FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

ہم نے بھی محبت کی ہے

 

 

حسن عباسی

تشکر: ’کتاب، ایپ

 

 

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

انتساب

 

عفت کے نام

سمندروں کے مسافر تھے دربدر رہتے

تمہاری آنکھ نہ ہوتی تو ہم کدھر رہتے

 

حسن عباسی

٭٭٭

 

 

 

 

خموش رہ کر پکارتی ہے

وہ آنکھ کتنی شرارتی ہے

 

ہے چاندنی سا مزاج اس کا

سمندروں کو ابھارتی ہے

 

میں بادلوں میں گھرا جزیرہ

وہ مجھ میں ساون گذارتی ہے

 

کہ جیسے میں اُس کو چاہتا ہوں

کچھ ایسے خود کو سنوارتی ہے

 

خفا ہو مجھ سے تو اپنے اندر

وہ بارشوں کو اُتارتی ہے

٭٭٭

 

 

 

کبھی جو آنکھوں کے آ گیا آفتاب آگے

ترے تصور میں ہم نے کر لی کتاب آگے

 

وہ بعد مدّت ملا تو رونے کی آرزو میں

نکل کے آنکھوں سے گر پڑے چند خواب آگے

 

دِل و نظر میں ہی اپنے خیمے لگا لئے ہیں

ہمیں خبر ہے کہ راستہ ہے خراب آگے

 

نظر کے حیرت کدے میں کب کا کھڑا ہوا ہوں

اک آئینے میں کھلا ہوا ہے گلاب آگے

 

گزرنے والا تھا رہگزارِ حیات سے میں

وہ ایک لمحہ کہ آ گئے پھر جناب آگے

 

حسنؔ جو ماضی کا صفحہ اُلٹا تو آ گئے ہیں

کھجور کے پیڑ،  ٹیلے اور ماہتاب آگے

٭٭٭

 

 

 

 

چاند منظر اپنے گھر لے آؤں گا

اُس کا پیکر اپنے گھر لے آؤں گا

 

صحن کی تنہائی چگنے کے لئے

کچھ کبوتر اپنے گھر لے آؤں گا

 

آئینے دن بھر ڈراتے ہیں مجھے

ایک پتھر اپنے گھر لے آؤں گا

 

کشتی رانی کا اسے گر شوق ہے

میں سمندر اپنے گھر لے آؤں گا

 

خود کو جب وہ بھول جائے گا کہیں

میں اٹھا کر اپنے گھر لے آؤں گا

 

آج میں خود کو مناؤں گا حسنؔ

اپنا باہر اپنے گھر لے آؤں گا

٭٭٭

 

 

 

جہاں جائیں ان آنکھوں میں ہے بس دیوار و در اپنا

سفر میں بھی لئے پھرتے ہیں ہم تو ساتھ گھر اپنا

 

یہ ننگے پیڑ،  نیلی جھیل،  پربت اور یہ گاؤں!

وہ کیا دن تھے کہ جب اِک شخص رہتا تھا اِدھر اپنا

 

وہ دروازہ،  وہ پیپل،  وہ کنواں دیکھا تو یاد آیا

کبھی اس راستے سے روز ہوتا تھا گزر اپنا

 

اُتر آتی ہے سانسوں میں تمہاری یاد کی خوشبو

میں آنکھیں بند کر لیتا ہوں کمرہ دیکھ کر اپنا

 

سنا ہے چاند راتوں میں وہاں اک شکل بنتی ہے

حسنؔ میں نام لکھ آیا ہوں جس دیوار پر اپنا

٭٭٭

 

بچھڑ کے اس سے حسنؔ مجھ کو ایسے لگتا ہے

کہ جیسے سانس بھی لوں گا تو ٹوٹ جاؤں گا

٭٭٭

 

 

 

حسیں کتنا زیادہ ہو گیا ہے

وہ جب سے اور سادہ ہو گیا ہے

 

چلو ہم بھی محبت کر ہی لیں گے

اگر اس کا ارادہ ہو گیا ہے

 

بھلا دوں گا اسے اگلے جنم تک

مرا اس سے یہ وعدہ ہو گیا ہے

 

گھڑی بھر اس کی آنکھوں میں اُتر کر

سمندر بھی کشادہ ہو گیا ہے

 

بچھڑنے کا اسے بھی دُکھ ہے شاید

کہ اب تو وہ بھی آدھا ہو گیا ہے

٭٭

 

اِس بار تو ایسا کسی جھنجھٹ میں پھنسا میں

سچ مچ اُسے کچھ دن کے لئے بھول گیا میں

٭٭٭

 

 

 

 

پھول روشن،  اور تاروں کو مہکتے دیکھتا

کاش میں قدرت کے رنگوں کو بدلتے دیکھتا

 

سرد راتوں میں پگھلنے لگتے میرے جسم و جاں

گرمیوں کی دھوپ میں خود کو ٹھٹھرتے دیکھتا

 

دریا کے دھارے نظر آتے کبھی صحرا مجھے

اور صحرا کو کھڑی فصلیں ڈبوتے دیکھتا

 

کاش بوندیں پیڑوں کی شاخوں پہ اُگتیں ایک دن

کاش میں پھولوں کو بارش میں برستے دیکھتا

 

دیکھتا سورج کو اپنے چولہے میں جلتے ہوئے

اور افق سے بھوک کا چہرہ ابھرتے دیکھتا

 

اپنی آنکھیں ٹانک دیتا چاند کے چہرے پہ اور

چاند کو اس بے وفا کے گھر اترتے دیکھتا

 

کاش میری زندگی میں ایسا دن آتا حسنؔ

اُس کے ہاتھوں اپنے خال و خد سنورتے دیکھتا

٭٭٭

 

 

 

گھر سے میرا رشتہ بھی کتنا رہا

عمر بھر اک کونے میں بیٹھا رہا

 

اپنے ہونٹوں پر زباں کو پھیر کر

آنسوؤں کے ذائقے چکھتا رہا

 

وہ بھی مجھ کو دیکھ کر جیتا تھا اور

میں بھی اُس کی آنکھ میں زندہ رہا

 

نسبتیں تھیں ریت سے کچھ اس قدر

بادلوں کے شہر میں پیاسا رہا

 

شہر میں سیلاب کا تھا شور کل

اور میں تہ خانے میں سویا رہا

 

کھا رہی تھی آگ جب کمرہ حسنؔ

میں بس اک تصویر سے چمٹا رہا

٭٭٭

 

 

 

 

خود نمائی کے دائروں میں رہے

عمر بھر جھوٹی شہرتوں میں رہے

 

کتنی یکسانیت سے گزرے دن

جینے مرنے کے مرحلوں میں رہے

 

جال ایسے تنے تھے شاخوں پر

پنچھی اڑ کر بھی گھونسلوں میں رہے

 

اس کی آنکھوں میں کیا رہے ہم بھی

گہرے نیلے سمندروں میں رہے

 

کاغذی جسم تھا حسنؔ اور ہم

موسلا دھار بارشوں میں رہے

٭٭

 

وہ آپ مجھ کو دسمبر کی شام پہنائے

اور اپنے جسم کا مجھ پر لحاف بھی کر دے

٭٭٭

 

 

بچھڑا ہے تو اک پل بھی بھلایا نہیں جاتا

وہ پہلی ملاقات کا نقشہ نہیں جاتا

 

عرصہ ہوا اس آنکھ میں جھانکے ہوئے لیکن

اُس آنکھ کی تاثیر کا نشہ نہیں جاتا

 

اک شخص کی آواز پہ یوں دوڑ رہا ہوں

گر وقت بھی رک جائے تو ٹھہرا نہیں جاتا

 

جتنا کہ ہوا کھول کے آ جاتی ہے در کو!

اتنا بھی کبھی اُس سے تو آیا نہیں جاتا

 

ہم کو بھی منانے کا ہنر بھول گیا ہے

پہلے کی طرح اس سے بھی روٹھا نہیں جاتا

 

جب بات کروں اُس سے تو نظریں نہیں اٹھتیں

اور نظریں اٹھاتا ہوں تو بولا نہیں جاتا

 

رستوں سے ترے گھر کا پتہ پوچھ رہا ہے

اس دل سے تو رسوائی کا خدشہ نہیں جاتا

 

کھو جاتی ہیں آنکھیں بھی حسنؔ،  نیند بھی،  دل بھی

اک اُس سے جو مل لوں تو مرا کیا نہیں جاتا

٭٭٭

 

 

 

 

میں قیدی ہوں مگر مجھ کو پتہ ہے

خزانہ کس جزیرے میں چھپا ہے

 

مری کشتی سے تھوڑا آگے کر کے

سمندر میں ابھی سورج گرا ہے

 

کھڑی ہے شام دروازے سے لگ کر

اداس آنگن میں دن بکھرا ہوا ہے

 

مری آنکھوں سے لے کر اس کے در تک

گھنے خوابوں کا اک جنگل اُگا ہے

 

ابھی آتش فشاں شاید پھٹے گا

پہاڑوں سے دھُواں اٹھنے لگا ہے

 

ہتھیلی پر لئے بیٹھا ہوں جگنو

ستارہ کوئی مجھ پر ہنس رہا ہے

 

اُسے ہے نیند میں چلنے کی عادت

مرے خوابوں میں وہ آنے لگا ہے

 

حسنؔ اُتری ہیں تارے لے کے پریاں

کہ جنگل روشنی سے بھر گیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

خواب میں نور برسنے کا سماں ہوتا ہے

آنکھ کھلتی ہے تو کمرے میں دھُواں ہوتا ہے

 

دھوپ ایسی در دیوار پہ ٹھہری آ کر!

گھر پہ آسیب کے سائے کا گماں ہوتا ہے

 

خواب میں جا کے اُسے دیکھ تو آؤں لیکن

اب وہ آنکھوں کے دریچوں میں کہاں ہوتا ہے

 

دن کو ہوتی ہے جو لوگوں کے گزرنے کی جگہ

شام کے بعد وہاں میرا مکاں ہوتا ہے

 

خوف انجانا کوئی پیچھے پڑا ہے ایسے

جس جگہ جاتا ہوں کم بخت وہاں ہوتا ہے

 

یوں مرے آگے ابھر آتا ہے وہ شخص حسنؔ

میرے اندر ہی کہیں جیسے نہاں ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

چاند جب اُس کی یاد کا نکلا

بیٹھے بیٹھے میں دُور جا نکلا

 

آنکھ برسی تو دل کے صحرا میں

ایک جنگل ہرا بھرا نکلا

 

تو نے مجھ کو بھلا دیا اے دوست

اور ترا غم بھی بے وفا نکلا

 

اُس کے جانے کی دیر تھی پھر اشک

ایک کے بعد دوسرا نکلا

 

دُکھ تو یہ ہے کہ ڈوبنے کے بعد

میں کنارے کے پاس آ نکلا

 

جب حسنؔ کوئی راستہ نہ رہا

خود بخود ایک راستہ نکلا

٭٭٭

 

 

 

 

ذہن میں یوں ترا خیال گرے

ٹھہرے پانی پہ جیسے جال گرے

 

آئینہ دیکھتا ہوں جا کر میں!

جب کیلنڈر سے کوئی سال گرے

 

اتنی سردی میں بس یہ خواہش ہے

اُس کے کندھوں پہ میری شال گرے

 

اُس کے چہرے کو دیکھ لے جس شب

چاند سے چاندنی کا تھال گرے

 

اس کی وادی میں صبح و شام حسنؔ

ہم سنو فال کی مثال گرے

٭٭٭

 

 

 

 

بھیگی آنکھیں، کھڑکیاں اور انتظار

فاصلے،  مجبوریاں اور انتظار

 

تیز بارش اور طوفانی ہوا!

شاخچوں کی چھتریاں اور انتظار

 

رات کے آنگن میں یادوں کے دیے

بجھتی آنکھیں سسکیاں اور انتظار

 

شام،  ساحل،  ریت،  لہریں اور میں

چھپتا سورج،  کشتیاں اور انتظار

 

اب کسی کے پاؤں کی آہٹ کہاں

اب تو ہیں بس سیڑھیاں اور انتظار

 

دُکھ بھرا ہے کس قدر منظر حسنؔ

پھول چنتی لڑکیاں اور انتظار

٭٭٭

 

 

 

 

گڑگڑا کر رات دن مانگی دُعا

عرش تک پہنچی نہیں اپنی دُعا

 

ابرِ رحمت کی طرح مانگا اُسے

آنسوؤں سے ریت پر لکھی دُعا

 

جب بھی خوابوں کے سفر پر نکلا میں

اس نے میری نیند سے باندھی دُعا

 

جا رہا تھا کوئی ساماں باندھ کر!

اور کھڑی تھی بن کے اِک لڑکی دُعا

 

روز نازل ہوتی ہے آفت نئی

جب سے اہلِ شہر کو بھولی دُعا

 

آنکھ میں اِک شخص کا چہرہ حسنؔ

اور ہاتھوں پر سدا رکھی دُعا

٭٭٭

 

 

 

 

حبس موسم میں کوئی یاد بھی کیا آیا ہے

اتنا رویا ہوں کہ بارش کا مزا آیا ہے

 

جسم کی باڑھ کو توڑ آیا ہوں میں اور وہ بھی

وقت کے ہاتھ سے ہاتھ اپنا چھڑا آیا ہے

 

دیکھ کر اُس کو یہ لگتا ہے زمیں کی خاطر

آسمانوں سے کوئی چاند نیا آیا ہے

 

شہرِ دل میں وہ ذرا دیر کو ٹھہرا ہے مگر

ہر گلی کوچے میں اک نقش بنا آیا ہے

 

ایک مدت سے نہیں اپنی خبر اب تو حسنؔ

جانے وہ شخص کہاں مجھ کو گنوا آیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اُسی ڈھلوان پر اپنا بھی گھر تھا

جہاں سے ایک دریا کا گزر تھا

 

کسی کے پیار میں چھوڑ آیا شاہی

مرے اجداد کا مجھ پر اثر تھا

 

کھلی ہے آنکھ میری موت کے وقت

تمہارا خواب کتنا مختصر تھا

 

سحر سے پہلے نیند آئی نہ مجھ کو

نہ جانے کیا ستاروں سے اُدھر تھا

 

کبھی دیکھا نہ اس کو آنکھ بھر کر

نہ جانے کس طرح کا دل میں ڈر تھا

 

حسنؔ وہ شخص اب منزل ہے میری

جو تھوڑی دیر پہلے ہم سفر تھا!

٭٭٭

 

 

 

 

جب اس کا نام لبوں پر دُعا کے ساتھ اُترے

تو چاند آنکھ میں کوئی گھٹا کے ساتھ اُترے

 

تمہاری یاد اُترتی ہے اس طرح دل میں!

کہ جیسے صحن میں بارش ہوا کے ساتھ اُترے

 

کبوتروں کی طرح اُڑتے ہیں ترے غم بھی

کہ دل کی چھت پہ تو پہلی صدا کے ساتھ اُترے

 

فرازِ کوہ سے آتا ہے جس طرح پانی!

کبھی وہ آنکھ سے ایسی ادا کے ساتھ اترے

 

میں نیند وادی میں جب بھی حسن اُترنے لگا

ہزار رنگ کے سپنے بھی آ کے ساتھ اترنے

٭٭٭

 

 

 

 

آدھی رات کو صبح کا تارا بھیجا ہے

اس نے مجھ کو اپنا چہرہ بھیجا ہے

 

دھوپ بہت تیکھی ہے میں نے لکھا تھا

اس نے اپنے خط میں سایا بھیجا ہے

 

جانے خود سے کون سا رشتہ ہے میرا

اکثر اپنے آپ کو تحفہ بھیجا ہے

 

اُس کی آنکھ سمندر ہے تو میں نے بھی

پیار کا ٹھاٹھیں مارتا دریا بھیجا ہے

 

اس کو نفرت سمجھوں یا چاہت اس نے

پیلے پھولوں کا گلدستہ بھیجا ہے

 

زر کی خاطر سات سمندر پار حسنؔ

گھر والوں نے مجھ کو تنہا بھیجا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اس کی آنکھوں میں جب ٹھکانا تھا

وہ زمانہ بھی کیا زمانہ تھا

 

کھینچ لاتا تمہیں ہجوم سے میں

ہاتھ میں ہاتھ تو تھمانا تھا!

 

نیند میں ہی بچھڑ گیا کوئی

قافلہ پچھلی شب روانہ تھا

 

دیکھ تو لینے دیتے جی بھر کر

تم نے گر اتنی دور جانا تھا

 

کھڑکی کھولے کھڑا رہا دن بھر

جیسے بارش کو آج آنا تھا!

 

اس جزیرے سے آ رہا ہوں میں

ہر قدم پر جہاں خزانہ تھا

 

یاد آنے پہ یاد آیا حسن!

میں نے اک شخص کو بھلانا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

خوف کے انجانے ساحل پر زندہ ہوں

جانے کس دھرتی کا میں باشندہ ہوں

 

اب تو آ کر دے جائے وہ اجر مرا

روزِ ازل سے جس کا میں کا رندہ ہوں

 

دوست بنا لیتا ہوں اِن کے دشمن کو

اپنے قبیلے والوں سے شرمندہ ہوں

 

ماضی حال مجھی سے ہے وابستہ مرا

خود ہی اپنا میں عہد آئندہ ہوں

 

اوڑھ رکھی ہے میں نے سچ کی شال حسنؔ

شب کے اندھے غار میں بھی تابندہ ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

ایسا اس شخص میں کیا ہے کہ جو پھولوں میں نہیں

جو بھی تتلی ہے اسی اور اڑی جاتی ہے

 

جب بھی تنہائی میں آتا ہے کبھی اس کا خیال

آنسو رُکتے ہیں نہ ہونٹوں سے ہنسی جاتی ہے

 

اک نظر پیار سے پھر دیکھ کہ کچھ راتوں سے

ایک خواہش میرے سینے میں دبی جاتی ہے

 

چاند چھپ سکتا ہے کب پیڑ کی شاخوں میں حسنؔ

یونہی پگلی ہے وہ سکھیوں میں چھپی جاتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

بیٹھے بیٹھے اُگ آتا ہے جنگل میری آنکھوں میں!

چھا جاتے ہیں گہرے کالے بادل میری آنکھوں میں

 

دیکھو تم کو آنا ہو تو اپنی چھتری لے آنا!

بوندا باندی رہ جاتی ہے پل پل میری آنکھوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

آدھا جسم سلگتا آدھا جل تھل ہے

جانے کیسی دھوپ ہے کیسا بادل ہے

 

خوابوں کا اک شہر ہے میری آنکھوں میں

اور اس شہر کے چاروں جانب جنگل ہے

 

میرے ساتھ نہیں وہ پھر بھی جانے کیوں

اس کے بچھڑ جانے کا دھڑکا پل پل ہے

 

لمحہ لمحہ دھنستا جاتا ہے منظر

شاید میری آنکھ میں کوئی دلدل ہے

 

کاش اسے ہو جائے یہ معلوم حسنؔ

کوئی اس کے پیار میں کتنا پاگل ہے

٭٭٭

 

 

 

 

آنکھوں کی طرح راز ہے کھلتا بھی نہیں وہ

سیلاب بھی بن جاتا ہے دریا بھی نہیں وہ

 

اس بار زمیں آنکھ کی بنجر ہی رہے گی

اس بار تو ساون کا سندیسہ بھی نہیں وہ

 

اُس شخص کے پہلو میں سکوں کتنا ہے جبکہ

گرجا نہیں، مندر نہیں،  کعبہ بھی نہیں وہ

 

میں یاد رہوں اس کو وہ اتنا بھی نہیں ہے

خود یاد نہ آئے مجھے ایسا بھی نہیں وہ

 

اُس شخص کی فطرت بھی حسنؔ میری طرح ہے

جلتا ہوا صحرا بھی ہے پیاسا بھی نہیں وہ

٭٭٭

 

 

 

 

نہ میں اس کا نہ وہ میرا ہوا ہے

چلو جو بھی ہوا اچھا ہوا ہے

 

گرا دوں اپنے پتے کس طرح میں!

وہ میری چھاؤں میں بیٹھا ہوا ہے

 

چلو پڑھتے میں اس پتھر کو چل کر!

سنا ہے اس پہ سچ لکھا ہوا ہے

 

گھنا ویران اور خاموش جنگل!

مرے اطراف میں پھیلا ہوا ہے

 

اُدھر اس پار جانا چاہتا ہوں!

مگر دریا کا پل ٹوٹا ہوا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

خواب اپنے مری آنکھوں کے حوالے کر کے

تو کہاں ہے مجھے نیندوں کے حوالے کر کے

 

میرا آنگن تو بجز تیرے مہکتا ہی نہیں!

بارہا دیکھا ہے پھولوں کے حوالے کر کے

 

ایک گمنام جزیرے میں اُتر جاؤں گا!

اپنی کشتی کبھی لہروں کے حوالے کر کے

 

کیسا سورج تھا کہ پھر لوٹ کے آیا ہی نہیں

چاند تارے مری راتوں کے حوالے کر کے

 

مجھ کو معلوم تھا اک روز چلا جائے گا! !

وہ مری عمر کو یادوں کے حوالے کر کے

 

گھر کی ویرانی بدل ڈالی ہے رونق میں حسنؔ!

صحن کا پیڑ پرندوں کے حوالے کر کے

٭٭٭

 

 

 

 

کھڑکی میں ہے اس کا چہرہ اور فلک پر چندا ہے

کچھ جاگا کچھ سویا سا ہوں منظر کتنا اچھا ہے

 

اپنے ہاتھ مری آنکھوں کے بند لبوں پر رہنے دے

آنسو آنسو میں ان سے ایک فسانہ کہنا ہے

 

ساون رت کو آنکھوں میں لے کر اوندھے منہ لیٹا ہوں میں

تنہائی کا بستر ہے اور اس کی یاد کا تکیہ ہے

 

جس کے دونوں مصرعے بالکل تیرے ہونٹوں جیسے ہوں

اپنی بقا کی خاطر میں نے شعر ابھی وہ کہنا ہے

 

اشکوں کا خاموش سمندر لے کر اپنی آنکھوں میں

سبز کھجوروں والے اک صحرا میں مجھ کو جانا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

بگھی پہ گزرنے والا وہ!

رستے کی اُڑتی دھول ہوں میں

 

دودھ بھرا وہ ایک پیالہ

اور اُس میں رکھا پھول ہوں میں

 

تصویر ہوا جاتا ہے وہ

بس رنگوں میں مشغول ہوں میں

 

کچھ جگنو اُس کے متوالے

کچھ کرنوں میں مقبول ہوں میں

٭٭

 

ہوتی جاتی ہے دل کی حالت اور

کر کے دیکھیں کوئی محبت اور

 

آسماں کی طرف نکل جائیں

بھاگنے کی نہیں ہے صورت اور

٭٭٭

 

 

 

 

اُس کا خط ہے میرے نام آیا ہوا

کتنا خوش ہوں کتنا گھبرایا ہوا

 

خشک پتوں سے ڈھکے تالاب میں

ہے خزاں کا چاند دفنایا ہوا

 

گھر میں بھی ہے چہرہ کھو جانے کا ڈر

آئینہ ہے در پہ لگوایا ہوا

 

چاندنی راتوں میں ہو گا سرخرو

جو سمندر کا ہے ٹھکرایا ہوا

 

خواب ساکت ہو گیا ہے آنکھ میں

جیسے کوئی شہر پتھرایا ہوا!

 

اس کو بن دیکھے گزر جاتا ہوں میں

ان دنوں ہے دل کو سمجھایا ہوا

 

بار ہا دیکھا ہے اس کو غور سے

وہ ہے جیسے چاند سے آیا ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

اب تو آنکھ سے اتنا جادو کر لیتا ہوں

جس کو چاہوں اس کو قابو کر لیتا ہوں

 

میرے ہاتھ میں جب سے اس کا ہاتھ آیا ہے

خار کو پھول اور پھول کو خوشبو کر لیتا ہوں

 

رات کی تنہائی میں جب بھی گھر سے نکلوں

اس کی یادوں کو میں جگنو کر لیتا ہوں

 

دِل کا دریا صحرا ہونے سے پہلے ہی

اپنی ہر اِک خواہش آہو کر لیتا ہوں

 

جب بھی دل کی سمت حسنؔ بڑھتا ہے کوئی

اس کے آگے اپنے بازو کر لیتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

کبھی چراغ کبھی بارشوں میں آئے گا

مجھے خبر ہے وہ جن صورتوں میں آئے گا

 

یہ دیکھنے کو سرِ شام گھر سے نکلا ہوں

اندھیرا کیسے مرے راستوں میں آئے گا

 

خبر ہے اچھی پر اس کا یقین کون کرے

ہوا کا جھونکا سبھی کھڑکیوں میں آئے گا

 

وہ رنگ رنگ سمیٹے گا خود کو میرے لئے

مجھے یقیں ہے کبھی تتلیوں میں آئے گا

 

تو کیا یہ سچ ہے کہ اب شام ہونے والی ہے

تو کیا یہ سچ ہے کہ وہ جگنوؤں میں آئے گا

 

بس انتظار،  ذرا انتظار اور حسنؔ

کہ وقت اچھا جب آیا دنوں میں آئے گا

٭٭٭

 

 

 

 

پاؤں سے آ گئے ہیں آنکھ میں خار

کون سے دشت میں ہیں اب ہم یار

 

اشک پلکوں پہ جب ٹھہر جائیں!

چہرہ دیکھوں کوئی ندی کے پار!

 

گھر میں لگتا نہیں ہے جی اپنا

راہ میں مل گیا تھا وہ اک بار

 

سامنے اس کے دل پگھلتا ہے

وہ ہے سورج میں برف کی دیوار

 

دھند ہی دھند چھائی ہے ہر سو

اور آنکھوں میں ہے کسی کا پیار

 

ایک تصویر بن گئی ہے حسنؔ

میرے آنسو گئے نہیں بے کار

٭٭٭

 

 

 

 

رات دن پر شور ساحل جیسا منظر مجھ میں تھا

تم سے پہلے موجزن کوئی سمندر مجھ میں

 

آج تیری یاد سے ٹکرا کے ٹکڑے ہو گیا

وہ جو صدیوں سے لڑھکتا ایک پتھر مجھ میں تھا

 

جیتے جی صحنِ مزارِ دوست تھا میرا وجود

اک شکستہ سا پیالہ اور کبوتر مجھ میں تھا

 

میں کہاں جاتا دکھانے اپنے اندر کا کمال

جو کبھی مجھ پر نہ کھل پایا وہ جو ہر مجھ میں تھا

 

ڈھونڈتا پھرتا ہوں اُس کو رات دن خود میں حسنؔ

وہ جو کل تک مجھ سے بھی اک شخص بہتر مجھ میں تھا

٭٭٭

 

 

 

 

سرد ہوا اور گھر آنگن میں ٹھہری شام

یاد آئے ہیں کتنے بھولے بسرے نام

 

آج کی شب تو اپنے کو مل ہاتھ بڑھا

میری آنکھ سے گرتا اِک اِک سپنا تھام

 

میں کمرے میں تنہا اس کی یاد لئے

وہ دفتر میں لاکھوں اس کو اور بھی کام

 

کاش تمہارے پیار میں رسوا ہوتے ہم

کاش ہمارے سر پر آتے سو الزام

 

سوئی سوئی آنکھوں والی ہے لڑکی

کر رکھی ہے جس نے میری نیند حرام

 

یہ تو میں نے غور کیا ہے آج حسنؔ

اُس کی آنکھوں میں ہوتا ہے اِک پیغام

٭٭٭

 

 

 

 

اب کے برس بھی اُس میں یہ تبدیلی تھی

پہلے سے وہ اور بھی کچھ شرمیلی تھی

 

زندہ رکھا اُس کے سانس کی گرمی نے

مجھ میں چلنے والی ہوا برفیلی تھی

 

اُس کی آنکھ کو دیکھ کے یاد آئی وہ جھیل

جس کا پانی گہرا رنگت نیلی تھی

 

پہلی نظر پڑتے ہی اپنی آنکھوں میں

میں نے اس کی صورت گھول کے پی لی تھی

 

کالی رات میں اس کو ڈھونڈنے نکلا تھا

اور ہاتھوں میں جلتی بجھتی تیلی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

سحر ہونے سے پہلے گھر کا بستر چھوڑ آیا ہوں

بس اک کاغذ سرہانے اپنے لکھ کر چھوڑ آیا ہوں

 

مسافت میں یہی اک دُکھ مجھے بے چین رکھتا ہے

کہ اپنے چاہنے والوں کو یکسر چھوڑ آیا ہوں

 

کوئی میرا نہیں تھا اُن دریچوں اور گلیوں میں

میں اُن کو چھوڑ آیا ہوں تو بہتر چھوڑ آیا ہوں

 

اذیت گزرے لمحوں کی مجھے معلوم تھی سو میں

جو آنکھوں کو بھلے لگتے تھے منظر چھوڑ آیا ہوں

 

تمہاری یاد دِل میں رکھ کے لوٹا تو خیال آیا

کہ میں تو آئینہ خانے میں پتھر چھوڑ آیا ہوں

 

وہ جب کپڑے سکھانے آئے گی تو مجھ کو پائے گی

کہ اُس چھت پر میں یادوں کے کبوتر چھوڑ آیا ہوں

 

حسنؔ اچھے دنوں کی آس میں گاؤں سے آتے وقت

کسی کی خالی آنکھوں میں سمندر چھوڑ آیا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

کوئی ایسا حل نکالیں سلسلہ یونہی رہے

مر بھی جائیں تو ہمارا رابطہ یونہی رہے

 

چلتی جائے کشتی یونہی بادباں کھولے ہوئے

یہ جزیرے،  یہ دھواں،  آب و ہوا یونہی رہے

 

ختم ہو جائے دُکھوں کا یہ پہاڑی سلسلہ

اور قائم دو دلوں کا حوصلہ یونہی رہے

 

میری آنکھوں میں سدا کھلتے رہیں اشکوں کے پھول

اور ترے معصوم ہونٹوں پر دعا یونہی رہے

٭٭

 

 

مجھ سے خود سر نے جو اب پیار کی خواہش کی ہے

ایسا لگتا ہے کسی شخص نے سازش کی ہے

 

بھول آیا ہوں وجود اپنا اُنہی گلیوں میں!

تو نے جس شہرِ خموشاں میں رہائش کی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کون آیا، اِدھر اُدھر دیکھا

پھول جب اپنی میز پر دیکھا

 

اُس کو موسم کے ساتھ آنا تھا

پتہ پتہ،  شجر شجر دیکھا

 

کمرے جیسی اُداسی باہر تھی

جب بھی کھڑکی سے جھانک کر دیکھا

 

آنکھ لگتے ہی خواب دیکھا اور

خواب میں روز اپنا گھر دیکھا

 

اُس نے کل شام پھول کیا بھیجے

آئینہ میں نے رات بھر دیکھا

 

چاندنی رات ہو کہ دھوپ حسنؔ

اپنا سایہ ہی ہم سفر دیکھا!

٭٭٭

 

 

 

 

اِس گلی سے اُسے گزرے ہوئے مدت گزری

سو ہمیں کھڑکی سے جھانکے ہوئے مدت گزری

 

اب تو تنہائی سے وحشت نہیں ہوتی مجھ کو!

آئینہ کمرے کا توڑے ہوئے مدت گزری

 

چاند راتوں میں کبھی خواب میں آ جاتا تھا

اب تو اس شخص کو دیکھے ہوئے مدت گزری

 

وہی گھر ہے،  وہ کمرہ،  وہی دیوار مگر!

اس کی تصویر سے بولے ہوئے مدت گزری

 

سوچتا ہوں تو مجھے یاد بھی اب آتا نہیں

جانے کس سوچ میں ڈوبے ہوئے مدت گزری

 

آج آیا وہ اچانک تو خیال آیا حسنؔ

پھول گلدان کے بدلے ہوئے مدت گزری

٭٭٭

 

 

 

 

میں شاید اس لئے مہکا ہوا ہوں

تمہارے پاؤں کا مسلا ہوا ہوں

 

اگر کمرہ یونہی خالی رہے گا

تو کیوں گلدان میں رکھا ہوا ہوں

 

ہنسا دے گی مجھے پہلی کرن ہی

کہ ساری رات کا رویا ہوا ہوں

 

پہنچ آیا ہے دشمن سر پہ اور میں

قبیلہ چھوڑ کر بیٹھا ہوا ہوں

 

نہیں ہے ٹھیک سے اب یاد گھر بھی

کبھی کا گاؤں سے بھاگا ہوا ہوں

 

کسی بھی سمت اب جانا پڑے گا

یہاں پر بے سب ٹھہرا ہوا ہوں

 

حسنؔ جائے اماں اک چاہیے تھی

زمیں کی گود میں سویا ہوا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

اپنے گھر کا ایک ہی رستہ

دھُوپ کے ٹیلے ریت کا دریا

 

دیواروں پر آس کی بیلیں

صحن کے اندر ہجر کا پودا

 

ہر کمرے میں اُس کی یادیں

سب چیزوں میں اس کا چہرہ

 

ساری رات ڈرائے مجھ کو

پردوں کے پیچھے اک سایا

 

آج کسی کی آنکھ میں گھنٹوں

میں نے اپنا چہرہ دیکھا

 

میرا درد سمجھ پائے گا

شاخ سے گرنے والا پتا

 

گھر کی پرانی چیزوں میں کل

پہروں میں نے خود کو ڈھونڈا

٭٭٭

 

 

 

 

دم سنبھلتا نہیں خوشی ہے وہ

آج اک پھول دے گئی ہے وہ

 

تیز بارش میں جانے کس کے لئے

چھتری لے کر کھڑی ہوئی ہے وہ

 

چاند نے کہہ دیا ہے شاید کچھ

چھت سے یکدم اتر گئی ہے وہ

 

عہد کرتا ہوں جب بھی اس سے کوئی

غور سے مجھ کو دیکھتی ہے وہ

 

اپنے کمرے میں جاگتا ہوں میں

اپنے کمرے میں سو رہی ہے وہ

 

کہتی ہے تم ہو کتنے اچھے حسنؔ

بس یہی جھوٹ بولتی ہے وہ

٭٭٭

 

 

 

 

وہ کیا دن تھے جب اک لڑکی مرے خوابوں میں رہتی تھی

وہ میرے ساتھ ہنستی تھی وہ میرے ساتھ روتی تھی

 

لپٹ جاتی تھی مجھ سے بھاگ کر میں جب بھی گھر آتا

کہیں جب جانے لگتا تو وہ رستہ روک لیتی تھی

 

وہ کہتی تھی محبت کا کوئی موسم نہیں ہوتا

وہ صبح و شام چاہت کے سنہرے خواب بنتی تھی

 

 

ہم اکثر چاندنی راتوں میں صحرا کی طرف جاتے

وہ بھیگی ریت پر میرا اور اپنا نام لکھتی تھی

 

وہ دریا کے کنارے بیٹھ جاتی تھی کبھی جا کر

مجھے اس وقت سوہنی کی طرح وہ سچی لگتی تھی

 

سمندر استعارہ ہے دلوں میں اٹھتے جذبوں کا

وہ ساحل پر کبھی چلتے ہوئے یہ بات کہتی تھی

 

بچھڑ جانے کا اُس کے دل میں اک دھڑکا سا رہتا تھا

وہ میرا ہاتھ گہری نیند میں بھی تھامے رکھتی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

جھرنا تو رواں آنکھ کا باہر کی طرف تھا

پر شور مسلسل کہیں اندر کی طرف تھا

 

کچھ رونے کی عادت مجھے ویسے بھی بہت تھی

پھر گھر کا دریچہ بھی سمندر کی طرف تھا

 

اک پھول محبت کا کھلا تھا مرے دل میں

اور اس کا جھکاؤ کسی پتھر کی طرف تھا

 

اک ہاتھ میں گلدستہ اُٹھائے تھا ہر ایک شخص

اک ہاتھ چھپائے ہوئے خنجر کی طرف تھا

٭٭

 

صحنِ تنہائی میں جب رات کی رانی مہکے

میری آنکھوں میں ترے ہجر کا پانی مہکے

 

دل کے دالان میں آنکھوں کے دریچوں میں حسنؔ

شام کے بعد کوئی یاد پرانی مہکے

٭٭٭

 

 

 

کل شام اک انجانی لڑکی

مجھ میں تارا لے کر اتری

 

شاید کوئی وعدہ کر کے

اُڑ جاتی ہے پھول سے تتلی

 

میرے کمرے میں آ جائے

اکثر کھڑکی توڑ کے آندھی

 

جانے اس کے ہاتھ میں کیا ہے

بند کئے رکھتا ہے مٹھی

 

جتنا پاس آ جائے کوئی

رہ جاتی ہے پھر بھی دوری

 

پھر جنگل میں لوٹ آیا ہوں

دُور سے دیکھ کے اپنی بستی

٭٭٭

 

 

 

 

بارش میں رہوں گا کبھی کرنوں میں رہوں گا

حیرانی کی صورت تری آنکھوں میں رہوں گا

 

میں،  ہجر کی تصویر پہ ٹپکا ہوا آنسو! !

بکھرا بھی تو پھیلے ہوئے رنگوں میں رہوں گا

 

بادل مجھے سینے سے لگاتے نہیں جب تک

اک دشت ہوں اور دھوپ کی بانہوں میں رہوں گا

 

پھولوں کی طرح صحن میں آنا ہے تمہارے

دیوار پہ چڑھتی ہوئی بیلوں میں رہوں گا!

 

اک وعدہ نبھانا ہے کسی ڈوبتے دن سے

اب شام کے ڈھلتے ہوئے سایوں میں رہوں گا

٭٭٭

 

 

 

 

صبح جیسے ہی جاگتا ہوں میں

اُس کی تصویر دیکھتا ہوں میں

 

جب مرے پاس وہ نہیں ہوتا

اُس سے جی بھر کے بولتا ہوں میں

 

کوئی آنکھوں سے بہنے لگتا ہے

جونہی البم نکالتا ہوں میں

 

چاند راتوں میں کھول کر کھڑکی

اس کے بارے میں سوچتا ہوں میں

 

اک دیا لے کے اپنے ہاتھوں میں

رات بھر اُس سے کھیلتا ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

کہہ گیا تھا وہ کچھ اشارے سے

بات سمجھا میں ہنستے تارے سے

 

اُس سے ملتے ہی آنکھ بھر آئی

لہر اک آ لگی کنارے سے

 

کس کو جا کر بتاؤں میں یہ بات

دن گزرتا نہیں گزارے سے

 

بھول جاتے ہو نام تک میرا

کیا توقع رکھوں تمہارے سے

 

غم ہیں جیسے شریر بچے حسنؔ!

تنگ کر کے لگے ہیں پیارے سے

٭٭٭

 

 

 

 

جب بھی خود کو سپردِ شام کیا

ایک تارے نے آ سلام کیا

 

بھول آیا میں اپنا آپ وہاں

چار دن جس جگہ قیام کیا

 

خواب میں کہ آنسوؤں میں اُتر

میں نے آنکھوں کو تیرے نام کیا

 

رات میں نے ترے تصور میں

دیر تک چاند سے کلام کیا

 

عمر گزری محبتیں کرتے

ہم سے جو ہو سکا وہ کام کیا

 

میر صاحب ملے تو پوچھیں گے

صبح کو کس طرح سے شام کیا

 

ہم وہ تقریب کر نہ پائے حسنؔ

عمر بھر جس کا اہتمام کیا

٭٭٭

 

 

 

 

سمندروں کے مسافر تھے در بدر رہتے

تمہاری آنکھ نہ ہوتی تو ہم کدھر رہتے

 

سفر نیا ہے مگر دکھ وہی پرانا ہے

کہ اب کی بار ذرا دیر اپنے گھر رہتے

 

ہم اپنے پاس نہ رہ پائے ایک پل کے لئے

کسی کے ساتھ بھلا کیسے عمر بھر رہتے

 

کوئی بھی لمحہ اگر اختیار میں ہوتا

مثالِ رنگِ حنا تیرے ہاتھ پر رہتے

 

زہے نصیب کہ تم سا ملا ہے دوست ہمیں

وگرنہ درد کی لذت سے بے خبر رہتے

٭٭٭

 

 

 

 

رات کا دکھ بھلا گئی مجھ کو

صبح ہنسنا سکھا گئی مجھ کو

 

زندہ رہنے کا اک بہانہ سہی

تیری تصویر بھا گئی مجھ کو

 

اس کی بانہوں میں دیر تک رویا

اور پھر نیند آ گئی مجھ کو

 

ڈھونڈتے رہ گئے سبھی منظر

شاخِ گریہ چھپا گئی مجھ کو

 

سو رہا تھا میں اس کا خواب لئے

تیز بارش جگا گئی مجھ کو

 

اور بھی دکھ تھے زندگی میں مگر

تیری خاموشی کھا گئی مجھ کو

 

لہر تھی یا کسی کی یاد حسنؔ!

ساتھ اپنے بہا گئی مجھ کو!

٭٭٭

 

 

 

آہ بن کر تری سانسوں سے نکل آؤں گا

یا کسی روز میں آنکھوں سے نکل آؤں گا

 

بھول جانا مجھے آسان نہیں ہے اتنا

باتوں باتوں میں ہی باتوں سے نکل آؤں گا

 

پھر مجھے فیصلہ کرنا ہے کہ جانا ہے کہاں

جب ترے شہر کی گلیوں سے نکل آؤں گا

 

اب نہ سورج، نہ ستاروں سے تعلق میرا

اب ترے دن،  تری راتوں سے نکل آؤں گا

 

شرطِ اِتنی ہے کہ بارش کی طرح آنا تم

دیکھنا کیسے میں شاخوں سے نکل آؤں گا

 

جب پُکارے گا کوئی سبز جزیرے سے حسنؔ

سر پٹختی ہوئی لہروں سے نِکل آؤں گا

٭٭٭

 

 

 

 

اک شخص پاس رہ کے بھی سمجھا نہیں مجھے

اِس بات کا ملال ہے شکوہ نہیں مجھے

 

مَیں اُس کو بے وفائی کا الزام کیسے دوں

اُس نے تو ابتدا سے ہی چاہا نہیں مجھے

 

کیا کیا امیدیں باندھ کے آیا تھا سامنے

اُس نے تو آنکھ بھر کے بھی دیکھا نہیں مجھے

 

پتّھر سمجھ کے پاؤں کی ٹھوکر پہ رکھ لیا

افسوس تیری آنکھ نے پرکھا نہیں مُجھے

 

کب ٹھیرنا تھا مجھ کو حسنؔ آج اس کے پاس

اچھا ہُوا کہ اس نے بھی روکا نہیں مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

کس نگر سے جانے خود کو ڈھونڈ کر لاتا ہوں میں

جب وہ آتا ہے تو اپنے پاس آ جاتا ہوں میں

 

چھیڑتی ہے شام کو جب سرد موسم کی ہوا

صحن میں جلتے دیوں کے ساتھ لہراتا ہوں میں

 

خود جتن کرتا ہوں تجھ کو بھول جانے کے مگر

خود خلاف اپنے تری یادوں کو اُکساتا ہوں میں

 

کوئی میرا اُس سے پوچھے تو چھُپا سکتی نہیں

رنگ بن کر اُس کے چہرے پر بکھر جاتا ہوں میں

 

کیا کروں یہ ہاتھ میرا ساتھ دیتے ہی نہیں

تیرے غم سے جب کلائی اپنی چھڑواتا ہوں میں

 

گھیر لیتے ہیں مجھے اندیشے قسمت کے حسنؔ

کوئی بھی اچھی خبر سننے سے گھبراتا ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

روز آ جاتے تھے یہاں بادل

جانے اب کھو گئے کہاں بادل

 

چاند سے بات ہو تو کیسے ہو

اڑتے رہتے ہیں درمیاں بادل

 

یہ ہے بس اپنا حلقۂ یاراں

شب، ہوا، چاند، آسماں،  بادل

 

رو ہی لیتے ہیں گِڑگِڑا کے کبھی

کیا کریں اور بے زباں بادل

 

میرے اندر بجھی بجھی کرنیں

میرے باہر دھواں دھواں بادل

 

میرے صحرا سے دور کتنی دور

اپنی دھُن میں رواں دواں بادل

٭٭٭

 

 

 

 

پاس اپنے میں آ رہا ہوں کیوں

ہاتھ سب سے چھُڑا رہا ہوں کیوں

 

جو پلٹتے نہیں کسی صورت

ایسے رستوں پہ جا رہا ہوں کیوں

 

جب کسی نے بھی مجھ سے پوچھا نہیں

اسمِ اعظم بتا رہا ہوں کیوں

 

جب تمہارا میں ہو چکا ہوں پھر

تم کو اپنا بنا رہا ہوں کیوں

 

خود سے اُکتا نہیں گیا میں اگر

رات کُچھ سوچتا رہا ہوں کیوں

٭٭٭

 

 

 

 

پھولوں سے تالاب بھرے ہیں کون آیا ہے

آنگن آنگن دیپ جلے ہیں کون آیا ہے

 

کس کے آنے پر چھیڑے ہیں راگ ہوا نے

پیڑ خوشی سے جھوم رہے ہیں کون آیا ہے

 

سوئی لہریں کس کو اُٹھ کر دیکھ رہی ہیں

منظر آنکھیں ملنے لگے ہیں کون آیا ہے

 

پربت پربت کس کو ڈھونڈ رہے ہیں بادل

وادی وادی پھول کھلے ہیں کون آیا ہے

 

دیواروں سے بیلیں کس کو جھانک رہی ہیں

سارے دریچے مہکے ہوئے ہیں کون آیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

عجیب دکھ سے گزر رہا ہوں

کسی کے دل سے اُتر رہا ہوں

 

اندھیرے پہچانتے ہیں مجھ کو

چراغ کا ہمسفر رہا ہوں

 

مجھے تو خود بھی خبر نہیں ہے

کہ آج تک میں کدھر رہا ہوں

 

نجانے کیا کہنے والا ہے وہ

میں اس کے لہجے سے ڈر رہا ہوں

 

کبھی کسی کا ستارۂ شام

کبھی کسی کی نظر رہا ہوں

 

کہاں ہیں احباب و دوست میرے

میں اپنی بانہوں میں مر رہا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

جس پر جھولا تھا وہ ٹہنی یاد آتی ہے

اب تک اس کے گھر کی بیری یاد آتی ہے

 

شہر میں آ کر اپنا آپ بھی بھول گیا ہوں

لیکن اک گاؤں کی لڑکی یاد آتی ہے

 

جس کے نیچے بیٹھ کے باتیں کرتے تھے ہم

سبز کھجوروں کی وہ چھتری یاد آتی ہے

 

نہر کنارے کپڑے دھونے آتی تھی وہ

بہتے پانی کی بے چینی یاد آتی ہے

 

کیکر کے پھولوں کی ہلکی ہلکی بارش

اور وہ مہکی مہکی مٹی یاد آتی ہے

 

ایک مزار پہ پہلی بار اسے دیکھا تھا

ساون جیسی آنکھوں والی یاد آتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

بارش آئی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آئے

رات مجھے کچھ دوست پرانے ملنے آئے

 

تنہائی کا موسم بھی کیا اچھا گزرا

دیواروں پر کیسے کیسے چہرے آئے

 

دل کی ساری شوخی ایک محبت تک تھی

رنگ جوانی کے بھی ہم پر پھیکے آئے

 

اب کے دل میں یاد بھی اُس کی ایسے آئی

جیسے درختوں کی شاخوں پر پتے آئے

 

اپنی حالت بھی ہے گھر کے آنگن جیسی

شام سے پہلے دیواروں پر سائے آئے

 

جس شب اُس کو گھر تک چھوڑنے جاؤں حسنؔ

چاند ستارے لے کر پیچھے پیچھے آئے

٭٭٭

 

 

 

 

وہ جو دِل میں ہمارے بستے رہے

اُن سے ملنے کو ہم ترستے رہے

 

بادلوں نے اکٹھے دیکھا ہمیں

اور پھر دیر تک برستے رہے

 

جانے کیا چاند نے کہا اُن سے

رات بھرتارے مجھ پہ ہنستے رہے

 

وہ ہوا تھی کہ ابر ٹھہرے نہیں

پیڑ آوازے اُن پہ کستے رہے

 

جس نے چاہا اُسی نے جیت لیا

ہم محبت میں کتنے سستے رہے

٭٭٭

 

 

 

 

سنہری خواب آنکھوں میں بُنا کرتے تھے ہم دونوں

پرندوں کی طرح دِن بھر اڑا کرتے تھے ہم دونوں

 

الٰہی زندگی یونہی محبت میں گذر جائے

نمازِ فجر پڑھ کر یہ دُعا کرتے تھے ہم دُونوں

 

ہمیشہ ٹھنڈی ہو جاتی تھی چائے باتوں باتوں میں

وہ باتیں جو ان آنکھوں سے کیا کرتے تھے ہم دونوں

 

گذر جاتا تھا سارا دن اکٹھے سیپیاں چنتے

سمندر کے کنارے پر رہا کرتے تھے ہم دونوں

 

ہوا کے ایک جھونکے سے لرز جاتے دریچوں میں

چراغوں کی طرح شب بھر جلا کرتے تھے ہم دونوں

 

محبت میں کٹھن رستے بہت آسان لگتے تھے

پہاڑوں پر سہولت سے چڑھا کرتے تھے ہم دونوں

 

حسنؔ رسوائی کا خدشہ کبھی دِل میں نہیں آیا

خیالوں اور خوابوں میں ملا کرتے تھے ہم دونوں

٭٭٭

 

 

 

 

ذہن کے سارے سوالات بدل جاتے ہیں

اُس سے ملتے ہی خیالات بدل جاتے ہیں

 

اس کی آنکھوں پہ نہیں اتنا بھروسہ اچھا

ایک ہی لہر میں حالات بدل جاتے ہیں

 

ٹھیک سے رہ نہیں پاتا میں کبھی ایک جگہ

آنکھ جھپکوں تو مقامات بدل جاتے ہیں

 

شہر میں آیا ہوا ہے کوئی ساحر ایسا

جن سے کرتا ہے ملاقات،  بدل جاتے ہیں

 

کتنے مخلص ہیں مرے ساتھ مرے دوست حسنؔ

دیکھ لیں مجھ کو اگر بات بدل جاتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

(صاحبزادہ ریاض احمد رحمانی کی یاد میں)

 

کس کو سنائیں شعر کسے راز داں کریں

جب تو نہیں ہے سامنے ہم کیا بیاں کریں

 

ہونے سے تیرے اپنا بھی جی تھا لگا ہوا

اب جی یہ چاہتا ہے کہ جی کا زیاں کریں

 

تو ہی ہمارا شہر تھا تو ہی ہمارا گھر

اب جائیں کس دیار میں ہجرت کہاں کریں

 

جو سر پہ ایک پیڑ تھا وہ تو نہیں رہا

اس چلچلاتی دھوپ کو اب سائباں کریں

 

روئیں لپٹ لپٹ در و دیوار سے حسنؔ

آنگن کے سب چراغ بجھا کر دھُواں کریں

٭٭٭

 

 

 

 

جو ہوئے نذرِ غمِ رزق تمہارے ہوتے

کاش وہ دِن بھی اکٹھے ہی گذارے ہوتے

 

در و دیوار ہمیں یاد تو کرتے ہوں گے

جن میں بھونچال کئی آئے ہمارے ہوتے

 

زخمی ہونے سے بچا لیتا تری یاد کو میں

تیز آندھی نے اگر پھول نہ مارے ہوتے

 

فاصلہ پھر بھی یہی رہتا برابر اپنا

ہم زمیں پر جو نہ آتے تو ستارے ہوتے

 

صرف وہ شخص کسی طور حسنؔ مل جاتا

ہم کو منظور تھے پھر جتنے خسارے ہوتے

٭٭٭

 

 

 

 

دلوں کے پیڑ ثمر بار دیکھنا چاہوں

ہر ایک آنکھ میں بس پیار دیکھنا چاہوں

 

وہ کون ہے جو مرے آس پاس رہتا ہے

اسے میں سامنے اک بار دیکھنا چاہوں

 

اکیلا لڑ نہیں سکتا میں اپنے آپ سے جنگ

کسی کو اس میں مددگار دیکھنا چاہوں

 

نجانے کون یہ بچھڑا ہے میں تو اپنے ساتھ

جہاں سارا عزا دار دیکھنا چاہوں

 

مجھے غزل سے محبت ہے اس لئے بھی حسنؔ

میں اپنا راستہ دُشوار دیکھنا چاہوں

٭٭٭

 

 

 

 

اُداس شاموں بجھے دریچوں میں لوٹ آیا

بچھڑ کے اس سے میں اپنی گلیوں میں لوٹ آیا

 

چمکتی سڑکوں پہ کوئی میرا نہیں تھا سو میں

ملول پیڑوں،  اُجاڑ رستوں میں لوٹ آیا

 

خزاں کے آغاز میں یہ اچھا ہوا کہ میں بھی

خود اپنے جیسے فسردہ لوگوں میں لوٹ آیا

 

حسین یادوں کے چاند کو الوداع کہہ کر

میں اپنے گھر کے اندھیرے کمروں میں لوٹ آیا

 

میں کھل کے رویا نہیں تھا پچھلے کئی برس سے

حسنؔ وہ سیلاب پھر سے آنکھوں میں لوٹ آیا

٭٭٭

 

 

 

 

تیرے پیار کا ساون ایسا برسا ماں

ٹھنڈا لگتا ہے اب ہر اک صحرا ماں

 

تیرے ماتھے کی کِرنوں سے جگ روشن

تیرے دل کی ہر دھڑکن اِک تارا ماں

 

اپنے پاؤں کی جنت میں اب سونے دے

دھوپ جزیرے میں ہوں صدیوں جاگا ماں

 

 

تیری آنکھ میں نور برستا رہتا ہے

تیرے دم سے گھر ہے چاند کا ٹُکڑا ماں

 

سارا دن کیوں کپڑے سِیتی رہتی ہے؟

تو نے کیوں اپنا سب زیور بیچا ماں

 

کیسا روگ لگا رکھا ہے جیون کو!

رنگ ہوا جاتا ہے تیرا پِیلا ماں

 

تنہائی میں کیا کیا سوچتی رہتی ہے

کچھ تو بول کہ فکر ہے تجھ کو کیا کیا ماں

 

تیری خاطر سارے درد سمیٹوں گا

میری خاطر تُو نے ہر دُکھ جھیلا ماں

 

تیری کھُلی بانہوں تک کیسے پہنچوں میں

بیچ میں حائل ہے ’’مجبوری‘‘ کا رشتہ ماں

 

مَیں ساحل کی ریت یہ کب کا بیٹھا ہوں

تُو لہروں کے رُوپ میں اب تو آ جا ماں

 

آج کی شب تو پریوں جیسی شکل دِکھا

گھر آنگن میں بیٹھا ہوں میں تنہا ماں

 

تجھ سے بچھڑا ہوں تو مَیں ہی جانتا ہوں

تیرے بعد ہُوا ہوں کِتنا سَستا ماں

 

چندا ماموں بھی لگتا ہے رُوٹھ گئے

کِتنے دنوں سے جُگنو بھی نہیں دیکھا ماں

 

میری کتابیں وقت نے پھاڑ کے رکھ دی ہیں

چھین لیا ہے اس نے مجھ سے بستہ ماں

 

کچّی نیند سے کب کا جاگ چکا ہوں مَیں

ٹھیر گیا ہے کب سے میرا جھولا ماں

 

کون سُنائے گا اب مجھ کو رات گئے

رستہ بھُولی شہزادی کا قِصّہ ماں

 

مطلب کے ہیں اپنے ہوں یا غیر حسنؔ

اِس دُنیا میں بِن مطلب کا رشتہ ماں

٭٭٭

تشکر، کتاب ایپ

www.kitaabapp.com

ای پب سے تبدیلی، تدوین اور باز ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل