فہرست مضامین
کہانی والی خالہ
اور دو مزید کہانیاں
جاوید صدیقی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
مکمل کتاب پڑھیں …..
کہانی والی خالہ
ماگھ کی پہلی مہاوٹ گری تو جلدی جلدی سارے گدے لحاف نکالے گئے۔ اُنھیں دھوپ دی گئی۔ کچھ نئی رضا ئیاں بنوائی گئیں۔ صدریاں، سویٹر اور شا لیں بھی صندوقوں سے باہر آ گئے۔ دالان میں لٹکے ہوئے بھاری پردے کھول کر دیکھے گئے۔ کہانی والی خالہ ابھی تک نہیں آئیں۔ بچوں نے بار بار پوچھنا شروع کیا۔
کب آئیں گی؟ اے مرے کیوں جا رہے ہو ہر سال تو آتی ہیں اس سال بھی آ جائیں گی۔ مگر بچے بے چین تھے۔ ہر سال تو سردیاں شروع ہوتے ہی آ جاتی تھیں۔ اب کی بار دیر کیوں ہو گئی۔
یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ٹی وی ایجاد نہیں ہوا تھا اور موبائیل فون کا نام بھی کسی نے نہیں سنا تھا۔ ریڈیو آ چکا تھا مگر وہ ہر ایک کے بس کی چیز نہیں تھی۔ ان بڑے گھروں میں سنائی دیتا تھا جہاں بجلی کی سہولت بھی ہوتی تھی۔ چابی والے گراموفون اکثر دکھائی دیتے تھے مگر 78RPM کے نئے نئے ریکارڈ خریدنا مہنگا سودا تھا اس لئے چند گانوں پر ہی صبر کرنا پڑتا تھا۔ مطلب یہ کہ وقت گزاری کے ذرائع کافی محدود تھے۔ یوں کہنے کو شہر میں ایک سنیما ہال بھی تھا لیکن وہاں شریف گھرانے کی بہو، بیٹیوں اور بچوں کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اُس زمانے کے بزرگوں کا خیال تھا کہ فلمیں دیکھنے سے اخلاق خراب ہو جا تا ہے۔ خواتین کی مشکل تو اور بھی زیادہ تھی کہ وہ باہر بھی نہیں نکل سکتی تھیں، بے چاریاں کھانے بنانے اور کھلانے ہی میں دن کو رات کر دیا کرتی تھیں۔ کچھ سگھڑ ہوتیں تو سینے پرونے سے دل بہلایا کرتیں۔ لڑکیاں گڑیوں سے کھیلتیں اور لڑکے پتنگ بازی کے مزے لیتے۔ ایسے محدود ماحول میں اگر یہ خبر ملے کہ کہانی والی خالہ آ رہی ہیں تو ایسا لگتا تھا جیسے ویرانے میں بہار آ جائے۔
بڑی حویلی میں کہانی والی خالہ کی وہی اہمیت تھی جو گاؤں میں میلے کی ہوتی ہے۔ وہ جب بھی آتیں اور جب تک رہتیں حویلی کی ہر رات شبِ برأت بن جاتی تھی۔ دیوان خانے کے برابر والے بڑے کمرے میں گدوں کے اوپر چاندنیاں بچھائی جاتیں۔ درجنوں گاؤ تکئے، گول تکئے اور تکونیوں کے ڈھیر لگا دیئے جاتے، اور آتش دان کوئلوں سے بھر دیا جاتا۔ جیسے جیسے شام ڈھلتی ویسے ویسے کمرہ بھر جاتا۔ حویلی کی اپنی آبادی کون سی کم تھی مگر کہانی والی خالہ کا نام سن کر دور قریب کے رشتے دار اور پڑوسی بھی جمع ہو جاتے۔ دلان میں جوتوں، چپّلوں اور سینڈلوں کا ایسا انبار لگا ہوتا کہ جامع مسجد کی سیڑھیاں یاد آ جاتیں جو جمعہ کے جمعہ اِسی طرح جوتوں سے بھر جاتی تھی۔
گھر کے ان مردوں کے لیے جنہیں کہانی سننے کا شوق تھا دیوان خانے کا دروازہ کھول دیا جاتا اور کرسیاں لگا دی جاتیں۔ جب بڑی بیگم عشاء کی نماز پڑھ کے اللہ ربّ العزت سے اپنے بیٹے کی سلامتی کی دعا مانگ کے، انگلی سے حصار باندھ کے بڑے کمرے میں قدم رکھتیں اور نصیبن ان کا حقہ سامنے لا کر رکھتی تو یہ اشارہ ہوتا کہ خالہ اب کہانی شروع کر سکتی ہیں۔ اور خالہ کی کہانی شروع ہو جاتی…
ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، خدا کا بنایا رسول بادشاہ، تو ایک بادشاہ تھا۔ ملک یمن پر حکومت کرتا تھا انصاف میں نوشیرواں عادل سے بڑھ کر تھا اور سخاوت میں حاتم طائی سے کم نہ تھا، ہر طرف امن امان تھا رعایا خوش حال تھی خوشیوں سے مالا مال تھی، ہر آد می بادشاہ کی محبت کا دم بھرتا تھا اور دعا کرتا تھا کہ یا رب جب تک دجلہ میں پانی رہے ہمارے بادشاہ کی حکمرانی رہے۔ اس بادشاہ کا ایک بیٹا تھا، ایسا خوبصورت کہ چاند دیکھے تو شرمائے بادلوں میں منہ چھپائے۔ بات کا سچا تھا عادت کا اچھا تھا مگر ایک شوق تھا کہ بے قرار رکھتا تھا۔ روکنے پر بھی نہ رکتا تھا اور وہ تھا شکار۔ جب بھی موقع ملتا گھوڑا لے جنگل کی راہ لیتا۔ جنگلی جانوروں کا شکار کرتا۔ جان کو خطرے میں ڈالتا مگر قدم پیچھے نہ ہٹاتا اور جیت کر ہی آتا۔ تو ایک دن اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ شہزادہ جنگل میں پہونچا۔ کمان اتاری تیر چڑھایا ببر شیر کا نشانہ لگایا کہ ایک عجیب منظر نظر آیا۔ ایک کالا ہرن دکھائی دیا جس کے بدن پر سنہری دھاریاں تھیں۔ شہزادے نے ایسا ہرن نہ دیکھا نہ سنا تھا، حیران ہو گیا، سوچا زندہ پکڑ لوں اور بادشاہ کو نذر کروں تو نام ملے انعام ملے مگر ہرن تو ہرن ہوتا ہے، آہٹ پائی کہ ہَوا ہوا مگر شہزادہ بھی کہاں ہار ماننے والا تھا جنگل کے رستوں کو جاننے والا تھا۔ گھوڑا دوڑایا اور سوچا کہ زندہ ہاتھ نہ آیا تو مردہ لے جائے گا مگر خالی ہاتھ نہ جائے گا۔ اب کیا تھا آگے آگے ہرن پیچھے شہزادہ دل میں پکّا ارادہ۔ دوڑتے دوڑتے شام ہو گئی ایک جگہ ہرن رُکا شہزادے کو دیکھا آنکھ سے آنکھ ملی۔ شہزادے کے لئے یہ ایک پل کافی تھا۔ تیر چلایا وار کاری تھا۔ ہرن تڑپ کے گِرا۔ جنگل میں عجیب سا شور اُٹھا بادل گرجے بجلی چمکی اور ایک آواز گونجی۔
’’ہائے یہ کیا غضب کیا، خون ایک معصوم کا بے سبب کیا، سونا پری کو مار ڈالا۔‘‘
شہزادے نے آگے بڑھ کر دیکھا جہاں ہرن کی لاش گری تھی وہاں ایک حسینہ مردہ پڑی تھی۔ شہزادے کا تیر چھاتی پار تھا۔ چھوٹے بڑے سب دم سادھے سُن رہے تھے۔ اچانک ایک بچے کی آواز سنائی دی۔ بچے نے پوچھا۔
’’خالہ، کیا پری مر گئی؟۔‘‘
خالہ نے بڑے پیار سے بچے کو دیکھا اور مسکرا کے کہا۔
’’ہاں بیٹا۔ سونا پری مر گئی اور شہزادہ مصیبت میں پھنس گیا اب دیکھنا ہے وہ کیسے نکلے گا…۔‘‘
اور خالہ کی کہانی پھر شروع ہو گئی۔
خالہ کی اپنی کہانی بھی کا فی دل چسپ تھی۔ انھوں نے بتایا تھا کہ وہ لکھنؤ کے کسی اچھے خاندان کی فرد ہیں۔ کافی پڑھی لکھی بھی ہیں مگر وقت بگڑ گیا ہے، اُن کے شوہر گھوڑے سے گر کے مر گئے تودیور نے ساری جائداد پر قبضہ کر کے بے دخل کر دیا مگر خالہ ہار نہیں مانیں، دیور پر مقدمہ دائر کیا اور خود ان امیروں، جاگیرداروں اور زمین داروں کے گھروں میں جہاں کبھی وہ مہمان بلائی جاتی تھیں، جا کر سینے پرونے اور پڑھانے کا کام کرنے لگیں۔ دن بھر تو کام کاج میں گزر جاتا، رات میں بچوں کو جمع کر کے کہانیاں سناتیں۔ زبان اچھی تھی، بیان اس سے بھی اچھا تھا۔ ایسا نقشہ کھینچتی تھیں کہ منظر آنکھوں میں زندہ ہو جاتا دھیرے دھیرے باقی کام تو بند ہو گئے مگر کہانی جاری رہی اور وہ کہانی والی خالہ کے نام سے مشہور ہو گئیں۔
لکھنؤ کی گھسیاری منڈی میں رہا کرتی تھیں۔ ویسے رہنے کا تو بس نام ہی تھا، محرم کے دس اور رمضان کے تیس دن چھوڑ کر سارا سال جہانیاں جہاں گشت بنی شہر شہر گھومتی رہتی تھیں۔ جہاں بھی جاتیں ہفتہ پندرہ دن سے پہلے چھٹی نہ ملتی، کبھی کبھی تو مہینہ لگ جاتا۔ وہ کہانی ہی ایسی چھیڑتی تھیں کہ کڑی سے کڑی پھنستی چلی جاتی اور ایک ایسی زنجیر بن جاتی جس سے آزاد ہونے کو کسی کا جی نہیں چاہتا تھا۔ حالانکہ خالہ جہاں بھی جاتیں کہانی سنانے سے پہلے ان کا سوال ہوتا۔
’’کتنے دن والی کہانی سناؤں ؟‘‘
بچے چلّاتے۔
’’لمبی والی، ایک مہینے والی۔‘‘
مگر بڑے دو چار دن میں ختم ہو جانے والی کہانی کی فرمائش کرتے۔ یہ الگ بات ہے کہ دو چار دن دو چار ہفتے بھی ہو جاتے اور کہانی ختم نہ ہوتی۔ اللہ جانے خالہ کو کتنی کہانیاں یاد تھیں۔ ہمیشہ نئی سناتیں الف لیلیٰ سے لے کر داستان امیر حمزہ تک اور طلسم ہوش ربا سے لے کر سنگھاسن بتسی تک وہ کون سی کہانی تھی جو انہیں نہیں آتی تھی۔ کبھی کبھی رامائن اور مہا بھارت کے قصے بھی سنایا کرتی تھیں۔
اس بار حویلی کے بچوں سے زیادہ بے چین تھے حامد میاں۔ پچھلے تین چار برس سے انھیں خالہ کی کہانیوں کا ایسا چسکہ لگ گیا تھا کہ مسوری میں جہاں وہ پڑھتے تھے سردیوں کی چھٹی کا اعلان ہونے سے پہلے ہی بھاگ کھڑے ہوتے اور جب تک خالہ بڑی حویلی میں رہتیں، پرانے دوستوں سے ملنے بھی نہیں جاتے تھے اِدھر خالہ نے کمرے میں قدم رکھا اُدھر حامد میاں اپنی کرسی پر آ کے جم گئے۔ اتنے غور سے سنتے تھے کہ لگتا تھا ایک ایک لفظ کو کانوں سے پی رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آنکھیں خالہ پر نہیں ان کے برابر بیٹھی ہوئی جمیلہ پر جمی ہوتی تھیں۔
جمیلہ تھی بھی ایسی کہ نظر پڑ جائے تو دیر تک ہٹنے کا نام نہ لے۔ پتہ نہیں ظالم کس کی آنکھیں چرا لائی تھی کہ جو دیکھتا وہ چونک پڑتا۔ سبزی مائل نیل گوں آنکھیں خالہ کے خاندان میں تو چھوڑئیے محلے ٹولے میں بھی کسی کی نہیں ہوں گی۔ کچھ لوگ کہانیاں بنانے کی کوشش بھی کرتے۔ عورتیں سرگوشیوں میں کہتیں
’’یہ گلشن بیگم کی اولاد تو ہر گز نہیں ہو سکتی، کہیں سے چرا کے لائی ہو گی۔‘‘
کوئی دوسری کہتی۔
’’یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی انگریز سے سانٹھ گانٹھ رہی ہو۔‘‘
عورتیں دو پٹّوں میں منہ چھپا کے ہنستیں اور پھر پریوں، شہزادوں اور جناتوں کی کہانیاں سننے میں ایسی کھو جاتیں کہ خالہ کی اپنی کہانی کی طرف دھیان بھی نہیں جاتا۔
جمیلہ، خالہ کے ساتھ ہر سال آتی تھی مگر حامد میاں کو بچوں کے ساتھ بیٹھ کر پریوں کی کہانیاں سننے کا کوئی شوق نہیں تھا، اس لیے کبھی آمنا سامنا نہیں ہوا۔ جمیلہ سے ان کی ملاقات کوئی چار سال پہلے بڑے فلمی انداز میں ہوئی۔ حامد میاں مسوری سے آئے ہوئے تھے اور دوستوں کے ساتھ کرکٹ یا شام کو کلب میں تاش کھیل کر چھٹیاں گزار رہے تھے۔ ایک دن دوپہر میں جب وہ کرکٹ کا میچ ہار کر آ رہے تھے، باغیچے میں کوئی دکھائی دیا جو کھٹی نارنگیوں کی جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا۔ حامد میاں نے بیٹ کو لاٹھی کی طرح کندھے پر رکھا اور دبے پاؤں جھاڑی کے پاس پہونچ گئے۔ جھانک کر دیکھا تو ایک لڑکی دکھائی دی جو بڑی بڑی نارنگیاں توڑ کر دو پٹے کی جھولی بھر رہی تھی۔ لڑکی کی پیٹھ حامد میاں کی طرف تھی۔ حامد میاں نے ڈانٹ کر پوچھا۔
’’کون ہو تم؟۔‘‘
لڑکی اچھل پڑی، اس کے منہ سے چیخ نکلی اور ساری نارنگیاں گر پڑیں وہ سہم کر مڑی تو حامد میاں جس پوز میں تھے اسی میں کھڑے رہ گئے۔ سنا تھا کہ دوپہروں میں بلائیں گھومتی ہیں جو بچوں کو اٹھا کے لے جاتی ہیں۔ مگر وہ جو سامنے کھڑی تھی بلا نہیں ہو سکتی تھی کیوں کہ بلائیں اتنی خوبصورت نہیں ہوتیں۔ ایسی سبزی مائل نیل گوں آنکھیں انھوں نے مسوری میں بھی دیکھی تھی مگر وہ ان انگریز لڑکیوں کی تھیں جو وہاں کونونٹ میں پڑھتی تھیں۔ یہاں یوپی کے کونے میں کہاں سے آ گئیں ؟۔ حامد میاں لڑکیوں کے معاملے میں اناڑی نہیں تھے دو ایک عشق بھی لڑا چکے تھے۔ مگر جمیلہ کو دیکھ کر پتہ نہیں کیا ہوا کہ بس چت ہو گئے جب ذرا ہوش ٹھکانے ہوئے تو آواز اونچی کر کے پوچھا۔
’’کون ہو تم؟۔‘‘
’’جی۔ ہم۔ جمیلہ۔‘‘
’’جمیلہ کون؟ میں نے تو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ !‘‘
’’جی وہ کہانی والی خالہ…جمیلہ ہکلائی۔ وہ ہماری امّاں ہیں۔ !‘‘
حامد میاں کو یہ تو معلوم تھا کہ کہانی والی خالہ کے ساتھ ان کی بیٹی آتی ہے۔ مگر کبھی دیکھا نہ تھا۔ انھیں نہ کہانیوں میں دلچسپی تھی نہ خالہ میں تو ان کی بیٹی میں کیا ہو تی۔
’’اوہ۔ !‘‘انھوں نے ایک لمبا سا اوہ کیا پھر مسکرا کے بولے۔
’’نارنگیاں پسند ہیں ؟توڑ لو۔ توڑ لو۔ اور توڑ لو۔ مگر یہ کھٹی بہت ہوتی ہے۔‘‘
جمیلہ مسکرائی۔ اس کی مسکراہٹ بھی غضب کی تھی۔
’’ہم نمک مرچ سے کھائیں گے۔ !‘‘
’’اور گلا خراب ہو گیا تو؟۔‘‘
’’نہیں ہو گا۔ !‘‘جمیلہ نے کہا اور زمین پر گری ہوئی نارنگیاں اٹھانے لگی۔
حامد میاں اسے دل چسپی سے دیکھتے رہے۔ اور دل ہی دل میں خود کو بُرا بھلا کہتے رہے کہ اتنا بڑا خزانہ اُن کے اپنے گھر میں تھا اور وہ مسوری کی گلیوں میں وقت برباد کر رہے تھے۔ حامد میاں جمیلہ پر نہایت سنجیدگی سے عاشق ہوئے تھے۔
تاکنے جھاکنے اور کنکھیوں سے دیکھنے کا سلسلہ ایک سال چلا مگر جب اگلے سال جمیلہ آئی تو حامد میاں کافی تیاری کر چکے تھے۔ اور اس پر عمل بھی شروع کر دیا تھا ایک دن جب وہ دوپہر کا کھانا کھا کر دیوان خانے کی طرف جا رہے تھے تو جمیلہ سامنے آ گئی۔
’’سنئے۔ !‘‘
’’سنائیے۔ !‘‘ حامد میاں ہمہ تن گوش بن گئے۔
’’ہمارے کمرے میں نا رنگیوں کی ٹوکری آپ نے رکھوائی ہے نا۔؟‘‘
’’نارنگیوں کی ٹوکری۔ ؟‘‘ حامد میاں نے حیرت سے آنکھیں پھیلا کر کہا۔
’’قسم لے لو میں نے تو نارنگیوں کو چھوا بھی نہیں۔‘‘
’’تو پھر…۔‘‘ جمیلہ کچھ پریشان ہو گئی۔ اس نے حامد میاں کو غور سے دیکھا جن کے چہرے پر معصومیت تھی مگر آنکھوں سے شرارت جھانک رہی تھی وہ مسکرائی۔
’’ہم سمجھ گئے آپ نے نارنگیوں کو چھوا نہیں مگر رکھوایا تو آپ ہی نے ہے۔ !‘‘
’’اگر میرے ایک سوال کا جواب دو تو بتا دوں گا کہ ٹوکری کس نے رکھوائی ہے۔ !‘‘
’’پوچھئے۔ !‘‘
’’تمہیں میری مونچھیں پسند ہیں۔ ؟‘‘حامد میاں نے بہت سنجیدگی سے پوچھا۔
جمیلہ کھل کھلا کر ہنس پڑی۔
’’آپ بڑے بد…۔‘‘ وہ بولتے بولتے رک گئی۔
’’بولو بولو۔ بد کیا۔ ؟بد تمیز۔ ؟‘‘
جمیلہ نے نا میں سر ہلایا۔
’’بد زبان۔ ؟‘‘
جمیلہ نے پھر سر ہلایا۔
’’بد معاش ؟‘‘
جمیلہ پھر ہنس پڑی۔
’’آپ بہت شریر ہیں۔ !‘‘
حامد میاں کچھ کہنے والے تھے کہ خالہ کی آواز سنائی دی۔
’’جمیلہ۔ !‘‘
’’ہم چلتے ہیں۔ نارنگیوں کا شکریہ۔ !‘‘
وہ جانے کے لئے مڑی مگر حامد میاں نے ہاتھ پکڑ لیا۔
’’یہ تو بڑی گڑ بڑ ہو گئی یار مجھے تم سے بہت سی باتیں کرنی تھیں۔ !‘‘
جمیلہ چلتے چلتے رُکی سر ٹیڑھا کر کے حامد میاں کو دیکھا اور دھیرے سے بولی۔
’’لکھ کر دے دیجئے۔ ہمیں پڑھنا آتا ہے۔ !‘‘
اس کے بعد یہ ہوا کہ جب بھی موقع ملتا ایک چھوٹا سا پرچہ جمیلہ کو پکڑا دیتے۔ جس کا جواب کبھی ملتا بھی تو بہت مختصر ہوتا۔
’’جی ہاں۔ جی نہیں۔ جی ٹھیک ہے۔ شکریہ۔ وغیرہ وغیرہ۔‘‘
جب وہ لکھنؤ چلی گئی تو حامد میاں نے بہت سے لمبے لمبے خط لکھے مگر اس خوف سے کبھی پوسٹ نہیں کئے کہ اگر خالہ کے ہاتھ پڑ گئے اور خالہ نے ابّا جان کو دِکھا دئیے تو ایسی شامت آئے گی کہ سارا عشق ہوا ہو جائے گا۔ ابّا جان کا غصّہ سارے خاندان میں مشہور تھا، چچا میاں کہا کرتے تھے کہ نادر شاہ دُرّانی ہندوستان سے سب کچھ لوٹ کر لے گیا بس غصّہ چھوڑ گیا تھا، جو ابّا جان کے حصّے میں آیا ہے۔ ایک واقعہ تو حامد میاں کے سامنے ہی ہوا تھا۔ ایک دفعہ ابّا جان کی گھوڑی صبا رفتار نے انھیں گرا دیا تھا، ابا جان تھوڑی دیر تک صبا رفتار کو دیکھتے رہے پھر حویلی کے دربان آصف خاں کو آواز دے کر کہا۔
’’آج سے یہ تمہاری ہے مگر اسے ہمارے سامنے کبھی مت لانا ورنہ گولی مار دیں گے۔‘‘
اب اگر ایسے باپ کو بیٹے کی عشق بازی کی خبر ملے تو وہ کیا کرے گا یہ سوچنا مشکل نہیں تھا۔
حامد میاں نے خط تو پوسٹ نہیں کئے مگر ایک بار چپکے سے لکھنؤ پہونچ گئے، سوچا تھا کہ موقع ملے گا تو جمیلہ کو دل کا حال تفصیل سے بتائیں گے مگر ملاقات نہ ہو سکی پتہ چلا کہ جمیلہ اپنی ماں کے ساتھ میرٹھ گئی ہوئی ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ کب واپس آئے گی۔ حامد میاں نے لکھنؤ سے مسوری واپس جا تے ہوئے بہت سوچا اور فیصلہ کیا کہ وہ عشق وشق کے چکّر میں نہیں پڑیں گے بلکہ بزرگوں کو بیچ میں ڈال کر شادی کر لیں گے۔ امیر احمد خاں تحصیل دار کی حویلی کو جمیلہ سے زیادہ اچھی بہو کہاں ملے گی۔ اس لئے اِس بار حامد میاں سردیاں شروع ہونے سے پہلے ہی گھر واپس آ گئے اور خالہ کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔
ابّا جان تک پہونچنے کی تو ہمت نہ تھی مگر اماں کے لاڈلے تھے اس لئے کچھ ڈرتے، جھجکتے اور شرماتے ہوئے اپنے دل کی بات بڑی بیگم کے سامنے رکھ دیں۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے تو چکرا گئیں سوچنے لگیں کہ تحصیل دار صاحب کو کیسے راضی کریں گی جو نوابزادہ عبد اللہ خاں کی بیٹی سے رشتہ کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ انھیں یہ سوچ کے بھی ڈر لگا کہ گلشن بیگم بہت نیک اور شریف سہی جمیلہ لاکھوں میں ایک سہی مگر حیثیت میں بڑا فرق ہے۔ کہاں امیر احمد خاں تحصیل دار اور کہاں گھر گھر جا کے کہانی سنانے والی ایک غریب عورت۔ انھوں نے کچھ بولنا چاہا مگر اچانک رک گئیں۔ انھیں یاد آیا کہ وہ خود بھی تو کسی بڑے اور امیر گھرانے کی بیٹی نہیں ہیں۔ ابّا ایک اسکول میں پڑھاتے تھے اور امیر احمد خاں گھر پر ٹیوشن لینے آتے تھے۔ وہیں آمنا سامنا ہوا تھا۔ باقی سب قسمت کا کھیل ہے۔ حامد میاں نے ماں کو گم صم دیکھا تو پریشان ہو گئے۔ دھڑکتے دل سے پوچھا۔
’’ابّا ا جان سے بات کریں گی نا۔ ؟‘‘
بڑی بیگم مسکرائیں، حامد میاں کے بالوں پر ہاتھ پھیرا اور سر ہلا دیا۔
اس بار جب خالہ آئیں تو پہلے سے کہیں زیادہ خاطر کی گئی، پہلے وہ چھوٹے مہمان خانے میں ٹھہرائی جاتی تھیں اِس بار اُن کے لئے دیوان خانے کے پاس والا بڑا کمرہ صاف کرایا گیا جس کی کھڑکیاں باغیچہ کی طرف کھلتی تھیں اور ان پر رات رانی کی بیلیں چڑھا دی گئی تھیں۔ بڑی بیگم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں جمیلہ کو جانچنا اور آنکنا شروع کیا جیسے جوہری جڑ نے سے پہلے ہیرے کو پرکھتے ہیں۔ اس کا اٹھنا، بیٹھنا، بولنا، چلنا، کپڑے پہننے کا سلیقہ اور کھانے کے آداب تک ہر بات ہر ادا بڑی بیگم کی ترازو میں تل رہی تھی۔
تحصیل دار صاحب تک بات پہونچ چکی تھی وہ خالہ کی کہانی سننے کو تو نہیں بیٹھے مگر ایک دن جب سب کی درخواست پر خالہ میلاد شریف پڑھ رہی تھیں وہ بھی اندر آ گئے اور جب جمیلہ نے اپنی بے حد سریلی آواز میں سلام پڑھنا شروع کیا تو جھومنے لگے، جمیلہ ان کو عرش سے اتری ہوئی حور دکھائی دے رہی تھی۔ انھوں نے دل ہی دل میں حامد میاں کے انتخاب کی داد دی اور باہر نکل گئے۔
خالہ کے جانے میں کچھ دن رہ گئے تھے جب بڑی بیگم نے تحصیل دار صاحب سے کہا۔
’’آپ کہیں تو لڑکی کو انگوٹھی پہنا دی جائے، بڑی رسم بعد میں کر دی جائے گی۔ !‘‘
تحصیل دار صاحب دیر تک داڑھی کھجاتے رہے اور سوچتے رہے پھر بولے۔
’’ہاں بظاہر تو سب ٹھیک ہے، لڑکی بھی اچھی ہے مگر شادی بیاہ کا معاملہ ہے جلد بازی نہیں کرنی چاہئیے۔ لڑکی کے خاندانی حالات کی تفصیل مل جاتی تو اچھا رہتا۔‘‘
’’تو گلشن بیگم سے پوچھ لیجئے نا۔ !‘‘
’’کیسی باتیں کرتی ہو۔ ہم ان سے شجرہ مانگیں تو انھیں بُرا نہیں لگے گا کیا۔ ؟‘‘
’’تو پھر۔ ؟‘‘
’’میں اپنے خاص آدمی فرزند علی کو لکھنؤ بھیجوں گا۔ وہ اِن معاملوں میں بہت تیز ہے۔ گلشن بیگم کے سارے خاندان کی ہسٹری نکال لائے گا۔‘‘
خوشی اور غم کی خبریں بھرے پیالے کی طرح ہوتی ہیں، ٹھیس لگی اور چھلکا۔ یہی حال بڑی بیگم کا تھا۔ اتنی بڑی خبر تھی، گھر میں پہلی بڑی خوشی ہونے والی تھی اور وہ اس خوشی کو کسی سے بانٹ بھی نہیں سکتی تھیں مگر جس دن خالہ لکھنؤ جانے کے لئے تیار ہوئیں اور بڑی بیگم صاحب کی محبت اور عنایت کا شکریہ ادا کرنے کے لئے آئیں تو بڑی بیگم چھلک ہی پڑیں۔ خالہ کو گلے لگا لیا، خالہ نے کہا۔
’’اللہ بیلی بیگم صاحب۔ زندگی رہی تو اگلے برس پھر حاضری دیں گے۔ !‘‘
بڑی بیگم کی مسکراہٹ سارے چہرے پر پھیل گئی انھوں نے کہا۔
’’اور اگر میں جانے ہی نہ دوں تو۔ ؟‘‘
خالہ کی سمجھ میں نہیں آیا بولیں
’’جی ہم سمجھے نہیں۔ !‘‘
بڑی بیگم نے پیچھے کھڑی جمیلہ کو بڑے پیار سے دیکھا اور کہا۔
’’اچھا تمہیں جانا ہے تو چلی جاؤ مگر جمیلہ کو تو نہیں جانے دوں گی۔ !‘‘
خالہ سچ مچ پریشان ہو گئیں
’’جی۔ ؟‘‘ انھوں نے حیران ہو کر پوچھا۔
بڑی بیگم کھل کھلا کر ہنس پڑیں
’’سوچ لو گلشن بیگم۔ تمہاری جمیلہ کو مجھ سے اچھی ساس نہیں ملے گی۔ !‘‘
خالہ کو بات سمجھتے دیر نہیں لگی اور جب سمجھیں تو رو پڑیں۔ انھوں نے ہاتھ جوڑ دئیے اور لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔
’’آپ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگا رہی ہیں بیگم صاحب۔ ہم آپ کے برابر کے نہیں ہیں۔ جمیلہ یتیم بچی ہے اس کے پاس ہماری دعاؤں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ !‘‘
بڑی بیگم نے اپنے دو پٹّے سے خالہ کے آنسو پونچھے اور کہا۔
’’تمہاری دعاؤں سے زیادہ کچھ چاہئیے بھی نہیں۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ بس تم ہاں کہہ دو۔ !‘‘
خالہ نے بیگم صاحب کے ہاتھ پکڑ لئے انھیں چوما اور کہا۔
’’اتنا بڑا احسان کرنے سے پہلے اگر آپ ہماری کہانی سن لیتیں تو بہتر ہوتا۔ !‘‘
’’کتنی کہانیاں سناؤ گی گلشن۔ اب بس بھی کرو۔ میرا ارادہ محرم بعد منگنی کرنے کا ہے۔ تمہیں کوئی پریشانی تو نہیں ہو گی نا۔ ؟‘‘
خالہ کی عجیب حالت تھی وہ کبھی بڑی بیگم کو دیکھتیں کبھی جمیلہ کو جس کی آنکھیں آنسو روکنے کی کوشش میں ترشے ہوئے نیلم کی طرح چمک رہی تھیں۔ وہ بڑی بیگم کے قدموں پر جھک گئیں اور بڑی بیگم نے گلے لگا کر کہا۔
’’ابھی یہ بات اپنے تک ہی رکھنا تحصیل دار صاحب جیسے ہی تاریخ طے کریں گے میں خبر بھیجوا دوں گی۔‘‘
ٹرین دوسرے دن بہت سویرے کی تھی اس لئے سب لوگ جلدی سونے چلے گئے مگر جمیلہ کو نیند نہیں آئی۔ وہ اندھیرے میں ہر طرف حامد میاں کو دیکھتی رہی چمکتی ہوئی شریر آنکھیں، ماتھے پر بکھرے بال اور پتلی مونچھوں کے نیچے بھرے بھرے سرخ ہونٹ۔ اس نے کروٹ بدلی تو کھڑکی کے پاس باغیچے میں کوئی کھڑا دکھائی دیا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اسے پہچاننے میں دیر نہیں لگی۔ کھٹی نارنگیوں کی جھاڑیوں کے پاس حامد میاں کھڑے تھے۔ جمیلہ انھیں دیر تک دیکھتی رہی اور کچھ سوچتی رہی پھر دھیرے سے اٹھی، دیوان خانے کا دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی۔ آہٹ ہوئی تو خالہ نے آنکھیں کھول دیں۔ انھوں نے جمیلہ کو حامد میاں کی طرف بڑھتے دیکھا۔ ایک پل کو کچھ سوچا پھر مسکرا کے آنکھیں بند کر لیں۔
حامد میاں نے بانہیں پھیلا دیں اور جمیلہ ان میں سمٹ گئی۔ اس کا پورا جسم کانپ رہا تھا اور ہاتھ برف کی طرح ٹھنڈے تھے۔ حامد میاں نے اس کی بند آنکھیں چومیں اور سر گوشی کی۔
’’ڈر لگ رہا ہے۔ ؟‘‘
جمیلہ نے سر ہلا دیا۔
’’اماں نے سب کچھ بتا دیا نا۔ ؟‘‘
جمیلہ نے پھر سر ہلا دیا۔
’’منہ میں زبان ہے۔ ؟‘‘
جمیلہ نے پھر سر ہلایا۔
’’تو بولو۔ !‘‘
’’کیا بولیں۔ ؟‘‘ جمیلہ نے آنکھیں کھول دیں۔ حامد میاں اپنے سارے سوال بھول گئے اور نیلی جھیلوں میں غرق ہو گئے !
بڑی بیگم اس قدر مصروف تھیں کہ سانس لینے کی فرصت نہیں تھی۔ شادی بیاہ کوئی ہنسی کھیل تھوڑی ہوتا ہے۔ محرّم سر پر ہے اور ابھی تک یہ بھی طے نہیں ہوا ہے کہ منگنی میں کتنے جوڑے جائیں گے۔ زیوروں کی کمی نہیں ہے مگر کون سے دینے ہیں کون سے رکھنے ہیں سمجھ میں نہیں آتا، کس سے مشورہ کریں۔ حویلی میں درجنوں رشتے دار اور نوکر بھرے پڑے ہیں مگر سب بیکار۔ چچا میاں کی بیوی بیمار نہ ہوتیں تو کتنا کام کرتیں مگر اب تو سارا کام انھیں کو کرنا پڑے گا۔ انھوں نے اپنی منگنی کا ٹیکا نکالا اور ہتھیلی پر رکھ کر سوچنے لگیں کہ جمیلہ کے ماتھے پر کیسا لگے گا۔ اچانک دروازہ دھماکے سے کھلا۔ تحصیل دار صاحب، چچا میاں اور فرزند علی اندر گھس آئے۔ تحصیل دار صاحب کی حالت دیکھ کر بڑی بیگم کے ہاتھ سے زیور گر پڑے وہ کھڑے ہو کر چیخیں۔
’’ارے کیا ہو ا۔ ؟‘‘
تحصیل دار صاحب نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑا یا جو چچا میاں پکڑے ہوئے تھے اور اتنی زور سے چیخے کہ آواز پھٹ گئی۔
’’وہ طوائف ہے۔ حرامزادی۔ رنڈی ہے۔‘‘
بڑی بیگم کا منہ کھلا رہ گیا۔
’’کون۔ ؟کس کی بات کر رہے ہیں۔ ؟‘‘
’’وہ ٹکیائی آپ جس کی بیٹی کو اپنی بہو بنا رہی تھیں۔ وہ گلشن بیگم نہیں گلشن بائی ہے۔ نواب طالب کی رکھیل تھی سور کی بچّی۔ اس کی اتنی ہمت۔ گولی مار دوں گا۔ چھوڑوں گا نہیں۔ میرے بیٹے کو پھنسا رہی تھی۔ سالی، بد ذات، ویشیا…‘‘
چچا میاں نے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’بس کیجئے بھائی صاحب۔ آپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی۔ اللہ نے بڑی خیر کی کہ رسم سے پہلے ہی اصلیت معلوم ہو گئی ورنہ سارا شہر ہم پر ہنس رہا ہوتا۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ تحصیل دار صاحب دہاڑے۔ میں اس حرافہ کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ کہانیاں سنانے کے نام پر گھر گھر جا کے دھندا کرتی تھی حرامزادی۔ !‘‘
’’بھول جائیے حضور۔ میں نے اس کے دروازے پر کھڑے ہو کر اتنی گالیاں دی ہیں کہ کوئی عزت دار ہوتا تو زہر کھا لیتا۔ پورا محلہ جمع ہو گیا تھا۔ !‘‘
’’بس اتنا کا فی ہے۔ فرزند علی کو انعام دیجئے۔ اس نے خاندان کی عزت بچا لی۔ !‘‘ چچا میاں نے کہا۔
بڑی بیگم پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایک ایک کی صورت دیکھ رہی تھیں اچانک انھوں نے اپنا سینہ پکڑ کے کہا۔
’’ہائے میرا بچہ۔ !‘‘اور بے ہوش ہو گئیں۔
حامد میاں کو خبر ہوئی تو دوڑے ہوئے آئے۔ گھر کی عجیب حالت تھی، نوکر کونوں میں دبکے ہوئے کھڑے تھے۔ بڑی بیگم جا نماز بچھائے قرآن پڑھ رہی تھیں اور دیوان خانہ تحصیل دار صاحب کی گالیوں کی گرج چمک سے لرز رہا تھا۔ حامد میاں نے پوچھا۔
’’یہ کیا ہوا اماں۔ ؟‘‘
بڑی بیگم نے اطمینان سے قرآن شریف بند کیا اسے بوسہ دیا اور ٹھہرے تھمے لہجے میں بولیں۔
’’جو ہوا ٹھیک ہوا۔ اللہ نے بال بال بچا لیا ورنہ اس گھر کی عزت چورا ہے پر نیلام ہو جاتی۔ !‘‘
حامد میاں اس طرح اپنی ماں کا منہ دیکھتے رہے جیسے وہ اجنبی زبان بول رہی ہوں۔ پھر ماں کا ما تھا چوما۔ گیراج سے گاڑی نکالی اور اندھیرے میں غائب ہو گئے۔ رات بھر ڈرائیو کرنے کے بعد جب لکھنؤ پہونچے تو فجر کی اذان ہو رہی تھی، صبح ہونے میں تھوڑی دیر تھی مگر ہلکا اجالا پھیلنے لگا تھا۔ خالہ کے دروازے پر اندھیرا تھا مگر اس پر لگا ہوا بڑا سا تالا صاف دکھائی دے رہا تھا۔ حامد میاں نے تالے کو دو تین بار ہلایا۔ دروازے پر لگی گھنٹی کے بٹن کو بار بار دبایا مگر کچھ بھی نہ ہوا تو تھکے قدموں سے واپس جانے لگے۔ اچانک ان کی نظر سفید داڑھی والے ایک بزرگ پر پڑی جو شاید مسجد جانے کے لئے گھر سے نکل رہے تھے۔ حامد میاں نے سلام کر کے پوچھا۔
’’کیا آپ کو معلوم ہے کہ گلشن بیگم جو اس گھر میں رہتی ہیں کہاں گئی ہیں۔ ؟‘‘
بڑے میاں نے انھیں سر سے پاؤں تک دیکھا پھر خالہ کے بند دروازے پر نظر ڈالی اور سر ہلا کر کہا۔
’’کیا بتائیں بیٹا۔ زمانہ بڑا خراب ہے، کب کہاں کیا ہو جائے کچھ کہہ نہیں سکتے، دو دن پہلے کچھ غنڈے آئے تھے۔ اس نیک بخت بیوہ اور اس کی بیٹی کو گندی گندی گالیاں دے رہے تھے۔ پتہ نہیں کون لوگ تھے کہاں سے آئے تھے۔ اور کیوں دھمکی گالی دے رہے تھے۔ وہ لوگ تو چلے گئے مگر دونوں ماں بیٹیاں بھی راتوں رات کہیں چلی گئیں۔ !‘‘
’’کچھ اندازہ ہے کہ وہ کہاں گئی ہوں گی؟‘‘
حامد میاں نے ہمت کر کے پوچھا۔
’’ارے۔ کسی کو کچھ نہیں معلوم ہے بھیّا۔ ہماری بیگم تو ڈر رہی ہیں کہ کہیں خود کشی نہ کر لی ہو۔ دونوں بڑی نیک اور خود دار تھیں۔ !‘‘
حامد میاں سے اور نہ سنا گیا، گاڑی میں آ کر بیٹھے۔ اسٹیرنگ پر سر رکھا اور بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگے۔ !
حامد میاں کو کہانی والی خالہ کی کہانی معلوم ہو چکی تھی پھر بھی وہ ایک بار ان سے ملنا چاہتے تھے ان کی زبان سے سننا چاہتے تھے کہ جو کچھ ابّا جان اور فرزند علی کہہ رہے ہیں وہ کتنا سچ ہے۔ وہ ایک بار جمیلہ کی نیلی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھنا چاہتے تھے مگر وہ دونوں ماں بیٹیاں پتہ نہیں کہاں غائب ہو گئی تھیں۔ حامد میاں نے ہر اُس دروازے پر دستک دی جہاں خالہ جایا کرتی تھیں مگر وہ تو اس طرح غائب تھیں جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ کبھی کبھی تو وہ ڈر جاتے انھیں خالہ کے پڑوسی کی بات یاد آتی۔
’’عزّت دار عورتیں تھیں، اتنی بے عزّتی کے بعد کہیں خود کشی نہ کر لی ہو۔ !‘‘
وہ جمیلہ کی سبزی مائل نیل گوں آنکھوں میں موت کی بے نوری دیکھتے اور لرز کر اپنی آنکھیں بند کر لیتے۔ مہینے بھر تک شہروں شہروں خاک چھاننے کے بعد گھر واپس آئے تو چہرے پر ایک عجیب سا سکون تھا بے قرار آنکھوں میں ٹھہراؤ آ گیا تھا۔ ایک دن بہت دیر تک کھٹی نارنگیوں کی جھاڑیوں کے پاس کھڑے رہے ایک نارنگی توڑ کر دانتوں سے کاٹی تیز کھٹاس زبان کو لگی تو پھینک دی۔ پیچھے سے آواز آئی۔
’’نمک مرچ سے کھائیں گے تو کھٹاس نہیں لگے گی۔‘‘
پلٹ کر دیکھا تو وہاں دوپہر کے سناٹے کے سوا کوئی نہیں تھا۔ اس شام حامد میاں نے اعلان کیا کہ انھوں نے لندن کے امپیریل کالج میں داخلہ لے لیا ہے اور وہ اگلے ہفتے روانہ ہو جائیں گے۔ بڑی بیگم نے رو رو کر روکنے کی کوشش کی چچا میاں نے بھی سمجھایا مگر حامد میاں اپنی ضد پر قائم رہے۔ آخر تحصیل دار صاحب نے سب کو یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ
’’جوان بچہ ہے۔ گہری چوٹ لگی ہے، باہر جائے گا، دل بہلائے گا تو سب بھول جائے گا۔ اسے جانے دو۔ !‘‘
حامد میاں لندن گئے اور ایسے گئے کہ پلٹ کر آنے کا نام تک نہ لیا۔ اور اگر بڑی بیگم بیمار نہ ہو جاتیں تو شاید کبھی بھی نہ آتے۔ ماں نے آٹھ برس بعد بیٹے کا منہ دیکھا تو جیسے مردہ جسم میں جان آ گئی، اُٹھ کر بیٹھ گئیں۔ حامد میاں کافی بدل گئے تھے۔ مونچھیں غائب ہو چکی تھیں اور کنپٹیوں پر سفید بال دکھائی دے رہے تھے بڑی بیگم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اُس ذلیل طوائف زادی کی وجہ سے میرے بچے کی کیا حالت ہو گئی۔ انھوں نے سر پر ہاتھ پھیرا اور آنسو بھری آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا۔
’’اب ہمیں چھوڑ کے مت جانا بیٹا۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ اپنا گھر بساؤ، بڑا ارمان ہے مرنے سے پہلے پوتے پوتیاں دیکھنے کا۔‘‘
حامد میاں نے ماں کو گلے لگایا، پیار کیا اور باہر چلے گئے۔
گرمی آ چکی تھی۔ شام کو آنگن میں چھڑ کاؤ کیا گیا۔ سفید مچھر دانیوں والے پلنگ لگائے گئے رات رانی اور موگرے کی خوشبو میں بسی ہوئی رات میں کھلے آسمان کے نیچے سونا کتنا اچھا لگتا ہے۔ بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کسی اور دنیا میں چلے آئے ہوں۔ ایسی ہی ایک رات تھی جب لندن سے حامد میاں کے دوست رینڈی کا فون آیا۔ اس کا اصلی نام رندھیر سنگھ راناوت تھا مگر لندن میں رینڈی کہلاتا تھا۔ رینڈی جے پور کے شاہی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور حامد میاں کے بہترین دوستوں میں سے تھا۔ لندن میں دونوں ساتھ ہی رہا کرتے تھے۔ رینڈی نے بتایا کہ اس کی شادی طے ہو چکی ہے۔ وہ جے پور کے لئے روانہ ہو رہا ہے اور چاہتا ہے کہ حامد میاں بھی شادی سے پہلے جے پور پہونچ جائیں۔
رینڈی کی شادی کیا تھی ایک جشن تھا جو صبح سے شروع ہوتا تھا اور اس وقت تک جاری رہتا تھا جب تک لوگ تھک کر گرنے نہ لگیں۔ رینڈی کے ہندوستانی دوست تو تھے ہی لندن سے بھی بہت سے آئے تھے۔ تمام مہمانوں کے لئے بہت سے پروگرام رکھے گئے تھے۔ شکار، پکنک، رات میں ریگستان کی سیر، بوٹ ریس اور نہ جانے کیا کیا۔ سارے مہمان ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرائے گئے تھے اس لئے کسی کو کوئی پریشانی نہیں تھی دوستوں کی مستیوں میں کسی کو اپنے کمرے میں جانے تک کا وقت بھی نہیں ملتا تھا۔ جاتے بھی تھے تو تھوڑی دیر آرام کرنے یا کپڑے بدلنے کے لئے۔ !
شادی سے ایک دن پہلے جب حامد میاں نیچے اترے تو رینڈی نے روک لیا۔
’’تم ہال میں نہیں جا سکتے۔ !‘‘
’’کیوں۔ ؟‘‘ حامد میاں نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’ارے سالے، دولہا تو تم معلوم ہو رہے ہو۔ دلہن والوں کو غلط فہمی ہو گئی تو کیا ہو گا۔ !‘‘
سیاہ شیروانی اور چوری دار میں وہ سچ مچ دولہا ہی معلوم ہو رہے تھے۔ بس سہرے کی کمی تھی۔ ایک زور دار قہقہہ پڑا۔ حامد میاں نے رینڈی کو ایک دھپ مارا۔
’’سالے نظر لگا رہا ہے۔ ؟ارے کوئی ہے میری نظر توڑ نے کے لئے مرچیں لاؤ۔ !‘‘
ایک اور قہقہہ پڑا۔
سنگیت سبھا شروع ہو چکی تھی اندر سے سازوں کی ہلکی ہلکی آوازیں آ رہی تھیں حامد میاں نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوئے تو جم کر رہ گئے۔ سامنے جمیلہ ناچ رہی تھی۔
تیز میوزک پر اس کا بل کھاتا جسم، ہاتھوں کی جنبش، آنکھوں کے اشارے اور ہونٹوں پر پھیلی ہوئی ایک بڑی سی مسکراہٹ اور ایک بے حد سیکسی آواز۔
’’ہمار کہی مانو راجا جی۔ ہمار کہی مانو
او راجا جی…‘‘
لوگ فدا ہوئے جا رہے تھے۔ ایک لڑکے نے نوٹوں کی گڈی نکال کر اپنے ہونٹوں سے لگائی پھر سارے نوٹ جمیلہ کے اوپر نچھاور کر دئیے۔
حامد میاں کو ایسا لگا جیسے ان کی گلے میں کچھ پھنس گیا ہے۔ سانس لینے میں تکلیف ہو رہی ہے۔ انھوں نے گھبرا کے چاروں طرف نظر دوڑائی، سازندوں کے پیچھے ایک دیوان پر خالہ بیٹھی ہوئی تھیں۔ یہ وہ خالہ نہیں تھیں جو سر پر سفید دو پٹہ لپیٹ کر کہانیاں سنایا کر تی تھیں۔ یہ تو کوئی پرانی نائکہ تھی جس نے بھڑک دار ساڑی پہن رکھی تھی، زیوروں سے لدی ہوئی تھی اور ہونٹوں کی لپ اسٹک تازہ خون سے زیادہ سرخ تھی۔ جمیلہ نے حامد میاں کو دیکھ لیا۔ وہ مسکرائی، رُکی۔ جھک کر آداب کیا اور پھر گانے لگی۔
حامد میاں کا دم گھٹنے لگا وہ جلدی سے ہال کا دروازہ کھول کر باہر نکلے اور کوریڈور میں کھڑکی کے پاس کھڑے ہو کر لمبی لمبی سانسیں لینے لگے۔ اچانک پیچھے سے آواز آئی۔
’’حامد میاں۔ !‘‘
انھوں نے پلٹ کر دیکھا۔ خالہ کھڑی تھیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہیں۔ بس چپ چاپ خالہ کی آنکھوں میں دیکھتے رہے۔ خالہ ذرا سا آگے آئیں اور ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولیں
’’آپ کچھ پوچھیں گے نہیں۔ ؟‘‘
’’کیا پوچھیں۔ ؟‘‘حامد میاں کو اپنی آواز کہیں بہت دور سے آتی ہوئی لگی۔
خالہ پھر مسکرائیں۔
’’تو ہم بتا دیتے ہیں۔‘‘
وہ تھوڑی دیر اس طرح کھڑی رہیں جیسے آنسو روکنے کی کوشش کر رہی ہوں پھر دھیرے سے بولیں۔
’’شریف بننے کی بہت کوشش کی تھی میاں مگر خاندانی شریفوں نے بننے نہیں دیا۔ تو کیا کرتے، جس کوٹھے سے اُترے تھے پھر وہیں واپس آ گئے۔‘‘
حامد میاں اس طرح ساکت کھڑے رہے جیسے پتھر بن گئے ہوں۔ پتھر جو نہ سن سکتا ہے نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ محسوس کر سکتا ہے۔ خالہ بہت دیر تک کچھ بولتی رہیں پھر اندر چلی گئیں۔
پتھر وہیں کھڑا رہا۔ اندر سے جمیلہ کی آواز آ رہی تھی۔ ہمار کہی مانو راجا جی…
٭٭٭
خلافت کا مجاور
روز نامہ خلافت کا دفتر دو کمروں پر مشتمل تھا۔ ایک کمرہ جس میں ایڈیٹر، سب ایڈیٹر اور مترجم بیٹھا کرتے تھے۔ اور دوسرا چھوٹا کمرہ جس میں سات آٹھ کاتب اونچے تخت پر رنگ اترے ہوئے چمڑے کی پرانی گدّیوں پر دیوار سے کمر لگائے اِس طرح رکھے ہوتے تھے جیسے کارڈ بورڈ کے ڈبّے میں آم چُن دیئے جاتے ہیں۔ ایک گھُٹنا کھڑا ہوا جس پر زیر مشق رکھا ہوتا تھا۔ زیر مشق وہ موٹا سا مگر قدرے نرم PADہوتا تھا جس پر پیلے رنگ کا مسطر (کتابت کا کاغذ) پھیلا ہوتا تھا اور اُس پر میلے گندے چپکتے ہوئے قلموں سے حرفوں کے ہیرے تراشے جاتے تھے۔ اِن تمام کاتبوں میں سوائے اس کے کہ وہ کاتب تھے کوئی چیز مشترک نہیں تھی، سب کے سب اپنا نمونہ آپ ہی تھے۔ دروازے کے پاس تخت کے پہلے کونے پر رؤف ارسلان بیٹھا کرتا تھا، پتلا، دُبلا، لمبا چہرے پر گوشت کا نام و نشان نہیں، سر پر چھوٹے چھوٹے بال جو ہر وقت کھڑے رہتے تھے۔ اس کی آنکھیں دیکھ کر لگتا تھا کہ بے حد غصّے میں ہے اور اگر کسی نے بات کی تو مار بیٹھے گا۔ دیکھتا بھی اس طرح تھا جیسے گھور رہا ہو۔ بہت کم بولتا تھا مگر جب بھی بولتا تھا تو آواز کی تیزی اور لہجے کی تُندی ڈنک مارتی تھی۔ پتہ نہیں وہ ایسا کیوں تھا۔ میری اس کی دوستی کبھی نہ ہو سکی ورنہ ضرور پوچھتا کہ اُس پر کیا گزری ہے جس نے اس کے وجود میں کڑواہٹ بھر دی ہے۔
رؤف کے برابر اعظم گڑھ کا رہنے والا رفیق بیٹھا کرتا تھا۔ بہت معصوم صورت شکل کا صاف ستھرا لڑکا تھا۔ پانچوں وقت کی نماز پڑھتا تھا اور نماز کے بعد انگلیوں پر گن کر کوئی وظیفہ بھی پڑھا کرتا تھا۔ اس کی تمنا تھی کہ وہ کسی دن بڑی سرخی لگائے۔ مگر بڑی سرخی کی کتابت ابو بکر کیا کرتا تھا۔ بڑی سُرخی لگانا آسان نہیں ہوتا۔ ایک ایک حرف ڈیڑھ سے دو انچ بڑا ہوتا تھا اور بانس کے موٹے قلم سے لکھا جاتا تھا۔ لفظوں کو اس طرح ناپ تول کر بیٹھا یا جاتا تھا کہ سرخی پورے آٹھ کالم پر پھیل جائے اور ایک بھی حرف نہ کٹے اور نہ باہر جائے۔ یہ ایک مشکل فن تھا جس کے لیے خطاطی کی لمبی ٹریننگ کی ضرورت ہوتی تھی۔ اب تو یہ کام کمپیوٹر کی مدد سے بہت آسانی سے ہو جاتا ہے مگر اُس زمانے میں اچھے اچھوں کے ہاتھ لرز جایا کرتے تھے۔
کاتبوں کے اس انبوہ میں اور بھی کئی دلچسپ شخصیات تھیں، جن میں موٹا ابو بکر تھا اُس کو اگر کوئی چھوٹی خبر کتابت کے لیے دی جاتی تو دینے والے کو اِس طرح دیکھتا جیسے دل میں گالی دے رہا ہو، اُس کا خیال تھا کہ وہ بہترین خوش نویس ہے اور اس کو چھوٹے موٹے کام نہیں دئیے جانے چاہئیں وہ صرف بڑے کاموں کے لیے ہے جیسے کہ آٹھ کالم یا پانچ کالم کی ہیڈ لائن یا پھر کوئی بڑا سا اشتہار جس میں وہ اپنے ہنر کا مظا ہرہ کر سکے۔ ایک منحنی بوڑھے سیّد اختر حسین تھے جو کتابت کم کرتے تھے اپنا چشمہ زیادہ صاف کرتے تھے مگر اُن کا خط بڑا صاف اور روشن تھا، پڑھتے وقت آنکھوں کو بھلا لگتا تھا۔ ایک لطیف صاحب بھی تھے جو بچپن میں پولیو کا شکار ہو گئے تھے اس لیے لنگڑا کے چلتے تھے، کاتب تو اچھے نہیں تھے مگر محنتی بہت تھے اور کافی تیز لکھا کرتے تھے اِس لیے اندر کے صفحات کے لیے جو لمبے لمبے مضامین ہوا کرتے تھے اُن کے سپرد کر دیے جاتے۔ اور بھی کئی لوگ تھے مگر میں جس شخصیت کا آپ سے تعارف کرانا چاہتا ہوں وہ تھے عبدالحمید سنبل، کمرے کا کونا اُن کی جاگیر تھا ایک میلا سا تکیہ دوہرا کر کے کمر اور دیوار کے بیچ میں پھنسا لیا کرتے تھے اور نہایت خاموشی سے کتابت کرتے رہتے تھے اور اگر کتابت کے لیے کچھ نہ ہوتا تو خطّا طی کی مشق کیا کرتے، بانس کا ایک بڑا سا قلم جس کا قط دو انچ سے کم نہ ہو گا پانی سے بھرے پیالے میں ڈبو کر لکڑی کی تختی پر حروف بنایا کرتے تھے پانی سے بنا حرف پل بھر میں سوکھ کر غائب ہو جاتا۔ تختی خالی ہو جاتی اور وہ پھر دائرے بنانے لگتے۔ سین، صاد اور نون کے دائرے اس قدر مکمل اور یکساں ہوتے کہ پرکار سے ناپو تو بھی فرق نہ ملے، کہتے تھے کہ تمام حروف میں سب سے مشکل الف کا لکھنا ہوتا ہے۔ الف کی نوک اور دُم یکساں ہونی چاہیے اور جسم اتنا سڈول ہو کہ نظر پھسل جائے۔
کہتے بھی تھے اور لگتے بھی تھے کہ ایرانی النسل ہیں، بادامی آنکھیں، وقت کی دھوپ میں جھُلسا ہوا رنگ جو کبھی سرخ و سفید رہا ہو گا، سر پر چھوٹے چھوٹے بال جنھیں دیکھ کر لگتا تھا کہ سونے کا رنگ اڑ گیا ہے، زیر مشق پر جھکے جھکے کندھے بھی جھک گئے تھے جس کا احساس خود ان کو بھی تھا اس لیے جب چلتے تو تن کر چلتے تھے، سنائی بہت کم دیتا تھا، کان کے پاس منہ لے جا کر کچھ کہا جائے تو سن لیا کرتے تھے، مگر انھیں اپنے بہرے پن پر کوئی افسوس نہیں تھا اکثر کہا کرتے تھے
’’میں فالتو باتیں نہیں سنتا۔ !‘‘
ان کی نجی زندگی کے بارے میں کبھی کسی کو کچھ بھی معلوم نہ ہو سکا۔ وہ کہاں پیدا ہوئے، تعلیم کہاں پائی، خطاطی کہاں سیکھی، یہاں تک کیسے پہونچے، کوئی نہیں جانتا۔ بس اُتنا ہی معلوم ہے جتنا انھوں نے بتایا۔
ایک بار میں نے پوچھا۔
’’آپ شعر بھی کہتے ہیں۔ ؟‘‘
جواب ملا ’’شعر پڑھتا بھی نہیں ہوں۔ !‘‘
’’تو پھر یہ سنبل کیا ہے ؟کیا تخلص نہیں ہے۔ ؟‘‘
فرمایا ’’پورا نام عبد الحمید سنبل زادہ ہے مگر بمبئی کی مرطوب آب و ہوا میں سکڑ کر صرف سنبل رہ گیا ہے۔ !‘‘
چھڑے چھانٹ آدمی تھے کبھی گھر بنانے یا بسانے کی کوشش نہیں کی۔ اُن کی دنیا چمڑے کا ایک پرانا سوٹ کیس اور لپٹے ہوئے بستر پر مشتمل تھی۔ یہ دونوں چیزیں خلافت پریس کے ایک کونے میں رکھی رہتی تھیں۔ سوٹ کیس سویرے کھلتا اور بستر صرف رات کو کھلتا تھا۔ سوٹ کیس میں دو تین ہاتھ کے دھلے ہوئے کپڑے رہتے تھے ایک جوڑا ذرا اچھے کپڑوں کا ہمیشہ لانڈری میں رہتا تھا جس کو پہننے کا نمبر اتوار کے اتوار آیا کرتا تھا۔
سنبل صاحب عیسائی نہیں تھے مگر اتوار کے دن ان کی تیاری ایسی ہو تی تھی جیسی نیک عیسائی چرچ جانے کے لیے کرتے ہیں۔ سویرے ہی ایک ٹوٹے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر چھ دن کی بڑھی ہوئی داڑھی کو صاف کرتے، پورے جسم کو صابن سے رگڑ رگڑ کے چمکاتے، سر پر تیل لگاتے، لانڈری سے لایا ہوا استری اور اسٹارچ والا جوڑا پہنتے اور روانہ ہو جاتے۔ اُن کا چرچ مہا لکشمی ریس کورس تھا اور گھوڑوں کی ریس اُن کی عبادت۔ ریس میں جانے سے پہلے وہ ایک چھوٹا سا کتابچہ لے کے بیٹھ جا تے جس میں گھوڑ دوڑ کی تفصیل درج ہوتی تھی۔ کس ریس میں کون کون سے گھوڑے دوڑ رہے ہیں۔ ان کے ریکارڈز کیا ہیں۔ پچھلی ریس میں انھوں نے کیا بھاؤ دیا تھا اور اس بار کس کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں یہ سب انھیں زبانی یاد رہتا تھا۔ یہی نہیں گھوڑوں کے شجرے بھی اِس طرح بیان کرتے کہ لوگ اپنے خاندان کے بزرگوں کا ذکر بھی کیا کریں گے۔ کسی بھی گھوڑے کا نام لیجیے، سنبل صاحب فوراً بتا دیں گے کہ اُس کی ماں کون تھی باپ کون تھا ٹرینر کون ہے اور مالک کون ہے۔ کتنی بار میدان میں اتر چکا ہے۔ اور کتنے کپ جیت چکا ہے۔
خلافت چوں کہ روز نامہ تھا اس لیے سارے کاتبوں کی چھٹی ایک ساتھ نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کے دن بانٹ دیے گئے تھے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ بزرگ
خوش نویس اختر حسین نے منیجر سے اتوار کو چھٹی دینے کی درخواست کی۔ منیجر نے سنبل صاحب کو بلا کر کہا۔
’’آپ اپنا اتوار اختر صاحب کو دے دیجیے اور اِن کی جگہ جمعہ کو چھٹی کر لیجیے۔‘‘
جب کئی کوششوں کے بعد مسئلہ ان کے کانوں سے گزر کر دماغ تک پہونچا تو فرمایا۔
’’نوکری چھوڑ سکتا ہوں اتوار نہیں چھوڑ سکتا۔ !‘‘
مجھے یاد نہیں کہ ان کو گھوڑوں سے محبت کا کوئی معقول صلہ کبھی ملا ہو۔ بس ایک بار ایسا ہوا تھا کہ سنبل صاحب بالکل نئے کپڑوں اور نئے چپّل میں دکھائی دیئے تو میں نے پوچھا۔
’’کیا بات ہے سنبل صاحب۔ آج تو بڑے چمک رہے ہیں ؟‘‘
کچھ شرما کر بولے ’’گھوڑی دوڑ گئی تھی۔‘‘
میں ایک زمانے تک یہی سمجھتا رہا کہ ریس ان کا واحد شوق ہے مگر ایسا نہیں تھا، موصوف کو اور بھی کئی بیماریاں تھیں۔ روز شام کو یہ کہہ کر غائب ہو جاتے کہ
’’چائے پی کر آتا ہوں۔‘‘
ایک دن دیر تک نہیں آئے اور پہلی کاپی پریس بھیجنے کا وقت ہو چکا تھا تو میں نے پوچھا۔
’’ارے یہ سنبل صاحب کہاں چلے گئے ایک اشتہار اب بھی باقی ہے۔‘‘
رؤف ارسلان جو ہمیشہ دنیا سے بیزار بیٹھا رہتا تھا جھلّا کر بولا۔
’’مٹکا لگانے گیا ہو گا۔ اور کہاں جائے گا!‘‘
اس دن مجھے پتہ چلا کہ مٹکا بمبئی کے جواریوں کی زبان میں سٹّا کھیلنے کو کہتے ہیں۔ یہ بھی پتہ چلا کہ کہیں کوئی صاحب ہیں جو ایک مٹکے میں تاش کی گڈی ڈال دیتے ہیں اور پھر تین پتّے نکالتے ہیں۔ لوگ اُن تین پتّوں کے نمبروں پر کروڑوں روپے لگاتے ہیں اگر اندازہ صحیح بیٹھ جائے تو دوگنا چوگنا بلکہ کبھی کبھی ۹ گنا زیادہ ملتا ہے۔
سنبل صاحب واپس آئے تو میں نے پوچھا۔
’’کیا لگایا؟‘‘
مسکرا کے آنکھیں چمکائیں اور آواز دبا کر بولے ۔
’’مِنڈی (زیرو) سے پنجا لگا یا ہے، دعا کیجیے کہ آ جائے۔‘‘
ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ کمپاؤنڈ میں کھیلتی ہوئی میری چار سال کی بچی سے باتیں کر رہے ہیں۔ میں نے پوچھا تو بچی نے بتا یا۔
’’سنبل انکل پوچھ رہے تھے تمہیں گنتی آتی ہے ؟میں نے کہا جی آتی ہے تو کہنے لگے کوئی نمبر بتاؤ میں نے بتا دیا تووہ چلے گئے۔‘‘
میں بہت ہنسا۔ یہ جواری بھی بے چارے اندھیرے میں تیر مارنے والے ہوتے ہیں اس لیے نشانہ کبھی کبھار ہی لگتا ہے۔
میرا مشاہدہ ہے کہ جوا کھیلنے والے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو محنت کے بغیر دولت کمانا چاہتے ہیں اور دوسرے وہ جو THRILLSکے لیے شوقیہ کھیلتے ہیں۔ سنبل صاحب شاید دوسری قسم کے جواری تھے کیونکہ دولت کی لالچ کرتے کبھی نہیں دیکھا۔ اگر وہ چاہتے تو اپنے ہنر سے ہی لاکھوں کما سکتے تھے مگر پتہ نہیں کیوں انھوں نے خطاطی جیسے عظیم فن کو اپنے شوق تک ہی محدود رکھا۔
ایک بار میں نے انھیں عالمگیر کے زمانے کے مشہور خطاط الماس رقم کی ایک وصلی دکھائی(خوش خط لکھا ہوا شعر یا قطعہ) جو ایک انگریزی رسالے میں شائع ہوئی تھی۔ سنبل صاحب نے وہ رسالہ دیکھنے کے لیے مانگ لیا اور جب آٹھ دن بعد واپس کیا تو اُس کے اندر اُن کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک وصلی تھی جو کسی طرح بھی الماس رقم سے کم نہیں تھی، اتنی صلاحیت کے با وجود پتہ نہیں کیوں وہ خلافت ہاؤس کے محدود دائرے میں کسی پرانے پیڑ کی طرح جمے ہوئے تھے اور خوش نظر آتے تھے۔ بولتے کم تھے شاید اس لیے کہ سنتے بھی کم تھے مگر جب بولتے تھے تو ان کی ذہانت اور ظرافت کے جوہر کھل جا تے تھے۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب فلم ’’کوہ نور‘‘ ریلیز ہونے والی تھی۔ زور دار پبلسٹی ہو رہی تھی۔ سارا شہر HOARDINGSسے اور اخبا رات اشتہاروں سے بھرے پڑے تھے۔ خلافت کو بھی پورے ایک صفحے کا اشتہار ملا تھا۔ اشتہار سنبل صاحب کے سپرد کیا گیا اور ہدایت دی گئی کہ اپنے فن کا کمال دکھا دیں۔ مگر دوسرے دن صبح جب اخبار آیا تو خلافت ہاؤس میں تہلکہ مچ گیا۔ اشتہار میں کوہ نور کی جگہ لکھا تھا ’’کوہ لوز‘‘خلافت کمیٹی کے سکریٹری اور خلافت اخبار کے اعزازی مدیر زاہد شوکت علی صاحب کو خبر ہوئی تو وہ نیچے آئے اور کتابت خانے میں جا کر سنبل صاحب کو گالیاں دینے لگے۔ اور بات بھی گالیاں دینے والی ہی تھی کیوں کہ کئی ہزار روپے کا اشتہار تھا اور غلطی ایسی تھی کہ ایڈورٹائزنگ ایجنسی کی طرف سے ایک روپیہ ملنے کا بھی امکان نہ تھا۔ خلافت جیسے چھوٹے اخبار کے لیے نقصان بہت بڑا تھا اس لیے زاہد صاحب کا غصّہ حق بجانب تھا۔ جتنی دیر تک زاہد صاحب سنبل صاحب کی سات پشت کو نوازتے رہے وہ چپ چاپ آنکھیں جھپکاتے رہے اور زاہد صاحب کی شکل دیکھتے رہے۔ جب ایک چیختے چلاتے منہ سے جھاگ اڑاتے زاہد صاحب چلے گئے تو سنبل صاحب نے جھک کر ابو بکر سے پوچھا۔
’’یہ زاہد صاحب زور زور سے ہاتھ ہلا کر کیا بول رہے تھے۔ ؟‘‘
ابو بکر نے اپنا منہ ان کے کان میں گھسا دیا اور چیخ کر بولا۔
’’گالیاں دے رہے تھے آپ کو… یہ کیا لکھا ہے آپ نے۔ ؟‘‘
اس نے اخبار کھول کر سامنے رکھ دیا۔ سنبل صاحب نے اشتہار دیکھا اور سر ہلا کر بولے۔
’’بس اتنی سی بات!‘‘
’’یہ اتنی سی بات ہے۔ ؟‘‘ ابو بکر نے جھلّا کر کہا۔
سنبل صاحب نے بہت افسوس کے ساتھ کہا۔
’’ایک نقطے کے لیے اتنی بے نقط سنانے کی کیا ضرورت تھی۔ ٹھیک کر دیا جائے گا۔ !‘‘
دوسرے دن اشتہاروں والے صفحے پر ایک چو کھٹا نظر آیا جس کے بیچ میں ایک بہت بڑا سا نقطہ بنا ہوا تھا اور نیچے لکھا تھا۔
’’یہ وہ نقطہ ہے جو کل کی اشاعت میں غلط جگہ لگ گیا تھا۔ قارئین تصحیح کر لیں فلم کا نام ’’کوہ نور‘‘ ہے۔‘‘
سنبل صاحب کی قسمت یاور تھی یا پبلسٹی دینے والے کی حسِّ مزاح کا طفیل تھا کہ اشتہار کے پیسے نہیں کاٹے گئے۔
جملے بازی کرنے اور فقرے کَسنے میں استاد تھے۔ کبھی کبھی جملہ بہت اچھا ہوتا تھا مگر ابتذال کی حدوں کو چھو لیتا تھا۔ ایک بار اُن سے کسی نے پوچھا۔
’’سنبل صاحب آپ نے شادی کیوں نہیں کی؟۔‘‘
سنبل صاحب نے بہت سنجیدگی سے فرمایا۔
’’کاتبِ تقدیر کے کھیل ہیں، قلم پر قط تو بچپن ہی میں لگ گیا تھا لیکن زیر مشق آج تک نہیں ملا۔‘‘
وہ ایک اور فن میں بھی ماہر تھے جسے خطِ معکوس کہا جاتا ہے۔ اُس زمانے کے چھاپا خانوں میں چھَپائی کے لیے سفید پتھر کی ایک سِل استعمال کی جا تی تھی۔ یہ ایک خاص قسم کا پتھر ہوتا تھا جس کی خوبی یہ تھی کہ جب مسطر پر کتابت شدہ مواد اُس کے اوپر رکھ کے دَباؤ دیا جاتا تو سارے حروف پتھر پر منتقل ہو جاتے اور مسطر سادہ رہ جاتا۔ اس کے بعد کچھ کمیکل لگا کر اُن حروف کو اُبھارا جاتا اور داغ دھبّوں کو کوکم اور پانی کی مدد سے صاف کر دیا جاتا۔ کبھی کبھی کتابت کی سیاہی کمزور ہونے کی وجہ سے یا دَباؤ کم پڑ نے پر الفاظ مٹ جاتے یا بگڑ جاتے، ایسے موقعوں پر کسی ماہر خوش نویس کی ضرورت ہوتی جو اُن دھندلے یا مٹے ہوئے الفاظ کو پتھر پر لکھ سکے، یہ کام آسان نہیں ہوتا تھا کیوں کہ تمام الفاظ اُلٹے ہوتے تھے لیکن سنبل صاحب بڑی آسانی سے پتھر کے اوپر اُلٹی کتابت اس طرح کیا کرتے تھے جیسے سیدھی کتابت کرتے تھے۔ ایک بار انھوں نے مجھے خطِ معکوس کے ذریعے طغریٰ بنانے کی ترکیب بتائی تھی۔ انھوں نے ایک موٹے کاغذ کو بیچ میں سے دوہرا کیا اور اس کی ایک سائیڈ پر پنسیل سے میرا نام اس طرح لکھا کہ وہ کاغذ کے موڑ تک آ گیا پھر انھوں نے کاغذ کو دوہرا کیا اور انگوٹھے سے زور زور سے دَبانا اور گھسنا شروع کیا جب انھوں نے کاغذ کھولا تو میرا نام کاغذ کی دوسری سائیڈ پر بھی آ چکا تھا اور ایک خوبصورت ڈیزائن معلوم ہو رہا تھا۔ آج بھی جب کبھی کسی بچے کو خوش کرنے کے لیے میں اِس طرح اُس کے نام کا ڈیزائن بنا کر دیتا ہوں تو وہ بہت یاد آتے ہیں۔
سنبل صاحب اپنی تمام مشق اور مہارت کے باوجود کبھی کبھی ایسی غلطیاں کر بیٹھتے تھے کہ ہنگامے کھڑے ہو جاتے تھے۔ ایک بار تو وہ بہت بُری طرح پھنس گئے تھے۔
ہوا یوں کہ ایک حکیم صاحب تھے، بڑے ٹھسّے والے بزرگ تھے۔ بڑھاپے میں بھی چہرے کا رنگ شہابی تھا۔ ہمیشہ ڈھیلی ڈھالی ریشمی شیروانی اور بڑے بر کا پاجامہ پہنتے تھے۔ خاص خاص موقعوں پر انگرکھے اور چوڑی دار میں بھی نظر آ جا یا کرتے تھے۔ اپنا رشتہ بہادر شاہ ظفر کے وزیر اعظم اور حکیم احسان اللہ خاں سے جوڑا کرتے تھے اور خود کو شمس الحکما اور فخر الاطبّا لکھوانا پسند کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی معجونِ شباب آور اور کشتۂ فولاد کھا کر ستّر برس کا بوڑھا سترہ برس کی لڑکی سے شادی کر سکتا تھا بلکہ بچے بھی پیدا کر سکتا تھا۔ موصوف شاعری بھی کیا کرتے تھے جو عنّاب اور گاؤ زباں کی طرح بے مزہ ہوتی تھی اس لیے مشاعروں میں اکثر ہو ٹنگ کا شکار ہو جایا کرتے تھے۔ مگر وہ ایسی باتوں کی پروا نہیں کرتے تھے۔ اور غزل مکمل کیے بغیر میدان نہیں چھوڑتے تھے۔ اِن حکیم صاحب کا اشتہار ہفتے میں دو دن روز نامہ خلافت کے صفحہ اوّل پر شائع ہوتا تھا۔ اشتہار میں حکیم صاحب کی کچھ خاص دواؤں کا تعارف ہوتا اور اُن جادو اثر دواؤں کے تیر بہ ہدف ہونے کی گارنٹی دی جاتی تھی۔ اولاد کے خواہش مندوں کی سال بھر کے اندر والد اور والدہ بن جانے کی بشارت دی جاتی اور اِس سب کے نیچے ایک سطر ہو تی۔
’’خواتین کے لیے زنانہ کا معقول انتظام ہے۔ !‘‘
اشتہار برسوں سے شائع ہو رہا تھا اور کبھی کسی کو کوئی شکایت نہیں ہوئی تھی مگر ایک دن وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔
مولانا زاہد علی کی عادت تھی کہ شام کو خلافت ہاؤس کے کمپاؤنڈ میں چھڑکاؤ کراتے، لکڑی کے بڑے بڑے بنچ صاف کر کے لگائے جاتے اور زاہد صاحب کے دوستوں کی محفل سج جاتی جو دیر گئے تک جاری رہتی۔ زاہد صاحب کے احباب کا حلقہ بہت وسیع تھا اس لیے کافی لوگ جمع ہو جاتے اور جم کر بحث مباحثے اور شعرو شاعری ہوتی۔ آنے والوں میں حکیم صاحب بھی تھے جو اکثر آ جایا کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک شام تھی، بزم یاراں شباب پر تھی کہ حکیم صاحب کی بڑی سی امپورٹڈ گاڑی آ کر رُکی، وہ دندناتے ہوئے سیدھے زاہد صاحب کے پاس پہونچے اور سلام کا جواب دیے بغیر گرج کر بولے۔
’’یہ کیا ہے۔ ؟‘‘
اور اس دن کا خلافت زاہد صاحب کے منہ پر پھینک دیا۔ حاضرین حیران تھے کہ ماجرا کیا ہے اور حکیم صاحب چیخ رہے تھے۔
’’سارا شہر ہنس رہا ہے ہمارے اوپر۔ لوگ فون کر رہے ہیں اور مذاق اڑا رہے ہیں۔ یہ صلہ دیا ہے آپ نے ہماری دوستی کا؟‘‘
تھوڑی دیر میں جب گرج چمک کم ہوئی تو حکیم صاحب نے دکھایا اور سب نے دیکھا کہ اشتہار کی آخری سطر میں لکھا تھا۔
’’خواتین کے لیے زنا کا معقول انتظام ہے۔‘‘
زاہد صاحب کا چہرہ سرخ ہو گیا وہ دانت پیس کر اُٹھے اور سیدھے کاتبوں کے شعبے میں گھس گئے۔ انھوں نے سنبل صاحب کی طرف انگلی اٹھائی اور دہاڑ کے بولے۔
’’نکل… ابھی نکل یہاں سے۔ کمینے۔ بد ذات، جان بوجھ کر حرامی پن کرتا ہے … چل نکل… اگر دوبارہ دفتر میں دکھائی دیا تو ٹانگیں توڑ دوں گا۔‘‘
انھوں نے اپنے نوکر کو آواز لگائی۔
’’لالہ۔ اس حرامزادے کا سامان اٹھا کر باہر پھینک۔‘‘
سنبل صاحب چپ چاپ سنتے اور آنکھیں جھپکاتے رہے۔ پھر اٹھے، اُس اخبار کو دیکھا جو زاہد صاحب نے ان کے منہ پر مارا تھا۔ پھر اطمینان سے اپنا تھیلا جھولا اٹھا یا اور باہر نکلتے نکلتے بولے
’’پہلی بار قلم نے سچ بولا تو آگ لگ گئی!‘‘
زاہد صاحب مارنے کے لیے لپکے مگر وہ تیزی سے باہر نکل گئے۔
اس واقعہ کے بعد تین چار دن تک سنبل صاحب غائب رہے مگر ایک دن سویرے سب نے ایک عجیب منظر دیکھا۔
خلافت ہاؤس کے کونے میں آم کے پیڑ کے نیچے بیگم محمد علی کی قبر پر پھول پڑے ہیں اگر بتیاں سلگ رہی ہیں اور قبر کے پاس پلاسٹک شیٹ سے بنائی گئی ایک جھونپڑی میں سنبل صاحب چٹائی پر بیٹھے ہیں۔ زاہد صاحب کو خبر دی گئی تو وہ غصّے میں تلملا تے ہوئے نیچے آئے اور پوری طاقت سے چیخ کو پوچھا۔
’’سنبل…یہ کیا ہو رہا ہے۔ ؟‘‘
سنبل صاحب نے ایک ادائے بے نیازی کے ساتھ زاہد صاحب کو دیکھا اور بولے
’’بیگم محمد علی کے مزار مبارک کا مجاور ہوں۔ اگر چڑھا وا لائے ہیں تو ڈبّے میں ڈال دیجیے۔‘‘
تھوڑی دیر زاہد صاحب اس طرح ساکت کھڑے رہے جیسے ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہو کہ کیا کریں۔ پھر اچانک اتنی زور سے کھِل کھلا کر ہنسے کہ آنکھوں میں پانی آ گیا۔ بڑی مشکل سے ہنسی روک کر بولے۔
’’تجھ سے بڑا بد معاش میں نے آج تک نہیں دیکھا… چل ابھی یہ ڈھونگ ختم کر خبیث اور کام کر!‘‘
وہ جانے کے لیے مڑے مگر کچھ سوچ کر رُکے۔ مزار پر فاتحہ پڑھی اور سنبل صاحب سے کہا۔
’’ہر جمعرات کو اگر بتی اور پھول چڑھا دیا کرو۔ پیسے عالم (منیجر) سے لے لینا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلے گئے اور سنبل صاحب اپنے کونے میں۔ خلافت کی گاڑی پھر اُسی طرح ہچکولے کھاتی چلنے لگی جیسے پہلے چل رہی تھی۔
تو ایسے تھے ہمارے سنبل صاحب جو پانی کے حرف کی طرح زندگی کی تختی پر تھوڑی دیر کے لیے چمکے اور پھر نہ جانے کہاں غائب ہو گئے۔
امجدی بیگم کے مزار پر اگر بتی اور پھولوں کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک زاہد صاحب زندہ رہے۔ اب نہ پھول ہیں نہ اگر بتی اور نہ مزار۔
خلافت ہاؤس میں ایک کالج بنا دیا گیا ہے جس میں لڑکیاں بی ایڈ اور ایم ایڈ کرتی ہیں۔ کالج کے میدان کو وسیع کرنے کی کوشش میں اُس عظیم عورت کے مزار کو بھی توڑ دیا گیا ہے جو ساری زندگی قوم کی بیٹیوں کی اعلیٰ تعلیم کی خواہش مند رہی۔ اب مزار کی جگہ ایک گملا سا بنا ہوا ہے جس کے چاروں طرف لوہے کا ایک مکروہ سیاہ پنجرہ لگا دیا گیا ہے۔ کوئی نہیں پہچانتا کہ پنجرے میں کون قید ہے کیونکہ وہاں کوئی پتھر یا تختی بھی نہیں ہے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ جن لوگوں کو اخلاقیات کا پہلا سبق بھی یاد نہیں وہ دوسروں کو کیا تعلیم دیں گے۔
’’گر ہمی مکتب و ہمی ملّا۔
کار طفلاں تمام خواہد شد‘‘
٭٭٭
ایک پرانا البم
ارے یار تو اتنی دیر سے کیا ڈھونڈ رہا ہے ؟۔ میری الماری میں کوئی کتاب وتاب نہیں ملے گی۔ کتابیں تو بڑے لوگوں کا شوق ہوتا ہے۔ ہم غریبوں کو روزی روٹی کا سبق پڑھنے سے فرصت ہی کہاں ملتی ہے جو کوئی کتاب رسالہ دیکھیں۔ کیا مل گیا؟۔ البم؟ ہاں یہ میرا ہی ہے مگر تو دیکھ کے کیا کرے گا، دو چار پرانی تصویریں لگی ہوئی ہیں، جن لوگوں کی تصویریں ہیں اُن میں سے قریب قریب سبھی جا چکے ہیں، تو کسی کو نہیں پہچان سکے گا ایک دو کو چھوڑ کے۔ ہاں تیرا باپ زندہ ہوتا تو سب کو پہچان لیتا، بڑا اچھا آدمی تھا اور سچا دوست تھا، بہت وقت گزارا ہے ہم دونوں نے ساتھ میں۔
ارے ٹھہر ٹھہر اتنی جلدی کیا ہے۔ ذرا مجھے بھی دیکھنے دے کس کی تصویر ہے ؟وہ چشمہ دینا!۔ ارے وہ نہیں یار دوسرا والا موٹے گلاس کا جس کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے۔ ہاں یہ ہے دیکھنے والا چشمہ۔ اب دکھا۔ ابھی بتا دوں گا کس کی تصویر ہے۔ یہ فوٹو دھندلے ہو گئے ہیں مگر میری یاد دھندلی نہیں ہوئی۔ یہ؟۔ ارے یہ تو بڑے سرکار کی فوٹو ہے۔ ایسا بھلا مانس تو میں نے کبھی دیکھا نہ سنا۔ دیکھ دیکھ چہرے پر کیا نور برس رہا ہے جیسے اندر سے چاندنی پھوٹ رہی ہو اور پیچھے جو بچہ پنکھا لیے کھڑا ہے، اِسے پہچانا؟۔ نہیں پہچانا؟ ابے للّو یہ میں ہوں، اتنی لمبی ناک اور اتنے چھوٹے چھوٹے کان کس کے ہو سکتے ہیں میرے سوا!۔ گیارہ برس کا تھا جب میرے باپ نے بڑے سرکار سے شکایت کی تھی۔ بڑے سرکار بہت زیادہ بھروسا کرتے تھے میرے ابّا پر۔ انھیں زنان خانے میں جانے کی اجازت بھی تھی۔ ہاں تو ایک دن ابّا نے بڑے سرکار سے کہا۔
’’سرکار، میرے لونڈے نے بڑا حیران کر کے رکھا ہے۔ نہ اسکول جاتا ہے نہ کوئی کام کرتا ہے، صبح سے شام تک محلے کے لونڈوں کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلتا رہتا ہے۔ مارتا ہوں تو کھیتوں میں جا کے چھپ جاتا ہے۔ کیا کروں سمجھ میں نہیں آتا۔ !‘‘
’’کل ہمارے پاس لے آنا۔ !‘‘بڑے سرکار نے کہا تھا ’’سب ٹھیک ہو جائے گا۔ !‘‘
میں نے سنا تو میرا دم ہی نکل گیا۔ ارے بڑے سرکار کا نام سن کر اچھے اچھوں کا پیشاب خطا ہو جاتا تھا، بہت بڑے جاگیر دار تھے اور سارے شہر میں ایسا دبدبہ تھا کہ کیا کہوں مگر دوسرے دن جب میں ابّا کے ساتھ ڈرتے ڈرتے ان کے سامنے پہونچا۔ تو معلوم ہے کیا ہوا؟۔ ارے اب سوچتا ہوں تو ہنسی آنے لگتی ہے۔ بڑے سرکار نے پوچھا۔
’’کیوں بھئی دِلّن تمہاری گلی کتنی دور جاتی ہے ؟‘‘
میں تو حیران ہی ہو گیا۔ بڑے سرکار ایسی بات پوچھیں گے بھلا کوئی سوچ سکتا ہے ؟مگر جواب دینا بھی ضروری تھا اس لیے سر جھکا کے بولا۔
’’بہت دور جاتی ہے۔ !‘‘
’’کتنی دور جاتی ہے ؟‘‘انھوں نے پوچھا۔
’’یہاں سے گلی اڑاؤں تو کھیتوں میں جا کے گرتی ہے۔ !‘‘
ایسا تین چار دفعہ ہی ہوا تھا مگر ہوا تو تھا۔ اُس میں کوئی جھوٹ تھوڑی تھا اس لیے بتا دیا۔
’’بس؟‘‘ بڑے سرکار نے مسکرا کے سر ہلایا ’’ارے جب ہم گلی اڑا تے تھے تو کھیتوں کے پار ندی میں جا کے گرتی تھی۔ سب ٹاپتے رہ جاتے تھے کہ گلی گئی کدھر؟‘‘
میری تو آنکھیں ہی پھٹ گئیں۔
’’آپ گلی ڈنڈا کھیلتے تھے سرکار؟‘‘
’’کیوں نہیں کھیلتے ؟جب کرکٹ نہیں تھا تو سب یہی کھیلتے تھے۔ ہمارے دیس کا سب سے پرانا کھیل ہے۔ !‘‘
پھر مجھے سر سے پاؤں تک دیکھ کر بولے ۔
’’تمہاری گلی ندی تک اس لیے نہیں جاتی کہ بازو میں زور کم ہے۔ کل سے تم یہاں آ جاؤ۔ کچھ کھاؤ پیو، رگ پٹھوں میں جان آ جائے گی پھر دیکھنا گلی کہاں تک جاتی ہے۔ !‘‘
میں نے بولا نا ویسا آدمی اب دو بارہ کبھی پیدا نہیں ہو سکتا۔ گھر گھر جا کے پانی بھرنے والے بھشتی کے بیٹے کو اتنی عزت دیتا، ہے کوئی؟ بتاؤ؟ اور میر اکام کیا تھا؟ گرمی ہو تو پنکھا جھلنا، دوپہر میں آرام کریں تو پاؤں دبانا۔ ارے پاؤں بھی کیا تھے بس ہڈیاں تھیں اس لیے بہت رسان رسان دباتا تھا کہ کہیں آنکھ نہ کھل جائے۔ بعد میں جب حبیب خان چوبدار مر گیا تو چلم بھرنے، حقہ تازہ کرنے اور فرشی دھونے کی ذمہ داری بھی مجھی کو دیدی گئی۔ چلم بھرنا ہر ایک کے بس کا نہیں ہوتا میاں۔ سب کام بڑی ناپ تول کے ساتھ کرنا پڑتا ہے، ورنہ ساری محنت برباد اور پینے والے کا مزہ خراب!۔ مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ بڑے سرکار کو کیا چاہئے اس لیے چاندی کی چلم اپنے ہاتھ سے مانجھتا تھا، اس کے اندر بہت سنبھال کے توا رکھتا تھا، ارے نہیں نہیں وہ توا نہیں بدھو جس پر روٹی پکتی ہے۔ مٹی کی ایک چھوٹی سی گول ٹکیا ہوتی ہے جس میں چھید ہوتے ہیں اس کے اوپر تمباکو جمائی جاتی ہے۔ اختری باورچن میری صورت دیکھتے ہی چار پانچ کچے کوئلے چولہے میں ڈال دیتی تھی، جب تک میں شیرے والی خوشبو دار تمباکو توے پر جماتا، کوئلے لال ہو جا تے، میں بڑی احتیاط سے دہکتے کوئلوں کو تمباکو کے اوپر رکھتا اور جب تمباکو سے مہک آنے لگتی تو چلم پوش رکھ کے باہر لے جاتا اور پیچوان پر رکھ دیتا۔ بڑے سرکار منہ نال ہونٹوں میں دبا کر ایک لمبا کش کھینچتے اور ان کی آنکھیں بتا دیتیں کہ میری محنت رنگ لائی ہے یا نہیں۔ !
ارے بھیا تو کہاں آنکھیں پھاڑے گھور رہا ہے۔ تو کسی کو پہچان ہی نہیں سکتا۔ یہ سب بہت پہلے کے قصّے ہیں، لا میں دیکھوں کس کی تصویر ہے۔ یہ چار بچے جو قالین پر بیٹھے ہیں ان میں سے یہ جو ٹوپی والا ہے نا یہ میں ہوں۔ ہاں پچھلی تصویر سے ذرا الگ دکھائی دے رہا ہوں۔ گالوں کی اُبھری ہوئی ہڈیاں غائب ہو گئی ہیں، بدن بھی بھر گیا ہے۔ تیل لگا کے مانگ نکالنے لگا تھا۔ یہ کونے والے عامر میاں ہیں۔ عمر تو ہم دونوں کی برابر ہی تھی مگر اُن کو جاگیر دار کا بیٹا ہونے کا غرور بہت تھا۔ بڑے سرکار نے کبھی غریب کو غریب اور چھوٹے کو چھوٹا نہیں سمجھا مگر عامر میاں تو ماش کے آٹے کی طرح بات بات پر اینٹھ جاتے تھے۔ جب سرکار نے منشی جی سے کہا کہ دِلن بھی پڑھے گا تو عامر میاں تُنک کر کھڑے ہو گئے تھے۔
’’یہ ہمارے ساتھ کیسے پڑھ سکتا ہے بابا؟‘‘
بڑے سرکار نے عامر میاں کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا اور کہا تھا۔
’’یہ تمہارے ساتھ کیوں نہیں پڑھ سکتا بیٹا۔ تمہاری طرح اس کی بھی دو آنکھیں ہیں، دیکھ سکتا ہے، کان ہیں سن سکتا ہے۔ زبان سے بول بھی سکتا ہے تو پڑھ کیوں نہیں سکتا؟‘‘
’’مگر بابا یہ تو…‘‘عامر میاں کچھ کہنا چاہتے تھے مگر بڑے سرکار نے روک دیا۔
’’کیا تم اپنے بابا کی بات نہیں مانو گے ؟‘‘
عامر میاں نے سر جھکا دیا تھا مگر میں سمجھ گیا تھا وہ مجھے چھوڑیں گے نہیں۔ ایک نوکر کے ساتھ بیٹھنا ان کی شان کے خلاف تھا۔ لڑکیاں ؟کون لڑکیاں ؟اوہ اچھا یہ جو بیچ میں بیٹھی ہیں، اس میں دائیں طرف والی سلمہ بی بی ہیں، بہت نیک تھیں بالکل بڑے سرکار پہ گئی تھیں عید کے دن تھیلی لے کے بیٹھتی تھیں اور ایک ایک کو بلا کے عیدی دیا کر تی تھیں ہر وقت مسکراتی رہتی تھیں اور یہ جن کے سامنے کتاب ہے یہ شہلا بی بی ہیں، ان کی تو بات ہی مت پوچھو سب کی لاڈلی تھیں بس ذرا سی ضدّی تھیں مگر کسی کو دکھ نہیں پہنچاتی تھیں اور یہ جو پڑھا رہے ہیں ان کا نام منشی دیا نارائن تھا، انگریزی، اردو اور حساب پڑھاتے تھے، اتنا میٹھا بولتے تھے کہ جی چاہتا تھا بس سنتے جائیے۔ قرآن شریف کے لیے ایک مولوی صاحب بھی آتے تھے، ان کی کمر جھک گئی تھی اس لیے سب ان کو ملّا جھکّو کہا کرتے تھے، ہم چاروں میں سے سب سے تیز عامر میاں تھے پھر سلمہ بی بی، شہلا بی بی کا نمبر تیسرا تھا اور میرا تو کوئی نمبر ہی نہیں تھا، جی ہی نہیں لگتا تھا پڑھنے میں مگر بڑے سرکار کے ڈر سے ہر سبق کو رٹ لیا کرتا تھا۔ کیا پتہ کب کچھ پوچھ بیٹھیں اور میں جواب نہ دے سکوں تو کیا ہو گا۔ یہ والی تصویر اس وقت کی ہے جب شہلا بی بی گھوڑے سے گر گئی تھیں بڑی اچھی گھوڑ سوار تھیں ہمارے شہر کے باہر ندی کے کنارے ایک کچّی سڑک تھی اُس پہ روزانہ سویرے سویرے نکل جاتی تھیں، جب برجیز پہن کے اور انگریزی ٹوپی لگا کے گھوڑے پہ بیٹھتیں تو بالکل انگریز معلوم ہوتی تھیں مگر ایک دن پتہ نہیں کیسے گھوڑا بِدک گیا اور وہ گر پڑیں، چوٹ تو زیادہ نہیں آئی تھی مگر انھیں غصّہ بہت آیا تھا گھوڑے پہ نہ بیٹھنے کی قسم کھا لی پھر کبھی سواری نہیں کی۔ اور یہ فوٹو اس وقت کی ہے جب عامر میاں نے کرکٹ میں کپ جیتا تھا۔ کیا خوبصورت جوان تھا، سنا تھا کالج کی ساری لڑکیاں جان دیتی تھیں ان کے اوپر مگر مزاج کے تیز تھے اور زبان بھی اچھی نہیں تھی اس لیے بہت سے لوگ پسند نہیں کرتے تھے۔ اور یہ تینوں فوٹو عامر میاں اور سلمہ بی بی کی شادی کے ہیں۔ ارے شادی کیا تھی یار، لین دین ہوا تھا۔ لکھنؤ کے ایک جج تھے، بھلا سا نام تھا ان کا، ہاں مرتضیٰ علی۔ ان کی بیٹی عامر میاں کو بیاہی اور بیٹے کا بیاہ سلمہ بی سے ہوا۔ بس ایک ڈولا گیا ایک آیا مگر کیا دھوم کی شادی تھی میاں سات دن تک جشن ہوا تھا۔ ولیمے کی بریانی کھانے گورنر صاحب بھی آئے تھے۔ یہ بیچ میں بڑے سرکار کے برابر وہی تو بیٹھے ہیں۔ میں کہاں ہوں ؟ٹھیک کہتا ہے۔ تو مجھے کیا پہچانے گا۔ تُو تو پیدا بھی نہیں ہوا تھا تیرا باپ ہوتا تو فوراً انگلی رکھ دیتا۔ بڑے سرکار اور دولہا کے پیچھے زربفت کی شیروانی اور اسی کپڑے کی ٹوپی میں جو جوان کھڑا ہے وہ میں ہی تو ہوں، بڑے سرکار نے صفدر خاں ٹیلر ماسٹر سے کہا تھا۔
’’ہمارا دِلّن بھی دولہا نظر آنا چاہیے۔ !‘‘
لگ رہا ہوں نا دولہا، بس سہرے کی کمی ہے۔ کون سی تصویر؟ اچھا یہ والی۔ یہ فوٹو بڑے سرکار کی آخری تصویر ہے دل کی بیماری لگ گئی تھی۔ بس سال بھر میں چٹ پٹ ہو گئے۔ کیا بات کرتا ہے بھائی؟ یہ عامر میاں کی دلہن نہیں ہیں۔ یہ شہلا بی بی ہیں۔ عامر میاں کی بیوی تو اُن کے پاؤں کی دھول بھی نہیں تھیں۔ دلہن تو اس لیے لگ رہی ہیں کہ بھائی کا بیاہ تھا۔ یہ فوٹو میں نے عامر میاں کی تصویروں میں سے چوری کی تھی۔ دیکھ دیکھ ذرا غور سے دیکھ۔ لگتا ہے نا جیسے کوئی پرستان کی پری زمین پر اُتر آئی ہو۔ ابے چوری نہیں کرتا تو کیا کرتا۔ شہلا بی بی کی کوئی اچھی سی تصویر تھی ہی نہیں میرے پاس اور عامر میاں نے زنانے میں آنا جانا بھی بند کر دیا تھا کہ ان کی بیوی پردہ کرتی تھی…
ہاں یہ سوال تو برابر ہے میں نے شہلا بی بی سے ان کی تصویر مانگی کیوں نہیں، چوری کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ابے عقل کے دشمن اتنا تو سوچ کہ ایک نوکر جوان مالکین سے اس کی فوٹو مانگتا تو اس کا کیا مطلب لیا جاتا؟ جوتے مار کے نکال دیا جاتا، جوتے مار کے۔ چپ نہیں ہوا ہوں۔ یاد کر رہا ہوں۔ کیا زمانہ تھا۔ کیا لوگ تھے سب، پتہ نہیں کہاں چلے گئے۔ !
شہلا بی بی بھائی کی شادی میں دلہن لگ رہی تھیں نا۔ لے یہ دیکھ جب وہ سچ مچ دلہن بنی تھیں تو کیسی لگ رہی تھیں ان کے بیاہ کی ایک نہیں کئی تصویریں ہیں۔ یہ دیکھ بڑے سرکار کا پورا خاندان دولہا دلہن کے ساتھ۔ ہاں دیکھنے میں تو ایسا گبرو جوان تھا کہ دیکھے ہی بنے، حیدرآباد کا نواب زادہ تھا مگر مہا حرامی تھا سالا۔ ارے اس نے شادی کے بہت پہلے سے ایک لونڈیا پھنسا کے رکھی تھی۔ شہلا بی بی سے چھپ چھپ کر اُس سے ملا کرتا تھا مگر ایک دن بھانڈا پھوٹ گیا۔ وہ لڑکی آئی اور شہلا بی بی کو سب کچھ بتا دیا۔ ارے وہ پیٹ سے تھی۔ پاپ کی پوٹ کو لے کے کہاں جاتی۔ اس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ڈاکٹری جانچ کروا لو پیٹ کا بچہ نوابزادے کا نہ نکلے تو پھانسی چڑھا دینا۔ شہلا بی بی کا دل بہت بڑا تھا مگر اتنا بڑا بھی نہیں تھا کہ ایک دھوکے باز کو معاف کر دیں جو ایک ساتھ تین زندگیاں برباد کر رہا تھا۔ میری زندگی نہیں بے۔ مجھے بیچ میں کہاں گھسا رہا ہے۔ تیسری زندگی اس بچے کی تھی جو پیدا ہونے والا تھا۔ تو ہوا یہ کہ شہلا بی نے نوابزادے کو لات ماری اور گھر آ گئیں۔ وہ بے چاری یہ سوچ کر آئی تھیں کہ میکے میں بھائی ہے سہارا دے گا مگر عامر میاں اور ان کی بیوی نے تو جینا دو بھر کر دیا۔ عامر میاں کہتے تھے مرد چار چار بیویاں رکھتے ہیں اگر وہ ایک اور لے آئے تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا اور عامر میاں کی بیوی تو پوری چڑیل تھی کہتی تھی شہلا کے نخرے اتنے ہیں کہ شوہر دوسری عورت کے پاس جانے لگا ہو گا۔ خدا کی پناہ کیسے کیسے لوگ ہوتے ہیں دنیا میں۔ کسی پر الزام لگاتے وقت اللہ سے بھی نہیں ڈرتے۔ اختری باورچن نے بتایا تھا شہلا بی بی نے گولی کھا کے مر جانے کی کوشش بھی کی تھی مگر ڈاکٹروں نے بچا لیا۔
جب شہلا بی کی شادی ہوئی اور پھر طلاق ہو گئی تو میں دلّی میں تھا۔ میں نے الکٹرک کا کام سیکھ لیا تھا اور قرول باغ میں ایک سردار کی دوکان پر کام کرتا تھا۔ جسونت سنگھ بہت اچھا آدمی تھا مجھے چھوٹے بھائی کی طرح رکھتا تھا اس کا مال دوسرے شہروں میں بھی جاتا تھا۔ اور میں مال کی ڈلیوری دینے اکثر باہر جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ میں مال پہونچا کر مراد آباد کے اسٹیشن پر آیا۔ دلّی کی گاڑی میں دیر تھی تو پلیٹ فارم پر گھومنے لگا اچانک دیکھا کہ ایک بنچ پر شہلا بی بی بیٹھی ہوئی ہیں، انھوں نے شال سے خود کو لپیٹ رکھا تھا بس ذرا سا منہ کھلا ہوا تھا مگر میں تو ان کو لاکھوں میں پہچان سکتا تھا۔ ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا وہ اکیلی تھیں، بالکل اکیلی۔ میں ان کے سامنے جا کھڑا ہوا اور میں نے کہا۔
’’بی بی آپ یہاں۔ ؟‘‘
وہ مجھے دیکھ کر اس طرح چونک پڑیں جیسے چوری کرتے پکڑی گئی ہوں۔ میں نے پوچھا۔
’’آپ اکیلی کہاں جا رہی ہیں۔ ؟‘‘
تو بولیں ’’لکھنؤ جا رہی ہوں۔ !‘‘
میں سمجھ گیا کہ معاملہ کچھ گڑبڑ ہے کیونکہ لکھنؤ کی ٹرین تو اس پلیٹ فارم پر آتی ہی نہیں تھی۔ میں نے کہا۔
’’لکھنؤ کی ٹرین تو پانچ نمبر سے جاتی ہے ادھر تو دلّی کی گاڑی آئے گی۔!‘‘
شہلا بی بی پریشان ہو گئیں پھر سنبھل کر بولیں ۔
’’ہاں میں لکھنؤ نہیں، دلّی جا رہی ہوں۔ !‘‘
میں بنچ پر ان کے پاس بیٹھ گیا اور میں نے کہا۔
’’یہ تو بڑی اچھی بات ہے میں بھی دلی ہی جا رہا ہوں۔ !
کہنے لگیں ’’مجھے تیرے ساتھ نہیں جا نا ہے تو جا۔ !‘‘
اختری کی باتیں میرے دماغ میں گھوم رہی تھیں اس لیے میں نے کہا۔
’’بی بی جب تک بتائیں گی نہیں کہ کیا بات ہے، میں ادھر سے ہلنے والا نہیں ہوں۔ !‘‘
انھوں نے اونچی آواز میں کہا۔
’’دلّن مجھے غصّہ آ جائے گا۔ !‘‘
میں بھی کہاں ماننے والا تھا۔
’’تو غصّہ کر لیجیے مگر یہ بتا دیجیے آپ یہاں اکیلی اس اجنبی شہر کے اسٹیشن پر کیا کر رہی ہیں آپ کے ساتھ کوئی سامان بھی نہیں ہے۔ آخر کہاں جا رہی ہیں آپ۔ ؟‘‘
اُس دن دوسری بار میں نے ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ میرا دل کٹ گیا۔ پہلی بار تب دیکھے تھے جب عامر میاں نے ان کی گڑیا چھین کر کنویں میں پھینک دی تھی اور بڑے سرکار نے حبیب خاں کو بلا کے کہا تھا گاڑی لے کر جاؤ اور شہلا کو جیسی گڑیا چاہیے لے کر آؤ ہم اپنی بیٹی کی آنکھ میں آنسو نہیں دیکھ سکتے۔ مگر اس دن اسٹیشن کی بنچ پر بیٹھی ہوئی ایک اکیلی شہلا بی کے پاس ایسا کوئی نہیں تھا جو کہتا ہم تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتے۔ میں ضرور کہہ دیتا مگر مجھ میں جرأت نہیں تھی۔ انھوں نے پلکیں جھپکا کر آنسو روکے اور کہا۔
’’مجھے نہیں معلوم میں کہاں جا رہی ہوں۔ !‘‘
پتہ نہیں اس وقت مجھ میں اتنی ہمت کہاں سے آ گئی تھی میں نے کہا تھا۔
’’مجھے معلوم ہے آپ کہاں جا رہی ہیں۔ آپ میرے ساتھ میرے گھر جا رہی ہیں۔ !‘‘
شہلا بی کو سچ مچ غصّہ آ گیا تھا۔
’’یہ کیا بک رہا ہے تو؟‘‘
میں نے انھیں ساری بات بتائی کہ میں نوکری کرتا ہوں میرا اپنا گھر ہے جہاں وہ جب تک چاہیں آرام سے رہ سکتی ہیں۔ وہ بہت دیر تک سوچتی رہیں پھر بولیں ۔
’’تیرے گھر والوں کو بہت پریشانی ہو گی دلّن۔ !‘‘
میں ہنس دیا اور میں نے کہا۔
’’میرے گھر والوں میں کبوتر کا ایک جوڑا ہے اور اسے کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ !‘‘
وہ بہت دیر تک مجھے دیکھتی رہیں پھر ایک ٹھنڈی سانس لے کر بولیں
’’ٹھیک ہے دلّن، چل، میں بھی بھٹکتے بھٹکتے تھک گئی ہوں۔ !‘‘
اس فوٹو میں بی بی حضرت نظام الدین کی درگاہ پر دعا مانگ رہی ہیں۔ یہاں کناٹ پلس میں گھوم رہی ہیں اور اس فوٹو میں بنگالی مارکیٹ کی چاٹ کھا رہی ہیں۔ ابے تو عجیب گھامڑ آدمی ہے۔ اتا بڑا قطب مینار نہیں دکھائی دے رہا ہے کیا؟۔ ابے میں قطب صاحب کی لاٹ کو مول لینے تھوڑی گیا تھا۔ شہلا بی بی کو دکھانے لے گیا تھا۔ نہیں نہیں پردہ نہیں کرتی تھیں مگر کسی ایسی ویسی جگہ جا تی تھیں تو چادر ڈال لیا کرتی تھیں۔ ورنہ اُن جیسی لاکھوں میں ایک حسینہ کے پیچھے غنڈے نہیں لگ جاتے کیا؟۔ یہ سارے فوٹو میں نے اپنے کیمرے سے لیے تھے۔ سکنڈ ہینڈ تھا مگر اصلی جاپانی تھا کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی بس آنکھ کو لگایا اور بٹن دبا دیا۔ ہو گیا کام۔
میرے ساتھ ہی رہتی تھیں اور کہاں رہیں گی؟ ارے ہاں بھائی ایک ہی گھر میں۔ ابے کیا بھیجا ہل گیا ہے۔ میں نے تو ان کو کبھی آنکھ بھر کے بھی نہیں دیکھا، ہمت ہی نہیں ہوئی۔ بس ایسا لگتا تھا جیسے کوئی بہت ہی قیمتی چیز میرے پاس رکھی ہو اور میرا کام اس کی رکھوالی کرنا ہو۔ چھوٹا سا گھر تھا۔ گھر بھی کیا تھا بس ایک کمرہ تھا جس کے ایک کونے میں باور چی خانہ اور دوسرے میں غسل خانہ تھا۔ سڑک کی طرف ایک بالکنی تھی جو اتنی چوڑی تھی کہ ایک کھاٹ آ سکے۔ اس میں پردے ڈال کے اپنے رہنے سونے کا بندوبست کر لیا تھا۔ باقی گھر شہلا بی بی کے لیے تھا۔ انھوں نے کئی بار کہا۔
ارے تو بالکنی کا دروازہ بند کر کے کیوں سوتا ہے، مگر میں ڈرتا تھا کہ کبھی رات کو پانی پیشاب کے لیے اندر جاؤں اور وہ نیند میں کھلی، ادھ کھلی پڑی ہوں اور میری نظر پڑ جائے تو گناہ گار ہو جاؤں گانا؟۔
گھر کے نیچے ہی جسونت سنگھ کی دوکان تھی جس پر میں کام کرتا تھا وہ گھر بھی اُسی نے دیا تھا۔ اس جیسا نیک سردار تو میں نے ساری دلّی میں کہیں نہیں دیکھا۔ کہتا تھا دلّن تو میرا نوکر نہیں ہے میرا بھائی ہے۔ بھائی۔ کبھی کبھی اپنے ساتھ گردوارے لے جاتا تھا لنگر کھلانے کے لیے۔ اس گردوارے کا کڑھا پرساد تو اب بھی یاد ہے اصلی گھی میں بنا ہوا سوجی کا میوہ دار حلوہ آہا… میں کیا کہہ رہا تھا؟ ہاں تو میں کہہ رہا تھا جسونت سنگھ خود کیا کرتا تھا معلوم ہے ؟گردوارے میں آنے والوں کے جوتے صاف کر کے لائن سے لگا تا تھا۔ کہتا تھا بڑے ثواب کا کام ہے۔ میں نے بھی محلے کی مسجد کے دروازے پر نمازیوں کے جوتے صاف کر کے رکھے تھے مگر جوتے چپل صاف کرنے کے چکر میں نماز نکل گئی تو میں نے کہا یہ اپنے بس کا کام نہیں ہے۔ یہ دیکھ یہ ہے جسونت سنگھ اپنی بہن کی شادی میں بھنگڑا کر رہا ہے۔ اور اس فوٹو میں بی بی چائے بنا رہی ہیں۔ ارے انھیں تو پانی بھی اُبالنا نہیں آتا تھا مگر بعد میں روٹی بھی بنانے لگی تھیں۔ وقت سب کچھ سیکھا دیتا ہے۔ ان کی سفید مخمل جیسی انگلیوں پر جلنے کے داغ دیکھ کر بڑی تکلیف ہوتی تھی مگر کیا کرتا انھیں روز روز بازار کا کھانا اچھا نہیں لگتا تھا۔
میں نے بہت سی تصویریں کھینچی تھیں صبح سے لے کر شام تک ان کی ایک ایک بات کی، ایک ایک کام کی اور ایک ایک ادا کی تصویریں تھیں میرے پاس مگر ایک دن پتہ نہیں کیا موڈ آیا کہ سب پھاڑ دیں، کہنے لگیں کیا فائدہ ان تصویروں کا یہ نہ تیرے کام کی ہیں نہ میرے۔ بس یہ تھوڑی سی رہ گئی ہیں۔
ابے اس میں پوچھنے اور بتانے کی کیا بات ہے، پیچھے تھانہ ہے، سامنے حوالدار ہے اور میں ہوں۔ بڑا حرامی افسر تھا اس تھانے کا، بات ہی نہیں سنتا تھا اور ہاتھ تو خدا کی قسم ہتھوڑا تھا۔ ایک ہی ریپٹ میں داڑھ نکل گئی تھی میری۔ ارے نہیں بھیّا، چوری ڈکیتی کا مقدمہ نہیں تھا۔ اغوا کا کیس تھا۔ لونڈیا کو زبر دستی اٹھا کر لانے کا۔ اور کون کرے گا، وہی میرے ہم درد عامر میاں۔ پولیس میں رپٹ لکھا دی کہ میں نے شہلا بی بی کو اغوا کر لیا ہے۔
ذرا سوچ۔ کیا کسی غلام کی اتنی جرأت ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی ملکہ کو لے بھاگے۔ مگر پولیس کو تو تم جانتے ہی ہو۔ نہ دیکھتی ہے نہ سوچتی ہے بس سنتی ہے۔ کسی نے کہا چور چور اور وہ ڈنڈا لے کے دوڑے۔ ارے وہ تو شہلا بی بی تھیں جنھوں نے بچا لیا نہیں تو چکّی پیس رہا ہوتا۔ معلوم ہے انھوں نے بھری عدالت میں کیا کہا تھا؟۔ انھوں نے کہا تھا۔
’’جج صاحب میں پڑھی لکھی ہوں، بالغ ہوں اپنا اچھا بُرا سمجھتی ہوں۔ مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا۔ میں اپنی مرضی سے اس کے ساتھ آئی ہوں اور اپنی خوشی سے اس کے ساتھ رہتی ہوں، مجھے کوئی قانون نہیں روک سکتا۔ کیونکہ دلدار حسین میرا شوہر ہے۔ !‘‘
ارے بھیّا پوچھ مت کیا ہوا۔ عدالت میں بم ہی تو پھٹ گیا۔ عامر میاں کی صورت تو دیکھنے کی تھی ایسے لال ہو رہے تھے جیسے گلال لگ گیا ہو۔ میں تو چکرا ہی گیا تھا۔ ارے بات ہی چکرانے وا لی تھی، میں نے پوچھا۔
’’بی بی یہ آپ نے کیا کیا؟‘‘
کہنے لگیں ۔
’’تو کیا تجھے جیل جانے دیتی؟‘‘
میں نے کہا۔
’’مگر وہ شوہر والی بات کہنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
بولیں ’’وہ تو بھائی جان کو جلانے کے لیے کہی تھی۔‘‘
پھر ہنس کر پوچھا۔
’’اچھا اگر میں کہوں تو کیا تو مجھ سے بیاہ نہیں کرے گا؟‘‘
میں تو ٹھنڈا ہی پڑ گیا۔ بولتی ہی بند ہو گئی۔ بڑی مشکل سے پوچھا۔
’’بی بی یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟‘‘
بہت دیر تک میری آنکھوں میں دیکھتی رہیں، اللہ جانے کیا سوچ رہی تھیں پھر مسکرا کے کہا۔
’’گھبرا مت۔ مذاق کر رہی تھی۔ !‘‘
میرا ان کا رشتہ کیا تھا؟۔ ہاں یہ سوال تو میں نے ہزار دفعہ خود سے بھی پوچھا ہے مگر جواب نہیں ملا۔ بس یوں سمجھ لے کے انوکھا رشتہ تھا۔ ٹھہرے پانی کے اندر چاند اترا ہوا دکھائی دیتا ہے مگر وہاں ہوتا نہیں ہے۔ یہ تینوں فوٹو جسونت سنگھ کی بیٹی کے بیاہ کے ہیں۔ شہلا بی بی کو جسونت بہن کہتا تھا نا اس لیے چار دن پہلے ہی اپنے گھر لے گیا تھا اور انھوں نے بھی بہن ہونے کا حق ادا کر دیا۔ دلہن کے جوڑے سینے سے لے کر سہاگ گانے تک کوئی کام ایسا نہیں تھا جس میں وہ آگے آگے نہ ہوں۔ ببلی جب رخصت ہوئی تو دروازے پہ کھڑے ہو کر بابل ایسا گایا کہ دولہا والوں کے بھی آنسو نکل پڑے۔ وہ خود بھی ایسے رو رہی تھیں جیسے اپنی بیٹی کو بدائی دے رہی ہوں۔ عورت چاہے کوئی بھی ہو کیسی بھی ہو میاں اس کے دل میں دو ارمان ضرور ہوتے ہیں۔ پہلا کسی مرد کی چھاتی پر سر رکھنے کا اور دوسرا اپنی اولاد کو چھاتی سے لگانے کا۔ مامتا کوکھ کی قیدی نہیں ہوتی بیٹا۔
کیا ہوا؟ البم بند کیوں کر دیا؟۔ اوہ اچھا۔ ہاں شاید وہی آخری تصویریں تھیں جب تصویر والی ہی نہ رہی تو تصویر کہاں سے ہو گی۔ نہیں ان کا انتقال نہیں ہوا۔ انتقال تو بڑا چھا لفظ ہے اس کا مطلب ہوتا ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا۔ مگر شہلا بی بی کہیں نہیں گئیں، وہ کہیں جانا بھی نہیں چاہتی تھیں مگر انھیں زبر دستی بھیج دیا گیا۔ میں جسونت سنگھ کے کام سے میرٹھ گیا تھا۔ واپس آیا اور دروازہ کھولا تو لاش پڑی تھی بدن پر گھاؤ ہی گھاؤ تھے مگر آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ شاید وہ میری راہ دیکھ رہی تھیں۔ وہ ہر شام میری راہ دیکھتی تھیں اور دیر ہو جاتی تو ڈانٹتی بھی تھیں۔ اس دن انھوں نے کچھ نہیں کہا۔ یہ بھی ان کی عادت تھی غصّہ زیادہ ہوتا تھا تو بات نہیں کرتی تھیں۔
ہاں بیٹا وہ سب کچھ ہوا جو ہوتا ہے۔ پولیس کتے بھی لے کر آئی مگر کوئی نہیں پکڑا گیا۔ پولیس نے یہ بول کو کیس بند کر دیا کہ چوری کی واردات ہے کیونکہ شہلا بی بی کے ہاتھ کے کنگن اور کانوں کی بالیاں غائب تھیں۔ میں نے لاکھ سر پٹکا کہ اگر چور آئے تھے تو وہ زیور کیوں چھوڑ گئے جو الماری میں سامنے ہی رکھا تھا۔ مگر کسی نے نہیں سنی یا شاید سن کے ان سنی کر دی۔ یہ کہاوت جھوٹی ہے بھیّا کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں۔ اگر لمبے ہوتے تو اس کی گردن تک ضرور پہونچتے جس نے شاید اپنے باپ دادا کی عزت کو ایک بھشتی کے بیٹے کے ہاتھوں لٹنے سے بچا لیا تھا۔ ایک آخری تصویر رہ گئی ہے وہ بھی دیکھ لے۔ ابے اس پرانے البم میں نہیں ہے وہ سامنے دیوار پر لگی ہے۔ ہاں۔ یہ شہلا بی بی کے مزار کی فوٹو ہے۔ اپنے ہاتھ سے یہ سفید پتھر لگائے تھے میں نے اور یہ جوہی کی جھاڑیاں بھی میں نے ہی بوئی تھیں جن سے چھوٹے چھوٹے سفید پھول قبر پر گرتے رہتے ہیں۔ انھیں سفید رنگ بہت پسند تھا نا۔ اور قبر کے برابر چبوترے پر جو جگہ خالی ہے وہ میری ہے۔ میں نے بینک سے ادھار لے کے ایک لاکھ روپے میں خریدی ہے۔
’’ابے تجھے کیا ہو گیا؟۔ تو کیوں آنکھیں چھلکا رہا ہے۔ میں کوئی پیار محبت کی کہانی تھوڑی سنا رہا تھا۔ میں تو بس یہ بتا رہا تھا کہ ایک شہلا بی بی تھیں اور ایک ان کا نوکر تھا…‘‘
٭٭٭
ماخذ: سنگت اکادمی ڈاٹ نیٹ
https://www.sangatacademy.net/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں