فہرست مضامین
کھلکھلاتا بودھ
عرفان جاوید
الحمرا ہال لاہور میں مجلسِ اقبال کی جانب سے تقریب کا اہتمام تھا۔ نوے کی دہائی تھی۔ غلام حیدر وائیں صاحب وزیرِ اعلیٰ پنجاب تقریب کی صدارت کر رہے تھے۔ چوں کہ وہ بہت بنیادی defaultسطح سے ترقی کرتے ہوئے وزارت اعلیٰ کے عہدے پر متمکن ہوئے تھے اس لیے رسمی تعلیم کے چند ہی مراحل طے کر پائے تھے۔ ان کے وزیروں میں تو ایک وزیر ایسے بھی تھے جن کے متعلق مشہور ہے کہ ایک فائل اُن کے سامنے لائی گئی تو اُنھوں نے اپنے سیکریٹری سے پوچھا۔ ’’ مجھے کیا لکھنا ہے ؟‘‘اُس نے کہا کہ بس آپ اِس پر "Seen”یعنی ’’پڑھ /دیکھ لیا‘‘ لکھ دیجیے۔ انھوں نے اس پر سنجیدگی سے خوش خط انداز میں ’’س‘‘ لکھا اور فائل لوٹا دی۔
رسمی انداز کی تقاریر جاری تھیں۔ تقریب کا ماحول بوجھل تھا اور حاضرین جماہیاں لے رہے تھے۔ اتنے میں سٹیج سیکریٹری نے اعلان کیا کہ عطاء الحق قاسمی صاحب اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔ سلک کی سنہری قمیص اور کلف والی سفید شلوار میں ملبوس قاسمی صاحب اسٹیج پر آئے اور انھوں نے تقریر کا آغاز ایک واقعے سے کیا۔
ایک صاحب کا اکلوتا بیٹا قتل کے کسی جھوٹے کیس میں گرفتار ہوا اور جیل چلا گیا۔ مقدمے کی کارروائی بھی شروع ہو گئی۔ اُن صاحب نے انتہائی پریشانی کے عالم میں اپنے بیٹے کے لیے ہاتھ پیر مارنا شروع کر دیے۔ اِس دوران مقدمے کی کارروائی نے سنجیدہ رخ اختیار کر لیا۔ اپنے بیٹے کی پھانسی کے اندیشے میں مبتلا باپ نے پینل کے ایک جج کو سفارش کروائی کہ وہ ساری زندگی کے لیے اُس کا مقروض رہے گا اگراُس کے بیٹے کو عمر قید کی سزا دے دی جائے۔ مقدمے کا فیصلہ ہوا تو بیٹے کو عمر قید کی سزا سُنا دی گئی۔
چند روز بعد کسی تقریب میں باپ کی ملاقات جج سے ہوئی تو آنکھوں میں احسان کے آنسوبھرے وہ جج کا انتہائی شکر گزار ہوا۔ جج نے ہم دردانہ انداز میں باپ کا کندھے کو تھپتھپایا اور بولا۔ ’’وہ تو آپ کی خواہش پر میں نے نا خلف کو عمر قید کی سزا پر جیل بھیج دیا وگرنہ دوسرے جج تو اسے برَی کرنا چاہتے تھے۔ ‘‘
قاسمی صاحب نے یہ واقعہ ختم کیا تو پورا ہال قہقہوں سے گونج اُٹھا اور وائیں صاحب، جو گلاس منہ سے لگائے پانی پی رہے تھے، کو اچھوآ گیا اور اُن کی قمیص چھینٹوں سے بھیگ گئی۔ پس اس کے بعد قاسمی صاحب کی تقریر کے شگفتہ ذومعنی اور پُر معنی جملوں کی پھوار برستی رہی اور وہ جان محفل ٹھیرے۔ تقریر ختم کر کے وہ باہر کی جانب روانہ ہوئے تو قریباً آدھا ہال خالی ہو گیا۔
یہ میرا قاسمی صاحب سے پہلا سامنا تھا۔
عطاء الحق قاسمی، صفِ اوّل کے کالم نگار، شاعر، مدیراورسفرنامہ نگار کے قدموں کے نشان 1943سے امرتسر، وزیرآباد، لاہور ماڈل ٹاؤن، اچھرے سے ہوتے ہوئے نہر کنارے نئی بستیوں میں جا نکلتے ہیں۔
اُردو کے معروف ابتدائی سفرنامے ’’شوقِ آوارگی‘‘ سے اُبھرنے والے تخلیقی وفور نے کہیں نوائے وقت اور جنگ کے کالموں اور بین الاقوامی مشاعروں میں ظہور کیا تو کہیں ’’معاصر‘‘ ایسے موقر ادبی جریدے کی ادارت میں کیتھارسس پایا۔ ایم اے او کالج کی تدریس سے روزگار کا سورج طلوع ہو کر ناروے کی سفارت اور سرکاری اداروں کی سربراہی کے مناصب پر دمکا۔
شاعری، صحافت اور سیاحت کی رنگین گلیوں کے مکانوں کے جھروکوں سے جھانکتی دل کش نازنینوں، چنچل مہہ جبینوں اور طرح دارحسیناؤں کو نظر انداز کر کے گھر والوں کی پسند سے بیاہ کیا۔ شرط فقط اتنی رکھی ’’لڑکی قبول صورت، تعلیم یافتہ اور خاندانی ہو۔ ‘‘
ایک زمانے میں نوائے وقت لاہور کے سنجیدہ حلقوں میں مقبول ترین روزنامہ تھا۔ کالم نگاروں کی ایک کہکشاں اخبار میں جلوہ افروز ہوتی تھی۔ مجیب الرحمان شامی، نذیر ناجی اور عطاء الحق قاسمی کے علاوہ اے حمید،م ش اور دیگر نمایاں تخلیق کار۔ میرے بچپن میں ہمارے آبائی گھر میں بھی نوائے وقت اہلِ خانہ بہت ذوق و شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ اُردو اِملا اور زبان کی درستی کے لیے بچوں کو خاص تلقین کی جاتی کہ اس کا بغور مطالعہ کیا جائے۔ ایسے میں جہاں بیشتر کالموں کا رنگ سیاسی ہوتا اور یہ کالم بچوں کے غیر سیاسی ذہن کے لیے اجنبی ٹھیرتے، وہیں کبھی کبھار عطاء الحق قاسمی کا فکاہیہ کالم ظرافت و شگفتگی کا دلچسپ و رنگین امتزاج ہوتا۔ داداجی اور نانا جی یہ کالم خصوصی توجہ اور غور سے پڑھا کرتے۔ اے حمید اور عطاء الحق قاسمی کی تحریریں کو پڑھ کرامرتسر سے ہجرت کر کے آنے والے داداجی تو اکثر فرمایا کرتے۔ ’’ایک امبرسری ہی اتنا ذہین ہو سکتا ہے۔ ‘‘
یقیناًًان کالموں میں کشمیری چائے کی نمکین مہک اور باقر خوانیوں کی خستگی اور پہاڑی پھلوں کے مُربّوں کی مخصوص قدرتی مٹھاس ہوتی تھی۔
بہت برسوں بعد عطاء الحق قاسمی صاحب سے ملاقات ایک دلچسپ اتفاق کا نتیجہ تھی۔
میاں نواز شریف کی حکومت گرا کر مارشل لا نافذ کر دیا گیا تھا۔ ہر طرف جہاں ایک خوف کا عالم تھا، وہیں جمہوری حلقوں میں اضطراب پایا جاتا تھا۔ بہت سے کالم نگار مرغ باد نما کے مانند اپنا رخ بدل کر ابن الوقتوں کی صف میں کھڑے ہو چکے تھے۔ یہ نیا معاملہ نہ تھا بلکہ قلم کے سوداگر الفاظ کی گٹھڑی کندھوں پر ڈالے پھرتے تھے اور اِن میں اکثر حالات کے مطابق بازارِ حیات میں دکان سجا کر مطلوبہ سودا بیچنے میں مشغول ہو جاتے۔ یہ ایسے بچے جمورے تھے جو اپنے مداری کے اشارے پر مرد، عورت یہاں تک کہ ہیجڑے کا کردار بھی بخوبی نبھا لیتے تھے۔ ان پر بعد میں ایک صاحب نے ’’کالم نگاروں کی قلابازیاں ‘‘ نامی کتاب بھی لکھی جس میں بارہ اکتوبر سے پہلے اور بعد کے کالم نقل کر کے ضیافتِ طبع اور عبرت کا انتظام کیا گیا۔
اِن سب ابن الوقتوں میں عطاء الحق قاسمی ایک ایسا شخص تھا جو مخالف اسباب کے باوجود اپنے نظریے اور سیاسی فکر پر ڈٹا ہوا تھا۔ اس کی سوچ سے اختلاف تو کیا جا سکتا تھا مگر اُس کی استقامت اور با ضمیری قابلِ رشک تھی۔
ایک روز میں ایک دوست کے ہم راہ چائے پر لاہور کے ایک ہوٹل میں گیا۔ وہیں قاسمی صاحب اپنے اہل خانہ کے ساتھ قریبی میز پر کھانا کھانے میں مشغول تھے۔ اُن کو وہاں دیکھ کر مسرت کی ایک کیفیت نے مجھے آن لیا اور میں نے ویٹر کو بلا کر ایک پرچی تھما دی جس پر اُن کے کردار کی مضبوطی سراہی گئی تھی۔ پرچی پڑھ کے قاسمی صاحب کچھ ہی دیر میں ہماری میز پر آ گئے۔
تعارف ابتدائی مراحل میں تھا۔ احمد ندیم قاسمی صاحب سے میرے تعلق اور خود اُن کے اپنے رسالے ’’معاصر‘‘ میں چھپنے والی میری چند تحریروں کے حوالے سے مجھے پہچان کروہ بہت تپاک سے ملے۔ وہ کافی دیر پر جوش گفتگو کرتے رہے اور پھر اُٹھ کر واپس اپنی میز پر چلے گئے۔ جاتے ہوئے غلطی سے میرے دوست کی گولڈ لیف کی ڈبیا ساتھ لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ وہ اپنی میز پر پڑی گولڈ لیف کی دو ڈبیوں کو غور سے گھور رہے ہیں۔ ہماری نظریں ملیں تو وہ مسکرائے اور دوست کی ڈبیا واپس کرنے آئے اور پنجابی میں بولے۔ ’’عرفان، میرے رسالے کے دفتر آنا۔ ‘‘اور دوبارہ ایک بھرپور معانقہ کر کے لوٹ گئے۔
یہ ہماری درجنوں ملاقاتوں کا نقطۂ آغاز تھا۔
ان کی ہمہ جہت شخصیت کے بہت سے پہلو قابلِ ذکر ہیں۔
مشہور امریکی ادیب اور فقرہ باز مارک ٹوئن سے ایک جملہ منسوب ہے جس کا مقامی محاورے میں مفہوم کچھ یوں ہے کہ ایک متاثر کن فن پارہ پڑھ کر اُس کے ادیب سے ملاقات یوں ہی ہے جیسے مٹن کی کسی عمدہ لذیذ ڈش کو کھانے کے بعد آپ کی ملاقات بکرے سے کروا دی جائے۔
اس تصور کے برعکس قاسمی صاحب کے ظرافت اور برجستگی سے بھرپور کالم پڑھ کر اُن سے ملنے کا تجربہ ایسا ہی ہے جیسے کسی مور کے انڈے کو دریافت کر کے آپ کی ملاقات اُس بہار رنگ، خوش ادا اور مُرقعۂ رعنائی مور سے ہو جائے۔
وہ اپنی تحریروں سے کہیں بڑھ کر زندہ دل، حاضر جواب اورحساس اِنسان ہیں۔
قاسمی صاحب کی ذات جس ایک محور کے گرد گھومتی ہے، وہ اُن کے مرحوم والد ہیں۔ ایک مرتبہ میں اُن کے ساتھ ’معاصر‘ کے وارث روڈ والے دفتر میں کھانے کی مصروفیت سے نمٹے تو ٹی وی چینل ’’جیو‘‘ کی ٹیم پروگرام ’’ایک دن جیو کے ساتھ ‘‘ریکارڈ کرنے آ گئی۔ قاسمی صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں اُن کے ہم راہ بیٹے یاسر کے ہاں چلوں تو میں نے اسے اُن کی مصروفیت میں بے جا مداخلت گردانتے ہوئے اجازت چاہی۔ بعد میں پروگرام چلا تو دیکھا وہ اپنے والد کی قبر پر اشک بار ہو گئے۔ اس وقت اُن کی اشک باری کا درد کچھ میں ہی محسوس کر سکتا تھا۔ کیوں کہ بے شمار ملاقاتوں میں انھوں نے اپنے والد کا تذکرہ والہانہ انداز میں کیا تھا۔
والد اور بچپن کے تذکرے سے ایک ننھا سا، گھنگھریالے بالوں والا بچہ میرے پردۂ تصور پر اُبھر آتا ہے۔ یہ بچہ کئی بیٹیوں اور ایک بیٹے کے بعد ایک تعویذ کی برکت سے پیدا ہوا تھا۔ اس امر کا تذکرہ بھی بے محل نہ ہو گا کہ شنید ہے بعد میں جس کسی کو بھی ایک صوفی بزرگ کا عطا کردہ وہ تعویذ دیا گیا، اس کی نرینہ اولاد کی خواہش پوری ہوئی۔ سب سے چھوٹا ہونے کے ناطے وہ گھنگھریالے بالوں اور گوری چٹی رنگت والا بچہ باپ کا لاڈلا ٹھیرا۔ باپ مذہبی رجحان والا درویش صفت آدمی تھا۔ قناعت اس کی گھٹی میں اس طرح ڈال دی گئی تھی کہ بہت بعد میں تقسیم کے بعد اُسے مالِ غیر سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا تواُس نے ٹھکرا دیا۔
اس دور کے وزیر آباد میں وقت نیم خوابیدگی کے عالم میں سستا رہا تھا۔ چھوٹا سا پرُسکون شہر چند محلوں پر مشتمل تھا اور محلے ہندوؤں اور سکھوں کی چھوڑی ہوئی حویلیوں، مکانوں، دکانوں اور تھڑوں کے بیچ سے گزرتی گلیوں اور سڑکوں کے پُر پیچ و گنجلک سلسلوں کا جال تھا۔ ان گلیوں میں طرح طرح کے رنگین کردار زندگی بسرکرتے تھے۔ چوں کہ خواہشات و ضروریات کم اور ذہن رسا کی پہنچ محدود تھی چناں چہ وہ چند محلے اور گلیاں ساکنانِ شہر کی کُل کائنات تھیں۔ گرم دوپہروں میں وہ بچہ اپنے مکان کی چھت پر چڑھ آتا اور کبھی نیچے کپڑا رنگتے رنگ سازوں اور مرچیں کوٹتی عورتیں تکا کرتا اور کبھی نیلے کانچ آسمان پر تیرتی سیاہ چیلوں اور اٹھکیلیاں کرتی رنگین پتنگیں معصومانہ اشتیاق سے دیکھا کرتا۔ شاموں میں لوہے کا راڈ تھامے ایک پہیے کو جسے ’’ریڑھا‘‘ کہتے تھے گلیوں میں دوڑاتا پھرتا تھایا پٹھو گرم کھیلا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ کھانے کے لیے ماں کی آواز اسے گھر کے اور بلا لیتی۔
دوپہر کو کھانے میں آٹے میں گندھے نمک والی روٹی کے ساتھ خربوزے دیے جاتے، رات کو سبزی میں مٹھی بھر گوشت ڈال کر پکا لیا جاتا۔ سردیوں میں سما وار میں اُبلتی نمکین کشمیری چائے چلتی رہتی۔
جب کبھی تفریح کا ارادہ بندھتا تو ساراخاندان چناب کا رُخ کرتا جہاں وہ اپنے باپ کی پیٹھ پر بیٹھ کر تیراکی اور غسل کا لطف لیتا۔
وزیرآباد کی سنسان گلیوں میں آج بھی اس کی آواز گونج رہی ہے۔
چناب میں آج بھی ایک تنومند باپ اپنے گھنگھریالے بالوں والے بچے کو پیٹھ پر بٹھائے تیر رہا ہے اور بچہ کھلکھلا کر اتنا ہنس رہا ہے کہ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔
قاسمی صاحب کی آنکھوں میں آنسو جھلملاتے تھے۔
’’ہم لوگ متوسط پاکستانی گھرانے کا نمونہ تھے لیکن ہم غریب نہیں تھے کیوں کہ ہمارے گھر میں گوشت پکتا تھا۔ میری ماں اپنے حصے کی بوٹی آنے والے کسی بھی مہمان کے لیے رکھ لیتی تھی اور خود ہنڈیا کو روٹی سے پونچھ کر کھا لیتی تھی۔ یہ میری ماں کی عظمت یا پھر ہماری محرومی کا احوال تھا۔ میری ماں چوں کہ بیمار رہتی تھی اس لیے اباجی مجھے نہلاتے تھے اور جب تک میں آٹھویں جماعت میں چلا گیا، وہ مجھے نہلاتے رہے۔ ‘‘
ایک بات میں نے قاسمی صاحب سے آج تک نہیں پوچھی کہ اُن کے اباجی کو آخری غسل کس نے دیا تھا۔ میں قصداً اس موضوع پر اُن سے بات نہیں کرتا، مبادا وہ رنجیدہ ہو جائیں۔ جب اُن کی رگوں میں رینگتے خون میں وہ حدت باقی نہیں، جذبات کی شدت آج بھی اُن کے اندر دھمال ڈالتی ہے۔
یہ عجیب آدمی ہے، جب عشق کرتا ہے تو شدید کرتا ہے اور نفرت کرتا ہے تو بھی اُس کی سرخ تپش اس کے گالوں پر کشمیر کی لال شاموں کی طرح اُتر آتی ہے۔
آخری عمر تک ان کے والد ان کے ساتھ رہے۔ کبھی ناراض ہو کر گھر سے چلے جاتے کہ بڑی بہن کے ہاں جا رہے ہیں لیکن شام تک لوٹ آتے۔
ایک مرتبہ واپس نہ لوٹے۔ سب رشتے داروں کو فون کیے۔ سب نے بتایا کہ اُن کے ہاں نہیں ہیں۔ گھبرا کر تھانے میں فون کیے، کوئی اطلاع نہ تھی۔ ہسپتالوں میں جانچ کی تو میو ہسپتال سے پتا چلا کہ اس حلیے کی ایک لاش لائی گئی ہے۔
’’وہ دن میری یادداشت میں آج بھی بُری طرح دھڑکتا ہے۔ میں پھونک پھونک کر قدم رکھتا مردہ خانے میں داخل ہوا۔ زندگی میں پہلی مرتبہ بیت القضا میں داخل ہوا تھا۔ عجب دہشت ناک ماحول تھا۔ ایک جانب لاشیں کھڑی تو دوسری جانب لیٹی تھیں۔ مجھے مطلوبہ لاش تک لے جایا گیا۔ اُس مردہ شخص نے دھوتی پہنی تھی جب کہ ابا جی دھوتی نہیں پہنتے تھے۔ چناں چہ کچھ حوصلہ ہوا اور میں گھر لوٹ آیا۔ ‘‘
ساری رات جاگتے گزری۔ صبح فجر کے وقت دستک ہوئی۔
دروازہ کھولا تو اباجی سامنے کھڑے تھے۔ میں رو پڑا اور اُن سے لپٹ گیا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ بارش کی وجہ سے رات کو بڑی ہمشیرہ کے ہاں رُک گئے تھے۔ پھر مجھے دِلاسا دیتے ہوئے بولے۔ ’’مجھے یہ تو پتا چل گیا کہ تُم مجھ سے محبت کرتے ہو۔ ‘‘عطا صاحب نے مجھے یہ واقعہ سناتے ہوئے کہا۔ ’’اب بھلا محبت جانچنے کا یہ کوئی طریقہ تھا جو اباجی نے ایجاد کیا۔ ‘‘
ایک روز قاسمی صاحب سگریٹ کی راکھ، راکھ دان میں جھاڑتے ہوئے دھیمی آواز میں بولے۔
’’جب اباجی فوت ہوئے تو مجھے بہت مدت تک ان کی موت کا یقین نہ آیا۔ بہت دنوں تک میں اس واہمے کا شکار رہا کہ ابھی دروازہ کھلے گا اور ابا جی وہ سامنے سے اپنی مخصوص چال چلتے ہوئے آئیں گے اور مجھ سے کہیں گے ’کیا بات ہے، بڑے دنوں سے اخبار میں تمھاری خرافات نہیں چھپیں‘ اور میں مسکرا دوں گا۔ ‘‘
وہ کافی دیر خاموش رہے۔ یہاں تک کہ اُن کے دفتر کی میز پر پڑی لیمپ کی پیلی روشنی اُن کی آنکھوں میں جھلملانے لگی۔
’’ابا جی اپنی وفات کے بعد دس سال تک روزانہ رات کو متواتر میرے خواب میں آتے رہے۔ دس سال تک ہر رات۔ پھر جب میں اس سانحے سے جذباتی طور پر سمجھوتا کرنے کے کچھ قابل ہوا تو اس ملاقات میں وقفے آنے لگے۔ ‘‘بولتے بولتے وہ چونک گئے۔
’’عجیب بات ہے۔ بہت دن ہو گئے اباجی سے خواب میں ملاقات ہی نہیں ہوئی۔ ‘‘
’’جذباتی ‘‘ کا لفظ اُن کی شخصیت کا موزوں احاطہ کرتا ہے۔ وہ اپنے تعلقات میں بہت جذباتی ہیں۔ کسی سے اُن کی جذباتی وابستگی قائم ہو جاتی ہے تو اُس شخص کے ساتھ وہ جی جان سے ہو جاتے ہیں اور نکتہ چینیوں کے حوالے سے زود رنج ہیں۔ بعض اوقات احباب کو خاصا ناراض بھی کر دیتے ہیں۔
ادب میں احمد ندیم قاسمی سے وابستگی ہوئی تو انتہا تک گئے۔ ان کے حاسدین کے لیے دل میں کچھ ایسا بال آیا کہ آج تک دور نہیں ہوا۔
ڈاکٹر وزیر آغا اور احمد ندیم قاسمی دونوں ادب کی قابلِ قدر شخصیات ہیں۔ ان میں کچھ غلط فہمی پیدا ہوئی تو ڈاکٹر صاحب پر لطیف انداز میں چوٹ کر ڈالی۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے بارے میں لکھا۔ ’’ڈاکٹر وزیر آغا کی سب سے بڑی خدمت اُن کے وہ باغات ہیں جن کے کینو اور مالٹے بے مثال ہیں۔ ‘‘یہاں عطا صاحب کا اشارہ سرگودھا میں ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کے کینو، مالٹے کے باغات کی جانب تھا۔
منصورہ احمد، احمد ندیم قاسمی کی منہ بولی بیٹی تھیں۔ کچھ ندیم صاحب کی سر پرستانہ محبت اور کچھ افتادِ طبع کے باعث اُن کا لب و لہجہ اور رویہ بعض اوقات ندیم صاحب کے رفقاء کے ساتھ بے باک ہو جاتا تھا۔ اس رویے نے جہاں پروین شاکر جیسی نفیس خاتون کو آب دیدہ کر دیا، وہیں اختر حسین جعفری جیسے عمدہ شاعر اور مرنجاں مرنج شخص کو بھی دکھی کر دیا۔ اسی طرح منصورہ نے عطا ء الحق قاسمی کو بھی اِس حد تک زچ کر دیا کہ وہ اس سے قطع کلامی پر مجبور ہو گئے۔
احمد ندیم قاسمی صاحب کی وفات کے بعد منصورہ تنہا رہ گئیں۔ وہ سب لوگ جو ندیم صاحب کی وجہ سے اُنھیں رعایت دیتے تھے، پیچھے ہٹنے لگے۔ یہاں تک کہ وہ بیمار پڑ گئیں۔ اسی بیماری میں اُنھوں نے اپنے اشاعتی ادارے ’اساطیر‘ کا دفتر اتفاقاً عطا صاحب کے دفتر کے برابر میں منتقل کر دیا۔
میں جب عطاء صاحب کے ہاں جاتا تو منصورہ کی مزاج پرُسی کے لیے اُن کے ہاں بھی چلا جاتا۔ چند ایک مرتبہ جب میں نے عطا صاحب سے اُن کا تذکرہ کیا تو خاموش رہے، بالآخر دکھی لہجے میں بول پڑے۔ ’’میں کیا کروں مجھ سے منافقت نہیں ہوتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ادب میں میرے آئیڈیل احمد ندیم قاسمی سے آخری دنوں میں رفقاء کو علیحدہ کرنے میں منصورہ نے ناقابلِ معافی کردار ادا کیا ہے۔ ‘‘
منصورہ کی وفات کے بعد کہنے لگے۔ ’’اگر صرف موت کی وجہ سے کسی کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں تو پھر یزید کی بھی معافی کا جواز بنتا ہے۔ ‘‘
جب یہی جذباتی وابستگی سیاست میں آئی تو درمیان کا رستہ اختیار نہ کیا بلکہ کھل کر حمایت اور مخالفت کی۔ بیشتر وقت اپوزیشن کا ساتھ دیا۔ بھٹو کی حکومت میں اس کی غلط پالیسیوں کی مخالفت کی، ضیا کے ناقدین میں شامل رہے اور جب مشرف کا طوطی بول رہا تھا تو ببانگِ دہل اس کے سامنے آن کھڑے ہوئے۔ نواز شریف کا تو اُن کی جلاوطنی کے دور میں بھرپور ساتھ دیا۔ ان کی وابستگی مستقل رہی اور حالات کی قیدی نہ بنی۔
ایک مرتبہ بہت دکھ میں کہنے لگے کہ پہلے وضع داری کا زمانہ تھا۔ کبھی سیاسی مخالفت کی وجہ سے ذاتی نوعیت کے رکیک حملے نہ ہوتے تھے۔ ہر ذی شعور اِنسان کے سیاسی نظریات اوروابستگیاں ہوتی ہیں۔ اب تو یہ عالم ہے کہ سیاسی رائے سے اختلاف رکھنے والے دشنام طرازی سے باز نہیں آتے۔ ایک روز ایک خاتون جو اُن کے ایک دوست کی بیگم تھیں اور ایک مخصوص سیاسی جماعت سے ہم دردی رکھتی تھیں، کہنے لگیں۔ ’’قاسمی صاحب آپ کب تک اُس مخصوص سیاسی راہ نما کی چمچہ گیری کرتے رہیں گے۔ ‘‘
اس پر قاسمی صاحب نے برجستہ جواب دیا۔ ’’بھابی !ہم دونوں میں یہ قدر تو مشترک ہے۔ ہم دونوں چمچہ گیر ہیں۔ آپ ایک جماعت کی تو میں دوسری جماعت کا۔ ‘‘
اس حوالے سے اُنھوں نے 1970ء کی دہائی کا ایک واقعہ سُنایا۔ ایک مرتبہ اُن کا اسکوٹر چوری ہو گیا تو انھوں نے اس کے حوالے سے چور کے نام ایک کالم لکھ ڈالا۔ اسی کالم کے تسلسل میں کئی کالم نگاروں نے کالم لکھے جن میں پیپلز پارٹی کے ترجمان ’’مساوات‘‘کے ایک کالم نگارسہیل ظفر بھی تھے۔ چند روز بعد چور ان کا اسکوٹر واپس چھوڑ گیا جس پر انھوں نے کالم لکھا ’’شکریہ چور صاحب‘‘اوراس میں لکھا کہ نہ معلوم کس کالم نگار کے کالم سے متاثر ہو کر چور کو رحم آیا اور اس نے چوری شدہ اسکوٹر واپس لوٹا دیا البتہ پیپلز پارٹی پر لطیف چوٹ کرتے ہوئے لکھا کہ گمانِ غالب یہی ہے کہ ’’مساوات‘‘ کے کالم کو ’’پارٹی کا حکم‘‘ سمجھتے ہوئے چورنے اسکوٹرواپس کیا ہے۔ چند روز بعد سہیل ظفرسے ملاقات ہوئی تو وہ ہنستے ہوئے ان کے گلے لگ گئے اور بولے ’’شرارت تو تم پر ختم ہے لیکن بھئی تم نے جملہ بہت شان دار لکھا تھا۔ ‘‘
ایک معمولی سا واقعہ ہے۔ ایک مرتبہ رات کو میں نے قاسمی صاحب کو فون کیا اور کسی حوالے سے کوئی بات معلوم کرنا چاہی۔ وہ غالباً کہیں مصروف تھے، بات مختصر کر کے فون بند کر دیا۔ چوں کہ معلومات بہت ضروری نہ تھیں، فقط ایک سرسری حوالے کے لیے درکار تھیں، میں انھیں نظر انداز کر کے سو گیا۔
اگلے روز چھٹی تھی سو میں آرام سے سو کر اُٹھا۔ موبائل پر دیکھا تو علی الصبح سے ان کی تین چار کالیں آ چکی تھیں۔ کچھ پریشان ہو کر میں نے فون ملایا تو انھوں نے دوسری گھنٹی ہی پر فون اُٹھا لیا۔
فون اُٹھانے کے بعد رسمی حال احوال دریافت کرنے کے بعد گزشتہ رات میری جانب سے پوچھی گئی بات کا بہت تسلی اور وضاحت سے جواب دیا۔ جب میں نے کہا کہ یہ بات اتنی اہم نہ تھی تو پنجابی میں بولے۔ ’’عرفان ! شام کو میں کہیں مہمانوں کے مصروف تھا، چناں چہ آپ کی بات کا تفصیلی جواب نہ دے پایا۔ رات کو بستر پر لیٹا تو خیال آیا کہ میری مصروفیت کو آپ نے بے اعتنائی پر محمول نہ کر لیا ہو۔ صبح اُٹھتے ہی میں نے پہلا کام یہ کیا کہ آپ کو فون کیا۔ مجھے امید ہے کہ آپ مطمئن ہو گئے ہوں گے۔ ‘‘
میرے اور قاسمی صاحب کے ذاتی تعلق کی مالا میں ایسے واقعات کے کئی رنگین منکے پروئے ہوئے ہیں۔
ہماری ملاقاتیں بے شمار جگہوں اور مقامات پر محیط ہیں۔ اُن کا گھر، معاصر کا دفتر، لاہور اور کراچی کے ہوٹل ہوں یا میرا گھر، ہر جگہ اُن کی ذات کا نقش موجود ہے۔
ان تمام مقامات میں میری سب سے زیادہ جذباتی وابستگی ’’معاصر ‘‘کے دفتر سے ہے۔ یہ دفتر نہیں، ایک چھوٹا سا گھر ہے۔ داخل ہوتے ہی سامنے استقبالی میز پر خاتون سیکریٹری بیٹھی ملے گی، ساتھ میں چھوٹا سا باورچی خانہ ہے۔ استقبالی کمرے کے ساتھ راہ داری جیساکمرا ہے۔ کھانے کی میز سجی ہے۔ یہ کمرا اُن کے صدر کمرے میں کھلتا ہے۔ کمرے میں ایک جانب ٹی وی ہے اور سامنے ایک میز کے پیچھے کھلی سرخ و سپید رنگت اور مسکراتے چہرے والے قاسمی صاحب کسی کتاب پر جھکے یا فون پر قہقہہ بار گفتگو کرتے نظر آئیں گے۔ وہ ان چند رونقی لوگوں میں سے ہیں جن کے وجود سے ایک پھیکے خاموش کمرے میں زندگی کی رَو دوڑ جاتی ہے۔ کمرے کے پہلو میں ایک اور کمرا ہے جہاں قیلولے کے لیے ایک آرام دہ بستر بچھا ہے اور چند کپڑے ٹنگے ہوتے ہیں۔ اس آرام کمرے سے وابستہ ایک غسل خانہ ہے۔ ان کا دفتر گویا ایک مکمل یونٹ ہے۔
اس دفتر سے میری بے شمار یادوں کا ایک سلسلہ ہے۔ اسی میز کے گرد کرسیوں پر میری مِنی بھائی سے لے کر احمد فراز تک جانے کتنے نابغۂ روزگار لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ نہ جانے کتنے اجنبی شہروں اور قصبوں کے لوگوں سے ملا ہوں جو اُن سے ملنے چلے آتے ہیں۔
میں اور قاسمی صاحب وہاں تنہا ہوتے ہیں تویوں کہیے، تکلف کے سبھی لباس اُتار کر ایسی ایسی دیویاں ہمارے بیچ اترتی اور گدگداتی ہیں کہ قہقہوں کی رنگین پھوار سے سبھی در و دیوار دیوالی رنگ ہو جاتے ہیں۔ نہ جانے اُن کی ذات میں کیا اپنائیت اور بے ساختگی ہے کہ سنجیدہ سے سنجیدہ آدمی کے اندر سے بھی ظرافت کود کر باہر آ جاتی ہے۔
ابھی وہ کسی سے فون پر گفتگو کر رہے ہیں کہ مجھے دیکھ کر فون پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں۔ ’’ذرا انتظار کرنا پڑے گا، تبادلۂ منافقت جاری ہے۔ ‘‘
ایک روز میں نے اُن سے کہا کہ پرانے وقتوں میں لوگ داناؤں اور جہاں دیدہ لوگوں سے نصیحت کی فرمایش کرتے تھے، تو کیا آپ مجھے کوئی نصیحت کریں گے۔ یہ سن کر انھوں نے آنکھیں موند لیں اور انتہائی سنجیدگی سے سوچنے لگے۔ کچھ دیر بعد آنکھیں کھولیں اور فرمایا۔ ’’ میری صرف ایک نصیحت ہے اور وہ یہ کہ کبھی کسی کو نصیحت نہ کرنا‘‘
خوش خوراک اور کھانے کا عمدہ ذوق بھی رکھتے ہیں۔ اعلیٰ ریستورانوں کے ولایتی کھانوں پر عمدہ پکے ہوئے دیسی پکوانوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
ہماری ایک روایت چلی آ رہی ہے۔ اکثر دوپہر میں جب ہم اکٹھے ہوتے ہیں تو نیلا گنبد پر واقع غلام رسول کے مٹن چنے یا دیسی مرغ کے ساتھ تیار ہوئے مرغ چنوں کا کھانا کھاتے ہیں۔ منہ میں گھل جانے والے ذائقہ دار مٹن چنے، خستہ نمکین لذیذ نان اُن کے دفتر میں منگوا لیے جاتے ہیں اور گرما گرم، کھانے کی میز پر سجا دیے جاتے ہیں جہاں کتری گئی پیاز اور دہی کے کھٹے رائتے کے ساتھ کھائے جاتے ہیں۔ دفتر میں کوئی مہمان موجود ہوا تووہ بھی بھرپور رغبت سے شاملِ طعام ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ بقول اُن کے بندہ ’نکونک‘ ہو جاتا ہے۔ کبھی کھانے کا پروگرام پہلے سے طے شدہ ہو تو وہ اپنے گھر سے کشمش، کھوئے، دیسی باداموں اور دیگر میوہ جات میں رچا ذائقہ دار زردہ لے آتے ہیں جو کھانے کے بعد گرم کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ بعد میں الائچی والی چائے کے ساتھ وہ گولڈ لیف سلگا لیتے ہیں اور میں نیم غنودگی میں اجازت چاہتا ہوں۔
اگر کبھی زبان کا ذائقہ بدلنا ہو تو چوبرجی کے ساتھ واقع خان بابا کے ہوٹل کا مخصوص عمدہ بھُنا ہوا مٹن، کریلے گوشت، دیسی گھی میں بگھاری دال یا سوندھی خوشبو والا دیگی پلاؤ منگوا لیا جاتا ہے۔ اس میز پر بہت سے لوگوں کا کُفر ٹوٹا ہے۔ ہندوستان سے آئے ہوئے اُن کے مہمان ہندو ادیب کا منہ ایسے عمدہ کھانے کو دیکھ کر یوں پانی سے بھر آیا کہ اُس نے اپنے دھرم کو کچھ دیر کے لیے بالائے طاق رکھ کر کچھ ایسے چاؤ سے گوشت کھایا کہ کفر کافی دیر تک ٹوٹتا رہا۔
اس کے علاوہ اُن کے گھر میں سردیوں کی کہر آلود راتوں میں اعلیٰ درجے کے میوہ جات سے تو کئی مرتبہ لطف اندوز ہونے کا موقع ملا ہے۔ کھانے کے معاملے میں ان کا اصول ہے کہ بہت ہو اور عمدہ ہو۔ کھانے سے زیادہ وہ کھلانے پر یقین رکھتے ہیں۔
ایک روز میں ان کے ساتھ کراچی کے ایک ریستوران میں بیٹھا تھا کہ ایک حسین خاتون ہمارے سامنے سے گزری۔ میں نے خاتون کے حُسن کو سراہا ’’ماشاء اللہ‘‘۔ اس پر انھوں نے بے اختیار میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور بولے۔ ’’انشاء اللہ کہو، عرفان بھائی انشا ء اللہ۔ ‘‘
اسی طرح ایک مرتبہ تاسف سے سنانے لگے کہ کس طرح غلط فہمی اِنسان کو منزل کے قریب پہنچ کر بھی اس سے محروم کر دیتی ہے۔
’’اوائلِ جوانی کی بات ہے۔ جہاں گردی کا خبط سوار تھا۔ سو میں پھرتا پھراتا ترکی جا نکلا۔ استنبول میں ایک ترکی لڑکی سے کچھ ایسی بات بنی کہ بات گفتگو کی حدود سے نکل کر آگے تک چلی گئی۔ سو وہ اگلے روز ہوٹل میں ملنے آئی اور اس نے وہاں ایک کمرا کرائے پرلے لیا۔
رات کچھ بیت گئی تو میں دبے پاؤں اپنے کمرے سے باہر نکلا۔ سامنے ہوٹل کا ایک نوجوان ملازم کرسی میز ڈالے بیٹھا تھا اور متوقع نظروں سے میرے کمرے کی جانب دیکھ رہا تھا۔ لگتا تھا کہ اُس کم بخت کی قومی غیرت کچھ غلط وقت پر جاگ گئی تھی۔ ہم دونوں کی نظریں ملیں۔ اور دیر تلک ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ پھر میں اپنے کمرے میں واپس چلا گیا۔
رات کا پچھلا پہر گزر گیا اور اب تک گزرا انتظار کا ہر منٹ مجھ پر بہت بھاری گزرا تھا، دبے قدموں پھر کمرے سے باہر نکلا۔ وہ ظالم نہ صرف جاگ رہا تھا بلکہ ٹکٹکی باندھے میرے کمرے کی جانب گھور رہا تھا۔ چناں چہ میں اُسی طرح دبے پاؤں واپس کمرے میں جا کر سو گیا۔
صبح ناشتے کے وقت میں کمرے سے نکلا تو باہر وہی ترکی نوجوان اور میری تازہ شناسا لڑکی ترکی زبان میں کچھ تکرار کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر وہ نوجوان میری جانب اشارہ کر کے اپنی زبان میں کچھ اونچی آواز میں بولنے لگا۔ اُس کی گفتگو سن کر لڑکی کی آنکھیں بھر آئیں اور وہ پیر پٹختی ہوئی میرے قریب آئی اور بولی۔ ’’تمھارے اندر غیرت کی ذرہ برابر بھی رمق نہیں۔ اس بندے نے تمھارے سامنے میرے لیے نہ جانے کون کون سے مغلظات بکے ہیں مگر تم پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ کوئی ترک نوجوان ہوتا تو اس کے دانت توڑ ڈالتا۔ میں تم سے کسی بھی طرح کا تعلق نہیں رکھنا چاہتی۔ ‘‘
اس پر میں نے مسکینی سے قسم کھائی کہ مجھے تو ترکی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں آتا۔ پھر بھی میں اس کے دانت توڑنے کی کوشش کر سکتا ہوں لیکن وہ لڑکی غصے میں پھنکتی مجھے اور اُس نوجوان کو بُرا بھلا کہتی وہاں سے چلی گئی اور میں بے بسی سے اُسے جاتے دیکھتا رہ گیا۔ ‘‘
صنفِ مخالف کی جانب متوجہ ہونا ایک فطری جذبہ ہے، اس موضوع پر کئی مرتبہ بات ہوئی۔ جس پر انھوں نے ہمیشہ دو ٹوک اور بلا لگی لپٹی بات کی۔
’’عورت کا حُسن حسِ لطیف کے مالک کس مرد کو متاثر نہیں کرتا۔ حُسن دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک جمالیاتی، نظروں کو خیرہ کر دینے والا اور دوسرا خوابیدہ مردانہ احساسات کو بیدار کرنے والی برہنہ کشش۔ کچھ ہی وقفے بعد کسی نہ کسی ایسی خاتون سے سامنا ہو جاتا ہے جس کا حُسن آج بھی مبہوت کر دیتا ہے۔ جب میں ایم اے او کالج میں پڑھاتا تھا، تو انار کلی میں ایک ایسی حسین خاتون سے سامنا ہو گیا کہ میں دنیا و مافیہاسے بے گانہ دیکھتا رہ گیا۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہ ایک انگریزی کے پروفیسر کی بیوی تھی۔ جب وہ پروفیسر ناراض ہوا کہ میں اس کی بیوی کو تاک رہا تھا، تو مجھے اپنے اس والہانہ پن پر بہت غصہ آیا اور شرمندگی بہت ہوئی۔ اسی طرح پروین شاکر کی پوری شخصیت خوب صورت تھی۔ اس کے حسن میں ملکوتی تقدس تھا۔ ‘‘
ایک روز بتانے لگے۔
’’میں جوانی میں اس احساسِ کم تری کا شکار تھا کہ شاید میں قبول صورت بھی نہیں۔ اسی لیے جب کوئی لڑکی میری جانب متوجہ ہوتی تھی تو میں اسے اپنی غلط فہمی پر محمول کرتا تھا۔ ابھی چند سال پہلے مجھے میرے ایک پرانے دوست نے عہدِ گزشتہ کی ایک لڑکی کے بارے میں بتایا کہ وہ مجھے پسند کرتی تھی اور میرے قریب آنا چاہتی تھی۔ تب مجھے یاد آیا کہ میں اسے کسی اور نظر سے دیکھتا تھا۔ اگر کبھی مجھے اس کی جانب سے اس طرح کا اشارہ ملا بھی تومیں نے اسے اپنی ذہنی اختراع جانا اور ایک احساسِ شرمندگی کے ساتھ غلط فہمی سمجھتے ہوئے جھٹک دیا۔ چند روز پہلے کی بات ہے کہ جی سی یونی ورسٹی میں ایک پرانی کلاس فیلو سے ملاقات ہو گئی۔ وہ اب تک بڑھاپے میں داخل ہو چکی تھی۔ اُس نے ملاقات کے دوران انکشاف کیا کہ اُس دور میں وہ مجھے پسند کرتی تھی۔ اُس کی بات سن کر پہلے تو میں نے اُس کے سفید ہوتے بال دیکھے، پھر اپنے اوپر نظر دوڑائی اور بولا۔ ’’ایہہ دسن دا ہُن کی فیدہ(یہ بات بتانے کا اب کیا فائدہ)‘‘
یہ کہتے ہوئے قاسمی صاحب نے بھر پور قہقہہ لگایا۔
اسی طرح ایک روز ہم فکری مغالطوں پر گفتگو کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بحیثیت قوم ایک تصور قائم کر کے اس کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں مشرقی پاک دامنی کا ایک غلط العام نظریہ جڑ پکڑ چکا ہے۔
’’جس طرح ایک عورت کی فراخ دلی کا سن کر مرد اس کی جانب بے اختیار رُخ کرتے ہیں اسی طرح ایک بدنام مرد کی جانب خواتین خودبخود متوجہ ہو جاتی ہیں۔ ‘‘
قاسمی صاحب نے یہ بات کی تو میرے ذہن میں معروف بھارتی خوشونت سنگھ کا چہرہ نمایاں ہو گیا۔ خوشونت سنگھ نے کہیں لکھا ہے کہ اپنے جوانی کے دنوں میں بھارتی مصورہ امرتا شیر گل کی دریا دلی اور فیاضی کا چر چا سن کر وہ خوب تیار ہو کراُس سے ملنے گئے۔ امرتا نے بہت عزت سے ان کو اپنے ہاں بٹھایا اور گفتگو کرتی رہی۔ اُدھر مصورہ کی گفتگو جاری تھی، اِدھر خوشونت سنگھ کا ذہن کہیں اور بھٹک رہا تھا۔ وہ اس انتظار میں تھے کہ ابھی امرتا شیر گل آتش دان کے سامنے بے لباس ہو کر خوشونت سنگھ کو دعوت گناہ دے گی۔
یہاں تک کہ گفتگو ادب، صحافت اور مصوری سے ہوتی ہوئی اختتام پذیر ہوئی۔ ملاقات کا وقت بھی پورا ہوا۔ خوشونت سنگھ امرتا شیرگل کو خاموشی سے دیکھتے رہے۔ اور وہ سادگی سے خوشونت سنگھ کو۔
کچھ دیر بعد انھوں نے دل ہی دل میں اپنے آپ کو گالی بکی اور باہر آ کر امرتا شیرگل کی پاک دامنی کا اعلان کر دیا۔
اسی طرح مغربی ممالک کے نو بالغ لڑکے لڑکیوں کے نفسیات دان اس گتھی کی نفسیاتی توجیہہ تلاش کر رہے ہیں جس کے باعث بگڑے ہوئے لڑکے لڑکیوں کو اپنی جانب جلد ہی مبذول کر لیتے ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس محنتی اور لائق لڑکے اُنھیں دیکھ کر کفِ افسوس ملتے رہ جاتے ہیں۔ نہ جانے یہ کیا رمز ہے جو لا ابالی اور بدنام مرد کی جانب عورت کو جلد راغب کر دیتا ہے۔
اس موقع پر انھوں نے ایک واقعہ سُنایا۔ ’’ہم لوگ ماڈل ٹاؤن لاہور میں رہتے تھے۔ میری عمر اُس وقت تیرہ چودہ برس کی ہو گی۔ ماڈل ٹاؤن سے میری بہت حسین یادیں وابستہ ہیں۔ وہاں کی خاموش سہ پہریں، گھنے چھتناور درخت اور ان کے بیچ میں لیٹی تارکول کی سیاہ سڑکیں جہاں یادیں سرسبزدرختوں پر کوئل کی طرح کوکتی ہیں وہیں اس دور کے دوست، متفرق مزاجوں کے رنگا رنگ دوست، اپنی انوکھی شناخت لیے بہت یاد آتے ہیں۔
انھی دوستوں میں ایک معصوم اور سیدھا سادا دوست ہمارے گھر کے قریب میں واقع کوٹھی کے ایک حصے میں رہتا تھا۔ اسی کوٹھی کا مالک اہل خانہ کے ہم راہ دوسرے وسیع حصے میں رہتا تھا۔ مالک کے اہل خانہ میں اُس کی ایک بیٹی بھی تھی۔ لڑکی درویش منش اور اللہ والی تھی۔ بیشتر وقت عبادت اور وظائف میں گزارتی تھی، بعض اوقات قرب و جوار کے لوگ دعا کے لیے بھی اُس تک آ جاتے تھے۔
جولائی کا مہینہ تھا، میں اپنے گھر میں تھا کہ میرا وہی دوست مجھ سے ملنے آیا۔ اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ میں نے اضطراب کی وجہ پوچھی تو اُس نے انکشاف کیا کہ وہ کوٹھی کے ایک گوشے میں کھڑا تھا۔ مالک اور اس کے دیگر اہل خانہ کہیں گئے ہوئے تھے کہ وہ لڑکی کہیں سے آ گئی۔ اُس نے دوست کو دیکھ کر اس کے گرد بازو حمائل کر دیے اور اُسے بے طرح چومنا شروع کر دیا۔ دوست سٹ پٹا گیا اور بقول اس کے بہت مشکل سے اپنی ’’عزت‘‘ بچا کر وہاں سے بھاگا۔ ‘‘
بہت پہلے قاسمی صاحب نے اعترافِ سادگی اور معصومیت کرتے ہوئے مجھے شریکِ راز کیا تھا کہ انھوں نے کبھی کسی خاتون کی جانب قدم نہیں بڑھایا بلکہ ہمیشہ خواتین ہی ان کی جانب جذبۂ آمادگی سے بڑھتی رہیں، بلکہ کچھ مواقع پر وہ چند قدم پیچھے ہی ہٹتے رہے ہیں۔
ہماری گفتگو کئی مرتبہ ان موضوعات کی جانب بھی رخ کر گئی جن پر زندہ اور صحت مند معاشروں میں مباحث عام ہیں لیکن یہاں اُن کا تذکرہ نامناسب سمجھا جاتا ہے۔
’’قحبہ خانے معاشرے کی صحت کے لیے ضروری ہیں۔ انسانی فطرت بے مہار ہے، بھٹک جاتی ہے۔ فاسد مواد کے اخراج کا انتظام نہ کیا جائے تو یہ خون میں پھیل کر بیماری کا باعث بن جاتا ہے۔ اسی طرح قحبہ خانے معاشرے کے فاسد مواد کے اخراج کے لیے ضروری ہیں۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ ہمارے معاشرے میں جسم فروشی کی وبا مخصوص علاقوں سے نکل کر عام گلی محلوں میں پھیل گئی ہے۔ اِسے مخصوص کر دینے سے جہاں فطرت کے اصولوں سے سمجھوتے کا سامان ہوتا ہے، وہاں باقاعدہ کلینیکل چیک اَپ سے بیماریوں کا تدارک ہوتا ہے۔ منٹو نے بجا طور پر اس صدیوں پرانے ادارے کو معاشرے کا ٹائلٹ کہا ہے۔ ‘‘
ایک روز میں پوچھ بیٹھا، منٹو کہتا تھا کہ ہر اِنسان اپنے سینے میں ضرور ایک راز لے کر قبر میں جاتا ہے تو کیا وہ اس سے اتفاق کرتے ہیں۔
وہ کچھ دیر سوچتے رہے پھر گویا ہوئے۔ ’’میں اس بات سے کُلی طور پر اتفاق کرتا ہوں۔ میرے سینے میں بھی ایک ایسا راز ہے جو میرے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ میں اسے قبر میں ساتھ لے کر جاؤں گا۔ ‘‘کچھ دیر توقف کر کے گویا ہوئے۔ ’’البتہ ایک اور بات ہے جس کا اظہار کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں ایک نا پختہ عمر کا لڑکا تھا۔ ہم لوگ وزیرآباد میں رہتے تھے۔ گرمیوں کی دوپہروں میں گھر والے سوجاتے تو میں کبھی تو گھر کے اندر کھیل کود میں مشغول رہتا اور کبھی باہر محلے میں نکل جاتا۔ ‘‘
یہاں پہنچ کر انھوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ گویا تذبذب کا شکار ہو گئے ہوں پھرسوچ بھرے انداز میں میری جانب دیکھا۔ ’’اسے کبھی لکھو گے تو نہیں ؟‘‘
’’ارادہ تو ہے۔ ‘‘
’’اچھا کوئی حرج نہیں۔ اِنسانی فطرت کا یہ پہلو بھی سامنے آنا چاہیے۔ ‘‘
اس کے بعد کہانی کا سرا تھام لیا۔
’’ایک روز میں گھر کے پچھلے حصے میں کھیل کود میں گم تھا۔ اس حصے میں گھر کا ناکارہ کاٹھ کباڑ، رضائیاں، بکسے اور دیگر سامان رکھا جاتا تھا۔ باہر لُو چل رہی تھی اور گلی میں ہُو کا عالم تھا۔ اتنے میں ہماری گھریلو ملازمہ وہاں آ گئی۔ وہ بھی میرے ساتھ کھیلنے لگی۔ کھیلتے کھیلتے یکایک وہ مجھ سے لپٹ گئی۔ میں گھبرا گیا۔ ایک، دس، بارہ برس کے بچے کی کیا سمجھ ہوتی ہے۔ مجھے گھبرایا ہوا دیکھ کر اُس نے مجھے دلاسا دیا اور ایک تنہا گوشے میں لے گئی۔ ‘‘
قاسمی صاحب نے میری جانب دیکھا تو میں اُنھیں غور سے دیکھ رہا تھا۔ وہ کچھ جھینپ سے گئے اور بات مکمل کی۔
’’اس واقعے کے بعد میں جب بھی اُس ملازمہ کو دیکھتا، گھبرا کر دور بھاگ جاتا۔ اس واقعے کا منفی اثر زائل ہونے میں کئی برس لگ گئے۔ ‘‘
ایک واقعہ میں نے کچھ عرصے پہلے سن رکھا تھا۔ میں نے اُن سے اس کی تصدیق چاہی۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ہم جنس پرست شاعر افتخار نسیم (افتی نسیم) شکاگو سے تعلق رکھتا تھا۔ اُسے امریکا کے کسی مشاعرے میں مدعو کیا گیا۔ قاسمی صاحب سمیت پاکستان سے بھی کئی شعرا اس مشاعرے میں مدعو تھے۔
جس ہوٹل میں قیام تھا، وہاں ایک کمرے میں دو افراد کو ٹھیرانے کا انتظام تھا۔ اتفاقاً جس کمرے میں قاسمی صاحب کو ٹھیرنا تھا، اس میں ان کا رفیق افتی نسیم تھا۔ کاؤنٹر پر یہ انکشاف ہوا تو قاسمی صاحب نے کمرے میں ٹھیرنے سے معذرت کر لی۔ افتی قریب ہی کھڑا تھا۔ اُس نے جب یہ دیکھا توہم دردانہ لہجے میں قاسمی صاحب کی با رعب شخصیت دیکھتے ہوئے اُن سے مخاطب ہوا۔ ’’میں گے ضرورآں پر فکر نہ کرو انھا نہیں ‘‘(میں ہم جنس پرست ضرور ہوں مگر اندھا نہیں )۔
قاسمی صاحب نے قہقہہ لگاتے ہوئے صحتِ واقعہ کی بھرپور تردید کی اور اصل حقائق بیان کیے۔
’’میں شکاگو گیا ہوا تھا، وہاں ایک جگہ افتخار نسیم سمیت چالیس پچاس کے قریب لوگ مدعو تھے۔ کسی نے بتایا کہ گزشتہ رات افتخار نسیم زنانہ لباس میں محفل میں آ گیا تھا۔ یہ سن کر میں نے محفل سے رخصت کی اجازت لی اور اپنے کمرے میں آ کر سردرد کی دوا کھا کر سو گیا۔ میں ایسے لوگ ناپسند نہیں کرتا۔ غالباً یہ ذہنی کج روی اور جینیاتی ترکیب کے غلام ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہم دردی کے قابل ہیں۔ میں ان کے جنسیاتی فلسفے سے کُلی اختلاف کرتا ہوں اور ان کے لیے میرے دل میں افسوس اور رحم کے سوا کچھ نہیں۔ ‘‘
ناسٹیلجا، ایامِ گزشتہ سے رومانوی وابستگی اُن کی شخصیت کا ایک بہت نمایاں پہلو ہے۔ وہ عام زندگی گزارتے ہوئے ایک دم ماضی کے دھندلکوں میں کھو جاتے ہیں۔ بچپن اور جوانی کی اِن سرسبزپہاڑی چوٹیوں پر چھائے وقت کے روئی کے گالوں جیسے بادلوں کے اندر سے ایک بچے کے کھیلنے کی معصوم آوازیں آتی ہیں۔
امرتسر کی دھندلی گلیوں میں تانگے میں جتے گھوڑے کی ٹاپیں ہیں، وزیرآباد کی ایک مسجد سے صبحِ ازل کہ ہر صبح، صبح ازل کا پرتو ہے ‘ کے وقت بلند ہوتی اذان کی میٹھی مدھر آواز ہے، ماڈل ٹاؤن کی سڑکوں پر دوڑتے نیلے لمبریٹا اسکوٹر کی پھٹ پھٹ کا شور ہے، چوڑیوں کے چھنکنے اور مترنم نسوانی قہقہوں کی جل ترنگ سنائی دیتی ہے۔
امریکا کے ایک ہوٹل میں ہندو سکھ دوستوں کا ہلا گلا ہے، اور ایک قبرستان کی خاموشی میں صدائے اشہد اللہ ہے۔ ماضی ان کی گفتگو، کالموں اور دیگر تخلیقی کاموں میں یوں ورود کر جاتا ہے جیسے گئی چاندنی راتوں کو قراقرم کی منجمد آئینہ جھیلوں پر پریاں اُترا کرتی ہیں۔
ایک روز کہنے لگے کہ لمحۂ موجود کے گزرنے کا اس لیے بھی انتظار کرتا ہوں کہ آیندہ دن اِسے ماضی کا وقت جان کر اس کی یاد سے محظوظ ہوؤں۔
ان کا ناسٹیلجیا لوگوں کی بہ نسبت مخصوص ادوار اور جگہوں سے وابستہ ہے۔ وگرنہ ابھی تو ان کے بیشتر دوست بساطِ حیات پر اپنے قدموں کی چالیں چلتے ہیں۔ پرانے دوستوں سے ان کے وہ پہلے سے مراسم نظر نہیں آتے۔ ایک روز اس کی توجیہہ میں ایک واقعہ سنایا۔
افسانہ نگار منشا یاد ایک مرتبہ اُس دور کے مشہور تاریخی ناول نگار نسیم حجازی کے پاس گئے۔ منشا یاد کی جوانی کا زمانہ تھا، نسیم حجازی صاحب پیری کی چٹان پر بیٹھے تھے۔ منشا یاد نے اُن سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ انھیں اپنے حلقۂ یاراں میں شامل ہونے کا اعزاز بخش دیں۔ اس پر حجازی صاحب کہنے لگے۔ ’’برخوردار! یہ عمر نئی دوستیاں بنانے کی نہیں، بلکہ پرانی دوستیوں پر نظر ثانی کرنے کی ہوتی ہے۔ ‘‘
یہ واقعہ سنا کر اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کہنے لگے کہ بچپن کے دوستوں سے تب تک دوستی بھرپور انداز میں قائم رہتی ہے جب تک ذہنی سطح ایک رہے یا دلچسپی کا شعبہ اور سلسلۂ روزگار ایک ہو۔
اس کے بعد بتانے لگے کہ جب کبھی ان کی اپنے بچپن کے دوستوں سے ملاقات ہو تو کچھ ہی دیر بعد کرنے کو کوئی بات نہیں رہتی۔ ان سے محبت اور اپنائیت کا ایک تعلق تو قائم رہتا ہے مگر دوستی میں وہ پہلے سادم باقی نہیں رہتا۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ انسان کسی مخصوص ذہنی سطح پر پہنچ چکا ہوتا ہے جب کہ دوست کسی دوسری سطح پر زندگی گزارتے ہیں۔ رجحانات اور خیالات کا تفاوت مسلسل رابطے میں موہوم سی رکاوٹ سے کچھ بڑھ کر ہی ہو جاتا ہے۔
اسی طرح ایک روز کہنے لگے کہ مرد اور عورت کی دوستی تا دیر نہیں چلتی۔ یہ تعلق کی کسی نہج پر رومان کا رنگ اختیار کر لیتی ہے یا اس پر دوستی سے ہٹ کر دیگر عوامل اثر انداز ہو جاتے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی سے ان کا عقیدت کا تعلق رہا تو ادیبوں میں مستنصر حسین تارڑ، نجیب احمد، خالد احمد اور امجد اسلام امجد سے ادب کے باعث دوستی کا رشتہ قائم ہوا۔ امجد اسلام امجد اور اُن کی دوستی ضرب المثل بن گئی۔ آپس میں کچھ ایسا سر تال ملا کہ جہاں اکٹھے ہوتے، ہنسوں کی جوڑی کہلاتے۔ اتنا ہنستے اور ہنساتے کہ یونس بٹ کو لکھنا پڑا کہ یہ دونوں ہستیاں جس محفل میں اکٹھی ہو جائیں وہاں پران کی پُر مزاح نوک جھونک کی وجہ سے سکہ بند اور پیشہ ور جگت بازوں کی آمدنی کے سوتے خشک ہو جاتے ہیں۔
ایک شام ہم دونوں کراچی میں سمندر کے اندر تک چلے جاتے ایک دِل کش ریستوران میں بیٹھے تھے۔ سمندر کی لہروں پر چھوٹی کشتیوں کی روشنیوں کی جھلملاہٹ اور چاند کی روپہلی چاندنی میں نیچی پرواز کرتے سفید پرندے اسے ایک خوب صورت شام بنا رہے تھے۔ ابھی کھانے میں دیر تھی چناں چہ اِدھر اُدھر کی گپ شپ جاری تھی کہ سمندر کی جانب دیکھتے ہوئے وہ گویا ہوئے ’’مجھے سمندر میں سفر یا سیر کرنے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں ڈوب جاؤں گا۔ ایک مرتبہ میں چند دوستوں کے ساتھ ایک کشتی میں تھا کہ بیچ سمندر وہ ہچکولے کھانے لگی۔ میں خوف زدہ ہو گیا۔ میرا ایک دوست قہقہہ لگاتے ہوئے بولا ’مجھے تو تیرنا آتا ہے، البتہ تم سب ڈوب جاؤ گے۔ ‘یہ سن کر میں نے اُس بدبخت کو جواب دیا۔
ڈوبو گے تو تم بھی، فرق صرف اتنا ہے کہ ہم اِدھر ہی ڈوب جائیں گے اور تم کوئی ایک کلومیٹر دُور جا کر ڈوب جاؤ گے۔ ‘‘
ہچکولوں پر بات چل نکلی تو ایک اور واقعہ سنانے لگے ’’ایک مرتبہ میں اور گل زار وفا چودھری فوکر جہاز میں سفر کر رہے تھے کہ اچانک فلائٹ ناہموار ہو گئی اور جہاز ہچکولے کھانے لگا۔ یہ جھٹکے اتنے بڑھے کہ لوگوں نے با آوازِ بلند دعائیں پڑھنا شروع کر دیں۔ جہاز نے چند ایک غوطے لیے تو گل زار اونچی آواز میں مجھ سے مذاق کرنے لگا اور ہم دونوں قہقہے لگانے لگے۔ وہ کہنے لگا ’یار نیچے ہریالی دیکھو۔ کم از کم ہماری قبریں پُر فضا سبزہ زار میں بنیں گی۔ ‘ وہ بولتا جاتا اور ہم قہقہے لگاتے جاتے۔ اتنے میں ہم نے اِردگرد دیکھا تو لوگ ہمیں خشمگیں نظروں سے گھور رہے تھے اور زیرِ لب یقیناً بُرا بھلا کہہ رہے تھے۔ پچھلی نشستوں سے تو چند ایک مسافروں نے باقاعدہ بکواس بھی کی۔ خدا خدا کر کے جہاز بخیریت لینڈ کر گیا۔ ‘‘
’’ماشا اللہ وہ تو آپ کو دیکھ کر ہی نظر آ رہا ہے کہ جہاز بخیریت لینڈ کر گیا‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اصل بات تو اِس کے بعد ہے۔ ‘‘قاسمی صاحب نے گویا گفتگو میں تجسّس پھونک دیا۔
’’وہ کیا؟‘‘
’’وہ یہ کہ اِس موضوع پر میں نے کالم لکھا اوراس میں یہ سارا واقعہ مزاحیہ انداز میں لکھ کر آخر میں لکھا کہ اُس فلائٹ کے تمام مسافروں میں در حقیقت تب سے زیادہ خوف زدہ ہم دونوں تھے۔ ہم فقط اپنے خوف کو لطیفے سنا رہے تھے۔ ‘‘
اس بات سے قاسمی صاحب کی انسانی تحت الشعور پر گہری نظر یوں نمایاں ہو کر دِکھنے لگی جس طرح سمندر پر پرواز کرتے بگلوں کو زیرِ آب مچھلیاں نظر آ جاتی ہیں۔
اسی طرح اپنے ایک فنکشن میں جب ایک صاحب نے اُن سے پوچھا کہ انھوں نے اتنے سفر کیے ’’شوقِ آوارگی‘‘ جیسا اور سفرنامہ کیوں نہیں لکھتے تو بولے ’’سیاحت تو آج بھی کرتا ہوں مگر اب مجھ میں ’’حیرت‘‘ ختم ہو گئی ہے۔ یہ حیرت ہی ہے جو شوق کو ہوا اور نظر کو تازگی دیتی ہے۔ ‘‘
بچے کی حیرت ہی اُس کی استاد ہوتی ہے۔ حیرت کی موت کا اس سے بہتر اور کیا تذکرہ ہو سکتا ہے۔
اپنے ایک اوردوست منی بھائی مرحوم کو بہت یاد کرتے ہیں۔
منی بھائی اور ان کی بیگم ہیوسٹن امریکا کے ایک بڑے گھر میں رہتے تھے۔ قاسمی صاحب اس گھر میں ان کے مہمان ہوئے تو منی بھائی نے ان کو اپنے گھر کا ایک کمرا دکھایا۔ کمرے میں بچوں کے کھیلنے کا سامان بہت سلیقے سے دھرا تھا اور در و دیوار کو بچوں کے مخصوص انداز سے رنگا اور سجایا گیا تھا۔ بچے قاسمی صاحب کو نظر نہ آئے تھے چناں چہ بچوں کا پوچھ بیٹھے کہ وہ کہاں ہیں۔
اِس پر منی بھائی خاموش ہو گئے۔
قاسمی صاحب نے دوبارہ پوچھا تومنی بھائی نے دھیمی آواز میں کہا کہ اولاد کی نعمت سے محروم ہیں اور اولاد کا کوئی امکان نہیں۔ پس یہ کمرا اُن کی اس حسرت کی علامت ہے کہ اگر اُن کے ہاں اولاد ہوتی تو وہ اس کمرے میں رونق لگائے رکھتی۔ اس کے بعد شعر پڑھا۔
ہر گھر میں اِک ایسا کونا ہوتا ہے
جس میں چھپ کے ہم کو رونا ہوتا ہے
_قاسمی صاحب کی شخصیت کے بہت سے پہلوؤں سے عام واقف کار بھی آگاہ نہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ہاں مذہب اور معاشرتی حوالے سے روشن خیالی اور کشادگی پہلے سے بڑھ گئی ہے۔
ان کی اپنی ولادت تعویذ کا نتیجہ تھی۔ چناں چہ جب میں نے ان سے پوچھا کہ یہ ضعیف الاعتقادی نہیں تو اس امر کی کیا توجیح ہو سکتی ہے۔ اِس پر کہنے لگے کہ آج بھی بہت سے واقعات ماورائے عقل ہیں اور انسانی سائنسی جستجو چوں کہ ابھی مقامِ کامل تک نہیں پہنچی اس لیے ان کے اسرار جان نہیں پائی۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ان کے ایک دوست نے کہا ’’ بسم اللہ پڑھ کر بھڑکو پکڑ لو، وہ ڈنک نہیں مارے گی۔ میں نے ایسا ہی کیا اور اس ظالم نے ایسا ڈنک مارا کہ میری چیخ نکل گئی۔ ‘‘
پھر ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ ہمارے ہاں روایت ہے کہ جب کسی کا دمِ آخر میں ہوتا ہے تو اس موقع پر اس کے سرھانے سورۃ یٰسین پڑھی جاتی ہے تاکہ اس کی مشکل آسان ہو، مگر وہ اسے اپنی موت کا خفیہ اشارہ سمجھ لیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ دل چھوڑ بیٹھتا ہے اور انتقال فرما جاتا ہے۔ پھر ہنس کر کہنے لگے۔ ’’ ہمارے ہاں ننانوے فی صد اموات سورۃ یٰسین کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے ہم لوگ ایک زندگی بخش آیت سے موت کا کام لیتے ہیں۔ ‘‘
جب ان کے برادرِ بزرگ ضیاء الحق قاسمی صاحب کا انتقال ہوا تو یہ کراچی آئے۔ تب میں نے ان کو رنجیدگی کے اندوہ سمندر میں ایسا غوطہ زن دیکھا کہ پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔
بعد ازاں ایک روز میرے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ وہ شام ایک امانت ہے۔ پس اس میں خیانت ممکن نہیں۔ البتہ اس اشارے میں غالباً کوئی مضائقہ نہیں کہ اس سانحے کے بعد سے رنجیدگی اکثر ان کو اپنے نم حلقے میں لے لیتی ہے۔ اب رنجیدہ کر دینے والی غزلیں، یہاں تک کہ فلمی گانے بھی نہیں سن سکتے۔
نابغۂ روزگار مزاحیہ اداکار چارلی چپلن کا یہ قول معروف ہوا۔ ’’مجھے بارش میں چلنا اس لیے اچھا لگتا ہے کہ اس طرح میری آنکھوں سے بہتے آنسو دنیا کو نظر نہیں آتے۔ ‘‘چارلی دنیا کو ہنسا کر تھک جاتا تھا اور گھر لوٹ آتا تھا تو ساری ساری رات اپنی ماں کے قدموں میں بیٹھا رہتا تھا، وہی ماں جس نے غربت اور شدید تنگی میں اپنے بیٹے کو محبت اور محنت سے پالا تھا، مگر اب جب بیٹا کام یاب اور معروف ہو گیا تو ایک دماغی عارضے کے باعث اُسے پہچان نہیں سکتی تھی۔
یہ المیہ تمام بڑے تخلیق کاروں، مزاح نگاروں کے ساتھ رہا کہ دنیا اُن کی باتوں پر تالیاں بجا کر اپنے گھروں کو لوٹ جاتی ہے، آخر میں اسٹیج کی چکا چوند میں وہی نابغہ تنہا کھڑا رہ جاتا ہے۔ اسی طرح قاسمی صاحب کی زندگی میں چند حادثات ایسے ہیں جن کی یادیں لوٹ لوٹ آتی ہیں اور انھیں رنجور کرتی ہیں۔
قاسمی صاحب کی ادب پر گہری نظر ہے۔ ان کے والد ادب کا عمدہ ذوق رکھتے تھے، اپنے بچوں میں بھی یہی ذوق پیدا کرنے کے لیے گھر میں رسالے، کتابیں لے آتے تھے۔ وہ کہتے تھے ’’صحتِ زبان کا خیال رکھو، جو بھی زبان بولو درست بولو، وگرنہ زبان بددعا دیتی ہے۔ ‘‘
ادب کچھ ایسے ان کے مزاج کا حصہ بنا کہ اکثر کہتے ہیں کہ انھوں نے کبھی کسی صنف میں ارادی محنت نہیں کی بلکہ کوئی غیبی ہاتھ ہے جو ان سے یہ سب کراتا ہے۔ بلکہ یہ ایسا کام ہے جو وہ اپنی خوشی کے لیے کرتے ہیں اور اس حصولِ مسرت کا انھیں معاوضہ بھی مل جاتا ہے۔
کنفیوشس نے کیا خوب کہا تھا۔ ’’کوئی ایسا کام تلاش کرو جس سے تمھیں عشق ہو، تمھیں ساری زندگی کام نہیں کرنا پڑے گا۔ ‘‘
ایک زمانے میں قرۃ العین حیدر کے ناول ’’آگ کا دریا‘‘ کے بارے میں یہ متنازع بات مختلف مکتبہ ہائے فکر میں وجہ بحث بنی کہ یہ ناول نہیں بلکہ تاریخ کو خوب صورت نثر میں دستاویز کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے بات ہوئی تو میں نے شکیل عادل زادہ اور دیگر چند بڑے ادیبوں کا حوالہ دیا جو اس تبصرے کو درست مانتے ہیں۔ اس پر قاسمی صاحب نے بھی اتفاق کیا اور اضافہ کیا۔ ’’ اردو ناول میں قرۃ العین حیدر سے بڑا کوئی نام نہیں۔ وہی یقیناًًسب سے قد آور ادیبہ ہیں۔ ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ نے تو مجھے بے اختیار کر دیا۔ ’’چاندنی بیگم‘‘ بھی بہت بڑا ناول تھا۔ اس کا نام کچھ اور ہونا چاہیے تھا کیوں کہ قاری اِسے چاندنی بیگم کے گرد بُنا گیا ناول سمجھ کر پڑھنا شروع کرتا ہے، جب چاندنی بیگم ابتدائی صفحات میں فوت ہو جاتی ہے تو قاری اس میں اپنی دلچسپی کھو بیٹھتا ہے۔
قرۃ العین حیدر کی نثر نے جہاں ان کی روح کو بالیدگی عطا کی وہیں اقبال کی شاعری نے دم بخود کر دیا۔
ان دو بڑے ناموں کو دیگر سے ممتاز اور قد آور قرار دیتے ہیں۔ عظیم ادیب کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہی تخلیق کار عظمت کے درجے پر فائز ہو سکتا ہے جسے عوام و خواص دونوں پسند کریں۔ اس خیال کی دلیل کے طور پر وہ ٹیگور، غالب، شیکسپیئر، رومی سعدی اور میر کا حوالہ دیتے ہیں۔
’’کوئی باصلاحیت تخلیق کار نظر انداز نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں ایک شعر تو چھوڑو، ایک مصرع والے شاعر بھی موجود ہیں جنھیں شہرت ملی۔ ‘‘دو ٹوک انداز میں قاسمی صاحب نے ایک روز میرے ساتھ گاڑی میں سفر کرتے ہوئے گویا فیصلہ سنادیا۔ پھر ٹی ایس ایلیٹ کا قول سنایا۔ ’’جب کوئی کلاسیک پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے سے پہلے اور بعد کے سو سال کھا جاتا ہے۔ یہاں اقبال سب پر بازی لے گیا۔ اُس خورشید کی آب و تاب کے سامنے سب ستارے ماند ہوئے۔ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا۔ ‘‘
غالبؔ بھی انھیں پسند ہے۔ ایک مرتبہ کہنے لگے ’’غالب کی واحد مشکل یہ ہے کہ اُس کے کئی اشعار کی تشریح کے لیے باقاعدہ ’’کمیشن‘‘ بٹھانا پڑتا ہے۔ ‘‘
ایک روز میں نے اُنھیں اپنا ایک تجربہ سنایا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ اسلام آباد کے ہوٹل میں ایک امریکی سے میری کافی اچھی گپ شپ اوردوستی ہو گئی۔ یہ بہت پہلے کا واقعہ ہے۔
وہ امریکی کوہ نوردی کا شوق رکھتا تھا اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں کوہ پیمائی کے ارادے سے آیا تھا۔ بہ ظاہر ایک معصوم اور بے ضرر جوان تھا۔ اس کے ہاں مخصوص امریکی بے تکلفی اور مزاح بدرجۂ اتم موجود تھا۔
ہوٹل میں اُس کا قیام چند روزہ تھا۔
یہ چند روز گزرے تو روانگی کی صبح آن پہنچی۔ میں نے ناشتے کے بعد اُسے نیک خواہشات سے رخصت کیا اور اپنے معمول کے کام سے نکل پڑا۔
اگلی صبح میں ناشتے کے کمرے میں پہنچا تو اُسے وہاں پاکر حیرت کا شکار ہو گیا۔
مجھے اپنی جانب دیکھتا پاکر وہ جھینپ گیا۔ میں اُس کی میز پر آن بیٹھا تو وہ ہکلاتے ہوئے بولا۔ ’’میں نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا ہے۔ ‘‘
’’تمھارا ذاتی معاملہ ہے، یقیناً تم نے سوچ کر فیصلہ کیا ہو گا۔ ‘‘
’’نہیں یار، تمھارا ملک یقیناً ایک خطرناک ملک ہے۔ ‘‘
’’وہ کیسے، کیا ہوا؟‘‘
’’بات یوں ہے کہ میں نے یہاں سے اپنی منزل کا قصد کیا۔ اس کے لیے جب میں بس اسٹینڈ پہنچا تو وہاں ایک بس تیار کھڑی تھی۔ میں وہاں واحد غیرملکی تھا۔ مجھے بہت عزت دی گئی اور سب سے اگلی نشست خالی کروا کر ڈرائیور کے برابر میں بٹھا دیا گیا۔ ‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر یہ کہ جب میں نے ڈرائیور کی جانب دیکھا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ وہ بھینگا تھا۔ ڈرائیور مجھے دیکھ کر مسکرایا، اور دو انگلیوں سے فتح کا نشان بنا کر اُس نے بس کو ایک جھٹکے سے اسٹارٹ کیا اور یوں مرکزی شاہ راہ کی راہ لی جیسے گھوڑے کو ریس کے لیے ایڑ لگاتے ہیں۔ ‘‘
’’واقعی؟‘‘
’’کرائسٹ کی قسم۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ تمھارے ملک کی سڑکیں یک رویہ ہیں۔ چناں چہ جب ہم روانہ ہوئے تو سامنے سے ٹریفک آ رہی تھی۔ یہاں تک تو خیر تھی۔ لیکن اُس نے بس کا پریشر ہارن آن کیا، اونچے گانے لگائے اور ریس دے دی۔ کچھ دیر تو خیریت سے گزری۔ پھر اُس نے ایک گاڑی کو اس طرح سے اوورٹیک کیا کہ ہم سامنے سے آتی ہوئی بس کو گولی کی طرح چھوتے ہوئے گزر گئے۔ جب میں نے ڈرائیور کی جانب دیکھا تو وہ میری جانب دیکھ رہا تھا اور مسکرا رہا تھا۔ بس اس کے بعد تو حد ہو گئی۔ یک رویہ سڑک، ریس لگاتی جھومتی بس، مخالف سمت سے آتی بھاری گاڑیاں اور ان سے چھو کر بچتی ہماری بس۔ اس دوران جب بھی ہم کسی بڑے حادثے سے بچتے تو میں ڈرائیور کی جانب دیکھتا، وہ بدستور میری جانب دیکھتے ہوئے مسکرا رہا ہوتا۔ پس ایک ہی بات میرے لیے تسلی کا باعث تھی۔ ‘‘
’’وہ کیا ؟‘‘
’’وہ یہ کہ چوں کہ ڈرائیور بھینگا تھا، سو میں نے سوچا کہ یہ میری غلط فہمی ہے، وہ میری جانب دیکھ رہا ہے شاید وہ سامنے ہی دیکھ رہا ہو۔ مگر اُس کا مسکرانا میری سمجھ سے باہر تھا۔ ‘‘
’’شاید نسوار کھا رہا ہو، اس لیے مسکراتا دکھتا ہو۔ ‘‘
’’بہرحال جب ہم منزل پر پہنچے تو میں سب سواریوں کے بعد آخر میں بس سے اُترا اور اس ارادے سے اُترا کہ۔ ‘‘
’’کہ؟‘‘
’’کہ لعنت ہے کوہ پیمائی پر، زندگی ہے تو سب کچھ ہے۔ ‘‘
میں نے قاسمی صاحب کو یہ واقعہ سنایا تو بولے کہ وہ خود پانچ چھے مرتبہ موت کے منہ سے نکلے ہیں۔
’’ایک مرتبہ ہم لوگ فیصل آباد کے ایک مشاعرے سے لاہور لوٹ رہے تھے۔ گاڑی کی اگلی نشست پر میں بیٹھا تھا اور پچھلی نشستوں پر احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر سلیم اختر بیٹھے تھے۔ ہم نیم غنودگی میں تھے۔ اتنے میں مَیں نے نیم وا نظروں سے سامنے سے آتی دو بسوں کو دیکھا۔ سڑک پر ہمارے لیے بچنے کا کوئی رستہ نہ تھا۔ ہڑبڑا کر میں نے ڈرائیور کو جھنجوڑا اور اسٹیئرنگ موڑ دیا۔ ہماری گاڑی کچے میں اُتر گئی اور بسیں فراٹے بھرتی قریب سے گزر گئیں۔ میں نے ڈرائیور کی سرزنش کی تو وہ نابکار بولا۔ ’ سامنے سے آتی بسیں تو میں بڑی دیر سے دیکھ رہا تھا۔ میں ٹھیک جا رہا تھا اور وہ غلط آ رہے تھے۔ میں نے اپنے رستے پر رہنے کا فیصلہ کیا۔ اصول بھی کوئی چیز ہوتی ہے جناب!میں اصولی آدمی ہوں ‘۔ ‘‘
یہ واقعہ سنا کر قاسمی صاحب ہنسے اور کہنے لگے کہ سفر سے متعلق اُن کے پاس واقعات کا ایسا ذخیرہ ہے کہ وہ ’’شوق آوارگی‘‘جیسی کئی کتابوں کے لیے کافی مواد رکھتا ہے۔ پھر گویا ہوئے۔ ’’میرا ایک دوست تھا، سید محمود علی۔ انتہا کا ذہین اور بَلا کا خبطی۔ یہ اُس دور کی بات ہے جب لوگ براستہ ایران، ترکی اور یورپ جایا کرتے تھے۔ چناں چہ ہمارا بھی اسی طرح کا پروگرام بن گیا۔ ہم لاہور سے کوئٹہ کے لیے بس پر بیٹھے اور روانہ ہو گئے۔ سفر کے دوران مجھ پر منکشف ہوا کہ محمود موسیقی کا رسیا تھا۔ اُس نے ایک ٹیپ ریکارڈر نکالا اور اُس میں کیسٹ لگا دی۔ اتنی واہیات آواز میں نے زندگی میں نہیں سنی۔ در اصل اُس نے اپنے ایک دوست کی آواز ریکارڈ کی ہوئی تھی جو منہ سے طبلہ بجا رہا تھا۔ چناں چہ سفر کا آغاز منہ سے نکالی گئی طبلے کی آواز سے ہوا اور سارے رستے یہ منحوس آواز میرے کانوں میں بجتی رہی۔ وقفے وقفے سے محمود میری جانب داد طلب نظروں سے دیکھتا اور میں دل پر جبر کر کے مسکرادیتا۔ بہرحال یہ سفر بہت مشکل سے کٹا۔ ‘‘
قاسمی صاحب نے بات جاری رکھی۔
’’ہم نے وہاں پہنچتے ہی ایرپورٹ کا رخ کیا اور فلائٹ لی۔ اُس زمانے میں فلائٹ کے دوران مسافروں کو شراب پیش کی جاتی تھی۔ چناں چہ ایرہوسٹس ہر کسی سے اُس کا پسندیدہ مشروب، جوس یا دیگر لوازم کا پوچھتی ہوئی ہم تک پہنچی تو میں نے مالٹے کے جوس کی خواہش ظاہر کی۔ محمود میرے ہم راہ تھا اور بازو کی نشست پر بیٹھا ہوا تھا۔ جب ایرہوسٹس نے اُس کی پسند کا پوچھی تو محمود نے مسکرا کر اُس کی آنکھوں میں جھانکا، توقف کیا اور بولا۔ ’’آپ جو محبت سے پلائیں گی، ہم پی لیں گے۔ ‘‘
یہ سن کر ایرہوسٹس نے بُرا سا منہ بنایا اور وہاں سے چلی گئی اور واپس ہماری نشست پر نہ لوٹی۔ چناں چہ مجھے بھی سارے سفر میں پیاسا رہنا پڑا۔
قاسمی صاحب یادوں کی زنبیل کھولتے ہیں تو اندر سے بے شمار کردار اور واقعات نکلتے آتے ہیں۔ دلچسپ و عجیب لوگوں کا تذکرہ ہوا تو اپنی زنبیل کا منہ ذرا سا کھول کر ترچھا کیا، کئی کردار لڑھکتے ہوئے باہر آ گئے۔
’’ایک صاحب ہوا کرتے تھے نواب ناطق دہلوی۔ اکثر لاہور کے پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھے چھت گھورتے پائے جاتے۔ شاعر تھے اور عروض کے فن میں یکتا۔ کبھی مصرع گرنے نہ دیتے، اوزان کا بھرپور خیال کرتے تھے۔ اُن کا ایک شعر ہے۔
ناطق کہ سخن تیرا ہے تریاق تریہا
زمباق تریہا لقا زمباق تریہا
اس غزل کے بیشتر الفاظ انھی کی ایجاد کردہ زبان میں ہیں۔
اِسی طرح اُن کا شعر ہے۔
میں نہ سمجھا ہوں نہ سمجھوں گا نہ سمجھاؤ مجھے
بس خدا کے لیے آگے سے سرک جاؤ’ مجھے ‘
اُن سے گزارش کی گئی کہ دوسرے مصرعے کے آخر میں لفظ ’’مجھے ‘‘ کی کیا تو جیہ ہے تو فرمانے لگے۔ ’’مجھے ‘‘ردیف ہے اور اس کا یہاں آنا برمحل اور لازم ہے۔ ‘‘
قاسمی صاحب مسکراتے ہوئے اپنے الحمرا کے دفتر کی کھڑکی سے باہر سرسبز درخت دیکھ رہے تھے۔
’’ایک افسانہ نگار تھے فضل الرحمن خان۔ مذہب کی جانب میلان تھا۔ چناں چہ حلقۂ اربابِ ذوق میں تشریف لاتے۔ افسانے کا آغاز کرتے اور بیچ میں ایسی فحش نگاری ہوتی کہ مردوں تک کے کانوں کی لویں شرم کے مارے سرخ ہو جاتیں۔ افسانے کے دوران جب نماز کا وقت آتا تو وہیں جا نماز بچھا لیتے اور نیت باندھ لیتے۔ کئی مرتبہ نشست کے دوران ان کی بیگم وہیں تشریف لے آتیں اور ان کو سب کے بیچ گالیوں سے نوازتیں۔ یہ خاموشی سے سنتے رہتے اور چھت گھورتے رہتے۔
ادیبوں میں جہاں منفرد شخصیت کے حامل لوگوں کی کوئی کمی نہیں وہیں حاضر جوابی بھی عام ہے۔ بندہ ضائع ہوتا ہو تو ہو جائے، جملہ ضائع نہیں ہونا چاہیے۔
خاطر غزنوی کی بیجنگ یونی ورسٹی میں پروفیسر شپ ہوئی تو کسی نے پوچھا، بیوی بچوں کا کیا انتظام کریں گے۔ اس پر فراز نے جملہ کسا۔ ’بیوی کو میکے بھیج دیجیے اور بچے جس جس کے ہیں اُسے واپس کر دیجیے۔ ‘
اس کے علاوہ ایک اور تخلیق کار الف المحراث سے ملاقات رہی۔
اُن کی ہیئت کچھ ایسی تھی کہ شیو بڑھی ہوئی ہوتی اور پاجامہ پیچھے سے پھٹا ہوتا۔ زُبان دان تھے اور اس میں کئی اختراعات کے موجد۔ مثال کے طور پر یہ انھی کی دریافت تھی کہ ’’بلی دودھ پیتی ہے ‘‘کی زُبان گِری ہوئی ہے۔ اس کے بجائے فرماتے ’’بلی دودھ لِبڑتی ہے ‘‘زُبان کے حوالے سے درست ہے۔ بلی کے دودھ لِبڑنے کے علاوہ بھی جانوروں کے مختلف افعال کی زبان کی کچھ ایسی تصحیح فرمائی کہ یہ تحقیق انھی سے شروع اور انھی پر تمام ہوئی۔ ‘‘
ان کے حلقۂ احباب میں ڈاکٹر فضل الرحمان لاہوری بھی رہے جنھوں نے اپنے لیے ’’مجاہدِ اُردو‘‘ کا خطاب تجویز کر رکھا تھا۔
برسبیل تذکرہ جب قاسمی صاحب ڈاکٹر صاحب کو یاد کر رہے تھے تو مجھے وہ بات یاد آ گئی کہ ایک موصوف بوجہ عجز اپنے نام کے ساتھ ’ننگِ اسلاف‘ لکھتے تھے۔ اُن کی پیروی میں احباب نے بھی اُن کے نام کے ساتھ ’’ننگِ اسلاف‘‘ لکھنا شروع کر دیا۔
خیر یہ تو جملہ ہائے معترضہ تھے۔ ڈاکٹر فضل الرحمان کی تصانیف میں نمایاں ترین ’’سکھوں کے لطیفے ‘‘تھے۔ اُن کی خواہش صدارتی انتخاب لڑنے کی تھی اور انھوں نے اپنی کابینہ بھی سوچ رکھی تھی جس میں منو بھائی کو وزارتِ اطلاعات اور عطا ء صاحب کو وزارتِ تعلیم سونپنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
مونچھیں قاسمی صاحب کی کم زوری ہیں۔ ایک مرتبہ حنیف رامے مرحوم نے دل برداشتہ ہو کر پیپلز پارٹی چھوڑی تو اعلان کر دیا کہ وہ پارٹی میں کبھی واپس نہ آئیں گے اور لوٹ آئے تو اپنی مونچھیں کٹوا دیں گے۔ شومیِ قسمت کہ انھیں کچھ ہی عرصے میں پارٹی میں لوٹ آنا پڑا۔ اس پر قاسمی صاحب نے ایک لطیف کالم لکھا۔ ’’رامے صاحب مونچھوں سمیت‘‘اسی طرح ایک مرتبہ انھوں نے وزیر معاشیات نوید قمر صاحب جو اپنی نوابی طرز کی نوک دار مونچھوں کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے، کو مشورہ دیا۔ ’’نوید قمر صاحب جتنی محنت اپنی مونچھوں پر کرتے ہیں اگر اتنی پاکستان کی معیشت پر کریں تو ہم نہ جانے کتنی ترقی کر جائیں۔ ‘‘
ایک شام ہم دونوں ایک ریستوران میں سیاست پر سنجیدہ گفتگو کر رہے تھے۔ سامنے کی میز پر ایک صاحب سرجھکائے کھانے میں مصروف تھے۔ ان صاحب کے چہرے کی خاص بات ان کے نمایاں کان تھے۔ قاسمی صاحب گفتگو کے دوران خاموش ہو کر ان صاحب کو غور سے دیکھنے لگے۔ میں نے جانا کہ شاید پرانے شناسا ہیں، سو پہچاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد میرے کان میں سرگوشی میں استفسار کیا۔ ’’اِن صاحب کے کان یہیں کے بنے ہوئے ہیں یا درآمد شدہ ہیں ؟‘‘
ایک مرتبہ میں اور قاسمی صاحب کراچی کے میریٹ ہوٹل میں سردیوں کی رات میں کافی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ہوٹل کے ریستوران کے جگمگاتے ماحول میں پسِ منظر میں گھلتی، سازِ دِل کے تاروں کو چھیڑتی موسیقی اور پرانی فلموں کے حسین گانے ایک خواب ناک اورکیف آگیں ماحول بُن رہے تھے۔ اندر کا گرم ماحول ہوٹل کے شیشوں کو دھُند آلود کر رہا تھا۔ اس دھند کے پار اوس میں نہائے سرسبز پودے روشنیوں میں جھلملا رہے تھے۔ ہم پرانی فلموں کی بات کر رہے تھے۔ پسِ منظر میں محمد رفیع اور لتا منگیشکر کا ڈوئٹ ماحول کو رنگین کر رہا تھا۔ یکدم قاسمی صاحب کی آنکھیں ایک جانب مرکوز ہو گئیں۔ اُنھوں نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اورمسکراتے ہوئے ایک جانب اشارہ کیا۔ جب میں نے اُس جانب دیکھا تو ایک نوجوان مرد گلوکار پہلے رفیع کی آواز میں گاتا تھا اور پھر وہی گلوکار لتا کی نسوانی آواز میں کمالِ مہارت سے گاتا تھا۔ میں اس سے پہلے کئی مرتبہ وہاں کافی پی چکا تھا مگر اُس گلوکار کی اس حیران کن مہارت کا مشاہدہ نہ کر پایا تھا جسے قاسمی صاحب نے چند لمحوں میں نوٹ کر لیا تھا۔ یہ دیکھ کر کچھ ستائش اور کچھ حیرانی سے میرے چہرے پر بھی مسکراہٹ اُبھر آئی۔ قاسمی صاحب نے پنجابی میں سرگوشی کی ’’خدا کے رنگ نرالے ہیں۔ ‘‘
ہم دونوں کو اپنی جانب ستائشی نظروں سے مسکراتا دیکھ کر نوجوان گلوکار کچھ بھٹک گیا اور رفیع، لتا کی جگہ اس کی آواز پٹھانے خان سے مماثل ہو گئی۔
میں ایک عشائیے میں مدعو تھا۔ اس کھانے میں عمائدین شہر کے علاوہ نمایاں ادیب اور دانشور بھی مدعو تھے۔ قاسمی صاحب کو بھی دعوت تھی لیکن چند دیگر مصروفیات کی بنا پر وہ نہ آ پائے۔
عشائیہ جاری تھا کہ ایک خوش شکل خاتون ہماری میز پر تشریف فرما ایک نام ور ادیب کے پاس چلی آئیں اور ان کی قربت میں مچل کر اُن کا بوسہ لے لیا۔
اگلی صبح میں اورقاسمی صاحب ایک جگہ ناشتے پر مدعو تھے۔ ناشتے کے بعد واپسی کے لیے میری گاڑی میں بیٹھنے لگے تو میں نے گزشتہ رات کا ماجرا سناڈالا۔ قاسمی صاحب یہ سُن کر خاموش ہو گئے۔ ہمارا واپسی کا سفر شروع ہوا تو موضوعِ گفتگو شہری سیاست اور تہذیبی ارتقاء ٹھیرا۔
سفر طویل تھا چناں چہ خوب سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ابھی بات کسی سنجیدہ موڑ پر تھی کہ قاسمی صاحب خاموش ہو گئے، پھر گویا ہوئے۔ ’’بوسہ چہرے پر لیا تھا؟‘‘
میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
کچھ توقف کے بعد گفتگو جہاں سے ٹوٹی تھی وہیں سے جڑ گئی، سفر نصف سے زیادہ طے ہو گیا تو قاسمی صاحب دوبارہ خاموش ہو گئے۔ پھر اچانک سوال کیا۔
’’خاتون خوش شکل تھی؟‘‘
میں نے اثبات میں سرہلا دیا۔ قاسمی صاحب نے لمبی سانس بھری اور عصری ادب پر دانشورانہ تبصرہ شروع کر دیا۔
بحث نثری انحطاط سے ہوتی ہوئی عمومی معاشرتی تنزل تک آن پہنچی، یہاں تک کہ سفر اختتام پذیر ہوا۔ گاڑی سے اُتر کر میں الوداعی معانقے کے لیے اُن کی جانب بڑھا تو گلے ملتے ہوئے انھوں نے سرگوشی کی ’’آج کل کی خواتین کا کوئی حال نہیں۔ انھیں مستحق اورغیرمستحق کی کوئی پہچان ہی نہیں ‘‘اور چل دیے۔
ایک مرتبہ قاسمی صاحب ایک ادبی میلے میں شرکت کے لیے کراچی تشریف لائے۔ ہر جانب سے دعوت نامے تھے۔ پرانے شناساؤں کا میلہ تھا اور بیچ میں ان کی باغ و بہار شخصیت۔
پرانے شناساؤں کے حوالے سے ایک قصّہ ہے۔
ایک خاتون پالتو جانور خریدنے کے لیے ایک دکان پر پہنچیں۔ دکان پر ہر طرح کا جانور تھا۔ انھی میں ایک بولنے والا توتا بھی تھا۔ دکان دار نے ایک اچھے سیلز مین کی طرح توتے کی خوبیاں بیان کیں۔
’’یہ توتا پرُ ذہانت گفتگو میں مہارت رکھتا ہے۔ کم جگہ گھیرتا ہے۔ خوراک کا خرچہ کم ہے اور اس کی باتوں سے دِل بھی بہلا رہتا ہے۔ ‘‘
’’اس کی قیمت کیا ہے ؟‘‘خاتون نے دریافت کیا۔
’’فقط ایک سو روپے۔ ‘‘
’’وہ کیوں ؟اتنی کم کس لیے ؟‘‘ خاتون نے حیرت سے پوچھا۔
دکان دار نے جھجکتے ہوئے جواب دیا۔ ’’در اصل یہ اس سے پہلے ایک قحبہ خانے میں رہا ہے اس لیے کبھی کبھار ناپسندیدہ جملے بھی بول جاتا ہے۔ ‘‘
یہ سن کر خاتون نے تذبذب سے توتے کو دیکھا جو انتہائی سعادت مندی سے سرجھکائے کن اکھیوں سے خاتون کو تک رہا تھا۔
’’آپ کا جی بہلا رہے گا اور اچھی تربیت سے اس کی یہ خامی بھی دور ہو جائے گی۔ ‘‘دکان دار نے خاتون کو تسلی دی۔
خاتون نے پرس سے سو روپے نکالے اور توتے کو پنجرے سمیت گھر لے آئیں۔
نئے گھر آ کر توتا کچھ دیر تو خاموش رہا لیکن خاتون کی جانب سے ناز برداری کرنے پر اِٹھلا کر بولا۔ ’’واہ بھئی نیا گھر، نئے کمرے اور نئی نایکا!‘‘
یہ سن کر خاتون چونک گئیں۔ پھر دکان دار کی اچھی تربیت والی بات کا سوچ کر خاموش ہو گئیں۔
پورا دن گزر گیا یہاں تک کہ شام کو خاتون کی دونوں بیٹیاں گھر لوٹیں تو اُن کو دیکھ کر توتا بے اختیار بول اُٹھا۔
’’واہ بھئی، نیا گھر، نئے کمرے، نئی نایکا اور نئی بیسوائیں۔ ‘‘
یہ سن کر خاتون اور ان کی بیٹیاں سٹ پٹا کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں اور خاموش ہو گئیں۔
اتنے میں خاتون کے شوہر تھکے ہارے گھر لوٹے تو اُن کو دیکھ کر توتا چہک اُٹھا۔
’’واہ بھئی نیا گھر، نئے کمرے، نئی نائکہ، نئی بیسوائیں اور آہا !وہی پرانے چہرے۔ آداب بشیر صاحب!‘‘
تفنن برطرف، قاسمی صاحب سے میں نے اگلی دوپہر کھانے کے لیے اصرار کیا تو وہ بہت شفقت سے میری دعوت پر آمادہ ہو گئے۔
کراچی پر بے امنی کا بھوت سوار تھا۔ ابھی پچھلے روز ہی قاسمی صاحب نے اپنے کالم میں کراچی آمد سے پہلے اپنی تیاری کا تذکرہ کیا تھا جس میں نیا سستا بٹوا اور موبائل فون خریدنا بھی شامل تھا۔
میں انھیں لینے کے لیے پہنچا تو وہ ہوٹل کے پائیں باغ میں سمندر کے کنارے رنگا رنگ لوگوں میں گھرے سگریٹ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر اُن کی آنکھوں میں نرم اپنائیت بھری محبت عود کر آئی۔
انھوں نے سگریٹ کے چند کش لیے اور جیب سے بٹوا نکال کر اس میں سے کرنسی نوٹ اور ضروری کاغذات علیحدہ کر کے کوٹ کی اندرونی جیب میں ڈالنے لگے۔ پھر کوٹ اُتار کر اپنے ایک عزیز کے حوالے کیا کہ وہ اسے کمرے میں چھوڑ آئے۔ اِس دوران مسکراتے ہوئے کہنے لگے۔ ’’باہر ہم نے لُٹ تو جانا ہے ہی، تو کیوں نہ ضروری چیزیں ہوٹل میں چھوڑ جائیں۔ ‘‘
میں نے ان سے کُلّی اتفاق کرتے ہوئے بات میں استفہامیہ طور پر اضافہ کیا۔ ’’ آپ نے کل رات فائرنگ کی آواز سنی تھی؟‘‘
’’یہ شادی والوں کو فائرنگ نہیں کرنا چاہیے ‘‘وہ تاسف سے بولے۔
’’وہ شادی کی نہیں، دہشت گردی کی فائرنگ تھی‘‘ میں نے وضاحت کی۔
’’ہاں۔ لیکن یہاں تو ٹارگٹ کلنگ ہی ہوتی ہے نا؟‘‘
’’ضروری نہیں۔ حال ہی میں کچھ قاتل پکڑے گئے ہیں جنھوں نے اپنے اعترافی بیان میں انکشاف کیا ہے کہ انھیں کوٹہ دیا جاتا تھا، ایک مخصوص تعداد میں لوگوں کو قتل کرنا ہے تاکہ شہر میں بے چینی اور خوف پھیلے۔ پس وہ اسلحہ لے کر نکلتے اور جو راہ میں نظر آتا، اسے گولی مار دیتے۔ ‘‘
قاسمی صاحب کی آنکھیں پھیل گئیں اور انھوں نے تشویش سے پوچھا۔ ’’واقعی؟‘‘
’’جی‘‘ میں نے یقین دہانی کروائی۔
اتنا سن کر انھوں نے ٹھنڈی سانس بھری اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے۔ ’’لعنت بھیجو باہر کھانے پر، یہیں کھانا کھاتے ہیں۔ مریں گے تو اسی گولی سے جس پر ہمارا نام لکھا ہو گا۔ ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں ہیں کہ To whom it may concernکے زمرے میں شامل کیے جائیں۔ ‘‘
یادوں کی زنبیل ہے جس میں سے واقعات نکلے چلے آتے ہیں مگر بیش تر قطعی ذاتی اور امانت۔
وہ ٹکسال سے نکلے سِکے کی طرح کھرے اور قرونِ وسطیٰ کے اساتذہ کی طرح شفیق ہیں۔
اُن کے اندر عجب طرز کی ایک قلندری ہے۔ شہرت کی برف پوش چوٹیوں کو چھو کر، ادب و صحافت کے خورشیدِ تاب ناک کی طلائی کرنوں میں دمک کر، سفارت و ملازمت کے اقالیم چوم کر بھی اُن کے اندر حد درجہ انکساری ہے۔ ایک خاص طرح کی بے نیازی ہے۔ وہ چینی دیومالا کے شہرۂ آفاق کردار کی طرح ہیں۔ وہی داستانوی کردار جو چینی، جاپانی، ویت نامی تاریخ میں امر ہو چکا ہے، ایک بھکشو، ہر وقت شفیق مسکراہٹ چہرے پر روشن کیے اساطیری روایات میں مسرت، قناعت، شفقت، قلندری اور اُمید کی علامت بھکشو کھلکھلاتا بودھ۔
ان کا مزاح دوسروں کے لیے ہوتا ہے۔ وہ اپنے احباب کو ہنسا کر معصوم بچے کی طرح خوش ہوتے ہیں۔ ظرافت کے اس خول کے اندر ایک سنجیدہ، ہم درد اور وضع دار شخص، ایک بڑا اِنسان، ایک بیش بہا تخلیق کار۔
لاہور ان کے اندر اس طرح رچا بسا ہے جس طرح صندل کے اندر مہک۔
ان سے ملاقات گویا ایامِ رفتہ کے اصل لاہور سے ملاقات ہے۔ اس میں نسبت روڈ اور اُس کا ہریسہ، بھاٹی گیٹ کی قدیم چھوٹی اینٹیں، لوہاری کے مغلیہ جھروکے، انارکلی کے رنگ ساز، قلعے کے پچھواڑے میں قمیصیں اتار کر ریوڑیاں بنانے والے، لسّی بلوتے پہلوان، دیسی گھی سے خستہ باقر خوانیاں اُتارتے نان بائی، ٹھنڈی سڑک پر دُلکی چال چلتے گھوڑے، رائل پارک کی نکڑ پر پنواڑی سے پان لگواتے ہیرو، ایبٹ اور میکلوڈ روڈ کے سینما گھروں سے نکلتے تماشائی، موتیے کے ہار بیچتے لڑکے بالے، چائے خانوں میں بحث کرتے ادیب، اندھیری منڈیروں پر سرگوشیاں کرتے محبوب، سبز چادروں میں لپٹی قبروں اور سنگِ مرمر کے مزاروں کے مجاور، اگر بتیاں سُلگاتے اور گلاب کی پتیاں بکھیرتے سوگ وار اور دھمال ڈالتے حال و قال کرتے سائیں لوگ سبھی شامل ہیں۔ سبھی مختلف بھی ہیں، منفرد بھی اور ایک بھی روزالست کو پھونکی گئی روحِ مقدس اور لباسِ خاک سبھی کو ایک کرتا ہے۔
پرانے لاہوریوں کی بے نیازی، خوش خوراکی، بذلہ سنجی، بے ریا فلک بوس قہقہے اور وفاداری کی اگر تجسیم کر دی جائے تو عطاء الحق قاسمی کہلائے۔
اپنی طرز کا آخری آدمی، آخری لہوری!
قاسمی صاحب ایک بھرے پُرے گھر کے سربراہ ہیں۔ انھوں نے کبھی تخلیقی تلّون کی آڑ میں اپنی اولاد کو نظرانداز نہیں کیا۔ انھوں نے اپنے وطن کے بچوں کو اپنے ہی بچے سمجھا ہے۔ یہ حقیقت آشکارا کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ جس طرح وہ امریکی پرُآسایش زندگی چھوڑ کر وطن لوٹ آئے، اسی طرح انھوں نے اپنی اولاد کو یہیں پر جینے اور مرنے کا عزم پاک عطا کیا ہے۔
اپنے وطن اور مٹی کے لیے میں نے بے شمار دفعہ انھیں بے چین ہوتے دیکھا ہے۔ جو بہتر جانا، اس کا اظہار کیا ہے۔ کبھی مزاح کے لبادے میں تو کبھی بین السطور اظہارِ خیال کیا ہے۔ کبھی نہ تو دورِ جدید کی روایت کے مطابق سربازارِ برہنہ کیا ہے اور نہ ہی لفظ کا تقدس بازارِ حیات میں نیلام کیا ہے۔
بیرونی ممالک میں سفارت سے لے کر ملکی اداروں کی کام یاب سربراہی کے باوجود ان میں اتنی عاجزی ہے کہ جن سے محبت کرتے ہیں، اُن کے لیے ننگے پیر لپکتے چلے آتے ہیں اور جس سے اختلاف کرتے یا دکھی ہوتے ہیں منافقانہ ریاکاری سے کام نہیں لیتے۔
وہ ایک چھوٹا، ننھا سا بچہ جو چناب میں اپنے بابا کے کندھوں پر بیٹھا ہنستے ہنستے بے حال ہو جاتا تھا۔ اتنا ہنستا تھا کہ اُس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے، اب بڑا ہو چکا ہے۔ وہ آج بھی ہنستے ہنساتے بے حال ہو جاتا ہے، اتنا بے حال ہو جاتا ہے کہ اُس کی آنکھوں کی نمی میں چاندنی، پاک چاندنی جھلملانے لگتی ہے۔ وہی چاند جس کی وہ بچپن میں ضد کرتا تھا۔ آج بھی وہ اسی چاند کی ضد کر رہا ہے۔
میں عطاء الحق قاسمی نامی شخص کی ارضِ مقدس سے پُر خلوص وابستگی اور والہانہ محبت کی گواہی دیتا ہوں۔ میں اُس کے کھرے اور بہادر ہونے کی گواہی دیتا ہوں۔ میں اُس کے سینے میں دھڑکتے نرم و گداز دل کے گواہی دیتا ہوں۔ میں بے نام چہرہ ہوں اور غبارِ راہ سے بڑھ کر کچھ نہیں، اپنی حقیقت سے واقف ہوں۔ واقفِ حقیقت ہوں، اسی لیے گواہی دیتا ہوں۔
٭٭٭
ماخذ: ایک روزن ڈاٹ کام
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید