FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

ہندی غزل

 

 

 

               جمع و ترتیب: اعجاز عبید

(آن لائن جریدے ’سمت‘ کے ہندی غزل پر گوشے پر مشتمل)

 

 

 

 

 

ابتدائیہ

 

               اعجاز عبید

 

غزل، اردو غزل۔۔ ہندی غزل۔۔۔ یہ کیا گھپلا ہے؟ پہلے ہی ہندی اور اردو کو ایک ہی زبان سمجھنے والوں کی کمی نہیں ، اور اس کا اپنا جھگڑا ہے کہ یہ دو زبانیں مانی جائیں یا واحد زبان، جو الگ الگ رسوم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ اس کے بعد  غزل بھی۔۔۔ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ غزل تو بس غزل ہے، وہ اردو میں ہو، یا فارسی میں ، ہندی میں ہو یا گجراتی میں۔  یہ اپنی ساخت کے حساب سے تو درست مانا جا سکتا ہے۔ ان مضامین کی نسبت سے بھی  جو کسی بھی زبان کی غزل میں عمومی طور پر موجود ہوتے ہیں۔ لیکن تحریر کے اعتبار سے!

ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ غزلیں صرف کاغذ پر چھپتی ہی نہیں ،  مشاعروں اور کوی سمیلنوں میں سنائی بھی جاتی ہیں۔اور گلو کاروں کے ذریعے گائی بھی جاتی ہیں۔ ادھر حالیہ سالوں میں دیکھا گیا ہے کہ خاص کر شمالی ہند میں مشاعروں اور کوی سمیلنوں کے مشترکہ  پروگرام ہونے لگے ہیں۔ ان میں سنائی جانے والی غزلوں کو اردو کی غزلیں کہا جائے یا ہندی کی؟؟ یہی نہیں ، آج کل اپنے کو اردو شاعر کہنے کا دعویٰ کرنے والے شعراء حضرات میں بھی ایسے شعراء شامل ہیں ، جن کو اردو کی لکھاوٹ نہیں آتی، اور وہ نستعلیق اردو رسم الخط کی جگہ دیو ناگری میں غزل لکھ کر لاتے ہیں۔ مشاعروں کے مشہور شاعر منور رانا، بشیر بدر، راحت اندوری ہی نہیں ، بہت سے شعراء دیوناگری میں اپنے مجموعے چھپوانے لگے ہیں۔ اس کی وجہ یہی نہیں  ہے کہ دیو ناگری میں چھپائی زیادہ آسان اور سستی پڑتی ہے، بلکہ اس لئے بھی کہ لوگوں کا خیال ہے، اور یہ حقیقت سے دور بھی نہیں ، کہ اردو رسم الخط سے واقف ہونے والے کم ہوتے جا رہے ہیں ، اس لئے زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچ کے لئے دیوناگری میں اپنا مجموعہ چھپوانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ لیجئے، یہ ایک اور گھپلا شروع ہو گیا۔ دیوناگری غزل۔ کیا منور رانا اور پروین شاکر کے دیو ناگری رسم الخط میں چھپے ہوئے مجموعوں پر ایسا کچھ تحریر کیا جاتا ہے کہ یہ خالص اردو شاعری ہے، اور ان غزلوں کو ہندی غزل سمجھنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی!!

اس کا ایک پہلو اور بھی ہے، اردو  زبان کو آج کل محض اسلام سے جوڑا جا رہا ہے،  اور اگر کوئی غیر مسلم  (اسے ہندو  پڑھئے) کوئی غزل چاہے اردو مشاعرے میں سنائے تو کیا اسے ہندی غزل سمجھ جائے؟؟ گویا کہ غزلیں بھی ہندو مسلمان ہونے لگیں ؟؟ اور اس طرح کیا جیتندر پرمار، پریم کمار اشک اور اوم پربھاکر کو  محض ’ہندو‘ یا ’ہندی‘ شاعر کہا جائے اور ان کی غزلوں کو ’ہندی غزل‘۔ خدا کا شکر ہے کہ ادب کے میدان میں  اس قسم کے تعصب کو اب تک جگہ نہیں مل سکی ہے، ورنہ واقعی یہ بھی ممکن تھا!!

چلئے، تو یہ بات بھی  طے نہیں ہوئی کہ جو غزل دیو ناگری  میں لکھی جائے، اسے ہندی غزل  ہی مانا جائے۔  تو ہندی غزل کیا ہے؟

میرے خیال میں صرف اسے ہندی غزل مانا جائے جس کو تخلیق کار سناتے وقت خود باقاعدہ اعلان کرے کہ  وہ ہندی غزل  سنانے جا رہا ہے، یا جب وہ ایسے رسالے میں شائع ہو جسے ہندی ادب کا رسالہ سمجھا جاتا ہو۔اور مکمل طور پر اردو والوں کے لئے گمنام ہوں اور ان کے تخلیق کار اردو کے رسائل میں کبھی نہیں چھپتے ہوں۔ دشینت کمار اور شمشیر سے اردو والے بھلا کہاں واقف ہوں گے!!

ایک اور دلچسپ حقیقت بھی سامنے آئی ہے۔ ہندی والے اپنے غزل کے شاعروں کو ’غزل گو‘ نہیں کہتے، ’غزل کار‘ کہتے ہیں۔ اس لئے جو شاعر اپنے کو ’غزل کار‘ کہے، اسے ہندی غزل کا شاعر مانا جائے۔اس کے علاوہ ہندی میں بہت سے الفاظ کا تلفظ وہی ہے جو غلط العوام ہے، مثلاً شَ ہ َر،  جب کہ اردو میں درست ’ہا ‘ ساکن مانا جاتا ہے، بر وزن درد، جب کہ ہندی میں یہ اکثر بر وزن ’مَرَض‘ مانا جاتا ہے۔ اور خود اس لفظ کو ’مرگ‘ کے وزن پر ’را‘ ساکن کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ تو جن غزلوں میں اس قسم کی اغلاط نظر آئیں ، انہیں ہی کیا ہم ہندی غزل کہیں گے؟  بلکہ بہت سے ہندی کوی اس صنف کو بھی ’غزل‘  یا ’گجل‘ بولتے اور لکھتے ہیں۔

لیکن اب ’سمت‘ کے اس خصوصی شمارے کے بعد، جب یہی ہندی غزلیں ، اردو رسم الخط میں شائع ہو رہی ہیں ، اور ’سمت‘ محض اردو زبان کا جریدہ ہے، جو اردو کے فروغ کے لئے کار فرما ہے،  کیا   اب ’سمت‘ میں شائع ہونے کے بعد ان کو اردو غزل کے روپ میں تسلیم کیا جائے گا؟؟؟

جی نہیں ، یہاں کیونکہ ہندی غزل کے طور پر ہی ان غزلوں کو شائع کیا جا رہا ہے، اس لئے ان کو ہندی غزل ہی کہا جائے گا۔ ہ دوسری بات ہے کہ راقم الحروف نے ہی بہت سی ہندی غزلوں کو بغیر یہ وضاحت کئے برقی کتب کے طور پر شائع کر دیا ہے کہ یہ ہندی غزل ہے۔ لیکن ساتھ ہی کئی شعراء ایسے بھی ہیں جو محض اردو کے لئے جانے مانے جاتے ہیں ، لیکن ان کی شاعری اردو کی جگہ انٹر نیٹ میں محض ہندی/ دیو ناگری میں دستیاب ہو سکی اور جن کو گوگل  (http://google.com) یا پنجاب یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے ذریعے (http”//uhlearnpunjabi.org) ہندی سے اردو میں رسم الخط کی تبدیلی کی گئی ہے، اور تدوین کر کے برقی کتب کے طور پر راقم نے شائع کیا ہے۔ جیسے سردار جعفری، شہر یار، مخدوم محی الدین وغیرہ۔

تو چلئے پیش ہے اسی گھپلے، ہندی غزلیں کہی جانے والی غزلوں کے بارے میں مخصوص گوشہ۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

ابتدائیہ فیس بک پر پوسٹ کرنے کے بعد

مباحثہ

 

محمد یعقوب آسی

۔1۔ غزل، اردو غزل۔۔ ہندی غزل۔۔۔ یہ کیا گھپلا ہے؟ پہلے ہی ہندی اور اردو کو ایک ہی زبان سمجھنے والوں کی کمی نہیں، اور اس کا اپنا جھگڑا ہے کہ یہ دو زبانیں مانی جائیں یا واحد زبان، جو الگ الگ رسوم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ اس کے بعد غزل بھی۔ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ غزل تو بس غزل ہے، وہ اردو میں ہو، یا فارسی میں، ہندی میں ہو یا گجراتی میں۔ یہ اپنی ساخت کے حساب سے تو درست مانا جا سکتا ہے۔ ان مضامین کی نسبت سے بھی جو کسی بھی زبان کی غزل میں عمومی طور پر موجود ہوتے ہیں۔ لیکن تحریر کے اعتبار سے!

ایک سے زیادہ زبانیں بھی ایک رسم الخط رکھ سکتی ہیں، بلکہ رکھتی ہیں۔حروف تہجی کی تعداد اور اصوات کا فرق   اگر کہیں ہے تو اس کو ہم الگ رسم الخط نہیں کہہ سکتے۔ عرف عام میں فارسی رسم الخط جسے ہندوستان میں کبھی شاہ مکھی کہا جاتا تھا (آج کا مجھے نہیں پتہ)، اس میں لکھی جانے والی زبانوں میں عربی، فارسی، اردو، بلوچی، سندھی، پشتو، کشمیری، ہزارگی وغیرہ بہت نمایاں ہیں، جب کہ شاکھا، شینا، کھوار اور کئی چھوٹی زبانیں بھی ہیں۔ کمال پاشا سے پہلے ترکی بھی اسی خط میں لکھی جاتی تھی۔ اصل سوال یہ ہے کہ جب خط الگ ہو جائے، تب ہمیں طوعاًَ کرہاً  ماننا پڑے گا کہ زبان الگ ہو گئی ہے۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ ہندی (دیوناگری) خط میں ایسی متعدد آوازیں ادا نہیں ہو پاتیں جو فارسی خط میں ہیں۔ ایسا ہی دوسری طرف بھی ہے۔ جہاں فارسی خط والوں نے کچھ مخصوص ہندی یا ہندوستانی آوازوں کے لئے دو چشمی ھ کے خلط سے بھ، پھ، تھ، ٹھ  وغیرہ حروف وضع کر لئے، وہیں دیوناگری والوں نے ز، غ، ف وغیرہ کی آوازوں کے لئے بندی کے اضافے سے کام لے لیا۔ بہ این ہمہ یہ طریقہ شافی ثابت نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر ث، س، ص تینوں کے لئے دیوناگری میں ایک حرف ہے، اور ذ، ز، ض، ظ چاروں کے لئے ایک حرف، ک  ق دونوں کے لئے ایک۔ جبکہ عربی، فارسی، اردو، پنجابی وغیرہ میں ان قریب الصوت حروف کی معنوی حیثیت بہر حال مختلف ہے۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ کوئی زبان محض آوازوں اور حروف تہجی کا مجموعہ نہیں ہوا کرتی، اس کے پیچھے ایک اپنا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ اور پس منظر ہوا کرتا ہے۔ ہم نذیر اور نظیر کو یا قصر اور کسر کو یا کلب اور قلب کو ہم معنی قرار نہیں دے سکتے۔ ایسے الفاظ کو دیوناگری میں میسر پوری صحت کے ساتھ لکھا جائے تو بھی معنوی التباس تو ہوتا ہے۔ بعینہٖ آڑا، ایڑی وغیرہ کے حقیقی تقاضے الف زبر، زیر پیش سے پورے نہیں کئے جا سکتے۔ یہاں پہنچ کر ہمیں ماننا پڑے گا کہ خط بدلنے سے زبان بدل جاتی ہے، جب کہ زبان بدلنے سے خط بدل جائے یہ ضروری نہیں۔ ہاں، نظامِ اصوات میں گڑبڑ ضرور واقع ہو گی۔

اس کی ایک مثال اور لیجئے: انٹرنیٹ پر انگریزی (رومن) حروفِ تہجی کا گویا راج ہے اور بسا اوقات کبھی کسی کمپیوٹر کے محددات اور کبھی دیگر وجوہ کی بنا پر ہم لوگو اردو پنجابی وغیرہ رومن میں لکھ دیتے ہیں۔ تاریخی طور پر دیکھیں تو جب انگریز یہاں وارد ہوا تو اُس نے اپنی سہولت کے لئے جملہ مقامی زبانوں کو رومن (ان کی اپنی الف بے) میں لکھوایا اور لکھا۔ غ اور گھ ایک دوسرے سے الجھ گئے، خ اور کھ الجھ گئے، تھ اور ٹھ، دھ اور ڈھ کا مشاکلہ پیدا ہوا؛ وغیرہ۔ صحتِ اصوات کے ساتھ ساتھ صحتِ معانی کا مسئلہ بہر صورت اپنی جگہ موجود رہا۔عادی ہو جانا یا اپنی زبان سے مانوس ہونے کی وجہ سے درست الفاظ تک پہنچ جانا ایک مختلف بات ہے۔ جیسے فرانسیسی اور جرمن والے ہیں؛ وہی رومن اے بی سی مگر آوازوں کا نظام اپنا اپنا، تو زبانیں بھی الگ الگ۔ یہاں تو رسم الخط بھی الگ ہے۔

اب آتے ہیں غزل کی طرف، غزل ایک ایسی مقبول صنف شعر ٹھہری جو فارسی سے اردو میں آئی تو ساتھ ہی پنجابی، اور ہندی میں بھی چلی آئی۔ تاہم اس کی حیثیت وہی بنتی ہے کہ جس زبان میں غزل کہی گئی وہ اُسی زبان کے حوالے سے جانی جاتی رہی ہے۔ ہم فارسی غزل کو اردو غزل یا اردو غزل کو پنجابی غزل قرار نہیں دے سکتے۔ ماہیا اصلاً پنجابی لوک شاعری کی ایک صورت ہے۔ یہ اردو میں مقبول ہوا تو اردو ماہیا کہلایا۔ بلکہ بشیر حسین ناظم نے تو فارسی میں بھی ماہئے کہے۔ ان سب میں ایک مشترک بات ہے غزل کی ہیئت من حیث المجموع متعینہ تسلیم کی جاتی ہے، جسے عرفِ عام میں زمین کہتے ہیں؛ یعنی وزن، قافیہ اور ردیف۔ اس کے باوجود ہندی غزل ہندی غزل ہے، اردو غزل اردو غزل ہے، فارسی غزل فارسی غزل ہے، پنجابی غزل پنجابی غزل ہے و علیٰ ھٰذا القیاس۔ گجراتی، کیرالوی، مرہٹی وغیرہ کے بارے میں وہی لوگ بہتر جانتے ہیں اور وہی بہتر بیان کر سکتے ہیں۔

غزل میں ہیئت کے ساتھ دوسرا بڑا عنصر مضامین کا ہے۔ غزل میں قدرتی طور پر ریزہ خیالی پائی جاتی ہے جو معنوی سطح پر اس کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ بھی ہے کہ شاعر کسی بھی رسمی موضوعاتی بندش کا پابند نہیں ہوتا۔ جیسا پہلے عرض کر چکا زبان محض الفاظ و اصوات سے آگے تہذیبی ورثے کا حاصل ہوتی ہے، اور موضوعات و مضامین میں دو تہذیبوں کا اشتراک یا اختلاف بھی غزل میں اظہار پاتا ہے۔ اس لئے ہم غزل کو اس کی تہذیبی جڑت کے حوالے سے بھی دیکھیں گے اور خطی اور صوتی حوالوں سے بھی، اور موضوعاتی وسعت کے حوالے سے بھی۔ نتیجہ وہی نکلتا ہے: اس سے قطع نظر کہ شاعر کا مذہب کیا ہے۔، ہندی غزل ہندی غزل ہے، اردو غزل اردو غزل ہے، فارسی غزل فارسی غزل ہے، پنجابی غزل پنجابی غزل ہے و علیٰ ھٰذا القیاس۔

۔2۔ ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ غزلیں صرف کاغذ پر چھپتی ہی نہیں، مشاعروں اور کوی سمیلنوں میں سنائی بھی جاتی ہیں۔اور گلو کاروں کے ذریعے گائی بھی جاتی ہیں۔ ادھر حالیہ برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ خاص کر شمالی ہند میں مشاعروں اور کی۔ سمیلنوں کے مشترکہ پروگرام ہونے لگے ہیں۔ ان میں سنائی جانے والی غزلوں کو اردو کی غزلیں کہا جائے یا ہندی کی؟

اس کا آدھا جواب تو آ چکا۔ باقی آدھا جواب یہ ہے کہ شاعر کو اعلان کرنا ہوگا کہ وہ اردو غزل سنانے جا رہا ہے یا ہندی یا پنجابی یا گجراتی  وغیرہ۔

۔3۔ یہی نہیں، آج کل اپنے کو اردو شاعر کہنے کا دعویٰ کرنے والے شعراء حضرات میں بھی ایسے شعراء شامل ہیں، جن کو اردو کی لکھاوٹ نہیں آتی، اور وہ نستعلیق اردو رسم الخط کی جگہ دیو ناگری میں غزل لکھ کر لاتے ہیں۔ مشاعروں کے مشہور شاعر منور رانا، بشیر بدر، راحت اندوری ہی نہیں، بہت سے شعراء دیوناگری میں اپنے مجموعے چھپوانے لگے ہیں۔ اس کی وجہ یہی نہیں ہے کہ دیو ناگری میں چھپائی زیادہ آسان اور سستی پڑتی ہے، بلکہ اس لئے بھی کہ لوگوں کا خیال ہے، اور یہ حقیقت سے دور بھی نہیں، کہ اردو رسم الخط سے واقف ہونے والے کم ہوتے جا رہے ہیں، اس لئے زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچ کے لئے دیوناگری میں اپنا مجموعہ چھپوانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔

غزل کا اصل حق تو یہ ہے کہ اگر وہ اردو غزل ہے تو اسے اردو خط میں لکھا جائے، ہندی ہے تو دیوناگری میں یا جو بھی خط اس کا ہے اس میں لکھا جائے۔ کہیں اگر کوئی مجبوری ہے یا ’’لازمی ترجیحات‘‘ کار فرما ہیں جیسے لکھائی چھپائی کا خرچ وغیرہ، وہاں شاعر پر کم از کم یہ ذمہ داری ضرور عائد ہوتی ہے کہ وہ بتائے کہ مثلاً: یہ اردو غزل ہے جسے بوجوہ دیوناگری میں لکھنا پڑا۔  زبان کے حوالے سے میرے نزدیک یہ بہر حال لازم ہے کہ اردو غزل کے دعویدار شاعر کو اردو خط میں لکھنا پڑھنا ضرور آنا چاہئے۔ ورنہ وہی بات ہو گی جس کا ذکر آپ نے کیا کہ حرکات و سکنات کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ ہندی غزل میں اگر لفظ صبر کو ’’صَ بر‘‘ پڑھا جائے تو اس کی درستی ہندی اصوات کے مطابق پرکھی جائے گی، اردو غزل میں ایسے پڑھنا غلط سمجھا جائے گا کہ یہاں تو ’’صَب ر‘‘ ہے۔ یعنی شاعر کی طرف سے ایک رسمی اعلان بہت ضروری ہے کہ یہ اردو غزل ہے یا ہندی غزل ہے۔

۔4۔ لیجئے، یہ ایک اور گھپلا شروع ہو گیا۔ دیوناگری غزل۔ کیا منور رانا اور پروین شاکر کے دیو ناگری رسم الخط میں چھپے ہوئے مجموعوں پر ایسا کچھ تحریر کیا جاتا ہے کہ یہ خالص اردو شاعری ہے، اور ان غزلوں کو ہندی غزل سمجھنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی!!

ان حالات کو آپ بہتر جانتے ہیں کہ  ہندوستان میں عوامی، ادبی، اور سرکاری سطح پر اردو (فارسی) رسم الخط کو کتنی اہمیت دی جا رہی ہے اور قانونی چارہ جوئی وغیرہ کے معاملات کس نہج پر ہیں۔

۔5۔ اس کا ایک پہلو اور بھی ہے، اردو زبان کو آج کل محض اسلام سے جوڑا جا رہا ہے، اور اگر کوئی غیر مسلم (اسے ہندو پڑھئے) کوئی غزل چاہے اردو مشاعرے میں سنائے تو کیا اسے ہندی غزل سمجھ جائے؟ گویا کہ غزلیں بھی ہندو مسلمان ہونے لگیں؟ اور اس طرح کیا جیتندر پرمار، پریم کمار اشک اور اوم پربھاکر کو محض ’ہندو‘ یا ’ہندی‘ شاعر کہا جائے اور ان کی غزلوں کو ’ہندی غزل‘۔خدا کا شکر ہے کہ ادب کے میدان میں اس قسم کے تعصب کو اب تک جگہ نہیں مل سکی ہے، ورنہ واقعی یہ بھی ممکن تھا!!

اردو زبان کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کی بات صرف آج کی نہیں ہے، تحریکِ آزادی کی تاریخ دیکھ لیجئے، ہندی اردو تنازع بہت مشہور واقعہ ہے۔ اردو کو تب بھی اسلام کے ساتھ جوڑا جاتا تھا۔ اور یہ کوئی اچنبھے کی بات ہے بھی نہیں۔ عربی اور فارسی اور ہندی: اردو کی لفظیات کے یہ تین بڑے سرچشمے ہیں اور ترکیب سازی وغیرہ کے ضوابط بھی دیکھ لیجئے، رسم الخط بھی اردو نے عربی سے لیا یا فارسی سے، ایک ہی بات ہے۔ اسلام کے ساتھ یہ تعلق اردو کے لئے شرمناک بات تو نہیں ہونی چاہئے۔ اگر یہ کہنا درست ہے کہ دیوناگری دیوتاؤں کے منہ سے نکلے ہوئے شبد ہیں تو پھر یہ بھی درست ہے کہ اردو کو برصغیر میں مسلمان لے کر آئے ہیں۔  ہندو اور مسلم ثقافتوں کا فرق زبانوں میں بھی دکھائی دے رہا ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ ہاں، یہ کہنا البتہ غلط ہو گا کہ کوئی غیر مسلم اردو نہ پڑھے نہ لکھے یا کوئی مسلم ہندی نہ پڑھے نہ لکھے۔ اُس کو آپ تعصب کا نام دیتے ہیں تو دے لیجئے۔ اردو کی تاریخ میں کتنے ہی ہندو شعراء اور نثر نگار گزرے ہیں جن کی علمی اور ادبی خدمات کو اردو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ کئیوں کے تو تخلص بھی فارسی یا عربی میں تھے۔ ہری چند اختر، رتن ناتھ سرشار، رگھو رائے فراق، دیا شنکر نسیم کو نظر انداز کرنا ایسا آسان بھی نہیں۔  کوئی ہندو، کوئی سکھ اردو میں غزل کہتا ہے تو کہے کہ میں نے اردو میں کہی ہے، کوئی مسلم ہندی میں غزل کہتا ہے تو کہے کہ میں نے ہندی میں کہی ہے۔ اس میں قباحت بھی کیا ہے؟  لیکن ہندی کو اردو یا اردو کو ہندی قرار دینا درست نہیں ہو گا۔

۔6۔ چلئے، تو یہ بات بھی طے نہیں ہوئی کہ جو غزل دیو ناگری میں لکھی جائے، اسے ہندی غزل ہی مانا جائے۔ تو ہندی غزل کیا ہے؟ میرے خیال میں صرف اسے ہندی غزل مانا جائے جس کو تخلیق کار سناتے وقت خود باقاعدہ اعلان کرے کہ وہ ہندی غزل سنانے جا رہا ہے، یا جب وہ ایسے رسالے میں شائع ہو جسے ہندی ادب کا رسالہ سمجھا جاتا ہو۔اور مکمل طور پر اردو والوں کے لئے گمنام ہوں اور اردو کے رسائل میں کبھی نہیں چھپتے ہوں۔ دشینت کمار اور شمشیر سے اردو والے بھلا کہاں واقف ہوں گے!!

اعلان والی گزارش میں پہلے بھی کر چکا، اعلان ضروری ہے۔ یہ پابندی نہ لگائیے کہ ایسا اردو ’’غزل گو‘‘ ہندی والوں کے لئے گم نام ہو یا ہندی ’’غزل کار‘‘ اردو والوں کے ہاں مجہول ہو۔ اگر ایک مسلمان انگریزی میں ادب تخلیق کر سکتا ہے، فرانسیسی میں لکھ سکتا ہے تو ہندی میں کیوں نہیں، اور یہی بات ہندو، سکھ، پارسی ادیب کے لئے بھی کہ اردو اس کے لئے شجرِ ممنوعہ کیوں ٹھہرے؟۔ رسائل والے جانیں ان کی پالیسیاں جانیں، اس پیش منظر سے بھی آپ بہتر طور پر واقف ہیں۔

۔7۔ ایک اور دلچسپ حقیقت بھی سامنے آئی ہے۔ ہندی والے اپنے غزل کے شاعروں کو ’غزل گو‘ نہیں کہتے، ’غزل کار‘ کہتے ہیں۔ اس لئے جو شاعر اپنے کو ’غزل کار‘ کہے، اسے ہندی غزل کا شاعر مانا جائے۔اس کے علاوہ ہندی میں بہت سے الفاظ کا تلفظ وہی ہے جو غلط العوام ہے، مثلاً شَ ہ َر، جب کہ اردو میں درست ’ہا ‘ ساکن مانا جاتا ہے، بر وزن درد، جب کہ ہندی میں یہ اکثر بر وزن ’مَرَض‘ مانا جاتا ہے۔ اور خود اس لفظ کو ’مرگ‘ کے وزن پر ’را‘ ساکن کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ تو جن غزلوں میں اس قسم کی اغلاط نظر آئیں، انہیں ہی کیا ہم ہندی غزل کہیں گے؟ بلکہ بہت سے ہندہ کوی اس صنف کو بھی ’غزل‘ بولتے اور لکھتے ہیں۔

یہ وہی بات آ گئی کہ جہاں رسم الخط بدلے گا وہاں اصوات کا نظام بھی بدلے گا۔ مجھے دیوناگری یا گرمکھی لکھنی پڑھنی نہیں آتی تاہم میرا انداز ہ ہے کہ اس میں مثلاً آپ لفظ ’’سڑک‘‘ لکھتے ہیں تو تین حروف لکھتے ہیں س، ڑ، ک اور ان میں یہ شاید طے شدہ ہے کہ پہلے دونوں پر فارسی اردو کے مطابق زبر سمجھی جائے گی؟ اور اگر مثلاً ’’بچپن‘‘ لکھتے ہیں تو ب اور چ کا جوڑا بن جائے گا پھر پ اور ن کا، وہ زبر کے ساتھ؟۔ اگر زیر یا پیش کا مقام ہو گا تو وہ باضابطہ طور پر ہجوں میں لکھا جائے گا؟  کیا میں نے درست کہا؟۔ اگر یہ درست ہے تو فارسی عربی کے الفاظ تو سرے سے بدل ہی گئے اس پر غین اور گاف کا التباس، یا ز کو ج سے بدل دینا؛ پھر غزل سے گجل بھی بن سکتی ہے۔ آپ کے مقالے ہی کو سامنے رکھیں تو آپ شاعر کو کوی لکھ گئے ہیں۔ میں اس کو غلطی نہیں تہذیب کا اثر گردانتا ہوں،  اور یہ بالکل فطری امر ہے۔ سو، جناب اردو کو اردو اور ہندی کو ہندی رکھئے، جبراً ملانے سے زبانیں نہیں ملا کرتیں  تہذیبیں ٹکرا جایا کرتی ہیں۔

۔8۔ لیکن اب ’سمت‘ کے اس خصوصی شمارے کے بعد، جب یہی ہندی غزلیں، اردو رسم الخط میں شائع ہو رہی ہیں، اور  ’سمت‘ محض اردو زبان کا جریدہ ہے، جو اردو کے فروغ کے لئے کار فرما ہے، کیا اب ’سمت‘ میں شائع ہونے کے بعد ان کو اردو غزل کے روپ میں تسلیم کیا جائے گا؟ جی نہیں، یہاں کیونکہ ہندی غزل کے طور پر ہی ان غزلوں کو شائع کیا جا رہا ہے، اس لئے ان کو ہندی غزل ہی کہا جائے گا۔ ہ دوسری بات ہے کہ راقم الحروف نے ہی بہت سی ہندی غزلوں کو بغیر یہ وضاحت کئے برقی کتب کے طور پر شائع کر دیا ہے کہ یہ ہندی غزل ہے۔ لیکن ساتھ ہی کئی شعراء ایسے بھی ہیں جو محض اردو کے لئے جانے مانے جاتے ہیں، لیکن ان کی شاعری اردو کی جگہ انٹر نیٹ میں محض ہندی/ دیو ناگری میں دستیاب ہو سکی اور جن کو گوگل یا پنجاب یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے ذریعے ہندی سے اردو میں رسم الخط کی تبدیلی کی گئی ہے، اور تدوین کر کے برقی کتب کے طور پر راقم نے شائع کیا ہے۔ جیسے سردار جعفری، شہر یار، مخدوم محی الدین وغیرہ۔

’’سمت ‘‘ اس کے نام پر مجھے یاد آیا۔ کبھی اس کو سِمت بھی لکھا جاتا تھا؟ اور پھر سَمَت ؟ اور پھر سَمت؟ کیا واقعی ایسا ہے یا مجھے اشتباہ ہو رہا ہے؟ میں نے پہلے بھی کسی مقام پر عرض کیا تھا کہ اس کی درست صوتیت سَم ت ہے۔ اگر آپ یا آپ کے ساتھی کسی اور طرح ادا کرتے ہیں تو یہ بھی تہذیبی اثر رہا ہو گا۔ اپنے شمارے کے لئے پالیسی آپ کو بنانی ہے، میں نے اپنی استطاعت کے مطابق پوری ایمان داری سے سب کچھ عرض کر دیا ہے۔

 

رفیع اللہ میاں

ناموں اور اصطلاحوں کے بیچ پھنسا ہوا آج کا ادب متقاضی ہے کہ جو لکھاری اور تخلیق کار جس سوچ اور نظریے کے ساتھ لکھے؛ اسے ایک طرف رکھ کر صرف تخلیق پر توجہ مرکوز کی جائے۔ اردو کا اپنا دائرہ کار ہے اور ہندی کا اپنا۔ دونوں اپنی جگہ قائم ہیں۔ انھیں اگر قائم رہنے دیا جائے اور انھیں اپنے اپنے دائرہ کار میں فروغ دینے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا جائے تو آخری نتیجہ اس ادب کے فروغ کی صورت ہی میں نکلے گا جس سے ہم یہاں بھی واقف ہیں اور وہاں بھی۔

 

عمارہ رشید

"اردو ہندی تنازع "پر ہونے والی بحثیں ایک عرصے سے جاری ہیں اور مختلف احبابِ فکر اپنے اپنے انداز سےاس کی وضاحت کرتے ہیں۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ ہندی اردو تنازعے کو بہت سے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ زبان اور مذہب دو ایسے جذباتی ہتھیار ہیں کہ جن کی مدد سے بآسانی قوموں کو بنایا اور بگاڑا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر طارق رحمان نے اپنی کتاب "Language and Politics in Pakistan ” میں ان پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی ہے اور زبان کی سیاست کو بےنقاب کیا ہے۔ لہذا یہ بات واضح ہے کہ اس قسم کی کاوشوں سے سیاسی مقاصد تو حاصل کیے جا سکتے ہیں تاہم ان سے ادب کی خدمت کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ اردو زبان کو "پاکستانی اردو ” یا "ہندوستانی اردو ” جیسی اصطلاحات میں بانٹنا مزید پیچیدگیوں کا باعث ہے۔ ٹیگور نے تو ادب کے لیے بھی "قومی ادب ” کی اصطلاح رائج کرنے کی مخالفت کی تھی کہ اس طرح ادب محدود ہو کر رہ جائے گا لہذا آج اگر "پاکستانی اردو ” اور "ہندوستانی اردو "کی اصطلاحات راہ پاتی ہیں تو یقیناً وہ دن دور نہیں جب "سندھی اردو” ، "پنجابی اردو ” ، بلوچی اردو ” اور اس جیسی سیکڑوں اصطلاحات بھی منظرِ عام پر آ جائیں گی۔ بولی ‘ الفاظ اور تلفظ کے فروق تو ہر زبان میں ( مثلاً چینی زبان ) موجود ہیں لیکن ان کی آڑ لے کر زبان کو ہی دو ٹکڑے کر دینا کسی طور بھی دانش مندی نہیں۔ رہی بات اردو غزل اور ہندی غزل کی تو محمد یعقوب آسی صاحب نے نہایت مدلل انداز سے اس پہلو کی صراحت فرمائی ہے۔ میرے خیال میں بھی اردو غزل خواہ کسی بیچ رسم الخط میں لکھی جائے یا کہی جائے وہ صوتی و معنوی تبدیلیوں کے باوجود اردو غزل ہی رہے گی۔

 

محمد شاکر عزیز

غزل کونسی زبان میں کہی ہے اس کے لیے لکھاری کا ذاتی قول میری نظر میں افضل ہے۔ چونکہ اس نے مخصوص قارئین کو مد نظر رکھ کر لکھا ہے۔ ہاں جب یہ صراحت دستیاب نہ ہو تو ہندی سے اردو رسم الخط میں منتقل کی گئی غزل کو بہتر ہے کہ ہندی غزل ہی کہا جائے۔ ساrست سے قطع نظر، آج کی حقیقت یہ ہے کہ ہندی اور اردو دو الگ زبانیں تسلیم کی جاتی ہیں۔ ان کا رسم الخط مختلف، تلفظ میں تفاوت وقت کے ساتھ بڑھ رہا ہے، ادبی اور معیاری ہندی اردو کے ذخیرہ الفاظ ایک دوسرے سے کوسوں کا فرق لیے ہوئے ہیں۔ گرامر ایک ایسا شعبہ ہے جو ابھی تغیر سے بچا ہوا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ زبان ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ سیاسی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ لسانی بنیادوں پر ہم انہیں دو لہجے بھی قرار دے لیں تو سیاسی اور انتظامی حقیقتیں وہیں رہتی ہیں۔ ًہے کہ وہ بتائے کہ مثلاِ

جہاں تک بات ہندوستانی اردو اور پاکستانی اردو کی ہے تو یہاں بھی ساٹھ ستر سال کی دوری کے نتیجے میں تغیر سامنے آ رہا ہے۔ الفاظ کا تلفظ مثلاً ایک ہندوستانی اخبار میں گیس کو گیاس لکھا دیکھا۔ مرکبات کی بناوٹ کے حوالے سے آگ زنی (اصل آتش زنی) سے واسطہ پڑا، بطور مدیر ایک ہندوستانی مترجم کا کام دیکھ رہا تھا۔ سلسلہ یہاں پہنچتا ہے کہ ادب میں شاید فی الحال وہ فرق نظر نہ آئے لیکن زبان کی دیگر ورائٹیز میں تبدیلیاں نظر آنے لگی ہیں۔

 

عمارہ رشید

کسی بھی زبان میں فاصلاتی بعد کے باعث صوت، تلفظ ،الفاظ یا معنی کی تبدیلی آنا ایک فطری عمل ہے جسے لہجے یا بولی کی ذیل میں رکھ کر پرکھا جا سکتا ہے تاہم اس فرق کے باعث اسے چند نام نہاد اصطلاحات میں بانٹ دینا ادبی یا لسانی سے زیادہ سیاسی مفادات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

 

Mohammad Shakil Akhtar

IT IS IMPOSSIBLE to convert a ghazal in to Hindi. Note that I did not write Urdu Ghazal. Because a ghazal(that we know) can be only in Urdu. In Hindi it will be Gajal and that says all. because Hindi is devoid of letters like ghain, ze, zaal etc. I have written an article on Hindi Urdu, Hindustani, and it may help here: http://shakilakhtar.wordpress.com/…/hindiurduhindustani/

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہندی غزل

 

 

               رویندر پربھات

 

ایک زمانہ تھا جب عاشق اور معشوقہ کی محبت بھری گفتگو کو غزل کہا جاتا تھا۔ حسن عشق اور ساقی۔۔شراب، یہی اس کی زمین ہوا کرتی تھی، جس سے پرے جا کر دوسرے کسی احساس پر غزل کہنا غزل گو شاعروں کے لئے بہت حوصلے کی ضرورت ہوتی تھی۔ ایسے حالات میں کسی نئی انقلاب کی  تجویزکسی بھی شاعر کے لئے ممکن نہیں تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ غزل کے روپ میں اسی کلام کو قبول کیا جاتا تھا جو عورتوں کے حسن اور جمال کی تعریف کرے۔ یہاں تک کہ جو ہندی کی غزلیں ہوا کرتی تھی اس میں اردو غزلوں کا وسیع اثر  دیکھا جاتا تھا۔ یہی سبب تھا کہ جب پہلی بار شمشیر نے روایتی رومانی پس منظر سے اوپر اٹھ کر غزل کہی تو ڈاکٹر رام ولاس شرما نے اسے یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ ” غزل تو درباروں سے نکلی ہوئی صنف ہے، جو ترقی پسند اقدار کے اظہار کرنے میں ناکام ہے !” لیکن اب حالات بدل چکے ہیں ، ہندی والوں نے غزل کو صرف قبول ہی نہیں کیا ہے، بلکہ اس کا نیا منظر نامہ بھی تشکیل دیا ہے۔ نتیجے کے طور پر آج غزل اردو ہی نہیں ہندی کی بھی مشہور صنف ہے۔ تو آئیے ہم عصر ہندی غزل کی شکل، ارتقاء اور اس کے امکانات پر غور کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔

اردو غزل خاص طور پر محبت کے جذبات کا مرقع ہے۔ اچھی غزلیں وہی سمجھی جاتی ہے، جن میں عشق  و محبت کی باتیں سچائی اور اثر کے ساتھ لکھی جائیں ، جبکہ ہندی غزل گو اس تعریف کو نہیں مانتے۔ ان کا اردو غزل گوؤں سے اصولی اختلاف ہے۔ نچی کیتا کا ماننا ہے کہ ” ہندی غزل اردو غزلوں کی طرح نہ تو  نان کمیٹیڈ صنف شاعری ہے اور نہ اس کا اہم عنصر فراری ہے، اس کا مزاج عقیدتی بھی نہیں ہے ظہیر قریشی کا ماننا ہے کہ "ہندی غزلیں عام آدمی کا  عوامی اظہار ہیں ، جو سب سے پہلے اپنا قاری تلاش کرتی ہے !” جبکہ گیان پرکاش وویک کا کہنا ہے کہ ” ہندی کویوں  کے ذریعے لکھی جا رہی غزل میں شراب کا ذکر نہیں ہوتا، ذکر ہوتا ہے گنگا جل میں دھلے تلسی کے پتوں کا، پیپل کی چھاؤں کا، نیم کے درد کا، عام آدمی کی تکلیفوں کا۔ ہندی بھاشا میں لکھا جا رہا ہر شعر زندگی کا عکس ہوتا ہے۔ بہت نزدیک سے محسوس کیے گئے درد کا اظہار ہوتا ہے !” فیض احمد فیض نے تو اتنا تک کہہ ڈالا ہے کہ ” غزل کو اب ہندی والے ہی زندہ  رکھیں گے، اردو والوں نے تو اس کا گلا گھونٹ دیا ہے !” وہیں ہم عصر ہندی غزلوں کے  اہم شاعر عدم گونڈوی کہتے ہیں کہ ” جو غزل معشوق کے جلووں سے واقف ہو گئی اس کو اب بیوہ کے ماتھے کی شکن تک لے چلو !”

ہندی غزل کے ماضی کی گفتگو کئے بغیر اس کے امکانات کے بارے میں کچھ بھی کہہ پانا مناسب نہیں ہوگا، کیونکہ غزل کی روایت ہندی میں بھی بہت پرانی ہے۔ اگر امیر خسرو نے اپنی تخلیقات کے ذریعے سے ہندی میں غزل کیے امکانات کا  افتتاح کیا، تو درمیانی عرصے میں کبیر،شوقی اور بھارتیندو ہریش چندر نے اسے مزید ترقی دی۔ بعد کے دنوں میں پریم دھن، شری دھر پاٹھک، رام نریش ترپاٹھی، نرالا، شمشیر، ترلوچن وغیرہ شاعروں نے اسے مزید بہتر بنایا۔  شمشیر نے اس صنف کو رفتار اور سمت عطا کی۔ پھر ہنس راج رہبر، جانکی ولبھ شاستری، رام درس مشر وغیرہ نے اس کی نئی لفظیات اور جمالیات گڑھنے کا اہم ترین کام انجام دیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہندی شاعری کی ایک اہم دستخط  دشینت کمار نے غزل کے میڈیم سے ایک نئے انقلاب کی شروعات کی۔ غزل کے نئے آفاق کی ابتدا ہی ہی نہیں کی، بلکہ ہندی شاعری کی ایک آزاد صنف کے طور پر غزل کو  قبولیت کا درجہ دلانے کی بنیاد بھی تیار کی۔ دشینت کے بعد عدم گونڈوی ایک ایسے  شاعر ہیں ، جنہوں نے غزل کے میڈیم سے تصور کی ست رنگی روشنی میں دھواں دھار نور انڈیلنے کا کام کیا اور اس روایت کو آگے بڑھانے کا کارٕ ثواب انجام دے رہے ہیں آج کے غزل گو شعراء۔

غزل سے متعلق  بہت سی کتب بھی شائع ہو چکی ہیں ، جس میں ڈاکٹر روہتاشو استھانا کا  تحقیقی مقالہ ” ہندی غزل : ادبھو اور وکاس ” اہم ہے۔ ساتھ ہی  اعلیٰ درجے کے غزلوں کے مجموعوں  میں ڈاکٹر کنور بیچین کی ” رسیاں پانی کی ” اور ” پتھر کی بانسری ” چھندراج کی ” فیصلہ چاہئیے” مادھو مدھوکر کی ” آگ کا راگ ” نیز آچاریہ جانکی ولبھ شاستری کی ” کون سنے نغمہ ” وغیرہ کتابیں دشینت کی "سائے میں دھوپ "کے بعد اہم ترین مانی جا سکتی ہیں۔

میری سمجھ کے مطابق غزل کی اصلی کسوٹی اثر انگیزی ہے۔ غزل وہی اچھی ہوگی جس میں اثر ہو، جس سے پڑھنے والے سمجھیں کہ یہ انہیں کی دلی باتوں کا بیان ہے۔ جہاں تک ممکن ہو سکے غزل میں جانے پہچانے اور آسان الفاظ کا ہی استعمال ہو، تاکہ اس میں بہاؤ بنا رہے۔ غزل کے ہر شعر میں الگ الگ مضامین کو لے کر بھی خیالات کا اظہار کیا جا سکتا ہےاور مسلسل بھی۔ لیکن ہر الگ الگ شعر کے مضامین میں امتیاز ہونے کے باعث نئی وچار دھارا زیادہ اثر انگیز ڈھنگ سے پیش ہو جاتی ہے۔ ہندی غزل کے لئے ایک اور ضروری بات یہ ہے کہ ہندی گرامر کے احاطے کے اندر ہی  الفاظ کو توڑا جائے، اور ماترا کی گنتی بھی، تاکہ غزل کی ساخت اور مضمون میں ہمواری رہ سکے۔ لفظوں کی تقسیم مختلف افاعیل کی ماترا کی گنتی کے مطابق ہی کیا جائے، اور اس کے لئے ضروری ہے چھندوں کی معلومات کے ساتھ ساتھ ہم عصریت کی پکڑ بھی ہو۔

آج اپنی جد و جہدی کاوشوں اور ایک کے بعد دوسری  ارتقاء کے میلان کے بسبب ہندی غزل ایک ایسے مقام پر کھڑی ہے، جہاں وہ ہندی ادب میں اپنی آزاد وجود کو  درج کرانے کے لئے بے چین نظر آتی ہے۔ آج ہندی بلاگ نگاروں میں پنکج سبیر ایک ایسے بلاگ نگار ہیں جو غزل کی پاٹھ شالا چلاتے ہیں۔۔۔ ہندی بلاگوں کی دنیا میں نرملا کپلا، گوتم راج رشی، نیرج گوسوامی، ثروت ایم جمال، شیامل سمن، پرکاش سنگھ عرش وغیرہ تخلیق کار پوری مستعدی کے ساتھ ہندی غزلوں کو نیا مقام دینے کی سمت میں کار فرما ہیں۔۔!

 

آجکل تو غزل میں نئے نئے  تجربے ہونے لگے ہیں ، کوئی اسے گیتیکا، کوئی نئی غزل، کوئی کچھ تو کوئی کچھ۔۔۔۔۔۔۔ کل ملا کر دیکھا جائے تو ہے غزل ہی نہ؟

٭٭٭

 

 

اردو غزل بنام ہندی غزل (خوبیاں اور خامیاں )

 

               پران شرما

 

 

اردو غزل کا نام زبان پر آتے ہی اس کے ارتقا کی تاریخ آنکھوں میں ابھرنے لگتی ہے۔ ان عظیم غزل کاروں کی تصویریں شعور  میں تیرنے لگتی ہیں جو گاگر میں ساگر بھرنے کی اس صنف کو  چوٹی تک لے گئے۔ امیر خسرو، ولی، درد، میر، ذوق، غالب، ظفر، اقبال، چکبست، حسرت موہانی، اکبر الہ آبادی، مومن، آغا حشر کاشمیری، آتش، سودا، رام پرساد بسمل، حفیظ جالندھری، جوش ملیح آبادی، جگر مرادابادی، فراق گورکھ پوری، فیض احمد فیض، ہری چند اختر، جوش ملسیانی، میلا رام وفا، شکیل بدایونی، ساحر لدھیانوی وغیرہ سیکڑوں اردو غزل کاروں نے بھاووں کے ایسے لبھاؤنے رنگ برنگے پھول کھلائے کہ ان کی بھینی بھینی خوشبو یہاں وہاں ہر طرف پھیلی۔

 

ان لوگوں نے زبان کی ایسی آسان رو بہائی جس کا بہاؤسب کو لبھا گیا۔ سنگیت کا ایسا جادو بہایا جو سروں پر چڑھ کر بولا۔ دلوں کو چھو لینے والی ایسی غزلوں کی تخلیق کی جو بحر و اوزان کی پابند ہونے کے ساتھ ساتھ اورجنل، فطری، واضح اور حسنِ بیان کی ایک عجیب و غریب کرن  لئے ہوئے تھی۔ انہوں نے غزل کو چار چاند لگائے اور اسے اردو شاعری کی مرکزی صنف کے روپ میں قائم کیا۔ ان کا کرشمہ ہی تھا کہ غزل کا بول بالا ہوا۔ چاروں اور اس کا ڈنکا بجا۔ رکشا والا، تانگا والا، بس والا، امیر غریب، نواب خادم  تقریباً ہر کوئی اس کی تازگی، شائستگی اور تاثیر سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا۔ اپنی مقبولیت کے کارن غزل نے کبھی نعت کے روپ میں پیر پیغمبر کی شان میں گائی جانے کا، کبھی کوٹھوں پر پائلوں کی جھنکار کے ساتھ گونجنے کا اور کبھی مشاعروں میں لوگوں کی واہ واہ لوٹنے کا کمال حاصل کیا۔

 

اچھی غزل کے لئے کچھ خاص باتیں  اہم ہوتی ہیں۔ ان پر وقت کے ساتھ کے چلتے ہوئے مہارت حاصل کی جائے تو عمدہ غزل کہی جا سکتی ہیں۔ ساتھ ہی ان کک کمی  ہو تو غزل اپنا تاثر کھو دیتی ہے یا زیادہ مقبول نہیں ہو پاتی۔ یہاں ہم ان خصوصیات کی تفصیلی گفتگو کریں گے۔

 

مضامین کی وسعت

 

اپنے ابتدائی دور میں اردو غزل میں شرنگار کے دونوں حصوں وصل و جدائی کا ہی بیان رہتا تھا لیکن بعد میں اس میں تبدیلی آئی۔ اس میں نصیحت، سیاست، فلسفہ اور  ملک و قوم پرستی کی باتوں کا ذکر کیا جانے لگا۔ اردو غزل کار جو کبھی حسن اور عشق کی باتیں کرنے سے تھکتا نہیں تھا وہ ‘اور بھی دکھ ہے زمانے میں محبت کے سوا’ کی بولی بولنے لگا۔ اس نے غزل کو قومی اور سماجی شعور کا لباس پہنایا۔غزل صرف ناز اور انداز کی ہی محتاج نہیں رہ گئی۔ وہ ملکپرستی ، بھائی چارہ اور سماجی سروکاروں کے جذبات کے جھولے میں جھولنے لگی اور ایسے شعروں کے ساتھ گونج اٹھی۔

 

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا

اقبال

 

یہ نغمہ سرائی ہے کہ دولت کی ہے تقسیم

انسان کو انسان کا غم بانٹ رہا ہوں

فراق

 

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

وقت آنے دے بتائیں گے تجھے اے آسماں

ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے

رام پرساد بسمل

 

آج کی اردو غزل زندگی کے ہر مسئلے سے متعلق ہے۔ اب اردو غزل کار سماجی، سیاسی اور مذہبی تضادات پر کھل کر چوٹ کرتا ہے۔ وہ کسی کامنی کے روپ میں اتنی کشش نہیں محسوس کرتا جتنا بد عنوان سماج سے دکھی ہے۔ وہ اونچ نیچ، بد عنوانی، استحصال، فرقہ پرستی  سے مایوس ہے اس لئے آج کے دور کی اردو غزل میں مایوسی، غصہ ، اسنتوش اور بغاوت کی آوازیں زیادہ سنائی دیتی ہیں۔  دیکھئے کچھ شعر۔۔

 

دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی

لوگوں نے میرے ذہن میں رستے بنا لئے

سبطِ علی شمیم

 

بیاباں میں کلیاں جھلستی رہیں

سمندر پر برسات ہوتی رہی

ساحر ہوشیارپوری

 

اینٹیں ان کے سر کے نیچے،اینٹیں ان کے ہاتھوں پر

اونچے محل بنانے والے سوتے ہیں فٹ پاتھوں پر

کرشن موہن

 

گھر لوٹ کے ماں باپ روئیں گے اکیلے میں

مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں

قیصر الجعفری

 

زبان کی روانی

 

اردو غزل نے ہندوستان کی لگ بھگ ہر زبان پر اپنی ان مٹ چھاپ چھوڑی ہے۔ ہندی میں بھارتیندو ہریش چندر، سوریہ کانت ترپاٹھی نرالا، میتھلی شرن گپت وغیرہ کویوں نے غزلیں لکھیں۔ ہرکرشن ‘پریمی’ اردو نما گیت لے کر آئے۔ پچھلے چار دہوں سے ہندی میں ان گنت غزل کار پیدا ہوئے ہیں۔ ہندی کے ان غزل کاروں کی فہرست بڑی لمبی ہے۔ رام درش مشر، مہاویر شرما، ادے بھانو ہنس، بال سوروپ راہی، سوہن راہی، بلبیر سنگھ رنگ، رام اوتار تیاگی، گوپال داس نیرج، شمبھو ناتھ شیش، شیرجنگ گرگ، لکشمن دوبے، رما سنگھ، ونود تیواری، چندرسین وراٹ، ہستی مل ہستی، عدم گونڈوی، کنور بیچین، جان کی پرساد شرما، ظہیر قریشی، رام کمار کرشک، شوؤم انبر، ارملیش، گیانپرکاش وویک، اشوک انزم، مہیش انگھ، اوشا راجے سکسینہ، دیوی ناگ رانی، دیکشت دنکوری، دیومنی پانڈے، تیجیندر شرما، گوتم سچدیو، دوجیندر دوج، ستیہ پال خیال وغیرہ کئی اچھے غزل کار ہیں جنہوں نے اچھے اشعار لکھے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ ہندی غزل کی پہچان اردو غزل جیسی ابھی تک نہیں بن پائی ہے۔

 

کسی بھی نئی صنف کے استحکام کو چار دہائیاں کم نہیں ہوتیں۔  لیکن اردو زبان کا ہندی غزل پر حاوی ہونا اس صنف کے نکھار میں رکاوٹ ہے۔ ہندی کی ان گنت غزلیں تو لگتی ہیں جیسے وہ اس کی ہیں ہی نہیں ، وہ اپنی سوندھی سوندھی خوشبو سے جیسے عاری ہو۔ ‘زلف’، ‘ناصح’، ‘خلوت’، ‘بیداد گر’،  ‘سوزِ درو’، ‘ذبح’ وغیرہ عربی فارسی کے لفظوں سے دب کر رہ گئی ہے۔ ان میں گڑ اور پانی کی طرح گھل مل گئے اردو کے لفظوں کا استعمال ہوتا تو بھی کچھ بات بنتی۔ چونکہ غزل اردو سے ہندی میں آئی ہے اسلئے یہ مان کر چلنا کہ جب تک اس میں اردو کے لفظ فٹ نہ ہو تب تک وہ غزل نہیں لگتی ہے، سراسر غلط ہے۔

 

غزل لکھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اردو کی لغت کو ہی قبول کر لیں۔ مانا  کہ اردو اور ہندی کے بول چال کے لفظوں کا دونوں زبانوں کے بیچ  لین دین جاری ہے لیکن اس بات سے منھ نہیں پھیرا جا سکتا ہے کہ دونوں زبانوں میں گہرا  فرق بھی ہے۔ فارسی یا اردو کے مشکل الفاظ ہندی کے ساتھ لکھنے یا سنسکرت اور ہندی کے مشکل  شبدوں کو اردو کے ساتھ لکھنا شاعری کے حسن میں رکاوٹ کھڑی کر سکتا ہے۔ ‘اپون میں نسیم بہہ رہی ہے’ یا ‘گلشن میں بیار بہہ رہی ہے۔’ لکھنا کتنا مزاحیہ محسوس ہوتا ہے!!ہندی کے کچھ غزل کار اردو زبان سے نا واقف  ہونے پر بھی ہندی غزل میں فیشن کے طور پر اردو کے مشکل لفظوں کا استعمال کرتے ہیں۔ جن اردو کے لفظوں کو اردو والے سمجھنے میں دقت محسوس کریں ، ، ان کو ہندی بھاشی لوگ کیا سمجھیں گے؟ اردو کے وہی الفاظ ہندی غزل میں لینے چاہئیے جو اس میں کھپ سکیں ، اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا سکیں اور سونے میں سہاگہ کی کہاوت کو ثابت کر سکیں۔

 

ہندی غزل کار کو لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے کے لئے غزل لکھتے وقت فارسی، سنسکرت، ہندی اور اردو کے مشکل شبدوں سے گریز کرنا چاہئیے۔ سب کی سمجھ میں آنے والے شبدوں کا استعمال وہ کرے تو ہندی غزل کے لئے بہتر ہوگا۔ خط کشیدہ الفاظ پر دھیان دیں ، کیا عام قاری ان اشعار کے مفہوم سمجھنے کے قابل ہے؟ اگر نہیں تو ایسے کٹھن شبدوں کو غزل میں استعمال کرنے کا کیا فائدہ؟

 

تہذیب و تمدن ہے فقط نام کے لئے

گم ہو گئی شائستگی دنیا کی بھیڑ میں۔۔کنور کسمیش

 

عزم کو میرے سمجھتا یہ زمانہ کیسے

زر کی میزان پہ تلتی ہے ہر اوقات یہاں۔۔خواب اکبرآبادی

 

مولیہ مانو کے سوکھلت پشورتیوں کے سامنے

اب ہردیہ پر صرف پیسوں کا ہنر حاوی ہوا ہے۔۔چندرسین وراٹ

 

ہندی کا  لغت /شبد کوش بڑا بھر پور ہے۔ اس میں ہزاروں ایسے حسین آسان شبد ہیں جو ہندی غزل (غزل کو الگ سے ہندی غزل کہنادرست  نہیں۔ غزل سے پہلے ہندی لکھنے کا میرا مقصد محض  یہی ہے کہ اس کو لکھنے والا ہندی بھاشی ہے۔ ویسے بھی جب کوئی کوی مائک پر کوئی غزل پڑھتا ہے تو وہ یہ نہیں کہتا ہے کہ وہ ہندی غزل سنانے جا رہا ہے۔) کی شکل کو ؑسن عطا کرنے کے قابل ہیں۔ آسان شبدوں میں اگر ہندی غزل لکھی جائے گی توسوال  پیدا ہی نہیں ہوتا ہے کہ وہ عوام الناس کو نہ متھ سکیں۔ اگر غزل میں عوام کی سمجھ میں آنے والےآسان  مدھر شبد آئیں گے تو وہ نہ صرف اپنی بھینی بھینی خوشبو سے عوام الناس کو مہکائے گی بلکہ اپنی الگ پہچان بھی بنائے گی۔

 

موسیقی سے رشتہ

 

غزل کا سنگیت سے گہرا سمبندھ ہے۔ ہندی شاعری تو سدا سے ہی موسیقی سے متاثر رہی ہے۔ تلسی کی چوپائی ہو یا سور یا میرا کے پد۔  ان میں سنگیت کی لہر مختلف دھاروں میں بہہ رہی ہے اور وہی سنگیت کا سوتہ مختلف دھاروں میں ہندی غزل میں بہہ سکتا ہے۔ اردو غزل کی طرح ہندی غزل کو بھی متاثر کن بنایا جا سکتا ہے۔ کٹھن کام نہیں ہے۔ اس کے لئے ہندی غزل کار کو اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا۔ فارسی اور سنسکرت یا اردو اور ہندی کے کٹھن شبدوں کا موہ تیاگنا ہوگا۔ ہندی غزل کو مقبول عام بنانے کے لئے اس کو بول چال کی لفظیات کو چننا ہوگا، مشکل پسند غزل کی وکالت کو چھوڑنا ہوگا۔ کبیر، تلسی، سور، میرا وغیرہ کے کتنے ہی پد سنتے ہی سمجھ آ جاتے ہیں ، جو سیکڑوں سال بیت جانے پر بھی عوام الناس میں رچے بسے ہیں۔

 

غزل کی سادگی کے بارے میں ایک نا معلوم  شاعر نے کہا تھا، "غزل کے اشعار ایسے ہوں جن کو سنتے ہی سامع یہ سوچے کہ ویسے اشعار تو وہ بھی آسانی سے لکھ سکتا ہے لیکن جب وہ لکھنے بیٹھے تو لکھ نہ سکے”۔ بول چال کے شبدوں میں ‘دیکھن میں چھوٹی لگے گھاؤ کرے گمبھیر’  جیسی سطریں لکھنا کتنا  کارے دارد ہے، یہ صرف لکھنے والا ہی جانتا ہے۔ ‘اب وہ گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے، مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے’ یا ‘تیرا ملنا خوشی کی بات صحیح، تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں۔’ جیسے اشعار سننے والے کے دل پر فوری اثر کرتے ہیں۔

 

یہاں یہ بتلانا ضروری ہے کہ غزل کے مطلع اور دوہے میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ اگر فرق کوئی ہے تو یہی کہ مطلع کئی بحروں میں لکھا جاتا ہے اور دوہا ایک چھند میں ہی۔ مطلع اور دوہا دونوں ہی دو مصرعوں  یا سطروں سے بنتے ہیں اور گمبھیر سے گمبھیر خیال کو سمیٹ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر ہندی میں دوہا لکھا جا سکتا ہے تو غزل کیوں نہیں لکھی جا سکتی ہے؟ ساحر لدھیانوی اور جاں نثار اختر کی ذیل کی غزلیں  بہترین ہندی غزلوں میں سے ہیں

 

سنسار سے بھاگے پھرتے ہو سنسار کو تم کیا پاؤ گے

اِس لوک کو بھی اپنا نہ سکے اُس لوک  میں بھی پچھتاؤ گے

 

یہ پاپ ہے کیا یہ پنیہ ہے کیا ریتوں پر دھرم کی مہریں ہیں

ہر یگ میں بدلتے دھرموں کو کیسے آدرش بناؤ گے

 

یہ بھوگ بھی ایک تپسیا ہے تم تیاگ کے مارو کیا جانو

اپمان رچیتا کا ہوگا رچنا کو اگر ٹھکراؤ گے

 

ہم کہتے ہیں یہ جگ اپنا ہے تم کہتے ہو جھوٹھا سپنا ہے

ہم جنم بتا کر جائیں گے تم جنم گنوا کر جاؤ گے

۔۔۔ساحر لدھیانوی

 

 

ایک تو نینا کجرارے اور تس پر ڈوبے کاجل میں

بجلی کی بڑھ جائے چمک کچھ اور بھی گہرے بادل میں

 

آج ذرا للچائی نظر سے اس کو بس کیا دیکھ لیا

پگ پگ اس کے دل کی دھڑکن اتری جائے پائل میں

 

غوری اس سنسار میں مجھ کو ایسا تیرا روپ لگے

جیسے کوئی دیپ جلا ہو گھور اندھیرے جنگل میں

 

پیار کی یوں ہر بوند جلا دی میں نے اپنے سینے میں

جیسے کوئی جلتی ماچس ڈال دے پی کر بوتل میں

۔۔۔جاں نثار اختر

 

آج کل ہندی کے سبھی چھوٹے بڑے کوی غزل  کے سمندرمیں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اور موتی ڈھونڈنے کی امید کر رہے ہیں لیکن موتی ہاتھ کیسے لگے جبکہ گہرائی تک پہنچنے کت فن  کو سیکھنے کا جتن کوئی نہیں کرتا ہے۔ عربی فارسی کے الفاظ ہندی غزل میں استعمال کرنے کا موہ تو تقریباً سب میں ہے لیکن غزل کی خصوصیات کو اپنانے سے وہ دور بھاگتے ہیں۔ اسلئے کچھ لوگوں کی یہ  بات بے بنیاد نہیں لگتی ہے کہ ہندی غزل میں وہ اثر نہیں ہے جو اردو غزل میں ہے۔

 

 

مشہور کوی رام دھاری سنگھ دنکر نے اپنے مضمون "ہندی کوتا پر اشکتتا کا دوش” (١٩٣٨ میں بیتیا کوی سمیلن کا صدارتی خطاب) میں اردو شاعری کی تعریف  کرتے ہوئے ہندی کوتا کی مقبولیت پر سوالیہ نشان لگایا تھا  "کیا سبب ہے کہ ہماری جنتا کی زبان پر ہندی کی بہ نسبت اردو کے مصرعے زیادہ آسانی سے چڑھ جاتے ہیں ؟ کیا بات ہے کہ ہمارے عہد کے نمائندہ شاعروں کے مجموعے  عوام میں وہ لہر اور جوش پیدا نہیں کرتے ہیں جس کے ساتھ اقبال اور جوش کی  شاعری اردو دنیا میں احترام پاتی رہی ہے؟”

 

اردو شاعری کی روایت ہے کہ شاگرد استاد سے پورا فائدہ اٹھاتا ہے۔ بحروں پر  قابو پانا سیکھتا ہے۔ اپنی زبان درست کرتا ہے، اس میں نکھار لاتا ہے۔ آسان اور سہل غزل کہنے کا گر سیکھتا ہے۔ لیکن ہندی غزل کار کو گرو ششیہ  روایت کا بندھن ہی قبول نہیں ہے۔ گرو ششیہ کا سمبندھ سنگیت یا ادوسری کلاؤں میں تو ہے لیکن ہندی کوتا میں نہیں۔ ہندی کوی خود ہی گرو ہے اور خود ہی ششیہ ہے۔ وہ خود کو پیدائشی عظیم شاعر  سمجھتا ہے۔ سیکھنے سے تو اس کی انا کو ٹھیس پہنچتی ہے کیوں کہ یہ اس کی فطرت، اس کے اطوار کے مطابق نہیں ہے۔ اس کے باوجود ہندی غزل کی امیج اتنی دھندلی بھی نہیں ہے کہ اسے نظر انداز ہی کر دیا جائے۔ کچھ قابل ذکر اشعار ہیں :

 

سب وقت کی باتیں ہیں سب کھیل ہے قسمت کا

بندھ جائے سو موتی ہے رہ جائے سو دانا ہے

۔۔رام پرساد بسمل

 

میرے گھر کوئی خوشی آتی تو کیسے آتی

عمر بھر ساتھ رہا درد مہاجن کی طرح

۔۔گوپالداس نیرج

 

میرے سینے میں نہیں تو تیرے سینے میں سہی

ہو کہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہئیے

۔۔دشینت کمار

 

تو نے کیسے جان لیا میں بھول گیا،

رشتوں کا اتہاس ہے میری آنکھوں میں

۔۔سوہن راہی

 

مرے ہاتھوں کی گرمی سے کہیں مرجھا نہ جائے وہ

اسی ڈر سے میں نازک پھول کو چھو کر نہیں آیا

۔۔اوشا راجے سکسینہ

 

ہلی نہ شاخ کوئی اور نہ پتیاں کانپیں

ہوا گزر گئی یوں بھی کبھی کبھی یارو

۔۔دیومنی پانڈے

 

پہاڑوں پر چڑھے تو ہانپنا تھا لازمی لیکن

اترتے وقت بھی دیکھیں کئی دشواریاں ہم نے

۔۔گیان پرکاش وویک

 

گھر اپنے کئی ہوں گے کوٹھوں کی طرح لیکن

کوٹھوں کے مقدر میں گھر اپنے نہیں ہوتے

۔۔منگل نسیم

 

آج دستک بھی ابھرتی ہے تو سناٹے سی

جیسے کوئی کسی اجگر کو چھوا کرتا ہے

۔۔۔اودھ ناراین مدگل

 

میرے دل کے کسی کونے میں اک معصوم سا بچہ

بڑوں کی دیکھ کر دنیا، بڑا ہونے سے ڈرتا ہے

۔۔۔راجیش ریڈی

 

ایسی چادر ملی ہمیں غم کی

سی ادھر تو ادھر پھٹی صاحب

۔۔سویربھانو گپت

 

کون سا ستسنگ سن کر آئے تھے بستی کے لوگ

لوٹتے ہی دو قبیلوں کی طرح لڑنے لگے

۔۔راج گوپال سنگھ

 

تم ایسے کھو گئے ہو جیسے وواہ کے دن

کھو جائے سجتے سجتے کنگن نئی دلہن کا

۔۔کنور ‘بیچین’

 

یوں بھٹکتی ہوئی ملتی ہے غریبی اکثر

جس طرح بھیڑ بھرے شہروں میں اندھا کوئی

۔۔اونکار گلشن

 

دور بیٹی ہوئی تو یاد آیا

پھل کبھی پیڑ کا نہیں ہوتا

۔۔ہستی مل ہستی

 

سب کے کہنے سے ارادہ نہیں بدلہ جاتا

ہر سہیلی سے دوپٹہ نہیں بدلہ جاتا

۔۔منور رانا

 

میں نے سورج سے کی دوستی

آنکھ کی روشنی کھو گئی

۔۔دیکشت دنکوری

 

اچھا شعر نازک خیالی، واضح بیانیہ اور مناسب بحر و زمین کے ملن کا نام ہے۔ ایک بھی کمی سے وہ بے مزااور بے معنی ہو جاتا ہے۔ محل کے اندر کی شان و شوکت باہر سےنظر آ  جاتی ہے۔ جس طرح قرینے سے اینٹ پر اینٹ لگانا تجربے کار معمار کے فن کی معراج ہوتی ہے، اسی طرح شعر میں خیالات کو حسین الفاظ اور مناسب لب و لہجے میں پرونا شاعر کے فن کی عمدگی کا اظہار کر سکتا ہے۔

جیسا میں نے پہلے لکھا ہے کہ یہ نتیجہ ملتا ہے استاذ کے آشیر واد اور ان تھک محنت سے۔ جو یہ سمجھتا ہے کہ غزل لکھنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، وہ بھول بھلیاں میں بھٹکتا رہتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اچھا شعر کہنے کے لئے شاعر کو رات بھر بستر پر کروٹیں بدلنی پڑتی ہے۔ میں نے بھی لکھا ہے

 

سوچ کی بھٹی میں سو سو بار دہتا ہے

تب کہیں جا کر کوئی اک شعر کہتا ہے

 

آسان طریقۂ اظہار

 

ہندی میں اچھی غزلیں لکھی جانے کے باوجود بہت سے ایسے اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں  جو بیانیہ کی عدم وضاحت، بحر کی نا مناسبت ، قافیہ ردیف کے غلط استعمال اور زبان سے متعلق اغلاط سے پھیکے ہیں۔ اردو غزل کی سب سے بڑی خصوصیت ہے واضح بیانیہ اور حقیقت۔ کبھی کبھی شاعر مبالغے سے بھی کام لیتا ہے تخلیق میں حسن پیدا کرنے کے لئے۔ وضاحت اور حقیقت سے شعر کا گر جانا شاعر کی سب سے بڑی خامی  مانی جاتی ہے۔ خیال چاہے کتنا بھی نازک ہو، زمین چاہے کتنی ہی مناسب اور خوب صورت ہو لیکن اظہار کے ابہام اور شعر کے غیر حقیقی ہونے سے شعر کا  قتل ہو جاتا ہے۔ شعر کو سمجھنے میں دماغ چکر کھانے لگے تو سمجھیئے کہ وقت ہی ضائع کیا۔ شاعر کے سمجھانے پر ہی شعر سمجھا گیا  تو کیا سمجھا؟  تشریح سننے میں تو اس کا  لطف ہی ختم ہو جاتا ہے۔ شاعری کا ابہام شعر کو کہیں کا رہنے نہیں دیتا ہے۔

 

اردو میں بھی کئی غیر واضح اشعار لکھے گئے پر انہیں  خارج کر دیا گیا۔ واضح شعر کے بارے میں بتانے کے لئے ذیل کی مثال دی جاتی ہے:

 

ایک شاعر نے محفل میں شعر پڑھا

 

مگس کو باغ میں جانے نہ دینا

کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا

 

شعر کو سمجھنے کے لئے سامعین نے بہت مغز پچی کی۔ کسی کے پلے کچھ نہیں پڑا۔ لگا، سب کے دماغ جواب دے گئے۔ آخر ایک نے پوچھا حضور آپ کے شعر کی بحر لاجواب ہے لیکن اس کا مضمون ہماری سمجھ کے پرے ہے۔ شاعر نے شعر کی تشریح کی اے باغبان! تو مگس (شہد کی مکھی) کو باغ میں ہرگز نہ جانے دینا، وہ گلوں کا رس چوس کر پیڑ پر شہد کا چھتہ بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس چھتے سے موم نکلے گا اور وہ شمع کی شکل اختیار کرے گا۔ جب شمع جلے گی تو بیچارہ پروانہ اس پر منڈلائے گا اور بے وجہ جل کر راکھ ہو جائے گا۔

 

اکثر مشہور شاعروں کی غزلوں میں بھی یہ خامی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مثلاً:

 

کہاں کھو گئی اس کی چیخیں ہوا میں

ہوا جو پرندہ ذبح ڈھونڈتا ہے

سنجے معصوم

 

یہ شعر بھی واضح نہیں ہے۔ شائد شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ ‘ذبح’ (قتل) ہوا پرندہ ہوا میں کھو گئی اپنی ‘چیخیں ‘ ڈھونڈ رہا ہے۔ لیکن ‘ذبح’ لفظ غلط جگہ پر آنے سے مفہوم یہی نکلتا ہے کہ وہ ذبح کی تلاش میں ہے۔

 

کچھ کمی یا بے کلی، دیوانگی سب کی رہے

کاش، دل میں درد کی آسودگی سب کی رہے

۔۔لکشمن دوبے

 

اس شعر کے دوسرے مصرعے میں واضح نہیں کہ  درد کی آسودگی رہے کہ سب کی آسودگی رہے؟

 

راج گھرانوں میں ہم نے درباری گائے نہیں کبھی

اسی لیے تو اپنے اندر بچی رہی خود داری جی

۔۔گیان پرکاش ‘وویک’

 

یہاں ‘درباری’ لفظ نے مفہوم کو گڑبڑا دیا ہے۔ راج دربار میں بیٹھنے والا  بھی  کہا جاتا ہے ‘درباری’۔ اگر غزل کار کا مطلب ‘درباری راگ’ سے ہے تو شعر کو واضح بنانے کے لئے اسے ‘درباری راگ’ لفظ کا استعمال کرنا چاہئیے۔

٭٭٭

 

 

 

 

’ہندی غزل‘ کو غزل سے مختلف صنف مانیں

 

               ویریندر جین

 

عام طور پر روایتی اردو ادب کے لوگ ہندی غزل کو حقارت کی نظر سے دیکھ ناک بھوں سکوڑتے ہیں۔ ان کے پاس غزل کو ناپنے کا جو پیمانہ ہے اس کے مطابق وہ ٹھیک ہی کرتے ہیں۔ لیکن ان کے اس ناک بھوں سکوڑنے کے بعد بھی آج ہندی غزل دودھوں نہا کر پوتوں پھل رہی ہے، ہاں رہی بات اچھی بری کی، سو بڑے سے بڑے شاعر کی بھی سبھی تخلیقات ایک جیسا معیار نہیں رکھتیں۔ اورہر زبان کے ادیبوں کے معیار میں ایسا امتیاز پایا جاتا ہے۔  آپ کسی زبان کے خراب ادب کو نمونے کے طور پر رکھ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر اس زبان میں لکھوگے تو ایسا ہی ادب برامد ہوگا۔

 

ویسے تو غزل بھارتیندو ہریش چند، میتھلی شرن گپت اور نرالا نے بھی لکھی ہیں لیکن پنڈت رگھو پتی سہائے فراق تو نرالا کو چھوڑ کر باقی کے ہندی  ادیبوں کو ماں بہن کی گالیوں کے ساتھ یاد کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اردو کی جوتیوں کے چرمرانے سے جو آواز آتی ہے وہ ہندی ہے۔ ہو سکتا ہے کسی وقت ان کی بات صحیح رہی ہو اور کھڑی بولی کسی کی مادری زبان نہ ہونے کے باعث ایسی بناوٹی زبان لگتی رہی ہو جس میں دل کی بات کرنا غیر فطری لگنے کے سبب اس کی شاعری پلاسٹک کے پھولوں جیسی لگتی ہو، لیکن کھڑی بولی والی ہندی آج لاکھوں لوگوں کی مادری زبان بن چکی ہے اور وہ اسی میں پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اسی زبان میں ہنسنے رونے لگے ہیں۔ کسی بھی زبان کے ارتقاء میں کچھ وقت تو لگتا ہی ہے۔ کھڑی بولی کو کھڑے ہوئے ابھی زمانہ ہی کتنا ہوا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ ہندی غزل ہندی کوتا کی مرکزی صنف تب ہی بن سکی جب کھڑی بولی نے لاکھوں لوگوں کے روز مرہ کی زندگی میں اپنا مقام محفوظ کر لیا۔

 

بلبیر سنگھ رنگ، رام اوتار تیاگی وغیرہ نے دشینت کمار سے بھی پہلے دیوناگری میں ہندستانی زبان کی غزلیں لکھنا شروع کر دیا تھا پر اس صنف کی ہندی غزل کے روپ میں پہچان دشینت کی  مقبولیت کے بعد اسی طرح کی غزلوں کی باڑھ آنے کے بعد ہی ہوئی۔ ایسا اسلئے بھی ہوا کیونکہ پہلی بار اس صنف کو پرانے پیمانے پر ناپ کر اسے خارج کرنے کی کوششیں ھی ہوئیں۔ ان کوششوں میں اس کی مقبولیت کو نظرانداز کیا گیا۔ کسی بھی مقبول عام صنف کو نقاد کی چھریاں مار نہیں سکتیں  لیکن کئی بار تو اس کی مقبولیت کے آگے وہ چھریاں ہی کند ہو جاتی ہیں۔ ہندی غزل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ادب کی سبھی اصنافِ سخن ترتیب وار رتقا مذہر ہوئی ہوں گی۔اور اپنے استحکام کے لئے سبھی کو پہلے پہلے ایسے ہی  رد کر دئے جانے کے تیر جھیلنے پڑے ہوں گے۔

 

یہ نئی غزل روایتی غزل کے بحر وزن ردیف قافیے مطلعے مقطع کے قانونوں کا لگ بھگ ویسے ہی توڑ رہی تھی جیسا سلوک  کہ آزاد نظم والوں نے کبھی اوزان  کا کیا تھا۔ پر ان لوگوں کی یہ تخلیقات لوگوں کو پسند آئیں و جس بحر و اوزان سے آزاد نئی کوتا نے عام ہندوستانی کو شاعری سے دور کر دیا تھا اس کی دلچسپی پھر سے کوتا کی طرف لوٹی۔ اردو کی روایتی غزل کے اصولوں کو توڑنے والوں نے بھی ناقدین کے اعتراضات کو انکساری کے ساتھ قبول کرتے ہوئے اپنی ان غزل جیسی تخلیقات  کو نیا نام دیا۔ ہندی کے مشہور گیت کار نیرج نے اسے گیتیکا کہا تو کسی مزاحیہ کوی نے اسے ہزل کا نام دیا۔ طنز نگاروں نے اسے وینغزل کہا تو کسی نے سجل۔ لیکن رسائل نے اسے دیو ناگری میں غزل مانتے ہوئے محض ہندی غزل یا غزل کا نام دے کر ہی چھاپا۔ آزاد نظم /نئی کوتا کی طرح اس کا کوئی فارم طے نہیں ہوا اور یہ ہر طرح کی شکل و صورت میں ڈھل کر سامنے آئی۔ دو ایک دوسرے سے مختلف سطروں/ مصرعوں کے پانچ سات شعر نما جوڑوں کو ہندی غزل مانا گیا۔ یہ دیوناگری میں ہندی بھاشا کے شبدوں کی بہتات والی ’غزل‘ نہیں تھی جیسیی کہ کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہے۔ یہ غزل نما وہ شعری تخلیقات ہیں جو صرف بیانیہ کی  بنیاد پر ہی اپنی کامیابی کے فارمولے کھوجنے بے سہارا کھلے میں نکل آئیں اور زندگی کا ثبوت دے رہی ہیں۔ ایسی غیر محفوظ حالت میں اس کا زندہ بنے رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس میں جن جذبات و احساسات  کے سا تھا جڑے ہونے کی طاقت ہے اور سرکاری حوصلہ افزائیاں، کتابی اشاعت  اور انعامات کے لالچی ٹکڑوں کے بنا بھی یہ اپنا وجودبچائے ہوئے ہے۔

 

دشینت کمار نے پورے وشواس کے ساتھ اس میدان  میں اپنے قدم رکھے ہوں گے۔ یہ بات نہ صرف ’سائے میں دھوپ‘ کے ان کے پیش لفظ سے ہی ظاہرہوتی ہے بلکہ ان کے لا تعداد اشعار ھی تنقیدوں کے جوابات دیتے سے لگتے ہیں۔ پیش لفظ کے اقتباسات دیکھیے

 

“کچھ اردو داں دوستوں نے کچھ اردو الفاظ کے استعمال پر اعتراض کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شبد ’شہر‘ (शहर)نہیں ہوتا ہے ’شہر‘ (शह्र) ہوتا ہے، وزن (वज़न)نہیں ہوتا ہے وزن(वज़्न) ہوتا ہے۔….کہ میں اردو نہیں جانتا لیکن ان الفاظ کا استعمال یہاں لا علمی میں نہیں، جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا کہ ’شہر‘ کی جگہ ’نگر‘ لکھ کر اس خامی سے نجات پا لوں، لیکن میں نے اردو شبدوں کو اس روپ میں استعمال کیا ہے جس روپ میں وہ ہندی میں گھل مل گئے ہیں۔۔۔۔۔ یہ غزلیں اس بھاشا میں کہی گئی ہیں، جسے میں بولتا ہوں۔۔۔۔کہ غزل کی صنف ایک بہت پرانی، لیکن قوی صنف شاعری ہے، جس میں بڑے بڑے اردو مہارتھیوں نےشاعری تخلیق کی ہے۔ ہندی میں بھی مہاکوی نرالا سے لے کر آج کے گیتکاروں اور نئے کویوں تک بے شمار کویوں نے اس صنف کو آزمایا ہے۔ لیکن اپنی صلاحیتوں اور حدود کو جاننے کے بابجود اس صنف میں اترتے ہوئے مجھے آج بھی جھجک تو ہے، پر اتنی نہیں جتنی ہونی چاہئیے تھی۔ شائد اس کا کارن یہ ہے کہ رسائل  اور مشاعروں میں  اس مجموعے کی کچھ غزلیں پڑھ کر اور سن کر مختلف ازموں(Isms)، دلچسپیوں اور گروہوں کے اہم ناموں نے اپنے خطوط، رایوں اور خیالات سے مجھے ایک خوش گوار احساسِ خود اعتمادی دیا ہے۔‘‘

 

اگر ہم دشینت کو آج کی ہندی غزل کا سفیر مانتے ہیں تو درج بالا سطروں کو اس صنف کے مآخذمان سکتے ہیں جن کے مطابق بول چال اور برتاؤ کی بھاشا کا استعمال اور اپنے بیانیہ کی  بنیاد پر اور مقبولیت ہی اس کے زندگی کے عناصر ہیں۔ ان کے ہی کچھ شعر دیکھیں

 

میں جسے اوڑھتا بچھاتا ہوں

وہ غزل آپ کو سناتا ہوں

 

دشینت کی غزلیں ایک عوامی انقلاب  کے لئے ساتھ جنتا کے ساتھ متحد ہوتی ان کے گلے سے لپٹتی غزلیں ہیں

 

مجھ میں رہتے ہیں کروڑوں لوگ چپ کیسے رہوں

ہر غزل اب سلطنت کے نام ایک بیان ہے

 

اور اس انقلاب  کے لئے غزل کے کردار کا جواز بتاتے ہوئے وہ کہہ رہے ہیں

 

صرف شاعر دیکھتا ہے قہقہوں کی اصلیت

ہر کسی کے پاس تو ایسی نظر ہوتی نہیں

 

وہ محض انفرادی درد تک محدود غزل کے شاعر نہیں ہیں بلکہ  ان کی اوڑھنے بچھانے والی غزلیں ہواؤں میں گھل کر بھی سانسوں کے ذریعہ زندگی کے ساتھ ملتی ہیں

 

جن ہواؤں نے تجھ کو دلرایا

ان میں میری غزل رہی ہوگی

 

ان کی غزلیں اونگھے ہوئے لوگوں کو جگانے کے لئے بھی کام کرتی ہیں

 

اب تڑپتی سی غزل کوئی سنائیں

ہم سفر اونگھے ہوئے ہیں ان منے ہیں

 

ان کی غزلیں فارم کی جکڑ بندی کو توڑ کر آزاد روپ سے برتاؤ کرنا چاہتی ہے کیونکہ صرف ہنگامہ کھڑا کرنا ان کا مقصد نہیں ہے بلکہ وہ صورت  حال بدلنا چاہتے ہیں اس لئے کہتے ہیں کہ

 

جس طرح چاہو بجاؤ اس سبھا میں

ہم نہیں ہیں آدمی، ہم جھنجھنے ہیں

 

وہ پرانے غزل کاروں پر طنز کرتے ہوئے نئے لوگوں کو ہوشیار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ

 

اس دل کی بات کر تو سبھی درد مت انڈیل

اب لوگ ٹوکتے ہیں غزل ہے کہ مرثیہ

 

ہندی غزل کے بابا آدم کے یہ سیدھے مکالمہ کرتے اشعار ہندی غزل کی ابتدا ہیں جو اسے پرانی غزل سے الگ کرتے ہوئے ایک نئی صنف کا روپ دیتے ہیں بھلے ہی وہ کسی بھی رسم الخط میں لکھی گئی ہو۔

٭٭٭

 

 

 

ہندی غزل کے نئے پڑاؤ

دشینت کمار کی غزوں کے حوالے سے

 

               ڈاکٹر سیوارام ترپاٹھی

 

غزل فارسی اردو میں شاعری کی ایک صنف ہے جس کا خاص موضوع  عشق ہوتا ہے۔ غزل کی بناوٹ  کے بارے میں لکھا گیا ہے   "اکثر غزل کے پہلے شعر کے دونوں مصرعے ایک ہی "قافیہ” اور ردیف میں ہوتے ہیں۔ ایسے شعر کو ‘مطلع’ کہتے ہیں۔ آخر میں جس شعر میں شاعر کا نام یا تخلص ہو، وہ ‘مقطع’ کہلاتا ہے۔

 

غزل اردو شاعری کا سب سے زیادہ قبول روپ ہے۔ اسی مقبولیت کے سبب غزل لکھنے والوں نے ‘مشاعروں’ کا انعقاد کیا، جس میں تمام شعراء اپنی اپنی غزلیں سناتے تھے۔ اس طرح ایک روایت چل پڑی، جس کا چلن آج بھی بہت ہے۔ دراصل غزل بہت مقبول صنف ہے۔ اس کا پہلا شعر ستھائی اور باقی سبھی اشعار انترے کے روپ میں جانے جاتے ہیں۔ جن راگوں میں ٹھمری اور ٹپے  گائے جاتے ہیں، انہیں راگوں کا پر یوگ غزلوں کے گائے جانے میں بھی ہوتا ہے۔

 

راگ کے پکے پن کا غزلوں کی گائیکی میں زور نہیں ہیں۔ آج کل غزل گائیکی اپنی بلندیوں پر ہے۔ اسی سے اس کی ،قبولیت کا پتہ چلتا ہے۔غزلوں کی روایت میں نصرتی، سراج، ولی، شاہ حاتم، شاہ مبارک، محمد شاکر ناجی سے لے کر میر تقی میر، انشا، مصحفی، ناسخ ، مومن، ذوق، غالب، آتش، حالی، داغ، امیر مینائی، جلال، فانی، حسرت، اثر لکھنوی، جگر اور فراق گورکھ پوری تک بے شمار تخلیق کار ہیں۔ میر نے لکھا ہے

پتّہ، پتّہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے

 

میری سمجھ میں ہندی غزل یا فارسی یا اردو غزل کہنا بے معنی ہے، کیونکہ ستمام غزلوں میں ہماری مکمل زندگی بولتی ہے۔ غزل، غزل ہے، اس میں بھید نہیں کیا جانا چاہئیے اور نہ الگ الگ خانے بنانے کی ضرورت ہے۔ بہرحال ہندی میں جو غزل لکھی جا رہی ہیں، انہیں اردو شعراء قبول نہیں کر پا رہے۔ اس میں میٹر اور ناپ جوکھ کی دیواریں ہیں۔ اسلیے دیوناگری میں لکھی جا رہی غزلوں کو ہندی میں غزل کہنے یا ماننے کی ایک لچر روایت کا ارتقا ہو رہا ہے، لیکن یہ مسئلہ باہری ہے اور ایک طرح بے  معنی بھی ہے۔ کسی بھی زبان کی مقبول عام صنف کے سامنے کبھی کوئی رکاوٹ آڑے نہیں آتی۔ غزل کی ہم جب بھی بات کرتے ہیں، اردو کا نام ضرور آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اب غزل عاشق معشوق کے تکرار و  اقرار اور حسن اور عشق کا معاملہ نہیں ہیں۔

 

اردو میں بھی یہ بندھن ٹوٹے ہیں، ہندی میں تو کہنا ہی کیا؟ فراق گورکھ پوری کے الفاظ میں   "دراصل غزل کی انفرادی محسوسات کی بنیاد اتنی کمزور نہیں تھی جتنا اوپر سے دیکھنے پر معلوم ہوتی تھی۔ محبت کا جذبہ اتنا ہی فطری ہے جتنی بھوک اور پیاس۔ کوئی شخص محب ملک و وطن ہو یا باغی، ہندو ہو یا مسلمان، قدامت پسند ہو یا ترقی پسند، ہر ایک کو بھوک، پیاس اور نیند ایک سی لگتی ہے۔ اردو شاعری کے پیچھے تصوف کی وہ قوی روایت تھی جسے نہ مذہبی رسومات دبا سکیں، نہ زمانے  کے بہاؤ  نے جس کی دھار کو کند کیا۔” (اردو بھاشا اور ساہتیہ، پرشٹھ ٢٧٠)

ہندی غزل اگر  کہنا ہی ہے تو ہندی غزل اب وہ صنف  ہے، جس میں حسن اور عشق کی چاشنی ہی نہیں ہے، بلکہ غزل وہ ہیں جس میں ہماری تکلیفوں، مسئلوں اور جد و جہد بھری زندگی کے مکمل  فلسفے، واقعات اور حقیقتیں تو شامل ہی ہیں ساری  کائنات کا حسن، خوشبو، رنگ، اور تاثیریں یکساں ہو گئی ہیں۔

 

ہندی میں غزل لکھنے کی روایت بھارتیندو  ہریش چندر سے شروع ہوتی ہے۔ ان کی بھاشا کھڑی بولی ہے جو اردو کے نزدیک ہے۔ نرالا، ترلوچن، شمشیر اور دشینت کئی ایسے نام ہیں، جنہوں نے غزلوں میں ان گنت  رنگ بھرے ہیں۔ دراصل ہندی غزل کے مختلف پڑاؤ ہیں۔ ایک زمانے میں نرالا نے غزلوں کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ اندازِ بیاں، کہنے میں بھلے ہی یہ اردو کی نزاکت نہ پیش کر پائے ہوں، لیکن موضوع، سماج کا دکھ درد اپنی خوبصورتی کے ساتھ مکمل روپ سے ان کی غزلوں میں ملتا ہے۔ نرالا نے غزلیں محض تجرباتی طور پر ہی نہیں کہیں۔ یہاں یہ بھی دھیان دینے کی بات ہے کہ کوئی بھی تخلیق  اپنے عہد سے باہر نہیں ہوتی۔ غزل جیسی مقبول عام صنف میں اپنے عہد کی پیچیدگیوں کو، ہندوسرانی سیاست کے کھوکھلے پن اور عام آدمی کی تکلیف اور زمانے کی اٹھا پٹک کو ہندی غزلوں میں درج کیا گیا۔ نرالا کی غزلوں کے دو نمونے دیکھیں —

 

آج من پاون ہوا ہے

جیٹھ میں جیوں ساون ہوا ہے۔

 

ہنسی کے تار ہوتے ہیں یہ بہار کے دن

ہردیہ کے ہار کے ہوتے ہیں یہ بہار کے دن

 

ونے دوبے کا ماننا ہے کہ "غزل اپنی چمک دمک اور اندازِ بیاں کے ساتھ ہندی کوتا کے منچ پر آئی اور تمام بد تمیزیوں اور فحاشیوں کے بیچ بھی اپنی مہذب شناخت کے ساتھ جگہ بنانے کی کوشش کی اور جگہ بنائی بھی۔ اسی بیچ رسائل میں بھی غزلیں اچھی خاصی تعداد میں چھپنے لگیں۔ کچھ گمبھیر اور مشہور ادیبوں نے غزل کے تئیں مہذب رخ اختیار کیا۔ ان میں شلبھ شری رام سنگھ، شیر جنگ گرگ، عدم گونڈوی، رام کمار کرشک، ونود تیواری، ظہیر قریشی، مہیش اگروال وغیرہ کویوں کا نام لیا جا سکتا ہے، لیکن ہندی غزل جیسی کسی چیز کے پچڑے میں یہ کوی نہیں پڑے۔ اس سے قبل نرالا، ترلوچن، شمشیر، دشینت  وغیرہ بڑے بڑے کویوں نے بھی غزلیں لکھیں، لیکن وہ بھی غزلیں ہی رہیں اور نہ ہی ان تخلیق کاروں نے انہیں ہندی غزل کہا۔ بھلا ترلوچن اور شمشیر کی اردو  یا ہندی کے بارے میں کوئی سوال اٹھا سکتا ہے۔” (اگنی پتھ غزل وشیشانک)

 

ہندی غزل کئی پڑاؤوں سے ہو کر گزری ہے اور یہ سفر ابھی بھی جاری ہے۔ رمیش رنجک کی غزلوں میں بڑا تیکھا پن اور قاتل لہجہ ملتا ہے۔ جیسے

تھم جا آدم خور زمانے

دنیا بھر کے چور زمانے

یہ تیری سرمایہ داری

ہم دیں گے جھک جھور زمانے

 

غزلیں کئی بحروں کی ہوتی ہے۔ ان کی شکل صورت میں بھی اکثر فرق ہوتا ہے۔ جیسے

اس قدر وقت کی مارا ماری ہوئی

زندگی کچھ نقد کچھ ادھاری ہوئی

 

دن رات اونٹا ہیں ہم نے پسینہ

پھر بھی حالت نہ بہتر ہماری ہوئی

 

ہندی میں غزل کی روایت ایک لمبے عرصے سے ہے، یہ دشینت کمار ہی ہے۔ جن کی غزلوں کی اشاعت کے بعد پورا ہندی سنسار غزلوں سے بھر ہو گیا۔ دشینت نے لکھا بھی ہے کہ "ادھر بار بار مجھ سے یہ سوال پوچھا گیا ہے اور یہ کوئی بنیادی سوال نہیں ہیں کہ میں غزلیں کیوں لکھ رہا ہوں؟ یہ سوال کچھ ایسا بھی ہے جیسے بہت دنوں تک کوٹ پتلون والے آدمی کو ایک دن دھوتی کرتے میں دیکھ کر آپ اس سے پوچھیں کہ تم دھوتی کرتا کیوں پہننے لگے؟ میں محسوس کرتا ہوں کہ کسی بھی کوی کے لئے کوتا میں ایک شیلی سے دوسری شیلی کی طرف جانا کوئی ان ہونی بات نہیں، بلکہ یہ ایک فطری رد عمل ہے، مگر میرے لئے بات صرف اتنی نہیں ہے۔ صرف پوشاک یا شیلی بدلنے کے لئے میں نے غزلیں نہیں کہیں۔ اس کے کئی اسباب  ہیں، جن میں سب سے اہم یہ  ہے کہ میں نے اپنی تکلیف کو، اس شہید تکلیف کو، جس سے سینہ پھٹنے لگتا ہے، زیادہ سے زیادہ سچائی اور  تکمیل کے ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لئے غزلیں کہیں ہیں۔” وہ آگے لکھتے ہیں کہ   "زندگی میں کبھی کبھی ایسا دور بھی آتا ہے جب تکلیف گنگناہٹ کے راستے باہر آنا چاہتی ہے۔ اس دور میں پھنس کر غمِ جاناں اور غمِ دوراں تک ایک ہو جاتے ہیں۔ یہ غزلیں دراصل ایسے ہی ایک دور کی دین ہیں۔” (سائے میں دھوپ، پرشٹھ ٣٦)

 

میں نے ابتدا میں ہی اس حقیقت کا اظہار کیا تھا کہ آج جو غزل لکھی جا رہی ہے، اس میں محبت تو ہے ہی۔ ہمارے زمانے اور زندگی کی تلخی اور کڑواہٹیں کہیں زیادہ ہیں۔ دشینت نے ایک شعر میں کہا ہے

جس کو میں اوڑھتا بچھاتا ہوں

وہ غزل آپ کو سناتا ہوں

ہندی غزلوں کی اس خاص پہچان اور سمت کی روشنی میں ہی ہم غزلوں کی حقیقت پہچاننے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ دشینت نے اپنے  خود نوشت بیان میں اس بات کو قبول کیا ہے کہ "غزل مجھ پر نازل نہیں ہوئی۔ میں پچھلے پچیس سالوں سے اسے سنتا اور پسند کرتا آیا ہوں اور میں نے کبھی چوری چھپے اس میں ہاتھ بھی آزمایا ہے، لیکن غزل لکھنے یا کہنے کے پیچھے ایک تجسس آ کر مجھے تنگ کرتا رہا ہے اور وہ یہ کہ ہندوستانی کویوں میں سب سے قوی محسوسات کے شاعر  غالب نے اپنے درد کے اظہار کے لئے غزل کا میڈیم ہی کیوں چنا؟ اور اگر غزل کے میڈیم سے غالب اپنی نجی تکلیف کو اتنا عوامی بنا سکتے ہیں تو میری دہری تکلیف (جو  انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی) اس میڈیم کے سہارے ایک  نسبتاً وسیع قارئین کے حلقے تک کیوں نہیں پہنچ سکتی؟” (سائے میں دھوپ، صفحہ ٣٦)

 

دشینت کے بیانوں سے یہ تو ثابت  ہوتا ہی ہے کہ غزل اپنا پرانا محور اور اپنے کردار کو چھوڑ کر زمانے کے جلوس میں شامل ہے  کبھی بہادر شاہ ظفر نے اپنی تکلیف کو اس طرح بیان کیا تھا

لگتا نہیں ہیں دل میرا اجڑے دیار میں

کس کی بنی ہیں عالمِ نا پائدار میں

اس سے ظاہر ہے کہ غزلوں میں صرف عشق ، اس دنیا کے پیار محبت کا ہی بیان ہو سکتا ہے، یہ مان لینا  پر فریب ہے۔ اور بھی موضوعوں کی گفتگوئیں اور مکمل باتیں اس صنفِ سخن میں ہو سکتی ہیں۔ در حقیقت کوئی صنفِ سخن کسی مخصوص جذبے کے اظہار کے لئے ہی ہو سکتی ہے، یہ ماننا ہی  نا واقفیت کا ثبوت ہے۔

دشینت نے اپنی ایک غزل کے شعر میں کہا ہے

مجھ میں رہتے ہیں کروڑوں لوگ چپ کیسے رہوں

ہر غزل اب سلطنت کے نام ایک بیان ہے

 

خارجی سلوک اور اندرونی اتھل پتھل کا ربط شاعر سمجھ سکتا ہے، قاعی یا سامع نہیں ۔ غزل کے بارے میں دشینت کا جو خیال ہے، وہ ان  تین اشعار میں دیکھیں

صرف شاعر دیکھتا ہے قہقہوں کی اصلیت

ہر کسی کے پاس تو ایسی نظر ہوتی نہیں

 

جن ہواؤں نے تجھ کو دلرایا

ان میں میری غزل رہی ہوگی

 

جب تڑپتی سی غزل کوئی سنائے

ہم سفر اونگھے ہوئے ہیں، ان منے ہیں

 

دشینت کی غزلوں کا مجموعہ ‘سائے میں دھوپ’ آیا تو اس کا پر زور سواگت ہوا کیونکہ اس میں ہمارے زندگی کے فرسٹیشن ، فریب ، حقیقتیں، اختلافات اور جان لیوا  حالات کو بخوبی خط کشیدہ کیا گیا ہے۔ چند نمونے اس طرح ہیں:

یہاں تو صرف گونگے اور بہرے لوگ بستے ہیں

خدا جانے یہاں پر کس طرح جلسہ ہوا ہوگا

 

جس طرح چاہو بجاؤ اس سبھا میں

ہم نہیں ہیں آدمی، ہم جھنجھنے ہیں

 

زندگانی کا کوئی مقصد نہیں ہے

ایک بھی قد آج آدم قد نہیں ہے

 

روز جب رات کو باہر کا غدر ہوتا ہے

یاتناؤں کے اندھیرے میں سفر ہوتا ہے

 

ہو گئی ہے پیر پربت سی، پگھلنی چاہئیے

اس ہمالیہ سے کوئی گنگا نکلنی چاہئیے

 

کہاں تو طے تھا چراغاں ہر ایک گھر کے لئے

کہاں  کہ روشنی میسر نہیں شہر کے لئے

 

دشینت ایسے پہلے غزل کار ہیں، جو ہمارے زمانے کو، اس کے چیلینجوں کو بہت کھلی اور چبھتی ہوئی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ساتھ ہی بہت تڑپتے ہوئے انداز میں اسے پیش کرتے ہیں

میں بے پناہ اندھیروں کو صبح کیسے کہوں

میں ان نظاروں کا اندھا تماش بین نہیں

 

کی  غیر اخلاقی ، کرپٹ اور موقع پرستی کی ذہنیتوں کے سبب کوی کے من میں پیدا ہونے والا اضطراب، مایوسی، بے چینی جیسے جذبات ہی غزل کے ایک ایک شعر میں جھلکتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اپنی غزلوں کو اسی روپ کو قبول کرتے ہوئے خود دشینت نے لکھا ہے

 

اس دل کی بات کر تو سبھی درد مت انڈیل

اب لوگ ٹوکتے ہیں غزل ہے کہ مرثیہ

 

دشینت نے ایک ہی طرح کی غزلیں نہیں کہیں، اس کے رنگ  بے شمار ہیں۔ ان کی کچھ غزلوں میں رومانیت بھی قرینے سے آئی ہے۔ جیسے

 

تم کسی ریل سی گزرتی ہو

میں کسی پل سا تھرتھراتا ہوں

 

ایک دوسرا رنگ یہ بھی ہے

 

صرف ہنگامہ کھڑا کرنا میرا مقصد نہیں

میری کوشش ہے یہ صورت بدلنی چاہئیے

 

دوسرا رنگ یہ بھی ہے

 

اس ندی کی دھار میں ٹھنڈی ہوا آتی تو ہے

ناؤ جرجر ہی سہی ، لہروں سے ٹکراتی تو ہے

 

ایک چنگاری کہیں سے ڈھونڈ لاؤ دوستو

اس دئیے میں تیل سے بھیگی ہوئی باتی تو ہے

 

دشینت  سے قبل اور ان کے زمانے میں جو غزلیں لکھی جا رہی تھیں، ان میں بھی ہمارا عہد مستعدی سے موجود ملتا ہے۔ نمونے کے طور پر ان غزلوں کے کچھ نمونے پیش ہیں۔ اس سے ہندی غزل کے ارتقاء اور تیور کا پتہ چلتا ہے۔ ترلوچن کا ایک شعر ہے

 

ٹھوکریں در بدر کی تھیں ہم تھے

کم نہیں ہم نے منھ کی کھائی ہیں

 

شمشیر کی غزل کے دو شعر پیش ہیں

 

زمانے بھر کا کوئی اس قدر اپنا نہ ہو جائے

کہ اپنی زندگی خود آپ کو بیگانہ ہو جائے

 

سحر ہوگی یہ شب بیتے گی اور ایسی سحر ہوگی

کہ بیہوشی ہمارے دیش کا پیمانہ ہو جائے

 

ایسی حالت میں کیا کیا جائے

پورا نقشہ بدل دیا جائے

 

دیش کا کلیش مٹے اس خاطر

پھر نئے طور سے جیا جائے

 

ہندی غزل میں عدم گونڈوی کی حیثیت بہت  اہم ہے۔ وہ چیزوں کو آر پار دیکھنے والوں میں سے ہیں، جیسے

وید میں جن کا حوالہ حاشیے پر بھی نہیں

وہ ابھاگے، آستھا، وشواس لے کر کیا کریں

 

لوکرنجن ہو یہاں شمبوک ودھ کی آڑ میں

اس ویوستھا کا گھرنت اتہاس لے کر کیا کریں

 

ان کی ایک غزل اس دور میں بہت مشہور ہوئی ہے۔

 

کاجو کی بھنی پلیٹ، وہسکی گلاس میں

اترا ہے رام راج ودھایک نواس میں

 

ہندی میں غزلیں خوب لکھی جا رہی ہیں اور خوب چھ بھی  رہی ہیں اور پڑھی بھی جا رہی ہیں۔ ادھر غزل گائیکی کی مقبولیت نے ہندی غزل کی  ترقی لے ضمن میں ہم کو مطمئن کیا ہے۔ غزل رومانی  روایت سے شروع ہوئی، لیکن اس کے ترقی کے سفر نے ہمیں زمانے کے دکھ سکھ کے ساتھ شامل کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ غزل اب ہمارے اور ہمارے زمانے کے ساتھ ہے۔

 

ہندی غزل کی روایت میں نت نئی آوازیں ابھر رہی ہیں۔ نئے معیارات بھی بن رہے ہیں۔ ان کے کئی رنگ ہیں، کئی مزاج ہیں اور کئی تاثیریں ہیں۔ ان غزلوں نے ہمارے زمانے کے پورے حوالوں کو سمیٹ لیا ہے۔ نریندر کمار نے اپنی ایک غزل میں ایک ایسے سچ کو اجاگر کیا ہے، جس کا آمنہ سامنا ہم مسلسل کرتے رہے ہیں

 

اب کبوتر اڑا کر کیا کرو گے رہبرو

ہو گئی ٹوٹا ہوا اک پیار اپنی زندگی

 

ہر طرف کرفیو کا ساماں موت کا پہرہ لگا

بن گئی جلتا ہوا بازار اپنی زندگی

 

ایک نے مندر اچھالا ایک نے مسجد کا نام

خوب کھائی پتھروں کی مار اپنی زندگی (ورتمان ساہتیہ، مارچ ١٩٩٢(

 

سیاست کی مکاریوں، اس کے فریبوں کو گیان پرکاش وویک کچھ اس طرح  بیان کرتے ہیں

 

سورج سے ہم بچے تو جگنو سے جل گئے ہیں

جن پر کیا بھروسہ وہ لوگ چھل گئے ہیں

 

سیاسی شہر میں تو آ گیا ہے تو سن لے

وجود تیرا یہاں اشتہار سا ہوگا (ورتمان ساہتیہ، ستمبر ٩٠)

 

عشق کی وسعت اور چاہت کو پریہ درشی ٹھاکر کچھ اس طرح درج کرتے ہیں

 

میں تمہاری آرزو میں سخت گھائل ہو گیا

اس قدر چاہا تمہیں  کہ نیم پاگل ہو گیا

 

ریت کا انبار راتوں رات دلدل ہو گیا

کوئی رویا اس طرح صحرا بھی جل تھل ہو گیا (ہنس، جولائی ١٩٩٤)

 

شہائے اشرف کی نازک خیالی اس شعر میں دیکھیں

 

کیا بدن ہے کہ بہاروں میں پلا ہو جیسے

اس قدر نرم کہ خوابوں میں ڈھلا ہو جیسے

٭٭٭

 

 

 

ہندی ادب سے اقتباسات

 

۔۔۔۔۔

یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ غزل اردو سے ہندی میں آئی  لیکن ادبی تاریخ کا آزادانہ مطالعہ اس نظریئے کو غلط قرار دیتا ہے۔ اصل میں  کھڑی بولی ہندی کی شاعری کی تاریخ  امیر خسرو کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔ لگ بھگ سبھی جانے مانے تقاد اور محققین نے امیر خسرو کو ہندی کا پہلا غزل گو قرار دیا ہے۔ کئی  ماہرین امیر خسرو کی اس غزل کو ہی ہندی کی پہلی غزل مانتے ہیں

 

جب یار دیکھا نین بھر دل کی گئی چنتا اتر،

ایسا نہیں کوئی عجب راکھے اسے سمجھائے کر

 

امیر خسرو کے بعد مطلعے اور مقطع کے ساتھ بحر کی پابندی میں غزل کبیر کی تخلیقات میں ملتی ہے

 

ہمن ہیں عشق مستانہ ہمن کو ہوشیاری کیا،

رہے آزاد یا جگ میں ہمن دنیا سے یاری کیا

 

کبیرہ عشق کے مطلب دئی کو دور کر دل سے،

جو چلنا راہ نازک ہے ہمن سر بوجھ بھاری کیا۔

ڈاکٹر ‘امبر’

 

 

یہ کوئی بڑا سوال نہیں ہے، جس پر بحث کی جائے۔ ہندی غزل سے مطلب ہندی کے کویوں کے ذریعے لکھی یا کہی غزل ہے۔ جیسے اردو غزل، اردو کہانی، بنگلہ ناٹک، اڑیا کوتا، مراٹھی غزل۔ چونکہ غزل عربی فارسی سے ہوتی ہوئی اردو میں اور پھر ہندی میں آئی ہے، اسلئے اسے پہچان کے لئے ہندی غزل ہی کہا جائے۔ہندی غزل کی زبان  خالص "تت سم ” الفاظ والی ہی ہو، اس بات کو میں نہیں مانتا۔ غزل گیت سے زیادہ کومل صنف ہے اور اس کی مقبولیت کا اصل سبب زبان کی آسانی ہی رہا ہے۔ یہ صرف پڑھی جانے عالی صنف نہیں بلکہ سننے والی صنف بھی ہے اور اپنے مختصر روپ میں  رنگین تجربوں ، عصری محسوسات کے خوبصورت اظہار کے سبب آسانی سے یاد رکھے جانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے، اسلئے اس کی بھاشا  کتابی نہ ہوکر زندگی اور برتاؤ سے جڑی ہونی ہونی چاہئیے۔”

ادے پرتاپ سنگھ

 

غزل ہندی اور اردو بھاشا کی بے حد مقبول صنفِ شاعری ہے۔ غزل جو کہ کبھی زلفوں کے پیچ و خم اور گھنگھروؤں کی تھرکن میں بہت لمبے عرصے تک قید رہی، وہ اب ان سے پوری طرح آزاد ہو کر بھیڑ بھرے چوراہوں پر آ کر کھڑی ہو گئی ہے۔ آج کی غزل سیاسی بے نیازی، خود غرضی، تنگ نظری، بے اقداری، نراج، بھرشٹاچار اور دہشت گردی  وغیرہ کو بڑے ہی علامتی انداز میں پیش کر رہی ہے۔ کوی سمیلنوں اور مشاعروں میں آج غزل بہت سنی اور سراہی جاتی ہے۔ تعلیم یافتہ ہو یا جاہل، عام آدمی کے پاس پہنچنے کے لئے جس زبان اور جن احساسات کی ضرورت ہے، وہ سب آج کی غزل ہمیں دے رہی ہے۔ آج کی غزل اس کھائی کو پاٹنے کے لئے زبان کی ایک ایسی شکل  گھڑ رہی ہے جو ہندی اور اردو سے الگ، صرف محبت کی زبان کہی جا سکتی ہے۔

گوپال داس ‘نیرج’

 

ادھر بار بار مجھ سے یہ سوال پوچھا گیا ہے اور یہ کوئی بنیادی سوال نہیں ہیں کہ میں غزلیں کیوں لکھ رہا ہوں؟ یہ سوال کچھ ایسا بھی ہے جیسے بہت دنوں تک کوٹ پتلون والے آدمی کو ایک دن دھوتی کرتے میں دیکھ کر آپ اس سے پوچھیں کہ تم دھوتی کرتا کیوں پہننے لگے؟ میں محسوس کرتا ہوں کہ کسی بھی کوی کے لئے کوتا میں ایک شیلی سے دوسری شیلی کی طرف جانا کوئی ان ہونی بات نہیں، بلکہ یہ ایک فطری رد عمل ہے، مگر میرے لئے بات صرف اتنی نہیں ہے۔ صرف پوشاک یا شیلی بدلنے کے لئے میں نے غزلیں نہیں کہیں۔ اس کے کئی اسباب  ہیں، جن میں سب سے اہم یہ  ہے کہ میں نے اپنی تکلیف کو، اس شہید تکلیف کو، جس سے سینہ پھٹنے لگتا ہے، زیادہ سے زیادہ سچائی اور  تکمیل کے ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لئے غزلیں کہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔ زندگی میں کبھی کبھی ایسا دور بھی آتا ہے جب تکلیف گنگناہٹ کے راستے باہر آنا چاہتی ہے۔ اس دور میں پھنس کر غمِ جاناں اور غمِ دوراں تک ایک ہو جاتے ہیں۔ یہ غزلیں دراصل ایسے ہی ایک دور کی دین ہیں۔

۔۔دشینت کمار

٭٭٭

 

 

 

 

 

انتخاب

 

               انتخاب  کنندہ: مدھر نجمی، اعجاز عبید وغیرہ

 

آنگن آنگن بکھرے منظر ملتے ہیں

گھر کے بھیتر بھی کتنے گھر ملتے ہیں

انرودھ سنہا

 

آج جو ہنس کر ملا کل اس کا تیور اور ہو

یہ نہ ہو منظر کے پیچھے کوئی منظر اور ہو

منوج ابودھ

 

اندھیرا ہے تو کیوں گہرا نہیں ہے

اجالا ہے تو کیوں دکھتا نہیں ہے

اشوک شرما

 

کچھ اور اب سنائی نہیں دے رہا مجھے

پہنی ہے جب سے آپ کی آواز کان میں

میناکشی ججیوشا

 

زمیں چل رہی ہے لگاتار چالیں

سمجھ سوچ کر گھر کی بنیاد ڈالیں

ڈاکٹر  مدھر نجمی

 

میری آنکھیں چلی گئیں جب سے

میں نے دنیا کو کان سے دیکھا

ظہیر قریشی

 

کچھ لینے کی ضد مت کرنا

پاپا میلہ دکھلا دیں گے

دیکشت دنکوری

 

آدھی صدی کاٹ دی اس نے کھا کر چنا چبینا جی

محنت اس کی، موج تمہاری، یہ اب اور چلے نا جی

ڈاکٹر وید پرکاش ‘امیتابھ’

 

مصالحت کے لئے دشمنوں کے گھر بھی گئے

جدھر کبھی نہیں جاتے تھے ہم ادھر بھی گئے

عارف سکندر

 

رہو تو وقت کے سینے پہ دستخط کر دو

یہ کیا ہوا کہ رہے بھی تو حاشیوں کی طرح

رام بابو رستوگی

 

میرے سینے میں نہیں تو تیرے سینے میں سہی

ہو کہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہئیے

دشینت کمار

 

مجھ کو اس وید کی ودیا پہ ترس آتا ہے

بھوکھے لوگوں کو جو صحت کی دوا دیتا ہے

نیرج

 

تمہارے دل کی چبھن بھی ضرور کم ہوگی

کسی کے پاؤں سے کانٹا نکال کر دیکھو

ڈاکٹر کنور بیچین

 

بیٹیاں جب سے بڑی ہونے لگی ہیں میری

مجھ کو اس دور کے گانے نہیں اچھے لگتے

ارملیش

 

مرے دل کے کسی کونے میں اک معصوم سا بچہ

بڑوں کی دیکھ کر دنیا بڑا ہونے سے ڈرتا ہے

راجیش ریڈی

 

شام ہونے کو ہے بیچارہ کہاں جائے گا؟

بوڑھے برگد سے پپیہے کو اڑاتے کیوں ہو

ادے پرتاپ سنگھ

 

کیسی مشکل میں پڑ گیا ہوں میں

اپنے درپن سے لڑ گیا ہوں میں

سوم ٹھاکر

 

یہ سیاست کی طوائف  کا دوپٹہ ہے

یہ کسی کے آنسوؤں سے تر نہیں ہوتا

ڈاکٹر شوؤم ‘امبر’

 

امڈتے آنسؤں کو آنکھ ہی پی لے تو بہتر ہے

ہمیشہ آنسوؤں کی پہنچ میں آنچل نہیں ہوتا

پروفیسر نند لال پاٹھک

٭٭٭

 

 

 

ہندی غزلیں: دشینت کمار

 

 

لفظ احساس سے چھانے لگے، یہ تو حد ہے

لفظ معنی بھی چھپانے لگے، یہ تو حد ہے

 

آپ دیوار اٹھانے کے لئے آئے تھے

آپ دیوار اٹھانے لگے، یہ تو حد ہے

 

خامشی شور سے سنتے تھے کہ گھبراتی ہے

خامشی شور مچانے لگے، یہ تو حد ہے

 

آدمی ہونٹ چبائے تو سمجھ آتا ہے

آدمی چھال چبانے لگے، یہ تو حد ہے

 

جسم پہناؤوں میں چھپ جاتے تھے، پہناؤوں میں

جسم ننگے نظر آنے لگے، یہ تو حد ہے

 

لوگ تہذیب و  تمدن کے سلیقے سیکھیں

لوگ روتے ہوئے گانے لگے، یہ تو حد ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ایک گڑیا کی کئی کٹھ پتلیوں میں جان ہے

آج شاعر یہ تماشا دیکھ کر حیران ہے

 

خاص سڑکیں بند ہیں تب سے مرمت کے لئے

یہ ہمارے وقت کی سب سے صحیح پہچان ہے

 

ایک بوڑھا آدمی ہے ملک میں یا یوں کہو

اس اندھیری کوٹھری میں ایک روشن دان ہے

 

مصلحت آمیز ہوتے ہیں سیاست کے قدم

تو نہ سمجھے گا سیاست، تو ابھی نادان ہے

 

اس قدر پابندیِ  مذہب کہ صدقے آپ کے

جب سے آزادی ملی ہے، ملک میں رمضان ہے

 

کل نمائش میں ملا وہ چیتھڑے پہنے ہوئے

میں نے پوچھا نام تو بولا کہ ہندوستان ہے

 

مجھ میں رہتے ہیں کروڑوں لوگ چپ کیسے رہوں

ہر غزل اب سلطنت کے نام ایک بیان ہے

٭٭٭

 

 

یہ سارا جسم جھک کر بوجھ سے دہرا ہوا ہوگا

میں سجدے میں نہیں تھا آپ کو دھوکا ہوا ہوگا

 

یہاں تک آتے آتے سوکھ جاتی ہیں کئی ندیاں

مجھے معلوم ہے پانی کہاں ٹھہرا ہوا ہوگا

 

غضب یہ ہے کہ اپنی موت کی آہٹ نہیں سنتے

وہ سب کے سب پریشاں ہیں وہاں پر کیا ہوا ہوگا

 

تمہارے شہر میں یہ شور سن سن کر تو لگتا ہے

کہ انسانوں کے جنگل میں کوئی ہانکا ہوا ہوگا

 

کئی فاقے بِتا کر مر گیا جو، اس کے بارے میں

وہ سب کہتے ہیں اب، ایسا نہیں،ایسا ہوا ہوگا

 

یہاں تو صرف گونگے اور بہرے لوگ بستے ہیں

خدا جانے وہاں پر کس طرح جلسہ ہوا ہوگا

 

چلو، اب یادگاروں کی اندھیری کوٹھری کھولیں

کم از کم ایک وہ چہرہ تو پہچانا ہوا ہوگا

٭٭٭

 

 

 

 

میں جسے اوڑھتا بچھاتا ہوں

وہ غزل آپ کو سناتا ہوں

 

ایک جنگل ہے تیری آنکھوں میں

میں جہاں راہ بھول جاتا ہوں

 

تو کسی ریل سی گزرتی ہے

میں کسی پل سا تھرتھراتا ہوں

 

ہر طرف اعتراض ہوتا ہے

میں اگر روشنی میں آتا ہوں

 

ایک بازو اکھڑ گیا جب سے

اور زیادہ وزن اٹھاتا ہوں

 

میں تجھے بھولنے کی کوشش میں

آج کتنے قریب پاتا ہوں

 

کون یہ فاصلہ نبھائے گا

میں فرشتہ ہوں سچ بتاتا ہوں

٭٭٭

 

 

کہیں پہ دھوپ کی چادر بچھا کے بیٹھ گئے

کہیں پہ شام سرہانے لگا کے بیٹھ گئے

 

جلے جو ریت میں تلوے تو ہم نے یہ دیکھا

بہت سے لوگ وہیں چھٹپٹا کے بیٹھ گئے

 

کھڑے ہوئے تھے الاووں کی آنچ لینے کو

سب اپنی اپنی ہتھیلی جلا کے بیٹھ گئے

 

دوکاندار تو میلے میں لٹ گئے یارو

تماش بین دوکانیں لگا کے بیٹھ گئے

 

لہو لہان نظاروں  کا ذکر آیا تو

شریف لوگ اٹھے، دور جا کے بیٹھ گئے

 

یہ سوچ کر کہ درختوں میں چھاؤں ہوتی ہے

یہاں ببول کے سائے میں آ کے بیٹھ گئے

٭٭٭

 

 

 

 

ہندی غزلیں: طفیل چترویدی

 

 

 

غبار دل سے پرانا نہیں نکلتا ہے

کوئی بھی صلح کا رستہ نہیں نکلتا ہے

 

اٹھائے پھرتے ہیں سر پر سیاسی لوگوں کو

اگرچہ، کام کسی کا نہیں نکلتا ہے

 

کریں گے جنگ تو لیکن، ذرا سلیقے سے

شریف لوگوں میں جوتا نہیں نکلتا ہے

 

تیرے ہی واسطے آنسو بہائے ہیں ہم نے

سبھی کا ہم پہ یہ قرضہ نہیں نکلتا ہے

 

جو چٹنی روٹی پہ جی پاؤ، تب تو آؤ تم

کہ میرے کھیت سے سونا نہیں نکلتا ہے

 

یہ سن رہا ہوں کہ تو نے بھلا دیا مجھ کو

وفا کا رنگ تو کچا نہیں نکلتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دھوپ ہوتے ہوئے بادل نہیں مانگا کرتے

ہم سے پاگل، ترا آنچل، نہیں مانگا کرتے

 

ہم فقیروں کو یہ گٹھری، یہ چٹائی ہے بہت

ہم کبھی شابوں  سے مخمل نہیں مانگا کرتے

 

چھین لو، ورنہ نہ کچھ ہوگا ندامت کے سوا

پیاس کے راج میں، چھاگل نہیں مانگا کرتے

 

ہم بزرگوں کی روایت سے جڑے ہیں بھائی

نیکیاں کر کے کبھی پھل نہیں مانگا کرتے

 

دینا چاہے تو اگر، دے ہمیں دیدار کی بھیک

اور کچھ بھی  ترے پاگل نہیں مانگا کرتے

 

آج کے دور سے امیدِ وفا! ہوش میں ہو؟

یار، اندھوں سے تو کاجل نہیں مانگا کرتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پل پل سفر کی بات کریں آج ہی تمام

منزل قریب آئی، ہوئی زندگی تمام

 

پو کیا پھٹی، کہ شب کے مسافر چلے گئے

پیپل کی چھاؤں تجھ سے ہوئی دوستی تمام

 

پچھلی صفوں کے لوگ جلائے لہو سے دیپ

میں چک گیا ہوں، میری ہوئی روشنی تمام

 

بس اس گلی میں جا کے سسکنا رہا ہے یاد

اس کی طلب میں چھوٹ گئی سر کشی تمام

 

کچھ تھا کہ جس سے زخم ہمیشہ ہرا رہا

بے چینیوں کے ساتھ کٹی زندگی تمام

 

یہ اور بات  پیاس سے دیوانہ مر گیا

لیکن کسی طرح تو ہوئی تشنگی تمام

٭٭٭

 

 

 

 

عدالتیں ہیں مقابل ، تو پھر گواہی کیا

سزا ملے گی مجھے  میری بے گناہی کیا

 

میرے مزاج میں شک بس گیا میرے دشمن

اب اس کے بعد میرے گھر کی ہے تباہی کیا

 

ہر ایک بونا میرے قد کو ناپتا ہے یہاں

میں سارے شہر سے الجھوں مرے الہی کیا

 

سمے کے ایک طمانچے کی دیر ہے پیارے

میری فقیری بھی کیا،  تیری بادشاہی کیا

 

تمام شہر کے خوابوں میں کیوں اندھیرا ہے

برس رہی ہیں گھٹاؤ! کہیں  سیاہی کیا

 

مرے خلاف مرے سارے کام جاتے ہیں

تو میرے ساتھ نہیں ہے، مرے الٰہی کیا

 

بس اپنے زخم سے کھلواڑ تھے ہمارے شعر

ہمارے جیسے قلم کار نے لکھا ہی کیا

٭٭٭

 

 

 

ورق  ورق پہ اجالا اتار آیا ہوں

غزل میں میر کا لہجہ اتار آیا ہوں

 

برہنہ ہاتھ سے تلوار روک دی میں نے

میں شاہزادے کا نشّا اتار آیا ہوں

 

سمجھ رہے تھے سبھی، موت سے ڈروں گا میں

میں سارے شہر کا چہرہ اتار آیا ہوں

 

مقابلے میں وہ ہی شخص سامنے ہے مرے

میں جس کی جان کا سودا اتار آیا ہوں

 

اتارتی تھی مجھے تو نگاہ سے دنیا

تجھے نگاہ سے دنیا اتار آیا ہوں

 

غزل میں نظم کیا آنسوؤں کو چُن چُن کر

چڑھا ہوا تھا، وہ دریا اتار آیا ہوں

 

تیرے بغیر کہاں تک یہ وزن اٹھ پاتا

میں اپنے چہرے سے ہنسنا اتار آیا ہوں

٭٭٭

 

 

ہندی غزلیں: دویندر دُوِج

 

پروں کو کاٹ کے کیا آسمان دیجئے گا

زمین دیجئے گا یا اڑان دیجئے گا

 

ہماری بات کو بھی اپنے کان دیجئے گا

ہمارے حق میں بھی کوئی بیان دیجئے گا

 

زبان، ذات یا مذہب یہاں نہ ٹکرائیں

ہمیں حضور، وہ ہندوستان دیجئے گا

 

رہی ہیں دھوپ سے اب تک یہاں جو ناواقف

اب ایسی بستیوں پر بھی تو دھیان دیجئے گا

 

ہے زلزلوں کے فسانوں کا بس یہی وارث

سخن کو آپ نئی  سی زبان دیجئے گا

 

کبھی کے بھر چکے ہیں صبر کے یہ پیمانے

ذرا سا سوچ سمجھ کر زبان دیجئے گا

 

جو چھت ہمارے لئے بھی یہاں دلا پائے

ہمیں بھی ایسا کوئی سنودھان1 دیجئے گا

 

نئی کتاب بڑی دلفریب ہے لیکن

پرانی بات کو بھی قدر دان دیجئے گا

 

1۔ قانون

٭٭٭

 

 

 

 

ہماری آنکھوں کو خوابوں سے دور ہی رکھے

سوال ایسے جوابوں سے دور ہی رکھے

 

سلگتی ریت پہ چلنے سے کیسے کتراتے

جو پاؤں بوٹ جرابوں سے دور ہی رکھے

 

ہنر تو تھا ہی نہیں ان میں جی حضوری کا

اسی لئے تو خطابوں سے دور ہی رکھے

 

تمام عمر وہ خوشبو سے نا شناس رہے

جو بچے تازہ گلابوں سے دور ہی رکھے

 

وہ زندگی کے اندھیروں سے لڑتے پڑھ لکھ کر

اسی لئے تو کتابوں سے دور ہی رکھے

 

ہمارا ثانی کوئی میکشی میں ہو نہ سکا

اگرچہ ساری شرابوں سے دور ہی رکھے

 

یہ بچے یاد کیا رکھیں گے  دوج ، بڑے ہو کر

اگر نہ خون خرابوں سے دور ہی رکھے

٭٭٭

 

 

 

 

اگر وہ کارواں کو چھوڑ کر باہر نہیں آتا

کسی بھی سمت سے اس پر کوئی پتھر نہیں آتا

 

اندھیروں سے الجھ کر روشنی لے کر نہیں آتا

تو مدت سے کوئی بھٹکا مسافر گھر نہیں آتا

 

یہاں کچھ سر پھروں نے حادثوں کی دھند بانٹی ہے

نظر اب اس لئے دلکش کوئی منظر نہیں آتا

 

جو سورج ہر جگہ سندر سنہری دھوپ لاتا ہے

وہ سورج کیوں ہمارے شہر میں اکثر نہیں آتا

 

اگر اس دیش میں ہی دیش کے دشمن نہیں ہوتے

لٹیرا لے کے باہر سے کبھی لشکر نہیں آتا

 

جو خود کو بیچنے کی فطرتیں حاوی نہیں ہوتیں

ہمیں نیلام کرنے کوئی بھی تسکر1 نہیں آتا

 

اگر ظلموں سے لڑنے کی کوئی کوشش رہی ہوتی

ہمارے در پہ ظلموں کا کوئی منظر نہیں آتا

 

غزل کو جس جگہ  دوج ، چٹکلوں سی داد ملتی ہو

وہاں پھر کوئی بھی آئے مگر شاعر نہیں آتا

 

1 سمگلر

٭٭٭

 

 

دل کی ٹہنی پہ پتیوں جیسی

شاعری بہتی ندیوں جیسی

 

یاد آتی ہے بات بابا کی

اس کی تاثیر ، آنولوں جیسی

 

باز آ جا، نہیں تو ٹوٹے گا

تیری فطرت ہے آئینوں جیسی

 

زندگی کے سوال تھے مشکل

ان میں الجھن تھی فلسفوں جیسی

 

جب کبھی رو برو ہوئے خود کے

اپنی صورت تھی قاتلوں جیسی

 

تو بھی خود سے کبھی مخاطب ہو

کر کبھی بات شاعروں جیسی

 

خالی ہاتھوں جو لوٹ جانا ہے

چھوڑیئے ضد سکندروں جیسی

 

زندگانی کڑکتی دھوپ بھی تھی

اور چھایا بھی برگدوں جیسی

 

آپ کی گھر میں   دوج   کرے کیسے

میزبانی وہ ہوٹلوں جیسی

٭٭٭

 

 

 

 

ان کی عادت بلندیوں والی

اپنی سیرت ہے سیڑھیوں والی

 

ہم کو ندیوں کے بیچ رہنا ہے

اپنی قسمت ہے کشتیوں والی

 

زندگی کے بھنور سنائیں گے

اب کہانی وہ ساحلوں والی

 

ہم پہ کچھ بھی لکھا نہیں جاتا

اپنی قسمت ہے حاشیوں والی

 

بھوکھے بچے کو ماں نے دی روٹی

چندا ماما کی لوریوں والی

 

آج پھر کھو گئی ہے دفتر میں

تیری عرضی شکایتوں والی

 

تو بھی پھنستا ہے روز جالوں میں

ہائے قسمت یہ مچھلیوں والی

 

تو اسے سن سکے اگر، تو سن

یہ کہانی ہے قافلوں والی

 

وہ زباں ان کو کیسے راس آتی

وہ زباں تھی بغاوتوں والی

 

بھول جاتے، مگر نہیں بھولے

اپنی بولی محبتوں والی

٭٭٭

 

 

ہندی غزلیں: عدم گونڈوی

 

 

زلف، انگڑائی، تبسم، چاند، آئینہ،  گلاب

بھکمری کے مورچے پر ڈھل گیا ان کا شباب

 

پیٹ کے بھوگول *میں الجھا ہوا ہے آدمی

اس عہد میں کس کو فرصت ہے پڑھے دل کی کتاب

 

اس صدی کی تشنگی کا زخم ہونٹوں پر لئے

بے یقینی کے سفر میں زندگی ہے اک عذاب

 

ڈال پر مذہب کی پیہم کھل رہے دنگوں کے پھول

سبھیتا** رجنیش کے حمام میں ہے بے نقاب

 

چار دن فٹ پاتھ کے سائے میں رہ کر دیکھیئے

ڈوبنا آسان ہے آنکھوں کے ساگر میں جناب

*جغرافیہ

**تہذیب

٭٭٭

 

 

 

 

 

چاند ہے زیرِ قدم۔ سورج کھلونا ہو گیا

ہاں، مگر اس دور میں کردار بونا ہو گیا

 

شہر کے دنگوں میں جب بھی مفلسوں کے گھر جلے

کوٹھیوں کی لان کا منظر سلونا ہو گیا

 

ڈھو رہا ہے آدمی کاندھے پہ خود اپنی صلیب

زندگی کا فلسفہ جب بوجھ ڈھونا ہو گیا

 

یوں تو آدم کے بدن پر بھی تھا پتوں کا لباس

روح عریاں کیا ہوئی موسم گھنونا ہو گیا

 

اب کسی لیلیٰ کو بھی اقرارِ محبوبی نہیں

اس عہد میں پیار کا سمبل تکونا ہو گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کاجو بھنے پلیٹ میں وسکی گلاس میں

اترا ہے رام راج ودھایک نواس* میں

 

پکے سماجوادی ہیں تسکر ہوں یا ڈکیت

اتنا اثر ہے کھادی کے اجلے لباس میں

 

آزادی کا وہ جشن منائیں تو کس طرح

جو آ گئے  فٹ پاتھ پر گھر کی تلاش میں

 

پیسے سے آپ چاہیں تو سرکار گرا دیں

سنسد **بدل گئی ہے یہاں کی نخاص میں

 

جنتا کے پاس ایک ہی چارہ ہے بغاوت

یہ بات کہہ رہا ہوں میں ہوش و حواس میں

*رہائش رکن اسمبلی

**پارلیامینٹ

٭٭٭

 

 

 

 

آپ کہتے ہیں سراپا گل مہر ہے زندگی

ہم غریبوں کی نظر میں اک قہر ہے زندگی

 

بھکمری کی دھوپ میں کمہلا گئی عصمت کی بیل

موت کے لمحات سے بھی تلخ تر ہے زندگی

 

ڈال پر مذہب کی پیہم کھل رہے دنگوں کے پھول

خواب کے سائے میں پھر بھی بے خبر ہے زندگی

 

روشنی کی لاش سے اب تک زِنا کرتے رہے

یہ وہم پالے ہوئے شمس و قمر ہے زندگی

 

دفن ہوتا ہے جہاں آ کر نئی پیڑھی کا پیار

شہر کی گلیوں کا وہ گندا اثر ہے زندگی

٭٭٭

 

 

 

 

 

بھوک کے احساس کو شعر و سخن تک لے چلو

یا ادب کو مفلسوں کی انجمن تک لے چلو

 

جو غزل معشوق کے جلووں سے واقف ہو گئی

اس کو اب بیوہ کے ماتھے کی شکن تک لے چلو

 

مجھ کو نظم و ضبط کی تعلیم دینا بعد میں

پہلے اپنی رہبری کو آچرن* تک لے چلو

 

گنگا جل اب برژوا تہذیب کی پہچان ہے

تشنگی کو وودکا کے آچرن تک لے چلو

 

خود کو زخمی کر رہے ہیں غیر کے دھوکے میں لوگ

اس شہر کو روشنی کے بانکپن تک لے چلو

*اخلاق

٭٭٭

 

 

ہندی غزلیں: آلوک شریواستو

 

 

اگر سفر میں مرے ساتھ میرا یار چلے

طواف کرتا ہوا موسم بہار چلے

 

لگا کے وقت کو ٹھوکر جو خاکسار چلے

یقیں کے قافلے ہمراہ بیشمار چلے

 

نوازنا ہے تو پھر اس طرح نواز مجھے

کہ میرے بعد مرا ذکر بار بار چلے

 

یہ جسم کیا ہے، کوئی پیرہن ادھار کا ہے

یہیں سنبھال کے پہنا،یہیں اتار چلے

 

یہ جگنوؤں سے بھرا آسماں جہاں تک ہے

وہاں تلک تری نظروں کا اقتدار چلے

 

یہی تو ایک تمنا ہے اس مسافر کی

جو تم نہیں تو سفر میں تمہارا پیار چلے

٭٭٭

 

 

 

 

جھلملاتے ہوئے دن رات ہمارے لے کر

کون آیا ہے ہتھیلی پہ ستارے لے کر

 

ہم اسے آنکھوں کی دِہری٭ نہیں چڑھنے دیتے

نیند آتی نہ اگر خواب تمہارے لے کر

 

رات لائی ہے ستاروں سے سجی قندیلیں

سرنگوں دن ہے دھنک والے نظارے لے کر

 

ایک امید بڑی دور تلک جاتی ہے

تیری آواز کے خاموش اشارے لے کر

 

رات شبنم سے بھگو دیتی ہے چہرہ چہرہ

دن چلا آتا ہے آنکھوں میں شرارے لے کر

 

ایک دن اس نے مجھے پاک نظر سے چوما

عمر بھر چلنا پڑا مجھ کو سہارے لے کر

٭دہری۔ دہلیز

٭٭٭

 

 

گھر کی بنیادیں دیواریں بام و در تھے بابو جی

سب کو باندھے رکھنے والا خاص ہنر تھے بابو جی

 

تین محلّوں میں ان جیسی قد کاٹھی کا کوئی نہ تھا

اچھے خاصے اونچے پورے قد آور تھے بابو جی

 

اب تو اس سونے ماتھے پر کورے پن کی چادر ہے

اماں جی کی ساری سج دھج سب زیور تھے بابو جی

 

بھیتر سے خالص جذباتی اور اوپر سے ٹھیٹھ پِتا

الگ انوٹھا ان بوجھا سا اک تیور تھے بابو جی

 

کبھی بڑا سا ہاتھ خرچ تھے کبھی ہتھیلی کی سوجن

میرے من کا آدھا ساہس آدھا ڈر تھے بابو جی

٭٭٭

 

 

 

 

لے گیا دل میں دبا کر راز کوئی

پانیوں پر لکھ گیا آواز کوئی

 

باندھ کر میرے پروں میں مشکلیں

حوصلوں کو دے گیا پرواز کوئی

 

نام سے جس کے میری پہچان ہے

مجھ میں اس جیسا بھی ہو انداز کوئی

 

جس کا تارا تھا وہ آنکھیں سو گئیں

اب نہیں کرتا ہے مجھ پر ناز کوئی

 

روز اس کو خود کے اندر کھوجنا

روز آنا دل سے ایک آواز کوئی

٭٭٭

 

 

 

جاڑے کے برفیلے دن

لال گلابی پیلے دن

 

سویٹر، مفلر، کنٹوپے

پہن کے نکلے گیلے دن

 

لمبی لمبی کیلیں رات

چھوٹے اور نکیلے دن

 

فاگ کے موزوں سے نکلے

ننگے پاؤں ہٹھیلے دن

 

ناک پہ آ کر بیٹھ گئے

پاجی سرد چٹیلے دن

 

رکھ دیجے صندوقوں میں

گرمی والے ڈھیلے دن

٭٭٭

 

 

ہندی غزلیں: کاظم جرولی

 

 

جب بھی قصہ اپنا پڑھنا

پہلے چہرہ چہرہ پڑھنا

 

تنہائی کی دھوپ میں تم بھی

بیٹھ کے اپنا سایہ پڑھنا

 

آوازوں کے شہر میں رہ کر

سیکھ گیا ہوں لہجہ پڑھنا

 

ہر کونپل کا حال لکھا ہے

شاخ کا پیلا پتّہ پڑھنا

 

بھیج کے نامے یاد دلا دو

بھول گیا ہوں لکھنا پڑھنا

 

لوگو میری پیاس کا قصہ

صدیوں دریا دریا پڑھنا

 

دیواروں پر کچھ لکھا ہے

تم بھی اپنا کوچہ پڑھنا

 

ہجر کی شب میں نم آنکھوں سے

دھندلا دھندلا سپنا پڑھنا

 

ماضی کا آئینہ رکھ کر

خود کو تھوڑا تھوڑا پڑھنا

 

میں ہوں سنگ میل کی صورت

مجھ سے میرا رستہ پڑھنا

 

زیست کا مطلب کیا ہے کاظم

اپنا اپنا لکھنا پڑھنا

٭٭٭

 

 

مجھے معلوم ہے مجھ کو پتہ ہے

یہ سناٹا تیری آوازِ پا ہے

 

چمن میں ہر طرف چرچے ہیں تیرے

ترا ہی نام پتوں پر لکھا ہے

 

مجھے آواز دیتی ہے سحر کیوں

پرندہ کس لئے نغمہ سرا ہے

 

یہ اب کیسی ہے دل کو بیقراری

چمن ہے ابر ہے ٹھنڈی ہوا ہے

 

یہاں پتھر ہوا ہے کوئی چہرہ

یہاں اک آئینہ ٹوٹا پڑا ہے

 

سبھی انساں ہیں بس اتنا سمجھ لو

ضروری ہے کہ پوچھو کون کیا ہے

 

سدا یہ معرکہ چلتا رہے گا

نہ شب ہاری نہ یہ سورج تھکا ہے

 

یہی کاظم ہے راز انکساری

مرے اندر کوئی مجھ سے بڑا ہے

٭٭٭

 

 

 

کوئی بھی لفظ مرا جیسے معتبر ہی نہیں

مری صدا کا کسی پر کوئی اثر ہی نہیں

 

یہ منزلیں بھی اسی کو صدائیں دیتی ہیں

وہ شخص جس کو کوئی خواہشِ سفر ہی نہیں

 

ترے وجود سے انکار تیرے ہوتے ہوئے

پتہ ہے سب کا تجھے اپنی کچھ خبر ہی نہیں

 

مرے بھی نقش قدم ہیں خلاؤں میں تحریر

یہ عرش صرف ستاروں کی رہگزر ہی نہیں

 

یہ سنگ و خشت ہیں بے چشم ناظرین  مرے

مرے گواہ فقط صاحب نظر ہی نہیں

 

گزر رہا ہوں میں کتنی عجیب راہوں سے

سوائے میرے مرا کوئی ہمسفر ہی نہیں

٭٭٭

 

 

 

اپنا دل اب اپنے دل کے اندر لگتا ہے

ہم کو منظر سے اچھا پس منظر لگتا ہے

 

بن ٹھہرے چلتے رہتے ہیں ہاتھ، مگر پھر بھی

رات کی روٹی تک آنے میں دن بھر لگتا ہے

 

اینٹوں اور گارے سے جن کا رشتہ کوئی نہیں

ان کے نام کا دیواروں پر پتھر لگتا ہے

 

جیسے کچھ ہونے والا ہے تھوڑی دیر کے بعد

شہر میں اب را توں کو ایسا اکثر لگتا ہے

 

ان بوڑھے بچوں کو، لوری دے کر کون سلائے

رات کو جن کا گھر کے باہر، بستر لگتا ہے

 

باتیں گرم کرو تم لیکن، ٹھنڈے لہجے میں

اونی کپڑوں میں ریشم کا استر لگتا ہے

 

اس کو اپنے سائے میں رکھے، کیسے کوئی پیڑ

جس کو اپنی پرچھائیں سے بھی ڈر لگتا ہے

 

ان چاندی سونے والوں سے کاظم دور رہو

ان کی قبروں پر بھی مہنگا پتھر لگتا ہے

٭٭٭

 

 

 

لہو میں غرق ادھوری کہانیاں نکلیں

بدن سے ٹوٹی ہوئی سرخ چوڑیاں نکلیں

 

میں جس زمین پہ  صدیوں پھرا کیا تنہا

اسی زمین سے کتنی ہی بستیاں نکلیں

 

جہاں محال تھا پانی کا ایک قطرہ بھی

وہاں سے ٹوٹی ہوئی چند کشتیاں نکلیں

 

مسل دیا تھا سرِ شام ایک جگنو کو

تمام رات خیالوں سے بجلیاں نکلیں

 

چرا لیا تھا حویلی کا ایک چھپا منظر

اسی گناہ پر آنکھوں سے پتلیاں نکلیں

 

وہ اک چراغ جلا، اور وہ روشنی پھیلی

وہ راہ زنی کے ارادے سے آندھیاں نکلی

 

خدا کا شکر کہ اس عہدِ بے لباسی میں

یہ کم نہیں کہ درختوں میں پتیاں نکلیں

 

وہ بچ سکی نہ کبھی بو الہوس پرندوں سے

حصارِ آب سے باہر جو مچھلیاں نکلیں

 

یہی ہے قصرِ محبت کی داستاں کاظم

گری فصیل تو انساں کی ہڈیاں نکلیں

٭٭٭

 

 

 

ہندی غزلیں: مینک وستھی

 

 

وہی عذاب وہیں آسرا بھی جینے کا

وہ میرا دل ہی نہیں زخم بھی ہے سینے کا

 

میں بے لباس ہی شیشے کے گھر میں رہتا ہوں

مجھے بھی شوق ہے اپنی طرح سے جینے کا

 

وہ دیکھ چاند کی پر نور کہکشاؤں میں

تمام رنگ ہے خورشید کے پسینے کا

 

میں پر خلوص ہوں پھاگن کی دوپہر کی طرح

ترا مزاج لگے پوس کے مہینے کا

 

سمندروں کے سفر میں سنبھال کر رکھنا

کسی کنویں  سے جو پانی ملا ہے پینے کا

 

مینکؔ آنکھ میں سیلاب اٹھ نہ پائے کبھی

کہ ایک اشک مسافر ہے اس سفینے کا

٭٭٭

 

 

 

تاروں سے اور بات میں کمتر نہیں ہوں میں

جگنو ہوں اس لیے کہ فلک پر نہیں ہوں میں

 

صدموں کی بارشیں مجھے کچھ تو گھلائیں گی

پتلا ہوں خاک کا کوئی پتھر نہیں ہوں میں

 

دریائے غم میں برف کے تودے کی شکل میں

مدت سے اپنے قد کے برابر نہیں ہوں میں

 

اس کا خیال اس کی زباں اس کے تذکرے

اس کے قفس سے آج بھی باہر نہیں ہوں میں

 

میں تشنگی کے شہر پہ ٹکڑا ہوں ابر کا

کوئی گلا نہیں کہ سمندر نہیں ہوں میں

 

کیوں زہر زندگی نے پلایا مجھے مینکؔ

وہ بھی تو جانتی تھی کہ ،شنکر نہیں ہوں میں

٭٭٭

 

 

خشک آنکھوں سے کوئی پیاس نہ جوڑی ہم نے

آس ہم سے جو سرابوں کو تھی، توڑی ہم نے

 

بارہا ہم نے یہ پایا کہ لہو میں ہے شرر

اپنی دکھتی ہوئی رگ جب بھی نچوڑی ہم نے

 

جو سنورنے کو کسی طور بھی راضی نہ ہوئی

بھاڑ میں پھینک دی دنیا وہ نگوڑی ہم نے

 

اس طرح ہم نے سمندر کو پلایا پانی

اپنی کشتی کسی ساحل پہ نہ موڑی ہم نے

 

جب کوئی چاند ملا داغ نہ دیکھے اس کے

آنکھ سورج سے ملا کر نہ سکوڑی ہم نے

 

فصل برباد تھی آہٹ بھی ہمیں تھی لیکن

جانے کیوں موڑ دی اس دوار پہ گھوڑی ہم نے

 

گرد غیرت کے بدن پر جو نظر آئی کبھی

دیر تک اپنی انا خوب جھنجھوڑی ہم نے

٭٭٭

 

 

اے سمندر تری تسکین کا ساحل ہوا میں

پھر بھی کیوں تجھ کو لگا تیرے مقابل ہوا میں

 

میں ہی دنیا ہوں تو سب کچھ تو میرا حصہ ہے

کیسے دنیا کی ہر اک راہ کی منزل ہوا میں

 

جب عناصر کی ردا اوڑھ کے سو جاتا ہوں

خواب اک آ کے ڈراتا ہے کہ باطل ہوا میں

 

آنکھ کھولی تو چھپا تھا تو ہر اک ذرے میں

آنکھ موندی تو تری دید کے قابل ہوا میں

 

آئنے مجھ سے کئی بار بھڑے ہیں پھر بھی

آج تک خود کے سوا کس کے مقابل ہوا میں

 

ڈھونڈتے ڈھونڈتے تجھ کو میں کچھ ایسا کھویا

پھر تو خود کو بھی کسی طور نہ حاصل ہوا میں

 

مسئلہ تھا کہ میں جب شہر کا آئینہ تھا

آج جب ٹوٹ کے بکھرا تو مسائل ہوا میں

 

اس کی قربت میں تباہی کے ہیں امکان مگر

لو کسی جسم کی لہرائے کہ مائل ہوا میں

 

یہ جو زر دار ہوا شہرِ غزل میں میں بھی

سب ہے اس در کی بدولت جہاں سائل ہوا میں

 

دشت آباد کیا ، کاٹ دیا پربت کو

"تجھ کو پانے کی طلب میں کسی قابل ہوا میں”

 

یہ سیہ بخت زمیں یوں مری جاگیر ہوئی

شب کی دہلیز پہ خورشید کا قاتل ہوا میں

 

میں وہ ذرہ تھا جسے توڑ دیا دنیا نے

قہر کی شکل میں پھر دہر پہ نازل ہوا میں

 

کوئی ڈولی میں تجھے لے کے گیا ہے جب سے

تب سے یادوں کی ہی بارات میں شامل ہوا میں

 

کون تدبیر کی بستی میں پسینے بانٹے

آج اے شہرِ تمنا ترا سائل ہوا میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ستارہ ایک بھی باقی بچا کیا

نگوڑی دھوپ کھا جاتی ہے کیا کیا

 

فلک کنگال ہے اب، پوچھ لیجے

سحر نے منھ دکھائی میں لیا کیا

 

سب اک بحرِ فنا کے بلبلے ہیں

کسی کی ابتدا کیا، انتہا کیا

 

جزیرے سر اٹھا کر ہنس رہے ہیں

ذرا سوچو سمندر کر سکا کیا

 

خرد اک نور میں ضم ہو رہی ہے

جھروکا آگہی کا کھل گیا کیا

 

تعلق آن پہنچا خامشی تک

” یہاں سے بند ہے ہر راستہ کیا”

 

بہت شرماؤ گے یہ جان کر تم

تمہارے ساتھ خوابوں میں کیا کیا

 

اسے خودکش نہیں مجبور کہیئے

بدل دیتا وہ دل کا فیصلہ کیا

 

برہنہ تھا میں اک شیشے کے گھر میں

مرا کردار کوئی کھولتا کیا

 

اجل کا خوف طاری ہے ازل سے

کسی نے ایک لمحہ بھی جیا کیا

 

مکیں ہو کر مہاجر بن رہے ہو

میاں، یکلخت بھیجا پھر گیا کیا

 

خدا بھی دیکھتا ہے، دھیان رکھنا

خدا کے نام پر تم نے کیا کیا

 

اٹھا کر سر بہت اب بولتا ہوں

مرا کردار بونا ہو گیا کیا

٭٭٭

ہندی مضامین اور شاعری کی رسم الخط سے تبدیلی: اعجاز عبید

جمع و ترتیب۔ تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید