کچھ تبصرے
فہرست مضامین
ڈاکٹر غلام شبیر رانا
رجحان ساز ادبی مجلہ : اجرا
(کتابی سلسلہ 13جنوری تا مارچ 2013 )
کراچی سے شائع ہونے والے علمی و ادبی مجلے ’’اجرا ‘‘کا ہر شمارہ جس آب و تاب سے افق ادب پر طلوع ہوتا ہے اس کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ پاکستان کے مایہ ناز ادیب، مفکر، دانش ور، نقاد، محقق اور صحافی احسن سلیم کی ادارت میں شائع ہونے والے اس ادبی مجلے نے پوری دنیا میں اپنی کامرانیوں کے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں۔ ان کے ساتھ مل کر کام کرنے والے پاکستان کے نامور ادیب ہیں جن کے ذوق سلیم نے اس رجحان ساز ادبی مجلے کو مواد اور معیار کے اعتبار سے رفعتوں سے آشنا کیا ہے۔ مجلس ادارت کے دیگر اہم اراکین میں پروفیسر سلیم بیگ، پروفیسر رئیس فاطمہ اور پروفیسر فہیم شناس کاظمی شامل ہیں۔ جس محنت، لگن، فرض شناسی اور علم و ادب سے قلبی لگاؤ اور والہانہ وابستگی کا مظاہرہ یہ یگانۂ روزگار فاضل کر رہے ہیں اس کے اعجاز سے نہ صرف جمود کا خاتمہ ہوا ہے بل کہ زندگی کی حقیقی معنویت اور حرکت و حرارت کے متعلق حقیقی منظر نامہ قلب و نظر کو مسخر کر لیتا ہے۔ تخلیق فن کا جو ارفع معیار اس مجلے میں دکھائی دیتا ہے وہ اسے منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ اجرا کے اب تک تیرہ شمارے شائع ہو چکے ہیں۔ اس مجلے نے فروغ علم و ادب اور قارئین کو مثبت شعور و آگہی سے متمتع کرنے میں جو فقید المثال تاریخی کردار ادا کیا ہے اس میں کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں۔ اس مجلے میں ادبی تخلیقات اپنے دھنک رنگ منظر سے قارئین کے دلوں کو مسخر کر کے قلب و روح کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہیں۔ احسن سلیم نے بلا شبہ اس مجلے کی اشاعت سے ستاروں کو چھو لیا ہے اور تخلیق ادب کے اس ارفع ترین مقام تک رسائی حاصل کر لی ہے جہاں ادب و صحافت کے شعبوں کے مبتدیوں کی سانس اکھڑ جاتی ہے۔ اس زیرک، فعال اور مستعد تخلیق کار نے تخلیق فن کے مقاصد کو رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کر دیا ہے۔ اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر جذبے صادق ہوں تو ایک سچا تخلیق کار خون بن کے رگ سنگ میں اتر جانے کی صلاحیت کو بروئے کار لا سکتا ہے۔ تخلیق ادب کے وسیلے سے معاشرتی زندگی میں مثبت تبدیلی کا خواب دیکھنے والے اس پر اعتماد مدیر نے قارئین ادب کے دلوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا کیا ہے۔ ادب میں مقصدیت اور اس کے ذریعے تبدیلی کے جو ابتدائی رجحانات 1857کے بعد علی گڑھ تحریک کے زیر اثر سامنے آئے اور جنھیں ’’تہذیب الاخلاق ‘‘میں سر سید احمد خان نے پیش نظر رکھا ’’اجرا ‘‘تک پہنچتے پہنچتے ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ ادبی مجلہ اجرا اپنے دامن میں درخشاں اقدار اور ابد آشنا روایات کے یہی گنج گراں مایہ لیے ہوئے ہے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ’’اجرا ‘‘نے حریت فکر کا علم تھام کر جس قوت اور حوصلے کے ساتھ سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے، اوہام اور تقلید کے تار عنکبوت صاف کرنے اور اذہان کی تطہیر و تنویر کا عزم کیا ہے وہ ایک بہت بڑی قومی خدمت ہے۔ جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت ضمیر سے جینے کی راہ دکھانے والے اس ادبی مجلے کی علمی ادبی اور قومی خدمات تاریخ کے اوراق میں آب زر سے لکھی جائیں گی۔
آج سے کوئی د س برس قبل کی بات ہے کراچی سے ایک نہایت وقیع ادبی مجلہ ’’ سخن زار‘‘ شائع ہوتا تھا۔ ’’سخن زار‘‘ کی اشاعت کو اردو زبان کے ادبی مجلات میں تازہ ہوا کے ایک جھونکے سے تعبیر کیا گیا۔ اردو زبا ن و ادب سے دلچسپی رکھنے والے اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ ’’سخن زار ‘‘ احسن سلیم کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ قارئین ادب کو توقع تھی سخن زار نے ادبی مجلات کی تقلید کے بجائے اپنے لیے جو ایک منفرد اور دلکش راہ منتخب کی ہے وہ اسے افق ادب پر مثل آفتاب و ماہتاب ضو فشاں رکھنے میں ممد و معاون ثابت ہو گی لیکن یہ امید بر نہ آئی حالات کی سفاکی، مسموم ماحول اور بعض دشواریوں نے مجلس ادارت کو دل برداشتہ کر دیا اور کچھ عرصے بعد سخن زار کی صورت میں طلوع ہونے والا چاند گہنا گیا اور یہ تاریخ کے طوماروں میں دب گیا۔ سخن زار نے قارئین ادب کو افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہان تازہ تک رسائی کی جو راہ دکھائی تھی اس کے معجز نما اثر سے فکر و نظر میں ایک انقلاب آ گیا۔ سنجیدہ اور با ذوق قارئین ادب نے ’’سخن زار ‘‘ کی کمی کو شدت سے محسوس کیا اور اس مجلے سے وابستہ ادیبوں کو اس جانب مائل کیا کہ وہ جس طرح بھی ممکن ہو صحت مند اقدار و روایات کی ترویج و اشاعت کو یقینی بنانے کی خاطر ایک رجحان ساز ادبی مجلے کی باقاعدہ اشاعت پر توجہ مرکوز کر دیں۔ احسن سلیم نے قارئین ادب کے مطالعہ کی تشنگی اور ان کی حالت زار کو شدت سے محسوس کیا اور ان کے ذوق سلیم کی تسکین کی خاطر ’’اجرا ‘‘ کی صورت میں ایک نئے ادبی مجلے کی اشاعت کو اپنا نصب العین بنایا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ احسن سلیم کی مستعد، فعال اور انقلابی شخصیت نے اب’’ اجر ا‘‘کی صورت میں اپنے تخلیقی وجود کا اثبات کر دیا ہے اور پرورش لوح و قلم کا سلسلہ جاری ہے۔ فکر و خیال کا دھنک رنگ منظر نامہ، میرٹ اور صرف میرٹ کی بنیاد پر ادبی تخلیقات کی اشاعت، ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے بے لوث انداز میں پرورش لوح و قلم، تخلیق ادب کے نئے انداز، رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے اور بلند پایہ تخلیقی فن پاروں کی مسحور کن مہک جو کہ قریۂ جاں کو معطر کر دیتی ہے تخلیق ادب کے متنوع اور نئے تجربات یہ سب کچھ احسن سلیم کی محنت کا ثمر ہے۔ وہ کہیں بھی ہوں ان کی فعالیت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ان کی جو ہر شناس نگاہ قطرے میں دجلہ اور جز و میں کل کا منظر دکھا کر قارئین ادب کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ اجر اکی اشاعت سے طلوع صبح بہاراں کے امکانات روشن تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس مجلے میں شامل تخلیقات قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر کر اپنی اثر آفرینی کا لوہا منوا لیتی ہیں۔
اجر اکی سبد گل چیں پر ایک نگاہ ڈالتے ہی قاری تخلیقات کے گل ہائے رنگ رنگ کی عطر بیزیوں اور نگاہوں کو خیرہ کر دینے والی ضو فشانیوں کے سحر میں کھو جاتا ہے۔ آئیے اس دھنک پر ایک نظر ڈالیں جو اس رجحان ساز تاریخی مجلے کے ماتھے کا جھو مر ہے۔ تہذیب کے عنوان سے مجلس ادارت نے اٹھارہ مختلف عنوانات کے تحت ادب کا جو گلدستہ سجایا ہے اس میں ہر پھول اپنی لطافت، مہک اور رنگینی کی داد چاہتا ہے۔ آئیے تہذیب کے اس دلکش گلدستے کی مہک کو محسوس کریں۔ یہ عنوانات پڑھ کر فکر و نظر کے نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان عنوانات کا انتخاب ایک زیرک، فطین اور معاملہ فہم مدیر کے ذوق سلیم کا مظہر ہے۔ یہ عنوانات ہیں خیابان خیال، نشاط باریابی، موضوع سخن، انٹر ویو، فلک آثار، نثری نظمیں، مشرق و مغرب، سفر نامے، سخن سخن۔ ۱، نافۂ نایاب، داستان سرا، سخن سخن ۲، خرد افروزیاں، سخن سخن ۳، دل آویزیاں، سنجو گتا / ابر پارے، وسعت بیاں اور زبان خلق۔
خیابان خیال میں مدیر نے اپنے ادارتی کلمات میں نہایت اہم امور کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔ ادب برائے تبدیلی کے موضوع پر ان کے خیالات کو قارئین ادب کی جانب سے جو پذیرائی ملی اس پر انھوں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ تبدیلی اپنی اصلیت کے اعتبار سے آئین نو ہے جو یاس و ہراس کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکتی ہے اور ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی نوید سنا کر دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے کی داعی ہے۔ تبدیلی ہی نجات دیدہ و دل کی ساعت کی نقیب ہے۔ تخلیق ادب کے محرکات، مطالعۂ ادب کی افادیت او ادب کے معاشرتی زندگی پر منتج ہونے والے اثرات پر مدیر نے نہایت موثر انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ مدیر نے ’’تعزیت ‘‘کے عنوان سے بزم ادب سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جانے والوں کو یاد کیا ہے۔ اپنی محفل کے ان رفتگاں کو یاد کر کے قارئین ادب اپنے دلوں کو ان کی یاد اور دائمی مفارقت کے درد سے آباد رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔ کیسے کیسے عظیم لوگ راہ جہاں سے چپکے سے گزر گئے ْ۔ زندگی کی سونی اور اداس راہوں پر ہم سکوت کے صحرا میں ان کے غم سے نڈھال ہیں اور ہر راہ گزر پر ان کے نقش قدم دیکھ کر زندگی کی حقیقی معنویت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیل زماں کے تھپیڑے سب کچھ بہا کر لے جاتے ہیں۔ وہ صورتیں اب کہاں بستی ہیں جن کو دیکھنے کو ہماری آنکھیں ترستی ہیں۔ ادب اور فنون لطیفہ کے جوآسمان پیوند خاک ہوئے ان میں ڈاکٹر محمد علی صدیقی، سید امین اشرف، ڈاکٹر حامد الانصاری انجم، طارق محمود طارق، محترمہ شبنم شکیل، امیر الاسلام ہاشمی، پروفیسر سید سبط جعفر، اسرار حسین (شاکی )یاد صدیقی، خالد احمد، صالحہ فریدی اور مقبول مغنیہ مہناز بیگم شامل ہیں۔ مدیر نے ان کے بارے میں اپنے جذبات حزین کا اظہار کرتے ہوئے ان کی رحلت کو ایک بہت بڑے نقصان سے تعبیر کیا ہے۔ بلا شبہ یہ سب لوگ ہمارا بیش بہا اثاثہ تھے ان کا ہماری محفل سے اٹھ جانا بہت بڑا سانحہ ہے۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
نشاط باریابی کے عنوان سے اس مجلے میں حمد، نعت، سلام اور منقبت شامل ہیں۔ اجرا کے شمارہ 13میں پانچ شعرا کا کلام اس حصے میں شامل ہے۔ یہ گل ہائے عقیدت پڑھ کر قاری پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ موضوع سخن میں نظریاتی مباحث پر مبنی فکر پرور اور خیال افروز مضامیں شامل ہیں۔ ان میں ادب برائے تبدیلی پر مباحث، مسائل و تصورات کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ اس شمارے میں پانچ اہم مضامیں شامل ہیں۔ موضوع سخن میں ان مضمون نگاروں نے اپنے خیالات کا برملا اظہار کیا ہے۔ یہ تحریریں اپنے موثر ابلاغ کی بہ دولت مجلے کے حسن کو چا چاند لگ رہی ہیں۔ اس بار مرزا اطہر بیگ کا انٹرویو شامل اشاعت ہے جسے اقبال خورشید نے جام جہاں نما بنا دیا ہے۔ مرزا اطہر بیگ کی ہفت اختر شخصیت کی تفہیم میں یہ انٹرویو بہت معاون ثابت ہوتا ہے۔ اقبال خورشید نے نہایت مہارت سے اپنے سوالات کی مدد سے ایک عہد آفریں تخلیق کار کی زندگی اور فن کے بارے میں اہم معلومات قارئین کے استفادے کے لیے پیش کی ہیں۔ یہ ملاقات اس قدر جامع ہے کہ کہیں بھی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا اور تمام ضروری باتیں اور معلومات محفوظ کر لی گئی ہیں۔ مرزا اطہر بیگ کی شخصیت اور اسلوب پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے ایک مستند اولین تحقیقی ماخذ میسر آ گیا اور یہ اجرا کی بہت بڑی ادبی خدمت ہے۔ فلک آثار کے عنوان سے اس شمارے میں پچیس شعرا کی نظمیں شامل اشاعت ہیں۔ اس کے علاوہ تین نثری نظمیں بھی مجلے کی زینت بنی ہیں۔ تراجم پر مبنی حصہ ’’مشرق و مغرب ‘‘بہت دلچسپ ہے۔ اس میں دو تہذیبوں کو قریب تر لانے کی سعی کی گئی ہے۔ تراجم کے وسیلے سے اجرا نے اردو زبان کی ثروت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ مجلس ادارت کی دلی تمنا ہے کہ عالمی کلاسیک کے تراجم کے ذریعے اردو کا دامن نئے انداز فکر، اظہار و ابلاغ کے نئے امکانات اور حسن بیان اور لطافت اظہار کے منفرد روپ سامنے لا کر اردو زبان کو دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کی صف میں ممتاز مقام دلایا جا سکے۔ مغرب کے دس ممتاز ادیبوں کے مشہور ادب پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھال کر اس مجلے میں شامل کیا گیا ہے۔ اس مرتبہ ول ڈیوراں، ہنری تھوریو، انتھونی بر کلے، کلمان زاتھ ماریو ورگاس یو سا، ایڈ گر ایلن پو اور او ہنری کی تخلیقات کے تراجم شامل ہیں۔ پاکستان کی علاقائی زبانوں کی تخلیقات کے تراجم کو بھی اجرا میں شامل کیا گیا ہے۔ اس شمارے میں پنجابی افسانے، ہندکو افسانے اور سندھی افسانے کے تراجم شامل اشاعت ہیں۔ ترجمہ نگاروں نے اپنے کمال فن سے ان تخلیقات کے تراجم میں تخلیق کی چاشنی پیدا کر دی ہے۔ ان تراجم کے ذریعے قاری اس تخلیق کے اصل مصنف کی روح سے ہم کلام ہو سکتا ہے جو اپنا ما فی الضمیر بر ملا بیان کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتی۔ مشرق اور مغرب میں افسانوی ادب کے ارتقا کو سمجھنے کے لیے ان تراجم کا مطالعہ بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ دنیا کی ہر شے مسافر ہے اور ہر چیز راہی سمجھی جاتی ہے۔ سفر کی روداد بیان کر کے تخلیق کار اپنے قارئین کو اپنے نئے تجربات اور مزاج کے تغیرات سے آگاہ کرتا ہے۔ ان سفر ناموں میں جذب و قبول کی جو دلکش فضا ہے وہ قاری کے لیے انوکھے تجربے کی حیثیت رکھتی ہے۔ سفر نامہ نگاروں نے اپنے منفرد اسلوب کے ذریعے قارئین کو اپنی ذات کے بارے میں تمام معلومات فراہم کر دی ہیں۔ خواجہ حیدر علی آتش نے کہا تھا:
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
اجرا کے حالیہ شمارے میں دو سفر ناموں کی اقساط شامل ہیں۔ ہندوستان کی سیر اور مشرق کا سفر یہ دونوں سفر نامے بہت دلچسپ ہیں۔ سفر نامہ لکھنے والوں نے اپنے وسیع مشاہدے اور جزئیات نگاری سے مسحور کر دیا۔ قاری چشم تصور سے وہ تمام مقامات دیکھ لیتا ہے جن کا احوال ان دونوں سفرناموں میں بیان کیا گیا ہے۔ سخن سخن۔ ۱۔ میں اٹھارہ شعرا کی غزلیں شامل ہیں۔ سخن سخن۔ ۲۔ میں گیارہ شعرا کی غزلیں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔ سخن سخن۔ ۳۔ میں بائیس شعرا کی غزلیات اجرا کی زینت بنی ہیں۔ تین حصوں پر مشتمل غزلیات کا یہ حصہ اس قدر بھرپور ہے کہ اس کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ اس کی رنگینی، دل کشی اور دل آویزی سے قاری کواپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ سخن سخن کو اجرا کا ایک مقبول اور مفید حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں اردو غزل کے نئے رجحانات اور غزل کے جملہ تخلیقی عمل اور اس کے پس پردہ کار فرما لاشعوری محرکات کی تفہیم میں مدد ملتی ہے۔ سخن سخن کے ان تین حصون کے مجموعی مطالعہ کے بعد یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اردو ادب میں صنف غزل کی تخلیق پر اب بھی بھر پور توجہ دی جا رہی ہے اور اس صنف کا مستقبل بڑا روشن ہے۔ یہ تمام غزلیات قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہیں۔
نافۂ نا یاب کے عنوان سے اجرا میں یادیں، خاکے اور مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ اجرا نے ان نابغۂ روزگار ہستیوں کو نایاب قرار دیا ہے۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ہماری محفل کے یہ آفتاب اور ماہتاب ہمیشہ روشنی کے سفر میں رہیں گے اور ان کے علمی ادبی اور فنی کمالات اندھیروں کی دسترس سے ہمیشہ دور رہیں گے۔ زمانہ لاکھ ترقی کرے ان کی مثال کبھی پیش نہیں کر سکتا۔ وہ لوگ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے جب مستقل طور پر آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں تو ان کی یاد میں ہر لمحہ آنکھیں پر نم ہو جاتی ہیں۔
ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نا یاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
اجرا کے شمارہ 13میں نافۂ نایاب کے تحت مرزا اسداللہ خان غالب، شان الحق حقی سعادت حسن منٹو، ڈاکٹر محمد علی صدیقی اور شبنم شکیل پر نہایت وقیع مضامین شامل اشاعت ہیں۔ قرۃالعین حیدر اور پروین شاکر کے بیچ رنجش کے موضوع پر ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ اس مضمون کے مطالعہ کے دوران کئی بار آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔ تقدیر کا ستم یہ ہے کہ وہ قدم قدم پر انسانی تدبیر کی دھجیاں اڑا دیتی ہے۔ فلک کی گردش کسی کو چین ہی نہیں لینے دیتی۔ دونوں روٹھنے والے اب وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں ان کی غلط فہمی دور کرنے والا کوئی نہیں۔ ہماری زندگی موج نسیم کے ما نند ہے مختصر عرصے کے لیے آئی اور پھر پتا ہی نہیں چلتا کہ حقائق خیال و خواب کیسے ہو گئے۔ تاریخ اوراس کے مسلسل عمل کے بارے میں اس حصے میں ایک اہم مضمون ’’صحابہ کرامؓ وادی پشاور یا بلو چستان میں ‘‘ نافۂ نایاب میں شامل ہے۔ آفتاب اسلام کی ضیا پاشیوں سے پورا بر صغیر منور ہو گیا۔ یہ مضمون تاریخی حقائق کا مظہر ہے۔
’’داستان سرا ‘‘ کے عنوان کے تحت اجرا میں اس بار سترہ افسانے شامل کیے گئے ہیں۔ پاکستان، بھارت اور دنیا بھر سے ممتاز اردو افسانہ نگاروں کے نمائندہ افسانے اس حصے کو معیار اور وقار کی رفعت سے ہم کنار کر رہے ہیں۔ اردو افسانے میں حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کی روایت کو پروان چڑھانے میں اجرا کا کردار تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ خرد افروزیاں کے عنوان سے اجرا نے تنقید، تحقیق اور تجزیاتی مطالعے پر مبنی تحریریں شامل اشاعت ہیں۔ خرد افروزیاں میں سات مضامین کو جگہ ملی ہے۔ یہ سب کے سب مضامین تنقید اور تحقیق کا اعلا معیار پیش کرتے ہیں۔ قارئین ادب کے لیے صحت مند تنقید اور تحقیق کا اہتمام کر کے اجرا نے ایک مستحسن کام کیا ہے۔ مزاح زندگی کی نا ہمواریوں کے ہمدردانہ شعور کے وسیلے سے منصۂ شہود پر لاتا ہے۔ مزاح نگار اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چھپا کر پیش کرتا ہے۔ اجرا نے’’ دل آویزیاں ‘‘ کے عنوان سے طنزو مزاح پر مبنی چار شگفتہ تحریریں نذر قارئین کی ہیں۔ اس حصے میں نظم اور نثر پر مبنی شگفتہ تحریروں کے مطالعہ سے قاری کے دل کی کلی کھل اٹھتی ہے۔ اس حصے میں جن مزاح نگاروں کی تخلیقات شامل ہیں ان کی گل افشانیِ گفتار سے محفل کشت زعفران بن گئی ہے۔ تخلیق کاروں نے معاشرتی زندگی کے بے ہنگم ارتعاشات، تضادات اور نا ہمواریاں مزاح کے مواد کے طور پر استعمال کی ہیں۔ انسانی فطرت میں متعدد خامیاں اور کم زوریاں پائی جاتی ہیں ان مزاح نگاروں نے ان کے بارے میں ہمدردانہ شعور کو فن کارانہ انداز میں اجاگر کیا ہے۔ زبان و بیان کا حسن اور شگفتگی قاری کے حواس اور احساس پر فرحت اور شادمانی کی کیفیت طاری کر دیتی ہے۔ سنجو گتا /ابر پارے میں گیت، قطعات اور رباعیات شامل کی گئی ہیں۔ اس شمارے میں تین شعرا کا کلام شامل اشاعت ہے۔ ان شعری تخلیقات میں فکر و نظر اور بصیرت و شعور کو صحت مند اقدار سے متعارف کرایا گیا ہے۔ عظمت اللہ خان سے لے کر رام ریاض تک اردو میں گیت نگاری کو ہر دور میں مقبولیت حاصل رہی ہے۔ فکر انسانی کی صحت اور نمو کے لیے شعر وا دب کا کردار ہر دور میں مسلمہ رہا ہے۔ اجرا نے زندگی کی بو قلمونی، تنوع تاب و تواں اور ارتقا پر ہمیشہ بھرپور توجہ دی ہے ۔ اجرا کا ایک اور اہم حصہ ’’وسعت بیاں ‘‘کی صورت میں قاری کو متوجہ کرتا ہے۔ اس حصے میں کتابوں پر تبصرے اور مطالعہ احوال پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ وسعت بیاں میں شامل آٹھ مضامین اپنے اپنے موضوعات کے بارے میں ٹھوس تجزیاتی انداز کے آئینہ دار ہیں۔ آخر میں ’’ زبان خلق‘‘ کوجگہ دی گئی۔ اس حصے میں قارئین کے خطوط کو من و عن شائع کر کے اجرا نے آزادیِ اظہار کی درخشاں روایت کو پروان چڑھایا ہے۔ ’’ زبان خلق ‘‘ میں گیارہ قارئین کے خطوط شائع ہوئے ہیں۔ یہ خطوط اپنی جگہ پر ایک مستقل نوعیت رکھتے ہیں۔ ان خطوط میں اجرا کے قارئین نے اپنی بے لاگ رائے دے کر ادبی تخلیقات کے مقام کا تعین کیا ہے۔ زبان خلق میں دنیا بھر سے ادب کے سنجیدہ قارئین نے اپنی رائے مجلس ادارت کو ارسال کی۔ ان خطوط کے مطالعہ کے بعد قاری کو ادب، تخلیق ادب اور اس کے معاشرتی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ہمارا معاشرتی نظام ایک بحرانی دور سے گزر رہا ہے۔ اس بحرانی دور کے مسموم اثرات کے باعث ہماری تہذیبی، ثقافتی اور علمی و ادبی اقدار و روایات کو شدید ضعف پہنچا ہے۔ سب سے بڑھ کر المیہ یہ ہوا کہ ہماری تہذیبی اکائی مسلسل شکست و ریخت کی زد میں ہے۔ زندگی کی برق رفتاریوں نے حالات کی کایا پلٹ دی ہے۔ اظہار و ابلاغ کے قدیم اسالیب کو اب لائق اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ مکاتیب کی جگہ sms، اور ای۔ میل نے لے لی ہے۔ باہمی مکالمے کی جگہ انٹر نیٹ پر ویب کیم کی گفتگو زیادہ مستعمل ہے۔ انٹر نیٹ کی وجہ سے اب مطالعہ کا رجحان بھی کم ہوتا چلا جا رہا ہے اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ انداز فکر اور طرز احساس میں جس سرعت کے ساتھ تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں ان کو دیکھ کر عام انسان محو حیرت ہے کہ یہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ قدیم انداز فکر پر مبنی اسالیب میں اس قدر وسعت نہیں کہ وہ جدید طرز احساس، نئے تجربات، زندگی کے نئے امکانات اور فرد کے فکری میلانات کا احاطہ کر کے انھیں پیرایۂ اظہار عطا کر سکے۔ اجرا نے اس امر کی بھر پور کوشش کی ہے کہ عالمی ادب کے نئے رجحانات سے اردو زبان کے قارئین کو باخبر رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اجرا کے صفحات پر تخلیق ادب کی نئی روایات اور بدلتی ہوئی اقدار کو نمایاں جگہ دی گئی ہے۔ اجرا کی یہ روش اسے اپنے معاصر ادبی مجلات میں ممتاز اور منفرد مقام عطا کرتی ہے۔
ادبی مجلہ اجرا گلشن ادب میں پیام نو بہار لایا ہے۔ ادب کے ذریعے تبدیلی کا تصور پیش کر کے اجرا نے قارئین ادب کے فکر و نظر کو مہمیز کیا ہے۔ قارئین ادب میں حوصلے اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنے کا ولولۂ تازہ پیدا کر کے اجرا نے لائق صد رشک و تحسین کارنامہ انجام دیا ہے۔ تخلیق فن کے ذریعے نئے حقائق اور نئے امکانات تک رسائی کا جو تصور اجرا نے پیش کیا ہے وہ اسے اپنے عہد میں منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ مایوسی اور اضمحلال کی مسموم فضا میں آرزو اور امید کی شمع فروزاں رکھنا اجرا کا نمایاں ترین وصف ہے۔ اجرا میں شامل تحریریں قارئین ادب کو محض ذہنی سکون فراہم نہیں کرتیں بل کہ اجرا کی مجلس ادارت کے پیش نظر ایک ارفع مقصد یہ ہے کہ قارئین ادب کو زندگی کی حقیقی معنویت سے آگاہ رکھا جائے تا کہ ادب کے وسیلے سے قارئین کو انسانیت کے وقار اور سر بلندی کا درس دیا جا سکے۔ اس مجلے کا مقصد قارئین کو بہتر انسان بنانا ہے۔ جس خلوص، درد مندی اور قلبی وابستگی کو رو بہ عمل لا کر اجرا کی انتظامیہ سوئے منزل رواں دواں ہے اس کے اعجاز سے حریت فکر کا علم بلند رہے گا اور عظمت انساں کے ترانوں سے فضا گونج اٹھے گی۔
٭٭٭
ادبی مجلہ کولاژ
پہلا شمارہ (اگست۔ اکتوبر 2012)
کراچی سے شائع ہونے والے رجحان ساز ادبی مجلے’’ کولاژ ‘‘کا پہلا شمارہ دیکھا تو حیرت اور مسرت کے ملے جلے جذبات سے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ قحط الرجال کے موجودہ دور میں علم دوستی اور ادب پروری کی یہ ایک درخشاں مثال ہے۔ علم و ادب کی یہ شمع فروزاں اذہان کی تطہیر و تنویر کا ایک اہم وسیلہ ثابت ہو گا۔ ممتاز ادیب اور دانش ور، نقاد اور محقق اقبال نظر اور با کمال شاعرہ، عالمی ادبیات کی نباض ، پاکستانی ادبیات پر گہری نظر رکھنے والی جدید افسانہ نگار اور مترجم محترمہ شاہدہ تبسم کی ادارت میں شائع ہونے والے اس مجلے کی پہلی اشاعت ہی سے ادب میں جمود کے خاتمے کی نوید ملی۔ قارئین کے دلوں کو ایک ولولۂ تازہ نصیب ہوا۔ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز مجلس ادارت کے یہ بے لوث رکن نہایت عجز و انکسار سے ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل یہ ارمغان ادب پیش کرنے کے بعد کسی قسم کی برتری، احساس تفاخر یا اپنے فقید المثال کارنامے یا عظیم الشان کامیابی پر کسی زعم کا اظہار نہیں کرتے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ادبی مجلات کے مدیر مجلے کے اداریے میں اپنے علم و فضل کے دریا بہا دیتے ہیں اور دبے لفظوں میں خود ستائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ کولاژ کا پہلا شمارہ اس اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے کہ اس کے پہلے شمارے کا اداریہ قطرے میں دجلہ اور جزو میں کل کا منظر دکھا رہا ہے۔ ادبی مجلہ کولاژ کی مجلس ادارت نے خون دل سے گلشن علم و ادب کو نکھارا ہے اور تخلیق فن کی مشعل فروزاں کرنے کے بعد اسے سر عام رکھنے کے بعد اپنے ادارتی کلمات میں محض ایک مختصر جملہ لکھنے کے بعد قارئین پر اس بات کا فیصلہ چھوڑ دیا ہے کہ وہ اس مجلے میں شامل تحریروں کے محاسن اور معائب پر اپنی رائے دیں اور مجلے کے ادبی مقام اور منصب پر کوئی فیصلہ صادر کریں۔ مجلس ادارت نے اس اداریے میں بہت مختصر سی بات کی ہے مگر وہ جو کچھ کہہ گئے ہیں وہ فکر و نظر کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ہے۔ اس دیار میں ان کی بات کو سمجھنے والے موجود ہیں۔ اداریہ ملاحظہ فرمائیں :
’’پہلا کولاژ حاضر ہے۔ ‘‘
وفیات کے تحت سب سے پہلے نہایت خلوص اور درد مندی سے ان ہستیوں کو یاد کیا گیا ہے جو افق ادب اور فنون لطیفہ پر مثل آفتاب و ماہتاب ضو فشاں رہے اور اجل کے ہاتھوں غروب ہو کر عدم کی بے کراں وادیوں میں ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو گئے۔ راہ جہاں سے گزر جانے والے ان نابغۂ روزگار تخلیق کاروں میں آفاق صدیقی، شہزاد احمد، عبید اللہ بیگ، اظہر جاوید اور مہدی حسن شامل ہیں۔ ممتاز شاعر اور ادیب مجروح سلطان پوری نے اپنے رفتگاں کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا :
بے تیشۂ نظر نہ چلو راہ رفتگاں
ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح
مجلے کی ترتیب کیا ہے یہ تو سبد گل چیں ہے جسے ایک نظر دیکھ کر دھنک رنگ منظر نامہ سامنے آتا ہے۔ آئیے اس دھنک پر نگاہ ڈالیں۔ ابتدا میں حمد و نعت کا گلدستہ ہے جس کی عطر بیز مہک قلب و جاں کو معطر کر دیتی ہے۔ سورۂ فاتحہ کا منظوم ترجمہ ثمینہ راجا (مرحومہ )نے کیا ہے، حیات۔ رضوی امروہوی کی لکھی ہوئی حمد باری تعالیٰ اور شان الحق حقی، سرشار صدیقی اور صفدر صدیق رضی کی لکھی ہوئی نعتیں پڑھ کر دل کو سکون ملا۔ آرٹ کے لفظ ’’کولاژ ‘‘کے مفہوم اور تاریخی پس منظر پر رشید بٹ کا مضمون تاریخی اور دستاویزی تحقیق کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس شمارے میں اکیس (21) افسانے شامل ہیں۔ اردو کے عالمی شہرت کے حامل نئے اور ممتاز افسانہ نگاروں کے نمائندہ افسانے شامل کر کے اس حصے کو بہت قابل مطالعہ اور دلچسپ بنا دیا گیا ہے۔ اس حصے میں شامل تمام افسانے اپنے واحد تاثر کی وجہ سے گہری معنویت کے حامل ہیں۔ حصہ افسانہ میں شامل افسانہ ’’ایک عورت دو مرد ‘‘ قاری کو چونکا دیتا ہے۔ محترمہ شاہدہ تبسم نے اس افسانے میں تانیثیت کے موضوع پر اپنے کمال فن کا ثبوت دیا ہے۔ اس افسانے میں پر تاثیر حقیقت نگاری اور فطرت نگاری قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اس معاشرے میں ظالم و سفاک، موذی و مکار استحصالی عناصر نے اپنے مکر کی چالوں سے خواتین کی زندگی کی تمام رتوں کو بے ثمر کر دیا ہے۔ ان کی زندگی میں کھلنے والی امیدوں کی کلیاں شرر بن چکی ہیں اور ان کی آہیں بے اثر ہو کر رہ گئی ہیں۔ عورت کو متاع عصمت و ناموس سے محروم کرنے والے درندوں کو اس افسانے میں آئینہ دکھایا گیا ہے۔ ان کے قبیح کردار اور کریہہ چہرے سے نقاب اٹھا یا گیا ہے۔ یہ افسانہ ان اخلاق باختہ اور مشکوک نسب کے ننگ انسانیت مردوں کے لیے عبرت کا تازیانہ ہے جو غربت وافلاس کے پاٹوں میں پسنے والی حالات کے ہاتھوں بے بس و لاچار عورتوں کی عزت لوٹ کر اپنی راہ لیتے ہیں اور ان مظلوم عورتوں اور ان کی نا جائز اولاد کا کوئی پرسان حال ہی نہیں ہوتا۔
کولاژ میں شامل سمیع آہو جا کا لکھا ہوا میورل ’’تحیر عشق میں بے خبری ‘‘اور ممتاز رفیق کا لکھا ہوا طویل مختصر افسانہ’’ریشم گلی ‘‘عمدہ تحریریں ہیں۔ مصنفین کے وسیع مشاہدے، عملی زندگی کے تجربات اور فعال تخلیقی شخصیت کے تمام نقوش ان تحریروں میں جلوہ گر ہیں۔ شاعری کا حصہ بھرپور ہے۔ اس شمارے میں سینتیس (37)شعرا کی غزلیں شامل ہیں جب کہ چوبیس (24)شعرا کی نظمیں اس مجلے کی زینت بنی ہیں، تین شعرا کے دوہے اور گیت شامل ہیں اور محترمہ شاہدہ تبسم کے قطعات بھی مجلے کی آب و تاب میں اضافہ کر رہے ہیں۔ نامور ادیب، شاعر اور دانش ور سعود عثمانی کے اسلوب کا خصوصی مطالعہ بھی اس مجلے میں شامل ہے۔ اس خصوصی مطالعہ میں تین اہم مضامین شامل ہیں جو کہ محترمہ شبنم شکیل (مرحومہ )، پروفیسر جمیل احمد عدیل اور نسیم سید نے تحریر کیے ہیں۔ یہ مضامین تجزیاتی مطالعے کا اعلیٰ ترین معیار پیش کرتے ہیں۔ آرٹ اور مصوری کا حصہ نہایت دلکش ہے اسے محترمہ عروسہ جمالوی اور فرحان احمد جمالوی نے بڑی محنت سے رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے استعاروں سے مزین کیا ہے۔ رشید بٹ کی تحریریں اس مجلے کے حسن کو نکھا رہی ہیں۔ ان کی رپورتاژ’’آسمان تلے پہلا دروازہ ‘‘، شن ژونگ کے ناولٹ ساز زندگی کا اردو ترجمہ اور کولاژ کی تفہیم ان کے منفرد اسلوب کو سامنے لاتی ہیں۔ اپنے عہد کے ادبی معائر اور تہذیبی ارتقا کو سمجھنے میں یہ تحریریں نہایت اہم ہیں۔ حفیظ جالندھری کے ہاتھ کا لکھا ہوا پاکستان کا قومی ترانہ اس شمارے کا ایک اہم مخطوطہ ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جب تک یہ دنیا باقی ہے یہ ترانہ ہر پاکستانی کے دل کی دھڑکن بنا رہے گا۔ مضامین کے حصے میں شامل بیس (20)اہم اور مفید مضامین اس شمارے کی اہمیت اور ثقاہت کو چا چاند لگا رہے ہیں۔ تمثیل کے عنوان سے بختیار احمد کی تخلیق ’’الحمرا‘‘ فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرتی چلی جاتی ہے۔ اسٹریت تھیٹر کے عنوان سے چار تحریریں شامل اشاعت ہیں۔ اقبال نظر کی تحریریں ’’چاندی کے ورق ‘‘ اور ’’ انٹرویو‘‘ ان کے منفرد اسلوب کی عکاسی کر رہی ہیں۔ ان تحریروں کا ایک ایک لفظ مصنف کی مضبوط اور مستحکم شخصیت کے تمام اہم پہلوؤں کو قاری کے سامنے لاتا ہے۔ مصنف کا ذوق سلیم ان کی بصیرت، فکر و خیال، خلوص اور درد مندی، جذبات و احساسات اور معاشرتی زندگی کے تمام ارتعاشات اور نشیب و فراز اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ انٹرویو ایک یاد گار تحریر ہے۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم انگریزوں کی بھونڈی نقالی میں مصروف رہتے ہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ 1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد یہاں کے باشندے ایک مستقل نوعیت کے احساس کم تری میں مبتلا ہو گئے جس سے گلو خلاصی تا حال نہیں ہو سکی۔ لسانی اعتبار سے آج بھی ہماری قومی زبان کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یہاں اب بھی متعدد کالے انگریز موجود ہیں جو اپنے آقاؤں کی زبان بول کر غلامانہ ذہنیت کو تقویت دیتے ہیں۔ مقامی زبانوں اور قومی زبان میں اظہار خیال کرتے وقت ان کی زبان پر آبلے پڑ جاتے ہیں، بھوئیں تن جاتی ہیں اور وہ اپنے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں سے جو قومی یا علاقائی زبان میں بات چیت کرتے ہیں توہین آمیز سلوک کرتے ہیں۔ اقبال نظر نے واضح کر دیا ہے کہ اقوام عالم اگر تہذیبی دوام کی آرزو مند ہیں تو انھیں عصری آگہی کو اپنا نصب العین بنانا ہو گا اور قومی تشخص کو اولیت دینا ہو گی۔ اس حصے میں شامل ’’تین عورتیں ایک کہانی ‘‘(انشائیہ)اور ’’کصد ‘‘(فکاہیہ)زندگی کے بارے میں ہمدردانہ شعور کو اجاگر کرتی ہیں۔ درویش نامہ اس مجلے کا ایک دلچسپ حصہ ہے۔ اس میں اقبال نظر کی شگفتہ تحریر ’’قصہ دوسرے درویش کا تیسرے کی زبانی ‘‘شامل ہے۔ لائق مصنف نے اپنی بصیرت، شگفتہ مزاجی، زندہ دلی اور رجائیت پسندی کو بروئے کار لاتے ہوئے اس تحریر کو زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم کی کلید بنا دیا ہے۔ اپنی درخشاں اقدار و روایات کو پروان چڑھانے کی خاطر مصنف نے اپنی گل افشانیِ گفتار سے قاری کو مسحور کر دیا ہے۔ آج کے دور کا لرزہ خیز اور اعصاب شکن المیہ یہ ہے کہ مسلسل شکست دل کے باعث زندگی کی اقدار عالیہ کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ بے حسی کا عفریت ہر طرف منڈ لا رہا ہے اور ابن الوقت، موقع پرست، جو فروش گندم نما ننگ انسانیت درندے ’’مک مکا ‘‘ کرنے میں مصروف ہیں۔ مجبوروں اور مظلوموں کا کوئی پرسان حال نہیں جب کہ مفاد پرستوں اور بے ضمیروں کے وارے نیارے ہیں۔ ان اہل جور کی آنکھوں میں بلا شبہ کسی ایسے جانور کا بال پڑ گیا ہے جس میں وفا اور حیا نام کو نہیں۔ اقبال نظر کا اسلوب پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتا ہے۔
خطوط کے حصے میں عالمی شہرت کے حامل تخلیق کاروں کے خطوط شامل ہیں۔ اس حصے میں سترہ (17)خطوط شامل ہیں جو ادب اور عصری آگہی کا ایک معتبر حوالہ ہیں۔ کچھ مکتوب نگار ایسے بھی ہیں جن کے مکاتیب ہم اب کبھی نہ پڑھ سکیں گے۔ میری مراد پروفیسر آفاق صدیقی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، اظہر جاوید اور شبنم شکیل ہیں، جن سے فرشتۂ اجل نے قلم چھین لیا اور علم و ادب کا ہنستا بولتا چمن مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ ان کی یاد ہمیشہ دلوں میں موج زن رہے گی۔ ان کا نام افق ادب پر تا قیامت مثل آفتاب ضو فشاں رہے گا۔ بہ قول محسن بھوپالی :
ہم اندھیروں کی دسترس سے دور
روشنی کی طرح سفر میں ہیں
کولاژ کے اس شمارے میں کئی ایسی تحریریں شامل ہیں جو ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ان تحریروں کے تخلیق کار اب ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کی یادیں اس وسیع و عریض عالم آب و گل میں اس طرح گردش کر رہی ہیں کہ جس سمت بھی نظر اٹھتی ہے ان کی دبنگ آواز سنائی دیتی ہے کہ نجات دیدہ و دل کی گھڑی ابھی نہیں آئی بڑھے چلو کہ ابھی منزل بہت دور ہے۔ اردو ادب کے وہ آسمان جو دائمی مفارقت دے کر زیر زمیں چلے گئے ان میں ثمینہ راجا، اظہر جاوید، شبنم شکیل اور ڈاکٹر محمد علی صدیقی کے نام شامل ہیں۔ کولاژ نے ان کی یاد گار تحریر یں ان کی زندگی میں حاصل کیں اور انھیں شامل اشاعت کر کے ان کی یادوں کو دوام بخش دیا۔ راہ جہاں سے گزر جانے والے ان چاند چہروں کی عطر بیز یادیں ہی اب باقی رہ گئی ہیں۔ بہ قول شاہدہ تبسم :
شام کی کروٹوں سے رنگ کئی
یوں جبین فلک سے آتے ہیں
ٹوٹتی ہے افق پہ سلوٹ سی
جیسے کچھ لوگ روٹھ جاتے ہیں
تراجم کی اہمیت پر کولاژ نے اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے۔ تراجم کی افادیت مسلمہ ہے۔ ان کے اعجاز سے لسانی اعتبار سے زبان کی ثروت میں اضافہ ہوتا ہے اور ترقی یافتہ زبانوں سے علوم و فنوں کی منتقلی کے ذریعے افکار تازہ کے وسیلے سے جہان تازہ تک رسائی کے متعدد امکانات پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ تراجم کے ذریعے قارئین ادب کو ندرت تخیل، موضوعاتی تنوع، وسعت نظر اور علم و دب کے ارتقا کے بارے میں آگاہی ملتی ہے۔ تراجم کے ذریعے تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت کے شعبوں میں نئے میلانات سے روشناس کرانے میں مدد ملتی ہے۔ دو تہذیبوں کے سنگم سے جہاں نئے اسالیب کی تفہیم کی راہ ہموار ہو جاتی ہے وہاں زبان میں اظہار و ابلاغ کے نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ رشید بٹ نے ترجمے کو تخلیق کی چاشنی دے کر چینی مصنفہ شن ژونگ کے ناولٹ کو مسحو رکن بنا دیا ہے۔
کولاژ کی اشاعت اردو زبان و ادب میں تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند ہے۔ اس کے معجز نما اثر سے اردو ادب میں بالعموم اور پاکستانی ادبیات و عالمی ادبیات میں بالخصوص فکری توسیع کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اس قسم کے رجحان ساز ادبی مجلات لوح جہاں پر اپنا دوام ثبت کر دیتے ہیں اور اپنے تخلیقی وجود کا اثبات کر دیتے ہیں۔ قارئین ادب کو تخلیقی وسعت سے آشنا کرنے کا داعی یہ رجحان ساز مجلہ طلوع صبح بہاراں کا نقیب ہے۔ میری دعا ہے کہ اس کے وسیلے سے نئے حقائق تک رسائی کے امکانات پیدا ہوں اور وطن، اہل وطن اور انسانیت کے ساتھ قلبی اور روحانی وا بستگی اور والہانہ محبت کے جذبات پروان چڑھانے میں مدد ملے۔
٭٭٭
’’خوشبو میں نہاتے رنگ‘‘
رباعیات کا مجموعہ
مصنف: عطا الرحمٰن قاضی
نیلی بار پبلی کیشنز عارف والا، اشاعت دوم، 2013، صفحات 135، قیمت : 200روپے ، سٹاکسٹ : نگارشات، لاہور
پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں کے لیے عطا الرحمٰن قاضی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔12۔ جنوری 1979کو عارف والا کے ایک ممتاز علمی و ادبی گھرانے میں طلوع ہونے والے اس تابندہ ستارے نے کم عمری ہی میں اپنی ذہانت کی چکا چوند سے گرد و نواح کے علاقوں کو منور کر دیا۔ ان کے خاندان میں چار پشتوں سے شعر و ادب کی تخلیق کا سلسلہ جاری ہے۔ ادبی ذوق انھیں ورثے میں ملا۔ سکول اور کالج کی ادبی محفلوں کی وہ روح رواں رہے اور زمانہ طالب علمی میں متعدد انعامات حاصل کیے۔ کل پاکستان بین الکلیاتی تقریبات میں شرکت کے لیے اس نو جوان طالب علم نے وطن عزیز کے طول و عرض کا سفر کیا اور ہر جگہ اپنی کامرانی کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ کالج کے بعد وہ بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں ایم۔ اے اردو میں داخل ہوئے اور یہاں بھی طلائی تمغہ حاصل کر کے اپنی خداداد صلاحیتوں اور فقید المثال تخلیقی فعالیت کا لوہا منوایا۔ ایک فعال، مستعد، زیرک، مخلص اور انسانیت نواز ادیب کی حیثیت سے انھوں نے اپنے تخلیقی وجود کا اثبات کیا ہے۔ وطن، اہل وطن اور انسانیت سے والہانہ پیار اور قلبی وابستگی ان کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے۔ وہ گزشتہ دو عشروں سے پرورش لوح و قلم میں مصروف ہیں۔ انھوں نے ہر صنف ادب میں طبع آزمائی کی ہے لیکن شاعری میں ان کے جوہر خوب کھلتے ہیں۔ ان کے دو شعری مجموعے جن میں نظموں کا مجموعہ ’’دعائیں سوکھ چکی ہیں ‘‘اور غزلوں کا مجموعہ ’’خواب بھر روشنی ‘‘شامل ہیں زیر طبع ہیں۔ حال ہی میں ان کی رباعیات پر مشتمل مجموعے ’’خوشبو میں نہاتے رنگ‘‘کادوسر ایڈیشن شائع ہوا ہے۔ رباعیات کا یہ مجموعہ پہلی بار 2010میں ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہوا۔ پاکستان میں مطالعۂ ادب کی موجودہ غیر امید افزا صورت حال میں ایک شعری مجموعے کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت بلا شبہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ ان کی شاعری لہو بن کر سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں میں بھی رواں ہو جاتی ہے اور اپنی تاثیر سے دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے کی صلا حیت سے متمتع ہے۔ ان کے اسلوب میں تخیل اور شعور کے باہمی امتزاج سے جو لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے وہ قاری پر گہرے اثرات چھوڑتی ہے۔ ان کی فہم و فراست، ذوق سلیم تجربات و مشاہدات اور ان کی پختہ یادداشت ان کے اسلوب میں ہر جگہ جلوہ گر ہے۔ اگرچہ وہ ایک خاموش طبع ادیب ہیں اور ستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز اپنی دھن میں مگن تخلیق فن میں مصروف رہتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے جس طرح گہرے سمندروں کے پانی کی سطح بہ ظاہر سکوت کی مظہر ہوتی ہے لیکن ان پانیوں کی تہہ میں جو گنج ہائے گراں مایہ پوشیدہ ہوتے ہیں ان کا ادراک بے حد ضروری ہے۔ سمندر کا سکوت شور دریا سے یہ بات بر ملا کہتا ہے کہ جس کا جتنا بڑا ظرف ہوتا ہے اسی قدر وہ خاموش رہتا ہے۔ عطا الرحمٰن قاضی بھی ایک عالی ظرف ادیب کی حیثیت سے گہرے سروں میں عرض نوائے حیات کرنے اور سینے پر صبر کی اک سل رکھ کر بات کرنے کے عادی ہیں۔ ہمارے دور کا لرزہ خیز، اعصاب شکن المیہ یہ ہے آج کے تخلیق کار کو سسکتی ہوئی انسانیت کے مسائل جامد و ساکت پتھروں، صحراؤں، ریگستانوں اور دشت و جبل کے سامنے پیش کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے با وجود پر عزم اور جری تخلیق کار یاس و ہراس کے عالم اور ہوائے جورو ستم میں رخ وفا اور آس کا دیپ بجھنے نہیں دیتے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ در کسریٰ پر صدا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے کہ ان کھنڈرات میں حنوط شدہ لاشیں اور بے حس مجسمے کسی صورت میں بھی بے بس انسانیت اور مظلوم طبقے کی داد رسی پر تیار نہ ہوں گے۔
تھا محو کلام خود سے اندر کا سکوت
آواز میں ڈھل رہا تھا منظر کا سکوت
اک چیخ سے کانپ اٹھے، سب دشت و جبل
دیکھا نہ گیا مجھ سے پتھر کا سکوت
عطا الرحمٰن قاضی کو پاکستان کی تہذیبی و ثقافتی اقدار و روایات دل و جاں سے عزیز ہیں۔ ان کی رباعیات میں معاشرتی زندگی کی متعدد علامات اس انداز میں سامنے آتی ہیں کہ ان کی مسحور کن جاذبیت کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ اپنی اصلیت کے اعتبارسے یہ تمام علامات ایک ایسے نفسیاتی کل کے روپ میں جلوہ گر ہوتی ہیں جن کے معجز نما اثر سے لا شعور کی حرکت و حرارت اور قوت و فعالیت کو متشکل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے عطا الرحمٰن قاضی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اب تند و تیز ہوائیں اور بگولے ہی شمع ہستی کے بارے کوئی فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ صرف وہی شمع ہی اپنی ضو فشانی کا سلسلہ جاری رکھ سکے گی جو ان تیز ہواؤں کا سامنا کرنے کی صلاحیت کی حامل ہو گی۔ زندگی کی برق رفتاریوں نے اقدار و روایات کی کا یا پلٹ دی ہے۔ زندگی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں کی ایک شکل ہے۔ بھنبھیری کے مانند ہوا کے تیز جھونکوں کے ساتھ گھومنا ہی اقتضائے وقت ہے۔ چلنے والے زندگی کی دوڑ میں آگے نکل جاتے ہیں جب کہ ٹھہرنے والے ہوا کے طوفانی جھونکوں کی زد میں آ کر خس و خاشاک کے مانند اڑ جاتے ہیں۔ معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی ے چینی کا سبب ظلم اور شقاوت آمیز نا انصافی ہے۔ انھوں نے ایک قلم بہ کف مجاہد کی حیثیت سے حریت فکر کا علم بلند رکھا ہے اور جبر کو للکارا ہے کہ ظالم و سفاک، موذی و مکار استحصالی قوتوں کو اپنے انجام سے غافل نہیں ہنا چاہیے۔ انھیں اپنی فرد عمل کا حساب دینا ہو گا۔ان کی رباعیات میں زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کی جو سعی کی گئی ہے وہ قاری کو چونکا دیتی ہے۔
ہر لمحہ فزوں شوق، تغیری نے کیا
بے چین ہمیں جب بھی اسیری نے کیا
ذرے ذرے سے زندگی پھوٹ بہی
یوں رقص، سر عام بھنبھیری نے کیا
پھولوں کو کانٹوں میں پرونے والو
دیوار و در میں ظلم بونے والو
ہاتھوں سے یہ سرخی نہیں جانے والی
دھبے اپنے گنہ کے دھونے والو
زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس اور علم عروض پر کامل عبورکا اس سے بڑ ھ کر اور ثبوت کیا ہو گا کہ عطا الرحمٰن قاضی نے گلدستۂ معانی کو نئے ڈھنگ سے باندھنے اور اک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ انھوں نے رباعی کے تمام اوزان میں طبع آزمائی کی ہے اور اپنے اشہب قلم کی خوب جولانیاں دکھائی ہیں۔ اپنے جذبات، احساسات، تجربات اور مشاہدات کو جس فنی مہارت، خلوص اور درد مندی کے ساتھ انھوں نے الفاظ کے قالب میں قالب میں ڈھالا ہے وہ انھیں منفرد اور ممتاز مقام پر فائز کرتا ہے۔ خوشبو میں نہاتے رنگ میں شامل تمام رباعیات ایک زیرک تخلیق کار کے کمال فن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اردو رباعی کے ارتقا پر ایک نظر ڈالنے سے اس صنف شعر کے مقام سے آگاہی حاصل ہو گی۔
قلی قطب شاہ (پیدائش : 1565، وفات : 11۔ جنوری 1612)سے لے کر لمحۂ موجود تک اردو رباعی نے جو ارتقائی سفر طے کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اب اردو شاعری میں رباعی نے ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اردو شاعر کے افق پر رباعی کی کہکشاں میں میر ببر علی انیس (پیدائش : 1802، وفات 1874)ا ور مرزا سلامت علی دبیر(پیدائش : 1803وفات : 1875) کو مثل آفتاب سمجھنا چاہیے جنھوں نے رباعی کو مقاصد کی رفعت میں ہم دوش ثریا کر دیا۔ انیس اور دبیر نے سودا کی طرح مرثیے کے لیے مسدس کو موزوں سمجھا اور اسی کو اپنایا۔ ان کے مرثیوں میں تو واقعۂ کربلا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے لیکن رباعیات کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ ان رباعیات کے موضوعات میں بے پناہ جدت، ندرت اور تنوع ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ انیس اور دبیر کی رباعیات در اصل ان کے مرثیوں کے ایک ضمیمے کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ ان رباعیات میں موضوعات کا تنوع اور اسلوب کی صد رنگی قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔ ان کے افکار کی ضیا پاشیوں سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوا۔ ان کے علاوہ دیگر تابندہ ستاروں میں اکبر الہ آبادی، فانی بدایونی، جوش ملیح آبادی، فراق گورکھ پوری، جگت موہن لال راون، یاس یگانہ چنگیزی، اثر صہبائی، سیماب اکبر آبادی، ماہر القادری، تلوک چند محرو م، صبا اکبر آبادی اور امجد حیدر آبادی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان مشاہیر ادب نے اپنے خون جگر سے رباعی کی صنف کو پروان چڑھایا۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ اردو رباعی کے فروغ میں انیس اور دبیر نے کلیدی کردار ادا کیا۔ علامہ شبلی نعمانی کی معرکہ آرا تصنیف ’’موازنہ انیس و دبیر ‘‘جب 1906میں منظر عام پر آئی تو یہ تاثر عام ہو گیا کہ انیس کو دبیر پر برتری حاصل ہے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ شبلی نعمانی نے اپنا سارا استدلال انیس کو برتر ثابت کرنے پر صرف کر دیا۔ 1975میں جب انیس کی صد سالہ برسی کی تقریبات کا آغاز ہوا تو ناقدین ادب نے شبلی نعمانی کی تصنیف کے مندرجات کے بارے میں اپنے تحفظات کا بر ملا اظہار کرتے ہوئے دبیر کے بارے میں ان کی رائے سے اختلاف کیا اور موازنہ انیس و دبیر میں انیس کی برتری کے بارے میں شبلی نعمانی کے سخت فیصلے پر گرفت کرتے ہوئے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ پروفیسر کرار حسین نے ماہ نو کے دبیر نمبر (مطبوعہ ستمبر۔ اکتوبر 1975)میں اس جانب توجہ دلائی کہ دبیر کے ادبی مقام کے بارے میں شبلی نعمانی کی رائے کو من و عن تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ بادی االنظر میں بھی شبلی نعمانی کی رائے یک طرفہ ہے اس پر بغیر سوچے سمجھے یقین نہیں کیا جا سکتا۔ ادبی مسائل کے بارے میں جانب دارانہ انداز فکر گمراہ کن ثابت ہوتا ہے جو ادبی صداقتوں اور تنقید کے مسلمہ معائر سے شپرانہ چشم پوشی کے مترادف ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دبیر کے بارے میں ادبی حلقوں اور ناقدین کی رائے میں تبدیلی آنے لگی اور یہ بات شدت سے محسوس کی جانے لگی کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دبیر کے ادبی مقام کو حقیقی تناظر میں دیکھا جائے۔
اردو رباعی کی تاریخ اور ارتقا میں دلچسپی لینے والوں کے لیے یہ بات اطمینان بخش ثابت ہوئی جب ڈاکٹر سید تقی عابدی نے دبیر پر اپنی تحقیق کو مکمل کیا۔ ان کی تالیف ’’رباعیات دبیر ‘‘کی اشاعت سے دبیر کے ادبی کام پر پڑ جانے الی ابلق ایام کے سموں کی گرد صاف ہو گئی۔ یہ تحقیقی کتاب جو چھے سو صفحات پر مشتمل ہے اس میں دبیر کی 1323رباعیات شامل ہیں ان میں چالیس رباعیات فارسی زبان میں ہیں۔ کتاب میں ڈاکٹر سید تقی عابدی کا عالمانہ مقدمہ بھی شامل ہے۔ اسی عہد میں شاہ غمگین نے اٹھارہ سو سے زائد رباعیات لکھیں جو اردو میں رباعیات کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ شاہ غمگین نے اپنی رباعیات کی بر وقت اشاعت پر توجہ نہ دی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تمام تخلیقی کام تاریخ ادب کے طوماروں میں دب کر رہ گیا۔ رباعیوں کی تعداد کے لحاظ سے دبیر کا دوسرا نمبر ہے۔ سید تقی عابدی کی تالیف کی اشاعت کے بعد اس تاثر کو تقویت ملی کہ دبیر کا مقام کسی صورت میں بھی انیس سے کم نہیں۔ ممتاز محقق اور نقاد ڈاکٹر سید تقی عابدی نے ’’دیوان رباعیات انیس ‘‘کی تالیف پر بھی توجہ دی اور پانچ سو صفحات پر مشتمل یہ دیوان شائع کیا جس میں 504رباعیات شامل ہیں۔ انیس کی ان رباعیات کو جن مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ان میں حمدیہ رباعیات، نعتیہ رباعیات، منقبتی رباعیات، واقعہ کربلا سے متعلق رباعیات اور اعتقادی رباعیات شامل ہیں۔
اردو شاعری کی اصناف کے ارتقا پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اردو شاعری میں رباعی کو اس قدر مقبولیت نہیں مل سکی جتنی دوسری اصناف کو ملی۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس صنف شعر میں تخلیق فن کے لمحوں میں سخت ریاضت اور جگر کاوی درکار ہے۔ اس کے علاوہ اردو کے اکثر شاعر رباعی پر توجہ مرکوز نہیں کرتے۔ اکثر شاعر وادیِ خیال میں مستانہ وار گھومتے گھومتے محض منہ کا ذائقہ بدلنے کی خاطر رباعی پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔ اس کے بر عکس فارسی ادب میں رباعی کو ایک مستقل صنف ادب کی حیثیت سے اہم مقام حاصل ہے۔ رباعی میں صرف چار مصرعوں میں ایک بھر پور مضمون کا احاطہ کرنا بلا شبہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ رباعی کے چوتھے مصرعے میں شاعر اپنا مطمح نظر بیان کرتا ہے اور اسی مصرعے کا حاصل کلام سمجھا جاتا ہے۔ اردو میں جوش ملیح آبادی نے اپنی رباعیات کے مجموعے ’’جنون و حکمت‘‘ میں اپنے کمال فن کا ثبوت دیا ہے۔ فراق گورکھ پوری کی رباعیات کا مجموعہ ’’روپ ‘‘نئے تجربات کا آئینہ دار ہے۔ اردو شاعری میں سنسکرت الفا ظ کو شامل کر کے فراق نے ایک انوکھا تجربہ کیا ہے۔ عالمی ادب میں رباعی کو متعارف کرانے کے سلسلے میں فٹز جیرالڈ (Fitz Gerald)کا نام اہم ہے جس نے عمر خیام کی رباعیات کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ فٹز جیرالڈ (پیدائش : 31 مارچ 1809,وفات : 14جون 1883 )ایک ممتاز برطانوی ادیب تھا جس نے یورپ میں مشرقی ادبیات کے فروغ کے سلسلے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ فٹز جیرالڈ کے تراجم کے اعجاز سے دو تہذیبوں کے درمیان ایک معتبر ربط کی صورت پیدا ہوئی اور مغرب کے دانش وروں کو عمر خیام کے افکار کی جولانیوں کو سمجھنے کا موقع ملا۔ اس طرح یہ بات واضح ہو گئی کہ رباعی ایک ایسی صنف شاعری ہے جس کے ذریعے ایک زیرک تخلیق کار قلزم ہستی کی غواصی کر کے تجربات، مشاہدات اور بصیرتوں کے گہر ہائے آب دار صرف چار مصرعوں میں الفاظ کے قالب میں ڈھال کر اظہار و ابلاغ کو یقینی بناتا ہے۔
عطا الرحمٰن قاضی کی رباعیات کا مجموعہ ’’خوشبو میں نہاتے رنگ ‘‘اسی روایت کا تسلسل ہے جسے اردو رباعی نے صدیوں کے سفر کے بعد استحکام بخشا ہے۔ وہ افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہان تازہ تک رسائی کو یقینی بنانے کی سعی کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں قطرے میں دجلہ اور جزو میں کل کی مسحور کن کیفیت قاری کے لیے مسرت اور انبساط کے فراواں مواقع سامنے لاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ ان کے حضور کثرت سے موجود ہوتے ہیں اور وہ ان کے بر محل استعمال سے ید بیضا کا معجزہ دکھانے کی سعی کرتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اپنے فہم و ادراک اور بصیرت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے اس فطین تخلیق کار نے لفظوں کے گھروندوں میں گزر اوقات کرنا اپنا شیوہ بنا لیا ہے۔ نادر تشبیہات، استعارات، علامات اور مرکبات کے بر محل استعمال سے انھوں نے اپنی رباعیات کو دھنک رنگ منظر نامے کی صورت میں پیش کیا ہے۔ آئیے دھنک کے ان رنگوں کا مشاہدہ کریں :
ہر سمت وہ خوشبو میں نہاتے ہوئے رنگ
اترے ہیں فلک سے جھلملاتے ہوئے رنگ
پھر موج ہوا میگھ سندیسہ لائی
پھر نکلے زمیں سے مسکراتے ہوئے رنگ
ان رباعیات میں حسن و رومان اور پیمان وفا کی جو کیفیت ہے وہ قاری کے دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔ عطا الرحمٰن قاضی نے اگرچہ رباعی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے مگر اردو ادب میں اب تک کوئی بھی تخلیق کار صرف صنف رباعی میں اپنی مہارت کی بنا پر اپنا بلند مقام بنا نہیں پایا۔ اس کے بر عکس فارسی ادب میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ شعرا نے محض رباعی ہی کی بنا پر شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں جگہ پائی۔ اس سلسلے میں عمر خیام کا نام قابل ذکر ہے۔ مجھے یقین ہے کہ عطا الرحمٰن قاضی اپنی خداداد صلاحیتوں کو رو بہ عمل لا کر یگر اصناف ادب میں بھی اپنے افکار کی جولانیاں دکھائیں گے۔ ان کی اس تخلیقی فعالیت سے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ ہو گا اور جریدۂ عالم پر ان کا نام ثبت ہو جائے گا۔ وہ سراپا محبت و خلوص ہیں اور ان کی شاعری میں انسانیت کے ساتھ قلبی وابستگی کا عنصر نمایاں ہے۔ ایک رہ نورد شوق کی حیثیت سے شاعر نے اقلیم محبت میں اپنی آمد کے بارے میں لکھا ہے :
اقلیم محبت میں جہاں دیکھتے ہیں
اپنے ہی قدموں کے نشاں دیکھتے ہیں
گزرے ہیں ستارہ وار، شہر جاں سے
ہم لوگ کہاں سود و زیاں دیکھتے ہیں
ایک حساس اور دردمند تخلیق کار کی حیثیت سے عطا الرحمٰن قاضی نے صبر و استقامت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا ہے۔ وہ ہر قسم کی عصبیت سے اپنا دامن بچا کر اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کے آرزو مند ہیں۔ ان کا پیغام بے لوث محبت اور بے باک صداقت پر مبنی ہے۔ معاشرتی زندگی میں وہ عفو و در گزر کو شعار بنانے پر اصرار کرتے ہیں۔ اگر فرد کو اپنی عزت و توقیر کی حفاظت کا خیال ہو تو وہ بغض و عناد اور کینہ پروری کو ترک کر کے سب کے لیے دل کشادہ رکھے۔
اس شوخ کا جب بھی نام لینا چاہا
اک چپ نے بڑھ کر تھام لینا چاہا
اٹھتے ہوئے ہاتھ گر گئے قدموں میں
دشمن سے جو انتقام لینا چاہا
عطا الرحمٰن قاضی نے اردو غزل سے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا اور غزل میں بڑے زوروں سے اپنے آپ کو منوایا۔ اس کے بعد ان کی خطر پسند طبیعت نے رباعی کو پیرایۂ اظہار بنایا اور بڑی خوش اسلوبی سے اس صنف شعر میں اپنی شناخت بنائی۔ اردو رباعی کی درخشاں روایت کو آگے بڑھانے ے سلسلے میں ان کی کوشش لائق تحسین ہے۔ مجھے یقین ہے کہ خوب سے خوب تر کی جانب ان کا سفر جاری رہے گا اور ان کے شعری تجربات اور تخلیقی کامرانیوں سے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ ہو گا۔ ان کا یہ مرحلۂ شوق انھیں جہان تازہ تک رسائی کی صلاحیت سے متمتع کرے گا اور اس کے اعجاز سے افکار تازہ کی نمود یقینی ہو جائے گی۔ اردو زبان و ادب کو ایسے نوجوان تخلیق کاروں سے بہت توقعات وابستہ ہیں۔
٭٭٭
تذکرہ: کتابی سلسلہ شمارہ : ۲
مارچ ۲۰۱۰ خصوصی اشاعت
مقام اشاعت : کراچی۔ پاکستان
مؤسس مدیر اعلیٰ: سید محمد قاسم
مرتبین اعزازی: منظر عارفی، انور جاوید ہاشمی
اردو زبان کے ادبی مجلات نے تہذیب الاخلاق سے تذکرہ تک جو ارتقائی سفر طے کیا ہے وہ ہر لحاظ سے لائق صد رشک و تحسین ہے۔ قارئین میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے اور فکر و نظر کو مہمیز کرنے کے سلسلے میں علمی و ادبی مجلات کا کردار ہمیشہ مسلمہ رہا ہے۔ عالمی ادب کا بنظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ علمی و ادبی مجلات کے مطالعہ سے قاری کو ذرے سے آفتاب بننے کے وافر مواقع میسر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ایسا ہی ایک وقیع ادبی مجلہ تذکرہ‘ ہے جو نہایت باقاعدگی کے شائع ہو کر قارئین کے اذہان کی تطہیر و تنویر کا مؤثر اہتمام کر رہا ہے۔ حال ہی میں اس رجحان ساز ادبی مجلے کا تازہ شمارہ شائع ہوا ہے۔ دو سو چوبیس صفحات پر مشتمل یہ مجلہ اپنی مجموعی صورت میں گنجینہ معانی کا طلسم ہے، تمام تحریریں بے پناہ افادیت کی حامل ہیں۔ مضامین کا تنوع اور ثقاہت کا کرشمہ ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے۔ اس مجلے میں شامل ہر تحریر کا ڈسکورس اپنی روح میں اتر جانے والی اثر آفرینی کی بدولت پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتا ہے۔ سید محمد قاسم کا اداریہ عصری آگہی کی عمدہ مثال ہے۔ ان کی باتیں خون بن کر رگ سنگ میں اترتی چلی جاتی ہیں۔ آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ چربہ ساز، سارق، کفن دزد اور جید جہلا جامہ ابو جہل میں ملبوس رواقیت کے داعی بن بیٹھے ہیں۔ انسانیت کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری ایسے سفہا کا وتیرہ ہے۔ مشکوک نسب کے یہ اجلاف و ارزال اپنی جہالت کا انعام پا کر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور مجبوروں کے چام کے دام چلا کر لذت ایذا حاصل کرتے ہیں۔ سید محمد قاسم کا خلوص اور دردمندی قلوب کو مسخر کرنے پر قادر ہے۔ ایسے نابغہ روزگار دانشور اقوام عالم کے لیے بہت بڑا اثاثہ ہیں۔ فروغ علم و ادب کے لیے ان کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔
ان کے قلم میں اس قدر طاقت اور مسحور کن اثر آفرینی ہے کہ گلدستہ معانی کو نئے ڈھنگ سے باندھ کر ایک پھول کا مضمون سو رنگ سے باندھنا ان کے اشہب قلم کا کمال ہے۔
منظر عارفی کا شمار عالمی ادب کے ممتاز اور نامور تخلیق کاروں میں ہوتا ہے۔ حمد اور نعت کی اصناف شعر میں ان کی تخلیقی کامرانیوں نے ان کو مقاصد کی رفعت میں ہمدوش ثریا کر دیا ہے۔ ان کے نعتیہ مجموعے ’’اللہ کی سنت ‘‘ کو سال۲۰۱۰ میں پاکستان میں منعقد ہونے والی قومی سیرت کانفرنس میں اعلیٰ ترین قومی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس شمارے میں شامل ان کا حمدیہ اور نعتیہ کلام پڑھ کر دل مرکز مہر و وفا ہو کر حریم کبریا سے آشنا ہو جاتے ہیں۔ توحید اور رسالت پر ان کا کامل ایمان اور راسخ ایقان ان کے اشعار کا امتیازی وصف ہے۔ حمد اور نعت کا ایک شعر علی الترتیب پیش ہے:
اس فضل بے پناہ پر اترا رہا ہوں میں
مالک ترا کرم ہے کہ بندہ ترا ہوں میں (حمد)
بھر پور اعتماد سے یہ کہہ رہا ہوں میں
آقا حضورﷺ آپ کا بس آپ کا ہوں میں (نعت)
منظر عارفی نے تحقیق اور تنقید کے شعبوں میں بھی اپنی خداداد صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کیا ہے۔ ان کی مدلل تحریروں سے اردو نثر کی ثروت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس شمارے میں ان کی تین بلند پایہ تحریریں شامل ہیں۔ مفسر قرآن مفتی محمد شفیع(۱۸۹۷۔۔۔ ۱۹۷۶)کی حیات و خدمات پر ان کا عالمانہ تجزیاتی مضمون سوانح نگاری کا نہایت عمدہ معیار سامنے لاتا ہے۔ پیر سید محمد شاہ محدث ہزاروی کی دینی خدمات پر منظر عارفی نے ایک تحقیقی مضمون لکھا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے دستاویزی تحقیق کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھا ہے۔ آج کے دور میں ہمارے ساتھ المیہ یہ ہو رہا ہے کہ تحقیق اور تنقید کو اردو کے کچھ نادان دوستوں نے بازیچۂ اطفال بنا کر رکھ دیا ہے۔ رومانویت اور تدوین کے نام پر وہ گل کھلائے جا رہے ہیں کہ ناطقہ سر بگریباں اور خامہ انگشت بدنداں رہ جاتا ہے۔ وہ سرقہ باز جعل ساز جنھیں پس دیوار زنداں ہونا چاہیے تھا ایسے شیخ چلی قماش کے فاتر العقل اور آسو بلا کو شیخ الجامعہ بنتا دیکھا گیا۔ منظر عارفی کی تحقیق اور تنقید نے وقت کے ایسے اعصاب شکن حادثات سے بچنے کی راہ دکھائی ہے۔ معاصرین کے بارے میں منظر عارفی کی رائے ہمیشہ بے لاگ ہو تی ہے اس کی ایک مثال سلمان عزمی کے بارے میں ان کی تعارفی نوعیت کی تحریر ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مستقبل کے جملہ امکانات سے بخوبی آگاہ ہیں اسی لیے انھوں نے سلمان عزمی کی شخصیت اور اسلوب پر کھل کر بات کی ہے۔ ایسے با ہمت اور با صلاحیت نوجوان بلا شبہ امید فردا ہیں۔
ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراق پلٹیں تو علی گڑھ تحریک اور اس سے وابستہ متعدد یگانہ روزگار فاضل اپنے افکار کی ضیا پاشیوں سے سفاک ظلمتوں کو کافور کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ علی گڑھ تحریک نے ۱۸۵۷ کی ناکام جنگ آزادی کے بعد بر صغیر کے مظلوم عوام کو مکمل انہدام سے بچا کر جو عظیم خدمت انجام دی وہ تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔ اس خطے کے تمام با ضمیر انسانوں کی گردنیں علی گڑھ تحریک سے وابستہ مشاہیر کے بار احسان سے ہمیشہ خم رہیں گی۔ ان مشاہیر میں سید سلیمان ندوی کا نام ممتاز مقام رکھتا ہے۔ ڈاکٹر سید عبدالباری سلطان پور نے اس شمارے میں سید سلیمان ندوی کے تنقیدی نظریات کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اردو تنقید کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو علامہ شبلی نعمانی کی معرکہ آرا تصنیف شعر العجم کلیدی اہمیت کی حامل قرار دی جاتی ہے۔ سید سلیمان ندوی نے اپنے استاد شبلی نعمانی کے تنقیدی نظریات سے بھر پور استفادہ کیا۔ انھوں نے اپنے عظیم استاد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علم و ادب کی شمع فروزاں رکھی اور سیرت، سوانح، تاریخ اور تنقید کو عصری آگہی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے ایک فقید المثال کارنامہ انجام دیا۔ فاضل مقالہ نگار نے سید سلیمان ندوی کے اسلوب تنقید کا جس بے لاگ انداز میں تجزیہ کیا ہے وہ لائق تحسین ہے۔ اس وقیع تنقیدی و تحقیقی مضمون کے مطالعے سے قاری سید سلیمان ندوی کی کثیر الجہات شخصیت اور متنوع اسلوب کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس مضمون کی اہمیت و افادیت مسلمہ ہے۔ مضمون کی ثقاہت کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ تذکرہ میں گل و ثمر تلاش کرنے کا سلسلہ بہت خوب ہے اس طرح خار و خس تلف کرنے میں مدد ملتی ہے۔ گلشن ادب کو لفاظ حشرات سخن کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ عالمی کلاسیک کے کارہائے نمایاں پر عمیق نگاہ ڈالی جائے۔ اس سلسلے میں تذکرہ گراں قدر خدمات انجام دے رہا ہے۔
معظم اقبال برنی کا مضمون’’ سید محمد ارتضیٰ المعروف ’’ملا واحدی‘‘اس شمارے کا ایک اور اہم مضمون ہے۔ ملا واحدی نے قریباً پانچ عشروں تک خون دل دے کر ادب میں نکھار پیدا کیا۔ سیرت، سوانح اور تاریخ کے شعبوں میں ان کی خدمات تاریخ کا ایک درخشاں باب ہیں۔ وہ افق ادب پر مثل آفتاب ضو فشاں رہے۔ زندہ قومیں اپنے مشاہیر کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ انھوں نے تخلیق ادب کو ایک علمی رویے سے تعبیر کیا۔ ان کے ادبی کمالات کے بارے میں یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ جہاں تک مواد کا تعلق ہے ان کی نوعیت اجتماعی ہے۔ ملا واحدی اجتماعی زندگی کے مسائل سے موضوعات اور مواد کشید کرتے ہیں، جہاں تک اسلوب کا تعلق ہے اسے بہر حال انفرادی نوعیت حاصل ہے۔ ملا واحدی کی شخصیت ان کے اسلوب میں واضح دکھائی دیتی ہے۔ ان کا اسلوب ان کی ذات ہے جو انھیں اپنے معاصرین سے ممتاز اور منفرد حیثیت عطا کرتا ہے۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا نام تاریخ کے طالب علموں کے لیے اجنبی نہیں۔ تاریخ میں انھیں اب کلاسیک کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ اس ابد آشنا مورخ کے اسلوب میں آفاقیت، خصوصیت اور اثر آفرینی کی جو مسحور کن کیفیت ہے وہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ انھوں نے اپنے عہد کے تمام واقعات، حالات اور معاشرتی زندگی کے جملہ ارتعاشات کو جس خلوص اور دردمندی کے ساتھ زیب قرطاس کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ڈاکٹر سید سلیمان ندوی کی اس یادگار تحریر کو انور جاوید ہاشمی نے اردو کے قالب میں ڈھا لا ہے۔ لائق مترجم نے ترجمے کو تخلیق کی چاشنی عطا کر کے فن کی بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ مجھے یہ مضمون پڑھ کر دلی مسرت ہوئی۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے تاریخ کے مسلسل عمل پر ہمیشہ اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ ہمارے ساتھ المیہ یہ رہا ہے کہ تاریخی عمل پر ہماری توجہ ہی نہیں۔ تاریخ کا ایک سبق تو یہ بھی ہے کہ تاریخ سے آج تک کوئی سبق سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ زندگی کے ساتھ بھی ایسا ہی المیہ وابستہ رہا ہے۔ بعض لوگوں کے خیال میں زندگی ایک ایسی غیر ملکی زبان کے مانند ہے جس کا صحیح تلفظ ادا کرنا کسی شخص کی دسترس میں نہیں۔ ایک زیرک مورخ کی حیثیت سے ڈاکٹر محمد حبیب اللہ نے بڑے زوروں سے اپنے آپ کو منوایا۔ ان کی جگر کاوی ان کی تحریر کے ایک ایک لفظ سے عیاں ہے۔ یہ مضمون یاد نگاری اور سوانح نگاری کے امتیاز سے حسن و خوبی کا ارفع معیار سامنے لاتا ہے۔ ڈاکٹر محمد حبیب اللہ جیساحریت فکر کا مجاہد اب کہاں ؟
تمھارے بعد کہاں وہ وفا کے ہنگامے
کوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا
تذکرہ کے اس شمارے میں منظر عارفی کے اسلوب شعر پر دو بلند پایہ مضامین شامل اشاعت ہیں۔ منظر عارفی نے اپنے چونکا دینے والے اسلوب سے ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل کی ہے۔ ایسے جری تخلیق کار کو خراج تحسین پیش کرنا بہت ضروری ہے۔ پہلا مضمون ’’گم شدہ تہذیب کا متلاشی ‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر مزمل حسین نے تحریر کیا ہے۔ ڈاکٹر مزمل حسین کا یہ تجزیاتی مضمون منظر عارفی کی شاعری کے ارضی اور ثقافتی حوالوں کی تفہیم میں بے حد ممد و معاون ہے۔ ایک وسیع المطالعہ نقاد ہونے کے ناتے ڈاکٹر مزمل حسین نے تنقید کے جدید ترین اصولوں کی روشنی میں منظر عارفی کے اسلوب کا نہایت کامیاب اور دلنشیں تجزیہ پیش کیا ہے۔ دوسرا مضمون ’’نپی تلی شاعری کا شاعر ‘‘ کے عنوان سے مایہ ناز نقاد ڈاکٹر عزیز انصاری نے تحریر کیا ہے۔ اس مضمون میں محترم ڈاکٹر عزیز انصاری نے انگریزی ادب اور فرانسیسی تنقیدی نظریات کو رو بہ عمل لاتے ہوئے ساختیات اور پس ساختیات کے اصولوں کو ملحوظ رکھا ہے۔ اس طرح یہ مضمون جدید ادب کے طالب علموں کے لیے فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرتا چلا جاتا ہے۔ یہاں مناسب ہو گا کہ منظر عارفی کے چند اشعار درج کر دیئے جائیں تا کہ قارئین اس قادر الکلام شاعر کے بلند پایہ اور منفرد اسلوب کا استحسان کر سکیں :
اک خاص زاویے سے ہمیں سوچنا یہ ہے
انسانیت کے ہاتھ سے کیا کچھ نکل گیا
کیا بلا خیز ہے یہ شہر جہاں حال یہ ہے
خون کا گھونٹ نہیں خون پیا جاتا ہے
اہلِ تحقیق مری قوم سے آ کر سیکھیں
وقت کس طرح فرا موش کیا جاتا ہے
کبھی دل کو خون کر کے، کبھی دم غبار کر کے
میں سنوارا جا رہا ہوں، رگِ جاں فگار کر کے
مرا اختیار لے کر۔ مجھے آزمانے والے
کبھی امتحاں سے گزریں، مجھے اختیار کر کے
مجھ کو جینے سے بہت دور نہ کر دیں حالات
خود کشی پر مجھے مجبور نہ کر دیں حالات
یہ بھی ممکن ہے اسے ذہن میں رکھیے ہر دم
دفعتاً مجھ کو مسرور نہ کر دیں حالات
تہمتیں جبکسی کے سر رکھنا
اپنے دامن پہ بھی نظر رکھنا
گفتگو میں کوئی مقابل ہو
اپنے لہجے کو معتبر رکھنا
ہجرتوں کا عذاب کیوں سہتے
خود کو ہوتا جو در بدر رکھنا
سید محمد قاسم نے اس شمارے میں ایک اہم مضمون میں ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاسگنجوی کی شخصیت اور اسلوب فن پر مدلل انداز میں اظہار خیال کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاسگنجوی کا شمار عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز پاکستانی ادیبوں اور دانشوروں میں ہوتا ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ لطیف آباد حیدرآباد سندھ میں مقیم اردو زبان و ادب کے اس بے لوث خادم نے تخلیق ادب میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں جن کا پوری دنیا میں اعتراف کیا گیا ہے۔ وہ گزشتہ نصف صدی سے پرورش لوح و قلم میں مصروف ہیں۔ تیس کے قریب وقیع تصانیف کے ذریعے انھوں نے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ کیا ہے۔ یہ مضمون سپاس گزاری کی عمدہ مثال ہے۔ تاریخ ہر دور میں ایسے نابغہ روزگار ادیب کے نام کی تعظیم کرے گی۔
حسن حمیدی نے ۱۹۳۶ کی ترقی پسند تحریک کے تناظر میں حریت ضمیر سے جینے کی راہ دکھائی۔ سید محمد مہتاب عالم نے اپنے مضمون میں حسن حمیدی کی شخصیت اور اسلوب شعر کو موضوع بنایا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے پاکستانی قوم کو جن لرزہ خیز اعصاب شکن حالات سے گزرنا پڑا ہے ان کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ظالم و سفاک، موذی و مکاراستحصالی طبقے نے اپنے مکر کی چالوں سے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ چور محل میں پروان چڑھنے والے سانپ تلے کے بچھو، آسو بلا قماش کے جید جاہل اور شباہت شمر جیسی رذیل طوائفیں زندگی کی اقدار عالیہ اور انسانیت کے در پئے آزار ہیں۔ ایسے ننگ انسانیت بے غیرت اور بے ضمیر وحشیوں نے رتیں بے ثمر، آہیں بے اثر، کلیاں شرر، زندگیاں پر خطر، عمریں مختصر اور آبادیاں خوں میں تر کر دی ہیں۔ حسن حمیدی کی شاعری ضمیر کی للکار اور حریت فکر و عمل کے لیے جہد و عمل کی پیکار ہے۔ جس معاشرے میں جاہل کو اس کی جہالت کا انعام مل جائے، جامۂ ابو جہل میں ملبوس شیخ چلی قماش کا ناصف بقال شیخ الجامعہ کے منصب پر غاصبانہ قبضہ کر لے اور یہ فاتر العقل، مخبوط الحواس جنسی جنونی رواقیت کا داعی بن بیٹھے وہاں زندگی کی رعنائیاں گہنا جاتی ہیں۔ ایسے عالم میں بے بس و لاچار انسانیت اپنے ارمانوں کی لاش اپنے ہی کاندھوں پر اٹھائے افتاں و خیزاں شاہراہ حیات پر اپنا سفر جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔ ہیں۔ مسلسل شکست دل کے باعث ایک مستقل نوعیت کی بے حسی نے ہر شعبہ زندگی پر اپنے مسموم اثرات مرتب کیے ہیں۔
ادبی مجلہ تذکرہ نے مکتبی تنقید کے فرسودہ تصورات کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے اور مکتبی نقادوں کے بے سروپا خیالات کے تار عنکبوت سے گلو خلاصی کی مقدور بھر کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تذکرہ میں کثیر المعنویت کا مسحور کن کرشمہ قلب و نظر کو مسخر کر لیتا ہے۔ نامور فرانسیسی نقاد رولاں بارتھ نے کہا تھا:
’’مکتبی تنقید متن کے صرف متعینہ معنی کو صحیح سمجھتی ہے اور نہایت ڈھٹائی سے اس پر اصرار کرتی ہے۔ متعینہ معانی تو صرف لغوی ہو سکتے ہیں اور ادب میں اکثر و بیشتر بیہودگی کی حد تک غلط ہوتے ہیں۔ ‘‘(بحوالہ پروفیسر ڈاکٹر غلام شبیر رانا: اردو تحقیق پر ایک نظر، سہ ماہی صحیفہ، لاہور، دسمبر ۲۰۰۵، شمارہ ۱۸۳، صفحہ۵۔ ‘‘
مکتبی نقادوں کی واقفیت محدود، خیالات مسروقہ اور ذہنی سطح قابل رحم حد تک پست ہوتی ہے یہ لوگ سادیت پسندی اور ادعائیت کا شکار ہو کر بزعم خود قادر مطلق بن بیٹھتے ہیں۔ جب تک ان کی فرعونیت، آمریت اور جہالت کو تہس نہس نہ کر دیا جائے اس وقت تک فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم دیکھنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ تذکرہ نے حریت فکر اور جرأت اظہار کی جو فقید المثال روایت اپنائی ہے، وہ ہر اعتبار سے قابل قدر ہے۔ جدید اردو ادب کے قارئین کے لیے یہ بانگ درا قرار دی جا سکتی ہے۔
سید مہتاب عالم نے جس دردمندی اور خلو ص کے ساتھ حریت فکر کے عظیم مجاہد حسن حمیدی کی شخصیت اور اسلوب کو موضوع بحث بنایا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ یہ مضمون اسلوبیاتی تنقید کی عمدہ مثال ہے۔ حسن حمیدی نے ہوائے جور و ستم میں بھی رخ وفا بجھنے نہ دیا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ کاروان حسینؑ کو ہمیشہ سے صعوبتوں کا سفر درپیش رہا ہے۔ جب کہ وقت کے نمرود، یزید، ہلاکو خان، ناصف بقال خان، صباحتو کمر اور رنگو قماش کے ساتا روہن اور سفہا ہر دور میں کوڑے کے ڈھیر سے جاہ و منصب کی ہڈیاں سونگھتے پھرتے ہیں۔ جب یہ خارش زدہ سگان راہ اور مشکوک نسب کے کرگس عقابوں کے نشیمن میں گھس جاتے ہیں تو غریبوں کی امیدوں کی فصل غارت اور صبح و شام کی محنت اکارت کر دیتے ہیں۔ یہ متفنی سیل زماں کے تھپیڑوں کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں اور فطرت کی تعزیروں کو بھی لائق اعتنا خیال نہیں کرتے۔ حسن حمیدی کی شاعری خلوص اور دردمندی کے جذبات سے مزین ہے۔ وہ تیشۂ حرف سے فسطائی جبر کے ایوان کی بنیادوں کو منہدم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تاریخ کل کسی کا حوالہ تو دے سکے
جو بات کہہ رہے ہو وہی بات لکھ تو لو
یارو سرِورق پہ مرا نام مت لکھو
تحریر بولتی ہے کہ تحریر کس کی ہے
یہ قتل گاہوں کے دامن پہ جگمگاتا لہو
یہ شاہراہ وفا پر قدم بڑھاتا لہو
میرا شیوہ تو فقط خواب ہے حسن
صرف زنجیر کی آواز جگا دیتی ہے
ہر اک سحرصرف ایک خواہش نے آنکھ کھولی
کسی کے چہرے پہ اب نہ گرد ملال دیکھیں
اپنے ناموں کو بھی پوشیدہ رکھا
کتنے آ زا د قلم ہیں ہم تم
مجھے یقیں نہیں اس دور کج کلاہی میں
ابھی جو بیٹھا تھا میرے قریب زندہ ہے؟
کہاں پہ رشتۂ دیوار میں الجھے ہو
قفس تو اپنے مکینوں کو جانتا بھی نہیں
شا ید اس بار پرندوں کا ہجوم
سنگ ریزوں سے نہ برہم ہو گا
تذکرہ میں شامل تنقیدی مضامین اپنی نوعیت کے اعتبار سے امتزاجی تنقید کا ارفع ترین معیار پیش کرتے ہیں۔ یہ مجلہ معاصر ادبی تنقید کے جملہ امکانات کا امین ہے۔ ممتاز علی نے ’’پٹنہ یونیورسٹی: ایک دلچسپ مطالعہ ‘‘کے عنوان سے اس جامعہ کے شب و روز پر نظر ڈالی ہے۔ جی خوش ہوا کہ پٹنہ یونیورسٹی میں زندگی کی اقدار عالیہ کو پروان چڑھانے کی مساعی جمیلہ رنگ لا رہی ہیں۔ پاکستان میں پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیاں متعدد مسائل کا شکار رہی ہیں۔ جی۔ سی۔ یونیورسٹی فیصل آباد میں ایک جید جاہل فلسفی نے (۲۰۰۲تا ۲۰۰۶)شیخ الجامعہ بننے کے بعد جو گل کھلائے اس پر تہذیب و شائستگی، اخلاقیات اور قوانین آج تک سر بگریباں ہیں۔ اس ایک شخص(ڈاکٹر آصف اقبال خان)نے پوری جامعہ کو یرغمال بنا کر مجبوروں اور مظلوموں کے چام کے دام چلائے۔ اور ایک تاریخی مادر علمی کو عقوبت خانے، چنڈو خانے، قحبہ خانے اور بیگار کیمپ میں بدل دیا۔ متعدد نابغہ روزگار دانشور اس کینہ پرور شخص کی بے رحمانہ مشق ستم اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کی بھینٹ چڑھ کر در بدر اور خاک بسر کر دئیے گئے۔ اس فرعون کے غاصبانہ دور اقتدار میں اسے جرنیلی بندوبست کے تحت مکمل تحفظ حاصل تھا۔ دہشت گردوں، انڈر ورلڈ(Under World)اور ڈرگ مافیا کے بل پر اس ابلیس نژاد نے جن گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کیا اخبارات کے صفحات ان سے بھرے پڑے ہیں، مگر جہاں جنگل کا قانون نافذ ہو وہاں مظلوم اور درویش کی فغاں کون سنتا ہے؟اس المیے کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر منظور حسین سیالوی اکثر محسن بھو پالی کے یہ شعر پڑھا کرتے تھے:
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
’’ خاک میں پنہاں صورتیں ‘‘ تذکرہ کا ایک مستقل سلسلہ ہے۔ ہماری محفل شعر و ادب کے وہ ہم نفس جو اس عالم آب و گل سے تو چلے گئے مگر ہمارے دل کے نہاں خانے میں آج تک ان کے افکار کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ہم مٹی میں چراغ رکھ دیتے ہیں تا کہ زمیں کے اندر کی ہولناک تاریکی دور ہو۔ کتنے آفتاب و ماہتاب ہمارے دیکھتے دیکھتے قبروں میں سما گئے، چاند چہرے شب فرقت پر وار دئیے گئے۔ تقدیر قدم قدم پر انسانی تدبیر کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔ رخش عمر مسلسل رواں دواں ہے ہم اس قدر بے بس ہیں کہ نہ تو ہمارا ہاتھ باگ پر ہے اور نہ ہی پا رکاب میں ہے۔ کیسے کیسے گنج ہائے گرا ں مایہ اس لئیم خاک کی نذر ہو گئے۔ سید محمد قاسم نے اس وقیع حصے میں داغ مفارقت دینے والے ادیبوں کو یاد کیا ہے۔یاد رفتگاں کا یہ سلسلہ اثر آفرینی کے لحاظ سے بے مثال ہے۔ سید محمد قاسم نے اپنے ایک اور تحقیقی مقالے میں کراچی کے ایک سو سولہ (116) مرحوم نعت گو شعرا کی یادوں کو نہایت دلنشیں انداز میں سمیٹا ہے۔ ان کی تحریر کا ایک ایک لفظ روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہے۔ یہ سب وہ نام ہیں جن کے افکار کی ضیا پاشیوں سے اکناف ادب کا گوشہ گوشہ بقعۂ نور بن گیا۔ آج یہ قبر کے اندر کہیں تہہ ظلمات پڑے ہیں ان کی یاد تازہ کر کے فاضل مقالہ نگار نے ایک عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔
سید محمد قاسم کی تحریریں قاری کے روح کی تفسیریں بن جاتی ہیں۔ انھوں نے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رخت سفر باندھنے والے ادیبوں، شاعروں اور دانش وروں کو جس خلوص اور دردمندی کے ساتھ یاد کیا ہے وہ ان کی عظمت فکر، انسانی ہمدردی اور علم و ادب کے ساتھ والہانہ وابستگی کا ثبوت ہے۔ ان دونوں مضامین کو ایک بنیادی ماخذ کے طور پر صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔ مستقبل کا محقق ان مآخذسے استفادہ کر کے مطالعۂ احوال کو وسعت دے سکے گا۔ معاصرین کے متعلق تمام حقائق کو جمع کرنا اور ان کی جانچ پرکھ کرنا ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ سیدمحمد قاسم نے ادیبوں کی شخصیت، اسلوب اور زندگی کے تمام مراحل پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں نفسیاتی، جمالیاتی اور عمرانی پہلوؤں کو خاص طور پر پیش نظر رکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ تخلیقی عمل میں تناظر کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ جب کسی تخلیق کا مطالعہ تخلیق کار کے اسوب اور اس کی شخصیت کے تناظر میں کیا جاتا ہے تو گنجینۂ معانی کے طلسم کی گرہ کشائی کے امکانات روشن تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دریدا کا خیال تھا:
Meaning is context but context is boundless
تذکرہ مجموعی طور پر ایک جامع اردو مجلہ ہے۔ اس میں شامل تمام تحریریں معیار و وقار کی رفعت سے آشنا ہیں۔ سید محمد قاسم، انور جاوید ہاشمی اور منظر عارفی نے جس محنت اور جگر کاوی سے کام لیتے ہوئے اس مجلے کو نکھار عطا کیا وہ قابل تعریف ہے۔ شاعری اور قارئین کے مکاتیب کا حصہ بھی بھر پور ہے۔ اس مجلے کے قلمی معاونین میں دنیا کے نامور ادیب شامل ہیں۔ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے اس وقت جو کام ہو رہا ہے اس میں مزید اضافے کی ضرورت ہے۔ اردو کے تمام مجلات کو انٹرنیٹ پر پیش کیا جانا چاہیے۔ میری معلومات کے مطابق اس وقت جو ادبی مجلات انٹرنیٹ پر آن لائن قاری کے مطالعہ کے لیے دستیاب ہیں ان میں علی گڑھ یونیورسٹی کا علمی و ادبی مجلہ ’’دیدہ ور‘‘، الاقربا اسلام آباد، ادب لطیف لاہور اور منشور کراچی قابل ذکر ہیں۔
فروغ علم و ادب کے حوالے سے اردو کے ادبی مجلات نے ہر عہد میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ آج کا دور سائنس اور ٹیکنالوجی کے عروج کا دور ہے۔ ادبی مجلات کو عالمی سطح کے سرچ انجن مثال کے طور پر یاہو(Yahoo) اور گوگل(Google)کے تعاون سے اردو کی یادگار تحریریں انٹرنیٹ پر ضرور پیش کرنی چاہییں۔ چند روز قبل مجھے یو ٹیوب(Youtube)پر مضامین پطرس سننے کا موقع ملا۔ یہ مضامین نامور صداکار ضیا محی الدین کی آواز میں پیش کیے گئے ہیں اسی طرح اردو لائف نے بھی اردو کے عظیم شعرا کا کلام ان کی اپنی آواز میں ویڈیو(Video)کی صورت میں پیش کر کے قابل قدر کارنامہ انجام دیا ہے۔ تذکرہ کی اشاعت سے اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں بے پناہ مدد ملی ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر سے ممتاز اہل قلم کی وقیع آراء اور مکاتیب اس مجلے کی زینت بنے ہیں۔ قارئین کے خطوط صحت مند تنقید کی عمدہ مثال ہیں۔ حصہ منظومات اس مرتبہ بھی حسب سابق بھر پور ہے۔ حمد، نعت اور غزل کا یہ حسین گلدستہ پڑھ کر اس کی مہک سے قریۂ جاں معطر ہو گیا۔ عالمی معیار کا یہ مجلہ دیکھ کر دلی مسرت ہوئی۔
آج کے دور میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ انسانیت کے وقار اور سربلندی کو ہر صورت میں مقدم قرار دیا جائے۔ انسانی آزادی دراصل آزادیِ تحریر کی مرہون منت ہے۔ فسطائی جبر کی بے رحمانہ مشق ستم کے باعث آج کا تخلیق کار شدید کرب و اضطراب میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ اندھیر نگری کے کالے قوانیں اور اس پر طرفہ تماشا یہ کہ سائیں سائیں کرتے جنگل کی مہیب فضا میں متاع لوح و قلم چھین لینے کی مذموم کوششیں جاری رہتی ہیں۔ ان لرزہ خیز حالات میں تخلیق کار الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے پر مجبور ہے۔ اس کے باوجود صبح پرستوں کی ہمیشہ سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ وہ یا تو ہاتھوں میں قلم تھام کر اور خون دل میں انگلیاں ڈبو کر ید بیضا کا معجزہ دکھاتے ہیں یا شقی القلب فراعنہ کو چیلنج کرتے ہیں کہ اگر ان میں قوت ہے تو ان کے ہاتھ قلم کر دیں اس مقتل میں حریت فکر کے مجاہدوں کی سوچ ایک سدا بہارلہکتی ڈال کے مانند ہے۔ تذکرہ کے قلمی معاونین کی تحریریں پڑھ کر دلی مسرت ہوئی کہ ان جلیل القدر ادیبوں نے لفظ کی حرمت کو ہر حال میں ملحوظ رکھا ہے۔ مظلوم، محروم اور مجبور انسانیت سے عہد وفا استوار رکھنا ہی علاج گردش لیل و نہار ہے۔ یہ ہر با ضمیر ادیب کا مطمح نظر ہونا چاہیئے کہ ہر آزمائش میں حرف صداقت لکھ کر عظمت انسان کا اقرا کیا جائے گا۔ بہ قول احمد ندیم قاسمی:
کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بہ جز اذن کلام
ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں
لمحہ بھر کو لبھا جاتے ہیں نعرے لیکن
ہم تو اے اہل وطن درد وطن مانگتے ہیں
٭٭٭
دیس بنا پردیس : سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
پاکستانی نژاد جاپانی شہری ناصر ناکا گاوا کا سفر نامہ ’’دیس بنا پردیس ‘‘ان دنوں علمی و ادبی حلقوں کی توجہ اور دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس سفر نامے کی مقبولیت اور پذیرائی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا پہلا ایڈیشن سال2012میں شائع ہوا۔ قارئین ادب نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور صرف ایک سال کے بعد یعنی سال 2013کے اوائل میں اس کا دوسرا ایڈیشن ما ورا پبلشرز، لاہور کے زیر اہتمام نئی آب و تاب کے ساتھز یور طباعت سے آ راستہ ہو کر منصۂ شہود پر آیا۔ اس کتاب کو محض سفر نامہ نہیں بل کہ اس کے ساتھ ساتھ مسافر نامہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں اپنے تجربات، مشاہدات، تاثرات اور قلبی واردات کو اس خلوص کے ساتھ الفاظ کے قالب میں ڈھالا ہے کہ قاری اسلوب کی قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر کر مسحور کر دینے والی اثر آفرینی کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ مصنف نے قلم تھام کر ید بیضا کا معجزہ دکھایا ہے۔ منفرد اسلوب کے ذریعے اشہب قلم کی جولانیاں اس انداز میں دکھائی گئی ہیں کہ یہ کتاب ایک جام جہاں نما کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ قاری کتاب ہاتھ میں لے کر مطالعہ کے دوران پاکستان، جاپان، پیکنگ، متحدہ عرب امارات، ملائیشیا اور دنیا کے متعدد اہم مقامات کی چہل پہل کا احوال چشم تصور سے دیکھ لیتا ہے۔ وطن سے دوری کا احساس اس حساس تخلیق کار کے رگ و پے میں سرایت کر گیا ہے۔ وطن اور اہل وطن سے والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کا جو معیار اس کتاب کے اسلوب میں جلوہ گر ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ زندگی کی اقدار عالیہ کو جس درد مندی کے ساتھ اس کتاب میں سامنے لانے کی سعی کی گئی ہے وہ قاری کے فکر و خیال کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ہے۔ اسلوب کی ہمہ گیر اثر آفرینی کے اعجاز سے ان درخشاں اقدار و رایات کو اجتماعی زندگی کے جملہ امور پر منطبق کرنے کی کوشش نے اس سفر نامے کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔ وطن سے دور رہتے ہوئے بھی مادر وطن سے ٹوٹ کر محبت کرنا ااور پرورش لوح و قلم کے دوران قومی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے قومی مفادات، ملی وقار، ارضی و ثقافتی اقدار پر اپنی توجہ مرکوز رکھنا ایک تخلیق کار کا اہم فرض ہے۔ ناصر ناکاگاوا 3۔ ستمبر 1964کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ جامعہ کراچی سے معاشیات میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی اس کے ساتھ ہی بی۔ کام بھی کیا۔ کچھ عرصہ پاکستان میں ہٹاچی ٹیلی ویژن اور لیور برادرز میں ملازمت کی اس کے بعد 1988میں بیرون ملک قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور قرعۂ فال جاپان کا نکلا۔ تب سے مستقل طور پر جاپان میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ جاپان ہی میں ایک جاپانی خاندان میں شادی کی اور وہیں گھر بسا لیا۔ اس عرصے میں پاکستان کی قومی زبان، تہذیب و ثقافت، سماجی، معاشرتی اور ملی مسائل کے بارے میں وہ ہمیشہ کھل کر لکھتے رہے ہیں۔ اردو نیٹ جاپان کا اجرا ان کی کاوشوں کا ثمر ہے جہاں دنیا کے نامور ادیب، محقق، نقاد اور ممتاز دانش ور اپنی تخلیقات اور تجزیاتی مطالعات کے ذریعے قارئین میں مثبت شعورو آ گہی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ جاپان میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کچھ اور ویب سائٹس بھی مصروف عمل ہیں جو کہ ایک مستحسن کام ہے۔ وطن سے دوری کا احساس مصنف کے اسلوب میں نمایاں ہے اس کا اندازہ ان دو اشعار سے لگایا جا سکتا ہے جو اس سفر نامے کے بیک کور پر شائع ہوئے ہیں۔
کون چھوڑے ہے میرے دوست وطن کی مٹی کو
بعد مرنے کے یہیں خاک نہ ہو جاؤں کہیں
کم پڑ گئی ہے جاپان میں دفن کی جگہ
سزائے جلا وطنی میں یہیں راکھ نہ ہو جاؤں کہیں
سچی بات تو یہ ہے کہ حب وطن تو ملک سلیمان سے بھی کہیں زیادہ دلکش و حسین ہوتی ہے اور وطن کا تو کانٹا بھی سنبل و ریحان اور گلاب و یاسمین سے بڑھ کر عطر بیزی کا احساس دلاتا ہے۔ مادر وطن سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے اس تخلیق کار کے خیالات زندگی کے حقائق کے آئینہ دار ہیں۔ وطن سے دوری کا احساس ایک ایسا کرب ہے جسے وہی محسوس کر سکتے ہیں جو اس تلخ تجربے سے گزرتے ہیں۔ اسی احساس کو حفیظ جون پوری نے ایک شعر میں نہایت پر تاثیر انداز میں بیان کیا ہے :
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
بیرون ملک روزگار کی تلاش میں جانے والے اپنے وطن کو ہر لمحہ یاد رکھتے ہیں۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہیں سے آب خنک کا وہ شیریں چشمہ پھوٹا تھا جس سے سیراب ہو کروہ پروان چڑھے۔ ان کے والدین نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر انھیں بیرون ملک روانہ کیا۔ ناصر ناکا گاوا کے اسلوب میں ارض وطن کی محبت کا ایک دلکش روپ موجود ہے۔ مصنف کے منفرد اسلوب کے اعجاز سے تحریر میں سادگی، سلاست، خلوص و درد مندی اور بے تکلفی کی جو فضا ہے وہ قاری کو ایک جہان تازہ میں لے جاتی ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں جب کہ ہوس نے نوع انساں کو فکری انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے تہذیبی اور ثقافتی اقدار کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ان مسموم حالات میں فکر و خیال اور جذبات واحساسات میں برق رفتار تغیر و تبدل کا ایک غیر مختتم سلسلہ چل نکلا ہے۔ تخلیق فن کے لمحوں میں ایک زیرک تخلیق کار ان تمامامور کے بارے میں قارئین کو اپنی فکر پرور بصیرت افروز تحریروں سے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس کا وجود ستارۂ سحر کے مانند ہے جسے دیکھ کر رہروان منزل اپنے راستے کا تعین کرتے ہیں۔ یہ سفر نامہ دور جدید میں بدلتے ہوئے معاشرتی نظام کے پورے منظر نامے کی تصویر کشی کرتا ہے۔ لطافت اظہار اور جدت تخیل کا جو بلند معیار اس سفر نامے میں جلوہ گر ہے وہ اسے اردو ادب کے نمائندہ سفر ناموں میں شامل کرتا ہے۔ اس سفر نامے میں وطن سے محبت کا جو ارفع ترین معیار نظر آتا ہے وہ قارئین ادب کے دلوں کو ایک ولولۂ تازہ سے آشنا کرنے کا موثر وسیلہ ہے۔ راہ طلب میں گھر سے دور جانے والے تو وطن سے دور چلے جاتے ہیں لیکن ان کے ضعیف والدین کی شکستہ پائی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ دام غم حیات میں الجھے یہ ناتواں لوگ جو چراغ سحری کے مانند ہیں گرد ش تقدیر کا مشاہدہ کرتے کرتے مجبوریوں کے چیتھڑے اوڑھے لرزاں ہاتھوں میں عصا تھامے نشیب زینۂ ایام سے اتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رخت سفر باندھ لیتے ہیں۔ بے تیشۂ نظر ان رفتگاں کی راہ دیکھنا بعید از قیاس ہے۔ اندھیروں کی دسترس سے دور یہ لو گ سدا روشنی کے مانند سفر میں رہتے ہیں اور ان کے دم سے دنیا کی زینت ہے۔ امریکہ میں مقیم پاکستانی شاعر افتخار نسیم نے وطن سے دوری کے احساس کے بارے میں اپنے خیالات کو نہایت دردمندی اور خلوص کے ساتھ ان اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے۔ نوجوان اولاد کی گھر سے روانگی کے وقت ماؤں کے دل پر کیا گزرتی ہے اس کا اندازہ اہل درد ہی لگا سکتے ہیں۔ دعائے نیم شب میں اپنے پیارے بیٹوں کو یا رکھنے والی مائیں بیٹوں کے بیرون ملک جانے کے بعد اپنی تنہائیوں سے سمجھوتہ کر کے خالی گھر کوحسرت بھری نگاہ سے دیکھتی ہیں اور ان کی سلامتی کے لیے مسلسل دعائیں مانگتی رہتی ہیں :
طاق پر جز دان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں
چل دئیے بیٹے سفر پہ گھر میں مائیں رہ گئیں
ناصر ناکا گاوا نے یہ سفر نامہ اپنے خون جگر سے تحریر کیا ہے۔ مطالعہ کے دوران ہر سطر پر اس تخلیق کار کی حب الوطنی، خلوص، دردمندی اور انسانی ہمدردی کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ بیرون ملک سیاحت کے دوران وہ جس مقام پر بھی پہنچے ، وہاں وطن کی یاد ضرور آتی ہے۔ اس کے ریشے ریشے میں ارض وطن کی محبت سما چکی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وطن کے گوٹھ گراں، شہر اور گلی کوچے اسے اپنی طرف بلا رہے ہیں۔ افتخار نسیم نے سچ کہا تھا :
اداس بام کھلا در پکارتا ہے مجھے
جلاوطن ہوں میرا گھر پکارتا ہے مجھے
گزشتہ نصف صدی کے دوران اردو کے ممتاز تخلیق کاروں نے شعر و ادب کو متعدد نئی جہتوں اور اسالیب سے آشنا کیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے عروج کے موجودہ زمانے میں دنیا نے ایک گلوبل ویلج (Global Village) کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اردو سفر نامہ نے جو ارتقائی سفر طے کیا ہے اس پر ایک نگاہ ڈالنے سے اس صنف کی مقبولیت کا احساس ہوتا ہے کہ اس میں کیسے کیسے جو ہر قابل معجزۂ فن سے فکر و نظر کو مہمیز کر تے رہے ہیں۔تاریخ ادب کے حقائق کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اٹھارہویں صدی عیسوی کے آخری عشرے تک بر عظیم کے بہت کم لوگ بیرونی ممالک کے سفر پر روانہ ہوئے۔ اس سے قبل اگر کوئی مقامی باشندہ بیرونی ممالک کے سفر پر روانہ ہوا تو اس نے اپنے سفر کی یادداشتوں کو فارسی زبان میں تحریر کیا۔ ان یادداشتوں کو بر عظیم میں سفر نامہ نگاری کے ابتدائی رجحانات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اردو کے پہلے سفر نامہ نگار یوسف خان کمبل پوش کا آبائی وطن حیدر آباد دکن تھا۔ بچپن ہی سے وہ ایک سیلانی مزاج کا مالک تھا۔ وہ بچپن ہی سے سیر وسیاحت کا دلدادہ تھا اس نے ملک کے اندر پہلا سفر 1828میں کیا۔ اس کے بعد اس نے بیرون ملک دنیا دیکھنے کا فیصلہ کیا اور پھر اس پر عمل بھی کیا۔ انیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں ’’عجائبات فرنگ ‘‘کے نام سے جو سفر نامہ لکھا اسے اردو کا پہلا سفر نامہ سمجھا جاتا ہے۔ 30مارچ 1870کو بحری جہاز کے ذریعے اپنے بیرون ملک سفر پر روانگی کے وقت یوسف خان کمبل پوش اردو ادب میں صنف سفر نامہ کے ارتقا کی جانب ایک اہم پیش رفت کا آغاز کر رہا تھا۔ اس کا یہ سفر اردو سفر نامے کے ارتقا میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نے پیرس، لزبن، جبرالٹر، مالٹا، مصر اور سیلون کا سفر کیا۔ اس سیاحت کے اعجاز سے اس کے خیالات میں جو وسعت پیدا ہوئی اس نے اس تخلیق کار کے فکر و نظر کیا کایا پلٹ دی۔ اپنے اس سفر سے واپسی کے بعد جب وہ بمبئی پہنچا تواس کی دلی خواہش تھی کہ وہ بر عظیم کے محکوم اور مظلوم باشندوں کو آزاد دنیا کے بارے میں اپنے تجربات، مشاہدات، تاثرات اور مطالعات سے آ گاہ کرے، چنانچہ اس نے اپنے سفر کی یادداشتوں کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ یوسف خان کمبل پوش نے سب سے پہلے اپنے سفر کی یادداشتوں کو فارسی زبان میں تحریر کیا لیکن فارسی زبان میں لکھے گئے اس سفر نامے کی اشاعت کی نوبت نہ آ سکی۔ اس زمانے میں اردو زبان پڑھنے اور لکھنے والوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا تھا، اس لیے یوسف خان کمبل پوش نے قارئین کے ذوق سلیم کا احساس کرتے ہوئے اپنے سفرکی تمام یادداشتوں کو اردو زبان میں از سر نو تحریر کیا۔ یوسف خان کمبل پوش کا لکھا ہوا اردو کا یہ پہلاسفر نامہ پہلی بار ’’تار یخ یوسفی ‘‘ کے نام سے 1847میں مکتبہ العلوم دہلی کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ قارئین ادب نے اس سفر نامے کی بہت پذیرائی کی۔ قارئین ادب کے لیے اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ پہلی اور انوکھی کتاب تھی جس میں مصنف نے اپنی لفظی مرقع نگاری اور اسلوب بیاں سے سماں باندھ دیا تھا۔ اردو کے اس پہلے سفر نامہ نگار کا یہی سفر نامہ دوسری بار مکتبہ نول کشور کے زیر اہتمام ’’عجائبات فرنگ ‘‘ کے نام سے 1873میں شائع ہوا۔ اسے بھی توقع کے عین مطابق قارئین نے بہ نظر تحسین دیکھا۔ اردو ادب میں صنف سفر نامہ کو بہت مقبولیت نصیب ہوئی۔ اردو میں پہلی خاتون سفر نامہ نگار عطیہ فیضی ہیں۔ انھوں نے 1906میں حصول علم کے سلسلے میں برطانیہ کا سفر کیا۔ ایک سال بعد جب وہ اپنی تعلیم مکمل کر نے کے بعد واپس آئیں تو اپنی یادداشتوں کو ’’روزنامچہ ‘‘کے عنوان سے مرتب کیا جو مجلہ ’’تہذیب النسواں ‘‘لاہور سے اگلے سال شائع ہوا۔ اس کے بعد عطیہ فیضی کا یہ سفر نامہ 1921میں ’’زمانۂ تحصیل ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ آج سفر نامہ اردو ادب کی ایک مقبول صنف ہے لیکن اس صنف ادب کے بنیاد گزاروں کے نام یاد رکھنا بھی ضروری ہے۔ اردو کے ممتاز شاعر رام ریاض (ریاض احمد شگفتہ )نے کہا تھا :
کس نے پہلا پتھر کاٹا پتھر کی بنیاد رکھی
عظمت کے سارے افسانے میناروں کے ساتھ رہے
یوسف خان کمبل پوش سے لے لے کر لمحۂ موجود تک اردو میں سفر نامے(Travelogue) نے ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ناصر ناکاگاوا کا سفر نامہ’’دیس بناپردیس‘‘ اسی روایت کا تسلسل ہے۔ نثر میں دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرنے والی یہ صنف ادب قارئین میں بہت مقبول ہے۔ اس میں زبان کی لطافت اور مشاہدے کی قوت سے بیرون ملک اقوام کے رہن سہن اور تہذیب و معا شرت کے بارے میں مصنفین ذہنی پختگی کے ساتھ وہاں کی منظر کشی کرتے ہیں تا کہ قارئین کو معقولیت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی صورت دکھائی جا سکے۔ زندگی کا سفر بھی ایک ایسا سفر ہے جس کی تفہیم پر کوئی بھی قادر نہیں۔ زندگی کی مثال سیل رواں کی تیز موجوں کی سی ہے۔ کوئی بھی شخص اپنی شدید تمنا اور انتہائی کوشش کے با وجود سیل زماں کی گزر جانے والی لہروں کے لمس سے دوبارہ فیض یاب نہیں ہو سکتا۔ انسان دنیا میں اپنی مسافت تو کسی نہ کسی طرح کاٹ لیتا ہے لیکن صبر آزما مسافت کے دوران اس کی روح زخم زخم ہو جاتی ہے اور پورا وجود کرچیوں میں بٹ جاتا ہے۔ اسے کیا خبر کہ زندگی کے اس سفر کے اختتام پر سفر کی دھول ہی اس کا پیرہن بنے گی۔ سفر نامے کے مطالعہ سے قاری پر یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا کس سمت جا رہی ہے اس لیے ہو اکا رخ پہچان کر اپنی زندگی کی مسافت کو مفید بنایا جائے۔ اس طرح ذہن و ذکاوت اور فہم و ادراک کی کسوٹی پر ان حقائق کو پر کھا جائے جو ان سفر ناموں میں پیش کیے گئے ہیں۔ یہ سفر نامے قاری کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیات پر دوررس اثرات مرتب کرتے ہیں۔ بیرونی دنیا کے حالات کے بارے میں جیسے جیسے قاری کی معلومات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اسی رفتار سے وہ زندگی کے حقائق کی گرہ کشائی پر قدرت حاصل کرتا چلا جاتا ہے’’دیس بنا پردیس ‘‘میں مصنف نے اس حقیقت کی جانب توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک کا زندگی کے حقائق کے بارے میں رویہ عصری تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اردو میں لکھے جانے والے کئی سفر ناموں میں اس جانب متوجہ کیا گیا ہے۔ اردو میں جن ممتاز ادیبوں نے سفر نامے لکھ کر اردو ادب کی ثروت میں اضافہ کیا ہے ان میں سے کچھ اہم نام درج ذیل ہیں :
آصف محمود، اعجاز مہاروی، اے۔ بی اشرف ڈاکٹر، احمد شجاع پاشا، امجد ثاقب، ابن انشا، امجد اسلام امجد، بشریٰ رحمٰن، تقی عثمانی، جمیل الدین عالی، حکیم محمد سعید، حسن رضوی، حسین احمد پراچہ ڈاکٹر، حنا یعقوب، خواجہ ممتاز احمد تاج، ڈاکٹر عباس، ذوالفقار احمد تابش، رفیق ڈوگر، رضا علی عابدی، ریاض الرحمٰن ساگر، سلیم اختر ڈاکٹر، سعیدآسی، سعید شیخ، شاہد حسین بخاری ڈاکٹر، ضمیر جعفری سید، ظہیر احمد بابر، عطیہ فیضی، عطا الحق قاسمی، عنایت اللہ فیضی، عزیز علی شیخ، علی سفیان آفاقی، عبدالرؤف ڈاکٹر، عبدالرحمٰن خواجہ ڈاکٹر، عبدالحمید، عبدالر حمٰن عبالہ، غازی صلاح الدین، فرخندہ لو دھی، فرید احمد، فوزیہ صدیقی، قمر علی عباسی، کوثر نیازی، کرنل محمد خان، کشور ناہید، کوکب خواجہ، محمد حمزہ فاروقی، محمد اعجاز، مسکین علی حجازی، محمد اختر ممونکا، محمد توفیق، محمد حسن صدیقی، محمد لطف اللہ خان، مستنصر حسین تارڑ، مسعود قریشی، مسرت پراچہ، مہر عبدالحق ڈاکٹر، ناصر ناکاگاوا، نصیر احمد ناصر ڈاکٹر اور نیلم احمد بشیر۔
ناصر ناکا گاوا نے نے اپنے سفر نامہ ’’دیس بنا پردیس ‘‘میں اپنے منفرد اسلوب کے اعجاز سے اردو سفرنامے کی اقدار و روایات کو نئے آفاق سے آشنا کیا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کرتے وقت قاری کو مصنف کے شانہ بہ شانہ دنیا کے متعدد ممالک کے اہم مقامات کی سیرکا مو قع ملتا ہے اور وہ چشم تصور سے ان مقامات کی ایک جھلک دیکھ لیتا ہے جہاں مصنف پہنچتا ہے۔ مصنف نے اپنے قاری کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کی جو روش اپنائی ہے وہ اس سفر نامے کا ایک امتیازی وصف ہے۔ مصنف کی خوشیاں، تجربات، مشاہدات، رنج، دکھ اور کرب سب میں وہ شامل ہو جاتا ہے اور اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی اس سفر میں مصنف کے سا تھ شریک سفر ہے۔ مصنف نے اپنی تحریروں میں تحقیقی و تنقیدی پہلوؤں کو پیش نظر رکھ کر اسے سائنسی انداز فکر کا حامل بنا دیا ہے۔ اس سفر نامے میں کہیں بھی ما فوق الفطرت عناصر کا گزر نہیں اور نہ ہی کہیں مبالغے سے زمین آ سمان کے قلابے ملانے کی کوشش کی گئی ہے۔ بعض اوقات سفر نامہ نگار اپنی تحریروں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے فرضی واقعات، من گھڑت رومان اور لطائف کا سہارا لیتے ہیں لیکن یہ کتاب ان تمام عیوب سے مبرا ہے۔ سادگی اورسلاست کے اعجاز سے اس سفر نامے نے قاری کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ یہ سفر نامہ دنیا کے اہم ممالک کے مشہور مقامات کی تاریخ، تہذیب، ثقافت، معاشرت، علم و ادب اور تمدن کے بارے میں جملہ حقائق کا ایک جام جہاں نما بن کر سامنے آیا ہے۔ سمعی بصری معاونات کو جدید دور میں اہم ترین حیثیت حاصل ہے۔ ایک فعال، زیرک اور مستعد مصنف کی حیثیت سے ناصر ناکاگاوا نے اپنے قارئین کو اہم مقامات اور نامور شخصیات کے بارے میں تمام حقائق کو سمجھانے اور نامور شخصیات سے متعارف کرانے کی غرض سے اس کتاب میں ایک سو چھپن (156) رنگین تصاو یر شامل کی ہیں۔ بیش قیمت آرٹ پیپر پر طبع ہونے والی ان رنگین تصاویر کی اشاعت سے اس کتاب کے صور ی اور معنوی کو چار چاند لگ گئے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک کی سیاحت کے دوران مصنف نے جن تاریخی مقامات پر قیام کیا ان کا تفصیلی احوال اس سفر نامے میں مو جود ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ان اہم مقامات کی محفوظ جگہوں کا بھی ذکر ہے جہاں سیاح سکون کے ساتھ رہ سکتے ہیں اور مفاد پرست استحصالی عناصر کی ریشہ دوانیوں سے بھی بچ سکتے ہیں۔ معاشرتی زندگی میں سماج دشمن عناصر نے ہر جگہ رتیں بے ثمر کر دی ہیں، اس موذی و مکار مافیا سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انسان ان کے شر سے دور رہے۔ مصنف نے اس سفر نامے میں ان تمام مقامات، واقعات، عجائبات اور سماجی زندگی کے معمولات کو شامل کیا ہے جن سے عام قاری کو دلچسپی ہو سکتی ہے۔ مصنف سیاحت کے لیے جہاں بھی پہنچتا ہے اس مقام تک پہنچنے کے تمام اہم ذرائع نقل و حمل کے بارے میں تفصیل سے قاری کو آگاہ کرتا ہے، یہ اس سفر نامے کا نہایت اہم پہلو ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کی دلی تمنا ہے کہ قارئین بھی ان کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے عازم سفر ہو جائیں۔ سفر کی صعوبتوں کو خاطر میں نہ لائیں بل کہ اللہ کے بھروسے پر گھر سے باہر نکل کر دنیا کو دیکھیں اور حالت و واقعات کا تجزیہ کر کے اپنے مستقبل کا لائحۂ عمل مرتب کریں۔ اس طرح تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے بارے میں وہ بہت کچھ جان سکیں گے۔ اس کے لیے سفر کی شرط لازم ہے۔ بہ قول آ تش :
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
ایک حساس اور دردمند مصنف کی حیثیت سے نا صر ناکا گا وا نے اپنے سفر نامہ ’’دیس بنا پردیس ‘‘میں حریت فکر کا علم بلند رکھا ہے۔ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا ان کے ادبی مسلک کے خلاف ہے اور حرف صداقت لکھنا ان کا شیوہ ہے۔ بیرون ملک سیاحت کے لیے روانہ ہونے والوں کے لیے یہ سفر نامہ ہمیشہ مشعل راہ ثابت ہو گا۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں نئی تہذیب کی چکا چوند کو جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری کی ایک صورت سمجھنا چاہیے۔ بیرون ملک سیاحت کے لیے جانے والے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بے نام دیاروں سے جب اکثر لو گ بے نیل مرام لوٹتے ہیں تو انھیں اس جگہ کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے جہاں ان کی آنول نال گڑی ہوتی ہے۔ جدید دور میں معاشرتی زندگی کے تقاضے بدل چکے ہیں نمود و نمائش کے رجحان اور ہوس زر نے نوع انساں کو انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا کہ کوڑے کے ڈھیر سے جا و منصب کے استخواں نو چنے والے خارش زدہ سگان راہ نے با وقار راہ گیروں کو شاہراہ زیست پر چلنا دشوار بنا دیا ہے۔ اس سفر نامے میں زندگی کے نشیب و فراز کے بارے جس خلوص، دردمندی اور بے تکلفی سے حقائق کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی ہے وہ اپنی اصلیت کے اعتبارسے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کی ایک قابل قدر کوشش ہے۔ دنیا میں تیزی سے بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار نے جہاں زندگی کے تمام پہلوؤں کو نئے انداز عطا کیے ہیں وہاں فکر و خیال کی دنیا میں بھی ایک انقلاب آ گیا ہے۔ ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت نت نئے موضوعات سامنے لا رہی ہے اور تخلیقی عمل اس تمام صورت حال سے بے تعلق نہیں رہ سکتا۔ یہ صدی تقدیر جہاں کے کئی عقدے کھول کرسامنے لا رہی ہے۔ آنے والے دور کے بارے میں لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کے جواب میں ہمارے ہو نٹوں پر آنے والے الفاظ پتھرا جاتے ہیں۔ معاشرتی زندگی میں عدم برداشت اور تشدد کی جو روح فرسا، جان لیوا اور اعصاب شکن کیفیت پائی جاتی ہے اس کے باعث افراد عدم تحفظ کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس لیے اپنی مٹی ہی پر چلنے کا قرینہ سیکھنا ضروری ہے کیونکہ بیرونی اور مستعار تہذیب و ثقافت کی چکا چوند کے یہ سراب ایک عذاب بھی بن سکتے ہیں۔ صدائے جرس کی جستجو میں نکلنے والے جب اس چکا چوند سے متاثر ہو کر اس کی تقلید اور بھونڈ ی نقالی کرنے لگتے ہیں تو وہ سکوت کے صحرا میں پھنس جاتے ہیں جہاں کوئی مونس ہجراں موجود نہیں ہوتا۔ اس سفر نامے میں ناصر ناکا گاوا نے پنے تمام تجربات و مشاہدات کو شامل کیا ہے اور انھیں پڑھ کر بے اختیار ساحر لدھیانوی کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے :
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
’’ دیس بنا پردیس ‘‘میں انتیس (29)ممتاز اہل قلم کے اس کتاب کے بارے میں تاثرات کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ تاثرات اس سفر نامے کے پہلی اشاعت کے بعد مختلف اخبارات اور مجلات میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی تنقیدی اہمیت کے پیش نظر انھیں اس سفر نامے کے دوسرے ایڈیشن میں شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ ان کے مطالعہ سے اردو سفر نامے پر تحقیقی کام کرنے والے اردو ادب کے طلبا کو اس کتاب کی اہمیت و افادیت کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ان مشاہیر ادب میں شوکت علی ناز، طارق حسین بٹ، ڈاکٹر خواجہ اکرام، طاہر نقوی، حسین خان، محمد ظہیر بدر، ڈاکٹر محمد کامران، ڈاکٹر رشید احمد ملک، پروفیسر عامر علی خان، محمد مشتاق قریشی، سمیع اللہ ملک، عزیز بلگامی، حافظ مولانا ڈاکٹر سلیم الرحمٰن خان ندوی، عرفان صدیقی، محمود شام، خان ظفر افغانی، خالد شریف، پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل، عبد الرحمٰن صدیقی، پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی، سید خالد شاہ، طیب خان، کامران غنی صبا، سلطان وحید، رئیس صدیقی، سید کمال حسین رضوی، جاوید اختر بھٹی، ملک خالد منور اور ٹوکیو کا ہم خیال گروپ شامل ہیں۔ اس لحاظ سے مصنف کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اسے قدر شناس قارئین اور اہل علم نے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اس معاشرے میں بے کمال لوگوں نے اہل کمال اور تخلیقی فن کاروں کے ساتھ ضد کا جو رویہ اپنا رکھا ہے وہ حد درجہ مایوس کن ہے۔ اس سفر نامے کی غیر معمولی پذیرائی اور اس کے متعلق ان وقیع عالمانہ تبصروں کی اشاعت کے بعد مصنف کی طر ف سے یہ بات کہی جا سکتی ہے۔ بہ قول شہر یار:
یہ کم نہیں کہ طرف دار ہیں مرے کچھ لوگ
ہنر کی ورنہ یہاں کس نے داد پائی ہے
اس سفر نامے میں ’’حرف تشکر ‘‘ کے عنوان سے ناصر ناکا گاوا کی تحریر شامل ہے جس میں انھوں نے اس کتاب کے پہلے ایڈیشن کی اشاعت کے بعد دنیا بھر کے ممتاز اہل قلم کی جانب سے کی جانے والی کتاب کی پذیرائیپرا ن کا شکریہ ادا کیا ہے۔ سیدہ زہرہ عمران کی دو الگ الگ تحریریں بھی شامل اشاعت ہیں جن کے عنوان ہیں ’’چھوٹے بھائی کی خدمت میں چند گزارشات ‘‘اور ’’خصوصی اظہار تشکر ‘‘۔ یہ دونوں تحریریں اس کتاب کے مسودے کی تیاری، طباعت اور اشاعت کے مختلف مراحل اور اس کے مصنف کے اسلوب کے بارے میں اہم معلومات پر مبنی ہیں۔ اس کے بعد کتاب کے مشمولات کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے :
حصہ اول : پاکستان زندہ باد، حصہ دوئم : جاپان زندہ باد، حصہ سوئم : سفر نامچے
اس سفر نامے کا پہلا حصہ ’’پاکستان زندہ باد ‘‘کے عنوان سے شامل اشاعت ہے۔ مصنف کی تخلیقی فعالیت وطن سے محبت کے جذبات کو اپنے خیالات و افکار کی اساس بنا کر پرورش لوح و قلم کے دوران خون بن کر رگ سنگ میں اتر نے کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ مصنف کے اسلوب میں دو عناصر کی موجودگی قاری کو متوجہ کرتی ہے۔ سب سے پہلے تو تخلیق فن کے لمحوں میں مصنف کے ذہن و ذکاوت اور بصیرت کی قوت اور دوسرے احساس و ادراک کی وہ صلاحیت جس کا تعلق عصری آگہی کے ساتھ ہے۔ ان دونوں عناصر کے باہمی امتزاج سے تخلیقی فن پارہ اپنی تاثیر کا لوہا منواتا ہے۔ ناصر ناکا گاوا کی تحریروں میں یہ دونوں عناصر وطن کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی سے مل کر ایک نئی شان ک سا تھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ بہ قول محسن نقوی :
عکس کوئی ہو خد و خال تمھارے دیکھوں
بزم کوئی ہو مگر بات تمھاری نکلے
پاکستان میں عالمی سیاست کے تناظر میں حالات نے جو رخ اختیار کر لیا ہے وہ حد درجہ پریشان کن ہے۔ اس حصے میں پاکستان کے موجودہ حالات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مصنف نے اپنی رائے کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ اسی حصے میں شامل سیال کوٹ میں دو کم سن بھائیوں کے ساتھ ہونے والی شرم ناک زیادتی پر مصنف نے دلی رنج اور کرب کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’تف ہے ان لوگوں پر جنھوں نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا، اس کی فلم بنائی اور مع پولیس کے دیگر تماش بین بھی یہ منظر دیکھتے رہے۔ ایسا آج کی دنیا میں کہاں ہوتا ہے ؟یہ پاکستان ہے ؟یہ مسلمان ملک ہے ؟یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کو ماننے والے مسلمان لوگ ہیں ؟نہیں نہیں یہ لوگ مسلمان یا انسان نہیں ہو سکتے۔ ‘‘(1)
ہمارے ساتھ المیہ یہ ہوا ہے کہ معاشرتی زندگی میں شقاوت آمیز نا انصافیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ، آہیں بے اثر، زندگیاں پر خطر، رتیں بے ثمر اور کلیاں شرر کر دی گئی ہیں۔ جہاں کثرت سے سر و صنوبر اگا کرتے تھے اب وہاں حنظل، پوہلی ، زقوم اور خار مغیلاں کی فراوانی ہے۔ جن آشیانوں میں عقابوں اور شاہینوں کا بسیرا تھا اب ان میں بوم، شپر، کرگس اور زاغ و زغن گھس گئے ہیں وہ آبادیاں اور بستیاں جن میں جھٹپٹے کے وقت سر راہ چراغ فروزاں ہو جاتے تھے اب وہاں چراغ غول کے سوا کچھ نہیں۔ مسلسل شکست دل کے باعث وہ بے حسی ہے کہ کسی کے دکھ درد پر کوئی آنکھ نم نہیں ہوتی۔ جاہل کواس کی جہالت کا انعام مل رہا ہے وقت کے ایسے حادثات کو کس نام سے تعبیر کیا جائے۔ بہ قول الحاج سید غلام بھیک نیرنگ :
ایک آفت ایک شامت ہو تو اس کو روئیے
ہے مصیبت نت نئی ہر روز فتنہ ہے نیا
شامت اعمال تیری آنکھ کھلتی ہی نہیں
جب تلک سر سے گزر جائے نہ سیلاب بلا
مصنف نے پاکستان اور جاپان کی سماجی زندگی کا احوال بیان کرتے ہوئے ایک دلچسپ تقابلی اور تجزیاتی انداز اپنایا ہے۔ مصنف کی وسعت نظر اسلوب میں ہر جگہ قاری کو متوجہ کرتی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے نا روا امتیازی سلوک پر گرفت کرتے ہوئے مصنف نے فریب مشیت کھا کر، دام و قفس سے مطمئن اور دنیا کے ظلم سہہ کر لب اظہار پر مہر سکوت لگا لینے والی مظلوم اور بے بس و لاچار پاکستانی خواتین کی زندگی اور جاپانی خواتین کی زندگی کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’جاپانی بیویاں پاکستانی بیویوں کی طرح اللہ میاں کی گائے نہیں ہوتیں کہ انھیں پاؤں کی جوتی سمجھ کر تبدیل کر لیا جائے یا جب چاہے منہ سے تین الفاظ نکال کر اسے زندگی سے خارج کر دیا جائے اور بچے چھین کر اسے گھر سے نکال دیا جائے، یہاں کے بچے بھی اتنے فرماں بردار اور بدھو نہیں کہ آپ خود جس کام کو اچھا سمجھیں اسے بچوں کو کرنے سے روکیں۔ ‘‘(2)
اس سفر نامے میں دنیا کے مختلف ممالک کی تہذیب و ثقافت کا احوال پوری دیانت، خلوص اور بے تکلفی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ معاشرتی زندگی میں تو بعض اوقات خلوص کی کمی بھی گوار کرنا پڑتی ہے لیکن اپنے تجربات، مشاہدات، جذبات، احساساے اور تجزیات کو زیب قرطاس کرتے وقت اسلوب کے ساتھ مخلص اور بے تکلف ہونا از بس ضروری ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ اس سفر نامے میں اسلوب بیان کی جو دل آویزی ہے اس کے سوتے مصنف کے خلوص سے پھوٹتے ہیں۔
’’ جاپان زندہ باد ‘‘اس سفر نامے کا دوسرا حصہ ہے۔ اس حصے میں مصنف نے جاپان کی سماجی زندگی کا احوال تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جزئیات نگاری کا کمال یہ ہے کہ کوہ سے لے کر کاہ تک جاپانی زندگی کا کوئی بھی پہلو قاری کی نظروں سے اوجھل نہیں رہتا۔ جاپان کی تاریخ، جغرافیہ، محل وقوع، آبادی، تہذیب و ثقافت، رسوم و رواج، نظام حکومت، صنعت، تجارت، مواصلات، تعلیم رہن سہن اور زندگی اور موت تک کے تمام مراحل اس سفر نامے میں شامل ہیں۔ اس سفر نامے میں جاپان کی معاشرتی زندگی کو بہت قریب سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جاپان کی تہذیب و معاشرت کا بہ نظر غائر جائزہ لینے کے بعد مصنف نے اپنے خیالات و تاثرات کی جس انداز میں لفظی مرقع نگاری کی ہے وہ قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔ قاری کے فکر و خیال اور ذہن و ذکاوت پر اس کے ہمہ گیر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مصنف کے اسلوب میں پائی جانے والی قوی مشاہداتی کیفیت، تجرباتی تجسس اور وجدانی نوعیت کا پیرایۂ اظہار قاری کے ساتھ براہ راست ایک معتبر ربط قائم کر لیتا ہے۔ اس کے اعجاز سے قاری کے شعور میں دنیا کی وسعتوں اور حیرتوں کا ایک نقش ابھرتا ہے، جو اسے افکار تازہ کی جستجو پر آمادہ کرتا ہے تا کہ وہ بھی جہان تازہ تک رسائی کی استعدا د پیدا کر سکے۔ مصنف نے اس سفر نامے میں مواد اور ہئیت کے دل کش اور حسین امتزاج سے وہ سماں باندھا ہے کہ سفر نامے کے مطالعہ سے قاری پر کئی حقائق کے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔
دیس بنا پردیس کا حصہ سوئم ’’سفر نامچے ‘‘ پر مشتمل ہے۔ ’’سفر نامچے ‘‘کے عنوان سے اس سفر نامے میں مصنف نے مختصر مگر جامع انداز میں دنیا کے مختلف ممالک کی سیاحت کا احوال بیان کیا ہے۔ یہ سفر نامچے نو (9)دلچسپ مضامین پر مشتمل ہیں، جن میں سے ہر مضمون ایک عالم نو اور جہاں دیگر کا نقیب ہے اور قاری کو دھنک رنگ منظر نامہ دیکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ انسانی نفسیات پر گہری نظر رکھنے والے تخلیق کار کی حیثیت سے ناصر ناکاگاوا نے اس سفر نامے میں کئی نفسیاتی مسائل کی جانب توجہ دلائی ہے۔ آج کے دور میں خو د نمائی، خود ستائی اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے والے مسخرے ہر طرف منڈلاتے پھرتے ہیں، مصنف نے اس قماش کے خود بیں و خود آرا لوگوں کو خوب آئینہ دکھایا ہے :
’’ہر انسان خواہ وہ مرد ہو یا عورت اپنے آ پ کو دنیا کا نہیں تو کم از کم اپنے ارد گرد کے لوگوں میں خود کو حسین سمجھتا ہے یا سمجھتی ہے۔ ‘‘ (3)
بادی النظر میں یہ حقیقت واضح ہے کہ قحط الرجال کے موجودہ دور نے ہمیں یہ دن دکھائے ہیں جسے دیکھو اپنی نمود و نمائش کے لیے بے تاب ہے۔ چربہ ساز، سارق، کفن دزد، فاتر العقل، مخبوط الحواس اور جنسی جنونی بھی روایت کے داعی بن بیٹھے ہیں۔ وہ خفاش، سفہا اور ننگ انسانیت ساتا روہن جنھیں اپنی بد اعمالیوں کے باعث سر اور منہ چھپا کر پھرنا چاہیے تھا بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ہنہناتے پھرتے ہیں۔ اس کتاب میں مصنف نے اس قسم کی بو العجبیوں کو منظر عام پر لا کر اصلاح احوال کی کوشش کی ہے۔ اصلاحی اور دلچسپی سے لبریز مواد اور سفر نامے کی ہئیت کے یہ منفرد تجربے اس صنف ادب کی درخشاں اقدار کو استحکام بخشنے کا اہم وسیلہ ثابت ہوں گے۔ اس سفر نامے میں مصنف نے اپنی یادوں کے شجر سایہ دار کی خنک چھاؤں میں بیٹھ کر تازہ خیالات کے جو گل ہائے رنگ رنگ کھلائے ہیں ان کی دل آویز اور مسحور کن عطر بیزی سے قریۂ جاں معطر ہو جاتا ہے۔ زندگی کی جمالیاتی اقدار کا پر کشش احوال، اسلوب کی تازگی، ندرت اور شگفتگی اس سفر نامے کو قابل مطالعہ اور پسندیدہ نوعیت عطا کرتی ہے۔ بیرون ملک سفر کی یہ پر کیف یادیں جہاں مصنف کے لیے زندگی کی کٹھن راہوں کے سفر میں خضر راہ ثابت ہوتی ہیں وہاں قاری کے لیے بھی یہ ایک ایسی قندیل کے مانند ہیں جو حبس، مایوسی۔ اضمحلال، نا امیدی اور ہجوم غم میں دل کو سنبھالنے اور نئے عزم کے ساتھ سر گرم سفر رہنے کی راہ دکھاتی ہے۔ مصنف نے اس سفر نامے میں دنیا کی مختلف اقوام کی جبلتوں کے بارے میں اس مہارت سے مر قع نگاری کی ہے کہ اس کے وسیلے سے پاکستان میں اردو ادب کے قارئین کی جبلتوں کو عصری تقاضوں کے مطابق منظم و مربوط انداز میں نئی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہونے کے مواقع نصیب ہو سکتے ہیں۔ مصنف نے پوری کوشش کی ہے کہ اس سفر نامے کے مطالعہ سے قاری کو دلی مسرت ہو اور دور افق کے اس پار طلوع ہوتے ہوئے خورشید کی ضیا پاشیوں کا نظارہ کر سکے۔ روشنی کو مصنف نے ہمیشہ روشنیِ چشم کے ایک حسین عکس سے تعبیر کیا ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ بند آنکھوں پر نمود سحر کے امکان کے بارے میں سوچناخود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ زندگی کی تمام حرکت و حرارت کا دارو مدار دنیا اور اس کی رنگینیوں کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے پر ہے۔ حریت فکر کا علم بلند رکھنا اور حریت ضمیر سے زندگی بسر کرنا ایک جر ی تخلیق کار کا نصب العین ہوتا ہے۔ اس سفر نامے میں مصنف نے ان اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی پوری کوشش کی ہے۔ مصنف کی مستحکم شخصیت کسی بھی جبلت سے کوئی خوف محسوس نہیں کرتی۔ افراد کی جبلتوں میں تغیر و تبدل کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن انھیں دبانے کی سعیِ ناکام کرنا کسی طور بھی موزوں نہیں ہوتا۔ اس کتاب میں مصنف نے اس قسم کے رجحان سے اپنا دامن بچائے رکھا ہے۔ اس دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات نے افراد کی جبلتوں کو بھی شدت سے متاثر کیا ہے۔ ساری دنیا بدلتی جاتی ہے مگر غم زدوں کا حال تو جوں کا توں ہے، سوچ، جبلتوں اور احساس و ادراک پر اس کے ہمہ گیر اثرات مسلمہ ہیں۔ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے مصنف نے اس تمام صورت حال کو دیکھتے ہوئے خوب سوچ سمجھ کر اس کے بارے میں ایک قابل عمل انداز فکر اپنایا اور دل کی گہرائیوں سے اسے حرز جاں بنایا۔ اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کا یہ اسلوب اس سفر نامے کو منفرد روپ عطا کرتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ سفر نامہ یکسانیت اور جمود کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس کے مطالعہ سے اوہام، مافوق الفطرت عناصر اور بے عملی کے تار عنکبوت ہٹانے میں مدد ملے گی۔ انسانی، اخلاقی، تہذیبی اور ثقافتی اقدار کی ترویج و اشاعت میں اس سے مدد ملے گی۔
٭٭
مآخذ
(1)ناصر ناکاگاوا : دیس بنا پردیس، ماورا پبلشرز، لاہور، اشاعت دوم 2013صفحہ 114۔
(2) ایضاً صفحہ 110۔
(3) ایضاً صفحہ 291۔
٭٭٭
دیدہ ور: شمارہ 14
(اکتوبر۔ دسمبر 2011)
علی گڑھ اردو کلب کے زیر اہتمام شائع ہونے والا رجحان ساز علمی و ادبی مجلہ سہ ماہی ’’دیدہ ور‘‘ جب افق ادب پر طلوع ہوتا ہے تو اس کی چکا چوند سے نگاہیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ یہ مجلہ باسٹن سے شائع ہوتا ہے۔ اس کی مجلس ادارت میں ممتاز ادیبہ محترمہ رضیہ مشکور اور ڈاکٹر صہیب صدیقی شامل ہیں۔ اس کی مجلس مشاورت میں محمد طارق غازی، سلطان جمیل نسیم، محمد حمید شاہد، عبدالوہاب خان سلیم، اویس جعفری اور سلمان غازی کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ یہ سب وہ نامور ادیب اور دانش ور ہیں جن کی علمی فضیلت اور بلند ترین ادبی منصب کا ایک عالم معترف ہے۔ اس سہ ماہی ادبی مجلے کا سب سے بڑا اعزاز و امتیاز یہ ہے کہ اسے پوری دنیا کے مایہ ناز ادیبوں کا قلمی تعاون حاصل ہے۔ اس مجلے کا ہر شمارہ اپنی افادیت کے اعتبار سے خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ مضامین نظم و نثر کی ندرت اسے منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ یہ مجلہ جو انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے، دنیا کی متعدد جامعات کے کتب خانوں میں پہنچتا ہے اور اس پر تحقیقی و تنقیدی کام جاری رہتا ہے۔ اردو زبان و ادب کے طلبا اوراساتذہ میں یہ مجلہ بے حد مقبول ہے اس کے علاوہ ادب کے عام قارئین بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔
دیدہ ور کا شمارہ .14 بابت اکتوبر۔ دسمبر 2011نئی آن بان سے شائع ہوا ہے۔ مجلے کا آغاز عقیدت سے ہوتا ہے جس میں حمد و نعت شامل ہیں۔ اشعر رام نگری نے خالق کائنات کے حضور حمدیہ کلام پیش کیا ہے۔ اس کے بعد حضور ختم المرسلینﷺکے حضور نعت کے گل ہائے عقیدت پر مشتمل نعتیہ کلام ہے جو کہ صبا اکبر آبادی اور محترمہ فرزانہ اعجاز کی نعتوں پر مشتمل ہے۔ محترمہ فرزانہ اعجاز علی گڑھ اردو کلب کی ممتاز، مستعد اور انتہائی فعال رکن ہیں۔ ان کی تخلیقی فعالیت کی بدولت اس عظیم ادبی محفل کو چار چاند لگ گئے ہیں۔ ان کی نعت کے اشعار جذبوں کی صداقت کے مظہر ہیں
سرکار دو عالم ﷺ کی ہر بات نرالی ہے
نزدیک نبی ﷺ کوئی ادنیٰ ہے نہ عالی ہے
ہم ارض مدینہ کو آنکھوں میں بسا لائے
اور دل میں محمد ﷺ کی تصویر خیالی ہے
محترمہ رضیہ مشکور کی تحریروں میں عصری آگہی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ دیدہ ور کے اداریے مسائل عصر کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اس بار ادارتی کلمات میں انھوں نے مجلہ دیدہ ور کے آغاز و ارتقا کے بارے اب تک پیش آنے والے مسائل کے بارے میں حقیقت پسندانہ تجزیہ پیش کیا ہے۔ ادب کی ترویج و اشاعت اس امر کی متقاضی ہے کہ تخلیقات کے متعلق صحت مند تنقید ی رویہ پروان چڑھایا جائے۔ جوہر قابل کی قدر افزائی نا گزیر ہے مگر گلشن ادب میں نمو پانے والے لفاظ حشرات سخن اور خود رو خار و خس کو تلف کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ ادب کی سنجیدہ نقاد کی حیثیت سے محترمہ رضیہ مشکور نے اپنی تحریروں سے زندگی کی معنویت اور مقصدیت کو اجاگر کرنے کی ہمیشہ سعی کی ہے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے حریت فکر و عمل کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں معاشرتی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ بے حسی کا عفریت ہر طرف منڈلا رہا ہے۔ جامدو ساکت پتھروں اور سنگلاخ چٹانوں کے سامنے انسانوں کے مسائل بیان کرناکس قدر کٹھن ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کے ساتھ ساتھ زندگی کی معنویت عنقا ہے۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ چربہ ساز، سارق اور کفن دزد عناصر نے الفاظ کو بے وقعت اور بے معنی بنا دیا ہے۔ یہ اعصاب شکن صورت حال تہذیبی ارتقا کے لیے انتہائی برا شگون ہے۔ محترمہ رضیہ مشکور نے روحانی، ذہنی، قلبی اور اخلاقی سطح پر افراد معاشرہ کی سطح فائقہ تک رسائی کے لیے یہ امر نا گزیر قرار دیا ہے کہ حق گوئی اور بے باکی کو شعار بنایا جائے اور کسی مصلحت کی پروا نہ کی جائے۔ یہ اصول فطرت ہے کہ حق و صداقت سے شپرانہ چشم پوشی کو شعار بنانے والے ازلی و ابدی صداقتوں سے انحراف کرتے ہیں اور بالآخر روشنیوں کی راہ میں دیوار بننے والے موقع پرست جو خود اپنے وجود کی نفی کرنے پر تلے ہوئے ہیں، فطرت کی تعزیروں کی زد میں آ جاتے ہیں۔ سیل زماں کے تھپیڑے انھیں خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں۔ محترمہ رضیہ مشکور نے اس بار دیدہ ور کے اداریے میں چشم کشا صداقتوں اور تلخ حقائق کی جانب متوجہ کیا ہے۔
تحقیقی و تنقیدی مضامین دیدہ ور کا بہت اہم حصہ رہے ہیں اس شمارے میں چھ تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ یہ مضامیں نہایت محنت سے تحریر کیے گئے ہیں۔ لائق مضمون نگاروں نے اپنے اپنے موضوعات سے بھر پور انصاف کیا ہے۔ ان مضامین کے مطالعہ سے قاری ان تمام موضوعات کے بارے میں حقیقی شعور و آگہی سے فیض یاب ہوتا ہے۔ ان مضامین کی تفصیل حسب ذیل ہے :
افسانے کی تنقید اور تعین کا مسئلہ : محمد حمید شاہد، باہمی ربط کی زبان اردو : اخلاق احمد آہن، اردو افسانہ نگاری میں اختصاریت کا عمل : طالب کشمیری، اردو انشائیہ میں غزل کا رنگ : ہاجرہ بانو، زندہ لفظوں کا روشن مینارہ : رضا رام پور لائبریری : حقانی القاسمی ، اردو شاعری میں حریت فکر کی روایت : ڈاکٹر غلام شبیر رانا
جدید تنقید میں تخلیق کار کے اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ دیدہ ور میں عالمی ادب کے ممتاز تخلیق کاروں کے فن اور شخصیت کے تجزیاتی مطالعہ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ اس شمارے میں پروفیسر خادم علی ہاشمی نے اسلامی دنیا کے آخری نابغۂ روزگار دانش ور تقی الدین کے بارے میں اپنا عالمانہ تجزیہ پیش کیا ہے۔ تقی الدین نے اسلامی فقہ، تعلیم و تعلم، ریاضی، علم ہئیت، طبعیات، بصریات، انجنئیرنگ، نباتات اور حیوانات کے شعبوں میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ یہ مضمون تاریخ کے ایک یادگار دور کے بارے میں فکر پرور اور خیال افروز مباحث پر مبنی ہے اور اس کے مطالعہ سے فکر و نظر کو مہمیز کرنے میں مدد ملتی ہے۔ حقانی القاسمی نے اپنے تجزیاتی مضمون حافظ شیرازی کا جمالیاتی نگارخانہ میں اس عظیم تخلیق کار کے اسلوب پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ زکریہ ورک کا مضمون اسحاق بن حنین کی تاریخ الاطبا وسیع مطالعہ کا مظہر ہے۔ فن و شخصیت کے عنوان کے تحت اس شمارے میں چار مضامین شامل ہیں۔ پرویز بلگرامی نے ناصر کاظمی کے فن اور شخصیت پر ایک جامع مضمون لکھا ہے۔ اس مضمون کے مطالعہ سے ناصر کاظمی کے فکر و فن کی تفہیم میں مدد ملتی ہے۔ دوسرا مضمون ماہر لسانیات ژاک دریدا کے بارے میں ہے جو ڈاکٹر غلام شبیر رانا نے لکھا ہے۔ ساجدہ زیدی کا تنقیدی زاویۂ نظر کے عنوان سے ڈاکٹر اسلم جمشید پوری نے پرمغز مقالہ لکھا ہے۔ مشفق خواجہ ایک رجحان ساز تخلیق کار یہ فضہ پروین کی تحریر ہے۔ فہیم انور نے ترجمے کے ذریعے دو تہذیبوں کو قریب تر لانے کی سعی کی ہے۔ ان کے مضمون کا عنوان ہے ٹیگور : پروفیسر سینتی کمار چیٹرجی کی نگاہ میں اس شمارے میں حصہ شاعری بھر پور ہے جن شعرا کی غزلیں شامل ہیں ان کے نام درج ذیل ہیں :
ولی عالم شاہین، شاہین فصیح ربانی، ڈاکٹر فریاد آزر، عزیز بلگامی، خورشید حسن نیر، شاہ نعیم الدین نعیمی، افتخار راغب۔ یہاں مناسب ہو گا کہ ان شعرا کی غزلوں سے قند مکرر کے طور پر چند اشعار پیش کیے جائیں تا کہ قاری ان کا استحسان کر سکے اور ان سے حظ اٹھا سکے :
اپنی اوقات سے شکوہ ہے نہ حالات سے ہے
ہاں بس اک جنگ ہے دل کی جو مری ذات سے ہے (ولی عالم شاہین)
تمام عمر ہوا کے دباؤ میں رہنا
بہت کٹھن تھا مسلسل تناؤ میں رہنا (ڈاکٹر فریاد آزر)
بھلا دوں میں کسی کو یہ کہاں ممکن ہے اے ساقی
دغا دوں میں کسی کو یہ کہاں ممکن ہے اے ساقی (خورشید الحسن نیر)
پہلے اس خاکدان سے نکلے
پھر کوئی آسمان سے نکلے ( شاہین فصیح ربانی ؔ)
سکوں کا شہر پہ بادل حسین لگتا ہے
زمیں پہ امن کا جل تھل حسین لگتا ہے(عزیز بلگامی )
توجہ میں تری تبدیلیاں معلوم ہوتی ہیں
مجھے گھٹتی ہوئی اب دوریاں معلوم ہوتی ہیں ( افتخار راغب ؔ)
کاروان بے نشاں کا رہ نما ہو جاؤں میں
ہر نشان میل پر جلتا دیا ہو جاؤں میں (سید شاہ نعیم الدین نعیمی)
دیدہ ور نے تخلیقی تحریروں کے ذریعے قاری کو جس روحانی مسرت سے متمتع کیا ہے وہ لائق صد رشک و تحسین ہے۔ آج کے دور میں سکون قلب اور روحانی مسرت کی فراہمی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے مگر دیدہ ور نے یہ کٹھن مرحلہ جس خوش اسلوبی سے طے کیا ہے اسے دیکھ کر قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال شاعری کا حسین گل دستہ ہے جس نے اس رجحان ساز ادبی مجلے کو عنبر فشاں بنا دیا ہے۔ اردو غزل کو اس نئے اور تازہ کلام سے مالا مال کرنے کا سہرا دیدہ ور کے سر ہے۔ ان شعرا نے عصری آگہی سے مزین ایک نیا اور منفرد لہجہ اپنا کر اردو غزل کو مضامین کے تنوع اور ندرت کی منزل تک رسائی کی راہ دکھائی ہے۔ حصہ نظم میں ستیہ پال آنند، ولی عالم شاہین، اخلاق احمد آہن اور علینا عترت رضوی کی نظمیں شامل ہیں۔ ان نظموں کو پڑھنے کے بعد قاری دل کی گہرائیوں سے تخلیق کاروں کے اسلوب کی اثر آفرینی کا قائل ہو جاتا ہے۔ ان نظموں میں معاشرتی زندگی اور افراد کے ذہنی اور جذباتی رویوں کے بارے میں خون بن کر رگ سنگ میں اتر جانے کی سعی کی گئی ہے۔
جاپانی صنف شاعری ہائیکو پر سہیل احمد صدیقی نے طبع آزمائی کی ہے۔ یہ ہائیکو گہرے مشاہدے اور تجربے کے آئینہ دار ہیں۔ شاعر کا اسلوب نہایت مؤثر ہے اور اس کے اعجاز سے یہ ہائیکو خلوص اور دردمندی کے مظہر ہیں۔ انھیں پڑھ کر قاری کے دل پر حالات کی سنگینی کے بارے میں جو تڑپ پیدا ہوتی ہے وہ آفاقی اقدار کو سامنے لاتی ہے ؛
کانپ اٹھا انسان
ہر جا نقشہ تلپٹ تھا
ششدر تھا جاپان
حصہ افسانہ حسب معمول دیدہ ور کی شان کو دوبالا کر رہا ہے۔ اس شمارے میں شامل چار افسانے اپنی اپنی جگہ پر بے مثال واحد تاثر پیش کرتے ہیں۔ جن افسانہ نگاروں کے نمائندہ افسانے شامل ہیں ان کی تفصیل اس طرح سے ہے۔ سلطان جمیل نسیم کا افسانہ آب دیدہ، محمد حمید شاہد کا افسانہ پارہ دوز، رضوان الحق کا افسانہ چونی اور طالب کاشمیری کا افسانہ قاتل، حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کی عمدہ مثال پیش کرتے ہیں۔ نئے خیالات، نئے تجربات، متنوع کیفیات اور انوکھے تصورات کی عکاسی کرنے والے منفرد اسالیب سے روشناس کرانا دیدہ ور کا امتیازی وصف ہے۔ ان افسانہ نگاروں نے اس بصیرت کو اپنے اسلوب کی اساس بنایا ہے جو معاشرتی زندگی کے تمام شعبوں میں سرایت کر چکی ہے۔ اسی کو عصری آگہی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سماج اور معاشرے کو درپیش مسائل کے بارے میں ان افسانہ نگاروں کا اسلوب قاری کے دل کی دھڑکن سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔
مزاح کے ذریعے زندگی کی نا ہمواریوں اور بے اعتدالیوں کے بارے میں ہمدردانہ شعور پیش کر کے جن تخلیق کاروں نے اس شمارے میں اپنی گل افشانیِ گفتار سے محفل کو کشت زعفران بنا دیا ہے ان میں نعیم جاوید اور ہاجرہ بانو شامل ہیں۔ ان مزاح نگاروں نے اپنی شگفتہ تحریروں کے ذریعے تمدن اور ظرافت کے باہمی تعلق کو پورے خلوص سے اپنے اسلوب کی اساس بنایا ہے۔
تنقید و تبصرہ کا حصہ اس بار دیدہ ور میں زیادہ جامعیت کا مظہر ہے۔ تبصرہ نگاروں نے نہایت صراحت سے اپنے اپنے موضوعات کو زیر بحث لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ محمد اسلم غازی نے جاوید ندیم کے نئے شعر مجموعے ’’خیال موسم‘‘پر بڑی عرق ریزی سے مضمون لکھا ہے۔ پروفیسر وارث کرمانی کی خودنوشت ’’گھومتی ندی ‘‘ پر راشد اشر ف کا تبصرہ اس کتاب کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ خورشید حیات نے ناصر ملک کی غزل گوئی پر ایک عمدہ تبصرہ کیا ہے۔ رشید انصاری نے ڈاکٹر عابد مغز کی تصنیف ’’چکنائی اور ہماری صحت ‘‘کا بہت اچھے طریقے سے تعارف کرایا ہے۔ حکیم خورشید احمد شفقت اعظمی نے ذیابیطس کے ساتھ ساتھ میں اس مرض کے بارے میں معلومات افزا باتیں لکھی ہیں۔ یاد رفتگان میں ولی عالم شاہین نے اردو کی عظیم افسانہ نگار اختر جمال کے بارے میں اپنے جذبات حزیں کا اظہار بڑے خلوص اور دردمندی سے کیا ہے۔ آخر میں لمحۂ فکریہ ہے جو واقعی قارئین کو سوچنے پر مجبور کر دینے والی تحریریں ہیں۔ اس حصے میں سلمان غازی اور سراج اکرم کی تحریریں گہری معنویت اپنے اندر لیے ہوئے ہیں۔
دیدہ ور کی مجلس ادارت مبارک باد کی مستحق ہے جس کی محنت سے یہ مجلہ رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعاروں کا نقیب بن گیا ہے۔ اس مجلے نے زندگی کی درخشاں اقدار و روایات کی پاس داری کی جو مثال قائم کی ہے وہ اسے ادبی مجلات میں ممتاز و منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ آزادیِ اظہار کی عظیم الشان روایات کا امین یہ مجلہ حق گوئی و بے باکی، عدل و انصاف اور حریت فکر کو پروان چڑھانے میں جو تاریخی کردار ادا کر رہا ہے وہ تاریخ ادب میں آب زر سے لکھا جائے گا۔ تاریخ ہر دور میں محترمہ رضیہ مشکور اور ڈاکٹر صہیب صدیقی کے اسمائے گرامی کی تعظیم کرے گی جن کی انتھک مساعی سے ادب میں حیات بخش اور حیات افزا تخلیقات کے فروغ کے متعدد نئے امکانات سامنے آ رہے ہیں۔
٭٭٭
سید منصور عاقل : حرف معتبر
الاقربا فاؤنڈیشن، اسلام آباد، 2013۔
سید منصور عاقل کی ادارت میں اسلام آباد سے 2001میں اپنی اشاعت کا آغاز کرنے والے ادبی مجلے الاقربا نے پوری دنیا میں اپنی افادیت کا لوہا منوایا ہے۔ اس رجحان ساز علمی و ادبی مجلے کے ادارتی کلمات جس انداز میں فکر و نظر کو مہمیز کرتے ہیں اس کی اہمیت و افادیت کا ایک عالم معترف ہے۔ سید منصور عاقل نے اپنے ادارتی کلمات میں ہمیشہ اس امر پر توجہ مرکوز رکھی ہے کہ قارئین ادب میں عصری آگہی کو پروان چڑھایا جائے، ان کے ذوق سلیم کو صیقل کیا جائے اور ان میں مسائل عصر کے بارے میں مثبت شعور پروان چڑھایا جائے یہی وجہ ہے کہ الا قربا کے اداریے ہمیشہ توجہ سے پڑھے جاتے رہے ہیں۔ ادبی اداریہ نویسی کی یہ منفرد اور نادر جہت قارئین ادب کے دلوں ایک ولولۂ تازہ عطا کرتی ہے جس کے معجز نما اثر سے جہد و عمل کی نوید ملتی، جمود کا خاتمہ ہوتا ہے.قطرے میں دجلہ اور جزو میں کل کا منظر نامہ پیش کر کے سید منصور عاقل نے ید بیضا کا، معجزہ دکھایا ہے۔ ان اداریوں ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کا منظر نگاہوں کو خیرہ کرتا ہے۔ سید منصور عاقل کا شمار عالمی شہرت کے حامل ممتاز پاکستانی دانش وروں میں ہوتا ہے جنھوں نے خون دل دے کے فروغ گلشن و صوت ہزار کے موسم کی دید کو یقینی بنانے کی مقدور بھر سعی کی۔ الا قربا میں شائع ہونے والے سید منصور عاقل کے اداریے قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہیں۔ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے سید منصور عاقل نے جس دردمندی اور خلوص سے قومی، ملی، بین الاقوامی، تہذیبی، تاریخی، ادبی، ثقافتی، تعلیمی، معاشی، سماجی، سیاسی، معاشرتی اور متنوع انسانی مسائل پر اپنے عالمانہ خیالات کا اظہار ان ادارتی کلمات میں کیا ہے اس کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ الا قربا کا اداریہ لکھتے وقت اپنی تحریر کو قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے مزین کرتے ہیں اور حرف صداقت کے اعجاز سے قارئین کے دلوں کو مسخر کر لیتے ہیں۔ حال ہی میں سید منصور عاقل کے لکھے ہوئے الاقربا میں شائع ہونے والے (2001تا2013)اداریے ’’حرف معتبر ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئے ہیں۔ مکتبہ الاقربا فاؤنڈیشن اسلام آباد نے تین سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب نہایت اہتمام سے شائع کی ہے۔
تاریخی اعتبار سے اردو میں ادبی اداریہ نویسی کے ابتدائی نقوش سر سید احمد خان کی ادارت میں شائع ہو نے والے ادبی مجلے ’’تہذیب الاخلاق ‘‘ (1870) میں موجود ہیں۔ اس کے بعد اردو ادب میں اداریہ نویسی کے یہ ابتدائی رجحانات مختلف ادوار میں ارتقائی مدارج طے کرتے رہے۔ ایام گزشتہ کی تاریخ کے صفحات کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ابتدا میں روزانہ اخبارات اور ہفت روزہ مجلات کی اشاعت کے وقت باقاعدہ اداریہ نویسی پر بہت کم توجہ دی جاتی تھی۔ تا ہم ان اخبارات کے مالک مدیر جب کبھی محسوس کرتے مسائل عصر کے بارے میں اپنے مختصر نوٹ بھی شامل اشاعت کر لیتے۔ اس نوعیت کی تحریروں کو جنھیں اداریہ نویسی کے ابتدائی دھندلے نقوش سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اس صنف ادب کے ارتقا کو سمجھنے میں مقیاس کا درجہ حاصل ہے۔ مسائل عصر کی تمازت کے زیر اثر انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی تمنا کے جذبات کا پرتو لیے تحریروں اور اداریوں کے سوتے اسی ادبی سوچ سے پھوٹتے ہیں۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ابتدائی دور میں مدیران جرائد نے جو طرز فغاں ایجاد کی اسی کے معجز نما اثر سے اردو میں اداریہ نویسی کی صنف پروان چڑھی۔ مدیران جرائد کے تکلم کے یہ ابتدائی نقوش ارتقائی مدارج طے کرتے ہوئے اور فکر و نظر کو مہمیز کرتے ہوئے قارئین ادب کو حکیم یوسف حسن کے مجلہ نیرنگ خیال، اختر شیرانی کے مجلہ رومان، عبدالحلیم شرر کے مجلہ دل گداز، نیاز فتح پوری (نیاز محمد خان)کے مجلہ نگار (1921)، (1) دیا نارائن نگم کے مجلہ زمانہ، ابو الکلام آزاد کے مجلات الہلال، البلاغ، میاں بشیر احمد کے مجلہ ہمایوں، مولانا ظفر علی خان کے مجلہ زمیندار، چودھری برکت علی کے مجلہ ادب لطیف، مولوی سید احمد کے مجلہ اخبار النسا، راشد الخیری کے مجلہ عصمت، رازق الخیری کے مجلہ بنات، امتیاز علی تاج کے مجلہ کہکشاں، عبداللہ فاروقی کے مجلہ محشر، حافظ محمد عالم کے مجلہ عالم گیر، صہبا لکھنوی کے مجلہ افکار، ممتاز شیریں اور صمد شاہین کے مجلہ نیا دور، (2)مولانا صلاح الدین احمد کے مجلہ ادبی دنیا، شاہد احمد دہلوی کے مجلے ساقی (3)نسیم درانی کے مجلے سیپ، احمد ندیم قاسمی کے مجلے فنون، ڈاکٹر وزیر آغا کے مجلے اوراق، محمد طفیل کے مجلے نقوش، مجید لاہوری کے مجلے نمک دان، خالد احمد کے مجلے بیاض، عذرا اصغر کے مجلے تجدید نو، شورش کاشمیری کے مجلے چٹان، ڈاکٹر ناصر رانا کے مجلے ادب معلیٰ، منصورہ احمد کے مجلے بیاض، اقبال سحر انبالوی کے مجلے رشحات، احسن سلیم کے مجلے سخن زار ، شبنم رومانی کے مجلے اقدار، رضیہ مشکور کے مجلے دیدہ ور، تاب اسلم کے مجلے ید بیضا گلزار جاوید کے مجلے چہار سو ، اور موجودہ دور کے متعدد ادبی مجلات میں دکھائی دیتے ہیں۔ اداریہ نویسی کے ابتدائی رجحانات کو ہر دور میں نئی تاب و تواں حاصل ہوتی رہی اور مجلات کے مدیروں نے خون دل میں اپنی انگلیاں ڈبو کر اپنے علمی و ادبی جنوں کی حکایات خونچکاں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ وقت گزرنے کے سا تھا ۔ اداریہ نویسیارتقائی مدارج طے کرتی ہوئی قارئین ادب میں بے حد مقبول ہو گئی۔ اس طرح عصر حاضر میں ادبی اداریہ نویسی نے ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے۔
حرف معتبر میں سید منصور عاقل کے الاقربا میں شائع ہونے والے ترپن (53)اداریے شامل ہیں۔ ان تمام اداریوں میں موضوعات کا تنوع قارئین ادب کو متوجہ کرتا ہے۔ سید منصور عاقل نے افکار تازہ کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں کو کافور کر نے اور جہان تازہ تکر سائی کو جو عزم صمیم کر رکھا ہے وہ ان اداریوں کے موضوعات سے صاف ظاہر ہے۔ سید منصور عاقل نے اپنے ادبی مجلے الاقربا میں ہمیشہ نئے مضامین، اچھوتے خیالات، دل کو چھو لینے والے موضوعات، عصری آگہی کی آئینہ دار ادبی تخلیقات اور منفرد اسالیب بیان کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ تقلید کی روش سے اپنا دامن بچاتے ہوئے انھوں نے نئے زمانے، نئے صبح شام پیدا کرنے کی سعی کی ہے۔ حرف معتبر میں شامل اداریوں کے دامن میں عصری آگہی کے جو گنج ہائے گراں مایہ پوشیدہ ہیں وہ اس اعلا ترین ذہن و ذکاوت کے مرہون منت ہیں جو قدرت کاملہ نے سید منصور عاقل کو عطا کی ہے۔ انھوں نے اپنے سماج، معاشرے، ملک، قوم اور بنی نوع انساں کو درپیش مسائل کا نہایت خلوص اور دردمندی کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔ ان اداریوں میں مقامی، قومی اور بین الاقوامی مسائل کے بارے قارئین ادب میں مثبت شعور و آگہی کو پروان چڑھانے کی سعی کی گئی ہے۔ قارئین ادب کے فکر و نظر کو مہمیز کرنے کے سلسلے میں ان اداریوں نے بلا شبہ ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ معاشرتی زندگی میں جس برق رفتاری کے ساتھ تغیر و تبدل کا سلسلہ جاری ہے اس کے بارے میں سید منصور عاقل نے اپنے فکر پرور اور بصیرت افروز خیالات کا بر ملا اظہار کیا ہے۔ حق گوئی و بے باکی ہمیشہ ان کا شعار رہا ہے۔ ان کی عقابی نگاہ کسی ایک مدار تک محدود نہیں رہتی بل کہ حیات و کائنات کے جملہ مسائل، سماج و معاشرے کے تمام نشیب و فراز، دیہاتی اور شہری زندگی کے سب معاملات، محروم، مجبور اور پس ماندہ طبقے کے مصائب و آلام اور ان کے ساتھ روا رکھی جانے والی شقاوت آمیز نا انصافیوں پر ان کی دلی کیفیات اور جذبات و احساسات کا واضح اظہار ان اداریوں میں جس خلوص کے ساتھ کیا گیا ہے ان میں قومی فلاح، ملی شعور اور انسانیت کے ساتھ والہانہ محبت کا عنصر نمایاں ہے۔ تہذیبی و ثقافتی سطح پر ان کا یہ اسلوب ایک منفرد اور نئے انداز فکر کو سامنے لاتا ہے انھوں نے زندگی کی اقدار عالیہ کو پروان چڑھانے کی مقدور بھر سعی کی ہے۔ یہ اداریے ادب کی ان درخشاں روایات کے امین ہیں جن کے وسیلے سے اصلاح اور مقصدیت کی شمع فروزاں رکھی جا سکتی ہےیہ اداریے جس تجزیاتی انداز فکر کے مظہر ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ سید منصور عاقل کا دبنگ لہجہ قاری کے لیے فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ کوئی لگی لپٹی نہیں رکھتے بل کہ کھرے اور کھوٹے کو الگ کر کے دکھاتے ہیں۔ ملمع سازی اور خوابوں کی خیاباں سازی سے انھیں شدید نفرت ہے۔ وہ زہر ہلاہل کو کبھی قند نہیں کہہ سکتے۔ حریت ضمیر سے جینے کے لیے اسوۂ شبیرؓ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے والے اس جری تخلیق کار نے ہوائے جور و ستم میں بھی جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حق و صداقت کا علم بلند رکھا ہے۔ حریت فکر کے اس مجاہد نے وطن، اہل وطن اور پوری انسانیت کے ساتھ جو عہد وفا استوار کیا اسی کو علاج گردش لیل و نہار سمجھتے ہوئے اس پر صدق دل سے عمل پیرا رہے۔ ان کی اداریہ نویسی ایک خاص نوعیت کی محاکمہ نگاری بن جاتی ہے جس میں وہ فسطائی جبر کے سامنے سینہ سپر ہو کر بر ملا یہ کہتے ہیں ان کے ظلم کا پرچم بالآخر سر نگوں ہو کر رہے گا۔ سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے اس کے بعد جعلی کرو فر اور جاہ و جلال کی داستانیں قصۂ پارینہ بن جائیں گی۔ اردو ادب میں اداریہ نویسی کی یہ جہت لائق صد رشک و تحسین ہے۔ اداریہ نویسی کی اس بے مثال اور منفرد جہت نے سید منصور عاقل کو اکیسویں صدی کے منفرد اداریہ نویس کے منصب پر فائز کیا ہے۔ یہ وہ اعزاز ہے جس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔ انھوں نے ستاروں پر کمند ڈالی ہے اور ان کے اسلوب نے پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوایا ہے۔ انھوں نے ادبی اداریہ نویسی کو معیار اور وقار کی جس رفعت سے آشنا کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کا اسلوب ان کی ذات ہے اور ان کے مسحورکن انداز بیاں کی مثال پیش کرنا اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں بہ قول اختر الایمان :
کون ستارے چھو سکتا ہے راہ میں سانس اکھڑ جاتی ہے
سید منصور عاقل کے ادارتی کلمات جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیتے ہیں۔ 2012میں پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کے ایک وزیر کو جب جامعہ کراچی نے پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری سے نوازا تو کسی نے اس حادثۂ وقت کے بارے میں کچھ نہ لکھا اور راوی نے چین ہی چین لکھ کر چپ سادھ لی۔ سید منصور عاقل نے اپنے اداریے میں اس پر کڑی تنقید کی اور ’’جامعہ کراچی کی غلط بخشی ‘‘کے عنوان سے الاقربا میں اپنے اداریے میں لکھا:
’’موجودہ ہئیت حاکمہ جسے ملکی تاریخ میں بد ترین نظام حکم رانی کے الزامات کے ساتھ ساتھ ہمہ گیر تنقید کا بھی سامنا ہے، ایک مقتدر ترین وزیر کو عطائے اعزاز کی ایک خصوصی اور پر شکوہ تقریب میں کراچی یونیورسٹی کی جانب سے پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری پیش کی گئی۔ وزیر موصوف کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انھیں پہلی اور غالباً آخری بار کا بینہ کے اجلاس کے آغاز سے قبل قرآن حکیم کی تلاوت کی دعوت دی گئی چنانچہ انھوں نے اپنی جیب سے ایک پرچہ نکالا اور سورۂ اخلاص کی تلاوت کرنے کی کوشش فرمائی جو صر ف چار آیتوں پر مشتمل ہے لیکن قل ہو اللہ احد کی پہلی آیت سے شروع ہونے والی اس سورۃ کی تلاوت وہ نہ فرما سکے جب کہ ان کی وزارت کے اس عہد زریں میں ملک کے کروڑوں عوام کی آنتیں بھوک اور افلاس کے سبب دن رات قل ہو اللہ پڑھتی رہتی ہیں۔ لیکن صحیح تلاوت نہ کر سکنے میں وزیر صاحب کا کوئی قصور نہ تھا بہ قول ان کے یہ سورۃ ہی انھیں غلط لکھ کر دی گئی تھی۔ ‘‘(4)
معاشرتی زندگی کے تضادات اور قباحتوں کے بارے میں سید منصور عاقل نے ہمیشہ قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا ہے۔ ان کے اداریے قومی درد مندی، خلوص، اصلاح اور تعمیری اقدار کے مظہر ہیں۔ وہ ان درخشاں روایات کو پروان چڑھانے کے آرزو مند ہیں جن کے اعجاز سے حق گوئی و بے باکی، بے لوث محبت، بے باک صداقت، خلوص، مروت، ایثار، انسانی ہمدردی اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو یقینی بنایا جا سکے۔ جب عقابوں کے نشیمن زاغوں کے تصرف میں آ جائیں تو زندگی کی حیات آفریں اقدار کو شدید خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اس پر اپنے غیظ و غضب کا بر ملا اظہار کرتے ہیں اس نوعیت کے کٹھن حالات اور سخت مقامات کی وہ تاب نہیں لا سکتے اور معاشرتی زندگی سے حق و انصاف کو بارہ پتھر کرنے والوں اور انسانیت پر کوہ ستم توڑنے والوں پر کاری ضرب لگانے میں کوئی تامل نہیں کرتے۔ ممتاز شاعر محسن بھوپالی نے اس قسم کے حالات پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا :
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثۂ وقت کا کیا نام دیا جائے
مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
اس کتاب کا پیش لفظ امین راحت چغتائی نے لکھا ہے۔ اس تحقیقی اور تجزیاتی پیش لفظ میں امین راحت چغتائی نے سید منصور عاقل کی ادارت میں شائع ہونے والے ادبی مجلے الاقربا کی اہمیت، افادیت اور اس کی علمی، ادبی اور قومی خدمات پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سید منصور عاقل کے اسلوب کے اہم پہلوؤں کو قارئین ادب کے سامنے پیش کیا ہے۔ اپنے جامع اور وقیع مضمون میں انھوں نے یہ واضح کیا ہے کہ سید منصور عاقل کے ادارتی کلمات کا اولین مقصد اصلاح ہے۔ وہ تعمیری انداز فکر اپناتے ہیں اور معاشرتی زندگی میں امن و عافیت کے خواہش مند ہیں۔ ان کا اسلوب اس حقیقت کا مظہر ہے کہ وہ اپنے ملک، قوم، معاشرے بل کہ پوری انسانیت کی فلاح کے لیے اپنے ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لاتے ہیں۔ ان کے جذبات و احساسات اپنے عہد کے حالات و واقعات کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں اور ہر مکتبۂ فکر کے قارئین کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس کتاب کے آغاز میں محمود اختر سعید نے الاقربا کے اداریے کے عنوان سے مدلل انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ان کی موثر تحریر معاشرتی زندگی کے انتشار اور دہشت کی کثیف فضا میں بھی تازہ ہوا کے جھونکے کا لطیف احساس دلاتی ہے۔ محمود اختر سعید ابتدا ہی سے الاقربا سے وابستہ رہے ہیں اس لیے ان کی تحریر کو اولین اور بنیادی ماخذ کا درجہ حاصل ہے ۔ سید منصور عاقل نے ’’گزارش احوال واقعی ‘‘ کے عنوان سے الاقربا کے اداریے اور ان کے تخلیقی محرکات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ حرف معتبر میں افتخار عارف کا لکھا ہوا سید منصور عاقل کا تعارف بھی شامل ہے۔ الاقربا نے آزادیِ اظہار کو اپنا مطمح نظر بنا رکھا ہے۔ قارئین کے خطوط کا حصہ اس مجلے کا دلچسپ حصہ خیال کیا جاتا ہے جس میں قارئین اس مجلے میں شامل مضامین اور دیگر تخلیقات کے بارے میں اپنی بے لاگ رائے دے کر مجلس ادارت کو راہ راست پر رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حرف معتبر میں قارئین الاقربا کے پچھتر (75)مکاتیب سے اقتباسات شامل کیے گئے ہیں۔ پوری دنیا میں موجود الاقربا کے لاکھوں قارئین میں سے الاقربا کے یہ پچھتر قارئین ایسے ہیں جن کی فہم و فراست اور ذوق سلیم کا ایک عالم معترف ہے۔ ان زیرک قارئین ادب نے اپنی مسلسل مراسلہ نگاری سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ عالمی ادبیات کے نباض اور قارئین ادب کے مزاج آشنا ہیں۔ ان تمام مراسلہ نگاروں نے الاقربا کی مختلف اشاعتوں کے اداریوں کے بارے میں جو رائے دی ہے اسے شامل اشاعت کر کے اس کتاب کی ثقاہت میں اضافہ کیا گیا ہے اور یہ واقعی حرف معتبر ثابت ہوئی ہے۔
سائنس اور ٹکنالوجی کے عروج کے موجودہ زمانے میں الاقربا نے اقتضائے وقت کے مطابق اپنی اشاعت کو پرنٹ اور سائبر دونوں صورتوں میں پیش کیا ہے۔ اس مجلے کے تمام شمارے اس کی ویب سائٹ پر پی۔ ڈی۔ ایف فارمیٹ میں موجود ہیں ان کا براہ راست آن لائن مطالعہ بھی کیا جا سکتا ہے اور ڈاؤن لوڈ کر کے ان کا پرنٹ بھی لیا جا سکتا ہے۔ ای۔ میل کے ذریعے مجلس ادارت سے فوری رابطے کا اہتمام بھی کر دیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ مجلہ اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق تخلیق ادب کو متعدد نئی جہات سے آشنا کرنے میں پیہم مصروف عمل ہے۔ اداریہ نویسی میں بھی اس مجلے نے ایک منفرد انداز اپنایا ہے۔ سید منصور عاقل نے اداریوں میں جو طرز فغاں ایجاد کی ہے وہ اب معاصرین کے لیے طرز ادا کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ تہذیبی اور ثقافتی سطح پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اپنے اداریوں میں سید منصور عاقل نے یہ کوشش کی ہے کہ معاشرتی زندگی کو رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے استعاروں سے مزین کر کے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کیا جائے۔ انھوں نے ان اقدار و روایات کے فروغ اور ترویج و اشاعت پر توجہ دی ہے جن سے زندگی کی رعنائیوں میں اضافہ ممکن ہے۔ زندگی کی یہی درخشاں اقدار و روایات مہذب معاشرے کا امتیازی وصف ہیں اور ان ہی کی اساس پر کسی بھی قوم یا ملک کے کلچر کا قصر عالی شان تعمیر ہوتا ہے۔ سید منصور عاقل نے الاقربا کے اداریوں میں فنون لطیفہ میں قومی کلچر کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی جو مساعی کی ہیں وہ تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ان اداریوں میں صداقت، خلوص، دردمندی، حریت فکر، بے باکی اور انسانی ہمدردی کے جذبات کی فراوانی نے انھیں حرکت و عمل کا نقیب بنا دیا ہے۔
قارئین ادب اور تخلیق کاروں کے ساتھ اخلاق اور اخلاص کے ساتھ پیش آنا سید منصور عاقل کا شیوہ ہے۔ الاقربا کے اداریوں میں جو توازن، اعتدال اور منصفانہ طرز عمل پایا جاتا ہے وہ سید منصور عاقل کی عظیم شخصیت کا لائق صد رشک پہلو سامنے لاتا ہے۔ معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی بے اعتدالیوں، تضادات اور شقاوت آمیز نا انصافیوں پر وہ چپ نہیں رہ سکتے۔ ہوائے جور و ستم میں بھی وہ حرف صداقت کی مشعل فروزں رکھتے ہیں اور سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے ظلم و نا انصافی کہیں بھی ہو اس کے خلاف آواز بلند کرنا ہر با ضمیر ادیب کا فرض ہے۔ ظلم کو سہنا اور اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کرنا نہ صرف ایک اہانت آمیز فعل ہے بل کہ اس سے ظالم و سفاک، موذی و مکار استحصالی عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ جب معاشرے میں ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دی جانے لگے تو بے حسی کی یہ کیفیت قومی ترقی کے لیے بہت برا شگون ہے۔ اپنے ایک اداریے ’’ہو س کو ہے نشاط کار کیا کیا ‘‘میں سید منصور عاقل نے لکھا ہے :
’’بد قسمتی سے سر براہ حکومت نے جنھیں عوام الناس میں اپنے اوصاف حمیدہ کے باعث اعتماد و احترام حاصل ہے محض اس لیے ایک مطلقاً قانونی اقدام کو کالعدم قرار دے دیا کہ اس سے ایک ایسا شخص متاثر ہو رہا تھا جو ادب کے حوالے سے سرکار کا اعزاز یافتہ بھی ہے اور اثر و رسوخ کا حامل بھی۔ چنانچہ قانون و انصاف کی اس بے حرمتی پر اہل نظر کبیدہ خاطر ہی نہیں بل کہ حیران و ششدر بھی ہیں، جب کہ اسی سانحہ کے مضمرات بے شمار دیگر داد خواہوں کو مایوسی و بے اعتمادی کے آسیب میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ بہ قول محسن احسان :
وہاں پر ضابطے کی دھجیاں اڑتی ہی رہتی ہیں
جہاں انصاف بکتا ہے جہاں آئیں نہیں رہتا
ذرا سی منصفوں سے آشنائی کی ضرورت ہے
پھر ایسے مجرموں کا جرم بھی سنگیں نہیں رہتا‘‘(5)
فطرت اور تاریخ کے مسلسل عمل پر سید منصور عاقل کی گہری نظر ہے۔ حرف معتبر کے اداریے قومی زندگی کے جملہ نشیب و فراز اور اسرارو رموز کے بارے میں عوامی انداز فکر کو ایک کلیت کی صورت میں صفحۂ قرطاس پر منتقل کر کے قومی سوچ کی ترجمانی کرتے ہیں ان کے ذریعے قارئین ادب میں قومی مسائل کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے میں مدد ملے گی۔ مثال کے طور پر وہ ایک اداریے جس کا عنوان ’’قومی زبان کی تذلیل۔۔۔ حمیت باختہ سفارت کاری ‘‘ہے، میں لکھتے ہیں :
’’اردو کے طلبا کو استنبول میں پاکستانی قونصل خانے بھیجا تا کہ ایک پروگرام کے مطابق وہ پاکستانی عملے سے روابط کے دوران اپنی اردو بول چال کے معیار کو بہتر بنا سکیں، نتیجہ یہ بر آمد ہوا کہ اولاً تو ان طلبا کی اردو میں گفتگو کا جواب انگریزی میں دیا گیا اور پھر یہ کہہ کر کہ ’’ کیا پاگل ہو گئے ہو ؟اردو کیوں سیکھ رہے ہو؟کیا تمھیں دنیا میں اور کوئی کام نہیں ؟‘‘(6)
اس اداریے میں سید منصور عاقل نے استنبول کے قونصل خانے میں تعینات پاکستانی سفارتی عملے کے اس منفی طرز عمل پر کڑی تنقید کی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جب بڑے عہدوں پر چھوٹے لوگ اونچی مسند پر نیچی سوچ کے حامل با لشتیے اور عقابوں کے نشیمن میں زاغ و زغن غاصبانہ طور پر جا گھسیں گے تو اس قسم کی بوالعجبیاں اور طرفہ تماشے روزمرہ کا معمول بن جاتے ہیں۔ سید منصور عاقل نے اسی اداریے میں اس طرز عمل پر گرفت کرتے ہوئے جو استفسار کیا ہے وہ چشم کشا صداقتوں سے لبریز ہے :
’’اب ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بیرون ملک ہمارے سفارتی دفاتر کے مقاصد کیا ہیں اور کیا ان کے فرائض میں سیاسی سفارت کاری کے علاوہ پاکستان کی تہذیب و ثقافت کو متعارف کرانے میں جس میں قومی زبان ہمیشہ سر فہرست ہوتی ہے کوئی کردار ہے بھی کہ نہیں ؟‘‘ (7)
زندگی کی اقدار عالیہ سے دلی محبت کرنا سید منصور عاقل کا مطمح نظر رہا ہے۔ وہ اس امر کی جانب توجہ دلاتے ہیں کہ وطن اور اہل وطن کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کا شمار ہمہ گیر نوعیت کی اقدار میں ہوتا ہے۔ اسی کی اساس پر قومی وقار اور ملی عظمت کا دار و مدار ہے۔ ہمارے ان سفارت کار وں کی کور مغزی اور بے بصری کا کیا ٹھکانہ جو قومی تخریب میں مصروف ہیں اور اسی شجر سایہ دار کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں لگے ہیں جو ہم سب کے سر پر سایہ فگن ہے اور ہمیں آلام روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہ لوگ مادر وطن کی تہذیب و ثقافت کو اپنی ہف وات سے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ان کی کوتاہ اندیشی ملک دشمن عناصر کو خوش کرتی ہے اور وہ مادر وطن کے ان دشمنوں اور آ ستین کے سانپوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ مادر وطن کی تہذیبی اور ثقافتی اقدار کے خلاف تہمت لگانے والوں کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے :
تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے
ادب کے وسیلے سے معاشرتی زندگی کو امن، راحت اور سکون کا گہوارہ بنانے کی تمنا میں سید منصور عاقل نے الاقربا کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے علم و ادب کی جو خدمت کی ہے وہ تاریخ کے اوراق میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ ہوس زر اور جلب منفعت نے معاشرتی زندگی کو جس مایوسی، محرومی، انتشار اور مسموم صورت حال کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اس نے تمام رتیں ہی بے ثمر کر دی ہیں۔ حر ف معتبر کے اداریے سید منصور عاقل کی حب الوطنی، انسانی ہمدردی اور دور اندیشی کے مظہر ہیں۔ وہ حالات حاضرہ پر تحقیقی و تنقیدی نگاہ ڈالتے ہیں اور اس سے اپنے تخلیقی عمل بالخصوص ادارتی کلمات کے لیے مواد حاصل کرتے ہیں۔ یہ اداریے ان کے تبحر علمی، وسعت نظر اور قومی حمیت کے آئینہ دار ہیں۔ ان ادارتی کلمات میں انھوں نے جو دھنک رنگ منظر نامہ پیش کیا ہے وہ قاری کے قلب و نظر کو مسخر کر لیتا ہے اور اس کو ایک جہان تازہ کی جانب لے جاتا ہے۔ مضامین اور موضوعات کا تنوع، ندرت اور تازگی فکر خیال کے نئے گوشے سامنے لاتی ہے۔ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں حرف معتبر کو سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔
حواشی
(1)نیاز فتح پوری کی ادارت میں ہونے والے ادبی مجلے ’’نگار ‘‘ نے پہلے آگرہ سے اپنی اشاعت کا آغاز کیا اس کے بعد یہ مجلہ کچھ عرصہ بھوپال سے شائع ہوتا رہا۔ کچھ عرصہ یہ لکھنو سے مسلسل شائع ہوتا رہا۔ نامور ادیب نیاز فتح پوری کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں بھارتی حکومت کی جانب سے انھیں 1962میں پدما بھوشن ایوارڈ عطا کیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد مجلہ نگار کراچی سے ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی ادارت میں 2013کے وسط تک شائع ہوتا رہا، ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے تاریخی ادبی مجلے ماہ نامہ نگار، کراچی کے چار سو سے زائد اداریے لکھے۔
(2)ممتاز شیریں اور ان کے شوہر صمد شاہین کی ادارت میں شائع ہونے والے اس مجلے نے 1944میں بنگلور (بھارت )سے روشنی کے سفر کا آغاز کیا۔ قیام پاکستان کے بعد ممتاز شیریں اپنے شوہر کے ساتھ کراچی آ گئیں اور ’’نیا دور 1952 ‘‘تک کراچی سے شائع ہوتا رہا۔
(3)شاہد احمد دہلوی کے دادا ڈپٹی نذیر احمد اردو کے عناصر خمسہ (سر سید، حالی، شبلی، نذیر احمد، محمد حسین آزاد) میں شامل ہیں۔ مجلہ ساقی قیام پاکستان سے پہلے دہلی سے شائع ہوتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس تاریخی مجلے نے شاہد احمد دہلوی کی ادارت میں کراچی سے اپنی اشاعت کا آغاز کیا۔ ساقی اپنے عہد کا مقبول و موقر ادبی مجلہ تھا جس میں اپنی ابتدائی ادبی تخلیقات پیش کرنے والے تخلیق کاروں نے بعد میں اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر شہرت حاصل کی۔ عصمت چغتائی کا پہلا افسانہ 1938میں ساقی میں شائع ہوا۔
(4)سید منصور عاقل : حرف معتبر، اداریہ الاقربا ’’جامعہ کراچی کی غلط بخشی ‘‘ اکتوبر۔ دسمبر 2011 ، الاقربا فاؤنڈیشن، اسلام آباد، 2013،صفحہ 226۔
(5)ایضاً، صفحہ 93۔
(6)ایضاًصفحہ 223۔
(7) ایضاً صفحہ 224۔
٭
کتاب : صبا اکبرآبادی ایک ہمہ جہت شاعر
مصنف : پروفیسر مامون ایمن
سال اشاعت : 2011 ناشر : ادارہ انشا، کراچی صفحات : 128 قیمت : 200روپے
صبا اکبرآبادی(خواجہ محمد امیر ) ( پیدائش14 ۔ اگست1908، وفات 30۔ اکتوبر 1991)اردو ادب کے ایک ایسے آفتاب جہاں تاب ہیں جو افق ادب پر مسلسل سات عشروں تک ضوفشاں رہے۔ ان کے افکار کی ضیا پاشیوں سے سفاک ظلمتیں کافور ہوئیں، مثبت شعورو آگہی کو پروان چڑھانے میں مدد ملی اور حریت فکر کی درخشاں روایت کو تقویت ملی۔ اردو کے رثائی ادب کے فروغ کے سلسلے میں صبا اکبر آبادی نے جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان کا ایک عالم معترف ہے۔ اردو شاعری میں حریت فکر اور حریت ضمیر سے جینے کے لیے اسوۂ شبیر ؓ کو اپنانے والے اس نڈر، جری اور زیرک تخلیق کار نے حریت فکر کے عظیم مجاہد کا کردار ادا کیا۔ جبر کا ہر اندازمسترد کرتے ہوئے ہوائے جور و ستم اور آلام روزگار کے مہیب بگولوں میں بھی انھوں نے حوصلے اور امید کی شمع فروزاں رکھی اور تاریخ کے مسلسل عمل کو زاد راہ بنا کر تہذیبی اور ثقافتی اقدار کے تحفظ کو یقینی بنانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا۔ ان کی علمی، ادبی اور قومی خدمات تاریخ کے اوراق میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ صبا اکبر آبادی کی ہفت اختر شخصیت اور منفرد اسلوب پر تنقید اور تحقیق پر مبنی معیاری کام بہت کم ہوا ہے۔ صبا اکبر آبادی کی حیات، اسلوب اور ادبی خدمات پر ایک جامع کتا ب کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ اردو ادب سے دل چسپی رکھنے والوں کو بہت انتظار کے بعد ایک وقیع اور معیاری کتاب ملی۔ پروفیسر مامون ایمن کی تصنیف ’’صبا اکبر آبادی : ایک ہمہ جہت شاعر ‘‘کی اشاعت سے جہاں اردو تنقید و تحقیق کی ثروت میں اضافہ ہوا ہے وہاں اس کے مطالعہ سے صبا اکبر آبادی کے اسلوب کی تفہیم کے متعدد نئے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ لائق مصنف نے اس کتاب میں مطالعۂ احوال کا جو ارفع معیار پیش کیا ہے، وہ لائق صد رشک و تحسین ہے۔ نامور شاعر صبا اکبر آبادی کے دل کش اسلوب کے حوالے سے افکار تازہ کے وسیلے سے جہان تازہ تک رسائی کی جو راہ پروفیسر مامون ایمن نے دکھائی ہے اس کے فکر و نظر پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کتاب کی اشاعت سے صبا اکبر آبادی کے بلند ادبی منصب اور منفرد اسلوب کے بارے میں مسلمہ صداقتوں کا بر ملا اظہار کیا گیا ہے۔ مصنف نے پوری دیانت، غیر جانب داری اور منصفانہ تجزیاتی انداز اپنا تے ہوئے اسلوبیاتی مطالعہ پر توجہ دی ہے۔ اردو میں اس معیار کی کتب بہت کم ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت سے اردو تنقید و تحقیق کے جدید خد وخال سامنے آئے ہیں جن کی اساس مغربی تنقید و تحقیق کے اصول ہیں۔ ادب کے وسیلے سے سماجی شعور پروان چڑھانے کی یہ ایک کامیاب کوشش ہے جس کے فروغ علم و ادب پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
پروفیسر مامون ایمن ایک وسیع المطالعہ نقاد اور محقق ہیں۔ عالمی ادبیات پر ان کی گہری نظر ہے۔ فرانس کے جدید لسانی نظریات کا انھوں نے بہ نظر غائر جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ کے دوران مجھے ژاک لاکاں، ژاک دریدا، سوسئیر اور رولاں بارتھ کے خیالات کی باز گشت سنائی دی۔ لائق مصنف نے معنی اور معنی نما کا بالواسطہ انداز میں جو تجزیہ پیش کیا ہے وہ انھی مشاہیر کے اسلوب کا پرتو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوئے ہے۔ صبا اکبر آبادی کی شاعری کی متنوع جہات اور منفرد پہلو قابل توجہ ہیں۔ ان کی جانب کسی محقق، نقاد اور مصنف نے پہلی بار متوجہ کیا ہے۔ مامون ایمن کی یہ تصنیف اسلوب کے متعلق تمام موضوعات کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔ مصنف نے صبا اکبر آبادی کے اسلوب کے تمام پہلوؤں کو جس فنی مہارت سے زیب قرطاس کیا ہے وہ زبان و بیان پر ان کی کامل دسترس کا ثبوت ہے۔ صبا اکبر آبادی نے حمد، نعت، مرثیہ، نظم، تضمین اور تراجم میں اپنی تخلیقی مہارت کا لوہا بڑے زوروں سے منوایا۔ اس کتاب میں صبا اکبر آبادی کے اسلوب کے مسحور کن پہلو اور مختلف اصناف شعر میں ان کی فقید المثال کامرانیوں اور قدرت کلام کا تجزیاتی مطالعہ عالمانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ صبا اکبر آبادی کی ترجمہ نگاری کا اس قدر پر مغز مطالعہ پہلی بار میر ی نظر سے گزرا۔ پروفیسر مامون ایمن نے اپنی وسعت نظر اور تنقیدی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس اہم موضوع پر جس طرح توضیحی اور تشریحی انداز اپنایا ہے اس کے اعجاز سے قاری کو سرابوں میں بھٹکنے سے نجات مل گئی ہے۔ خیام اور غالب کی فارسی رباعیات کا اردو ترجمہ کر کے صبا اکبر آبادی نے اردو زبان کی ترویج، اشاعت اور ترقی کی راہ ہموار کر دی۔ ان تراجم کے معجز نما اثر سے اردو زبان کو نشو و نما کے مواقع نصیب ہوئے۔ دو تہذیبوں کے باہمی ملاپ کے ذریعے وسیع النظر ی کو یقینی بنایا گیا۔ ایک قادر الکلام شاعر کی حیثیت سے صبا اکبرآبادی نے ترجمے کو تخلیق کی چاشنی عطا کر کے قاری کے ذوق سلیم کو صیقل کیا۔ اسلوبیاتی اعتبار سے ان کا یہ انداز اپنی ندرت اور تنوع کا جو دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتا ہے وہ قاری پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتا ہے۔ پروفیسر مامون ایمن نے صبا اکبر آبادی کی تر جمہ نگاری کے محاسن پر جو کچھ لکھا ہے وہ تپاک جاں سے لکھا ہے۔ انھوں نے تقابل کے ذریعے یہ بات سمجھانے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ ترجمہ نگاری کے لیے بہت محنت، لگن اور تجزیاتی انداز فکر درکار ہے۔ پروفیسر مامون ایمن نے واضح کیا ہے کہ صبا اکبرآبادی نے تراجم نگاری میں جو کامیابی حاصل کی اس کے پس پردہ ان کی علم عروض اور اوزان پر کامل دسترس، رباعی کے مزاج سے آگاہی، اردو اور فارسی دونوں زبانوں پر خلاقانہ دسترس اور ذوق سلیم کار فرما ہے۔ پروفیسر مامون ایمن نے اشعار تقطیع کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ صبا اکبرآبادی نے غالب اور خیام کی فارسی رباعیات کا اردو میں ترجمہ کرتے وقت اوزان اور بحور کو بھی پیش نظر رکھا اور اس تجربے میں انھیں کامیابی حاصل ہوئی۔
صبا اکبر آبادی کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ کرتے وقت پروفیسر مامون ایمن نے بڑی محنت، لگن اور خلوص سے کام لیا ہے۔ انھوں نے اس بات کی صراحت کر دی ہے کہ ایک عظیم تخلیق کار کی حیثیت سے صبا اکبر آبادی نے اپنے تخیل، شعور اور لاشعوری محرکات کے امتزاج سے ید بیضا کا معجزہ دکھایا ہے۔ ان کی شاعری ذہن و ذکاوت، تجربات و مشاہدات، فہم و ادراک اور بصیرت کا اعلیٰ ترین معیار سامنے لاتی ہے۔ یہ شاعری بے ساختگی، سادگی اور سلاست کی بدولت اظہار اور ابلاغ کو یقینی بنا دیتی ہے۔ صبا اکبر آبادی نے تیزی سے بدلتی ہوئی اقدار و روایات کو حقیقی تناظر میں دیکھتے ہوئے اقتضائے وقت کے مطابق اپنے جذب دروں اور ما فی الضمیر کو اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے صبا اکبرآبادی کی حیات، ادبی خدمات اور تخلیقی محرکات کے متعلق متعدد نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ صبا اکبر آبادی نے ماضی پرستی پر کوئی دھیان نہیں دیا اور نہ ہی مستقبل کو للچائی ہوئی نظر سے دیکھا ہے۔ اس کے بر عکس ان کی تمام توجہ ان کے اپنے عہد پر مرکوز رہی۔ وہ زمانہ حال کے تلخ حقائق پر نظر رکھتے ہیں اور عصر ی آگہی کو پروان چڑھانے کے لیے مقدور بھر سعی کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی جستجو کو اپنا مطمح نظر بنایا جائے اس طرح مرحلۂ شوق طے کرنے کا تجسس بر قرار رہتا ہے۔ صبا اکبر آبادی کو خالق کائنات نے ایک عظیم اور صحت مند شخصیت سے نوازا تھا۔ ان کی زندگی میں بھی متعدد نشیب و فراز آتے رہے اس کے باوجود انھوں نے ہر قسم کے ارتعاشات کی گتھیوں کو اپنی قوت فیصلہ اور درست انداز فکر سے سلجھانے کی کامیاب کوشش کی۔ پروفیسر مامون ایمن نے صبا اکبر آبادی کے سوانح نگار کی حیثیت سے ان کی زندگی کے تمام اوراق ناخواندہ سے قاری کو بڑی کامیابی سے روشناس کیا ہے۔ فن سوانح نگاری پر انھیں کامل دسترس حاصل ہے۔ ادب کے قارئین اس کتاب کے مطالعہ سے صبا اکبر آبادی کی شخصیت کے متنوع اور دل کش پہلو دیکھ کر دلی مسرت اور سکون قلب کے احساس سے سرشار ہوتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ صبا اکبر آبادی کی عظیم شخصیت کے باطن میں اتر کر حقائق کی غواصی کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ قاری کے سامنے جب وہ اس لا فانی تخلیق کار کی زندگی سے متعلق واقعات کے کئی در نا یاب پیش کرتے ہیں تو ان کی آب و تاب سے قاری کی نگاہیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ وہ قاری کو اپنا محرم راز سمجھتے ہیں اوراس طرح دونوں ایک ہی منزل کے راہی بن جاتے ہیں۔ پروفیسر مامون ایمن کے اسلوب میں بے لوث محبت، خلوص اور درد مندی کا عنصر نمایاں ہے۔ ان کی تحریر میں ندرت، تازگی، صداقت اور عقیدت کا جو دل کش انداز ہے اس کے معجز نما اثر سے ان کی فکر پرور اور بصیرت افروز تحریر اور فن شخصیت نگاری اور بھی جاذب نظر اور پر تاثیر ہو جاتی ہے۔
کتاب کے آغاز میں ’’ عرض داشت‘‘ کے عنوان سے پروفیسر مامون ایمن نے اس کتاب کے تخلیقی محرکات پر روشنی ڈالی ہے۔ نامور ادیب اور دانش ور سلطان جمیل نسیم(صبا اکبر آبادی کے فرزند)نے ’’تعارف مصنف ‘‘کے عنوان سے پروفیسرمامون ایمن کے اسلوب اور علمی و ادبی خدمات پر مدلل انداز میں اظہار خیال کیا ہے۔ یہ کتاب صبا اکبر آبادی کے ادبی منصب کی تفہیم کے لیے ایک کلید کی حیثیت رکھتی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ جس عالمانہ انداز میں پروفیسرمامون ایمن نے صبا اکبر آبادی کی شاعری کا عروضی مطالعہ کیا ہے اس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔ دنیا میں اردو علم عروض کے اتنے بڑے عالم اب بہت کم رہ گئے ہیں۔ پروفیسر مامون ایمن کا وجود غنیمت ہے کہ انھوں نے اپنے علم و فضل سے ید بیضا کا معجزہ دکھانے کے کام کا آغاز کر رکھا ہے۔ انھوں نے صبا اکبرآبادی کی شاعری میں استعمال ہونے والی تمام بحور کے متعلق پورے وثوق کے ساتھ صراحت کر دی ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ان کا یہ کام اپنی مثال آپ ہے۔ اردو شاعری کے آغاز سے لے کر اب تک کسی بھی شاعر کے کلام کا اس قدر عمیق مطالعہ شا ذ و نادر ہی کیا گیا ہے۔ اس تحقیقی، توضیحی اور تنقیدی کام میں اولیت کا سہرا بھی پروفیسر مامون ایمن کے سر ہے۔
صبا اکبر آبادی نے اردو مرثیے کی ثروت میں جو گراں قدر اضافہ کیا وہ تاریخ ادب کا ایک درخشاں باب ہے۔ اس کتاب میں فاضل مصنف نے اردو مرثیے کے ارتقا اور صبا اکبر آبادی کے فن مرثیہ نگاری پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ متعدد مثالوں سے انھوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ صبا اکبر آبادی ایک رجحان ساز شاعر اور صاحب اسلوب مرثیہ نگار تھے۔ گلدستۂ معانی کو نئی آب و تاب اور نئے ڈھنگ سے آراستہ کرنے اور ایک پھول کا مضمون سو رنگ سے باندھنے میں انھیں جو مہارت حاصل تھی اس کی بدولت انھیں اپنے عہد کے منفرد اور ممتاز مرثیہ نگار کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس معرکہ آرا تصنیف میں پروفیسر مامون ایمن نے صبا اکبر آبادی کی حیات اور ادبی خدمات کی جو دل کش مرقع نگاری کی ہے وہ قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے۔ تاریخ ادب کی دلچسپیاں اور صداقتیں اپنی جگہ درست ہیں لیکن ایک عظیم تخلیق کار کی زندگی کے تمام موسم جب قاری کی آنکھوں کے سامنے آتے ہیں تو وہ چشم تصور سے تمام واقعات دیکھ لیتا ہے۔ اس پر کیف لمحے میں اس کی آنکھیں فرط مسرت و اشتیاق سے کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ میں یہ بات بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ یہ وقیع کتاب صبا اکبر آبادی پر اب تک ہونے والے تنقیدی اور تحقیقی کام میں افادیت، دل کشی اور دل چسپی کے لحاظ سے سب پر برتری حاصل کر گئی ہے۔ صبا اکبر آبادی جیسے نابغۂ روزگار تخلیق کار کو اس کتاب میں جس صداقت اور دیانت سے خراج تحسین پیش کیا گیا ہے وہ قابل قدر ہے۔ پروفیسر مامون ایمن حریت فکر کے مجاہد ہیں۔ حق گوئی اور بے باکی ہمیشہ ان کا شیوہ رہا ہے۔ انھوں نے نہایت سنجیدگی سے علمی مباحث کی شمع فروزاں کر رکھی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت سے علمی مباحث کو ایک نئی جہت ملی ہے۔ صبا اکبر آبادی کی عظیم شخصیت کو زمان و مکاں کے حقیقی تناظر میں پیش کر کے مصنف نے ان کی تخلیقی محبت کے اسرار و رموز سے پردہ اٹھایا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے قاری کو ایک ولولۂ تازہ نصیب ہو گا جو زندگی کی تاب و تواں کی تفہیم میں بے حد ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ صبا اکبر آبادی جیسے ممتاز ادیبوں کی حیات اور علمی و ادبی خدمات کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پیدا کرنے سے قارئین کے جذبات، احساسات اور خیالات کو ایک اعلیٰ ترین مقام تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس طرح اذہان کی تطہیر و تنویر کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ زندگی کی اقدار عالیہ کی نمو اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے صبا اکبر آبادی نے جو خدمات انجام دیں، ان کا اجمالی جائزہ اس کتاب میں شامل ہے۔ زندگی کے بارے میں صبا اکبر آبادی نے کہا تھا :
ہوتے ہیں روز دامن گیتی میں حادثات
ہر وقت زد میں موت کی ہے کشتی حیات
معمورہ فنا ہے حقیقت میں کائنات
اک کھیل ہے ہوا کا، یہ ہستی بے ثبات
پروفیسر مامون ایمن نے صبا اکبر آبادی کی حیات اور تخلیقی کمالات کے متعلق اپنے جذبات، احسات اور تاثرات کو نہایت مؤثر انداز میں نئی نسل کو منتقل کیا ہے۔ اپنے اکابر کی عظیم الشان خدمات کو یاد رکھنا اور ان کے کارہائے نمایاں سے نئی نسل کو آگاہ رکھنا ایک بہت بڑی نیکی اور علمی خدمت ہے۔ پروفیسر مامون ایمن نے اپنی اس تصنیف میں صبا اکبر آبادی کے متعلق جو حقیقت پسندانہ انداز تحریر اپنایا ہے وہ ان کی عقیدت، علمی فضیلت اور ذوق سلیم کا آئینہ دار ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے صبا اکبر آبادی کے اسلوب کے بارے میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ ابد آشنا اسلوب نہ صرف حسین اور دل کش ہے بل کہ یہ اپنے دامن میں روح عصر کو بھی سموئے ہوئے ہے۔ صبا اکبرآبادی نے ادب کی فنی اور جمالیاتی اقدار کے تحفظ کی خاطر جس طرح خون بن کر رگ سنگ میں اترنے کی سعی کی وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے۔ ان کی شاعری کی ہمہ گیر اثر آفرینی اور بے پناہ مقبولیت یہ ثابت کرتی ہے کہ ہر عہد کی شاعری میں صبا اکبرآبادی کے اسلوب کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ پروفیسر مامون ایمن کو بھی ان کی اس وقیع تصنیف کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ تاریخ ہر دور میں ان کے علمی کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گی اور ان کے نام کی تعظیم کرے گی۔
٭٭٭
مصنف کے شکرئیے کے ساتھ کہ انہوں نے فائلیں فراہم کیں
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید