فہرست مضامین
- کلیاتِ میر
- دیوان چہارم
- ردیف ۱لف
- ردیف ب
- ردیف ت
- ردیف ث
- ردیف ج
- ردیف چ
- ردیف ح
- ردیف خ
- ردیف د
- ردیف ذ
- ردیف ر
- ردیف س
- ردیف ش
- ردیف ص
- ردیف ض
- ردیف ط
- ردیف ظ
- ردیف ع
- ردیف غ
- ردیف ف
- ردیف ق
- ردیف ک
- ردیف گ
- ردیف ل
- ردیف م
- ردیف ن
- ردیف و
- ردیف ہ
- ردیف ی
- (۱۴۸۸)
- (۱۴۸۸)
- (۱۴۸۸)
- (۱۴۸۰)
- (۱۴۸۱)
- (۱۴۸۲)
- (۱۴۸۳)
- (۱۴۸۴)
- (۱۴۸۵)
- (۱۴۸۶)
- (۱۴۸۸)
- (۱۴۸۸)
- (۱۴۸۸)
- (۱۵۰۰)
- ۱۱۰۲۰
- (۱۵۰۱)
- (۱۵۰۲)
- ۱۱۰۳۵
- (۱۵۰۳)
- (۱۵۰۴)
- (۱۵۰۵)
- (۱۵۰۶)
- (۱۵۰۸)
- (۱۵۰۸)
- (۱۵۰۸)
- (۱۵۱۰)
- (۱۵۱۱)
- (۱۵۱۲)
- (۱۵۱۳)
- (۱۵۱۴)
- (۱۵۱۵)
- (۱۵۱۶)
- (۱۵۱۸)
- (۱۵۱۸)
- (۱۵۱۸)
- (۱۵۲۰)
- (۱۵۲۱)
- (۱۵۲۲)
- (۱۵۲۳)
- (۱۵۲۴)
- (۱۵۲۵)
- (۱۵۲۶)
- (۱۵۲۸)
- (۱۵۲۸)
- (۱۵۲۸)
- (۱۵۳۰)
- (۱۵۳۱)
- (۱۵۳۲)
- (۱۵۳۳)
کلیاتِ میر
میر تقی میرؔ
دیوان چہارم
ردیف ۱لف
(۱۳۱۲)
کرتا ہوں اللہ اللہ درویش ہوں سدا کا
سرمایۂ توکل یاں نام ہے خدا کا
۸۸۰۵
میں نے نکل جنوں سے مشق قلندری کی
زنجیرسر ہوا ہے تھا سلسلہ جو پا کا
یارب ہماری جانب یہ سنگ کیوں ہے عائد
جی ہی سے مارتے ہیں جو نام لے وفا کا
کیا فقر میں گذر ہو چشم طمع سیے بن
ہے راہ تنگ ایسی جیسے سوئی کا ناکا
ابر اور جوش گل ہے چل خانقہ سے صوفی
ہے لطف میکدے میں دہ چند اس ہوا کا
ہم وحشیوں سے مدت مانوس جو رہے ہیں
مجنوں کو شوخ لڑکے کہنے لگے ہیں کاکا
۸۸۱۰
آلودہ خوں سے ناخن ہیں شیر کے سے ہر سو
جنگل میں چل بنے تو پھولا ہے زور ڈھاکا
یہ دو ہی صورتیں ہیں یا منعکس ہے عالم
یا عالم آئینہ ہے اس یار خودنما کا
کیا میں ہی جاں بہ لب ہوں بیماری دلی سے
مارا ہوا ہے عالم اس درد بے دوا کا
زلف سیاہ اس کی رہتی ہے چت چڑھی ہی
میں مبتلا ہوا ہوں اے وائے کس بلا کا
غیرت سے تنگ آئے غیروں سے لڑ مریں گے
آگے بھی میرؔ سید کرتے گئے ہیں ساکا
۸۸۱۵
(۱۳۱۳)
واجب کا ہو نہ ممکن مصدر صفت ثنا کا
قدرت سے اس کی لب پر نام آوے ہے خدا کا
سب روم روم تن میں زردی غم بھری ہے
خاک جسد ہے میری کس کان زر کا خاکا
بند اس قبا کا کھولیں کیا ناخن فقیراں
وابستہ ہے یہ عقدہ شاید کسو دعا کا
ناسازی طبیعت کیا ہے جواں ہوئے پر
اوباش وہ ستمگر لڑکا ہی تھا لڑاکا
گل پھول فصل گل میں صد رنگ ہیں شگفتہ
میں دل زدہ ہوں اب کے رنگینی ہوا کا
۸۸۲۰
عاشق کی چشم تر میں گو دبتے آویں لیکن
پاؤں کا دلبروں کے چھپتا نہیں چھپاکا
زوریں کش اس جواں کی کس سے کماں کھنچے ہے
تھا یکہ و جنازہ میرؔ ان نے جس کو تاکا
(۱۳۱۴)
قصہ کہیں تو کیا کہیں ملنے کی رات کا
پہروں چواؤ ان نے رکھا بات بات کا
جرأت سے گرچہ زرد ہوں پر مانتا ہے کون
منھ لال جب تلک نہ کروں پانچ سات کا
کیونکر بسر کرے غم و غصہ میں ہجر کے
خوگر جو ہو کسو کے کوئی التفات کا
۸۸۲۵
جاگہ سے لے گیا ہمیں اس کا خرام ناز
ٹھہراؤ ہوسکا نہ قرار و ثبات کا
ڈرتا ہوں مالکان جزا چھاتی دیکھ کر
کہنے لگیں نہ واہ رے زخم اس کے ہاتھ کا
واعظ کہے سو سچ ہے ولے مے فروش سے
ہم ذکر بھی سنا نہیں صوم و صلوٰت کا
بھونکا کریں رقیب پڑے کوئے یار میں
کس کے تئیں دماغ عفف ہے سگات کا
ان ہونٹوں کا حریف ہو ظلمات میں گیا
پردے میں رو سیاہ ہے آب حیات کا
۸۸۳۰
عالم کسو حکیم کا باندھا طلسم ہے
کچھ ہو تو اعتبار بھی ہو کائنات کا
گر یار میرؔ اہل ہے تو کام سہل ہے
اندیشہ تجھ کو یوں ہی ہے اپنی نجات کا
(۱۳۱۵)
تجاہل تغافل تساہل کیا
ہوا کام مشکل توکل کیا
نہیں تاب لاتا دل زار اب
بہت ہم نے صبر و تحمل کیا
زمین غزل مِلک سی ہو گئی
یہ قطعہ تصرف میں بالکل کیا
۸۸۳۵
جنوں تھا نہ مجھ کو نہ چپ رہ سکا
کہ زنجیر ٹوٹی تو میں غل کیا
نہ سوز دروں فصل گل میں چھپا
سر و سینہ سے داغ نے گل کیا
ہمیں شوق نے صاحبو کھو دیا
غلاموں سے اس کے توسل کیا
حقیقت نہ میرؔ اپنی سمجھی گئی
شب و روز ہم نے تامل کیا
(۱۳۱۶)
رفتۂ عشق کیا ہوں میں اب کا
جا چکا ہوں جہان سے کب کا
۸۸۴۰
لوگ جب ذکر یار کرتے ہیں
دیکھ رہتا ہوں دیر منھ سب کا
مست رہتا ہوں جب سے ہوش آیا
میں بھی عاشق ہوں اپنے مشرب کا
ہم تو ناکام ہی چلے یاں سے
تم کو ہو گا وصول مطلب کا
درس کہیے جنوں کا تو مجنوں
اپنے آگے ہے طفل مکتب کا
لعل کی بات کون سنتا ہے
شور ہے زور یار کے لب کا
۸۸۴۵
زلف سا پیچ دار ہے ہر شعر
ہے سخن میرؔ کا عجب ڈھب کا
(۱۳۱۸)
میں جو نظر سے اس کی گیا تو وہ سرگرم کار اپنا
کہنے لگا چپکا سا ہو کر ہائے دریغ شکار اپنا
کیا یاری کر دور پھرا وہ کیا کیا ان نے فریب کیے
جس کے لیے آوارہ ہوئے ہم چھوٹا شہر و دیار اپنا
ہاتھ گلے میں ان نے نہ ڈالا میں یہ گلا جا کاٹوں گا
غم غصے سے دیکھیو ہوں گا آپھی گلے کا ہار اپنا
چھاتی پہ سانپ سا پھر جاتا ہے یاد میں اس کے بالوں کی
جی میں لہر آوے ہے لیکن رہتا ہوں من مار اپنا
۸۸۵۰
بات کہی تلوار نکالی آنکھ لڑائی جی مارے
کیونکے جتاوے اس سے کوئی ربط محبت پیار اپنا
ہم نے یار وفاداری میں کوتاہی تقصیر نہ کی
کیا روویں چاہت کے اثر کو وہ نہ ہوا ٹک یار اپنا
رحم کیا کر لطف کیا کر پوچھ لیا کر آخر ہے
میرؔ اپنا غم خوار اپنا پھر زار اپنا بیمار اپنا
(۱۳۱۸)
اے کاش مرے سر پر اک بار وہ آ جاتا
ٹھہراؤ سا ہو جاتا یوں جی نہ چلا جاتا
تب تک ہی تحمل ہے جب تک نہیں آتا وہ
اس رستے نکلتا تو ہم سے نہ رہا جاتا
۸۸۵۵
اک آگ لگا دی ہے چھاتی میں جدائی نے
وہ مہ گلے لگتا تو یوں دل نہ جلا جاتا
یا لاگ کی وے باتیں یا ایسی ہے بیزاری
وہ جو نہ لگا لیتا تو میں نہ لگا جاتا
کیا نور کا بکّا ہے چہرہ کہ شب مہ میں
منھ کھولے جو سو رہتا تو ماہ چھپا جاتا
اس شوق نے دل کے بھی کیا بات بڑھائی تھی
رقعہ اسے لکھتے تو طومار لکھا جاتا
یہ ہمدمی کا دعویٰ اس کے لب خنداں سے
بس کچھ نہ چلا ورنہ پستے کو چبا جاتا
۸۸۶۰
اب تو نہ رہا وہ بھی طاقت گئی سب دل کی
جو حال کبھو اپنا میں تم کو سنا جاتا
وسواس نہ کرتا تھا مر جانے سے ہجراں میں
تھا میرؔ تو ایسا بھی دل جی سے اٹھا جاتا
(۱۳۱۸)
مستانہ اگرچہ میں طاعت کو لگا جاتا
پر بعد نماز اٹھ کر میخانہ چلا جاتا
بازار میں ہو جانا اس مہ کا تماشا تھا
یوسفؑ بھی جو واں ہوتا تو اس پہ بکا جاتا
دیکھا نہ ادھر ورنہ آتا نہ نظر پھر میں
جی مفت مرا جاتا اس شوخ کا کیا جاتا
۸۸۶۵
شب آہ شرر افشاں ہونٹوں سے پھری میرے
سر کھینچتا یہ شعلہ تو مجھ کو جلا جاتا
کیا شوق کی باتوں کی تحریر ہوئی مشکل
تھے جمع قلم کاغذ پر کچھ نہ لکھا جاتا
آنکھیں مری کھلتیں تو اس چہرے ہی پر پڑتیں
کیا ہوتا یکایک وہ سر پر مرے آ جاتا
سبزے کا ہوا روکش خط رخ جاناں کے
جو ہاتھ مرے چڑھتا تو پان کو کھا جاتا
ہے شوق سیہ رو سے بدنامی و رسوائی
کیوں کام بگڑ جاتا جو صبر کیا جاتا
۸۸۸۰
تھا میرؔ بھی دیوانہ پر ساتھ ظرافت کے
ہم سلسلہ داروں کی زنجیر ہلا جاتا
(۱۳۲۰)
یہ دل نے کیا کیا کہ اسیر بلا کیا
اس زلف پر شکن نے مجھے مبتلا کیا
گو بے کسی سے عشق کی آتش میں جل بجھا
میں جوں چراغ گور اکیلا جلا کیا
آیا نہ اس طرف سے جواب ایک حرف کا
ہر روز خط شوق ادھر سے چلا کیا
ڈرتا ہی میں رہا کہ پلک کوئی گڑ نہ جائے
آنکھوں سے اس کے رات جو تلوے ملا کیا
۸۸۸۵
بدحال ٹھنڈی سانسیں بھرا کب تلک کرے
سرگرم مرگ میرؔ ہوا تو بھلا کیا
(۱۳۲۱)
در پر سے ترے اب کے جاؤں گا تو جاؤں گا
یاں پھر اگر آؤں گا سید نہ کہاؤں گا
یہ نذر بدی ہے میں کعبے سے جو اٹھنا ہو
بت خانے میں جاؤں گا زنار بندھاؤں گا
آزار بہت کھینچے یہ عہد کیا ہے اب
آئندہ کسو سے میں دل کو نہ لگاؤں گا
سرگرم طلب ہو کر کھویا سا گیا آپھی
کیا جانیے پاؤں گا یا اس کو نہ پاؤں گا
۸۸۸۰
گو میرؔ ہوں چپکا سا پر طرفہ ہنر ور ہوں
بگڑے گا نہ ٹک وہ تو سو باتیں سناؤں گا
(۱۳۲۲)
دیوانگی میں مجنوں میرے حضور کیا تھا
لڑکا سا ان دنوں تھا اس کو شعور کیا تھا
گردن کشی سے اپنی مارے گئے ہم آخر
عاشق اگر ہوئے تھے ناز و غرور کیا تھا
غم قرب و بعد کا تھا جب تک نہ ہم نے جانا
اب مرتبہ جو سمجھے وہ اتنا دور کیا تھا
اے وائے یہ نہ سمجھے مارے پڑیں گے اس میں
اظہار عشق کرنا ہم کو ضرور کیا تھا
۸۸۸۵
مرتا تھا جس کی خاطر اس کی طرف نہ دیکھا
میرؔ ستم رسیدہ ظالم غیور کیا تھا
(۱۳۲۳)
دل کو گل کہتے تھے درد و غم سے مرجھایا گیا
جی کو مہماں سنتے تھے مہمان سا آیا گیا
عشق سے ہو حال جی میں کچھ تو کہیے دیکھیو
ایک دن باتیں ہی کرتے کرتے سنّایا گیا
جستجو میں یہ تعب کھینچے کہ آخر ہو گئے
ہم تو کھوئے بھی گئے لیکن نہ تو پایا گیا
اک نگہ کرنے میں غارت کر دیا اے وائے ہم
دل جو ساری عمر کا اپنا تھا سرمایہ گیا
۸۸۸۰
کیا تعجب ہے جو کوئی دل زدہ ناگہ مرے
اضطراب عشق میں جی تن سے گھبرایا گیا
ماہ کہتے تو کہا اس روئے خوش کا ہے حریف
شہر میں پھر ہم سے اپنا منھ نہ دکھلایا گیا
جیسے پرچھائیں دکھائی دے کے ہو جاتی ہے محو
میرؔ بھی اس کام جاں کا ووہیں تھا سایہ گیا
(۱۳۲۴)
ہم مست عشق جس کے تھے وہ روٹھ کر گیا
دیکھ اس کو بے دماغ نشہ سب اتر گیا
جاں بخشی اس کے ہونٹوں کی سن آب زندگی
ایسا چھپا کہیں کہ کہا جائے مر گیا
۸۸۸۵
کہتے ہیں میرؔ کعبے گیا ترک عشق کر
راہ دل شکستہ کدھر وہ کدھر گیا
(۱۳۲۵)
شاید جگر حرارت عشقی سے جل گیا
کل درد دل کہا سو مرا منھ ابل گیا
بے یار حیف باغ میں دل ٹک بہل گیا
دے گل کو آگ چار طرف میں نہ جل گیا
اس آہوئے رمیدہ کی شوخی کہیں سو کیا
دکھلائی دے گیا تو چھلاوا سا چھل گیا
دن رات خوں کیا ہی کیے ہم جگر کو پھر
گر پھول گل سے کوئی گھڑی جی بہل گیا
۱۰۰۰۰
تیور بدلنے سے تو نہیں اس کے بے حواس
اندیشہ یہ ہے طور ہی اس کا بدل گیا
ہرچند میں نے شوق کو پنہاں کیا ولے
ایک آدھ حرف پیار کا منھ سے نکل گیا
کرتے ہیں نذر ہم کہ نہ الفت کریں کہیں
گر دل ضعیف اب کے ہمارا سنبھل گیا
چلنے لگے تھے راہ طلب پر ہزار شکر
پہلے قدم ہی پاؤں ہمارا بچل گیا
میں دہ دلا تو آگے ہی تھا فرط شوق سے
طور اس کا دیکھ اور بھی کچھ دل دہل گیا
۱۰۰۰۵
سر اب لگے جھکانے بہت خاک کی طرف
شاید کہ میرؔ جی کا دماغی خلل گیا
(۱۳۲۶)
عشق رسوائی طلب نے مجھ کو سرگرداں کیا
کیا خرابی سر پہ لایا صومعہ ویراں کیا
ہم سے تو جز مرگ کچھ تدبیر بن آتی نہیں
تم کہو کیا تم نے درد عشق کا درماں کیا
داخل دیوانگی ہی تھی ہماری عاشقی
یعنی اس سودے میں ہم نے جان کا نقصاں کیا
شکر کیا اس کی کریمی کا ادا بندے سے ہو
ایسی اک ناچیز مشت خاک کو انساں کیا
۱۰۰۱۰
تیغ سی بھوویں جھکائیں برچھیاں سی وے مژہ
خون کا مجھ بے سر و پا کے بلا ساماں کیا
ایک ہی انداز نے اس کافر بے مہر کے
ساکنان کعبہ کو بے دین و بے ایماں کیا
لکھنؤ دلی سے آیا یاں بھی رہتا ہے اداس
میرؔ کو سرگشتگی نے بے دل و حیراں کیا
(۱۳۲۸)
دل سنبھالے کہیں میں کل جو چلا جاتا تھا
ضعف اتنا تھا کہے بات ڈھلا جاتا تھا
بے دماغی کا سماں دیکھنے کی کس کو تاب
آنکھیں ملتا تھا جو وہ جی ہی ملا جاتا تھا
۱۰۰۱۵
سوزش دل کے سبب مرگ نہ تھی عاشق کی
اپنی غیرت میں وہ کچھ آپھی جلا جاتا تھا
ہلہلاوے ہے حقیری سے مجھے اب وہ بھی
جس شکستے سے نہ جاگہ سے ہلا جاتا تھا
میرؔ کو واقعہ کیا جانیے کیا تھا درپیش
کہ طرف دشت کے جوں سیل چلا جاتا تھا
(۱۳۲۸)
ترک لباس سے میرے اسے کیا وہ رفتہ رعنائی کا
جامے کا دامن پاؤں میں الجھا ہاتھ آنچل اکلائی کا
پاس سے اٹھ چلتا ہے وہ تو آپ میں میں رہتا ہی نہیں
لے جاتا ہے جا سے مجھ کو جانا اس ہرجائی کا
۱۰۰۲۰
حال نہ میرا دیکھے ہے نہ کہے سے تامل ہے اس کو
محو ہے خود آرائی کا یا بے خود ہے خودرائی کا
ظاہر میں خورشید ہوا وہ نور میں اپنے پنہاں ہے
خالی نہیں ہے حسن سے چھپنا ایسے بھی پیدائی کا
یاد میں اس کی قامت کی میں لوہو رو روسوکھ گیا
آخر یہ خمیازہ کھینچا اس خرچ بالائی کا
بعد مرگ چراغ نہ لاوے گور پہ وہ عاشق کی آہ
جیتے جی بھی داغ ہی تھا میں اس کی بے پروائی کا
چشم وفا اخوان زماں سے سادہ ہو سو رکھے میرؔ
قصہ ہے مشہور زمانہ پہلے دونوں بھائی کا
۱۰۰۲۵
(۱۳۲۸)
پھرے ہے وحشی سا گم گشتہ عشق کا تیرا
سبھوں سے پاتے ہیں بیگانہ آشنا تیرا
دریغ و درد تجھے کیوں ہے یاں تو جی ہی گئے
ہوا ہے ایک نگہ میں زیان کیا تیرا
جہاں بھرا ہے ترے شور حسن و خوبی سے
لبوں پہ لوگوں کے ہے ذکر جا بجا تیرا
نگاہ ایک ادھر ایک تیغ تیز کی اور
ہمارا خون ہی کرنا ہے مدعا تیرا
نظر کنھوں نے نہ کی حال میرؔ پر افسوس
غریب شہر وفا تھا وہ خاک پا تیرا
۱۰۰۳۰
(۱۳۳۰)
صورت شیریں کے آگے کام اپنا کر گیا
عشق میں کس حسن سے فرہاد ظالم مر گیا
خانہ آبادی ہمیں بھی دل کی یوں ہے آرزو
جیسے جلوے سے ترے گھر آرسی کا بھر گیا
میرؔ سختی کش تھا غافل پر خدا نے خیر کی
حادثے کا کیسا اس کے سر پہ سے پتھر گیا
(۱۳۳۱)
کیا عشق سو پھر مجھے غم رہا
مژہ نم رہیں حال درہم رہا
ضعیف و قوی دونوں رہتے نہیں
نہ یاں زال ٹھہرا نہ رستم رہا
۱۰۰۳۵
سحر جلوہ کیوں کر کرے کل ہو کیا
یہ اندیشہ ہر رات ہر دم رہا
ہوا غم مجھے خوں جگر میں نہیں
اگر آنسو آتے کوئی تھم رہا
رہی آتی آندھی سی سینے میں میرؔ
بہت دل تڑپنے کا اودھم رہا
(۱۳۳۲)
مکے گیا مدینے گیا کربلا گیا
جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آ گیا
دیکھا ہو کچھ اس آمد و شد میں تو میں کہوں
خود گم ہوا ہوں بات کی تہ اب جو پا گیا
۱۰۰۴۰
کپڑے گلے کے میرے نہ ہوں آبدیدہ کیوں
مانند ابر دیدۂ تر اب تو چھا گیا
جاں سوز آہ و نالہ سمجھتا نہیں ہوں میں
یک شعلہ میرے دل سے اٹھا تھا جلا گیا
وہ مجھ سے بھاگتا ہی پھرا کبر و ناز سے
جوں جوں نیاز کر کے میں اس سے لگا گیا
جور سپہر دوں سے برا حال تھا بہت
میں شرم ناکسی سے زمیں میں سما گیا
دیکھا جو راہ جاتے تبختر کے ساتھ اسے
پھر مجھ شکستہ پا سے نہ اک دم رہا گیا
۱۰۰۴۵
بیٹھا تو بوریے کے تئیں سر پہ رکھ کے میرؔ
صف کس ادب سے ہم فقرا کی اٹھا گیا
(۱۳۳۳)
عشق کی ہے بیماری ہم کو دل اپنا سب درد ہوا
رنگ بدن میت کے رنگوں جیتے جی ہی پہ زرد ہوا
تب بھی نہ سر کھینچا تھا ہم نے آخر مر کر خاک ہوئے
اب جو غبار ضعیف اٹھا تھا پامالی میں گرد ہوا
(۱۳۳۴)
عشق کیا کیا آفتیں لاتا رہا
آخر اب دوری میں جی جاتا رہا
مہر و مہ گل پھول سب تھے پر ہمیں
چہرئی چہرہ ہی وہ بھاتا رہا
۱۰۰۵۰
دل ہوا کب عشق کی رہ کا دلیل
میں تو خود گم ہی اسے پاتا رہا
منھ دکھاتا برسوں وہ خوش رو نہیں
چاہ کا یوں کب تلک ناتا رہا
کچھ نہ میں سمجھا جنون و عشق میں
دیر ناصح مجھ کو سمجھاتا رہا
داغ تھا جو سر پہ میرے شمع ساں
پاؤں تک مجھ کو وہی کھاتا رہا
کیسے کیسے رک گئے ہیں میرؔ ہم
مدتوں منھ تک جگر آتا رہا
۱۰۰۵۵
(۱۳۳۵)
اوصاف مو کے شعر سے الجھاؤ پڑ گیا
دانتوں کو سلک در جو کہا میں سو لڑ گیا
جیتے جی یہ ملا نہ رہا سو رہا غریب
جو دل شکستہ ساتھ سے اس کے بچھڑ گیا
کیا اس کے دل جلے کی تمامی میں دیر ہو
جیسے چراغ صبح شتابی نبڑ گیا
فرہاد پہلوان محبت پہاڑ تھا
بے طاقتی جو دل نے بہت کی پچھڑ گیا
گل رنگ رنگ شاخ سے نکلا بہار میں
آنکھیں سی کھل گئی ہیں جو مرجھا کے جھڑ گیا
۱۰۰۶۰
یاں حادثے کی باؤ سے ہر اک شجر حجر
کیسا ہی پائدار تھا آخر اکھڑ گیا
شرماوے سرو ہووے اگر آدمی روش
وصف اس کے قد کا میرؔ سے سن کر اکڑ گیا
(۱۳۳۶)
جان اپنا جو ہم نے مارا تھا
کچھ ہمارا اسی میں وارا تھا
کون لیتا تھا نام مجنوں کا
جب کہ عہد جنوں ہمارا تھا
کوہ فرہاد سے کہیں آگے
سر مرا اور سنگ خارا تھا
۱۰۰۶۵
ہم تو تھے محو دوستی اس کے
گو کہ دشمن جہان سارا تھا
لطف سے پوچھتا تھا ہر کوئی
جب تلک لطف کچھ تمھارا تھا
آستاں کی کسو کے خاک ہوا
آسماں کا بھی کیا ستارہ تھا
پاؤں چھاتی پہ میری رکھ چلتا
یاں کبھو اس کا یوں گذارا تھا
موسم گل میں ہم نہ چھوٹے حیف
گشت تھا دید تھا نظارہ تھا
۱۰۰۸۰
اس کی ابرو جو ٹک جھکی ایدھر
قتل کا تیغ سے اشارہ تھا
عشق بازی میں کیا موئے ہیں میرؔ
آگے ہی جی انھوں نے ہارا تھا
(۱۳۳۸)
خوب کیا جو اہل کرم کے جود کا کچھ نہ خیال کیا
ہم جو فقیر ہوئے تو ہم نے پہلے ترک سوال کیا
روند کے جور سے ان نے ہم کو پاؤں حنائی اپنے کیے
خون ہمارا بسمل گہ میں کن رنگوں پامال کیا
نکلے ہے گر گھاس جلی بھی خاک سے الفت کشتوں کی
یہ بالیدہ سپہر پھرے ہے گویا ان نے نہال کیا
۱۰۰۸۵
دل جو ہمارا خون ہوا تھا رنج و الم میں گذری ہمیں
یعنی ماتم اس رفتہ کا ہم نے ماہ و سال کیا
میر سدا بے حال رہو ہو مہر و وفا سب کرتے ہیں
تم نے عشق کیا سو صاحب کیا یہ اپنا حال کیا
(۱۳۳۸)
ہم کوئے مغاں میں تھے ماہ رمضاں آیا
صد شکر کہ مستی میں جانا نہ کہاں آیا
گو قدر محبت میں تھی سہل مری لیکن
سستا جو بکا میں تو مجھ کو بھی گراں آیا
رسم اٹھ گئی دنیا سے اک بار مروت کی
کیا لوگ زمیں پر ہیں کیسا یہ سماں آیا
۱۰۰۸۰
یہ نفع ہوا نقصاں چاہت میں کیا جی کا
کی ایک نگہ ان نے سو جی کا زیاں آیا
بلبل بھی تو نالاں تھی پر سارے گلستاں میں
اک آگ پھنکی میں جب سرگرم فغاں آیا
طائر کی بھی رہتی ہے پھر جان چمن ہی میں
گل آئے جہاں وہ بھی جوں آب رواں آیا
خلوت ہی رہا کی ہے مجلس میں تو یوں اس کی
ہوتا ہے جہاں یک جا میں میرؔ جہاں آیا
(۱۳۳۸)
خوں نہ ہوا دل چاہیے جیسا گو اب کام سے جاوے گا
کام اپنے وہ کیا آیا جو کام ہمارے آوے گا
۱۰۰۸۵
آنکھیں لگی رہتی ہیں اکثر چاک قفس سے اسیروں کی
جھونکا باد بہاری کا گل برگ کوئی یاں لاوے گا
فتنے کتنے جمع ہوئے ہیں زلف و خال و خد و قد
کوئی نہ کوئی عہد میں میرے سران میں سے اٹھاوے گا
عشق میں تیرے کیا کیا سن کر یار گئی کر جاتے ہیں
یعنی غم کھاتے ہیں بہت ہم غم بھی ہم کو کھاوے گا
ایک نگہ کی امید بھی اس کی چشم شوخ سے ہم کو نہیں
ایدھر اودھر دیکھے گا پر ہم سے آنکھ چھپاوے گا
اب تو جوانی کا یہ نشہ ہی بے خود تجھ کو رکھے گا
ہوش گیا پھر آوے گا تو دیر تلک پچھتاوے گا
۱۰۰۸۰
دیر سے اس اندیشے نے ناکام رکھا ہے میرؔ ہمیں
پاؤں چھوئیں گے اس کے ہم تو وہ بھی ہاتھ لگاوے گا
(۱۳۴۰)
بہار آئی چلو چمن میں ہوا کے اوپر بھی رنگ آیا
کہاں تلک گل نہ ہووے غنچہ رہا مندے منھ سو تنگ آیا
چلے ہیں مونڈھے پھٹی ہے کہنی چسی ہے چولی پھنسی ہے مہری
قیامت اس کی ہے تنگ پوشی ہمارا جی تو بتنگ آیا
وہی ہے رونا وہی ہے کڑھنا وہی ہے شورش جوانی کی سی
بڑھاپا آیا ہے عشق ہی میں پہ میرؔ ہم کو نہ ڈھنگ آیا
(۱۳۴۱)
دل کو کہیں لگنے دو میرے کیا کیا رنگ دکھاؤں گا
چہرے سے خونناب ملوں گا پھولوں سے گل کھاؤں گا
۱۰۰۸۵
عہد کیے جاؤں ہوں اب کے آخر مجھ کو غیرت ہے
تو بھی منانے آوے گا تو ساتھ نہ تیرے جاؤں گا
گرچہ نصیحت سب ضائع ہے لیکن خاطر ناصح کی
دل دیوانہ کیا سمجھے گا اور بھی میں سمجھاؤں گا
جھک کے سلام کسو کو کرنا سجدہ ہی ہو جاتا ہے
سر جاوے گو اس میں میرا سر نہ فرو میں لاؤں گا
سر ہی سے سر واہ یہ سب ہے ہجر کی اس کے کلفت میں
سر کو کاٹ کے ہاتھ پہ رکھے آپھی ملنے جاؤں گا
خاک ملا منھ خون آنکھوں میں چاک گریباں تا دامن
صورت حال اب اپنی اس کے خاطرخواہ بناؤں گا
۱۰۱۰۰
دل کے تئیں اس راہ میں کھو افسوس کناں اب پھرتا ہوں
یعنی رفیق شفیق پھر ایسے میرؔ کہاں میں پاؤں گا
(۱۳۴۲)
اگرچہ جہاں میں نے سب چھان مارا
ولے اس کی نایابی نے جان مارا
قیامت کو جرمانۂ شاعری پر
مرے سر سے میرا ہی دیوان مارا
رہائی ہے اس صید افگن سے مشکل
گیا سانجھ تو صبح پھر آن مارا
لگا آتشیں نالہ شب اپنے دل کو
اس انداز سے جیسے اک بان مارا
۱۰۱۰۵
قیامت کا عرصہ ہے اے میرؔ درہم
مرے شور و زاری نے میدان مارا
(۱۳۴۳)
جگر خوں کیا چشم نم کر گیا
گیا دل سو ہم پر ستم کر گیا
ان آنکھوں کو نرگس لکھا تھا کہیں
مرے ہاتھ دونوں قلم کر گیا
شب اک شعلہ دل سے ہوا تھا بلند
تن زار میرا بھسم کر گیا
مرے مزرع زرد پر شکر ہے
کل اک ابر آیا کرم کر گیا
۱۰۱۱۰
نہ اک بار وعدہ وفا کرسکا
بہت بار قول و قسم کر گیا
فقیری میں تھا شیب بار گراں
قد راست کو اپنے خم کر گیا
بکائے شب و روز اب چھوڑ میرؔ
نواح آنکھوں کا تو ورم کر گیا
(۱۳۴۴)
یاری کیے کسو کا کاہے کو کام نکلا
ناکام عشق تب تو عاشق کا نام نکلا
ہنگامے سے جہاں میں ہم نے جنوں کیا ہے
ہم جس طرف سے نکلے ساتھ ازدحام نکلا
۱۰۱۱۵
پامالی کے خطر سے نکلا نہ کبک اودھر
جیدھر سے ناز کرتا وہ خوش خرام نکلا
جنگ زمانہ میں تو مبحث ہے عشق ہی کا
بے جا ہوا دل اپنا جب وہ مقام نکلا
جانا تھا تجھ کو ہم نے تو پختہ مغز ہو گا
دیکھا تو میرؔ تیرا سودا بھی خام نکلا
(۱۳۴۵)
نے ہم سے کچھ نہ اس ستم ایجاد سے ہوا
ظلم صریح عشق کی امداد سے ہوا
شیریں کا حسن ایسا تھا جو خستہ جان دیں
جو کچھ ہوا سو خواہش فرہاد سے ہوا
۱۰۱۲۰
خوش زمزمہ طیور ہی ہوتے ہیں میرؔ اسیر
ہم پر ستم یہ صبح کی فریاد سے ہوا
(۱۳۴۶)
زار کیا بیمار کیا اس دل نے کیا آزار کیا
داغ سے تن گلزار کیا سب آنکھوں کو خونبار کیا
جرم ہے ہم الفت کشتوں کا لگ پڑنے سے شوخ ہوا
اب کہتے ہیں دل میں اپنے ہم نے اسے کیوں پیار کیا
چاہا ہم نے کیا کیا تھا پر اپنا چاہا کچھ نہ ہوا
عزت کھوئی ذلت کھینچی عشق نے خوار و زار کیا
پیش گئی کب پیش زمانہ طبع خشن ہر ناکس کی
اک گردش میں سپہر نے جیسے سطح زمیں ہموار کیا
۱۰۱۲۵
سادگی میری آہ نہ جانا جی ہی اس میں جاتا ہے
عشق کا اس پرکار کے میں نے لوگوں میں اقرار کیا
(۱۳۴۸)
سینے کا سوز بہت بھڑکا جلا تن مارا
جامہ زیبوں نے غضب آگ پہ دامن مارا
صورت اس کی مری کھینچی تھی گلے لگتے ہوئے
سو جفا کار نے نقاش کو گردن مارا
دل ہی میں خون ہوئی وصل کی خواہش اے میرؔ
ہم نے آزادگی ہجر سے کیا من مارا
(۱۳۴۸)
پیری میں بے دنداں ہو بیٹھے پر افسوس یہ ہم کو رہا
دانت تمھارے منھ میں کے ہیں اس مغرور نے یوں نہ کہا
۱۰۱۳۰
کیا روداد کہیں ہم اپنے گریۂ زار محبت کی
رونا سا کوئی روئے ہیں آنکھوں سے اک رود بہا
صبر مرا سا بے جرمی پر ہو نہ سکے گا انساں سے
جور و جفا و ستم جو گذرے سب کچھ میں نے میرؔ سہا
(۱۳۴۸)
چاہت کا اظہار کیا سو اپنا کام خراب ہوا
اس پردے کے اٹھ جانے سے اس کو ہم سے حجاب ہوا
ساری ساری راتیں جاگے عجز و نیاز و زاری کی
تب جا کر ملنے کا اس کے صبح کے ہوتے جواب ہوا
کیا کہیے مہتاب میں شب کی وہ بھی ٹک آ بیٹھا تھا
تاب رخ اس مہ نے دیکھی سو درجے بیتاب ہوا
۱۰۱۳۵
شمع جو آگے شام کو آئی رشک سے جل کر خاک ہوئی
صبح گل تر سامنے ہو کر جوش شرم سے آب ہوا
مرتے نہ تھے ہم عشق کے رفتہ بے کفنی سے یعنی میرؔ
دیر میسر اس عالم میں مرنے کا اسباب ہوا
(۱۳۵۰)
تھا محبت سے کبھو ہم میں کبھو یہ غم میں تھا
دل کا ہنگامہ قیامت خاک کے عالم میں تھا
کیا ہوا پہلو سے دل کیا جانو کیا جانوں ہوں میں
ایک قطرہ خوں جھمکتا صبح چشم نم میں تھا
میرؔ گذرے دونوں یاں عید و محرم ایک سے
یعنی دس دن جینے کے میں اپنے ہی ماتم میں تھا
۱۰۱۴۰
(۱۳۵۱)
وفاداری نے جی مارا ہمارا
اسی میں ہو گا کچھ وارا ہمارا
چڑھی تیوری کبھو اس کی نہ اتری
غضب ہے قہر ہے پیارا ہمارا
رہا افسوس آنکھیں تر ہوئیں تو
کہ آنسو تھا جگر پارہ ہمارا
گلہ لب تک نہ آیا میرؔ ہرگز
کھپا جی ہی میں غم سارا ہمارا
ردیف ب
(۱۳۵۲)
ہوا جو دل خوں خرابی آئی ہر ایک اعضا میں ہے فتور اب
حواس گم ہیں دماغ کم ہے رہا سہا بھی گیا شعور اب ۱۰۱۴۵
مریں گے غائب ہزار یوں تو نظر میں ہرگز نہ لاوے گا تو
کریں گے ضائع ہم آپ ہی کو بتنگ ہو کر ترے حضور اب
وجوب و امکاں میں کیا ہے نسبت کہ میرؔ بندے کا پیش صاحب
نہیں ہے ہونا ضرور کچھ تو مجھے بھی ہونا ہے کیا ضرور اب
(۱۳۵۳)
کیا گئی جان و دل سے تاب شتاب
آنسو آتے ہیں اب شتاب شتاب
ہلیں وے پلکیں اور کیے رخنے
حال دل ہو گیا خراب شتاب
یوں صبا بھی سبک نہیں جاتی
جوں گیا موسم شباب شتاب
۱۰۱۵۰
پیر ہو کر ہوا ہوں یوں غافل
جیسے لڑکوں کو آوے خواب شتاب
مرتے ہیں ہو جواب نامہ وہی
آوے خط کا اگر جواب شتاب
مہربانی تو دیر میں ہے کبھو
ہے دل آزاری و عتاب شتاب
یاں قدم چاہیے رکھیں گن کر
میرؔ لے ہے کوئی حساب شتاب
(۱۳۵۴)
بیکار بھی درکار ہیں سرکار میں صاحب
آتے ہیں کھنچے ہم کبھو بیگار میں صاحب
۱۰۱۵۵
محروم نہ رہ جائیں کہیں بعد فنا بھی
شبہ، ہے ہمیں یار کے دیدار میں صاحب
لیتی ہے ہوا رنگ سراپا سے تمھارے
معلوم نہیں ہوتے ہو گلزار میں صاحب
رہتا تھا سرزلف بھی زیر کلہ آگے
سو بال گھڑس نکلے ہیں دستار میں صاحب
ہے چار طرف شور مری بے خبری کا
کیا کیا خبریں آتی ہیں اخبار میں صاحب
گو فہم نہ ہو کفر کی اسلام کی نسبت
رشتہ ہے عجب سبحہ و زنار میں صاحب
۱۰۱۶۰
یا گفتگو کا میری نہ کرتے تھے کبھو ذکر
یا ہر سخن اب آوے ہے تکرار میں صاحب
طالع سے زلیخا نے لیا مصر میں یوسفؑ
کب ایسا غلام آوے ہے بازار میں صاحب
رکھتی ہے لکھا ساتھ مٹا دینے کا میرے
جوہر نہیں ہے آپ کی تلوار میں صاحب
یہ عرض مری یاد رہے بندگی میں میرؔ
جی بچتے نہیں عشق کے اظہار میں صاحب
(۱۳۵۵)
درد سر کا پہر پہر ہے اب
زندگانی ہی درد سر ہے اب
۱۰۱۶۵
وہ دماغ ضعیف بھی نہ رہا
بے دماغی ہی بیشتر ہے اب
کیا ہمیں ہم تو ہو چلے ٹھنڈے
گرم گو یار کی خبر ہے اب
کیا کہیں حال خاطر آشفتہ
دل خدا جانیے کدھر ہے اب
عزلتی میرؔ جوں صبا اس بن
خاک بر سر ہے دربدر ہے اب
(۱۳۵۶)
جوش رونے کا مجھے آیا ہے اب
دیدۂ تر ابر سا چھایا ہے اب
۱۰۱۸۰
ٹیڑھے بانکے سیدھے سب ہو جائیں گے
اس کے بالوں نے بھی بل کھایا ہے اب
ہوں بخود تو کوئی پہنچے مجھ تلک
بے خودی نے دور پہنچایا ہے اب
کاش کے ہو جائے سینہ چاک چاک
رکتے رکتے جی بھی گھبرایا ہے اب
راہ پر وہ کیونکے آوے مست ناز
دشمنوں نے اس کو بہکایا ہے اب
کیا جئیں گے داغ ہو کر خوں ہوا
زندگی کا دل جو سرمایہ ہے اب
۱۰۱۸۵
میرؔ شاید کعبے ہی میں رہ پڑے
دیر سے تو یاں خدا لایا ہے اب
(۱۳۵۸)
کیا کریں تدبیر دل مقدور سے باہر ہے اب
ناامید اس زندگانی کرنے سے اکثر ہے اب
جن دنوں ہم کافروں سے ربط تھا وے ہو چکے
وہ بت بے مہر اپنی اور سے پتھر ہے اب
دور تک رسوا ہوا ہوں شہروں شہروں ملک ملک
میرے شعر و شاعری کا تذکرہ گھر گھر ہے اب
وہ طبیعت ہی نہیں ہے میری اے مشفق طبیب
کر دوا جو طبع میں آوے تری بہتر ہے اب
۱۰۱۸۰
بے خود اس مست ادا و ناز بن رہتے ہیں ہم
عالم اپنا دیکھیے تو عالم دیگر ہے اب
وہ سپاہی پیشہ لوگوں ہی میں رہتا ہے گھرا
گرد پیش اس دشمن احباب کے لشکر ہے اب
گفتگو انسان سے محشر میں ہے یعنی کہ میرؔ
سارا ہنگامہ قیامت کا مرے سر پر ہے اب
(۱۳۵۸)
خلاف وعدہ بہت ہوئے ہو کوئی تو وعدہ وفا کرو اب
ملا کے آنکھیں دروغ کہنا کہاں تلک کچھ حیا کرو اب
خیال رکھیے نہ سرکشی کا سنو ہو صاحب کہ پیری آئی
خمیدہ قامت بہت ہوا ہے جھکائے سر ہی رہا کرو اب
۱۰۱۸۵
کہاں ہے طاقت جو میرؔ کا دل سب ان بلاؤں کی تاب لاوے
کرشمے غمزے کو ناز سے ٹک ہماری خاطر جدا کرو اب
(۱۳۵۸)
یار میرا بہت ہے یار فریب
مکر ہے عہد سب قرار فریب
راہ رکھتے ہیں اس کے دام سے صید
ہے بلا کوئی وہ شکار فریب
عہدے سے نکلیں کس طرح عاشق
ایک ادا اس کی ہے ہزار فریب
التفات زمانہ پر مت جا
میرؔ دیتا ہے روزگار فریب
۱۰۱۸۰
(۱۳۶۰)
کوئی اپنا نہ یار ہے نہ حبیب
اس ستمگر کے ہم ہیں شہر غریب
سر رگڑتے اس آستاں پر میرؔ
یاری کرتے اگر ہمارے نصیب
ردیف ت
(۱۳۶۱)
جب سے آنکھیں لگی ہیں ہماری نیند نہیں آتی ہے رات
تکتے راہ رہے ہیں دن کو آنکھوں میں جاتی ہے رات
سخت ہیں کیا ایام جدائی دشواری سے کٹتے ہیں
دن دیواروں سے سرماروں ہوں پتھر ہے چھاتی ہے رات
جوں توں ہجر کے غم میں اس کے شام و سحر ہم کرتے ہیں
ورنہ کسے دن خوش آتا ہے کس کے تئیں بھاتی ہے رات
۱۰۱۸۵
رات کو جس میں چین سے سوویں سو تو اس کی جدائی میں
شمع نمط جلتے رہتے ہیں اور ہمیں کھاتی ہے رات
روز و شب کی اپنی معیشت نقل کریں کیا تم سے میرؔ
دن کو قیامت جی پہ رہے ہے سر پہ بلا لاتی ہے رات
(۱۳۶۲)
دیر کب رہنا ملے ہے یاں نہیں مہلت بہت
دے کسے فرصت سپہر دوں ہے کم فرصت بہت
کم نہیں دیوانہ ہونا بھی ہمارا دفعتہً
ڈریے ہو جاوے خردور کی جو پلٹے مت بہت
گریہ و زاری سے روز و شب کی شکوے کچھ نہیں
مجھ کو رونا یہ ہے جی کو اس سے ہے الفت بہت
۱۰۲۰۰
کیا وداع اس یار کے کوچے سے ہم مشکل ہوئے
زار باراں لوگ روتے تھے دم رخصت بہت
بعد مرگ آنکھیں کھلی رہنے سے یہ جانا گیا
دیکھنے کی اس کے میرے جی میں تھی حسرت بہت
سن کے ضائع روزگاری اس کی جی لایا نہ تاب
آپ کو کر بیٹھے ضائع ہم کو تھی غیرت بہت
آنکھیں جاتی ہیں مندی ضعف دلی سے دم بہ دم
ان دنوں ان کو بھی ایدھر ہی سے ہے غفلت بہت
دل گئے پر آج کل سے چپ نہیں مجھ کو لگی
گذری اس بھی بات کو اے ہم نفس مدت بہت
۱۰۲۰۵
دل میں جا کرتا ہے طور میرؔ شاید دوستاں
ان نے صاحب دل کسو سے رکھی ہے صحبت بہت
(۱۳۶۳)
چشم رہنے لگی پرآب بہت
شاید آوے گا خون ناب بہت
دیر و کعبے میں اس کے خواہش مند
ہوتے پھرتے ہیں ہم خراب بہت
دل کے دل ہی میں رہ گئے ارمان
کم رہا موسم شباب بہت
مارنا عاشقوں کا گر ہے ثواب
تو ہوا ہے تمھیں ثواب بہت
۱۰۲۱۰
کہیے بے پردہ کیونکے عاشق ہیں
ہم کو لوگوں سے ہے حجاب بہت
میرؔ بے خود ہیں اس جناب سے اب
چاہیے سب کو اجتناب بہت
(۱۳۶۴)
دل نے کام کیے ہیں ضائع دلبر ہے دل خواہ بہت
قدر بہت ہی کم ہے دل کی پر دل میں ہے چاہ بہت
راہ کی بات سنی بھی ہے تو جانا حرف غریب اس کو
خوبی پر اپنی حسن پر اپنے پھرتا ہے گمراہ بہت
حیرانی ہے کیونکر ہووے نسبت اپنی اس سے درست
بندہ تو ہے عاجز عاجز اس کو غرور اللہ بہت
۱۰۲۱۵
شوق کا خط طومار ہوا تھا ہاتھ میں لے کر کھولا جب
کہنے لگا کیا کرنے لکھے ہے اب تو نامہ سیاہ بہت
سب کہتے ہیں روئے توجہ ایدھر کرنے کہتا تھا
شاید یوں بھی ظاہر ہووے ہے تو سہی افواہ بہت
اب تو پیر ہی حضرت ہو کر ایک کنارے بیٹھے ہیں
جب تھی جوانی تب تو ہم بھی جاتے تھے درگاہ بہت
کیا گذری ہے جی پہ تمھارے ہم سے تو کچھ میرؔ کہو
آنے لگی ہے درد و الم سے صاحب لب پر آہ بہت
(۱۳۶۵)
کرتا ہے گرچہ یاروں سے وہ ٹیڑھی بانکی بات
پر کیا ہی دل کو لگتی ہے اس بد زباں کی بات
۱۰۲۲۰
تھی بحر کی سی لہر کہ آئی چلی گئی
پہنچی ہے اس سرے تئیں طبع رواں کی بات
اب تو وفا و مہر کا مذکور ہی نہیں
تم کس سمیں کی کہتے ہو ہے یہ کہاں کی بات
مرغ اسیر کہتے تھے کس حسرتوں سے ہائے
ہم بھی کبھی سنیں گے گلوں کے دہاں کی بات
شب باش ان نے کہتے ہیں آنے کہا ہے میرؔ
دن اچھے ہوں تو یہ بھی ہو اس مہرباں کی بات
ردیف ث
(۱۳۶۶)
نہیں گر چوٹ دل پر گریہ و زاری کا کیا باعث
رکن کاہے کو چشم تر کی خونباری کا کیا باعث
۱۰۲۲۵
ہوئے تختے چمن کے چھاتیاں اے عشق داغوں سے
بہار آنے سے آگے ایسی گل کاری کا کیا باعث
تماشا ہے کہ اکثر نرگسی زن رہتے ہو ہم پر
ہمیں سے پوچھو تو پھر میرؔ بیماری کا کیا باعث
(۱۳۶۸)
عہد اس کا غلط قرار عبث
دل ہمارا ہے بے قرار عبث
ہم گلا کاٹتے ہی تھے اپنا
تو گلے کا ہوا ہے ہار عبث
لوہو رونے نے سب نچوڑ لیا
اب پیے خون روزگار عبث
۱۰۲۳۰
آہ وہ کس قدر ہے مستغنی
لوگ اس کے ہوئے شکار عبث
ہم تو آگے ہی مر رہے ہیں میرؔ
تیغ کھینچے پھرے ہے یار عبث
ردیف ج
(۱۳۶۸)
حال برا ہے تم کو ہم سے اتنی غفلت کیا ہے آج
کوئی گھڑی تو پاس رہو یاں پہروں فرصت کیا ہے آج
سامنے ہے وہ آئینہ پر آنکھ نہیں کھل سکتی ہے
دل تنگی سے رکے ہے دم کیا کہیے صورت کیا ہے آج
فرق و تیغ جٹے رہتے ہیں جب سے دل کی لاگ لگی
اس ظالم بے رحم کی میری ایسی صحبت کیا ہے آج
۱۰۲۳۵
شیشہ صراحی ساغر و مینا سب کل تک بھی حاضر تھے
کوئے بادہ فروشاں میں یہ میری حرمت کیا ہے آج
میرؔ کھڑے اک ساعت ہی میں غش تم کرنے لگتے ہو
تاب نہیں کیا ضعف ہے دل میں جی بے طاقت کیا ہے آج
(۱۳۶۸)
ہم تو لب خوش رنگ کو اس کے مانا لعل احمر آج
اور غرور سے ان نے ہم کو جانا کنکر پتھر آج
عشق کے جو سرگشتہ ہوئے ہم رفتہ رفتہ دوار ہوا
پاؤں میں چکر ہوتا ہے یاں سر کو بھی ہے چکر آج
عرش پہ دھونی لگانے کو تھے دود دل سے کب تک ہم
خاک پہ یاں کی درویشانہ ہم نے بچھایا بستر آج
۱۰۲۴۰
جینے سے ہم غم کشتوں کے خاطر تم بھی جمع کرو
کل تک کام نہیں کھینچے گا غش آتا ہے اکثر آج
ملکوں ملکوں شہروں شہروں قریہ و قصبہ دیہ، و دیار
شعر وبیت و غزل پر اپنی ہنگامہ ہے گھر گھر آج
خط سے آگے مہر و وفا کا دعویٰ سب کچھ صادق تھا
جامۂ مصحف گو پہنے وہ کون کرے ہے باور آج
دیدہ و دل بھی اس کی جانب میل کلی رکھتے ہیں
عشق میں ہم بے کس ہیں واقع یار نہیں بے یاور آج
عشق کیا ہو ہم نے کہیں تو عشق ہمارا جی مارے
یوں ہی نکورو دلبر اپنا ہم سے ہوا ہے بد بر آج
۱۰۲۴۵
رحم کی جاگہ کی ہے پیدا شاید اس کے دل میں بھی
دیکھ رہا ہے منھ کو ہمارے حال ہمارا سن کر آج
کل کہتے ہیں قیامت ہو گی کل کی کل ہی لیں گے دیکھ
یاں تو قیامت عشق میں اس کے ہے گی اپنے سر پر آج
کرتی ہے بووہ زلف معنبر آئے ہو بے خود سے کچھ
بارے مزاج شریف تمھارا میرؔ گیا ہے کیدھر آج
ردیف چ
(۱۳۸۰)
آگے تو رسم دوستی کی تھی جہاں کے بیچ
اب کیسے لوگ آئے زمیں آسماں کے بیچ
میں بے دماغ عشق اٹھا سو چلا گیا
بلبل پکارتی ہی رہی گلستاں کے بیچ
۱۰۲۵۰
تحریک چلنے کی ہے جو دیکھو نگاہ کر
ہیئت کو اپنی موجوں میں آب رواں کے بیچ
کیا میل ہو ہما کی پس از مرگ میری اور
ہے جائے گیر عشق کی تب استخواں کے بیچ
کیا جانوں لوگ کہتے ہیں کس کو سرور قلب
آیا نہیں یہ لفظ تو ہندی زباں کے بیچ
طالع سے بن گئی کہ ہم اس مہ کنے گئے
بگڑی تھی رات اس کے سگ و پاسباں کے بیچ
اتنی جبین رگڑی کہ سنگ آئینہ ہوا
آنے لگا ہے منھ نظر اس آستاں کے بیچ
۱۰۲۵۵
خوگر ہوئے ہیں عشق کی گرمی سے خار و خس
بجلی پڑی رہی ہے مرے آشیاں کے بیچ
اس روئے برفروختہ سے جی ڈرے ہے میرؔ
یہ آگ جا لگے گی کسو دودماں کے بیچ
(۱۳۸۱)
صورت پھرے نہ یار کی کیوں چشم تر کے بیچ
تاثیر ہے گی اہل وفا کے ہنر کے بیچ
خوش سیرتی ہے جس سے کہ ہوتا ہے اعتبار
ہے چوب خشک بو جو نہ ہووے اگر کے بیچ
اس کے سمند ناز کا پامال تو رہوں
اے کاش میری گور کریں رہگذر کے بیچ
۱۰۲۶۰
منھ اس کا دیکھ رہیے کہ رفتار ناز کو
سرتا قدم ہے لطف ہی اس خوش پسر کے بیچ
ہر دانۂ سرشک میں تار نگاہ ہے
اس رشتے کی روش کہ جو ہووے گہر کے بیچ
کیا دل کو خوں کیا کہ تڑپنے لگا جگر
یکتائے روزگار ہیں ہم اس ہنر کے بیچ
ایسا ہوا ہے قیمہ کہ اب ہے حساب پاک
کہیے جو کچھ بھی باقی ہو اپنے جگر کے بیچ
ہے اپنے خانوادے میں اپنا ہی شور میرؔ
بلبل بھی اک ہی بولتا ہوتا ہے گھر کے بیچ
۱۰۲۶۵
(۱۳۸۲)
رنج کیا کیا ہم نے کھینچے دوستی یاری کے بیچ
کیا ہوئی تقصیر اس کی ناز برداری کے بیچ
دوش و آغوش و گریباں دامن گلچیں ہوئے
گل فشانی کر رہی ہے چشم خونباری کے بیچ
ایک کو اندیشۂ کار ایک کو ہے فکر یار
لگ رہے ہیں لوگ سب چلنے کی تیاری کے بیچ
منتظر تو رہتے رہتے پھر گئیں آنکھیں ندان
وہ نہ آیا دیکھنے ہم کو تو بیماری کے بیچ
جان کو قید عناصر سے نہیں ہے وارہی
تنگ آئے ہیں بہت اس چار دیواری کے بیچ
۱۰۲۸۰
روتے ہی گذری ہمیں تو شب نشینی باغ کی
اوس سی پڑتی رہی ہے رات ہر کیاری کے بیچ
یاد پڑتا ہے جوانی تھی کہ آئی رفتگی
ہو گیا ہوں میں تو مست عشق ہشیاری کے بیچ
ایک ہوویں جو زبان و دل تو کچھ نکلے بھی کام
یوں اثر اے میرؔ کیا ہو گریہ و زاری کے بیچ
(۱۳۸۳)
گل منعکس ہوئے ہیں بہت آب جو کے بیچ
جائے شراب پانی بھریں گے سبو کے بیچ
ستھراؤ کر دیا ہے تمنائے وصل نے
کیا کیا عزیز مر گئے اس آرزو کے بیچ
۱۰۲۸۵
بحث آ پڑے جو لب سے تمھارے تو چپ رہو
کچھ بولنا نہیں تمھیں اس گفتگو کے بیچ
ہم ہیں قلندر آ کر اگر دل سے دم بھریں
عالم کا آئینہ ہے سیہ ایک ہو کے بیچ
گل کی تو بو سے غش نہیں آتا کسو کے تیں
ہے فرق میرؔ پھول کی اور اس کی بو کے بیچ
ردیف ح
(۱۳۸۴)
کیا ہم بیاں کسو سے کریں اپنے ہاں کی طرح
کی عشق نے خرابی سے اس خانداں کی طرح
جوں سبزہ چل چمن میں لب جو پہ سیر کر
عمر عزیز جاتی ہے آب رواں کی طرح
۱۰۲۸۰
جو سقف بے عمد ہو نہیں اس کا اعتماد
کس خانماں خراب نے کی آسماں کی طرح
اثبات بے ثباتی ہوا ہوتا آگے تو
کیوں اس چمن میں ڈالتے ہم آشیاں کی طرح
اب کہتے ہیں بلا ہے ستم کش یہ پیرگی
قد جو ہوا خمیدہ ہمارا کماں کی طرح
نقصان جاں صریح تھا سودے میں عشق کے
ہم جان کر نکالی ہے جی کے زیاں کی طرح
دل کو جو خوب دیکھا تو ہو کا مکان ہے
ہے اس مکاں میں ساری وہی لامکاں کی طرح
۱۰۲۸۵
کل دیکھ آفتاب کو رویا ہوں دیر تک
غصے میں ایسی ہی تھی مرے مہرباں کی طرح
جاوے گا اپنی بھول طرح داری میرؔ وہ
کچھ اور ہو گئی جو کسو ناتواں کی طرح
(۱۳۸۵)
مر گیا فرہاد جیسے مرتے بارے اس طرح
سر کوئی پتھر سے مارے بھی تو مارے اس طرح
ٹکڑے ٹکڑے کر دکھایا آپ کو میں نے اسے
یعنی جی مارا کرو آئندہ پیارے اس طرح
مست و بے خود ہر طرف پہروں پھرا کرتے ہو تم
حیف ہے آتے نہیں ٹک گھر ہمارے اس طرح
۱۰۲۸۰
عشق کی کہیے طرح کیا وامق و فرہاد و قیس
بے کسانہ مر گئے وے لوگ سارے اس طرح
جو عرق تحریک میں اس رشک مہ کے منھ پہ ہے
میرؔ کب ہووے ہیں گرم جلوہ تارے اس طرح
(۱۳۸۶)
پہنچے ہے ہم کو عشق میں آزار ہر طرح
ہوتے ہیں ہم ستم زدہ بیمار ہر طرح
ترکیب و طرح ناز و ادا سب سے دل لگی
اس طرح دار کے ہیں گرفتار ہر طرح
یوسف کی اس نظیر سے دل کو نہ جمع رکھ
ایسی متاع جاتی ہے بازار ہر طرح
۱۰۲۸۵
جس طرح میں دکھائی دیا اس سے لگ پڑے
ہم کشت و خوں کے ہیں گے سزاوار ہر طرح
چھپ لک کے بام و در سے گلی کوچے میں سے میرؔ
میں دیکھ لوں ہوں یار کو اک بار ہر طرح
ردیف خ
(۱۳۸۸)
ہے میرے جو سرشک دمادم کا رنگ سرخ
ریزش سے اس کی تختہ ہے سینے کا سنگ سرخ
ردیف د
(۱۳۸۸)
زردی عشق سے ہے تن زار بد نمود
اب میں ہوں جیسے دیر کا بیمار بد نمود
بے برگی بے نوائی سے ہیں عشق میں نزار
پائیز دیدہ جیسے ہوں اشجار بد نمود
۱۰۳۰۰
ہرچند خوب تجھ کو بنایا خدا نے لیک
اے ناز پیشہ کبر ہے بسیار بد نمود
ہیں خوشنما جو سہل مریں ہم ولے ترا
خونریزی میں ہماری ہے اصرار بد نمود
پوشیدہ رکھنا عشق کا اچھا تھا حیف میرؔ
سمجھا نہ میں کہ اس کا ہے اظہار بد نمود
(۱۳۸۸)
کب سے ہے باغ کے پس دیوار باش و بود
مشکل کریں ہیں جیسے گرفتار باش و بود
دنیا میں اپنے رہنے کا کیا طور ہم کہیں
زنداں میں جوں کریں ہیں گنہگار باش و بود
۱۰۳۰۵
بے یار کس کا جینے کو جی چاہتا ہے میرؔ
کرتے ہیں ہم ستم زدہ ناچار باش و بود
(۱۳۸۰)
جاوے جدائی کا یہ آزار گاہ باشد
اچھا بھی ہووے دل کا بیمار گاہ باشد
امیدوار اس کے ملنے کے جیسے ہیں ہم
آ نکلے ناز کرتا یاں یار گاہ باشد
گو قدر دل کی کم ہے پر چیز کام کی ہے
لے تو رکھیں تمھیں ہو درکار گاہ باشد
کہتا ہوں سو کرے ہے لیکن رہوں ہوں ڈرتا
آوے کسو سخن پر تکرار گاہ باشد
۱۰۳۱۰
کہتے تو ہیں گئے سو کب آئے کیا کریں تب
جو خواب مرگ سے ہوں بیدار گاہ باشد
غصے سے اپنے ابرو جو خم کرے ہے ہر دم
وہ اک لگا بھی بیٹھے تلوار گاہ باشد
غیرت سے عشق کی ڈر کیا شیخ کبر دینی
تسبیح کا ہو رشتہ زنار گاہ باشد
وحشت پہ میری مت جا غیرت بہت ہے مجھ کو
ہو بیٹھوں مرنے کو بھی تیار گاہ باشد
ہے ضبط عشق مشکل ہوتا نہیں کسو سے
ڈر میرؔ بھی ہو اس کا اظہار گاہ باشد
۱۰۳۱۵
(۱۳۸۱)
تن کو جس جاگہ سے چھیڑوں ہوں وہاں ہے درد درد
ہاتھ لگتے دل کے ہو جاتا ہوں کچھ میں زرد زرد
اب تو وہ حسرت سے آہ و نالہ کرنا بھی گیا
کوئی دم ہونٹوں تک آ جاتا ہے گاہے سرد سرد
(۱۳۸۲)
اس کی دوری میں کڑھا کرتے ہیں ہم حد سے زیاد
جی گیا آخر رہا دل کو جو غم حد سے زیاد
چھاتی پھٹ جاتی جو یوں رک کر نہ کرتا ترک چشم
گذرے اس کے عشق میں جی پر ستم حد سے زیاد
خوف کر عاشق کے سر کٹنے کی قطعی ہے دلیل
ہو جہاں شمشیر ابرو اس کی خم حد سے زیاد
۱۰۳۲۰
کچھ بھی نزدیک اس کے ٹھہرا ہو تو دیکھے بھر نظر
قدر ہے عاشق کی ان آنکھوں میں کم حد سے زیاد
پاس اس کے دم بخود پہروں تھے سو طاقت کہاں
بات کہتے میرؔ اب کرتے ہیں دم حد سے زیاد
(۱۳۸۳)
شعر دیواں کے میرے کر کر یاد
مجنوں کہنے لگا کہ ہاں استاد
خود کو عشق بتاں میں بھول نہ جا
متوکل ہو کر خدا کو یاد
سب طرف کرتے ہیں نکویاں کی
کس سے جا کر کوئی کرے فریاد
۱۰۳۲۵
وحشی اب گردباد سے ہم ہیں
عمر افسوس کیا گئی برباد
چار دیواری عناصر میرؔ
خوب جاگہ ہے پر ہے بے بنیاد
ردیف ذ
(۱۳۸۴)
درویشی کی جو سوختگی ہے سو ہے لذیذ
نان و نمک ہے داغ کا بھی ایک شے لذیذ
ردیف ر
(۱۳۸۵)
مت اس چمن میں غنچہ روش بود و باش کر
مانند گل شگفتہ جبیں یاں معاش کر
دل رکھ قوی فلک کی زبردستی پر نہ جا
گر کشتی لگ گئی ہے تو تو بھی تلاش کر
۱۰۳۳۰
ہے کیا تو جیسے غنچہ بندھی مٹھی جا چلا
مت گل کے رنگ منھ کو کھلا راز فاش کر
یوں ہی ہے سینہ کوبی اگر چاہے دل کی داد
پیشانی کو سلیقے سے دکھلا خراش کر
پھرتا ہے کیا تو میرؔ گلستاں میں غم زدہ
کچھ دل خراش لکھ بھی قلم اک تراش کر
(۱۳۸۶)
مرتے ہیں ہم تو آدم خاکی کی شان پر
اللہ رے دماغ کہ ہے آسمان پر
چرکہ تھا دل میں لالہ رخوں کے خیال سے
کیا کیا بہاریں دیکھی گئیں اس مکان پر
۱۰۳۳۵
عرصہ ہے تنگ صدر نشینوں پہ شکر ہے
بیٹھے اگر تو جا کے کسو آستان پر
آفات میں ہے مرغ چمن گل کے شوق سے
جوکھوں ہزار رنگ کی رہتی ہے جان پر
اس کام جاں کے جلووں کا میں ہی نہیں ہلاک
آفت عجب طرح کی ہے سارے جہان پر
جاتے تو ہیں پہ خواہش دل موت ہے نری
پھر بھی ہمیں نظر نہیں جی کے زیان پر
تقدیس دل تو دیکھ ہوئی جس کو اس سے راہ
سر دیں ہیں لوگ اس کے قدم کے نشان پر
۱۰۳۴۰
انداز و ناز اپنے اس اوباش کے ہیں قہر
سو سو جوان مرتے ہیں ایک ایک آن پر
شوخی تو دیکھو آپھی کہا آؤ بیٹھو میرؔ
پوچھا کہاں تو بولے کہ میری زبان پر
(۱۳۸۸)
کیا صبر ہم نے جو اس کے ستم پر
ستم سا ستم ہو گیا اس میں ہم پر
لکھا جو گیا اس کو کیا نقل کریے
سخن خونچکاں تھے زبان قلم پر
جھکے ٹک جدھر جھک گئے لوگ اودھر
رہی درمیاں تیغ ابرو کے خم پر
۱۰۳۴۵
سخن زن ہوں ہر چند وے مست آنکھیں
نہیں اعتماد ان کے قول و قسم پر
جگر ہے سزا میرؔ اس رنج کش کو
گیا دو قدم جو ہمارے قدم پر
(۱۳۸۸)
تجھ کو ہے سوگند خدا کی میری اور نگاہ نہ کر
چشم سیاہ ملا کر یوں ہی مجھ کو خانہ سیاہ نہ کر
عشق و محبت یاری میں اک لطف رکھے ہے کرنا ضبط
چھاتی پہ جو ہو کوہ الم کا تو بھی نالہ و آہ نہ کر
مانگ پناہ خدا سے بندے دل لگنا اک آفت ہے
عشق نہ کر زنہار نہ کر واللہ نہ کر باللہ نہ کر
۱۰۳۵۰
گھاس ہے میخانے کی بہتر ان شیخوں کے مصلے سے
پاؤں نہ رکھ سجادے پہ ان کے اس جادے سے راہ نہ کر
میرؔ نہ ہم کہتے تھے تجھ سے حال نہیں کچھ رہنے کا
چاہ بلائے جان و دل ہے آ جانے دے چاہ نہ کر
(۱۳۸۸)
کل سے دل کی کل بگڑی ہے جی مارا بے کل ہو کر
آج لہو آنکھوں میں آیا درد و غم سے رو رو کر
ایک سجود خلوص دل سے آہ کیا نہ جوانی میں
سر مارے ہیں محرابوں میں یوں ہی وقت کو اب کھو کر
جیب دریدہ خاک ملوں کے حال سے کیا آگاہی تمھیں
راہ چلو ہو ناز کناں دامن کو لگا کر تم ٹھوکر
۱۰۳۵۵
ایک تو ہم تو ہوتے نہیں ہیں سر بہتیرا مار چکے
اب بہتر ہے تیغ ستم کی جلد لگا کر تو دو کر
جی ہی ملا جاتا ہے اپنا میرؔ سماں یہ دیکھے سے
آنکھیں ملتے اٹھتے ہیں بستر سے دلبر جب سو کر
(۱۳۸۰)
یہ لطف اور پوچھا مجھ سے خطاب کر کر
کاے میرؔ کچھ کہیں ہم تجھ کو عتاب کر کر
چھاتی جلی ہے کیسی اڑتی جو یہ سنی ہے
واں مرغ نامہ بر کا کھایا کباب کر کر
خوں ریزی سے کچھ آگے تشہیر کر لیا تھا
اس دل زدے کو ان نے مارا خراب کر کر
۱۰۳۶۰
گنتی میں تو نہ تھا میں پر کل خجل ہوا وہ
کچھ دوستی کا میری دل میں حساب کر کر
روپوش ہی رہا وہ مرنے تک اپنے لیکن
منھ پر نہ رکھا اس کے کچھ میں حجاب کر کر
مستی و بے خودی میں آسودگی بہت تھی
پایا نہ چین میں نے ترک شراب کر کر
کیا جانیے کہ دل پر گذرے ہے میرؔ کیا کیا
کرتا ہے بات کوئی آنکھیں پر آب کر کر
(۱۳۸۱)
جدائی تا جدائی فرق ہے ملتے بھی ہیں آ کر
فراق ایسا نہیں ہوتا کہ پھر آتے نہیں جا کر
۱۰۳۶۵
اگرچہ چپ لگی ہے عاشقی کی مجھ کو حیرت سے
کبھو احوال پرسی تو کرو دل ہاتھ میں لا کر
جو جانوں تجھ میں بلبل تہ نہیں تو کیوں زباں دیتا
زباں کر بند سارے باغ میں مجھ کو نہ رسوا کر
فلک نے باغ سے جوں غنچۂ نرگس نکالا ہے
کہیں کیا جانوں کیا دیکھوں گا چشم بستہ کو وا کر
سبد پھولوں بھرے بازار میں آئے ہیں موسم میں
نکل کر گوشۂ مسجد سے تو بھی میرؔ سودا کر
(۱۳۸۲)
اس رفتہ پاس اس کو لائے تھے لوگ جا کر
پر حیف میں نہ دیکھا بالیں سے سر اٹھا کر
۱۰۳۸۰
سن سن کے درد دل کو بولا کہ جاتے ہیں ہم
تو اپنی یہ کہانی بیٹھا ہوا کہا کر
آگے زمیں کی تہ میں ہم سے بہت تھے تو بھی
سر پر زمین اٹھالی ہم بے تہوں نے آ کر
میرے ہی خوں میں ان نے تیغہ نہیں سلایا
سویا ہے اژدہا یہ بہتیرے مجھ سے کھا کر
دل ہاتھ آ گیا تھا لطف قضا سے میرے
افسوس کھو چلا ہوں ایسے گہر کو پا کر
جو وجہ کوئی ہو تو کہنے میں بھی کچھ آوے
باتیں کرو ہو بگڑی منھ کو بنا بنا کر
۱۰۳۸۵
اب تو پھرو ہو بے غم تب میرؔ جانیں گے ہم
اچھے رہو گے جب تم دل کو کہیں لگا کر
(۱۳۸۳)
بزم میں منھ ادھر کریں کیوں کر
اور نیچی نظر کریں کیوں کر
یوں بھی مشکل ہے ووں بھی مشکل ہے
سر جھکائے گذر کریں کیوں کر
راز پوشی عشق ہے منظور
آنکھیں رو رو کے تر کریں کیوں کر
مست و بے خود ہم اس کے در پہ گئے
لوگ اس کو خبر کریں کیوں کر
۱۰۳۸۰
سو رہا بال منھ پہ کھول کے وہ
ہم شب اپنی سحر کریں کیوں کر
مہ فلک پر ہے وہ زمیں پر آہ
ان کو زیر و زبر کریں کیوں کر
دل نہیں دردمند اپنا میرؔ
آہ و نالے اثر کریں کیوں کر
ردیف ز
(۱۳۸۴)
ہے زیر سخاک لاشۂ عاشق طپاں ہنوز
پیدا ہے عشق کشتے کا اس کے نشاں ہنوز
گردش سے اس کی خاک برابر ہوئی ہے خلق
استادہ روئے خاک پہ ہے آسماں ہنوز
۱۰۳۸۵
اس تک پہنچنے کا تو نہیں حال کچھ ولے
جاتے ہیں گرتے پڑتے بھی ہم ناتواں ہنوز
پروانہ جل کے خاک ہوا پھر اڑا کیا
اے شمع تیری رہتی نہیں ہے زباں ہنوز
چندیں ہزار جانیں گئیں اس کی راہ میں
ایک آدھ تو بھی مر رہے ہیں نیم جاں ہنوز
مدت ہوئی کہ خوار ہو گلیوں میں مر گئے
قصہ ہمارے عشق کا ہے داستاں ہنوز
لخت جگر کے غم میں کہ تھا لعل پارہ میرؔ
رخسار زرد پر ہے مرے خوں رواں ہنوز
۱۰۳۸۰
(۱۳۸۵)
دیوانگی کی ہے وہی زور آوری ہنوز
ہر دم نئی ہے میری گریباں دری ہنوز
سر سے گیا ہے سایۂ لطف اس کا دیر سے
آنکھوں ہی میں پھرے ہے مری وہ پری ہنوز
شوخی سے زار گریہ کی خوں چشم میں نہیں
ویسی ہی ہے مژہ کی بعینہ تری ہنوز
کب سے نگاہ گاڑے ہے یاں روز آفتاب
ہم دیکھے ہیں جہاں کے تئیں سرسری ہنوز
مبہوت ہو گیا ہے جہاں اک نظر کیے
جاتی نہیں ان آنکھوں سے جادوگری ہنوز
۱۰۳۸۵
ابر کرم نے سعی بہت کی پہ کیا حصول
ہوتی نہیں ہماری زراعت ہری ہنوز
مدت سے میرؔ بے دل و دیں دلبروں میں ہے
کرتا نہیں ہے اس کی کوئی دلبری ہنوز
(۱۳۸۶)
گرچہ آتے ہیں گل ہزار ہنوز
نہ گیا دل سے روئے یار ہنوز
بے قراری میں ساری عمر گئی
دل کو آتا نہیں قرار ہنوز
خاک مجنوں جہاں ہے صحرا میں
واں سے اٹھتا ہے اک غبار ہنوز
۱۰۴۰۰
کب سے ہے وہ خلاف وعدہ ولے
دل کو اس کا ہے اعتبار ہنوز
قیس و فرہاد پر نہیں موقوف
عشق لاتا ہے مرد کار ہنوز
برسوں گذرے ہیں اس سے ملتے ولے
صحبت اس سے نہیں بر آر ہنوز
عشق کرتے ہوئے تھے بے خود میرؔ
اپنا ان کو ہے انتظار ہنوز
(۱۳۸۸)
وہ مخطط ہے محو ناز ہنوز
کچھ پذیرا نہیں نیاز ہنوز
۱۰۴۰۵
کیا ہوا خوں ہوا کہ داغ ہوا
دل ہمارا نہیں گداز ہنوز
سادگی دیکھ اس جفا جو سے
ہم نہیں کرتے احتراز ہنوز
ایک دن وا ہوئی تھی اس منھ پر
آرسی کی ہے چشم باز ہنوز
معتبر کیا ہے میرؔ کی طاعت
رہن بادہ ہے جانماز ہنوز
(۱۳۸۸)
خاک ہو کر اڑیں ہیں یار ہنوز
دل کا بیٹھا نہیں غبار ہنوز
۱۰۴۱۰
نہ جگر میں ہے خوں نہ دل میں خوں
در پئے خوں ہے روزگار ہنوز
دست بر دل ہوں مدتوں سے میرؔ
دل ہے ویسا ہی بے قرار ہنوز
(۱۳۸۸)
دوستاں حسن و خوبی ہے کیا چیز
ٹھہری ہے جان سی بھی شے کیا چیز
ردیف س
(۱۴۰۰)
مدت ہجر میں کیا کریے بیاں یار کے پاس
حال پرسی بھی نہ کی آن کے بیمار کے پاس
حق یہ ہے خواہش دل ہے مری تو آ جاتا
جب کہ خوں ریزی کو بٹھلائیں مجھے دار کے پاس
۱۰۴۱۵
در اسیری کا کھلا منھ پہ ہمارے کیا تنگ
مر ہی رہیے گا قفس کے در و دیوار کے پاس
آنا اس کا تو دم قتل ضروری ہے ولے
کون آتا ہے کسو خوں کے سزاوار کے پاس
پایئے یار اکیلا تو غم دل کہیے
سو تو بیٹھا ہی اسے پاتے ہیں دوچار کے پاس
منھ پہ ناخن کے خراشوں سے لگا دل بہنے
چشمے نکلے ہیں نئے چشم جگر بار کے پاس
میں تو تلوار تلے اس کے لیے بیٹھا میرؔ
وہ کھڑا بھی نہ ہوا آ کے گنہگار کے پاس
۱۰۴۲۰
(۱۴۰۱)
کل ہاتھ جا رہا تھا دل بے قرار پاس
گویا کہ جا رہا کسو سوزندہ نار پاس
کس جد و کد سے حیف ہے مجھ کو کیا شکار
ٹھہرا نہ پھر وہ صید فگن اس شکار پاس
اس گل بغیر پہروں ہیں بلبل سے نالہ کش
کرتے ہیں اپنی اور سے تو ہم ہزار پاس
خوشحال وے جو حال کہیں دلبروں سے دیر
رویا نہ میں تو ایک گھڑی اپنے یار پاس
دوری میں جس کی مر گئے رک رک کے میرؔ ہم
نکلا نہ وہ سو ہو کے ہمارے مزار پاس
۱۰۴۲۵
(۱۴۰۲)
اب نہیں ہوتی چشم تر افسوس
بہ گیا خون ہو جگر افسوس
دیدنی ہے یہ خستہ حالی لیک
ایدھر اس کی نہیں نظر افسوس
عیب ہی عیب میرے ظاہر ہیں
مجھ کو آیا نہ کچھ ہنر افسوس
میرؔ ابتر بہت ہے دل کا حال
یعنی ویراں پڑا ہے گھر افسوس
ردیف ش
(۱۴۰۳)
نکلے پردے سے روئے یار اے کاش
منھ کرے ٹک ادھر بہار اے کاش
۱۰۴۳۰
کچھ وسیلہ نہیں جو اس سے ملوں
شعر ہو یار کا شعار اے کاش
کہیں اس بحر حسن سے بھر جائے
موج ساں میری بھی کنار اے کاش
برق ساں ہو چکوں تڑپ کر میں
یوں ہی آوے مجھے قرار اے کاش
اعتمادی نہیں ہے یاری غیر
یار سے ہم سے ہووے پیار اے کاش
آوے سررشتۂ جنوں کچھ ہاتھ
ہو گریبان تار تار اے کاش
۱۰۴۳۵
میرؔ جنگل تمام بس جاوے
بن پڑے ہم سے روزگار اے کاش
(۱۴۰۴)
اس کا خیال آوے ہے عیار کی روش
کچھ اس کی ہم نے پائی نہ رفتار کی روش
کیا چال ہے گی زہر بھری روزگار کی
سب اس گزندے کی ہے سیہ مار کی روش
وہ رفت و خیز گرم تو مدت سے ہو چکی
رہتے ہیں اب گرے پڑے بیمار کی روش
جاتے ہیں رنگ و بوئے گل و آب جو چلے
آئی نہ خوش ہمیں تو یہ گلزار کی روش
۱۰۴۴۰
مائل ہوا ہے سرو گلستاں کا دل بہت
کچھ آ گئی تھی اس میں قد یار کی روش
زندان میں جہاں کے بہت ہیں خراب حال
کرتے ہیں ہم معاش گنہگار کی روش
یوں سر بکھیرے عشق میں پھرتے نہیں ہیں میرؔ
اظہار بھی کریں ہیں تو اظہار کی روش
(۱۴۰۵)
رہتے ہیں بہت دل کے ہم آزار سے ناخوش
بستر پہ گرے رہتے ہیں بیمار سے ناخوش
جانا جو مقرر ہے مرا دار فنا سے
اس بستی کے میں ہوں در و دیوار سے ناخوش
۱۰۴۴۵
ہمواری سے ہیں نرم و خشن ایک سے دونوں
خوش ہیں نہ گل تر سے نہ ہم خار سے ناخوش
سررشتۂ دل بند نہیں زلف و کمر میں
کیا جانیے ہم کس لیے ہیں یار سے ناخوش
ہے عشق میں صحبت مری خوباں کی عجب کچھ
اقرار سے بیزار ہیں انکار سے ناخوش
خوش رہتے ہیں احباب بہم ربط کیے سے
رہتے ہو تمھیں ایک مرے پیار سے ناخوش
اک بات کا بھی لوگوں میں پھپّٹ اسے کرنا
ہم ہیں گے بہت میرؔ کے بستار سے ناخوش
۱۰۴۵۰
ردیف ص
(۱۴۰۶)
طائر دل کی طپش سینے میں جانو تم بسمل کا رقص
ان ہی رنگوں ہوتا ہے اس صید طرفہ دل کا رقص
ردیف ض
(۱۴۰۸)
کیا کہوں کیسا ہے دلبر خودغرض
خود نما خود رائے و خودسر خودغرض
ردیف ط
(۱۴۰۸)
دل لگی کے تئیں جگر ہے شرط
بے خبر مت رہو خبر ہے شرط
عشق کے دو گواہ لا یعنی
زردی رنگ و چشم تر ہے شرط
(۱۴۰۸)
دل کا لگانا جی کھوتا ہے اس کو جگر ہے پیارے شرط
سو تو بہا تھا خوں ہو آگے پہلے داؤ ہی ہارے شرط
۱۰۴۵۵
ردیف ظ
(۱۴۱۰)
عشق ہمارا جی مارے ہے ہم ناداں ہیں کیا محظوظ
ایسی شے کا زیاں کھینچے تو دانا ہووے نا محظوظ
پانی منھ میں بھر آتا تھا اس کے عقیق لب دیکھے
اب ہے تشنہ کام جدائی میرؔ وگرنہ تھا محظوظ
ردیف ع
(۱۴۱۱)
ایک ہی گل کا صرف کیا ہے میں نے سراپا جیسے شمع
تلووں تک وہ داغ گیا ہے سب مجھ کو کھا جیسے شمع
ردیف غ
(۱۴۱۲)
ہمارے آگے چمن سے گئی بہار دریغ
دریغ و درد و صد افسوس صد ہزار دریغ
(۱۴۱۳)
دل جگر دونوں پر جلائے داغ
عشق نے کیا ہمیں دکھائے داغ
۱۰۴۶۰
دل جلے ہم نہیں رہے بیکار
زخم کاری اٹھائے کھائے داغ
جل گئے دیکھ گرمی اغیار
آئے اس کوچے سے تو آئے داغ
احتیاطاً صراحی مے سے
ہم نے سجادے کے دھلائے داغ
دیکھے دامن کے نیچے کے سے دیے
میرؔ نے گر تلے چھپائے داغ
ردیف ف
(۱۴۱۴)
آج ہمارا سر پھرتا ہے باتیں جتنی سب موقوف
حرف و سخن جو بایک دیگر رہتے تھے سو اب موقوف
۱۰۴۶۵
کس کو دماغ رہا ہے یاں آٹھ پہر کی منت کا
ربط اخلاص سے دن گذرے ہے خلطہ اس سے سب موقوف
اس کی گلی میں آمد و شد کی گھات ہی میں ہم رہتے تھے
اب جو شکستہ پا ہو بیٹھے ڈھب کرنے کے ڈھب موقوف
وہ جو مانع ہو تو کیا ہے شوق کمال کو پہنچا ہے
وقفہ ہو گا تب ملنے میں ہم بھی کریں گے جب موقوف
حلقے پڑے ہیں چشم تر میں سوکھے ایسے تم نہ رہے
رونا کڑھنا عشق میں اس کے میرؔ کرو گے کب موقوف
(۱۴۱۵)
میں آگے نہ تھا دیدۂ پر آب سے واقف
پلکیں نہ ہوئی تھیں مری خوناب سے واقف
۱۰۴۸۰
پتھر تو بہت لڑکوں کے کھائے ہیں ولیکن
ہم اب بھی جنوں کے نہیں آداب سے واقف
ہم ننگ خلائق یہ عجب ہے کہ نہیں ہیں
اس عالم اسباب میں اسباب سے واقف
شب آنکھیں کھلی رہتی ہیں ہم منتظروں کی
جوں دیدۂ انجم نہیں ہیں خواب سے واقف
بل کھائے انھیں بالوں کو ہم جانیں ہیں یا میرؔ
ہیں پیچ و غم و رنج و تب و تاب سے واقف
(۱۴۱۶)
نظر کیا کروں اس کے گھر کی طرف
نگاہیں ہیں میری نظر کی طرف
۱۰۴۸۵
چھپاتے ہیں منھ اپنا کامل سے سب
نہیں کوئی کرتا ہنر کی طرف
بڑی دھوم سے ابر آئے گئے
نہ کوئی ہوا چشم تر کی طرف
اندھا دھند روتے ہیں آنکھوں سے خون
نہیں دیکھتے ہم جگر کی طرف
رہا بے خبر گرچہ ہجراں میں میرؔ
رہے گوش اس کی خبر کی طرف
ردیف ق
(۱۴۱۸)
لوگ بہت پوچھا کرتے ہیں کیا کہیے میاں کیا ہے عشق
کچھ کہتے ہیں سر الٰہی کچھ کہتے ہیں خدا ہے عشق
۱۰۴۸۰
عشق کی شان ارفع اکثر ہے لیکن شانیں عجائب ہیں
گہ ساری ہے دماغ و دل میں گاہے سب سے جدا ہے عشق
کام ہے مشکل الفت کرنا اس گلشن کے نہالوں سے
بوکش ہو کر سیب ذقن کا غش نہ کرے تو سزا ہے عشق
الفت سے پرہیز کیا کر کلفت اس میں قیامت ہے
یعنی درد و رنج و تعب ہے آفت جان بلا ہے عشق
میرؔ خلاف مزاج محبت موجب تلخی کشیدن ہے
یار موافق مل جاوے تو لطف ہے چاہ مزہ ہے عشق
(۱۴۱۸)
دل کا مطالعہ کر اے آگہ حقائق
ہیں فن عشق کے بھی مشکل بہت دقائق
۱۰۴۸۵
چھاتی جلوں کے آگے کھنچتا ہے بیشتر دل
ایک آشنا ہے مجھ سے اس باغ میں شقائق
ہے راستی کہ انساں مشتق ہے انس ہی سے
بیماری دوستی کی ہے دشمن خلائق
جی سارے تن کا کھنچ کر آنکھوں میں آ رہا ہے
کس مرتبے میں ہم بھی ہیں دیکھنے کے شائق
کل میرؔ جی نے ضائع اپنے تئیں کیا ہے
یہ کام تھا نہ ان کی شائستگی کے لائق
(۱۴۱۸)
نزدیک عاشقوں کے زمیں ہے قرار عشق
اور آسماں غبار سر رہ گذار عشق
۱۰۴۸۰
مقبول شہر ہی نہیں مجنوں ضعیف و زار
ہے وحشیان دشت میں بھی اعتبار عشق
گھر کیسے کیسے دیں کے بزرگوں کے ہیں خراب
القصہ ہے خرابۂ کہنہ دیار عشق
گو ضبط کرتے ہوویں جراحت جگر کے زخم
روتا نہیں ہے کھول کے دل راز دار عشق
مارا پڑے ہے انس ہی کرنے میں ورنہ میرؔ
ہے دور گرد وادی وحشت شکار عشق
ردیف ک
(۱۴۲۰)
وحشت ہے ہمیں بھی وہی گھر بار سے اب تک
سر مارے ہیں اپنے در و دیوار سے اب تک
۱۰۴۸۵
مرتے ہی سنا ان کو جنھیں دل لگی کچھ تھی
اچھا بھی ہوا کوئی اس آزار سے اب تک
جب سے لگی ہیں آنکھیں کھلی راہ تکے ہیں
سوئے نہیں ساتھ اس کے کبھو پیار سے اب تک
آیا تھا کبھو یار سو مامول ہم اس کے
بستر پہ گرے رہتے ہیں بیمار سے اب تک
بد عہدیوں میں وقت وفات آن بھی پہنچا
وعدہ نہ ہوا ایک وفا یار سے اب تک
ہے قہر و غضب دیکھ طرف کشتے کے ظالم
کرتا ہے اشارت بھی تو تلوار سے اب تک
۱۰۵۰۰
کچھ رنج دلی میرؔ جوانی میں کھنچا تھا
زردی نہیں جاتی مرے رخسار سے اب تک
(۱۴۲۱)
رہا پھول سا یار نزہت سے اب تک
نہ ایسا کھلا گل نزاکت سے اب تک
لبالب ہے وہ حسن معنی سے سارا
نہ دیکھا کوئی ایسی صورت سے اب تک
سلیماں ؑ سکندر کہ شاہان دیگر
نہ رونق گئی کس کی دولت سے اب تک
کرم کیا صفت ہے نہ ہوں گو کریماں
سخن کرتے ہیں ان کی ہمت سے اب تک
۱۰۵۰۵
سبب مرگ فرہاد کا ہو گیا تھا
نگوں ہے سرتیشہ خجلت سے اب تک
ہلا تو بھی لب کو کہ عیسیٰ ؑکے دم کی
چلی جائے ہے بات مدت سے اب تک
عقیق لب اس کے کبھو دیکھے تھے میں
بھرا ہے دہن آب حسرت سے اب تک
گئی عمر ساری مجھے عجز کرتے
نہ مانی کوئی ان نے منت سے اب تک
نہ ہو گو جنوں میرؔ جی کو پر ان کی
طبیعت ہے آشفتہ وحشت سے اب تک
۱۰۵۱۰
ردیف گ
(۱۴۲۲)
اس رنگ سے جو زرد زبوں زار ہیں ہم لوگ
دل کے مرض عشق سے بیمار ہیں ہم لوگ
کیا اپنے تئیں پستی بلندی سے جہاں کی
اب خاک برابر ہوئے ہموار ہیں ہم لوگ
مقصود تو حاصل ہے طلب شرط پڑی ہے
وہ مطلب عمدہ ہے طلبگار ہیں ہم لوگ
خوں ریز ہی لڑکوں سے لڑا رہتے ہیں آنکھیں
گر قتل کریں ہم کو سزاوار ہیں ہم لوگ
دل پھنس رہے ہیں دام میں زلفوں کے کسو کی
تنگ اپنے جیوں سے ہیں گرفتار ہیں ہم لوگ
۱۰۵۱۵
بازار کی بھی جنس پہ جی دیتے ہیں عاشق
سر بیچتے پھرتے ہیں خریدار ہیں ہم لوگ
ان پریوں سے لڑکوں ہی کے جھپٹے میں دل آئے
بے ہوش و خرد جیسے پریدار ہیں ہم لوگ
در پر کسو کے جا کے کھڑے ہوں تو کھڑے ہیں
حیرت زدۂ عشق ہیں دیوار ہیں ہم لوگ
جاتے ہیں چلے قافلہ در قافلہ اس راہ
چلنے میں تردد نہیں تیار ہیں ہم لوگ
مارے ہی پڑیں کچھ کہیں عشاق تو شاید
حیرت سے ہیں چپ تس پہ گنہگار ہیں ہم لوگ
۱۰۵۲۰
گو نیچی نظر میرؔ کی ہو آنکھیں تو ٹک دیکھ
کیا دل زدگاں سادہ میں پرکار ہیں ہم لوگ
(۱۴۲۳)
کیا چلے جاتے ہیں جہان سے لوگ
مگر آئے تھے میہمان سے لوگ
قہر ہے بات بات پر گالی
جاں بہ لب ہیں تری زبان سے لوگ
شہر میں گھر خراب ہے اپنا
آتے ہیں یاں اب اس نشان سے لوگ
ایک گردش میں ہیں برابر خاک
کیا جھگڑتے ہیں آسمان سے لوگ
۱۰۵۲۵
درد دل ان نے کب سنا میرا
لگے رہتے ہیں اس کے کان سے لوگ
باؤ سے بھی لچک لہک ہے انھیں
ہیں یہی سبزے دھان پان سے لوگ
شوق میں تیر سے چلے اودھر
ہم خمیدہ قداں کمان سے لوگ
آدمی اب نہیں جہاں میں میرؔ
اٹھ گئے اس بھی کاروان سے لوگ
ردیف ل
(۱۴۲۴)
بلبل نے کل کہا کہ بہت ہم نے کھائے گل
لیکن ہزار حیف نہ ٹھہری ہوائے گل
۱۰۵۳۰
رعنا جوان شہر کے رہتے ہیں گل بسر
سر پر ہمارے داغ جنوں کے ہیں جائے گل
دل لوٹنے پہ مرغ چمن کے نہ کی نظر
بے درد گل فروش سبد بھر کے لائے گل
حیف آفتاب میں پس دیوار باغ ہیں
جوں سایہ وا کشیدہ ہوئے ہم نہ پائے گل
بوئے گل و نوائے خوش عندلیب میرؔ
آئی چلی گئی یہی کچھ تھی وفائے گل
(۱۴۲۵)
عشق کی چوٹیں پے درپے جو اٹھائی گئیں گھائل ہے دل
یوں بے دم ہے اب پہلو میں جوں صید بسمل ہے دل
۱۰۵۳۵
خون ہوا ہے چاک ہوا ہے جلتے جلتے داغ ہوا
خواہش اس کو کیا ہے بارے کس کے لیے بیدل ہے دل
عشق کی بجلی آ کے گری سو داغ ہوا ہے سر تا سر
کیا رووے جوں ابر کوئی اس مزرع کا حاصل ہے دل
یوں تو گرہ سینے میں ہمارے درد و غم کی ہوکے رہا
کس سے ظاہر کرتے جا کر کام بہت مشکل ہے دل
آنکھوں کی دیکھا دیکھی ہرگز دل کو اس سے نہ لگنا تھا
جیسی سزا پہنچاوے کوئی اب اس کے قابل ہے دل
عمر انساں راہ تو ہے تشویش سے طے ہوتی ہے ولے
دل کے تئیں پہنچے جو کوئی چین کی پھر منزل ہے دل
۱۰۵۴۰
شہد لب سے اس کے چپکا جی کا صرفہ کچھ نہ کیا
میرؔ جو دیکھا اپنے حق میں کیا زہر قاتل ہے دل
(۱۴۲۶)
غم مضموں نہ خاطر میں نہ دل میں درد کیا حاصل
ہوا کاغذ نمط گو رنگ تیرا زرد کیا حاصل
ہوئے صید زبوں ہم منتظر ہی خاک جی دے کر
سواری سے کسو کی گو اٹھی اب گرد کیا حاصل
بلا ہے سوزسینہ میرؔ لوں ہو جائے گی جل کر
اگر دل سے اٹھی تیرے یہ آہ سرد کیا حاصل
(۱۴۲۸)
دل تو گداز سب ہے کس کو کوئی کہے دل
نزدیک ہے کہ کہیے اب ہائے ہائے اے دل
۱۰۵۴۵
اس عشق میں نکالے میں نے بھی نام کیا کیا
خانہ خراب و رسوا بے دین اور بے دل
جوں ابر رویئے کیا دل برق سا ہے بے کل
رکھے ہی رہیے اکثر ہاتھ اس پہ جو رہے دل
دل گو کہ داغ و خوں ہے رہتی ہے لاگ تجھ سے
انصاف کر کہ جا کر دکھلاویں پھر کسے دل
دل کے ثبات سے ہم نومید ہو رہے ہیں
اب وہ سماں ہے خوں ہو رخسار پر بہے دل
عاشق کہاں ہوئے ہم پانچوں حواس کھوئے
اس مخمصے میں ازبس حیراں ہے کیا کرے دل
۱۰۵۵۰
جاتا ہے کیا کھنچا کچھ دیکھ اس کو ناز کرتا
آتا نہیں ہمیں خوش انداز بے تہ دل
ہم دردمند اپنا سوز دروں ہے بے حد
یارب ہمارے اوپر کس مرتبے جلے دل
اے میرؔ اسے ہے نسبت کن حلقہ حلقہ مو سے
بیتاب کچھ ہے گاہے پر پیچ ہے گہے دل
(۱۴۲۸)
حال تو حال زار ہے تا حال
دل وہی بے قرار ہے تا حال
بڑھتی ہے حال کی خرابی روز
گرچہ کچھ روزگار ہے تا حال
۱۰۵۵۵
خستہ جانی نے ننگ خلق کیا
پر اسے مجھ سے عار ہے تا حال
حال فکر سخن میں کچھ نہ رہا
شعر میرا شعار ہے تا حال
حال مستی جوانی تھی سو گئی
میرؔ اس کا خمار ہے تا حال
آنکھیں بدحالی سے ٹھہرتیں نہیں
شوق دیدار یار ہے تا حال
غم سے حالانکہ خون دل سوکھا
چشم تر اشکبار ہے تا حال
۱۰۵۶۰
(۱۴۲۸)
کھنچتا ہے اس طرف ہی کو بے اختیار دل
دیوانہ دل بلا زدہ دل بے قرار دل
سمجھا بھی تو کہ دل کسے کہتے ہیں دل ہے کیا
آتا ہے جو زباں پہ تری بار بار دل
آزردہ خاطری کا ہماری نہ کر عجب
اک عمر ہم رہا کیے ہیں مار مار دل
واشد فسردگی سے تری اس چمن میں ہے
دل جو کھلا تو جیسے گل بے بہار دل
میرؔ اس کے اشتیاق ہم آغوشی میں نہ پوچھ
جاتا ہے اب تو جی ہی رہا درکنار دل
۱۰۵۶۵
(۱۴۳۰)
مت کرو شور و فغاں سے طائرو آزار دل
اب دماغ اڑتا ہے باتوں میں کہ ہوں بیمار دل
رنج و غم بھی کھینچنے کے دن تو یارو ہو چکے
اب نہیں جاتی اٹھائی کلفت بسیار دل
ردیف م
(۱۴۳۱)
شور سے طائر گلزار کے بیزار ہیں ہم
دل اٹھاتا نہیں اپنا کہ گرفتار ہیں ہم
(۱۴۳۲)
بن میں چمن میں جی نہیں لگتا یارو کیدھر جاویں ہم
راہ خرابے سے نکلی نہ گھر کی بستی میں کیوں کر جاویں ہم
کیسی کیسی خرابی کھینچی دشت و در میں سر مارا
خانہ خراب کہاں تک پھریے ایسا ہو گھر جاویں ہم
۱۰۵۸۰
عشق میں گام اول اپنے جی سے گذرنا پیش آیا
اس میدان میں رکھ کے قدم کیا مرنے سے ڈر جاویں ہم
خواہ نماز خضوع سے ہووے خواہ نیاز اک سوئے دل
وقت رہا ہے بہت کم اب تو بارے کچھ کر جاویں ہم
کب تک میرؔ فراق میں اس کے لوہو پی پی جیتے رہیں
بس چلتا نہیں آہ اپنا کچھ ورنہ ابھی مر جاویں ہم
(۱۴۳۳)
شاید ہم سے ضد رکھتے ہو آتے نہیں ٹک ایدھر تم
سب سے گلی کوچوں میں ملو ہو پھرتے رہو ہو گھر گھر تم
کیا رکھیں یہ تم سے توقع خاک سے آ کے اٹھاؤ گے
راہ میں دیکھو افتادہ تو اور لگاؤ ٹھوکر تم
۱۰۵۸۵
اس سے زیادہ ہوتا نہ ہو گا دنیا میں بھی نچلاپن
سون کسے بیٹھے رہتے ہو حال ہمارا سن کر تم
لطف و مہر و خشم و غضب ہم ہر صورت میں راضی ہیں
حق میں ہمارے کر گذرو بھی جو کچھ جانو بہتر تم
رنگ ہمارا جیسا اب ہے کاہے کو آگے ایسا تھا
پاؤں میں مہندی اپنے لگا کر آفت لائے سر پر تم
لوگ صنم کہتے تھے تم کو ان سمجھے تھے ہم محظوظ
سختی سی سختی کھینچی گئی یعنی نکلے پتھر تم
چپکے سے کچھ آ جاتے ہو آنکھیں بھر بھر لاتے ہو
میرؔ گذرتی کیا ہے دل پر کڑھا کرو ہو اکثر تم
۱۰۵۸۰
(۱۴۳۴)
پوشاک تنگ پہنے بارے کہاں چلے تم
ہے آج عید صاحب میرے لگے گلے تم
اس نازکی سے گذرے کس کے خیال میں شب
مرجھائے پھول سے ہو جو کچھ ملے دلے تم
کیا ظلم ہے کہ کھینچے شمشیر وہ کہے ہے
آزردہ ہوں گا پھر میں جاگہ سے جو ہلے تم
کم پائی اس قدر ہے منزل ہے دور اتنی
طے کس طرح کرو گے یارو یہ مرحلے تم
اکثر نڈھال ہیں ہم پر یوں نہیں وہ کہتا
کیا ہے کہ جاتے ہو گے کچھ اتنے ہی ڈھلے تم
۱۰۵۸۵
یہ جانتے نہ تھے ہم ایسے برے ہوئے ہو
ہونٹوں پہ جان آئی تم بن گئے بھلے تم
قربانی اس کی ٹھہری پر یہ طرح نہ چھوڑی
تکتے ہو میرؔ اودھر تلوار کے تلے تم
(۱۴۳۵)
یارب اس محبوب کو پھر اک نظر دیکھیں گے ہم
اپنی آنکھوں سے اسے یاں جلوہ گر دیکھیں گے ہم
میں کہا دیکھو ادھر ٹک تم تو میں بھی جان دوں
ہنس کے بولے یہ تری باتیں ہیں پر دیکھیں گے ہم
پاس ظاہر سے اسے تو دیکھنا دشوار ہے
جائیں گے مجلس میں تو ایدھر ادھر دیکھیں گے ہم
۱۰۵۸۰
یوں نہ دیں گے دل کسو سیمیں بدن زر دوست کو
ابتدائے عشق میں اپنا بھی گھر دیکھیں گے ہم
کام کہتے ہیں سماجت سے کبھو لیتے ہیں لوگ
ایک دن اس کے کنے جا کر بپھر دیکھیں گے ہم
راہ تکتے تکتے اپنی آنکھیں بھی پتھرا چلیں
یہ نہ جانا تھا کہ سختی اس قدر دیکھیں گے ہم
شورش دیوانگی اس کی نہیں جائے گی لیک
ایک دو دن میرؔ کو زنجیر کر دیکھیں گے ہم
(۱۴۳۶)
صبر کیا جاتا نہیں ہم سے رہ کے جدا نہ ستاؤ تم
پاؤں کا رکھنا گرچہ ادھر کو عار سے ہے پر آؤ تم
۱۰۵۸۵
جس کے تئیں پروا ہو کسو کی آنا جانا اس کا ہے
نیک ہو یا بد حال ہمارا تم کو کیا ہے جاؤ تم
چپ ہیں کچھ جو نہیں کہتے ہم کار عشق کے حیراں ہیں
سوچو حال ہمارا ٹک تو بات کی تہ کو پاؤ تم
میرؔ کو وحشت ہے گی قیامت واہی تباہی بکتے ہیں
حرف و حکایت کیا مجنوں کی دل میں کچھ مت لاؤ تم
(۱۴۳۸)
ظلم ہوئے ہیں کیا کیا ہم پر صبر کیا ہے کیا کیا ہم
آن لگے ہیں گور کنارے اس کی گلی میں جا جا ہم
ہاہا ہی ہی کر ٹالے گا اس کا غرور دو چنداں ہے
گھگھیانے کا اب کیا حاصل یوں ہی کرے ہیں ہاہا ہم
۱۰۶۰۰
اب حیرت ہے کس کس جاگہ پنبہ و مرہم رکھنے کی
قد تو کیا ہے سرو چراغاں داغ بدن پر کھا کھا ہم
سیر خیال جنوں کا کریے صرف کریں تا ہم پر سب
پتھر آپ گلی کوچوں میں ڈھیر کیے ہیں لالا ہم
میرؔ فقیر ہوئے تو اک دن کیا کہتے ہیں بیٹے سے
عمر رہی ہے تھوڑی اسے اب کیوں کر کاٹیں بابا ہم
(۱۴۳۸)
ایک آدھ دن سنو گے سنّا کے رہ گئے ہم
کانپا کرے ہے جی سو ٹھہرا کے رہ گئے ہم
واشد ہوئی سو اپنی پژمردگی سے بدتر
موسم گئے کے گل سے مرجھا کے رہ گئے ہم
۱۰۶۰۵
پرداغ دل کو لے کر آخر کیا کنارہ
اس باغ سے گلی میں جا جا کے رہ گئے ہم
سوز دروں نے ہم کو پردے میں مار رکھا
جوں شمع آپ ہی کو کھا کھا کے رہ گئے ہم
حیرت سے عاشقی کی پوچھا تھا دوستوں نے
کہہ سکتے کچھ تو کہتے شرما کے رہ گئے ہم
اے وائے دل گئے پر جی بھی گیا ہمارا
یعنی کہ میرؔ برسوں پچھتا کے رہ گئے ہم
(۱۴۳۸)
حال زخم جگر سے ہے درہم
کاش رہتے کسو طرف مر ہم
۱۰۶۱۰
دلبروں کو جو بر میں کھینچا ٹک
اس ادا سے بہت ہوئے برہم
آپ کو اب کہیں نہیں پاتے
بے خودی سے گئے ہیں کیدھر ہم
دیر و کعبہ گئے ہیں ہم اکثر
یعنی ڈھونڈا ہے اس کو گھر گھر ہم
کہہ سکے کون ہم کو ناہموار
اب تو ہیں خاک سے برابر ہم
کوفت سی کوفت اپنے دل پر ہے
چھاتی کوٹا کیے ہیں اکثر ہم
۱۰۶۱۵
ابر کرتا ہے اب کمی سی میرؔ
دیکھیں ہیں سوئے دیدۂ تر ہم
(۱۴۴۰)
تجا ہے حیرت عشقی سے گفتگو کو ہم
خموش دیکھتے رہتے ہیں اس کے رو کو ہم
اگرچہ وصل ہے پر ہیں طلب میں سرگرداں
پہ وہم کار ہی جاتے ہیں جستجو کو ہم
اب اپنی جان سے ہیں تنگ دم رکا ہے بہت
ملا ہی دیں گے تری تیغ سے گلو کو ہم
جلا کے خاک کرے وہ کہ رہ کے داغ کرے
لگا دیں آگ سے کیا اپنی گرم خو کو ہم
۱۰۶۲۰
مرید پیر خرابات یوں نہ ہوتے میرؔ
سمجھتے عارف اگر اور بھی کسو کو ہم
(۱۴۴۱)
عشق بتوں سے اب نہ کریں گے عہد کیا ہے خدا سے ہم
آ جاویں جو یہ ہرجائی تو بھی نہ جاویں جا سے ہم
گریۂ خونیں ٹک بھی رہے تو خاک سی منھ پر اڑتی ہے
شام و سحر رہتے ہیں یعنی اپنے لہو کے پیاسے ہم
اس کی نہ پوچھو دوری میں ان نے پرسش حال ہماری نہ کی
ہم کو دیکھو مارے گئے ہیں آ کر پاس وفا سے ہم
چپکے کیا انواع اذیت عشق میں کھینچی جاتی ہے
دل تو بھرا ہے اپنا تو بھی کچھ نہیں کہتے حیا سے ہم
۱۰۶۲۵
کیا کیا عجز کریں ہیں لیکن پیش نہیں کچھ جاتا میرؔ
سر رگڑے ہیں آنکھیں ملیں ہیں اس کے حنائی پا سے ہم
(۱۴۴۲)
چاہیے یوں تھا بگڑی صحبت آپھی آ کے بناتے تم
رحلت کرنے سے آگے مجھ کو دیکھتے آتے جاتے تم
چلتے کہا تھا جاؤ سفر کر آؤ گے تو ملیے گا
وعدۂ وصل نہ ہوتا تو پھر کس کو جیتا پاتے تم
کیا دن تھے وے دیکھتے تم کو نیچی نظر میں کر لیتا
شرما شرما لوگوں سے جب آنکھیں مجھ کو دکھاتے تم
بستر پر میں مردہ سا تھا جان سی مجھ میں آ جاتی
کیا ہوتا جو رنجہ قدم کر میرے سرہانے آتے تم
۱۰۶۳۰
دل کے اوپر ہاتھ رکھے ہی شام و سحر یاں گذرے ہے
حال یہ تھا تو دل عاشق کا ہاتھ میں ٹک تو لاتے تم
خاک ہے اصل طینت آدم چاہیے اس کو عجز کرے
بات کی تہ کو کچھ پاتے تو اتنا سر نہ اٹھاتے تم
چہرہ زرد بجا ہے سارا عشق میں غم کا مارا ہوں
رنگ یہ دیکھا ہوتا تو دل میرؔ کہیں نہ لگاتے تم
(۱۴۴۳)
صبر بہت تھا ایک سمیں میں جا سے اپنی نہ جاتے ہم
کس کس ناز سے وے آتے پر آنکھ نہ ان سے ملاتے ہم
کعبے سے کر نذر اٹھے سو خرج راہ اے وائے ہوئے
ورنہ صنم خانے میں جا زنار گلے سے بندھاتے ہم
۱۰۶۳۵
ہاتھی مست بھی آوے چلا تو اس سے منھ کو پھیر نہ لیں
پھرتے ہیں سرمست محبت مے ناخوردہ ماتے ہم
ہائے جوانی وہ نہ گلے لگتا تو خشم عشقی سے
نعل جڑی جاتی چھاتی پر گل ہاتھوں پر کھاتے ہم
عشق تو کار خوب ہے لیکن میرؔ کھنچے ہے رنج بہت
کاش کے عالم ہستی میں بے عشق و محبت آتے ہم
ردیف ن
(۱۴۴۴)
ضعف دماغ سے کیا پوچھو ہو اب تو ہم میں حال نہیں
اتنا ہے کہ طپش سے دل کی سر پر وہ دھمّال نہیں
گاہے گاہے اس میں ہم نے منھ اس مہ کا دیکھا تھا
جیسا سال کہ پر کا گذرا ویسا بھی یہ سال نہیں
۱۰۶۴۰
بالوں میں اس کے دل الجھا تھا خوب ہوا جو تمام ہوا
یعنی گیا جب پیچ سے جی ہی تب پھر کچھ جنجال نہیں
ایسی متاع قلیل کے اوپر چشم نہ کھولیں اہل نظر
آنکھ میں آوے جو کچھ ہووے دنیا اتنی مال نہیں
سرو چماں کو سیر کیا تھا کبک خراماں دیکھ لیا
اس کا سا انداز نہ پایا اس کی سی یہ چال نہیں
دل تو ان میں پھنس جاتا ہے جی ڈوبے ہے دیکھ ادھر
چاہ زنخ گو چاہ نہیں ہے بال اس کے گو جال نہیں
کب تک دل کے ٹکڑے جوڑوں میرؔ جگر کے لختوں سے
کسب نہیں ہے پارہ دوزی میں کوئی وصّال نہیں
۱۰۶۴۵
(۱۴۴۵)
ہے وضع کشیدہ کا جو شور اس کے جہاں میں
نکلی ہے مگر تازہ کوئی شاخ کماں میں
ہر طور میں ہم حرف و سخن لاگ سے دل کی
کیا کیا کہیں ہیں مرغ چمن اپنی زباں میں
کیا باؤ نے بھی دست تطاول کو دیا طول
پھیلے پڑے ہیں پھول ہی سب اب کے خزاں میں
خوش رنگ ہے کس مرتبہ انہار کا پانی
خوناب مری چشم کا ہے آب رواں میں
روؤ مرے احوال پہ جوں ابر بہت میرؔ
بے طاقتی بجلی کی سی ہے آہ و فغاں میں
۱۰۶۵۰
(۱۴۴۶)
دل کے گئے بے دل کہلائے آگے دیکھیے کیا کیا ہوں
محزوں ہوویں مفتوں ہوویں مجنوں ہوویں رسوا ہوں
عشق کی رہ میں پاؤں رکھا سو رہنے لگے کچھ رفتہ سے
آگے چل کر دیکھیں ہم اب گم ہوویں یا پیدا ہوں
خار و خس الجھے ہیں آپھی بحث انھوں سے کیا رکھیں
موج زن اپنی طبع رواں سے جب ہم جیسے دریا ہوں
ہم بھی گئے جاگہ سے اپنی شوق میں اس ہرجائی کے
عشق کا جذبہ کام کرے تو پھر ہم دونوں یک جا ہوں
کوئی طرف یاں ایسی نہیں جو خالی ہووے اس سے میرؔ
یہ طرفہ ہے شورجرس سے چار طرف ہم تنہا ہوں
۱۰۶۵۵
(۱۴۴۸)
کچھ قدر عافیت کی معلوم کی نہ گھر میں
اب ہجر یار میں ہیں کیا دل زدہ سفر میں
ہر لحظہ بے قراری ہر لمحہ آہ و زاری
ہر دم ہے اشکباری نومیدی ہے نظر میں
روتے ہی رہنا اکثر تہ چاہتا ہے سو تو
تاب اب نہیں ہے دل میں نے خون ہے جگر میں
یہ بخت دیکھ گاہے آتا ہے آنکھوں میں بھی
پر نقش اس کے پا کا بیٹھا نہ چشم تر میں
کیا راہ چلنے سے ہے اے میرؔ دل مکدر
تو ہی نہیں مسافر ہے عمر بھی گذر میں
۱۰۶۶۰
(۱۴۴۸)
خوبی رو و چشم سے آنکھیں اٹک گئیں
پلکوں کی صف کو دیکھ کے بھیڑیں سرک گئیں
چلتے سمندناز کی شوخی کو اس کے دیکھ
گھوڑوں کی باگیں دست سپہ سے اچک گئیں
ترچھی نگاہیں پلکیں پھریں اس کی پھرپھریں
سو فوجیں جو دو رستہ کھڑی تھیں بہک گئیں
بجلی سا مرکب اس کا کڑک کر چمک گیا
لوگوں کے سینے پھٹ گئے جانیں دھڑک گئیں
محبوب کا وصال نہ ہم کو ہوا نصیب
دل سے ہزار خواہشیں سر کو پٹک گئیں
۱۰۶۶۵
موقوف طور نور کا جھمکا ترا نہیں
چمکا جہاں تو برق سا آنکھیں جھپک گئیں
وحشت سے بھر رہی تھی بزن گہ جہان کی
جانیں بسان طائر بسمل پھڑک گئیں
گرد رہ اس کی دیکھتے اپنے اٹھی نہ حیف
اب منتظر ہو آنکھیں مندیں یعنی تھک گئیں
بھردی تھی چشم ساقی میں یارب کہاں کی مے
مجلس کی مجلسیں نظر اک کرتے چھک گئیں
کیا میرؔ اس کی نوک پلک سے سخن کرے
سرتیز چھریاں گڑتی جگر دل تلک گئیں
۱۰۶۸۰
(۱۴۴۸)
ہم سے اسے نفاق ہوا ہے وفاق میں
کم اتفاق پڑتے ہیں یہ اتفاق میں
شاید کہ جان و تن کی جدائی بھی ہے قریب
جی کو ہے اضطراب بہت اب فراق میں
عازم پہنچنے کے تھے دل و عرش تک ولے
آیا قصور اپنے ہی کچھ اشتیاق میں
احراق اپنے قلب کا رونے سے کب گیا
پانی کی چار بوندیں ہیں کیا احتراق میں
تحصیل علم کرنے سے دیکھا نہ کچھ حصول
میں نے کتابیں رکھیں اٹھا گھر کے طاق میں
۱۰۶۸۵
دم ناک میں بقول زناں عاشقوں کے ہیں
ہلنا بلا ہے موتی کا اس کے بلاق میں
اک نور گرم جلوہ فلک پر ہے ہر سحر
کوئی تو ماہ پارہ ہے میرؔ اس رواق میں
(۱۴۵۰)
صبح ہوئی گلزار کے طائر دل کو اپنے ٹٹولیں ہیں
یاد میں اس خود رو گل تر کی کیسے کیسے بولیں ہیں
باغ میں جو ہم دیوانے سے جا نکلیں ہیں نالہ کناں
غنچے ہو ہو مرغ چمن کے ساتھ ہمارے ہولیں ہیں
یار ہمارا آساں کیا کچھ سینہ کشادہ ہم سے ملا
خون کریں ہیں جب دل کو وے بند قبا کے کھولیں ہیں
۱۰۶۸۰
مینھ جو برسے ہے شدت سے دیکھ اندھیری کیا ہے یہ
یعنی تنگ جو ہم آتے ہیں دل کو کھول کے رولیں ہیں
وہ دھوبی کا کم ملتا ہے میل دل اودھر ہے بہت
کوئی کہے اس سے ملتے میں تجھ کو کیا ہم دھولیں ہیں
سرو تو ہے سنجیدہ لیکن پیش مصرع قد یار
ناموزوں ہی نکلے ہے جب دل میں اپنے تولیں ہیں
مرگ کا وقفہ اس رستے میں کیا ہے میرؔ سمجھتے ہو
ہارے ماندے راہ کے ہیں ہم لوگ کوئی دم سولیں ہیں
(۱۴۵۱)
غزل میرؔ کی کب پڑھائی نہیں
کہ حالت مجھے غش کی آئی نہیں
۱۰۶۸۵
زباں سے ہماری ہے صیاد خوش
ہمیں اب امید رہائی نہیں
کتابت گئی کب کہ اس شوخ نے
بنا اس کی گڈّی اڑائی نہیں
نسیم آئی میرے قفس میں عبث
گلستاں سے دو پھول لائی نہیں
مری دل لگی اس کے رو سے ہی ہے
گل تر سے کچھ آشنائی نہیں
نوشتے کی خوبی لکھی کب گئی
کتابت بھی ایک اب تک آئی نہیں
۱۰۶۸۰
ق
گلہ ہجر کا سن کے کہنے لگا
ہمارے تمھارے جدائی نہیں
جدا رہتے برسوں ہوئے کیونکے یہ
کنایہ نہیں بے ادائی نہیں
سیہ طالعی میری ظاہر ہے اب
نہیں شب کہ اس سے لڑائی نہیں
(۱۴۵۲)
دل کی لاگ بری ہے ہوتی چنگے بھلے مر جاتے ہیں
آپ میں ہم سے بے خود و رفتہ پھر پھر بھی کیا آتے ہیں
رنگ نہ بدلے چہرہ کیونکر آنکھیں بیٹھی جائیں نہ کیوں
کیسے کیسے غم کھاتے ہیں کیا کیا رنج اٹھاتے ہیں
۱۰۶۸۵
جی ہی جائے ہے میرؔ جو اپنا دیر کی جانب کیا کریے
یوں تو مزاج طرف کعبے کے بہتیرا ہم لاتے ہیں
(۱۴۵۳)
دل کی کچھ تقصیر نہیں ہے آنکھیں اس سے لگ پڑیاں
مار رکھا سو ان نے مجھ کو کس ظالم سے جا لڑیاں
ایک نگہ میں مر جاتا ہے عاشق کوچک دل اس کا
زہر بھری کیا کام آتی ہیں گو وے آنکھیں ہوں بڑیاں
عقدے داغ دل کے شاید دست قدرت کھولے گا
ناخن سے تدبیر کے میری کھلتی نہیں یہ گل جھڑیاں
نحس تھے کیا وے وقت و ساعت جن میں لگا تھا دل اپنا
سال پہر ہے اب تو ہم کو ماہ برابر ہیں گھڑیاں
۱۰۸۰۰
میرؔ بلائے جان رہے ہیں دونوں فراق و وصل اس کے
ہجر کی راتیں وہ بھاری تھیں ملنے کے دن کی یہ کڑیاں
(۱۴۵۴)
بھلا ہوا کہ دل مضطرب میں تاب نہیں
بہت ہی حال برا ہے اب اضطراب نہیں
جگر کا لوہو جو پانی ہو بہ نکلتا تھا
سو ہو چکا کہ مری چشم اب پر آب نہیں
دیار حسن میں دل کی نہیں خریداری
وفا متاع ہے اچھی پہ یاں کے باب نہیں
حساب پاک ہو روز شمار میں تو عجب
گناہ اتنے ہیں میرے کہ کچھ حساب نہیں
۱۰۸۰۵
گذر ہے عشق کی بے طاقتی سے مشکل آہ
دنوں کو چین نہیں ہے شبوں کو خواب نہیں
جہاں کے باغ کا یہ عیش ہے کہ گل کے رنگ
ہمارے جام میں لوہو ہے سب شراب نہیں
تلاش میرؔ کی اب میکدوں میں کاش کریں
کہ مسجدوں میں تو وہ خانماں خراب نہیں
(۱۴۵۵)
ہم کو کہنے کے تئیں بزم میں جا دیتے ہیں
بیٹھنے پاتے نہیں ہم کہ اٹھا دیتے ہیں
ان طیوروں سے ہوں میں بھی اگر آتی ہے صبا
باغ کے چار طرف آگ لگا دیتے ہیں
۱۰۸۱۰
گرچہ ملتے ہیں خنک غیرت مہ یہ لڑکے
دل جگر دونوں کو یک لخت جلا دیتے ہیں
دیر رہتا ہے ہما لاش پہ غم کشتوں کی
استخواں ان کے جلے کچھ تو مزہ دیتے ہیں
اس شہ حسن کا اقبال کہ ظالم کے تئیں
ہر طرف سینکڑوں درویش دعا دیتے ہیں
دل جگر ہو گئے بیتاب غم عشق جہاں
جی بھی ہم شوق کے ماروں کے دغا دیتے ہیں
کیونکے اس راہ میں پا رکھیے کہ صاحب نظراں
یاں سے لے واں تئیں آنکھیں ہی بچھا دیتے ہیں
۱۰۸۱۵
ملتے ہی آنکھ ملی اس کی تو پر ہم بے تہ
خاک میں آپ کو فی الفور ملا دیتے ہیں
طرفہ صناع ہیں اے میرؔ یہ موزوں طبعاں
بات جاتی ہے بگڑ بھی تو بنا دیتے ہیں
(۱۴۵۶)
جی مارا بیتابی دل نے اب کچھ اچھا ڈھنگ نہیں
رنگ طپیدن کی شوخی سے منھ پر میرے رنگ نہیں
وہ جو خرام ناز کرے ہے ٹھوکر دل کو لگتی ہے
چوٹ کے اوپر چوٹ پڑے ہے دل ہے میرا سنگ نہیں
ہم بھی عالم فقر میں ہیں پر ہم سے جو مانگے کوئی فقیر
ایک سوال میں دو عالم دیں اتنے دل کے تنگ نہیں
۱۰۸۲۰
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے ہو گے کیا میرے طور شتابی ہو
بیٹھا ہوں کھڑے پاؤں میں کچھ چلنے میں تو درنگ نہیں
شعرمیرؔ بھی پڑھتا ہے تو اور کسو کا لے کر نام
کیوں کر کہیے اس ناداں کو نام سے میرے ننگ نہیں
(۱۴۵۸)
وہ نہیں اب کہ فریبوں سے لگا لیتے ہیں
ہم جو دیکھیں ہیں تو وے آنکھ چھپا لیتے ہیں
کچھ تفاوت نہیں ہستی و عدم میں ہم بھی
اٹھ کے اب قافلۂ رفتہ کو جا لیتے ہیں
نازکی ہائے رے طالع کی نکوئی سے کبھو
پھول سا ہاتھوں میں ہم اس کو اٹھا لیتے ہیں
۱۰۸۲۵
صحبت آخر کو بگڑتی ہے سخن سازی سے
کیا درانداز بھی اک بات بنا لیتے ہیں
ہم فقیروں کو کچھ آزار تمھیں دیتے ہو
یوں تو اس فرقے سے سب لوگ دعا لیتے ہیں
چاک سینے کے ہمارے نہیں سینے اچھے
انھیں رخنوں سے دل و جان ہوا لیتے ہیں
میرؔ کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
(۱۴۵۸)
تھکے چارہ جوئی سے اب کیا کریں
کہو تم سو دل کا مداوا کریں
۱۰۸۳۰
گلستاں میں ہم غنچہ ہیں دیر سے
کہاں ہم کو پروا کہ پروا کریں
نہیں چاہتا جی کچھ اب سیر ہیں
ہوس دل کو ہو تو تمنا کریں
بخود جستجو میں نہ اس کی رہے
ہم آپھی ہیں گم کس کو پیدا کریں
غضب ہے یہ انداز رفتار عشق
چلے جائیں جی ہم تماشا کریں
بلا شور ہے سر میں ہم کب تلک
قیامت کا ہنگامہ برپا کریں
۱۰۸۳۵
کہیں دل کی مرغان گلشن سے کیا
یہ بے حوصلہ ہم کو رسوا کریں
کھپا عشق کا جوش دل میں بھلا
کہ بدنام ہوویں جو سودا کریں
برے حال اس کی گلی میں ہیں میرؔ
جو اٹھ جائیں واں سے تو اچھا کریں
(۱۴۵۸)
ہجر میں روتا ہوں ہر شب میں تو اس صورت سے یاں
وے اندھیری مینھ برسے جوں کبھو شدت سے یاں
کس قدر بیگانہ خو ہیں مردمان شہرحسن
بات کرنا رسم و عادت ہی نہیں الفت سے یاں
۱۰۸۴۰
اٹھ گئے ہیں جب سے ہم سونا پڑا ہے باغ سب
شور ہنگام سحر کا مہر ہے مدت سے یاں
سر کوئی پھوڑے محبت میں تو بارے اس طرح
مر گیا ہے عشق میں فرہاد جس قدرت سے یاں
دلکشی اس بزم کی ظاہر ہے تم دیکھو تو ہو
لوگ جی دیتے چلے جاتے ہیں کس حسرت سے یاں
صورتوں سے خاکداں یہ عالم تصویر ہے
بولیں کیا اہل نظر خاموش ہیں حیرت سے یاں
فہم حرفوں کے تنافر کا بھی یاروں کو نہیں
اس پہ رکھتے ہیں تنفر سب مری صحبت سے یاں
۱۰۸۴۵
پنج روزہ عمر کریے عاشقی یا زاہدی
کام کچھ چلتا نہیں اس تھوڑی سی مہلت سے یاں
کیا سرجنگ و جدل ہو بے دماغ عشق کو
صلح کی ہے میرؔ نے ہفتاد و دو ملت سے یاں
(۱۴۶۰)
داغ فراق سے کیا پوچھو ہو آگ لگائی سینے میں
چھاتی سے وہ مہ نہ لگا ٹک آ کر اس بھی مہینے میں
چاک ہوا دل ٹکڑے جگر ہے لوہو روئے آنکھوں سے
عشق نے کیا کیا ظلم دکھائے دس دن کے اس جینے میں
گوندھ کے گویا پتی گل کی وہ ترکیب بنائی ہے
رنگ بدن کا تب دیکھو جب چولی بھیگے پسینے میں
۱۰۸۵۰
اس صورت کا ناز نہ تھا کچھ دب چلتا تھا ہم سے بھی
جب تک دیکھا ان نے نہ تھا منھ خوب اپنا آئینے میں
لوگوں میں اسلام کے ہو نہ شہرت اس رسوائی کی
شیخ کو پھیرا گدھے چڑھا کر مکے اور مدینے میں
دل نہ ٹٹولیں کاشکے اس کا سردی مہر تو ظاہر ہے
پاویں اس کو گرم مبادا یار ہمارے کینے میں
میرؔ نے کیا کیا ضبط کیا ہے شوق میں اشک خونیں کو
کہیے جو تقصیر ہوئی ہو اپنا لوہو پینے میں
(۱۴۶۱)
اب ہوسناک ہی مردم ہیں ترے یاروں میں
ہم جو عاشق ہیں سو ٹھہرے ہیں گنہگاروں میں
۱۰۸۵۵
کوچۂ یار تو ہے غیرت فردوس ولے
آدمی ایک نہیں اس کے ہوا داروں میں
ہوکے بدحال محبت میں کھنچے آخرکار
لوگ اچھے تھے بہت یار کے بیماروں میں
جی گیا ایک دم سرد ہی کے ساتھ اپنا
ہم جو خوش زمزمہ تھے اس کے گرفتاروں میں
اب در باز بیاباں میں قدم رکھیے میرؔ
کب تلک تنگ رہیں شہر کی دیواروں میں
(۱۴۶۲)
عالم علم میں ایک تھے ہم وے حیف ہے ان کو گیان نہیں
اب کہتے ہیں خلطہ کیسا جان نہیں پہچان نہیں
۱۰۸۶۰
کس امید پہ ساکن ہووے کوئی غریب شہر اس کا
لطف نہیں اکرام نہیں انعام نہیں احسان نہیں
ہائے لطافت جسم کی اس کے مر ہی گیا ہوں پوچھو مت
جب سے تن نازک وہ دیکھا تب سے مجھ میں جان نہیں
کیا باتوں سے تسلی ہو دل مشکل عشقی میری سب
یار سے کہنے کہتے ہیں پر کہنا کچھ آسان نہیں
شام و سحر ہم سرزدہ دامن سر بگریباں رہتے ہیں
ہم کو خیال ادھر ہی کاہے ان کو ادھر کا دھیان نہیں
جان کے میں تو آپ بنا ہوں ان لڑکوں میں دیوانہ
عقل سے بھی بہرہ ہے مجھ کو اتنا میں نادان نہیں
۱۰۸۶۵
پاؤں کو دامن محشر میں ناچاری سے ہم کھینچیں گے
لائق اپنی وحشت کے اس عرصے کا میدان نہیں
چاہت میں اس مایۂ جاں کی مرنے کے شائستہ ہوئے
جا بھی چکی ہے دل کی ہوس اب جینے کا ارمان نہیں
شور نہیں یاں سنتا کوئی میرؔ قفس کے اسیروں کا
گوش نہیں دیوار چمن کے گل کے شاید کان نہیں
(۱۴۶۳)
یوں ناکام رہیں گے کب تک جی میں ہے اک کام کریں
رسوا ہو کر مارے جاویں اس کو بھی بدنام کریں
جن کو خدا دیتا ہے سب کچھ وے ہی سب کچھ دیتے ہیں
ٹوپی لنگوٹی پاس اپنے ہم اس پر کیا انعام کریں
۱۰۸۸۰
منھ کھولے تو روز ہے روشن زلف بکھیرے رات ہے پھر
ان طوروں سے عاشق کیوں کر صبح کو اپنی شام کریں
خط و کتابت حرف و حکایت صفحہ ورق میں آ جاوے
دستے کے دستے کاغذ ہو جو دل کا حال ارقام کریں
شیخ پڑے محراب حرم میں پہروں دوگانہ پڑھتے رہو
سجدہ ایک اس تیغ تلے کا ان سے ہو تو سلام کریں
دل آسودہ ہو تو رہے ٹک در پر ہم سو بار گئے
وہ سو یہی کہہ بھیجے ہے باہر جاویں اب آرام کریں
میل گدائی طبع کو اپنی کچھ بھی نہیں ہے ورنہ میرؔ
دو عالم کو مانگ کے لاویں ہم جو تنک ابرام کریں ۱۰۸۸۵
(۱۴۶۴)
پھرا میں صورت احوال ہر یک کو دکھاتا یاں
مروت قحط ہے آنکھیں نہیں کوئی ملاتا یاں
خرابہ دلی کا دہ چند بہتر لکھنؤ سے تھا
وہیں میں کاش مر جاتا سراسیمہ نہ آتا یاں
محبت دشمن جاں ہے جو میں معلوم یہ کرتا
تو کاہے کو کسو سے میرؔ اپنا دل لگاتا یاں
(۱۴۶۵)
کس سے مشابہ کیجے اس کو ماہ میں ویسا نور نہیں
کیوں کر کہیے بہشتی رو ہے اس خوبی سے حور نہیں
شعر ہمارے عالم کے ہر چار طرف کیا دوڑے ہیں
کس وادی آبادی میں یہ حرف و سخن مشہور نہیں
۱۰۸۸۰
ہم دیکھیں تو دیکھیں اسے پھر پردہ بہتر ہے یعنی
اور کریں نظارہ اس کا ہم کو یہ منظور نہیں
عزت اپنی تہی دستی میں رکھ لی خدا نے ہزاروں شکر
قدر ہے دست قدرت سے یاں حیف ہمیں مقدور نہیں
راہ دور عدم سے آئے بستی جان کے دنیا میں
سویاں گھر اوجڑ ہیں سارے اک منزل معمور نہیں
عشق و جنوں سے اگرچہ تن پر ضعف و نحافت ہے لیکن
وحشت گو ہو عرصۂ محشر مجنوں سے رنجور نہیں
ہجراں میں بھی برسوں ہم نے میرؔ کیا ہے پاس وفا
اب جو کبھو ٹک پاس بلا لے ہم کو وہ تو دور نہیں
۱۰۸۸۵
(۱۴۶۶)
کیا کیا جھمک گئے ہیں رخسار یار دونوں
رہ رہ گئے مہ و خور آئینہ وار دونوں
تصویر قیس و لیلیٰ ٹک ہاتھ لے کے دیکھو
کیسے ہیں عاشقی کے حیران کار دونوں
دست جنوں نے اب کے کپڑوں کی دھجیاں کیں
دامان و جیب میرے ہیں تار تار دونوں
پر سال کی سی بارش برسوں میں پھر ہوئی تھی
ابر اور دیدۂ تر روتے ہیں زار دونوں
دن ہیں بڑے کبھو کے راتیں بڑی کبھو کی
رہتے نہیں ہیں یکساں لیل و نہار دونوں
۱۰۸۸۰
دل اور برق ابر و فصل گل ایک سے ہیں
یعنی کہ بے کلی سے ہیں بے قرار دونوں
خوش رنگ اشک خونیں گرتے رہے برابر
باغ و بہار ہیں اب جیب و کنار دونوں
اس شاخ گل سے قد کی کیا چوٹ لگ گئی ہے
جو دل جگر ہوئے ہیں خون ایک بار دونوں
چلتے جو اس کو دیکھا جی اپنے کھنچ گئے ہیں
ہم اور میرؔ یاں ہیں بے اختیار دونوں
ردیف و
(۱۴۶۸)
دیتی ہے طول بلبل کیا شورش فغاں کو
اک نالہ حوصلے سے بس ہے وداع جاں کو
۱۰۸۸۵
میں تو نہیں پر اب تک مستانہ غنچے ہو کر
کہتے ہیں مرغ گلشن سے میری داستاں کو
نالاں تو ہیں مجھی سے پر وہ اثر کہاں ہے
گو طائر گلستاں سیکھے مری زباں کو
کیا جانیے کہ کیا کچھ پردے سے ہووے ظاہر
رہتے ہیں دیکھتے ہم ہر صبح آسماں کو
اس چشم سرخ پر ہے وہ ابروئے کشیدہ
جوں ترک مست رکھ لے سر کے تلے کماں کو
میری نگاہ میں تو معدوم سب ہیں وے ہی
موجود بھی نہ جانا اس راہ سے جہاں کو
۱۰۸۰۰
بعد از نماز تھے کل میخانے کے در اوپر
کیا جانے میرؔ واں سے پھر اٹھ گئے کہاں کو
(۱۴۶۸)
نہیں ہے تاب تنک تم بھی مت عتاب کرو
نہ گرم ہوکے بہت آگ ہو کے آب کرو
تمھارے عکس سے بھی عکس مجھ کو رشک سے ہے
نہ دیکھو آئینہ منھ سے مرے حجاب کرو
خراب عشق تو سرگشتہ ہوں ہی میں تم بھی
پھرا پھرا کے مجھے گلیوں میں خراب کرو
کہا تھا تم نے کہ ہر حرف پر ہے بوسۂ لب
جو باتیں کی ہیں تو اب قرض کا حساب کرو
۱۰۸۰۵
ق
ہوا ہے اہل مساجد پہ کام ازبس تنگ
نہ شب کو جاگتے رہنے کا اضطراب کرو
خدا کریم ہے اس کے کرم سے رکھ کر چشم
دراز کھینچو کسو میکدے میں خواب کرو
جہاں میں دیر نہیں لگتی آنکھیں مندتے میرؔ
تمھیں تو چاہیے ہر کام میں شتاب کرو
(۱۴۶۸)
وہ گل سا رو سراہوں یا پیچ دار مو کو
نرمی بھی کاش دیتا خالق ٹک اس کی خو کو
ان گیسوؤں کے حلقے ہیں چشم شوق عاشق
وے آنکھیں دیکھتی ہیں حسرت سے اس کے رو کو
۱۰۸۱۰
دم کی کشش سے کوشش معلوم تو ہے لیکن
پاتے نہیں ہم اس کی کچھ طرز جستجو کو
آلودہ خون دل سے صد حرف منھ پر آئے
مرغ چمن نہ سمجھا انداز گفتگو کو
دل میرؔ دلبروں سے چاہا کرے ہے کیا کیا
کچھ انتہا نہیں ہے عاشق کی آرزو کو
(۱۴۸۰)
عجب گر تیری صورت کا نہ کوئی یار عاشق ہو
جو صحن خانہ میں تو ہو در و دیوار عاشق ہو
تجھے اک بار اگر دیکھے کوئی بے جا ہو دل اس کا
خرام ناز پر تیرے لٹا گھر بار عاشق ہو
۱۰۸۱۵
تری چھاتی سے لگنا ہار کا اچھا نہیں لگتا
مباد اس وجہ سے گل رو گلے کا ہار عاشق ہو
ہوا ہے مخترع بے رحم خوں ریزی بھی کرنے میں
نہ مارے جان سے جب تک نہ منت دار عاشق ہو
سزا ہے عشق میں زرد و زبون و زار ہی ہونا
نہ عاشق کہیے ان رنگوں نہ جو بیمار عاشق ہو
پڑے سایہ کسو کا تیرے بستر پر تو تو چونکے
وہی لے کام تجھ سے جو کوئی پرکار عاشق ہو
نہیں بازار گرمی ایک دو خواہندہ پر اس کی
اگر وہ رشک یوسف آوے تو بازار عاشق ہو
۱۰۸۲۰
غریبوں کی تو پگڑی جامے تک لے ہے اتروا تو
تجھے اے سیم بر لے بر میں جو زر دار عاشق ہو
لگو ہو زار باراں رونے چلتے بات چاہت کی
کہیں ان روزوں تم بھی میرؔ صاحب زار عاشق ہو
(۱۴۸۱)
تو وہ نہیں کسو کا تہ دل سے یار ہو
یا تجھ کو دل شکستوں سے اخلاص پیار ہو
کیا فکر میں ہو اپنی طرحداری ہی کی تم
ہم دردمند لوگوں کے بیمار دار ہو
مصروف احتیاط رہا کرتے رات دن
دینے میں دل کے اپنا جو کچھ اختیار ہو
۱۰۸۲۵
دل میں کدر سے آندھی سی اٹھنے لگی ہے اب
نکلے گلے کی راہ تو رفع غبار ہو
کھا زہر مر رہیں کہیں کیا زندگی ہے یہ
زلفیں تنک چھوئیں تو ہمیں مار مار ہو
اے آہوان کعبہ نہ اینڈو حرم کے گرد
کھاؤ کسو کی تیغ کسو کے شکار ہو
منھ سے لگی گلابی ہوا کچھ شگفتہ تو
تھوڑی شراب اور بھی پی جو بہار ہو
بہتی ہے تیز جدول تیغ جفائے یار
یعنی کہ اک ہی وار لگے کام پار ہو
۱۰۸۳۰
چھڑیوں سے کر قرار مدار اس کو لایئے
جو میرؔ پھر لڑا نہ کریں بے قرار ہو
(۱۴۸۲)
دل اس کے مو سے لگ کے پریشاں ہوا نہ تو
اس رو کا مثل آئینہ حیراں ہوا نہ تو
صد رنگ بحث رہتی ہے یاں ذی شعور سے
اے وائے عقلمند کہ ناداں ہوا نہ تو
نزدیک حق کے دین تو اسلام بن ہے کفر
اے برہمن دریغ مسلماں ہوا نہ تو
کتنے دنوں کہا تھا دلا ضبط نالہ کر
پھر شب کو ناشکیبی سے نالاں ہوا نہ تو
۱۰۸۳۵
ہوتا ہے میرؔ روئے سخن آدمی کی اور
افسوس اے ستم زدہ انساں ہوا نہ تو
(۱۴۸۳)
کیا کروں میں صبر کم کو اور رنج بیش کو
زہر دیویں کاشکے احباب اس درویش کو
کھول آنکھیں صبح سے آگے کہ شیر اللہ کے
دیکھتے رہتے ہیں غافل وقت گرگ و میش کو
عشق کے بیتاب کے آزار میں مت کر شتاب
جان دیتے دیر لگتی ہی نہیں دل ریش کو
دشمن اپنا میں تو فکر دوستی ہی میں رہا
اب رکھوں کیوں کر سلامت جان عشق اندیش کو
۱۰۸۴۰
مختلط ترسا بچوں سے شیرہ خانے میں رہا
کن نے دیکھا مسجدوں میں میرؔ کافر کیش کو
(۱۴۸۴)
ناز کی کوئی یہ بھی ٹھسک ہے جی کاہے کو کڑھاتے ہو
آتے ہو تمکین سے ایسے جیسے کہیں کو جاتے ہو
غیر کی ہمراہی کی عزت جی مارے ہے عاشق کا
پاس کبھو جو آتے ہو تو ساتھ اک تحفہ لاتے ہو
مست نہیں پر بال ہیں بکھرے پیچ گلے میں پگڑی کے
ساختہ ایسے بگڑے رہو ہو تم جیسے مدھ ماتے ہو
پردہ ہم سے کر لیتے ہو جب آتے ہو مجلس میں
آنکھیں سب سے ملاتے ہو کچھ ہم ہی سے شرماتے ہو
۱۰۸۴۵
سوچ نہیں یہ فقیر ہے اپنا جیب دریدہ دیوانہ
ٹھوکر لگتے دامن کو کس ناز سے تم یاں آتے ہو
رفتۂ عشق کسو کا یارو راہ چلے ہے کس کے کہے
کون رہا ہے آپ میں یاں تم کس کے تئیں سمجھاتے ہو
صبر بلا پر کرتے صاحب بیتابی کا حاصل کیا
کوئی مقلب قلبوں کا ہے میرؔ عبث گھبراتے ہو
(۱۴۸۵)
آج ہمارا سر دکھتا ہے صندل کا بھی نام نہ لو
رنگ اس کا کہیں یاد نہ دے زنہار اس سے کچھ کام نہ لو
یاد آئے وہ کیا تڑپے ہے کیا بیتابی کرتا ہے
کوئی تسلی پھر ہوتا ہے جب تک دل کو تھام نہ لو
۱۰۸۵۰
میرؔ کہاں تک بے خوابی وہ میں ہوں ٹک جو سلاتا ہوں
بس جو تمھارا کچھ بھی چلے تو ایک گھڑی آرام نہ لو
(۱۴۸۶)
کام کیے ہیں شوق سے ضائع صبر نہ آیا یاروں کو
مار رکھا بیتابی دل نے ہم سب غم کے ماروں کو
جی تو جلا احباب کا مجھ پر عشق میں اس شعلے کے پر
رو ہی نہیں ہے بات کا ہرگز اپنے جانب داروں کو
آؤ نہیں دربستہ یعنی منھ پر اس مہ پارے کے
صبح تلک دیکھا کرتے ہیں محو چشمک تاروں کو
گردش چشم سیہ کاسے سے جمع نہ رکھو خاطر تم
بھوکا پیاسا مار رکھا ہے تم سے ان نے ہزاروں کو
۱۰۸۵۵
کوہکن و مجنوں و وامق میرؔ آئے تھے صحبت میں
منھ نہ لگایا ہم میں کنھوں نے ایسے ہرزہ کاروں کو
(۱۴۸۸)
جی رکا رکنے سے پرے کچھ تو
آسماں آ گیا ورے کچھ تو
جو نہ ہووے نماز کریے نیاز
آدمی چاہیے کرے کچھ تو
طالع و جذب و زاری و زر و زور
عشق میں چاہیے ارے کچھ تو
جینا کیا ہے جہان فانی کا
مرتے جاتے ہیں کچھ مرے کچھ تو
۱۰۸۶۰
سہمے سہمے نظر پڑیں ہیں میرؔ
اس کے اطوار سے ڈرے کچھ تو
(۱۴۸۸)
رفتن رنگین گل رویاں سے کیا ٹھہراؤ ہو
ساتھ ان کے چل تماشا کر لے جس کو چاؤ ہو
قد جو خم پیری سے ہو تو سرکا دھننا ہیچ ہے
ہو چکا ہونا جو کچھ تھا اب عبث پچھتاؤ ہو
خون کے سیلاب میں ڈوبے ہوؤں کا کیا شمار
ٹک بہے وہ جدول شمشیر تو ستھراؤ ہو
تھی وفا و مہر تو بابت دیار عشق کی
دیکھیں شہر حسن میں اس جنس کا کیا بھاؤ ہو
۱۰۸۶۵
گریۂ خونیں سے ہیں رخسار میرے لعل تر
دیدۂ خوں بار یوں ہیں جیسے منھ پر گھاؤ ہو
(۱۴۸۸)
جی کی لاگ بلا ہے کوئی دل جینے سے اٹھا بیٹھو
ہوکے فقیر گلی میں کسو کی رنج اٹھاؤ جا بیٹھو
کیا دیکھو ہو آگا پیچھا عشق اگر فی الواقع ہے
ایک دم اس بے چشم و رو کی تیغ تلے بھی جا بیٹھو
ایک سماں تھا وصل کا اس کے سیج پہ سوئے پھولوں کی
اب ہے زمان فراق بچھونے خار و خسک کے بچھا بیٹھو
کام کی صورت اپنے پیارے کیا بگڑی ہے کیا کہیے
آؤ کبھو مدت میں یاں تو اچھے منھ کو بنا بیٹھو
۱۰۸۸۰
ٹیڑھی چال سے اس کی خائف چپکے کھڑے کیا پھرتے ہو
سیدھی سیدھی دوچار اس کو جرأت کر کے سنا بیٹھو
ٹیڑھی بھویں دشمن پہ کرو ہو عشق و ہوس میں تمیز کرو
یعنی تیغ ستم ایک اس کو چلتے پھرتے لگا بیٹھو
نکلا خط پشت لب اس کا خضر و مسیحا مرنے لگے
سوچتے کیا ہو میرؔ عبث اب زہر منگا کر کھا بیٹھو
(۱۴۸۰)
صبر کہاں جو تم کو کہیے لگ کے گلے سے سو جاؤ
بولو نہ بولو بیٹھو نہ بیٹھو کھڑے کھڑے ٹک ہو جاؤ
برسے ہے غربت سی غربت گور کے اوپر عاشق کی
ابر نمط جو آؤ ادھر تو دیکھ کے تم بھی رو جاؤ
۱۰۸۸۵
میرؔ جہاں ہے مقامر خانہ پیدا یاں کا نہ پیدا ہے
آؤ یہاں تو داؤ نخستیں اپنے تئیں بھی کھو جاؤ
ردیف ہ
(۱۴۸۱)
یار صد حیف کہ بیگانہ رہا اپنے ساتھ
آشنایانہ نہ کی کوئی ادا اپنے ساتھ
اتحاد اتنا ہے اس سے کہ ہمیشہ ہے وصال
اپنے مطلوب کو ہے ربط سدا اپنے ساتھ
عہد یہ تھا کہ نہ بے وصل بدن سے جاوے
سو جدا ہوتا ہے کی جی نے دغا اپنے ساتھ
رنج نے رنج بہت کھینچے پہنچ کر ہم تک
اک بلا میں ہے گرفتار بلا اپنے ساتھ
دس گنا دکھنے لگا زخم رکھے مرہم کے
درد کا کام رہی کرتی دوا اپنے ساتھ
۱۰۸۸۰
وارد شہر ہیں یا دشت میں ہم شوق طلب
ہر زماں پھرتا ہے اے میرؔ لگا اپنے ساتھ
(۱۴۸۲)
گرمی سے عاشقی کی آخر کو ہو رہا کچھ
پانی ہوا ہے کچھ تو میرا جگر جلا کچھ
آزردہ دل ہزاروں مرتے ہی ہم سنے ہیں
بیماری دلی کی شاید نہیں دوا کچھ
وارفتہ ہے گلستاں اس روئے چمپئی کا
ہے فصل گل پہ گل کا اب وہ نہیں مزہ کچھ
۱۰۸۸۵
وہ آرسی کے آگے پہروں ہے بے تکلف
منھ سے ہمارے اس کو آتی نہیں حیا کچھ
دل ہی کے غم میں گذرے دس دن جو عمر کے تھے
اچرج ہے اس نگر سے جاتا نہیں دہا کچھ
منھ کر بھی میری جانب سوتا نہیں کبھو وہ
کیا جانوں اس کے جی میں ہے اس طرف سے کیا کچھ
دل لے فقیر کا بھی ہاتھوں میں دل دہی کر
آ جائے ہے جہاں میں آگے لیا دیا کچھ
یاروں کی آہ و زاری ہووے قبول کیوں کر
ان کی زباں میں کچھ ہے دل میں ہے کچھ دعا کچھ
۱۰۸۸۰
ساری وہی حقیقت ملحوظ سب میں رکھیے
کہیے نمود ہووے جو اس کے ماسوا کچھ
حرف و سخن کی اس سے اپنی مجال کیا ہے
ان نے کہا ہے کیا کیا میں نے اگر کہا کچھ
کب تک یہ بد شرابی پیری تو میرؔ آئی
جانے کے ہو مہیا اب کر چلو بھلا کچھ
(۱۴۸۳)
حیرت طلب کو کام نہیں ہے کسو کے ساتھ
جان عزیز ابھی ہے مری آبرو کے ساتھ
یک رنگ آشنا ہیں خرابات ہی کے لوگ
سرمیکشوں کے پھوٹتے دیکھے سبو کے ساتھ
۱۰۸۸۵
قمری کا لوہو پانی ہوا ایک عشق میں
آتا ہے اس کا خون جگر آب جو کے ساتھ
خالی نہیں ہے خواہش دل سے کوئی بشر
جاتے ہیں سب جہان سے یک آرزو کے ساتھ
دم میں ہے دم جہاں تئیں گرم تلاش ہوں
سو پیچ و تاب رہتے ہیں ہر ایک مو کے ساتھ
کیا اضطراب عشق سے میں حرف زن ہوں میرؔ
منھ تک جگر تو آنے لگا گفتگو کے ساتھ
(۱۴۸۴)
سر تو بہت بکھیرا پر فائدہ کیا نہ
الجھاؤ تھا جو اس کی زلفوں سے سو گیا نہ
۱۰۸۰۰
وے زلفیں عقدہ عقدہ ہیں آفت زمانہ
عقدہ ہمارے دل کا ان سے بھی کچھ کھلا نہ
غنچے کے دل کی کچھ تھی واشد بہار آئی
افسوس ہے کہ موسم گل کا بہت رہا نہ
مرنا ہمارا اس سے کہہ دیکھیں یار جا کر
حال اس کا یہ خبر بھی درہم کرے ہے یا نہ
کن رس بھی حیف اس کو تھا نہ کہا تو کیا کیا
قطعہ لطیفہ بذلہ شعر و غزل ترانہ
بیمار عشق بے کس جیتا رہے گا کیوں کر
احوال گیر کم ہو پہنچے بہم دوا نہ
۱۰۸۰۵
یوں درمیاں چمن کے لے تو گئے تھے ہم کو
پر فرط بے خودی سے ہم تھے نہ درمیانہ
چھو سکتے بھی نہیں ہیں ہم لپٹے بال اس کے
ہیں شانہ گیر سے جو یہ لڑکے نرم شانہ
وحشت چمن میں ہم کو کل صبح بیشتر تھی
بے اس کے پھول گل سے جی ایک دم لگا نہ
صحبت بر آر اپنی لوگوں سے کیونکے ہووے
معقول گو ہم اتنے وے ایسے ہرزہ چا نہ
رگڑے گئے ہیں جبہے ازبسکہ راستوں کے
آئینہ ہو رہا ہے وہ سنگ آستانہ
۱۰۸۱۰
ہے عینہٖ ابلنا سیلاب رود کا سا
اے میرؔ چشم تر ہے یا کوئی رود خانہ
(۱۴۸۵)
غم فوت سے بندے آزاد رہ
خدا ہے تو کیا غم ہے دل شاد رہ
(۱۴۸۶)
چاہ میں دل پر ظلم و ستم ہے جور و جفا ہے کیا کیا کچھ
درد و الم ہے کلفت و غم ہے رنج و بلا ہے کیا کیا کچھ
عاشق کے مر جانے کے اسباب بہت رسوائی میں
دل بھی لگا ہے شرم و حیا ہے مہر و وفا ہے کیا کیا کچھ
عشق نے دے کر آگ یکایک شہر تن کو پھونک دیا
دل تو جلا ہے دماغ جلا ہے اور جلا ہے کیا کیا کچھ
۱۰۸۱۵
دل لینے کو فریفتہ کے بہتیرا کچھ ہے یار کنے
غمزہ عشوہ چشمک چتون ناز و ادا ہے کیا کیا کچھ
کیا کیا دیدہ درائی سی تم کرتے رہے اس عالم میں
تم سے آگے سنو ہو صاحب نہیں ہوا ہے کیا کیا کچھ
حسرت وصل اندوہ جدائی خواہش کاوش ذوق و شوق
یوں تو چلا ہوں اکیلا لیکن ساتھ چلا ہے کیا کیا کچھ
کیا کہیے جب میں نے کہا ہے میرؔ ہے مغرور اس پر تو
اپنی زباں مت کھول تو ان نے اور کہا ہے کیا کیا کچھ
ردیف ی
(۱۴۸۸)
میں تو تنک صبری سے اپنی رہ نہیں سکتا اک دم بھی
ناز و غرور بہت ہے اس کا لطف نہیں ہے کم کم بھی
۱۰۸۲۰
جامۂ احرام آخر تہ کر دل کی اور توجہ کی
در پہ حرم کے اس لیے تھے ہم کوئی ملے گا محرم بھی
دیکھ ہوا کو طائر گلشن کس حسرت سے کہتے تھے
گل ہی چلے جاتے نہیں یاں سے چلنے کو بیٹھے ہیں ہم بھی
کیا کیا میں بیتاب رہا ہوں رنج و الم سے محبت کے
ہے عالم کچھ اور ہی میرے دل کے مرض کا عالم بھی
پنبہ و داغ کیا ہے کیا کیا اچھے ہونے والے نہ تھے
زخموں پر چھاتی کے میری رکھ دیکھو نہ مرہم بھی
گرم ہوا ہے ہو گا جوہر سیر چمن کی کر لیجے
پھول بکھرتے جاتے ہیں کچھ آخر ہے اب موسم بھی
۱۰۸۲۵
نعل جڑے سینے کو کوٹا چہرے نچے پر خاک ملی
میرؔ کیا ہے میں نے نہایت دل جانے کا ماتم بھی
(۱۴۸۸)
نقد دل غفلت سے کھویا راہ کھوٹی کر گئے
کارواں جاتا رہا ہم خواب ہی میں مر گئے
کیا کہیں ان نے جو پھیرا اپنے در پر سے ہمیں
مر گئے غیرت سے ہم بھی پر نہ اس کے گھر گئے
واعظ ناکس کی باتوں پر کوئی جاتا ہے میرؔ
آؤ میخانے چلو تم کس کے کہنے پر گئے
(۱۴۸۸)
اے کاش کوئی جا کر کہہ آوے یار سے بھی
یاں کام جا چکا ہے اب اختیار سے بھی
۱۰۸۳۰
تا چند بے دماغی کب تک سخن خشن ہو
کوئی تو بات کریے اخلاص پیار سے بھی
یک معنی شگفتہ سو رنگ بندھ گئے ہیں
الوان گل ہیں ہر سو اب کے بہار سے بھی
کیا جیب و آستیں ہی سیلاب خیز ہے یاں
دریا بہا کریں ہیں میرے کنار سے بھی
باغ وفا سے ہم نے پایا سو پھل یہ پایا
سینے میں چاک تر ہے دل اب انار سے بھی
راہ اس کی برسوں دیکھی آنکھیں غبار لائیں
نکلا نہ کام اپنا اس انتظار سے بھی
۱۰۸۳۵
جان و جہاں سے گذرا میں میرؔ جن کی خاطر
بچ کر نکلتے ہیں وے میرے مزار سے بھی
(۱۴۸۰)
خوار پھرایا گلیوں گلیوں سر مارے دیواروں سے
کیا کیا ان نے سلوک کیے ہیں شہر کے عزت داروں سے
دور اس سے تو اپنے بھائیں آگ لگی ہے گلستاں میں
آنکھیں نہیں پڑتی ہیں گل پر سینکتے ہیں انگاروں سے
شور کیا جو میں نے شبانگہ بیتابی سے دل کی بہت
کہنے لگا جی تنگ آیا ان مہر و وفا کے ماروں سے
وہ جو ماہ زمیں گرد اپنا دوپہری ہے ان روزوں
شوق میں ہر شب حرف و سخن ہے ہم کو فلک کے تاروں سے
۱۰۸۴۰
حرف شنو ساتھ اپنے نہیں ہیں ورنہ درائے قافلہ ساں
راہ میں باتیں کس کس ڈھب کی کرتے ہیں ہم یاروں سے
خستہ ہو اپنا کیسا ہی کوئی پھر بھی گلے سے لگاتے ہیں
وحشت ایک تمھیں کو دیکھی اپنے سینہ فگاروں سے
داغ جگر داری ہیں اپنے کشتے ثبات دل کے ہیں
ہم نہ گئے جاگہ سے ہرگز قیمہ ہوئے تلواروں سے
حرف کی پہچان اس کو نہ تھی تو سادہ ہی کچھ اچھا تھا
بات اگر مانے ہے کوئی سو سو اب تکراروں سے
کوہکن و مجنوں یہ دونوں دشت و کوہ میں سرماریں
شوق نہیں ملنے کا ہم کو میرؔ ایسے آواروں سے
۱۰۸۴۵
(۱۴۸۱)
زورکش ہیں گے عشق کے ہم بھی
ہم نے کھینچی کمان رستم بھی
ہے بلا دھوم دل تڑپنے کی
ایسا ہوتا نہیں ہے اودھم بھی
کچھ نہیں اور دیکھیں ہیں کیا کیا
خواب کا سا ہے یاں کا عالم بھی
حیف دل جاتے پڑ گئی جی کی
ورنہ غم کرتے لیتے ماتم بھی
حرم کعبہ کا نہ پایا بھید
نہ ملا واں کا ایک محرم بھی
۱۰۸۵۰
خشک نے سا تھا شیخ حیف موا
یوں تو یار اس کو دیتے تھے دم بھی
کھپ ہی جاتا ہے آدمی اے میرؔ
آفت جاں ہے عشق کا غم بھی
(۱۴۸۲)
لطف ہے کیا انواع ستم جو اس کے کوئی بیان کرے
گوش زد اک دن ہوویں کہیں تو بے لطفی سے زبان کرے
ہم تو چاہ کر اس پتھر کو سخت ندامت کھینچی ہے
چاہ کرے اب وہ کوئی جو چاہت کا ارمان کرے
سودے میں دل کے نفع جو چاہے خام طمع سودائی ہے
وارا سارا عشق میں کیسا جی کا بھی نقصان کرے
۱۰۸۵۵
حشر کے ہنگامے میں چاہیں داد عشق تو حسن نہیں
کاشکے یاں وہ ظالم اپنے دل ہی میں دیوان کرے
آتش خو مغرور سے ویسے عہدہ برآ کیا عاشق ہو
دل کو جلاوے منت رکھے جی مارے احسان کرے
یمن عشق غم افزا سے کام نہایت مشکل ہے
اب بھی نہیں نومیدی دل کو شاید عشق آسان کرے
کہنے میں یہ بات آتی نہیں ہو سیر خدا کی قدرت کی
موند کر آنکھیں میرؔ اگر تو دل کی طرف ٹک دھیان کرے
(۱۴۸۳)
بے دل ہوئے بے دیں ہوئے بے وقر ہم ات گت ہوئے
بے کس ہوئے بے بس ہوئے بے کل ہوئے بے گت ہوئے
۱۰۸۶۰
ہم عشق میں کیا کیا ہوئے اب آخر آخر ہو چکے
بے مت ہوئے بے ست ہوئے بے خود ہوئے میت ہوئے
الفت جو کی کہتا ہے جی حالت نہیں عزت نہیں
ہم بابت ذلت ہوئے شائستۂ کلفت ہوئے
گر کوہ غم ایسا گراں ہم سے اٹھے پس دوستاں
سوکھے سے ہم دینت ہوئے تنکے سے ہم پربت ہوئے
کیا رویئے قیدی ہیں اب رویت بھی بن گل کچھ نہیں
بے پر ہوئے بے گھر ہوئے بے زر ہوئے بے پت ہوئے
آنکھیں بھر آئیں جی رندھا کہیے سو کیا چپکے سے تھے
جی چاہتا مطلق نہ تھا ناچار ہم رخصت ہوئے
۱۰۸۶۵
یامست درگا ہوں میں شب کرتے تھے شاہد بازیاں
تسبیح لے کر ہاتھ میں یا میرؔ اب حضرت ہوئے
(۱۴۸۴)
باغ میں سیر کبھو ہم بھی کیا کرتے تھے
روش آب رواں پھیلے پھرا کرتے تھے
غیرت عشق کسو وقت بلا تھی ہم کو
تھوڑی آزردگی میں ترک وفا کرتے تھے
دل کی بیماری سے خاطر تو ہماری تھی جمع
لوگ کچھ یوں ہی محبت سے دوا کرتے تھے
جب تلک شرم رہی مانع شوخی اس کی
تب تلک ہم بھی ستم دیدہ حیا کرتے تھے
۱۰۸۸۰
مائل کفر جوانی میں بہت تھے ہم لوگ
دیر میں مسجدوں میں دیر رہا کرتے تھے
آتش عشق جہاں سوز کی لپٹیں تھیں قہر
دل جگر جان درونے میں جلا کرتے تھے
اب تو بیتابی دل نے ہمیں بٹھلا ہی دیا
آگے رنج و تعب عشق اٹھا کرتے تھے
اٹھ گئے پر مرے تکیے کو کہیں گے یاں میرؔ
درد دل بیٹھے کہانی سی کہا کرتے تھے
(۱۴۸۵)
حال نہیں ہے دل میں مطلق شور و فغاں رسوائی ہے
یار گیا مجلس سے دیکھیں کس کس کی اب آئی ہے
۱۰۸۸۵
آنکھیں مل کر کھولیں ان نے عالم میں آشوب اٹھا
بال کھلے دکھلائی دیا سو ہر کوئی سودائی ہے
ڈول بیاں کیا کوئی کرے اس وعدہ خلاف کی دیہی کا
ڈھال کے سانچے میں صانع نے وہ ترکیب بنائی ہے
نسبت کیا ان لوگوں سے ہم کو شہری ہیں دیوانے ہم
ہے فرہاد اک آدم کوہی مجنوں اک صحرائی ہے
ہے پتھر سا چھاتی میں میری کثرت غم کی حیرت سے
کیا کہیے پہلو سے دل کے سخت اذیت پائی ہے
باغ میں جا کر ہم جور ہے سو اور دماغ آشفتہ ہوا
کیا کیا سر پہ ہمارے آ کر بلبل شب چلائی ہے
۱۰۸۸۰
کیسا کیسا عجز ہے اپنا کیسے خاک میں ملتے ہیں
کیا کیا ناز و غرور اس کو ہے کیا کیا بے پروائی ہے
قصہ ہم غربت زدگاں کا کہنے کے شائستہ نہیں
بے صبری کم پائی ہے پھر دور اس سے تنہائی ہے
چشمک چتون نیچی نگاہیں چاہ کی تیری مشعر ہیں
میرؔ عبث مکرے ہے ہم سے آنکھ کہیں تو لگائی ہے
(۱۴۸۶)
دنیا کی قدر کیا جو طلبگار ہو کوئی
کچھ چیز مال ہو تو خریدار ہو کوئی
کیا ابر رحمت اب کے برستا ہے لطف سے
طاعت گزیں جو ہو سو گنہگار ہو کوئی
۱۰۸۸۵
کیا ضعف تن میں ہے جگر و دل دماغ بن
پوچھے جو اس قشون میں سردار ہو کوئی
ہم عاشقان زرد و زبون و نزار سے
مت کر ادائیں ایسی کہ بیزار ہو کوئی
چپکے ہیں ہم تو حیرت حالات عشق سے
کریے بیاں جو واقف اسرار ہو کوئی
یکساں ہوئے ہیں خاک سے پامال ہو کے ہم
کیا اور اس کی راہ میں ہموار ہو کوئی
وہ رہ سکے ہے دل زدہ کچھ منتظر کھڑا
حیرت سے اس کے در پہ جو دیوار ہو کوئی
۱۰۸۸۰
اک نسخۂ عجیب ہے لڑکا طبیب کا
کچھ غم نہیں ہے اس کو جو بیمار ہو کوئی
کیا اضطراب دل سے کہے میرؔ سرعشق
یہ حال سمجھے وہ جو گرفتار ہو کوئی
(۱۴۸۸)
ان حنائی دست و پا سے دل لگی سی ہے ابھی
میں نے ناخن بندی اپنی عشق میں کی ہے ابھی
ہاتھ دل پر زور سے اپنے نہ رکھا چاہیے
چاک کی چھاتی مری جراح نے سی ہے ابھی
ایک دم دکھلائی دیتا بھی تو مرتے آ کہیں
شوق سے آنکھوں میں کوئی دم مرا جی ہے ابھی
۱۰۸۸۵
دیکھیں اک دو دم میں کیونکر تیغ اس کی ہو بلند
کوئی خوں ریز ان نے اپنی میان سے لی ہے ابھی
کس طرح ہوں معتقد ہم اتقائے شیخ کے
صبح کو رسم صبوحی سے تو مے پی ہے ابھی
آگے کب کب اٹھتے تھے سنّاہٹے سے باغ میں
طرز میرے نالے کی بلبل نے سیکھی ہے ابھی
زیر دیوار اس کے کس امید پر تو میرؔ ہے
ایک دو نے جان اس دروازے پر دی ہے ابھی
(۱۴۸۸)
دیر سے ہم کو بھول گئے ہو یاد کرو تو بہتر ہے
غم حرماں کا کب تک کھینچیں شاد کرو تو بہتر ہے
۱۱۰۰۰
پہنچا ہوں میں دوری سے مرنے کے نزدیک آخر تو
قیدحیات سے بندے کو آزاد کرو تو بہتر ہے
جو کریے گا حق میں میرے خوبی ہے میری اس ہی میں
داد کرو تو بہتر ہے بیداد کرو تو بہتر ہے
زخم دامن دار جگر سے جامہ گذاری ہو نہ گئی
ظلم نمایاں اب کوئی جو ایجاد کرو تو بہتر ہے
عشق میں دم مارا نہ کبھو تم چپکے چپکے میرؔ کھپے
لوہو منھ سے مل کر اب فریاد کرو تو بہتر ہے
(۱۴۸۸)
مل اہل بصیرت سے کچھ وے ہی دکھا دیں گے
لے خاک کی کوئی چٹکی اکسیر بنا دیں گے
۱۱۰۰۵
پانی کی سی بوندیں تھیں سب اشک نہ میں جانا
کپڑوں پہ گریں گے تو وے آگ جلا دیں گے
سرگشتہ سا پھرتا ہے کہتے ہیں بیاباں میں
گر خضر ملے گا تو ہم راہ بتا دیں گے
اے کاش قیامت میں دیویں اسے عاشق کو
گر حسن عمل کی واں لوگوں کو جزا دیں گے
حاصل کڑی ہونے کا ابرو کی کمان اس کی
دیکھیں گے چڑھی جس دم ہم سر کو نوا دیں گے
ایدھر نہیں آتا وہ آوے تو تصدق کر
جی جامہ اٹھا دیں گے گھر بار لٹا دیں گے
۱۱۰۱۰
معشوقوں کی گرمی بھی اے میرؔ قیامت ہے
چھاتی میں گلے لگ کر ٹک آگ لگا دیں گے
(۱۵۰۰)
جنگل میں چشم کس سے بستی کی رہبری کی
صاحب ہی نے ہمارے یہ بندہ پروری کی
شب سن کے شور میرا کچھ کی نہ بے دماغی
اس کی گلی کے سگ نے کیا آدمی گری کی
کرتے نہیں ہیں دل خوں اس رنگ سے کسو کا
ہم دل شدوں کی ان نے کیا خوب دلبری کی
اللہ رے کیا نمک ہے آدم کے حسن میں بھی
اچھی لگی نہ ہم کو خوش صورتی پری کی
۱۱۰۱۵
ہے اپنی مہر ورزی جانکاہ و دل گدازاں
اس رنج میں نہیں ہے امید بہتری کی
رفتار ناز کا ہے پامال ایک عالم
اس خود نما نے کیسی خودرائی خودسری کی
اے کاش اب نہ چھوڑے صیاد قیدیوں کو
جی ہی سے مارتی ہے آزادی بے پری کی
اس رشک مہ سے ہر شب ہے غیر سے لڑائی
بخت سیہ نے بارے ان روزوں یاوری کی
کھٹ پچریاں ہی کی ہیں صراف کے نے ہم سے
پیسے دے بیروئی کی پھر لے گئے کھری کی
۱۱۰۲۰
گذرے بسان صرصر عالم سے بے تامل
افسوس میرؔ تم نے کیا سیر سرسری کی
(۱۵۰۱)
اکثر کی بے دماغی ہر دم کی سرگرانی
اب کب گئی اٹھائی ہے زور ناتوانی
تم دل کو دیتے ہو تو بے دل سمجھ کے ہو جو
ہم نے تو قدر دل کی افسوس کچھ نہ جانی
عہد شباب کی تو فرصت تھی ایک چشمک
مژگاں بہم زدن میں جاتی رہی جوانی
حسرت سے دیکھ رہیو اے نامہ بر منھ اس کا
بس اور کچھ نہ کہیو ہرگز مری زبانی
۱۱۰۲۵
اس غیرت قمر کی خجلت سے تاب رخ کی
آئینہ تو سراسر ہوتا ہے پانی پانی
مرزائی فقر میں بھی دل سے گئی نہ میرے
چہرے کے رنگ اپنے چادر کی زعفرانی
یوں میرؔ تو غم اپنا برسوں کہا کریں گے
اب رات کم ہے سوؤ بس ہو چکی کہانی
(۱۵۰۲)
چلو چمن میں جو دل کھلے ٹک بہم غم دل کہا کریں گے
طیور ہی سے بَکا کریں گے گلوں کے آگے بُکا کریں گے
قرار دل سے کیا ہے اب کے کہ رک کے گھر میں نہ مریئے گا یوں
بہار آئی جو اپنے جیتے تو سیر کرنے چلا کریں گے
۱۱۰۳۰
ہلاک ہونا مقرری ہے مرض سے دل کے پہ تم کڑھو ہو
مزاج صاحب اگر ادھر ہے تو ہم بھی اپنی دوا کریں گے
برا ہے دل کا ہمارے لگنا لگانا غصے سے عاشقی کے
نچی جبیں سے گلی میں اس کی خراب و خستہ پھرا کریں گے
وصال خوباں نہ کر تمنا کہ زہر شیریں لبی ہے ان کی
خراب و رسوا جدا کریں گے ہلاک مل کر جدا کریں گے
اگر وہ رشک بہار سمجھے کہ رنگ اپنا بھی ہے اب ایسا
ورق خزاں میں جو زرد ہوں گے غم دل ان پر لکھا کریں گے
غم محبت میں میرؔ ہم کو ہمیشہ جلنا ہمیشہ مرنا
صعوبت ایسی دماغ رفتہ کہاں تلک اب وفا کریں گے
۱۱۰۳۵
(۱۵۰۳)
سنو سرگذشت اب ہماری زبانی
سنی گرچہ جاتی نہیں یہ کہانی
بہت نذریں مانیں کہ مانے گا کہنا
ولیکن مری بات ہرگز نہ مانی
بہت مو پریشاں کھپے اس کے غم میں
خدا جانے ہے بید کس کی نشانی
گیا بھول جی شیب میں جو ہمارا
بہت یاد آئی گئی وہ جوانی
توقع نہیں یاں تک آنے کی ان سے
اگر لطف مجھ پر کریں مہربانی
۱۱۰۴۰
گری ضبط گریہ سے دل کی عمارت
ہوئی چشم تر اس خرابی کی بانی
ملا دیتی ہے خاک میں آدمی کو
محبت ہے کوئی بلا آسمانی
گرامی گہر میرؔ جی تھا ہمارا
ولے عشق میں قدر ہم نے نہ جانی
(۱۵۰۴)
چلتے ہو تو چمن کو چلیے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے
رنگ ہوا سے یوں ٹپکے ہے جیسے شراب چواتے ہیں
آگے ہو میخانے کے نکلو عہد بادہ گساراں ہے
۱۱۰۴۵
عشق کے میداں داروں میں بھی مرنے کا ہے وصف بہت
یعنی مصیبت ایسی اٹھانا کار کار گذاراں ہے
دل ہے داغ جگر ہے ٹکڑے آنسو سارے خون ہوئے
لوہو پانی ایک کرے یہ عشق لالہ عذاراں ہے
کوہکن و مجنوں کی خاطر دشت و کوہ میں ہم نہ گئے
عشق میں ہم کو میرؔ نہایت پاس عزت داراں ہے
(۱۵۰۵)
ہم اس مرتبہ پھر بھی لشکر گئے
تعب ایسی گذری کہ مر مر گئے
نظر اک سپاہی پسر سے لڑی
قریب اس کے تلوار کر کر گئے
۱۱۰۵۰
بہم مہر ورزی کے سرگرم تھے
خدا جانے وہ لوگ کیدھر گئے
لہو میری آنکھوں میں آتا نہیں
جگر کے مگر زخم سب بھر گئے
رباط کہن میں نہیں میرؔ جی
ہوا جو لگی وے بھی باہر گئے
(۱۵۰۶)
کب وعدے کی رات وہ آئی جو آپس میں نہ لڑائی ہوئی
آخر اس اوباش نے مارا رہتی نہیں ہے آئی ہوئی
چاہ میں اس بے الفت کی گھبراہٹ دل ہی کو تو نہیں
سارے حواسوں میں ہے تشتت جان بھی ہے گھبرائی ہوئی
۱۱۰۵۵
گرچہ نظر ہے پشت پا پر لیکن قہر قیامت ہے
گڑ جاتی ہے دل میں ہمارے آنکھ اس کی شرمائی ہوئی
جنگل جنگل شوق کے مارے ناقہ سوار پھرا کی ہے
مجنوں جو صحرائی ہوا تو لیلیٰ بھی سودائی ہوئی
دود دل سوزان محبت محو جو ہو تو عرش پہ ہو
یعنی دور بجھے گی جا کر عشق کی آگ لگائی ہوئی
چتون کے انداز سے ظالم ترک مروت پیدا ہے
اہل نظر سے چھپتی نہیں ہے آنکھ کسو کی چھپائی ہوئی
میرؔ کا حال نہ پوچھو کچھ تم کہنہ رباط سے پیری میں
رقص کناں بازار تک آئے عالم میں رسوائی ہوئی
۱۱۰۶۰
(۱۵۰۸)
موسم ہے نکلے شاخوں سے پتے ہرے ہرے
پودے چمن میں پھولوں سے دیکھے بھرے بھرے
آگے کسو کے کیا کریں دست طمع دراز
وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے
کیا سمجھے اس کے رتبۂ عالی کو اہل خاک
پھرتے ہیں جوں سپہر بہت ہم ورے ورے
مرتا تھا میں تو باز رکھا مرنے سے مجھے
یہ کہہ کے کوئی ایسا کرے ہے ارے ارے
گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگ گل سے میرؔ
بلبل پکاری دیکھ کے صاحب پرے پرے
۱۱۰۶۵
(۱۵۰۸)
ہماری تیری مودت ہے دوست داری ہے
ہزار سابقوں سے سابق ایک یاری ہے
گئی وہ نوبت مجنوں کہ نام باجے تھا
ہمارا شور جنوں اب ہے اپنی باری ہے
کریں تو جاکے گدایانہ اس طرف آواز
اگر صدا کوئی پہچانے شرمساری ہے
مسافران رہ عشق ہیں شکیب سے چپ
وگرنہ حال ہمارا تو اضطراری ہے
خرابی حال کی دل خواہ جو تمھارے تھی
سو خطرے میں نہیں خاطر ہمیں تمھاری ہے
۱۱۰۸۰
ہمیں ہی عشق میں جینے کا کچھ خیال نہیں
وگرنہ سب کے تئیں جان اپنی پیاری ہے
نگاہ غور سے کر میرؔ سارے عالم میں
کہ ہووے عین حقیقت وہی تو ساری ہے
(۱۵۰۸)
نہ خاطر پر الم تیرے نہ دل پر کچھ ستم تیرے
محل رحم ہوویں کس طرح مظلوم ہم تیرے
جو ٹک بھی سایہ گستر ہو گا تو اس خشک مزرع پر
بہت ہم ہوں گے احساں مند اے ابر کرم تیرے
انھیں کی طبع جان میرؔ مائل ہو گی سنبل کی
نہیں دیکھے جنھوں نے گیسوئے پر پیچ و خم تیرے
۱۱۰۸۵
(۱۵۱۰)
عشق میں کھوئے جاؤ گے تو بات کی تہ بھی پاؤ گے
قدر ہماری کچھ جانو گے دل کو کہیں جو لگاؤ گے
صبر کہاں بیتابی دل سے چین کہاں بے خوابی سے
سو سو بار گلی میں تکتے گھر سے باہر آؤ گے
شوق کمال کو پہنچا تو ہیں خط و کتابت حرف و سخن
قاصد کے محتاج نہ ہو گے آپھی دوڑے جاؤ گے
صنعت گریاں صاحب بندہ دل کے لگے کب پیش گئیں
ایک نہیں وہ سننے کا تم باتیں بہت بناؤ گے
چاہ کیے درویش ہوئے تو آب و خورش کی فکر نہیں
لوہو پیو گے اپنا ہر دم غم غصہ ہی کھاؤ گے
۱۱۰۸۰
رنگ محبت کے ہیں کتنے کوئی تمھیں خوش آوے گا
خون کرو گے یا دل کو یا داغ جگر پہ جلاؤ گے
رہتے ہیں مبہوت الفت ہیں گم گشتہ کلفت میں
بھولے بھولے آپھی پھرو گے کس کو راہ بتاؤ گے
اشک تو پانی سے ہیں لیکن جلتے جلتے آویں گے
دل کے لگے حیران ہوں صاحب کس ڈھب مل کے بجھاؤ گے
چاہت میرؔ سبھی کرتے ہیں رنج و تعب میں رہتے ہیں
تم جو ابھی بیتاب ہو ایسے جی سے ہاتھ اٹھاؤ گے
(۱۵۱۱)
اب کے سفر کو ہم سے وہ مہ جدا گیا ہے
رخصت میں لگ گلے سے چھاتی جلا گیا ہے
۱۱۰۸۵
فرہاد و قیس گذرے اب شور ہے ہمارا
ہر کوئی اپنی نوبت دو دن بجا گیا ہے
ضعف دماغ سے میں بھر کر نظر نہ دیکھا
کیا دیر میں پلک سے میری اٹھا گیا ہے
بے جا ہوئے بہت دل رفتار دیکھ اس کی
عزلت گزینوں سے بھی کم ہی رہا گیا ہے
رسوا خراب و غم کش دل باختہ محبت
عاشق کو تیرے غم میں کیا کیا کہا گیا ہے
ق
اے میرؔ شعر کہنا کیا ہے کمال انساں
یہ بھی خیال سا کچھ خاطر میں آ گیا ہے
۱۱۰۸۰
شاعر نہیں جو دیکھا تو تو ہے کوئی ساحر
دو چار شعر پڑھ کر سب کو رجھا گیا ہے
(۱۵۱۲)
کہو سو کریے فراق اس کا تو جی کو میرے کھپا گیا ہے
دروں میں آگ اک لگا گیا ہے بروں کو یکسر جلا گیا ہے
اگرچہ مارا بگڑ کے مجھ کو و لیک لطف و کرم سے پھر بھی
نشان میرے مزار کا وہ سررہ اپنی بنا گیا ہے
خرام شوخی کے ہمرہ اس کے ہزار جانیں چلی گئی ہیں
رکھا ہے رہ میں قدم جو ان نے تو میرؔ کس سے رہا گیا ہے
(۱۵۱۳)
صبر کر رہ جو وہ عتاب کرے
ورنہ کیا جانے کیا خطاب کرے
۱۱۰۸۵
عشق میں دل بہت ہے بے آرام
چین دیوے تو کوئی خواب کرے
وقت یاں کم ہے چاہیے آدم
کرنا جو کچھ ہو سو شتاب کرے
پھاڑ کر خط کو ان نے پھینک دیا
نامہ بر اس کا کیا جواب کرے
ہے برافروختہ جو خشم سے وہ
آتش شعلہ زن کو آب کرے
ہے تو یک قطرہ خون ہی لیکن
قہر ہے دل جو اضطراب کرے
۱۱۱۰۰
میرؔ اٹھ بت کدے سے کعبے گیا
کیا کرے جو خدا خراب کرے
(۱۵۱۴)
افسانہ خواں کا لڑکا کیا کہیے دیدنی ہے
قصہ ہمارا اس کا یارو شنیدنی ہے
اپنا تو دست کوتہ زہ تک بھی ٹک نہ پہنچا
نقاش سے کہیں وہ دامن کشیدنی ہے
پروانہ مر مٹا ہے جل کر نہ کچھ کہا تو
اے شمع یہ زباں تو ظالم بریدنی ہے
حسرت سے عاشقی کی پیری میں کیا کہیں ہم
دنداں نہیں ہیں منھ میں وہ لب گزیدنی ہے
۱۱۱۰۵
ہے راست میرؔ صاحب کس کس کا حیف کریے
سر ہے فگندنی ہے قد ہے خمیدنی ہے
(۱۵۱۵)
حال رہا ہو ہم میں کچھ تو حال کسو سے کہا جاوے
آن رہے ہیں آج دموں پر کل تک کیونکے رہا جاوے
اس کی گلی وہ ظلم کدہ ہے آ نکلے جو کوئی وہاں
گرد رہ عشق آلودہ تو لوہو میں اپنے نہا جاوے
آنکھوں کی خوننابہ فشانی دیکھیں میرؔ کہاں تک یہ
زرد ہمارے رخساروں پر ہر دم خون بہا جاوے
(۱۵۱۶)
عشق چھپا کر پچھتائے ہم سوکھ گئے رنجور ہوئے
یعنی آنسو پی پی گئے سو زخم جگر ناسور ہوئے
۱۱۱۱۰
ہم جو گئے سرمست محبت اس اوباش کے کوچے میں
کھائیں کھڑی تلواریں اس کی زخمی نشے میں چور ہوئے
کوئی نہ ہم کو جانے تھا ہم ایسے تھے گمنام آگے
یمن عشق سے رسوا ہو کر شہروں میں مشہور ہوئے
کیا باطل ناچیز یہ لونڈے قدر پر اپنی نازاں ہیں
قدرت حق کے کھیل تو دیکھو عاشق بے مقدور ہوئے
سر عاشق کا کاٹ کے ان کو سربگریباں رہنا تھا
سو تو پگڑی پھیر رکھی ہے اور بھی وے مغرور ہوئے
زرد و زبون و زار ہوئے ہیں لطف ہے کیا اس جینے کا
مردے سے بھی برسوں کے ہم ہجراں میں بے نور ہوئے
۱۱۱۱۵
پاس ہی رہنا اکثر اس کے میرؔ سبب تھا جینے کا
پہنچ گئے مرنے کے نزدیک اس سے جو ٹک دور ہوئے
(۱۵۱۸)
جو بحث جی سے وفا میں ہے سو تو حاضر ہے
پہ فرط شوق سے مجھ کو ملال خاطر ہے
وصال ہووے تو قدرت نما ہے قدرت کا
نہ ہم کو قدر نہ قدرت خدا ہی قادر ہے
مسافرانہ ملے تو کہا شرارت سے
غریب کہتے ہیں لوگ ان کو یہ بھی نادر ہے
کسو سیاق سے تحریر طول شوق نہ ہو
زبان خامۂ لسّان اس میں قاصر ہے
۱۱۱۲۰
بہم رکھا کرو شطرنج ہی کی بازی کاش
نہ میرؔ بار ہے خاطر کا یار شاطر ہے
(۱۵۱۸)
ہوتی نہیں تسلی دل گلستاں سے بھی
تسکیں نہیں ہے جان کو آب رواں سے بھی
تا یہ گرفتہ وا ہو کہاں لے کے جائیے
آئے ہیں اس کی غنچگی میں تنگ جاں سے بھی
آگے تھی شوخی ہم سے کنایوں میں چپ تھے ہم
مشکل ہے اب برا لگے کہنے زباں سے بھی
ہر چند دست بیع جواناں ہوں میں ولے
اک اعتقاد رکھتا ہوں پیر مغاں سے بھی
۱۱۱۲۵
جھنجھلاہٹ اور غصے میں ہجران یار کے
جھگڑا ہمیں رہے ہے زمیں آسماں سے بھی
ق
دنیا سے درگذر کہ گذر گہ عجب ہے یہ
درپیش یعنی میرؔ ہے جانا جہاں سے بھی
لشکر میں ہے مبیت اسی بات کے لیے
کہتے ہیں لوگ کوچ ہے کل صبح یاں سے بھی
(۱۵۱۸)
عشق کیا ہے جب سے ہم نے دل کو کوئی ملتا ہے
اشک کی سرخی زردی چہرہ کیا کیا رنگ بدلتا ہے
روز وداع لگا چھاتی سے وہ جو خوش پرکار گیا
دل تڑپے ہے جان کھپے ہے سینہ سارا جلتا ہے
۱۱۱۳۰
گور بغیر آرام گہ اس کو دنیا میں پھر کوئی نہیں
عشق کا مارا آوارہ جو گھر سے اپنے نکلتا ہے
ضعف دماغی جس کو ہووے عشق کے رنج و محنت سے
جی بھی سنبھلتا ہے اس کا پر بعد از دیر سنبھلتا ہے
شورجرس شب گیر کا غافل تیاری کا تنبہ ہے
یعنی آنکھ نہ لگنے پاوے قافلہ صبح کو چلتا ہے
بال نہیں عاشق کے بدن پر ہر بن مو سے نکلا دود
بل کر اس کو جلاتے کیا ہو آپھی جلتا بلتا ہے
میرؔستم کشتہ کی سماجت ہے مشہور زمانے کی
جان دیے بن آگے سے اس کے کب وہ ظالم ٹلتا ہے
۱۱۱۳۵
(۱۵۲۰)
جب سے ستارہ صبح کا نکلا تب سے آنسو جھمکا ہے
دل تڑپا جو اس مہ رو بن سر کو ہمارے دھمکا ہے
آمد و رفت دم کے اوپر ہم نے بنائے زیست رکھی
دم سو ہوا ہے آوے نہ آوے کس کو بھروسا دم کا ہے
گہ صوفی چل میخانے میں لطف نہیں اب مسجد میں
ابر ہے باراں باؤ ہے نرمک رنگ بدن میں جھمکا ہے
کیا امید رہائی رکھے ہم سا رفتہ وارفتہ
دل اپنا تو زنجیری اس زلف خم در خم کا ہے
دل کی نہیں بیماری ایسی جس میں ہو امید بہی
کیا سنبھلے گا میرؔ ستم کش وہ تو مارا غم کا ہے
۱۱۱۴۰
(۱۵۲۱)
خواہش دل کی کس سے کہیے محرم تو نا پیدا ہے
چپ ہیں کچھ کہہ سکتے نہیں پر جی میں ہمارے کیا کیا ہے
ہیں متوقع پرسش اس کے ہم جو گرے ہیں بستر پر
رہنا اس بدحالی ہی سے اپنے حق میں اچھا ہے
میرؔ جی کی بیماری دل کو کب سے ہم سب سنتے ہیں
پوچھے کوئی مزاج کو اس کے ان روزوں میں کیسا ہے
(۱۵۲۲)
صبر کیا جاتا نہیں ہم سے ضعف بھی ہے بیتابی ہے
سہل نہیں ہے جی کا ڈھہنا کیسی خانہ خرابی ہے
آگے ایسا نکھرا نکھرا کاہے کو میں پھرتا تھا
جب سے آنکھ لگی اس مہ سے رنگ مرا مہتابی ہے
۱۱۱۴۵
کس سے سبب میں پوچھوں یارب اپنی سوزش سینے کا
چھاتی جو جلتی رہتی ہے ات گت آگ مگر یاں دابی ہے
رنج و محن نے عشق کے مجھ کو راحت سے مایوس کیا
دل کے تئیں بیتابی ہے میری آنکھوں کو بے خوابی ہے
ابر کوئی رویا ہے شاید برسوں وادی لیلیٰ میں
سیر کیا وہ قطعہ زمیں کا اب تک بھی سیرابی ہے
شہر حسن عجب بستی ہے ڈھونڈے پیدا مہر نہیں
ہے تو متاع گراں قیمت پھر اس کی بلا نایابی ہے
در بدر و رسوا و عاشق شاعر شاغل کامل میرؔ
گہ کعبے میں دیر میں گاہے کیا کافر ہر بابی ہے ۱۱۱۵۰
(۱۵۲۳)
دل کی بات کہی نہیں جاتی چپکے رہنا ٹھانا ہے
حال اگر ہے ایسا ہی تو جی سے جانا جانا ہے
اس کی نگاہ تیز ہے میرے دوش و بر پر ان روزوں
یعنی دل پہلو میں میرے تیرستم کا نشانہ ہے
دل جو رہے تو پاؤں کو بھی دامن میں ہم کھینچ رکھیں
صبح سے لے کر سانجھ تلک اودھر ہی جانا آنا ہے
سرخ کبھو آنسو ہیں ہوتے زرد کبھو ہے منھ میرا
کیا کیا رنگ محبت کے ہیں یہ بھی ایک زمانہ ہے
اس نومیدی بے غایت پر کس مقدار کڑھا کریے
دو دم جیتے رہنا ہے تو قیامت تک مر جانا ہے
۱۱۱۵۵
فرصت کم ہے یاں رہنے کی بات نہیں کچھ کہنے کی
آنکھیں کھول کے کان جو کھولو بزم جہاں افسانہ ہے
فائدہ ہو گا کیا مترتب ناصح ہرزہ درائی سے
کس کی نصیحت کون سنے ہے عاشق تو دیوانہ ہے
تیغ تلے ہی اس کے کیوں نہ گردن ڈال کے جا بیٹھیں
سر تو آخرکار ہمیں بھی خاک کی اور جھکانا ہے
آنکھوں کی یہ مردم داری دل کو کسو دلبر سے ہے
طرز نگہ طراری ساری میرؔ تمھیں پہچانا ہے
(۱۵۲۴)
کلید پیچ اگر رقعہ یار کا آوے
تو دل کہ قفل سا بستہ ہے کیسا کھل جاوے
۱۱۱۶۰
ہماری جان لبوں پر سے سوئے گوش گئی
کہ اس کے آنے کی سن گن کچھ اب بھی یاں پاوے
بہار لوٹے ہیں میرؔ اب کے طائر آزاد
نسیم کیا ہے دو گل برگ اگر ادھر لاوے
(۱۵۲۵)
میں اس کی جدائی میں تصدیع بہت پائی
درویشی و کم پائی بے صبری و تنہائی
اس رفتہ کی جاں بخشی ٹک آتے ہوئی اس کے
رکھتے ہی قدم مجھ میں پھر جان گئی آئی
تھا صبر و سکوں جب تک رہتا تھا مجھے غش سا
بیتابی دل سر پر ایک اور بلا لائی
۱۱۱۶۵
اس میری جراحت پر کل داور محشر بھی
ڈرتا ہوں کہے ریجھا کیا تیغ ستم کھائی
اے میرؔ کسے دیں ہیں جب تک نہ نصیبہ ہو
کر شکر ملی ہے جو اس در کی جبیں سائی
(۱۵۲۶)
کیا کیا ہم نے رنج اٹھائے کیا کیا ہم بھی شکیبا تھے
دو دن جوں توں جیتے رہے سو مرنے ہی کے مہیا تھے
عشق کیا سو باتیں بنائیں یعنی شعر شعار ہوا
بیتیں جو وے مشہور ہوئیں تو شہروں شہروں رسوا تھے
کیا پگڑی کو پھیر کے رکھتے کیا سر نیچے نہ ہوتا تھا
لطف نہیں اب کیا کہیے کچھ آگے ہم بھی کیا کیا تھے
۱۱۱۸۰
اب کے وصال قرار دیا ہے ہجر ہی کی سی حالت ہے
ایک سمیں میں دل بے جا تھا تو بھی ہم وے یک جا تھے
کیا ہوتا جو پاس اپنے اے میرؔ کبھو وے آ جاتے
عاشق تھے درویش تھے آخر بیکس بھی تھے تنہا تھے
(۱۵۲۸)
رنج کی اس کے جو خبر گذرے
رفتہ وارفتہ اس کا مر گذرے
ایک پل بھی نہ اس سے آنسو پنچھے
روتے مجھ کو پہر پہر گذرے
جوئے خوں آنکھوں سے بہی شاید
خون سے میرے بھی وے در گذرے
۱۱۱۸۵
راہ جاناں سے ہے گذر مشکل
جان ہی سے کوئی مگر گذرے
مارے غیروں کو یا مرے عاشق
کچھ نہ کچھ چاہیے کہ کر گذرے
غنچہ ہو شرم سے ان آنکھوں کی
گل نرگس اگر نظر گذرے
سر کا جانا ہی ہر قدم ہے میرؔ
کیا کوئی اس کی راہ پر گذرے
(۱۵۲۸)
جب سے آنکھیں کھلی ہیں اپنی درد و رنج و غم دیکھے
ان ہی دیدۂ نم دیدوں سے کیا کیا ہم نے ستم دیکھے
۱۱۱۸۰
سر جانے کی اور اپنے زنہار نگاہ نہ کی ہم نے
اٹھ کے اندھا دھند آئے چلے ہی اس ظالم کے قدم دیکھے
عالم ہیئت مجموعی سے ایک عجیب مرقع ہے
ہر صفحے میں ورق میں اس کے دیکھے تو عالم دیکھے
زخم نہ ہوویں کیونکر غائر چھاتی میں دل خستوں کی
تیرنگاہ یار جگر پر لگتے ہوئے پیہم دیکھے
یار کے در پر ذکر ہے کیا ہنگامۂ روز محشر کا
اس کوچے میں قیامت سے تو میرؔ بہت اودھم دیکھے
(۱۵۲۸)
خواہش دل سے جی کی تاب گئی
آنکھیں اس سے لگیں سو خواب گئی
۱۱۱۸۵
پھول سے بھی تھی خوب دختر تاک
مغبچوں میں رہی خراب گئی
گر کر اس کی گلی کی خاک میں مفت
اشک کی موتی کی سی آب گئی
بوئے گل یا نوائے بلبل تھی
عمر افسوس کیا شتاب گئی
نمک حسن سبز سے اے میرؔ
ساری کیفیت شراب گئی
(۱۵۳۰)
یارب اس کا ستم سہا بھی جائے
پنجہ خورشید کا گہا بھی جائے
۱۱۱۸۰
دیکھ رہیے خرام ناز اس کا
پر کسو پا سے گر رہا بھی جائے
درد دل طول سے کہے عاشق
روبرو اس کے جو کہا بھی جائے
حیرت گل سے آب جو ٹھٹھکا
بہے بہتیرا ہی بہا بھی جائے
کیا کوئی اس گلی میں آوے میرؔ
آوے تو لوہو میں نہا بھی جائے
(۱۵۳۱)
اب ترک کر لباس توکل ہی کر رہے
جب سے کلاہ سر پہ رکھی در بہ در رہے
۱۱۱۸۵
اس دشت سے غبار ہمارا نہ ٹک اٹھا
ہم خانماں خراب نہ جانا کدھر رہے
آنے سے اس طرف کے ترے میں نے غش کیا
شکوہ بھی اس سے کیجیے جس کو خبر رہے
دونوں طرف سے دیدہ درائی نہیں ہے خوب
اس چاہ کا ہے لطف جو آپس میں ڈر رہے
جب تک ہو خون دل میں جگر میں مژہ ہوں نم
تہ کچھ بھی جو نہ ہووے تو کیا چشم تر رہے
رہنا گلی میں اس کی نہ جیتے جی ہوسکا
ناچار ہوکے واں جو گئے اب سو مر رہے
عاشق خراب حال ترے ہیں گرے پڑے
جوں لشکر شکستہ پریشاں اتر رہے
۱۱۲۰۰
عیب آدمی کا ہے جو رہے اس دیار میں
مطلق جہاں نہ میرؔ رواج ہنر رہے
(۱۵۳۲)
پھر اب چلو چمن میں کھلے غنچے رک گئے
شاخوں سمیت پھول نہالوں کے جھک گئے
چندیں ہزار دیدۂ گل رہ گئے کھلے
افسوس ہے چمن کی طرف تم نہ ٹک گئے
بھڑکی تھی جب کہ آتش گل پھول پڑ گیا
بال و پر طیور چمن میرؔ پھک گئے ۱۱۲۰۵
(۱۵۳۳)
آج ہمیں بیتابی سی ہے صبر کی دل سے رخصت تھی
چاروں اور نگہ کرنے میں عالم عالم حسرت تھی
کس محنت سے محبت کی تھی کس خواری سے یاری کی
رنج ہی ساری عمر اٹھایا کلفت تھی یا الفت تھی
بدنامی کیا عشق کی کہیے رسوائی سی رسوائی ہے
صحرا صحرا وحشت بھی تھی دنیا دنیا تہمت تھی
راہ کی کوئی سنتا نہ تھا یاں رستے میں مانند جرس
شور سا کرتے جاتے تھے ہم بات کی کس کو طاقت تھی
عہد ہمارا تیرا ہے یہ جس میں گم ہے مہر و وفا
اگلے زمانے میں تو یہی لوگوں کی رسم و عادت تھی
۱۱۲۱۰
خالی ہاتھ سیہ رو ایسے کاہے کو تھے گریہ کناں
جن روزوں درویش ہوئے تھے پاس ہمارے دولت تھی
جو اٹھتا ہے یاں سے بگولا ہم سا ہے آوارہ کوئی
اس وادی میں میرؔ مگر سرگشتہ کسو کی تربت تھی
٭٭٭
تشکر: تصنیف حیدر جنہوں نے فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید