FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا

 

(سفر نامہ)

 

حسن عباسی

 

 

 

حسن کا حسنِ تحریر

 

بھولی صورتیا والے حسن عباسی سے میں بہت شرمندہ تھی۔ محفلوں میں ملتے تو اکثر کنّی کترا کے نکل جاتی۔ وجہ اس کی صرف یہ تھی کہ مجھ پر ان کا ایک قرض تھا جسے میں باوجود خواہش کے ادا نہ کر سکی تھی۔ اپنے پہلے سفرنامے میں محبت کے پروں میں گھنٹیاں باندھے وہ ہندوستان کی سیر کو نکلے تھے اور کیا کیا اُڑانیں لی تھیں انہوں نے مجھ سے کہا کہ ان کی کتاب پہ اظہارِ خیال کر دوں لیکن میں اپنی ریزہ ریزہ بے معنی مصروفیات کی وجہ سے لکھ نہ سکی جس کی وجہ سے میں ان سے منہ چھپاتی پھرتی تھی۔

ایک دلچسپ سفرنامہ تحریر کرنے کے بعد انہوں نے یہ دوسرا لبریز سفرنامہ ’’ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا‘‘ اپنے ہاتھوں سے لکھا اور پڑھنے والوں کے دلوں پہ رقم کر دیا ہے۔ اب کی بار تو مجھے جم کر بیٹھنا اور پڑھنا ہی تھا مگر یہ پڑھنا طبیعت پر کوئی جبر نہیں تھا۔ تحریر اتنی خوبصورت، ملائم، دل آویز، جذبوں میں بھیگی بھاگی تھی کہ کتاب خود ہی اپنے آپ کو پڑھواتی چلی گئی۔ میرے نزدیک کسی کتاب کی اس سے بڑی کوئی دلیل نہیں کہ وہ آسانی، سادگی سے آگے بڑھے اور قاری کی توجہ کو تمام وقت اپنی گرفت میں رکھے۔

دبئی کا یہ سفرنامہ ہے کہ بائیسکوپ کا ونڈر فل تماشہ جس میں سے ہم رنگ برنگے عکس جلتی ہوئی روشنیوں، منظم سڑکوں، فرحت بخش سیر گاہوں کے مناظر دیکھتے ہیں تو جی للچانے لگتا ہے کہ کاش ہم بھی وہیں ہوتے۔ موجود اور مصروف، حسن عباسی کے ساتھ ساتھ۔ آج دبئی ترقی کے زیور ماتھے پہ سجائے بلاشبہ ایک قابل فخر بین الاقوامی تجارتی مرکز اور تفریحی مقام کے طور پر دنیا بھر میں اپنی حیثیت و انفرادیت تسلیم کروانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ یہاں کے رہنے والے پاکستانی لوگ پاکستانی شاعر و شاعرات کو مدعو کرتے ہیں۔ اچھی خوبصورت جگہوں پہ ٹھہراتے، سیریں کرواتے ہیں۔ ان کا کلام سنتے ہیں اور روح کی تسکین پاتے ہیں۔ پس حسن بھی مشاعروں کے سلسلے میں ہی یہاں گئے تھے۔

وہاں جو کچھ انہوں نے دیکھا اسے دل سے محسوس کیا اور لکھا۔ ایک خشک، گرم، ریتلے ملک کا مشاہدات و تفریحات سے تر بیان کتاب پڑھنے والوں کو ہمہ وقت تحیر آمیز تجسس اور سحر میں گرفتار رکھتا ہے۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ اس کتاب میں دُبئی کی بھابیوں کے ہاتھ کے پکے ہوئے پلاؤ، زردے کا تذکرہ کہیں نہیں ملا۔ یاد رہے یہ وہی پلاؤ ہے جس کا اکثر شاعر کالم نگار حضرات واپس آ کر اپنے کالموں میں ذکر ضرور کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ بڑا انوکھا سفرنامہ ہے۔

کتاب کا ٹائٹل نیلے رنگ کا ہے اور نیلا رنگ آسمان اور سمندر دونوں کا ہوتا ہے۔ اس سفرنامے کو پڑھ کر علم ہوا کہ دُبئی ایک ایسا ملک ہے جہاں ایک نقطے پر آ کر صحرا اور سمندر کا وصال ہوتا ہے اور پھر وہ ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے۔ بالکل اسی طرح جیسے انسان کے بھیتر میں بھی ایک صحرا اور ایک سمندر چھپے ہوتے ہیں جو ہمیشہ ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں الگ نہیں ہوتے۔

ٹائٹل بہت دل آویز ہے۔ ایک تصویر برج الخلیفہ کی ہے جو اب دُبئی کی پہچان بن چکا ہے اور ایک کسی اور عمارت کی۔ پھر دو کھجور کے درخت ہیں جو کافی رومانوی انداز میں ایک دوسرے کے قریب کھڑے ہیں اور درمیان میں معصوم صورت حسن عباسی نظریں نیچی کیے بیٹھے ہیں۔ شاید یہ تصویر اس لمحے کی ہے جب انہوں نے ساحل سمندر پہ چند گوریوں کم لباسوں کو غسل آفتابی کرتے چوری چوری تک لیا تھا۔

اس پہ تو میں یہ ضرور کہوں گی کہ ’’دونوں ہاتھوں سے تھامئے دستار، میر صاحب زمانہ نازک ہے ‘‘ بھیا عورت کم لباس ہو یا سر تا پا برقعہ پوش، ایسے مواقع پہ اپنا ایمان سلامت رکھئے، استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں تو آپ کو کچھ بھی عجیب نہیں لگے گا۔ یہ معاملہ اور مسئلہ ہمارے ہاں کے مشرقی مردوں کا ہے کہ عورت نے کیا پہن رکھا ہے اور کیا نہیں ؟ مغربی ممالک میں ان کی اپنی خواتین کم سے کم لباس ہوتی ہیں اور مسلمان خواتین اب بہت زیادہ برقعہ پوش مگر ان کا کوئی مرد کسی کو آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتا۔ اس کی آنکھ میں کوئی ہوس ہی نہیں ہوتی۔ گورے مردوں کو کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ راہ چلتی عورت کا لباس کیسا ہے ؟ تو صاحب یہ تو آپ کے اپنے دل اور نگاہ کا معاملہ ہے۔ ویسے اور بھی دکھ ہیں زمانے میں عورت کے جسم کے سوا۔ بس دھیان ادھر ادھر کر لینے میں ہی خیریت رہتی ہے۔

مجھے اقرار ہے کہ کتاب کے ورق پلٹتے گمان گزرا کہ دُبئی کا سفرنامہ بھلا کیا سفرنامہ ہو گا؟ ایک ایسا ملک جہاں سب اچھا ہے کی روداد آخر کیا ہو گی؟ ہم سب جانتے ہیں کہ وہاں دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں، کھاتے پیتے، موج اُڑاتے ہیں، قوانین کی پاسداری ہوتی ہے، بلند و بالا پر شکوہ عمارات کا جاہ و جلال نظر آتا ہے۔ ہندی، پاکستانی، بنگلہ دیشی اور تیسری دنیا کے دیگر غریب ممالک کے مزدوروں کا شدید گرمی اور دھوپ میں اپنے تن کا سونا پگھلانا دل کو دُکھاتا ہے۔ یہ سب معلوم تو ہے تو بھلا اس سفرنامے میں اور کیا ہو گا مگر ماننا پڑے گا کہ جوں جوں کتاب پڑھتی گئی پٹاری کھلتی چلی گئی۔ نت نئی دلچسپیوں، رنگینیوں، لطافتوں کے سامان باہر آتے گئے اور تجسس قائم رہا۔

حسن کی کتاب سے مجھے پتہ لگا کہ دُبئی ماضی میں کوئی اہم تہذیبی گہوارہ رہ چکا ہے۔ جس کے آثار اب برآمد ہو چکے ہیں۔ جمیرا بیچ Beach قدیم ساحلی پٹی ہے جہاں ہمیشہ سے مچھیرے موتی تلاش کرتے ہیں اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔ حسن کا سفر ان کے اپنے اندر کا سفر ہے۔ وہ خود ہی اپنے ہم رکاب، اپنے سفر پہ روانہ، اپنے ہی راز داں ہیں۔ ان کی ذاتی دلچسپی کی جگہیں اور باتیں اُنہیں گرفت میں لے لیتی ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے الممزر جھیل نما خاموش سمندر لارنس باغ کی پراسراریت کی یاد دلا گیا جو کہ ظاہر ہے کہ ان کا اپنا ایک ذاتی احساس اور تصور تھا۔ کسی اور کا وہ خیال شاید نہیں ہو سکتا ہو۔ یہ بات کتنی سچ ہے کہ ہم جب سفر کو اختیار کرتے ہیں تو در اصل ہم اپنے آپ کو سفر کے حوالے کر دیتے ہیں۔ پھر جو ہو سو ہو۔ وہی ہوتا ہے جو سفر چاہتا ہے۔ یوں سفر ہم پر اختیار حاصل کر لیتا ہے۔ حسن عباسی کے ساتھ گو کہ اور لوگ بھی تھے مگر لگتا ہے کہ یہ سفر وہ اپنی ذات کے ہمراہ ہی کر رہے تھے۔ تنہا تنہا اکیلے اکیلے۔

وہ اپنے ایک الگ منفرد، خیالی، رومانوی، آسودگی بخش، اتفاقات سے بھرے سفر کے تجربے میں گھر جاتے ہیں اور پھر جب واپس آ کر اپنی زنبیل اُلٹا کر اپنے محسوسات کو کاغذ پہ بکھیرتے ہیں تو ہر حرف آبدار موتی کی طرح جگمگانے لگتا ہے۔ سفر انہیں اپنے جلو میں لیے، بہاؤ میں بہاتا لیے چلا جاتا ہے۔ چلتا اور چلاتا رہتا ہے۔ نئے نئے انکشافات کے در وا ہوتے رہتے ہیں اور سامنے کے پردہ سیمیں پر مناظر تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ سفر میں کشٹ تو اُٹھانے پڑتے ہیں مگر جو لذت اور طمانیت اس دوران حاصل ہوتی ہے وہی بالآخر اس کا انعام بھی ٹھہرتی ہے اور اسی لیے ہم سب سفر کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں چاہے ہمیں وہ کتنا کٹھن اور مشکل کیوں نہ لگے یہ تو طے ہے۔

کہیں کہیں تو مجھے حسن عباسی ایک حیران آنکھوں والا وہی پرندہ لگتا ہے جو اپنے پروں پہ نظمیں لکھ کر، پیروں میں گھنٹیاں باندھے دور دیس جا نکلتا ہے اور پھر روزمرہ کی زندگی میں واپس لوٹنا نہیں چاہتا۔ کتاب میں جا بجا ٹکے شاعری کے خوبصورت نگینے یاد دلاتے رہتے ہیں کہ حسن عباسی اپنے اندر کے شاعر کے خیال سے کبھی غافل نہیں ہوتے۔ وہ یوں اسے اپنے ساتھ رکھتے ہیں جیسے اگلے زمانے میں لوگ مخمل کی ڈبیا میں بیر بہوٹی کو اور آج کے دور میں موبائل فون کو جیب میں رکھتے ہیں اور گاہے گاہے نکال کر اس کے پاس ہونے کا یقین کرتے رہتے ہیں۔

برج العرب عمارت کا تذکرہ کتاب میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ لہٰذا میں نے بھی اسے بہت دلچسپی سے پڑھا اور سر دھُنا۔ حالانکہ مجھے جدید فیشن ایبل عمارتوں سے کوئی خاص رغبت نہیں ہے۔ مجھے تو سمندروں کے نگلے ہوئے شہر اور ریت میں دھنسی مدفون تہذیبیں اپنی طرف بلاتی ہیں۔ میں نے ماضی میں امریکہ کی ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ، ورلڈ ٹریڈ سنٹرز، شکاگو کا Sears ٹاور اور ٹورنٹو کا سی این ٹاور بھی دیکھ رکھا ہے مگر حسن عباسی نے برج العرب کا ایسا فیسی نیٹنگ نقشہ کھینچا ہے کہ مجھ جیسی کافر بھی مسلمان ہونے کو تیار ہو گئی۔ میرا جی چاہا چھلانگ مار کر برج العرب کی آخری منزل تک جا پہنچوں اور نظارہ کروں وہاں سے سمندر اور آسماں کا، انسان اور خدا کی تخلیق کے مظاہر کا اور پھر انہی کا ایک حصہ بن کر معدوم ہو جاؤں۔ اچھی تحریر کی طاقت بس ایسی ہی ہوتی ہے۔

ویسے یہ حیرت کی بات تو ہے کہ دُبئی کے شاہوں نے اپنے سمندر کو کاٹ کر اس میں ایسی ایک عمارت کھڑی کر دی ہے جس نے آسمان چھو لینے کی کوشش کی ہے۔ یقیناً خدا بھی یہ سوچ کر عالی دماغ حضرتِ انسان سے متاثر تو ہوتا ہو گا۔ مگر پھر شاید وہ یہ بھی سوچتا ہو کہ انسان کو خدا سے ہم کلام ہونے کے لیے ہمیشہ کسی کوہِ طور پہ چڑھنے کی کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔ شاید اس مورکھ کو یہ علم نہیں کہ خدا کو ڈھونڈنا ہے تو اِک ذرا اپنے دل میں ہی جھانک کر دیکھ لے۔ زمین پر گرے پڑے کیڑے مکوڑے جیسے انسانوں، ڈڈواں مچھیاں میں ہی تلاش کر لے۔ اتنی اونچی اونچی عمارتوں پہ چڑھنے کی اسے ضرورت نہیں۔

میں نے زندگی میں بہت سے رنگ رنگیلے، مستیلے شہر دیکھے ہیں۔ ان کے جلووں سے اپنی آنکھیں خیرہ کی ہیں مگر چند بار دبئی جانے کے باوجود دبئی سے اس طرح کبھی متعارف اور مسحور نہیں ہو سکی جس طرح حسن عباسی کے سفرنامے کو پڑھنے کے بعد ہوئی ہوں۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ میں نے ہمیشہ مختصر سا ہی وقت وہاں گزارا ہے۔ کسی خوبرو جوان رعنا نے مجھے (اب باریش بڈھا بابا بھی ہو سکتا ہے ) یوں شہر گھمانے پھرانے کی نہ کبھی دعوت دی اور نہ ہی سرخ قالین میرے قدموں میں بچھایا اسی لیے پھر مجھ جیسی خود کو ابدی سنڈریلائیں سمجھنے والیاں اپنے بلوری شیشے کے واحد سینڈل کو ہاتھ میں تھامے اچھے وقتوں کا انتظار کرتی بیٹھی رہ جاتی ہیں اور چڑیاں چگ جاتی ہیں کھیت۔ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہم سے کتنے کتنے خوبصورت تجربات اور نظارے اوجھل رہ گئے ہیں۔

میرا ذاتی خیال تھا کہ دُبئی میں ایسی کون سی خاص بات ہو گی کہ اس کا سفرنامہ تحریر کیا جا سکے۔ شاپنگ مالز، کالے سرمے سے بھری عربی خواتین کی بے اعتنا آنکھوں کے سوا وہاں رکھا ہی کیا ہو گا۔ مگر یہ کتاب پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ دیدہ بینا ہو تو بہت کچھ دکھائی دے جاتا ہے۔ صحرا میں سیپ مل جاتے ہیں اور سمندر میں جل پری۔ ہوائیں گرم بھی چلتی ہوں تو خوشبودار پرفیومز کی ٹھنڈی مہک پھر بھی آپ سے آ لپٹتی ہے۔ مجھے عربی لوگوں سے کبھی کوئی لگاؤ محسوس نہیں ہوا۔ کیونکہ ان کی سرد مہری، بدتمیزی کا اکثر ان کے ایئر پورٹوں سے گزرتے تجربہ ہوتا رہتا ہے۔ میں انہیں ایک بے حس، متعصب اور عیاش قوم سمجھتی ہوں مگر حسن عباسی کی یہ کتاب پڑھ کر مجھ پر ان کی کم از کم ایک خوبی ضرور آشکار ہو گئی ہے اور وہ ہے ان کی اپنے وطن سے محبت۔

یہ بات قابل تحسین ہے کہ انہوں نے اپنے صحرا میں پھول کھلائے، اسے آباد، سرسبز کیا روشنیوں کا نگر بنایا، جدید دنیا میں ایک تشخص دیا اور آج اسی لیے ساری دنیا دبئی کی سیاحت کو کھنچی چلی جاتی ہے۔ کاش ہمارے پاکستان کو بھی ایسا کوئی ملک سے محبت کرنے والا سورما لیڈر مل جاتا تو ہم بھی یوں جھولی پھیلائے ملک ملک دربدر نہ ہوتے۔ دُبئی کی جدید تعمیر میں ایسے بہت سے غریب پاکستانیوں کا خون پسینہ شامل ہے جنہوں نے اپنی محنتوں کے سودے کیے جن کی ماؤں نے اپنے زیور بیچے اور دلہنوں نے ارمان، تب جا کر کہیں دبئی کی بلند و بالا عمارتیں کھڑی ہوئیں اور ویرانے آباد نظر آئے۔

لیبر کے حوالے سے یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ عربی آقا زیادہ تر ہندوستانی ورکرز رکھنا پسند کرتے ہیں، پاکستانی نہیں۔ وجہ جس کی یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ انڈین لوگ زیادہ محنت و جانفشانی سے اپنا کام سرانجام دیتے ہیں، دھوکہ دہی نہیں کرتے، کام میں لارے نہیں لگاتے جبکہ ہمارے پاکستانی بھائی سارے ملک عزیز کے لوگوں کی طرح جھوٹ، دھوکہ بازی، بے ایمانی سے کام کرتے ہیں اور اپنی بے عزتی کرواتے ہیں۔ سننے میں تو یہ بھی آیا ہے کہ ہمارے شیر پنجاب و جناب کی جدہ کی جدید ترین سٹیل ملز میں بھی نوے فیصد ہندوستانی سٹاف رکھا گیا ہے۔ پاکستانی ورکرز کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔

یہ دُبئی کے شیخ المکتوم خاندان کی نیک نیتی ہی تھی کہ انہوں نے اپنے ملک کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا اور آج بھی اس کی تعمیر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مجھے قوی اُمید ہے کہ حسن عباسی ابھی ایسے بہت سے سفر کریں گے کہ وہ محبتوں کے سفیر ہیں۔ وہ جہاں کہیں بھی جائیں گے حیرتیں اپنی نیم وا آنکھوں میں سموئیں گے اور بانہوں میں خوبصورتیاں۔ ہر جزیرے پہ ان کے نام کا ایک پھول مہکتا ہو گا جسے کوئی کم لباس خوبصورت جنگلی حسینہ اپنے بالوں میں سجائے، اپنے دہکتے بدن کی خوشبو لیے، ساحلوں سے سیپیاں چنتی ان کی راہ دیکھتی ہو گی۔ مجھے یقین ہے کہ حسن عباسی ایک دن اپنے اس خواب کو ضرور جا لیں گے۔ ان کی شاعری اور نثر مزید نکھرتی چلی جائے گی اور ہم سب ہنسی خوشی ان کی کتابیں پڑھتے رہیں گے۔

نیلم احمد بشیر

لاہور

 

 

 

ہاتھ دِل سے جدا نہیں ہوتا

 

’’سفر‘‘ کا لفظ بہت پرکشش اور پراسرار ہے۔

بالکل زندگی کی طرح

ہو بہو موت جیسا

ہم دُکھ سہتے ہیں مگر پھر بھی زندہ رہتے ہیں

ہم مرنا نہیں چاہتے مگر ’’اُس پار‘‘ کی کشش ہمیں بے چین رکھتی ہے۔

سفر کا لفظ ایک بہت قدیم حویلی جیسا ہے جس کے اندر داخل ہوتے ہوئے ڈر بھی لگتا ہے مگر اُسے دیکھنے کو جی بھی چاہتا ہے۔ ہر قدم پر دل بھی دھڑکتا ہے اور آنکھوں کی حیرت میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔

ہماری آنکھوں پر بہت سے رنگوں کی پٹیاں بندھی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے زندگی کی رعنائیاں اوجھل رہتی ہیں۔ ہم عمر بھر اُن کو دیکھ نہیں پاتے۔ سفر یہ پٹیاں ایک ایک کر کے کھولتا جاتا ہے اور زندگی کا حسن اس طرح ہماری آنکھوں میں بھر دیتا ہے جیسے برسوں پرانا خشک تالاب پانی سے بھر جائے۔

سفر کا لفظ دھڑکتے ہوئے دل کی طرح ہے جس کے اندر زندگی سانس لیتی ہے۔

یہ ایسا پیالہ ہے جو ’’کسک‘‘ اور ’’ملال‘‘ کے دودھ سے لبالب بھرا ہوا ہے۔ جس پر اُمید کا پھول تیرتا ہے۔

’’کسک‘‘ وہ جو آسمانوں سے زمین کا سفر کرتے ہوئے آدم کے اندر تھی۔

’’ملال‘‘ وہ جو اپنے ہمدم اور رفیق کو کھو دینے پر ’’حوا‘‘ کے دل میں تھا۔

دونوں کے درمیان ’’آنسو‘‘ اور فاصلے تھے۔ سفر نے یہ آنسو چن لیے اور فاصلے مٹا دیے۔

سفر ہمیں ان دیکھے راستوں پر لے جاتا ہے جہاں اجنبی لوگوں سے ہی نہیں ہماری اپنے آپ سے بھی ملاقات ہو جاتی ہے۔ یہ اپنے آپ سے ملاقات بڑی عجیب چیز ہے اس کا احساس بالکل اس طرح ہے جیسے تپتی دوپہر میں ہم تالاب کے ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈال کر بیٹھے رہیں۔

’’سفر‘‘ کپڑے کے دُکاندار کی طرح خوبصورت منظروں کے تھان کھول کھول کر ہمارے سامنے رکھتا ہے۔ بس اتنا فرق ہے کہ ہم ان منظروں کو چھو نہیں سکتے۔

سفر میں راستے کبھی مہربان نہیں ہوتے یہ تو ہم سفر اُن کو مہربان بنا دیتے ہیں۔ کبھی ایک لمحے کا سفر صدیوں تک پھیل جاتا ہے اور کبھی صدیوں کا سفر ایک لمحے میں سمٹ جاتا ہے۔

تمہارے ساتھ گزاری ہے زندگی میں نے

تمہارے ساتھ سفر کا پتہ نہیں چلتا

جس میں زندگی کے سفر کا پتہ نہ چلے یہ محبت کا سفر ہوتا ہے۔ محبت منزل نہیں راستہ ہے۔

محبت کرنے والی آنکھیں ہمیشہ سفر میں رہتی ہیں۔ اس لیے کہ وہ سفر میں رہنا چاہتی ہیں۔ منزل اُن کے لیے بے معنی ہوتی ہے۔

محبت کا سفر پل صراط کے سفر سے زیادہ مشکل ہے۔ کیونکہ آپ نے کسی کا ہاتھ تھاما ہوتا ہے اپنے ساتھ ساتھ اُسے بھی گرنے سے بچانا ہوتا ہے۔ محبت کا سفر ستارے دیکھ کر نہیں ستارے توڑ کر لانے کی خواہش کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔

آغازِ سفر کی اپنی لذتیں اپنی سرشاریاں ہوتی ہیں۔ یہ آغازِ سفر چاہے اُونٹوں کی گردنوں میں لٹکنے والی گھنٹیوں کے شور سے ہو یا ہوائی جہاز کی اُڑان کے وقت کھڑکی سے باہر کا نظارہ کرتے ہوئے۔ ساحل کو الوداع کہتی ہوئی کشتیوں کے بادبان کھولتے ہوئے سفر کا آغاز ہو یا خواب میں کسی کا ہاتھ تھام کر بادلوں میں اُڑتے ہوئے ……

سب کا اپنا اپنا نشہ…

اپنی اپنی سرشاری ہے …

محبت کے سفر میں کہیں ٹھہراؤ نہیں …

کہیں پڑاؤ نہیں …

ٹھہراؤ ہے تو صرف آنکھوں میں

پڑاؤ ہے تو صرف دل میں

ابھی دہلیز پر پہنچے تھے اور سامان رکھا تھا

کہ پھر کانوں میں آغازِ سفر کی گھنٹیاں گونجیں

یہ آغازِ سفر کی گھنٹیاں گونجتی رہیں تو زندگی خوبصورت لگتی ہے۔

جب بچہ پہلا قدم اُٹھاتا ہے تو ماں کی آنکھوں میں جو چمک پیدا ہوتی ہے وہ کوہِ نور سے زیادہ قیمتی اور دلکش ہوتی ہے۔

جب پرندہ پہلی اُڑان بھرتا ہے تو اُس کی خوشی کا اندازہ وہ ہوا اور فضا کر سکتی ہے جس میں وہ اپنے پر پھڑپھڑا رہا ہوتا ہے۔

ایک سفر رنگوں کا ہوتا ہے کسی کے رنگ میں رنگ جانے کا۔ کسی کو اپنے رنگ میں رنگ لینے کا۔ یہ محبت کے رنگ ہوتے ہیں۔

محبت کے رنگ کبھی پھیکے نہیں پڑتے۔

محبت کے رنگوں میں نکھار صرف آنسوؤں سے آتا ہے۔

رنگوں کے سفر پر جانے والوں کا رختِ سفر صرف خواب ہوتے ہیں۔

تتلیوں اور پھولوں جیسے خواب

وہ اپنے خوابوں میں عمر بھر تعبیروں کے رنگ بھرتے رہتے ہیں۔

رنگوں اور تصویروں سے بھرا ہوا کمرہ عجیب طرح کا طلسم اپنے اندر رکھتا ہے۔

کچھ لوگوں کی اپنی زندگی تو سفید کاغذ کی طرح ہوتی ہے مگر وہ عمر بھر دوسروں کی زندگیوں میں خوشیوں کے رنگ بھرتے رہتے ہیں۔

مجھے ایسے ہی لوگوں سے محبت ہے

رنگوں کے سفر پر نکلنے والے موسموں سے بے نیاز تنہائی کے رنگوں اور یادوں کے برش سے تصویریں بنانے میں مشغول رہتے ہیں۔

موسم آتے جاتے رہتے ہیں لیکن

میں اُس کی تصویر بناتا رہتا ہوں

شاہکار تخلیق کرنے کا جنون اُنہیں عمر بھر رنگوں کے سفر پر گامزن رکھتا ہے۔ حسن نظر رکھنے والوں کو اُن کے رنگ اپنا اسیر بنا لیتے ہیں کیونکہ خوبصورتی آنکھوں میں ہو تو پوری دُنیا خوبصورت نظر آتی ہے۔

ایک سفر بہت پراسرار ہے …

اپنے اندر کا سفر…

جھیل کے پانیوں میں تنہا چاند کی طرح

برگد کے پیڑ کے نیچے بیٹھے گو تم جیسا

کسی مزار کے روشن دان میں بیٹھے کبوتر کی طرح

رات کی کٹیا میں جلتے چراغ جیسا

یہ سفر دُکھ کی بانسری کی لے میں اپنا آپ جذب کرنے کا نام ہے۔ یہ اپنی ذات کی نفی سے شروع ہوتا ہے۔

توقعات اور خواہشات کے محل جن میں ہم رہتے ہیں اُن کو چکنا چور کر کے اس سفر پر نکلنا پڑتا ہے۔

تخت و تاج کو ٹھوکر مار کر بن باس لینے والوں پر ہی پھولوں کی بارش ہوتی ہے۔

کچھ سفر بہت تھکا دینے والے ہوتے ہیں اُن میں ایک سفر تنہائی کا ہوتا ہے۔ آپ تنہا بہت دیر تک سفر نہیں کر سکتے، تھک جاتے ہیں، ٹوٹ جاتے ہیں۔ اپنے آپ سے اُکتا جاتے ہیں۔

یہ اپنے آپ سے اُکتا جانے والا پل زندگی کا سب سے دردناک پل ہوتا ہے۔ تنہائی کا سفر پت جھڑ کی رُت میں ہو یا پھول کھلنے کے موسم میں، خوبصورت اور حسین وادیوں میں ہو یا نیلے سمندر کے ساتھ ساتھ ساحل پر، خوابوں کے جزیروں میں ہو یا اُداسی کی پگڈنڈیوں پر بہت بوجھل ہوتا ہے۔

جس طرح بھیگے پروں کے بوجھ سے پرندے اُڑ نہیں پاتے اُس طرح منظروں کی طرف پلکیں نہیں اُٹھتیں۔

پاؤں راستوں کی طرف کیسے اُٹھیں کہ دُکھ کا پارہ ایڑیوں میں بھر جاتا ہے۔ ایسی تنہائی جو خوبصورت یادوں سے آباد ہو وہ تو اور بھی جان لیوا ہوتی ہے۔

پرانا راستہ اور نیا سفر چاروں طرف یادوں کے گرتے پتے

کوئی کتنی دور چل سکتا ہے

وہ جو تنہا رہتی ہے

وہ کہتی ہے

ایک تنہائی لڑکیوں کے ہاتھ کی لکیروں میں سفر کرتی ہے

یہ تنہائی اُن کے ہرے بھرے جسموں سے آکاس بیل کی طرح لپٹ جاتی ہے

اور وہ لڑکیاں دیکھتے ہی دیکھتے خشک پتوں کی طرح زرد پڑ جاتی ہیں

اُن کی آنکھیں خالی ہو جاتی ہیں …

نہ کوئی خواب نہ کوئی آنسو…

میں ڈر جاتا ہوں

مجھ کو خالی آنکھوں سے ڈر لگتا ہے

اُن کو جھوٹے خواب دکھاتا رہتا ہوں

میرے پہلے سفرنامے ’’محبت کے پروں میں گھنٹیاں باندھو‘‘ کو اتنی پذیرائی ملی کہ میرے لیے دوسرا سفرنامہ لکھنا محال ہو گیا۔ جب بچہ چلنا سیکھ رہا ہوتا ہے تو بہت زیادہ شاباش اور تالیوں کی گونج سن کر وہ یا تو چلتے چلتے رُک جاتا ہے یا اچانک گھبرا کر گر پڑتا ہے۔ بس مجھے اس تالیوں کی گونج میں گرنے سے بہت ڈر لگتا ہے اس لیے میں رُک گیا تھا اور بہت آہستہ آہستہ سنبھل سنبھل کر قدم اُٹھاتا رہا اور بالآخر دوسرا سفر نامہ ’’ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا‘‘ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ پہلا سفرنامہ میں نے جس بے دھیانی اور عجلت میں لکھا تھا یہ اُتنا ہی محتاط ہو کر لکھا ہے۔ لکھتے وقت دل میں ایک ہی خواہش تھی کہ جن لوگوں نے مجھ سے اُمیدیں باندھ رکھی ہیں یہ سفرنامہ پڑھ کر اُن کو مایوسی نہ ہو۔ میں اپنی اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں آپ مجھے ضرور بتائیے گا۔

آپ کی آراء کا منتظر

حسن عباسی ۔ لاہور

 

 ’’چندی پور‘‘ سے بھی دور… نندیا پور

 

بچپن کا ایک سنہرا دن

گھر کا وسیع آنگن

بیری کے نیچے بھائی ایک کاغذ کو دونوں ہاتھوں سے کئی بار موڑ کر جہاز بناتا ہے اور پھونک مار کر اُڑا دیتا ہے۔ جہاز ہوا میں تیرتا ہچکولے کھاتا تھوڑی دور جا کر گر جاتا ہے۔

بھائی خوشی سے دونوں بازو فضا میں بلند کر کے چلاتا ہے

’’دبئی آ گیا‘‘

میں یہ نیا لفظ سن کر چونکتا ہوں اور اُس کا ہاتھ پکڑ کر پوچھتا ہوں

’’بھائی دبئی کہاں ہے ؟‘‘

وہ آسمان کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہتا ہے ’’بہت دور…‘‘

میں معصومیت سے ایک بار پھر پوچھتا ہوں

’’چندی پور‘‘ سے بھی دور…؟‘‘

چندی پور ہمارے قصبے سے ۱۲کلومیٹر دور ایک چھوٹی سی بستی ہے۔ اُن دنوں میں صرف وہاں ایک بار گیا تھا سو میرے نزدیک دور ترین مقام وہی تھا۔

بھائی ہنس پڑتا ہے اور میرے سوال کا کوئی جواب نہیں دیتا۔

میں دوڑ کر اُس کا جہاز اُٹھا لیتا ہوں اور پھونک مار کے پوری قوت سے اُسے فضا میں اُچھال دیتا ہوں۔ جہاز اس بار ہچکولے کھاتا ہوا بیری کی شاخوں میں پھنس جاتا ہے۔ میں دونوں بازو فضا میں بلند کر کے چلاتا ہوں۔

’’دبئی آ گیا‘‘

پی آئی اے کا جہاز علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے رن وے پر دوڑتا ہوا ایک دو ہچکولے کھاتا ہے اور فضا میں بلند ہو جاتا ہے۔ میں کھڑکی سے لاہور شہر کو دیکھتا ہوں جو دیکھتے ہی دیکھتے چندی پور کی بستی جتنا رہ جاتا ہے۔

بچپن میں کاغذ کے جہاز اُڑا کر میں دن میں کئی بار دبئی جاتا تھا۔ ایک روز جب چھت پر پتنگ اُڑا رہا تھا تو میں نے سچ مچ جہاز دیکھا۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا تھا۔ وہ اتنی بلندی پر تھا کہ کاغذ کے جہاز سے بھی چھوٹا دِکھتا تھا۔ میرے ہاتھوں سے پتنگ کی ڈور چھوٹ گئی اور میں جلدی جلدی سیڑھیاں اُتر کر قصبے کی گلیوں میں ننگے پاؤں بھاگنے لگا۔ میری نظریں جہاز پر تھیں۔ میں قصبے سے باہر کچے رستے پر لہلہاتی فصلوں کے درمیان بھاگتا چلا گیا۔ میرا خیال تھا اس طرح جہاز کے پیچھے بھاگتا ہوا دبئی پہنچ جاؤں گا مگر وہ آسمان پر دھوئیں کی ایک لکیر چھوڑتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ دھوئیں کی یہ لکیر پھیلتے پھیلتے بادل کی ٹکڑیوں جیسی ہو گئی۔

مجھے ہر ٹکڑی میں دبئی دکھائی دینے لگا۔

بچپن میں اُردو کی کتاب میں ایک نظم ہوا کرتی تھی نندیا پور… بالکل ویسا

 

 

 

میرے ہم سفر

 

میں دبئی پہلی بار انٹرنیشنل رائٹرز فورم کی دعوت پر عالمی مشاعرے میں گیا تھا جس میں عطاء الحق قاسمی، امجد اسلام امجد، ڈاکٹر صغرا صدف، کوثر ثمرین، گلنار آفرین اور عزیر احمد بھی شریکِ سفر تھے۔

دوسری بار ایوانِ اقبال دبئی نے میرے ساتھ ایک شام کا اہتمام کیا تھا تیسری بار ایوانِ اقبال کی دعوت پر ہی جشن امجد اسلام امجد میں شرکت کے لیے گیا تھا اور چوتھی بار ایوانِ اقبال ہی کی دعوت پر عجمان کے مشاعرے میں جانا ہوا۔ عطاء الحق قاسمی، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، خالد مسعود، شہزاد نیر اور حرا رانا شریک سفر تھے۔

مجھے لاہور اس لیے اچھا لگتا ہے کہ اس میں عطاء الحق قاسمی رہتے ہیں۔ یو- اے – ای کے دو سفر اس لیے معتبر ٹھہرے کہ عطا صاحب کی رفاقت میسر تھی۔ ایک دہائی ہونے کو آئی شب و روز کی اس رفاقت پر کوئی موسم اثرانداز نہیں ہوا۔ بہت قریب سے اُن کو دیکھنے کا موقع ملا۔

اُن کی ذات برج العرب اور مدینۃ الجمیرا سے زیادہ خوبصورت بحیثیت انسان وہ برجِ خلیفہ کے قد سے بہت بلند۔

بطور شاعر اور ڈرامہ رائٹر جو شہرت امجد اسلام امجد کے حصہ میں آئی وہ کم لوگوں کا مقدر بنتی ہے۔ اُردو نظم میں اُنہیں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔

ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی مزاحیہ شاعری کا ایک زمانہ مداح، انتہائی شفیق اور مہربان دوست۔ اپنی شاعری کی طرح شگفتہ مزاج، زندگی کی سبھی کامیابیاں عاجزی اور محنت کی مرہونِ منت۔

خالد مسعود مقبول مزاحیہ شاعر۔ عوام میں انتہائی مقبول۔ اپنے کالم کی طرح مزاجاً تلخ مگر دل کے نرم۔ لطیفہ اور تاریخ کا کوئی واقعہ بیان کرنے کا انداز یکساں۔

بنگال کے جادو کی طرح ڈاکٹر صغرا صدف کی شخصیت کا بھی ایک سحر ہے، اس سحر سے باہر آنے کا کوئی راستہ نہیں۔ ادبی دُنیا میں جس طرح انہوں نے بین الاقوامی سطح پر اپنی پہچان بنائی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اپنی پری جیسی بیٹی ’’پریا‘‘ سے پہلے ’’صغرا‘‘ لگتی تھیں۔ اب اصغرا صدف لگتی ہیں۔

کوثر ثمرین معروف ریڈیو کمپیئر اور شاعرہ۔ کمپیئرنگ میں ’’سسی‘‘ کے نام سے اُن کا کیرئیر فوجی بھائیوں اور ٹرک ڈرائیوروں میں انتہائی مقبول۔ بڑی آنکھیں، خوبصورت مسکراہٹ اور دلچسپ اندازِ گفتگو۔

حرا رانا جس کو احمد فراز (مرحوم) نے ’’حرا رعنا‘‘ لکھا تھا۔ شعری مجموعے ’’اگلا موڑ جدائی ہے ‘‘ کی خالق۔ زندگی کی تلخ حقیقتوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرنے والی با ہمت شاعرہ۔

شہزاد نیر پاک آرمی میں میجر، نظم اور غزل کے منفرد شاعر انتہائی شفیق اور ملنسار انسان۔

عزیر احمید مزاحیہ شاعر، دلچسپ شخصیت، محبتیں بانٹنے والے انسان، بیرونِ ملک سیاحت کے رسیا۔

گلنار آفریں سینئر شاعرہ۔ نستعلیق شخصیت، متعدد شعری مجموعوں کی خالق۔ شیریں گفتار۔

دُبئی

دبئی متحدہ عرب امارات کی سات امارات میں سے ایک ہے اور امارات کا اہم ترین شہر بھی۔ ۱۸۳۳ء میں آباد ہونے والے اس شہر کو ۱۹۷۱ء میں امارت کا درجہ ملا جس کے بعد اس نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ متحدہ عرب امارات کا نظام کچھ اس قسم کا ہے کہ سیاسی، فوجی اور بعض معاشی نوعیت کے معاملات میں مرکزیت ہے جبکہ باقی امور میں ہر امارت قانون سازی کے لیے آزاد ہے۔

دبئی اپنے قیام یعنی ۱۸۳۳ء سے ہی المکتوم خاندان کے زیر حکومت ہے۔ دبئی کی اقتصادیات کا دارومدار صنعت و تجارت پر ہے۔ باقی خلیجی ممالک کے برعکس تیل یہاں کی معیشت میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرتا۔ دبئی کی اصل اہمیت بطور ایک اہم عالمی تجارتی مرکز کے ہے۔

اگرچہ قبل از اسلام کی مستند تاریخ دستیاب نہیں لیکن یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ دبئی کا علاقہ کسی انتہائی قدیم تہذیب کا گہوارہ رہ چکا ہے جو تقریباً پانچ ہزار سال قبل معدوم ہو گئی تھی اور اس کے آثار ریت تلے دب گئے تھے۔ کچھ عرصہ قبل ایسے آثار دریافت ہوئے تھے۔

شروع ہی سے المکتوم خاندان دبئی کی تجارتی اہمیت سے آگاہ اور اس اہمیت میں اضافے کا متمنی تھا۔ ۱۹۶۶ء میں یہاں تیل دریافت ہوا جس کے بعد پاکستانی اور ہندوستانی کثیر تعداد میں دبئی جانا شروع ہوئے۔ ۱۹۹۰ء کی خلیجی جنگ اس کی معیشت پر بری طرح اثرانداز ہوئی لیکن یہ اثرات عارضی تھے۔ شہر دوبارہ ترقی کے راستے پر رواں دواں ہے۔ برج العرب، پام آئی لینڈ، ورلڈ آئی لینڈ اور برج دبئی جیسے تعمیراتی منصوبوں نے دبئی کو پوری دنیا میں ایک خاص اہمیت عطا کر دی ہے۔ اب یہ شہر تجارت کے علاوہ سیاست کا بھی مرکز بنتا جا رہا ہے۔ خاص کر پاکستانی سیاست میں کئی ایسے اہم موڑ آئے کہ جس کے فیصلے دبئی میں ہوئے۔

 

 

 

 

نام تو شیخ کا ہو گا

 

ایئر ہوسٹس نے دبئی آمد کی اناؤنسمنٹ کی اور جہاز دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈ کر گیا۔

یہ ایئرپورٹ سندر آنکھوں اور سہانے خوابوں کی طرح خوبصورت ہے۔ کسی خاموش جھیل پہ سو رنگ کے طیور کی طرح یہاں مختلف ایئرلائنز کے سینکڑوں جہاز اُترتے اور اُڑان بھرتے ہیں۔ جس نے دُنیا دیکھنی ہو وہ دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ دیکھ لے۔ اِک جہان ہے اور اس جہان کے اندر کئی جہان آباد ہیں۔ مختلف ملکوں اور تہذیبوں کے لوگ، بھانت بھانت کی بولیاں، افسانوی کرداروں کی طرح چلتے پھرتے مسافر، دریچوں میں رکھے ہوئے پھولوں کی طرح خوبصورت چہرے

پھر نگہ لوٹ کر نہیں آئی

’’اُن‘‘ پہ قربان ہو گئی ہو گی

ہم جیسے سادہ دل شاعروں کے لٹ جانے کا خطرہ گام گام پر موجود۔ در و دیوار کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے خوبصورتی ان پر فریفتہ ہو گئی ہو۔ چمتکار ہے اور اس چمکتار میں سب کچھ چمکدار ہے۔ آئینہ بدست چمکدار در و دیوار، چمکدار فرش اور اس پر بڑے سلیقے سے سجی ہوئی ڈیوٹی فری شاپس، چمکدار بار اور اُن میں رکھی ہوئی دلکش ڈیزائنز کی شراب کی بے شمار بوتلیں جن کے عکس دیکھنے والوں کی آنکھوں سے چھلکتے ہیں۔

’’نہ شب کو دن سے شکایت نہ دن کو شب سے ہے ‘‘

پردیسی آنکھیں جنہوں نے گاؤں چھوڑتے وقت بوڑھے ماں باپ کے روتے چہروں کی جانب ایک بار بھی مڑ کر نہ دیکھا یہاں ایک ایک نقش کو مڑ مڑ کر دیکھتے نہیں تھکتیں۔ وہ قدم جن کے لیے منگیتر کی محبت زنجیر نہ بن سکی یہاں بغیر زنجیر کے ساکن ہو گئے ہیں جیسے چلنا بھول گئے ہوں۔

ہمارے دیہات سے تلاشِ روزگار میں آئے ہوئے نوجوان پھٹی پھٹی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھ رہے ہیں جیسے جہان کے میلے میں پہلی بار آئے ہوں

دھڑکتے دلوں میں اندیشہ ہائے دور دراز……

سہمے سہمے ہوئے، سمٹے سمٹے ہوئے ……

کانپتے ہاتھوں میں ویزہ فارم……

ذیشان اطہر کی نظم کی چند لائنیں اُن کی حالت کی عکاس

زندگی ہم ترے بھروسے پر

اس طرح اس جہان میں آئے

جیسے اندھا فقیر شام ڈھلے

جگمگاتی دُکان میں آئے

جیسے سہما ہوا کوئی لڑکا

کمرۂ امتحان میں آئے

بدیشیوں کے لیے دبئی کمرۂ امتحان سے کم نہیں۔

تیسری دنیا کے نسل در نسل غلاموں نے یہاں آتے ہی ایک نئی غلامی بخوشی قبول کر لی ہے۔ پاکستان کی زرخیز مٹی، دبئی کی ریت اور بجری میں ملنے جا رہی ہے جس سے دیو قامت، بلند و بالا اور فلک بوس عمارتیں سر اُٹھائیں گی۔ جن کی شان و شوکت، خوبصورتی اور بلندی پوری دنیا کے لیے توجہ کا مرکز ہو گی۔ مگر اُن کو دیکھ کر کسی کو یہ خیال بھی نہیں آئے گا کہ ان کی خوبصورتی میں کن ملکوں کے انجینئرز کا کمال ہے۔ کوئی ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچے گا کہ کن ملکوں کے مزدوروں کا خون پسینہ اس کی بنیادوں میں شامل ہے۔

نام تو شیخ کا ہو گا

یہاں بھی میرے ہم وطن مزدوروں کے لیے حیات بوجھ اور زندگی وبال ہے۔

دبئی اُس بھٹہ مالک کی طرح ہے جو مزدوری تو زیادہ دیتا ہے مگر مزدور سے قیامت خیز گرمی، ، جھلساتی دھوپ اور آگ کے شعلوں کے درمیان کام لینے کا ہنر جانتا ہے۔ دبئی کی ترقی چڑھتے ہوئے سورج کی طرح ہے جس کی کرنیں تیز اور آنکھوں کو چندھیانے والی ہیں۔ یہ کرنیں سب سے پہلے پاکستان پر پڑی ہیں۔ حیرت ہے ہماری آنکھ پھر بھی نہیں کھل پائی۔

یہ میرے دوست انعام کی آواز تھی

 

 

 

خوابوں کا جزیرہ۔۔ مینورا

سمندر کے کنارے کراچی پورٹ ٹرسٹ کا اسکول

میرا کلاس روم

جس کے سارے دریچے سمندر کی طرف کھلتے

ساحل سے آنے والی شوخ ہوا میری کتاب کے صفحوں

اور مس نرگس کے بالوں کو اُڑاتی رہتی

مینورا میں ایک دلکش مسجد، ایک خوبصورت مندر اور مس نرگس کے علاوہ کچھ خاص نہ تھا۔

بلکہ مسجد کی محرابوں اور مندر کے دیوں میں بھی بس اُسی کا نور ظہور… بڑے بڑے بحری جہاز دور سمندر میں لنگر انداز رہتے۔

مچھیروں کی چھوٹی چھوٹی کشتیاں اُن کا طواف کرتی رہتیں۔ جب کوئی بڑی لانچ نظر آتی جس پر پاکستانی پرچم لگا ہوتا تو میری آنکھوں میں چمک پیدا ہو جاتی۔ میرے دوست انعام نے بتایا تھا یہ لانچ دبئی جاتی ہے۔ اُس کے والد دبئی میں جاب کرتے تھے۔ اُس نے مجھے وہاں کی خوبصورتی کے بڑے دلچسپ قصے سنائے تھے۔ اُس کی ڈرائنگ بک میں دبئی کی بڑی خوبصورت تصویریں بنی ہوتی تھیں۔ وہ کاغذ کو موڑ موڑ کر بڑی خوبصورت لانچ بنایا کرتا تھا۔ کہتا تھا کسی روز وہ اس لانچ میں بیٹھ کر اپنے پاپا کے پاس دبئی چلا جائے گا۔ رندھے ہوئے لہجے میں یہ بات کہتے ہوئے اُس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتیں، دیکھتے ہی دیکھتے اُس کے ہاتھوں سے بنی ہوئی لانچ اُس کے اپنے اشکوں میں ڈوب جاتی۔

میں مندر کی اوٹ سے مس نرگس اور دبئی جانے والی لانچ کو دیکھا کرتا۔ کبھی کبھی تو مس کا ہاتھ پکڑ کر اُس میں جا بیٹھتا۔

………

ایئرپورٹ کے باہر میزبانوں کا پر تپاک استقبال…

گاڑیوں کا قافلہ لندن کراؤن ہوٹل کے سامنے جا کر رُکا۔

سامان اُتارنے کی آوازیں

گاڑیوں کے دروازے بند ہونے کی آوازیں

میزبانوں اور مہمانوں کے قہقہے

لابی میں لوگوں کی بات چیت

یہ سب آوازیں مجھے بہت دور سے آ رہی تھیں۔ صرف ایک مانوس سی آواز قریب سے آ رہی تھی جیسے کوئی سرگوشی کر رہا ہو۔

یہ میرے دوست انعام کی آواز تھی۔ دُکھ میں رُندھی ہوئی ’’پاپا! میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ ‘‘

’’پاپا! مجھے آپ کے ساتھ رہنا ہے ‘‘

میں اس آواز کی گونج میں چلتا ہوا اپارٹمنٹ میں آ گیا۔ ڈرائنگ روم، کچن، کمرہ، مدھم مدھم روشنی۔

دریچے سے باہر ویسی بلند و بالا خوبصورت عمارتیں ایستادہ تھیں جیسی میں انعام کی ڈرائنگ بک میں دیکھا کرتا تھا۔ اچانک ہوا کا شوخ جھونکا آیا، مجھے اپنی کتاب کے صفحے اور مس نرگس کے بال اُڑتے ہوئے دکھائی دینے لگے۔

 

 

 

شہر کا سپنا

 

دبئی اپنی بلند و بالا فلک بوس عمارتوں اور شاپنگ سینٹرز کے باعث پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہے۔ دبئی نے اپنی شاندار عمارتوں اور خوبصورتی میں پیرس اور دیگر ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ دبئی میں تیرتے ہوئے شہر اور گھومنے والے ٹاورز کی تعمیر کے اعلان نے دُنیا کو اب اور بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ دبئی اب آہستہ آہستہ خوابوں کا شہر بنتا جا رہا ہے جس میں خواب حقیقت بن رہے ہیں۔

شہر! ایک ایسا شہر جس کا ہم سب خواب دیکھتے ہیں۔ ہم دیہاتوں میں رہنے والے جب اپنے ہاتھوں سے لگائے ہوئے ننھے پودوں کے ساتھ بڑے ہو جاتے ہیں تو اُن کے تنے سے ٹیک لگا کر ایک ہی سپنا دیکھتے ہیں۔

شہر کا سپنا

کسی بڑے اور خوبصورت شہر کا طلسم ہمارے لیے اساطیری کہانیوں سے کم نہیں ہوتا۔ چاندنی رات میں دریا کے کنارے ہمیں پانی میں مسکراتا چاند نہیں بلکہ جھلملاتا شہر نظر آتا ہے۔ لاہور یا دبئی جیسا شہر

خوبصورت کشادہ سڑکیں، آسمان سے باتیں کرتی ہوئی عمارتیں، شاپنگ پلازے، با رونق بازار، خوبصورت گھر قطار اندر قطار اور اُن کی دیواروں سے جھانکتی پھولوں والی بیلیں، لش پش کرتی گاڑیاں، رومانوی داستانوں جیسی دلفریب درسگاہیں اور ماڈرن لڑکیاں۔ خوابوں کا یہ شہر ہمارے اندر بس جاتا ہے اور ہم اس شہر میں بسنے کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔

اُن دنوں ہمیں اپنے گاؤں کی لہلہاتی سرسبز و شاداب فصیلیں بہت بری لگتی ہیں۔ آموں کے وہ پیڑ جس کی شاخوں میں ہمارے جھولے پڑے ہوتے ہیں ہم اُنہیں بیچ کر رقم جمع کرنے کا سوچتے ہیں تاکہ شہر سدھار سکیں۔ بیریاں جن کے نیچے ہم طوطوں کے ٹکے ہوئے بیر کھاتے ہیں اب اُن کے زہریلے کانٹے ہمیں اپنے جسموں میں چبھنے لگتے ہیں۔ کھجوروں کے پیڑ جن کے نیچے ہم بنٹے کھیلتے ہیں ہمیں بے ڈھب دکھائی دینے لگتے ہیں۔ وہ سکول جس میں ہم پڑھے ہوتے ہیں اُس غریب بچے کی طرح لگنے لگتا ہے جس کی ناک ہر وقت بہتی رہتی ہے۔ پنگھٹ سے پانی بھرنے والی سادہ، شرمیلی اور لجاتی لڑکیوں کی ادائیں اب ہمیں گھائل نہیں کرتیں۔

گاؤں کی ساری خوبصورتیاں اور محبتیں ہم شہر جانے والے رستوں کی دھُول میں گم کر دیتے ہیں اور خود شہر آ کر اُس کی رعنائیوں اور پہنائیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔

گاؤں کی بس میں بیٹھ کر شہر آنے والے سبھی لوگوں کی کہانی ایک جیسی ہے۔ دلچسپ اور دُکھ بھری۔

شہر کا مزاج بہتے پانی کی طرح ہوتا ہے۔ اپنے اندر اُترنے والے کسی بھی جسم کو آسانی سے قبول نہیں کرتا۔ جسے تیرنا نہ آتا ہو اُسے ڈبونے کے بعد اُس کی نعش اُگل دیتا ہے۔ مسلسل ہاتھ پاؤں مارنے کے بعد ہی اُس کے پانیوں کو رام کیا جا سکتا ہے۔ ہر پل ہر لمحہ ڈوب جانے کے خطرے کے ساتھ… شہر اُس بے نیاز صوفی کی طرح ہوتا ہے جس کو اپنے گرد بیٹھے لوگوں میں کسی کے آنے یا چلے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور اگر کوئی اُس کے زیادہ قریب ہو کر کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ اُسے ابتداء میں دُکھ دیتا ہے۔ تکلیفیں دیتا ہے۔ اُسے کندن بنانے کے لیے مصیبتوں اور آلام کی بھٹی میں سے گزارتا ہے۔ اُس کی حتی المقدور کوشش ہوتی ہے کہ آنے والا بھاگ جائے مگر سخت جان اور صابر شاکر کو وہ ایک دن اپنے گلے سے لگا لیتا ہے۔ اُسے دیوار کے پار دیکھنے کا ہنر عطا کرتا ہے اور نعمتوں کے سب دروازے اُس پر کھول دیتا ہے۔

سب شہروں کا مزاج ایک جیسا ہوتا ہے۔ دبئی بھی ایسے ہی مزاج کا شہر ہے۔ دُکھ دینے والا، تکلیفیں دینے والا، مصیبتوں میں ڈالنے والا مگر ثابت قدم رہنے والوں کے لیے زندگی کی نعمتوں کی بارش کرنے والا۔

شہروں کی یہی ادا مجھے بہت پسند ہے کہ ان کی پچ ہر بیٹسمین کے لیے سازگار نہیں ہے۔ صرف ان کے لیے جو وکٹ پر ٹھہرنا جانتے ہوں۔

 

 

 

 

خوابوں کا شہر دُبئی

 

دُبئی نے اپنی طرف اُٹھنے والی اُمید بھری نظروں کو بہت کم مایوس کیا ہے۔ سپنے دیکھنے والی آنکھوں کو چوما اور اُنہیں سپنے تعبیر کرنے کے بھرپور مواقع فراہم کیے ہیں۔ دستک دینے والے با ہنر ہاتھوں کے لیے اپنے ہی نہیں اُن کی قسمت کے دروازے بھی کھول دیے ہیں۔ دبئی اُس تجربہ کار سنار کی طرح ہے جو خالص سونے سے کھوٹ علیحدہ کر کے اُس کی قیمت لگاتا ہے۔ دُبئی میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں مگر گھوڑوں اور گدھوں کا فرق وہ خوب جانتا ہے اور دونوں کے لیے علیحدہ علیحدہ اصطبل ہیں۔

دبئی میں روزانہ ہزاروں لوگ اپنے بریف کیسوں میں خواہشوں کی کلر بکس بھر کر لاتے ہیں اور بہت جلد اُن میں تکمیل کے رنگ بھر کے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔

دبئی ایشیائی ملکوں کے مزدوروں اور ہنر مندوں کے لیے کسی سپائیڈر مین سے کم نہیں جو مصیبت میں اُن کے کام آتا اور اُنہیں خوشیاں دیتا ہے۔

دبئی ایسی بندرگاہ ہے جہاں بیٹھے کئی لوگ صرف وقت گزاری اور تفریح کے لیے مچھلیاں پکڑنے میں مشغول ہیں جیسے ہی اُن کے ملک کا جہاز کنارے سے آ کر لگتا ہے وہ اُس میں بیٹھ کر چلے جاتے ہیں۔

بڑی طاقتوں کے لیے دُبئی الٰہ دین کے چراغ کی طرح ہے۔ اُن کو جب بھی ضرورت پڑتی ہے وہ اسے رگڑتی ہیں اور یہ پورے کروفر کے ساتھ دھوئیں کے مرغولوں میں کیا حکم ہے میرے آقا! کی صدا کے ساتھ ہاتھ باندھے کھڑا ہو جاتا ہے۔ چراغ رگڑنے والے اس ہاتھ سے دبئی کو خطرہ ہے۔

دُبئی وہ رحم دل بادشاہ ہے جو ہر کسی کو گلے لگا کے ملتا ہے۔ اُسے دوست دشمن کی پہچان کرنا ہو گی وگرنہ کسی وقت کوئی اس کی پشت میں خنجر بھی گھونپ سکتا ہے۔

دبئی سونے کی چڑیا نہیں ہے ڈری ڈری ہوئی، سہمی سہمی ہوئی کہ کوئی اسے شکار کر لے گا بلکہ دُبئی ایسا شاہین ہے جس میں ہیرے اور جواہرات جڑے ہیں، جو شکار نہیں بلکہ شکاری ہے۔ کچھ طاقتور شکاری اس شاہین کو اپنے ہاتھ پر بٹھانا اور اپنے اشاروں پر اُڑانا چاہتے ہیں۔

تمام بڑے شہروں کو روشنیوں کے شہر کہا جاتا ہے۔ دُبئی صرف روشنیوں کا شہر نہیں بلکہ رنگوں اور روشنیوں کا شہر ہے۔ رات کو جہاں بھی جائیں رنگ اور روشنیاں آپس میں گھلی ملی ہوئی لگتی ہیں جیسے دھوپ میں قوس و قزح کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔

دُبئی سے مجھے بے حد پیار ہے اور اس پیار کی وجہ یہ ہے کہ یہاں صحرا اور سمندر گلے ملتے ہیں۔ میرا آدھا بچپن صحرا اور آدھا سمندر کے کنارے گزرا ہے۔ یہاں آ کر مجھے اپنے بچپن کی تکمیل نظر آتی ہے۔ صحرا اور سمندر کی طرح دبئی میں ہر جگہ پانی اور پیاس ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جمیرا بیچ پہ دھوپ سینکتی عریاں گوریوں کے پاس سے گزرتے ہوئے اذان کی اتنی پرکشش آواز آتی ہے کہ قدم خودبخود مسجد کی طرف اُٹھتے چلے جاتے ہیں۔ دُبئی میں دعوت مبارزت دیتے ہوئے شباب اور حجاب ایک ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔

دبئی میں بدصورتیوں سے خوبصورتیاں اور خوبصورتیوں سے بدصورتیاں جنم لیتی ہیں۔ یہاں زندگی اُونٹ کی طرح سست رفتار بھی ہے اور بلٹ ٹرین کی طرح تیز رفتار بھی۔ تضاد زندگی کا حسن ہے اور یہ حسن دُبئی میں عروج پر نظر آتا ہے۔

یو اے ای کی سات ریاستیں سات سہیلیوں کی طرح ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایک ساتھ کھڑی ہیں۔ اپنی خوبصورتیاں عیاں کرتی ہوئی جیسے کسی مقابلہ حسن میں شریک ہوں لیکن دُنیا کی نظر انتخاب ہر بار دُبئی پہ جا کر ہی ٹھہرتی ہے اس لیے کہ دُبئی ماڈرن ہے، جدید ہے، وہ ایک ایسی بولڈ لڑکی کی طرح ہے جس نے اپنا کچھ بھی چھپایا ہوا نہیں ہے۔ حُسن کی بھرپور نمائش کی ہے اور اس سے فائدہ اُٹھانے کے مواقع بھی فراہم کیے ہیں۔ باقی ریاستوں میں گریز ہے۔ دبئی میں سپردگی ہے اور انتہا کی ہے۔

دُبئی نے اپنی کلائیوں میں یک رنگی پلاسٹک کی چوڑیاں نہیں پہنیں بلکہ کانچ کی رنگا رنگ چوڑیاں سجائی ہیں جو کھنکتی ہیں تو دل و جاں لٹانے والے خودبخود کھنچے چلے آتے ہیں۔

دُبئی ڈبل شاہ کی طرح سرمایہ کاروں کے لیے کسی دیوتا سے کم نہیں۔ پٹھان کی یہ بات کہ ’’لگانے سے ملتا ہے ‘‘ یہاں دو سو فیصد درست ہے۔ پوری دنیا سے لوگ یہاں پیسہ کمانے آتے ہیں یا خرچ کرنے آتے ہیں۔ دبئی کے متعلق جتنی من گھڑت کہانیاں سنی جائیں دلچسپ لگتی ہیں۔ اس کی ترقی کے بارے جتنا جھوٹ بولا جائے سچ لگتا ہے۔ سنا ہے جتنی کرینیں پورے ایشیا میں کام کر رہی ہیں اُتنی تعداد میں صرف دُبئی میں کام کر رہی ہیں۔ یار لوگ کرین کو دبئی کا قومی پرندہ کہتے ہیں۔

دُبئی اپنے جلووں سے حیران کرتا ہے۔ حیرت کا ایک در بند ہوتا اور دوسرا کھل جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے بچپن لوٹ آیا ہو۔ آنکھوں کو کھوئی ہوئی حیرتیں دوبارہ مل جاتی ہیں۔ دبئی کی سرزمین پہ پاؤں رکھتے ہی یوں لگتا ہے جیسے ہم آئنوں کی دُنیا میں آ گئے ہیں۔ ہر آئنے میں ایک الگ جہاں آباد ہے۔

یو اے ای کی دیگر ریاستوں کی طرح دبئی مدرسے میں پڑھنے والا بچہ نہیں بلکہ اُس سے بھاگا ہوا لڑکا ہے جو اپنے کھلنڈرے پن، شوخ اور چنچل مزاج کی وجہ سے آزادی ملنے کے بعد اپنے شوق پورے کر رہا ہو۔ جس طرح گھٹن زدہ ماحول سے کوئی لڑکا لبرل ماحول میں آئے تو وہ تمام حدوں کو پار کر جاتا ہے۔ جیسے پانی کی بند دیگچی کے نیچے مسلسل آگ جلتی رہے تو اُس کا ڈھکنا چھت سے جا لگتا ہے بالکل ایسے ہی دبئی کا ڈھکنا چھت سے جا لگا ہے مگر اس سب کے باوجود مدرسے کی تربیت اور ماحول اُس کے اندر سے گیا نہیں۔ وہ اپنے نام، تہذیب اور اقدار کے حوالے سے اب بھی اسلامی ہے۔

 

 

 

 

میں نے اُس کو اتنا دیکھا…

 

مختلف ملکوں کے ایئرپورٹ اپنی خوبصورتی، طرزِ تعمیر، ڈیزائن اور مزاج کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً لاہور کا علامہ اقبال ایئرپورٹ مغل طرزِ تعمیر کی وجہ سے شاہانہ اور اپنے نام کی وجہ سے شاعرانہ مزاج رکھتا ہے۔ دور سے دیکھیں تو لگتا ہے جیسے کوئی مغل شہزادہ ہاتھ میں گلاب لیے کھڑا ہے اور قریب جائیں تو صاحب دیوان شاعر معلوم ہوتا ہے۔ اندر داخل ہوں تو لگتا ہے شاہی قلعہ میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ کنیزوں اور خدام کا مزاج شاہانہ ہی نہیں شاعرانہ بھی ہے۔ مسافر بھی اسی رنگ ڈھنگ میں نظر آتے ہیں۔

دوحہ کا ایئرپورٹ اپنے طرزِ تعمیر سے جدید اور مزاج کے اعتبار سے قدیم ہے۔ اُس کے اندر ایک اُداسی اور تنہائی ہے۔ جیسے نیا دلکش مکان اپنے مکینوں کی راہ دیکھتا ہو۔

اوسلو کا ایئرپورٹ اپنے طرزِ تعمیر میں سادہ اور مزاج میں دلدادہ ہے۔ یہ مسافروں سے باتیں کرتا اور اُن کی باتیں سنتا ہے۔ یہاں بیٹھ کر کسی کا برسوں انتظار کیا جا سکتا ہے۔

پیرس کا چارلس ڈیگال ایئرپورٹ اپنے طرزِ تعمیر میں انقلابی اور مزاج میں شادابی رکھتا ہے۔ اس سے مل کر یوں لگتا ہے جیسے ہم مختلف موسموں سے مل رہے ہیں۔ ویسی کیفیات ہمارے اندر جنم لیتی اور نمو پذیر ہونے لگتی ہیں۔

دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ طرزِ تعمیر میں کسی خلائی اسٹیشن جیسا لگتا ہے پھر بھی اس کا مزاج زندگی جیسا ہے۔ پلک جھپکنے میں جدتیں، حدتیں اور شدتیں بدل جاتی ہیں۔ حرکت ہے، گہماگہمی ہے۔ دُکھ ہیں خوشیاں ہیں۔ ملن ہے جدائی ہے گویا زندگی یہاں اپنی تمام تر خوبصورتیوں اور بدصورتیوں کے ساتھ موجود ہے۔ مختلف ملکوں کے ایئرپورٹ اپنے طرزِ تعمیر اور مزاج کے اعتبار سے مختلف ہیں پھر بھی اُن میں چند قدریں مشترک ہیں جیسے پاسپورٹ اور ٹکٹ چیک کرانا، بورڈنگ کارڈ حاصل کرنا۔ اب تو دہشت گردی کی وجہ سے بہت کچھ چیک کرانا پڑتا ہے۔ اس بہت کچھ میں جامہ تلاشی کے ساتھ آنکھوں کا چیک اپ بھی شامل ہے۔

اب میں اُس لائن میں کھڑا تھا جس میں ایک عرب لڑکی مشین کے ذریعے آنکھوں کے لینز کے عکس کمپیوٹر میں محفوظ کر رہی تھی۔ اُس کو دیکھ کر ’’چشم بد دُور‘‘ کہنے کو جی چاہتا تھا مگر کہہ نہیں پایا کہ چشم بد کو دُوری گوارا نہ تھی۔

لائن میں لگ کر ایک عرب لڑکی تک جانا اور آنکھیں اُس کے چہرے کی طرف فوکس کرنا اگرچہ مجبوری تھی پر بڑی دلکش مجبوری تھی۔ دبئی دیکھے بغیر شیخ محمد کے ذوقِ جمالیات اور مہمان نوازی کا قائل ہونا پڑا۔

عرب لڑکی دو تین مسافروں کے آئی لینز کمپیوٹر میں محفوظ کرتی اور پھر تھوڑی دیر کے لیے اُٹھ کر کہیں چلی جاتی۔ شاید آنکھوں کی تاب نہ لا سکتی تھی کیونکہ اس لائن میں بلکہ آنکھوں کی لائن میں پاکستانی آنکھیں زیادہ تھیں اور پاکستانی آنکھوں کی تاب لانا کوئی اتنا آسان کام نہیں تھا۔

کچھ آنکھوں کے پانیوں میں دُکھوں کے مرجھائے پھول تیرتے تھے اور اس طرح تیرتے تھے کہ یہ سلسلہ رُکنے کو نہیں آتا تھا تو اُن آنکھوں کے لینز کو کیسے محفوظ کیا جا سکتا تھا اتنا حوصلہ اُس عرب لڑکی میں کہاں سے آتا۔

لڑکیاں عرب کی ہوں یا عجم کی، ہوتی تو وہ لڑکیاں ہی ہیں۔ شاید اس لیے وہ تھوڑی دیر کے لیے اُٹھ کر چلی جاتی تھی۔ کچھ آنکھیں حیرت زدہ تھیں تو کچھ حسرت زدہ، کچھ آنکھیں وحشت زدہ تھیں تو کچھ محبت زدہ۔

سب آنکھوں کی الگ کہانیاں تھیں اور یہ کہانیاں عرب لڑکی پڑھ نہیں سکتی تھی صرف دیکھ سکتی تھی۔ اُنہیں محفوظ کر سکتی تھی۔ تھوڑی دیر کے لیے کہیں جا کر انہیں فراموش کر سکتی تھی سو وہ ایسا کر رہی تھی۔

پاکستانی آنکھیں مزاجاً اتنی زندہ دل ہیں کہ لڑکی دیکھ کر دل کی طرح پھڑک اُٹھتی ہیں۔ یہ آنکھیں جتنے غم جتنے الم سہتی ہیں اُن کا مداوا کسی لڑکی کی آنکھوں میں ہی تلاش کرتی ہیں۔ اب تو عرب لڑکی سامنے تھی۔ وہ عبایا میں تھی مگر عربی لڑکی پردوں میں چھپانے سے کہاں چھپتی ہے بلکہ اُس کے کچھ خدوخال اور نمایاں ہو جاتے ہیں۔ قطار میں سے جس مسافر کی بھی باری آتی کاؤنٹر پر جا کر حضرتِ داغ کی طرح بیٹھ جاتا، اُٹھنے کا نام نہ لیتا، اُس کا وہاں سے ہلنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ واپس آتا تو اُس کی چال بتاتی کہ موصوف، کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں۔

میں بھی اپنی سرخ آنکھیں لیے وہاں بیٹھا رہا۔ مجھے راولپنڈی کے کسی شاعر کی یہ نظم یاد آ رہی تھی:

میں نے اُس کو اتنا دیکھا

دو آنکھوں سے جتنا دیکھا جا سکتا ہے

پھر بھی دو آنکھوں سے آخر

کتنا دیکھا جا سکتا ہے

دبئی ایئرپورٹ کی خوبصورتی اور وسعت سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ کتنی دلکش سرزمین پر قدم رکھنے والے ہیں۔ شیشہ نما کیپسول کی طویل راہداریوں میں چلتے ہوئے، اردگرد نظر دوڑاتے ہوئے آپ کو اپنی اہمیت کا احساس بھی ہوتا ہے اور سینکڑوں مسافروں کے ساتھ چلتے ہوئے بے وقعت ہونے کا ہلکا سا ملال بھی۔ مختلف زبان، رنگ اور نسل کے لوگوں کے ساتھ چلتے ہوئے آپ کی علیحدہ شناخت بھی اُجاگر ہوتی ہے اور اجنبیت کا احساس بھی گھیر لیتا ہے۔

یہاں آتے وقت سب جلدی میں ہوتے ہیں جیسے دبئی کی خوبصورتیوں کو سمیٹ لینا یا اُس میں سمٹ جانا چاہتے ہوں۔ ایئرپورٹ کی رعنائی اور خوبصورتی اُنہیں لمحہ بھر کے لیے پکڑتی ہے پھر وہ تیز تیز چل پڑتے ہیں۔ پہلی بار آنے والے اس تیز رفتاری کا حصہ بننے کے لیے بالکل تیار نہیں ہوتے۔ ہر شخص کا احساس مختلف ہوتا ہے۔ میں جتنی بار یہاں آیا یوں لگا جیسے پہلی بار آیا ہوں۔ جاتے وقت ہمیشہ دل بوجھل رہا۔

کچھ دن اور ٹھہرنے کی تمنا، کچھ مزید دیکھنے کا شوق۔ یہاں ہر بار پرواز کی تاخیر اچھی لگی، وہی کچھ اور دیکھنے کی تمنا کچھ مزید دیکھنے کا شوق ایئرپورٹ کی راہداریوں میں سے گزرتا ہوا اب میں اُس مقام پر آ گیا جہاں مجھے بہت سے سامان میں سے اپنا بیگ تلاش کرنا تھا۔ U کی شکل میں سب لوگ اپنی اپنی ٹرالیوں کے ساتھ لگ کر کھڑے تھے جس کی ٹرالی پر سامان لوڈ ہو جاتا وہ اُسے کھینچ کر چل پڑتا۔ ہم سب سامان کے رحم و کرم پر کھڑے تھے۔ ایک دوسرے سے بے نیاز اور یہ بہت اذیت ناک کام تھا۔ میں بھی اپنے بیگ کے رحم و کرم پر یہاں موجود تھا۔

ہم بھی بہت عجیب ہیں کبھی کبھار تو ایسے رشتے جنہیں ہم اپنی زندگیوں سے زیادہ اہم اور پیارا سمجھتے ہیں اُن کا انتظار بھی نہیں کرتے اور حوصلہ ہار جاتے ہیں۔

کبھی ایک بیگ کا انتظار ہمیں دُنیا سے بیگانہ کر دیتا ہے، دیوانہ کر دیتا ہے۔ ہم آنکھ اُٹھا کر اِدھر اُدھر بھی نہیں دیکھ سکتے۔

مجھے سب لوگ ایک جیسے لگ رہے تھے سب آوازیں بھی ایک جیسی لگ رہی تھیں۔ دور سے آتی ہوئیں … دور سے آتے ہوئے سب بیگ بھی ایک جیسے لگ رہے تھے۔ ہم سب کو اپنے بیگ پہچاننے میں بہت دُشواری ہو رہی تھی اور ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا تھا میں دُنیا میں جہاں کہیں بھی گیا تھا سامان کی شناخت کے مرحلے میں تمام مسافروں کو یکساں مجبور اور بے بس پایا تھا۔ اس لیے مجھے یہ منظر گزشتہ تمام منظروں کا تسلسل لگتا تھا۔ کبھی کبھار یوں لگتا جیسے صدیوں سے میں یہاں دوسرے مسافروں کے ساتھ بیگ کے انتظار میں کھڑا سلگ رہا ہوں۔ ہم ایک دوسرے کے بیگ غلط فہمی میں اُٹھا لیتے۔ اُن کو ٹٹولتے، پرکھتے مشورہ کرتے، اُوپر لکھے ہوئے نام اور Tag سے پتہ چلتا یہ ہمارے نہیں ہیں۔

ہم اپنے بیگ نہیں پہچان رہے تھے۔ ہم انسان تو وقت گزرنے کے ساتھ ایک دوسرے کو نہیں پہچانتے۔ یہ تو بیچارے بیگ تھے۔ ہم تو آج تک اپنے آپ کو نہیں پہچان سکے۔ رب کو نہیں پہچان سکے۔ یہ تو بیچارے بیگ تھے۔

کچھ دیر بعد بیگ ملا تو میں نے اُسے یوں گلے سے لگایا اور اُس پر ایسے ہاتھ پھیرا جیسے منزل پر پہنچ کر اپنے گھوڑوں کو شاباش دینے کے انداز میں پھیرتے ہیں۔ اتنے سلپری اور ہموار فرش پر پہیوں والے بیگ کو کھینچنا بہت اچھا لگ رہا تھا برسوں پہلے دبئی آنے والے مسافر اسی طرح اپنے گھوڑوں کی نکیلیں تھامے دبئی میں داخل ہوتے ہوں گے جیسے میں داخل ہو رہا تھا۔

پہلا پہلا پیار ہمارا

رات کے وقت جہاز کی کھڑکی سے دبئی کا نظارا کریں تو یوں لگتا ہے جیسے زمین پر کہکشاں اُتری ہوئی ہے۔ کار میں بیٹھ کر دیکھیں تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی خوبصورت شہر کا البم دیکھ رہے ہیں۔ منظر، تصویروں کی طرح بدلتے جاتے ہیں۔ پیدل گھومتے ہوئے یہ شہر کتنا دلکش لگتا ہے اس تجربے سے اب تک محروم تھا۔

جی تو چاہتا تھا باہر نکل کر خوب آوارہ گردی کروں اور اس کی خوبصورتیوں میں کھو جاؤں مگر ایک انجانا سا ڈر دل میں سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھ گیا تھا:

سن رے پیپل تیرے پتے شور مچاتے ہیں وہ جب آتے ہیں

پہلا پہلا پیار ہمارا ہم ڈر جاتے ہیں وہ جب آتے ہیں

بس یہ پہلے پہلے پیار جیسا ڈر تھا۔ اِرادے باندھنا، سوچنا اور پھر توڑ دینا کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے حالانکہ ایسا ویسا ہونے سے ہی سفر کی دلکشی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ویسے تو ہوٹل بھی اتنا خوبصورت تھا کہ ایک ہفتہ یہاں بھی مزے سے گزارا جا سکتا تھا۔ رہائش کے لیے مکمل اپارٹمنٹ، بیڈ رومز، ڈرائنگ روم، کچن جو مرضی کھاؤ پیو، جس طرح مرضی آرام کرو۔

مگر ازل سے بے چین روح کو آرام کہاں۔ اُس رات بھی ایسا ہی ہوا۔ نرم گدوں پر نیند نہیں آ رہی تھی۔ کھڑکی سے شہر کی رونق خوبصورت دوشیزہ کی طرح بانہیں کھولے بلا رہی تھی۔ میرے قدم خودبخود ہوٹل سے باہر جانے والے رستے کی طرف اُٹھتے چلے گئے جیسے نیند میں لوگ چلتے ہیں تو اُنہیں خود بھی علم نہیں ہوتا وہ کہاں جا رہے ہیں۔ بس کچھ ایسی ہی کیفیت اُس وقت میری تھی۔ میں جونہی لابی سے گزر کر باہر آیا تو اتنی پیاری اور مدہوش کر دینے والی ہوا چل رہی تھی کہ میں بن پئے جھومنے لگا۔ چلتے ہوئے یوں لگ رہا تھا جیسے میں الف لیلیٰ کے اُڑنے والے قالین پر کھڑا شہر کا نظارا کر رہا ہوں۔

شہر کی تیز روشنیاں، چاند ستاروں کے نور کو مدھم کرتی تھیں۔ بادلوں کی ٹکڑیاں کبوتروں کی طرح اُڑانیں بھرتی تھیں۔ عمارتیں بادبانوں کی طرح تنی ہوئی تھیں۔ تیز ہوا میں فٹ پاتھ پر میں ایسے جھومتا ہوا جا رہا تھا جیسے ہچکولے کھاتی کشتی میں سوار ہوں۔

روشنیوں کے شہر دُبئی کی روشن روشن سڑکوں پر اچانک روشن روشن چہرے دکھائی دینے لگے۔ دُبئی میں بہت سے نائٹ کلب ہیں جن میں رات گئے تک موسیقی، شراب اور رقص کی حکمرانی ہوتی ہے جیسے جیسے رات ڈھلتی جاتی ہے یہ حسینائیں کلبوں سے باہر سروس کے لیے سروس روڈ پر آ جاتی ہیں۔

خراماں خراماں چلتی حسیناؤں اور اُن کے ساتھ خراماں خراماں چلتی گاڑیوں کے درمیان میں بھی خراماں خراماں چلتا جا رہا تھا۔ گاڑیوں میں بیٹھے شاہسواروں اور حسیناؤں میں راز و نیاز کی باتیں ہو رہی تھیں جو کہ اکثر نتیجہ خیز ثابت ہوتی تھیں۔

پاکستان میں رکشوں اور ٹرکوں کے پیچھے بہت دلچسپ جملے لکھے ہوتے ہیں۔ ایک رکشہ کے پیچھے لکھا ہوا تھا ’’فاصلہ رکھیں ورنہ پیار ہو جائے گا‘‘

اُس رات سروس روڈ پر بھی یہی صورتحال تھی جو حسینہ بھی گاڑی کے قریب آئی اُسے پیار ہو گیا اور پھر وہ ’’پیار کی مار‘‘ پر چلی گئی۔

لاہور میں جس طرح سڑکوں پر کرکٹ کھیلی جاتی ہے اس طرح یہاں پیار کا کھیل چل رہا تھا۔ مختلف ملکوں کی پریاں قطار اندر قطار پھولوں کی طرح کھڑی تھیں اور انہوں نے اُودے اُودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن تو پہن رکھے تھے مگر برائے نام۔

بھنوروں کی بھی کمی نہیں تھی۔ نرم نرم ہوا کے جھونکے جب لڑکیوں کے بال اُڑاتے اور وہ اپنی نرم نرم اُنگلیوں سے اُنہیں چہروں سے ہٹاتیں تو خراماں خراماں چلنے والی گاڑیاں رُک جاتیں۔ گاڑی والے ہاتھ یا آنکھ کے اشارے سے جس حسینہ کو بلاتے وہ کیٹ واک کرتی ہوئی اُن کے پاس چلی آتی۔ چند لمحوں کے لیے بات چیت ہوتی اُس کے بعد یا تو وہ اُن کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ جاتی یا پھر واپس لوٹ آتی۔

مجھ ایسے راہ چلتے یہ مناظر حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ خود اُن کو خدا کے علاوہ دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔

میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو چاند ایک عمارت سے جھانک رہا تھا اور ستارے مسکرا رہے تھے۔ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے مجھے سیّد مبارک شاہ کا یہ شعر یاد آ گیا:

جب لوگ یہ کہتے ہیں خدا دیکھ رہا ہے

میں دیکھنے لگتا ہوں کہ کیا دیکھ رہا ہے

راہ چلتوں کو کسی رشین یا ایرانی حسینہ نے نہیں چھیڑا۔ البتہ چائنیز یا حبشی لڑکیاں آنکھوں کے اشاروں سے دعوتِ مبارزت بھی دیتیں۔ چھیڑتی بھی تھیں اور بعض اوقات نوبت دست درازی تک بھی پہنچ جاتی۔

مجھ پر بھی ایک حبشی لڑکی نے اچانک حملہ کر دیا۔ وہ تو بھلے وقت میں ہاتھ کا دیا کام آیا ورنہ میں تو مکمل طور پر اُس کے رحم و کرم پر ہوتا۔

سارا معاملہ ڈیمانڈ اور سپلائی والا تھا۔ اُن بیچاریوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا اس لیے انہیں اپنا شکار خود ہی تلاش کرنا پڑتا تھا۔ یہ مناظر دیکھتے دیکھتے میں بہت دور نکل آیا تھا۔ چاند بھی صحرا کے کسی ٹیلے پہ جا کر سو گیا تھا اور تارے بھی نیند کے بوجھ سے پلکیں جھپک رہے تھے۔ میں عدم کے یہ شعر پڑھتا ہوا ہوٹل لوٹ آیا:

تو نے عصمت فروخت کی ہے فقط

اِک ذرا بھوک ٹالنے کے لیے

لوگ یزداں کو بیچ دیتے ہیں

اپنا مطلب نکالنے کے لیے

دو دن تک مختلف عالی شان ہوٹلوں میں لنچ اور ڈنرز کا سلسلہ چلتا رہا۔ اُونچی دُکان پھیکا پکوان والا محاورہ سو فیصد درست لگا۔ کھانے سے زیادہ مزیدار تو عطاء الحق قاسمی اور امجد اسلام امجد کی باتیں ہوتیں۔ میں بچپن سے سوچا کرتا تھا کہ آخر یہ لطیفے کون لوگ تخلیق کرتے ہیں۔ اب یہ راز کی بات سمجھ میں آ گئی تھی۔ ہمارے میزبان امجد اقبال امجد اور اُن کے دوست حافظ مسعود عالم بھی بڑے اچھے جملہ باز تھے۔ سو ان یارانِ خوش گفتار کی وجہ سے مجھ سمیت، عزیر احمد، ڈاکٹر صغریٰ صدف، کوثر ثمرین، بابر عزیز بھٹی، پرنس اقبال اور باقی دوستوں نے خوب لطف اُٹھایا۔ میری عادت ہے کہ بڑوں کی موجودگی میں خاموش رہتا ہوں۔ بہت سے دلچسپ جملے ذہن میں کلکاریاں لیتے ہیں مگر بے ادبی کے خوف سے اُنہیں زبان پر نہیں لاتا۔ البتہ اپنے دوستوں میں بیٹھ کر کوئی جملہ ضائع نہیں جانے دیتا۔ اصل میں زندگی کرنے کا اصل ہنر یہی ہے کہ کہاں پر بولنا ہے اور کہاں خاموش رہنا ہے۔ بے موقع بات بعض اوقات پھانسی کا پھندہ بن جایا کرتی ہے۔

سیانے کہتے ہیں تلوار اور خنجر کے لگائے زخم بھر جاتے ہیں مگر باتوں کے زخم نہیں بھرتے۔

گفتگو کیجیے احتیاط کے ساتھ

مر بھی جاتے ہیں لوگ بات کے ساتھ

مشاعرہ کے انعقاد میں ابھی ایک دن باقی تھا مگر اُس میں شرکت کے لیے کارڈ کی شرط نے سامعین کے لیے مشکل پیدا کر دی تھی۔ میزبان بھی ایسی ہی مشکل سے دوچار تھے کہ نشستیں محدود تھیں اور سامعین کثیر، لہٰذا سفارشی فونز کی بھرمار تھی۔

ایسے مشاعرے بھی ہوا کرتے ہیں یہ میرے لیے بالکل نیا تجربہ تھا اور نہایت خوشگوار تجربہ تھا۔

 

 

 

 

دل پردیسی پاکستان میں رہتا ہے

 

مشاعرہ ڈیرہ شیرٹن ہوٹل (المطینہ، ڈیرہ دُبئی) میں تھا۔ شعراء کو مکمل پروٹوکول کے ساتھ ہال میں لایا گیا۔ ہال سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جو کہ شعراء کی آمد پر تالیوں سے گونج اُٹھا۔

ظہور الاسلام جاوید جو کہ شاعر بھی تھے اور بطور کمپیئر یو اے ای اور خلیجی ریاستوں میں اُن کا نام مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت تھا اس مشاعرے کی نظامت کر رہے تھے۔ اُن کی نظامت کی خاص بات یہ تھی کہ وہ مشاعرے کے مزاج آشنا تھے اور اُس کے اُتار چڑھاؤ کے ساتھ اپنی کمپیئرنگ کے رنگ بدلتے تھے۔

شاعر کو دعوتِ کلام دینے سے پہلے اُس کی مدح میں دو شعر پڑھتے جس سے نہ صرف شاعر کا سر فخر سے بلند ہو جاتا بلکہ سامعین کی طرف سے شاعر کی آمد پر تالیوں کی گونج میں بھی شدت آ جاتی۔ مشاعرہ کی صدارت پاکستان کے نامور کالم نویس، مزاح نگار، ڈرامہ رائٹر اور شاعر عطاء الحق قاسمی نے کی جن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگ اپنی نشستوں پر بے تاب تھے۔ جب اُن کا نام پکارا گیا تو ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔

مہمانِ خصوصی پاکستان کے دُبئی میں سفیر چوہدری عبدالحمید تھے۔ مہمانِ اعزاز نامور ڈرامہ رائٹر اور شاعر امجد اسلام امجد تھے جبکہ دیگر شعراء میں خاکسار کے علاوہ گلنار آفرین (کراچی) ڈاکٹر صغرا صدف (لاہور)، کوثر ثمرین (اسلام آباد)، عزیر احمد، عبدالرزاق صدف (دوحہ)، امجد اقبال امجد، ظہور الاسلام جاوید، فرزانہ سحاب مرزا، ڈاکٹر ثروت زہرہ اور اعجاز شاہین شامل تھے۔

مشاعرہ نہایت کامیاب رہا۔ ہر شاعر کو اُس کے اچھے شعروں پر بھرپور داد ملی۔ یہ دُبئی میں اتنے با ذوق لوگ کہاں سے پیدا ہو گئے تھے ؟ اس سوال کا جواب نہایت آسان تھا۔ ایک تو سلیم جعفری مرحوم نے دُبئی میں عالمی مشاعروں کے انعقاد کی جس روایت کا آغاز کیا اور پوری دُنیا سے نامور شعراء کو یہاں مدعو کر کے نہایت کامیاب مشاعرے کرائے اُس سے دُبئی کے لوگوں میں شعری ذوق کی آبیاری ہوئی۔ دوسرا میرے خیال میں وطن سے دوری کا احساس انسان کو حساس بنا دیتا ہے اور حساس انسان کے دل و دماغ پر شاعری سب سے زیادہ اثرانداز ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں میں شرکت کر کے اپنا کتھارسس کرتے ہیں۔ نیز اس طرح اُنہیں ایک چھت کے نیچے اپنے ہم وطنوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا موقعہ ملتا ہے۔

ڈاکٹر ثروت زہرا نے بہت اچھی نظمیں سنائیں، اُن کا کلام پڑھنے کا انداز بھی باکمال تھا۔ انہوں نے بھرپور داد سمیٹی۔ مشاعرہ کے میزبان امجد اقبال امجد نے مختلف جگہوں پر ذکر کیا کہ دُبئی کا مشاعرہ حسن عباسی نے لوٹا ہے۔ یہ مشاعرہ یومِ پاکستان کے حوالے سے تھا۔ ہال میں جگہ جگہ لگے ہوئے پاکستانی پرچم اتنے پیارے لگ رہے تھے کہ فی البدیہہ چند شعر ہو گئے۔ میری آمد سے قبل کسی بھی شاعر نے ابھی تک وطن کے حوالے سے کچھ بھی نہیں سنایا تھا تو جب میں نے یہ اشعار پڑھے تو سامعین کو پسند آئے اور انہیں اچھا لگا۔

چاند ستارہ ہر پل دھیان میں رہتا ہے

دل پردیسی پاکستان میں رہتا ہے

بچپن میں بھی یہ بستے میں رہتا تھا

اب بھی یہ پرچم سامان میں رہتا ہے

اس کے نام پہ جذباتی ہو جاتا ہوں

پاکستان مرے ایمان میں رہتا ہے

خاص کرم ہے اس پہ میرے مولا کا

اس کا دشمن تو نقصان میں رہتا ہے

صرف گلاب نہیں ہوتے ہیں کمرے میں

اِک پرچم بھی اب گلدان میں رہتا ہے

شعرا نے جو کلام سنایا اُن میں ہجرت کے حوالے سے شاعری پر بھرپور داد سمیٹی کیونکہ یہ شاعری سامعین کے جذبوں کی عکاس تھی۔

مشاعرہ کے آخر میں مہمانِ خصوصی اور دُبئی میں پاکستان کے سفیر چوہدری عبدالحمید نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان کو ایک دن دُبئی بنا دیں گے۔ اس بات پر ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔

وہی جذباتی باتیں، جذباتی قوم اور جذباتی نعرے عملاً نتیجہ صفر۔

 

 

 

حی علی الفلاح

 

جمیرا بیچ (Beach) پر تھوڑی دیر کے لیے میں اپنا آپ بھی بھول گیا۔ ساحل کی نرم گداز ریت پر لیٹی ہوئی نیم برہنہ گوریوں کی وجہ سے نہیں بلکہ سمندر کی ہوا کی وجہ سے۔

سمندر ہمیشہ مہربان دوست کی طرح ملتا ہے۔ اُس کی اُٹھتی لہریں پاؤں چوم کر استقبال کرتی ہیں اور ہوا اس طرح لپٹ لپٹ جاتی ہے کہ بندہ بادبان کی طرح پھڑپھڑانے لگتا ہے۔ نیلا سمندر حد نظر تک پھیلا ہوا، صاف شفاف ساحل کی ریت پر لیٹے ہوئے سونے جیسے بدن، جوش بھری لہریں ریت پر اپنا سر پٹختیں اور اُن جسموں کو چوم کر واپس چلی جاتیں، سورج کی طرح دہکتا اور پگھلتا ہوا میں، چلچلاتی دھوپ کی شدت اور حدت کو کم کرتی ہوئی ساحل کی ہوا، بادبانی کشتی کی طرح سمندر میں تیرتا ہوا ’’برج العرب‘‘ ہوٹل جہاں ہم آج رات ڈنر کرنے والے تھے اور یہ سب کچھ کسی سپنے جیسا لگ رہا تھا۔ جو کتابوں میں پڑھا تھا، لوگوں سے سنا تھا، آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔

ساحل پر کچھ گوریاں شارٹس پہنے اِدھر اُدھر گھوم رہی تھیں۔ اُن کے چلنے کا انداز ایسا تھا جیسے والی بال کی ٹیم کی کھلاڑی ہوں۔ کچھ جوڑے رنگین چھتریاں تانے بوس و کنار میں محو تھے، کچھ لیٹے لیٹے کتاب پڑھ رہے تھے اور کچھ کمال کر رہے تھے یعنی جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں۔

تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو جمیرا مچھیروں، موتی تلاش کرنے والے غوطہ خوروں اور تاجروں کی ایک قدیم بستی تھی۔ ۱۹۶۰ء کے بعد سے جمیرا ایک اچھا رہائشی علاقہ تھا لیکن ۱۹۹۵ء کے بعد جب دُبئی نے انتہائی تیزی سے ترقی کی تو اس کے اثرات جمیرا پر بھی پڑے اور اب اسے عام طور پر دُبئی کا سب سے بہترین علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ شاید اس علاقے کی اس خصوصی اہمیت کے پیش نظر ہی دُبئی کے حکمران خاندان نے اپنے ہوٹلوں کی چین کے لیے ’’جمیرا‘‘ نام پسند کیا۔ ’’جمیرا‘‘ کے علاوہ بھی یہاں بہت سے لگژری فائیو سٹار ہوٹل بنائے گئے ہیں جن میں مشہورِ زمانہ ’’برج العرب‘‘ بھی شامل ہے لیکن حال ہی میں تعمیر ہونے والا ’’مدینۃ الجمیرا‘‘ اب ساحل جمیرا کی پہچان بن چکا ہے۔ یہ فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں موجود تعمیرات میں ’’سوق مدینۃ الجمیرا‘‘، ’’مناء الاسلام‘‘ ’’القصر‘‘ اور متعدد دیگر قابل دید جگہیں شامل ہیں جنہیں آبی راستوں کے ذریعے ایک دوسرے سے ملایا گیا ہے۔ مدینۃ الجمیرا کے طرزِ تعمیر میں جدید و قدیم اور جلال و جمال کا امتزاج اسے انفرادیت عطا کرتا ہے۔

اگرچہ اب ’’مرینہ‘‘، ’’پام آئی لینڈ‘‘، ’’دی لیکسس‘‘، ’’دی سپرنگز‘‘ اور ’’دی میڈوز‘‘ جیسی نئی تعمیرات کی جانب سے جمیرا کو سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ پھر بھی اب تک جمیرا کی خصوصی اہمیت برقرار ہے۔

جمیرا بیچ پہ آنا مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ جب بھی میں کسی بیچ پہ جاتا ہوں یوں لگتا ہے جیسے میرا بچپن لوٹ آیا ہو۔ سارے ساحل مجھے مینورا کے ساحل کی طرح لگتے ہیں۔ لگتا ہے ابھی گھنٹی بجے گی اور میں دوڑتا ہوا اپنی کلاس میں جا کر بیٹھ جاؤں گا اور مس نرگس اپنے اُڑتے بالوں کو سنبھالتی ہوئی کلاس میں داخل ہوں گی تو میری آنکھیں سپنوں سے بھر جائیں گی۔

میں اپنی سوچوں میں گم جمیرا بیچ پر بیٹھا تھا کہ اذان کی آواز نے چونکا دیا۔ میں نے اس سے پہلے ایسی اذان کبھی نہیں سنی تھی۔ اگر کوئی کافر اس اذان کی آواز سن کر اسلام قبول کر لے تو بعید نہیں۔ اذان کی آواز نے ساری فضا کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ مجھے یوں لگنے لگا جیسے میں کسی اپنے سے بچھڑ گیا تھا اور اب وہ مجھے صدائیں دے رہا ہے۔ جیسے جنگل میں کوئی بچہ گم ہو جائے، راستہ بھول جائے تو اُس کے ماں باپ اُسے ڈھونڈتے ہوئے صدائیں دیتے ہیں اور اُن کی آواز میں اُمید اور دُکھ کی کیفیت گندھی ہوئی ہوتی ہے۔ بالکل ویسی آواز میرے کانوں میں آ رہی تھی۔

حیی علی الفلاح

حیی علی الفلاح

میری آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور قدم خودبخود اُس آواز کے تعاقب میں اُٹھتے چلے گئے۔

 

 

 

کون زیادہ خوبصورت ہے

 

برج العرب سمندر میں کسی دیوتا کی طرح ایستادہ ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے بہت بڑی ڈولفن مچھلی نے سمندر سے باہر فضا میں جست لگائی تو کسی جادوگر نے اُسے پتھر کا بنا دیا۔

یا ایسا کوئی کھلونا جس کے اندر جلتی بجھتی لائٹس کے تھوڑی دیر بعد رنگ بدل جاتے ہیں۔ ویسا رنگ بدلتا ہوا برج العرب ہمارے سامنے تھا اور ہم رولز رائس گاڑیوں میں سمندر کے پانیوں پہ بنے پل پر اُس کی جانب رواں دواں تھے۔ برج العرب کے مختلف رنگوں کی روشنیاں سمندر کے پانیوں پر پڑتیں تو رنگوں کے کئی جزیرے آباد کر جاتیں۔ آسمان پر ٹمٹماتے ستارے ان روشنیوں کے سامنے شرمندہ شرمندہ دکھائی دیتے تھے۔

ہوٹل کے عظیم الشان گیٹ کے سامنے ہم اُترے تو ایک بہت بڑے فوارے سے پہلے پانی اور پھر آگ بہت بلندی تک پھیلتے چلے گئے اور اُن سے نکلنے والی روشنیوں نے پورے ماحول کو بقعہ نور بنا دیا۔ قطار اندر قطار جگمگاتی کھجوروں اور سنہری اُونٹوں کے مجسموں کے درمیان سے گزر کر ہم برج العرب میں داخل ہو رہے تھے۔

کچھ منظر ایسے ہوتے ہیں جنہیں کیمرے کی آنکھ محفوظ نہیں کر سکتی۔ کچھ احساس ایسے ہوتے ہیں جنہیں لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

برج العرب کے اندر داخل ہو کر میں ایسا ہی منظر دیکھ رہا تھا اور ایسے ہی احساس سے گزر رہا تھا۔

عطاء الحق قاسمی اور امجد اسلام امجد جنہوں نے دُنیا دیکھی تھی وہ بھی حیرت زدہ آنکھوں سے اس جمال کا نظارہ کر رہے تھے اور اُن کی آنکھوں کی حیرانی میری آنکھوں کی حیرانی میں اضافہ کر تی تھی۔

ہر منظر کسی پینٹنگ سے کم نہ تھا اور اُس کو دیکھنے والا اُس پینٹنگ کا حصہ لگنے لگتا۔ عرب بدوؤں کے ذوقِ جمالیات کی داد دینے کے لیے ایک دُنیا یہاں موجود تھی۔ ایسے موقع پر اپنے پیارے بہت یاد آتے ہیں۔ دل کرتا ہے کاش وہ بھی ساتھ ہوتے تو کتنا مزا آتا۔

میرا دادا اور میرے والد میری آنکھوں سے برج العرب دیکھ رہے تھے۔ جب میں نہیں ہوں گا تو اپنے بچوں کی آنکھوں سے وہ خوبصورتیاں دیکھوں گا جنہوں نے ابھی جنم ہی نہیں لیا۔

در و دیوار، فرنیچر، کارپٹ اور سامانِ آرائش سب کچھ انتہائی باکمال، مختلف ناز و ادا دکھاتے ہوئے سینکڑوں قسم کے پانی کے فوارے جن میں سے روشنیاں اور رنگ پھوٹتے تھے۔ قدم قدم پر مختلف برانڈ کی خوشبوئیں دل و جان کو معطر کرتی ہوئیں۔ جہاں جائیں اردگرد مچھلیاں اس طرح تیر رہی ہوتیں جیسے ہم سمندر میں چل رہے ہیں۔ گام گام پہ پریوں جیسی لڑکیاں استقبال کے لیے موجود۔ نرم نرم مدھم مدھم عربی میوزک کانوں میں رس گھولتا ہوا۔ آئینہ دیکھ کر فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا کہ اصل نقش آئینے کے اندر ہے یا باہر۔ در و دیوار پر آویزاں پینٹنگز اور نقش و نگاری کا کام دیکھ کر شیخ محمد کی یاد آ رہی تھی۔

برج العرب ایک بہترین لگژری ہوٹل ہے۔ یہ دنیا کا دوسرا بلند ترین ہوٹل ہے۔ اس کی کل اُونچائی ۳۲۱ میٹر ہے۔ اسے جمیرہ کے ساحل سے ملانے کے لیے ۲۸۰ میٹر طویل پل بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ بحری جہاز کے بادبان سے مشابہ ڈیزائن اسے انفرادیت عطا کرتا ہے۔ برج العرب کی تعمیر ۱۹۹۴ء میں شروع ہوئی۔ برج العرب کے معمار ٹام رائٹ کا کہنا ہے کہ ان سے ایک ایسی عمارت تعمیر کرنے کے لیے کہا گیا تھا جو اُسی طرح دُبئی کی پہچان بن جائے جس طرح اوپیرا ہاؤس سڈنی کی اور آئفل ٹاور پیرس کی پہچان ہے۔ اس ہوٹل کے پیچیدہ ڈیزائن کی وجہ سے تعمیر آسان نہ تھی۔ ہوٹل چونکہ ایک مصنوعی جزیرے پہ تعمیر کیا جا رہا تھا لہٰذا اسے مستحکم کرنے کے لیے زمین کے اندر چالیس میٹر گہرے ۲۳۰ ستون بنائے گئے۔ جزیرہ بنانے پر ۳ سال سے زیادہ اور ہوٹل کی تعمیر پر ۳ سال سے کم عرصہ صرف ہوا۔ دنیا کی بلند ترین عمارتوں میں سے ایک ہونے کے باوجود اس ہوٹل کی صرف ۲۸ ڈبل سٹوری منزلیں ہیں جن میں ۲۰۲ سویٹ بنائے گئے ہیں۔ ان رہائشی سویٹس کا رقبہ ۱۶۹ مربع میٹر سے لے کر ۷۸۰ مربع میٹر تک ہے ہوٹل کا اندرونی طرزِ تعمیر مشرقی اور مغربی روایت کا ایک حسین امتزاج ہے۔ ہوٹل میں قائم ریستورانوں میں سے ’’المنتہیٰ‘‘ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ زمین سے ۶۶۰ فٹ کی اُونچائی پر یہ ہوٹل دنیا کے بہترین کھانے فراہم کرتا ہے۔ ہوٹل اگرچہ ’’فائیو سٹار ڈیلکس‘‘ ہے لیکن بعض اوقات اسے دنیا کا واحد سیون سٹار ہوٹل بھی کہا جاتا ہے۔

بہرحال یہ حقیقت اپنی جگہ رہتی ہے کہ جس قسم کا سرمایہ اس ہوٹل کی تعمیر پر صرف کیا گیا ہے۔ وہ محض اصراف ہی کہلائے گا۔ محض ایک خاص ڈیزائن کو کامیابی سے تعمیر کرنے کے لیے اتنی رقم خرچ کر دی گئی جس کا نفع آور ہونا اب مشکل ہی معلوم ہوتا ہے۔

ہم ڈائننگ ہال کی مدھم مدھم روشنیوں میں چھری کانٹوں سے لیس کھانے پر حملے کے لیے تیار تھے۔ ایک گورا آنکھیں بند کیے ہمارے لیے وائلن بجا رہا تھا اور جب اُس کا جی چاہتا گانے بھی لگتا۔

سمندر میں پائی جانے والی مخلوق کی تمام ڈشز تھیں اور وہ سمندر میں بیٹھ کر ہم کھا رہے تھے۔

باہر چہل قدمی کرتے ہوئے سمندر کے خاموش پانیوں میں تیرتی روشنیوں کو ہم نے چھوا اور کھلتے رنگوں میں اپنے ہاتھ پاؤں بھگوئے۔ راستے میں کئی سوئمنگ پول آئے جن کا پانی نیلی آنکھوں جیسا تھا اور اُن میں نیلی آنکھوں والی لڑکیاں مچھلیوں کی طرح تیرتی تھیں۔ دور کسی جزیرے سے عربی گانوں کی آواز آ رہی تھی۔ شاید کوئی میوزک کنسرٹ تھا۔ چاند تاروں کی نگرانی میں کھجوروں کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ہم واپس اُس جگہ آ گئے جہاں آگ اور پانی کا کھیل جاری تھا۔

دو سفید پرندوں نے بالکل میرے قریب سے اُڑان بھری اور دیکھتے دیکھتے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

اُن کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ فضا میں تحلیل ہو گئی۔

چھوٹا سا پر فضا میں تیرتا ہوا میرے سامنے آ گرا۔ میں نے اُسے اُٹھا کے ہتھیلی پہ رکھ لیا۔

سمندر پہ بنے پل پہ گاڑیاں اب واپس رواں دواں تھیں۔ دور سے آتی ہوئی عربی میوزک کی آواز کانوں میں رس گھولتی تھی۔

میں ایک نظر برج العرب کو دیکھتا اور ایک نظر ہتھیلی پہ رکھے ہوئے چھوٹے سے اُس سفید پر کو اور میرے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ دونوں میں کون زیادہ خوبصورت ہے۔

 

 

 

جیک تو موجود تھا

 

دُبئی میں شب و روز بڑی مصروفیت میں گزر رہے تھے اور یہ مصروفیت آوارہ گردی کے علاوہ کچھ اور نہ تھی۔ اتنی خوبصورت مصروفیت میں تو فراغت بالکل اچھی نہیں لگتی۔ چند لمحوں میں بوریت ہونے لگتی ہے۔ بس میں ان چند لمحوں کی بوریت کا شکار ہوا ہی تھا کہ شارجہ سے مسعود عالم لینے کے لیے آ گئے۔ پتہ چلا کہ ’’کروز مشاعرہ‘‘ کا اہتمام کیا گیا ہے۔

سمندر کے پانی پہ ہچکولے کھاتا، جگمگاتا اور سجا ہوا کروز ہمارا منتظر تھا۔ میں نے اُس پر قدم رکھا تو مجھے مینورا سے کیماڑی آنے والے KPT کے کروز ’’سرخاب‘‘ اور ’’سیخ پر‘‘ یاد آ گئے۔ بچپن میں ان میں بیٹھ کر میں بلڈن مارکیٹ سے سودا سلف خریدنے جاتا تھا۔ پورٹ کی لکڑی کی سیڑھیوں پر بہت کائی اور پھسلن ہوتی تھی۔ مجھے بہت ڈر لگتا تھا کہ کہیں سمندر میں گر نہ جاؤں۔ اس خوف نے مجھے زندگی میں سنبھل کر چلنا سکھایا۔ شاید اسی وجہ سے آج برسوں بعد میں نے کروز پر خوداعتمادی کے ساتھ قدم رکھا تھا۔

امجد اقبال امجد، بابر عزیز بھٹی اور پرنس اقبال نے اس کروز مشاعرہ میں اپنے بہت سے دوستوں کو بلایا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے سیاح خودبخود ہی سامعین بن گئے تھے۔

کروز نے جب ساحل سے اپنا رشتہ عارضی طور پر منقطع کیا تو سمندر کی خموشی کلام کرنے لگی۔ شام، کروز کی رفتار کے ساتھ ساتھ سہانی اور مزید سہانی ہوتی گئی۔ تیز ہوا شریر بچوں کی طرح اپنے ہاتھوں سے سمندر کا پانی ہم پر پھینک رہی تھی۔

ترکی ٹوپی پہنے ایک جادوگر نے اپنے کام کا جادو جگایا اور شعراء نے اپنے کلام کا جادو جگایا تو کروز میں بیٹھے خواتین و حضرات نے تالیاں بجا کر خوب داد دی۔ اُس شام شعر سنانے اور سننے کا جتنا لطف آیا پھر کبھی نہیں آیا۔ کاش لمحوں اور منظروں کو محفوظ کیا جا سکتا۔ بچوں نے جادوگر اور شاعروں سے آٹو گراف لیے۔ اُن کی ماؤں نے صرف Smile پر گزارہ کیا۔

دُبئی کی بلند و بالا عمارات آہستہ آہستہ دور ہوتی جا رہی تھیں۔ اُن کی روشنیاں پانی میں تیرنے والی مچھلیوں کی طرح ہمارے تعاقب میں تھیں۔ کروز میں نہایت پر تکلف ڈنر کے اہتمام اور میوزک نے ٹائی ٹینک کا سماں باندھ دیا تھا۔

کمی تھی تو صرف ’’روز‘‘ کی ’’جیک‘‘ تو موجود تھا۔

اتنی پیاری شام تھی دِل کرتا تھا کروز ڈوب جائے اور ہم سب اس میوزک کی دھُن میں سمندر کی گہرائی میں چلے جائیں۔ پانیوں پر صرف سہانی شام اور روشنیاں تیرتی رہیں۔ مگر یہ سانحے اُس وقت رونما ہوتے ہیں جب دو دل ملتے ہیں۔ یہاں تو ایسی صورتحال ہرگز نہیں تھی۔ سو ہم سب بخیر و عافیت ساحل تک پہنچ گئے۔

لندن کراؤن ہوٹل کی لفٹ میں تھوڑی دیر کی قید اکثر خوشگوار ثابت ہوتی۔ کوئی خوبصورت اجنبی چہرہ بالکل پاس ہوتا اتنا پاس کہ آشنا چہروں کو بھی اتنا پاس آتے صدیاں بیت جاتی ہیں۔ خاموش لبوں پر لپ اسٹک کی طرح پھیلی کہانیاں۔

آنکھوں میں بولتے سپنے

مختلف برانڈز کے پرفیومز کی مہک

ہر لمحہ بدلتی ہوئی منزل پر نظر

چند لمحوں کی رفاقت اور پھر ہمیشہ کی دُوری

یہی زندگی ہے اور یہی زندگی کی حقیقت

ہاتھ میں پھول اُٹھائے

الممزر میں سمندر کا پانی ایسے آ کر ٹھہر گیا ہے جیسے کوئی بچہ راستہ بھول گیا ہو اور اب اُسے کچھ سمجھ نہ آ رہا ہو کہ وہ کہاں جائے۔

یہ جھیل نما خاموش سمندر مجھے بہت پسند تھا اور میں اکثر شام کو یہاں آ جاتا۔ اس کے چاروں طرف سر شام لارنس گارڈن جیسی پراسراریت ہوتی۔ راستوں کو رستوں سے جدا کرتی ہوئی پھولوں کی کیاریاں، دم سادھے کھڑے ہوئے درخت، دُور و نزدیک سے آتی ہوئی پرندوں کی آوازیں، جو کچھ دیر بعد خاموشی کے سمندر میں ڈوب جاتیں۔ ہلکی ہلکی دھُند کے پار جگمگ کرتی ہوئی بلند و بالا عمارتیں جن کی خوبصورتی اس فضا کے رومان میں اضافہ کرتی تھی۔ یہاں گھنٹوں بے مقصد بیٹھنا مجھے بے مقصد نہ لگتا تھا۔

عربی لڑکیوں کے عبایوں کی طرح شام کالی اور کالی ہوتی چلی جاتی اور اُن کی آنکھوں کی طرح آسمان پر ستارے روشن اور روشن ہوتے چلے جاتے۔

دو عرب لڑکیاں بھی روز یہاں آ یا کرتیں۔ وہ پتھروں پہ چلتی ہوئی پانی کے قریب آخری پتھر پہ جا کر بیٹھتیں۔ وہ آپس میں گھنٹوں باتیں کرتیں۔ خاموش فضا میں اُن کی آوازیں ہر طرف بکھر جاتیں۔ کورنیش پر چلتا ہوا میں بہت دور تک چلا جاتا مگر جتنا بھی دور چلا جاتا اُن کی آوازیں اور قریب آنے لگتیں۔ اُن کا عربی لہجہ سرائیکی لہجے سے بھی زیادہ میٹھا تھا۔ اُن میں ایک لڑکی کا چہرہ اس کالی شام میں اس طرح چمکتا تھا جیسے کان سے کوہِ نور ہیرا ابھی ابھی باہر نکلا ہو۔ میری جب بھی اُدھر نظر اُٹھتی سلیم گورمانی کا یہ شعر یاد آ جاتا:

ختم ہے صنعتِ تضاد اُس پر

نور ہے جامۂ سیاہ کے بیچ

چلتے ہوئے کہیں پر کوئی اُلفت زدہ جوڑا کسی پیڑ کے پہلو کو آباد کیے ہوئے دکھائی دیتا تو کہیں دو سائے ہاتھوں میں پھول اُٹھائے مل جاتے۔

دل کی حویلی کے پہلو میں چاند یونہی چمکے گا

باغ میں ملتے رہیں گے سائے ہاتھ میں پھول اُٹھائے

دُور کھجوروں کے جھنڈ میں ایک دلکش مسجد اور اُس کے پہلو میں بہت رومینٹک سا کیفے تھا جو ساری رات کھلا رہتا۔ من چلے یہاں آتے اور عربی گانوں پر بانہوں میں بانہیں ڈالے موج مستی کرتے۔

ایک شام گہرے بادل آئے اور پھر تیز بارش ہونے لگی۔ ہم کیفے کے لان میں بیٹھے بھیگنے لگے۔ چھتریوں کے نیچے بیٹھے بارش میں بھیگتے رہے۔ کوئی بھی اُٹھ کر اپنی گاڑی یا کیفے میں نہیں گیا۔ دُبئی میں بارش کبھی کبھار ہوتی ہے۔ اس لیے یہ نعمتِ عظمیٰ سے کم نہیں۔ لہٰذا سب لوگ بخوشی بھیگتے رہے۔ لطف اندوز ہوتے رہے۔ میوزک سنتے رہے کفرانِ نعمت کے مرتکب نہیں ہوئے۔ دبئی میں بارش ہو اور بارش میں بھیگ جانے کے خوف سے بھاگنا کفرانِ نعمت کے زُمرے میں آتا ہے۔

بارش میں بھیگتی لڑکیاں رنگین چھتریوں جیسی لگ رہی تھیں۔

اور میرا جی مچل رہا تھا دل کرتا تھا اُنہیں جا کر سیّد امتیاز احمد کا یہ شعر سناؤں :

ہم جنہیں لوٹ کر نہیں آنا

کیا ہمیں دیکھنا نہ چاہو گے

 

 

 

بھراوا

 

پردیس میں شب و روز بدل جاتے ہیں۔ کچھ روز شارجہ میں قیام کے دوران شام و سحر کا رویہ میرے ساتھ دلداری کا ہو چلا تھا۔ گھر میں تو علی الصبح آنکھ کھل جاتی مگر یہاں جب تک فاختہ کھڑکی کے شیشے پر مسلسل چونچیں نہ مارتی میری آنکھ نہ کھلتی۔

ایک فاختہ نے مجھے جگانے کا یہ دلچسپ معمول بنا لیا تھا۔ آنکھیں ملتے ہوئے میں جب اُسے پیار بھری نظروں سے دیکھتا تو وہ کھڑکی میں کچھ دیر شناخت پریڈ کر کے اُڑ جاتی اور دیکھتے ہی دیکھتے نظارہ نظر میں گم ہو جاتا۔ میں جب تھوڑی سی کھڑکی کھول دیتا تو بارش کے بعد چلنے والی ہوا کے جھونکے اس طرح کمرے میں داخل ہوتے جیسے بچے کلاس روم میں داخل ہوتے ہیں۔

ہوا کے ہلکے ہلکے نرم نرم جھونکے مجھے تر و تازہ کر دیتے۔ ساتویں منزل کی کھڑکی سے شہر کا نظارہ بہت دلچسپ ہوتا۔ کورنیش کا منظر، پام اور کھجور کے پیڑ اور ایک بہت دلکش سنہری مسجد جو دن کی دھوپ میں پورے ماحول کو سنہرا کر دیتی اور رات کے وقت اُس کے در و دیوار سے اس طرح نور پھوٹتا جیسے کسی بچے نے انار کے فتیلے کو آگ دکھائی ہو۔ پوری فضا بقعہ نور بن جاتی۔

سامنے عمارت میں تعمیراتی کام ہو رہا تھا۔ میں دیر تک مزدوروں کو کام کرتے دیکھتا اور خیال آتا کہ جب سخت گرمیوں میں یہاں کا درجہ حرارت دوزخ کے درجہ حرارت کے برابر پہنچ جاتا ہے تو یہ کس طرح کام کرتے ہوں گے۔

وطن سے دور پردیس میں اینٹیں ڈھونے والے مزدوروں کے احساسات و جذبات کیا ہوتے ہوں گے۔ وہ کام کرتے ہوئے کیا سوچتے ہوں گے۔ اپنے کن کن پیاروں کو یاد کرتے ہوں گے۔ اپنے گھر کی اُن کو کتنی یاد آتی ہو گی۔ تھکن اور پسینے سے شرابور جب اُن کا کام کرنے کو جی نہیں چاہتا ہو گا اور اُنہیں مجبوراً کام کرنا پڑتا ہو گا تو اُن کے دلوں پر کیا گزرتی ہو گی۔

اُن کے خواب اور اُن کے عذاب کیا ہوتے ہوں گے۔ میں اُن کو نہیں جانتا تھا۔ البتہ میں اتنا ضرور جانتا تھا کہ وطن میں رہ کر انتظار کرنے والی آنکھوں اور یاد کرنے والے دلوں کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔ کیونکہ میرا بھائی اُن دنوں بسلسلہ روزگار سعودی عرب میں تھا۔ میں نے اُس کے لیے ایک سرائیکی نظم لکھی تھی جس میں اُن احساسات کو بیان کرنے کی کوشش کی تھی مگر احساسات لفظوں میں کہاں بیان ہوتے ہیں۔

کیوں ونج وسئیں پار بھراوا

پوندن وہم ہزار بھراوا

’’اے بھائی! تم اُس پار جا کر کیوں بس گئے ہو۔ دل میں ہزار وسوسے سر اُٹھاتے ہیں۔ ‘‘

کلہا گھر کوں سانبھ نہ سگاں

آندن روز اندھار بھراوا

’’بھائی! میں اکیلا گھر کی دیکھ بھال نہیں کر سکتا روز آندھی آتی ہے اور سب کچھ بکھر جاتا ہے۔ ‘‘

اپنے آپ تے وس نہم چلدا

رونداں بوہا مار بھراوا

’’بھائی! تمہاری یاد میں میرا اپنے آپ پر اختیار نہیں ہوتا اور کمرے کا دروازہ بند کر کے دھاڑیں مار کے روتا ہوں۔ ‘‘

کوئی شے وی نئیں چنگی لگدی

چڑھدے تیز بخار بھراوا

’’بھائی! تمہارے بغیر مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا اور کچھ دن بعد اچانک تیز بخار ہو جاتا ہے۔ ‘‘

مونجھاں دل کوں مونجھا کیتے

دل آ میڈے یار بھراوا

’’بھائی! یادوں نے دل کا برا حال کر دیا ہے۔ تم صرف میرے بھائی نہیں بلکہ دوست بھی ہو۔ اب لوٹ آؤ۔ ‘‘

رل تے کٹھے گزاروں ڈونہیں

جیڑھے ڈینہ ہن چار بھراوا

’’بھائی! یہ جو زندگی کے چار دن ہیں کاش ایسا ہو جائے کہ ہم دونوں مل کر گزاریں۔ ‘‘

عرب ریاستوں میں درہم کمانا اب آسان نہیں رہا۔ حالات بہت بدل گئے ہیں۔ ایک تو خود اُن کی اپنی معاشی حالت کمزور ہو گئی ہے دوسرا ضرورت سے زائد لوگ وہاں چلے گئے ہیں۔ عرب جو کہ موقع سے فائدہ اُٹھانے کا ہنر خوب جانتے ہیں اس صورتحال سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ مزدور اور کنٹریکٹ پہ کام کرنے والے طبقے کا استحصال ہو رہا ہے۔ البتہ کاروبار کرنے والے طبقہ کی صورتِ حال مختلف ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت سے آئے ہوئے لڑکے یہاں صرف 1000 سے 1200 درہم ماہانہ پر کام کر رہے ہیں جن میں اُن کا اپنا گزارہ بہت مشکل ہے تو وہ گھر رقم کیسے بھیجیں گے۔ ان کے گھر والے سمجھتے ہیں کہ بیٹا دُبئی چلا گیا ہے تو اب درہم کی بارش ہونے لگی گی۔ جب کچھ عرصہ بعد اُن کا لڑکا وہ رقم بھی نہیں لوٹا پاتا جو ویزہ کے لیے دی گئی تھی تو رفتہ رفتہ سارے خواب عذاب بننے لگتے ہیں اور وہ یہاں شب و روز مزدوری کی چکی میں پستا رہتا ہے اور بالآخر ایسی صورت حال میں یا تو واپس چلا جاتا ہے یا پھر نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ میں نے بہت سے لڑکوں کو وہاں نفسیاتی اُلجھنوں کا شکار پایا جس کی وجہ ٹینشن اور ڈپریشن تھی۔ اُن کی آنکھیں اُن کے اپنے خوابوں کی کرچیوں سے زخمی تھیں۔ اس صورتحال کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے نوجوان باہر کی دُنیا کو آئیڈیالائز تو کرتے ہیں مگر وہ وہاں کے قوانین، کلچر اور مشکلات سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے وہاں چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے اُن کی مشکلات کا سلسلہ ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلے وہ اُن دوستوں اور عزیزوں کے لیے دردِ سر بنتے ہیں جو اُنہیں دُبئی کی رنگینیاں، خوبصورتیاں، سہولتیں اور آسائشیں تو بتاتے تھے مگر مشکلات کا ذکر بھولے سے بھی نہیں کرتے تھے۔ یہ دوست اور عزیز اُس وقت آنکھیں ماتھے پہ رکھ لیتے ہیں۔ کچھ زیادہ بھلے مانس ہوں تو گھر لے جاتے ہیں مگر چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات کے مصداق چند دن بعد منہ پھیر لیتے ہیں۔

میں متعدد بار دبئی گیا ہوں۔ ایئرپورٹ سے نکلتے ہی بہت سے پاکستانی لڑکوں کو دیکھتا ہوں جو بے یارو مددگار کھڑے آتی جاتی گاڑیوں کا منہ تک رہے ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ تو ایگریمنٹ ویزہ لے کر آئے ہوتے ہیں اور زیادہ تر وزٹ ویزہ لے کر جاب کی تلاش میں چلے آتے ہیں۔ اب اُنہیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہاں جانا ہے۔ دُبئی کے نئے قانون کے مطابق وزٹ وغیرہ پر آنے والے کسی صورت جاب نہیں کر سکتے۔ لہٰذا یہ ایک ماہ کے اندر کم از کم ایک لاکھ روپے ضائع کر کے واپس چلے جاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر کبھی کبھار نہایت خوشگوار تجربہ بھی ہوتا ہے۔ ایک بار ایک ہندو نے جو اپنی ظاہری حالت سے کوئی مزدور لگتا تھا ایئرپورٹ پہ کھڑے تمام لڑکوں کو چاہے وہ بنگلہ دیشی تھے، پاکستانی تھے یا ہندوستانی اپنے موبائل سے کئی فون کرائے۔ دُبئی ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی جو سب سے بڑی مشکل سامنے آتی ہے وہ یہی ہوتی ہے کہ اگر آپ کے احباب آپ کو لینے نہیں آئے تو اُن سے رابطہ کیسے کریں اور اس موقع پر اگر کوئی آپ کو اپنے موبائل فون سے کال کرنے کی اجازت دیتا ہے تو وہ کسی مسیحا سے کم نہیں ہے۔ اُس دن مجھے اس ہندو مسیحا پہ بہت پیار آیا جو کسی رنگ، نسل اور ملت کی پروا کیے بغیر سب کو بخوشی فون کرا رہا تھا۔ اپنے بیلنس کی فکر کی بجائے اُس کے چہرے پر بڑی طمانیت تھی۔

یو-اے – ای کی ریاستوں میں مقیم مزدور طبقہ کے لوگ جب وطن واپس آتے ہیں تو شیخیاں بہت بگھارتے ہیں۔ بھلے وقتوں میں درہم بھی کما کر لاتے ہوں گے جس کی وجہ سے یہاں کے نوجوان گمراہ کن غلط فہمی کا شکار ہوتے گئے اور اصل صورتحال کا اندازہ اُنہیں وہاں جا کر ہوا۔ بقول منیر نیازی:

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا

ان دو دریاؤں میں فرق یہ ہے کہ جو دریا وہ پار کر کے آئے ہوتے ہیں وہ اُن کا اپنا ہوتا ہے اور جس دریا کا اُنہیں سامنا ہوتا ہے وہ اپنا نہیں ہوتا اس لیے اُسے پار کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا بظاہر نظر آتا ہے۔

کسی بھی ملک میں بسلسلہ روزگار بغیر منصوبہ بندی، لاعلمی اور تیاری کے جانا خود کو ایسے گڑھے میں پھینکنے کے مترادف ہے جس سے نکلنے کا واحد راستہ کسی معجزے کا رونما ہونا ہی ہو سکتا ہے۔ میری زندگی کا اپنا تجربہ یہی ہے کہ کہ آج سے پندرہ برس قبل ہم جتنے شاعر دوست لاہور میں رہا کرتے تھے اُن میں جو بیرونِ ملک چلے گئے وہ ابھی تک وہاں مکمل طور پر ایڈجسٹ نہیں ہو سکے اور دوہری اذیت کا شکار ہیں۔ کبھی پاکستان آتے ہیں اور وہاں کی زندگی کو کوستے ہیں اور پھر کچھ عرصہ بعد یہاں کی زندگی کو کوستے ہوئے دوبارہ وہاں چلے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جو دوست یہاں رہ گئے تھے وہ تقریباً سب ہی اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ بیشتر کے پاس اپنا گھر، اپنی گاڑی اور زندگی کی تمام بنیادی سہولیات ہیں۔ پاکستان کے حالات جتنے خراب سہی باہر جا کر ایڈجسٹ ہونا پھر بھی یہاں ایڈجسٹ ہونے سے زیادہ مشکل ہے۔ اس لیے باہر جانے والوں کو صورتحال کا اچھی طرح جائزہ لینا چاہیے۔ منفی اور مثبت تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر پھر کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔

ٹنڈو آدم کا جلال اور ڈیرہ غازی خاں کا اکبر بھی وزٹ ویزہ پر دُبئی آئے ہوئے تھے۔ میری اُن دونوں سے ملاقات ہوئی۔ میری عادت ہے کہ بیرونِ ملک وہاں کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھنے کے لیے میزبانوں سے آنکھ بچا کر خود کو گلیوں اور بازاروں میں گم کر دیتا ہوں۔ جلال سے بھی میری ملاقات ایک راوی مطعم پر ہوئی۔ یہ چھوٹے چھوٹے ہوٹل پاکستانیوں اور انڈین نے بنائے ہوئے ہیں۔ ۵ درہم سے دس درہم تک بندہ سیر ہو کر کھانا کھا سکتا ہے اور ان کا کھانا فائیو اسٹار ہوٹل سے زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔ لاہور اور دلی کے کھانوں کی کون سی ڈش ہے جو ان ’’مطعموں ‘‘ پر نہیں ملتی۔ پراٹھا چنے کھاتے اور لسی کا گلاس پیتے پیتے میں نے جلال کی ساری کہانی سن لی۔ وہ وزٹ پر یہاں جاب کے لیے آیا ہوا تھا۔ چودہ دن ہو گئے تھے صبح سے شام تک دُکانوں اور دفتروں میں جا کر جاب کے لیے CV دیتا رہا مگر ابھی تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی اور اب وہ مایوس ہو کر واپس جا رہا تھا۔ اُس نے گزشتہ پانچ سال میں سخت محنت کر کے پاکستان میں جو رقم کمائی تھی وہ ختم ہو چکی تھی۔ ڈیرہ غازی خاں کے اکبر کی کہانی بھی جلال سے مختلف نہیں تھی۔ نجانے کتنے جلال اور اکبر یہاں آتے ہیں اور اپنی جمع پونجی ضائع کر کے واپس لوٹ جاتے ہیں۔ میرے ایک کاروباری دوست نے بہت پیاری بات کی تھی کہ اگر کسی کے پاس سرمایہ نہیں ہے تو اسے کاروبار کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ کیونکہ وہ مارکیٹ میں جس سے بھی لین دین کرے گا اُسے ڈسٹرب کرے گا اور خود بھی ڈسٹرب ہو گا۔ بیرونِ ملک حکمت عملی اور تیاری کے بغیر جانے والا فرد بھی ایسی صورتحال پیدا کرتا ہے۔

یو- اے – ای میں کچھ پاکستانی تو کاروباری طور پر اتنے مستحکم ہیں کہ لاکھوں درہم کما رہے ہیں اور وہاں کی لائف کو بھرپور انجوائے کر رہے ہیں اور کچھ لاکھوں روپے کا نقصان کر کے وطن واپس جا رہے ہیں۔ ایک بات کا میں یہاں خاص طور پر ذکر کرنا چاہوں گا کہ پاکستان پر جب بھی کوئی مشکل وقت آتا ہے یا کوئی آفت نازل ہوتی ہے جیسے ماضی میں زلزلہ اور سیلاب آئے تو بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانی سب سے پہلے مدد کو پہنچے۔ یہ پاکستانی بیرون ملک نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دُبئی میں رہنے کا مزہ اس میں ہے کہ یا تو آپ کامیاب بزنس مین ہوں یا پھر آپ اتنے امیر ہوں کہ سیر و تفریح کے لیے وہاں جائیں یا پھر آپ شاعر ہوں اور کسی عالمی مشاعرے میں شرکت کے لیے جائیں۔ تب دُبئی کے جوبن، حسن اور رنگینوں کو آپ انجوائے کر سکتے ہیں اور اُس کی خوبصورتیوں کو آنکھوں میں بھر سکتے ہیں۔

 

آخر کب تک؟

بیرونِ ملک سب سے زیادہ تکلیف دہ بات پاکستانیوں کے ساتھ غیرملکیوں کا رویہ ہے۔ اس امتیازی سلوک کا ایئرپورٹ سے لے کر ہر جگہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم جنہیں عرب بھائی کہتے ہیں اُن کا سلوک اب ہمارے ساتھ برادرانِ یوسف جیسا ہوتا جا رہا ہے۔ شارجہ کی گولڈ مارکیٹ میں جہاں مختلف قومیتوں کے لوگ شاپنگ میں مصروف تھے ایک عرب با آواز بلند پاکستان مردہ باد کہتا ہوا جا رہا تھا۔ یہ صورتحال بہت افسوس ناک ہے۔ ایک تو خود ہمارے کرتوت بھی اچھے نہیں ہیں دوسرا ہم نے غلط خارجہ پالیسی کی وجہ سے بہت سے ممالک کو اپنا دُشمن بنا لیا ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک اور برادرِ اسلامی ممالک بھی بھارت کو ہم سے بہتر سمجھتے ہیں۔ یو- اے – ای اور دوحہ جہاں کبھی سب مشینری پاکستانیوں کے ہاتھ میں تھی اب وہاں ہر جگہ بھارتیوں نے میدان مار لیا ہے۔

اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو گا کہ کچھ پاکستانی اب بیرونِ ملک جا کر حتی الامکان اپنی قومیت چھپانے کی کوششیں کرنے لگے ہیں اور سبز پاسپورٹ ہاتھ میں پکڑے احساسِ شرمندگی سے دوچار ہوتے ہیں۔ میرے ایک ڈاکٹر دوست جو حال ہی میں ایران سے ہو کر آئے ہیں انہوں نے وہاں کا احوال سناتے ہوئے مجھے بڑے رازدارانہ انداز میں بتایا کہ میں خود کو وہاں انڈین بتاتا رہا ہوں پاکستانیوں کو وہ اچھا نہیں سمجھتے اور بہت محتاط ہو جاتے ہیں۔ ایک دوست بنگلہ دیش سے ہو کر آئے تو انہوں نے بھی ایسا ہی ماجرا سنایا کہ پاکستانیوں کی نسبت انڈین کی وہاں بہت قدر کی جاتی ہے۔

دُبئی میں مقیم گوجرانوالہ کے جمیل کی داستانِ محبت بھی دل خراش ہے۔ جمیل کو اُس کی گرل فرینڈ جو کہ ترکمانستان سے تھی ایرانی سمجھتی رہی۔ کیونکہ اُس نے پہلی ملاقات کے دوران پوچھنے پر خود کو ایرانی ظاہر کیا تھا۔ کچھ دن کی Understanding کے بعد جب ایک رات وہ نتاشا کے اسٹوڈیو میں تھا تو اچانک نتاشا نے اُس کے پاس پاکستانی کرنسی دیکھ لی۔ اس پر اُسے شک گزرا تو جمیل نے بتا دیا کہ وہ پاکستانی ہے۔ اس کے بعد نتاشا کا رد عمل اُس کی سمجھ سے باہر تھا کیونکہ اُس نے اُسی وقت اُسے چلے جانے کو کہا اور پھر کبھی نہیں ملی۔

عرب ملکوں میں ایشین اور کالے تیسرے درجے کے شہری نہیں جبکہ آخری درجے کے شہری ہیں۔ ابوظہبی سے دُبئی سفر کے دوران ہم ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور پر رُکے تو وہاں بھی ایک دل دُکھانے والا واقعہ ہوا۔ ایک عرب نے کاؤنٹر پر کھڑے کالے کو اچانک اُونچی آواز میں گالیاں دینا شروع کر دیں اور وہ بیچارا ڈر کے مارے دوڑ کر واش روم میں چھپ گیا۔ عرب کافی دیر تک اُسے غصہ میں گالیاں دیتا رہا اور پھر باہر جا کر اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ اس حرکت پر قہقہے لگانے لگا۔ کالا ڈرا ڈرا سہما سہما دروازے سے جھانک رہا تھا اور اُس میں واش روم سے باہر آنے کا حوصلہ نہیں تھا۔ اسی طرح ایک شام ہم عبدالحمید امیری اور اُس کے عرب دوستوں کے ساتھ ایک ریسٹورنٹ پر ڈنر کے لیے گئے۔ ہماری ٹیبل کا ویٹر بنگالی لڑکا تھا اُسے دُبئی آئے ابھی چند روز ہوئے تھے۔ بلاوجہ بیچارے کو بہت تنگ کیا گیا۔ میرے منع کرنے پر اُس کی جان چھوٹی۔ رویا نہیں بڑے حوصلے والا لڑکا تھا۔ رنگ و نسل اور ملک و ملت کا امتیاز انسانیت کی تذلیل ہے۔ اس امتیاز کے آگے نہ تو کوئی مذہب بند باندھ سکا اور نہ ہی اسے کوئی بڑی سے بڑی لبرل اسٹیٹ ختم کر سکی۔ آخر کب تک یہ انسان کے ماتھے پر کلنک کے ٹیکے کی طرح رہے گا۔

پاکستان کو عالمی برادری میں اپنا وقار بحال کرنے کے لیے اب بہت تگ و دو کرنا پڑے گی۔ بیرونِ ملک جانے والے پاکستانی اپنے ملک کے سفیر ہوتے ہیں۔ اُن کی کوئی بھی غیر اخلاقی حرکت ملک کی بدنامی کا باعث بنتی ہے۔ میرے خیال میں حج تربیتی کیمپ کی طرح پہلی بار بیرونِ ملک جانے والے ہر پاکستانی کا تربیتی کورس ہونا چاہیے اور وہ جس ملک جا رہا ہے وہاں کا مکمل ضابطہ اخلاق اُسے بتایا جائے۔ نیز حکومتی سطح پر ایسے اقدام بھی کیے جائیں جس سے پاکستانی با وقار طریقے سے بیرونِ ملک جا سکیں۔

اپنا اپنا پیکج

دُبئی میں اگر کوئی شخص قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اُس کو سزا بھگتنا پڑتی ہے اس لیے قانون شکنی کے واقعات بہت کم ہوتے ہیں۔ رشوت دے کر بچ جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں اگر مجرم صاحب حیثیت اور اثر رسوخ والا ہو تو اُس کو رعایت مل جاتی ہے۔ میری موجودگی میں چند ایسے واقعات ہوئے جن میں جان پہچان اور سفارش سے جان چھوٹ گئی۔ عجمان کے مشاعرے کے بعد ہمارا ڈنر جس ہوٹل میں تھا وہاں ہم رات ڈیڑھ بجے پہنچے۔ دُبئی میں ان دنوں رات ایک بجے کے بعد ریسٹورنٹ کھولنے پر بھاری جرمانہ مقرر تھا۔ ریسٹورنٹ کا مالک جو کہ پاکستانی اور شاعری کا شوقین تھا، اُس نے رسک لے لیا۔ ہم کھانا کھا کے باہر نکل رہے تھے کہ شرطوں کی گاڑی آ گئی اور انہوں نے فوراً انکوائری شروع کر دی۔ اتفاق سے وہ پرنس اقبال کے جاننے والے تھے۔ لہٰذا آئندہ کی وارننگ پر ہی معاملہ نمٹ گیا۔

دُبئی میں اس بات پر مجھے حیرت رہی ہے کہ بظاہر تو وہاں پولیس خال خال ہی دکھائی دیتی ہے مگر جیسے ہی کہیں قانون کی خلاف ورزی ہو وہ فوراً پہنچ جاتی ہے۔ بقول انشاء اللہ خاں انشائ:

دیوار پھاندنے میں دیکھو گے کام میرا

جب دھم سے آ کہوں گا صاحب سلام میرا

یہاں تک کے شہر کی چھوٹی سڑکوں پر بھی جیسے ہی کسی نے غلط پارکنگ کی یا وَن وے کی خلاف ورزی کی تو فوراً شرطوں کی گاڑی نے اُسے دھر لیا۔ تین بار چالان ہونے پر لائسنس منسوخ ہو جاتا ہے۔ وہاں لائسنس بنوانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

آج کل سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پر ڈرائیور کو ۲۰۰ درہم اور اُس کے ساتھی کو ۴۰۰ درہم جرمانہ ہے۔ غلط سڑک پار کرنے والے لوگوں کا بھی چالان ہوتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ دُبئی سرکار کنگال ہو گئی ہے اس لیے حیلے بہانوں سے ریونیو اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ جبکہ سرکار کا کہنا ہے کہ دُبئی میں شرح حادثات بہت زیادہ ہے۔ وہ اُس کو روکنے کے لیے سخت قوانین بنا رہی ہے۔ حد سے زیادہ قانون کی سختی نے وہاں کے لوگوں کو اب خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ سیر و تفریح کے لیے آنے والوں کے لیے تو شاید دُبئی میں Enjoyment ہو مگر وہاں رہنے والوں کی زندگی سے Enjoyment کا لفظ اپنی معنویت کھو رہا ہے اور لوگ دکھائی نہ دینے والی بے شمار رسیوں میں خود کو جکڑا ہوا محسوس کرنے لگے ہیں اور ان رسیوں کی گرفت روز بروز مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔

بس میں بیٹھے ہوئے ملتان کے اسلم سے جب میں نے باتوں باتوں میں پوچھ لیا کہ پاکستان یاد آتا ہے ؟ تو اس سوال پر اُس کی آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے اور وہ ونڈو شیشے سے باہر دُبئی کی بلند و بالا روشن عمارتوں کو اس طرح قہر آلود نظروں سے دیکھنے لگا جیسے وہ اُس کی مجرم ہوں۔ اسلم تین سال سے وہاں پرائیویٹ کمپنی میں ایگریمنٹ ویزے پر جاب کر رہا ہے اور اُس کا اپنا گزارہ بھی بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔ اگر ماں باپ اپنے بچوں کو پردیس میں اپنی آنکھوں سے مزدوری کرتے، سفر کرتے، کھانا کھاتے اور سوتے ہوئے دیکھ لیں تو کبھی باہر نہ بھیجیں۔

دُبئی بوڑھے، کمزور اور بیمار لوگوں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی بلند و بالا عمارتیں چڑیلوں کی طرح ہمارے نوجوانوں کا خون چوس کر بڑی ہوتی ہیں۔ دُبئی کو ہر پل جوان رہنے کے لیے تازہ دم خون کی ضرورت ہے جو اسے برصغیر پاک و ہند سے با آسانی سستے داموں مہیا ہوتا رہتا ہے۔ ڈھلتی عمروں کے مسافر مرنے کے لیے اپنے اپنے ملکوں میں پلٹ جاتے ہیں۔ کیونکہ اُن کی نعش نہ تو یہاں کے سمندر قبول کرتے ہیں اور نہ ہی صحرا۔

جب تک میں نے بیرونِ ملک سفر نہیں کیا تھا اور باہر کی صورتحال سے نا آشنا تھا۔ میں بھی باہر جانے والے لوگوں کو رشک سے دیکھا کرتا تھا۔ وہ مجھے خوش قسمت لگتے تھے مگر اب میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں۔ بہت کم لوگ ہیں جو باہر جا کر اپنا آپ گم نہیں کرتے بلکہ خود کو پورا بچا کے رکھتے ہیں۔ ان میں ایک ظہیر بدر ہیں۔ وہ طویل عرصہ سے یو- اے – ای میں ہیں۔ وہاں کی آب و ہوا سوائے اُن کے بال سفید کرنے کے کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ بہت اچھی باتیں کرتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ ہر شخص اس دُنیا میں ایک پیکج لے کر آتا ہے جس میں اس کے دکھ اور اُس کی خوشیاں ہوتی ہیں اس لیے کسی کی ظاہری خوشی کو دیکھ کر اُس پر رشک نہیں کرنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے اُس کا دُکھ آپ کے دُکھ سے زیادہ ہو۔

چند روز بعد پرنس نے اپنے ایک دوست سے ملوایا جو کہ دُبئی میں ایک بہت بڑے ریسٹورنٹ کا مالک ہے۔ اُس نے حال ہی میں ڈیرہ غازی خاں میں ۲۰۰ ایکڑ زمین خریدی ہے۔ جس دن وہ زمین خرید رہا تھا اُسی روز اُس کا دس سالہ بیٹا نہر میں ڈوب گیا۔

واقعی ہر شخص اس دُنیا میں ایک پیکج لے کر آتا ہے اس لیے کسی کے پیکج پر حسد نہیں کرنا چاہیے۔

 

 

 

شام کے ساتھ چائے

 

شاہراہ جب راہ بن گئی تو پتہ چلا کہ شارجہ سے عجمان کی حدود میں داخل ہو چکے ہیں۔

بل کھاتی لمبی چوڑی سڑکیں ختم ہو گئی تھیں۔ بلند و بالا خوبصورت اور منفرد عمارتیں بھی بہت پیچھے رہ گئی تھیں۔ یہاں اتنی گہما گہمی، رونق اور چہل پہل بھی نہیں تھی۔ عجمان کی ریاست… دبئی اور شارجہ کا مضافات لگتی تھی۔ یہاں دیارِ غیر سے آئے ہوئے مزدور یا کم آمدنی والے افراد رہائش پذیر تھے کیونکہ دبئی اور شارجہ کی نسبت یہاں اپارٹمنٹس کے کرائے بھی کم تھے اور اشیائے خورد و نوش بھی سستی تھیں۔ تفریحی مقامات پیدا کرنے کے لیے ساحل سمندر پر کام تو ہو رہا تھا مگر یوں لگا جیسے دبئی اور شارجہ کی خوبصورتی دیکھ کر شرمندگی مٹانے کے لیے ایسا کیا جا رہا ہے۔ سڑکوں پر صفائی کا بھی فقدان تھا اور زندگی بھی بہت سست رفتاری کے ساتھ چل رہی تھی۔ اب یہاں بڑی بڑی عمارتیں بن رہی ہیں۔ اُس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اب دُبئی اور شارجہ میں مزید لوگوں کو کھپانے کی گنجائش نہیں رہی۔ مجھے لگتا ہے جب اگلی بار میں عجمان آؤں گا تو اس کا نقشہ بالکل بدل چکا ہو گا۔

عجمان میں میری ملاقات ذاکر حسین سے ہوئی۔ وہ دو دہائیاں قبل عجمان آئے اور پھر یہیں کے ہو گئے۔ شاید اپنی درویش صفت طبیعت کی وجہ سے۔ مگر آج بھی اُن کا دل ہر لمحہ پاکستان کی محبت میں دھڑکتا ہے۔ گائیکی کے حوالے سے اُن کا نام یو اے ای میں تو کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ مہدی حسن کی آواز کو کمال کاپی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ باکمال آرٹسٹ بھی ہیں۔ بڑی بڑی تقریبات میں اسٹیج سجاتے ہیں اور ہمیشہ پاکستانی تہذیب و ثقافت کو اُجاگر کرتے ہیں۔ انڈین قونصلیٹ میں اُنہیں جب بھی بلایا گیا انہوں نے پاکستانی نغمے اور گیت گائے۔

میں اُن کے حجرے پر کافی دیر تک پاکستانی ملی نغمے اور بھولے بسرے فلمی گانے سنتا رہا۔ حیرت ہے جس گانے کی بھی فرمائش کی اُن کو یاد تھا۔ بیرونِ ملک بیٹھ کر وطن کے گیت سننا بہت اچھا لگتا ہے۔ آنکھوں کے کنارے بھیگ جاتے ہیں۔ مجھے یہاں آ کر اُن سے مل کر بہت اچھا لگا۔ وہ پاکستان اور پاکستانیوں سے بہت محبت کرنے والے شخص ہیں اور ایسے ذاکر حسین پوری دنیا میں موجود ہیں۔

عجمان، متحدہ عرب امارات کی سات امارات میں سے ایک ہے۔ اس کا رقبہ صرف ۲۶۰ مربع کلومیٹر ہے۔ رقبے کے لحاظ سے یہ متحدہ عرب امارات میں شامل سب سے چھوٹی امارت ہے۔ اس کے مغرب میں سمندر اور باقی تین اطراف میں امارت شارجہ واقع ہے۔ عجمان کے موجودہ حکمران شیخ حمید بن راشد النعیمی ہیں۔ یہ خاندان گزشتہ کئی نسلوں سے عجمان پر حکمران ہے۔

یوں تو عجمان کی امارت خاصی قدیم ہے لیکن ۲ دسمبر ۱۹۷۱ء کو متحدہ عرب امارات میں شمولیت کے بعد سے اس نے بہت تیزی سے تعمیر و ترقی کے مراحل طے کیے ہیں۔ عجمان گرین سٹی، عجمان ون، عجمان مرینہ، عجمان پرل، عجمان اپ ٹاؤن، الحمید سٹی، ایکواسٹی اوالی سٹی، امارات سٹی اور امارات لیک ٹاور جیسی تعمیرات اور منصوبے اس ترقی کا بین ثبوت ہیں۔ عجمان کی تقریباً نوے فیصد آبادی عجمان شہر میں رہائش پذیر ہے۔ عجمان آنے والوں کے لیے ایک اہم اور قابل دید مقام یہاں کا تاریخی عجمان میوزم ہے۔ جسے ’’قلعہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ عجمان کے قدیم تاریخی قلعے میں قایم کیا گیا ہے۔

اس میوزیم کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں صرف تاریخی نوادرات ہی نہیں بلکہ عجمان کی قدیم ثقافت اور معاشرت کو بھی محفوظ کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ موتیوں کی تلاش میں غوطہ خوری کرنے والوں اور ماہی گیروں سے لے کر کاشتکاروں تک عجمانیوں کے روایتی طرزِ حیات کی عکاسی اس میوزیم میں کرنے کی کاوش کی گئی ہے۔ یہاں آپ عجمان کے قدیم روایتی لباس، رسومات اور فنون کے بارے میں بھی آگاہی حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اس میوزیم کی سیر کرتے ہوئے عجمان کے قدیم ہتھیاروں، سازوں اور دیگر اشیاء کے بارے میں بھی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

میوزیم کا ایک اہم اور دلچسپ حصہ وہ ہے جہاں عجمان کے قدیم پیشہ وروں کی زندگی اور فن کی عکس گری کی گئی ہے۔ یہاں ہمیں قدیم تاجروں، درزیوں کی دکانوں، قہوہ خانوں اور حلوائیوں وغیرہ کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس میوزیم میں عجمان کے عام لوگوں کے روایتی گھروں اور طرزِ زندگی کے نمونے بھی پیش کیے گئے ہیں۔

یہ عجمان میوزیم کی عمارت تھی یا کسی ملک صاحب کا ڈیرہ تھا۔ چاروں جانب قلعہ نما کچی دیواریں۔ دیواروں کے ساتھ لٹکے ہوئے لالٹین، پانی کا کنواں، بیل گاڑی اور چھپر۔

بازار میں داخل ہوئے تو یوں لگا جیسے مصر کے بازار میں آ گئے ہیں۔ وہی نقشہ تھا ولے اس قدر آباد نہ تھا۔ قدیم بازاروں جیسا ماحول اور دکانیں، لالٹینوں کی مدھم مدھم روشنی۔ دکانداروں اور گاہکوں کی آوازوں کا شور کہیں حجام کی دکان پر زُلف تراشی کا منظر، کہیں حکیم صاحب مریض کو دوائی کی پڑیا دیتے ہوئے، کہیں پنساری کی دکان پر اشیاء کی فروخت، کہیں روئی دھنی جا رہی ہے تو کسی دکان پر ہاتھ کی چکی سے آٹا پیسا جا رہا ہے۔ کہیں کانسی کے برتنوں کی دکان سامنے آتی ہے تو کہیں بھٹی میں لوہے کو گرم کیے جانے کا منظر۔ ذرا بھی گمان نہیں ہوتا کہ یہ سب کچھ مصنوعی ہے۔ دیواروں میں نصب پوشیدہ اسپیکروں سے آنے والی ریکارڈڈ (Recorded) آوازوں نے مجسموں اور اشیاء کے مصنوعی پن کو کافی حد تک اوریجنل کر دیا ہے۔ بقول شاعر:

چلتے پھرتے ہوئے مُردوں سے ملاقاتیں ہیں

زندگی کشف و کرامات نظر آتی ہے

میوزیم کے چاروں طرف کمرے ہیں جن میں عرب کلچر کو محفوظ کیا گیا ہے۔ درمیان میں وسیع احاطہ ہے۔ ساری عمارت مٹی گارے سے بنی ہوئی ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ اس کا قدیم حسن بحال رہے۔ قدیم لکڑی کے دروازے، فرنیچر اور تمام قدیمی آرائشی سازو سامان۔ مختلف کمروں میں مختلف چیزیں رکھی گئی ہیں۔ اگر کسی کمرے میں رنگا رنگ پتلیوں کے ذریعے قدیم عرب کی زندگی کے رہن سہن اور ثقافت کو اُجاگر کیا گیا ہے تو کسی کمرے میں شکار کے مناظر کو Capture کیا گیا ہے تو کہیں عرب مچھیروں کی ساحلی زندگی کو دکھایا گیا ہے۔ کہیں کھیل دکھائے گئے ہیں تو کہیں شکار۔

صحرائی زندگی دکھائی گئی ہے۔ وہاں استعمال میں لائی گئی ایک ایک چیز کو بہت حفاظت سے رکھا گیا ہے۔ میوزیم گھومتے ہوئے ایک لمحے کے لیے بھی یوں نہیں لگا جیسے کسی اجنبی کلچر سے متعلق آگاہی حاصل کر رہے ہیں، سوائے لباس کے ہمارے چولستانی کلچر اور عرب کلچر میں کچھ فرق نہیں۔ اس میوزیم میں رکھی ہوئی کوئی بھی چیز میرے لیے نئی نہیں تھی اور نہ ہی رہن سہن کا یہ انداز۔ ’’یہ تو وہی جگہ تھی گزرے تھے ہم جہاں سے ‘‘ کے مصداق ہر جگہ اپنائیت کا احساس ہوا۔ یہاں تک کہ اہل عرب کے روزمرہ استعمال کی وہ تمام اشیاء جو وہاں رکھی گئی تھیں آج بھی ہمارے ہاں پنجاب کے دیہاتوں اور چولستان میں استعمال ہوتی ہیں۔ صحن میں ایک چھپر کے نیچے ایک عرب گھڑ سوار کا مجسمہ تھا جو خنجر اور تلواریں لٹکائے پوری شان و تمکنت کے ساتھ کہیں جا رہا تھا۔ میں نے اُس کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی۔ سیکورٹی کا انتظام تو ہے مگر کوئی سیکورٹی اہل کار میوزیم کے اندر نظر نہ آیا۔ پورے میوزیم میں سیکورٹی کیمرے لگے ہیں۔ لہٰذا کسی سیاح کو کسی چیز کو چھیڑنے کا حوصلہ ہی نہیں ہوتا۔ ہمارے علاوہ اس میوزیم میں جینز کی نیکریں پہنے دو گوریاں پھر رہی تھیں اس لیے مختلف جگہوں پر بار بار آمنا سامنا ہو جاتا اور اس موقعے سے ہم فائدہ اُٹھاتے یعنی وہ میری تصویر بنا دیتیں اور میں اُن کی۔ میوزیم سے باہر میوزیم کے دو ملازموں سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان میں ایک انڈیا اور ایک پاکستان سے تھا۔ انہوں نے انکار کے باوجود چائے پلائی اور میوزیم کے سوونیئر بھی پیش کیے۔

میوزیم کے سامنے چوک میں بہت بڑی کشتی کی نمائش اس بات کا اشارہ کر رہی تھی کہ میں ساحلی علاقہ میں ہوں۔ سمندر کی ہوا بھی اپنے ہونے کا احساس دلاتی تھی۔ چند لمحوں کی ڈرائیو کے بعد میں سمندر کے سامنے تھا۔ بڑے دنوں بعد ٹھاٹھیں مارتا وسیع سمندر دیکھا تھا۔ بالکل مینورا کے سمندر جیسا، وہی لہروں میں جوش اور ولولہ جو کہ جوش کی شاعری میں ہے۔ آج چھٹی کا دن تھا اور ساحل پر خوب رونق تھی۔ زیادہ تر بنگالی، پاکستانی، انڈین اور کالے نظر آئے۔ اُن کے لباس اُن کی غربت کی چغلی کھاتے تھے۔ گورے یہاں خال خال نظر آئے۔ دُبئی کے ہوتے ہوئے اُنہیں یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہاں سب لوگ مختلف کھیلوں میں مشغول تھے اور کچھ دیر کے لیے اپنے دیس اپنی گلیاں اور اپنے پیاروں کو بھول گئے تھے۔ میں نے بھی مصروفیت ڈھونڈ لی تھی۔ ساحل کی ریت پر چلتے ہوئے مختلف سیپیاں چننے لگا۔ وقت کا احساس ہی نہیں رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے دہکتا سورج پانی میں ڈوب گیا۔ کچھ فاصلے پر ساحل پہ کھجوروں کے جھنڈ تھے اور شام اُن میں آ کر ٹھہر گئی تھی اُس نے اپنا بستر لگا لیا تھا۔

میں نے ان کھجوروں کے جھنڈ میں شام کا ہاتھ پکڑا اور اُسے اپنے ساتھ لے کر گھومنے لگا۔ شام اور میں ننگے پاؤں ساحل کی ریت پر گھوم رہے تھے۔ سمندر کی کوئی شوخ لہر ہمیں بھگو جاتی۔ جب کوئی بڑی لہر آتی تو شام ڈر کر میرے گلے لگ جاتی اور اُس وقت تک چمٹی رہتی جب تک ہمارے قدموں سے ریت کھسکتی رہتی۔ لہریں ہمیں اپنے ساتھ بہا کر لے جانا چاہتی تھیں۔ شام کو ڈوبنے سے ڈر نہیں لگتا تھا لیکن مجھے بہت لگتا تھا کیونکہ شام کے ڈوبتے ہی گہرے اندھیرے نے مجھے جھپٹ لینا تھا۔ جیسے بلی کبوتر کو جھپٹ لیتی ہے۔ مجھے شام جتنی خوبصورت لگتی تھی گہرا اندھیرا اُتنا ہی ڈراؤنا اور بدصورت۔ اس لیے میں شام کا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر چل رہا تھا مگر پھر بھی وہ ریت کی طرح میری مٹھی سے پھسلی جا رہی تھی۔ اس بات نے مجھے خوفزدہ کر دیا اور میں شام کا کچھ حصہ چرا کر شارجہ اپنے اپارٹمنٹ میں لے آیا۔ وہاں ہم نے اکٹھے بیٹھ کر چائے پی۔ میں چائے کا عادی نہیں ہوں مگر شام کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینا مجھے اچھا لگتا ہے۔

 

 

 

یادیں مشاعرہ

 

عجمان میں ایوانِ اقبال کے زیر اہتمام مشاعرہ بعنوان ’’یادیں ‘‘ منعقد ہوا۔ میں مشاعرہ سے تین روز قبل دُبئی آ گیا۔ پرنس اقبال کو تقریبات منعقد کرنے کا جنون ہے اور وہ اس جنون میں اپنا سکھ، چین، آرام سب کچھ قربان کر دیتا ہے۔ میں جس روز دُبئی پہنچا اُس روز اُس نے اپنے بیٹے کے اعزاز میں کچھ دوستوں کو الابراہیم ہوٹل کھانے پر بلایا ہوا تھا مگر مشاعرے کے انتظامات میں اتنا مصروف رہا کہ خود بھی ہوٹل دیر سے پہنچا اور اپنے بیٹے کو بھی انٹرنیشنل سٹی سے نہ لا سکا۔ مشاعرہ عجمان کے 4 اسٹار ہوٹل رمادہ میں تھا۔ ایوانِ اقبال پہلی بار دُبئی کے باہر مشاعرہ منعقد کر رہا تھا جو کہ اُس کے لیے کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔ مشاعرہ کے لیے جو ہال بک کرایا گیا تھا اُس میں سات سو لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ یوں تو دُبئی میں مقیم پاکستانی حیرت انگیز طور پر ادبی ذوق کے حامل اور تقریبات میں شرکت کے دلدادہ ہیں مگر دیکھنا یہ تھا کہ آیا وہ دُبئی سے عجمان مشاعرہ کے لیے آتے ہیں یا نہیں۔ مشاعرہ کو کامیاب بنانے کی غرض سے پرنس اقبال نے رات دن ایک کیا ہوا تھا اور ڈاکٹر ثمینہ اور فرزانہ سحاب مرزا اُس کے معاون کی حیثیت سے بھرپور کردار ادا کر رہی تھیں۔ رات دن جاگنے کی وجہ سے مشاعرہ سے ایک رات قبل ڈاکٹر ثمینہ اور پرنس اقبال خوفناک حادثے سے دوچار ہو گئے۔ گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو گئی اور یہ دونوں معجزانہ طور پر بچ گئے۔ پرنس اقبال کو معمولی چوٹیں آئیں مگر اُس نے ہسپتال سے فارغ ہوتے ہی کام شروع کر دیا۔

پاکستان سے مشاعرہ میں شرکت کے لیے عطاء الحق قاسمی، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، خالد مسعود، شہزاد نیر اور حرا رانا بھی پہنچ چکے تھے۔ ہوٹل میں قیام کے دوران نیلے پانی کا تالاب جس میں گورے اور گوریاں نہا رہی ہوتی تھیں میرے کمرے کے رستے میں پڑتا تھا۔ میں فیملی ٹائمنگ سمجھ کر ہر بار نظریں نیچی کیے گزر جاتا۔ ایک روز شہزاد نیئر سے نہ رہا گیا اور استقبالیے پر کھڑی لڑکی سے پوچھ لیا کہ فیملی ٹائمنگ کب ختم ہوتی ہے۔ اُس نے مسکرا کر کہا یہ Joint ہے آپ جب چاہیں نہا سکتے ہیں۔ شو مئی قسمت پہلے روز تو شہزاد نیر کے ساتھ نہانا پڑا مگر اُس کے بعد نیلے تالاب کے کے ٹھنڈے پانی میں رنگ برنگی مچھلیوں کے ساتھ نہاتا رہا۔ شکر ہے سب ڈولفن مزاج تھیں۔ اُن میں کوئی شارک نہیں تھی۔ مشاعرہ بہت کامیاب رہا ۵۰۰ سے زائد حاضرین کی شرکت مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت تھی۔ صدارت پاکستان کے نامور کالم نگار، مزاح نگار اور ڈرامہ نویس عطاء الحق قاسمی نے کی۔ مہمانِ خصوصی سفیر پاکستان جمیل احمد خاں تھے جن کی شخصیت خود اعتمادی اور طرزِ اظہارِ نے مجھے متاثر کیا۔ پاکستان سے صاحب صدارت کے علاوہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید، خالد مسعود، شہزاد نیئر اور حرا رانا نے کلام پیش کیا۔ مقامی شعراء میں مصدق لاکھانی، ڈاکٹر زبیر فاروق، تسنیم عابدی، فرزانہ سحاب مرزا، یعقوب تصور، سحرتاب رومانی، سعید پسروری، خالد نسیم، آصف رشید، یعقوب عنقا، سہیل مرزا اور حاجی عرفان قمر قریشی نے کلام پیش کیا۔ کمپیئرنگ معروف کمپیئر ظہور الاسلام جاوید نے کی۔ مشاعرہ سے قبل ایوانِ اقبال کی چوتھی سالگرہ کا کیک کاٹا گیا جسے ڈاکٹر ثمینہ نے دیگر خواتین کے ساتھ مل کر کاٹا۔ مشاعرہ میں بیشتر دبئی کی معروف سیاسی، کاروباری اور سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ سفیر پاکستان نے خطاب بھی کیا اور شعراء کو اعزازی شیلڈز اور تحائف بھی پیش کیے۔

 

 

 

سمندر سے نکل کر

 

مدینۃ الجمیرا ایک سندر خواب کی طرح ہے۔

خادمین نے شاہی دروازہ کھولا تو ہماری گاڑی انتہائی خوابناک ماحول میں داخل ہو گئی۔ شام رُخصت ہو رہی تھی اور رات آہستہ آہستہ اپنے پر پھیلا رہی تھی۔ کھجور اور پام کے درختوں کے جھنڈ، سبزے سے ڈھکی ہوئی زمین، پھولوں کی کیاریاں ہلکی ہلکی مدھم دودھیا روشنیاں، زگ زیگ راستوں سے گزرتی ہوئی گاڑی سے جب میں باہر کا منظر دیکھتا تو اس خوابناک ماحول میں روحیں چلتی پھرتی نظر آتیں۔ سفید لباس پہنے، لمبے لمبے بال کھولے، ہاتھوں میں روشن شمعیں لیے آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی ہوئیں۔

گاڑی ایک بہت ہی دلکش عمارت کے سامنے جا کر رُکی۔ دراز قد حبشی جس نے چوغا زیب تن کیا ہوا تھا اُس نے آگے بڑھ کر مکمل پیشہ ورانہ انداز میں سیلوٹ کرتے ہوئے پلک جھپکنے میں گاڑی کے دروازے کھول دیے۔

خوبصورت فواروں سے گرنے والی پانی کی آوازوں نے ہمارا استقبال کیا۔ پرنس کا دوست عرفان قریشی یہاں پروٹوکول آفیسر تھا، وہ ہمیں مکمل پروٹوکول کے ساتھ مدینۃ الجمیرا کی سیر کرانے لگا۔

تزئین و آرائش سے مزین کمرے، ریسٹورینٹس، قحبہ خانے، راہداریاں، یورپ تو یہاں اُمڈا پڑا تھا۔ ہر طرف گورے اور گوریاں، عربی تو خال خال ہی دکھائی دیے۔ در و دیوار میں نصب خفیہ اسپیکروں سے کانوں میں رس گھولتا ہوا دھیما دھیما انگریزی میوزک، شراب کے جام لنڈھاتی ہوئی حسینائیں جو اپنے جسموں کی نمائش کرتے ہوئے شرماتی نہ تھیں بلکہ اُن کے سر اس بات پر فخر اور غرور سے بلند تھے کہ پیدا کرنے والے نے اُن کو اتنا حسیں پیدا کیا ہے۔

نہ تو ہماری نظر کہیں ٹکتی تھی اور نہ ہی پاؤں۔ جہاں بھی نگاہ کی، کم کم واپس لوٹ کر آئی۔ ایسے میں موسم بھی مہربان ہو جائے تو سمجھ میں نہیں آتا خود کو کیسے اور کہاں قربان کیا جائے۔ راستوں کی بھول بھلیوں سے گزر کر ہم ایک اور خوابناک ماحول میں پہنچ گئے۔

چاندنی رات اپنے جوبن پر تھی۔ ایک بدلی ہلکی ہلکی بوندیں برسا رہی تھی جیسے کوئی سانولی معطر پانی کے چھینٹے اُڑا رہی ہو۔ ٹھنڈی اور نرم ہوا کے جھونکے بن پیے مست کیے دیتے تھے۔ جھیل تھی جھیل کے کناروں پر سبزہ پھول اور پیڑ تھے جن میں جگنو چمکتے تھے۔ اُونٹوں پہ رکھے ہوئے کجاووں کی طرح اپارٹمنٹ جھیل کنارے رکھے ہوئے تھے جن پر محملوں کا گماں ہوتا اور اندر لیلاؤں جیسی روشنی پھیلی تھی۔ ان میں پریمی آ کر ٹھہرتے۔ محبت کے گیت گاتے، کبھی نہ بچھڑنے کی قسمیں کھاتے اور پھر بچھڑ جاتے۔

کشتیاں کناروں سے آ کر لگتیں۔ کشتی کو دو مختلف ملکوں کے لڑکا لڑکی چلاتے تھے اپنا اپنا ثقافتی لباس زیب تن کیے۔ ریسٹورنٹس اور اپارٹمنٹس تک جانے کا واحد راستہ یہی جھیل تھی۔ کشتیوں میں بیٹھ کر جانا پڑتا۔ ہماری کشتی کا ملاح ایک نیگرو تھا اور اُس کی اسسٹنٹ ایک سری لنکن لڑکی تھی جیسے ہی ملاح نے بڑے بڑے چپوؤں سے پانی کو پیچھے دھکیلنا شروع کیا لڑکی نے ہمیں مدینۃ الجمیرا کے متعلق بتانا شروع کر دیا۔

دبئی کے برج العرب اور پام جمیرا والے ساحلوں کے درمیان فن تعمیر کا ایک شاہکار آباد ہے۔ اسے شہر کہہ لیجیے یا نخلستان۔ یہاں کیا نہیں ! ہوٹل ریستوران، بازار، سینما گھر، تھیٹر اور بھی ایک نہیں کئی کئی۔ اس چھوٹے سے شہر کے مختلف حصوں کو آبی راستوں سے جوڑا گیا ہے جن پر آبی ٹیکسیوں میں سفر کرتے ہوئے وینس کی یاد بھی آتی ہے لیکن اس کا روایتی عرب انداز اسے دنیا کی کسی دوسری جگہ سے مشابہ بھی نہیں ہونے دیتا۔ یہاں کی عمارات کا طول و عرض ہی آپ کو مرعوب کر دینے کے لیے کافی ہے۔

سوق مدینۃ الجمیرا

اگر آپ کسی دوسرے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور خریداری یا محض تفریح کے لیے اس بازار میں آئے ہیں تو بازار پر نظر پڑتے ہی روایتی عرب طرزِ تعمیر اور جدید ترین معیارِ تعمیر آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ روایتی انداز میں بنی ہوئی دُکانیں، ۲۳ عدد ریستوران اور کیفے بارز کے علاوہ یہاں ایک نائٹ کلب بھی ہے۔ دو تھیٹر بھی ہیں، اس بازار کی گلیاں اور راہداریاں بھی مکمل طور پر ایئرکنڈیشنڈ ہیں۔ سو تھکن کا احساس بھی کم کم ہی ہوتا ہے۔

Harbour of Peace

یہ ہوٹل جس کا عربی نام منا السلام ہے، اپنے پرسکون ماحول، ۲۹۲ بین الاقوامی معیار کے کمروں، چار ریستورانوں، دو کلبوں متعدد سوئمنگ پولوں اور بہت سی دیگر سہولیات کی وجہ سے امارات آنے والوں کے لیے ایک بہترین انتخاب ہے لیکن مدینہ جمیرا میں واقع ہونا ہی اس کی ایک بہت بڑی خوبی شمار ہوتی ہے۔ شہر جمیرا کی پہلی عمارت ہونے کی وجہ سے اسے مدینہ جمیرا کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔

The Palace Hotel

القصر یا The Palace Hotel شہر جمیرا کی مرکزی عمارت ہے۔ اس کی بلند اور پر شکوہ عمارت اسے شہر جمیرا کے سر کا تاج بنا دیتی ہے۔ اس ہوٹل تک جانے کے لیے آپ کو ایک طویل راہداری سے گزرنا ہوتا ہے جس کے کنارے لگے ہوئے کھجوروں کے درخت اور گھوڑوں کے مجسمے آپ کو ایک الف لیلوی ماحول میں لے جاتے ہیں۔ گنجائش اور سہولیات کے لحاظ سے تو منا السلام اور القصر میں کوئی فرق نہیں لیکن اس کا سر سبز و ہوا دار ہونا اس کی انفرادیت ہے۔

ملکیہ ولاز

شہر جمیرا کی آبی گزر گاہوں کے کنارے واقع یہ سات رہائش گاہیں ان لوگوں کے لیے ہیں، دولت جن کا مسئلہ نہیں۔ یہ در اصل سات چھوٹے محل ہیں جن میں سے ہر ایک متعدد کشادہ کمروں پر مشتمل ہے، ہر ایک کے ساتھ اپنا سوئمنگ پول بھی ہے اور چمن بھی۔ انتہائی قیمتی ساز و سامان اور فرنیچر سے آراستہ یہ محل یہاں کی مہنگی ترین رہائش شمار ہوتی ہے۔

دارالمصیف

یوں تو یہ بھی القصر اور مناء السلام کی طرح ایک ہوٹل ہے جو نسبتاً زیادہ پر تعیش سمجھا جاتا ہے لیکن اس کی اصل شہرت ۲۹ سمر ہاؤس ہیں جن میں ہر ایک کا اپنا سوئمنگ پول ہے۔ یہاں آپ کو ۲۴ گھنٹے ایک ذاتی بٹلر کی خدمات بھی حاصل رہیں گی۔ خوبصورت باغات میں گھرے یہ سمر ہاؤس ایک طرف آپ کو پرائیویسی دیتے ہیں تو دوسری طرف آبی گزر گاہوں کے ذریعے آپ کو پورے شہر جمیرا سے رابطے میں بھی رکھتے ہیں۔

تالیس

شہر جمیرا کا ذکر آئے تو تالیس کا ذکر بھی لازم ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک Spa ہے لیکن مساج کی کون سی قسم ہے جو یہاں دستیاب نہیں۔ وسیع و عریض رقبے پر قایم اس کے ۲۶ کمروں کے علاوہ آپ اگر چاہیں تو خوبصورت خیموں میں بھی آپ کو مساج کی سہولت میسر ہو سکتی ہے۔ مساج کے علاوہ یہاں یوگا، سوانا، ٹھنڈے اور گرم سوئمنگ پول اور صحت کے بارے میں محتاط لوگوں کے لیے مخصوص غذا کا بھی اہتمام ہے۔

گائیڈ رُک رُک کر آہستہ آہستہ بولتی تھی۔ کشتی جب لکڑی کے بنے ہوئے پل کے نیچے سے گزرتی تو چاندنی میں اُس لڑکی کی آواز گھلنے لگتی اور بوندیں اُس کے چہرے پرستاروں کی طرح چمکنے لگتیں۔ محملوں کے اندر سے دودھیا روشنی جھیل کے پانیوں پر پڑتی تھی۔ جی چاہتا تھا اس پانی سے کوئی ساحر اچانک نمودار ہو اور اپنے جادو سے یہ سارا ماحول پتھر کا بنا دے۔ ہم مجسموں کی طرح اس کشتی میں صدیوں تک پتھرائی آنکھوں سے یہ منظر دیکھتے رہیں۔

ہم نے چونکہ کسی اپارٹمنٹ میں بکنگ نہیں کرائی تھی اور نہ ہی کسی ریسٹورنٹ میں جانے کا کوپن حاصل کیا تھا اس لیے ہمیں کشتی نے ایسے جزیرے میں جا کر اُتار دیا جہاں باغات تھے اور عقب میں مدینۃ الجمیرا کی عمارتوں کا منظر سوئے ہوئے محلات جیسا دکھائی دیتا تھا۔ ہم ایک بہت بڑی شطرنج کے پاس جا کر ٹھہر گئے جس کے گھوڑے، ہاتھی اور پیادے سنگ مرمر سے تراشے گئے تھے اور وہ ہمارے جتنے تھے۔ صاف شفاف نیلے پانیوں میں ہمارے عکس پڑتے تھے جنہیں رنگ برنگی سینکڑوں مچھلیاں جال سمجھ کر ڈر جاتی تھیں۔ ہم بھیگی بھیگی چاندنی میں ہنستے کھیلتے لطیفے سناتے قہقہے لگاتے اپنی اپنی محبوباؤں کو یاد کرتے بیچ پر آ گئے جہاں خیمے تھے۔ صاف شفاف ریت تھی جن پر قدموں کے نشان واضح گنے جا سکتے تھے۔ سمندر کی لہریں سمندر سے باہر نکل کے اُن سندریوں کو چھونے کی ناکام کوشش کرتی تھیں جنہیں دیکھ کے ہم صرف آہ بھر سکتے تھے۔

جب آئے وہ ساحل پہ کبھی گھر سے نکل کر

لہریں اُسے چھوتی ہیں سمندر سے نکل کر

سندر خوابوں کا ایک نہ ختم ہونے والا تسلسل تھا۔

حیرت کدوں کا ایک جہان

الف لیلیٰ کی کہانیوں کا مجموعہ

لکڑی کا پل دور تک سمندر میں چلا گیا تھا اور اُس کے آخر میں ایک کاٹیج نما ریسٹورنٹ جس کے دیے ہاتھ ہلا ہلا کر اور لالٹینیں پلکیں جھپک جھپک کر ہمیں بلا رہے تھے۔ ہم چاندنی اور بارش میں بھیگتے ہوئے اُس لکڑی کے پل پر چل رہے تھے۔ سمندر کی تیز ہوا یوں ہمیں دھکیلتی تھی جیسے کوئی تیز رفتار ٹرین ہمارے پاس سے گزر رہی ہو۔ کہیں بنچ آ جاتا تو ہم وہاں اس بات سے بے خبر ہو کر بیٹھ جاتے کہ ہم نے کہیں جانا بھی ہے۔ دبئی شہر کی روشنیاں یہاں سے یوں جھلملاتی ہوئی دکھائی دیتیں جیسے بچپن میں ماں جب سب روٹیاں پکا لیتی تو اُلٹے توے پر کئی ستارے جھلملاتے ہوئے دکھائی دیتے اور میں یہ منظر بہت محو ہو کے دیکھا کرتا تھا۔ دبئی شہر کی روشنیاں یہاں سے اُلٹے توے پر بننے والے ستاروں کی طرح خوبصورت لگتی تھیں اور میں یہ منظر محو ہو کر دیکھ رہا تھا۔

سمندر میں بنے اُس دلکش ریسٹورنٹ کے پاس ہم ضرور گئے مگر اُس کے پاس بیٹھ کر اُسے چھو کر واپس آ گئے جیسے بچے نئی نویلی دُلہن کے پاس بیٹھ کر واپس آ جاتے ہیں۔ اُنہیں اُس سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ مدینۃ الجمیرا بھی ہمارے لیے نئی نویلی دُلہن کی طرح تھا۔ ہم بڑی مشکل سے بس اُسے چھو ہی سکے۔ کچھ دیر پاس بیٹھے، لوٹ آئے۔

جب ہم مدینۃ الجمیرا سے باہر آئے تو برج العرب ایک دیو قامت دیو کی طرح ہمیں گھور رہا تھا۔

 

 

 

اِک پھول کے مرجھانے سے

 

دُبئی سے ابوظہبی براستہ سڑک ایک دلفریب سفر ہے۔ عمارتوں، فلائی اوورز اور انڈر پاس سے گزرتی ہوئی گاڑی جب موٹر وے پر زقندیں بھرنے کے لیے دُبئی کو خیرباد کہتی ہے تو یو اے ای پر حکمران شیوخ کی دیو قامت تصاویر مسافروں کو اہلاً و سہلاً مرحبا کہتی ہیں۔ میڈیا سٹی میں کچھ وقت گزارنے کے بعد ہم ابوظہبی کے لیے روانہ ہو گئے۔ راستے میں دور تک دائیں بائیں تا حد نظر پھیلے صحرا میں جدید طرز کے رہائشی منصوبوں کی تکمیل کے لیے کام جاری تھا۔ ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت وِلاء اسکیم اُس کے بعد ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بڑے بڑے گوداموں کا سلسلہ شروع ہوا۔ پوری دُنیا کی کمپنیوں نے یہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور یہاں سے پوری دُنیا کو اپنی پروڈکٹس اسپلائی کرتے ہیں۔ جیسے ہی ہم ایک کورین کمپنی کے اسٹور کے پاس سے گزرے پرنس نے یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ کورین لوگ کتے بڑے شوق سے کھاتے ہیں اور Dog meat اُن کی پسندیدہ ڈش ہے۔ اُس نے مزید بتایا کہ پہلے دبئی میں بہت کتے ہوا کرتے تھے مگر اب کوئی کتا دکھائی نہیں دیتا بلکہ اس کی آواز سننے کو بھی ترس گئے ہیں۔

صحرا میں انتہائی دلکش موٹر وے پر گاڑیاں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ دوڑی چلی جا رہی تھیں۔ کبھی اچانک کھجوروں کے جھنڈ آ جاتے اور اُن کے درمیان خالص دیسی گھی کی رنگت جیسی انتہائی دلکش مسجد یوں دکھائی دیتی جیسے دلہن سہیلیوں کے درمیان نظر آتی ہے۔ کبھی اچانک آبادی شروع ہو جاتی تو وہ منظر بھی دیکھنے والا ہوتا۔ ان خوبصورت مناظر کے ساتھ وہ میدان بھی دیکھا جہاں کیمل ریس ہوا کرتی تھی۔ بلکہ اب بھی ہوتی ہے۔

متحدہ عرب امارات کے سابق حکمران شیخ زائد بن سلطان کی مسلسل سرپرستی کی وجہ سے اُونٹوں کی سالانہ دوڑیں بھی دبئی کی ایک اہم ثقافتی پہچان بن چکی ہیں لیکن اُونٹوں کی دوڑ کا نام آتے ہی ہمارا ذہن بچوں کے استحصال کی جانب جاتا ہے کیونکہ ماضی میں ان اُونٹوں پر ۶ سے ۷ سال عمر کے بچے سوار ہوتے تھے جن کا وزن ۲۰ کلو سے زیادہ نہیں ہوتا تھا تاکہ ایک تو سوار کے وزن کی وجہ سے اُونٹ کی رفتار کم نہ ہو اور دوسرا جب یہ بچے ڈر کر روتے تھے تو ان کی چیخ و پکار کی وجہ سے بھی اُونٹ تیز دوڑتے تھے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان اور ہندوستان جیسے غریب ممالک سے بچے سمگل ہونا شروع ہوئے تو یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ بن گیا۔ چنانچہ امارات کی حکومت نے ۱۵ سال سے کم عمر اور ۴۵ کلو سے کم وزن کے سواروں پر پابندی عائد کر دی۔ اس مقصد کے لیے خصوصی طور پر ڈاکٹر تعینات کیے گئے جن کے سرٹیفکیٹ کے بغیر دوڑ میں شرکت ممکن نہیں۔ اس طرح یہ مسئلہ بڑی حد تک حل ہو چکا ہے۔ اگرچہ ان ریسوں میں جوئے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن جیتنے والوں کو بیش قیمت انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ اُونٹوں کی دوڑ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت صرف دُبئی میں کم از کم ۱۴ ہزار دوڑنے والے اُونٹ موجود ہیں۔

کیمل ریس کا پورا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی ماضی قریب میں پہنچ گیا۔ صحرا کی قیامت خیز گرمی، چلچلاتی دھوپ، اُونٹوں کے منہ سے نکلتی ہوئی جھاگ اور لمبی زبانیں، چھوٹے چھوٹے، ننھے ننھے معصوم بچوں کی دلدوز چیخیں سب کچھ کتنا ہیبت ناک ہے۔ صرف تصور کرنے سے ہی روح کانپ اُٹھتی ہے۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے معصوم اور پھول جیسے بچوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔ ان میں کوئی بچہ گھر سے ٹافی لینے کے لیے نکلا ہوتا ہے اُس کی شرارتوں کی آوازیں ابھی آنگن میں گونج رہی ہوتی ہیں کہ اُسے اغوا کر لیا جاتا ہے۔ کوئی بچہ کرکٹ کھیلنے کے لیے گھر سے باہر آتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے ماں باپ بہن بھائیوں سے بچھڑ جاتا ہے۔ کوئی بچہ گالوں پر اپنی ماں کا بوسہ سجائے اسکول جانے کے لیے قدم دروازے سے باہر رکھتا ہے اور اُس کے منہ پر رو مال رکھ کر اُسے بوری میں بند کر کے ہمیشہ کے لیے اپنوں سے دور کر دیا جاتا ہے۔ ان بچوں کی ماؤں کے دلوں پر کیا گزرتی ہو گی۔ یہ دُکھ کہ خدا جانے میرا لخت جگر کہاں ہے ؟ اور کس حال میں ہے ؟ موت سے بھی بڑا دُکھ ہے اور اس سانحے سے بڑا سانحہ کوئی ہو بھی نہیں سکتا۔ ایسے باپ جب اپنے بچوں کو ڈھونڈ رہے ہوتے ہوں گے تو اُن کی کیا حالت ہوتی ہو گی اُسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا اور بہن بھائی اپنے بھائی کی شرارتوں کو یاد کر کے کتنا روتے ہوں گے۔ یہ سب کچھ کتنا دلخراش ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان پھول سے بچوں کو کنٹینروں میں بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے۔ صحرا کی گرمی اور دھُوپ سے کئی بچے کنٹینروں میں دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں۔ میں جب یہ سب کچھ سوچتا ہوں تو میرا دم بھی گھٹنے لگتا ہے اور خود کو اُس کنٹینر میں دوسرے بچوں کے ساتھ بند پاتا ہوں جہاں آنسو ہیں، چیخیں ہیں، پکار ہے، بھوک ہے، پیاس ہے اور موت ہے۔

پھر میں سوچتا ہوں کیا ان لوگوں کو انسانیت کے دائرے میں رکھا جا سکتا ہے جو بچوں کو اغواء کرنے جیسے گھناؤنے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ نہیں نہیں یہ کبھی انسان نہیں ہو سکتے اور نہ ہی انہیں درندے کہا جا سکتا ہے۔ یہ تو درندوں سے بھی بدتر ہیں۔ پھر یہ منظر میری آنکھوں میں گھومنے لگتا ہے۔ بہت سے اُونٹ اور بہت سے بچے، دوڑ شروع ہوتی ہے۔ اُونٹ دوڑتے ہیں تو ان کی کوہانوں پر بندھے ہوئے بچے جھٹکے لگنے کی وجہ سے درد سے چیختے ہیں، روتے ہیں، بلبلاتے ہیں، چلاتے ہیں۔ اُن کی یہ آوازیں سن کر وحشی اُونٹ اور تیزی سے دوڑتے ہیں۔ ان میں کئی بچوں کی کمر کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے۔ وہ کمر جس پر اُن کی ماں پیار سے ہاتھ پھیرا کرتی تھی۔ کسی بچے کی کولہوں کی ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہیں وہ بچہ جسے باپ اپنے شانوں پر بٹھا کر میلہ دکھانے لے جاتا تھا۔ کوئی بچہ اُونٹ سے نیچے گر جاتا ہے اور تیز دوڑتے ہوئے اُونٹوں کے قدموں تلے کچلا جاتا ہے۔ وہ ہونٹ، وہ ناک، وہ آنکھیں، وہ ٹھوڑی، وہ گردن جس پر اُس کے ماں باپ، نانا نانی، دادا دادی بہن بھائی کے بوسے ثبت ہوتے ہیں خون میں لت پت پڑی ہوتی ہیں اور اُن کی شناخت بھی ممکن نہیں رہتی۔ یہ ظلم ڈھانے والے ہٹلر اور یزید سے بھی زیادہ سنگدل ہیں اور ہم اُس کربلا سے گزر رہے تھے۔ میرا دل بجھ گیا تھا اور دماغ مکمل طور پر بچوں کی چیخ و پکار سے بھر چکا تھا۔ دُنیا کے ہر خطے میں کچھ ظالم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پوری قوم اور ملک کا نام بدنام کرتے ہیں۔

میں کہاں جاؤں کہ اِک پھول کے مرجھانے سے

باغ سارا مجھے بیکار نظر آتا ہے

دورانِ سفر ایک طویل دُکھ بھری خاموشی اور پھر راس الخیمہ کی ہنڈولے جیسے عظیم شیشے کی عمارت نے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ میں نے اب تک جن ملکوں کی عمارتیں دیکھی تھیں اُن میں سب سے منفرد اور دلچسپ…… دل بے اختیار اُس کے پاس جانے کے لیے مچلنے لگا۔ گاڑی اُس کے پاس جا کر رُکی تو سمندر کا دلکش نظارہ، تیز ہوا اور یہ عظیم عمارت جس کا نقشہ بالکل ہنڈولے جیسا تھا اور یہ مکمل طور پر شیشے سے بنی ہوئی تھی… کمال ہو گیا تھا۔ سچ یہ ہے کہ انسان کے اندر سے بچپنا ختم نہیں ہوتا چاہے وہ جتنا بڑا ہو جائے یہ عمارت بھی اسی احساس کا شاہکار تھی۔

 

 

 

یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے

 

پام آئی لینڈز دنیا کے سب سے بڑے مصنوعی جزائر ہیں۔ ان جزائر کو دبئی کی ’’نخیل پراپرٹیز‘‘ نامی کمپنی نے بلجیئن اور ڈچ کمپنیوں کی مدد سے بنایا ہے۔ یہ در حقیقت تین جزائر ہیں جن کے نام ’’پامِ جمیرہ‘‘، ’’پام جبل علی‘‘ اور ’’پام ڈیرہ‘‘ ہیں۔ ہر جزیرہ پام کے درخت کی شکل میں بنایا گیا ہے۔ جس کے اُوپر ایک ہلالی نیم دائرہ ہے۔ ان میں سے ہر جزیرے پر کثیر تعداد میں رہائشی پلاٹ، ہوٹل اور تفریحی سہولیات تعمیر ہو رہی ہیں۔ یہ جزائر دبئی کے ساحل کے قریب خلیج فارس میں بنائے گئے ہیں اور ان کی وجہ سے دبئی کی ساحلی پٹی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ساحل بنیادی طور پر سمندر کی تہہ سے ریت نکال کر ہی بنائے گئے ہیں لیکن اس عمل کے دوران لاکھوں ٹن پتھر بھی استعمال ہوا ہے۔ ان جزائر کی تعمیر ایک ایسا کارنامہ ہے جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ تعمیر کی تفصیلات تو انتہائی پیچیدہ اور خشک ہیں لیکن اتنا کہنا کافی ہو گا کہ دنیا کی بہترین تعمیراتی کمپنیوں، کثیر سرمائے اور جدید ترین ٹیکنالوجی کی دستیابی کے باوجود ان جزائر کی تعمیر کے لیے ایک طویل عرصہ درکار تھا۔ پام جمیرہ جو سب سے چھوٹا جزیرہ تھا اس کو رہائش کے قابل بنانے کے لیے بھی پانچ سال تک دن رات کام کرنا پڑا اور اس کے بعد بھی ترقیاتی کام جاری رہے۔ پام جمیرہ کے مختلف حصوں کو ملانے کے لیے ایک مونو ریل بھی چلائی گئی ہے۔ پام جمیرہ کے مقابلے میں پام جبل علی کا رقبہ تقریباً ڈیڑھ گنا ہے۔ اس جزیرے میں Sea Village کے نام سے ایک واٹر پارک بھی بنایا جا رہا ہے۔ پام ڈیرہ کا رقبہ پام جبل علی کے مقابلے میں بھی تقریباً ۵ گنا زیادہ ہے۔ اس جزیرے کے لیے سینکڑوں منصوبے عرب شیوخ کے سامنے ہیں لیکن دُبئی میں آنے والے معاشی بحران کی وجہ سے یہاں کام کی رفتار انتہائی سست ہو گئی تھی۔ ۲۰۰۸ء میں اس کے ڈیزائن میں تبدیلی کر کے رقبہ بھی کچھ کم کر دیا گیا۔ پھر بھی یہ دنیا کے کسی بھی دوسرے مصنوعی جزیرے کے مقابلہ میں کئی گنا بڑا ہو گا۔

ہماری گاڑی دبئی کی صاف شفاف سڑکوں پر سینکڑوں دوسری گاڑیوں کے ساتھ تیرتی ہوئی جا رہی تھی۔ ہر طرف روشنیاں ہی روشنیاں۔ روشن عمارتیں، روشن پارک، روشن مارکیٹیں، روشن فلائی اوور، روشن انڈر پاس یوں لگتا تھا جیسے کوئی بچہ کمپیوٹر پر گیم کھیل رہا ہے اور ہم بھی اس گیم کا حصہ ہیں۔

گاڑی کی رفتار اچانک آہستہ ہوئی تو دائیں بائیں ایستادہ محلات نما گھروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پرنس نے ہمیں بتایا کہ یہ گھر دُنیا کے مہنگے ترین گھر ہیں جنہیں دنیا کے امیر ترین لوگوں نے خریدا ہے اور یہ سمندر پر بنے ہوئے ہیں۔ میں نے گاڑی کے شیشوں سے جھانک کر چاروں طرف دیکھا مگر سمندر تو دور دور تک نظر نہ آیا۔ البتہ گاڑی پر اچانک بوندیں گرنا شروع ہو گئی تھیں۔ باہر بہت تیز ہوا چل رہی تھی۔ ہم اُس سڑک پر جس کے دونوں طرف دُنیا کے مہنگے ترین وِلاز تھے آہستہ آہستہ رفتار کے ساتھ چلتے رہے۔ پرنس نے بتایا کہ ان میں سے کچھ بنگلے انڈین اداکاروں کے بھی ہیں۔ بلکہ کچھ کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ یہ شاہ رُخ خان کا ہے اور یہ امیتابھ بچن کا۔ مجھے یہ تو پتہ تھا پرنس پراپرٹی کا کام کرتا ہے مگر یہ پتہ نہیں تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر کرتا ہے۔ کم از کم اُس وقت اُس کی باتوں سے تو یہی لگ رہا تھا جیسے انڈین اداکاروں کو یہ بنگلے اُس نے فروخت کیے ہیں۔

گاڑی جیسے ہی دائیں مڑی تو ایک بہت بڑی قلعہ نما پر شکوہ سنہری عمارت جلوہ گر ہوئی جس کا انتہائی خوبصورت صدر دروازہ تھا۔ جس پر تزئین و آرائش کا کام اور کندہ نقوش حیرت کا در وا کرتے تھے۔ بے شمار سیڑھیاں اُس کی طرف جاتی تھیں جیسے دور پہاڑی پر کوئی سنہری مندر ہو مگر صد افسوس کہ ہم وہاں سے بھی اُسی آہستگی اور خاموشی سے گزر گئے جس آہستگی اور خاموشی سے ہم باقی عمارتوں کو پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ گاڑی ایک اور بہت بڑی عمارت کے پاس جا کر رُکی۔ بارش اب بہت تیز ہو گئی تھی۔ ہم باہر نکلے تو بہت تیز ہوا بھی چل رہی تھی۔ ہمارے بائیں طرف ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا اور دائیں طرف رنگ و نور کا اِک جہاں۔ بہت طوفانی رات تھی۔ سمندر بپھرا ہوا تھا۔ اُس کی لہریں اُس کے راستے میں رکھے ہوئے ہزاروں پتھروں سے ٹکراتیں تو اس کے شور سے دل دہل جاتے۔ سمندر کا غصہ اور جلال درست تھا کیونکہ ہم انسانوں نے اُس کی تمام تر ہیبت، طاقت اور بڑائی کے باوجود اُس کے سینے پر ایک شہر آباد کر دیا تھا اور اُسے اصل جگہ سے بہت پیچھے دھکیل دیا تھا۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے کسی ڈریگن یا ڈائنوسار کے گلے میں پٹہ ڈال دیا جائے اور اُسے کسی چڑیا گھر میں نمائش کے لیے رکھ دیا جائے تو لامحالہ وہ تماشائیوں کو دیکھ کر چنگھاڑے گا، گرجے گا، اپنے منہ سے آگ برسائے گا اپنے غصہ کا اظہار کرے گا۔ اُس رات سمندر کی بھی ہمیں دیکھ کر بالکل ایسی ہی کیفیت تھی۔ وہ اپنے جلال کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ طوفانی رات، سمندر کی لہروں کا شور اور اس شور میں جب آسمان پر بجلی کڑکتی تو ہمارے دل دہل جاتے جیسے ہم کسی کشتی میں سوار ہیں اور وہ کشتی ابھی ڈوب جائے گی۔

ہم عمارت کے اندر داخل ہوئے تو سمندر کا سارا شور، ڈر اور خوف ہوا ہو گیا۔ یہاں تو ایک اور جہان آباد تھا۔ ریسٹورینٹس، شاپس، دفاتر اور راہداریوں میں دُنیا کے مختلف خطوں سے آئے ہوئے لوگوں کا ہجوم تھا۔ اُن کی آنکھوں میں حیرت تھی اور ہاتھوں میں کیمرے۔ وہ ایک ایک منظر کو محفوظ کر لینا چاہتے تھے اور وہ ایسا کیوں نہ کرتے جگہ جگہ تو شاہکار بکھرے پڑے تھے۔ فرش پر نظر پڑتی تو رنگوں کا ایک جہاں نظر آتا۔ دیواروں پہ نظر پڑتی تو دُنیا بھر کی شاہکار پینٹنگز کو لا کر یہاں آویزاں کیا گیا تھا۔ اسی طرح چھت پر نظر پڑتی تو دُنیا کے ہر خطے کا آرٹ ہمارے سامنے جلوہ نما ہوتا۔ راہداریوں میں چلتے ہوئے اچانک کبھی شیشے کی دیوار آ جاتی جس کے اندر ہزاروں مچھلیاں تیر رہی ہوتیں۔ کبھی گیلری آ جاتی جس میں آرٹ کے شاہکار نمونے رکھے ہوتے، کبھی غرناطہ، اندلس اور بغداد کے فوارے پانی برسانے لگتے اور کبھی مصری تہذیب کے آثار ہمارے سامنے ہوتے۔ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ دُنیا بھر کی حسین لڑکیاں اور عورتیں اس طرح اپنے جسموں کی نمائش کرتیں جیسے کہہ رہی ہوں ان سب شاہکاروں میں قدرت کا سب سے نمایاں اور حسین شاہکار تو ہم ہیں۔ ہم پر بھی نظر کیجیے مگر ہماری کیفیت بقول فراز:

یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے

وہ بت ہے یا خدا دیکھا نہ جائے

یہ کن نظروں سے تو نے آج دیکھا

کہ تیرا دیکھنا دیکھا نہ جائے

یہی تو آشنا بنتے ہیں آخر

کوئی نا آشنا دیکھا نہ جائے

اُس رات ہم نے بہت کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھا۔ کیونکہ بہت کچھ دیکھنے والا رہ گیا تھا۔ ان دیکھی دُنیاؤں کا حسن ہم اپنی آنکھوں میں بھر کر لوٹ آئے کہ بہت تھک چکے تھے اور نیند بھی آئی ہوئی تھی۔

یہ سرد رات یہ آوارگی یہ نیند کا بوجھ

ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے

 

 

 

مس میری (Miss Mary)

بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اتنے محب وطن ہیں کہ وہاں لہرانے والے سبز پرچم کا سر بھی اُن کی طرح فخر سے بلند ہوتا ہے۔ یوم پاکستان کی کسی تقریب میں مجھے جب بھی بیرونِ ملک شرکت کا موقع ملا میرے لیے وہ نہایت خوبصورت، حسین اور یادگار لمحات رہے۔ ۱۴؍ اگست کے حوالے سے پورے یو- اے – ای میں تقریبات منعقد ہو رہی تھیں۔ پاکستان کی سالگرہ کے کیک کاٹے جا رہے تھے۔ یہ تقریبات سفارتخانوں، ہوٹلوں اور گھروں میں ہو رہی تھیں۔ ایوانِ اقبال نے بھی ایک ہوٹل میں تقریب کی اور پاکستان کی سالگرہ کا کیک کاٹا گیا جسے حاضرین نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے کاٹا۔ اس تقریب کی خاص بات مس میری کی شرکت تھی۔ وہ نائیجیریا سے آئی ہوئی تھی اور پرنس کی کلائنٹ تھی۔ اُس کا موٹاپا میری آنکھوں کے کیمرے میں فوکس نہ ہوتا تھا۔ اُس پر ظلم یہ کہ کیک کاٹتے وقت جب میڈیا کے کیمرے ریکارڈنگ میں مصروف تھے اور صحافی تصویریں بنائے چلے جا رہے تھے مس میری کا بازو میرے آگے آ گیا اور میں اس طرح بازو اوجھل پہاڑ اوجھل کی مصداق اس نئے محاورے کی نذر ہو گیا۔ ستم بالائے ستم ڈاکٹر ثمینہ نے مس میری کو کہہ دیا کہ آج آپ بہت سمارٹ لگ رہی ہیں۔ آزادی کی تقریب پر اپنی اس بے بسی پر مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے ڈاکٹر ثمینہ سے صاف کہہ دیا مزید ظلم برداشت نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر ثمینہ کا وضاحتی بیان یہ تھا کہ مس میری تو پہلے فربہ ہوا کرتی تھی اب تو بیچاری چھ ماہ سے ڈائٹنگ کر رہی ہے اور وہ میری تو کیا اپنی بھی نہیں رہی۔ ڈاکٹر ثمینہ ٹھیک کہتی تھیں مس میری نے اُس روز کیک کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا بس آنکھیں بند کر کے کھاتی رہی۔ یو- اے – ای میں پاکستانیوں کو موٹر سائیکل کے سائلنسر نکال کر جشن آزادی منانے کی اجازت نہیں اور نہ ہی سڑکوں پر ہلا گلا کرنے کی اجازت ہے۔ پھر بھی میں نے سڑکوں اور گلیوں میں ٹولیوں کی شکل میں بہت سے پاکستانیوں کو دیکھا جو لمبے لمبے پاکستانی پرچم چھتریوں کی طرح سروں پر تانے ہاتھوں میں شمعیں اُٹھائے چلے جا رہے تھے۔ مجھے اُن پر بہت پیار بھی آیا اور اُن کی حالت پر ترس بھی کہ آزادی والے دن اُنہیں بغیر زنجیر کے باندھ دیا گیا تھا۔ وہ پاکستان میں ہوتے تو اُن کو قابو کرنا مشکل ہو جاتا۔ بہرحال مجھے بہت اچھا لگا کہ پاکستانی اپنے جذبوں کا بھرپور اظہار کر رہے تھے اور دُبئی میں پتہ چل رہا تھا کہ آج ۱۴؍ اگست ہے۔

محمود درویش، صلاح عبدالصبور اور یوسف الخال

عبدالحمید امیری ایک بلوچ عرب کے ہاں چند دن کا قیام بھی نہایت خوشگوار رہا۔ بلوچ عرب اس لیے کہ قیام پاکستان کے بعد کئی بلوچ یو- اے -ای میں آئے انہوں نے یہاں کی عرب لڑکیوں سے شادیاں کیں۔ یہاں کی شہریت حاصل کی اور یہیں کے ہو گئے۔ وہ خود تو تھوڑی بہت اُردو بول لیتے ہیں مگر اُن کی اولادیں ان سے نابلد ہیں۔ ان کے گھروں میں خالصتاً عربی رہن سہن اور ماحول ہے۔ امیریؔ عربی اور اُردو میں شاعری کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ بہت سا وقت گزرا۔ بہت سے ایسے ریسٹورنٹ جہاں کسی پاکستانی کے ساتھ شاید نہ جا پاتا امیری لے کر گئے۔ پرنس اقبال، ڈاکٹر ثمینہ بھی ہمراہ ہوتے۔ خوب محفل جمتی۔

ایک روز سمندر کنارے بہت ہی خوبصورت شام ٹھہر گئی تھی۔ ریسٹورینٹ ویٹرز کی طرح قطار اندر قطار ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ عربی اور انگریزی گانوں کی دھُنیں نیلے اور سبز پانیوں کی طرح آپس میں مل کر ماحول کو بہت رومینٹک بناتی تھیں۔ ندی پار بلند قامت جگمگاتی عمارتوں کی روشنیاں پانیوں میں مچھلیوں کی طرح پھریرے لیتی تھیں۔ کروز بطخوں کے جوڑوں کی طرح تیرتے تھے۔ شیشہ پینے والے سیاحوں کے منہ سے نکلنے والے دھوئیں کے مرغولے اس طرح ہوا میں تحلیل ہو جاتے جیسے کوئی بحری جہاز روانگی کے لیے بالکل تیار کھڑا ہو۔

سامنے والی ٹیبل پر ایک لڑکی سیل فون پر نہایت خوشگوار موڈ میں کسی سے باتیں کر رہی تھی۔ اگر میں یہ کہوں کہ اب تک میں نے اپنی زندگی میں اتنی نازک اندام حور شمائل پہلے نہیں دیکھی تو اس میں ایک فیصد بھی جھوٹ نہ ہو گا۔ اُس کو دیکھ کے یوں لگتا تھا جیسے میں کسی فش ایکوریم میں کھڑا ہوں۔ وہی رنگوں کا اِک جہان اور وہی خوبصورتیاں آنکھوں میں تیرتی تھیں۔ لاہور کے ایک ریسٹورنٹ میں ڈاکٹر طاہر تونسوی، ڈاکٹر سلیم اختر اور میں ڈنر کر رہے تھے۔ ساتھ والی ٹیبل پر اسی طرح ایک نہایت اسمارٹ اور خوبصورت لڑکی آ کر بیٹھی تو ڈاکٹر تونسوی نے بے ساختہ سرائیکی گانے کا ایک مصرعہ گنگنایا۔

’’پتلا ڈھولا اللہ جانڑے کہیں دے نصیب ہو سی‘‘

یعنی یہ اسمارٹ لڑکی خدا جانے کس کے نصیبوں میں لکھی ہو گی۔

اُس شام ندی کنارے بیٹھے میں بھی دیر تک یہی مصرعہ گنگناتا رہا۔

عبدالحمید امیری مجھے فلسطینی شاعر محمود درویش مصر کے شاعر صلاح عبدالصبور اور لبنان کے شاعر یوسف الخال کی شاعری سناتے رہے۔ بلاشبہ یہ ایک خوبصورت شام تھی۔

 

 

 

توجہ کا مرکز

 

دُبئی کے سابق حکمران مرحوم شیخ راشد بن سعید المکتوم، ان کے بیٹے شیخ مکتوم بن راشد المکتوم مرحوم اور دوسرے بیٹے شیخ محمد بن راشد المکتوم جو متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور دُبئی کے موجودہ حکمران ہیں، اس انقلابی تبدیلی کے روح رواں سمجھے جاتے ہیں جو اس خطے کی معاشرت اور معیشت میں برپا ہوئی لیکن متحدہ عرب امارات کے بانی صدر شیخ زائد بن سلطان النہیان کی بصیرت کے بغیر یہ سب ممکن نہیں تھا۔ موجودہ دُبئی کا بانی شیخ راشد بن سعید المکتوم کو قرار دیا جاتا ہے۔

۱۸۳۳ء سے دُبئی کی جدید تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔ کیونکہ اس برس قبیلہ بنی یاس کی شاخ آل بو فلاسہ سے تعلق رکھنے والے 800 افراد ابوظہبی چھوڑ کر دُبئی روانہ ہوئے۔ وہ دبئی کریک کے آس پاس آباد ہوئے۔ اُن کا ذریعہ معاش ماہی گیری، تجارت اور موتیوں کی تلاش میں سمندر کی غوطہ خوری تھا۔ ان کے قائدین عبید بن سعید اور مکتوب بن بوطی المکتوم تھے۔ عبید بن سعید کی وفات کے بعد ۱۹۳۶ء میں شیخ مکتوم اس قبیلے کے واحد امیر رہ گئے۔ یہ گویا ایک طاقتور اور کامیاب شاہی خاندان کی ابتداء تھی۔ اس وقت سے آج تک دُبئی پر یہی خاندان حکمران ہے۔

شیخ مکتوم کے دور سے دُبئی کو علاقائی تجارتی مرکز کی حیثیت دینے کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ یہ بھارت، ایران اور دیگر خلیجی ممالک سے جغرافیائی طور پر قریب اور منسلک تھا، کشتی اور جہاز سازی کا کام اس کے ساحلی علاقوں میں شروع کر دیا گیا تھا، موتیوں اور دیگر سامان کی تجارت ہونے لگی تھی۔ علاقے کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہو گئے تھے۔ دُبئی کے سچے موتیوں کی ایرانی بندرگاہ پہلا آؤٹ لیٹ بنی، اس دور میں برصغیر کے تاجر دُبئی میں سرمایہ کاری اور تجارت کے لیے آنے لگے۔

موجودہ حکمران شیخ محمد کے دادا شیخ سعید بن مکتوم المکتوم نے 1912ء سے اپنی وفات 1958ء تک دُبئی کی اس بستی پر حکومت کی۔ یہ مشکل دور تھا۔ عالمی جنگیں ہوئیں۔ جاپان نے 1930ء میں کلچر کیے ہوئے موتی متعارف کرا دیے جس سے اس بستی کی معیشت کو جو ’’سچے موتیوں ‘‘ کی فروخت پر منحصر تھی، بہت دھچکا لگا لیکن شیخ سعید نے صورت حال کو سمجھا اور اُنہوں نے معیشت کو تبدیل کر کے آمدنی کے مختلف ذرائع تلاش کیے۔ دُبئی کی بندرگاہ اور اس کے محل و وقوع کی اہمیت کو سمجھ کر اسے کامیاب تجارت کے لیے استعمال کیا۔ شیخ سعید کے بعد ان کے بڑے بیٹے مرحوم شیخ راشد بن سعید المکتوم دُبئی کے حکمران بنے۔ 1958 سے 1990 تک ان کا دورِ حکومت شاندار کامیابیوں سے عبارت ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دونوں باپ بیٹے کے دور میں 78 برس تک دُبئی امن، استحکام اور ترقی کا گہوارہ بنا رہا۔

شیخ راشد نے جب معیشت کو جدید خطوط پر تعمیر کرنے کا آغاز کیا تو ان کے خیالات محض حسین خواب نظر آتے تھے لیکن جلد ہی ان خوابوں کی تعبیر حاصل ہو گئی۔ ان کے اہم منصوبوں میں دُبئی کریک کو گہرا اور چوڑا کرنا، المکتوم پل، پورٹ راشد المکتوم اسپتال، دُبئی ایئرپورٹ، دُبئی ورلڈ ٹریڈ سنٹر، جبل علی پورٹ، جبل علی فری زون اور دُبئی المونیم کمپنی کا قیام شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس ریاست کی جدید معیشت کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔

1966ء میں سمندر کے قریب فتح فیلڈ سے تیل دریافت ہوا لیکن جلد شیخ راشد کی مستقبل بین نظریں بھانپ گئیں کہ تیل زیادہ عرصہ چلنے والا نہیں ہے۔ چنانچہ انہوں نے تیل کی آمدنی دیرپا ترقی اور متنوع معیشت پر لگانا شروع کی۔ شیخ راشد کا مشہور قول ہے :

’’میرے دادا اور میرے والد اُونٹ پر سواری کرتے تھے، میں مرسڈیز چلاتا ہوں۔ میرا بیٹا اور اس کی اولادیں لینڈ روور چلائیں گے لیکن اگر اس نے اپنی اقتصادی خوشحالی کو برقرار رکھنے کے لیے کچھ نہ کیا تو ممکن ہے میرے پڑ پوتوں کو پھر اُونٹ پر سواری کرنا پڑے۔ ‘‘

شیخ راشد کا وژن ٹھیک تھا۔ 2006ء میں دُبئی کی تیل و گیس سے ہونے والی آمدنی کل جی ڈی پی کا صرف 3 فیصد رہ گئی تھی لیکن اُنہوں نے دُبئی کو دنیا کے جدید ترین شہروں میں شامل کر کے اس کی معیشت کو مثالی بنا دیا تھا۔ ان کے بعد ان کے صاحبزادے شیخ مکتوم بن راشد المکتوم 1990 میں حکمران بنے۔ یہ بھی مثالی ترقی کا دور تھا۔ انہوں نے اپنے بھائی موجودہ حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کا تقرر 4 جنوری 1995ء کو بطور ولی عہد کیا جبکہ شیخ ہمدان بن راشد مکتوم کو نائب حکمراں بنایا۔ 2 نومبر 2004ء کو متحدہ عرب امارات کے صدر اور ابوظہبی کے حکمران شیخ زائد بن سلطان النہیان کا انتقال ہو گیا۔ پھر 4 جنوری 2006ء کو دُبئی کے حکمراں متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور وزیر اعظم شیخ مکتوم بن راشد المکتوم کا بھی انتقال ہو گیا۔ یہ دُبئی اور امارات کے لیے سخت صدمے اور بحران کا دور تھا۔

5 جنوری 2006ء کو امارات کی سپریم کونسل نے شیخ محمد بن راشد المکتوم کو متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور وزیر اعظم کے طور پر منتخب کیا اور متفقہ طور پر دُبئی کا حکمران بنا دیا۔ اُنہوں نے خود کو اپنے پیشرو کا بہترین جانشین ثابت کیا۔ شیخ محمد اپنی عرب روایات سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ انہوں نے لندن سے جدید تعلیم حاصل کی ہے۔ کیمبرج کا بیل اسکول آف لینگویجز ان کی مادرِ علمی ہے۔ 1967ء میں انہوں نے لندن سے 65 کلومیٹر دور واقع الڈر شاٹ کے کیڈٹ اسکول میں داخل ہو کر فوجی افسر کے طور پر تربیت حاصل کی۔ 1968ء میں وطن واپسی پر شیخ محمد فوج، سیاست، ادب، کھیل اور قیادت کا ہنر سمجھ چکے تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے مختلف عہدوں پر کام کے دوران نت نئے آئیڈیاز متعارف کرائے۔

موجودہ حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کے والد شیخ راشد بن سعید المکتوم نے اپنے بیٹوں کی تربیت میں مستقبل کے تقاضوں کو پیش نظر رکھا اور اُنہیں حکمرانی کے لیے تیار کیا۔ شیخ محمد نے قیادت کے گر اپنے والد اور دادا سے سیکھے۔

1968ء میں شیخ زائد بن سلطان النہیان اور شیخ راشد بن سعید المکتوم میں تاریخی ملاقات ہوئی جس میں دونوں امارات ابوظہبی اور دُبئی میں فیڈریشن قائم کرنے پر غور ہوا۔ اس اہم اجلاس میں شرکت کے لیے شیخ محمد لندن سے آئے، یہی وہ اجلاس ہے جس کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات وجود میں آئی۔ شیخ زائد نے اس موقع پر شیخ راشد سے پوچھا تمہارا کیا خیال ہے کیا ہمیں فیڈریشن قائم کرنا چاہیے ؟ شیخ راشد نے فوراً اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور کہا ’’میں ہاتھ ملا کر معاہدہ پکا کرتا ہوں اور آپ اس کے صدر ہوں گے۔ ‘‘

ان دونوں کے تاریخی معاہدہ کو ’’یونین اکارڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک بڑی فیڈریشن کے قیام کا آغاز تھا جس میں عجمان، فجیرہ، راس، الخیمہ، شارجہ، ام القوین شامل ہوئے۔ بحرین اور قطر نے بھی مذاکرات میں حصہ لیا۔ بات چیت چار برس تک جاری رہی اور 2 دسمبر 1971ء کو متحدہ عرب امارات کا قیام عمل میں آیا۔ قطر اور بحرین نے شمولیت اختیار نہیں کی لیکن راس الخیمہ 1972ء میں فیڈریشن کا حصہ بن گیا۔

یہ بات ہم سب کو بہرحال سمجھنا چاہیے کہ ایک خوشحال، روادار ترقی یافتہ معاشرہ قائم کرنے کی شرائط میں امن، سکون، استحکام اور تسلسل لازمی ہیں۔ آخر چند برس قبل تک ماہی گیروں کی بستی سمجھا جانے والا پسماندہ علاقہ آج دُنیا بھر کی توجہ کا مرکز کیسے بنا؟

 

 

 

میرے خواب جیسی مسجد

 

دُبئی سے ابو ظہبی سفر کے دوران سب سے دلکش نظارا مساجد کا ہوتا ہے۔ صحرا میں چند کھجور کے پیڑوں کے درمیان کوئی پیاری سی مسجد اچانک نمودار ہو کر آنکھوں میں خوبصورتیاں بھر دیتی ہے۔ منفرد رنگت اور دلکش طرزِ تعمیر کا شاہکار یہ مسجدیں مجھ ایسے بے نماز کو بھی اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔ ان کو دیکھ کے یوں لگتا ہے جیسے برسوں پرانے مہربان دوست لوٹ آئے ہوں۔ ان کے در و دیوار سے لپٹ جانے کو جی چاہتا ہے۔ ان میں بیشتر مساجد کیمل کلر کی (Camel Colour) ہوتی ہیں اور یہ اُونٹوں کی طرح صحرا میں اللہ کی نشانیاں لگتی ہیں جنہیں دیکھ کر دل بے اختیار سبحان اللہ کہتا ہے۔

یہاں کسی مسجد کی دیوار سے لگ کر زندگی گزاری جا سکتی ہے۔

شام کی اذان میں یہاں ایسی عجیب و غریب اُداسی گندھی ہوتی ہے کہ اُداسی سے بھی پیار ہو جاتا ہے۔

یہ مسجدیں دوستوں کی طرح یاد آنے والی ہیں۔

ان کا ذکر کر کے آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔

ابوظہبی میں داخل ہوتے ہی کچھ فاصلے پر زیر تعمیر شیخ زائد مسجد کو دیکھنے کے بعد پھر یو- اے – ای میں کچھ دیکھنے کو دل نہیں چاہا۔ سنا تھا نامکمل تصویر کا بھی اپنا حسن ہوتا ہے۔ یہ حسن میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔

اس کے طرزِ تعمیر کو دیکھ کرتا ج محل یاد آ گیا۔ مگر اس کی خوبصورتی کے سامنے وہ ہیچ تھا۔ اس کی ایک جھلک کے لیے لاکھوں تاج محل قربان کیے جا سکتے ہیں۔

بس کچھ ایسا ہی نظارہ تھا فرطِ مسرت اور حیرت سے دھڑکن کی رفتار دیکھ کر کئی بار دل نے خیر الٰہی کہا۔ میں نے بہت سا وقت یہاں گزارا۔ کئی طواف کیے اور اس کے ایک ایک منظر کو اپنی آنکھوں میں محفوظ کر لیا۔ یہ مسجد مجھے اپنی نظم ’’کوئی مسجد تو ایسی ہو، کی تعبیر لگی:

کوئی مسجد تو ایسی مسجد ہو

جو مرے خواب جیسی مسجد ہو

جس کی تعمیر میں دلاسے ہوں

سبز گنبد سہارے جیسا ہو

سُرخ اینٹیں ہوں دھڑکنوں جیسی

نام روشن ستارے جیسا ہو

لگ کے سینے سے سارے دُکھ رو لوں

در و دیوار، یار جیسے ہوں

دُور سے کھینچتے ہوں اپنی طرف

جس کے مینار، پیار جیسے ہوں

رونا چاہے کوئی تو روتا رہے

ہنسنا چاہے کوئی تو ہنس لے وہ

وہ خدا کا ہو یا کہ بندوں کا

جس کے آنگن میں کوئی خوف نہ ہو

جس طرح چاہوں میں نماز پڑھوں

لب کسی کا نہ مجھ کو ٹوک سکے

چاہے مستی میں جھوم جاؤں میں

ہاتھ کوئی نہ مجھ کو روک سکے

روز و شب ہوں کبوتروں جیسے

صبح جس میں دُعاؤں جیسی ہو

دوپہر چشمہ ٹھنڈے پانی کا

شام کالی گھٹاؤں جیسی ہو

جس کے دیوار و در کی خاموشی

دل کی تنہائیاں سمیٹ سکے

قافلہ جس کو شام پڑ جائے

اُس کے پہلو میں آ کے لیٹ سکے

یہ متحدہ عرب امارات کی سب سے بڑی اور دنیا کی آٹھویں سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس مسجد کو متحدہ عرب امارات کے بانی اور پہلے صدر شیخ زاید بن سلطان النہیان کے نام سے معنون کیا گیا ہے جن کا مزار بھی اس مسجد کے پہلو میں ہی ہے۔ اس مسجد کا ڈیزائن عالم اسلام کی دو بڑی مساجد یعنی بادشاہی مسجد لاہور اور حسن ثانی مسجد کاسا بلانکا سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہے۔ مسجد کے میناروں پر عرب اثرات نمایاں ہیں۔ یوں یہ مسجد عالم اسلام کے مختلف منطقوں کے طرزِ تعمیر کا ایک خوبصورت مجموعہ بن گئی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی مسجد ہے جس میں 40 ہزار نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد کے ہال میں بیک وقت 9 ہزار افراد کے نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے۔ خواتین کے لیے 1500 افراد کی گنجائش والا ہال اس کے علاوہ ہے۔ مسجد کے چاروں کونوں میں 115 میٹر بلند چار مینار ہیں۔ مسجد میں کل 57 گنبد ہیں۔ ان گنبدوں کی آرائش خوبصورت اطالوی سنگ مرمر سے کی گئی ہے جسے ’’بیانکو‘‘ کہا جاتا ہے۔ مسجد کے صحن کا فرش جو تقریباً 17 ہزار مربع میٹر پر محیط ہے، اس پر بھی سنگ مرمر کے خوبصورت ڈیزائن بنائے گئے ہیں۔ اس مسجد کی اِنفرادی خصوصیات میں اس مسجد کا قالین بھی شامل ہے جو کہ دنیا کا سب سے بڑا قالین ہے۔ 5627 مربع میٹر کا یہ قالین ایران کی ایک کمپنی کے ساڑھے بارہ سو کارکنوں کی شبانہ روز محنت کا حاصل ہے۔ اس کا ڈیزائن ایرانی فنکار علی خالقی کا بنایا ہوا ہے۔ قالین کا کل وزن تقریباً 47 ٹن ہے۔ اس مسجد کا فانوس بھی دنیا کا سب سے بڑا فانوس شمار ہوتا تھا لیکن اب دوسرے نمبر پر ہے۔ اس فانوس کا قطر 10 میٹر اور لمبائی 15 میٹر ہے۔ مسجد کی تفصیلات میں جائیں تو بے شمار خصوصیات سامنے آئیں گی لیکن ایک جملے میں بات کو سمیٹا جائے تو اس مسجد کی سب سے بڑی خوبی اس کا جاہ و جلال ہے۔

ابوظہبی میں سفیر پاکستان خورشید جونیجو نے ہمیں سفارت خانے میں لنچ پر مدعو کیا ہوا تھا۔ امجد اسلام امجد صاحب نے کھانے سے پہلے، کھانے کے دوران اور کھانے کے بعد اتنے لطائف سنائے کہ لطف آ گیا۔

ابوظہبی میں دن بھر خوب سیر کی گئی۔ بلاشبہ ابوظہبی دُنیا کے چند جدید خوبصورت شہروں میں ایک ہے۔ شام کو کورنش پر میں کافی دیر ٹہلتا رہا۔ واٹر بائیک پر کبھی کبھار کوئی لڑکا انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ چھینٹے اُڑاتا ہوا پاس سے گزر جاتا۔ لڑکی اُس کے جسم کے ساتھ گرنے کے ڈر سے اس طرح چمٹی ہوتی جیسے اُس کے وجود کا حصہ ہو۔ مختلف ملکوں کے لوگ یہاں شام کی سیر کر رہے تھے۔ ہم سب اجنبی تھے شاید یہی اس شام کی خوبصورتی اور دلفریبی تھی۔ اجنبیت کی وجہ سے یہ شہر اور یہ لوگ خوبصورت لگ رہے تھے۔ میں نے بڑے اہتمام سے اس اجنبیت کی لاج رکھی اور کسی سے علیک سلیک کی کوشش نہیں کی۔ سمندر اور صحرا سے بھی نہیں حالانکہ پہلی بار میں نے یہاں سمندر اور صحرا کو گلے ملتے دیکھا تھا۔ میں اُن کی عبادت میں مخل نہیں ہونا چاہتا تھا اس لیے کلام کیے بغیر لوٹ آیا۔ ابو ظہبی سے لوٹتے ہوئے میں سارا راستہ شیخ زائد بن سلطان النہیان کی شخصیت، سیاسی بصیرت اور قائدانہ صلاحیتوں کے متعلق سوچتا رہا جس کے بغیر ابوظہبی اور یو- اے – ای کی موجودہ ترقی نہ ممکن تھی۔

شیخ زید بن سلطان النہان (مرحوم) نے متحدہ عرب امارات کو ترقی یافتہ اقوام کی صف میں لا کھڑا کیا تھا۔ انہوں نے اپنی سیاسی بصیرت معاملہ فہمی اور دور اندیشی کی بدولت عرب اور مسلم ممالک میں اتحاد اور بھائی چارے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ وہ اعلیٰ اور مدبرانہ قیادت کے مالک تھے۔ پاکستان میں بہت سے فلاحی منصوبے ان کی مالی اعانت سے مکمل ہوئے۔

شیخ زید بن سلطان النہان 1918ء کو شیخ سلطان کے ہاں پیدا ہوئے تو عرب قبائل کی روایت کے مطابق ان کا نام ان کے دادا شیخ زاید کی مناسبت سے رکھا گیا جنہوں نے اس خطے پر 1855-1909ء تک حکمرانی کی جو کہ عرب امارات کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے کی حکمرانی تھی۔ ان کے والد کے بعد شیخ زید کے بڑے بھائی شیخ شکبوت النہیان نے 1928ء کے اوائل میں اس خطے کا اقتدار سنبھالا۔ اس وقت ریاست ابوظہبی دیگر خلیجی ریاستوں کی طرح برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدے میں شامل تھی۔ یہ معاہدہ عرب قبائل اور برطانیہ کے مابین 1822ء میں طے پایا تھا۔ اس وقت یہ خطہ نہایت پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ تھا۔ جس کی معیشت کا انحصار ماہی گیری سمندر سے موتی نکالنے اور اس کے علاوہ مختصر زراعت پر منحصر تھا۔ جب شیخ زید بن سلطان النہیان نے ہوش سنبھالا تو کسی بھی خلیجی ریاست میں باقاعدہ کوئی سکول نہیں تھا۔ اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرح انہوں نے بھی اسلامی اصولوں کی بنیادی تعلیم مقامی عالم سے حاصل کی۔ 1930ء میں جب شیخ زید بن سلطان النہیان نو عمر ہی تھے تو اس وقت ان کے بڑے بھائی شیخ شکبوت النہیان نے یہ محسوس کیا کہ شیخ زید سرکاری ذمہ داری سنبھالنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں اور جب صحرا کا پہلا جیالوجیکل سروے غیر ملکی کمپنی کی جانب سے کیا گیا تو شیخ زاید کو اس کی پہلی ذمہ داری سونپی گئی اور اس طرح ان کی رہنمائی میں عرب امارات کا پہلا جیالوجیکل سروے مکمل ہوا۔ جب جنگ عظیم کے بعد تیل کی پیداوار محدود پیمانے پر شروع ہوئی تو ان کے بڑے بھائی نے ان کی قابلیت اور اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے 1946ء میں ابوظہبی کے صوبہ العین کا گورنر مقرر کر دیا۔ اس وقت شیخ زاید کی عمر 28 سال تھی۔ انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر العین کو جو اس وقت ایک چھوٹے گاؤں کی شکل میں تھا، حیرت انگیز طور پر عرب دنیا کا سرسبز ترین اور خوبصورت شہر بنا دیا۔ شیخ زید بن سلطان النہان نے 1953ء میں پہلی بار اپنے بڑے بھائی کے ساتھ یورپ، امریکہ، عراق، ایران، انڈیا، مصر، لبنان اور پاکستان کا دورہ کیا۔ اس دوران انہوں نے وہاں کے سکولوں، کالجوں اور ہسپتالوں اور دوسری ضروریات زندگی کی کا مشاہدہ کیا اور اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے عہد کیا کہ وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر سہولتیں مستقبل میں اپنی ریاست کے باشندوں کو فراہم کریں گے۔ اس دورے سے شیخ زید کی زندگی میں ایک ایسی تبدیلی رونما ہوئی کہ انہوں نے نہ صرف اپنے عوام کے اندر ایک نئی روح پھونک دی بلکہ پورے ملک کو دنیا کے لیے ایک نمونہ بنا دیا۔ زندگی کے تمام شعبے بھرپور طریقے سے کامیابی کی طرف گامزن ہو گئے۔

1958ء میں تجارتی بنیادوں پر اس خطے سے تیل نکالا گیا اور 1962ء میں تیل برآمد کیا جانے لگا تو نئے چیلنجوں اور نئی دولت کا مقابلہ کرنے کے لیے النہان فیملی نے شیخ زاید بن سلطان النہیان کو 6 اگست 1966ء کو ابوظہبی کا حکمران مقرر کر دیا۔ جب سے لے کر آخری دم تک وہ اپنے خاندان اور عوام کے اعتماد پر پورا اُترے۔ وقت کے ساتھ ساتھ تیل کی پیداوار اور برآمدات بڑھتی گئیں اور شیخ زید اس تیل کی آمدن سے اپنی عوام کے لیے نئی راہیں کھولتے گئے۔ انہوں نے سڑکوں، مساجد، جدید ترین سکولوں، اعلیٰ ہسپتالوں، صحت عامہ، صنعت، زراعت، مواصلات، سماجی و بہبود اور اہم کاموں کی مد میں دولت کو استعمال کیا۔ بقول ان کے ایسی دولت کس کام کی جو عوام پر خرچ نہ کی جائے۔

جب 1968ء میں برطانیہ نے عندیہ ظاہر کیا کہ وہ خلیج کو آزاد کر دے گا تو شیخ زید بن سلطان النہیان نے دُبئی کے حکمران شیخ راشد بن سعید المکتوم کے ساتھ مل کر ایک فیڈریشن کے قیام کا اعلان کیا یہ ایک نئی فیڈریشن تھی اس سے قبل جب برطانیہ کے ساتھ شیوخ کی لڑائی ہوئی تو اس وقت تمام قبائل متحد ہو کر فیڈریشن کے تحت ایک بڑی قوت بن کر اُبھرے جس کے سربراہ شیخ زاید ہی تھے۔ اس وقت جبکہ اس خطے کو حقیقی آزادی سے سرفراز کیا جا رہا تھا۔ شیخ زاید نے اپنی سیاسی بصیرت اور مدبرانہ قیادت کی بدولت صحرائی قبائل کا اعتماد حاصل کر لیا اور ان کے تحمل اور بردباری کا یہ نتیجہ ہوا کہ جب برطانیہ باضابطہ طور پر 1971ء میں خلیج سے دستبردار ہوا تو ان کی قیادت میں سات ریاستیں ابوظہبی، دُبئی، شارجہ عجمان، راس الخیمہ، اُم القوین اور فجیرہ جو متحدہ عرب امارات کے نام سے منسوب ہیں تاریخ کے نئے باب میں داخل ہو گئیں اور اس طرح ایک اور ملک دنیا کے نقشے پر اُبھر کر سامنے آیا جس کا پرچم 2 دسمبر 1971ء کو لہرایا گیا۔ مسلم ممالک میں پاکستان اسے تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا۔ متحدہ عرب امارات فیڈریشن نے شیخ زاید کو اس کا پہلا صدر منتخب کیا اور حکمران دُبئی شیخ راشد بن سعید المکتوم کو نائب صدر اور وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔

شیخ زاید نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر عرب ممالک کے مابین مضبوط رشتے پیدا کیے اور ان کی ذاتی کوششوں سے عرب امارات، سعودی عرب، کویت، بحرین، عمان اور قطر نے مل کر عرب خلیج تعاون کونسل کی 1981ء کو ابوظہبی میں بنیاد رکھی اور عرب لیگ میں مصر کی دوبارہ شمولیت میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے عالمی سطح پر بھی ایک لیڈر کی حیثیت سے اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور ہمیشہ بین الاقوامی مسائل خاص کر افغانستان کے مسئلہ پر پاکستان کے مؤقف کی ہر پلیٹ فارم پر حمایت کی۔ اخلاقی امداد کے ساتھ ساتھ بے پناہ مالی امداد بھی کی۔ انہوں نے پوری دنیا میں انسانی حقوق اور دوسرے رفاہِ عامہ کے منصوبوں میں بڑھ چڑھ کر عطیات دیے۔ خاص طور پر انہیں پاکستان سے دلی لگاؤ تھا۔ وہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے تھے۔ انہوں نے لاہور اور کراچی میں ہسپتال اور فلاحی ادارے قائم کیے تو بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں کئی خوبصورت مساجد بنوائیں اور اس کے ساتھ ساتھ نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان میں اسلامی مراکز قائم کرنے میں اپنی ذاتی دلچسپی سے ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہسپتالوں، سکولوں، اسلامی مراکز، مساجد اور شفا خانوں کا قیام شیخ زاید کے انسانی خدمت کے جذبے کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ اس سلسلے میں شیخ زاید ہسپتال لاہور، رحیم یار خان، کراچی اور میر پور، سکھر وغیرہ میں قائم کیے گئے ہسپتال قابل ذکر ہیں۔ یہ تمام ہسپتال جدید سہولتوں اور لیبارٹریز سے آراستہ ہیں اور مقامی لوگوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔ صوبہ بلوچستان کے صحرائی علاقوں میں تازہ پانی کا پلانٹ، کنویں اور بجلی فراہم کرنا شیخ زاید کی انسانیت اور مسلمان بھائیوں کے لیے ہمدردی کی واضح مثال ہے۔ بلوچستان کے علاقوں میں ہاؤسنگ سکیموں کی تعمیر، سکولوں کا قیام اور خوبصورت سڑکوں کا جال ایک بڑا کارنامہ ہے اور پاکستان کے ساتھ ان کی محبت اور فیاضی کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ پاکستان اور عرب امارات کے انتہائی قریبی اور برادرانہ تعلقات ہیں۔ جن کی بنیاد تاریخ، کلچر اور باہمی افہام و تفہیم پر رکھی گئی۔ شیخ زاید کا پاکستان کی سماجی اور اقتصادی ترقی میں بے مثال کردار، خصوصی امداد برائے عوامی فلاحی منصوبے برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات، ان کی پاکستان کی بہتری اور ترقی کے لیے قابل قدر خدمات کبھی نہیں بھلائی جا سکتیں۔ انہوں نے گردشِ زمانہ اور علاقہ میں آنے والی تبدیلیوں کے باوجود پاکستان اور عرب امارات کے تعلقات میں کبھی کمی واقع نہ ہونے دی اور پاکستان اور متحدہ عرب امارات کی مشترکہ اقتصادی کونسل کے اجلاس میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری پر زور دیا۔

شیخ زاید بن سلطان النہیان نے تقریباً 38 سال تک حکمرانی کی۔ ان کے دادا شیخ زاید کے بعد ان کی طویل حکمرانی تھی۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں جس تیزی کے ساتھ دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر جس طرح مقابلہ کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کو نئی دنیا کے مدمقابل لا کھڑا کیا عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جہاں ایک صحرا تھا اور سمندر تھا لکڑی اور کھجور کے پتوں سے بنے ہوئے گھروں میں رہائش پذیر باشندوں کے لیے پینے کے لیے پانی بھی میسر نہیں تھا جس کے حصول کے لیے انہیں میلوں دور پیدل جانا پڑتا تھا پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک شخص کے ہاتھوں نا ختم ہونے والے ایک صحرا کو تاریخ نے اپنے اندر سمیٹ لیا اور وہ صحرا تاریخ کا ایک باب بن گیا جس کے دامن میں آج بلند و بالا عالی شان عمارتیں اپنے قدم جمائے کھڑی نظر آتی ہیں اور اس خطے میں ہر طرف آج زراعت نقطہ عروج پر نظر آتی ہے جس کی وجہ سے متحدہ عرب امارات کو دنیا کے خوبصورت ممالک میں شمار کیا جاتا ہے جہاں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا جال بچھا نظر آتا ہے۔ شیخ زاید کی خواہش تھی کہ علم کی شمع ہر گھر میں روشن ہو۔ ملک میں ناخواندگی کا خاتمہ ہو اور اس ناخواندگی کو ختم کرنے کے لیے انہوں نے اپنی نوجوان نسل کے حوصلے بلند کیے اور اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے العین یونیورسٹی قائم کی جو عرب امارات کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے جس میں سائنس، آرٹس کے علاوہ انجینئرنگ، آرکیٹکچر اور طب کے شعبے کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے والے کئی ہزار طالب علموں کو شیخ زاید کے خصوصی فنڈ سے فراخدلانہ وظائف اور مراعات دی جا رہی ہیں۔ جب متحدہ عرب امارات کا قیام عمل میں آیا تو حکومت کی جانب سے 140 ارب درہم کی خطیر رقم ترقی کے منصوبوں پر خرچ کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم، صحت، تعمیرات، زراعت غرض کوئی سا شعبہ نہیں جس نے ترقی نہ کی ہو۔ حتیٰ کہ بچے کی پیدائش پر شیخ زاید بن سلطان النہان کی طرف سے 400 درہم ماہانہ الاؤنس بھی مہیا کرنا قابل ذکر ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت مقامی باشندوں کی تعداد بہت کم تھی اور شیخ زاید کا تصور تھا کہ مقامی باشندوں کی تعداد اتنی ہو جائے کہ وہ پوری طرح سے اپنے ملک کے کاروبار سنبھال سکیں۔ شیخ زاید وقتاً فوقتاً اس سلسلے میں اپنے عوام سے خطاب کرتے اور اس بات پر زور دیا کرتے کہ ہمیں کسی کا محتاج نہیں ہونا۔ آپ محنت کریں میں آپ کے ساتھ ہوں۔ ان کی دلوں کو گرما دینے والی باتیں عرب امارات کے باشندوں پر اس قدر اثرانداز ہوئیں کہ یہاں کے باشندے آج زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی کے ساتھ اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے خواتین کے اندر بھی ایک شعور بیدار کیا اور ان کو برابری کے حقوق مہیا کیے اور آج خواتین بھی تمام شعبوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی نظر آتی ہیں۔

شیخ زاید کی ذاتی دلچسپی اور بعض علاقوں میں ان کی نگرانی میں گزشتہ چند سالوں کے دوران 56 ملین سے زیادہ سایہ دار درخت اور 12 ملین سے زیادہ پام اور کھجور کے درخت لائے گئے جبکہ دس لاکھ ایکڑ زمین کو کھیتی باڑی کے لیے آراستہ کیا گیا جہاں لہلہاتے کھیت بے آب و گیاہ صحرا میں ایک گلدستے کی مانند نظر آتے ہیں۔ شیخ زاید خدا داد صلاحیتوں کے مالک تھے اور ایسی انمول شخصیات مدتوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے عوام کو جہاں ان کی وفات سے ایک بڑے صدمے سے دوچار ہونا پڑا وہاں پوری مسلم اُمہ کو بھی اپنے عظیم رہنما سے جدائی کا دھچکا لگا ہے اور ان کی جدائی کا یہ خلا کبھی پورا نہ ہو سکے گا لیکن انہوں نے جس طرح صحراؤں میں رنگ برنگے گل کھلا کر نہ صرف امارات کی سرزمین کو رنگین کیا بلکہ یہاں کی فضاؤں کو محبتوں اور خوشبوؤں سے ایسا معطر کر دیا کہ صدیوں تک ساکنانِ امارات پر اس کا نشہ طاری رہے گا۔

 

 

 

مبارک باد مت دو

 

دُبئی میں آپ جہاں بھی جائیں 828 میٹر بلند برج خلیفہ کی دیو قامت عمارت آپ کا پیچھا کرتی ہے اور ہر جگہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ ہوائی جہاز سے نظارہ کریں تو برجِ خلیفہ کو دیکھنے کے بعد دُبئی، دُبئی نہیں لگتا بلکہ برجِ خلیفہ ہی اصل دُبئی نظر آتا ہے۔ یہ بہت بڑے نگران دیو کی طرح دبئی کے سینے پر اپنے قدم جمائے کھڑا ہے۔ دبئی میں قیام کے دوران میں بھی مسلسل اس عمارت پر نظر رکھتا ہوں۔ مجھے یہ وہم سا ہو گیا ہے جیسے یہ کسی وقت چل پڑے گی اور اپنے اردگرد کی چھوٹی چھوٹی عمارتوں کو جڑوں سے اُکھاڑ کر پٹخنا شروع کر دے گی۔ کیونکہ اب تک تو زمین پر ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ بڑی طاقتیں چھوٹی طاقتوں کا وجود برداشت نہیں کر سکتیں اور اُنہیں جڑوں سے اُکھاڑنا شروع کر دیتی ہیں۔ میں جب بھی کسی چھوٹی عمارت کے فلیٹ میں سویا ہوتا ہوں تو کمرے کی کھڑکی سے برج خلیفہ پر مسلسل نظر رکھتا ہوں۔ میں ایک چھوٹے ملک کا باشندہ ہوں اور اس لیے میرا شک اس بڑی عمارت کے حوالے سے کبھی ختم نہیں ہوتا۔ مجھے لگتا ہے کسی بھی وقت اس عمارت کی نیت بدلے گی اور یہ اپنے اردگرد کی عمارتوں کو تہس نہس کر دے گی۔ میری دُعا ہے کہ برج خلیفہ اس راز کو سمجھ جائے کہ چھوٹی چھوٹی عمارتوں کے وجود سے ہی اُس کی خوبصورتی اور استحکام ہے کیونکہ یہ راز چند بڑی طاقتوں کی سمجھ میں تو ابھی تک نہیں آیا۔

ڈاؤن ٹاؤن خلیفہ میں واقع ’’برج خلیفہ‘‘ دنیا کی بلند ترین عمارت، انسانی ہاتھوں سے تعمیر کیے جانے والے بلند ترین شاہکار سمیت ان گنت ریکارڈ کی حامل عمارت ہے۔ برج خلیفہ شیخ زید روڈ پر واقع دو کلومیٹر پر مشتمل ایک پٹی کا بھی نام ہے جس میں متعدد میگا پراجیکٹس موجود ہیں تاہم ان میں اہم ترین چونکہ برج خلیفہ ہے لہٰذا اسی کی مناسبت سے اس علاقے کا نام بھی برج خلیفہ ڈاؤن ٹاؤن رکھا گیا ہے۔ عمارت جس کا سابقہ نام برج دُبئی تھا ابوظہبی کے حکمران اور متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زید النہان کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس کی وجہ شیخ خلیفہ بن زید کی جانب سے ریاست کو حال ہی میں درپیش مالیاتی بحران سے نکلنے میں فراہم کی جانے والی مالی مدد تھی جس کے اعتراف میں عمارت کا نام خلیفہ کے نام پر رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔

ڈاؤن ٹاؤن برج خلیفہ آسمان کو چھوتے اس عظیم ٹاور کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد سے سیاحوں کی اوّلین پسند بن چکا ہے۔ اس کی وجہ ایک طرف تو برج خلیفہ ہے جبکہ دوسری جانب عمارت کے عین سامنے تعمیر کیے جانے والی دُبئی فاؤنٹین ہے جسے دنیا کے بلند ترین فوارے کا نام دیا جا چکا ہے۔ عمارت کا اگرچہ افتتاح کیا جا چکا ہے تاہم چونکہ اس کے اندرونی جانب سے ملبہ اُٹھانے اور صفائی ستھرائی کا کام تا حال جاری ہے ایسے میں عمارت کے اندرونی جانب کی سیر سیاحوں کے لیے ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فی الوقت علاقے میں سیاحتی سرگرمیاں محض عمارت کے بیرونی جانب کے نظارے تک ہی محدود ہیں۔

828میٹر بلند یہ عمارت دُبئی کے حکمرانوں کے زیر کنٹرول کنسٹرکشن کمپنی ’’عمار پراپرٹیز‘‘ اور دُنیا کے بہترین انجینئرز اور ماہر تعمیرات کی شبانہ روز محنت کے صلے میں زمین پر وجود میں آنے والا شاہکار ہے جس کی بلندی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر دو امپائر سٹیٹ بلڈنگز کو ایک دوسرے کے اُوپر کھڑا کیا جائے تب جا کر ان کی بلندی برج خلیفہ کے برابر ہو سکے گی۔ کونسل آن ٹال بلڈنگز اینڈ اربن ہیبیٹیٹ کے مطابق برج خلیفہ عمارات کی بلندی کا تعین کرنے کے لیے اپنائے جانے والے تینوں اہم پیمانوں جن میں عمارت کی نوک تک بلندی، زیر استعمال آنے والی بلند ترین منازل اور بلند ترین تعمیراتی شاہکار کے شعبوں میں بلند ترین عمارت قرار پائی ہے۔ 1.5 بلین ڈالرز کے لگ بھگ اخراجات سے وجود میں آنے والی اس عمارت کے بارے میں اُمید ہے کہ یہاں کاروباری سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاحوں کی گہما گہمی بھی عروج پر رہے گی۔ اس کی اہم وجہ عمارت کی بلندی ہے جس کی وجہ سے حد نگاہ تک دُبئی کا فضائی جائزہ لینا ممکن ہے۔ خیال رہے کہ فی الوقت یہ دنیا کی واحد عمارت ہے جو آپ کو دُبئی کا ٹھیک ویسا ہی نظارہ کرواتی ہے جیسا کہ آپ ہوائی جہاز سے کر سکتے ہیں۔

عمارت کی تعمیر میں سٹیل اور شیشے کی بڑی مقدار استعمال کی گئی جس کی وجہ سے یہ دن اور رات کے اوقات میں یکساں طور پر دُبئی کی سکائی لائن کا بھی نمایاں ترین حصہ ہے۔ اس کی وجہ دن کے اوقات میں عمارت پر پڑنے والی سورج کی کرنوں کا منعکس ہونا ہے جبکہ رات کے وقت عمارت پر کی جانے والی شاندار لائٹنگ اسے دُبئی میں موجود بلند و بالا عمارات میں ممتاز مقام عطا کرتی ہے۔ بیرونی جانب سے عمارت کو دیکھنے پر یہ اکیسویں صدی میں مغربی ماہرین تعمیرات کے ہاتھوں ڈیزائن کیا گیا کوئی شاہکار محسوس ہوتا ہے تاہم ہیلی کاپٹر یا ہوائی جہاز کے جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ برج خلیفہ عین اسلامی فن تعمیر کا عکاس ہے۔ اسلامی طرزِ تعمیر میں بنائے جانے والے مخصوص کنگرے اور محراب نما ڈیزائن عمارت کا نمایاں خاصہ ہے۔ عمارت کا بنیادی ڈھانچہ انگریزی کے حرف ’’Y‘‘ سے مشابہ ہے اور اس کا مقصد اردگرد کے زیادہ سے زیادہ حصے کا جائزہ لینے کو ممکن بنانے کے ساتھ عمارت کی تعمیر کے دوران ماہرین اور انجینئرز کو جس امر نے سب سے زیادہ پریشان کیا وہ عمارت کا ڈیزائن یا بلندی نہیں بلکہ دُبئی کا زلزلے کی فالٹ لائن پر ہونا اور یہاں چلنے والی تیز ہوائیں تھیں۔

جہاں تک اس عمارت کی تعمیر کے باعث قائم ہونے والے اور ٹوٹنے والے ورلڈ ریکارڈ کا تعلق ہے تو برج خلیفہ سے قبل دنیا کی بلند ترین عمارت کا اعزاز تائی پے 101 کو حاصل تھا تاہم برج خلیفہ نے 320 میٹرز کے فرق سے نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ تائی پے 101، 508 میٹر بلندی کے ساتھ 2004ء سے دنیا کی بلند ترین عمارت تھی۔ تاہم اس کے افتتاح کے چند ماہ بعد ہی عمارت ڈویلپرز نے برج دُبئی کی تعمیر کی اطلاع دے کرتا ئی پے کے عمارتی شاہکار پر حکمرانی کے خاتمے کا اعلان کر دیا تھا۔ علاوہ ازیں برج خلیفہ کو بلند ترین سٹرکچر کا اعزاز بھی حاصل ہوا ہے جو اس سے قبل 646.38 میٹر بلند اور وارسا ریڈیو ماسٹ کو حاصل تھا 160 منزلہ برج خلیفہ نے کثیر المنازل عمارتوں میں بھی 108 منزلہ ولس ٹاور کا ریکارڈ توڑا ہے۔ اسی طرح لفٹ سسٹم کے شعبے میں بھی برج خلیفہ نے انتہائی بلندی تک لے جانے والی دنیا کی واحد لفٹ کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اس کے بہترین معیار کی وجہ سے دنیا کے تیز ترین الیویٹر سسٹم کا اعزاز بھی برج دُبئی کو حاصل ہوا ہے۔ علاوہ ازیں عمارت کی اُوپر منازل پر پانی کی ترسیل کے لیے قائم کیے گئے سسٹم کی شاندار کارکردگی سے واٹر سپلائی کے شعبے میں بھی برج خلیفہ نے دنیا بھر میں منفرد ریکارڈ قائم کیا ہے۔ برج خلیفہ کو اپنی طرز کی دیگر عمارتوں میں ممتاز بنانے کی اہم وجہ یہاں رہائشی فلیٹس کی تعمیر بھی ہے۔ اسی وجہ سے عمارت کو دنیا کی پہلی انتہائی بلند ترین رہائشی بلڈنگ بھی قرار دیا گیا ہے۔ 154 ویں فلور پر موجود مسجد نے بھی اس عمارت کو دنیا کی بلند ترین مسجد کا اعزاز بخشا ہے۔ 512 میٹر کی بلندی پر عمارت کی بیرونی سجاوٹ کے لیے المونیم اور شیشے کے وافر مقدار میں استعمال کی وجہ سے بھی برج خلیفہ دیگر عمارتوں میں ممتاز ہے جبکہ دنیا بھر میں انتہائی بلندی پر قائم کیا جانے والا سوئمنگ پول بھی یہیں واقع ہے۔ یہ پول عمارت کی 76 ویں منزل پر تعمیر کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں عمارت کے سامنے موجود فوارہ بھی دنیا کا بلند ترین فوارہ قرار پایا ہے۔

برج خلیفہ بنیادی طور پر محض 560 میٹر بلند عمارت کی تعمیر کا منصوبہ تھا جسے بعد ازاں متعدد انجینئر کی مشاورت کے بعد 808 میٹر تک بلند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعد ازاں ڈیزائن، آرکیٹکٹ ایڈیرین سمتھ نے عمارت کی انتہائی بلندی کے حامل نقشے کو بدصورت قرار دیتے ہوئے اسے عمارت کے دیگر نقشے سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس کی بلندی میں مزید اضافہ کر دیا۔ فی الوقت عمارت کی نچلی منازل پر ہوٹل اور دفاتر وغیرہ قائم کرنے کا منصوبہ ہے جبکہ 76 تا 108 ویں منازل تک رہائشی فلیٹس تعمیر کیے گئے ہیں۔ امکان ہے کہ برج خلیفہ دُبئی کو درپیش مالیتی بحران سے نکلنے میں مدد فراہم کرے گا اور اس کا ثبوت عمارت میں موجود فلیٹس کی فروخت سے سامنے آیا ہے کہ جب فلیٹس فروخت کے لیے مارکیٹ میں پیش کیے جانے کے محض آٹھ گھنٹوں کے اندر اندر فروخت ہو گئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ عمارت خود سے وابستہ توقعات پر کس حد تک پورا اُترتی ہے۔

برجِ خلیفہ کی عمارت باقی عمارتوں سے اتنی بلند ہے کہ اُسے تنہائی کا احساس ہونے لگا ہے۔ کیونکہ وہ اکیلی ہے اُس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔ اُس کے قد کے برابر کوئی اور عمارت نہیں ہے جس سے وہ بات کر سکے۔ اپنے دل کا حال کہہ سکے۔ وہ اُس پروفیسر جیسی ہے جسے پرنسپل بنا دیا گیا ہو۔ بقول شاعر

ترقی پر مبارک باد مت دو

رفیقو! میں اکیلا ہو گیا ہوں

برجِ خلیفہ بھی ترقی کی وجہ سے اکیلا ہو گیا ہے۔ ایک دن مجھ سے اُس کی تنہائی دیکھی نہ گئی اور میں اُس کے پاس چلا گیا جیسے جیسے میرے قدم اُس کی جانب اُٹھتے چلے جا رہے تھے وہ بھی میری جانب بڑھتا چلا آ رہا تھا جیسے مجھے گلے لگانا چاہتا ہو، اپنا دُکھ رونا چاہتا ہو۔ مختلف ملکوں سے آئے ہوئے سینکڑوں لوگ وہاں موجود تھے مگر اُن میں برج خلیفہ کی تنہائی بانٹنے والے بہت کم تھے۔ زیادہ تر تو اُس کی تنہائی میں اضافہ کر رہے تھے۔ دور سیڑھیوں میں بیٹھا چھوٹی چھوٹی داڑھی والا ایک گورا جو کافی دیر سے نظریں جمائے برج خلیفہ کو دیکھے جا رہا تھا اور اُس محویت سے دیکھے جا رہا تھا کہ اس کی پلکیں بھی ساکت ہو گئی تھیں۔ وہ برجِ خلیفہ کی تنہائی بانٹنے والا تھا۔ برج خلیفہ کی آسمان سے باتیں کرتی عمارت جب شام سے گلے ملی تو زمین سے لے کر آسماں تک جیسے برقی قمقموں کی کہکشاں جگمگا اُٹھی۔ اُس کے قدموں میں جھیل کسی کنیز کی طرح ہاتھ دل پہ رکھے اور سرنگوں تھی۔ جھیل میں دُنیا کے خوبصورت فوارے سجے ہوئے تھے۔ اِردگرد کی عمارتیں اس جھیل کنارے اپنے تمام تر حسن اور بانکپن کے ساتھ موجود تھیں۔ ہر پندرہ منٹ بعد جھیل میں ایستادہ درجنوں فوارے میوزک کی آواز سنتے ہی پروفیشنل رقاصاؤں کی طرح اپنے جسموں کو پرفارمانس کے لیے تیار کر لیتے اور پھر جیسے جیسے میوزک فاسٹ ہوتا جاتا ان فواروں کے سینوں سے اُبلنے والے پانی کے چشمے اُس کی دھنوں پر رقص کرنے لگتے۔ رقص کرتے ہوئے کبھی وہ کنول کے پھولوں کی شکل اختیار کر لیتے اور کبھی لڑکیوں کی کلائیوں میں پہنی ہوئی چوڑیوں جیسی یوں لگتا جیسے جھیل میں سفید پریاں ناچ رہی ہیں۔ روشن پانی اور میوزک کا ملاپ منظر کو دیدنی بنا رہا تھا۔ برج خلیفہ موسیقی اور رقص کے دلدادہ بادشاہ کی طرح مکمل غرور اور تمکنت سے یہ سب دیکھ رہا ہوتا۔ یوں لگتا تھا جیسے برج خلیفہ کو خوش رکھنے کے لیے مزاج آشنا انجینئرز نے یہ اہتمام کیا تھا ورنہ اُس کی ناراضی سے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے تھے۔ فواروں سے اُبلتا پانی بل کھاتے اور لہراتے بہت سے سانپوں کی طرح کبھی بہت بلندی پر چلا جاتا اور کبھی ایک ساتھ دھڑام سے نیچے گر کر پانی کے ساتھ پانی ہو جاتا۔ پانی اور شام کے ملاپ سے پوری جھیل پر ایک دھُند کا سماں تھا۔ دیکھنے والوں کے لیے یہ ایک دلکش نظارہ تھا اور بیشتر سیاح اسے بار بار دیکھ رہے تھے۔ برجِ خلیفہ کے ساتھ ایک یادگار تصویر بھی ہر سیاح کی تمنا تھی۔ جدید ترین کیمروں کی مدد سے برج خلیفہ کو فوکس کر کے تصویر بنائی جاتی جس کے ۸۰ درہم سے ۱۰۰ درہم تک لیے جاتے۔ اس کے باوجود تصویر بنوانے والوں کا تانتا بندھا تھا۔ برجِ خلیفہ کے ساتھ واقع گرینڈ شاپنگ مال میں کچھ دیر آوارہ گردی کی گئی۔ یہ شاپنگ مال اتنا بڑا ہے کہ یہاں اکثر خریدار واپسی کا رستہ بھول جاتے ہیں۔ میں نے احتیاطاً بہت سی نشانیاں یاد کر لیں مگر اس کے باوجود رستہ بھول گیا۔ ستم بالائے ستم جس سے رستہ پوچھتا وہ خود راستے کی تلاش میں ہوتا۔ خدا خدا کر کے صراطِ مستقیم ملا جو کہ دُبئی جیسی آزاد خیال اسٹیٹ میں کسی نعمت عظمیٰ سے کم نہ تھا۔

’’آگے بڑھ کر مستقبل کا سامنا کرو‘‘

حالیہ چند برسوں میں دُبئی میں شاندار تعمیرات ہوئی ہیں جن میں سے ’’سکائی دُبئی‘‘ منفرد اور قابل ذکر مقام ہے۔ یہ برف سے تعمیر کردہ ایسا ریزارٹ ہے، جہاں شدید گرمی کے موسم میں بھی سیاح گرم جیکٹیں پہن کر یہاں سیر کے لیے آتے ہیں۔ سکائی دُبئی ایک انڈور سکائی ریزارٹ ہے جو 22,500 مربع میٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ سکائی دُبئی مال آف ایمریٹس کا حصہ ہے جسے دنیا کا سب سے بڑا شاپنگ مال ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

سکائی دُبئی کا افتتاح نومبر 2005ء میں ہوا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک ہزاروں ملکی و غیر ملکی افراد اس کی سیر کر چکے ہیں۔ سکائی دُبئی بنانے کا مقصد یہاں کے عوام کو ایسا سرد ماحول فراہم کرنا تھا جہاں وہ نہ صرف برفانی علاقوں میں پڑنے والی برف سے محظوظ ہو سکیں بلکہ یہاں سکیٹنگ سے لطف اندوز بھی ہو سکیں۔ دُبئی جیسے گرم صحرائی خطے میں سکائی دُبئی کی تعمیر یقیناً ایک نیا اور اچھوتا تجربہ ہے۔ اس سے ان مقامی افراد کو بے حد سہولت حاصل ہو گئی ہے جو سرد موسم اور برف باری کا نظارہ کرنے کے لیے ٹھنڈے علاقوں میں نہیں جا سکتے۔

سکائی دُبئی میں 85 میٹر بلند چوٹی بنائی گئی ہے جو پانچ ڈھلوانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے ساتھ ہی سکیٹنگ کے لیے 400 میٹر طویل راستہ ہے۔ یہ دنیا کا سب سے طویل انڈور بلیک آن ہے۔ یہاں سکائیرز کو جدید کوئیڈ لفٹ کے ذریعے بآسانی چوٹی پر پہنچا دیا جاتا ہے۔ پہاڑی کی ڈھلوانوں کے ساتھ 3000 مربع میٹر پر محیط سنو پارک ہے جہاں پر لوگ برف پر چل کر لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں برف کی سلائیڈز، کلائمبنگ ٹاور، سنو بال شوٹنگ گیلری، برف کا غار اور ایک 3D تھیٹر بھی ہے۔ سکائی دُبئی میں آویزاں سنو مین اس ریزارٹ کی خوبصورتی اور کشش کو دو چند کرتا ہے۔

سکائی دُبئی کا درجہ حرارت جدید انسولیشن سسٹم کے ذریعے دن کے وقت منفی 1 ڈگری سینٹی گریڈ اور رات کے وقت منفی 6 ڈگری سنٹی گریڈ رکھا جاتا ہے۔ سکائی دُبئی کے درجہ حرارت کو سرد رکھنے کے لیے روزانہ 3000 گیلن تیل صرف ہوتا ہے۔ سکائی دُبئی اگرچہ نوجوانوں کو سکیٹنگ کا بھرپور موقع فراہم کرتا ہے یہاں خواتین اور بچوں کی دلچسپی کا سامان بھی موجود ہے۔ بچے اور والدین سنو پارک میں چہل قدمی کر کے یا برف پر سے پھسل کر خوب لطف اُٹھاتے ہیں۔

سنو بال شوٹنگ بال 3D گیلری اور سنو مین خاص طور پر بچوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ سکائی دُبئی کا وزٹ کرنے والوں کو مخصوص کپڑے پہنائے جاتے ہیں اور سیکٹنگ سے متعلق ضروری ساز و سامان فراہم کیا جاتا ہے۔ سکائی دُبئی کے داخلی راستے پر موجود ریسٹورنٹس اور کیفے ٹیریا سیاحوں کی توجہ فوری طور پر اپنی جانب مبذول کرا لیتے ہیں۔ سکائیرز حضرات کے لیے یہاں سکیٹنگ کے آلات ہی نہیں بلکہ اس کی تربیت کے لیے تربیت یافتہ عملہ بھی موجود ہے جو سکیٹنگ سے قبل ضروری معلومات سکائیرز کو بتاتا ہے۔

یہاں بچوں اور نوجوانوں کے لیے سنو سکول بھی قائم کیا گیا ہے جہاں کھیل ہی کھیل میں سکیٹنگ میں مہارت حاصل کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ سکائی سکول میں بچوں سے لے کر بوڑھوں تک ہر عمر کے افراد کو ان کے تجربے اور صلاحیت کے مطابق تربیت دی جاتی ہے۔ اگر آپ سکیٹنگ کے عمل سے بالکل ناواقف ہیں مگر اس کے باوجود سکیٹنگ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو سنو سکول کے ماہرین ایک گھنٹے کے لیکچر میں آپ کو تمام بنیادی اصول سمجھا دیں گے۔ ان کے ذریعے آپ سکیٹنگ کے پہلے مرحلے کو پرفارم کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔

سکائی دُبئی میں ایک منفرد قسم کا پولر بیئر کلب بھی ہے جہاں کھیل ہی کھیل میں بچوں کو بہت کچھ سکھایا جاتا ہے۔ یہ پولر کلب بچوں کی ذہنی وسعت و کشادگی کا سبب بنتا اور ان کے تخیل کو پروان چڑھاتا ہے۔ بچے اس کلب میں ماحولیاتی معلومات حاصل کرتے اور اپنی مہارتوں میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ پولر بیئر کلب میں بچوں کو ایک کتاب دی جاتی ہے جب کوئی بچہ کسی گیم یا لیکچر کا ایک لیول مکمل کرتا ہے تو اس کا ریکارڈ اس کتاب میں لکھ دیا جاتا ہے۔ جب بچہ تمام مراحل طے کر لیتا ہے تو اسے پولر بیئر بیج دیا جاتا ہے۔ اس کتاب جسے پاسپورٹ بھی کہا جاتا ہے، کا ملنا بچوں کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں ہوتا۔ یہ اسی وقت دیا جاتا ہے جب بچہ تمام مراحل میں مہارت حاصل کر لے۔

2007ء میں سکائی دُبئی کو تھیم انٹرٹینمنٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے آؤٹ اسٹیڈنگ اچیومنٹ ایوارڈ دیا جا چکا ہے۔

ورلڈ آئی لینڈز

ورلڈ آئی لینڈز در اصل 200 مصنوعی جزائر کا مجموعہ ہے جنہیں اس طرح بنایا گیا ہے کہ بلندی سے دیکھنے پر یہ دنیا کا نقشہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ جزائر دُبئی کے ساحل سے تقریباً 4 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ ان جزائر کا انفرادی رقبہ تقریباً 14000 مربع میٹر سے لے کر 42000 مربع میٹر تک ہے۔ جزائر کا درمیانی فاصلہ اوسطاً 100 میٹر ہے۔ مجموعی طور پر یہ جزائر 9 کلومیٹر طویل اور 6 کلومیٹر چوڑے رقبے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس منصوبے پر ہونے والے اخراجات کا تخمینہ 14 بلین امریکی ڈالر ہے۔ جزائر کی انفرادی قیمت 15 سے 50 ملین ڈالر تک ہے۔ اس منصوبے کا افتتاح 6 مئی 2003 کو شیخ محمد نے کیا تھا۔ جو کہ اب تکمیل کے مراحل میں ہے۔

دُبئی کے ساحل

دُبئی کے ساحل بھی سیاحوں اور بالخصوص مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے سیاحوں کے لیے خصوصی کشش کا باعث ہیں۔ ان ساحلوں کی سفید ریت بحیرۂ عرب کے کم گہرے لیکن صاف شفاف پانی اور گرم موسم کی وجہ سے یورپ کی سردی سے ٹھٹھرے ہوئے انگریز یہاں کھچے چلے آ رہے ہیں۔ در حقیقت یہ ایک ہی طویل ساحلی پٹی ہے جو مختلف ہوٹلوں، کلبوں اور عوامی ساحلوں میں تقسیم ہے۔ عوامی ساحلوں پر پورے خاندان کے لیے پکنک منانے کی مکمل سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ بچوں اور بڑوں کے لیے مختلف طرح کے کھیلوں کا بھی اہتمام ہے اور اگر آپ خود کچھ پکا کر کھانا چاہیں تو وہ بھی ممکن ہے۔ ویسے تو یہاں تقریباً ہر طرح کا کھانا دستیاب ہوتا ہے۔

ان ساحلوں کا ذکر آئے تو یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ یہاں کی عریانی بہت سے روایتی مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے۔ کیونکہ چار دیواری کے اندر جو کچھ بھی ہو مگر ایک عرب اور اسلامی ملک میں یوں سر عام کم لباسی کے مظاہرے کوئی اچھی روایت نہیں۔

دُبئی انٹرنیشنل سٹی

دُبئی انٹرنیشنل سٹی ایک بہت بڑا تعمیراتی اور ترقیاتی منصوبہ ہے جو کہ رہائشی کاروباری اور تفریحی سہولیات فراہم کرے گا۔ اس بین الاقوامی شہر کا کل رقبہ تقریباً آٹھ سو ایکڑ ہے اور اس کا نقشہ مشرقِ وسطیٰ کے روایتی قالینوں کے ڈیزائن سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہے۔ تکمیل کے بعد یہاں تقریباً ساٹھ ہزار افراد کی رہائش کی گنجائش ہو گی۔ انٹرنیشنل سٹی میں بہت سی منفرد اور حیرت انگیز تعمیرات کی جائیں گی جن میں ایک ڈریگن مارٹ ہے جو دُنیا کی سب سے بڑی مشینوں اور اوزاروں کی مارکیٹ ہو گی۔ اس منصوبے کو 10 کلسٹرز یا حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر کلسٹر کسی ملک کے نام پر بنایا جا رہا ہے اور اسی لیے اس کا نام انٹرنیشنل سٹی رکھا گیا ہے۔

ایک طرف سے شروع کیا جائے تو سب سے پہلے چینی بلاک یا کلسٹر سامنے آتا ہے۔ چائنا کلسٹر کی عمارات کا طرزِ تعمیر چینی ثقافت کی نمائندگی کرتا ہے۔ پگوڈانما عمارات سرخ رنگ کا استعمال اور دیگر چینی علامات اس علاقے کو منفرد بناتی ہیں۔ ڈریگن مارٹ بھی اسی حصے میں تعمیر کی گئی ہے۔

انگلینڈ کلسٹر میں داخل ہوں تو لندن کا روایتی حصہ یاد آتا ہے۔ خصوصاً 18 ویں 19 ویں صدی کا طرزِ تعمیر۔ یہاں کی 2، 3 اور 4 منزلہ عمارتوں کا بیرونی منظر، چھتیں اور چمنیاں آپ کو لندن کی کسی سڑک پر لے جاتی ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت فرانس کلسٹر کی ہے جہاں کی رہائشی عمارات مکمل طور پر فرانسیسی طرزِ تعمیر کی نمائندگی کرتی ہیں لیکن پرشیا کلسٹر تو آپ کو بالکل ہی ایران میں لے جاتا ہے۔ انٹرنیشنل سٹی کے مرکز میں واقع اس حصے کی عمارات روایتی ایرانی گنبدوں، محرابوں اور دریچوں سے مزین ہیں۔ رہائشی علاقے کے آخر میں گریس سٹی واقع ہے۔ اس علاقے کا یونانی طرزِ تعمیر آپ کو ہومر، ارسطو اور سکندرِ اعظم کی یاد دلاتا ہے۔ روسی کلسٹر روسی طرزِ تعمیر کی نقل تو کرتا ہے لیکن امارات میں روس کی سردی کہاں سے لائی جائے۔ سپین کلسٹر بھی اس شہر کا ایک خوبصورت حصہ ہے جہاں کی عمارات میں سپین کی قدیم اور روایتی عمارات کی جھلک نظر آتی ہے۔ کچھ ایسی یہ صورت حال مراکش، اٹلی اور امارات کلسٹر کی بھی ہے۔

ابن بطوطہ مال

دُبئی کی شیخ زاید روڈ پر واقع یہ بازار کئی حوالوں سے منفرد ہے۔ اس کا نام مراکش کے مشہور عالم سیاح ابن بطوطہ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس بازار کے چھ حصوں کے نام دنیا کے ان علاقوں کے نام پر رکھے گئے ہیں جہاں جہاں ابن بطوطہ کو جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ یعنی چین، ہندوستان، فارس، مصر، تیونس اور اُندلس۔ اس بازار کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اگر کوئی چیز یہاں دستیاب نہیں تو پھر پورے متحدہ عرب امارات میں بھی نہیں ملے گی اور اگر کوئی چیز امارات میں دستیاب ہے تو وہ ابن بطوطہ مال سے بھی مل جائے گی۔ آسٹریلیا اور فرانس کی دو بڑی کمپنیوں نے جو سٹور کھولے ہیں وہی اپنی جگہ بڑے بازاروں کا نمونہ ہیں۔ بازار میں متعدد جدید ترین سینما ہال اور کثیر مقدار میں ریستوران اور کافی شاپس بھی موجود ہیں۔ یہاں آنے والے بچوں اور بڑوں کی تفریح کے لیے قدیم اور جدید کئی طرح کے اہتمام کیے گئے ہیں۔ بازار کے ہر حصے کا نام جس علاقے کے نام پر رکھا گیا ہے اس کی ثقافت اور تہذیب کی جھلک بھی وہاں نظر آتی ہے۔

دُبئی آٹو ڈروم

یہ اس علاقے یعنی مشرق وسطیٰ میں پہلا مکمل سہولیات سے آراستہ بین الاقوامی معیار کا موٹر سپورٹس سٹیڈیم ہے۔ اس میں نہ صرف بین الاقوامی معیار کی موٹر ریسوں کا مکمل اہتمام ہے بلکہ اس مقصد کے لیے ایک اعلیٰ معیار کا تربیتی ادارہ بھی قایم کیا گیا ہے۔ اس سٹیڈیم کا افتتاح 2004ء میں ہوا تھا اور اس وقت سے یہاں نہ صرف بین الاقوامی مقابلے بلکہ متنوع نوعیت کی دیگر بہت سی تقریبات بھی منعقد ہو چکی ہیں۔ کنسرٹس، کانفرنسوں اور سیمینارز کے علاوہ یہاں کی خصوصی دلکشی یہاں ہونے والی گاڑیوں کی نمائشیں ہیں۔ گاڑیاں بنانے والی بڑی بڑی کمپنیاں گرم موسم میں اپنی گاڑیوں کی کارکردگی چیک کرنے کے لیے بھی اس جگہ کو استعمال کر رہی ہیں۔ سٹیڈیم کی حدود میں فائیو سٹار ہوٹل کے معیار کی رہائشی سہولیات بھی فراہم کر دی گئی ہیں۔

ڈائنامک ٹاور

متحدہ عرب امارات اور بالخصوص دُبئی میں منفرد عمارتوں کی کمی نہیں لیکن اس کے باوجود ڈائنامک ٹاور صرف دُبئی یا مشرق وسطیٰ نہیں بلکہ پوری دُنیا میں اپنی نوعیت کی واحد عمارت ہو گی۔ اپنی تعمیراتی انفرادیت کے سبب، بہت سے لوگوں کے خیال میں یہ دُبئی کی پہچان بن جائے گا۔ یہ ایک مکمل طور پر متحرک عمارت ہو گی۔ اس کی 80 منزلیں الگ الگ رفتار سے گھومیں گی اور یوں یہ ٹاور مسلسل اپنی شکل تبدیل کرتا رہے گا۔ مشہور عالم ماہر تعمیرات ڈاکٹر ڈیوڈ فشر کے اس ناممکن نظر آنے والے خواب کو دُبئی کے ڈائنامک گروپ نے شرمندہ تعبیر کر دیا ہے۔ اس 1380 فٹ بلند عمارت میں دفاتر بھی ہوں گے اور دکانیں بھی۔ چھوٹے فلیٹ بھی ہوں گے اور محل نما مکانات بھی جن میں آپ اپنی گاڑی بھی لے جا سکیں گے۔ ایک عدد عظیم الشان لگژری ہوٹل بھی اور یہ سب کچھ مسلسل گردش میں ہو گا۔ ڈاکٹر ڈیوڈ فشر کہتے ہیں کہ اس عمارت کو بنانے کے لیے انہیں حوصلہ دُبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کے ایک جملے نے دیا تھا۔

’’مستقبل کے آنے کا انتظار نہ کرو، آگے بڑھ کر مستقبل کا سامنا کرو‘‘

 

 

 

ہجرت کے دُکھ

 

میں دبئی سے رُخصت ہو رہا تھا۔ میری آنکھوں میں وہ تمام مناظر گھوم رہے تھے جو یہاں قیام کے دوران میں نے دیکھے تھے۔ سنا ہے جب انسان مرنے لگتا ہے تو اُس کی پوری زندگی کی فلم چند لمحوں میں اُس کی آنکھوں کو دکھا دی جاتی ہے۔ میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال سے دوچار تھا۔ کسٹم کاؤنٹر پر بیٹھی دو عرب بھاری بھرکم خواتین نے سامان چیکنگ کے دوران کمال مہارت سے جب دو پرفیوم اور ایک الیکٹرک کیٹل غائب کر لی تو مجھے اسی کاؤنٹر پر بیٹھی ایک عرب لڑکی بہت یاد آئی جب میں یہاں سے پہلی بار واپس جا رہا تھا تو وہ ڈیوٹی پر مامور تھی۔ وہ خود کسی انمول پرفیوم جیسی لگتی تھی جس کی Presentation اپنی طرف متوجہ کرتی تھی اور اُسے دیکھ کر الیکٹرک شاک لگتے تھے۔

پہلے کچھ دیر چراغوں میں نظر آتا ہے

پھر وہ چہرہ مری آنکھوں میں نظر آتا ہے

خوبصورتی کا کوئی معیار آج تک متفقہ طور پر طے نہیں ہو سکا۔ ہو سکتا ہے ایک چیز میرے نزدیک بہت خوبصورت ہو اور دوسرے کے نزدیک وہ بہت عام سی ہو۔ اگر خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھوں میں ہوتی ہے تو میرے جیسے لوگ جو دل سے دیکھتے، دل سے سوچتے اور دل سے فیصلے کرتے ہیں اُن کے معیار یقیناً جدا ہوں گے۔

دو حبشی عورتیں ڈیجیٹل کیمرے سے ایک دوسرے کی تصاویر بنانے میں مصروف تھیں۔ ایک حبشن تصویر بنانے کے بعد LCD پر اُسے دیکھتی اور دوسری حبشن کے حسن کی اتنی تعریف کرتی کہ میں اذیت سے دوچار ہونے لگتا۔ جب وہ Very Beautiful کہتی تو میں اُسے دیکھنے پر مجبور ہو جاتا اور اُس Very Beautiful خاتون کو دیکھ کر میں ڈر جاتا۔ کنک کانگ اور اُس کی شباہت میں بس اتنا فرق تھا کہ کنگ کانگ کی ناک اس خاتون رعنا سے قدرے بہتر تھی۔

جب وہ اُسے Nice, Pretty اور Innocent جیسے توصیفی الفاظ سے نوازتی تو میں خوفزدہ ہو جاتا۔ اگر یہ معصومیت تھی تو الامان۔ کیونکہ بچے اُس معصوم چہرے کو دیکھ کر سہم جاتے تھے۔ اُس نے جو جوگر پہن رکھے تھے کسی نومولود بچے کو اُس میں سلایا جا سکتا تھا تو ایسی خاتون اپنے خاندان، قبیلے اور لوگوں میں بہت خوبصورت اور معصوم شکل تھی تو یقیناً وہ اہل نظر درست ہوں گے کیونکہ خوبصورتی کا کوئی طے شدہ معیار تو ہے نہیں۔ عالمی مقابلہ حسن جیتنے والی خواتین کو دیکھ کر بھی اکثر مایوسی ہوتی ہے۔ ہمارے ہنزہ اور کیلاش کی تو بات ہی کیا پنجاب کے گلی کوچوں میں راہ چلتے ایسی لڑکیاں مل جاتی ہیں کہ گلی کوچے جنت کے گلی کوچے لگنے لگتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی حبشی بھی اپنے سفرنامے میں اس وقت ایسے جذبات کا اظہار کر رہا ہو اور ہمارے نزدیک جو خوبصورتی ہے اُس کے معیار کو برا بھلا کہہ رہا ہو۔ عین ممکن ہے۔

اُڑان میں ابھی تاخیر تھی۔ پاکستان جانے والے سب مسافر انتظار کھینچ رہے تھے۔ کچھ چہرے خوش تھے تو کچھ ملول۔ ہجرت کے اپنے دُکھ اور اپنی خوشیاں ہوتی ہیں جن کو ہجرت کرنے والے ہی جان سکتے ہیں۔

میلہ دیکھنے والوں کو کیا معلوم ہجرت کے دکھ کیا ہوتے ہیں۔ ہم شاعر تو میلہ دیکھنے والے تھے۔ چند دن کا قیام، سیر و تفریح، ہنسی مذاق پھر خدا حافظ۔

میلے میں بچہ جمہورا بننے والوں، مجمع لگانے والوں، موت کے کنوئیں میں ناچنے والوں اور سرکس میں جوکر بننے والوں کے دُکھ کو تماشا دیکھنے والے نہیں سمجھ سکتے۔ ڈگڈگی بجا کر ریچھ نچانا یا بندر اور بکری سے اداکاری کرانے والوں کا کرب کیا ہے۔ تماشا دیکھنے والے کیا جانیں۔

میں اُس پاکستانی کے دکھ کو کیسے سمجھ سکتا جو اسی فلائٹ سے پاکستان جا رہا تھا اور اُس کی آنکھوں میں ساون کا مہینہ تھا۔ وہ کئی برس قبل مزدوری کرنے یہاں آیا تھا۔ شب و روز کی محنت نے اُس کی تیر جیسی جوانی کو کمان میں بدل دیا تھا۔ وقت اُس کے جوان جذبوں پر اس طرح گزر گیا تھا جیسے سیلاب شاداب فصلوں پر گزر جاتا ہے۔ اُس نے جب ایک روز سریا ڈھوتے ہوئے بیٹی کی علالت کی خبر سنی تو وہیں بیٹھ گیا۔ زندگی بھر سریا ڈھونے والے ہاتھوں میں اپنا آپ اُٹھانے کی سکت بھی نہ رہی۔ جتنی جمع پونجی تھی سمیٹ کر وطن چلا گیا۔ کئی ماہ علاج کرانے کے بعد جب اُس کے آنگن کی کلی مرجھاتی ہی چلی گئی اور خود وہ بال بال قرض میں بھیگ گیا تو مجبوراً اپنے جگر کے ٹکڑے کو بستر علالت پر چھوڑ کر دُبئی آ گیا۔ اس کے دل و دماغ میں اب ایک ہی بات تھی کماؤں گا نہیں تو علاج کیسے ہو گا۔ اُدھر اُس کی بیٹی نے اپنے ماں باپ کے مجبور چہروں کو پڑھ لیا۔ اُن کی بے بسی اُس سے دیکھی نہ گئی۔ چپ چاپ مر گئی۔

ابھی اُسے دبئی آئے ہوئے دوسرا دن تھا۔ سو اب وہ دوبارہ اپنی بیٹی کی قبر پر چند آنسو گرانے جا رہا تھا جو اُسی کی امانت تھے اور وہ ان آنسوؤں کو دیارِ غیر میں گرا کر امانت میں خیانت نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اُس نے اپنی بیٹی کی آنکھوں میں جو اُمید کے دیپ جلائے تھے وہ کب کے بجھ چکے تھے بلکہ وہ آنکھیں بھی رزقِ خاک ہو چکی تھیں جنہیں وہ چوم کر آیا تھا۔ اُس کی بیٹی کی آنکھیں اُس کے انتظار میں کھلی رہیں اور وہ اپنے ہاتھوں سے اُنہیں بند بھی نہ کر پایا۔ یہ بات مجھے بتاتے ہوئے اُس کی حالت ایسے ہو گئی جیسے کوئی پر شکوہ عمارت دیکھتے ہی دیکھتے زمین بوس ہو جائے۔

پانچ لڑکیاں جو شکل و صورت، بول چال اور عادات سے خالص ’’پینڈو‘‘ تھیں۔ اپنے سیکسی لباس کی وجہ سے مسافروں یہاں تک کہ خواتین مسافروں کی بھی توجہ کا مرکز بن گئی تھیں۔ وہ ایک ہی سیل فون پر باری باری اپنے درہم خرچ کرنے والے عاشقوں سے پیار بھری باتیں کر رہی تھیں۔ جب ایک لڑکی فون پر بات کر رہی ہوتی تو باقی لڑکیاں ٹھیٹھ پنجابی میں اُس کے کرتوت بیان کرنے لگتیں بلکہ ہا تھا پائی کر کے چھیڑ خوانی بھی کرتیں اور اس چھیڑ خوانی میں اُن کے سیکسی لباس مزید سیکسی ہو جاتے۔ ان لڑکیوں کا سحر ایک اور لڑکی نے آ کر توڑ دیا جس کی آنکھوں میں سرخ دھاگے تھے جو رات بھر جاگنے سے نمودار ہوتے ہیں اور مجھے اُس کو کسی کا یہ شعر یاد آ رہا تھا کہ

تیری آنکھوں میں سرخ دھاگے ہیں

رات کس کے نصیب جاگے ہیں

وہ پاکستانی تھی اور اپنے کسی عرب دوست سے عربی میں بے تکلف اور اردگرد کے ماحول سے بے نیاز ہو کر باتیں کر رہی تھی۔ اُس کے پاس بڑی ایل سی ڈی والا موبائل تھا جس میں اُس عربی کو بات کرتے میں واضح طور پر دیکھ سکتا تھا۔ البتہ جب یہ لڑکی آئس کریم کھانے کے انداز میں اُسے Kiss کرتی تو وہ منظر مجھ سے نہ دیکھا جاتا۔

میرے ساتھ والی نشست پر نشے میں دھُت کوئی گجر آ کر بیٹھ گیا تھا۔ اُس کی بڑبڑاتی ہوئی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ میں جتنا پیسہ لایا تھا وہ ایک ’’گشتی‘‘ کو کلب میں دے آیا ہوں۔ کیونکہ اُس نے داتا کے نام کی دھمال ڈالی ہے اور پھر ہم تو داتا کے ماننے والے ہیں۔ میرے لیے اُس کے ساتھ بیٹھنا مشکل ہو گیا اور میں اِدھر اُدھر ویسے ہی ٹہلنے لگا۔ کچھ دیر بعد اناؤنسمنٹ ہوئی اور سب مسافر جہاز میں سوار ہو گئے۔ میں گجر اور حسیناؤں کے درمیان گھرا کیسے کیسے کلمات سنتا جب دل و جاں سلامت لیے لاہور پہنچا تو کلمہ شکر ادا کیا۔

 

 

 

دوحہ

 

خلیج فارس میں سمندر کے کنارے ایک مچھیروں کی بستی تھی۔ ایک بہت بڑے درخت کی وجہ سے اس بستی کا نام ’’الدوحہ‘‘ پڑ گیا جس کے معنی ’’بڑا درخت‘‘ ہیں۔ 1850ء میں یہاں ایک باقاعدہ شہر کی بنیاد پڑی۔ آج یہ شہر قطر کا دارالحکومت ہے اور ملک کا سب سے بڑا شہر بھی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ملک کی نوے فی صد آبادی اسی شہر میں آباد ہے۔ 2006ء کے ایشیائی کھیلوں کی میزبانی کی وجہ سے دوحہ کا نام پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔ 1971ء میں قطر کو انگریزوں سے آزادی ملنے کے بعد سے یہ شہر تیزی سے ترقی کے مراحل طے کر رہا ہے۔

قطر یونیورسٹی، قطر نیشنل میوزیم، الجزیزہ ٹی وی چینل اور ایجوکیشن سٹی کی وجہ سے دوحہ کو عرب شہروں میں ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ شہر کی نصف سے زیادہ آبادی تارکینِ وطن پر مشتمل ہے یعنی مقامی آبادی اقلیت میں ہے۔ تارکینِ وطن کی اکثریت کا تعلق برصغیر پاک و ہند سے ہے۔ اس کے علاوہ افریقی اور مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے بھی ایک بڑی تعداد میں ہیں۔ یہاں کی معیشت کا دار و مدار تیل اور قدرتی گیس پر ہے۔ لیکن اب کوشش کی جا رہی ہے کہ دبئی کی طرح دوحہ کو بھی ایک کاروباری شہر کی صورت دی جائے۔ شہری سہولتوں اور آمد و رفت کے حوالے سے یہ ایک جدید ترین شہر ہے۔ موسم کے لحاظ سے البتہ یہ شہر دوسرے عرب شہروں سے مختلف نہیں اور گرمیوں میں اوسط درجہ حرارت 40 سینٹی گریڈ سے اوپر ہی رہتا ہے۔

 

 

 

دیر آید درست آید

 

دوحہ کے عالمی مشاعرہ میں شرکت کے لیے ہمیں ویزہ اور ایئر ٹکٹ اسلم کولسری صاحب کے توسط سے ملنے تھے اس لیے ہمیں اُن کی یاد ستانے لگی۔ ہمیں وہ تمام مُشاعرے یاد آنے لگے جن میں ہم اُن کے منظورِ نظر ٹھہرے تھے اور انہوں نے بڑی محبت سے ہمیں اپنے دفتر آنے کی دعوت دی تھی۔ ہمیں اُن کی درویشانہ طبیعت بہت پسند آئی تھی مگر اُن دنوں ہمیں فراغت کی مصروفیت تھی۔ وعدہ تو کر لیتے نبھا نہ پاتے اس سُستی اور کاہلی پر آج ہم نے خود کو بہت سرزنش کی پھر ہمیں دیر آید درست آید والا مقولہ یاد آیا جو کہ ہمارے حسبِ حال تھا ایک تو ہم دیر سے جا رہے تھے دوسرا درست وقت پر جا رہے تھے۔ ہمیں یہ تسلّی بھی تھی کہ اگر کولسری صاحب نے ہمیں شرمندہ کرنے کی کوشش کی تو ہم غالب کا یہ مصرعہ پڑھ کر اُن کو لاجواب کر دیں گے :

ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا

اب ہمارا حوصلہ کافی بڑھ گیا تھا ہم نے چچا غالبؔ کو ڈھیروں دُعائیں دیں جنہوں نے ہم ایسوں کے لیے بہت سے اشعار اور مصرعے ایسے کہہ رکھے ہیں کہ مدِّ مقابل اگر حق پر بھی ہو تو اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہے۔

ہم اپنا پاسپورٹ تھامے اسلم کولسری صاحب کے پاس مکمل اعتماد کے ساتھ بیٹھے تھے مگر کیا کیا جائے کہ وہ اتنے ملنسار، ہنس مکھ اور محبت کرنے والے ہیں کہ بندہ اُن سے ملنے کے بعد خود کو ویسے ہی قصور وار سمجھنے لگتا ہے اور شرمندہ شرمندہ سا ہو جاتا ہے ہم تو پھر بھی ’’وعدہ خلاف‘‘ تھے۔

قصور وار سمجھنے لگا میں خود کو بہت

کچھ اس تپاک سے اُس نے گلے لگایا تھا

ہم بھی خود کو کوس رہے تھے کہ ایسے صاحبِ دل انسان کے پاس پہلے کیوں نہ حاضری دی وہاں بیٹھ کر ہمیں علم ہوا کولسری صاحب کا اپنے باس سے لے کر ملازم تک بلکہ ہر ملنے والے کے ساتھ ایک سا روّیہ ہے اور وہ رویّہ ہے خلوص، پیار اور محبت کا۔ عاجزی اور انکسار کا تو وہ پیکر ہیں۔ کولسری صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں اُن کے باکمال شاعر ہونے میں تو ہرگز دو رائے نہیں۔ ہر شاعر ایک شعر کی تلاش میں زندگی بھر شاعری کرتا ہے مگر بہت کم شاعر خوش نصیب ہوتے ہیں جن کا کوئی شعر اُن کی پہچان بن پاتا ہے اسلم کولسری کا یہ شعر زبان زدِ خاص و عام ہے :

شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے

کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

وہ شعراء کی بھیڑ میں اپنے جداگانہ اسلوب کے سبب علیٰحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ دھیمے لہجے کے انتہائی خوبصورت کمپیئر ہیں۔ ہم نے اُن کی اداکاری کے جوہر بھی دیکھے ہیں۔ گلے میں سوز بھی ہے جب ترنم سے غزل پڑھتے ہیں مشاعرہ ہی نہیں دل بھی لوٹ لیتے ہیں ایسے ’’لٹیرے ‘‘ کے ہاتھ میں ہم نے اپنا پاسپورٹ تھما دیا اور رسید کا تقاضا بھی نہیں کیا، ہماری سادہ دلی بھی داد طلب ہے۔ انہوں نے ہمیں اپنا سفری بیگ اور کلام تیار رکھنے کا حُکم کچھ اس انداز میں دیا کہ اُس میں عاجزی زیادہ تھی۔

وقتِ رُخصت ڈپٹی ڈائریکٹر اُردو سائنس بورڈ اسلم کولسری اپنی سائیکل پر بڑے مزے سے پیڈل لگاتا ہوا جا رہا تھا اور ہم حیرت کی تصویر بنے کھڑے تھے۔

سلیم جعفری (مرحوم) اور ملک مصیب الرحمن (مرحوم) نے عالمی مشاعروں کا جو سلسلہ دوبئی اور قطر میں شروع کیا تھا اُس نے پوری دُنیا میں لکھنے والوں کی عزت اور توقیر میں اضافہ کر دیا تھا یہ عالمی مشاعرے اپنی مثال آپ تھے نہ صرف شاعری بلکہ نثر میں بھی کام کرنے والوں کو ایوارڈز کے ساتھ خطیر رقم بھی پیش کی جاتی جو کہ ہزاروں اور لاکھوں میں ہوتی۔ ریٹرن ٹکٹ، عالیشان ہوٹلوں میں قیام، بے مثال میزبانی۔ چند سالوں میں یہ عالمی مشاعرہ دُنیا کا سب سے بڑا عالمی مشاعرہ بن گیا سو ہر شاعر کی یہ خواہش ہوتی کہ وہ ایک بار اس مشاعرہ میں ضرور شرکت کرے کیونکہ اس میں صرف جینوئن شعراء کو شرکت کا موقع ملتا تھا اور جینوئن ادیبوں کو ایوارڈز ملتے تھے اور ان ایوارڈز کا فیصلہ غیر جانبدار جیوری ہی کرتی تھی۔ مجلس کی تقریب میں شرکت کرنے والے شاعروں کے شہزادوں کی طرح ناز اُٹھائے جاتے اور خدمت کی جاتی۔

جب تک سلیم جعفری (مرحوم) زندہ تھے قطر اور دوبئی دونوں جگہ مشاعرہ ہوتا پہلے قطر اور پھر دوبئی۔ ایوارڈز کی تقریب دوبئی میں ہوا کرتی اُن کی وفات کے بعد آہستہ آہستہ اب یہ سلسلہ دوحہ تک محدود ہو گیا ہے۔ ۲۰۰۴ء کا عالمی مشاعرہ اور ایوارڈ کی تقریب بھی صرف قطر میں تھی اس کے روح و رواں ملک مصیب الرحمن تھے۔ یہ نویں عالمی فروغ اُردو ادب ایوارڈ کی تقریب اور عالمی مشاعرہ تھا اس میں پاکستان سے عبد اللہ حسین، احمد فراز، امجد اسلام امجد، محمد علی صدیقی، عنایت علی خان، اسلم کولسری، سلیم کوثر، ثمینہ راجہ، ایوب خاور، ڈاکٹر اختر شمار، شاہدہ حسن، عزم بہزاد اور راقم شامل تھے جبکہ امریکہ سے شوکت فہمی کینیڈا سے اشفاق حسین، کینیڈا سے صابر رضا اور ڈیوڈ میتھوز، بھارت سے نثار احمد فاروقی، گوپی چند نارنگ، ندا فاضلی، معراج فیض آبادی، ملک زادہ منظور، گرویندر سنگھ کوہلی، چندر بھان خیال، عزم شاکری اور انا دہلوی کو مدعو کیا گیا تھا۔

جیسے جیسے عالمی مشاعرے کے دن قریب آتے گئے اُس میں شرکت کرنے والے شعراء بھی ایک دوسرے کے قریب آتے گئے۔ ہفتوں کی مُلاقاتیں دنوں میں بدلتی گئیں فون پر رابطے بڑھنے لگے جس طرح کشتی میں بیٹھے لوگ ایک دوسرے کی قربت کو محسوس کرتے ہیں وہی کیفیت شعراء کی بھی تھی اس کشتی کے ناخدا اسلم کولسری تھے۔ انہوں نے ہمیں وہاں کے ’’گرم‘‘ کے متعلق تو بتا دیا تھا مگر ’’سرد‘‘ کے متعلق نہیں بتایا اس لیے ہمارے ہاتھ پاؤں سرد ہوئے جا رہے تھے۔ ہماری فلائیٹ تو صبح پانچ بجے کی تھی پتہ نہیں کیوں نیند رات بھر نہیں آئی۔

ڈاکٹر اختر شمار رات تین بجے ہمیں لینے آئے تو اُن کی آنکھیں بھی ہماری طرح ’’سونے ‘‘ والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی تھیں۔ ہم ان سوئی سوئی جاگی جاگی آنکھوں سے لاہور ائرپورٹ پہنچ گئے۔ برقی قمقموں کی روشنیوں میں لاہور ایئرپورٹ کی سُرخ عمارت دلہن کی طرح لگ رہی تھی وہاں پر ایوب خاور اور کولسری صاحب پہلے سے موجود تھے تھوڑی دیر بعد امجد اسلام امجد اور عبد اللہ حسین بھی آ گئے۔

ایئرپورٹ پر سکیورٹی کے تمام مراحل حُسن و خوبی سے سر انجام پا گئے حالانکہ شاعروں کے پاس بڑے بڑے دیوان تھے اور ان سے سکیورٹی کو شدید خطرات لاحق تھے مگر اس کے باوجود ڈیوٹی پر موجود اسٹاف نے ہماری بہت عزت افزائی کی چند ایک نے تو ہمیں ناشتہ اور چائے پیش کرنے کی ناکام کوشش بھی کی۔

ایوب خاور نظم و غزل کے باکمال شاعر ہیں اُن کی ایک غزل ’’سات سُروں کا بہتا دریا تیرے نام‘‘ بہت مشہور ہے۔ لمبا قد، سانولا رنگ، سفید چمکدار دانت اور گرجدار صاف آواز ایوب خاور کی شخصیت میں مشاعرہ لوٹنے کے تمام لوازمات موجود ہیں۔

پاکستانی ناول کی تاریخ میں عبداللہ حسین کے نام اور مقام کو امتیازی حیثیت حاصل ہے اُن کے ناول بہت مقبول ہیں خاص کر ’’اُداس نسلیں ‘‘۔ اگرچہ وہ بہت کم اور رُک رُک کر بولتے ہیں مگر جو بات کر رہے ہوتے ہیں اُس میں دلچسپی کا عنصر بڑھتا جاتا ہے اور پورے کلائمکس پر جا کے بات مکمل کرتے ہیں عبد اللہ حسین ہم سب میں ہر حوالے سے ’’دراز قد‘‘ تھے۔ سفید بال، سفید داڑھی کھلا کھلا، چہرہ اگر اُنہیں بان کا، سجیلا ’’بابا‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ وہ عمر کے اُس حِصے میں تھے جہاں بچپنا دوبارہ آ جاتا ہے اور ہمارے ہاں زیادہ تر اس عمر کے ’’بچے ‘‘ لاٹھی تھامے مسجدوں کا رُخ کرتے ہیں۔ عبد اللہ حسین جوگر اور ٹراوزر پہنے کسی اتھلیٹ کی طرح ہمارے ساتھ چل رہے تھے۔ جیسے کسی چیمپئن شپ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے جا رہے ہوں۔

 

 

 

ہم اپنی عاقبت خراب نہیں کرنا چاہتے

 

امیگریشن کاونٹر پر بیٹھی جاذب نظر لڑکی نے امجد اسلام امجد کو پہچان لیا اور اُن سے باتیں کرنے لگی۔ کیا باتیں ہو رہی تھیں اس کا ہمیں اچھی طرح اندازہ تھا ہم بھی لائن میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ ہمارے آگے اسلم کولسری تھے جب اُن کا نمبر آیا تو اُس لڑکی نے کولسری صاحب کو سلام بھی کیا، حال بھی پوچھا یہ بھی پوچھا کہ آپ بھی مشاعرہ پڑھنے جا رہے ہیں ؟ کولسری صاحب کی ’’ہاں ‘‘ پر ایک شعر سُنانے کی فرمائش بھی کی۔ کولسری صاحب نے اپنا کوئی شعر سُنایا ضرور تھا مگر ہم نہ سُن سکے کیونکہ ہم اُس وقت اپنا کوئی اچھا سا شعر یاد کرنے میں محو تھے پاسپورٹ اُس لڑکی کے ہاتھوں میں تھمایا مگر ہماری خود اعتمادی اور خوش فہمی چند لمحوں میں ہوا ہو گئی۔ عفیفہ نے ہم سے شعر سُنانے کی فرمائش نہیں کی۔ عجیب بے ذوق لڑکی تھی۔

جہاز میں سوار ہوئے تو وہ بھی بہت آرام دہ، دلکش اور کُشادہ تھا۔ دیکھتے ہی دیکھے یہ دیو قامت جہاز مسافروں سے بھر گیا۔ پتہ نہیں اتنے مسافر اچانک کہاں سے آ گئے تھے۔ ہم ڈر گئے کہیں یہ سب شاعر تو نہیں تھے۔ بہر حال سینما ہال جیسا ماحول بن گیا تھا اور ہاؤس فل نمائش جاری تھی۔

ہماری پاکیزہ سوچ کے مطابق اس جہاز میں باپردہ عرب خواتین کو ہی ایئر ہوسٹسز ہونا چاہئے تھا۔ جن کے ایک ہاتھ میں تسبیح اور دوسرے ہاتھ میں کھجور ہوتی مگر جہاز میں داخل ہوتے ہی ہمارے جذبۂ ایمانی پر کاری ضرب پڑی یہ سب ایئر ہوسٹسز تو غالباً تھائی لینڈ یا اُس کے اَڑوس پڑوس کی تھیں، پھینی پھینی سی اُنہوں نے نیم عُریاں لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ ہم کولسری صاحب سے اُن کے متعلق کیسے پوچھتے وہ تو خود شرمندہ شرمندہ سے دکھائی دے رہے تھے۔ بھرے جہاز میں نوخیز دوشیزاؤں کی ننگی ٹانگیں دیکھ کر ہم اپنی عاقبت خراب نہیں کرنا چاہتے تھے اس لیے ہم نے اپنے سامنے والی سیٹ پر نصب T.V پر نظریں جما لیں ہم تھوڑی دیر بعد بالآخر ایک اسلامی چینل ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے اور اُسے دیکھنے کی ناکام کوشش کرنے لگے مگر ہماری یہ حفاظتی تدبیر ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ جب بھی ’’وہ‘‘ ہمارے پاس سے گزرتی دِل کے T.V پر خود بخود ’’انگلش چینل‘‘ لگ جاتا سچ مچ ساڑھے تین گھنٹے کا سفر ساڑھے تین منٹوں میں گزر گیا۔ جہاز میں ایئر ہوسٹس کے ہاتھوں مشروبات پینے کا مزہ کوئی ہم سے پوچھے :

کہیں یہ برف سا پانی جلا نہ دے تم کو

گلاس لیتے ہوئے انگلیاں نہ چھو لینا

دوحہ کا ایئر پورٹ بھی ہمارے شہر ٹامیوالی کے ریلوے اسٹیشن کی طرح ویران ویران اور اُداس اُداس سا تھا۔ جہازوں کی وہ آمد و رفت جو لاہور یا کراچی کے ایئر پورٹ پر دکھائی دی یہاں مفقود تھی۔ امیگریشن پر بیٹھی عرب خاتون نے ہماری شان میں کچھ کلمات ادا کئے وہ کلمات خیر تھے یا شر۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔

ملک مصیب الرحمن اپنی ٹیم کے ساتھ ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔ امجد اسلام امجد کو انہوں نے خوب جپھیاں ڈالیں، اسلم کولسری صاحب سے محبت بھری چھیڑخانی کی، اختر شمار اور ہمیں سینے سے لگایا، عبد اللہ حسین سے عقیدت سے ملے، ایوب خاور کا ہاتھ، ہاتھ میں تھاما تو پھر چھوڑا نہیں۔

مہنگی مہنگی عالیشان اور آرام دہ گاڑیوں کے دروازے ہمارے لیے کھُل گئے، گاڑیاں تیز رفتار کشتیوں کی طرح سڑک پر تیرتی جا رہی تھیں۔ دوحہ صحرا میں آباد ایک چھوٹا سا شہر ہے جس میں انتہائی جدید، منفرد اور خوبصورت عمارات ہیں اور بہت سی عمارتیں بڑی تیزی کے ساتھ زیر تعمیر ہیں۔ سڑکوں کے اطراف میں لگی دو رویہ گھاس اور پھولوں کو مسلسل پانی مِل رہا تھا ورنہ موسم اتنا گرم اور مٹی اتنی ریتلی کہ گھاس، ’’پھوس‘‘ میں اور پھول ’’دھول‘‘ میں بدل جائیں۔

تھوڑی دیر میں ہم شیزان ہوٹل پہنچ گئے۔ جب بھی قطر میں عالمی مشاعرہ یا کوئی اور تقریب ہوتی ہے روایت ہے کہ شعراء کو شیزان ہوٹل میں ٹھہرایا جاتا ہے یہ ہوٹل ملک مصیب الرحمن کے دوست کا ہے جو کہ نہایت ملنسار اور ہنس مُکھ انسان ہیں۔ سیالکوٹ سے یہاں آئے تو پیار اور کاروبار ایسا بڑھا کہ دوحہ ہی میں چھوٹا سا سیالکوٹ آباد کر لیا۔ شیزان ہوٹل کی لابی میں پہنچتے ہی ہمارا ’’رانی‘‘ سے تواضع کیا گیا۔ آپ پریشان نہ ہوں بلکہ جمع خاطر رکھیئے۔ رانی جوس بہت مزے کا تھا طبیعت سرشار ہو گئی ملک مصیب الرحمن، گندمی رنگ، گھنی مونچھیں، لمبا قد، عینک کے پیچھے موٹی موٹی آنکھیں، بکھرے بکھرے بال، چہرے پر مخصوص انداز کی مُسکراہٹ، اپنی باتوں اور طبیعت سے سچے، کھرے، مخلص اور دردِ دل رکھنے والے انسان لگے۔ صاحبِ علم ایسے کہ سُنا ہے بڑے بڑے اہلِ علم اُن کے آگے پانی بھرتے ہیں مگر غرور و گھمنڈ نام کا نہیں، سراپا عجز و انکسار، نہایت ہی اعلیٰ منتظم، انتھک اور محنتی یہ سب خوبیاں جس میں جمع ہو جائیں وہی مجلسِ فروغ اُردو ادب کی عالیشان تقریبات کرا سکتا ہے۔ عام سی شلوار قمیض میں ملبوس چپلی جوتا پہنے وہ کھُلی ڈلی طبیعت اور مزاج کے مالک ہیں۔ چائے کے بعد بے تکلف گفتگو کا سلسلہ چل نکلا ملک صاحب نے اسلم کولسری کی بے مہار نیند کی عادت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ کہہ رہے تھے :

’’اینے ست دن ایتھے سو، کے لنگھا دینے نیں ‘‘ (اس نے سات دن یہاں سو کے گزار دینے ہیں )

نیند کا ذکر آیا تو ہمیں بھی نیند نے آ لیا ہم چپکے سے اپنے کمرے میں آ کر سو گئے۔

خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے

نیند بہت مزے کی آئی کوئی جگانے والا نہیں تھا۔ گھنٹوں بعد ہم اپنی مرضی سے اُٹھے۔ اتنی گہری نیند کا عقدہ تھوڑی دیر بعد ہم پر کھُلا ہمارے ساتھ والا کمرہ اسلم کولسری کا تھا۔ ہم نے جب پہلی بار اُن کی نیند کے متعلق دلچسپ قصّے سُنے تو ہمیں یقین نہ آیا ہم نے سوچا ایک آدمی کتنا سو سکتا ہے مگر کولسری صاحب کی شخصیت اور شاعری کی طرح نیند بھی کمال کی ہے۔ ہم ایک ہفتہ دوحہ میں رہے۔ ساتھ والا کمرہ اُن کا تھا ہم نے بھی بہت کوشش کی کہ کسی طرح اُن سے مُلاقات ہو جائے مگر کامیاب نہ ہو سکے جب بھی جاتے دروازہ بند ملتا پتہ چلتا صاحب! خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ہمیں اپنے اُستادِ محترم صاحبزادہ ریاض رحمانی کا یہ شعر بہت یاد آیا:

ہمیشہ بند رہا اُس کے گھر کا دروازہ

جو اتفاق سے میری گلی میں کھُلتا تھا

کھانے کے وقت کولسری صاحب ڈائننگ ہال میں تشریف لاتے مگر اُس وقت ہماری مصروفیت کا یہ عالم ہوتا کہ اُن سے مختصر ملاقات تو درکنار ٹھیک سے دُعا سلام بھی نہ کر پاتے۔ بات یہ تھی کہ کھانے کے آداب سے ہم نہ صرف کماحقہ واقف تھے بلکہ ان پر سختی سے عمل پیرا بھی تھے یعنی سب سے پہلے شروع کرنا اور سب سے آخر میں ختم کرنا لہٰذا ہماری اس مجبوری سے کولسری صاحب فائدہ اُٹھا رہے تھے جب آخری نوالہ ہمارے مُنہ میں ہوتا انہیں اپنے کمرے میں سوئے آدھ گھنٹہ گزر چُکا ہوتا۔

ڈائننگ ہال میں بوفے سسٹم ہوتا۔ ہم نے اتنے مزے کے پاکستانی کھانے کسی اور ملک میں نہیں کھائے۔ کھانے کے بعد ’’سُلیمانی‘‘ جو کہ ایک خاص قسم کا قہوہ تھا پی کر طبیعت سرشار ہو جاتی۔ اس سرشاری میں ہم اپنے کمرے میں آ کر سو جاتے اسلم کولسری صاحب کی نیند اب ہمارے کمرے تک آن پہنچی تھی جس طرح کوئی بیل ہمسائے کی دیوار پر پھیل جاتی ہے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے یہ محاورہ ہم نے سُنا ضرور تھا لیکن رنگ پکڑنے والے خربوزے ہم خود بن جائیں گے یہ، سوچا نہ تھا۔ کھانے اور سونے کے علاوہ ہمیں اب کوئی کام نہ تھا جب بھی کھانے سے فارغ ہوتے کمرے میں T.V پر کوئی عربی چینل لگا کر سو جاتے۔ فریج میں انواع و اقسام کے لوازمات ہوتے۔ مشروبات کی بھی کمی نہ تھی مگر پھر بھی جب ہم سو کر اُٹھتے طبیعت بہت بے چین ہوتی دِل پر اُداسی چھائی ہوئی ہوتی ہمیں یوں لگتا جیسے ہم سے مُسلسل کوئی خطا سرزد ہو رہی ہے۔ ہم جو اجنبی شہروں کے اجنبی رستوں پر بھٹک جانے کے عادی تھے خوبصورت آنکھوں کی طرح یہ رستے ہمیں اپنی جانب کھینچتے تھے یہ اس بار ہمیں کیا ہو گیا تھا کہ جب سے ہم آئے تھے ہوٹل سے ایک بار بھی باہر قدم نہ رکھا تھا۔ آج ہم نے فیصلہ کر لیا چاہے کچھ بھی ہو جائے دوحہ سے اجنبیت کے سارے بندھن توڑ دیں گے اور یہ کام ہم تن تنہا کریں گے۔ جب حضرت عطاء الحق قاسمی کا یہ فرمان ہمیں یاد آیا کہ دوحہ تو بس دوہے جتنا ہے ہمارا حوصلہ اور بھی بڑھ گیا۔ میزبانوں کو مہمانوں کے استقبال سے فرصت ہی نہیں تھی۔ شاعر یوں شیزان ہوٹل پر لپک رہے تھے جیسے شمع پر پروانے۔ امریکہ سے شوکت فہمی، کینیڈا سے اشفاق حسین اور انگلینڈ سے صابر رضا ابھی ابھی پہنچے تھے۔ ہندوستانی شاعروں کی بھی آمد آمد تھی۔ پان چباتے، دبلے پتلے، نستعلیق قسم کی اُردو بولنے والے کُچھ افراد ہوٹل میں آتے جاتے دکھائی دیئے غالباً یہی انڈین شاعر تھے۔ ہم آج ان سب سے آنکھ بچا کر ہوٹل سے باہر آ گئے۔

 

 

 

غضب خدا کا اتنی گرمی

 

چند لمحوں میں جسم جھُلسنے لگا مگر ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے ہمارا تعلق ملتان اور بہاولپور کے مضافات سے تھا۔ ہمارے ہی علاقے کے متعلق یہ کہاوت مشہور ہے کہ ’’دوزخ میں ایک ملتانی رضائی اوڑھے بیٹھا تھا‘‘ لہٰذا ہم اس دوحہ کی گرمی سے گھبرانے والے ہرگز نہیں تھے۔ ایک طرف مُنہ اُٹھا کر چل پڑے حدِّ نظر تک تار کول کی پگھلتی ہوئی سڑک اور اُس پر تیز رفتار دوڑتی گاڑیاں، بندہ نہ بندے کی ذات ہمارے علاوہ کوئی نہ تھا۔ چلچلاتی دھوپ تھی اور ہم تھے پھر بھی ہم چلتے رہے یہ منظر بڑا عجیب تھا۔ دور کچھ عمارتیں نظر آ رہی تھیں ہم نے سوچا اِدھر ضرور کوئی مارکیٹ ہو گی۔ وہاں لوگ ہوں گے، چہل پہل ہو گی، دُکانیں ہوں گی۔ ہم اُس طرف تیز تیز قدم اُٹھا کر چلنے لگے دوحہ کا درجہ حرارت تو دوزخ سے بھی زیادہ نکلا۔ مارکیٹ تک جاتے جاتے ہمارے جسم کا سارا پانی پسینہ بن گیا۔ پیاس سے بُرا حال ہو گیا۔ ظلم یہ کہ کوئی آدمی رستے میں نظر نہ آیا۔ ایک ریسٹورینٹ دیکھا مگر اُس کے باہر بھی پورا آدمی تو کیا وہ ’’بونا‘‘ بھی نظر نہ آیا جو ہمارے ہاں اچھے ہوٹلوں کے دروازوں پر سلام کے لیے اور واپسی پر سلامی کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ ریسٹورینٹ کے عقب میں کھڑکی تھی اُس کے پاس گاڑیوں کی قطار تھی قریب جانے پر پتہ چلا کہ گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے ونڈو سے Payment کر دی، وہاں سے Packed کھانا لیا اور چل سو چل یہی صورتحال باقی جگہوں پر بھی دیکھنے کو ملی۔

مردم بیزار لوگوں کے لئے دوحہ جنت سے کم نہیں ہے ہم تو پاکستان سے آئے تھے۔ ہجوم کے عادی تھے ہر طرف لوگوں کا ایک نہ ختم ہونے والا ہجوم۔ جس طرف بھی جائیں لوگ ہی لوگ، شہروں میں لوگ، دیہاتوں میں لوگ، گلیوں میں لوگ، بازاروں میں لوگ، ریستورانوں، ہوٹلوں ریلوے اسٹیشنوں، بس اڈوں پر ہر جگہ لوگ، چھوٹے چھوٹے گھروں میں گنجائش سے زیادہ لوگ۔ یہ ہم کس جگہ آ گئے تھے ہمیں کوئی اپنے جیسا ہی نظر نہ آ رہا تھا۔ ایسی خوفناک صورتحال میں سارا قصور ہمارا تھا۔ ہم عین دوپہر کے وقت اس بلا کی گرمی میں سڑکوں پر کیوں نکل آئے تھے۔ گاڑیوں میں بیٹھے عربی ہمیں دیکھ کر کیا سوچتے ہوں گے۔ اس خیال نے ہمارے اوسان خطا کر دیئے اور ہم فوراً اپنے کمرے میں لوٹ آئے اور اسلم کولسری صاحب کی دانش کو سلام کر کے سو گئے۔

شیزان ہوٹل میں اب بیشتر شعراء کو کھانے اور سونے کے علاوہ کوئی کام نہ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ یہ ہوٹل ’’سویا ہوا محل‘‘ بن جاتا ایک ہندوستانی شاعرہ انا دہلوی کی آمد نے سب کی نیندیں اُڑا دیں۔ وہ سانولے رنگ کی پرکشش، اسمارٹ اور جاذبِ نظر لڑکی تھی۔ میٹھی میٹھی باتیں کرتی اور اپنی ہی باتوں پر بے ساختہ ہنس پڑتی۔ اُس کی ادائیں اچھی لگیں کیونکہ شعراء کے پاس اور کوئی Option ہی نہیں تھی وہ پہلے ہی دن سب کے ساتھ ’’گھُل مِل‘‘ گئی۔ اُس کے آنے سے شعراء کی نیندیں جگراتوں میں بدل گئیں۔ البتہ کولسری صاحب نے مُردوں کے ساتھ جو شرط لگائی تھی ابھی تک اُن کے پوائنٹس زیادہ تھے۔ انا دہلوی کے آنے سے شیزان ریسٹورینٹ کی جمالیات میں اضافہ ہو گیا۔ شعراء کو ’’نزول‘‘ بھی ہونے لگا تھا چلتے پھرتے آتے جاتے اُسے مخاطب کر کے شعر سُنائے جاتے سب شعروں کا مقصد ایک ہی ہوتا تنقید کی زبان میں اسے ’’توارد‘‘ کہتے ہیں۔ انا دہلوی میں بھی بس نام کی ’’انا‘‘ تھی اُس نے کسی بھی شاعر کی باتوں کا بُرا نہیں منایا یہاں تک کہ صابر رضا کی حرکتوں کا بھی نہیں۔

ہوٹل میں اتنے شعراء کی موجودگی میں شور شرابے اور غل غپاڑے کی جو کمی تھی وہ صابر رضا کے آنے سے دور ہو گئی۔ لطیفوں اور قہقہوں سے ہوٹل کے در و دیوار گونجنے لگے صابر کی آمد نے ساری بوریت ختم کر دی۔ صابر رضا زندہ دِل آدمی ہے۔ وہ طویل عرصہ سے انگلینڈ میں مقیم ہے بطور شاعر تو ہم اُس کو جانتے تھے مگر مُلاقات پہلی بار ہو رہی تھی بڑی اپنائیت اور محبت سے مِلا۔ بھرا بھرا جسم، بھرا بھرا چہرہ، سانولا رنگ، کالے بال اُس کی کڑک دار آواز سے اُس کی شخصیت مکمل ہوتی ہے۔ اُس کی تنظیم کاروانِ ادب انٹرنیشنل مانچسٹر میں ہر سال مُشاعرہ کرواتی ہے۔ صابر رضا کو جُگت لگانے کی عادت ہے اور جُگت سہنے کا حوصلہ بھی۔ اس لیے اُس نے ماحول بنائے رکھا۔ صابر رضا شکل و صورت، قد و قامت اور جسامت سے شاعر نہیں لگتا بلکہ گوجرانوالہ کا پہلوان لگتا ہے اس بات کا احساس شاید اُسے خود بھی ہے اسی لیے داؤ پیچ لگاتا رہتا ہے۔ سگریٹ ہو یا کوئی ’’مشروب‘‘ پینے پلانے کا بہت شوقین ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہم ملک مصیب الرحمن کی درخواست کے باوجود صابر کے ساتھ کوئی مشروب تو درکنار سگریٹ بھی Share نہ کر سکے۔

علامہ نثار احمد فاروقی جو کہ ہندوستان کے نامور عالم، فاضل، تنقید نگار اور درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں خاص کر میرؔ کے حوالے سے اُن کے کام کو کافی سراہا گیا ہے ہندوستان سے دوحہ پہنچتے ہی ایک ایسے نایاب قسم کے مشروب کی فرمائش کر بیٹھے جو وہاں دستیاب نہ تھا۔ یہ فہمائش ملک مصیب الرحمن کے لیے چیلنج تھی مگر انہوں نے یہ چیلنج قبول کیا، تین گھنٹوں کی لگاتار دوڑ دھوپ کے بعد ملک صاحب کے انڈین ڈرائیور کامیاب و کامران لوٹے اُدھر علّامہ صاحب کی حالت بگڑتی جا رہی تھی چند دن پہلے اُنہیں فالج کا اٹیک ہوا تھا اس لیے گرم مشروبات اُن کے لیے بہت مفید تھے۔ ملک صاحب نے اپنی میزبانی پر حرف نہ آنے دیا اور وہ تحفۂ خاص اُن کی خدمت میں پیش کر دیا جس کا پہلا گھونٹ حلق سے اُترتے ہی علّامہ صاحب کی طبیعت سنبھلنے لگی۔ علّامہ نثار احمد فاروقی کا تو ہم نے بہت نام سُنا تھا مگر وہ نہایت دُبلے پتلے اور ’’پست قد‘‘ نکلے۔

امجد اسلام امجد پہلے دن کے بعد، کم کم نظر آئے۔ کھانے پر بھی مُلاقات نہ ہوتی ’’دوہے ‘‘ جتنے دوحہ میں بھی اُن کے چاہنے والوں کی تعداد ’’قصیدے ‘‘ جتنی تھی لہٰذا سو کہیں ناشتہ، کہیں لنچ اور کہیں ڈنر البتہ احمد فراز کہیں نہ جاتے اُن سے دِن میں کئی بار مُلاقات ہوتی غالب کا پسندیدہ مشروب وہ ہاتھ میں تھامے، کبھی لابی کبھی ڈائننگ ہال اور کبھی اپنے کمرے میں بیٹھے ہوتے۔ آتے جاتے ہم اتنی بار اُنہیں سلام کر چکے تھے کہ اب دور سے ہمیں دیکھتے ہی اُن کے چہرے پر مُسکراہٹ پھیل جاتی اور سر ہلا دیتے۔ غالباً ہمیں سلام کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہتے تھے۔ احمد فراز اپنی دُنیا میں مگن رہنے والے انسان ہیں اُن کی دُنیا اُن کی اپنی ذات ہے اک گونہ بے خودی اُنہیں دن رات چاہئے۔

یہاں ہمیں فراز صاحب کا ایک شعر یاد آ رہا ہے جو کہ ہم اُن کی نذر کرتے ہیں :

مَے پی رہے ہو جس کو بھلانے کے واسطے

ساغر میں اُس کا عکس نظر آ گیا تو پھر

تنقید نگاروں سے ہم دور دور ہی رہے۔ کیا پتہ کس وقت، کس بات پر تنقید کر دیں اس لیے گوپی چند نارنگ اور محمد علی صدیقی کئی بار ہمارے پاس سے گذرے مگر ہم نے چند دیگر شعراء کی طرح اُن کا ہاتھ چومنے کی زحمت نہیں کی اور نہ ہی اُن کی محفل میں جا کر بیٹھے۔ خشک اور دقیق قسم کی علمی گفتگو سننے ہمیں یارا نہیں۔ اسے آپ ہماری کم فہمی یا بدقسمتی بھی کہہ سکتے ہیں ہم حلقۂ اربابِ ذوق کے اجلاس میں بھی دو تین ہفتے مُسلسل شرکت کر لیں تو بیمار ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر اختر شمار جو کہ ہوٹل میں رش ہونے کی وجہ سے ہمارے کمرے میں سکونت پذیر ہو گئے تھے دلچسپ آدمی نکلے۔ اس سے پہلے پاکستان میں اُن سے مشاعروں میں یا پاک ٹی ہاؤس میں کبھی کبھی ’’سلام کلام‘‘ ہو جاتا مگر اس طرح کھُل کر حال احوال سُننے سُنانے کا موقع نہیں ملا تھا۔ اب ہماری باتیں ختم نہیں ہوتی تھیں اس گفتگو میں شوکت فہمی بھی شریک ہو جاتے بیچارے کیا کرتے اسلم کولسری کے ساتھ رہ رہے تھے آخر کب تک اُن کی نیند سے ہمکلام رہتے۔ شوکت فہمی سے بھی ہماری ایک دو سرسری مُلاقاتیں تھیں مگر ہم ایک دوسرے کے بارے میں Informed بہت تھے اُس کی کئی وجوہات تھیں ہمارے کچھ خیر خواہ اور بدخواہ مشترک تھے۔ لہٰذا ہم ایک ہی نشست میں ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔ ہم نے جی بھر کے باتیں کیں۔ شوکت فہمی درمیانے قد کا صحت مند اور بہت خوبصورت نوجوان ہے۔ بہت باکمال شاعر ہے اُس کے شعر اُس سے مُلاقات سے پہلے ہم تک پہنچ چُکے تھے جن میں دو شعر ہم نے اپنے کئی دوستوں کو سُنائے اور شوکت فہمی کے Behalf پر داد وصول کی۔ آپ بھی سُنیے۔

بعد ترے جینے کا حیلہ کر دے گا

اوپر والا اور وسیلہ کر دے گا

—–

تم لاکھ تباہی کا مری جشن مناؤ

لیکن مری ماں تک نہ خبر جائے تو اچھا

شوکت فہمی سچا، کھرا اور محبت کرنے والا انسان ہے وہ طویل عرصہ سے امریکہ میں مقیم ہے۔ اللہ نے اُسے بہت عزت اور دولت دی ہے مگر غرور اور گھمنڈ نام کو نہیں۔ بات کرنے کا انداز بھی بہت دلچسپ ہے۔ ٹھہر ٹھہر کر اور مُسکرا کر بات کرتا ہے۔ عام گفتگو میں بھی اتنا سسپنس پیدا کر دیتا ہے کہ دلچسپی کم نہیں ہونے پاتی۔ اُس کے اندر ایک سچے پاکستانی کا دِل دھڑکتا ہے امریکہ میں کئی مواقع پر اُسے مالی اور ادبی فوائد حاصل ہو سکتے تھے مگر اُس نے پاکستان کے لفظ کی حُرمت پر حرف نہیں آنے دیا اور سب مفادات پاؤں کی ٹھوکر پر رکھے وہاں اُس کی ساری لڑائیاں سب جھگڑے پاکستان مخالفوں کے ساتھ ہیں۔ اپنے وطن اپنی مٹی کے لیے وہ سب کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے اور لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ یہی بات ہمیں اُس کی بہت پسند ہے۔

 

 

 

سو سو اُمید بندھتی ہے

 

شیزان ہوٹل میں اور ملک مصیب کے پاس زیادہ تر ملازم ہندو تھے ہمیں یہ بات ہضم نہ ہوئی اور ملک صاحب سے پوچھ لیا کہ اس نا انصافی کی کیا وجہ ہے۔ اُن کا جواب بہت کربناک اور دلخراش تھا۔ سُن کر بہت صدمہ ہوا اس سے اچھا تھا ہم سوال ہی نہ کرتے۔ ملک صاحب نے بتایا کہ آج سے بیس برس قبل یہاں گولڈ کے کاروبار کی تمام دُکانیں پاکستانیوں کی تھیں جن میں زیادہ تر سیالکوٹ کے تھے مگر اب اس کاروبار پر ہندوستان کے تاجر چھائے ہوئے ہیں۔ پاکستانی برائے نام رہ گئے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ بے ایمانی، کام چوری اور عیاشی نے اُن کو اس حال تک پہنچا دیا ہے۔ اسی طرح جو پاکستانی مُلازم ہیں ایک تو وہ تنخواہ زیادہ لیتے ہیں دوسرا کام چور بھی ہیں اور چھُٹیاں بھی بہت کرتے ہیں۔ ملک صاحب کی تمام باتوں کی تصدیق اور ذرائع سے بھی ہو گئی ہم نے ایک ہندو ویٹر سے حجت تمام کرنے کے لیے پوچھ لیا آخری بار ہندوستان کب گئے تھے تو اُس نے بڑے اطمینان سے بغیر ٹھنڈی آہ بھرے کہا دس سال قبل۔

ڈیوڈ میتھیوز اور اُن کی بیوی سے ہم پہلی مُلاقات میں شیر و شکر ہو گئے۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب کی اُردو بہت اچھی تھی۔ ان کی بیوی رشین تھی۔ وہ کئی برس تک پاکستان اور ہندوستان میں رہے تھے اس لیے اُردو بہت خوبصورت بولتے تھے انہوں نے اقبالیات پر بہت کام کیا تھا اور اب اس کا صلہ (ایوارڈ) وصول کرنے برطانیہ سے دوحہ آئے ہوئے تھے۔

سلیم جعفری (مرحوم) کی بیگم شاہدہ جعفری بھی یہاں موجود تھیں وہ بہت با ذوق اور خوش مزاج خاتون ہیں وہ اہل علم کی محفل میں بیٹھنا پسند کرتی ہیں اس لیے ہم نے اُنہیں اکثر ملک مصیب الرحمن، گوپی چند نارنگ، محمد علی صدیقی وغیرہ کی محفل میں ہنستے بولتے دیکھا بہر حال شیزان ریسٹورینٹ میں اُن کے ہونے کا احساس بہت خوشگوار تھا۔ میزبانوں نے یوں تو میزبانی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی حق تو یہ ہے کہ انہوں نے حق سے بڑھ کر حق ادا کیا مگر ایک کمی ہمارے نزدیک ایسی رہ گئی جس نے ہمیں بہت بے مزہ کیا اور وہ یہ تھی کہ ہم تقریباً ایک ہفتہ وہاں رہے مگر ہمیں سیر و تفریح کے مواقع تو کیا موقع بھی فراہم نہیں کیا گیا۔ جب کسی تقریب میں شرکت کے لیے جاتے تو راستے میں جو کچھ نظر آتا وہی ہماری سیاحت ہوتی۔ ہم سے رہا نہ گیا ہم نے اس مسئلے پر کولسری صاحب کی نیند حرام کر دی جس کا نتیجہ ہمارے حق میں بہت بہتر نکلا اور وہ ہمیں ایک ’’ٹھنڈی شام‘‘ دوحہ دکھانے لے گئے اور وہ بھی صرف ہمیں … ڈرائیور نے سب سے پہلے جس بڑی سی عمارت کے سامنے گاڑی روکی وہ ہونولولو مارکیٹ تھی، اتنا عجیب و غریب صوتی تاثر والا نام سُن کر ہمارے کان کھڑے ہو گئے۔ مارکیٹ کے اندر داخل ہوئے تو ہر طرف چائنا کا مال جس چیز کو ہاتھ لگائیں Made in China یا پھر انڈیا کی مصنوعات پاکستان کی وہاں ہمارے اور کولسری صاحب کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ شاپس پر مختلف ملکوں کی سیلز گرل ہمارے عربی بھائیوں کو لوٹنے میں مصروف تھیں مگر ہمارے مشاہدے کے مطابق ہمارے عربی بھائی ’’دن دیہاڑے لٹنے والے نہ تھے۔ ایک سیلز گرل جس کے نزدیک ہم یقیناً فارنر ہوں گے ہمیں دیکھ کر آگے بڑھی اور ہمارا ہاتھ تھام لیا… ہم اس حادثے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہ تھے لہٰذا ہم نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں اچانک ہمیں اپنے ہاتھ پر ’’پھوار‘‘ سی محسوس ہوئی اور ہمارے جسم و جاں خوشبو میں نہا گئے۔ ہم اس معطرانہ کیفیت سے باہر نہیں آنا چاہتے تھے مگر اُس لڑکی نے ہمارے کانوں میں سرگوشی کر کے ہمیں اُس پرفیوم کی قیمت درہم و دینار میں بتا دی۔ بے ساختہ ہماری آنکھیں کھُل گئیں تو وہ ہمیں ایسے پیار سے دیکھ رہی تھی جیسے شکاری شکار کو دیکھتا ہے۔ ہم نے زیرِ لب یہ شعر پڑھا اور کولسری صاحب کے پروں میں چھپ گئے۔

سو سو اُمید بندھتی ہے اک اک نگاہ پر

ہم کو نہ ایسے پیار سے دیکھا کرے کوئی

چائنا کا مال یہاں پر لوٹ سیل آفر میں مہنگے داموں فروخت ہو رہا تھا۔ ہم چاہتے ہوئے بھی کوئی چیز خرید نہ سکے۔ مثلاً جو ’’بھالو‘‘ پاکستان میں سو دو سو روپے میں مِل جاتا ہے اُس کی قیمت یہاں ہزار روپے کے برابر تھی ویسے بھی گھر میں ہمارے ہوتے ہوئے بچوں کو ’’بھالو‘‘ کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ دوسرا ابھی ہمیں مشاعرہ کا لفافہ بھی نہیں ملا تھا۔ لہٰذا ہم نے کولسری صاحب کے باہمی مشورے سے کچھ نہ خریدنے کا فیصلہ کیا اور ’’بیچ‘‘ Beech پر جانے کی خواہش ظاہر کی ہماری خواہش کو عملی جامہ پہنایا گیا کیونکہ دوحہ کے بیچ پر بغیر ’’جامے ‘‘ کے جانا منع تھا صحرا کے ٹیلوں کی طرح سمندر کی لہریں بھی خاموش تھیں مگر سمندر بہت صاف سُتھرا اور نیلا تھا۔ نیلا سمندر اور نیلی آنکھیں تو ہماری کمزوری ہیں، لہٰذا ہم سے وہاں پر چلا نہ گیا اور یادوں کی گٹھڑی سے ٹیک لگائے بیٹھ گئے۔ یہ خاموش طبع سمندر ہمیں پسند آیا کیونکہ اس کا مزاج ہمارے جیسا تھا۔ ہمارا بچپن کراچی کے قریب ایک ننھے مُنّے جزیرے مینورا میں گزرا ہے جہاں ہر طرف ٹھاٹھیں مارتا مُنہ زور سمندر ہے اُس کی لہروں میں جلال کی کیفیت ہے اُس کے اندر ایک کرب ہے، غصہ ہے، ہمارا اسکول سمندر کے کنارے ہوا کرتا تھا۔

بچپن کے دن کسی طرح لوٹ آئیں پھر حسن

ٹیچر ہو اُس کی ڈانٹ ہو میری کلاس ہو

بریک کے دوران ہم ساحل کی ریت سے گھروندے بناتے کتنا آسان تھا گھر بنانا۔ پاؤں کے اُوپر ریت رکھتے گئے اور پھر پاؤں آہستگی سے باہر کھینچ لیا۔ گھر تیار، بچپن میں گھر بنانا ایک کھیل تھا۔ عملی زندگی میں تو گھر بنانے کا خواب، خواب ہی رہا۔

مینورا کے ساحل پر ہم جتنے گھروندے بناتے سمندر کی لہریں بہا لے جاتیں، مگر ہمیں اُس کا دُکھ نہیں ہوتا تھا۔ ہمیں پتہ تھا کہ گھروندے بنانا کونسا مشکل کام ہے لہروں کے شور سے یوں لگتا جیسے سمندر کسی کرب کا اظہار کرنا چاہتا ہے پھر ایک دن ایسا ہی شور ہمیں اپنے اندر سُنائی دینے لگا اور ہم نے پہلی بار ساحل کی ریت پر ایک ’’نام‘‘ لکھا۔ اُس نام سے اچھی نظم ہم آج تک نہیں لکھ پائے سمندر کی لہروں کے اُتار چڑھاؤ، اضطراب، کرب اور شور نے ہمیں اظہار کا سلیقہ سکھایا اس لیے ہم روحانی طور پر سمندر کو اپنا اُستاد مانتے ہیں۔ دوحہ کے سمندر کے سامنے بھی ہم پورے ادب اور احترام کے ساتھ کھڑے تھے اور اُس کی خاموش نیلاہٹ سے اپنے اندر کی تنہائی کو ہم آہنگ کر رہے تھے۔ شام ہمارے سامنے رات بنتی جا رہی تھی۔ دور کھڑے بحری جہازوں کی مدھّم روشنیاں اب تیز اور چمکدار ہونے لگی تھیں۔ گرمی کی شدّت اور آتشیں جھونکوں کی حدّت نے تو ہمارا کچھ نہیں بگاڑا آخر ہم ’’بہاولپوری‘‘ تھے مگر کولسری صاحب کی حالت ہم سے دیکھی نہ گئی۔ ہم نے جلدی جلدی چند تصویریں کولسری صاحب کے ساتھ بنوائیں تاکہ وہ بہل جائیں مگر سگریٹ کا کوٹہ ختم ہونے کے بعد وہ بہلنے والے نہیں تھے لہٰذا اس خوبصورت سمندر سے ہمیں کنارا کرنا پڑا۔

شیزان ریسٹورینٹ واپس آئے تو حسبِ معمول ڈائننگ ہال میں انواع و اقسام کے انتہائی لذیذ کھانے ہماری راہ دیکھ رہے تھے اگلے دن پاکستانی سفیر نے تمام شاعروں، ادیبوں کو سفارت خانہ میں کھانے پر بُلایا تھا۔ وہ بلوچ تھے اور ہم نے بلوچوں کی میزبانی کی بہت خوبصورت کہانیاں سُن رکھی تھیں لہٰذا ہم نے پلاننگ کر لی کہ بلوچوں کی اس پہلی دعوت کو یاد گار بنا دیں گے سو نتیجہ ہماری توقعات کے عین مطابق نکلا سفیر صاحب نہ صرف خود خوش خوراک تھے بلکہ میزبانی کے آداب سے بھی کماحقہ آگاہ تھے۔ گفتگو کا انداز بھی بہت دلچسپ تھا اور اچھے خاصے پڑھے لکھے آدمی تھے۔ وہاں بولنے والے بہت تھے اور ہمیں علم تھا کہ اتنے اہلِ علم لوگوں میں ہماری دال گلنا مشکل ہے سو ہم دریچے سے باہر حدِّ نظر تک پھیلے نیلے سمندر کو دیکھنے لگے۔ آج موسم قدرے خوشگوار تھا ہوا کے جھونکوں نے سفارت خانے کو کلاس روم بنا دیا۔ کمی تھی تو صرف مِس نرگس کی۔

پاکستانی سفیر کا کھانا، باتیں اور انداز میزبانی قابلِ تعریف ہی نہیں قابل رشک بھی تھا سفارت خانے کا باقی اسٹاف بھی بہت خوش اطوار اور خوش اخلاق تھا سفارت خانے کے مزیّن در و دیوار، پر ہمیں کہیں ’’ہفتہ خوش اخلاقی‘‘ کا بینر نظر نہ آیا پھر بھی ہمارے ساتھ خوش اخلاقی کا ایسا مظاہرہ ہو رہا تھا کہ ہمیں اپنے شاعر ہونے اور اُن کے سفیر ہونے پر یقین نہ آتا تھا۔ سفارت خانے کے عملے میں سے کُچھ لوگوں نے ہماری بہت سی تصاویر بنائیں اور ہم سے وعدہ کیا کہ وہ ہمیں ضرور E-mail کر دیں گے ہو سکتا ہے انہوں نے ایسا کیا ہو اور ہم تک نہ پہنچ پائی ہوں بہر حال سفارت خانے میں گزرنے والا دن انڈین اور پاکستانی دونوں ملکوں کے شاعروں کے لئے نہایت خوشگوار دن تھا۔

اگلے دن انڈین شاعروں کے نزدیک چھوٹا سا لیکن ہمارے نزدیک غیر معمولی واقعہ ہوا، ہندوستانی سفیر ’’صاحب‘‘ نے اپنے سفارت خانے میں دعوت کا اہتمام کیا، مگر صرف انڈین شاعروں کو بُلایا۔ شیزان ریسٹورینٹ میں چند دن اکھٹے قیام کے بعد ہماری گُرویندر سنگھ کو ہلی، ندا فاضلی، معراج فیض آبادی اور عزم شاکری، انا دہلوی وغیرہ سے اتنی تو بے تکلفی ہو گئی تھی کہ اُن کو ’’مِہنہ‘‘ دے سکیں سو ہم نے Realize کرایا تو اس واقعہ کے بعد شرمندہ شرمندہ ہی دکھائی دیتے رہے۔ مشاعرے سے ایک روز قبل ایوارڈ تقریب ہوئی۔ مجلسِ فروغ اُردو ادب کی شاندار تقاریب کا ہم نے اتنا ذکر سُنا تھا کہ ہماری بیتابی بڑھ گئی۔ یہ تقریب رات کو دوحہ کلب کے انتہائی خوبصورت ہال میں تھی۔ اس قدر دیدہ زیب، خوبصورت اور بڑا ہال ہر چیز اتنی چمکدار اور اُجلی اُجلی کہ اپنا آپ میلا دکھائی دینے لگا۔ سچ مچ یوں لگ رہا تھا جیسے کسی شہزادے کی رسم تاجپوشی کی تقریب ہو تھوڑی دیر کے لئے ہم نے وہ شہزادہ خود کو تصوّر کر لیا جس سے تقریب ہمارے لیے تو اور بھی خوبصورت ہو گئی۔

پاکستان اور انڈیا کے صفِ اوّل کے ادیب اس تقریب میں شریک تھے اور اس جملے کی اہمیت ہم سے پوچھیں کیونکہ ہم بھی ان ادیبوں میں شامل تھے۔ تقریب میں اِیوارڈ حاصل کرنے والوں کے علاوہ تمام شاعروں ادیبوں کی حیثیت بارہویں کھلاڑی جیسی تھی۔ البتہ حاضرین کی کثیر تعداد اس ہال میں موجود تھی، پھر بھی سب شاعروں کو خوشی ہو رہی تھی کہ آخر یہ بھی اُن ہی کی عزت افزائی تھی اور یہ ایوارڈز جینوئن ادیبوں کو دیئے جا رہے تھے ان میں پاکستان سے اُردو کے نامور ناول نگار عبد اللہ حُسین تھے اور بھارت سے ممتاز نقاد اور نثر نگار پروفیسر نثار احمد فاروقی تھے جبکہ سلیم جعفری انٹرنیشنل ایوارڈز انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈیوڈ میتھوز کو عطا کیا گیا۔ تقریب تقسیم ایوارڈ کی سٹیج پر ایوارڈ کی جیوری کے اراکین گوپی چند نارنگ اور اشفاق حُسین کے علاوہ صدرِ محفل امجد اسلام امجد اور محمد علی صدیقی شامل تھے۔ ابتداء میں مختصراً مجلسِ فروغ اُردو ادب کے بانی ملک مصیب الرحمن نے ایوارڈ کے حوالے سے گفتگو کی اور اب تک دیئے گئے ایوارڈ یافتگان کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے مجلسِ فروغِ اُردو ادب کی کارکردگی کی تفصیلات بھی پیش کیں بعد ازاں اسٹیج معروف اور ہر دلعزیز شاعر اسلم کولسری کے حوالے کر دیا گیا جنہوں نے باقی کارروائی اپنی خوبصورت آواز اور لہجے کی مٹھاس کی وجہ سے خوش اسلوبی سے جاری رکھی سب سے پہلے کینیڈا سے آئے ہوئے معروف شاعر اور سلیم جعفری انٹرنیشنل ایوارڈز کی جیوری کے رُکن اشفاق حُسین نے ڈیوڈ میتھوز کے حوالے سے بہت مفصّل اور مدّلّل تعارفی مضمون پیش کیا جو بے حد دلچسپ تھا تمام حاضرین نے اس مضمون کو انہماک سے ملاحظہ کیا اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ سبھی ڈیوڈمیتھوز کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔ اشفاق حسین نے بتایا کہ انگریز ہونے کے باوجود ڈیوڈ میتھوز روانی سے اُردو بولتے ہیں اور اُردو ادب کے حوالے سے خاصا تحقیقی کام کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اُردو کی اہم تصانیف کے انگریزی میں تراجم بھی کیے ہیں۔ ڈیوڈ میتھوز سٹیج پر تشریف لائے تو انہوں نے ایوارڈ کا شُکریہ ادا کیا اور بتایا کہ انہوں نے کس طرح اُردو زبان سیکھی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اُردو اور فارسی، روسی اور کئی دیگر زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔ روسی زبان پر عبور رکھنے والی بات تو ہماری سمجھ میں آ گئی کیونکہ انہوں نے ’’رشین کُڑی‘‘ ویسے تو نہیں پھنسا لی تھی۔ ڈیوڈ میتھوز نے کہا کہ ہمیں اُردو کے بارے میں زیادہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے البتہ نئی نسل کو اُردو سے متعارف کرانا ضروری ہے۔ یہ جملہ کہتے ہوئے انہوں نے دانستہ یا نادانستہً ہماری طرف دیکھا مگر ہم بھی اتنے بھولے نہیں تھے۔ ہم نے امریکہ سے آئے ہوئے شوکت فہمی کی طرف دیکھ کر ڈیوڈ میتھوز کا یہ تیر خطا کر دیا اور اُس وقت ہمیں اپنی اس چال کی کامیابی کا یقین بھی ہو گیا جب انہوں نے کہا کہ خصوصاً پاکستان سے باہر رہنے والے نوجوانوں کے لیے اُردو میں کشش پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں انگریزی تراجم نہایت ضروری ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ شاعری کا ہمیشہ منظوم ترجمہ کرتے ہیں اور آج کل علامہ اقبال پر کام کر رہے ہیں۔ ڈیوڈ میتھیوز نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ انگریزی میں اقبال پر بہت کم لکھا گیا ہے اور اب ہمارا ادارہ انگلینڈ میں اقبال سوسائیٹی کے تحت اقبال پر یادگار اور خوبصورت کتاب شائع کرے گا۔

ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے نثار احمد فاروقی اور عبد اللہ حسین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایوارڈ حاصل کرنے پر مبارک باد پیش کی۔ عبد اللہ حسین کے حوالے سے اپنا مضمون پیش کرتے ہوئے انہوں نے ان کے ناولوں کا اختصار سے تجزیہ بھی پیش کیا۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے کہا کہ عبد اللہ حُسین کو اپنی دُنیا بسانے کا فن آتا ہے ان کے ہاں منظروں کے رنگ بہت گہرے ہیں جبکہ رنگ بھی زبان ہیں اور ان کی تحریریں خوبصورت سچ کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور وہ حقیقت پسندی کے قائل ہیں اس موقع پر جناب عبد اللہ حسین کو بھی اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی انہوں نے دلچسپ گفتگو کی اور کہا کہ میں سادہ سی کہانیاں لکھتا ہوں اور ہزار کوشش کے باوجود مقرر نہیں بن سکا عبد اللہ حسین نے کہا ادب اور ادیب کی مخالفت عموماً سلطنت یا حکومت کرتی ہے جس کے سبب درباری ادب وجود میں آتا ہے انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ اصولوں پر کاربند رہا ہوں اور حکومتی ایوارڈز پر راضی نہیں ہوا انہوں نے کہا کہ مجلسِ فروغِ اُردو ادب کے لوگ اچھے ہیں اور یہ وطن سے دور رہ کر اُردو زبان کی خدمت میں مصروف ہیں۔ اس لیے مجھے یہ ایوارڈ حاصل کرنے پر بہت خوشی ہو رہی ہے۔ باقی حاضرین کی طرح ہم اس خوبصورت تقریب اور مقررین کی دلچسپ گفتگو سننے میں محو تھے۔ ہر اچھے جملے پر ہال تالیوں سے گونج اُٹھتا مگر ملک مصیب الرحمن نے تو اس تقریب کو بھی مشاعرہ بنا دیا ہر اچھی بات پر اس طرح داد دیتے جیسے اچھے شعر پر دی جاتی ہے۔ اُن کے چہرے پر سرشاری کی کیفیت تھی ہماری نظریں سٹیج پر کم اور ملک صاحب پر زیادہ تھیں۔ ادب اور ادیب سے اتنی محبت کرنے والا بندہ ہم اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھ رہے تھے۔ یونیفارم پہنے ویٹر طرح طرح کے مشروب ہمارے سامنے شیشے کے ساغروں میں اُنڈیلے جا رہے تھے اور شاعر بھی نخروں اور اداؤں سے اُنہیں ہاتھ کی اُنگلیوں کے مختلف زاویوں سے پکڑ پکڑ کر پی رہے تھے۔

تقریب بغیر کسی توقف کے جاری تھی۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ جو کہ دوحہ کئی بار آ چکے تھے اور یہاں کے ادبی اور عوامی حلقوں میں کافی مقبول تھے اور ملک صاحب کے پسندیدہ ترین مقرر تھے انہوں نے نثار احمد فاروقی کے حوالے سے گفتگو کرنی تھی، انہوں نے عبد اللہ حسین اور ڈیوڈ میتھوز کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا انہوں نے کہا مجلسِ فروغِ اُردو ادب کا یہ ایوارڈ اُردو زبان و ادب کے تخلیق کاروں کو آپس میں جوڑتا ہے اب اس ایوارڈ نے اپنی بین الاقوامی شناخت بنا لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نثار احمد فاروقی ہشت پہلو شخصیت ہیں۔ وہ صاحبِ طرز اور صاحبِ اسلوب نثرنگار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اُردو زبان دلوں کو جوڑتی اور ملاتی ہے آخر میں ایوارڈ کی تقریب کے صدر امجد اسلام امجد نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے ادباء کو مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے ڈیوڈ میتھیوز کی اُردو زبان کے حوالے سے خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا اور کہا کہ زبان کے تراجم بہت ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا بیرون مُلک مجلسِ فروغِ اُردو ادب سے بڑا پلیٹ فارم اور کوئی نہیں۔ ہم نے سر ہِلا کر اور مشروب کا ایک سِپ پی کر اُن کی بات کی تائید کی تو انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عبد اللہ حسین ہمارے عہد کے قد آور تخلیق کار ہیں۔ ہم نے ایک نظر جناب عبد اللہ حسین کے قد پر ڈالی تو امجد صاحب کے جملے کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکے امجد صاحب کا خطبۂ صدارت ختم ہوا تو مجلسِ فروغ اُردو ادب کے بورڈ آف پیٹرنز کے چیئرمین محمد عتیق نے تمام مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ ہوتا تو یوں ہے کہ ایسی تقاریب جن میں صرف باتیں ہی باتیں ہوں ہمارے لیے نہایت بور ہوتی ہے مگر اس تقریب میں ایک لمحے کے لیے بھی دلچسپی کم نہیں ہوئی اور کیسے ہوتی اتنی شاندار تقریب کے بعد ایک نہایت پُر تکلُّف ڈنر جو ملنے والا تھا سو ہم آخر تک ’’جم‘‘ کے بیٹھے رہے اور وہاں سے فرار ہونے کا خیال ایک بار بھی ہمارے دماغ میں نہیں آیا۔

شیزان ریسٹورینٹ میں شاعر چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ گئے تھے اور سب نے اپنے اپنے خیمے الگ الگ لگا لیے تھے پاکستانی شاعروں میں شاہدہ حسن، سلیم کوثر، عزم بہزاد ایک ٹیبل پر دکھائی دیتے تو ملک مصیب الرحمن، گوپی چند نارنگ، محمد علی صدیقی، شاہدہ جعفری اور عنایت علی خاں۔ دوسری ٹیبل پر شوکت فہمی، اختر شمار اور ہم نے بھی اپنی دُنیا الگ بسا لی تھی۔ اسلم کولسری کو خوابوں اور احمد فراز کو شرابوں سے فرصت نہیں تھی۔ صابر رضا کو داد دینی پڑتی ہے کہ وہ بیک وقت احمد فراز کا ساتھ بھی نبھاتے اور انا دہلوی سے ساتھ نبھانے کی قسمیں بھی کھاتے رہے۔ پاکستانی شاعروں کی طرح انڈین شاعر بھی اپنے اپنے ہم مزاج دوستوں کے ساتھ علیٰحدہ علیٰحدہ تھڑوں پر نظر آتے اگر ہم بھولے سے کسی تھڑے پر چلے جاتے تو وہاں ’’شاعرانہ گفتگو‘‘ جاری ہوتی۔ شاعرانہ گفتگو سے ہماری مُراد یہ ہے کہ جو شاعر عموماً اکٹھے بیٹھ کر کرتے ہیں یعنی اپنے علاوہ سب کو مُتشاعر سمجھنا، دوسرے شاعروں کی غیبت کرنا شاعروں، ادیبوں کے جھگڑے اور لڑائیاں بہت معصومانہ ہوتی ہیں وہ ان باتوں پر لڑتے ہیں کہ فلاں شاعر نے اُس کی زمین میں غزل کہہ دی ہے۔ فلاں شاعر نے اُس کا شعر چوری کر لیا ہے فلاں شاعر کو میرے بعد پڑھایا گیا ہے مگر جب شاعر ذاتیات پر اُتر آتے ہیں تو کچھ نہ پوچھئے پھر بات کہاں تک پہنچتی ہے۔ ہماری ادبی تاریخ کی کتاب میں ایسے ابواب کی کمی نہیں جنہیں پڑھ کر سر شرم سے جھُک جاتا ہے۔ شوکت فہمی اور ہم، شاعروں ادیبوں کے ان رویّوں کے خلاف کافی دیر تک باتیں کرتے رہے شوکت نے مجھے بتایا کہ امریکہ میں بھی یہی صورتحال ہے۔ اُس سوسائیٹی میں رہ کر بھی کچھ شاعر نامناسب حرکتوں سے باز نہیں آتے اور ادبی فضا کو آلودہ کیے رکھتے ہیں۔ شوکت فہمی نے ہمیں امریکی شاعروں کے رویّوں کے متعلق اور بھی بہت کچھ بتایا جو کہ بہت ہی قابلِ افسوس ہے۔ اشفاق حسین سے ہم کینیڈا کی ادبی فضا کے بارے میں ضرور پوچھتے مگر وہ سرکاری ڈیوٹی پر تھے یعنی بیگم اور بچوں کو ساتھ لائے تھے لہٰذا ہوم گورنمنٹ نے اُنہیں اتنا مصروف رکھا ہوا تھا کہ اُن سے ادبی مکالمہ نہ ہو پایا، پھر بھی جہاں سلام و دُعا ہوتی، ایسی نستعلیق اُردو بولتے کہ اگر ڈیوڈ میتھیوز قریب بیٹھے سُن رہے ہوتے تو اُن کی رال ٹپکنے لگتی۔

سلیم کوثر سے پہلے بھی ہماری چند ملاقاتیں تھیں مگر یہاں کی ایک مُلاقات اُن مُلاقاتوں پر بھاری رہی ایک شام وہ سُنانے اور ہم سُننے کے مُوڈ میں تھے۔ شعر نہیں، زندگی کے بارے میں ہمیں اُن کی بپتا سُن کر بہت حیرانی ہوئی کہ کس طرح وہ ایک ٹرک پر بیٹھ کر کراچی آئے، کس طرح یہاں اپنی جگہ بنانے کے لیے تگ و دو کی، شاعری کے شوق کی کس طرح آبیاری کی اور پھر جب پہلا شعری مجموعہ خود کتابت کر کے شائع کیا اور شرماتے گھبراتے اُردو بازار کراچی کے ایک دُکاندار کے پاس کُچھ کاپیاں رکھنے کے لیے گئے تو کتابیں رکھ کر اُس کا جواب سُنے بغیر وہاں سے چلے آئے۔ کُچھ عرصہ بعد گئے تو وہ تمام کتابیں نہ صرف فروخت ہو چُکی تھیں بلکہ وہ مزید کاپیاں مانگ رہا تھا تو سلیم کوثر کے بقول اُن کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ کہنے کو تو یہ سلیم کوثر کی شاعری کا نقطۂ آغاز تھا، لیکن کم و بیش تمام شعراء اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں۔ خوش قسمت ہیں وہ شاعر جو نہ صرف بطور شاعر اپنا قد کاٹھ اور اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں بلکہ اُن کی کتابیں بھی فروخت ہوتی ہیں اور اُن کا فین کلب بھی ہوتا ہے۔ سلیم کوثر کا شمار بھی ایسے ہی شعراء میں ہوتا ہے۔

احمد فراز اور عبد اللہ حسین میں بڑے مزے کی نوک جھوک جاری رہتی۔ عبد اللہ حسین بات کرتے ہوئے آں آں آں کرتے جسے فرازؔ تندو تیز جملوں سے خوب رگیدتے۔ عبد اللہ حسین بھی آں آں کرتے جب جملہ مکمل کر لیتے تو وہ بہت مزے کا ہوتا۔

 

 

 

جنّات کی ناراضگی کیسے مول لیتے

 

جتنے دن دوحہ میں رہے ہم نے کبھی ملک مصیب کو سوتے ہوئے، کھانا کھاتے ہوئے یا آرام کرتے ہوئے نہیں دیکھا رات کے دو بجے دیکھا تو کسی کے ساتھ ادب پر بات کر رہے ہیں یا مشاعرے کے انتظامات میں مصروف ہیں، علی الصبح اُٹھ کے دیکھا تو پھر بھی جاگ رہے ہیں۔ یہی صورتحال باقی اوقات میں بھی ہوتی۔ ملک مصیب آدمی ہیں کہ جن؟ اس سوال کا جواب سوائے کولسری صاحب کے اور کوئی نہیں دے سکتا تھا مگر اُن کو ہم نے کبھی جاگتے نہیں دیکھا کہیں کولسری صاحب بھی تو؟

اب ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ اتنی بڑی اور عالیشان تقریبات اور مشاعرے صرف ’’جِن‘‘ ہی کرا سکتے ہیں لہٰذا ملک مصیب اور اسلم کولسری کی آنکھوں میں ہمیں جلتے دیئے صاف دکھائی دینے لگے۔ اُن کے ہر عمل میں پراسراریت نظر آنے لگی۔ ایک ہفتے کے قیام کے دوران ہم نے یہ نتیجہ نکالا کے دونوں کا تعلق جنّات کی کسی اعلیٰ نسل سے ہے۔

ڈاکٹر اختر شمار اور ہم چونکہ ایک ہی کمرے میں رہ رہے تھے اور وہ ہم سے سینئر تھے اس لیے ہمیں ڈش پر اُن کے پسندیدہ پروگرام دیکھنے پڑتے جو کہ جتنے ’’بُرے ‘‘ ہوتے اُس گرم خطے میں ہمیں اُتنے ہی ’’اچھے ‘‘ لگتے۔ ڈاکٹر صاحب کی نظر انتخاب کی ہم داد دیتے ہیں جو 600 چینلز میں سے صرف ایک عربی چینل پر ٹھہر گئی تھی اور ہفتہ بھر وہیں ٹھہری رہی اس سے قبل ہم تو عرب کے حُسن و جمال اور رقص سے نا آشنا تھا۔ یہ تو خدا کا شُکر ہے کہ ہمارے کمرے کا فریج انواع و اقسام کے مشروبات سے بھرا ہوتا۔ ورنہ یہ چینل دیکھ کر جتنی پیاس لگتی تھی وہ اس صحرا میں بجھانے ہم کہاں جاتے۔ ڈاکٹر صاحب اور ہم نے مشروبات کو ہونٹوں اور عربی چینل کے آتشیں نظاروں کو آنکھوں سے جدا نہیں ہونے دیا۔ ہم چاہے جتنا مرضی جوس پئیں جائیں فریج اُس طرح ہمیں بھرا ہوا ملتا۔

آخر ہم جنّات کے مشاعرے میں آئے ہوئے تھے۔

مشاعرے کی ایک اخلاقی پابندی تمام شعراء پر یہ بھی ہے کہ میزبان کی اجازت کے بغیر اُس شہر کے کسی اور شاعر، ادیب سے نہ ملیں اور نہ ہی کسی اور ادبی تنظیم کے مشاعرہ میں شرکت کریں یہ ضابطہ اخلاق دوحہ میں بھی نافذ العمل تھا ہاں البتہ ہوٹل میں آ کر ملنے پر کسی شاعر پر کوئی پابندی نہ تھی۔ دوسرے شاعروں کی طرح ڈاکٹر صاحب اور ہمیں بھی کئی گمنام فون آئے جو کہ نہ صرف ہمارے نام سے واقف تھے بلکہ اُن کو ہمارے اشعار بھی ازبر تھے اور ہمارے اعزاز میں ڈنر یا تقریب رکھنا چاہتے تھے۔ ہمیں ’’پُرکھوں ‘‘ نے ایسی آفرز سے ’’انکار‘‘ کا کلمہ رٹا کر بھیجا تھا سو ہم ’’کلمۂ کفر‘‘ پڑھتے رہے آخر ’’زندگی موت‘‘ کا مسئلہ تھا۔ جنات کی ناراضی کیسے مول لیتے۔

ڈاکٹر صاحب کے چاہنے والے تو اُن کے کمرے تک آ پہنچے تھے۔ اُس دن ہمیں پہلی بار ’’ادبی پرچے ‘‘ کی اہمیت کا احساس ہوا اس سے پہلے ہم اسے گھاٹے کا سودا سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر اختر شمار کے تعارف میں اُن کی اپنی صلاحیتوں کے علاوہ ’’بجنگ آمد‘‘ کا بڑا ہاتھ ہے۔ اکثر شاعر جو کہ ادبی پرچوں کے مُدیر ہیں اس بات کا رونا بھی روتے رہتے ہیں کہ وہ پرچہ نکال کر ادب کی جو خدمت کر رہے ہیں وہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے مگر وہ یہ گھاٹے کا سودا برسوں سے کئے جا رہے ہیں، حیرت ہے۔

کہنے کو تو دوحہ، دوہے جتنا ہے مگر ادبی حوالے سے اس کا علاقہ اور نام بہت بڑا ہے بہت سی ادبی تنظیمیں ہیں جو کہ فعال ہیں اور باقاعدگی سے تقریبات کا اہتمام کرتی رہتی ہیں صرف مشاعرے ہی نہیں کانفرنسیں اور مذاکرے ہوتے ہیں اور اُن میں بیرون مُلک سے شعراء کو نان و نفقہ ادا کر کے بُلایا جاتا ہے۔ مگر مجلسِ فروغِ اُردو ادب کے کیا کہنے !

یوں تو مشاعرہ سے قبل کئی لوگوں نے ہم سے اپنا تعارف بطور شاعر کرایا اور کسی نہ کسی ادبی تنظیم کا حوالہ بھی دیا مگر جب مشاعرہ شروع ہوا تو دوحہ سے سوائے عزیز نبیل کے کسی اور نے اپنا کلام نہ سُنایا یہاں تک کہ شوکت علی ناز نے بھی نہیں حالانکہ وہ نہ صرف اتنے دن سے شیزان ریسٹورینٹ میں باقاعدگی سے آ رہے تھے۔ بہت ملنسار انسان ہیں۔ مشاعرہ کے انتظامات کے سلسلہ میں بھی وہ متحرک نظر آئے مگر مشاعرہ میں نہیں، ہو سکتا ہے اس میں کچھ مصلحت ہو۔ پاکستان میں دوحہ میں منعقد ہونیو الی تقریبات کا احوال ہمیں شوکت علی ناز اور ممتاز راشد کی بدولت ملتا رہتا ہے۔ ممتاز راشد خود بھی بہت اچھے شاعر ہیں ایک ادبی تنظیم کے صدر ہیں چھپنے چھپانے کے سلسلہ میں بھی کافی متحرک اور کئی شعری مجموعوں کے خالق ہیں۔ چند دنوں میں ہمیں دوحہ کی ادبی سیاست کے متعلق بھی گرما گرم خبریں ملتی رہیں۔

ملک مصیب کے علاوہ مجلس کی سب سے اہم شخصیت محمد عتیق کی تھی وہ مجلس کے بورڈ آف پیٹرنز کے چیئر مین ہیں۔ اپنی شخصیت، لباس اور چال ڈھال سے واقعی چیئر مین لگتے ہیں۔ اتنے بڑے مشاعرے کے اتنے بڑے بجٹ کے لیے فنڈز کہاں سے آتے ہیں اس کے بارے میں ہم نے نہیں سوچا ایسی باتوں سے ہمارے سر میں درد ہونے لگتا ہے۔

دوحہ قطر کی گرم اور یکسانیت بھری شاموں میں آخر وہ شام آن پہنچی جس کے لیے دن گنے جاتے تھے۔ شعراء اس مشاعرے کی تیاری میں اس طرح مصروف تھے۔ جیسے میدانِ جنگ میں جا رہے ہوں۔ ہمارے کمرے میں عربی چینل تو آج بھی ڈاکٹر صاحب نے لگا رکھا تھا مگر دوپہر سے دیوان کے صفحات اُلٹ پُلٹ رہے تھے اور کاغذوں پر اشعار لکھے جا رہے تھے کبھی کبھی عینک نیچی اور نظریں اونچی کر کے نظارہ بھی کر لیتے۔ پھر فوراً ہی شعروں کے انتخاب کی طرف مائل ہو جاتے وہ انتخاب جس نے غالبؔ جیسے شاعر کو بھی رسوا کر دیا تھا۔

ڈاکٹر صاحب نے ہماری بے فکری اور بے نیازی ملاحظہ فرمائی تو اُسی مصروفیت میں ہمیں بھی تلقین شاہ کی طرح تلقین کی گئی کہ یہ مشاعرہ نہیں معرکہ ہے میاں اساتذہ نے کہا ہے کہ مشاعرہ سے قبل خوب تیاری کرنی چاہیے۔ یہ بات ہماری ناقص عقل کے پلے نہ پڑی۔ دس سال سے ہم بھی مشاعرے پڑھتے آ رہے تھے۔ آل پاکستان تو کیا انٹرنیشنل مشاعرے بھی پڑھ چکے تھے۔ ان مشاعروں میں تقریباً تمام شاعر وہی کلام سناتے ہیں جو کہ پہلے مشاعروں میں سنا چکے ہوتے ہیں۔ اپنی بہترین غزلوں کے چند منتخب اشعار سُنانا ہی مشاعرہ پڑھنے کا ہُنر ہے اور جو مشاعرے کے کامیاب شاعر ہیں وہ اس ہُنر سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اتنے مشاعرے پڑھنے کے بعد تو بندہ اتنا ’’گھاگ‘‘ ہو جاتا ہے کہ اُسے پتہ ہوتا ہے اُسے کیا پڑھنا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی محنت اور مصروفیت کی وجہ سے ہم کمرے سے باہر نکل آئے ساتھ والے کمرے میں حسبِ معمول اسلم کولسری بڑے مزے سے سو رہے تھے جبکہ شوکت فہمی نہا رہے تھے جو بھی تھا کومبینیشن خوب تھا۔ اس کے علاوہ ہم جہاں بھی گئے نظرانداز ہی ہوئے کیونکہ کوئی شاعر اپنی نظریں اپنے دیوان سے ہٹانے کو تیار نہ تھا۔ ہم نے ملک صاحب کے ڈرائیور کو باہر جاتے دیکھا تو اُس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گذشتہ ایک ہفتے میں یہ ہمارا پہلا درست فیصلہ تھا۔ اس بہانے دوحہ دیکھ لیا۔ وہ دو گھنٹے تک سڑکیں ناپتا رہا اور ہم دوحہ کے ’’تھوڑے ‘‘ میں ’’بہت‘‘ تلاش کرتے رہے۔ دوحہ ادھوری پینٹنگ جیسا ہے اُس کو تجسس سے تو دیکھا جا سکتا ہے حیرانی سے نہیں۔ عمارتیں بن رہی ہیں اور ایسی شاندار بن رہی ہیں کہ بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے جو بن چُکی ہیں اُن کا طرزِ تعمیر بھی باقی دنیا کی عمارتوں سے جدا ہے یوں کہہ لیں جدید و قدیم کا امتزاج اور جہاں جدید و قدیم حُسن اکٹھے ہو جائیں اُس سے شاہکار تخلیق تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ بطور شاعر اب ہمیں اتنا تو پتہ تھا سو ہم اِکّا دُکّا شاندار عمارتیں جو مکمل ہو چکی تھیں اُن کو داد دیتے اور واہ واہ کرتے جا رہے تھے۔ آخر یہ بھی تو کسی شاعر کی غزل یا نظم کی طرح تھیں۔ رہائشی علاقہ شروع ہوا تو بڑے بڑے محلّات دیکھ کر ہماری آنکھیں حیرت سے پھٹنے لگیں۔ محلّات باہر سے اتنے خوبصورت لگ رہے تھے تو اندر کیا حُسن و زیبائش ہو گی۔ تمام محلّات ’’سوئے ہوئے محل‘‘ جیسے تھے۔ پھر بھی اتنے خوبصورت محلات کے ہم نے ایسے قصے تو سنے تھے یا کہانیوں میں تو پڑھا تھا اور بچپن میں سپنے بھی دیکھے تھے مگر یہ نہیں سوچا تھا کہ کبھی ان محلات کے راستوں سے گزریں گے۔ تمام حُسن و خوبصورتی کے باوجود عجیب سی ویرانی اور وحشت بھی اس ماحول پر طاری تھی۔

ہمیں تھوڑا سا خوفزدہ دیکھ کر انڈین ڈرائیور نے ہمیں مزید خوفزدہ کرنے کی کوشش کی اور ہمیں خبر دی کہ قطر میں بہت بڑا امریکی ہوائی اڈہ بھی ہے جہاں سخت جان امریکی فوجی حسینائیں تعینات ہیں۔ اُس کی حفاظت بھی وہی کرتی ہیں اور بدّو عربوں سے جو کہ قرب و جوار میں رہتے ہیں بہت بُری طرح پیش آتی ہیں۔ ’’بُری طرح پیش آنے پر‘‘ ہمیں اور عربی بدّووں کو کوئی اعتراض نہ تھا کیونکہ چھری اور خربوزے کی لڑائی میں بہرحال کٹنا تو خربوزے نے ہوتا ہے۔

ہمیں ظالم امریکی حسیناؤں سے ڈرانے والے انڈین ڈرائیور کا تیر خطا گیا تو اُلٹا ہم نے فرمائش کر دی کہ دور سے سہی ہمیں ایک نظر دکھا تو لاؤ مگر اُس نے ہماری فرمائش کا کوئی جواب نہ دیا۔ شاید خود ڈر گیا تھا اور اس ڈر کے مارے وہ واپس شیزان ریسٹورنٹ لوٹ آیا۔

اب بیشتر شعراء اپنے کلام سے انتخاب کر چکے تھے اور شاعرانہ لباس زیب تن کرنے میں محو تھے۔ خاص کر انڈین شعراء جو پاجامہ، کُرتا پہنے پان مُنہ میں ڈالے ہاتھ میں بیاض تھامے ہوئے۔ قدیم لکھنوی مشاعروں کی یاد تازہ کر رہے تھے۔

پاکستانی شاعر اپنے قومی لباس ’’تھری پیس‘‘ میں نظر آئے۔ ہم بھی تیار ہو جاتے مگر بڑھی ہوئی شیو اور قریب ترین کسی باربر شاپ کا نہ ہونا مسئلہ بن گیا۔ اور اگر باربر شاپ قریب ہوتی بھی تو ابتدائی معلومات کے مطابق پاکستانی کرنسی میں حجام، پانچ سو روپے میں شیو بناتا اور اتنی مہنگی شیو کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ سیفٹی سے ہمیں شیو بنانی آتی نہیں تھی۔ ہم نے ایک بار پھر اپنا مسئلہ کولسری صاحب کے سامنے رکھا تو انہوں نے اپنے مخصوص میٹھے لب و لہجے میں کہا:

’’بادشاؤ! اے تے مسئلہ ای کوئی نی‘‘۔

اور سیفٹی لا کر پانچ منٹ میں شیو بنا ڈالی۔ کولسری صاحب کی ہم بے شمار خداداد صلاحیتوں کے قائل تھے مگر اِس ہُنر کا ہمیں پتہ نہ تھا۔

فراز صاحب ایک بڑے شاعر ہیں

ملک مصیب الرحمن کی شب و روز کی محنت رنگ لائی۔ تمام شعراء ہال میں پہنچے تو وہ سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا سینکڑوں سامعین تھے۔ مزے کی بات یہ ہے دعوتِ عام نہیں بلکہ دعوتِ خاص تھی۔ مجلس کا دعوت نامہ جس شخص کے پاس تھا وہی ہال میں داخل ہو سکتا تھا اور اس دعوت نامے کے حصول کے لیے انتظامیہ کے ارکان کو بہت فون، بڑی سفارشیں آ رہی تھیں مگر کیا کیا جائے بہرحال نشستیں محدود اور سامعین کی تعداد زیادہ تھی۔ ہال سے باہر بھی کثیر تعداد میں لوگ اس اُمید پر کھڑے تھے کہ شاید اندر جانے کی کوئی سبیل بن جائے۔ ہم نے مشاعرے تو بہت پڑھے مگر یہ جوش یہ جذبہ اور یہ ولولہ کہیں نظر نہ آیا اور نہ ہی اس شاہانہ انداز میں پذیرائی ملی۔ یہ صرف اور صرف ملک مصیب اور اُن کے رُفقاء کا کمال تھا۔

اس قدر وسیع، خوبصورت اور دلکش ہال اور اُس ہال میں بیٹھے سامعین کا ذوقِ شعر کیونکہ دعوت نامے اُن افراد کو دیئے گئے تھے جو ادبی ذوق بھی رکھتے تھے۔ شاندار اسٹیج جو کہ کسی مُغل حکمران کے پایۂ تخت سے کم نہیں تھا اُس پر جب شعراء جلوہ فگن ہوئے تو ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔

مشاعرے سے قبل ملک مصیب نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا اور اُس کے بعد اسٹیج کی سیڑھیوں میں بیٹھ کر پورا مشاعرہ سُنا۔ عزیز نبیل سے مشاعرہ کا آغاز ہوا ملک زادہ منظور کمپیئرنگ کر رہے تھے۔ ملک صاحب کی مردم شناسی کو داد دینی پڑتی ہے۔ شوکت فہمی میرے دائیں طرف اور گرویندر سنگھ کوہلی بائیں طرف بیٹھے تھے۔ ہزاروں سامعین اور اتنا بڑا اسٹیج ہم تینوں نے بلاشبہ بے شمار مشاعروں میں شرکت کی تھی سچ تو یہ ہے کہ آج اندر سے ہم تینوں ڈرے ہوئے تھے اور اس ڈر کی وجہ سے کچھ کچھ کپکپی بھی طاری تھی۔ باقی شعراء کی حالت بھی کچھ زیادہ اچھی نہ تھی۔ ڈر کی وجہ سامعین کا با ذوق ہونا تھا بہت اچھے شعر پر ہی وہ داد دیتے اور ڈٹ کر داد دیتے ورنہ، خموشی… ملک زادہ منظور لکھنؤ سے تھے۔ اناؔ دِلّی سے۔ جب ملک زادہ منظور نے انا دہلوی کو زحمتِ کلام دی تو دونوں کے مابین کسی بات پر زبردست جملے بازی ہوئی اور دہلی، لکھنؤ کے نام لے کر جملے کسے گئے جو کہ بہت دلچسپ اور چُست تھے نہ صرف ماضی کی یاد تازہ ہو گئی بلکہ ہال بھی کشتِ زعفران بن گیا۔

ماضی کے تجربات کے حوالے سے ہمارا ڈر باقی شعراء سے الگ تھا وہ یوں کہ جب بھی مشاعرہ میں ہمارے کلام سُنانے کی باری آتی یا تو بجلی چلی جاتی یا کوئی جہاز گزرنے لگتا یا پھر موبائل فون بجنے لگتے ایک بار سامعین میں سے کسی کو مِرگی کا دورہ بھی پڑ گیا تھا، کچھ بھی نہ ہوتا تو میزبان بوتلوں کے ڈھکنے کھول دیتے مگر آج خوش قسمتی نے ہمارے ہاتھ چوم کر رُخصت کیا تھا اتنی داد ملی کہ ملک صاحب بھی کھڑے ہو کرتا لی بجانے پر مجبور ہو گئے پھر تو پورا ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ ہم مبالغہ نہیں کر رہے آپ احمد فراز کے علاوہ کسی بھی پاکستانی شاعر سے گواہی لے لیں فراز صاحب پر آج کولسری صاحب کا رنگ چڑھا ہوا تھا۔ وہ سوئے ہوئے تھے اور پورا مشاعرہ سوتے رہے اور وہ بھی کُرسی پر بیٹھے ہوئے، اس کے لیے پتہ نہیں انہوں نے کتنی پریکٹس کی ہو گی جاگتے میں تو فراز صاحب خیر کیا داد دیتے انہوں نے کِسی شاعر کو نیند میں بھی داد نہیں دی۔ فراز صاحب واقعی بڑے شاعر ہیں۔ اس عالمی مشاعرہ میں ہمارے علاوہ عزیز نبیل، گرویندر سنگھ کوہلی، ڈاکٹر عبد العزیز الکواری، ڈاکٹر اخترشمار، اسلم کولسری، چندربھان خیال، عزم شاکری، عزم بہزاد، صابر رضا، ایوب خاور، عنایت علی خان، پروفیسر نثار احمد فاروقی، ندا فاضلی، معراج فیض آبادی اشفاق حسین، سلیم کوثر، شوکت فہمی، ملک زادہ منظور، شاہدہ حسین اور انا دہلوی نے اپنا کلام خوب خوب سُنایا اور بھرپور داد حاصل کی انڈیا کے شاعر نہ صرف داد کے لیے ترنم کا سہارا لیتے ہیں بلکہ ڈرامہ بازی بھی کرتے ہیں اور سامعین سے درخواست بھی کرتے ہیں اس کے برعکس پاکستانی شعراء تحت اللفظ میں کلام سُناتے ہیں اس کے علاوہ کسی چیز کا سہارا نہیں لیتے بلاشبہ اس مشاعرے میں پاکستانی شعراء کا پلّہ بہت بھاری رہا۔ اس کا اعتراف سامعین نے نہیں انڈین شعراء نے بھی کیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ملک مصیب نہ صرف شاعری کی روایت سے کماحقہ آگاہ ہیں بلکہ عصری ادب پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں اور خود نہ صرف بہت اچھے شاعر ہیں بلکہ دوحہ میں کئی شاعر اُن سے اصلاح لیتے ہیں مگر انہوں نے کبھی خود کو شاعر ظاہر نہیں کیا اور نہ ہی کبھی کلام سُنایا۔ یہاں بھی نہیں مشاعرے کے دوران صرف سامعین کی داد ہی نہیں بلکہ مختلف اقسام کے مشروبات سے بھی شعراء کی حوصلہ افزائی جاری رہی۔

احمد فراز نے دو غزلیں سُنائیں تیسری کی فرمائش سامعین سے بھی ہوتی رہی اور اسٹیج سے بھی، ملک مُصیب جو فراز سے بڑی محبت کرتے ہیں انہوں نے بھی بہت منتیں کیں مگر فراز صاحب نے کسی کی نہ مانی اور اسٹیج سے اُتر آئے۔ فراز صاحب واقعی بڑے شاعر ہیں۔

مشاعرے کے اختتام پر حسبِ روایت مجلس کی کارکردگی اور مہمانوں کا شکریہ چیئرمین محمد عتیق نے ادا کیا پھر ایوارڈ یافتگان کو ایوارڈ کی رقوم اور ایوارڈز پیش کیے گئے بعد ازاں احمد فراز کے ہاتھوں تمام شعراء کو اعزازی شیلڈز دی گئیں مُشاعرے کے بعد شعراء اور سامعین کے درمیان مُلاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فراز صاحب اور امجد اسلام امجد کے تو کیا کہنے ہمارے جیسے شاعروں سے بھی آٹو گراف لینے اور ساتھ تصویریں بنوانے والوں کی کمی نہیں تھی۔

فراز صاحب کی شاعری کی طرح اُن کے جملے بھی سُننے والے ہوتے ہیں۔ ایک لڑکی نے فراز صاحب سے آٹو گراف لیا پھر فوٹو گرافر سے کہا کہ میری تصویر فراز صاحب کے ساتھ بنا دو۔ جب اُس نے تصویر بنا دی تو فراز صاحب نے فوٹو گرافر کو کہا اب میری تصویر ان کے ساتھ بنا دو۔

ہمارا خیال تھا کوئی لڑکی ہم سے آٹو گراف لے گی اور ہمارے ساتھ تصویر بھی بنوائے گی مگر احمد فراز کی موجودگی میں یہ خوبصورت حادثہ کسی اور شاعر کے ساتھ پیش نہ آیا۔ ہمیں چند لوگوں نے گھیر لیا تھا اور صدقے قربان ہوئے جا رہے تھے وجہ یہ تھی کہ اُردو کلام سُناتے ہوئے سرائیکی لہجہ پکڑا گیا تھا اور سرائیکی کی خوشبو اُنہیں ہمارے قریب لائی تھی۔ یہ سب لوگ ملتان اور بہاولپور کے تھے۔ انہوں نے بہت پذیرائی کی۔ زبان کا حوالہ اور رشتہ بھی بہت مضبوط ہوتا ہے اس بات کا احساس آج ہمیں پہلی بار ہو رہا تھا۔

سب لوگ ملک صاحب کو اس قدر کامیاب مشاعرے پر مبارکباد دے رہے تھے۔ ملک صاحب کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیر رہے تھے جو چشمے کے پیچھے سے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ آنکھوں کی سُرخی بتاتی تھی کہ وہ کئی راتوں سے نہیں سوئے۔

مشاعرے کے بعد ہم گاڑی میں شیزان ریسٹورینٹ کی طرف آ رہے تھے۔ خیالوں ہی خیالوں میں ہم ایک سال پیچھے چلے گئے۔ لاہور کے مال روڈ کا شیزان ہوٹل جہاں اکثر ادبی تقریبات ہوتی ہیں آج بھی ایک مختصر تقریب ہے۔ پہلے تو یوں ہوتا ہے ملک مصیب جب بھی پاکستان کے کسی شہر میں آتے ہیں شعراء کو کانوں کان خبر نہیں پڑنے دیتے کہ کہیں تقریبات اور دعوتوں میں نہ پھنس کر رہ جائیں مگر آج انہوں نے بطورِ خاص شعراء اور خاص کر نوجوان شاعروں کو سُننے کی خواہش ظاہر کی ہے تاکہ وہ اگلے سال دوحہ میں ہونے والے عالمی مشاعرہ میں کسی نوجوان کو بُلا سکیں۔ لاہور کے کم و بیش سبھی اچھا لکھنے والے نوجوان شاعر اپنا کلام سُنا رہے ہیں۔ مضافات سے بھی شاعر آئے ہوئے ہیں۔ وہ بھی باری باری اپنا کلام سُنا رہے ہیں تمام شاعروں کو ملک صاحب نے نہایت دلجمعی اور محبت سے سُنا۔ مشاعرے کے بعد ملک صاحب کو، سینئر پہلوانوں نے اس طرح گھیر لیا کہ ہم ہاتھ بھی نہ ملا سکے۔

سید امتیاز احمد جو کہ خود غزل کے باکمال شاعر ہیں اُن کا بھی ہماری طرح ایسی محفلوں میں دم گھٹنے لگتا ہے۔ ہم نے وہاں سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ آتے وقت ہم نے یہ منظر دیکھا کہ ’’سینئر پہلوان‘‘ اپنے اپنے ’’پٹھوں ‘‘ کے ہاتھ ملک صاحب کے ہاتھ میں تھما رہے تھے اور کان میں سرگوشیاں بھی کر رہے تھے۔ عالمی مشاعرہ کی فہرست میں ہمارا نام آنے کا ایک فیصد بھی چانس نہیں تھا مگر دل کو یہ تسلّی تھی کہ ملک صاحب بُلائیں گے تو بُلائیں گے کسی جینوئن شاعر کو ہی اس لیے اُن کی طرف سے کوئی ملال نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہے رسوا کرتا ہے۔ آج الحمد للہ پاکستان سے وہ واحد نوجوان شاعر ہم تھے جو اس مشاعرہ میں شریک ہوئے تھے۔

اچانک شیزان ریسٹورینٹ آ گیا۔ لاہور والا نہیں دوحہ والا۔ ہم اتنے تھک چُکے تھے کہ بستر پر لیٹتے ہی نیند آنے لگی، ڈاکٹر اختر شمار نے عربی چینل لگانے کی کوشش کی مگر ریموٹ اُن کے ہاتھ میں تھا کہ وہ سو گئے۔

صبح بہت خوشگوار تھی اور کیسے نہ ہوتی ایک تو ہر طرف ہماری شاعری کی تعریف ہو رہی تھی دوسرا بھاری لفافہ بھی مل گیا تھا۔ ہم نے لفافہ جیب میں ڈالا تو اُس کی ضخامت، حجم، وزن اور خوشبو سے اندازہ ہو گیا کہ ہم مالدار ہو چکے ہیں۔ ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے دوست شاعر، کو جب لفافہ ملا تو وہ فوراً واش روم چلے گئے ہمیں اس منطق کی سمجھ نہ آئی، واپس آئے تو فرمانے لگے آپ کے لفافہ میں کتنی رقم ہے ؟ ہم نے عرض کیا گنتی نہیں کی۔ انہوں نے مشورہ دیا فوراً واش روم جا کر چیک کر لیں۔ آزمودہ نسخہ ہے۔ فائدہ ہو گا۔ قتیل شفائی مرحوم سے عطا ہوا تھا۔ ہمیں واش روم کا یہ فائدہ آج معلوم ہوا تھا۔ سُنا ہے واش روم کے اور بھی بہت سے فائدے ہیں۔ پھر بھی ہم سے یہ نہ ہو سکا لیکن ہم قتیل صاحب کی ذہانت کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکے آخر وہ بھی ایک بڑے شاعر تھے۔

اسے اتفاق یا حُسنِ اتفاق کہیئے کہ امجد صاحب کی سالگرہ بھی ہمارے دوحہ میں قیام کے دوران تھی۔ اس طرح ایک اور خوبصورت تقریب میں شرکت کا موقع مِل گیا یہ تقریب ’’شیزان‘‘ کے ہال میں منعقد ہوئی جس میں پاکستانی کمیونٹی سے نہایت منتخب افراد کو مدعو کیا گیا تھا۔ وہ اس تقریب میں شرکت کے لئے اپنا قیمتی وقت نکال کر ہی نہیں آئے بلکہ قیمتی تحائف بھی ساتھ لائے تھے۔ یہ امجد اسلام امجد کی ساٹھویں سالگرہ کی تقریب تھی۔ اس تقریب میں امجد اسلام امجد کے فن و شخصیت کے حوالے سے ایک نہایت خوبصورت اور ضخیم کتاب ’’ستارے میرے ہمسفر‘‘ کی رسم اِجرا بھی ہوئی جسے مجلس کے فنڈ سے شائع کیا گیا تھا اور اُس میں امجد صاحب کی زندگی اور فن کے حوالے سے مواد تھا۔ اس یاد گار تقریب کی صدارت گوپی چند نارنگ نے کی جبکہ امجد اسلام امجد کے ہمراہ اسٹیج پر نامور ادیب اور ناول نگار عبد اللہ حسین، معروف نقاد اور محقق ڈاکٹر محمد علی صدیقی اور انگلینڈ میں مقیم معروف اُردو سکالر ڈیوڈ میتھیوز شامل تھے۔

فراز صاحب کی آواز اسٹیج تک بھی پہنچ رہی تھی جس سے امجد صاحب کو بہت دُکھ ہو رہا تھا اور یہ اُن کے چہرے کی رنگت بتا رہی تھی۔ آخر میں سالگرہ کا کیک کاٹا گیا امجد صاحب کو تحائف دیئے گئے اور اُس کے بعد پُرتکلف کھانا تھا۔

کل ہماری روانگی تھی سامان میں ہم خوبصورت یادوں کے علاوہ کچھ نہیں لے کر جا رہے تھے۔ ایک اعزازی شیلڈ تھی جس کی ہمارے نزدیک بہت اہمیت تھی۔ دوحہ میں شب و روز خوب گزرے مگر وقتِ رُخصت دُکھ نہیں ہوا جیسا کہ ہماری بہت جلد لوگوں اور چیزوں کے ساتھ وابستگی ہو جاتی ہے اور بچھڑتے وقت دُکھ ہوتا ہے۔

بھول آیا میں اپنا آپ وہاں

چار دن جس جگہ قیام کیا

ایسا کچھ نہ تھا ہم خوشی خوشی واپس جا رہے تھے۔ عبد اللہ حسین، احمد فراز اور امجد اسلام جیسے لوگوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے تو سفر میں ہمارے لیے سب کُچھ تھا ایئرپورٹ پر ہمارے ساتھ پاکستان جانے والے مسافروں نے جب امجد اسلام امجد کو دیکھا تو اُن کو گھیر لیا اور آٹو گراف لینے کا سلسلہ شروع ہو گیا مگر جب احمد فراز دور سے نظر آئے تو سب اُن کی طرف لپکے اور امجد صاحب اکیلے رہ گئے۔

دوحہ میں گزرے دن ہم کبھی نہ بھول پائیں گے۔ آج یہ سطریں لکھتے ہوئے ہماری آنکھیں بھیگی ہوئی ہیں۔ ملک مصیب الرحمن ہمیں بہت یاد آ رہے ہیں۔ جو اب ہم سب کو داغِ مفارقت دے گئے ہیں۔ ہمارے شہر میں خواجہ خدا بخش رحمۃ اللہ علیہ کے عُرس پر ہر سال میلہ لگتا ہے تین دن تک خوب رونق رہتی ہے۔ دُکانیں، جھولے اور سرکس ہم خوب انجوائے Enjoy کرتے ہیں مگر جس دن میلہ ختم ہوتا ہے اُس سے اگلے دن وہ جگہ اُجڑ چکی ہوتی ہے وہاں سے گزرتے ہوئے بہت دُکھ ہوتا ہے ملک مصیب الرحمن کے بعد دوحہ بھی اُجڑ گیا ہے سوچتے ہیں تو بہت دُکھ ہوتا ہے۔ دل کہتا ہے :

آؤ ہاتھ اُٹھائیں

اُس کی خاطر

جس نے شہرِ ادب کے دروازے پر

دستک دے کر یہ بتلایا

خواب دکھانے والوں کی تکریم ہے کیا

شعر سُنانے والوں کی تعظیم ہے کیا

آؤ ہاتھ اُٹھائیں

اُس کی خاطر

جس نے اپنی نیندیں

اپنی سانسیں گروی رکھ کر

ہر موسم میں اک ایسی تقریب سجائی

جس نے دُنیا بھر کے لکھنے والوں کی توقیر بڑھائی

آؤ ہاتھ اُٹھائیں اُس کی خاطر

جو دِل کی زنبیل اُٹھائے

شہروں شہروں، گلیوں گلیوں گھوما

جس نے اک اک کوزہ گر کے

ہاتھ کو جا کر چُوما

(حسن عباسی)

احمد فراز بھی اب اس دُنیا میں نہیں رہے۔ اُن کو یاد کر کے آنکھوں کے کنارے بھیگ جاتے ہیں۔ اسکول لائف میں فراز صاحب کی شاعری پڑھتے ہوئے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمیں ملک اور بیرونِ ملک اُن کے ساتھ سفر کرنے، گفتگو کرنے اور مشاعرے پڑھنے کا موقع ملے گا۔ اپنی یہ نظم ہم اُن تمام شعراء کے نام کرتے ہیں جو ہمارے ساتھ تھے اور اب ہم میں نہیں ہیں :

بچھڑنے والوں کے نام

وہ جو اُس دھرتی پر چاند ستارے آئے تھے

وہ جو اپنے موسم اپنے ساتھ ہی لائے تھے

جن کی اپنی دھوپ تھی جن کے اپنے سائے تھے

وہ جو اہلِ علم تھے وہ جو صاحبِ رائے تھے

جن کی آہستہ قدمی سے وقت نہ پایا جیت

اُن کی یاد میں کوئی آنسو درد بھرا اِک گیت

وہ جو ہم کو جینے کے آداب سکھاتے تھے

وہ جو ہم کو اُنگلی پکڑ کر ساتھ چلاتے تھے

وہ جو ہم کو خواب دکھاتے شعر سُناتے تھے

وہ جو سخت دلوں کو نرم گداز بناتے تھے

سچے جن کے وعدے تھے سب سچی جن کی پریت

اُن کی یاد میں کوئی آنسو درد بھرا اک گیت

جن کی باتیں جن کے ہونٹ دُعاؤں جیسے تھے

وہ جو چھاؤں میں دھوپ اور دھوپ میں چھاؤں جیسے تھے

وہ جو حبس کی رُت میں سرد ہواؤں جیسے تھے

اِس سے پہلے بن برسے یہ ساون جائے بیت

اُن کی یاد میں کوئی آنسو درد بھرا اک گیت

٭٭٭

تشکر: کتاب ایپ، جہاں سے فائل کا حصول ہوا

ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید