ہجر کا آخری کنارہ
"کتاب” اینڈرائیڈ ایپ سے حاصل کردہ ناولٹ
سمیرا گُل عثمان
ڈاؤن لوڈ کریں
مکمل کتاب پڑھیں…..
انتساب
ماں کے نام
جس کی محبت کی کوئی مثال نہیں
پیش لفظ
کہانیاں لکھنے کا شوق مجھے بچپن سے ہی تھا میں جب بھی کوئی کہانی پڑھتی تھی تو مجھے لگتا تھا یہ تو میں بھی لکھ سکتی ہوں پھر ایک روز ہمت کر کے قلم سنبھالا اور ایک افسانہ لکھ ڈالا جو سب سے پہلے کرن میں شائع ہوا اس کے بعد حِنا، شعاع اور خواتین میں کہانیاں لکھ کر بھیجیں جو نہ صرف شائع ہوئیں بلکہ بے حد پسند بھی کی گئیں۔
قارئین نے ہمیشہ میری تحریروں کو بہترین، زبردست، ویل ڈن جیسے القابات سے نوازا ہے میری ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ میں جو لکھوں حقیقت لکھوں میں نے تصوراتی اور ماورائی قسم کی کہانیاں بہت کم، تقریباً نہ ہونے کے برابر لکھی ہیں یہی وجہ ہے کہ میرے کردار زندگی کا ہر رنگ اوڑھے آپ کو اپنے ارد گرد چلتے پھرتے نظر آئیں گے جو آپ کو ہنسائیں گے بھی بہت اور شاید کبھی کبھار رلا بھی دیں گے۔
لوگ مجھ سے شکایت کرتے ہیں کہ آپ کی ہیروئنیں بے حد خوبصورت ہوتی ہیں در اصل میں فطری طور پر حسن پرست ہوں تو ایسا غیر جانب داری سے ہی ہو جاتا ہو گا۔
ان تحریروں کے موضوعات ہلکے پھلکے، حساس مگر دلچسپ ہیں تحریر کا پختہ پن اور بے ساختگی بھرا انداز ہی ان کی خاصیت ہے۔
ہنستی، مسکراتی اور کھلکھلاتی تحریروں کو میں نے لکھتے ہوئے جتنا انجوائے کیا ہے آپ ان کو پڑھ کر اس سے بھی زیادہ لطف اندوز ہوں گے۔
سمیرا گُل عثمان
’’چلو نا یار کیفے ٹیریا چلتے ہیں۔‘‘ راہب نے قدرے جھنجھلا کر کوئی دسویں مرتبہ کہا تھا مگر وہ سر جھکائے کاغذ پر قلم گھسیٹے جا رہی تھی۔
اب کی بار اس کی نظریں تیزی سے چلتی مخروطی انگلیوں اور ریشمی پلکوں سے ٹکرائیں تو وہ دم بخود سا دیکھتا ہی چلا گیا تھا اسے اپنی بھوک اپنا جھنجلانا جیسے کچھ بھی یاد نہیں رہا تھا۔
جانے مزید کتنے پل بیت چکے تھے اس نے قلم پر کیپ لگانے کے بعد ایک گہرا سانس خارج کیا تو راہب جیسے ہوش میں آیا تھا۔
رعنا اس کے گھمبیر لہجے پر اپنے اسکارف کو اچھی طرح سے لپیٹتے اس کے ہاتھ گردن کے پاس ہی کہیں رک گئے تھے اور سیاہ آنکھوں پر سایہ فگن جھالر اب اس کی سمت اٹھی ہوئی تھی۔
’’مجھ سے شادی کرو گی۔‘‘ اس نے بلا کسی جھجک کے کہہ ڈالا تھا جس پر رعنا نے قدرے اطمینان سے اپنا اسکارف درست کرنے کے بعد سارے نوٹس فائل میں لگاتے ہوئے اسائنمنٹ اس کی جانب بڑھا دی تھی۔
’’یہ آخری بار ہے۔‘‘ حسب معمول وہ اپنا مخصوص جملہ دہرانا نہیں بھولی۔
’’میرے سوال کا جواب دو۔‘‘ وہ اسائنمنٹ ایک جانب رکھتے ہوئے استفہامیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا تو وہ لب بھینچ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ہزار بار دے چکی ہوں اور اب تم پلیز مجھے پرپوز کرنا چھوڑ دو۔‘‘ اس نے جھک کر اپنا بیگ کاندھے پر ڈالا اور کیفے ٹیریا کی سمت قدم موڑ لئے۔
’’میں ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘ وہ بھی اس کے ہمراہ چل رہا تھا رعنا نے ایک لمحے کے لئے رک کر اسے دیکھا پھر قدرے تحمل سے بولی۔
’’میں اپنوں کے خلاف بغاوت نہیں کر سکتی۔‘‘
’’میں تمہیں بغاوت کی ترغیب نہیں دے رہا مگر تم اپنے پیرنٹس کو قائل کرنے کی کوشش تو کر سکتی ہو نا۔‘‘
’’سوری میں یہ بھی نہیں کر سکتی۔‘‘ اس نے بیگ اور کتابیں میز پر پٹختے ہوئے ویٹر کو اشارہ کیا تھا اور دونوں اپنا اپنا آرڈر درج کروانے لگے تھے۔
’’کل صبح تیار رہنا میں تمہیں اپنی مما سے ملواؤں گا۔‘‘ رعنا کو ہاسٹل کے گیٹ پر ڈراپ کرتے ہوئے یہ آخری الفاظ تھے جو اس نے کہے تھے اور پھر گاڑی بھگا لے گیا تھا اور وہ زیر لب مسکراتے ہوئے وارڈن سے چابی لینے کے بعد اپنے روم میں چلی آئی تھی۔
بیگ صوفے پر اچھالنے کے بعد، اس نے پیروں کو شوز کی قید سے آزاد کیا پھر جرابیں اتارے بغیر کچن میں چلی آئی اس وقت اسے کافی کی شدید طلب ہو رہی تھی اپنے ساتھ ساتھ اس نے مائرہ کے لئے بھی ایک کپ بنایا تھا، مائرہ اس کی روم میٹ تھی اور اس کا تعلق بھی پاکستان سے تھا۔
’’تم کب آئیں۔‘‘ گروسری کا سامان سلیب پر رکھتے ہوئے اس نے رعنا سے دریافت کیا۔
’’میں کوئی دس منٹ قبل۔‘‘ کپ میں کافی ڈالنے کے بعد اس نے ایک کپ مائرہ کی جانب بڑھا دیا جو اس نے ’’تھینک یو‘‘ کے ساتھ تھام لیا تھا۔
کچھ دیر ادھر ادھر کی گپ شپ کے بعد وہ پھر سے تیار ہو کر باہر چلی گئی تھی۔ اسے اپنے ابو تراب کے ساتھ ڈنر پر جانا تھا۔
رعنا نے دروازہ بند کیا اور تکیہ درست کرتے ہوئے نیم دراز ہو گئی پلکوں کی جھالر گرتے ہی اس کا چہرہ چھم سے تصور میں اتر آیا تھا، دو آنسو چپکے سے راستہ بناتے رخساروں پر امڈ آئے۔
اس کے سامنے وہ جتنا بھی خود کو مضبوط اور بے نیاز کرتی مگر اس کا وجود اندر سے ریزہ ریزہ ہو رہا تھا جوں جوں فائنل کے دن قریب آ رہے تھے وہ مستقل جدائی کے خیال سے خوفزدہ رہنے لگی تھی چاچو کے بعد وہ پہلا شخص تھا جو اسے اتنا شائستہ اور نرم خو لگا تھا۔
’’کیا چاچو اس سلسلے میں میری کوئی مدد کر سکتے ہیں۔‘‘ ابھی اس نے اس پہلو پہ سوچنا شروع ہی کیا تھا کہ ڈیڈی کی آواز نے اس کی سوچوں پہ پہرہ لگا دیا۔
’’میں صرف تمہاری ذمہ داری پر اسے بھیج رہا ہوں کل کو میری عزت پر کوئی حرف آیا تو جواب طلبی تم سے ہو گی۔‘‘ اور چاچو نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جیسے اس ذمہ داری کو قبول کر لیا تھا۔
حویلی میں بس وہی تو تھے جو اسے سب سے زیادہ چاہتے تھے ورنہ باقی سب مردوں کو تو اس بات کا ملال کھائے جاتا تھا کہ ان کے بعد ان کی نسل کا کوئی وارث نہیں ہے۔
اسے آج بھی یاد تھا وہ دن جب اس نے بی ایس آنرز میں ٹاپ کیا تھا اور اسے آکسفورڈ یونیورسٹی کا اسکالر شپ ملا تھا، حنا، ندا، مریم سب کتنا مذاق اڑا رہی تھیں۔
’’اچھا تو اب آپ لندن جائیں گی۔‘‘
تصور سے ہی اس کی آنکھوں میں ستارے چمکنے لگے تھے۔
’’کوئی ضرورت نہیں ہے اس ٹاپک پر اپنے ڈیڈی سے بات کرنے کی خوامخواہ گھر کا ماحول خراب ہو گا جتنا پڑھ لیا اتنا کافی ہے۔‘‘ مما نے سنتے ہی اسے بری طرح سے جھاڑ دیا تھا اور وہ خاموشی سے لب کاٹتی کچن سے باہر نکل آئی تھی ان سب کے ساتھ سر کھپانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، اسے تو بس چاچو کے آنے کا انتظار تھا وہ اپنے بزنس کے سلسلے میں آؤٹ آف سٹی گئے ہوئے تھے اور اس کے لئے دو دن گزارنا محال ہو گیا تھا۔
٭٭٭
وہ برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھی فارم ہاتھوں میں لیے حسرت بھری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی جب چاچو کی گاڑی کا مخصوص ہارن سنائی دیا، اس نے بھاگ کر ان کا بریف کیس پکڑا تھا اور ان کے ساتھ ہی اندر آئی تھی۔
ہمیشہ سے ہی وہ ان کا ہر کام کیا کرتی تھی جیسے ان کے جوتے پالش کرنا، کپڑے استری کرنا، ان کے کمرے کی صفائی، ناشتہ، کھانا اور چائے وغیرہ سے لے کر ان کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال رکھنا بھی اس کی ذمہ داری تھا۔
وہ کئی بار منع کرتے تم رہنے دو ملازمہ کر لے گی مگر اس کا ہر بار ایک ہی جواب ہوتا۔
’’مجھے اچھا لگتا ہے آپ کا ہر کام اپنے ہاتھوں سے کرنا۔‘‘ اور اس کے جواب پر ان کی آنکھوں میں عجیب سی چمک ابھر آتی تھی جیسے کسی کی یاد کا دیپ جل اٹھا ہو۔
’’کیا ہوا تمہارا چہرہ کیوں اترا ہوا ہے۔‘‘ وہ بھی اس کے مزاج کا ہر رنگ پہچانتے تھے، رعنا چائے کا کپ انہیں تھما کر ان کے قریب ہی بیٹھ گئی تھی یوں کہ چہرے پر اس وقت زمانے بھر کی مظلومیت طاری تھی اور انہوں نے فوراً بھانپ بھی لیا تھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے اور پھر پوری بات سننے کے بعد وہ خاموش سے ہو گئے۔
’’چاچو پلیز آپ تو جانتے ہیں ناکہ مجھے یونیورسٹی میں پڑھنے کا کتنا شوق ہے۔‘‘ وہ منت سے بولی۔
’’تو یہاں کی کسی یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے لو۔‘‘ کچھ دیر سوچنے کے بعد انہوں نے ایک اور قابل قبول حل پیش کیا تھا جس پر رعنا کا منہ پھول گیا۔
’’وہاں کی ڈگری کی ویلیو زیادہ ہے۔‘‘
’’تو تمہیں کون سا کہیں نوکری کرنی ہے۔‘‘ وہ خفگی سے بولے۔
’’چاچو پلیز یہ چانس مجھے دوبارہ نہیں ملے گا اور کیا آپ کو مجھ پہ اعتبار نہیں ہے۔‘‘ اب کی بار اس نے ایموشنل بلیک میلنگ سے کام لیا تھا اور ہمیشہ کی طرح وہ اس کی ضد کے سامنے ہار گئے تھے، باقی کے تمام مراحل پھر انہوں نے ہی طے کیے تھے۔
وہ اپنے خاندان کی پہلی لڑکی تھی جو اعلیٰ ایجوکیشن کے لئے بیرون ملک کی اس یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی۔
راہب سے اس کی ملاقات جس روز ہوئی وہ اس کا یونیورسٹی میں فرسٹ ڈے تھا ایک تو سفر کی تھکان پھر وہ دیر سے سوئی تو آنکھ بھی دیر سے کھلی تھی، اتنی دیر کہ آخری پوائنٹ بھی نکل چکا تھا۔
وہ روڈ پہ کھڑی ٹیکسی کا ویٹ کر رہی تھی جب سیاہ لینڈ کروزر کے ٹائر اس کے قریب آ کر چڑچڑائے وہ اچھل کر دو فٹ دور ہٹی تھی۔
تبھی ونڈ اسکرین سے ایک ہینڈسم نوجوان کا چہرہ نمودار ہوا تھا وہ کوئی ایشین لڑکا تھا مگر اس کے نقش اتنے مانوس اور متاثر کن تھے کہ وہ اپنا سارا غصہ بھول کر حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’اگر آپ کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے آس پاس کہیں جانا ہے تو میں آپ کو ڈراپ کر سکتا ہوں۔‘‘ سر باہر نکالے وہ شائستگی سے کہہ رہا تھا۔
’’جی نہیں شکریہ۔‘‘ اس نے سہولت سے انکار کرتے ہوئے رخ موڑ لیا اور دل ہی دل میں اپنی بے اختیاری پر خود کو سرزنش بھی کی۔
’’اصل میں آپ نے کیب کو رکنے کا اشارہ کیا تھا اور وہ رکے بغیر چلی گئی تو میں نے سوچا یہ نیک فریضہ کیوں نا میں انجام دے لوں بس اسی لئے رک گیا تھا ویسے بھی میں یونیورسٹی جا رہا تھا اور آپ کے ہاتھوں میں پکڑی فائل اور بیگ سے اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ بھی یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ ہیں تو جب راستے ایک ہوں تو ساتھ چلنے میں کیا حرج ہے۔‘‘ اس کے ہاتھ میں فائل کے ساتھ کاسٹ اینڈ منیجمنٹ اکاؤٹنگ کی بک تھی وہ دیکھ چکا تھا اور آخری جملے کو ادا کرتے ہوئے اس نے آنکھوں پر گلاسز چڑھانے کے ساتھ ساتھ فرنٹ ڈور بھی کھول دیا تھا اور وہ اس کی جرأت پر ششدر رہ گئی تھی۔
’’میم آپ کو کہیں جانا ہے۔‘‘ اس کی گاڑی کے پیچھے کھڑی کیب میں سے ایک برٹش آدمی نے انگلش میں دریافت کیا تھا وہ سر جھٹک کر اس کی کیب میں جا بیٹھی۔
ٹائم سے فائیو منٹ لیٹ وہ کلاس میں پہنچی تھی سر ولیم جون کلاس میں آ چکے تھے اور ان کا لیکچر جاری تھا وہ شش و پنج کا شکار دروازے پر کھڑی تھی جب سر ولیم نے اسے دیکھ کر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
کلاس میں داخل ہوتے ہی تمام اسٹوڈنٹس کی نظریں اس پر مرکوز ہو چکی تھیں اسے جو پہلی سیٹ خالی نظر آئی وہ وہیں براجمان ہو گئی۔
سر ولیم دوبارہ لیکچر اسٹارٹ کر چکے تھے کلاس کی تمام تر توجہ اب نوٹس بکس کی جانب تھی جس پر سر جھکائے وہ لکھتے جا رہے تھے وہ اپنے بیگ سے نوٹ بک نکالنے کے بعد اب پن ڈھونڈ رہی تھی جو جانے اس نے بیگ میں رکھا بھی تھا کہ بھول گئی تھی تبھی اس کے دائیں پہلو سے سرگوشی نما آواز ابھری۔
’’وہ کیب والا کیا مجھ سے زیادہ قابل اعتماد تھا۔‘‘ رعنا نے ایک جھٹکے سے سر اٹھا کر اپنے دائیں جانب دیکھا تھا اور پھر پلکیں جھپکے بغیر دیکھتی ہی چلی گئی اور وہ اس کی مشکوک نظروں سے محظوظ ہوتے ہوئے مزے سے بولا۔
’’اطمینان رکھیں آپ کا پیچھا کرتے ہوئے یہاں تک نہیں آیا ہوں بلکہ پچھلے سات دن سے باقاعدہ کلاس اٹینڈ کر رہا ہوں اگر یقین نہ آئے تو آپ کسی بھی اسٹوڈنٹ سے پوچھ سکتی ہیں۔‘‘
’’مجھے کیا ضرورت ہے کہ آپ کی انوسٹی گیشن کروں۔‘‘ رکھائی سے کہتی وہ دوبارہ سے اپنے بیگ کی جانب متوجہ ہو گئی۔
’’میرے پاس دو پن ہیں اگر آپ چاہیں تو…‘‘ اور اسی وقت سر ولیم نے دونوں کو کلاس سے باہر نکلنے کا حکم سنایا تھا وہ مرے مرے انداز میں اپنا بیگ اور نوٹ بک اٹھا کر باہر چلی آئی اس کے برعکس وہ خوب چہک رہا تھا۔
’’ایم سوری میری وجہ سے آپ کو بھی… اصل میں آج میرا برتھ ڈے ہے اور میرا بالکل موڈ نہیں ہو رہا کوئی کلاس اٹینڈ کرنے کا۔‘‘ وہ کچھ بولنے ہی والی تھی جب اس نے ٹوک دیا۔
’’اب آپ سوچ رہی ہوں گی کہ پھر میں یونیورسٹی کیا لینے آیا ہوں تو بات در اصل یہ ہے کہ میں اس شہر میں بالکل نیا اجنبی ہوں اور میرے سارے فرینڈز تو مانچسٹر میں ہی رہ گئے تو سوچا گھر میں بور ہونے سے اچھا ہے کہ یونیورسٹی چلا جاؤں ہو سکتا ہے کوئی نیا دوست مل جائے۔‘‘ وہ ایک لمحے کے توقف سے بولا۔
’’آپ مجھ سے دوستی کریں گی۔‘‘ آفر اتنی اچانک تھی کہ وہ فوری طور پہ کچھ بول ہی نہ سکی۔
’’اچھا پہلے آپ مجھے وش تو کر دیں صبح سے کسی نے وش نہیں کیا مما بھی سرپرائز کے چکر میں شام ڈھلے وش کرتی ہیں۔‘‘
’’ہیپی برتھ ڈے۔‘‘ رعنا نے جان چھڑانے کو کہہ دیا۔
’’او تھینک یو سو مچ۔‘‘ وہ فوراً خوش ہو گیا تھا۔
’’اب آپ نے مجھے وش کیا ہے تو میرا فرض بنتا ہے کہ میں آپ کو ٹریٹ بھی دوں اور ویسے بھی اب یہاں کھڑے ہو کر بور ہونے سے اچھا ہے کہ آپ میری کمپنی انجوائے کر لیں۔‘‘ عجیب زبردستی تھی رعنا کی گھوریوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے وہ مسلسل بولے جا رہا تھا۔
اسے سچ میں رونا آنے لگا اتنی دور پردیس میں تنہا اور کوئی دوست بھی نہیں اس پہ یہ لڑکا تھا کہ آکٹوپس وہ کیسے جان چھڑائے۔
’’آپ کی کمپنی کا بہت شکریہ مجھے اس سے زیادہ آپ کا ساتھ نہیں چاہیے۔‘‘ وہ خود کو مضبوط کرتے ہوئے درشتی سے بولی۔
’’میرے ساتھ کا ایک فائدہ بھی ہے ایک ہفتے کے لیکچرز جو آپ مس کر چکی ہیں اس کے نوٹس میں آپ کو دینے کے لئے تیار ہوں۔‘‘ وہ اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا رعنا رک گئی وہ بھی ٹھہر گیا۔
’’دیکھیں ہم کلاس فیلو بھی تو ہیں اور میں شکل سے جتنا اچھا نظر آتا ہوں دل کا بھی ویسا ہی شفاف ہوں آپ کو کبھی بھی میرے کریکٹر میں کوئی جھول نظر نہیں آئے گا سادہ مزاج اور بہت پر خلوص ہوں، اپنی حدود مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہیں اتنی ساری خوبیوں کے ساتھ تو میں آپ کی دوستی ڈیزرو کرتا ہوں۔‘‘
’’شٹ اپ۔‘‘ اچانک وہ پھٹ پڑی۔
’’نہ جان نہ پہچان زبردستی کا مہمان، کب سے میں آپ کی فضول گوئیاں برداشت کر رہی ہوں اتنا وقت برباد کیا میرا کلاس سے نکلوا دیا کیا یہاں کوئی فلم شوٹ ہو رہی ہے اسٹوپڈ۔‘‘ خوب دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد وہ واپس کلاس میں چلی آئی تھی۔
لیکن ایک ہفتے بعد جب سر ولیم نے گروپ بندی کی تو وہ اس کے گروپ میں شامل تھا ایک ساتھ مختلف پروجیکٹ پر کام کرتے ہوئے بات چیت کی ضرورت تو پڑتی تھی پھر اسے ایک پل کے لئے خاموش بیٹھنا تو آتا ہی نہیں تھا اس کی دوستی کی آفر ہنوز برقرار تھی اور روز اسے باور کروانا نہیں بھولتا تھا، پھر ایک روز اس نے کہا تھا۔
’’پتہ ہے رعنا مجھے خوبصورت میموریز اکٹھی کرنے کا بہت شوق ہے یہ اسٹوڈنٹ لائف زندگی میں پھر دوبارہ نہیں آئے گی تو کیوں نا ان چند مہینوں کو اتنا خوشگوار اور یادگار بنائیں کہ یہ ہماری زندگی کا سب سے خوبصورت وقت ہو۔‘‘ اس کے گروپ میں دو لڑکیاں اور ایک لڑکا اور بھی شامل تھا اس کا نام جمشید تھا وہ اس سے بھی ہائے ہیلو کر لیتی تھی پھر اس بیچارے کا کیا قصور تھا کہ اس سے ہر وقت لڑا جائے روڈلی بات کی جائے اس کے چٹکلوں کو انجوائے کرنے کی بجائے انا کا مسئلہ بنایا جائے اور دوسروں کو خود پہ کمنٹس پاس کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔
ویسے بھی وہ اس کا کلاس فیلو تھا ان کے گروپ کا لیڈر تھا اور پھر اس سے زیادہ ذہین تھا اس نے دیکھا تھا وہ محض بڑبولا ہے اور کچھ نہیں پھر رعنا نے اس کی باتوں پر چڑنا اور اس سے لڑنا چھوڑ دیا تھا اور جب اس نے لڑنا اور چڑنا چھوڑ دیا تھا تو اسے راہب کا ساتھ اس کی باتیں اس کی شرارتیں سب اچھا لگنے لگا تھا وہ اپنی روایات اور اصولوں سے بغاوت کرنے پر مجبور ہو گئی تھی اس نے ایک لڑکے سے دوستی کر لی تھی اور پھر رفتہ رفتہ وہ لڑکا اس کے دل میں گھس کر بیٹھ گیا تھا وہ جانے کب کیسے اور کیوں اس سے محبت کرنے لگی تھی۔
وہ روز اسے پرپوز کرتا تھا اور وہ روز اسے ہی دو ٹوک انکار کر کے چلی آتی تھی دونوں کے مابین جو پل صراط حائل تھا اس کے پیروں میں اسے پار کرنے کی طاقت نہیں تھی راہب کے ساتھ کا مطلب تھا کہ وہ اپنے خاندان سے ہمیشہ کے لئے الگ ہو جائے زندہ ہوتے ہوئے بھی سب کے لئے مرجائے اور ایک رشتے کے لئے اتنے سارے رشتوں کو کھونے کا حوصلہ اس میں نہیں تھا۔
٭٭٭
اگلی صبح وہ دیر تک سوتی رہی تھی پھر اٹھ کر مائرہ کے ساتھ ناشتہ کیا آج دونوں کا لنچ باہر کرنے کا ارادہ تھا اسی غرض سے وہ الماری میں سر گھسائے اپنا وائیٹ اور پرپل پھولوں والا اسکارف ڈھونڈ رہی تھی جب اسے راہب کی آمد کی اطلاع ملی۔
اگرچہ اس نے کل کہا تھا کہ وہ اسے اپنی مما سے ملوائے گا مگر پھر بھی وہ اس کے آنے کی توقع نہیں کر رہی تھی کیونکہ یہ وعدہ تو ہر ویک اینڈ پر کرتا تھا وہ سارا دن انتظار کرتی رہتی مگر وہ نہیں آتا تھا اگلے روز اس کے استفسار پر مزے سے کہتا۔
’’میں تمہیں ایک دوست کے طور پر اپنی مما سے متعارف نہیں کروانا چاہتا۔‘‘ اور آج بھی اسے یقین تھا کہ وہ نہیں آئے گا مگر اپنے سابقہ ریکارڈ کے برعکس وہ خوب نک سک سا تیار اس کے سامنے کھڑا تھا
’’آئی کانٹ بلیو کہ تم آ چکے ہو اور مجھے اپنے گھر لے کر جا رہے ہو۔‘‘ وہ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے حیرت سے بولی تھی۔
’’اس میں اتنا سرپرائز ہونے کی کیا بات ہے فائنل سے پہلے مجھے کوئی فیصلہ کن قدم تو اٹھانا ہی تھا اب محض تمہارے جواب پر تو زندگی برباد نہیں کی جا سکتی۔‘‘ گاڑی کو روڈ پر ڈالتے اس نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
’’ہاں مگر میں تمہارا ساتھ دینے کا کوئی وعدہ نہیں کر رہی۔‘‘
’’مجھے بھی تم سے کچھ ایسی ہی امید تھی اطمینان رکھو یہ سب اب میں اپنے بل بوتے پر کروں گا۔‘‘
’’اور تم کیا کرنے والے ہو۔‘‘ رعنا نے تیکھی نگاہ اس پر ڈالی۔
’’تمہیں کڈنیپ کرنے والا ہوں۔‘‘ وہ چڑ کر بولا جس پر وہ منہ پھلا کر گلاس ونڈو سے باہر دیکھنے لگی تھی۔
اگلے چند لمحوں میں گاڑی گرین اسٹریٹ میں داخل ہو چکی تھی ہاؤس نمبر سیون کے قریب آتے ہی اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا۔
’’مما!‘‘ وہ مرکزی دروازے سے پکارتا ہوا لاؤنج میں آیا تھا، دائیں سائیڈ پر واقع کچن سے کھانے کی خوشبو باہر تک آ رہی تھی۔
’’مما دیکھیں تو کون آیا ہے۔‘‘ اس نے دوسری بار پھر با آواز پکارا تھا۔
آ رہی ہوں بابا۔‘‘ آواز کے ساتھ چہرہ نمودار ہوا۔
میرون اور بلیک رنگ کے سوٹ میں ملبوس شانوں پہ گرم شال اوڑھے ایک با وقار سی خاتون ان کے پاس آ کر رک چکی تھیں۔
سفید گلابی رنگت، بڑی بڑی آنکھیں اور تیکھے نقوش کی حامل راہب کی مما بہت گریس فل اور خوبصورت تھیں۔
کچن سے لاؤنج تک کے چند قدم کے فاصلے تک رعنا ان کا مکمل جائزہ لے چکی تھی۔
’’مما یہ رعنا شاہ ہے۔‘‘ راہب نے دونوں کے مابین آدھا ادھورا سا تعارف کروایا تھا جس پر اس کی مما ٹھٹھک سی گئیں تھیں۔
وہی چہرہ وہی رنگت اور ویسی ہی مغرور اور سفاک آنکھیں، وہ جانے کہاں کھو گئی تھیں کہ رعنا کے سلام کا جواب دینا بھی بھول گئیں۔
’’تم لوگ بیٹھو میں کھانا لگاتی ہوں۔‘‘ رعنا نے اشارے سے پوچھا تھا۔
’’انہیں کیا ہوا؟‘‘ جواب میں وہ لاعلمی سے شانے اچکا کر خود بھی ان کے ساتھ میز پر برتن لگانے لگا تھا۔
بس اس سے انہوں نے اس کا پورا نام پوچھا تھا اور پھر معذرت کر کے اپنے کمرے میں چلی گئی تھیں۔
مما کا یہ ایب نارمل سا رویہ راہب سے بھی ہضم نہیں ہو رہا تھا، رعنا اپنی خفت مٹانے کے لئے اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی تھی۔
’’راہب اب تم مجھے ہاسٹل ڈراپ کر آؤ۔‘‘ دو چار لقمے کھانے کے بعد وہ اٹھ گئی مگر لاؤنج میں لگی تصویر کو دیکھ کر اسے ٹھٹکنا پڑا تھا۔
’’یہ تصویر۔‘‘ وہ انلارج تصویر کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
’’میرے ماموں ہیں۔‘‘
’’کہاں رہتے ہیں۔‘‘
’’ان کی ڈیتھ ہو چکی ہے۔‘‘ اس انکشاف پر رعنا نے بے ساختہ پلٹ کر اسے دیکھا تھا اسے جانے کیوں دکھ سا ہوا۔
’’تم جانتی ہو انہیں۔‘‘
’’پتہ نہیں۔‘‘ حالانکہ وہ انہیں نہیں جانتی تھی مگر پھر بھی یہ چہرہ دیکھا بھالا سا لگ رہا تھا راستہ بھر دونوں ہی الجھے ہوئے خاموش سے ہی رہے تھے راہب کو مما کا بی ہیویر الجھا رہا تھا تو رعنا کو وہ تصویر میں مسکراتا شخص۔
٭٭٭
’’مما آپ کو رعنا اچھی نہیں لگی۔‘‘ اسے ڈراپ کرنے کے بعد وہ سیدھا سونم کے بیڈ روم میں آیا تھا وہ آنکھیں موندے لیٹی تھیں آہٹ پر پلکوں کے در وا کیے اور پھر راہب کے استفسار پر ایک گہرا سانس بھرتے ہوئے صاف گوئی سے بولیں۔
’’نہیں۔‘‘ اور وہ ان کے جواب پر ششدر رہ گیا تھا۔
’’کیوں؟‘‘ اس کے لبوں سے بے ساختہ نکلا۔
’’تم نے ایک سوال پوچھا تھا جس کا جواب میں نے دے دیا اور بہتر ہو گا اگر تم اس لڑکی کا خیال اپنے دل سے نکال دو۔‘‘
’’مما لیکن…‘‘
’’میں اس وقت سونا چاہتی ہوں۔‘‘ اس کی بات کاٹتے ہوئے انہوں نے آنکھوں پر بازو رکھ لیا تھا گویا یہ واضح اشارہ تھا کہ وہ اس ٹاپک پر مزید بحث نہیں کرنا چاہتی تھیں۔
٭٭٭
پچھلے دو گھنٹوں سے وہ مسلسل ذہن پر زور ڈالتے ہوئے یہ سوچنے کی کوشش میں ہلکان ہو چکی تھی کہ اس نے تصویر کہاں دیکھی ہے اتنا تو اسے یاد تھا کہ اس نے اس تصویر کو اپنے گھر میں ہی کہیں دیکھا تھا۔
’’مگر کہاں … بام تصور میں اس نے ہر کمرے کا جائزہ لے ڈالا مگر سب بے سود، تھک ہار کر وہ بیڈ پہ گرنے والے انداز میں بیٹھ گئی، عجیب سی کشمکش تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اس تصویر کو لے کر اتنی ڈسٹرب کیوں ہے، ’’یاد آیا‘‘ اچانک اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا تھا۔
’’روشنی پھپھو… ہاں … نہیں … یقیناً۔‘‘ یہ تصویر اس نے پھپھو کی کتاب میں دیکھی تھی اپنی چوبیس سالہ زندگی میں وہ محض ایک بار ہی تو اس کمرے میں گئی تھی۔
یہ بہت پرانی بات تھی اس وقت نانا جان کی وفات پر اس نے زندگی میں پہلی بار اس وسیع و عریض حویلی کے اس بند دروازے کو کھلتے ہوئے پھر اس کے کمرے سے اپنی نام نہاد پھپھو کو نکلتے ہوئے دیکھا تھا نام نہاد اس لئے کہ اس سے پہلے اس نے بس ان کا ذکر سنا تھا اپنی عمر کے آٹھ سال بعد ایک ہی گھر میں رہنے کے باوجود اس نے پہلی بار انہیں دیکھا تھا صرف دس منٹ کے لئے آخری سفر پر جاتے نانا جان کو وہ آخری بار دیکھنے آئی تھیں اور تب موقع سے فائدہ اٹھا کر وہ ان کے کمرے میں جا گھسی تھی۔
بند کمرے کو دیکھ کر وہ اکثر سوچا کرتی تھی کہ نہ جانے اس کمرے میں ایسا کیا ہے جو اسے مقفل رکھا جاتا ہے لیکن کمرے میں جا کر اسے خاصی مایوسی ہوئی وہ تو بے حد سادہ اور عام سا کمرہ تھا۔
ایک سنگل بیڈ، ایک تخت پوش، سیف الماری اور ریک میں رکھی چند کتابیں، ایک کتاب بیڈ پر اوندھی پڑی تھی اس نے اٹھا کر دیکھا تو اچانک کچھ نکل کر نیچے گرا۔
وہ ایک تصویر تھی۔
اور ایسا چہرہ اس نے اپنی میں فیملی کہیں نہیں دیکھا تھا، اس شخص کے نقوش اتنے شفاف اور کھرے تھے کہ اتنے برس گزرنے کے باوجود بھی اس کے حافظے میں ثبت ہو کر رہ گئے تھے۔
پھپھو کے کمرے اور راہب کے گھر میں ایک ہی تصویر کا ہونا اور سونم آنٹی کا عجیب و غریب ری ایکشن وہ گہری سوچ میں ڈوب چکی تھی۔
٭٭٭
’’کیا ضروری تھا کہ یہ لڑکی زنبیل شاہ کی بیٹی ہوتی۔‘‘ وہ جب سے اس لڑکی سے ملی تھیں بے حد مضطرب ہو چکی تھیں، دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگی تھیں تیز ہواؤں نے ساری گرد جھاڑ دی تھی ماضی شفاف آئینے کی مانند ان کے سامنے کھڑا تھا، وہ کسی کو بھی سوچنا نہیں چاہتی تھیں، مگر قید کی زنجیروں میں جکڑی یادوں کو راہ فرار ملا تھا، کوئی دور بہت دور سے اسے پکارتا ہوا آ رہا تھا۔
’’سونم… سونم۔‘‘ دور سے آتی آواز کو نظر انداز کیے وہ امرود کے درخت تلے بیٹھی دھواں دار رونے میں مشغول تھی۔
’’سونم تمہاری اماں تمہیں ڈھونڈ رہی ہیں۔‘‘ پھولی ہوئی سانسوں کو ہموار کرتا وہ اس کے پاس ہی بیٹھ چکا تھا۔
’’میں گھر نہیں جاؤں گی۔‘‘ اس نے روتے ہوئے کہا۔
’’تم رو کیوں رہی ہو اور گھر کیوں نہیں جانا۔‘‘ اس کے قریب گھٹنوں کے بل جھکا وہ چھوٹا سا لڑکا وڈے شاہ سائیں کا سب سے چھوٹا بیٹا ہابیل شاہ تھا جو تشویش بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
اور سونم کو پھر سے راہب یاد آیا تھا اس کا پیارا بھائی اس کی ہر چوٹ اور معمولی سی تکلیف پر بے چین ہو اٹھنے والا، اس سے بہت پیار کرنے والا، اسے گڑیا کہنے والا۔
’’گھر میں سب گندے ہیں کسی سے بات نہیں کروں گی۔‘‘ وہ سب سے خفا ہو چکی تھی ہابیل شاہ اس کے انداز پہ دھیرے سے مسکرا دیا، اسے منشی لالہ کی یہ گڑیا بہت پیاری لگتی تھی، سبز آنکھوں اور کالے بالوں والی بالکل باربی ڈول جیسی۔
’’اچھا جی تو تمہیں سب گندے لگتے ہیں وہ کیوں۔‘‘ وہ نرمی سے بولا۔
’’پھپھو میرے بھیا کو کیوں ساتھ لے گئی ہیں۔‘‘
’’تو کیا ہوا کچھ دنوں بعد وہ پھر واپس آ جائے گا۔‘‘ وہ اسے بہلانے کو بولا اور پھر بہلا پھسلا کر اس کو اس کی مما کے پاس لے آیا، وہ دیکھتے ہی لپکی تھی۔
’’گڑیا میری جان میں کب سے تمہیں ڈھونڈ رہی ہوں۔‘‘ اماں نے اس کے گرد میں اٹے ہاتھ پاؤں اور فراک جھاڑا ہاتھوں سے اس کے بال سنوارے، دوپٹے کے پلو سے چہرہ صاف کیا اور پھر گود میں اٹھا کر گھر کی سمت چل پڑی تھیں۔
’’تمہارا راہب بھائی پھپھو کے ساتھ ولایت چلا گیا ہے اب بہت بڑا ڈاکٹر بن کر واپس آئے گا پھر اپنے گاؤں میں ہاسپٹل بنائے گا وہ کہہ رہا تھا سونم کیلئے سنہری بالوں والی گڑیا بھی لائے گا۔‘‘ باتوں کے دوران وہ اسے کھانا کھلانے کی کوشش کر رہی تھی مگر نوالہ اس کے حلق میں بار بار اٹک رہا تھا وہ راہب کے بغیر بہت اداس اور تنہا ہو چکی تھی اگلے روز ابا اس کا دل بہلانے کی غرض سے اپنے ساتھ زمینوں پر لے گئے تھے وہاں اس کی ملاقات ہابیل شاہ سے بھی ہوئی تھی۔
وہ اپنے بھائی زنبیل شاہ اور نبیل شاہ کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا، اسے دیکھا تو کھیل ادھورا چھوڑ کر چلا آیا دونوں کے مابین گہری دوستی ہو چکی تھی وہ بالکل راہب کی طرح اس کا خیال رکھتا تھا۔
چند دنوں تک اس کا ایڈمیشن ہابیل شاہ کے سکول میں کروا دیا گیا تھا اس زمانے میں لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کا زیادہ رواج نہیں تھا مگر ابا کی خواہش تھی کہ ان کے دونوں بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ کہلائیں اس کے ابا حیات احمد، وڈے شاہ سائیں کے ہاں منشی تھے اور ان کے تینوں بیٹوں کو شہر کے بڑے سکول پک اینڈ ڈراپ کرنے کی ذمہ داری بھی ان کی تھی اس لئے انہیں سونم کا زیادہ مسئلہ نہیں ہوا تھا۔
وہ صبح سویرے تیار ہو کر اماں کے ساتھ دروازے پر کھڑی تھی جب ہابیل شاہ اسے لینے کے لئے چلا آیا۔
’’بیٹا گڑیا کا خیال رکھنا یہ ابھی بہت چھوٹی ہے۔‘‘ اماں نے اسے تاکید کی تھی جس پر ہابیل شاہ نے بڑے مدبرانہ انداز میں سر ہلایا تھا۔
سونم نے سکول جا کر اس کی کلاس میں بیٹھنے کی ضد کی تھی جس پر وہ اسے اپنی کلاس میں لے آیا تھا، ٹیچر سے اسے بہت ڈانٹ پڑی مگر وہ اسے اپنے ساتھ ڈیسک پر بٹھائے خاموشی سے سنتا رہا۔
اس کے ساتھ سکول جانا، کھیلنا، لنچ شیئر کرنا سے لے کر ہوم ورک کروانے تک ہر کام گویا کہ اس کی ذمہ داری بن چکا تھا۔
گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں بوڑھے برگد کی زمین بوس شاخوں پر بیٹھ کر وہ اسے بی بی سے سنی لوک داستانیں سنایا کرتا تھا۔
ہیر، سنڈریلا اور الف لیلیٰ کے بعد آج سوہنی کی باری تھی وہ بول رہا تھا وہ دم سادھے ہمہ تن گوش تھی، تبھی پوسٹ میں کی مخصوص گھنٹی سنائی دی۔
’’راہب بھیا کی چٹھی آئی ہے۔‘‘ اس نے بڑی آس سے پوسٹ میں کو دیکھا تھا۔
’’نہیں بیٹا۔‘‘ وہ اس کا گال تھپتھپا کر سائیکل پہ سوار ہو کر چلا گیا تو اس کی آنکھوں میں مایوسیوں کے بادل امڈ آئے، ہابیل شاہ خاموش بیٹھا اسے دیکھتا رہا مگر وہ واپس آنے کی بجائے گھر چلی گئی تھی۔
اس کی کہانی ادھوری رہ گئی تھی شام کے بعد اسے سوہنی کا خیال آیا۔
’’طوفانی رات، کچا گھڑا اور بپھرتی لہریں۔‘‘ وہ خوف کے مارے اٹھ بیٹھی۔
ابا ساتھ والی چارپائی پر بیٹھا کھانا کھا رہا تھا اور اماں دور بیٹھی لکڑیاں سلگاتی دودھ ابالنے میں مگن تھی اور اسے اپنی ادھوری کہانی کی فکر تھی اسے سوہنی کی فکر تھی۔
’’تو کیا سوہنی ڈوب جائے گی۔‘‘ وہ بے چینی سے صبح کا انتظار کرنے لگی تھی اور جب صبح ہوئی تو ہابیل شاہ نہیں آیا۔
نبیل شاہ اور زنبیل شاہ اپنے اپنے بیگ اٹھائے چلے آئے تھے اس نے پاؤں اچکتے ہوئے ان کے عقب میں نظر دوڑائی تو دور حویلی تک بل کھاتی لمبی سڑک نے اس کا منہ چڑایا ان دونوں کے بیٹھتے ہی ابا جیپ اسٹارٹ کر چکے تھے۔
’’ابا ابھی ہابی کو تو آ لینے دیں۔‘‘ اس نے روکنے کی کوشش کی تو زنبیل شاہ اکھڑے لہجے میں بولا۔
’’وہ آج نہیں آئے گا۔‘‘ وہ ایسا ہی تھا جھگڑالو، بد مزاج، سونم کو مزید کچھ پوچھنے کی جرأت نہیں ہوئی تھی تبھی وہ چہرے پہ تکلیف کے آثار نمودار کرتے ہوئے حیات احمد سے بولی۔
’’ابا میرے پیٹ میں بہت درد ہے۔‘‘
’’ارے یوں اچانک کیا کھایا تھا آج۔‘‘ وہ فکر مندی سے بولے تو پیچھے بیٹھا نبیل شاہ ہنسنے لگا۔
’’چچا آپ پریشان نہ ہوں یہ سب بہانے ہیں آج ہابیل نہیں آیا تو یہ بھی چھٹی کرے گی۔‘‘ سونم اس کے اتنے درست اندازے پر لب بھینچ کر رہ گئی تھی۔
’’بری بات ہے بیٹا۔‘‘ ابا نے اسے پیار بھرے لہجے میں ڈپٹا اور وہ سارا دن سکول میں بور ہوتی رہی اماں نے واپسی پہ اس کا لنچ باکس چیک کیا آدھا پراٹھا اور انڈا باقی تھا۔
’’یہ کیوں نہیں کھایا۔‘‘ وہ اس سے پوچھ رہی تھیں۔
’’ہابی نہیں آیا آج یہ اس کا حصہ تھا۔‘‘ دروازے میں رک کر کہتی وہ گھر سے باہر نکل آئی تھی اب اس کا رخ بوڑھے برگد کی سمت تھا۔
لیکن وہ آج وہاں بھی نہیں آیا تھا اس نے کچھ دیر انتظار کیا پھر اٹھ کر بڑی حویلی چلی آئی تھی مگر لاؤنج کے دروازے پر ہچکچا کر رکنا پڑا وہ دن میں چار بار ان کے گھر بلا جھجک آتا تھا مگر وہ حویلی پہلی بار آئی تھی اس نے ادھ کھلے دریچے سے اندر جھانکا۔
ایک خوبصورت خاتون ہابیل شاہ کو گود میں بٹھا کر بڑے پیار سے کھیر کھلا رہی تھی، باقی نوکر چاکر اپنے کاموں میں مصروف تھے۔
وڈے شاہ سائیں اور چھوٹے شاہ سائیں دونوں بھائی تھے، وڈے شاہ کے تین بیٹے اور ایک بیٹی روشنی تھی جبکہ چھوٹے شاہ کی ایک ہی بیٹی تھی فریال، جو زنبیل شاہ کے ساتھ منسوب تھی۔
’’سونم تم آئی ہو۔‘‘ ہابیل شاہ اسے دیکھ چکا تھا۔
’’آؤ اندر آؤ نا۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا۔
’’بی بی یہ میری دوست ہے۔‘‘ اب وہ بی بی کے سامنے کھڑا بڑے اشتیاق سے اس کا تعارف کروا رہا تھا بی بی نے نرم مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا تو وہ انہیں سلام کرنے لگی۔
’’بہت پیاری ہے بالکل گڑیا جیسی ہے۔‘‘ بی بی نے اسے پیار کیا۔
’’کھیر کھاؤ گی۔‘‘ ساتھ ایک کٹوری بھی اس کی سمت بڑھا دی جسے جھجکتے ہوئے اس نے تھام لیا تھا۔
’’تمہیں بی بی کیسی لگی۔‘‘ ہال کی سیڑھیاں چڑھتا وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔
’’بہت اچھی۔‘‘ وہ صاف گوئی سے بولی۔
’’یہ میرا کمرہ ہے۔‘‘ ہابیل اب اسے اپنے کھلونے دکھا رہا تھا مگر اس کا سارا دھیان باغیچے کے ایک جانب بیٹھ کر گڑیا کے ساتھ کھیلتی اس بچی پہ اٹکا ہوا تھا جس کے پاس سنہری بالوں والی ولایتی گڑیا تھی، وہ سیڑھیاں اتر کر اس کے قریب آ بیٹھی۔
’’میں جانتی ہوں تمہیں یہ بڑی بڑی محل نما حویلیاں اچھی نہیں لگتی لیکن جب تم بڑی ہو جاؤ گی تو پھر تمہارے لئے سفید گھوڑے پہ بیٹھ کر ایک پیارا سا راج کمار آئے گا جو تمہیں اس حویلی سے نکال کر دور اپنی سندر سی دنیا میں لے جائے گا پھر تم اس کے ساتھ سکول جایا کرو گی باغوں میں جھولا لو گی اور وہ تمہیں ساری دنیا کی سیر…‘‘
سونم کے قریب آنے پر وہ خاموش ہو گئی تھی۔
’’میں تمہاری گڑیا دیکھ لوں۔‘‘
’’روشنی ماسٹر جی آ گئے ہیں۔‘‘ فریال دور سے اطلاع دے کر واپس پلٹ گئی تھی روشنی بھی اٹھ کر اندر بھاگ گئی۔
’’یہ سکول نہیں جاتیں؟‘‘ اس نے ہابی سے پوچھا تھا۔
’’نہیں ان کے لئے گھر میں ماسٹر جی آتے ہیں۔‘‘
’’اور تم سکول کیوں نہیں آئے تھے۔‘‘ اسے حویلی آمد کی وجہ اچانک یاد آئی تھی۔
’’صبح فلو تھا لیکن اب ٹھیک ہوں۔‘‘
’’وہ سوہنی نے دریا پار کر لیا تھا نا۔‘‘ اسے کہانی پھر سے یاد آ گئی تھی۔
’’وہ تو ڈوب گئی۔‘‘ اس نے افسردگی سے بتایا اور سونم کی بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے پھر وہ کتنے دنوں تک اداس رہی تھی اور پھر اس نے بوڑھے برگد کے پاس جانا چھوڑ دیا تھا وہ کوئی اور کہانی سننا نہیں چاہتی تھی مگر کچھ سال گزرے تو وہ چھوٹے شاہ سائیں کی لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھنے لگی تھی لیکن ہابیل اسے کبھی المیہ انجام والی کہانی پڑھنے نہیں دیتا تھا وہ کسی کہانی کے المیہ انجام پر دکھی ہو ہابیل شاہ کو اس کا اتنا بھی دکھ گوارہ نہیں تھا۔
٭٭٭
اس نے میٹرک کے ایگزام دئیے تو وہ گریجویشن کے لئے لاہور چلا گیا جانے سے قبل اس سے ملنے آیا تھا۔
وہ گلاب کے پودے کے پاس بیٹھی پھولوں کی پتیاں چن رہی تھی۔
’’میں جا رہا ہوں۔‘‘ وہ قریب آ کر کھڑا اطلاع دے رہا تھا۔
’’تو جاؤ تمہیں روکا کس نے ہے۔‘‘ اس کا انداز خفگی بھرا تھا۔
’’اب تو فریال اور روشنی سے تمہاری اچھی دوستی ہو چکی ہے سوچو بور تو وہاں میں رہوں گا۔‘‘ وہ خاموش رہی تھی۔
’’اچھا میں تمہیں خط لکھا کروں گا۔‘‘
’’جانتی ہوں تمہارے وعدے راہب بھیا کی طرح تم بھی جا کر بھول جاؤ گے۔‘‘
’’میں تمہارے راہب بھیا کی طرح بے وفا نہیں ہوں۔‘‘ وہ چھیڑنے کو بولا تو وہ بھڑک ہی اٹھی۔
’’وہ بے وفا نہیں ہیں بہت محبت کرتے ہیں مجھ سے۔‘‘
’’محبت تو میں بھی بہت کرتا ہوں تم سے۔‘‘ ہابیل نے اس کے قریب بیٹھ کر اس کے ہاتھ سے سارے گلاب لے لئے تھے سونم کی پلکیں عارضوں پہ جھک آئیں، ہابیل نے بڑی دلچسپی سے اسے دیکھا۔
’’سنو۔‘‘ اس نے کہا اور وہ ہمہ تن گوش ہو گئی۔
’’میری سوہنی بنو گی؟‘‘ اس کا لہجہ جذبوں کی آنچ سے بوجھل سا ہو گیا تھا۔
’’مجھے ڈوبنے سے بڑا خوف آتا ہے۔‘‘ اس کی آنکھوں میں کالی رات اتر آئی تھی۔
’’ہم پکا گھڑا بنائیں گے۔‘‘ وہ اعتبار دلا کر چلا گیا اور اس کے دن رات ریشم کی اس ڈور سے منسوب ہو گئے جو محبت کی صورت ایک دل کو دوسرے کے ساتھ باندھے ہوئے تھی۔
اس کے جانے کے ایک ہفتے بعد اس کا پہلا خط آیا تھا، وہ بے چینی سے لفافے کا سینہ چاک کرتے ہوئے سیڑھیوں پر آ بیٹھی۔
’’راہب کی چٹھی آئی ہے۔‘‘ اماں نے اپنے دروازے سے خاکی وردی والے کو پلٹتے دیکھا تو مارے اشتیاق کے اس کے سر پہ آن کھڑی ہوئیں۔
’’نہیں اماں یہ ہابی کا خط ہے۔‘‘ اسے پڑھنے کی جلدی تھی۔
’’میں تمہارے بغیر بہت…‘‘ ساتھ ہی اماں نے اس کے ہاتھ سے وہ کاغذ جھپٹ لیا اور وہ ہکا بکا اماں کی صورت دیکھنے لگی تھی جو عجیب تفتیشی انداز میں اب اس سے استفسار کر رہی تھی۔
’’اس نے تمہیں خط کیوں لکھا۔‘‘
’’اماں وہ میرا بچپن کا دوست ہے۔‘‘
’’بچپن کا دوست، دیکھو بیٹا اب تم بچی نہیں رہی ہو کل سے کالج جانے لگو گی پھر مجھے تمہاری شادی بھی تو کرنی ہے یہ دوستی کب تک تمہارے ساتھ چلے گی یہ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں نا وہاں ایسی دوستیاں بڑی معیوب سمجھی جاتی ہیں میں نہیں چاہتی کہ لوگ تمہارا نام ہابیل کے ساتھ جوڑ کر تمہیں رسوا کریں۔‘‘ وہ مزید نہ جانے کیا کہے جا رہی تھیں مگر سونم کا سارا دھیان تو ان کی بند مٹھی میں سمٹے کاغذ پر اٹکا تھا جس کے اس نے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد کوڑا دان میں پھینک دئیے تھے۔
’’اماں کا تو دماغ خراب ہو گیا ہے۔‘‘ وہ بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئی۔
’’میں تمہارے بغیر بہت…‘‘ ساری رات اسی خالی جگہ کو پر کرتے ہوئے گزر گئی تھی۔
٭٭٭
چھ ماہ گزر چکے تھے وہ کالج جانے لگی تھی جب ایک روز واپسی پر اس نے ہابیل شاہ کو حویلی کے گیٹ پر کھڑے دیکھا حویلی میں نبیل شاہ کی شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں وہ بھی شاید اسی سلسلے میں گاؤں آیا تھا۔
’’مگر مجھ سے ملنے کیوں نہیں آیا۔‘‘ اسے سوچ کر ہی غصہ آ رہا تھا، مزید دو روز گزرنے پر بھی جب وہ نہیں آیا تو وہ خود ہی حویلی چلی آئی۔
آج رات مہندی تھی اور وہ لان میں کھڑا کرسیاں لگوا رہا تھا۔
’’سونم تم اچھا ہوا خود ہی چلی آئی میں ابھی تمہیں پیغام بھجوانے والی تھی۔‘‘ روشنی دور سے ہی بولتے ہوئے اس کے پاس آئی تھی پھر اس کا ہاتھ تھام کر اندر لے گئی وہ اپنے ایک ہاتھ پر مہندی لگا چکی تھی اور دوسرے پر لگوانے کے لئے اس کا انتظار ہو رہا تھا۔
مگر کوریڈور میں وہ اس سے ٹکڑا گیا روشنی بی بی کی بات سننے جا چکی تھی۔
’’کیسی ہو؟‘‘ وہ اس کا احوال دریافت کر رہا تھا اور سونم کھا جانے والی نظروں سے اسے گھور رہی تھی۔
’’کتنے دنوں سے یہاں ہو۔‘‘
’’تین دن سے۔‘‘ وہ انگلیوں پہ گنتے ہوئے بولا۔
’’تو مجھ سے ملنے کیوں نہیں آئے۔‘‘ وہ تڑخ کر بولی، بس نہیں چل رہا تھا کہ اس کا کیا حشر کر ڈالے۔
’’پہلے بتاؤ میرے کسی خط کا جواب کیوں نہیں دیا۔‘‘ وہ اپنا سوال لئے کھڑا تھا وہ ماتھے پر ہاتھ مار کر رہ گئی۔
’’تمہیں بتانا تو یاد ہی نہیں رہا اماں کو جانے کیا ہو گیا ہے وہ اب مجھے تم سے ملنے سے منع کرنے لگی ہیں اور اس نے مجھے تمہارا کوئی خط بھی پڑھنے نہیں دیا۔‘‘ آخر میں اس کا لہجہ روہانسا ہو گیا تھا۔
’’میں بھی تمہارے گھر گیا تھا تمہاری اماں نے کہا دیکھو بیٹا اب تم بڑے ہو چکے ہو تمہارا اس طرح سونم سے ملنا مناسب نہیں ہو گا۔‘‘ وہ صاف گوئی سے بولا تو وہ پریشان ہو گئی۔
٭٭٭
اونچی نیچی پگڈنڈیوں پر کھڑی صنوبر کے درخت سے ٹیک لگائے وہ بڑی تمکنت اور شان سے ایستادہ حویلی کو دیکھ رہی تھی۔
’’کہاں وہ محلوں میں رہنے ولا شہزادہ اور وہ خود چھوٹے سے گھر میں رہنے والی ایک غریب کسان کی بیٹی۔‘‘ یہ فرق اسے پہلے کیوں نظر نہیں آیا تھا اسے خود پر حیرت ہو رہی تھی۔
دوستی کی حد تک تو ٹھیک تھا لیکن اتنے اونچے خواب سجانے کی کیا ضرورت تھی اب ٹوٹے تھے تو بہت درد ہو رہا تھا۔
وہ ریشمی آنچل، بھاری بھرکم ملبوسات اور جگمگ کرتے زیورات کے ڈبے ایک بار پھر سے اس کی آنکھوں میں ریت کے مانند چبھنے لگے تھے۔
کل وہ بڑی حویلی گئی تھی لاؤنج سے گزرتے ہوئے اس نے دیکھا بی بی اپنے گرد گویا کہ پوری دوکان سجائے بیٹھی تھیں۔
’’سلام بی بی۔‘‘ وہ پلٹ کر ان کے قریب چلی آئی۔
’’وعلیکم السلام جیتی رہو۔‘‘ بی بی اسے دیکھ کر کھل اٹھیں۔
’’آؤ دیکھو تو یہ گلو بند کیسا ہے۔‘‘ بی بی نے ہیروں سے دمکتا ایک ہار اسے دکھایا تو اس کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔
’’بہت خوبصورت ہے بی بی مگر یہ سب…‘‘ اس کا اشارہ مختلف اشیاء کی جانب تھا۔
’’جمعہ کے مبارک دن ہابیل شاہ کی نسبت طے ہو رہی ہے زمرد کی بھتیجی سے بڑا اعلیٰ خاندان ہے ان کا، وڈے شاہ سائیں سے زیادہ باغات اور زمینیں ہیں۔‘‘ وہ اس کے دل پر گزرنے والی قیامت سے بے خبر بڑے جوش میں اسے بتا رہی تھیں زمرد بیگم چھوٹے شاہ سائیں کی شریک حیات تھیں، سب انہیں چھوٹی بیگم کہتے تھے۔
’’ہابیل شاہ کی نسبت۔‘‘ اس کا دماغ آندھیوں کی زد میں آ چکا تھا۔
’’تم بھی چلنا ہمارے ساتھ، ہابیل بہت مانتا ہے تمہاری، تم لڑکی کی تعریف کرو گی تو سمجھ لو اس کی تسلی ہو جائے گی ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ خود لڑکی دیکھنے کی فرمائش کر دے تمہیں تو پتہ ہے نا حویلی کی عورتیں کتنا سخت پردہ کرتی ہیں۔‘‘
شفاف چمکتی آنکھوں سے پھسلتے موتیوں کو کسی نے بڑی چاہت سے اپنی پوروں پر چنا تھا۔
’’کیا تمہیں میری محبت پر اتنا ہی اعتبار تھا جو یہاں چھپ کر رو رہی ہو۔‘‘ وہ جانے کب آیا تھا سونم اسے سامنے دیکھ کر اور بھی شدت سے رونے لگی تھی۔
’’میں نے اس رشتے سے انکار کر دیا ہے اور آج بابا سائیں سے تمہارے متعلق بات کروں گا۔‘‘ اور وہ اس کی بات پر سارا رونا دھونا بھول کر جیسے بالکل منجمد سی ہو چکی تھی اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔
کہ وہ اس سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اس نے بی بی کے سامنے سر اٹھانے کی جرأت کی ہے اور اب وڈے شاہ سائیں سے بات کرے گا مگر اسے اعتبار کر لینا چاہیے تھا کیونکہ اس کی آنکھوں میں محبت کے ستارے جھلملا رہے تھے جن کی روشنی سے اس کی قسمت چمکنے والی تھی۔
٭٭٭
حویلی میں آج کل بھونچال آیا ہوا تھا وڈے شاہ سائیں کافی غصے میں تھے بی بی اور لڑکیاں ہابیل شاہ کی ہمنوا تھیں جبکہ چھوٹی بیگم دن رات سونم کو کوستی جس نے ان کی بھتیجی کے حق پہ ڈاکا ڈالا تھا، ہابیل شاہ نے بھوک ہڑتال کر رکھی تھی اور چھوٹے شاہ سائیں کا چونکہ وہ بے حد لاڈلا تھا سو وہ وڈے شاہ جی کو قائل کرنے کی کوشش پر معمور تھے۔
’’میں یہ نہیں کہوں گا کہ وہ دولت اور حیثیت میں ہم سے کم تر ہیں لیکن ہماری کچھ خاندانی روایات ہیں جن کی پاسداری کرنا ہم پر فرض ہے تم جانتے ہو کہ ہمارے ہاں خاندان سے باہر شادیاں نہیں ہوتیں۔‘‘ وڈے شاہ سائیں اس کی حمایت پر برہمی سے بولے تھے۔
’’چھوڑیں بھائی صاحب ہماری کون سا لڑکی ہے جو ہم ایسی باتیں سوچیں اس کی مرضی ہے تو کر لینے دیں نکاح، اس کی دوسری شادی تو ہم خاندان کی کسی لڑکی کے ساتھ بڑی دھوم دھام سے کریں گے جوان لڑکا ہے عشق کا بھوت سوار ہے اور آپ کو پتہ ہے نا وہ کتنا جذباتی ہے اپنی کمٹ منٹ بھی نہیں توڑتا ایسے ہی خود کو کوئی نقصان نہ پہنچا لے تین دن سے کمرے میں بند پڑا ہے کچھ کھایا پیا بھی نہیں۔‘‘ اور وڈے شاہ سائیں سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے اور پھر چھوٹے شاہ سائیں کے بصد اصرار پر رضا مندی دے دی تھی۔
سونم کے گھر میں بھلا کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا، وڈے شاہ سائیں نے منشی حیات احمد کو اپنے ڈیرے پہ بلا کر رشتہ طلب کیا تھا اور انہوں نے اپنی خوش قسمتی تصور کرتے ہوئے ہاں کر دی تھی اور اس کی وجہ وڈے شاہ سائیں کا جاہ جلال امارت اور رتبہ نہیں تھا وہ ہابیل شاہ کو بچپن سے جانتے تھے وہ اچھا سلجھا ہوا اور مہذب نوجوان تھا۔
سونم سے محبت کے ساتھ ساتھ وہ ان کا بے حد احترام بھی کرتا تھا دونوں جانب شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔
٭٭٭
بڑی حویلی سے فریال اور روشنی خیراں بی بی کے ساتھ اسے مہندی لگانے آئی تھیں۔
’’ہمارا گاؤں تو دیکھو اف کتنا خوبصورت ہے۔‘‘ اس شام موسم اچھا خاصا خوشگوار اور دلفریب ہو رہا تھا روشنی نے کمرے کی کھڑکیاں کھولتے ہوئے باہر جھانکا حد نگاہ تک سبزہ ہی سبزہ پھیلا ہوا تھا۔
ڈوبتے سورج کی نارنجی شعاعوں پر بادلوں کے کنارے سلگ رہے تھے ٹھنڈی سبک ہوا چل رہی تھی ندی کنارے ناچتے موروں سے نگاہ ہٹی تو اونچی نیچی پگڈنڈیوں پر چلتے اس خوبرو نوجوان پر ٹھہر سی گئی، جانے وہ کون تھا، کوئی مسافر اجنبی یا اس گاؤں کا رہائشی مگر وہ تو کوئی پردیسی ہی لگتا تھا بالکل شہری بابو جیسا، نہیں اس کے خوابوں کے راج کمار جیسا۔
’’کھڑکی بند کرو اگر کسی نے تمہیں یوں کھڑے دیکھ لیا تو…‘‘ فریال نے ٹوکنا چاہا تھا مگر اس نے الٹا اسے ٹوک دیا۔
’’تم خاموشی سے اپنا کام کرو۔‘‘ اور جب پلٹ کر دوبارہ اس سبزہ زار کو دیکھا تو وہ یوں غائب تھا جیسے کبھی تھا ہی نہیں وہ مایوس ہو کر ان کے قریب آن بیٹھی۔
’’جانتی ہو سونم کبھی مجھے تمہاری خوش قسمتی پر رشک آتا تھا کہ تم وڈے شاہ سائیں کی بجائے ایک غریب کسان کی بیٹی ہو، بڑی حویلی کی جگہ تمہارا ایک چھوٹا سا گھر ہے تم آزاد ہو تم پر کوئی پابندی نہیں ہے تم فرسودہ روایات اور اقدار کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی نہیں ہو مگر آج مجھے تم پہ ترس آ رہا ہے جسے تم محل سمجھ رہی ہو نا وہ سونے کا پنجرہ ہے زندان ہے جو قبر سے زیادہ گہرا اور تاریک…‘‘
’’بس کرو روشنی تم پہ پھر سے دورہ پڑ چکا ہے۔‘‘ فریال نے بری طرح اسے جھاڑ دیا تھا جبکہ سونم پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
اس نے آج سے قبل کبھی روشنی کا یہ روپ نہیں دیکھا تھا، وہ اپنے حالات اور روایات سے اتنی بدگمان تھی،
’’راہب میرا چاند۔‘‘ باہر گویا کہ ایک ہنگامہ جاگ اٹھا تھا سونم کی سماعتوں میں برسوں بعد اس نام کی پکار گونجی تھی فرط جذبات سے مغلوب ہو کہ وہ باہر بھاگی اس کا بھائی لوٹ آیا تھا آج اتنے برسوں بعد وہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔
’’میری گڑیا اتنی بڑی ہو گئی۔‘‘ اماں سے ملنے کے بعد اب وہ اسے دیکھ رہا تھا اور وہ اس کے سینے سے لگتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی اماں اور ابا کی آنکھیں بھی نم تھیں مگر یہ خوشی کے آنسو تھے ان کا بیٹا ڈاکٹر بن کر آیا تھا ان کا فخر بن کر لوٹا تھا۔
سونم کے ہاتھوں پہ مہندی لگی ہوئی تھی اس نے فریال کو چائے کے لئے کچن میں بلا لیا تھا اور باہر اب وہ اماں اور ابا سے باتوں میں مصروف تھا، اماں نے خوشی خوشی اسے سونم کی شادی کا بتایا تھا اور وہ کچھ حیران ہوتا سونم کو تنگ کرنے کے خیال سے کمرے میں چلا آیا تھا، وہ رخ موڑے کھڑکی کی جانب کھڑی تھی۔
’’اچھا تو آپ پیا دیس سدھارنے والی ہیں۔‘‘ اس نے اپنی ہی دھن میں سونم کی بجائے کسی اور لڑکی کا ہاتھ تھام لیا تھا اس کے پلٹتے ہی راہب نے فوراً ہاتھ چھوڑ دیا۔
’’سوری میں سمجھا سونم ہے۔‘‘ وہ سخت شرمندہ ہوا تھا، جبکہ روشنی دم بخود سی یک ٹک اسے دیکھے جا رہی تھی ابھی کچھ دیر قبل تو وہ ندی کنارے موروں کے قریب پگڈنڈی سے گزر رہا تھا، حویلی آ کر بھی اس کا دل کانوں میں دھڑکتا رہا تھا وہ اپنے بدلتے جذبوں سے خود ہی خوفزدہ ہو چکی تھی۔
٭٭٭
’’آئینہ کچھ نہیں بولے گا جو پوچھنا ہے ہم سے پوچھو۔‘‘ وہ نہ جانے کس پردے کے پیچھے سے نمودار ہوا تھا، آج اس کی مہندی تھی اور وہ رسم کے بعد چھت پر بنے کمرے میں کچھ دیر آرام کرنے کے ارادے سے آئی تھی۔
’’تم یہاں۔‘‘ اس کے لبوں سے گھٹی گھٹی سی چیخ نکلی تو ہابیل شاہ نے اس کے لبوں پہ اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
’’اب شور تو مت مچاؤ بس تمہیں دیکھنے آیا ہوں۔‘‘ کہنے کے ساتھ اس نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ لئے، وارفتہ نگاہیں اس کے خوبصورت چہرے پہ جمی ہوئی تھی۔
’’کوئی تک بنتا ہے بھلا۔‘‘ اس نے جھینپتے ہوئے آنکھیں دکھائیں۔
’’ارے میرا تک نہیں حق بنتا ہے۔‘‘ وہ شرارت سے کہتا مزید گویا ہوا۔
’’تم اپنا شگن والا دوپٹہ بڑھا کر مسہری پر بیٹھو نا میں تمہیں مہندی لگاؤں گا۔‘‘ عجیب اصرار تھا۔
’’پاگل ہوئے ہو ابھی کوئی اوپر آ جائے گا چلو نکلو ادھر سے۔‘‘ وہ دروازے کی جانب دیکھتے ہوئے سرعت سے بولی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔
’’ایسی بھی کیا بے مروتی دوست ہوں تمہارا کیا مجھے اپنا شوق پورے کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ مصنوعی رنجیدگی بھرا لہجہ سونم کو مسکرانے پہ مجبور کر گیا۔
’’کل بھی تو آئے گی جی بھر کر اپنے شوق پورے کرنا اور اب ڈرامہ ختم کرو مجھ پر تمہاری جذباتیت کام نہیں آنے والی۔‘‘ دروازہ کھول کر اب وہ اسے باہر کا راستہ دکھا رہی تھی، وہ جاتے ہوئے پھر پلٹا۔
’’اور یہ کل کب آئے گی۔‘‘ بے تابی ہر لفظ سے مترشح تھی سونم کی ہنسی کا جلترنگ جگمگاتی چاندنی رات میں دور تلک گونجا۔
’’بارہ گھنٹے بعد۔‘‘ وہ جواب دیتی منڈیر کے قریب جھک آئی اور وہ منڈیر کے اس پار جامن کی شاخ سے لٹکا کھڑا تھا۔
’’ان بارہ گھنٹوں کے بعد پھر میں کبھی ہجر کو اپنے درمیان ٹھہرنے نہیں دوں گا۔‘‘ وہ کہہ کر چلا گیا سونم زیر لب مسکراتے ہوئے واپس کمرے میں چلی آئی دونوں نہیں جانتے تھے کہ ہجر ان کی دسترس میں نہیں ان کی قسمت میں ٹھہر چکا تھا۔
٭٭٭
مختلف رسموں سے فراغت کے بعد اسے حجلہ عروسی میں پہنچا دیا گیا تھا اور اب ایک نئے خوبصورت دن کا آغاز ہوا تھا ایسا دن جوان کے لئے خوشیوں اور مسرتوں کا پیغام لئے نمودار ہوا تھا۔
’’السلام علیکم بھابھی جان!‘‘ وہ سنگار میز کے سامنے بیٹھی اپنے بال سلجھا رہی تھی جب روشنی اور فریال نے اسے اپنی بانہوں کے حصار میں جکڑتے ہوئے زور سے بھینچا۔
’’ارے ہٹو بھی۔‘‘ سونم نے ہنستے ہوئے فریال کو پیچھے دھکیلنے کی ناکام سی کوشش کی مگر وہ شرارت پر آمادہ تھی۔
’’کچھ دیر کے لئے مجھے اپنا وہ تصور کر لونا۔‘‘
دونوں کھل کھلا کر ہنسی تھیں سونم کے چہرے پہ حیا کے رنگ سمٹ آئے۔
’’وہ کون؟‘‘ اسی لمحے ہابیل شاہ بالوں کو تولیے سے رگڑتا ہوا واش روم سے برآمد ہوا تو اس استفسار پر دونوں کا رنگ اڑ گیا وہ تو سمجھ رہی تھیں کہ لالہ کہیں باہر ہوں گے، اس پر سونم نے بیچاریوں کے ساتھ حد کر دی تھی۔
’’بتاؤ نا فریال۔‘‘ اندر ہی اندر وہ ان کی حواس باختگی پر ہنس رہی تھی۔
’’کوئی نہیں۔‘‘ دونوں بجلی کی سی تیزی سے غائب ہو چکی تھیں، ہابیل شاہ بھی ہنستے ہوئے بالوں میں کنگھا کرنے لگا تھا۔
’’تم تیار ہو گئی تو چلو ناشتہ کر لیتے ہیں ڈائیننگ ہال میں سب ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘ مگر چھوٹی بیگم کو نئی نویلی دلہن کا یوں منہ اٹھا کر سب کے درمیان آنا کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا۔
’’بھئی حویلی کے کچھ اپنے ضابطے اور روایات ہیں ہابیل تو مرد ہے لیکن تمہیں ان باتوں کا خیال ہونا چاہیے تھا۔‘‘ اور اب وہ اپنی جگہ شرمندہ سی کھڑی تھی سب ناشتہ روکے اسے دیکھ رہے تھے۔
’’بیٹھو بیٹا۔‘‘ بی بی نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔
’’اب اسے حویلی کے رسم و رواج کا کیا پتہ آہستہ آہستہ سیکھ جائے گی۔‘‘ اس کے بعد وہ اس کی حمایت میں بھی بولی تھیں چھوٹی بیگم نے نخوت بھرے انداز میں سر جھٹک دیا وہ اپنی بھتیجی مسترد کرنے کا ملال ابھی تک دل میں لئے بیٹھی تھیں اسی وجہ سے ایک فطری رقابت کا احساس ان کے اندر جنم لے رہا تھا۔
شام میں ولیمہ کی رسم تھی اگلے ہفتے دونوں ہنی مون کے لئے پیرس چلے گئے تھے وہاں سے واپسی پر رکی ہوئی دعوتوں کا سلسلہ چل نکلا تھا پہلے وہ اپنے گھر جانا چاہتی تھی لیکن ابھی سب گھر والوں کو ان کے گفٹس دینا باقی تھے چھوٹی بیگم کے لئے وہ بڑی خوبصورت سی شال لائی تھی جسے لینے سے انہوں نے صاف انکار کر دیا تھا۔
’’تم نے ناحق زحمت کی تمہاری پسند کبھی ہمارا معیار نہیں ہو سکتی۔‘‘ لفظوں سے زیادہ ان کا لہجہ کاٹ دار اور درشت تھا وہ اپنی جگہ ساکت سی رہ گئی تھی اور پھر تو جیسے یہ سلسلہ ہی چل نکلا تھا، اس نے پہلی بار میٹھا بنایا تو اس میں بھی کیڑے نکال دئیے۔
’’اتنا کم دودھ ڈالا ہے کھیر میں اور میٹھا تو نام کو بھی نہیں ہاں بھئی پہلی بار جو اتنی مقدار میں کچھ بنایا ہے ہوش کہاں ہونا تھا، میاں کے آگے پیچھے پھرنے سے کام نہیں چلنے والا وہ تو پہلے ہی تمہاری مٹھی میں بند ہے ہمیں تو ساری عمر اتنے گن نہ آئے اور تمہیں کسی نے یہ بھی نہیں سکھایا کہ میاں کا نام نہیں لیتے۔‘‘
’’اب بس بھی کر دیں امی۔‘‘ فریال نے ناگواری سے انہیں ٹوکا تھا جس پر وہ مزید سیخ پا ہو گئیں۔
’’لو بس یہ کسر باقی تھی آتے ہی ہماری بچیوں پر بھی اپنا رنگ چڑھا دیا ورنہ آج تک بچوں کوبڑوں کی بات کاٹتے یا انہیں ٹوکنے کی جرأت نہیں ہوئی تھی۔‘‘ یہ الزام بھی اس کے سر آ گیا تھا حالانکہ وہ مہر بہ لب ان کی کڑوی کسیلی سنے جا رہی تھی۔
’’اب کھڑے کھڑے منہ کیا دیکھ رہی ہو لے جاؤ اٹھا کر۔‘‘ غصے میں ہاتھ مار کر کٹوری کو پرے گھسیٹا تو پورا باؤل الٹ کر فرش پر جا گرا۔
حواس باختگی میں وہ نیچے جھک کر کھیر واپس باؤل میں ڈالنے لگی تھی۔
’’ارے یہ کیا کر رہی ہو۔‘‘ جانے کہاں سے ہابیل شاہ ادھر آن نکلا تھا۔
’’چھوٹے گھر کی ہے نا حویلیوں میں رہنے کا ڈھنگ کبھی نہیں آئے گا۔‘‘ نخوت سے سر جھٹکتے ہوئے وہ اندر چلی گئیں ہابیل شاہ کو ان کا انداز بے حد برا لگا تھا۔
’’مجھے تو بتانا یا دہی نہیں رہا راہب نے اپنے ہاسپٹل کی بنیاد رکھی ہے اسی خوشی میں آج شام ہم ڈنر پر انوائیٹڈ ہیں۔‘‘ وہ اس کا موڈ ٹھیک کرنے کی خاطر اسے خوشی کی خبر سنا رہا تھا اور وہ خوش بھی ہو گئی تھی اس کے ابا کا برسوں پرانا خواب پورا ہو رہا تھا وہ جلد از جلد ان کے پاس جانا چاہتی تھی، کپڑے چینج کرنے کے ارادے سے کمرے میں آئی تو فریال بھی اس کے پیچھے ہی اندر آئی تھی۔
’’تمہاری امی کو اپنی امارت رتبے اور اونچے خاندان کا بڑا گھمنڈ ہے نا لیکن ان کو یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ میں بھی بڑی حویلی کی بہو ہوں ہابیل شاہ کی بیوی، انہیں میری ہتک کرنے یا اس طرح باتیں سنانے کا کوئی حق نہیں ہے اور آئندہ میں بھی برداشت نہیں کروں گی۔‘‘ سارا غصہ اس پر نکالتے ہوئے آخر میں اس نے جیسے وارننگ دی تھی اور ایسا وہ ہر بار ہی کرتی تھی مگر چھوٹی بیگم سے زبان درازی کا تو تصور ہی محال تھا ان کے سامنے تو بی بی بھی خاموشی میں ہی عافیت جانتی تھیں حسب معمول پہلے تو کھڑی وہ اسے سنتی رہی پھر آگے بڑھ کر اس کے گلے میں بازو ڈال دئیے۔
’’اچھا نا اب چھوڑ دو غصہ میں امی کو سمجھا دوں گی۔‘‘
’’تم ہمیشہ یہی سب کر کے مجھے منا لیتی ہو۔‘‘ وہ اسے گھورتے ہوئے مسکرانے لگی تھی۔
٭٭٭
کچن میں کام کرتے ہوئے روشنی کے ہاتھ سے گلاس گر کر ٹوٹا تھا اور پھر کانچ چنتے ہوئے وہ اپنا ہاتھ زخمی کر بیٹھی تھی خون فوارے کی مانند اس کے ہاتھوں سے پھوٹ رہا تھا وہ چولہا بند کر کے اس کی جانب بڑھی۔
’’تمہیں کیا ضرورت تھی کانچ اٹھانے کی۔‘‘ پہلے اس نے روشنی کو ڈپٹا پھر بھاگ کر بی بی کے کمرے کی جانب آئی لیکن راستے میں چھوٹی بیگم سے سامنا ہو گیا تھا جو کھڑی درشت نظروں سے اسے گھور رہی تھی۔
’’وہ روشنی کو کانچ لگ گیا تھا۔‘‘ پہلے اسے اپنے بھاگنے کی وضاحت پیش کرنا پڑی تھی انہوں نے آ کر زخم کا معائنہ کیا پھر اس سے مخاطب ہوئیں۔
’’اپنے بھائی کو فون کرو آ کر اس کی مرہم پٹی کر جائے زخم زیادہ گہرا لگ رہا ہے۔‘‘ اس نے جا کر راہب کو پیغام بھجوایا وہ فوراً ہی آ گیا تھا اور جب وہ روشنی کی بینڈیج کر رہا تھا تو چھوٹی بیگم غیر مخصوص انداز میں اٹھ کر اندر چلی گئیں تھیں۔
وہ چائے بنا کر واپس آئی تو اس کے قدم دہلیز کے اس پار ہی جامد ہو کر رہ گئے تھے۔
’’یہ کیا پاگل پن ہے محض مجھے دیکھنے کے لئے آپ نے خود کو اتنی اذیت میں مبتلا کیا۔‘‘ یہ راہب کی آواز تھی جو اسے ڈپٹ رہا تھا۔
’’تو کیا کرتی دوسرا کوئی راستہ بھی تو نہیں تھا۔‘‘ روشنی کے جواب پر اس کی نظروں میں زمین و آسمان گھوم گئے تھے وہ بد وقت تمام خود پر جبر کرتی اندر داخل ہوئی۔
’’چائے کی تو اس وقت بالکل بھی طلب نہیں ہے تم چکر لگانا اماں اور ابا تمہیں بہت یاد کر رہے تھے‘‘ وہ کہہ کر جا چکا تھا اور روشنی کے چہرے پہ کتنے دلکش رنگ بکھرے ہوئے تھے وہ ان رنگوں سے نظریں چراتی راہب کے متعلق سوچنے لگی تھی۔
وہ کیا حماقت کرنے جا رہا تھا اس نے تو وہ خواب اپنی آنکھوں میں سجانے کی جسارت کی تھی جس کی پاداش میں آنکھیں بنجر کر دی جاتی ہیں اس کا دل دہل اٹھا تھا وہ سارا دن پریشان رہی تھی اور اس کی اس اداسی کو ہابیل نے بھی نوٹ کیا تھا۔
’’گھر والوں کی یاد آ رہی ہے کیا، تو کل چکر لگا آنا۔‘‘ وہ محبت سے اسے دیکھ رہا تھا سونم نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہابی مجھے کبھی چھوڑ تو نہیں دو گے۔‘‘
’’پاگل ہو کیا۔‘‘ ہابیل نے اس کا سر اپنے سینے سے لگا لیا۔
’’تم تو میری زندگی ہو تمہیں چھوڑ دیا تو سمجھ لو جینا چھوڑ دیا۔‘‘ اور پھر کتنی دیر وہ اسے اپنی محبت کے تحفظ کا اعتبار دلاتا رہا تھا اس کی باتیں سنتے ہوئے وہ اس کے سینے پہ سر رکھے رکھے ہی سو گئی تھی۔
راہب اگلی صبح پھر سے اس کی ڈریسنگ کرنے آیا تھا روشنی اس وقت لاؤنج میں بیٹھی تھی راہب کو دیکھ کر اس کا چہرہ گلاب کی مانند کھل اٹھا۔
’’بی بی قریب ہی بیٹھی تسبیح پڑھنے میں مشغول تھی اور ماریہ بھابھی حنا کو چاول کھلا رہی تھیں۔
دونوں کے لب خاموش تھے مگر بولتی نگاہیں نگاہوں میں حکایتیں اس کی نظروں سے پوشیدہ نہیں تھیں۔
وہ بی بی سے اجازت لے کر راہب کے ساتھ ہی گھر چلی آئی تھی، اماں اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں راہب اسے گھر چھوڑ کر خود واپس ہاسپٹل چلا گیا تھا اور وہ اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگی تھی۔
شام کو کھانے کے بعد دونوں چہل قدمی کے ارادے سے چھت پر چلے آئے تھے کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد اس نے قدرے ہچکچاتے ہوئے راہب کو دیکھا تھا۔
’’آپ سے ایک بات پوچھوں؟‘‘
’’ہاں پوچھو۔‘‘ وہ چائے کا کپ منڈیر پر رکھتے ہوئے ہمہ تن گوش ہوا سونم کے انداز سے وہ اخذ کر چکا تھا ضرور کوئی خاص بات ہے وہ ایک گہرا سانس بھرتے ہوئے اوپر جھلملاتے ستاروں کو دیکھنے لگی تھی ایک معنی خیز سی خاموشی دونوں کے مابین آ کر ٹھہر گئی بالآخر اس نے اپنی تمام تر ہمت مجتمع کرتے ہوئے لب کھولے، مگر اندر ہی کہیں اس کے مثبت جواب پر خوفزدہ بھی تھی۔
’’آپ روشنی میں انٹرسٹڈ ہیں۔‘‘ وہ سمجھ نہیں پایا کہ یہ سوال تھا یا الزام وہ کچھ دیر اپنی جانب اٹھی سونم کی مشکوک نظروں کو دیکھتا رہا پھر قدرے لا پرواہ انداز میں بولا۔
’’نہیں۔‘‘ اور اس کا انکار سونم کو اندر تک شانت کر گیا تھا اسے لگا وہ پل صراط سے اتر کر واپس جنت میں آ چکی تھی۔
’’مگر اسے جانے کس طرح مجھ سے اتنا عشق ہو چکا ہے تم نے دیکھا تھا نا اس روز اس نے محض مجھے دیکھنے کی خاطر اپنا ہاتھ زخمی کر لیا تھا وہ بالکل پاگل لڑکی ہے تم اسے سمجھاؤ کہ جیسا وہ چاہتی ہے وہ سب نا ممکن ہے اور جہاں تک میری بات ہے تو میں سیدھا سادا سا پریکٹیکل بندہ ہوں عشق و محبت کے لئے کوئی جوگ نہیں لے سکتا میرے خواب کچھ اور ہیں۔‘‘ اور وہ خاموشی سے بیٹھی اس کو بولتے دیکھتی رہی۔
٭٭٭
’’یہ موسم ہجر کو لگتا ہے وصل سے کچھ بیر ہے جو آئے روز منہ اٹھا کر چلا آتا ہے اور میں تھک جاتی ہوں اس کے لمحے شمار کرتے ہوئے۔‘‘ وہ اس کے بازو سے سر اٹھا کر اٹھ بیٹھی تھی، ہابیل اس کی کلائیوں میں گجرے سجانے لگا۔
ابھی کچھ دیر قبل وہ ایک خوبصورت سہانی شام ایک دوسرے کی بھرپور سنگت میں گزار کر گھر لوٹے تھے وہ اسے اپنی جیپ میں بٹھا کر مری لے گیا تھا، تارکول کی لمبی سنسان سڑک پر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر چلتے ہوئے اس نے کتنی حسرت سے ان لمحوں کو دیکھا جانے کیوں ایسا لگا کہ یہ پل زندگی میں دوبارہ نہیں آئیں گے۔
ٹھنڈی سبک ہوا کے جھونکے اس کے بالوں کو چھو کر گزرے تو وہ دھیرے سے گنگنایا۔
’’کاش یہ پل رک جائیں لمحے ساکت ہو جائیں وقت ٹھہر جائے اور تارکول کی اس لمبی سڑک پر یونہی ساتھ چلتے چلتے زندگی بیت جائے۔‘‘ اور وہ کتنی ہی دیر کھلکھلا کر ہنستی رہی تھی پھر اسے گھورتے ہوئے بولی۔
’’وقت ٹھہر جائے گا تو زندگی کیسے گزرے گی۔‘‘
’’تم میرے اتنے رومینٹک موڈ کا ہمیشہ ہی کباڑا کر دیتی ہو۔‘‘ وہ خفا ہو کر جیپ کی جانب چل پڑا تھا اور شام ان لمحوں کو مٹھی میں بند کر کے ہمیشہ کے لئے ماضی میں کہیں گم ہو گئی تھی۔
اور اب وہ اسے بتا رہا تھا کہ بابا سائیں شہر میں نئی فیکٹری لگا رہے ہیں جس کی کنسٹریکشن کی تمام تر ذمہ داری اس کے ذمے ہے اور اب اسے دو ماہ کے لئے شہر میں ہی رہنا ہو گا۔
’’ویک اینڈ پہ آیا کروں گا۔‘‘
’’مجھ سے تو وہ اینٹ سیمنٹ اچھے ہیں جن کو ہفتے میں چھ دن تو ملیں گے۔‘‘ وہ پھول نوچنے لگی۔
’’تم سے اچھا اور پیارا تو اس جہان میں کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘ وہ اس کے شانوں کے گرد بازو پھیلا کر محبت سے بولا۔
’’ہٹو پرے مجھے نیند آ رہی ہے۔‘‘ سونم نے غصے سے اس کا بازو جھٹک دیا۔
’’ارے او ظالم محبوب کچھ تو رحم کرو اب تو پردیسی بندے ہیں۔‘‘ وہ مصنوعی بیچارگی سے کہتا اس کے قریب جھک آیا تھا۔
چاند کھڑکی پہ جھکا ان کی سرگوشیوں میں مسکراتا رہا ستارے جھلملاتے رہے اور رات بیت گئی، طلوع سحر کے ساتھ ہی موسم ہجر نے دروازے پر دستک دی اور وصل شب کا مسافر اپنے سفر کو لوٹ گیا۔
٭٭٭
اس کے جانے کے دو روز بعد روشنی کے لئے چھوٹی بیگم کے خاندان سے ایک رشتہ آیا تھا۔
’’میں مر جاؤں گی لیکن اس وڈیرے سے شادی نہیں کروں گی۔‘‘ اس کا لہجہ سفاکی کی حد تک خطرناک تھا سونم کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑنے لگے، فریال نے چور نظروں سے گرد و پیش کا جائزہ لیا اور کسی کو موجود نہ پا کر سینے میں گھٹی سانس خارج کی، وہ تینوں اس وقت عقبی برآمدے میں بیٹھی تھیں۔
’’تم کچھ نہیں کر سکتی آخری فیصلہ وڈے شاہ سائیں کا ہو گا۔‘‘
’’میں بغاوت کروں گی بچپن سے ہمارے ساتھ جو زیادتیاں ہو رہی ہیں وہ…‘‘
’’کیا زیادتیاں ہو رہی ہیں تمہارے ساتھ۔‘‘ فریال نے اس کی بات کاٹ کر گھورا۔
’’بجائے اس کے کہ ہم سکول جاتے سکول کو لاک ر ہمارے سر بٹھا دیا گیا لالہ کی شادی پر شاپنگ کرنے گئے تھے وہ بھی گاڑیوں میں بٹھا کر کروا دی۔ حویلی کا ہر دروازہ کھڑکی ہمارے لئے بند ہے دم گھٹنے لگا ہے میرا اس زندان میں پڑے ہوئے نفرت ہے مجھے ان حویلیوں سے اور ان میں تڑپتی سسکتی زندگیوں سے۔‘‘ وہ ایک لمحے کے توقف سے بولی۔
’’اتنے برسوں کے انتظار کے بعد اس خاندان میں ایک روزن ملا ہے جہاں سے خوابوں کی کچھ کرنیں رہائی کی نوید لے کر آئی ہیں اور تم کہتی ہو کہ میں اپنے ہاتھوں سے اس روزن پر مٹی ڈال کر اس قبر کو پھر سے تاریک کر ڈالوں اور بن جاؤں جاگیر دار کی حویلی کی سجاوٹ۔‘‘ اس نے سوالیہ نظروں سے ان دونوں کو دیکھا اور پھر استہزائیہ انداز میں ہنستے ہوئے بولی۔
’’نہیں فریال بی بی میں اب کسی کو بھی اپنی زندگی سے کھیلنے کی اجازت نہیں دوں گی یہ میری زندگی ہے اور مجھے اسے اپنی مرضی سے جینے کا پورا حق ہے، مجھے یہ نرم و لطیف جذبات سے عاری پتھروں اور اینٹوں سے بنے محل نہیں چاہے مجھے تو ایک چھوٹا سا گھر چاہے جسے میں اپنی مرضی سے سجاؤں سنواروں جس کے کونے کونے میں زندگی بستی ہو جس گھر کو چاند، بادل، پھول، بارش اور ہوا مل کر اپنے رنگوں سے آباد کریں۔‘‘ اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں حسرتوں کا وہ جنگل بن چکی تھیں جسے کاٹتا اب نا ممکن تھا۔
اسے مظاہر فطرت سے عشق تھا اور اس گرداب میں وہ بچپن سے بھٹک رہی تھی بارہ سال کی عمر میں ان کو بتا دیا گیا تھا کہ یہ لاؤنج اور اس کے گرد بنے کمرے اور لان ہی تم لوگوں کی کل کائنات ہے اور پھر حویلی کی ہر چیز انہیں حویلی کے اس لاؤنج میں ملنے لگی تھی، پنجرہ سونے کا ضرور تھا مگر اسے سونے کی نہیں رہائی کی چاہ تھی۔
ہابیل شاہ کی شادی پر سونم کو مہندی لگانے کی اجازت بھی بڑی مشکل سے ملی تھی اور تب اس نے پہلی بار حویلی سے باہر کی ہنستی بولتی، مسکراتی زندگی کو دیکھا تھا اور دل کے نہاں خانوں میں تھپک تھپک کر سلائی امنگیں جیسے ایک جھٹکے سے بیدار ہوئی تھیں اور وہ بھی ایسی ہی آزاد بے فکری اور خوشیوں سے بھرپور زندگی کا خواب دیکھنے لگی تھی۔
اور جس لمحے راہب نے اس کا ہاتھ تھاما تھا، اسے لگا یہ شخص اس کے خوابوں میں چاہتوں کا رنگ بھرنے ہی آیا ہے اور اس ایک لمحے نے اس کی زندگی بدل دی تھی اور فریال اس قصے سے بے خبر نہیں تھی۔
مگر حویلی کے مردوں کے ممکنہ غصے سے خائف ہو کر اسے سمجھانے بیٹھ گئی تھی اس کا دل تو ویسے بھی چڑیا جتنا تھا جس بارش میں بھیگنے کو روشنی کا دل مچلا کرتا تھا اس کی گرج فریال کا دل دہلا دیا کرتی تھی۔
لاؤنج کے سامنے بڑا سا لان تھا اور اس کے دوسری جانب مردان خانہ، انہیں تو اس جانب کی کھڑکیاں تک کھولنے کی اجازت نہیں تھی روشنی جب بھی ان درزوں سے باہر جھانکتی اسے اپنا دم سینے میں گھٹتا محسوس ہوتا تھا اسے تو ان دیواروں سے عشق تھا جن کے اندر زنبیل شاہ سانس لیتا تھا اس نے تو کبھی ان روایات سے بغاوت کا تصور بھی نہ کیا تھا، ایک حویلی اور ایک ہی ماحول میں رہنے والی دو لڑکیاں دو متضاد خیالات کی مالک تھیں۔
’’شاہوں کی لڑکی کو عشق ہو گیا ہے حویلی کے مرد یہ تہمت برداشت نہیں کریں گے۔‘‘ سونم نے پہلی بار لب کشائی کی تھی۔
’’ہابیل لالہ آپ سے شادی کر سکتے ہیں تو میں راہب سے کیوں نہیں کر سکتی۔‘‘
’’وہ لڑکا تھا اور تم…‘‘ اس نے بے بسی سے اپنا لب کچل ڈالا اس کی اچھی بھلی خوشگوار زندگی کس موڑ پر آ کر الجھ گئی تھی۔
’’وہ لڑکا ہے تو آزاد ہے ہر معاملے میں اور میرا جرم یہ ہے کہ میں لڑکی ہوں اس لئے کھلی ہوا میں سانس بھی نہیں لے سکتی اس کے لئے بھی پہلے ان کی اجازت درکار ہو گئی بس میں مزید کٹھ پتلیوں جیسی زندگی نہیں گزار سکتی۔‘‘ وہ بھڑکتے ہوئے بولی۔
’’آگ سے مت کھیلو روشنی۔‘‘ فریال نے اس کے گرد بازو پھیلا کر منت بھرے لہجے میں کہا مگر اس کا فیصلہ اٹل تھا۔
کچھ دیر کے لئے عقبی دلان میں مکمل خاموشی چھا چکی تھی پھر روشنی نے ایک عجیب بات کہہ دی۔
’’سنو تم راہب اور میرے رشتے کی بات بی بی سے کرو نا۔‘‘ اس کے لہجے میں کتنی آس تھی سونم کا دل بھر آیا وہ کچھ بھی کہے بغیر اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی آئی۔
اور اسی شام اسے ایک بہت خوشگوار خبر بھی ملی تھی وہ ماں بننے والی تھی بی بی نے اس کا صدقہ اتار کر مبارکباد دی، اس کا دل چاہنے لگا تھا دن پر لگا کر اڑ جائیں اور ہابیل شاہ جلد از جلد واپس لوٹ آئے پھر وہ اسے ساری حقیقت بتا دے گی وہ ضرور اس کی مدد کرے گا۔
٭٭٭
’’میں نے کہا تھا نا کہ میں کسی بھی قیمت پر زیب شاہ سے شادی نہیں کروں گی۔‘‘ ہال کمرے میں سب کے سامنے اس نے اپنی بات کو کس دیدہ دلیری کے ساتھ دوہرایا تھا سونم کو امید نہیں تھی کہ وہ بی بی کو انکار کرنے کے بعد وڈے سائیں کے سامنے بولنے کی جرأت کر لے گی۔
’’بقیہ خاندان میں زیب شاہ کے علاوہ کوئی تمہارے جوڑ کا نہیں ہے۔‘‘ وڈے شاہ نے تحمل سے جواب دیا، مگر وہ آج آر یا پار کا فیصلہ کر کے آئی تھی۔
’’لیکن مجھے آپ کے خاندان میں شادی نہیں کرنی۔‘‘ اس کے سپاٹ لہجے پر دیوار کے پاس کھڑی سونم کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی تھی۔
وڈے شاہ سائیں خاموش سے ہو گئے، بی بی نے ملامت بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا فریال نے آنکھوں کے اشارے سے خاموش رہنے کی گزارش کی تھی، زنبیل شاہ مٹھیاں بھینچے اپنا ابال ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا، چھوٹی بیگم اور بھابھی انگشت بدنداں رہ گئیں۔
نبیل شاہ زمینوں پر تھے اور چھوٹے شاہ سائیں پر جیسے سکتہ طاری ہو چکا تھا۔
’’تو پھر کس سے شادی کرنی ہے تمہیں۔‘‘ کچھ دیر خاموشی کے بعد جب وہ بولے تو ان کا لہجہ بے تاثر تھا سونم کی ٹانگوں نے اس کا وزن سہارنے سے انکار کر دیا تھا وہ ملتجی نظروں سے روشنی کو دیکھ رہی تھی مگر اس پر تو جیسے اک جنون سوار ہو چکا تھا بغیر ڈرے یا جھجکے وہ بول رہی تھی۔
’’ڈاکٹر راہب سے۔‘‘ اور اس کی بات پوری ہونے سے قبل زنبیل شاہ کسی خونی بھیڑیے کی مانند اس پر جھپٹا تھا۔
’’بے غیرت بے حیا لڑکی تجھے تو میں زمین میں گاڑ دوں گا۔‘‘ تھپڑوں کے بعد اب وہ اس کی ٹھوکروں کی زد میں تھی۔
وڈے شاہ اور چھوٹے شاہ سائیں میں سے کسی نے بھی اسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی اور اس کی چیخوں پر حویلی کے سارے ملازم ہال کے باہر آن کھڑے ہوئے تھے لیکن کسی میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ زنبیل شاہ کا ہاتھ روکنے کی کوشش کرتا۔
تبھی چھوٹی بیگم نے اسے کالر سے کھینچتے ہوئے اس کا رخ اپنی سمت موڑا۔
’’پاگل ہو گئے ہو کیا، ارے ہماری بچی تو معصوم تھی اسے بہکایا ہے اس لڑکی نے جو اپنے بھائی کو زنانے میں بلوا کر ملاقاتیں کرواتی رہی ہے۔‘‘ ان کا اشارہ سونم کی جانب تھا وہ اس الزام پر حق دق سی ان کا چہرہ دیکھنے لگی۔
’’اسی لئے میں کہتی تھی مت بیاہ کر لاؤ اسے آتے ہی ہماری معصوم پارسا بچیوں پر اپنا رنگ چڑھا ڈالا ورنہ ایسی جرأت تو ہمارے خاندان کی سات پشتوں میں کبھی کسی نے نہیں کی تھی۔‘‘ ان کا واویلا جاری تھا زنبیل شاہ مزید کچھ بھی سنے بغیر حویلی سے باہر نکل گیا، چھوٹی بیگم الزام پہ الزام لگائے جا رہی تھی۔
’’یہ سب جھوٹ ہے بی بی آپ کو پتہ ہے روشنی کو کانچ لگ گیا تھا اور بھائی تو بس اس کی بینڈیج کرنے آیا تھا۔‘‘ اسے یقین تھا بی بی ضرور اس کا ساتھ دیں گی لیکن انہیں بھی بیٹی کی جان پیاری تھی سو انہوں نے اس کے دونوں ہاتھ جھٹکتے ہوئے رخ موڑ لیا تھا۔
’’مجھے کچھ نہیں پتہ اور تم نے ایسی کوئی اجازت لی تھی مجھ سے۔‘‘ اسے اپنے سینے میں گھٹن سی اترتی محسوس ہو رہی تھی دل و دماغ جیسے آندھیوں کی زد میں تھا عجیب بے کلی سی تھی دل کہیں ٹھہر نہیں رہا تھا۔
کچھ دیر وہاں کھڑے رہنے کے بعد وہ بھاگتے ہوئے فون اسٹینڈ کی جانب بڑھی پہلے اس نے ہابیل شاہ کا نمبر ڈائل کیا تھا کچھ دیر بیل ہونے کے بعد ایک اجنبی آواز سماعتوں سے ٹکرائی۔
’’ہابیل شاہ سے بات کروائیں۔‘‘ وہ بولی تو اس کی آواز کانپ رہی تھی۔
’’سوری میم وہ اس وقت آفس میں نہیں۔‘‘ اس نے ریسیور پٹخ ڈالا پھر راہب کا نمبر ملانے لگی بیل مسلسل جا رہی تھی مگر کوئی ریسیو نہیں کر رہا تھا ایک بار… دو بار… دس بار، اس کی انگلیاں شل ہو چکی تھیں نبض ڈوب رہی تھیں۔
لاؤنج میں موت کا سا سکوت چھایا ہوا تھا سب ایک دوسرے سے نظریں چرائے بالکل خاموش بیٹھے تھے روشنی کی سسکیاں وقفے وقفے سے اس سکوت زدہ فضا میں ارتعاش پیدا کرتی تھیں۔
تبھی زنبیل شاہ تن فن کرتا اندر آیا اس کے سفید کپڑوں پہ جا بجا خون کے دھبے لگے تھے۔
’’اسے تو قبر میں اتار آیا ہوں اور تمہیں اس کمرے میں زندہ درگور کروں گا۔‘‘ روشنی کو بالوں سے گھسیٹتے ہوئے اس نے کمرے میں بند کر ڈالا تھا، اس کے ہاتھوں سے ریسیور کب کا لڑھک کر نیچے گر چکا تھا۔
’’میرا بھائی… میرا راہب۔‘‘ وہ ننگے پاؤں پگڈنڈیوں پر بھاگتے ہوئے ہاسپٹل تک آئی تھی سارے گاؤں میں جیسے کہرام مچا ہوا تھا، چوکیدار نے اسے بتایا کہ انہیں شہر والے ہسپتال لے جایا گیا ہے۔
٭٭٭
اس کی ماں غم سے نڈھال تھی باپ کا دل جیسے پھٹا جا رہا تھا اور وہ خود ہاسپٹل کے ٹھنڈے کوریڈور پر گھٹنوں کے بل جھکی گڑگڑاتے ہوئے اس کے لئے دعائیں مانگ رہی تھی۔
چھ گھنٹے تک اس کا آپریشن چلا تھا ڈاکٹرز نے بتایا کہ وہ کومہ میں جا چکا ہے دعا کریں صبح تک ہوش آ جائے گا۔
اور وہ رات تو صدیوں جیسی طویل ہو چکی تھی صبح کے انتظار میں اس کی آنکھیں تھک گئیں، دعائیں مانگتے اس کے لب سوکھ گئے اور جب صبح ہوئی تو وہ مر گیا، اس کا بھائی مرگیا۔
اس کا باپ اپنے بال نوچ رہا تھا اس نے زنبیل شاہ کو اپنے ہاتھوں سے کھلایا تھا اسے اپنے کندھوں پر بٹھا کر باغ کی سیر کروائی تھی اس کی کبھی کوئی فرمائش نہیں ٹالی تھی اس میں انہیں اپنا راہب نظر آتا تھا اور اس نے ان کے بیٹے کو مار ڈالا تھا وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔
وہ سونم سے کہہ رہے تھے اور سونم کے لئے انہیں سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا۔
اگلے روز انگلینڈ سے پھپھو بھی آ چکی تھی گھر میں ایک بار پھر سے صف ماتم بچھ گئی اور یہ دکھ اب کبھی پرانا ہونے والا نہیں تھا۔
٭٭٭
’’اماں تھوڑا سا کھا لو۔‘‘ وہ نوالہ ہاتھ میں لئے اماں کے پاس بیٹھی تھی اماں نے پچھلے دو روز سے کچھ نہیں کھایا تھا اب بھی سونم بڑی لجاجت اور نرمی سے کھانے پر اصرار کر رہی تھی جب اماں نے اتنی عجیب بات کہی کہ ضبط کے باوجود اس کی آنکھوں میں سمندر اُمڈ آیا۔
’’تم کھالو میں تو راہب کے ساتھ کھاؤں گی۔‘‘ اماں نے اسے پچکارا تھا اور وہ روتے ہوئے حواس باختہ سی اماں کو دیکھے جا رہی تھی۔
’’اس میں رونے والی کیا بات ہے اب راہب کے بغیر کھانا کھانے کی عادت بھی نہیں رہی میں دیکھوں ذرا کہاں رہ گیا۔‘‘ وہ اسے ڈپٹتے ہوئے خود دروازے میں جا کھڑی ہوتیں ان کے سامنے ہی تو راہب کی میت اٹھی تھی پھر بھلا ایسی باتیں … اماں کو کیا ہو گیا تھا۔
’’ابا!‘‘ وہ اٹھ کر ابا کے کمرے میں آئی تاکہ انہیں مطلع کر سکے مگر وہ سینے پر ہاتھ رکھے درد سے دوہرے ہوئے جا رہے تھے اس کے لبوں سے بے ساختہ چیخ نکل گئی تھی پھپھو کے ساتھ مل کر وہ فوراً انہیں ہاسپٹل لے گئی تھی بروقت طبی امداد ملنے کی وجہ سے ان کی جان تو بچ گئی لیکن ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ ان کے دل کے دو والو بند ہو چکے ہیں اور ان کے دل کی وینز بہت ویک ہیں جس کی وجہ سے بلڈ سرکولیشن میں پرابلم ہو رہی ہے اور یہ ہارٹ پین بھی اسی عمل کا رد عمل ہے۔
’’اس کا کوئی علاج؟‘‘ سونم کی رنگت زرد پڑنا شروع ہو چکی تھی ڈاکٹر نے پانی کا گلاس اسے تھمایا جسے واپس میز پر رکھتے ہوئے وہ بے تابی سے بولی تھی۔
’’ہاں ان کا بائی پاس کروانا پڑے گا۔‘‘ ڈاکٹر کا لہجہ تسلی آمیز تھا۔
’’میں عمر سے بات کرتی ہوں پھر ہم بھائی صاحب کو انگلینڈ لے جاتے ہیں وہاں کے ڈاکٹرز زیادہ قابل ہیں تم فکر مت کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ پھپھو نے بروقت مثبت فیصلہ کیا تھا، سونم نے ابا کے دوست چاچا فضل دین کو بلوا کر اپنی زمینیں اور گھر فروخت کروا دیا تھا پھپھو آج پھر ابا کو چیک اپ کے لئے شہر لے کر گئی ہوئی تھیں اماں کی ہنوز وہی حالت تھی، ہر کسی سے پوچھتی تھیں کہ راہب کو کہیں دیکھا ہے، کبھی اس پر غصہ ہونے لگتی تھیں کہ وہ اپنے گھر کیوں نہیں جاتیں اور کبھی گھنٹوں ایک ہی جگہ پر بیٹھی کسی غیر مرئی نقطے کو گھورتی رہتیں۔
وہ ابھی اماں کو سلا کر دھلے ہوئے کپڑے پھیلانے چھت پر آئی تھی جب منڈیر کے اوپر جھکتے ہی اس کی نظر ہاسپٹل کی ادھوری عمارت سے ٹکرائی۔
’’تم دیکھنا ایک دن اس گاؤں میں بڑا ہاسپٹل بنواؤں گا اور ابا کا خواب پورا کروں گا۔‘‘ وہ کہیں نہیں تھا مگر ان فضاؤں میں اس کا احساس ابھی باقی تھا ہر سو اس کی آواز گونجتی تھی۔
’’سونو۔‘‘ وہ آہٹ پر پلٹی تھی اور اپنے سامنے ہابیل شاہ کو کھڑے دیکھ کر دم بخود رہ گئی تھی۔
٭٭٭
عمر نے ان کو انگلینڈ بلوانے کا سارا انتظام کر لیا تھا کل صبح اسے ہمیشہ کے لئے یہ گاؤں چھوڑ جانا تھا، منڈیر کے قریب جھک کر اس نے آخری ہار اپنے گاؤں کو دیکھنا چاہا نیم تاریکی میں ہر شے دھندلی دکھائی دے رہی تھی بوڑھے برگد کی وہ شاخ بھی جو زمین پر جھکی ہوئی تھی جس پر بیٹھ کر وہ اسے کہانیاں سنایا کرتا تھا۔
’’میری سوہنی بنو گی۔‘‘ پیار کا وہ پہلا اقرار اسے آج بھی یاد تھا۔
’’ان بارہ گھنٹوں کے بعد میں ہجر کو کبھی اپنے درمیان آنے نہیں دوں گا۔‘‘ اور اب وہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر جا رہا تھا۔
’’تم تو میری زندگی ہو تمہیں چھوڑ کر بھلا زندہ کیسے رہوں گا۔‘‘ اور وہ زندہ تھا۔
’’تم نے فیصلے کا اختیار مجھے سونپ کر اچھا نہیں کیا اب تو میں تمہیں پا کر بھی ہمیشہ کے لئے کھو دوں گی تم عمر بھر میرے ہو کر رہو گے لیکن میں تمہارے ساتھ نہیں ہوں گی کاش تم نے یہ سب نہ مانگا ہوتا۔‘‘ اور پھر اگلی صبح وہ اماں اور بابا کے ساتھ ہمیشہ کے لئے انگلینڈ آ گئی تھی آنے سے پہلے اس نے ایک کام کیا تھا اس نے عدالت سے کیس واپس لے لیا تھا اس نے زنبیل شاہ کو سزا سے بچا لیا تھا اس نے اپنے بھائی کے قاتل کو چھوڑ دیا تھا لیکن… معاف نہیں کیا تھا۔
٭٭٭
دونوں کے فائنل ایگزام ہو چکے تھے اور آج شاید وہ اسے آخری بار ملنے آئی تھی پارک کے تنہا گوشے میں دونوں خاموش اور لاتعلق سے بیٹھے تھے جیسے کہنے سننے کو اب کچھ باقی نہ رہا ہو۔
اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مما کی جانب سے بھی اس رشتے پر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے اس پر یہ رعنا شاہ، جس نے لڑنے سے قبل ہی سرینڈر کر لیا تھا اور اس سے بھی یہی توقع لگائے بیٹھی تھی۔
’’اگر قسمت نے یہ چند خوبصورت لمحے ہمارے دامن میں ڈال دیے ہیں تو کیا ضروری ہے کہ تم منہ پھلا کر بیٹھو۔‘‘ وہ اس کی مسلسل خاموشی پر قدرے چڑ کر بولی تھی۔
’’مجھے نہیں چاہیے یہ چند خوبصورت لمحے۔‘‘ انداز ہنوز خفگی بھرا تھا۔
’’آئس کریم کھاؤ گے۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے راہب کا والٹ اٹھا لیا جو اس نے گاڑی کی چابی کے ساتھ لاپرواہی سے بینچ پر پھینکا ہوا تھا۔
’’تمہیں یہ سب ایک مذاق لگ رہا ہے نا۔‘‘ وہ اس کی جانب دیکھ کر مزید خفگی سے بولا مگر رعنا کا دھیان تو ہاتھ میں پکڑے والٹ کی جانب تھا جسے بے دھیانی میں وہ کھول چکی تھی اور اس میں سجی ہابیل شاہ کی تصویر نے اسے چونکا ڈالا تھا۔
’’یہ تصویر۔‘‘ اس کی آنکھیں جیسے باہر کو ابل آئی تھیں۔
’’ڈیڈی ہیں میرے۔‘‘ اس نے بٹوہ جھپٹ کر دوبارہ سے بینچ پر پٹخا اور اسے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا۔
’’تم کیوں نہیں سمجھتی میں نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر۔‘‘
’’تمہارے ڈیڈی میرے چاچو ہیں۔‘‘ وہ بولی تو اس کی آواز کپکپا رہی تھی راہب اپنی جگہ ساکت سا ہو کر رہ گیا تھا۔
’’میں پاکستان جا رہی ہوں۔‘‘ وہ ایک جھٹکے سے اٹھی تھی جیسے چاچو کو ابھی راستے سے پکڑ کر لے آئے گی اور وہ آ بھی جائیں گے۔
’’کیا ڈیڈ آ جائیں گے۔‘‘ وہ اس کی راہ میں حائل ہوا تھا اور وہ رک گئی تھی اس نے یہ تو سوچا ہی نہیں تھا کہ کیا سونم آنٹی اور چاچو کے رشتے میں کوئی گنجائش بھی باقی تھی یا نہیں۔
’’ان دونوں کی علیحدگی نہیں ہوئی۔‘‘ راہب نے اس کی آنکھوں کا سوال پڑھ لیا تھا رعنا کے چہرے پر کلیاں سی کھل اٹھی تھیں اس نے بے ساختہ گہرا سانس بھرا۔
’’لیکن معاملہ خاصا نازک اور پیچیدہ ہے مما نے کبھی مجھے بتایا تو نہیں مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ مما نے ڈیڈ کو خود چھوڑا تھا، اب اگر ڈیڈ نے آنے سے انکار کر دیا تو…‘‘
’’ایسا نہیں ہو گا۔‘‘ وہ نفی میں سر ہلانے لگی تھی۔
’’اور اگر ایسا ہوا بھی تو تم میرا ساتھ دو گی۔‘‘ اس نے آس بھری نظروں سے رعنا زنبیل شاہ کو دیکھا جو اس سے نظریں چرا کر باٹل پام کی شاخوں پر پھدکتی چڑیا کو دیکھنے لگی تھی۔
’’میں تمہیں کسی آس کی ڈور میں باندھنا نہیں چاہتی مجھ سے ایسا کوئی عہد نہ لو۔‘‘ وہ اپنا بیگ اٹھا کر خود بھی اٹھ گئی تھی راہب نے اب کی بار اسے نہیں روکا تھا۔
دونوں ساتھ چلتے ہوئے ڈرائیووے تک آئے تھے وہ شام دونوں نے ایک ساتھ گزاری تھی۔
٭٭٭
اگلی صبح اسے رعنا کو سی آف کرنے جانا تھا سونم نماز پڑھ کر لاؤنج میں آئی تو وہ نک سک سا کہیں جانے کو تیار کھڑا تھا۔
انہوں نے ایک حیرت بھری نگاہ وال کلاک کی جانب دوڑائی صبح کے چھ بجے تھے عموماً وہ صبح دس بجے سے پہلے نہیں اٹھتا تھا۔
’’خیریت۔‘‘ انہوں نے اچنبھے سے دریافت کیا۔
’’میں رعنا کو ایئرپورٹ ڈراپ کرنے جا رہا ہوں۔‘‘ اس نے جھوٹ بولنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی اس لئے سچ بتا دیا۔
اس روز کے بعد سے وہ اپنے فائنل ایگزیم میں مصروف ہو چکا تھا پھر دونوں کے مابین دوبارہ اس ٹاپک پر بات نہیں ہوئی تھی۔
’’چلو اچھا ہے وہ جا رہی ہے تو پھر کہاں رابطہ ہو پائے گا دونوں کے درمیان۔‘‘ اس کے جانے کے بعد انہوں نے اطمینان سے سوچا اور فون اسٹینڈ کی جانب بڑھ گئیں ان کا خیال تھا کہ اب انہیں عمر سے راہب اور لائبہ کے رشتے کی بات کر لینی چاہیے۔
عمر وہیں مانچسٹر میں رہتا تھا آپریشن کے دوران اس کے ابا کی ڈیتھ ہو گئی تھی اماں بھی چند ماہ ہی ساتھ نبھا سکیں اس کے پاس ننھا راہب تھا جس کا نام اس نے بھائی کے نام پر رکھا تھا حالانکہ عمر پھپھو اور فاطمہ بہت اچھے تھے ہر طرح سے اس کا خیال رکھتے عمر اور فاطمہ کی ان دنوں نئی نئی شادی ہوئی تھی مگر وہ اس کا دل بہلانے کے لئے ہر جگہ زبردستی اپنے ساتھ گھسیٹ کر لے جاتے تھے وہ بارہا احتجاج کرتی۔
’’کباب میں ہڈی کا کیا کام۔‘‘ تو فاطمہ لاڈ سے اس کے گلے میں بازو ڈال دیتی تھی۔
’’ہم کیا کریں ہمیں ہڈی کے بغیر مزہ ہی نہیں آتا۔‘‘ پھر کچھ عرصے بعد انہیں ایک ایشین سکول میں جاب مل گئی تو وہ مانچسٹر سے لندن چلی آئی تھی سب نے روکنے اور منع کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس پر خود داری کا بھوت سوار تھا پھر وہ تنہا رہنا چاہتی تھی۔
سب کے درمیان ہر وقت ہنسنا باتیں کرنا آؤٹنگ پر جانا وہ اس بناوٹ بھری زندگی سے عاجز آ چکی تھی مگر ان سب نے ان کا ساتھ پھر بھی نہیں چھوڑا تھا، فاطمہ کا مسلسل اس کے ساتھ رابطہ تھا، اس کے تین بچے لائبہ عبید اور حمزہ تھے لائبہ راہب سے دو سال چھوٹی تھی اور اس نے راہب کے ساتھ دلہن کے روپ میں ہمیشہ سے اسے ہی دیکھا تھا۔
دوسری جانب بیل جا رہی تھی فون فاطمہ نے ہی ریسیور کیا تھا مگر انہوں نے کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد فون رکھ دیا تھا، انہوں نے سوچا یہ ابھی کچھ زیادہ ہی قبل از وقت ہے انہیں پہلے راہب کو منانا چاہیے راہب کے نام کے ساتھ ہی ان کے تصور میں ایک بار پھر سے رعنا زنبیل شاہ چلی آئی تھی۔
’’کاش رعنا تم زنبیل شاہ کی بیٹی نہ ہوتی تو میں چند پھول راہب حیات احمد کی تربت پر نچھاور کرنے کے لئے بھیجتی۔‘‘ راہب کی یاد نے ان کی آنکھوں کو نم کر دیا وہ کتنی بدنصیب تھیں کہ بھائی کی قبر پر فاتحہ پڑھنے بھی نہیں جا سکتی تھی، مسکراتی ہوئی اس بلیک اینڈ وائیٹ تصویر کو انہوں نے اپنے پلو سے صاف کرتے ہوئے دوبارہ دیوار پر لٹکا دیا تھا۔
٭٭٭
’’مجھے یاد کرو گے۔‘‘
’’میں تمہیں یاد نہ بھی کروں تم پھر بھی مجھے یاد آؤ گی۔‘‘
’’میں تم سے فون پر رابطہ رکھوں گی۔‘‘
’’احسان ہو گا آپ کا۔‘‘
’میں جلد واپس آؤں گی۔‘‘
’’میں نے ابھی سے انتظار کرنا شروع کر دیا ہے۔‘‘
’’اپنا خیال رکھنا۔‘‘
’’تم بھی۔‘‘ فلائیٹ کی اناؤنسمنٹ ہونے لگی تھی وہ آخری بار اس کی جانب دیکھ کر مسکرائی اور پھر دلنشین لہجے میں بولی۔
’’موسم ہجر اس بات کی نوید ہے کہ وصل کی بہاریں لوٹ کر آئیں گی۔‘‘
٭٭٭
وہ واپس آیا تو اس نے سونم کو کافی ریلیکس اور مطمئن محسوس کیا تھا وہ ٹی وی دیکھتے ہوئے کافی کے سپ لے رہی تھیں وہ ان کے قریب جا کر بیٹھا تو وہ اس کی سمت متوجہ ہوئیں۔
’’ناشتہ کرو گے۔‘‘
’’پراٹھا اور آملیٹ۔‘‘ اس نے خوشگوار لہجے میں فرمائش کی تھی سونم تو کچھ اور توقع کیے بیٹھی تھی کہ وہ افسردہ ہو گا بھوک ہڑتال کرے گا لیکن رنج و ملال کا کوئی رنگ ڈھونڈے سے بھی اس کے چہرے پر نظر نہیں آ رہا تھا ان کے دل میں ایک اور الجھن کا اضافہ ہوا تھا۔
’’چلو خیر وجہ جو بھی ہو لیکن میرے لئے یہ احساس کافی ہے کہ اس نے بات کو اپنے دل و دماغ پر زیادہ سوار نہیں کیا اب میں جلد ہی اس کی نسبت لائبہ کے ساتھ طے کر دوں گی تو وہ رعنا کو مکمل طور پر بھول جائے گا۔‘‘ وہ سب سوچتی کچن میں چلی آئیں۔
٭٭٭
ائیر پورٹ پر اسے ڈرائیور لینے آیا تھا حویلی آنے پر اس کا شاندار استقبال ہوا تائی اماں، امی، بی بی اور چھوٹے شاہ سائیں سے ملنے کے بعد وہ کچھ دیر آ رام کی غرض سے اپنے کمرے میں چلی آئی تھی۔
بابا اور تایا ابا اس وقت زمینوں پر تھے اور چاچو زیادہ تر شہر والے بنگلے میں ہی رہتے تھے تو اس وجہ سے ان سے ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔
حنا اور مریم اپنے سسرال میں تھیں اور ندا لاہور ہاسٹل میں رہتی تھی وڈے شاہ سائیں اور چھوٹی بیگم کا چند سال قبل انتقال ہو چکا تھا۔
بستر پر لیٹتے ہی اسے نیند آنے لگی تھی بوجھل پلکوں کو بمشکل جھپکتے ہوئے اس نے بیگ سے اپنا سیل فون نکالا اور کچھ ٹائپ کرنے لگی۔
’’میں حویلی پہنچ گئی ہوں۔‘‘ لکھنے کے بعد اسے سینڈ کر دیا تھا پھر اس کی آنکھ مما کے جگانے پر ہی کھلی تھی وہ اسے لنچ کے لئے بلانے آئی تھیں وہ کچھ دیر کسل مندی سے لیٹی رہی پھر اٹھ کر شاور لیا اور چینج کرنے کے بعد باہر نکل آئی۔
بریانی، مٹن قورمہ اور فرائی فش، میز پر ساری اس کی فیورٹ ڈشز تھیں۔
’’واؤ مما یو آر سو سویٹ۔‘‘ وہ خوش ہو کر بولی۔
’’اب محض چکھنے پر اکتفا نہیں کرنا ڈٹ کر کھانا دیکھو تو کتنی سی شکل نکل آئی ہے وہاں کیا کچھ کھانے کو نہیں ملتا تھا۔‘‘
’’افوہ میں ڈائیٹ پر ہوں۔‘‘ فریال نے اس کے احتجاج کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دوسری بار بھی اس کی پلیٹ بھر دی تھی۔
’’یہ ڈائیٹ وائیٹ چھوڑو اور اپنی صحت کا خیال رکھو چند دنوں تک بیاہ کر دوسرے گھر چلی جاؤ گی دلہن بن کر کیا روپ آئے گا۔‘‘ اس کی پلیٹ میں فرائی فش کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے جیسے رعنا کے سر پر بم پھوڑا تھا، وہ ہونق پن سے ان کی شکل دیکھنے لگی۔
’’میری شادی۔‘‘
’’دو تین پرپوزل آئے ہوئے ہیں تمہارے بابا کہہ رہے تھے رعنا آئے گی تو اس سے پوچھ کر فائنل کر لیں گے۔‘‘ بابا اور تایا ابا کی آمد پر ان کی گفتگو ادھوری رہ گئی تھی۔
’’کیسا ہے میرا بیٹا۔‘‘ وہ انہیں دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی اس کا کتنا دل چاہا تھا کہ وہ اس کے سر پہ ہاتھ رکھیں اسے سینے سے لگائیں اس کی پیشانی پر بوسہ دیں، مگر وہ اپنی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ چکے تھے۔
’’ٹھیک ہوں۔‘‘ وہ پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
’’ایگزیم کیسے ہوئے۔‘‘ انہوں نے اگلا سوال پوچھا۔
’’اچھے ہوئے ہیں۔‘‘ اس نے تابعداری سے جواب دیا۔
’’یہ ہابیل شاہ نے نیا رواج ڈال دیا ہے اب تمہارے بعد، ندا بھی یونیورسٹی چلی گئی ہے مجھے تو لڑکیوں کی اتنی تعلیم کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا مگر وہ ہمیشہ اپنی من مرضی کرتا ہے اور ہم ہمیشہ یہی سوچ کر خاموش رہتے ہیں کہ کہیں وہ ایسا نہ سمجھے کہ ہماری اولاد پر اس کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ تایا ابو پھر سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنے لگے تھے۔
’’لالہ نے بڑی قربانی دی ہے اس حویلی کے لئے۔‘‘ فریال کے منہ سے بے ساختہ ہی پھسلا تھا رعنا نے چونک کر اسے دیکھا پھر تایا ابا کو جو ان کی بات پر اثبات میں سر ہلا رہے تھے اور بابا نہ جانے کیوں انہیں بہت گم صم اور ملول سے لگے تھے۔
٭٭٭
لنچ کے بعد وہ یونہی عقبی برآمدے میں چکر لگا رہی تھی جب اس نے حلیمہ کو ٹرے میں کھانا رکھے لاؤنج کے آخری کارنر میں اسی مقفل کمرے کی سمت جاتے دیکھا جو جانے کتنے برسوں سے بند تھا وہ غیر ارادی طور پر تھوڑا سا آگے جھک آئی اب وہ پھپھو کے کمرے کے باہر کھڑی تھی رعنا لپک کر اس کی راہ میں حائل ہوئی۔
’’کہاں جا رہی ہو۔‘‘ اس کا انداز سرسری تھا۔
’’آپا کے لئے کھانا لے جا رہی ہوں۔‘‘ وہ سادگی سے بولی۔
’’اچھا مجھے دو میں لے جاتی ہوں۔‘‘ رعنا نے اس کے ہاتھ سے ٹرے لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو وہ بدک کر پیچھے ہٹی۔
’’آپا کا حکم ہے کہ ملازمہ کے سوا گھر کا کوئی فرد ان کے کمرے میں نہ آئے۔‘‘ رعنا کے گھورنے پر اس نے جلدی سے اپنی حرکت کی وضاحت دی تھی۔
’’رعنا۔‘‘ فریال اسے ڈھونڈتے ہوئے وہیں چلی آئی تھیں پھر اسے حلیمہ کے راستے میں حائل دیکھ کر ٹھٹک گئیں۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’بی بی جی آپا کے کمرے میں کھانا لے جانا چاہتی ہیں۔‘‘
’’تم جاؤ۔‘‘ انہوں نے حلیمہ کو جانے کا اشارہ کیا۔
’’اور رعنا تم میرے ساتھ آؤ۔‘‘ اب وہ اس سے مخاطب تھیں رعنا منہ پھلا کر رہ گئی۔
’’مما ہم کیوں پھپھو کے کمرے میں نہیں جا سکتے وہ کیوں ہم سے ملنا پسند نہیں کرتیں۔‘‘
’’بھئی ان کی مرضی ہے۔‘‘ وہ صاف ٹال گئیں۔
’’اور تم یہ دیکھو میں نے تمہارے لئے کچھ زیور نکالے ہیں تم پسند کر لو۔‘‘ وہ اپنی الماری سے مخملی کیس کے سات ڈبے اٹھا لائی تھی۔
’’یہ نیکلس دیکھو ہیروں کا ہے۔‘‘ وہ اس کی عدم دلچسپی کی بنا پر خود ہی کھول کھول کر اس کے سامنے رکھ رہی تھی یا پھر شاید اپنی باتوں میں الجھا کر وہ اس کے سوالوں سے بچنا چاہ رہی تھی، رعنا نے بے دلی سے سارے ڈبے بند کر کے ایک جانب رکھ دئیے۔
’’مما سونم آنٹی نے چاچو کو کیوں چھوڑ دیا تھا۔‘‘ بغیر کسی تمہید کے وہ ڈائریکٹ اپنے موضوع پر آئی تھی اور اس اچانک استفسار پر اس نے فریال کو چونکتے ٹھٹکتے اور پھر واضح طور پر اس کی رنگت کو بدلتے ہوئے دیکھا تھا، اس کا تیر ٹھیک نشانے پر لگا تھا۔ یہ تاثرات گواہ تھے کہ وہ لاعلم نہیں تھی۔
’’کون سونم؟‘‘ اگلے ہی پل وہ خود کو کمپوز کر چکی تھیں مگر لہجے کی ہکلاہٹ پر قابو پانا مشکل ہو گیا تھا۔
’’چاچو کی وائف۔‘‘ اس کا اطمینان قابل دید تھا فریال نے کچھ کہنے کو لب وا کیے مگر اس نے ٹوک دیا۔
’’مما پلیز اب یہ مت کہیے گا کہ ہابیل شاہ نے تو شادی ہی نہیں کی میں ان کی وائف اور بیٹے سے مل کر آ رہی ہوں۔‘‘
’’تم سچ کہہ رہی ہو۔‘‘ فریال نے اسے شانوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا ان کی آنکھوں میں بے یقینی اور تعجب کے رنگ تھے لہجے سے خوشی چھلکی پڑ رہی تھی، رعنا سوچ میں پڑ گئی اسے امید نہیں تھی کہ سونم آنٹی کا ذکر حویلی والوں کے لئے اتنی خوشی کا باعث ہو گا۔
’’جی ماما میں اور راہب کلاس فیلو تھے۔‘‘ ان کے رد عمل سے ہی رعنا کو حوصلہ ملا تھا اور وہ سب کچھ بتاتی چلی گئی تھی راہب کی خواہش بھی، فریال ساری بات سن کر سوچ میں پڑ گئی۔
’’ہمارے لئے اس سے بڑی خوش نصیبی کیا ہو گی کہ تم چھوٹے لالہ کی بہو بنو لیکن بیٹا سونم کو شاید یہ رشتہ قبول نہ ہو اگر ایسا ہوا تو تم ان کی خواہش کا احترام کرنا اور راہب کو سمجھا دینا۔‘‘
’’کیوں مما، یہ سب کیا کہانی ہے میں نے پھپھو کی کتاب میں راہب حیات احمد کی تصویر دیکھی تھی اب آپ مجھ سے کچھ نہیں چھپائیں گی آپ کو بتانا ہی ہو گا۔‘‘ اس کا اصرار بڑھتا ہی جا رہا تھا فریال نے آنکھیں میچتے ہوئے ان دنوں کو سوچا جو حویلی پر قیامت بن کر آئے تھے، وہ کتنا روئی تھی زنبیل شاہ کے لئے … سونم کے لئے … روشنی کے لئے اور سب سے بڑھ کر چھوٹے لالہ کے لئے اس کے رشتوں کی تو ساری مالا ٹوٹ کر بکھر گئی تھی اور پھر انہوں نے رعنا سے کچھ بھی نہیں چھپایا تھا، آگہی واقعی عذاب ہوتی ہے سب سننے کے بعد اس کا دل چاہ رہا تھا کہ کاش وہ بے خبر ہی رہتی اس کا چہرہ دھواں دھواں سا ہو رہا تھا اندر کہیں گھٹن سی اتر آئی تھی وہ دل پر اپنے بابا کے گناہ کا بوجھ لئے اپنے کمرے میں چلی آئی۔
اسے سونم آنٹی کا اپنے نام پر چونکنا یاد تھا شاید وہ بھی اسے پہچان چکی تھی اسی لئے تو ٹیبل سے اٹھ کر چلی گئی تھیں اور میں نے راہب سے پوچھا ہی نہیں کہ آنٹی نے مجھ سے ملنے کے بعد کیا کہا تھا، اس کے موبائل کی بیل بجی راہب کی کال تھی، اس نے بے دلی سے فون ایک جانب رکھ دیا فی الحال تو اس کا کسی سے بھی بات کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا وہ صرف جی بھر کر رونا چاہتی تھی۔
٭٭٭
بائیس سال… بائیس سال بیت گئے تھے وہ جس کے بغیر ایک لمحہ ایک پل نہیں رہ سکتی تھی اس کو دیکھے ہوئے بائیس برس جانے کس طرح گزار دئیے تھے آج اسے دیکھا تھا تو ایسا لگا تھا کہ جیسے یہ بائیس برس ان کے درمیان کبھی آئے ہی نہیں تھے وہ آج بھی اس مقام پر کھڑی تھی جب وہ آخری بار ان سے ملنے آیا تھا جب وہ یہ سمجھی تھیں کہ وہ ان کے بھائی کی تعزیت کرنے آیا ہے انہیں حوصلہ دینے اپنی چاہت کا اعتبار سونپنے اور اپنے تحفظ کا احساس دلانے آیا ہے مگر وہ تو…
’’یہ جو بھی ہوا مجھے اس کا افسوس ہے لیکن زنبیل شاہ کو تو تم جانتی ہو وہ کتنا جذباتی انسان ہے بس ایسے ہی غصے میں آ کر اس نے …‘‘ وہ بات ادھوری چھوڑ کر کچھ پل رکا۔
’’تمہیں اپنے بھائی کو سمجھانا چاہیے تھا کہ کم از کم مجھے تو اس سارے معاملے سے بے خبر نہ رکھتی، خیر اب کیا فائدہ جو ہونا تھا وہ ہو چکا میں تم سے کہنے آیا ہوں کہ تم لوگ عدالت سے مقدمہ واپس لے لو کیونکہ میں تمہیں اسی صورت میں گھر لے جا سکتا ہوں ورنہ…‘‘
’’ورنہ…‘‘ سونم نے بے خوف نظروں سے اسے دیکھا۔
’’ورنہ مجھے تمہیں چھوڑنا پڑے گا۔‘‘ چھن سے اس کے وجود میں کچھ ٹوٹا تھا اور اس کی ذات کے پرخچے اڑ گئے تھے وہ کیس واپس لے کر ہابیل شاہ کو اس گاؤں اس حویلی کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ آئی تھی۔
اور آج اتنے برسوں بعد انہوں نے دوبارہ اسے دیکھا تھا وہ گروسری کا سامان لینے سپر مارکیٹ آئی تھیں جب ان کی نگاہ اپنے قریب کاؤنٹر کے پاس کھڑے شخص سے الجھی، وہ بھی انہیں دیکھ چکا تھا کیا نہیں تھا اس کی آنکھوں میں، شکوہ، محبت، امید، وہ ایک قدم پیچھے ہٹی تھیں اور پھر پلٹ گئی تھیں ان کا سارا سامان کاؤنٹر پر رہ گیا تھا، ان کے رخسار مکمل طور پر بھیگ چکے تھے اور دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی پسلیاں توڑ کر باہر نکل آئے گا، یہ اتفاق تھا حادثہ تھا کہ سازش۔
٭٭٭
’’مما تو ڈیڈ کو دیکھتے ہی واپس پلٹ گئیں۔‘‘ راہب کو افسوس سا ہوا۔
’’تم جو یہ فلمی سین کریٹ کروانے کی کوشش کر رہے ہو نا تو میں تمہارے جنرل نالج کے لئے تمہیں بتا دوں کہ یہ زندگی ہے کوئی فلم یا ڈرامہ نہیں جس میں تم اپنا مند پسند سین ایڈ کروا لو اور نہ ہی تم ڈائریکٹر ہو کہ ہر کوئی تمہارے اشاروں پر چلے۔‘‘ وہ اچھی خاصی بد مزہ ہوئی تھی جس پر اس نے راہب کو خوب لتاڑا تھا جس کا آئیڈیا تھا کہ ڈیڈ کو اچانک مما کے سامنے لائیں گے پھر جو اُن کا رد عمل ہو گا اس کے مطابق اگلا لائحہ عمل ترتیب دیں گے۔
’’میری بڑی بی بننے کی کوشش نہ کرو سوچو اب کیا کرنا ہے۔‘‘
’’اب ہمیں اپنے گھر لے کر چلو۔‘‘
’’اس سے کیا ہو گا۔‘‘
’’ان کے درمیان جو غلط فہمیاں ہیں وہ ایک دوسرے کی بات سن کر ہی دور ہو سکتی ہیں۔‘‘
’’اور ان کے درمیان کیا غلط فہمیاں ہیں۔‘‘ راہب نے ابرو اچکائے۔
’’مجھے کیا پتہ۔‘‘ وہ بے ساختہ نظریں چرا گئی۔
’’مجھے پہلے مما سے بات کرنی چاہیے ایسے تو وہ بہت خفا ہو جائیں گی۔‘‘
’’وہ خفا نہیں ہوں گی۔‘‘
’’یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو۔‘ اس نے الٹا سوال پوچھا۔
’’مجھے الہام ہوا ہے۔‘‘ وہ زچ ہو اٹھی۔
’’اچھا اب غصہ تو نہ کرو منہ پھلا کر تم بہت بری لگتی ہو۔‘‘ راہب نے اس کے چہرے پہ جھولتی لٹ کھینچی تو دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے مزید برہمی سے بولی۔
’’اپنی حد میں رہا کرو۔‘‘
’’اور میری حدود کیا ہیں آؤ پہلے یہ طے کر لیں۔‘‘ اسے جیسے رعنا کو چڑانے میں مزہ آ رہا تھا۔
’’بکو مت اور چلو۔‘‘ وہ اپنا بیگ اٹھا کر رخ موڑ گئی۔
’’راہب تم میری ہیلپ کرو گے نا۔‘‘ ہابیل شاہ نے بڑی پر امید نظروں سے اسے دیکھا تھا مگر اس نے فوراً آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔
’’جی نہیں آپ اپنا مقدمہ خود لڑیں گے اور میں اپنا…‘‘ بات کو معنی خیز سا رنگ دے کر اس نے کن اکھیوں سے رعنا کو دیکھا تھا جو ان شوخیوں سے قطع نظر مکمل لاتعلقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے باہر جھانکنے لگی تھی۔
’’تمہارا مقدمہ بھی برخوردار میرے مقدمے کی کامیابی پر ڈیپنڈ کرتا ہے۔‘‘ وہ بھی باور کروانا نہیں بھولے تھے۔
٭٭٭
’’مما دیکھیں تو کون آیا ہے۔‘‘ وہ مرکزی دروازے سے ہی شور مچاتا اندر داخل ہوا تھا وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے آئیں اور پھر جیسے زمین نے ان کے قدموں کو جکڑ لیا۔
’’السلام علیکم۔‘‘ ہابیل شاہ نے آہستگی سے سلام کیا تھا وہ محض سر ہلا سکی۔
’’کیسی ہیں آنٹی۔‘‘ رعنا نے خود ہی آگے بڑھ کر ان کا احوال دریافت کیا تھا۔
’’اچھی ہوں۔‘‘ رکھائی بھرے جواب پر رعنا کو خفت نے گھیر لیا سونم نے مروتاً بھی اس کا حال نہیں پوچھا تھا۔
ہابیل شاہ کی نظریں اس کے چہرے پر جمی جیسے برسوں کی تشنگی سیراب کر رہی تھیں اسے لگا کہ وہ آج بھی اتنی ہی حسین ہیں جتنی بائیس سال قبل تھیں اتنے سال محض اسے چھو کر گزر گئے تھے۔
’’آپ بیٹھیں۔‘‘ انہیں پچھلے سات منٹ سے کھڑا دیکھ کر بالآخر اس نے بیٹھنے کا اذن دیا تھا وہ دونوں خاموشی سے کاؤچ پر بیٹھ گئے، راہب اتنی دیر سے کھڑا محض ان کے تاثرات نوٹ کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اسے کہیں کوئی گنجائش نہیں مل رہی تھی مگر وہ پھر بھی مایوس نہیں ہوا تھا۔
’’کیا لیں گے آپ کافی یا چائے۔‘‘ اب وہ آداب میزبانی نبھا رہی تھیں انداز کس قدر لاتعلقی بھرا اور بیگانہ سا تھا جیسے زبردستی کوئی مہمان گلے پڑ گیا ہو۔
ہابیل شاہ کو بائیس سال کے ہجر سے زیادہ ایک اجنبی لمحے پر ملال ہوا تھا۔
’’آپ بیٹھیں میں چائے بنا کر لاتی ہوں۔‘‘ رعنا اٹھ کر کچن میں چلی گئی تھی وہ خاموشی سے دوسرے کاؤچ پر بیٹھ گئی راہب بھی چپکے سے کھسک گیا تھا۔
’’میری ہیلپ چاہیے تو بندہ حاضر ہے۔‘‘
’’ہاں وہ شوگر چائے اور سالٹ کہاں ہے۔‘‘ وہ ابھی تک کچن کا جائزہ ہی لے رہی تھی، اس نے اندر آ کر مطلوبہ چیزیں کاؤنٹر پر رکھ دیں، پھر کیبن سے ٹی سیٹ نکالنے لگا۔
’’اور تم یہ چائے میں نمک مت ڈالنا۔‘‘ سالٹ واپس رکھتے ہوئے وہ بڑبڑایا۔
’’مجھے نمک والی چائے کا ذائقہ اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’اور مجھے نہیں لگتا۔‘‘
’’تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔‘‘
’’تمہارا قصور یہ ہے کہ تم مجھ سے محبت نہیں کرتی تمہیں میرے نازک جذبات و احساسات کا کوئی خیال نہیں ہے جب سے آئی ہو ایک مسکراہٹ تک میں نے تمہارے چہرے پر نہیں دیکھی تم اتنی مغرور کیوں ہو۔‘‘
’’چلیں۔‘‘ وہ ٹرے سجا چکی تھی راہب محض دیکھ کر رہ گیا۔
رعنا نے سینٹرل ٹیبل پر ٹرے رکھی تو اسے احساس ہوا کہ دونوں میں سے ابھی تک کسی نے بھی ایک دوسرے کو مخاطب نہیں کیا تھا، اس نے دو کپ میں ایک ساتھ چائے بنائی۔
’’شوگر۔‘‘ اس نے بیک وقت دونوں سے پوچھا تھا۔
’’تین چمچ۔‘‘ دونوں کے لبوں سے ایک ساتھ پھسلا تھا دونوں کی نظریں بھی ایک لمحے کو ملی تھیں ہابیل شاہ کی آنکھوں میں حیرت اور سونم حیات احمد کے چہرے پہ اک نرم سا تاثر امڈ آیا تھا۔
’’ہابی پلیز میرے کپ میں اتنی شوگر مت ڈالو۔‘‘ وہ چلائی۔
’’دیکھنا میں تمہیں بھی عادی بنا دوں گا اور پھر تم مجھے منع نہیں کرو گی۔‘‘ وہ روز اس کے کپ میں تین چمچ شوگر ڈال دیا کرتا تھا اور وہ برے برے منہ بناتی اس شربت کو حلق سے اتارا کرتی تھی۔
ان چاروں نے ساتھ بیٹھ کر چائے پی تھی مگر لاؤنج میں یوں سناٹا چھایا ہوا تھا جیسے وہاں کوئی نفوس موجود ہی نہ ہو۔
رعنا اور راہب کے درمیان آنکھوں ہی آنکھوں میں معنی خیز تبادلے ہوتے رہے تھے سونم چائے کے خالی کپ اٹھا کر کچن میں چلی گئی تھیں۔
’’ڈیڈ!‘‘ راہب نے مصنوعی خفگی سے انہیں گھورا تو وہ خفت زدہ سا مسکرائے۔
’’میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’آئیں میں آپ کو کمرہ دکھا دوں۔‘‘ وہ اٹھ کھڑا ہوا ہابیل شاہ نے اس کی تقلید میں قدم بڑھا دئیے تھے وہ کمرہ سونم کا تھا اس کی فضا میں اس کی مہک رچی ہوئی تھی۔
وہ کتنی ہی دیر اس سے متعلقہ چیزوں کو الٹ پلٹ کر دیکھتے رہے، سائیڈ ٹیبل پر ایک سیاہ ڈائری الٹی رکھی ہوئی تھی انہوں نے احتیاط سے اٹھا کر سیدھا کیا تو سامنے ایک نظم تحریر تھی۔
تیرے خیال سے محبت کی
تیرے احساس سے محبت کی ہے
تو میرے پاس نہیں ہے پھر بھی
تیری یاد سے محبت کی ہے
کبھی تو نے مجھے یاد کیا ہو گا
میں نے ان لمحات سے محبت کی ہے
جن میں ہوں صرف تیری اور میری باتیں
میں نے ان اوقات سے محبت کی ہے
مہکے ہو صرف تیری ہی محبت سے
میں نے ان جذبات سے محبت کی ہے
تم سے ملنا تو اک خواب سا لگتا ہے
میں نے تیرے انتظار سے محبت کی ہے
ہابیل شاہ کو لگا جیسے کسی نے ان کا دل مٹھی میں لے کر بھینچ ڈالا ہو وہ کتنے ہی پل ان لفظوں کے سحر سے نکل نہیں پائے تھے، آنسوؤں کے مٹے مٹے سے نشانوں پر وہ اپنے لب رکھتے ہوئے بے ساختہ رو دئیے تھے۔
٭٭٭
رعنا اٹھ کر ان کے پیچھے ہی کچن میں چلی آئی تھی انہیں فریج میں جھانکتے دیکھا پھر وہ گوشت نکال کر اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتی سینک کی جانب بڑھ گئی کتنا آکورڈ لگ رہا تھا کہ میزبان تو لفٹ نہیں کروا رہے تھے اور وہ زبردستی کی مہمان بنی ان کے سر پہ سوار تھی۔
’’کچھ چاہیے۔‘‘ بالآخر انہیں اس کی موجودگی کا خیال آ ہی گیا تھا۔
’’میں آپ کی ہیلپ کروا دوں۔‘‘ وہ اتنی سی توجہ پر ہی کھل اٹھی تھی۔
’’نو تھینکس مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ رکھائی بھرے جواب پر اس کی آنکھوں کی جوت بجھ سی گئی۔
’’آپ مجھ سے ناراض ہیں۔‘‘ اس نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری تھی۔
’’کیوں؟‘‘ عجیب سوال تھا نا۔
’’راہب نے بتایا تھا کہ آپ کافی فرینڈلی اور سویٹ ہیں مگر جب سے میں آپ سے ملی ہوں آپ مسلسل مجھے اگنور کر رہی ہیں بابا نے جو کیا اس کی سزا مجھے تو نہ دیں میں زنبیل شاہ کی ہی نہیں فریال کی بھی بیٹی ہوں۔‘‘ سونم نے اس کے گلو گیر لہجے پر قدرے سٹپٹا کر اسے دیکھا وہ شاید رعنا سے یوں ڈائیریکٹلی اس بات کی توقع نہیں کر رہی تھیں۔
’’ایسی کوئی بات نہیں ہے تم بتاؤ ڈنر میں کیا کھانا پسند کرو گی۔‘‘ ان کا انداز ہنوز تھا۔
’’میں جانتی ہوں آپ شاید اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ راہب کی ضد پر کہیں مجھے بہو بنانا نہ پڑ جائے لیکن آپ بے فکر رہیں آپ کو انکار کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی میں خود ہی راہب کو منع کر دوں گی۔‘‘ وہ کہہ کر وہاں رکی نہیں تھی سونم سب چھوڑ چھاڑ کر کچن میں رکھے اسٹول پر بیٹھ گئیں، انہیں تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔
وہ لڑکی کتنی آسانی سے کہہ گئی تھی کہ راہب کو منع کر دوں گی تو اس کا مطلب ہے کہ اب مجھے راہب کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا پڑے گا، اس خیال کے آتے ہی انہیں اپنا آدھا مسئلہ حل ہوتا دکھائی دیا تھا، وہ اپنے بیڈ روم سے اپنی شال لینے آئی تھیں ہابیل شاہ کو کھڑکی میں کھڑے دیکھ کر ٹھٹک کر رک گئیں، واپس پلٹنا چاہا تو اس نے پکار لیا۔
’’سونم!‘‘ وہ ٹھہر گئی تھیں۔
’’ناراض ہو۔‘‘ وہ ان کے سامنے آن کھڑے ہوئے بائیس سال بعد انہیں یہ خیال آیا تھا کہ وہ ان سے ناراض بھی ہو سکتی ہیں آج ایک ہی دن میں دوسری بار ان سے یہ سوال دریافت کیا گیا تھا اور دوسری بار بھی ان کا جواب ہنوز تھا۔
’’کیوں؟‘‘ عجیب سوال نہیں تھا، مگر جواب ضرور عجیب تھا۔
’’بی بی نے میرے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے تھے وہ ماں ہو کر میرے پیروں میں جھکی ہوئی تھیں میں فریال کے آنسوؤں اور بھائی کی محبت میں مجبور ہو گیا تھا اپنے مسئلوں کے سامنے مجھے تمہارا غم نظر ہی نہیں آیا، میں تمہیں کوئی دکھ دینا نہیں چاہتا تھا مگر مجھے لگا تم میرے بغیر نہیں رہ سکتی اس لئے میں نے تم سے وہ سب کہا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ تم مجھے چھوڑ کر چلی جاؤ گی، میں نے تمہاری کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تھی اور تم نے اپنی کمزوری کو ہی اپنی طاقت بنا لیا یہ بائیس سال کا سفر میں نے کسی پل صراط پر چلتے ہوئے طے کیا ہے تمہیں ڈھونڈنے مانچسٹر بھی آیا تھا تم نہیں ملی۔‘‘ ان کے آنسو سونم کو اپنے دل کی زمین پر گرتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے وہ اسے کہنا چاہتی تھیں پلیز اس طرح مت رو مگر ان کے لبوں پہ جیسے کوئی جنبش ہی نہیں رہی تھی، انہیں احساس نہیں تھا کہ وہ خود بھی رو رہی ہیں۔
’’فریال نے زنبیل شاہ کے گھر آنے پر بتا دیا تھا کہ اس میں راہب کا کوئی قصور نہیں تھا روشنی کی محبت یک طرفہ تھی تو زنبیل شاہ کو اپنے فعل پہ بھی رنج ہوا تم نے تو اسے دنیاوی سزا سے بچا لیا تھا قدرت نے اسے یہ سزا اس کے بیٹوں کی موت کی صورت دے دی تھی۔‘‘ سونم نے الجھن آمیز نظروں سے اسے دیکھا۔
’’اس کا بڑا بیٹا تین سال کا تھا جب ہمیں پتہ چلا کہ اس کے دل میں سوراخ ہے اور دوسرا ڈیڑھ برس کا تھا جب اس کی برین ہمیرج سے ڈیتھ ہو گئی تھی ساری ساری رات وہ اپنے بچوں کے درد اور اذیت پر تڑپتے ہوئے گزارتا تھا، اس نے راہب کے نام ایک خیراتی ہاسپٹل بھی بنوا رکھا ہے وہ روز اس کی قبر پہ جا کر روتا ہے اور اس سے اپنے گناہ کی معافی مانگتا ہے، میری بہن پچھلے بائیس سال سے اس کمرے کو اپنی قبر بنائے بیٹھی ہے وہ ہم میں سے کسی کی شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتی اور میں نے یہ بائیس سال ہجر کے تپتے صحرا میں جلتے ہوئے گزارے ہیں اب اس مسافر کو کنارا دے دو۔‘‘ ہابیل شاہ نے ان کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ دئیے تھے۔
سونم نے ان کے ہاتھوں پر اپنے لب رکھ دئیے وہ انہیں اپنے سامنے ہاتھ جوڑے اور روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھیں۔
’’تم نے مجھے معاف کر دیا۔‘‘ بڑی آس تھی ان کی آنکھوں میں کہ ان کا محبوب جو ان کا محب بھی تھا آج انہیں خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گا انہیں دھتکارے گا نہیں اور سونم ہابیل شاہ بھلا کیسے ان ہاتھوں کو جھٹک سکتی تھیں جو ان کے لئے اس دنیا میں سب سے پر سکون پناہ گاہ تھے، وہ شخص تو ان کا سرمایہ حیات تھا یہ محبت کی انتہا تھی یا پھر یہ چہرہ ان کو اتنا پیارا تھا کہ اس سے صرف محبت ہی کی جا سکتی تھی، بھیگی پلکوں اور مسکراتے لبوں کے ساتھ اثبات میں سر ہلاتیں وہ ان کے سینے سے لپٹ گئی تھیں۔
’’کیا اس حسین منظر میں میرے لئے کوئی جگہ نکل سکتی ہے۔‘‘ وہ جانے کب دروازے پہ آن کھڑا ہوا تھا ہابیل شاہ نے اس کی جانب دونوں بازو پھیلا دئیے۔
’’مما آپ بھی نا اتنی جلدی مان گئیں۔‘‘ اس کا انداز شرارت آمیز تھا ہابیل شاہ اسے مصنوعی خفگی سے گھورتے ہوئے بولے۔
’’بائیس سال کم ہیں کیا؟‘‘
’’اور مجھے اپنا محاذ سر کرنے میں کتنے سال لگیں گے۔‘‘ اس کی بیچارگی پر سونم نے ہنستے ہوئے اپنے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی سے ڈائمنڈ رنگ اتار کر ہابیل شاہ کو تھما دی۔
’’مجھے اپنے بیٹے کی خوشی سے عزیز کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ زنبیل شاہ سے اب مزید کوئی بدلہ لینا اپنے ہی بیٹے کو دکھ دینے کے مترادف تھا سو انہیں اپنا فیصلہ بدلنے میں محض ایک لمحہ ہی لگا تھا۔
’’او مما یو آر گریٹ۔‘‘ محبت کے عملی مظاہرے کے طور پر اس نے سونم کو بازوؤں میں بھینچ ڈالا تھا پھر ہابیل شاہ کے پیچھے لپکا۔
’’ڈیڈ یہ فاؤل ہے انگیج منٹ میری ہے تو رنگ بھی میں پہناؤں گا۔‘‘
’’ہمارے ہاں ایسے رواج نہیں ہیں۔‘‘ انہوں نے مصنوعی خفگی سے گھورا۔
’’مگر ہمارے ہاں ایسے ہی رواج ہیں۔‘‘ وہ رعنا اور ان کے درمیان آن کھڑا ہوا تھا۔
رعنا اس ساری سیچویشن پر کافی کنفیوژ سی کھڑی تھی ہابیل شاہ پہلے تو اسے گھورتے رہے پھر شرافت سے رنگ اسے تھما دی۔ ’’رعنا مجھ سے شادی کر و گی۔‘‘ وہ اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں جھانکتے ہوئے قدرے خوشی سے بولا رعنا نے لاؤنج کی دہلیز پر کھڑی سونم آنٹی کو دیکھا جن کے چہرے پر اطمینان تھا آمادگی تھی، اس پر چاچو کی موجودگی کا خیال اس کے رخسار تپ اٹھے، ریشمی پلکوں کی جھالر لرز کر عارضوں پہ جھک آئی اور پھر چپکے سے اس نے اپنا ہاتھ راہب شاہ کی جانب بڑھا دیا، خوشیاں ہر سو مسکرانے لگی تھیں۔
٭٭٭ تدوین اور ای بک کی باز تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں