی زندگیاں ہیں۔ ‘‘پربھات نے روشن سے کہا۔
’’اچھا، تو آپکے ریگستان میں کیسے گزرتی ہیں زندگیاں؟ پتہ نہیں کس طرح سے رہتے ہیں وہاں لوگ؟ بادھیہ ایک دن بتا رہا تھا کہ کیلاش مان سروور یاترا کیلئے راجستھان سے لوگ آئے تھے، وہ تو جیسے پگلا گئے برف دیکھ کر۔ ‘‘
پربھات ہنس دیا، کہا، ’’ کٹیِال صاحب آپ تو برا مان گئے۔ میں گونجی کی برائی نہیں کر رہا۔ بس اتنا جانتا ہوں کہ یہاں کی زندگی مجھ پر بہت بھاری ہے۔ ‘‘
’’ارے، اتنے جوان ہو، اس پر فوج میں ساب، پھر بھی مشکل کہتے ہو، آپ سے تو اچھا میں ہی ہوں۔ دیکھنا اگلے مہینے جب ہم نیچے جائیں گے، تب میں بادھیہ اور ایجا سے آگے رہوں گا۔ پیدل راستہ میں ہی پہلے پار کرتا ہوں۔ پورے ساٹھ کوس پڑتا ہو گا کوئی۔ دیکھا ہے نا کتنا مشکل راستہ ہوتا ہے۔ چھوٹی بڑی پہاڑیوں سے راستہ کبھی ایسے جاتا ہے، کبھی ویسے۔ ‘‘ اس نے ہاتھوں کو لہراتے ہوئے بتایا۔
’’اب بتاؤ مشکل ہے؟‘‘اس نے پھر سوال کیا۔
’’مشکل تو ہے۔ یہاں آنے کے بعد میں تو زندگی سے کٹ سا گیا۔ نہ کوئی رشتہ اور نہ کوئی دوست۔ اب دیکھنا، گھر میں نیا مہمان آیا ہے تو بھی میں بھیا، بھابھی، ممی، پاپا کو مبارکباد تک نہیں دے پایا۔ ‘‘
’’ارے ساب، اِتوکموٹ موٹ فون کلے دھن چھا (پھر اتنا موٹا موٹا فون کیوں رکھتے ہو) بات کرو نا ان سے۔ ‘‘اس نے پاس پڑے واکی ٹاکی پانچ واٹ کے وی ایچ ایف موٹرولا ڈاؤن سیٹ کی طرف اشارہ کیا۔
’’ کٹیِال صاحب کتنی بار کہہ چکاہوں کہ اس فون سے آواز میرے اپنوں تک نہیں پہنچ پاتی۔ ‘‘
’’یہاں صرف ایک سیٹیلائٹ فون ہے، جس سے گھر بات ہو جاتی ہے، لیکن باہر بات نہیں ہو سکتی۔ فوج میں نوکری کی اپنی حدود ہیں۔ اس پر گونجی میں موبائل یا دوسری فون سروس بھی تو نہیں ہے۔ انٹرنیٹ کے بارے میں تو یہاں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ نہیں تو کتنے آپشن ہیں باہر بات کرنے کے۔ سوچ رہا ہوں کہ اپنا یہ بیکار پڑا موبائل برف کے نیچے ہی کہیں دفن کر دوں۔ ‘‘
روشن بولا، ’’اتنی بری لگتی ہے یہ جگہ۔ ‘‘
پربھات نے کہا، ’’جگہ نہیں، یہاں کی تنہائی بری ہے۔ یہاں آ کر ممی پاپا کا پیار، بیوی کی ناز برداری، بٹیا رانی کے نرم ہاتھوں کا لمس، بھائی بھابھی کی محبت، دوستوں کی ٹولی اور ان کی گالیاں، سبھی چھوٹ گیا۔ بہت اکیلا ہوں یہاں میں۔ ‘‘
’’اکیلے کیسے ہوئے؟ آپ کے پاس تو اتنے سارے فوجی گھومتے رہتے ہیں۔ جی ساب، جی ساب کرتے ہوئے۔ کوئی پچاس تو ہوں گے ہی نا۔ ‘‘اس نے انگلیوں پر جیسے گنتے ہوئے کہا۔
’’اور دیکھو ہمارے گھر میں تو ہم تین ہی ہیں۔ میں، باجیو اور اِیجا۔ پھر بھی میں کبھی نہیں کہتا کہ میں اکیلا ہوں۔ ‘‘
’’جانتے ہو روشن، جب انسان بھیڑ سے گھیراہو، تو وہ سب سے زیادہ تنہا ہوتا ہے۔ رہی فوج کی بات تو آپ صاحب بنو گے تو سمجھو گے کہ فوج میں ڈیکورم برقرار رکھنا بھی اپنے ساتھ ظلم برتنا ہے۔ افسر کو جوانوں سے ایک فاصلہ برقرار رکھنا ہوتا ہے، رعب دکھانا ضروری سا ہوتا ہے۔ چاہ کر بھی ان سے زیادہ گھل مل نہیں سکتا۔ ان سے اپنے دل کی بات نہیں کر سکتا، دوستی نہیں کر سکتا۔ اور ایسے تو بالکل نہیں بات کر سکتا، جیسے میں تم سے بات کرتا ہوں۔ ان سے کبھی نہیں کہہ سکتا کہ مجھے گھر والوں کی یاد آتی ہے۔ ‘‘
اس بار پربھات کو لگا کہ اس کی آواز کچھ بھرا گئی ہے، لہذا وہ خاموش ہو گیا اور دائیں جانب منہ پھیر لیا۔ سامنے ہی اوم پربت کی اونچی اونچی برفیلی چوٹیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ جو نیلے آسمان کو چوم رہی تھیں۔ دھوپ جیسے جیسے ان پر تیز ہوتی جاتی، وہ سفید سے نیلی پڑتی جاتیں۔ مجازی نیلی۔ وہ جتنی چمکتیں، اتنا ہی آسمان کا نیلا رنگ ان میں اترتا جاتا۔ جیسے شِو بھگوان زہر پی کر نیلے پڑ رہے ہوں۔
اس نے سوچا، ’’ شِوبھگوان نے بھی تو یہیں تپسیا کی تھی، تبھی سے شاید یہ سب کیلئے تپسیا استھان ہو گیا ہو گا۔ جو ہمیشہ خاموشیوں سے گھرا رہتا ہے۔ ‘‘
’’اوم پربت آپ روز ہی دیکھتے ہیں، آج ایسا کیا ہے کہ دیکھے جا رہے ہیں۔ بھگوان شِو نظر آئے کیا؟‘‘روشن نے ٹھٹھول کیا۔
پربھات بھی ہنس دیا، بھراتا ہوا گلا، اس ہنسی سے کھل گیا۔
’’روشن۔۔ ۔ اسے دیکھ کرپہلی بار جانا ہے کہ خاموشیاں نیلے رنگ کی ہوتی ہیں۔ ‘‘
’’اچھا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کیا؟‘‘
’’اب سوچ رہا ہوں کہ اس پر سنیاس کی تیاری کر لوں۔ ‘‘
روشن نے پربھات کو نیچے سے اوپر تک گھور، ’’آپ کیسے بنو گے سنیاسی۔ وہ ایسے نہیں ہوتے۔ وہ تو کپڑے بھی اتنے نہیں پہنتے۔ نا ہی جوتے۔ ‘‘ روشن نے اس کے سنو بوٹ پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
پربھات کی ہنسی وادیوں میں گونجنے لگی۔ کہا، ’’یہی تو، میں وردی والا سنیاسی بنوں گا۔ اب دیکھ نہ یہ سنیاس ہی تو ہے۔ اپنی گھریلو زندگی سے تو نکل ہی آیا۔ کوئی ذمہ داری نبھا نہیں سکتا۔ اپنوں کے قریب نہیں رہ سکتا۔ اور تو اور کہیں کسی کو دیکھ کر آہیں بھی نہیں بھر سکتا، تو کیوں نہ دھرم ہی نبھا لوں۔ ہاں، یہ صحیح رہے گا۔ اوم پربت کی طرف چل دیتا ہوں۔ ‘‘
’’ارے نہیں نہیں، وہاں برف پگھلتی ہے۔ باجیو کہتا ہے، وہاں بہت خطرہ ہے۔ ‘‘ روشن نے ڈرتے ہوئے پربھات کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
’’خطرہ تو یہاں بھی ہے روشن۔ ایس ایس بی کیمپس کے چاروں جانب گھرے برف کے پہاڑوں سے گلیشیر پگھلنے کا خطرہ ہر وقت ہم پر منڈلا رہا ہوتا ہے۔ اس پر بیرک اتنی دور دور ہیں کہ کبھی کسی کو کچھ ہو جائے تو آواز بھی نہیں دی جا سکے۔ اور سب سے بڑی بات کہ یہاں کچھ دیکھنے کو بھی نہیں ملتا۔ یعنی کوئی ہریالی۔ ‘‘
روشن نے بغل کھجلاتے ہوئے کہا، ’’ہریالی؟‘‘
’’ ہاں ہریالی۔ تم نہیں سمجھو گے۔ لیکن کہیں دیکھنے کو ہی مل جائے، تو ہمارا دل تو لگا رہے نا۔ اور کہیں پوسٹنگ ہوتی تو بازارہی نکل جاتے، وہاں تو اتنی ساری ہریالیاں دیکھتا کہ آنکھیں سیر ہو ہی جاتی۔ زندگی جینے کے لئے امنگیں ضروری ہیں اور امنگوں کے لئے ہریالی۔ ‘‘
’’آپ یہ الجھی الجھی باتیں مجھ سے مت کیا کرو۔ ‘‘ بال کھجلاتے کھجلاتے پریشان ہو جاتا ہوں۔ ‘‘روشن نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔
’’سچ کہتا ہوں روشن، ہریالی کے بغیر تو ہم بے کار ہیں۔ تجھے معلوم ہے، ہم ریگستان والے تو جوانی میں برف پر پھسلنے کے ہی خواب دیکھا کرتے ہیں۔ میں نے بھی یہی سوچا تھا کہ کبھی برف کی حسیں وادیوں میں گھومنے جاؤں گا اور اپنی گرل فرینڈ یا بیوی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کوئی گیت گا رہا ہوں گا۔ ندی کے کلکل کرتے پانی میں دونوں ننگے پاؤں بیٹھے ہوں گے اور وادیوں میں کھو جائیں گے۔ اب دیکھ نہ میں ان خوبصورت وادیوں میں بیٹھا بھی ہوں تو اکیلا۔ ایکدم تنہا۔ اور تو اور یہاں آنے کے بعد دوست بھی ایک ہی بچا ہے اور وہ تم ہو۔ ‘‘
روشن کی خوشی ہونٹوں سے ہوتی ہوئی گالوں کی اونچائی تک جا پہنچی۔ پھٹے گالوں کا کھنچاؤ بڑھ گیا۔
بولا، ’’سچی۔ ‘‘
’’سچ روشن۔ یہاں آنے کے بعد تو بچپن کے دوست پیچھے چھوٹ گئے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسسٹنٹ کمانڈنٹ بن کر میں اپنے آپ کو اونچا سمجھنے لگا ہوں، اسی لیے ان سے بات چیت نہیں رکھتا۔ ‘‘
’’انہیں کون سمجھائے کہ اونچائی پر انسان ہمیشہ اکیلا ہوتا ہے، جیسے میں۔ ‘‘
’’لاکھ کوشش کر بھی انہیں سمجھا نہیں پاتا کہ میری زندگی میں وہ کتنے اہم ہیں۔ ان کی بھی کویتا کی طرح ایک ہی شکایت کہ میں انہیں فون یا میسج نہیں کرتا۔ اسی کا مطلب نکال لیتے ہیں کہ ان سے محبت نہیں کرتا۔ ‘‘
پربھات کا دل رک سا گیا۔
اس نے گھڑی کی طرف دیکھا، دوپہر کا ایک بجا رہی تھی۔ بیٹ مین دور سے ہی آواز لگاتا آ رہا تھا۔ پربھات سمجھ گیا کہ دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چلا ہے۔
اس نے روشن کی جانب دیکھا۔ وہ تو پہلے ہی اپنی جگہ سے اٹھ چکا تھا۔ پربھات پاس گیا اور اس کے ہاتھ میں بیس روپے رکھ دیئے۔ روشن بیس روپے لیتے ہوئے بولا، ’’میرا خرچہ کیوں کرتے ہو۔ میں تو ویسے بھی باجیو کو پاگل بنا کر ان کی دکان سے روزانہ دو چاکلیٹ تو کھا ہی لیتا ہوں۔ ‘‘وہ آنکھ مارتے ہوئے بولا۔
’’بس اس بہانے تم سے کچھ دیر باتیں ہو جاتی ہیں۔ ‘‘
’’ارے واہ۔ میرا باجیو دس روپے تو چھوڑو، مجھ پر ایک بھی خرچ نہ کرے۔ دس دس روپے بچا کر وہ جانے کون سا پربت خرید لیں گے۔ ‘‘
’’وہ پربت خرید لیں گے تو بھی دیکھنا، وہاں جینا مشکل ہو جائے گا۔ پاؤں بار بار نیچے کی زمین ہی تلاش کریں گے۔ ‘‘
یہ کہتے ہوئے پربھات ایس ایس بی کیمپس کی جانب چل دیا۔
رات نو بجتے بجتے سرد ہوائیں اور تیز ہو گئی۔ برسات کے بعد برفباری شروع ہو گئی۔ اپنے اس لکڑی کے بنے آفیسرز میس کے کمرے میں پربھات بستر میں اپنے آپ کو سمیٹے بیٹھا رہا۔ ایک طرف بنی مٹی کے تیل کی سگڑی میں آگ جل رہی تھی۔ یہ سرد علاقوں کے ہر گھر میں ہوا کرتی ہے، جسے مقامی زبان میں تندور یا بھُکھاری کہا جاتا۔ اسی کے سہارے موسم اتنا خراب ہونے کے بعد بھی سردی میں کچھ کمی تھی۔
گونجی، اتراکھنڈ کے کماؤ علاقے میں پتھورا گڑھ ضلع کے ایک اونچی چوٹی پر واقع گاؤں ہے۔ جو چین کے زیر انتظام تبت، نیپال اور بھارت کی سہ رخی سرحد پر موجود ہے۔ پورے سال یہاں برف رہتی ہے، ایسے میں عام لوگوں کا یہاں رہنا مشکلوں بھرا ہوا ہے۔ تبھی تو سرحد پر چوکسی کے لئے تعینات مسلح سرحدی محافظوں، انڈو تبت بارڈر پولیس کے جوانوں کے علاوہ عام عوام کی زندگی نہ کے برابر ہے۔ ہیں بھی تو بس کیلاش مان سروور یاتراکے دوران یہاں آنے والے یاتری اور ارد گرد سے ذریعہ معاش کمانے کے لئے آنے والے۔ وہ بھی برف گرنے کے وقت اکتوبر کے آخر تک نچلے علاقوں میں لوٹ جاتے۔ ایک اسٹیٹ بینک کا چھوٹا سا آفس اور ایک پولیس چوکی۔ وہ ہر سال یکم نومبر سے یہاں بند ہو جاتی۔ پھر اگلے سال مئی تک یہاں صرف خاموشیاں ہی بستیں۔
پربھات کو گونجی آئے دو ماہ سے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔ بڑے دنوں بعد اس نے اپنی ڈائری کھولی اور اس میں اپنے سفر کا احوال درج کرنا شروع کر دیا۔ اپنے دل کی باتیں ڈائری کو بتانے لگا۔
’’دھارچولا سے گونجی تک یوں تو دو دنوں میں پچپن کلومیٹر کا سفر ہر کسی کو پیدل ہی پورا کرنا ہوتا، لیکن خوش نصیبی سے چمپاوت سے اکلوتے روٹر ہیلی کاپٹر ایم آئی۔ ۲۶ میں آنے کا انتظام ہو گیا۔ یہ حیرت انگیز اور بڑا ساہیلی کاپٹر تھا۔ حیرت انگیز بھی ہے کہ اس کے سہارے ہی ٹرک بھی آسمان کی پرواز بھر رہا تھا۔ اور صرف تیس منٹ میں ہی میں گونجی پہنچ گیا۔ ہیلی پیڈ پر اترتے ہی برف پر پڑتی دھوپ میں آنکھیں چندیانے لگیں۔ پہلی بار برف پر قدم جو رکھا تھا۔ اونچے اونچے برف سے ڈھکے پہاڑ، دونوں جانب سے بہتی ندیاں جنت کا سا احساس کرانے لگیں۔ لیکن شام تک پتہ چل گیا کہ جنت پا لینا اتنا آسان نہیں۔ تپسیا کرنا ہوتی ہے۔ نہ یہاں موبائل نیٹ ورک، کوئی بجلی، نہ حرورت بھر پانی، اس پر ہائی ایلٹی ٹیوڈ اور شام ہوتے ہی چلنے والی برفانی ہوائیں۔ ایسے میں اپنے آپ کو زندہ رکھ لینا ہی کافی تھا۔ ‘‘
ڈائری لکھتے لکھتے کب اس کی آنکھ لگی پتہ نہیں چلا۔
صبح کے آٹھ بجے سنتری نے دروازہ کھٹکھٹایا، تو پربھات کی آنکھ کھلی۔ ابھی اجالا ہونا باقی تھا۔ تیار ہو کر باہر نکلا تو سورج نکل چکا تھا۔ گنگنی دھوپ میں برف سے ڈھکیں پہاڑیوں کے بیچ جھانکتے اوم پربت کی طرف کچھ دیر خلا میں تاکتے رہنا، اس کی روٹین کا حصہ بن چکا تھا۔
وہ میدان میں سر سے پاؤں تک خود کو گرم کپڑوں میں ڈھکے کمپنی کے جوانوں کے سامنے کھڑا تھا۔ سب کے ساتھ صبح کی دوڑ اور ورزش کے بعد اس نے ضروری احکامات سنائے یعنی فوجیوں کو دی جانے والی ڈیوٹی۔ اس کے بعد پیدل ہی بارڈر تک چل دیا۔ لوٹا تو ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔ وہ سیدھا کالی ندی پہنچا۔ پھرہاتھ باندھے ندی کے کنارے کچھ دیر کھڑا رہا، لیکن دور تک نہ روشن تھا اور نہ ہی اس کا کتا۔
واکی ٹاکی بج اٹھا، ’’مائٹی کالنگ، مائٹی کالنگ۔۔ ۔ ‘‘
’’یس کالنگ۔ ‘‘
’’ صاحب، دنڈپال صاحب کا ہیلی پہنچنے والا ہی ہے۔ آپ کہاں ہیں؟‘‘
’’آئی ول بی دیئر ان دس منٹ۔ ‘‘
یہ کہتے ہوئے پربھات نے واکی ٹاکی اپنے بیلٹ پر ٹانگ لیا اور دوڑتے ہوئے ایس ایس بی کیمپس کا راستہ پکڑا۔
شام کو کیمپ فائر میں پینے پلانے کا دور چل رہا تھا۔ آگ کے ارد گرد بیٹھے فوجی گیت گا رہے تھے۔ دنڈپال موصوف، گونجی کے دن بھرکے دورے کی تھکاوٹ کے بعد پیگ لے رہے تھے۔ فوجیوں کے ناچ گانے میں ان کا ساتھ دے رہے تھے، لیکن پربھات کا دل وہاں نہیں تھا۔ اس بھیڑ کے بیچ کی تنہائی اسے کاٹ رہی تھی۔
اس کی آنکھیں اس بھیڑ میں کسی اپنے کو ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔
’’اتنے دن کہاں تھے ساب۔ ‘‘ روشن ہاتھ میں چھڑی لئے زمین میں کچھ ٹٹولتے ہوئے بولا۔
’’یار، دنڈپال آئے تھے دورہ کرنے۔ ضروری تھا ان کے ساتھ رہنا۔ ناراض ہو کر جاتے تو مصیبت ہو جاتی۔ ‘‘
’’ڈرتے ہو کیا ان سے؟‘‘
’’نہیں، ڈرتا تو صرف اپنوں سے ہوں۔ ‘‘
’’آپ اتنا اداس کیوں ہو، وہ دنڈپال ڈانٹا؟‘‘
’’نہیں۔ ‘‘
’’ پھر بیوی۔ ‘‘
’’ ہاں، ہفتے بھر میں کل ہی وقت ملا، تو سیٹیلائٹ فون سے کویتاکے موبائل پر بات کرنے کی کوشش کی۔ اس نے بات نہیں کی۔ فون کاٹ دیا۔ وہ اس بات سے ناراض ہے کہ مجھے اس کی یاد نہیں آتی، اسی لئے فون نہیں کرتا۔ رونے لگی کہ پہلے تو دن میں دو بار اس سے بات کرتا تھا۔ اب میرا پیارکم ہو گیا، تو اس سے فاصلے بنا رہا ہوں۔ تو ہی بتا سرکاری فون سے سارا دن اپنے خاندان سے کس طرح بات کی جا سکتی ہے۔ لیکن وہ میری مجبوریاں نہیں سمجھتی۔ سمجھتی ہے کہ میں بہانے بنا رہا ہوں۔ ‘‘
روشن نے کسی ہم عمر دوست کی طرح اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ کہا، ’’میری بات کرانا میں بتاؤں گا کہ ان کی اور ہرشتا کی، آپ کو کتنی یاد آتی ہے۔ پھر وہ خوش ہو جائیں گی۔ ‘‘
’’ ہاں، روشن۔ ہر وقت ہرشتا اور اس کا خیال رہتا ہے۔ ہرشتا اب تین سال کی ہے، لیکن پیدا ہونے سے اب تک اس کے ساتھ کوئی چھ مہینے ہی گزارے ہوں گے۔ اسے بس خیالوں میں ہی بڑے ہوتے دیکھتا ہوں۔ اس کی کھلکھلاتی ہنسی میری برف سی سفید زندگی میں بھی رنگ بھر دیتی ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے پیروں میں پہننے پائلوں کا چھنکنا اپنے آس پاس سنا کرتا ہوں۔ خیالوں میں ہی سہی، اس کے نرم ہاتھ میرے گالوں کو چھو لیتے ہیں تو ساری تھکن اتر جاتی ہے۔ ‘‘
پربھات کی آنکھوں میں برف سی جمنے لگی۔
’’آپ بھی روتے ہیں، لیکن آنسو تو اندر ہی رہ گئے۔ ‘‘روشن نے بھانپ لیا شاید۔
اپنے ننھے دوست کی یہ بات پربھات کو اندر تک بھگو گئی۔
روشن کو خود سے لگا لیا۔ اور کہا، ’’پتہ ہے روشن اتنے سناٹے میں ماں کی یاد آ جاتی ہے۔ وہ میرے ہر حال کو بن کہے سمجھ جاتی ہیں۔ انہیں کبھی کہنا نہیں پڑا کہ میں پریشان ہوں۔ بس وہی ہیں جو کبھی ناراض نہیں ہوتیں۔ ‘‘
’’اچھا، مجھے تو اچھا لگے کہ اجیا سے دور رہنا پڑے۔ ‘‘روشن نے اپنے ہاتھوں کی مٹھی پر گالوں کو ٹکاتے ہوئے کہا۔
’’تم ابھی نہیں جانتے روشن، کہ اجیا کے سوا کوئی نہیں، جس کی زندگی بس تمہارے ارد گرد گھومتی ہے۔ وہ ہی ہے جو تمہارے باہر نکلتے ہی بھگوان سے دعا کرنے میں لگ جاتی ہے۔ اور تب تک کرتی ہے، جب تک تم گھر نہیں پہنچ جاتے۔ ‘‘
’’اچھا، ایسا ہوتا ہے؟‘‘
’’چل اب باقی باتیں پھر کبھی۔ پرسوں کچھ مہمان آ رہے ہیں، وہاں سے فری ہو جاؤں تو پھر آتا ہوں۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے ساب۔ ‘‘
ساتویں کمیشن کے صدر، اس کی بیوی اور ارکان کی خاطر داری میں اس کا پورا دن گزر جاتا اور رات کو بھی آرام نہیں ملتا۔ آفیسرز میس میں اس کی جگہ مہمانوں نے لے رکھی تھی اور اب وہ ایک جوان کے کمرے میں اس کے ساتھ تھا۔ اسے تھوڑی سی جگہ میں سونے کی عادت نہیں تھی۔
آفس میں اپنی کرسی سے ٹیک لگائے پربھات کے خیال پھر گونجی سے نیچے دھارچولا جا پہنچے۔
’’وہاں تو کتنا اچھا تھا۔ انٹرنیٹ بھی چلتا تھا اور فون بھی۔ دن میں کئی بار کویتا سے واٹس ایپ پر چیٹنگ ہو جاتی۔ من بھر جاتا تھا۔ ماں صبح شام ٹوہ لے لیتی۔ بھائی بھابھی بھی امریکہ میں ہو کر دور نہیں لگتے تھے۔ کویتا، ہرشتا، ماں، بھائی اور میں۔۔ ۔ ہم سب بہت خوش تھے۔ ٹیکنالوجی نے دوریاں مٹا دی تھیں۔ اب تو عرصہ گزرا بھائی اور ماں سے بات کیے۔ ‘‘
یہ سوچتے سوچتے اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے آفس آرڈر کے صفحات کو مٹھی میں بھینچ لیا۔ چھٹی کی عرضی پھر کمانڈنٹ نے مسترد کر دی تھی۔
پانچ ماہ میں چار بار چھٹی کی عرضی دے چکا تھا، لیکن ایک بھی قبول نہیں ہوئی۔ وہ جانتا تھا کہ اب بھی چھٹی نہیں ملی تو اگلے چار ماہ اور وہ اپنے گھر کی طرف جانے کا نہیں سوچ سکتا۔ نومبر سے فروری تک اس چوٹی پر برفباری اتنی ہوتی ہے کہ یہاں سے نیچے اترنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ نقل و حرکت مکمل طور بند رہتی ہے۔ پھر آنکھ میں پانی کی جگہ برف جم آئی۔
قریب پندرہ دن بعد وہ کالی ندی کے کنارے بیٹھا تھا۔ ندی اپنی لے میں بہہ رہی تھی اور اس کی سوچیں بھی۔ اکتوبر نصف گزر چکا تھا اور سردی بڑھ گئی تھی۔ بہت سارے گرم کپڑے پہننے کے باوجود، دوپہر کی دھوپ میں بھی جسم کانپنے لگا۔ دوست کا انتظار کرتے کرتے دوپہر کے بارہ بج گئے۔
’’ ساب، ساب۔۔ ۔ ‘‘
دور سے ہاتھ ہلاتے، چلاتے ہوئے روشن آ رہا تھا۔ بڑے دنوں بعد پربھات دل سے مسکرایا، جیسے کوئی اپنا اس کے قریب آ رہا ہو۔
’’کب سے انتظار کر رہا ہوں، کہاں تھے؟‘‘
’’میں تو یہاں روزانہ انتظار کر کے جاتا۔ مجھے تو لگا کہ اب نہیں مل پائیں گے۔ ‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’پتہ ہے نا کچھ دنوں میں برف آنے والی ہے۔ اسی لیے ہم نے سامان سمیٹ لیا۔ میں، باجیو اور ایجا آج نیچے جا رہے ہیں۔ ‘‘
پربھات جانتا تھا کہ اکتوبر کے آخر میں روشن کو جانا ہے، پھر بھی نہ جانے کیوں چونک گیا۔ وہ ندی کے کنارے سے اٹھ کر اپنے دوست کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا۔
’’تم بھی چلے جاؤ گے۔ ‘‘
’’ہاں ساب، ابھی ہی جاتے ہیں ہم۔ ‘‘
’’اچھا۔۔ ۔، کچھ دیر بات بھی نہیں کرو گے۔ ‘‘
’’ ساب، ایجا نے کچھ دیر کے لیے ہی بھیجا ہے۔ وہ پہاڑی کے سرے پر میرا انتظار کریں گے۔ ‘‘ یہ کہتے اس نے ایک کپڑے کا چھوٹا سا بیگ پربھات کے آگے کر دیا۔
’’اس میں کیا ہے؟‘‘
’’بال میٹھی، ایجانے راستے کے لئے بنائی۔ آپ کے لئے دی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ لوٹتے وقت کسی کو مٹھائی دیں تو وہ ہمیشہ یاد رکھتا ہے۔ ‘‘
’’ہاں، دوست۔ لیکن پہلے ہی میرے اپنوں کی یادیں کیا کم تھی کہ تم بھی ان میں شامل ہو گئے۔ ‘‘
’’اچھا، اپنا خیال رکھنا۔ ‘‘اتنا کہتے ہوئے روشن نے قدم بڑھا دیے۔
کچھ سوچ کر پھر پلٹا، ’’اور ہاں، سنیاسی بن کر پربت نہیں جانا، باجیو کہتا ہے، وہاں بہت خطرہ ہے۔ ‘‘
پربھات نے روشن کو گلے لگا لیا۔
پھر اسے دور تک جاتے دیکھتا رہا۔ شاید برف جمنے لگی تھی، اس کے پیروں کو برف نے وہیں جکڑ لیا۔ روشن نظروں سے اوجھل ہوا تو پلٹ کر دیکھا، اوم پربت اس کے ساتھ وہیں کھڑا تھا، اسی کی طرح خاموش اور تنہا۔ دھوپ کے ساتھ ساتھ اس کا رنگ نیلا اور نیلا پڑ گیا۔
پربھات نے جیسے اپنے آپ سے کہا۔
’’خاموشیوں کا رنگ نیلا ہی ہوتا ہے۔ ‘‘
***
کچھ کہنا تھا تم سے
بِینوبسواس
ویدیہی کا من بہت اتھل پتھل ہو اٹھا تھا۔ اچانک یوں دس سال بعد سورَو کا ای میل پڑھ بہت بے چینی محسوس کر رہی تھی۔ گویا دس سال پہلے ہوا واقعہ آنکھوں کے سامنے تیرنے لگا ہو۔ ٹھنڈک بھری دوپہر میں ہاتھ پاؤں سن پڑتے جا رہے تھے۔
ویدیہی نہ چاہتے ہوئے بھی سورَو کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو گئی تھی۔ کیوں مجھے بغیر کچھ کہے چھوڑ گیا تھا وہ؟
وہ تو کہتا تھا، ’’ تمہارے لئے چاند ستارے تو نہیں لا سکتا۔ اپنی جان دے سکتا ہوں پر وہ بھی نہیں دے سکتا۔ کیونکہ میری جان تو تم میں بسی ہے۔ ‘‘
اور ویدیہی ہنس کے کہا کرتی تھی، ’’کتنے جھوٹے ہو نا تم۔۔ ۔ ڈرپوک کہیں کے۔ ‘‘
آج بھی اس بات کو سوچ کر ویدیہی کے چہرے پہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی تھی۔ پر دوسرے ہی لمحے غصے کے جذبات سے پورا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ پھر وہی سوال کہ کیوں وہ مجھے چھوڑ گیا تھا؟ اور پھر آج کیوں یاد آنے پر مجھے ای میل کیا ہے؟ سامنے آئے تو دو تھپڑ رسید کر دوں۔ ذہن میں بے چینی اور سوالات کا تانتا سا لگا تھا۔
ویدیہی نے دوبارہ میل کھولی اور پڑھنا شروع کیا۔ سورَو نے صرف دو لائنیں ہی لکھی تھی۔
’’آئی ایم کمنگ ٹو سنگاپورٹومارو، پلیز کم اینڈ سی می۔ ول اپڈیٹ یو دی ٹائم۔ گو می یور نمبر ول کال یو۔ ‘‘
یہی پڑھ بے چین تھی اور سوچ رہی تھی کہ نمبر دے یا نہیں۔ کیا اتنے سالوں بعد ملنا ٹھیک رہے گا؟ ان دس سالوں میں کیوں کبھی اس نے مجھ سے ملنے یا بات کرنے کی کوشش نہیں کی؟ کبھی میرا حال چال تک نہیں پوچھا، میں مر گئی ہوں یا زندہ ہوں یا کس حال میں ہوں۔ کبھی کچھ بھی تو جاننے کی کوشش نہیں کی، پھر کیوں واپس آیا ہے؟ سوالات تو بہت سے تھے، پر جواب ایک کا بھی نہیں تھا۔
جانے کیا سوچ کے اپنانمبر لکھ بھیجا۔ اور آرام کرسی پر بیٹھ کر سورَو سے ہوئی پہلی ملاقات کے بارے میں سوچنے لگی۔ دس سال پہلے ’’فورم دی شاپنگ مال‘‘ کے سامنے رچرڈ روڈ پہ ایک ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں ویدیہی سڑک پہ پڑی تھی۔ کوئی اجنبی کار سے ٹکر مار گیا تھا۔ سڑک پہ ٹریفک جام ہو گیا تھا۔ ایک تو مصروف سڑک اور اوپر سے کوئی مدد کیلئے سامنے نہیں آ رہا تھا۔ کسی تماش بین نے ہیلپ لائن میں فون کر انفارمیشن دی تھی کہ فلاں سڑک پہ ایکسیڈنٹ ہوا ہے ایمبولینس نیڈڈ۔
ایمبولینس آنے میں ابھی وقت تھا اور ویدیہی کے پیروں سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا۔ سڑک پر پڑی وہ ہیلپ ہیلپ چلا رہی تھی۔ پر مدد کے لئے کوئی آگے نہیں آ رہا تھا۔ اسی ٹریفک جام میں سورَو بھی پھنسا ہوا تھا۔ جانے کیا سوچ کر وہ مدد کے لئے آگے آیا تھا اور ویدیہی کو اپنی برانڈ نیو اسپورٹس کار میں ہاسپٹل پہنچا یا تھا۔
ویدیہی نیم بے ہوشی میں تھی، پرسورَو کا اسے اپنی گود میں اٹھا کر کار تک لے جانا۔ وہ منظر آج بھی کتنے اچھی طرح محسوس کر رہی تھی۔ اس کے بعد تو وہ پوری بیہوش ہو گئی تھی۔ پر آج بھی اس کی وہ لیمن یلو ٹی شرٹ اسے اچھے سے یاد تھی۔ ویدیہی کی مدد کرنے کے کوشش میں اسے کتنے ہی چکر کاٹنے پڑے تھے پولیس کے۔ ملک کے اپنے ہی لفڑے ہیں، کوئی کسی کی مدد نہیں کرتا خاص کرتا رکینِ وطن کی۔ پھر بھی ایک ہندوستانی ہونے کا فرض ادا کیا تھا۔ اسکی یہی بات تو دل کو چھید گئی تھی۔ کچھ عجیب اور پاگل سا تھا۔ کبھی بھی کچھ بھی کر لیا کرتا تھا۔ جب جو اس کے دل میں آتا تھا۔ چار گھنٹے بعد جب ویدیہی ہوش میں آئی تھی، تب بھی وہ اس کے سرہانے ہی بیٹھا تھا۔ ایکسیڈنٹ میں ویدیہی کو زیادہ چوٹیں تو نہیں آئی تھیں، لیکن پھر بھی کہا جائے تو بال بال بچ گئی تھی۔ ایک ٹانگ میں فریکچر، کچھ کھروچیں اور موبائیل بھی تو ٹوٹ گیا تھا۔ یہی وجہ تھی سورَو اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ تاکہ اس سے کسی اپنے کا نمبر لے اور پھر انہیں انفارم کر سکے۔
ہوش میں آنے پر ویدیہی نے اسے صحیح طریقے سے پہلی بار دیکھا تھا۔ دیکھنے میں کچھ خاص تو نہیں تھا، پر پھر بھی ایک اسٹائل اینڈ مینورزم تھا۔ کچھ تو الگ ہی بات تھی۔
وہ کچھ سوال کرتی، اس سے پہلے ہی اس نے کتنا احسان جتاتے ہوئے کہا تھا، ’’اوہ گاڈ! اچھا ہوا تم ہوش میں آ گئیں۔ نہیں تو تمہارے ساتھ مجھے بھی ہاسپٹل میں رات کاٹنی پڑتی۔ ا ینی ویز آئی ایم سورَو۔ ‘‘ اس کے تیور دیکھ کر، جانتے ہوئے بھی اسے تھینک یو نہیں کہا تھا۔
ویدیہی سے اس نے خاندان کے کسی ممبر کا نمبر مانگا، ماں کے فون کا نمبر دیا تھا۔ اس نے اپنے فون سے ان کا نمبر ملایا اور انہیں اس کے بارے میں ساری انفارمیشن دے دیں۔ ڈاکٹر سے کنفرمیشن لے کراچانک ہی وہ ہاسپٹل سے چلا گیا تھا۔ نہ بائے بولا نہ اور کچھ۔ دل ہی دل میں اس کا نام کھڑوس رکھ دیا تھا۔
اس ملاقات کے بعد تو ملنے کی امید بھی نہیں تھی۔ نہ اس نے ویدیہی کا نمبر لیا تھا نہ ہی ویدیہی نے اس کا۔ اس کے جاتے ہی ویدیہی کی ماں اور بابا بھی ہاسپٹل آ پہنچے تھے۔ ویدیہی نے ماں اور بابا کو ایکسیڈنٹ کی ساری تفصیلات دیں اور بتایا کس طرح سورَو نے اس کی مدد کی۔ دو دن اسپتال میں ہی گزارے پھر گھر وہ واپس آ گئی تھی۔ ایسی تو پہلی ملاقات تھی ویدیہی اور سوربھ کی۔۔ ۔ کتنی عجیب سی۔۔ ۔
ویدیہی سوچ سوچ مسکرا رہی تھی۔ سوچ تو جیسے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ سورَو کی ای میل نے ویدیہی کے سارے پرانے میٹھے اور درد بھرے پلوں کو ہرا کر دیا تھا۔ ایکسیڈنٹ کے بعد پندرہ دن کابیڈ ریسٹ لینے کو کہا گیا تھا۔ ویدیہی نے تبھی نئی نئی نوکری بھی جوائن کی تھی۔ گھر پہنچ کر ویدیہی نے سوچاکہ ذرا آفس میں انفارم کر دوں۔ موبائل ڈھونڈ رہی تھی، یاد آیا موبائل تو ہاسپٹل میں سورَو کے ہاتھ میں تھا اور شاید افراتفری میں اس نے اسے لوٹایا ہی نہیں تھا، پر انفارم تو کر ہی سکتا تھا۔ اوہو، شٹ سارے کانٹیکٹ نمبرز بھی گئے، ویدیہی چلا اٹھی تھی۔ اچانک تبھی یاد آیا کہ اس نے اپنے فون سے ماں کو فون کیا تھا۔ ماں کے موبائل میں کال لاگ چیک کیا تو نمبر مل گیا تھا اس کا۔
فوری طور پر نمبر ملایا، اپنا انٹروڈکشن کراتے ہوئے اس نے سورَو سے موبائل واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔ وہ اپنائیت سے بولا، ’’مفت میں نہیں واپس کروں گا۔ کھانا کھلانا ہو گا۔ کل شام تمہارے گھر آؤں گا۔ ایڈریس بتاؤ۔ ‘‘
ویدیہی کے تو ہوش ہی اڑ گئے تھے۔ دل میں سوچ رہی تھی، ’’ کیسی عجیب مخلوق ہے یہ۔ ‘‘موبائل تو چاہئے تھا سو ایڈریس دے دیا۔
اگلے دن شام کو جناب حاضر بھی ہو گئے تھے۔ سارے گھر والوں کو خود اپنا انٹروڈکشن بھی دے دیا اور ایسے گھل مل گیا جیسے سالوں سے ہم سب سے جان پہچان ہو۔ ویدیہی یہ سب دیکھ حیران بھی تھی اور کہیں نہ کہیں ایک عجیب سی فیلنگ بھی ہو رہی تھی۔ بہت ملنسار سا تھا۔ ماں، بابا اور ویدیہی کی چھوٹی بہن تو اس کی تعریف کرتے نہیں تھک رہے تھے۔ سچ تو تھا اس کا مزاج، انداز، بول چال سبھی کتنا الگ اور مؤثر تھا۔ ویدیہی اس کے ساتھ بہتی چلی جا رہی تھی۔
وہ سنگاپور میں اکیلے ہی رہتا تھا اور بینٹلے کار ڈسٹری بیوشن کمپنی میں منیجر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ تبھی آئے دن اس کو نئی نئی گاڑیوں کی ٹیسٹ ڈرائیو کرنے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ جس دن اس نے ویدیہی کی مدد تھی، اس دن بھی نیو اسپورٹ کار کی ٹیسٹ ڈرائیو پر تھا۔ اس کے پیرنٹس انڈیا میں رہتے تھے۔
اچھی دوستی ہو گئی تھی روز آنا جانا ہونے لگا تھا۔ ویدیہی کے گھرکے سبھی لوگ اسے پسند کرتے تھے۔ اور شاید آہستہ آہستہ اس نے ویدیہی کے دل میں بھی خاص جگہ بنا لی تھی۔ اس کے ساتھ جب ہوتی تھی، تو لگتا تھا یہ لمحے یہیں تھم جائیں۔ ہرپندرہ دن بعد وہ شام میں ویدیہی سے ملنے آتا۔ اس کے ساتھ گزارے لمحات میں وہ کھوئی سی ہی رہتی تھی۔ ویدیہی کو یہ احساس ہو چلا تھا کہ سورَو کے دل میں بھی ویدیہی لئے کوئی خاص فیلنگس تھیں۔ لیکن اب تک اس نے ویدیہی سے اپنی فیلنگس کہی نہیں تھیں۔
پندرہ دن بعد ویدیہی نے آفس جوائن کر لیا تھا۔ سورَو اور ویدیہی دونوں کے آفس رچرڈ روڈ پر ہی پڑتے تھے۔ سورَو اکثر ویدیہی کو آفس سے گھر چھوڑنے آیا کرتا تھا، فریکچر ہونے کہ وجہ سے چھ ماہ تو کیئر کرنی ہی تھی۔ اور تو اور ویدیہی کو اس کا لفٹ دینا اچھا بھی لگتا تھا۔ راستے بھر وہ بات کیا کرتے اس کی باتیں اور ویدیہی کا اس کی باتوں پہ ہنسنا کبھی ختم ہی نہیں ہوتا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا، ’’ ویدیہی کی مسکراہٹ اس دیوانہ بنا دیتی ہے۔ ‘‘ اس بات پر ویدیہی اور کھلکھلا کے ہنس پڑتی تھی۔
آج بھی ویدیہی کو یاد ہے سورَو نے اسے دو مہینے بعد اس کی بائیسویں برتھ ڈے پر پروپوز کیا تھا۔ زیادہ تر لوگ اپنی محبوبہ کو گلدستے یا چاکلیٹ یا انگوٹھی کے ساتھ پروپوز کرتے ہیں۔ پر اس نے ویدیہی کے ہاتھوں میں ایک کار کا چھوٹا سا ماڈل رکھتے ہوئے کہا تھا، ’’کیا تم اپنی پوری زندگی کا سفر میرے ساتھ کرنا چاہو گی؟‘‘ کتنا پاگل پن اور دیوانگی تھی اس کی باتوں میں۔ ویدیہی اسے سمجھنے سے قاصر تھی۔ یہ کہتے کہتے ہوئے سورَو اس کے بالکل نزدیک آ گیا تھا اور ویدیہی کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چھوتے ہوئے، دونوں کی سانسیں ایک ہو چلی تھیں۔ ویدیہی کا دل زوروں سے دھڑک رہا تھا۔ خود کو سنبھالتے ہوئے وہ سورَو سے الگ ہوئی۔ دونوں کے درمیان ایک عجیب میٹھی سی مسکراہٹ نے اپنی جگہ بنا لی تھی۔ اور دونوں کی دھڑکنیں آپس میں رومانی رقص کر رہی تھیں۔
کچھ دیر تو ویدیہی وہیں کسی بت کی طرح کھڑی رہی تھی۔ جب اُس نے ویدیہی کا جواب جاننے کے لئے اپنی بے چینی کا اظہار کیا تو ویدیہی نے کہا تھا کہ اگلے دن ’’گارڈن بائی دی بے ‘‘ میں ملیں گے اور وہیں ویدیہی اپنا جواب اسے دے گی۔
اس رات ویدیہی ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوئی تھی۔ بہت سے باتوں پہ وہ سوچ رہی تھی جیسے کیریئر۔۔ ۔ مزید پڑھائی۔۔ ۔ اور نہ جانے کتنے خیالات۔ نیند آتی بھی کیسے، ذہن میں تو طوفان مچاہوا تھا۔ تب ویدیہی محض بائیس سال ہی تو تھی اور اتنی جلدی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اور سورَو بھی صرف پچیس سال کا ہی تھا۔ پر ویدیہی اسے یہ بتانا بھی چاہتی تھی کی اسے بے انتہا محبت ہو گئی تھی اور ہاں زندگی کا پورا سفر اس کے ساتھ ہی خرچ چاہتی تھی۔ بس کچھ وقت چاہئے تھا اسے۔ پر یہ بات ویدیہی کے ذہن میں ہی رہ گئی تھی کبھی اسے بول ہی نہیں پائی۔
جیسا کہ دونوں نے طے کیا تھا اگلے دن ویدیہی ٹھیک شام کے پانچ بجے ’’گارڈن بائی دی بے ‘‘ میں پہنچ گئی تھی۔
اس نے وہاں پہنچ کر سورَو کو فون ملایا تو فون آف آ رہا تھا، وہ وہیں اس کا انتظار کرنے بیٹھ گئی تھی۔ آدھے گھنٹے بعد پھر فون ملایا، تب بھی فون آف ہی رہا تھا، ویدیہی بہت پریشان اور حیران تھی، پر اس نے سوچا کہ شاید آفس میں کسی ضروری میٹنگ میں پھنسا ہو گا۔ وہ وہیں اس کا انتظار کرتی رہی۔ انتظار کرتے کرتے رات کے دس بج گئے، پر وہ نہیں آیا اور اس کے بعد اس کا فون بھی کبھی آن نہیں ملا۔
دو سالوں تک ویدیہی اس انتظار کرتی رہی، پر کبھی اس نے اسے ایک بھی کال نہیں کی۔ دو سال بعد ماں بابا کی مرضی سے آدتیہ سے ویدیہی کی شادی کروا دی گئی۔ آدتیہ ایک آڈٹینگ کمپنی چلاتا تھا۔ اس کے والدین سنگاپور میں اس کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ شادی کے بعد کتنے سال لگے تھے ویدیہی کو اسے بھولنے میں، لیکن مناسب طریقے سے بھول بھی تو نہیں پائی تھی۔ کہیں نہ کہیں کسی موڑ پر ہمیشہ اسے سورَو کی یاد آ ہی جایا کرتی تھی۔ آج اچانک کیوں آیا ہے؟ اور کیا چاہتا ہے؟
ویدیہی کی سوچ کی لڑی کو توڑتے ہوئے، تبھی اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ ایک انجانا سا نمبر تھا۔ دل کی دھڑکنیں تیز ہو چلی تھیں۔ ویدیہی کو لگ رہا تھا ہو نہ ہو یہ سورَو کی کال ہی ہے۔ ایک سکون سا محسوس کر رہی تھی۔ کال ریسیو کرتے ہوئے ہیلو کہا، تو دوسری طرف سورَو ہی تھا۔ سورَو نے اپنی بھاری آواز میں ’’ہیلو از دیٹ ویدیہی۔ ‘‘ اتنے سالوں کے بعد بھی سورَوکی آواز ویدیہی کے کانوں سے ہوتے ہوئے پورے جسم کو جھنجھوڑ رہی تھی۔
خود کو سنبھالتے ہوئے ویدیہی نے کہا، ’’ یس دس از ویدیہی۔ ‘‘ پھر انجان بننے کا ڈرامہ کرتے ہوئے کہا، ’’مے آئی نو ہو از ٹاکنگ۔ ‘‘
سورَو نے اپنے انداز میں کہا، ’’یار تم مجھے کیسے بھول سکتی ہو میں سورَو۔ ‘‘
’’اوہ یا!‘‘ ویدیہی نے کہا۔
’’کیا کل تم مجھ سے مرینا بے سینڈس ہوٹل کے چھت کے اوپر بنے ریستوران میں ملنے آ سکتی ہو۔۔ شام پانچ بجے۔ ‘‘ سورَو نے کہا۔
کچھ سوچتے ہوئے ویدیہی نے کہا، ’’ہاں تم سے ملنا تو ہے ہی۔ وِل سی یو ٹو مو رو۔ ‘‘ کہتے ہوئے فون ڈس کنیکٹ کر دیا۔
شاید زیادہ بات کرتی تو اس کا غصہ فون پر ہی سورَو کو برداشت کرنا پڑتا۔ ویدیہی کے اندر کتنی ہلچل ہو رکھی تھی، اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل تھا۔ یہ سورَو کے لئے اس کا پیار تھا یا نفرت تھی۔ ملنے کا جوش و خروش تھا یا بدلا لینے کا خیال تھا۔ ایک ملا جلا مجموعہ تھا جذبات کا، جس کی شدت صرف ویدیہی ہی محسوس کر سکتی تھی۔
اگلے دن جب ویدیہی تیار ہو رہی تھی، سورَو سے ملنے جانے کے لئے، تبھی آدتیہ کمرے میں آیا اور ویدیہی سے پوچھا، ’’کہاں جا رہی ہو؟‘‘
ویدیہی نے کہا، ’’ سورَو سنگاپور سے آیا ہوا ہے، وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔ ‘‘اتنا کہہ کر ویدیہی رک گئی۔ پھرکچھ سوچ کر ویدیہی نے آدتیہ سے پوچھا، ’’ جاؤں یا نہیں۔ ‘‘
آدتیہ نے جواب میں کہا۔ ’’ ہاں جاؤمل آؤ، ڈنرپر میں تمہارا انتظار کروں گا۔ ‘‘ آدتیہ نے اپنا موقف بہت بہترانداز میں ویدیہی کے سامنے رکھ دیا تھا۔ اتنا کہہ آدتیہ کمرے سے باہر چلا گیا۔
آدتیہ، نام سے تو سورَو کو جانتا ہی تھا۔ سورَو کے بارے میں کافی کچھ سن رکھا تھا۔ وہ یہ جانتا تھا کہ سورَو کو ویدیہی کے خاندان والے بہت پسند کرتے تھے اور کس طرح اس نے ویدیہی کی مدد کی تھی۔ آدتیہ ایک کھلے خیالات والا انسان تھا۔
ہلکے جامنی رنگ کے کپڑے میں ویدیہی خوبصورت لگ رہی تھی۔ بالوں کو بلو ڈرائی کر کے بالکل سیدھا کیا تھا۔ سورَو کو ویدیہی کے سیدھے بال بہت بھاتے تھے۔ ویدیہی ہوبہوویسے ہی تیار ہوئی تھی جیسے سورَو پسند تھا۔ ویدیہی یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ آخر وہ سورَو کی پسند کے مطابق کیوں تیار ہوئی تھی؟ (کبھی کبھی یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کی آخر کسی کے ہونے کا ہماری زندگی میں اتنا اثر کیوں ہو جاتا ہے )۔ ویدیہی بھی ایک دو را ہے سے گزر رہی تھی۔ خود کو روکنا چاہتی تھی پر قدم تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
ویدیہی ٹھیک پانچ بجے مرینا بائی سینڈس کے چھت کے اوپر بنے ریستوران میں پہنچی۔ سورَو وہاں پہلے سے انتظار کر رہا تھا۔ ویدیہی کو دیکھتے ہی وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور ویدیہی کی طرف بڑھا، پھر اسے گلے لگاتے ہوئے بولا، ’’ سو نائس ٹو سی یو آفٹر آ ڈکیڈ۔ یو آر لکنگ گورجس۔ ‘‘
ویدیہی اب بھی اک گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی اور ایک ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے کہا، ’’ تھینکس فار دی کمپلی منٹ، آئی ایم سرپرائز ٹو سی یو ایکچیولی؟۔ ‘‘
سورو بھانپ گیا تھا ویدیہی کے کہنے کا مطلب۔ اس نے کہا، ’’کیا تم نے اب تک مجھے معاف نہیں کیا۔ میں جانتا ہوں تم سے وعدہ کر کے میں آنہیں سکا۔ تم نہیں جانتی میرے ساتھ کیا ہوا تھا۔ ‘‘
ویدیہی نے کہا، ’’دس سال کوئی کم تو نہیں ہوتے معاف کیسے کروں تمہیں۔ آج میں جاننا چاہتی ہوں کیا ہوا تھا تمہارے ساتھ؟ ‘‘
سورو نے کہا، ’’ تمہیں یاد ہی ہو گا، تم نے مجھے پارک میں ملنے بلایا تھا۔ اسی دن ہماری کمپنی کے مالک کو پولیس پکڑ کے لے گئی تھی۔ کچھ اسمگلنگ کے سلسلے میں۔ ٹاپ لیول مینیجر کو بھی ریمانڈ میں رکھا گیا تھا۔ ہمارے فون، اکاؤنٹ سبھی سیز کر دیئے گئے تھے۔ لگاتار دو دن مسلسل پوچھ گچھ کے بعد، چھ مہینوں تک ہمیں جیل میں بند کر دیا تھا۔ اور دو سالوں تک کیس چلتا رہا۔ جب تک کیس چلا، بے گناہوں کو بھی جیل کی روٹیاں توڑنی پڑیں۔ آخر وہ لوگ جو بے گناہ تھے، انہیں فوری طور ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا۔ اور جنہیں ڈی پورٹ کیا گیا، ان میں میں بھی تھا۔ پولیس کے ریمانڈ میں وہ دن کس طرح بتائے، کیا بتاؤں تمہیں۔ آج بھی سوچتا ہوں تو روح کانپ جاتی ہے۔ کس منہ سے تمہارے سامنے آتا۔ ‘‘
’’تو جب میں انڈیا (ممبئی) پہنچا، تو نہ میرے پاس کوئی موبائل تھا، نہ ہی کانٹیکٹ نمبرز تھے اور ممبئی پہنچنے پر پتہ چلا کہ ماں کی حالت بہت سیریس تھی اور ہاسپٹلائیز تھی۔ میرے موبائل آف ہونے کی وجہ سے مجھ تک خبر بھی پہنچنا مشکل تھی۔ یہ ساری چیزیں آپس میں اتنی الجھی ہوئی تھی کی انہیں سلجھانے کا وقت ہی نہیں ملا۔ اور تو اور ماں نے میری شادی بھی طے کر رکھی تھی۔ انہیں اس وقت کس طرح بتاتا کہ میں اپنی زندگی سنگاپور ہی چھوڑ آیا ہوں۔ اس وقت میں نے خاموش رہنا ہی ٹھیک سمجھا تھا یا یہ کہہ لو میں ڈر گیا تھا، ماں کو یوں اسپتال میں دیکھ کے۔ اور پھر زندگی کی بھاگ دوڑ میں الجھتا ہی چلا گیا۔ پر تم ہمیشہ یاد آتی رہیں۔ ہمیشہ سوچتا تھا کہ تم کیا سوچتی ہو گی میرے بارے میں، اس لیے تم سے مل کر تمہیں سب بتانا چاہتا تھا۔ کاش!! میں اتنی ہمت پہلے دیکھا پاتا۔ اس دن جب ہم ملنے والے تھے، تب تم مجھ سے کچھ کہنا چاہتی تھی نا۔ آج بول دو کیا بتانا تھا۔ ‘‘
ویدیہی کو یہ سب جان کر اس بات کی تسلی ہوئی تھی کہ سورَو نے اسے دھوکہ نہیں دیا تھا اور شاید قسمت بھی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے ہمارے راستے طے کرنے میں۔
ویدیہی نے کہا۔ ’’وہ جو میں تم سے کہنا چاہتی تھی، ان باتوں کا اب کوئی مول نہیں۔ ‘‘ ویدیہی نے اپنے جذبات کو اپنے اندر ہی دفنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
ایک مسکراہٹ کے ساتھ ویدیہی نے کہا۔ ‘‘لیٹس آرڈر سم کافی۔ ‘‘
***
ریڈ لائٹ
بھارتی گور
’’یہاں عورتیں بکتی ہیں۔ ‘‘
یہ چار الفاظ وہاں صرف کنیا کے کمرے کے باہر ہی نہیں، بلکہ وہاں کام کرنے والی ہر عورت کے کمرے کے باہر چسپاں تھے۔ ویسے ان الفاظ کے غیرموجود گی میں بھی وہاں کا ماحول بخوبی اس کا اظہار کرتا دکھائی دے ہی رہا تھا۔
کنیا کو ان چار لفظوں پر سخت اعتراض تھا۔ اس کے مطابق وہاں ان لفظوں کی جگہ یہ الفاظ ہونے چائیے تھے۔
’’یہاں جسم بکتا ہے۔ ‘‘
عورت کو کون بیچ سکتا ہے اور کس کی ہے اتنی اوقات اسے خریدنے کی۔ لیکن اوقات تو کسی کی اتنی بھی نہیں جو عورت اور جسم کو الگ کر سکے۔ جو جسم کی بولی لگاتے ہیں، وہ اس مغالطے کے ساتھ اس جسم کو لوٹتے ہیں کہ اس جسم کو چلانے والی روح کو بھی خرید رہے ہیں۔
’’کیا ہوا کنیا، آج تیرا کوئی خریدار نہیں آیا!‘‘
’’تیرا بھی تو نہیں آیا۔ ‘‘
’’کوئی نہ کوئی تو آ ہی جائے گا، ہمیں کون بخشے گا!‘‘
’’اگر ہمیں کسی نے بخش دیا، تو وہ ہمیں نہیں بخشے گی، کنچن۔ ‘‘
’’تو اس سے اتنا ڈرتی کیوں ہے، مرنے دے سالی کو ویسے ہی کتنا جئے گی بڑھیا۔ ‘‘
’’اتنی آسانی سے نہیں مرے گی وہ، ہم سب کی چمڑی اس کی سخت مٹھی میں قید ہے۔ ‘‘
’’لگتا ہے آج پھر روٹی کی جگہ چابک ملے گا۔ ‘‘
’’کنیا، شام گزرنے کو آئی، سالا کوئی بھوکا بھیڑیا اب تک نظر نہیں آیا، آج کیا سالا سب ایک ساتھ انسان بن گئے کیا!‘‘
’’ہاں رے لگتا تو یہی ہے، ویسے آج تیرا میک اپ کچھ خاص نہیں، کون دیکھے گا پھر!‘‘
’’تو بھی کوئی خاص نہیں لگ رہی۔ ‘‘
’’چل چلتے ہیں، مار کھا کر سو جاتے ہیں، روٹیاں تو ملنی نہیں، خالی ہاتھ جو جا رہے ہیں۔ ‘‘
’’چل۔ ‘‘
جس دن ان کا جسم نہیں بکتا، اس دن کھانے میں مار اور گالیاں بھر پیٹ ملتی تھی۔ معلوم نہیں انہیں یا ان جیسی باقیوں کو اس سے کیا اور کتنا فرق پڑتا تھا یا پڑتا تھا بھی یا نہیں۔
’’یار کنچن چل کہیں بھاگ چلیں۔ ‘‘
’’تجھے کیا ہوا، آج مار کا اثر بھیجے پر ہو گیا لگتا ہے۔ ‘‘
’’چل نا یار، یہاں سے بھاگ چلتے ہیں۔ ‘‘
’’پائل کا حال بھول گئی کیا، اس نے بھی تو کی تھی نا یہاں سے بھاگنے کی کوشش۔ مینا بائی سے پنگا لینا، مطلب موت کو بلاوا دینا۔ ‘‘
’’تو ابھی کون سا جی رہے ہیں یار۔ ‘‘
’’تیرا بھیجا سٹک گیا ہے، کچھ بھی نہیں بک، سمجھی۔ ‘‘
’’اس مینا بائی کا ہی کام خلاص کر دیں تو!‘‘
’’بھوک تیرے بھیجے میں چڑھ گئی ہے کیا، اری چپ ہو جا، دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں، اور پٹیں گے۔ ‘‘
’’پٹائی کی ساری سیمائیں تو اپن دیکھ چکے ہیں۔ اب اور کس طرح سے پٹیں گے رے اور کون سی دیوار کون سے کان۔ یہاں صرف جسم ہی دِکھتا ہے اور جسم ہی بکتا ہے اور کچھ کہیں نہیں ہے یہاں۔ ‘‘
’’سو جا یار، مچ مچ مت کر، میرا سر بھنّارہا ہے، سو جا۔ ‘‘
’’ارے کیا، سو جا، سو جا، اٹھ نہ سن تو!‘‘
’’اب مجھ سے بھی مار کھائے گی تو، چل مر، خود سوتی نہیں مجھے تو سونے دے۔ ‘‘
کنیا تو یوں بھی راتوں کو جاگتی تھی۔ جب اس کا جسم لٹایا جاتا، اس وقت جسمانی مزدوری کرتے وقت اور جب کوئی خریدار نہ ملے، تب دماغ کے گھوڑے دوڑاتے وقت، جاگتی بہر حال تھی۔
’’اے کنچن۔۔ ۔ اے کنچن!‘‘
’’ہمم کیا ہے۔۔ ۔ کیا ہے! سونے کیوں نہیں دے رہی۔ ‘‘
’’سو گئی کیا۔ ‘‘
’’ ہاں۔ ‘‘
’’سن نا! اے سن نا!‘‘
’’کیا مصیبت ہے یار وہ کھانے کونہیں دیتی اور تو سونے کو نہیں دیتی۔ سالا نرک بھی اچھا ہوتا ہوئیں گا، ادھر سے تو۔ تجھے معلوم ہیں نا مجھے۔ روٹیاں کھا کر وہ نیند نہیں آتی، جو مار کھا کر آتی ہے۔ ‘‘
’’سن تو!‘‘
’’اب بک بھی دے، کیا بکنا ہے؟‘‘
’’ایک بات بتا!‘‘
’’اب جب نیند اڑا ہی دی ہے، تو پیٹ بھر کے پوچھ۔ ‘‘
’’میرے پاس چنے ہیں کھائے گی؟‘‘
’’یہ پوچھنے کے لئے جگایا ہے!‘‘
’’نہ رے، تو یہاں کب سے ہے؟‘‘
’’یار تین سال ہونے کو آئے شاید۔ ‘‘
’’تجھے پکا پتہ نہیں کیا۔ ‘‘
’’اوہ ہاں، بولے تو تین سال۔ ‘‘
’’تو یہاں مرضی سے آئی کیا۔ ‘‘
’’تیرا بھیجا تو ایک دم ہی سڑا ہوا ہے، ادھر بھی کوئی اپنی مرضی سے آتا ہے کیا۔ ‘‘
’’کیوں، وہ نندا نہیں ہے کیا، کونے کے کمرے والی، وہ تو ادھر کتنا خوش رہتی ہے مرضی سے آئی ہو گی جب نا۔ ‘‘
’’کون بولا رے، میں ادھر تجھ پہلے کی ہوں، مجھ سے زیادہ معلوم ہے کیا تجھے۔ ‘‘
’’تو پھر۔ ‘‘
’’تو پھر کیا، اس کا آدمی چھوڑ کے گیا اس کو اِدھر۔ ‘‘
’’اور تجھے۔ ‘‘
’’میرا باپ۔ ‘‘
’’باپ۔ ‘‘
’’زیادہ آنکھیں مت پھاڑ سوتیلا تھا۔ ‘‘
’’مر گیا کیا۔ ‘‘
’’اتنی آسانی سے نہیں مرے گا، میرے شراپ لگنے باقی ہیں۔ ‘‘
’’اور ماں۔ ‘‘
’’وہ ڈرپوک تھی، یہ الگ بات ہے کہ تین تین شادیاں بے خوف ہو کر کی تھیں اس نے۔ ‘‘
’’کوئی بھائی، کوئی بہن۔ ‘‘
’’ہوں گے۔۔ ۔ سالے کتنے ہیں؟ کہاں کہاں ہیں؟ مجھے بھی نہیں خبر۔ ‘‘
’’تھوک میں شادی تھوک میں بچے۔۔ ۔ ‘‘
’’یہی سمجھ لے۔ ‘‘
’’کتنے سال کی ہے تو رے۔ ‘‘
’’سالا ادھرآدھی رات کو اٹھا کے انٹرویو لے رہی ہے میرا۔ ‘‘
’’بتا تو۔ ‘‘
’’کتنے سال کی ہوں یہ تو نہیں پتہ۔۔ ۔ لیکن ہاں اُدھر میرے محلے میں ایک تائی تھی، وہ میرے باپ پر چلاتی رہتی تھی۔ ’’ شادی کب کرے گا اس کی سولہ کی ہو گئی ہے، کہیں پر لگ آئے اور اڑ گئی کسی کے ساتھ، تو پورے گاؤں پہ کالک پوت کے مرے گی۔ ‘‘تو مجھے یہاں آئے دو سال ہو گئے ہیں، اس حساب سے میں اٹھارہ کی ہوئی۔ اور تو۔ ‘‘
’’میں سولہ کی ہوں۔ ‘‘
’’پکا پتہ ہے کیا۔ ‘‘
’’نہیں تو کیا، تیرے جیسی ان پڑھ نہیں ہوں، دسویں پاس کی ہے میں نے۔ ‘‘
’’تو یہاں کس طرح مری۔ ‘‘
’’نوکری کا جھانسا دے کر میری بہن کا دیور ادھر لے آیا اور بیچ دیا اس سالی مینا بائی کو۔ ‘‘
’’ادھر سے بھاگنا کیوں چاہتی ہے، ادھرچ پڑی رہ۔ ‘‘
’’نہیں، مجھے آگے پڑھنا ہے، کچھ بننا ہے۔ ‘‘
’’اب کیا بنے گی، جو بننا تھا وہ بن گئی۔ یہی لکھا تھا نصیب میں، مان لے۔ ‘‘
’’اس میں کیا عزت ہے اور تو نہیں چاہتی کیا یہاں سے نکلنا۔ ‘‘
’’میں ادھر سے نکل کر کہاں جاؤں گی، گھر جا نہیں سکتی۔ ‘‘
’’کیوں۔ ‘‘
’’یہاں تو پھر کسٹمر پیسہ دے کر میرے ساتھ سوتا ہے، ادھر تو میرا سوتیلا باپ روز رات کو مارتا بھی ہے اور میرے ساتھ سوتا بھی ہے۔ ‘‘
’’کیا۔۔ ۔ ‘‘
’’ہاں اس نے میرا ریپ کتنی بار کیا، یہ مجھے بھی یاد نہیں۔ ‘‘
’’اور تیری ماں۔ ‘‘
’’بولا نہ وہ ڈرپوک ہے، مجھے بھی چپ رہنے کو بولتی تھی، اچھا کیا جو مجھے ادھر بیچ دیا، اس ذلت سے تو یہ نوکری صحیح۔ ویسے بھی میں ادھر ہی محفوظ ہوں اُدھر سے تو۔ ‘‘
کنچن کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ دروازے پر زور سے کسی نے ہاتھ مارا۔
’’کھول۔۔ ۔ جلدی کھول سالی مر گئی کیا۔ ‘‘
’’کیا ہے۔ اِتی رات میں کیوں مر رہا ہے، ماں مر گئی کیا تیری سالے۔ ‘‘
کنچن کے گال پر چیر دینے والا جھنجھناتا ہوا چانٹا پڑا۔ مینا بائی کا مستقل دلال گگن شراب میں دھت گالیاں بکتا بکتا دہلیز پر گر پڑا۔ نشے میں ہونے پر بھی جانے کون سی جناتی طاقت اس سے بلوا رہی تھی۔
’’اے۔۔ ۔ چلو نیچے، مینا بائی نے بلایا ہے۔ ‘‘
انہیں لگا ان کی باتیں کسی نے سن لی ہیں اور آج ان کی چمڑی ادھیڑ دے گی وہ بڑھیا۔
’’کیوں، ہم آج کی مار تو کھا چکے، اب کیوں بلایا ہے اتنی رات میں۔ ‘‘
’’کنیا۔۔ ۔ آئے ہائے تیری آواز تو میرے شریر کو کپکپا دیتی ہے ری، اے سننا۔۔ ۔ سننا۔۔ ۔ میرا دل آ گیا ہے تجھ پہ، ایک دن تجھے یہاں سے۔۔ تجھے یہاں سے۔۔ ‘‘
اس شرابی کی شراب جتنا بول سکتی تھی بول کر پست ہو چکی تھی، کنیا اور کنچن خوف سے کانپتی ہوئی پہنچیں مینا بائی کے پاس۔
’’ارے۔۔ ۔ آ گئیں میری دونوں راجکماریاں۔ ‘‘
’’لے کنیا، ہو گیا بڑھیا کا ناٹک شروع، لگتا ہے کوئی خاص آیا ہے اس کا آج۔ ‘‘
’’ ہاں ورنہ یہ دے تو عزت۔ مر نہ جائے بڑھیا۔ ‘‘
’’ارے۔۔ ۔ وہاں کیوں کھڑی ہو گئیں، ادھر آؤ میرے پاس بیٹھو۔ دیکھ لیں ساہیب، ایک سے ایک ہیں، آپ کو جو پسند ہو، رکھ دیجیے اسی پہ ہاتھ۔ دیر کس بات کی۔ ‘‘
’’اتی رات میں گراہک کنیا۔ ‘‘
’’آدمی کی بھوک ہے کنچن، اس کا کون سا وقت۔ ‘‘
’’کہئے ساہیب۔۔ ۔ کون سی کے ساتھ جائیں گے۔ ‘‘
اس بہت ہی رعب دار اور پیسے والے آدمی نے کنیا کی طرف اشارہ کیا۔ کنچن نے سکھ کی سانس لی۔ اب وہ شانتی سے سو سکتی تھی۔
’’کون یہ۔۔ ۔ کنیا۔۔ ۔۔ ۔ مجھے معلوم تھا ساہیب آپ اسی لیے مانگو گے۔ یہ تو میرے یہاں کی رونق ہے۔ اسی سے تو چل رہا ہے میرا سب کچھ۔ آپ کی پسند ایسی ویسی تو ہو ہی نہیں سکتی، یہ میں آپ کو دیکھتے ہی سمجھ گئی تھی۔ ‘‘
’’یہ مسکا لگانا بند کرو مینا بائی اور دام بولو دام۔ ‘‘
اس آدمی کے ساتھ کھڑا ایک ادھیڑ عمر کا ڈراؤنا سا لگتا ہوا آدمی بولا، جو لگ تو اس کا نوکر رہا تھا، پر اس وقت تو دلال کا کام کر رہا تھا۔
’’اب دام میں کیا بولوں ساہیب، کوئی اور لڑکی ہوتی تو جتنا آپ دیتے لے لیتی۔ لیکن اس کے تو منہ مانگے لوں گی۔ ‘‘
’’کیوں اس میں کون سے سرخاب کے پنکھ لگے ہیں۔ ‘‘
’’سمجھ لیجیے وہی لگے ہیں۔۔ ۔ جانچ پرکھ لو۔ پیسہ پھر دے دینا۔ کہاں بھاگا جا رہا ہے۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے مینا بائی۔ پیسے ہم یہاں سے جاتے وقت دیں گے۔۔ ۔ ’’
’’جیسی آپ کی اِچھا ساہیب۔ ارے کنیا۔۔ ۔ ساہیب کو لے جاؤ کمرے میں۔ خاطر داری کرو اِنکی، یہ کہاں روز روز آتے ہیں۔ اب تم ہی چلاؤ کوئی جادو کہ صرف یہی راستہ یاد رہے باقی سب بھول جائیں۔ ‘‘
کنیا نے سوچا کہ آج کے حصے کی مارادھار رہی اس بڑھیا پر، آج کے حصے کا کام تو کرنا ہی پڑ رہا ہے، پھر پھوکٹ ہی میں مار بھی کھا لی۔ کنچن کے لئے تو ٹھیک سودا رہا، نقصان میں تو میں رہی۔ جاتے جاتے باہر سے کنچن کے کمرے کے اندر نظر پڑی، تو دیکھا بڑے آرام سے نیند کا مزہ اٹھا رہی تھی۔ کنیا کو بڑی جلن ہوئی۔ اس امیرزادے کو ایک سجے سجائے کمرے میں لے جانے کے بعد اس سے بیٹھنے کا کہہ کر کنیا باہر آئی اور اپنے کمرے میں جا کر لیپا پوتی کر کے واپس وہیں پہنچی۔
’’شروع کریں صاحب۔۔ ۔ صاحب۔۔ ۔۔ ۔۔ ‘‘
تین چار بار بولنے کے بعد بھی جب اس آدمی نے سنا نہیں، تو کنیا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے یاد دلانا چاہا کہ وہ وہاں کس لئے تھا۔
’’صاحب۔۔ ۔۔ ‘‘
’’ ہاں۔۔ ۔ ہاں۔۔ ۔ ہاں۔۔ ۔ کیا۔ ‘‘
’’میں نے کہا شروع کریں۔ ‘‘
’’پانی ملے گا۔ ‘‘
’’پانی۔۔ ۔ ابھی۔۔ ‘‘
’’ ہاں۔۔ ۔ پانی ملے گا۔ ‘‘
’’لاتی ہوں۔ لانا پڑے گا، ادھر پانی کون پیتا ہے۔ ‘‘
’’تو کیا پیتے ہیں۔ ‘‘
’’کیا صاحب، کیا پہلی بار آئے ہو۔ ‘‘
’’ ہاں۔ ‘‘
’’سچی میں۔ ‘‘
’’ ہاں۔ ‘‘
’’اوہ۔ اس لئے پانی مانگ رہے ہو، ٹھہرو میں آپ کو وہ پلاتی ہوں جو ادھر کا رواج ہے۔ ‘‘
’’رواج۔ ‘‘
’’ہاں رواج۔ شراب۔ شراب پی جاتی ہے یہاں۔۔ ۔ ‘‘
’’لیکن میں نہیں پیتا۔ ‘‘
’’آپ نے پہلے کبھی یہ سب بھی کیا ہے یا یہ بھی پہلی بار ہی ہے۔ ‘‘
’’کیا سب۔ ‘‘
’’وہی جو کرنے آئے ہو۔ ‘‘
’’کیا کرنے آیا ہوں میں۔ ‘‘
’’کیا صاحب، وقت برباد کرنا ہے کیا۔۔ ۔ اچھا ٹھیک ہے۔ میں ہی شروع کرتی ہوں۔۔ ۔ ‘‘
کنیا کے ہاتھ لگاتے ہی وہ آدمی تیزی سے اٹھ کر کھڑکی کی طرف بڑھا۔
’’یہ کیا کر رہی ہو۔ ‘‘
’’کیا۔۔ ۔ کیا کر رہی ہوں میں۔ ‘‘
’’جو بھی تم کر رہی ہو۔ ‘‘
’’تو اور کیا کروانا چاہتے ہو، جس کام کے لئے پیسے دو گے، وہی تو کر رہی ہوں۔ ‘‘
’’یہ کون سی جگہ ہے۔ ‘‘
’’کیا۔۔ ۔ کیا کہا صاحب۔۔ ۔ یہ کون سی جگہ ہے۔۔ صاحب یا تو تم کو کوئی پاگل ہو یا کچھ ایسی چیز پی کر آئے ہو، جس کی بدبو تو نہیں آ رہی لیکن اس کا اثر صاف نظر آ رہا ہے۔ ‘‘
’’کہا نا، میں نہیں پیتا وِیتا۔ ‘‘
’’ارے چاہتے کیا ہو۔۔ ۔ کون ہو۔۔ اے بھگوان۔۔ ۔۔ ارے صاحب کچھ کرنے کے قابل ہو یا۔۔ ۔ ‘‘
’’شٹ اپ۔۔ ۔ جسٹ شٹ اپ۔۔ ۔ ‘‘
’’کچھ بولوں نہیں کچھ کروں نہیں۔۔ ۔ تو پیسہ کس بات کا دے رہے ہو۔ ‘‘
اس سے پہلے کے کنیا کچھ اور بولتی، وہ آدمی اپنے دونوں ہاتھ منہ پر رکھتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ یہ سب پہلی بار ہو رہا تھا۔ کنیا کو سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا تھا، کیوں تھا۔ کہیں اس بڑھیا کو پتہ چل گیا کہ میں نے کسی کو رلا دیا ہے، تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ کیا کرے۔
’’صاحب۔۔ ۔ او صاحب۔۔ ۔ دیکھو آپ کو نہیں پینا ہے، تو مت پیو، نہیں کرنا ہے تو مت کرو، لیکن یہ رونا۔۔ ۔ ‘‘
’’مجھے معاف کر دو۔۔ ۔ مجھے معاف کر دو۔۔ ۔ میں نے یہ سب کیا کر دیا؟ کیوں کر دیا؟ یہ مجھ سے کیا ہو گیا۔۔ ہے بھگوان۔ یہ سب مجھ سے کیا ہو گیا۔۔ ۔ پلیز مجھے معاف کر دو۔۔ ‘‘
’’کیا ہوا صاحب، کیا ہوا، آپ ادھر بیٹھو۔۔ ۔ ادھر اوپر، آپ بیٹھو شانتی سے، میں پانی لاتی ہوں۔ ‘‘
باہر سے پانی لانا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں تھا، پانی پیتا ہی کون تھا وہاں۔۔ ۔ جیسے تیسے چھپتی چھپاتی کنیا پانی لائی اور فٹاک سے دروازے پر کنڈی ماردی۔
’’صاحب یہ لو پانی۔۔ ۔ لو۔ ‘‘
’’تھینک یو۔ ‘‘
’’وہ سب کی ضرورت نہیں، کیا ہوا ہے تمہیں۔۔ ۔ یوں اچانک کس سے معافی مانگ رہے ہو، کیا ہوا ہے۔ ‘‘
’’تمہارا نام کیا ہے۔ ‘‘
’’کنیا۔ ‘‘
’’کنیا۔۔ اوہ۔ ‘‘
’’کیوں کیا ہوا۔۔ ۔ اور تمہارا۔ ‘‘
’’میرا نام اِندر ہے۔ ‘‘
’’تم یہاں کیا کرنے آئے ہو۔۔ ۔ عجیب سوال کر رہی ہوں پر اور کیا پوچھوں تمہاری حالت دیکھ کر سمجھ میں نہیں آ رہا۔ ‘‘
’’میں نہیں جی سکتا اس کے بغیر، مر جاؤں گا میں، وہ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی۔ اسے اندازہ بھی ہے اس نے کیا کیا ہے۔۔ ۔ ‘‘
’’ہیں۔۔ کون کس نے کیا کیا۔۔ ۔ کون۔ ‘‘
’’مجھے یقین نہیں ہوتا کہ وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ ‘‘
’’صاحب، کیا بول رہے ہو، کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔۔ ۔ کچھ کہنا ہی چاہتے ہو تو پوری بات بتاؤ، جس میں تم کو بھی سکون ملے۔ ‘‘
’’سکون اب مجھے کبھی نہیں مل سکتا۔ ‘‘
’’تو پھر یہاں کیوں آئے۔ ‘‘
’’میرا دوست بولا کہ یہاں آنے سے مجھے سکون مل جائے گا۔۔ ۔ وہ جا کر بھی نہیں گئی، ہر طرف بس وہ ہی وہ ہے، میں پاگل ہو جاؤں گا۔ میں پاگل۔۔ ۔ ‘‘
’’کون ہے، کون چلی گئی۔۔ ۔ صاحب پوری بات بتاؤ۔ شاید کچھ ہو پائے۔ ‘‘
’’کیا ہو پائے گا تم سے۔۔ ۔ جسم بیچنے کے علاوہ اور آتا کیا ہے تمہیں۔ تمہیں تو بس اپنے پیسوں سے مطلب ہے۔ ‘‘
’’اور کچھ۔ ‘‘
اِندر کو احساس ہوا کہ اپنی مایوسی اور تکلیف میں وہ کنیا سے بدتمیزی کر رہا تھا۔
’’سوری۔۔ ۔ لِیسن آئی ایم رئیلی سوری۔۔ ۔ ‘‘
’’آپ چاہیں تو اپنی تکلیف بول سکتے ہو۔ ‘‘
’’مجھے نہیں معلوم کہ میں یہاں ایسی جگہ کیوں آیا، میں نے کبھی خواب میں بھی ایسی جگہ کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ یقین ہی نہیں ہو رہا کہ میں یہاں چلا آیا اور تم سے بات کر رہا ہوں۔ ‘‘
’’اور تمہیں اس بات کا افسوس ہے۔ ‘‘
’’نہیں۔۔ ۔ ہاں میرا مطلب ہے ہاں۔۔ ۔ افسوس کیوں نہیں ہو گا، میں نے ایک بہت عزت والے خاندان سے ہوں، یہ سب نہیں ہوتا ہمارے یہاں۔ ‘‘
’’اچھا۔۔ ۔ عزت دار لوگوں کی اجارہ داری ہے یہاں صاحب۔۔ ۔ تم نہیں جانتے یہ الگ بات ہے۔ ‘‘
’’میں نہیں مانتا۔۔ ۔ چلو ہو گا۔ میں نے پوری دنیا کی طرف سے دعوی نہیں کر سکتا۔ بس اپنی کہتا ہوں میں ایسا نہیں ہوں۔ ‘‘
’’مان لیا۔ آگے۔۔ ‘‘
’’وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی، اس نے ایک بار بھی نہیں سوچا، میں اس کے بغیر چل بھی نہیں پاتا، جیوں گا کیسے؟‘‘
’’کون تھی وہ؟‘‘
’’تھی مت بولو، تھی مت بولو۔۔ ۔ وہ ہے۔ وہ ہے۔۔ دیکھو دیکھو۔۔ ۔ تم تھی بولا، میرا دل کتنی زور سے دھڑک رہا ہے۔۔ چھوکر دیکھو۔۔ ۔ ‘‘
ہمت نہیں ہوئی کنیا کی، اِندر کو چھونے کی۔
’’کہاں چلی گئی ہے وہ۔ ‘‘
’’مجھے بول کر نہیں گئی، میں نہیں جی سکتا اس کے بِنا۔ دیکھو مجھے سانس بھی نہیں آ رہی، اس نے مجھے کبھی سکھایا ہی نہیں اپنے بغیر جینا، تو میری کیا غلطی اس میں۔ ‘‘
’’کیا نام ہے اس کا۔ ‘‘
’’نام۔۔ ۔ نام اس کا تاشی۔ تاشی نام ہے۔ ‘‘
’’سندر نام ہے۔ ‘‘
’’جب دیکھو گی، تب سوچو گی کہ نام زیادہ سندر ہے یا وہ خود۔ ‘‘
’’کہاں چلی گئی وہ۔ ‘‘
’’پتہ نہیں۔ میں روز کی طرح بس اسے ہی دیکھنے جا رہا تھا کہ فون آیا اور ادھر سے آواز آئی کہ فوراً آئیے، ان کے پاس وقت نہیں اب۔۔ ۔ اور میں بھاگا۔ جیسے ہی اس کے پاس پہنچا، اسے بانہوں میں لے لیا اور وہ میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کسی اور دنیا میں چلی گئی۔۔ ۔ وہ کیا میرے پہنچنے کا ہی انتظار کر رہی تھی۔ ‘‘
’’اے بھگوان۔۔ ۔ کیا ہوا تھا اسے۔۔ ۔۔ ۔ ‘‘
’’کینسر۔۔ ۔ لیکن اس نے وعدہ کیا تھا، وہ ٹھیک ہو جائے گی۔ اسی نے مجھ پر بھی امید جگائی تھی، کہا تھا، وعدہ کیا تھا، ٹھیک ہو جائے گی۔ یہ کہا تھا، ایک بار نہیں ہزار بار کہا تھا۔ اس نے کبھی کوئی وعدہ نہیں توڑا تھا۔۔ ۔ اسے آتا ہی نہیں تھا جھوٹ بولنا۔ پھر یہ کیا کیا اس نے۔ ‘‘
’’کب ہوا یہ۔ ‘‘
’’کل۔۔ ۔ ہاں کل کی ہی تو بات ہے۔ میں اس سے کہہ کر نکلا تھا ہاسپٹل سے کہ بس یوں گیا میں، اور یوں آیا۔ اس کے لئے، اس کے پسند کے پھول لینے گیا تھا۔۔ ۔ کیا ایک پل دور ہونے کی اتنی بڑی سزا دے گی وہ مجھے، میں نے کہا تھا نہ میں بس ابھی لوٹا۔ ‘‘
اِندر کی حالت قابو سے باہر تھی۔ وہ دل دماغ سب طرف سے ٹوٹ چکا تھا۔ اسے نہیں تھا یہ احساس کہ وہ کہاں بیٹھا تھا، کس کے سامنے کیا بول رہا تھا، وہ صرف ایک بچے کی مانند اپنا دل کھول رہا تھا۔ جو کچھ اس کے اندر ابل رہا تھا، اسے باہر نکالنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ کنیا کے پاس سوائے سننے کے اور کوئی راستہ نہیں تھا اور وہ بھی صرف انسانیت سے کہیں زیادہ اس ڈر کے مارے کہ وہ آدمی اس چیز کے پیسے دینے سے انکار نہ کر دے۔۔ ۔ لیکن دل کے کسی کونے سے آتے سوال کو کنیا نے اندر سے کر ہی لیا۔۔ ۔۔
’’ایک بات پوچھوں۔ ‘‘
’’ ہاں۔ ‘‘
’’اس وقت وہاں میرے ساتھ ایک اور لڑکی تھی۔۔ ۔ جب تمہیں یہ سب کرنا ہی نہیں تھا۔ تو تم نے مجھے ہی کیوں چنا۔ ‘‘
’’مجھے نہیں پتہ۔۔ ۔ لیکن۔۔ ۔ ‘‘
’’لیکن۔۔ ‘‘
’’لیکن میری تاشی کی آنکھیں تم سے ملتی ہیں۔ ایک لمحے کے لئے لگا، تاشی مجھے دیکھ رہی ہے اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی وہ مجھے آگے بڑھ کر تھام ہی لے گی۔ اپنی بانہوں کا سہارا دے ہی دے گی۔۔ میں ہوش میں نہیں تھا اس لئے تمہاری آنکھوں کو اپنی تاشی کی آنکھیں سمجھنے کا پاپ کر بیٹھا۔ ‘‘
’’پاپ۔۔ ‘‘
’’ہاں پاپ۔ یہ صرف پاپ ہی ہو سکتا ہے کہ میں اس کے جیسا کسی کو سمجھوں بھی۔ میں اب جی ہی کہاں رہا ہوں۔ اس لئے کیا فرق پڑتا ہے۔ میں نے جسم فروشی کے اڈے پر جاؤں یا کسی مندر مسجد میں۔۔ ۔ ‘‘
’’مجھے نہیں پتا کہ مجھے تمہیں اس وقت کیا کہہ کر بہلانا چاہیے۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گی، تم جب چاہے یہاں آ سکتے ہو، میں چپ چاپ تمہاری تاشی کی باتیں سنوں گی اور اس طرح سے تم اُسے ہمیشہ کیلئے زندہ رکھ پاؤ گے۔۔ ۔ ‘‘
’’اس نے میری انہی بانہوں میں دم توڑا ہے۔ میں کس طرح زندہ رہ سکتا ہوں۔ ‘‘
’’پیار انسان کو خود غرض بنا دیتا ہے۔ لیکن یہی پیار دو انسانوں کو مہان بھی بنا دیتا ہے صاحب۔۔ ۔ کوئی تو ادھورا سپنا ہو گا آپکی تاشی کا۔۔ ۔ اس کو پورا کرنے کی خاطر ہی جی لو۔۔ ۔ وہ تو آپ سے دور کبھی نہیں جا سکتی، یہ تو آپ کی حالت دیکھ کر ہی سمجھ آ رہا ہے۔ اس کے سپنوں کے سہارے ہی جی لو۔ ‘‘
اِندر کے لا شعور نے سارے راستوں کو چیرتے ہوئے اس کے دماغ میں ایک دھماکا کیا۔۔ ۔ ایک پردے سی سرسراتی عمر، جو اس نے تاشی کے ساتھ جنموں کی مانند گزاری تھی، چاروں طرف سے دستک دیتی چلی آئی اس کے دل و دماغ میں۔
’’اِندر۔۔ ۔ اِندر۔۔ ۔ سنو نا۔۔ ‘‘
’’بولو نہ تاشی، سن تو رہا ہوں۔ ‘‘
’’کہاں سن رہے ہو، ہمیشہ کھوئے کھوئے رہتے ہو۔ ‘‘
’’تم ہو جب پاس تو کھو ہی جاؤں گا نہ۔ کیا لینا ہے اس دنیاداری سے مجھے۔ ‘‘
’’سنو نا۔۔ ۔ میں کل ریڈ لائٹ جا رہی ہوں۔ ‘‘
’’کیا۔۔ ۔ کیا کہا۔۔ ۔ کہاں۔ کہاں جا رہی ہو۔ ‘‘
’’ہمم۔۔ ۔ وہی جو تم نے سنا۔ ریڈ لائٹ۔ ‘‘
’’دماغ تو ٹھیک ہے، ہوش میں تو ہو۔۔ خبردار جو نام بھی زبان پر لائی۔ ‘‘
’’اِندر سنو تو۔۔ ۔ میری ریسرچ کا ٹاپک ہے نا۔ جانا تو پڑے گا نا۔۔ ۔ ‘‘
’’یہ کیا ٹاپک ہے۔۔ بدلو اسے۔۔ ۔ ‘‘
’’کیا اِندر۔۔ ۔ ایسے کیسے، ویسے بھی میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ ایسی کیا مجبوری ہوتی ہے ان عورتوں کی۔ جو یہ سب کرنا پڑتا ہے انہیں۔ ‘‘
’’ہوتی ہو گی، تم مت پڑو ان چکروں میں۔ ‘‘
’’تم کتنے بے حس ہو اِندر، ایسا کیسے کہہ سکتے ہو۔۔ ۔ میں تو جاؤں گی اور اسی ٹاپک پر ریسرچ کروں گی بس کہہ دیا۔۔ ۔ اور اگر کبھی میرے کسی سپنے کو پورا کرنے کا خیال دل میں آئے۔ تو یہی سوچنا کہ ایسی عورتوں کو وہاں سے مکتی کیسے دلوائی جائے۔۔ ۔ ‘‘
اِندر کا لا شعور اپنی جگہ پر جوں کا توں واپس پہنچ چکا تھا، کنیا کی کہی بات اور تاشی کے ادھورے سپنے، اس کے سامنے مضبوط دیوار کی طرح کھڑے تھے۔
’’کنیا۔۔ ۔ کیا میں تمہارے ہاتھ پکڑ سکتا ہوں۔ ‘‘
’’صاحب۔۔ ۔ کیا ہوا۔ ‘‘
’’کہو تو پہلے، مجھے اس کی اجازت ہے کیا۔ ‘‘
’’آپ مرضی صاحب۔ پیسہ چکایا ہے آپ نے جو چاہے وہ۔۔ ۔ ‘‘
’’نہیں نہیں۔۔ ۔ غلط نہ سمجھو۔۔ ‘‘
اِندر نے کسی مقدس شے کی مانند کنیا کے ہاتھوں کو ہونٹوں اور سر سے لگا کر آنکھیں بند کیں اور۔۔ ۔۔
’’کنیا۔۔ ۔ اگر آج میں یہاں نہیں آتا تو تاشی کو ہمیشہ کے لئے کھو دیتا۔ میں تمہارا احسان تو کبھی نہیں چکا سکتا۔ لیکن یہ وعدہ کرتا ہوں کہ تاشی کا سپنا ضرور پورا کروں گا اور تمہارا بھی۔۔ ۔ بس اگلی بار جب آؤں۔ تب تم جیسی جتنی اور بھی ہیں۔ جو یہاں سے نکلنا چاہتی ہیں، انہیں کہہ دینا کہ ان کے یہاں سے نکلنے کا وقت آ گیا ہے۔ ‘‘
اتنا کہتے ہی اِندر اُس پردے کی جھالر کو سرکا کر بجلی کی مانند تیزی سے باہر نکل گیا۔ رات تقریباً گزر چکی تھی۔ مندروں میں گھنٹیوں کا شور، تو کہیں دور مسجد میں ہوتی اذان سنائی دے رہی تھی۔ کنچن بھی نیند سے جاگ چکی تھی۔
چاروں طرف روشنی نے اپنی دستک دے دی تھی۔
***
خوشی
شکھا گپتا
آج جیسے ہی گھر سے آفس کے لئے نکلی اوربس اسٹاپ پر پہنچی ہی تھی کہ بس اسٹاپ پر ششانک کو دیکھ کر میں حیران ہو گئی۔ یادوں نے کروٹ لینی شروع کر دی۔
میں اکثر اپنے ننہال جایا کرتی تھی اور اُس دن اچانک ہی نانا کے ساتھ کسی کو دیکھا۔
نانی سے پوچھا۔ ’’ یہ کون ہے؟‘‘
نانی جی نے بتایا، ’’دامودر تمہارے پاپا کے دوست ہے۔ ‘‘
میرے والد گری راج داس، پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتے تھے۔ ایک دن اچانک ان کی ملاقات اپنے اسکول کے دنوں کے ساتھی دامودر سنگھ سے ہو گئی۔ وہ اپنے بچپن کے ساتھی سے مل کر بہت خوش تھے۔ دامودر سنگھ کا اچھا خاصا بزنس تھا اور وہ اپنے اکلوتے بیٹے ششانک کے لئے ہم پلہ لڑکی کی تلاش میں تھے۔ ششانک کہیں اور شادی کرنا چاہتا تھا، لیکن والد کی ضد اور کروڑوں کی جائیداد کے لالچ کی وجہ سے شاید وہ لاچار تھا۔ دامودر سنگھ ایک دن گری راج داس کے گھر آئے اور جیا کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ وہ خوبصورت اور سلیقہ شعار لڑکی تھی، اس لئے انہوں نے اپنے دوست گری راج غلام سے جیا اور ششانک کی شادی کے بارے میں بات کی۔ پاپا کو پہلے تو جیاکی قسمت پر یقین نہیں ہوا۔ پھر انہیں یہ لگا، دہلی جیسے شہر میں رہنے والا ماڈرن خیالات والا لڑکا، کیا چھوٹے سے شہر میں رہنے والی جیا کوپسند کرے گا اور اس سے شادی کے لئے راضی ہو گا۔ لیکن دامودر سنگھ کی ضد کے آگے گری راج داس کی ایک نہ چلی۔ ہر باپ کی طرح وہ بھی بیٹی کے سنہرے مستقبل کا تصور کرتے۔ سواس طرح ششانک اور جیا کی شادی ہو گئی۔
ششانک اپنی شادی سے خوش تو نہیں تھا، پر والد صاحب کی جائیداد کے لالچ میں اس نے جیا سے شادی کر لی تھی، پر اندر ہی اندر وہ اپنے لئے ایک ماڈرن لڑکی کا تصور کرتا رہتا اور ادھر ادھر بھٹکتا رہتا۔ وہ جیا سے دور دور رہتا۔ اس سے سیدھے منہ بات تک نہیں کرتا۔ لیکن جیا ایک ہندوستانی لڑکی کی طرح ششانک کو ’’ شوہر میرا دیوتا‘‘ کے سمان سمجھتی رہی۔
’’جیا، ششانک کے اس طرح کے رویے سے سوچنے لگی کہ شاید یہ کسی اور کو پسند کرتے ہیں مجھے نہیں۔ کیا میں ان کی محبت کے قابل نہیں ہوں؟ مجھے خود کو ان کی پسند ناپسند کے مطابق ڈھال لینا ہی ہو گا۔
جیا نے شوہر کی پسند ناپسند کے مطابق خود کو ڈھالنا شروع کر دیا۔ کافی کم وقت میں جیا نے جدید رہن سہن اپنا لیا۔ پھر بھی ششانک اس سے اپنا رویہ نہیں بدلا تھا۔
جیا بہت دکھی ہوئی۔ اس نے سوچا کہ وہ ششانک سے پوچھے کہ کتنی چوٹ پہنچی ہے مجھے۔ اپنے اندرونی درد سے وہ چیخ سی اٹھتی تھی۔ ایک دن وہ ششانک سے پوچھ ہی بیٹھی، ’’ کیا کمی ہے۔۔ ۔ بتائیے تو؟ آپ جیسا چاہتے ہیں، میں ویسا ہی خود کو بنانے کی کوشش کروں گی۔ ‘‘
ششانک کس طرح کہے کہ وہ اسے پسند نہیں۔ اس نے تو والد کی خوشی اور کروڑوں کی جائیداد کے لالچ میں اس سے شادی کی ہے۔ وہ تو ایک کھلے خیالات والی ماڈرن لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔
شادی سے پہلے ششانک نے اپنے دوستوں سے لیٹ نائٹ پارٹیوں کے بارے میں سنا تھا۔ ان پارٹیوں میں کئی ایسے پروگرام ہوتے ہیں، جن سے زندگی میں نیا پن آتا ہے۔ ان پارٹیوں میں صرف شادی شدہ لوگ ہی شرکت کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کی شادی کیونکہ گاؤں کی ایک سیدھی سادی، شرمیلی لڑکی سے ہو ئی تھی، لہذا وہ کبھی ان پارٹیوں میں شرکت نہیں کر پائے گا۔ شادی کے چند ماہ بعد کافی سوچ بچار کرنے بعد بالآخر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ جیا کو ان پارٹیوں میں کر لے جائے گا۔ پھر نتیجہ چاہے جو بھی ہو۔ دیکھا جائے گا۔
ایک شام ششانک نے جیا کو پارٹی میں چلنے کو کہا۔
جیا کی خوشی کی ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔ آج پہلی بار اس کے شوہر نے اپنے ساتھ کسی پارٹی میں چلنے کو کہا تھا۔
ششانک اس کے لئے ایک ماڈرن ڈریس لے کر آیا اور تیار ہونے کا کہا۔ جیا نے پہلے کبھی ایسا ڈریس نہیں پہنا تھا۔ لیکن ششانک کی خوشی کے لئے وہ تیار ہو گئی۔
جیا نے پہلی بار ایسی پارٹی دیکھی تھی۔ جیا کو سب کچھ بڑا عجیب سا لگ رہا تھا، وہ ڈرنے لگی تھی، پر کیا کرے؟ ششانک نے اسے بھی ڈرنک لینے کو کہا، پر اس نے انکار کر دیا۔ ششانک دوسری عورتوں کی جانب بڑھ گیا۔ جیا دیکھ رہی تھی کہ وہاں موجود مرد، دوسری عورتوں میں زیادہ دلچسپی لے رہے تھے اور عورتیں بھی دوسرے مردوں میں۔ تبھی اچانک ششانک کے پھسپھساتے الفاظ جیا کے کانوں میں پڑے۔
’’ کہاں کھو گئی ہو۔ ‘‘
’’ دیکھو اب اس پروگرام کا حقیقی کھیل شروع ہونے والا ہے۔ ‘‘
جیا نے کہا، ’’ کون سا۔ ‘‘
ششانک بولا، ’’ تم دیکھتی جاؤ۔ ‘‘
’’ کیوں؟‘‘ جیا نے پوچھا، ’’ یہ کھیل ہے اور اس کھیل کا حصہ ہر کسی کو بننا پڑتا ہے۔ ‘‘
اس میں ایک مرد آ کر پرچی اٹھاتا ہے اور اس درج نام کی عورت کو اس مرد کے ساتھ رات بھر رہنا ہوتا ہے۔ جیا نے جیسے ہی یہ سنا اس کے پاؤں کے نیچے کی زمین کھسک گئی۔ وہ سوچنے لگی، اپنے پورے وجود کو ششانک کو وقف کر کے بھی وہ اسے خوش نہیں کر پائی۔ میرے وجود پر ایسی گہری چوٹ! میری نسوانیت کی ایسی سخت توہین۔
’’ کیا کروں؟ کیسے اپنی شادی شدہ زندگی کو بچاؤں؟ کیا میں ششانک کی بات مان لوں؟ آخر اسی کے ساتھ تو زندگی گزارنی ہے مجھے۔ کیا ایک مرد یا ایک شوہر اس عذاب کا مطلب سمجھ سکتا ہے؟‘‘
’’ کیا ہم جانوروں ہو گئے ہیں، جہاں عورت بس عورت اور مرد صرف مرد۔ کیسے کوئی بِنا دل سے جڑے کسی کے ساتھ اپنا بدن بانٹ سکتا ہے؟ کیسے ہم صبح ہوتے ہی اسے بھول سکتے ہیں، جس کے ساتھ ہم نے رات گزاری ہو؟ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ہر ربط روح کی کتاب میں درج ہو جاتا ہے اور انسان اسے جیتے جی نہیں بھول سکتا ہے۔ کیا جذبات کی کوئی اہمیت نہیں؟ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ششانک کو وہ کس طرح سمجھائے؟ کس طرح کہے کہ نفرت کی آگ میں جتنا گھی ڈالو گے، وہ اتنی ہی تیز بھڑکتی ہے۔ خواہشات کا کہیں کوئی سرا نہیں! کیوں مرد مختلف عورتوں کا مزہ لینا چاہتا ہے؟ کیا تمام عورتیں جسم کے لحاظ سے ایک جیسی نہیں ہوتیں؟ الگ سا مزہ، بس دماغ کا فتور ہے۔ اس کا یہ وہم توڑنا ہو گا۔ وہ بھول گیا ہے کہ مزہ بدن میں نہیں، ذہن میں ہوتا ہے۔ مزہ تبدیلی میں نہیں، تعلق کے احساس میں ہے۔ ‘‘
انہی سوچوں کے درمیان گھری جیا، اپنی اس نئی زندگی کے بارے میں سوچنے لگی، جسے لے کر کچھ دنوں پہلے تک اس کے پاؤں زمین پر نہیں پڑ رہے تھے اور وہ بغیر پر لگائے آسمانوں میں اڑ رہی تھی۔ لیکن جب حقیقت سے سامنا ہوا تو نفرت ہوتی ہے ایسے ماحول سے۔ پر یہ سب ششانک کی خوشی کی خاطر کرنا ہی پڑے گا۔ اپنے متعلق سوچ کر ایک اداسی بھرا احساس اس کے اندر پیدا ہو گیا تھا۔ ٹھیک ہے جو ہو گا دیکھا جائے گا۔
جیا نے اس کے سامنے آخر ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ عورت، مرد کے خلاف کیسے جا سکتی ہے؟ ششانک اپنی جیت پر مسکرایا۔ اچانک اس نے ششانک کی طرف دیکھا۔ وہ اپنا ساتھی چن کر اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے اس کے کمرے میں جا چکا تھا۔ جیا کو بھی نئے پارٹنر کے ساتھ جانا تھا۔ اس کی آنکھیں جیسے کچھ نہیں دیکھ رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا، جیسے وہ خواب دیکھ رہی ہو یا پھر نیند میں چل رہی ہو۔ پہلی بار شراب کی ہلکی چسکی لی تھی اس نے۔ نشہ چڑھ رہا تھا۔ کسی نے بہت نرمی بھرے انداز سے اسے اپنی بانہوں میں باندھا۔ مانو کوئی بہت احتیاط سے زمین پر گرے مکھن کو بٹور رہا ہو۔ کیا ہو رہا ہے؟ جیا نے سوچنا چاہا۔ مگر دماغ نے کچھ بھی سوچنے سے انکار کر دیا۔ پھر اس نے محسوس کیا، اچانک ایک گھبراہٹ کی لہر سی اس کے اندر سے گزر گئی۔ ایک عجیب سے ڈر کا غلبہ ہونے لگا۔ کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ میرے لئے بھی صرف مزہ نہیں ہے اس رات میں کچھ اور بھی ہے۔ کچھ ناپسندیدہ؟ کچھ نامعلوم سا؟ کوئی اسے پیار سے چھو رہا ہے۔ پر یہ کیا؟ یہ لمس تو اس کی روح کو چھو رہا ہے! یہ کیسا لمس ہے جو اس کے روم روم کو جگا رہا ہے! ایک انجان مزہ! کون ہے یہ شخص! یہ اس کا شوہر ششانک نہیں، اس کا پریمی نہیں، پھر بھی اس سے مزہ مل رہا ہے۔ یہ گناہ ہے؟ ششانک کے ساتھ تو اسے کبھی ایسا نہیں لگا۔ اس کی محبت، اس کا جسم، اس کی سانسیں، اس کی گند، تو کبھی اس طرح اس کی روح تک نہیں پہنچ سکی تھیں۔ پھر یہ کیسے؟ صرف رات بھر کا ساتھی! کل صبح کے ساتھ ان خوشیوں سے بھی ساتھ چھوٹ جائے گا۔ کاش! اس رات کی صبح نہیں ہو! کاش! یہ ساتھی اس کی ہر رات کا ساتھی ہو۔۔ ۔ کاش!۔۔ ۔ جیا کے اندر کی بیوی۔۔ ۔ جانے کب کی سوئی انجان عورت۔۔ ۔ دعا کرتی رہی۔۔ ۔ اور صبح ہو گئی۔
سبھی جوڑے ہال میں جمع ہو گئے۔ اپنے اپنے ساتھی کے ساتھ۔ ششانک بہت خوش نظر آ رہا تھا، پر جیا ششانک سے آنکھیں نہیں ملا پا رہی تھی۔ اسے اپنے عورت ہونے پر دکھ اور پچھتاوا ہونے لگا، کیسی پریت ہے ششانک کی؟ کیا ٹوٹ جائے گی کچے دھاگے سی؟ وہ یہی سوچتے سوچتے جیسے ہی وہ ششانک کے ساتھ گاڑی کی طرف بڑھی، ایک جانی پہچانی خوشبو جیا کو اپنے قریب آتی محسوس ہوئی۔ کسی نے جیا کا ہاتھ تھاما اور اسے چومتے ہوئے کہا تھا، ’’ تھینک یو، یہ رات میں زندگی بھر نہیں بھول پاؤں گا۔ اس خوشی کو جو آپ سے پہلی بار ملی۔ ‘‘
وہ یہ کہہ کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا، جیا کو وہ چہرہ یاد رہا نہ اس کا پہناوا یاد رہا۔ یاد رہی تو اس کی خوشبو، جو اسے اپنی سی لگ رہی تھی۔ اتنی اپنی جیسے صدیوں سے وہ اسی خوشبو کی تلاش میں بھٹک رہی ہو۔ خوشبو کا وہ جھونکا ایک گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ جیا نے گھبرا کر ششانک کی طرف دیکھا۔ جانے کیوں اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا! راستے بھر ششانک بے قرار رہا۔ کیا اس لئے کہ جیا نے اس اجنبی کے ساتھ رات گزاری تھی؟ مگر ششانک نے بھی تو دوسری عورت کے ساتھ رات گزاری تھی۔ پھر یہ اسی کی ضد تھی۔
لیکن پھر بھی یہ بات ششانک کو چبھ رہی تھی۔
’’ کیا بات ہے؟‘‘ جیا نے پوچھا۔
’’ تم نے اس کے ساتھ ایسا کیا کیا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ تمہیں بھول نہیں پائے گا؟‘‘
’’ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ میں نے کچھ نہیں کیا۔ آپ نے جو چاہا وہ ہوا۔ ‘‘ جیا نے ناراضگی ظاہر کی۔
’’ اچھا، میرے ساتھ تو مردے کی طرح پڑی رہتی ہے اور اس سالے کو ایسے خوش کیا کہ کہہ رہا تھا کہ تجھے کبھی بھول نہیں پائے گا۔ ‘‘ مارے غصے کے ششانک کانپنے لگا تھا۔
’’ بند کریں یہ سب!‘‘ جیا چلائی۔
’’اچھا۔ چلاتی ہے!‘‘کہتے ہوئے ششانک نے جیا کے گال پر چانٹا مار دیا۔ جیا لڑکھڑا گئی۔
ششانک نے جیسے ہی دوبارہ ہاتھ اٹھایا، تو جیا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور چیخ کر بولی۔
’’ خبردار ششانک۔ ‘‘
ششانک حیران تھا۔ پر اس کے اندر کا مرد ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔ وہ جیا کے کپڑے اتارنے کی کوشش کرنے لگا۔ جیا جم کر مزاحمت کرتی رہی۔ اسے لگتا ہے کسی کے مقدس لمس سے پوتر ہوئی اس کی روح، انوکھی خوشی میں شرابور ہوئے اس کے جسم پر اب کوئی اجنبی حملے کر رہا ہے اور اس نے پورا زور لگا کر اپنا دفاع کیا۔ ششانک حیران رہ گیا۔ ذلت سے تلملا اٹھا۔
’’ میں تم کو چھوڑ دوں گا۔ جو دوسرے مردوں کو خوشیاں دیتی پھرتی ہو۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے۔۔ ۔ جیسا آپ مناسب سمجھیں۔ میں آپ کا گھر چھوڑنے کے لیے تیار ہوں۔ جانے سے پہلے میں ایک سچ کو بتا دینا چاہتی ہوں۔ میں نے اس پرائے مرد کو خوشی دی ہو یا نہ دی ہو، اس نے مجھے وہ خوشی دی ہے، جو آپ کبھی نہیں دے پائے۔ دے بھی کیسے پاتے؟ اپنی مردانگی کھو بیٹھے ہیں آپ۔ وہ تو میری اچھی تربیت تھی کہ میں آپ کی کمزوری کو سہلاتی رہی کہ آپ اندر سے مجروح نہ ہوں۔ عورت کی اسی شرافت کا فائدہ آپ مرد اٹھاتے ہیں، ورنہ عورتیں سچ بولنے لگیں تو آپ جیسے مرد منہ چھپاتے پھریں۔ مگر میں آپ کو معاف کرتی ہوں۔ کیونکہ آپ ہی کی وجہ سے میں نے عورت ہونے کا مطلب جانا، بھلے ایک رات کے لئے ہی سہی۔ آپ ضد نہ کرتے تو شاید میں زندگی بھر اس خوشی سے محروم رہتی۔ اب میں آپ کے ساتھ ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتی۔ ‘‘
ششانک بھونچکا سا جیا کو دیکھتا رہا۔ وہ تو خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ اس عورت کے اندر اتنی آگ ہے۔ جیا سوچ رہی تھی کہ کیا حقیقی مرد کا کچھ گھنٹوں کا ساتھ بھی عورت کو اتنی خود اعتمادی سے بھر دیتا ہے؟کہاں چھپی تھی اس کے اندر کی یہ طاقت؟
’’ آپ نے تو مجھے پرائے مرد کے پاس بھیج دیا تھا۔ کل پھر کسی کے پاس بھیجیں گے۔ ایسے شخص کے ساتھ میں نہیں رہ سکتی۔ ‘‘جیا آگے بڑھی، ’’ اب میرا یہ بدن آپ کے لمس کو سہہ نہیں پائے گا۔ ‘‘
’’میں ناطہ توڑتی ہوں ان وشواسوں سے، ان عقیدوں سے جو آج بھی استحقاق کرتے ہیں عورت کا۔ جو ایک چھوٹی سی چوک ہونے پر عمر بھر سزا دیتے رہتے ہیں۔ کیونکہ خود کو تبدیل کر پانا، ہر انسان کے لئے بہت مشکل ہے اور ناطہ توڑتی ہوں اس خاموشی سے، جو عورت کو خود پر ہونے والے ظلم کو زبان نہیں دینے دیتی۔ ‘‘
’’اب مجھے اپنا بدن اپنا لگنے لگا ہے۔ اب کوئی ششانک اسے کسی کو سونپ نہیں سکتا تھا۔ ‘‘
ششانک شکستہ سا راستے سے ہٹ گیا۔ جیا اس کے بنگلے سے باہر نکل گئی، شادی کے بعد دلہن بن کر، جہاں داخل ہوتے ہوئے کبھی اس نے خود کو خوش قسمت سمجھا تھا۔ مگر وہ خوش تھی۔ صبح کی پہلی کرن ایک نئی زندگی کی طرح، اس کے استقبال میں کھڑی تھی اور خوشبو کے ایک توانائی بھرا احساس اس کو مہکائے ہوئے تھا۔ اندر کا سارا شور پرسکون ہو چکا تھا۔
جیا کو لگا، اس کی زندگی کو صحیح سمت مل گئی ہے۔ اس کی صحیح ترتیب شروع ہو گئی ہے۔ کوئی فالتو کا تبصرہ کرنے والا نہیں ہو گا۔ کسی کا ڈر نہیں، کسی کی پرواہ نہیں! بس اپنے آپ زندگی کو جیو۔ واقعی بہت خوش قسمت ہوں، بہت ہی خوش قسمت۔ پتہ نہیں کس طرح مل گئی ایسی قسمت؟ لیکن اب بھی کئی راستے تلاش کرنے ہیں مجھے۔ جو آشیرواد ساتھ ہیں، وہ ہوا کے جھونکے بن کر مجھے سہارا دیتے رہیں گے، میری رفتار میں اضافہ کرتے رہیں گے، کبھی پھولوں کی طرح میرا سنگھار بن جائیں گے، کبھی دیئے بن میرے من کو روشن کرتے رہیں گے۔ جو روڑے پتھر راستہ اٹکائیں گے، انہیں پار کر جاؤں گی۔ رفتار تھمے گی نہیں۔ لافانی خوشی جو میرے ساتھ ہے۔
***
تشکر:مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل:اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں