گردِ مُسافت ۔ غزلیں
محسن بھوپالی
مجموعہ کلام ’گردِ مسافت‘ کی غزلوں سے انتخاب: شیزان اقبال
تمہیں آسائشِ منزل مبارک
ہمیں گردِ مُسافت ہی بہت ہے
محسن بھوپالی
انتساب
ذوالفقار علی بخاری مرحوم
کے نام
جن کے سوال کے جواب میں مَیں نے یہ نظمانہ کہا تھا جو اپنے
سوال کے ساتھ آج بھی زندہ ہے
دُور اندیشی
تم محسن ہو؟
یہ تو ٹھیک ہے
لیکن تم یہ بھوپالی کیوں لکھتے ہو؟
اگر نہ لکھتا، آپ پوچھتے
کہاں کے رہنے والے ہو؟
میں کہتا لَڑکانے کا
تم پھر کہتے، پاکتسان آنے سے پہلے
کون سے شہر میں رہتے تھے؟
میں کہتا، بھوپال
۔۔۔۔۔۔۔گھما پھرا کر مجھ کو جو بتلانا پڑتا
میں نے ساتھ ہی لکھ رکھا ہے
٭٭٭
حرفِ اظہار
1948ء کے دوران میں نے اِس دشتِ سُخن میں قدم رکھا۔ آج چالیس سال کی مسافت کے بعد جب پچھلے سفر پر نظر ڈالتا ہوں تو ہلکی گہری گرد میں سے دور۔۔۔۔ نسبتاً نزدیک۔۔۔ اور بہت نزدیک ، تین موڑ نمایاں ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں:۔
نیرنگئ سیاستِ دَوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
شکستِ شب۔1961ء
ہماری جان پہ دہرا عذاب ہے محسن
کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے
ماجرا۔1981ء
تمہیں آسائشِ منزل مبارک
ہمیں گردِ مُسافت بہت ہے
گردِ مسافت۔1988ء
یہ موڑ اظہارِ صداقت۔۔۔ نظریۂ فن۔۔۔ اور پندارِ فکر کے آئینہ دار ہیں کہ شعری سطح پر اظہارِ صداقت کے جذبے نے میرے نظریۂ فن کو جلا بخشی ہے اور نظریۂ فن نے پندارِ فکر کا سرمایہ عطا کیا ہے۔
اپنی فکر، اپنے فن اور اپنی شخصیت کے عنوان سے یا ان کی آڑ لے کر بہت کچھ کہا اور لکھا جا سکتا ہے لیکن میرا ایقان ہے کہ اچھا شعر تنقید کا متحمل نہیں ہو سکتا۔۔ اسے محسوس کر کے حِظ حاصل کیا جا سکتا ہے یا عمل پیرا ہوا جا سکتا ہے۔ اسی طرح شاعر کو اچھا مانا تو جا سکتا ہے منوایا نہیں جا سکتا۔۔ آج قارئین کی خدمت میں "گردِ مُسافت” اسی احساس کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔
محسن بھوپالی
6 مئی۔ 1988ء
زاویہ کوئی مقّرر نہیں ہونے پاتا
دائمی ایک بھی منظر نہیں ہونے پاتا
عمرِ مصُروف، کوئی لمحۂ فرصت ہو عطا
میں کبھی خود کو میسر نہیں ہونے پاتا
آئے دن آتش و آہن سے گزرتا ہے مگر
دل وہ کافر ہے کہ پتھّر نہیں ہونے پاتا
کیا اُسے جبرِ مشیّت کی عنایت سمجھوں
جو عمل میرا مقّدر نہیں ہونے پاتا
چشمِ پُرآب سمو لیتی ہے آلام کی گرد
آئینہ دل کا مکدّر نہیں ہونے پاتا
چادرِ عجز گھٹا دیتی ہے قامت میرا
میں کبھی اپنے برابر نہیں ہونے پاتا
فن کے کچھ اور بھی ہوتے ہیں تقاضے محسن
ہر سُخن گُو تو سُخنور نہیں ہونے پاتا
٭٭٭
نذرِ فیض
وہ ساتھ لے گیا قول و قرار کا موسم
تمام عمر ہے اب اِنتظار کا موسم
حیات اب بھی کھڑی ہے اُسی دوراہے پر
وہی ہے جبر، وہی اِختیار کا موسم
ابھی تو خُود سے ہی فارغ نہیں ہیں اہلِ جمال
ابھی کہاں دلِ اُمید وار کا موسم
اُسے بھی وعدہ فراموشی زیب دیتی ہے
ہمیں بھی راس نہیں اعتبار کا موسم
جہاں گِرے گا لہُو، پھُول بھی کِھلیں گے وہیں
کِسی کے بس میں نہیں ہے بہار کا موسم
کبھی تو لوٹ کے دِلداریوں کی رُت آئے
سدا بہار ہے مُدت سے دَار کا موسم
ہم اپنے آپ کو محسن بدل کے دیکھیں گے
بدل سکے نہ اگر کُوئے یار کا موسم
٭٭٭
لب اگر یوں سئے نہیں ہوتے
اُس نے دعوے کئے نہیں ہوتے
خُوب ہے، خُوب تر ہے، خُوب ترین
اِس طرح تجزیئے نہیں ہوتے
گر ندامت سے تم کو بچنا تھا
فیصلے خُود کئے نہیں ہوتے
بات بین السّطوُر ہوتی ہے
شعر میں حاشئے نہیں ہوتے
تیرگی سے نہ کیجئے اندازہ
کچھ گھروں میں دیئے نہیں ہوتے
ظرف ہے شرطِ اوّلیں محسن
جام سب کے لیے نہیں ہوتے
٭٭٭
روشنی ختم ہوئی، اہلِ نظر باقی ہیں
جنھیں دستار میّسر ہے، وہ سَر باقی ہیں
کاٹ لیتے ہیں کبھی شاخ ، کبھی گردنِ دوست
اب بھی چند ایک روایاتِ سفر باقی ہے
اپنے ہمسایوں کا غم بھی ہے اور اپنا غم بھی ہے
اِس تگ و دو میں غنیمت ہے کہ گھر باقی ہیں
سخت جانی کی بھلا اِس سے بڑی کیا ہو مثال
بے شجر شاخ ہے اور برگ و ثمر باقی ہیں
ہو مبارک تمہیں تخلیق پہ تمغے کی سند
میرے حصے کے ابھی زخمِ ہُنر باقی ہیں
٭٭٭
صحرا نوردیوں نے دیا ہے وہ حوصلہ
ذکرِ بہار دامنِ پُر خار پر لکھا
بخت آزمائی میرے قبیلے کی رسم ہے
دیوار پر جو لکھا، وہی دار پر لکھا
٭٭٭
یُونہی تو شاخ سے پتے گِرا نہیں کرتے
بچھڑ کے لوگ زیادہ جیا نہیں کرتے
جو آنے والے ہیں موسم، اُنہیں شمار میں رکھ
جو دن گزر گئے، اُن کو گنا نہیں کرتے
نہ دیکھا جان کے اُس نے ، کوئی سبَب ہوگا
اِسی خیال سے ہم دل بُرا نہیں کرتے
وہ مل گیا ہے تو کیا قصۂ فِراق کہیں
خُوشی کے لمحوں کو یُوں بے مزا نہیں کرتے
نِشاطِ قُرب، غم ہجر کے عوض مت مانگ
دُعا کے نام پہ یُوں بد دُعا نہیں کرتے
مُنافقت پہ جنہیں اِختیار حاصل ہے
وہ عرض کرتے ہیں ، تجھ سے گِلہ نہیں کرتے
ہمارے قتل پہ محسن یہ پیش و پس کیسی
ہم ایسے لوگ طلب خُون بہا نہیں کرتے
٭٭٭
لفظ تو ہوں، لبِ گفتار نہ رہنے پائے
اب سماعت پہ کوئی بار نہ رہنے پائے
کَس طرح کے ہیں مکیں، جِن کی تگ و دو ہے یہی
دَر تو باقی رہیں ، دِیوار نہ رہنے پائے
اُس میں بھی پہلوئے تسکین نکل آتا ہے
ایک ہی صُورتِ آزار نہ رہنے پائے
ذہن تا ذہن مہکتا ہی رہے زخمِ ہُنر
فصلِ حرف و لبِ اِظہار نہ رہنے پائے
اب کے موسم میں یہ معیارِ جُنوں ٹھہرا ہے
سر سلامت رہیں، دستار نہ رہنے پائے
کوئی درماں کہ ہوا چیخ رہی ہے محسن
نخلِ ہستی پہ کوئی بار نہ رہنے پائے
٭٭٭
بدن تو جل گئے، سائے بچا لئے ہم نے
جہاں بھی دھُوپ ملی، گھر بنا لئے ہم نے
اُس امتحان میں سنگِین کِس طرح اُٹھتی
دُعا کے واسطے جب ہاتھ اُٹھا لئے ہم نے
کٹھن تھی شرطِ رہِ مسُتقیم، کیا کرتے
ہر ایک موڑ پہ کتبے سجا لئے ہم نے
ہمارے بس میں کہاں تھا کہ ہم لُہو دیتے
یہی بہت ہے کہ آنسُو بہا لئے ہم نے
سمندروں کی مسافت پہ جن کو جانا تھا
وہ بادباں سرِ ساحل جلا لئے ہم نے
بڑے تپاک سے کچھ لوگ ملِنے آئے تھے
بڑے خلُوص سے دُشمن بنا لئے ہم نے
٭٭٭
زخم خوردہ تو اُسی کا تھا سپر کیا لیتا
اپنی تخلیق سے میں دادِ ہُنر کیا لیتا
وہ کِسی اور تسلسل میں رہا محوِ کلام
میری باتوں کا بھلا دل پہ اثر کیا لیتا
اُس کو فرصت ہی نہ تھی نازِ مسیحائی سے
اپنے بیمار کی وہ خیر خبر کیا لیتا
ایک آواز پہ مقسُوم تھا چلتے رہنا
بے تعیّن تھا سفر، رختِ سفر کیا لیتا
سازِ لب گُنگ تھے، بے نُور تھی قندیلِ نظر
ایسے ماحول میں الزامِ ہنر کیا لیتا
بے نیازانہ رہا اپنی روش پر محسن
شب پرستوں سے بھلا فالِ سحر کیا لیتا
٭٭٭
اپنا آپ تماشا کر کے دیکھوں گا
خُود سے خُود کو مِنہا کر کے دیکھوں گا
وہ شعلہ ہے یا چشمہ، کُچھ بھید کھُلے
پتھر دل میں رستہ کر کے دیکھوں گا
کب بچھڑا تھا، کون گھڑی تھی، یاد نہیں
لمحہ لمحہ یکجا کر کے دیکھوں گا
وعدہ کر کے لوگ بھُلا کیوں دیتے ہیں
اب کے میں بھی ایسا کر کے دیکھوں گا
کتنا سچا ہے وہ میری چاہت میں
محسن خُود کو رسوا کر کے دیکھوں گا
٭٭٭
قطعہ
کچھ اُس میں دخل نہ ہو میرے نرم لہجے کا
بِنائے تلخ کلامی ضرُور ہے کوئی
وہ بے سبَب ہے، بلا واسطہ ہے یا بے لوث
مرے خلُوص میں خامی ضرور ہے کوئی!
٭٭٭
جو اُس کا ہے وہ غم شاید اپنا ہو
پُوچھو تو یہ محرم شاید اپنا ہو
اِس رُت نے تو چھین لیا ہے ہر اِمکاں
آنے والا موسم شاید اپنا ہو
منظر نامہ سُن کر دل بھر آیا ہے
تاراجی کا عالم شاید اپنا ہو
دُشمن جیسی باتیں یہ کیوں کرتا ہے
یُوں بھی سوچو، ہمدم شاید اپنا ہو
پت جھڑ کی آواز پہ محسن دھیان تو دو
ویرانی کا عالم شاید اپنا ہو
٭٭٭
قطعہ
اب کیا یقین آئے کہ شک رہگذر میں ہے
منزل کا اعتبار بھی شامل خبر میں ہے
افسوس یہ نہیں ہے کہ وعدے بھُلا دیئے
حیرت یہ ہے، وہ اب بھی صفِ معتبر میں ہے
٭٭٭
بچھڑ کے تجھ سے میّسر ہوئے وصال کے دن
ہیں تیرے خواب کی راتیں، ترے خیال کے دن
فراقِ جاں کا زمانہ گزارنا ہو گا
فُغاں سے کم تو نہ ہوں گے یہ ماہ و سال کے دن
ہر اِک عمل کا وہ کیا کیا جواز رکھتا ہے
نہ بن پڑے گا جواب ایک بھی، سوال کے دن
عُروجِ بخت مبارک، مگر یہ دھیان رہے
اِنہی دنوں کے تعاقب میں ہیں زوال کے دن
گُزر رہے ہیں کچھ اِس طرح روز و شب اپنے
کہ جس طرح سے کٹیں شاخِ بے نہال کے دن
شِکایتیں بھی بہت ہیں، حِکایتیں بھی بہت
گُزر نہ جائیں یُونہی عہدِ بے مثال کے دن
وہ زندگی کو نیا موڑ دے گیا محسن
یہی زوال کے دن ہیں مرے کمال کے دن
٭٭٭
ملے تھے خوف سے، بچھڑے ہیں اعتماد کے ساتھ
گزار دیں گے اِسی خوشگوار یاد کے ساتھ
یہ ذوق و شوق فقط لُطفِ داستاں تک ہے
سفر پہ کوئی نہ جائے گا سِندباد کے ساتھ
زمانہ جتنا بکھیرے، سنوَرتا جاؤں گا
ازل سے میرا تعلق ہے خاک و باد کے ساتھ
اُسے یہ ناز، بالآخر فریب کھا ہی گیا
مجھے یہ زعم کہ ڈُوبا ہوں اعتماد کے ساتھ
بڑھا گیا مرے اشعار کی دلآویزی
تھا لُطفِ ناز بھی شامل کِسی کی داد کے ساتھ
گزر رہی ہے کچھ اِس طرح زندگی محسن
سفر میں جیسے رہے کوئی گردباد کے ساتھ
٭٭٭
بے خبر سا تھا مگر سب کی خبر رکھتا تھا
چاہے جانے کے سبھی عیب و ہُنر رکھتا تھا
لاتعلق نظر آتا تھا بظاہر لیکن
بے نیازانہ ہر اِک دل میں گزر رکھتا تھا
اُس کی نفرت کا بھی معیار جدا تھا سب سے
وہ الگ اپنا اِک اندازِ نظر رکھتا تھا
بے یقینی کی فضاؤں میں بھی تھا حوصلہ مند
شب پرستوں سے بھی اُمیدِ سحر رکھتا تھا
مشورے کرتے ہیں جو گھر کو سجانے کے لیے
اُن سے کِس طرح کہوں، میں بھی تو گھر رکھتا تھا
اُس کے ہر وار کو سہتا رہا ہنس کر محسن
یہ تاثر نہ دیا، میں بھی سپر رکھتا تھا
٭٭٭
جو غم شناس ہو، ایسی نظر تجھے بھی دے
یہ آسماں غمِ دیوار و در تجھے بھی دے
سُخن گُلاب کو کانٹوں میں تولنے والے
خدا سلیقۂ عرضِ ہُنر تجھے بھی دے
خراشیں روز چنُے اور دل گرفتہ نہ ہو
یہ ظرفِ آئینہ، آئینہ گر تجھے بھی دے
پرکھ چکی ہے بہت مجھ کو یہ شبِ وعدہ
اب انتظار زدہ چشمِ تر تجھے بھی دے
ہے وقت سب سے بڑا منتقم، یہ دھیان میں رکھ
نہ سہہ سکے گا یہی غم، اگر تجھے بھی دے
سبھی شہادتیں تیرے خلاف ہیں محسن
یہ مشورہ دلِ خُود سر مگر تجھے بھی دے
٭٭٭
وہ برگِ خُشک تھا اور دامنِ بہار میں تھا
نمودِ نَو کی بشارت کے اِنتظار میں تھا
مری رفیقِ سفر تھیں حسد بھری نظریں
وہ آسمان تھا اور میرے اِختیار میں تھا
بکھر گیا ہے تو دل اب نِگار خانہ ہے
غضب کا رنگ اُس اِک نقشِ اعتبار میں تھا
اب آ گیا ہے تو ویرانیوں پہ طنز نہ کر
ترا مکاں اِسی اجڑے ہوئے دیار میں تھا
لکھے تھے نام مرے قتل کرنے والوں کے
عجیب بات ہے، میں بھی اُسی شمار میں تھا
مجھے تھا زُعم مگر میں بِکھر گیا محسن
وہ ریزہ ریزہ تھا اور اپنے اِختیار میں تھا
٭٭٭
وقت کی رَو کو حقیقت نہ سمجھ لیجئے گا
اِس سیاست کو سیاست نہ سمجھ لیجئے گا
یہ تعلق ہے ابھی وجہِ تعلق تو کھُلے
ملِنے جُلنے کو محبت نہ سمجھ لیجئے گا
یہ بھی ممکن ہے سنبھلتا نہ ہو دستار کا بوجھ
سر جھُکانے کو عقِیدت نہ سمجھ لیجئے گا
جاگتی آنکھوں اگر خواب نظر آتے ہوں
اُن کی تعبیر کو وحشت نہ سمجھ لیجئے گا
ایک ہی کھیل تو ہے جس میں نہیں جاں کا زیاں
دل کی بازی کو سیاست نہ سمجھ لیجئے گا
عرض کر سکتا ہوں مَیں بھیک نہیں مانوں گا
میری خواہش کو ضرُورت نہ سمجھ لیجئے گا
یہ تو پیرایۂ اِظہارِ سُخن ہے محسن
میری عادت کو ارادت نہ سمجھ لیجئے گا
٭٭٭
کیا خبر تھی ہمیں یہ زخم بھی کھانا ہو گا
تو نہیں ہو گا، تری بزم میں آنا ہو گا
ہم کہ اپنے کو حقیقت سے سوا جانتے ہیں
ایک دن آئے گا اپنا بھی فسانہ ہو گا
عرصۂ رزم و کمیں گاہ کی اب قید نہیں
کون جانے کہ یہاں کون نِشانہ ہو گا
کہہ رہے ہیں یہ بدلتے ہوئے منظر محسن
وقت جو بیت گیا ہے، اُسے آنا ہو گا
٭٭٭
قطعہ
اُس نے کھُل کر سچ کا تو اِظہار کیا
خُوش ہوں وعدہ کرنے سے اِنکار کیا
جب تک تھا بے لوث تعلق قائم تھا
میں نے اپنی خواہش کو دِیوار کیا
٭٭٭
غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
وہ شخص لہجہ بڑا دل نشین رکھتا تھا
ہے تار تار مرے اعتماد کا دامن
کِسے بتاؤں کہ میں بھی امین رکھتا تھا
اُتر گیا ہے رگوں میں مری لہُو بن کر
وہ زہر ذائقہ انگبین رکھتا تھا
گُزرنے والے نہ یُوں سرسری گُزر دل سے
مکاں شِکستہ سہی، پر مکین رکھتا تھا
وہ عقلِ کُل تھا بھلا کِس کی مانتا محسن
خیالِ خام پہ پُختہ یقین رکھتا تھا
٭٭٭
قطعہ
تردید کی سب خبریں اخبار سے ملتی ہیں
اخبار کی تردیدیں دیوار سے ملتی ہیں
کیا نثر میں رکھا ہے جُز مدح و ثنا محسن
اب کام کی باتیں بھی اشعار سے ملتی ہیں
٭٭٭
فنِ تشہیر سے کوئی بھی بے گانہ نہیں ملتا
جریدوں میں مگر حرفِ حکیمانہ نہیں ملتا
ہمارے عہد سے تم کوہکن تک اِک نظر ڈالو
یہ کارِ عشق ہے اِس میں محنتانہ نہیں ملتا
یہ کیسا دشت، کیسی سرزمینِ بے روایت ہے
یہاں تو زیرِ دام آنے پہ بھی دانہ نہیں ملتا
محبت پیشگاں پر اَبتری کا دَور آیا ہے
کہ اُن کو پیش کش ملتی ہے، بیعانہ نہیں ملتا
اُچٹتی سی نظر بے چین ہے شاداب کرنے کو
کئی دن سے مگر وہ ننگِ ویرانہ نہیں ملتا
کبھی تنہا جو ہوتا ہے خیالوں میں نہیں ہوتا
وہ ملتا ہے مگر خود سے جُداگانہ نہیں ملتا
عجب معیار ہے وعدہ خلافی کا محبت میں
زرِ آزار تو ملتا ہے، ہرجانہ نہیں ملتا
فنا بنیادِ ہستی پر نہ اِترانا کہ بعض اوقات
وسائل ہوں مگر مہلت کا پروانہ نہیں ملتا
عجیب یکسانیت سی زندگی میں آ گئی محسن
بہت دن سے کوئی موضوعِ نظمانہ نہیں ملتا
٭٭٭
خبر کیا تھی نہ ملنے کے نئے اسبَاب کر دے گا
وہ کر کے خواب کا وعدہ، مجھے بے خواب کر دے گا
کِسی دن دیکھنا وہ آ کے میری کشتِ ویراں پر
اُچٹتی سے نظر ڈالے گا اور شاداب کر دے گا
وہ اپنا حق سمجھ کر بھُول جائے گا ہر اِک احساں
پھر اِس رسمِ اَنا کو داخلِ آداب کر دے گا
نہ کرنا زُعم، اُس کا طرزِ استدلال ایسا ہے
کہ نقشِ سنگ کو تحریرِ موجِ آب کر دے گا
اسیر اپنے خیالوں کا بنا کر ایک دن محسن
خبر کیا تھی، مجھے میرے لیے کمیاب کر دے گا
٭٭٭
نظر ملا کے ذرا دیکھ، مت جھُکا آنکھیں
بڑھا رہی ہیں نِگاہوں کا حوصلہ آنکھیں
جو دل میں عکس ہے، آنکھوں سے بھی وہ جھلکے گا
دل آئینہ ہے مگر دل کا آئینہ آنکھیں
وہ اِک ستارا تھا، جانے کہاں گِرا ہو گا
خلا میں ڈھُونڈ رہی ہیں نہ جانے کیا آنکھیں
قریبِ جاں دم خلوت، مگر سرِمحفل
ہیں اجنبی سے بھی بڑھ کر وہ آشنا آنکھیں
غمِ حیات نے فرصت نہ دی ٹھہرنے کی
پُکارتی ہی رہیں مجھ کو بے صدا آنکھیں
تباہیوں کا کِسی نے اگر سبَب پوچھا
زبانِ حال نے بے ساختہ کہا، آنکھیں
جھٹک چکُا تھا میں گردِ ملال چہرے سے
چھُپا سکیں نہ مگر دل کا ماجرا آنکھیں
یہ اُس کا طرز تخاطب بھی خوب ہے محسن
رُکا رُکا سا تبسم، خفا خفا آنکھیں
٭٭٭
چاہت میں کیا دُنیا داری، عشق میں کیسی مجبُوری
لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، اُن کی اپنی مجبُوری
مَیں نے دل کی بات رکھی اور تُو نے دُنیا والوں کی
میری عرض بھی مجبُوری تھی، اُن کا حکم بھی مجبُوری
روک سکو تو پہلی بارِش کی بُوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی، ہے مٹی کی مجبُوری
ذات کدے میں پہروں باتیں اور ملیں تو مُہر بلب
جبرِ وقت نے بخشی ہم کو اب کے کیسی مجبُوری
جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے، سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو یاد آ جاتی ہے، مصنُوعی مجبُوری
مُدّت گزری اِک وعدے پر آج بھی قائم ہیں محسن
ہم نے ساری عمر نباہی، اپنی پہلی مجبُوری
٭٭٭
تِشنگی بے سبَب نہیں ہوتی
مے کشی بے سبَب نہیں ہوتی
محتِسب خُود بھی اِس کا قائل ہے
زِندگی بے سبَب نہیں ہوتی
دوستی بھی کبھی رہی ہو گی
دشمنی بے سبَب نہیں ہوتی
گھر جلا ہے یا دل جلا ہے کوئی
روشنی بے سبَب نہیں ہوتی
دخل ہوتا ہے کچھ نظر کو بھی
دلکشی بے سبَب نہیں ہوتی
کِسی طوفاں کی آمد آمد ہے
خامشی بے سبَب نہیں ہوتی
کیا کِسی کے ہو منتظِر محسن
بے کلی بے سبِب نہیں ہوتی
٭٭٭
وقت کے تقاضوں کو اِس طرح بھی سمجھا کر
آج کی گواہی پر مت قیاسِ فردا کر
تیرے ہر رویے میں بدگمانیاں کیسی
جب تلک ہے دُنیا میں، اعتبارِ دُنیا کر
جِس نے زندگی دی ہے، وہ بھی سوچتا ہو گا
زندگی کے بارے میں اِس قدر نہ سوچا کر
حرف و لب سے ہوتا ہے کب اَدا ہر اِک مفہوُم
بے زبان آنکھوں کی گفتگُو بھی سمجھا کر
ایک دن یہی عادت تجھ کو خُوں رُلائے گی
تُو جو یوں پرکھتا ہے ہر کِسی کو اپنا کر
یہ بدلتی قدریں ہی حاصلِ زمانہ ہیں
بار بار ماضی کے یوں ورَق نہ اُلٹا کر
خُوں رُلائیں گے منظر، مت قریب آ محسن
آئینہ کدہ ہے دہر، دُور سے تماشا کر
٭٭٭
سرمایۂ یقین بھی ہرچند پاس تھا
جِس نے مجھے بچایا، وہ میرا قیاس تھا
نو واردِ بساط سے کھاتا میں کب شِکست
شَہ بھی اُسی نے دی تھی، مجھے اُس کا پاس تھا
تُجھ سے ملا تو ذات کا عِرفاں ہُوا مجھے
نِکلا خیالِ خام کہ میں خُودشناس تھا
اِس عہد ناشناس سے اب کیا گِلہ کروں
تنہائیوں میں رہ کے بھی جو میرے پاس تھا
اب حرفِ اِنبساط سے بھی کانپتا ہے دل
گزرا ہے ایسا دَور کہ جب غم بھی راس تھا
ہونا بھی چاہیئے تھا اُسے میرے رُو برُو
وہ شخص ہی تو میرے کبھی آس پاس تھا
٭٭٭
وہ شرر ہے کہ سِتارا ہے کہ جگنُو، کیا ہے
اُس سے مل کر یہ یقیں آیا کہ جادُو کیا ہے
کشتِ ویراں کو عطا کر کے نئی رُت کی نوید
اُس نے احساس دیا، لمَس کی خُوشبُو کیا ہے
اُس کو دیکھا جو نظر بھر کے تو عِرفان ہوا
عشق کہتے ہیں کِسے، نعرۂ یاہُو کیا ہے
اُس سے منسُوب ہوئے لفظ تو معنی بھی کھُلے
رنگ کہتے ہیں کِسے، موجۂ خُوشبو کیا ہے
ایک مدت میں جو بِگڑا ہے تو احساس ہُوا
کیا ہے ماتھے کی شِکن، جُنبشِ اَبرُو کیا ہے
شاخ دَر شاخ رَقم ہے مری رُودادِ سفر
اور شجر پوچھتا ہے ربطِ من و تُو کیا ہے
ایک مدت کی سُلگتی ہوئی تنہائی نہ ہو
وہ لرزتا ہوا سایہ سا لبِ جُو کیا ہے
اُس کے حلقے سے نکلنا نہ تھا آساں محسن
بچ نہ سکتے ہوں فرشتِے بھی جہاں ، تُو کیا ہے
٭٭٭
ماخذ: اردو محفل
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید