FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

کلیات ِمیر

 

 

                میر تقی میرؔ

 

 

 

 

دیوان پنجم

 

 

                ردیف ۱لف

 

(۱۵۳۴)

دل رفتۂ جمال ہے اس ذوالجلال کا

مستجمع جمیع صفات و کمال کا

ادراک کو ہے ذات مقدس میں دخل کیا

اودھر نہیں گذار گمان و خیال کا

حیرت سے عارفوں کو نہیں راہ معرفت

حال اور کچھ ہے یاں انھوں کے حال و قال کا

۱۱۲۱۵

ہے قسمت زمین و فلک سے غرض نمود

جلوہ وگرنہ سب میں ہے اس کے جمال کا

مرنے کا بھی خیال رہے میرؔ اگر تجھے

ہے اشتیاق جان جہاں کے وصال کا

 

(۱۵۳۵)

ہے حرف خامہ دل زدہ حسن قبول کا

یعنی خیال سر میں ہے نعت رسولؐ کا

رہ پیروی میں اس کی کہ گام نخست میں

ظاہر اثر ہے مقصد دل کے وصول کا

وہ مقتدائے خلق جہاں اب نہیں ہوا

پہلے ہی تھا امام نفوس و عقول کا

۱۱۲۲۰

سرمہ کیا ہے وضع پئے چشم اہل قدس

احمدؐ کے رہگذار کی خاک اور دھول کا

ہے متحد نبیؐ و علیؓ و وصی کی ذات

یاں حرف معتبر نہیں ہر بو الفضول کا

دھو منھ ہزار پانی سے سو بار پڑھ درود

تب نام لے تو اس چمنستاں کے پھول کا

حاصل ہے میرؔ دوستی اہل بیت اگر

تو غم ہے کیا نجات کے اپنی حصول کا

 

(۱۵۳۶)

عشق تو بن رسوائی عالم باعث ہے رسوائی کا

میل دلی اس خودسر سے ہے جو پایہ ہے خدائی کا

۱۱۲۲۵

ہے جو سیاہی جرم قمر میں اس کے سوا کچھ اور نہیں

داغ ہے مہ کا آئینہ اس سطح رخ کی صفائی کا

نزع میں میری حاضر تھا پر آنکھ نہ ایدھر اس کی پڑی

داغ چلا ہوں اس سے جہاں میں یار کی بے پروائی کا

کوشش میں سر مارا لیکن در پہ کسی کے جا نہ سکا

تن پہ زبان شکر ہے ہر مو اپنی شکستہ پائی کا

رنگ سراپا اس کا ہوا لے آگے دل خوں کرتی رہی

اب ہے جگر یک لخت افسردہ اس کے رنگ حنائی کا

آنا سن ناداری سے ہم نے جی دینا ٹھہرایا ہے

کیا کہیے اندیشہ بڑا تھا اس کی منھ دکھلائی کا

۱۱۲۳۰

کوفت میں ہے ہر عضو اس کا جوں عضو از جا رفتہ میرؔ

جو کشتہ ہے ظلم رسیدہ اس کے درد جدائی کا

 

(۱۵۳۸)

دور بہت بھاگو ہو ہم سے سیکھے طریق غزالوں کا

وحشت کرنا شیوہ ہے کیا اچھی آنکھوں والوں کا

صورت گر کی پریشانی نے طول نہایت کھینچا ہے

ہم نے کیوں بستار کیا تھا اس کے لمبے بالوں کا

بہت کیا تو پتھر میں سوراخ کیے ہیں در فشوں نے

چھید جگر میں کر دینا یہ کام ہے محزوں نالوں کا

سرو لب جو لالہ و گل نسرین و سمن ہیں شگوفہ ہے

دیکھو جدھر اک باغ لگا ہے اپنے رنگیں خیالوں کا

۱۱۲۳۵

غنچہ ہوا ہے خار بیاباں بعد زیارت کرنے کے

پانی تبرک کرتے ہیں سب پاؤں کے میرے چھالوں کا

پہلے تدارک کچھ ہوتا تو نفع بھی ہوتا سو تو میرؔ

کام ہے آخر عشق میں اس کے بیماروں بدحالوں کا

 

(۱۵۳۸)

اگر ہنستا  اسے سیرچمن میں اب کے پاؤں گا

تو بلبل آشیاں تیرا ہی میں پھولوں سے چھاؤں گا

مجھے گل اس کے آگے خوش نہیں آتا کچھ اس پر بھی

جو تو آزردہ ہوتی ہے گلستاں میں نہ آؤں گا

بشارت  اے صبا دیجو اسیران قفس کو بھی

تسلی کو تمھاری سر پہ رکھ دو پھول لاؤں گا

۱۱۲۴۰

دماغ ناز برداری نہیں ہے کم دماغی سے

کہاں تک ہر گھڑی کے روٹھے کو پہروں مناؤں گا

خشونت بدسلوکی خشمگینی کس لیے اتنی

نہ منھ کو پھیریے پھر یاں نہ آؤں گا جو جاؤں گا

ابھی ہوں منتظر جاتی ہے چشم شوق ہر جانب

بلند اس تیغ کو ہونے تو دو سر بھی جھکاؤں گا

بلائیں زیر سر ہوں کاش افتادہ رہوں یوں ہی

اٹھا سر خاک سے تو میرؔ ہنگامے اٹھاؤں گا

 

(۱۵۳۸)

رسوائے شہر ہے یاں حرف و سخن ہمارا

کیا خاک میں ملا ہے افسوس فن ہمارا

۱۱۲۴۵

دل خون ہو گیا تھا غم لکھتے سو رہے ہے

شنگرف کے قلم سا پر خوں دہن ہمارا

ظل ریاض میں شب مہتاب کے نہیں گل

انگاروں سے بھرا ہے اس بن چمن ہمارا

میدان عشق میں تو قیمہ بدن ہوا ہے

تہ کر کے خاک ہی میں رکھ دیں کفن ہمارا

میرؔ اس کی آنکھیں دیکھیں ہم نے سفر کو جاتے

عین بلا ہوا ہے سو اب وطن ہمارا

 

(۱۵۴۰)

 

منھ اپنا کبھو وہ ادھر کر رہے گا

ہمیں عشق ہے تو اثر کر رہے گا

۱۱۲۵۰

جو دلبر ہے ایسا تو دل جا چکا ہے

کسو روز آنکھوں میں گھر کر رہے گا

ہر اک کام موقوف ہے وقت پر ہی

دل خوں شدہ بھی جگر کر رہے گا

نہ ہوں گو خبر مردماں حال بد سے

مرا نالہ سب کو خبر کر رہے گا

فن شعر میں میرؔ صناع ہے وہ

دل اس کا کوئی تو ہنر کر رہے گا

 

(۱۵۴۱)

 

سخن مشتاق ہے عالم ہمارا

غنیمت ہے جہاں میں دم ہمارا

۱۱۲۵۵

رہے ہم عالم مستی میں اکثر

رہا کچھ اور ہی عالم ہمارا

بہت ہی دور ہم سے بھاگتے ہو

کرو ہو پاس کچھ تو کم ہمارا

بکھر جاتے ہیں کچھ گیسو تمھارے

ہوا ہے کام دل برہم ہمارا

رکھے رہتے ہیں دل پر ہاتھ  اے میرؔ

یہیں شاید کہ ہے سب غم ہمارا

 

(۱۵۴۲)

 

کیا پوچھو ہو کیا کہیے میاں دل نے بھی کیا کام کیا

عشق کیا ناکام رہا آخر کو کام تمام کیا

۱۱۲۶۰

عجز کیا سو اس مفسد نے قدر ہماری یہ کچھ کی

تیوری چڑھائی غصہ کیا جب ہم نے جھک کے سلام کیا

کہنے کی بھی لکھنے کی بھی ہم تو قسم کھا بیٹھے تھے

آخر دل کی بیتابی سے خط بھیجا پیغام کیا

عشق کی تہمت جب نہ ہوئی تھی کاہے کو شہرت ایسی تھی

شہر میں اب رسوا ہیں یعنی بدنامی سے کام کیا

ریگستاں میں جا کے رہیں یا سنگستاں میں ہم جوگی

رات ہوئی جس جاگہ ہم کو ہم نے وہیں بسرام کیا

خط و کتابت لکھنا اس کو ترک کیا تھا اس ہی لیے

حرف و سخن سے ٹپکا لوہو اب جو کچھ ارقام کیا

۱۱۲۶۵

تلخ اس کا تو شہد و شکر ہے ذوق میں ہم ناکاموں کے

لوگوں میں لیکن پوچ کہا یہ لطف بے ہنگام کیا

جیسے کوئی جہاں سے جاوے رخصت اس حسرت سے ہوئے

اس کوچے سے نکل کر ہم نے رو بہ قفا ہر گام کیا

میرؔ جو ان نے منھ کو ادھر کر ہم سے کوئی بات کہی

لطف کیا احسان کیا انعام کیا اکرام کیا

 

(۱۵۴۳)

عشق ہو حیوان کا یا انس ہو انسان کا

لاگ جی کی جس سے ہو دشمن ہے اپنی جان کا

عاشق و معشوق کی میں طرفہ صحبت سیر کی

ایک جی مارے ہے مرہون ایک ہے احسان کا

۱۱۲۸۰

میں خرد گم عشق میں اس لڑکے کے آخر ہوا

یہ ثمر لایا نہ دیکھا چاہنا نادان کا

مرنا اس کے عشق میں خالی نہیں ہے حسن سے

رشک کے قابل ہے جو کشتہ ہے اس میدان کا

گر پڑیں گے ٹوٹ کر اکثر ستارے چرخ سے

ہل گیا جو صبح کو گوہر کسی کے کان کا

ہر ورق ہر صفحے میں اک شعر شور انگیز ہے

عرصۂ محشر ہے عرصہ میرے بھی دیوان کا

کیا ملاوے آنکھ نرگس اس کی چشم سرخ سے

زرد اس غم دیدہ کو آزار ہے یرقان کا

۱۱۲۸۵

بات کرتے جائے ہے منھ تک مخاطب کے جھلک

اس کا لعل لب نہیں محتاج رنگ پان کا

کیا کہوں سارا زمانہ کشتہ و مردہ ہے میرؔ

اس کے اک انداز کا اک ناز کا اک آن کا

 

(۱۵۴۴)

 

عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا

جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا

عشق کیا سو دین گیا ایمان گیا اسلام گیا

دل نے ایسا کام کیا کچھ جس سے میں ناکام گیا

کس کس اپنی کل کو رووے ہجراں میں بے کل اس کا

خواب گئی ہے تاب گئی ہے چین گیا آرام گیا

۱۱۲۸۰

آیا یاں سے جانا ہی تو جی کا چھپانا کیا حاصل

آج گیا یا کل جاوے گا صبح گیا یا شام گیا

ہائے جوانی کیا کیا کہیے شور سروں میں رکھتے تھے

اب کیا ہے وہ عہد گیا وہ موسم وہ ہنگام گیا

گالی جھڑکی خشم و خشونت یہ تو سردست اکثر ہیں

لطف گیا احسان گیا انعام گیا اکرام گیا

لکھنا کہنا ترک ہوا تھا آپس میں تو مدت سے

اب جو قرار کیا ہے دل سے خط بھی گیا پیغام گیا

نالۂ میرؔ سواد میں ہم تک دوشیں شب سے نہیں آیا

شاید شہر سے اس ظالم کے عاشق وہ بدنام گیا

۱۱۲۸۵

(۱۵۴۵)

 

طوف مشہد کو کل جو جاؤں گا

تیغ قاتل کو سر چڑھاؤں گا

وصل میں رنگ اڑ گیا میرا

کیا جدائی کو منھ دکھاؤں گا

چھانتا ہوں کسی گلی کی خاک

دل کو اپنے کبھو تو پاؤں گا

اس کے در پر گئے ہیں تاب و تواں

گھر تلک اپنے کیوں کے جاؤں گا

لوٹتا ہے بہار منھ کی خط

میرؔ میں اس پہ زہر کھاؤں گا

۱۱۲۸۰

(۱۵۴۶)

ہر جا پھرا غبار ہمارا اڑا ہوا

تیری گلی میں لائی صبا تو بجا ہوا

آہ سحر نے دل کی نہ کھولی گرہ کبھی

آخر نسیم سے بھی یہ غنچہ نہ وا ہوا

وے میرؔ اثر جو شورش دل میں تھے ہیں کہاں

نالے کیے جرس نے بہت سے تو کیا ہوا

 

(۱۵۴۸)

پہلو سے اٹھ گیا ہے وہ نازنیں ہمارا

جز درد اب نہیں ہے پہلو نشیں ہمارا

ہوں کیوں نہ سبز اپنے حرف غزل کہ ہے یہ

وے زرع سیرحاصل قطعہ زمیں ہمارا

۱۱۲۸۵

کیسا کیا جگر خوں آزار کیسے کھینچے

آساں نہیں ہوا دل اندوہگیں ہمارا

حرف و سخن تھے اپنے یا داستاں جہاں میں

مذکور بھی نہیں ہے یا اب کہیں ہمارا

کیا رائیگاں بتوں کو دے کر ہوئے ہیں کافر

ارث پدر جو اب تھا یہ کہنہ دیں ہمارا

لخت جگر بھی اپنا یاقوت ناب سا ہے

قطرہ سرشک کا ہے دُر ثمیں ہمارا

کیا خاک میں ملایا ہم کو سپہر دوں نے

ڈھونڈا نشان تربت پاتے نہیں ہمارا

۱۱۳۰۰

حالت ہے نزع کی یاں آؤ کہ جاتے ہیں ہم

آنکھوں میں منتظر ہے دم واپسیں ہمارا

اک عمر مہر ورزی جن کے سبب سے کی تھی

پاتے ہیں میرؔ ان کو سرگرم کیں ہمارا

 

(۱۵۴۸)

آج ہمارا دل تڑپے ہے کوئی ادھر سے آوے گا

یا کہ نوشتہ ان ہاتھوں کا قاصد ہم تک لاوے گا

ہم نہیں لکھتے اس لیے اس کو شوخ بہت ہے وہ لڑکا

خط کا کاغذ بادی کرے گا باؤ کا رخ بتلاوے گا

رنج بہت کھینچے تھے ہم نے طاقت جی کی تمام ہوئی

اپنے کیے پر یاد رہے یہ وہ بھی بہت پچھتاوے گا

۱۱۳۰۵

اندھے سے ہم چاہ میں اس کی گو  اے ناصح پھرتے ہیں

سوجھتا بھی کچھ کر آئیں گے کیا تو ہم کو سجھاوے گا

عاشق ہووے وہ بھی یارب تا کچھ اس سے کہا جاوے

یعنی حال سنے گا دل سے دل جو کسی سے لگاوے گا

عاشق کی دلجوئی کی بھی راہ و رسم سے واقف رہ

ہو جو ایسا گم شدہ اپنا اس کو نہ تو پھر پاوے گا

آنکھیں موندے یہ دلبر جو سوتے رہیں تو بہتر ہے

چشمک کرنا ایک انھوں کا سو سو فتنے جگاوے گا

کیا صورت ہے کیا قامت ہے دست و پاکیا نازک ہیں

ایسے پتلے منھ دیکھو جو کوئی کلال بناوے گا

۱۱۳۱۰

چتون بے ڈھب آنکھیں پھریں ہیں پلکوں سے بھی نظر چھوٹی

عشق ابھی کیا جانیے ہم کو کیا کیا میرؔ دکھاوے گا

 

(۱۵۴۸)

شیخ حرم سے لڑکے چلا ہوں اب کعبے میں نہ آؤں گا

تا بت خانہ ہر قدم اوپر سجدہ کرتا جاؤں گا

بہر پرستش پیش صنم ہاتھوں سے قسیس رہباں کے

رشتہ سبحہ تڑاؤں گا زنار گلے سے بندھاؤں گا

رود دیر کے پانی سے یا آب چاہ سے اس جا کے

واسطے طاعت کفر کے میں دونوں وقت نہاؤں گا

طائف رستہ کعبے کا جو کوئی مجھ سے پوچھے گا

جانب دیر اشارت کر میں راہ ادھر کی بھلاؤں گا

۱۱۳۱۵

بے دیں اب جو ہوا سو ہوا ہوں طوف حرم سے کیا مجھ کو

غیر از سوئے صنم خانہ میں رو نہ ادھر کو لاؤں گا

آگے مسافر میرؔ عرب میں اور عجم میں کہتے ہیں

اب شہروں میں ہندستاں کے کافر میرؔ کہاؤں گا

 

(۱۵۵۰)

 

کیسی سعی حوادث نے کی آخرکار ہلاک کیا

کیا کیا چرخ نے چکر مارے پیس کے مجھ کو خاک کیا

ایسا پلید آلودۂ دنیا خلق نہ آگے ہوا ہو گا

شیخ شہر موا کہتے ہیں شہر خدا نے پاک کیا

قدرت حق میں کیا قدرت جو دخل کسو کی فضولی کرے

اس کو کیا پرکالۂ آتش مجھ کو خس و خاشاک کیا

۱۱۳۲۰

آہ سے تھے رخنے چھاتی میں پھیلنا ان کا یہ سہل نہ تھا

دو دو ہاتھ تڑپ کر دل نے سینۂ عاشق چاک کیا

خوگر ہونا حزن و بکا سے میرؔ ہمارا یوں ہی نہیں

برسوں روتے کڑھتے رہے ہم تب دل کو غمناک کیا

 

(۱۵۵۱)

 

بعد ہمارے اس فن کا جو کوئی ماہر ہووے گا

درد آگیں انداز کی باتیں اکثر پڑھ پڑھ رووے گا

چشم تماشا وا ہووے تو دیکھا بھالی غنیمت ہے

مت موندے آنکھوں کو غافل دیر تلک پھر سووے گا

جست و جو بھی اس کی کریے جس کا نشاں کچھ پیدا ہو

پانا اس کا میرؔ ہے مشکل جی تو یوں ہی کھووے گا                                                  ۱۱۳۲۵

(۱۵۵۲)

 

ناگاہ جس کو عشق کا آزار ہو گیا

سہل آگے اس کے مردن دشوار ہو گیا

ہے حسن کیا متاع کہ جس کو نظر پڑی

وہ جان بیچ کر بھی خریدار ہو گیا

برسوں تئیں جہان میں کیوں کر رہا ہے خضر

میں چار دن میں جینے سے بیزار ہو گیا

ہم بستری بن اس کی میں صاحب فراش ہوں

ہجراں میں کڑھتے کڑھتے ہی بیمار ہو گیا

ہم دام تھے سو چھٹ گئے سب دام کے اٹھے

تھی دل کو میرے چوٹ گرفتار ہو گیا

۱۱۳۳۰

اس کی نگاہ مست کا کھایا ہی تھا فریب

پر شیخ طرز دیکھ کے ہشیار ہو گیا

کیا متقی تھا میرؔ پر آئین عشق میں

مجرم سا کشت و خوں کا سزاوار ہو گیا

 

(۱۵۵۳)

پھرتے پھرتے اس کے لیے میں آخر دشت نورد ہوا

دیکھ آنکھیں وہ سرمہ گیں میں پھر دنبالہ گرد ہوا

جیتے جی میت کے رنگوں لوگ مجھے اب پاتے ہیں

جوش بہار عشق میں یعنی سرتا پا میں زرد ہوا

گرم مزاج رہا نہیں اپنا ویسے اس کے ہجراں میں

ہوتے ہوتے افسردہ دیکھو گے اک دن سرد ہوا

۱۱۳۳۵

میرؔ نہ اپنے درد دل کو مجھ سے کہا کر روز و شب

صبح جو گوش دل سے سنا تھا دل میں میرے درد ہوا

 

(۱۵۵۴)

عشق صمد میں جان چلی وہ چاہت کا ارمان گیا

تازہ کیا پیمان صنم سے دین گیا ایمان گیا

میں جو گدایانہ چلایا در پر اس کے نصف شب

گوش زد آگے تھے نالے سو شور مرا پہچان گیا

آگے عالم عین تھا اس کا اب عین عالم ہے وہ

اس وحدت سے یہ کثرت ہے یاں میرا سب گیان گیا

مطلب کا سررشتہ گم ہے کوشش کی کوتاہی نہیں

جو طالب اس راہ سے آیا خاک بھی یاں کی چھان گیا

۱۱۳۴۰

خاک سے آدم کر دکھلایا یہ منت کیا تھوڑی ہے

اب سر خاک بھی ہو جاوے تو سر سے کیا احسان گیا

ترک بچے سے عشق کیا تھا ریختے کیا کیا میں نے کہے

رفتہ رفتہ ہندستاں سے شعر مرا ایران گیا

کیونکے جہت ہو دل کو اس سے میرؔ مقام حیرت ہے

چاروں اور نہیں ہے کوئی یاں واں یوں ہی دھیان گیا

 

(۱۵۵۵)

 

دل تڑپے ہے جان کھپے ہے حال جگر کا کیا ہو گا

مجنوں مجنوں لوگ کہے ہیں مجنوں کیا ہم سا ہو گا

دیدۂ تر کو سمجھ کر اپنا ہم نے کیا کیا حفاظت کی

آہ نہ جانا روتے روتے یہ چشمہ دریا ہو گا

۱۱۳۴۵

کیا جانیں آشفتہ دلاں کچھ ان سے ہم کو بحث نہیں

وہ جانے گا حال ہمارا جس کا دل بیجا ہو گا

پاؤں حنائی اس کے لے آنکھوں پر اپنی ہم نے رکھے

یہ دیکھا نہ رنگ کفک پر ہنگامہ کیا برپا ہو گا

جاگہ سے بے تہ جاتے ہیں دعوے وے ہی کرتے ہیں

ان کو غرور و ناز نہ ہو گا جن کو کچھ آتا ہو گا

روبہ بہی اب لاہی چکے ہیں ہم سے قطع امید کرو

روگ لگا ہے عشق کا جس کو وہ اب کیا اچھا ہو گا

دل کی لاگ کہیں جو ہو تو میرؔ چھپائے اس کو رکھ

یعنی عشق ہوا ظاہر تو لوگوں میں رسوا ہو گا

۱۱۳۵۰

(۱۵۵۶)

جاذبہ میرا تھا کامل سو بندے کے وہ گھر آیا

شکر خدا کا کریے کہاں تک عہد فراق بسر آیا

بجلی سا وہ چمک گیا آنکھوں سے پھوئیں پڑنے لگیں

ابر نمط خفگی سے اس بن جی بھی رندھا دل بھر آیا

گل تھے سو سو رنگ پر ایسا شور طیور بلند نہ تھا

اس کے رنگ چمن میں کوئی شاید پھول نظر آیا

سیل بلا جوشاں تھا لیکن پانی پانی شرم سے تھا

ساحل دریا خشک لبی دیکھے سے میری تر آیا

کیا ہی خوش پرکار ہے دلبر نوچہ کشتی گیر اپنا

کوئی زبردست اس سے لڑ کر عہدے سے کب بر آیا

۱۱۳۵۵

صنعت گریاں بہتیری کیں لیک دریغ ہزار دریغ

جس سے یار بھی ملتا ہم سے ایسا وہ نہ ہنر آیا

میرؔ پریشاں خاطر آ کر رات رہا بت خانے میں

راہ رہی کعبے کی اودھر یہ سودائی کدھر آیا

 

(۱۵۵۸)

اب یاں سے ہم اٹھ جائیں گے خلق خدا ملک خدا

ہرگز نہ ایدھر آئیں گے خلق خدا ملک خدا

مطلب اگر یاں گم ہوا اندیشے کی جاگہ نہیں

جا کر کہیں کچھ پائیں گے خلق خدا ملک خدا

دل میں نہ جانے یہ کوئی ہم کھانے کو دیں ہیں انھیں

جو ہے مقدر کھائیں گے خلق خدا ملک خدا

۱۱۳۶۰

گو لکھنؤ ویراں ہوا ہم اور آبادی میں جا

مقسوم اپنا لائیں گے خلق خدا ملک خدا

اب دی پری گذری گئی ہم آجکل بے خانماں

کیا غیر ازیں ٹھہرائیں گے خلق خدا ملک خدا

اس بستی سے اٹھ جائیں گے درویشوں کی کیا مشورت

وے بھی یہی فرمائیں گے خلق خدا ملک خدا

تو میرؔ ہووے گا جہاں امر قضا کے تابعاں

روزی تجھے پہنچائیں گے خلق خدا ملک خدا

 

(۱۵۵۸)

اس کی سی جو چلے ہے راہ تو کیا

آسماں پر گیا ہے ماہ تو کیا

۱۱۳۶۵

لڑ کے ملنا ہے آپ سے بے لطف

یار ہووے نہ عذر خواہ تو کیا

کب رخ بدر روشن ایسا ہے

ایک شب کا ہے اشتباہ تو کیا

بے خرد خانقہ میں ہیں گو مست

وہ کرے مست یک نگاہ تو کیا

اس کے پرپیچ گیسو کے آگے

ہووے کالا کوئی سیاہ تو کیا

حسن والے ہیں کج روش سارے

ہوئے دو چار رو براہ تو کیا

۱۱۳۸۰

دل رہے وصل جو مدام رہے

مل گئے اس سے گاہ گاہ تو کیا

ایک اللہ کا بہت ہے نام

جمع باطل ہوں سو الٰہ تو کیا

میرؔ کیا ہے فقیر مستغنی

آوے اس پاس بادشاہ تو کیا

 

(۱۵۵۸)

بات کہتے جی کا جانا ہو گیا

مرنا عاشق کا بہانہ ہو گیا

جائے بودن تو نہ تھی دنیائے دوں

اتفاقاً اپنا آنا ہو گیا

۱۱۳۸۵

ماہ اس کو کہہ کے سارے شہر میں

مجھ کو مشکل منھ دکھانا ہو گیا

کر رکھا تعویذ طفلی میں جسے

اب سو وہ لڑکا سیانا ہو گیا

اس بلا سے آہ میں غافل رہا

یک بہ یک دل کا لگانا ہو گیا

کنج لب سے یار کے اچٹا نہ ٹک

الغرض دل کا ٹھکانا ہو گیا

رفتہ رفتہ اس پری کے عشق میں

میرؔ سا دانا دوانہ ہو گیا

۱۱۳۸۰

(۱۵۶۰)

 

عشق بلا پرشور و شر نے جب میدان میں خم مارا

پاک ہوئی کشتی عالم کی آگے کن نے دم مارا

بود نبود کی اپنی حقیقت لکھنے کے شائستہ نہ تھی

باطل صفحۂ ہستی پر میں خط کھینچا قلم مارا

غیر کے میرے مر جانے میں تفاوت ارض و سما کا ہے

مارا ان نے دونوں کو لیکن مجھ کو کر کے ستم مارا

ان بالوں سے طلسم جہاں کا در بستہ تھا گویا سب

زلفوں کو درہم ان نے کیا سو عالم کو برہم مارا

دور اس قبلہ رو سے مجھ کو جلد رقیب نے مار رکھا

قہر کیا اس کتے نے کیا دوڑ کے صید حرم مارا

۱۱۳۸۵

کاٹ کے سر عاجز کا ان نے اور بھی پگڑی پھیر رکھی

فخر کی کون سی جاگہ تھی یاں ایسا کیا رستم مارا

جس مضمار میں رستم کی بھی راہ نہ نکلی میرؔ کبھو

اس میداں کی خاک پہ ہم نے جرأت کر کے قدم مارا

 

(۱۵۶۱)

 

چاہ میں جور ہم پہ کم نہ ہوا

عاشقی کی تو کچھ ستم نہ ہوا

فائدہ کیا نماز مسجد کا

قد ہی محراب سا جو خم نہ ہوا

یار ہمراہ نعش جس دم تھا

وائے مردے میں میرے دم نہ ہوا

۱۱۳۸۰

نہ گیا اس طرف کا خط لکھنا

ہاتھ جب تک مرا قلم نہ ہوا

بے دلی میں ہے میرؔ خوش اس سے

دل کے جانے کا حیف غم نہ ہوا

 

(۱۵۶۲)

 

کل تلک داغوں سے خوں کے دامن زیں پاک تھا

آج تو کشتہ کوئی کیا زینت فتراک تھا

کیا جنوں کو روؤں تردستی سے اس کی گل نمط

لے گریباں سے زہ دامن تک اک ہی چاک تھا

رو جو آئی رونے کی مژگاں نہ ٹھہری ایک پل

راہ میں اس رود کی گویا خس و خاشاک تھا

۱۱۳۸۵

اک ہی شمع شعلہ خو کے لائحے میں جل بجھا

جب تلک پہنچے کوئی پروانہ عاشق خاک تھا

بادشاہ وقت تھا میں تخت تھا میرا دماغ

جی کے چاروں اور اک جوش گل تریاک تھا

ڈھال تلوار اس جواں کے ساتھ اب رہتی نہیں

وہ جفا آئیں شلائیں لڑکا ہی بیباک تھا

تنگ پوشی تنگ درزی اس کی جی میں کھب گئی

کیا ہی وہ محبوب خوش ترکیب خوش پوشاک تھا

بات ہے جی مارنا بازیچہ قتل عام ہے

اب تو ہے صد چند اگر دہ چند وہ سفاک تھا

۱۱۴۰۰

غنچۂ دل وا ہوا نہ باغوں باغوں میں پھرا

اب بھی ہے ویسا ہی جیسا پیشتر غمناک تھا

درک کیا اس درس گہ میں میرؔ عقل و فہم کو

کس کے تیں ان صورتوں میں معنی کا ادراک تھا

 

(۱۵۶۳)

جدا اس سیم تن سے کیسا سونا

کہ مٹی کوڑے کا اب ہے بچھونا

بہت کی جستجو اس کی نہ پایا

ہمیں درپیش ہے اب جی کا کھونا

جگر کے زخم شاید ہیں نمک بند

مزہ کچھ آنسوؤں کا ہے سلونا

۱۱۴۰۵

(۱۵۶۴)

سر مارنا پتھر سے یا ٹکڑے جگر کرنا

اس عشق کی وادی میں ہر نوع بسر کرنا

کہتے ہیں ادھر منھ کر وہ رات کو سوتا ہے

اے آہ سحرگاہی ٹک تو بھی اثر کرنا

دیواروں سے سر مارا تب رات سحر کی ہے

اے صاحب سنگیں دل اب میری خبر کرنا

 

(۱۵۶۵)

 

دل کے خوں ہونے کا غم کیا اب سے تھا

سینہ کوبی سخت ماتم کب سے تھا

اس کی مقتولی کا ہم کو رشک ہے

دو قدم جو کشتہ آگے سب سے تھا

۱۱۴۱۰

کون مل سکتا ہے اس اوباش سے

اختلاط اس سے ہمیں اک ڈھب سے تھا

گرم ملنے والے دیکھے یار کے

ایک ٹھنڈا ہو گیا اک تب سے تھا

چپ سی مجھ کو لگ گئی تھی تب سے میرؔ

شور ان شیریں لبوں کا جب سے تھا

 

(۱۵۶۶)

 

عشق کیے پچھتائے ہم تو دل نہ کسو سے لگانا تھا

جیدھر ہو وہ مہ نکلا اس راہ نہ ہم کو جانا تھا

غیریت کی اس کی شکایت یار عبث اب کرتے ہیں

طور اس شوخ ستم پیشہ کا طفلی سے بیگانہ تھا

۱۱۴۱۵

بزم عیش کی شب کا یاں دن ہوتے ہی یہ رنگ ہوا

شمع کی جاگہ دود تنک تھا خاکستر پروانہ تھا

دخل مروت عشق میں تھا تو دروازے سے تھوڑی دور

ہمرہ نعش عاشق کے اس ظالم کو بھی آنا تھا

طرفہ خیال کیا کرتا تھا عشق و جنوں میں روز و شب

روتے روتے ہنسنے لگا یہ میرؔ عجب دیوانہ تھا

 

(۱۵۶۸)

ناخن سے بوالہوس کا گلا یوں ہی چھل گیا

لوہو لگا کے وہ بھی شہیدوں میں مل گیا

دل جمع تھا جو غنچہ کے رنگوں خزاں میں تھا

اے کیا کہوں بہار گل زخم کھل گیا

۱۱۴۲۰

بے دل ہوئے پہ کرتے تدارک جو رہتا ہوش

ہم آپ ہی میں آئے نہیں جب سے دل گیا

دیکھا نہیں پہاڑ گراں سنگ یا سبک

زوروں چڑھا تھا عشق میں فرہاد پل گیا

شبنم کی سی نمود سے تھا میں عرق عرق

یعنی کہ ہستی ننگ عدم تھی خجل گیا

غم کھینچتے ہلا نہیں جاگہ سے کیا کروں

دل جا لگے ہے دم بہ دم اودھر ہی ہل گیا

صورت نہ دیکھی ویسی کشادہ جبیں کہیں

میں میرؔ اس تلاش میں چین و چگل گیا

۱۱۴۲۵

(۱۵۶۸)

ایک نہ خواہش بر آئی تا جی کا غبار نکل جاتا

کاشکے آہو چشم اپنا آنکھوں کو پاؤں سے مل جاتا

آتش دل کی لپٹوں کا ہے یارو کچھ عالم ہی جدا

لائحہ کوئی کھینچتا سر تو سارا عالم جل جاتا

نعرہ کرنا عاشق کا ہے ساتھ اک ہیبت کے یعنی

سن آواز اس شیر نر کی سیل بلا سے دہل جاتا

اہل زمیں تو کیا ہیں ان کا سہل تھا راہ سے لے جانا

چرخ پہ ہوتا وہ جو چھلاوا خیل ملک کو چھل جاتا

کشتی زبردستوں کی اس سے پاک ہوئی تو کیا ہے عجب

رستم سامنے ہو جاتا تو راہ بچا کر ٹل جاتا

۱۱۴۳۰

غم سے ہو گر زرد سراسر صورت ساری خزاں کی سی

آن نکلتے سوئے چمن تو رنگ ہوا کا بدل جاتا

ڈھلتے ڈھلتے ضعف سے آئے میرؔ سو ان نے منھ پھیرا

یاقوتی سے بوسۂ لب کی جی شاید کہ سنبھل جاتا

 

(۱۵۶۸)

کیا کیا عشق میں رنج اٹھائے دل اپنا سب خون ہوا

کیسے رکتے تھے خفگی سے آخرکار جنون ہوا

تڑپا ہے پہلو میں اب جب طاقت جی میں کچھ نہ رہی

جسم غم فرسودہ ہمارا زرد و زار و زبون ہوا

جنگل میں میں رونے چلا تھا دل جو بھرا تھا میرؔ بہت

آیا سیل آگے سے چلا کیا بخت سے مجھ کو شگون ہوا

۱۱۴۳۵

(۱۵۸۰)

 

آیا سو آب تیغ ہی مجھ کو چٹا گیا

تھا وہ برندہ زخموں پہ میں زخم کھا گیا

کیا شہر خوش عمارت دل سے ہے گفتگو

لشکر نے غم کے آن کے مارا چلا گیا

موقوف یار غیر جلانا مرا نہیں

جو کوئی اس کے کان لگا کچھ لگا گیا

تنہائی بیکسی مری یک دست تھی کہ میں

جیسے جرس کا نالہ جرس سے جدا گیا

کیا تم سے اپنے دل کی پریشانی میں کہوں

دریائے گریہ جوش زناں تھا بہا گیا

روزانہ اب تو اپنے تئیں سوجھتا نہیں

آخر کو رونا راتوں کا ہی دن دکھا گیا

۱۱۴۴۰

سررفتگی بدی مری ننوشتنی ہے میرؔ

قاصد جو لے کے نامہ گیا سو بھلا گیا

 

(۱۵۸۱)

 

کچھ اندیشہ ہم کو نہیں ہے اپنے حال درہم کا

آٹھ پہر رہتا ہے رونا اس کی دوری کے غم کا

روتے کڑھتے خاک میں ملتے جیتے رہے ہم دنیا میں

دس دن اپنی عمر کے گویا عشرہ تھا یہ محرم کا

کشتی ہماری عشق میں کیا تھی ہاتھ ملاتے پاک ہوئی

پائے ثبات نہ ٹھہرا دم بھر اس میدان میں رستم کا

۱۱۴۴۵

عالم نیستی کیا عالم تھا غم دنیا و دیں کا نہ تھا

ہوش آیا ہے جب سے سر میں شوق رہا اس عالم کا

یاں واجب ہے ہم کو تم کو دم لیویں تو شمردہ لیں

دینا ہو گا حساب کسو کو یک دم ہی میں دم دم کا

چھاتی کوٹی منھ نوچا سر دے دے مارا پتھر پر

دل کے خوں ہونے میں ہمارا یہی طریق ہے ماتم کا

لڑکے شوخ بہت ہیں لیکن ویسا میرؔ نہیں کوئی

دھوم قیامت کی سی ہے ہنگامہ اس کے اودھم کا

 

(۱۵۸۲)

 

گلچیں نہیں جو کوئی بھی اس تازہ چمن کا

کیوں رنگ پھرا سا ہے ترے سیب ذقن کا

۱۱۴۵۰

غربت ہے دل آویز بہت شہر کی اس کے

آیا نہ کبھو ہم کو خیال اپنے وطن کا

جب زمزمہ کرتی ہے صدا چبھتی ہے دل میں

بلبل سے کوئی سیکھ لے انداز سخن کا

کب مشت نمک سے ہوئی تسکین جراحت

لب چش ہے نمک سار مرے زخم کہن کا

جو چاک گریبان کہ دامن کی ہو زہ تک

قربان کیا میرؔ اسے چاک کفن کا

 

(۱۵۸۳)

یہ تو جدائی جوں توں کٹی ہے ملیے گا تو کہیے گا

پاس ہمارا گو نہ کرو تم پاس ہی اب سے رہیے گا

۱۱۴۵۵

 

 

                ردیف ب

 

(۱۵۸۴)

کب سے صحبت بگڑ رہی ہے کیونکر کوئی بناوے اب

ناز و نیاز کا جھگڑا ایسا کس کے کنے لے جاوے اب

سوچتّے آتے ہیں جی میں پگڑی پر گل رکھے سے

کس کو دماغ رہا ہے اس کے جو حرف خشن اٹھاوے اب

تیغ بلند ہوئی ہے اس کی قسمت ہوں گے زخم رسا

مرد اگر ہے صید حرم تو کوئی جراحت کھاوے اب

داغ سر و سینے کے میرے حسرت آگیں چشم ہوئے

دیکھیں کیا کیا عشق ستم کش ہم لوگوں کو دکھاوے اب

دم دو دم گھبراہٹ ہو تو  ہوسکتا ہے تدارک بھی

جی کی چال سے پیدا ہے سو کوئی گھڑی میں جاوے اب

۱۱۴۶۰

دل کے داغ بھی گل ہیں لیکن دل کی تسلی ہوتی نہیں

کاشکے دو گلبرگ ادھر سے باؤ اڑا کر لاوے اب

اس کے کفک کی پامالی میں دل جو گیا تھا شاید میرؔ

یار ادھر ہو مائل ٹک تو وہ رفتہ ہاتھ آوے اب

 

(۱۵۸۵)

 

دل خوں ہوا تھا یکسر پانی ہوا جگر سب

خوں بستہ رہتیاں تھیں پلکیں سو اب ہیں تر سب

یارب کدھر گئے وے جو آدمی روش تھے

اوجڑ دکھائی دے ہیں شہر و دہ و نگر سب

حرف وسخن سے مطلق یاں گفتگو نہیں ہے

پیادے سوار ہم کو آئے نظر نفر سب

۱۱۴۶۵

عالم کے لوگوں کا ہے تصویر کا سا عالم

ظاہر کھلی ہیں آنکھیں لیکن ہیں بے خبر سب

میرؔ اس خرابے میں کیا آباد ہووے کوئی

دیوار و در گرے ہیں ویراں پڑے ہیں گھر سب

 

(۱۵۸۶)

عشق و جنوں کی کیا اب تدبیر ہے مناسب

زنجیر ہے مناسب شمشیر ہے مناسب

دوری شعلہ خویاں آخر جلا رکھے گی

صحبت جو ایسی ہووے درگیر ہے مناسب

جلدی نہ قتل میں کر پچھتاوے گا بہت تو

خوں ریزی میں ہماری تاخیر ہے مناسب

۱۱۴۸۰

رسوائے شہر ہونا عزت ہے عاشقی میں

احوال کی ہمارے تشہیر ہے مناسب

دل کی خرابی کے تو درپے ہے  اے صنم کیوں

اس خانۂ خدا کی تعمیر ہے مناسب

شب اس کو میں نے دیکھا سوتے بغل میں اپنی

اس خواب کی نہ کرنی تعبیر ہے مناسب

رحم آشنا کسو کو اس بستی میں نہ پایا

اسلامیوں کی یاں کے تکفیر ہے مناسب

ہے سرگذشت اپنی ننوشتنی ہی بہتر

گذری سو گذری کیا اب تحریر ہے مناسب

۱۱۴۸۵

دنیا میں کوئی پھر پھر آیا نہیں ہے صاحب

اک بار تم کو مرنا  اے میرؔ ہے مناسب

 

(۱۵۸۸)

 

تاب عشق نہیں ہے دل کو جی بھی بے طاقت ہے اب

یعنی سفر ہے دور کا آگے اور اپنی رخصت ہے اب

وصل میں کیا کیا صحبتیں رنگیں کس کس عیش میں دن گذرے

تنہا بیٹھ رہے ہیں یک سو ہجر میں یہ صحبت ہے اب

جب سے بنائے صبح ہستی دو دم پر یاں ٹھہرائی

کیا کیا کریے اس مہلت میں کچھ بھی ہمیں فرصت ہے اب

چور اچکے سکّھ مرہٹے شاہ و گدا زرخواہاں ہیں

چین سے ہیں جو کچھ نہیں رکھتے فقر بھی اک دولت ہے اب

۱۱۴۸۰

پاؤں پہ سر رکھنے کی مجھ کو رخصت دی تھی میرؔ ان نے

کیا پوچھو ہو سر پر میرے منت سی منت ہے اب

 

(۱۵۸۸)

 

سادے جتنے نظر آتے ہیں دیکھو تو عیار ہیں سب

زرد و زار و زبوں جو ہم ہیں چاہت کے بیمار ہیں سب

سیل سے ہلکے عاشق ہوں تو جوش و خروش بھریں آویں

تہ پائی نہیں جاتی ان کی دریا سے تہ دار ہیں سب

ایک پریشاں طرفہ جماعت دیکھی چاہنے والوں کی

جینے کے خواہان نہیں ہیں مرنے کو تیار ہیں سب

کیا کیا خواہش بے کس بے بس مشتاق اس سے رکھتے ہیں

لیکن دیکھ کے رہ جاتے ہیں چپکے سے ناچار ہیں سب

۱۱۴۸۵

عشق جنھوں کا پیشہ ہووے سینکڑوں ہوں تو ایک ہی ہیں

کوہکن و مجنوں و وامق میرؔ ہمارے یار ہیں سب

 

(۱۵۸۸)

 

کاوش سے ان پلکوں کی رہتی ہے خلش سی جگر میں اب

سیدھی نظر جو اس کی نہیں ہے یاس ہے اپنی نظر میں اب

موسم گل کا شاید آیا داغ جنوں کے سیاہ ہوئے

دل کھنچتا ہے جانب صحرا جی نہیں لگتا گھر میں اب

نقش نہیں پانی میں ابھرتا یہ تو کوئی اچنبھا ہے

صورت خوب اس کی ہے پھرتی اکثر چشم تر میں اب

ایک جگہ پر جیسے بھنور ہیں لیکن چکر رہتا ہے

یعنی وطن دریا ہے اس میں چار طرف ہیں سفر میں اب

۱۱۴۸۰

حسرت نے ملنے کی آیا میرؔ تمھارا خون پیا

تیغ و تبر اس ترک بچے ظالم کی نہیں ہے کمر میں اب

 

(۱۵۸۰)

 

باہم ہوئی ہے ترک ملاقات  کیا سبب

اب کم بہت ہے ہم پہ عنایات کیا سبب

ہم تو تمھارے حسن کی حیرت سے ہیں خموش

تم ہم سے کوئی کرتے نہیں بات کیا سبب

ہم تیرہ روز آپ سے تم بن سحر گئے

آئے نہ تم ہمارے کنے رات کیا سبب

اس کی نگاہ مست تو اودھر نہیں پڑی

مسجد جو ہو گئی ہے خرابات کیا سبب

۱۱۴۸۵

تھا مرتبہ ہمیشہ سگ یار کا بلند

ہے میرؔ سے سلوک مساوات کیا سبب

 

(۱۵۸۱)

 

دل کے گئے بیکس کہلائے ایسا کہاں ہمدم ہے اب

کون ایسے محروم غمیں کا ہم راز و محرم ہے اب

سینہ زنی سے غم زدگی ہے سر دھننا ہے رونا ہے

دل جو ہمارا خون ہوا ہے اس سے بلا ماتم ہے اب

سن کر حال کسو کے دل کا رونا ہی مجھ کو آتا تھا

یعنی کبھو جو کڑھتا تھا میں وہ رونا ہر دم ہے اب

زردی چہرہ تن کی نزاری بیماری پھر چاہت ہے

دل میں غم ہے مژگاں نم ہیں حال بہت درہم ہے اب

۱۱۵۰۰

دیکھیں دن کٹتے ہیں کیونکر راتیں کیونکے گذرتی ہیں

بیتابی ہے زیادہ زیادہ صبر بہت کم کم ہے اب

عشق ہمارا آہ نہ پوچھو کیا کیا رنگ بدلتا ہے

خون ہوا دل داغ ہوا پھر درد ہوا پھر غم ہے اب

ملنے والو پھر ملیے گا ہے وہ عالم دیگر میں

میرؔ فقیر کو سکر ہے یعنی مستی کا عالم ہے اب

 

 

                ردیف ت

 

(۱۵۸۲)

 

دل کی تہ کی کہی نہیں جاتی نازک ہے اسرار بہت

انچھر ہیں تو عشق کے دوہی لیکن ہے بستار بہت

کافر مسلم دونوں ہوئے پر نسبت اس سے کچھ نہ ہوئی

بہت لیے تسبیح پھرے ہم پہنا ہے زنار بہت

۱۱۵۰۵

ہجر نے جی ہی مارا ہمارا کیا کہیے کیا مشکل ہے

اس سے جدا رہنا ہوتا ہے جس سے ہمیں ہے پیار بہت

منھ کی زردی تن کی نزاری چشم تر پر چھائی ہے

عشق میں اس کے یعنی ہم نے کھینچے ہیں آزار بہت

کہہ کے تغافل ان نے کیا تھا لیکن تقصیر اپنی ہے

کام کھنچا جو تیغ تک اس کی ہم نے کیا اصرار بہت

حرف و سخن اب تنگ ہوا ہے ان لوگوں کا ساتھ اپنے

منھ کرنے سے جن کی طرف آتی تھی ہم کو عار بہت

رات سے شہرت اس بستی میں میرؔ کے اٹھ جانے کی ہے

جنگل میں جو جلد بسا جا شاید تھا بیمار بہت

۱۱۵۱۰

 

(۱۵۸۳)

باد صبا نے اہل چمن میں اس چہرے کی چلائی بات

اس لب و لہجے پر بلبل کو اس کے آگے نہ آئی بات

دور تلک قاصد کے پیچھے کچھ کہتا میں جاتا تھا

شوق ستم کش ظالم نے کیا رفتہ رفتہ بڑھائی بات

آگ ہوا آتے ہی میرے لال آنکھیں کر گھور رہا

کیا جانوں سرگوشی میں کیا غیر نے اس سے لگائی بات

لعل کو نسبت ان ہونٹوں سے دینا سب کا تصنع تھا

کچھ بن آئی جب نہ کسو سے تب یہ ایک بنائی بات

غیر سے کچھ کچھ کہتا تھا سو سامنے سے میرؔ آیا میں

پھیر لیا منھ میری طرف سے یعنی مجھ سے چھپائی بات

۱۱۵۱۵

 

(۱۵۸۴)

زرد ہیں چہرے سوکھ گئے ہیں یعنی ہیں بیمار بہت

عشق کی گرمی دل کو پہنچی کہتے ہی آزار بہت

نالہ و زاری سے عاشق کی کیا ابر بہاری طرف ہو گا

دل ہے نالاں حد سے زیادہ آنکھیں ہیں خونبار بہت

برسوں ہوئے اب ہم لوگوں سے آنکھ انھوں کی نہیں ملتی

برسوں تک آپس میں رہا ہے اپنے جنھوں کے پیار بہت

ارض و سما کی پستی بلندی اب تو ہم کو برابر ہے

یعنی نشیب و فراز جو دیکھے طبع ہوئی ہموار بہت

سو غیروں میں ہو عاشق تو ایک اسی سے شرماویں

اس مستی میں آنکھیں اس کی رہتی ہیں ہشیار بہت

۱۱۵۲۰

کم ہے ہمیں امید بہی سے اتنی نزاری پر اس کی

پچھلے دنوں دیکھا تھا ہم نے عاشق تھے بیمار بہت

میرؔ نہ ایسا ہووے کہیں پردے ہی پر وہ مار مرے

ڈر لگتا ہے اس سے ہم کو ہے وہ ظاہر دار بہت

 

(۱۵۸۵)

 

چپکے کھڑا ٹکڑے ہوتا ہوں ساری ہے الفت کی بات

تیغ نے اس کی کیا ہے قسمت یہ بھی ہے قسمت کی بات

جان مسافر ہو جائے گی لب پر ہے موقوف آہ

سب کچھ کہیو جاتے ہوئے تم مت کہیو رخصت کی بات

کہہ کے فسانہ عشق و وفا کا لوگ محبت کرتے تھے

اب وہ ناز کہانی ان کی گویا ہے مدت کی بات

۱۱۵۲۵

درد و غم کی گرفتاری سے مہلت ہو تو کچھ کہیے

حرف زدن اشعار شعاری یہ سب ہے فرصت کی بات

کس کو دماغ جواب رہا ہے ضعف سے اب خاموش رہے

پہروں بکتا نصیحت گر سے میرؔ یہ ہے طاقت کی بات

 

(۱۵۸۶)

چشم رہتی ہے اب پرآب بہت

دل کو میرے ہے اضطراب بہت

دیکھیے رفتہ رفتہ کیا ہووے

تاب دل کم ہے پیچ و تاب بہت

دیر افسوس کرتے رہیے گا

عمر جاتی رہی شتاب بہت

۱۱۵۳۰

مہر و لطف و کرم عنایت کم

ناز و خشم و جفا عتاب بہت

بے تفاوت ہے فرق آپس میں

وے مقدس ہیں میں خراب بہت

پشت پا پر ہے چشم شوخ اس کی

ہائے رے ہم سے ہے حجاب بہت

دختر رز سے رہتے ہیں محشور

شیخ صاحب ہیں کُس کباب بہت

آویں محشر میں کیوں نہ پائے حساب

ہم یہی کرتے ہیں حساب بہت

۱۱۵۳۵

واں تک اپنی دعا پہنچتی نہیں

عالی رتبہ ہے وہ جناب بہت

گل کے دیکھے کا غش گیا ہی نہ میرؔ

منھ پہ چھڑکا مرے گلاب بہت

 

(۱۵۸۸)

اچٹتی سی لگی اپنے تو وہ تلوار یا قسمت

ہوئے جس کے لگے کارآمدہ بیکار یا قسمت

ہوئے جب سو جواں یک جا توقع سی ہوئی ہم کو

نگہ تیز ان نے سو ایدھر نہ کی دو بار یا قسمت

پڑا سایہ نہ اس کی تیغ خوں آلودہ کا سر پر

کیے ہیں یوں تو قسمت ان نے کیا کیا وار یا قسمت

۱۱۵۴۰

رہا تھا زیر دیوار اس کی میں برسات میں جا کر

گری اس مینھ میں سر پر وہی دیوار یا قسمت

موئے ہم تشنہ لب دیدار کے حالانکہ گریاں تھے

نصیب اپنے کہ سوکھی چشم دریابار یا قسمت

در مسجد پہ ہو کر بے نوا بیٹھے ہیں یا ہادی

ہمیں تھے ورنہ میخانے میں تکیہ دار یا قسمت

نصیبوں میں ہے جن کے عیش وہ بھی میرؔ جیتے ہیں

جیے ہیں ہم بھی جو مرنے کو تھے تیار یا قسمت

 

 

                ردیف ث

 

(۱۵۸۸)

 

دل کو اس بے مہر سے ہم نے لگایا ہے عبث

مہر کی رکھ کر توقع جی کھپایا ہے عبث

۱۱۵۴۵

دیکھ کر اس کو کھڑے سوجی سے ہم عاشق ہوئے

بیٹھے بیٹھے ناگہاں یہ رنج اٹھایا ہے عبث

اپنی تو بگڑی ہی کوئی کام کی صورت نہیں

ان نے بے لطفی سے منھ اچھا بنایا ہے عبث

جی کے جاتے وہ جو نو خط آتا تو بابت بھی تھی

لطف کر مردے پہ عاشق کے اب آیا ہے عبث

تب تو خانہ باغ سے اپنے نہ پوچھی بات بھی

کیا جو تربت پر مری اب پھول لایا ہے عبث

رات دن سنتا ہے نالے یوں نہیں کہتا کبھو

میرؔ دل آزردہ کو کن نے ستایا ہے عبث

۱۱۵۵۰

 

 

                ردیف ج

 

(۱۵۸۸)

 

کس تازہ مقتل پہ کشندے تیرا ہوا ہے گذارا آج

زہ دامن کی بھری ہے لہو سے کس کو تو نے مارا آج

کل تک ہم نے تم کو رکھا تھا سو پردے میں کلی کے رنگ

صبح شگفتہ گل جو ہوئے تم سب نے کیا نظارہ آج

کوئی نہیں شاہان سلف میں خالی پڑے ہیں دونوں عراق

یعنی خود گم اسکندر ہے ناپیدا ہے دارا آج

چشم مشتاق اس لب و رخ سے لمحہ لمحہ اٹھی نہیں

کیا ہی لگے ہے اچھا اس کا مکھڑا پیارا پیارا آج

اب جو نسیم معطر آئی شاید بال کھلے اس کے

شہر کی ساری گلیاں ہو گئیں گویا عنبر سارا آج

۱۱۵۵۵

کل ہی جوش و خروش ہمارے دریا کے سے تلاطم تھے

دیکھ ترے آشوب زماں کے کر بیٹھے ہیں کنارہ آج

چشم چرائی دور سے کر وا مجھ کو لگا یہ کہہ کے گیا

صید کریں گے کل ہم آ کر ڈال چلے ہیں چارا آج

کل ہی زیان جیوں کے کیے ہیں عشق میں کیا کیا لوگوں نے

سادگی میری چاہ میں دیکھو میں ڈھونڈوں ہوں چارہ آج

میرؔ ہوئے ہو بے خود کب کے آپ میں بھی تو ٹک آؤ

ہے دروازے پر انبوہ اک رفتۂ شوق تمھارا آج

 

(۱۵۸۰)

 

شہر سے یار سوار ہوا جو سواد میں خوب غبار ہے آج

دشتی وحش وطیر اس کے سر تیزی ہی میں شکار ہے آج

۱۱۵۶۰

برافروختہ رخ ہے اس کا کس خوبی سے مستی میں

پی کے شراب شگفتہ ہوا ہے اس نو گل پہ بہار ہے آج

اس کا بحرحسن سراسر اوج و موج و تلاطم ہے

شوق کی اپنے نگاہ جہاں تک جاوے بوس و کنار ہے آج

آنکھیں اس کی لال ہوئیں ہیں اور چلے جاتے ہیں سر

رات کو دارو پی سویا تھا اس کا صبح خمار ہے آج

گھر آئے ہو فقیروں کے تو آؤ بیٹھو لطف کرو

کیا ہے جان بن اپنے کنے سو ان قدموں پہ نثار ہے آج

کیا پوچھو ہو سانجھ تلک پہلو میں کیا کیا تڑپا ہے

کل کی نسبت دل کو ہمارے بارے کچھ تو قرار ہے آج

۱۱۵۶۵

مت چوکو اس جنس گراں کو دل کی وہیں لے جاؤ تم

ہندستان میں ہندوبچوں کی بہت بڑی سرکار ہے آج

خوب جو آنکھیں کھول کے دیکھا شاخ گل سا نظر آیا

ان رنگوں پھولوں میں ملا کچھ محوجلوۂ یار ہے آج

جذب عشق جدھر چاہے لے جائے ہے محمل لیلیٰ کا

یعنی ہاتھ میں مجنوں کے ناقے کی اس کے مہار ہے آج

رات کا پہنا ہار جو اب تک دن کو اتارا ان نے نہیں

شاید میرؔ جمال گل بھی اس کے گلے کا ہار ہے آج

 

(۱۵۸۱)

 

رنگ یہ ہے دیدۂ گریاں سے آج

لوہو ٹپکتا ہے گریباں سے آج

۱۱۵۷۰

سربہ فلک ہونے کو ہے کس کی خاک

گرد یک اٹھتی ہے بیاباں سے آج

 

(۱۵۸۲)

 

کہوں سو کیا کہوں نے صبر نے قرار ہے آج

جو اس چمن میں یہ اک طرفہ انتشار ہے آج

سر اپنا عشق میں ہم نے بھی یوں تو پھوڑا تھا

پر اس کو کیا کریں اوروں کا اعتبار ہے آج

گیا ہے جانب  وادی سوار ہو کر یار

غبار گرد پھرے ہے بہت شکار ہے آج

جہاں کے لوگوں میں جس کی تھی کل تئیں عزت

اسی عزیز کو دیکھا ذلیل و خوار ہے آج

۱۱۵۷۵

سحر سواد میں چل زور پھولی ہے سرسوں

ہوا ہے عشق سے کل زرد کیا بہار ہے آج

سواری اس کی ہے سرگرم گشت دشت مگر

کہ خیرہ تیرہ نمودار یک غبار ہے آج

سپہر چھڑیوں میں کل تک پھرے تھا ساتھ اپنے

عجب ہے سب کا اسی سفلے پر مدار ہے آج

بخار دل کا نکالا تھا درد دل کہہ کر

سو درد سر ہے بدن گرم ہے بخار ہے آج

کسو کے آنے سے کیا اب کہ غش ہے کل دن سے

ہمیں تو اپنا ہی  اے میرؔ انتظار ہے آج

۱۱۵۸۰

 

 

                ردیف چ

 

(۱۵۸۳)

آج ہمیں بدحالی سی ہے حال نہیں ہے جان کے بیچ

کیا عاشق ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے جہان کے بیچ

پایہ اس کی شہادت کا ہے عرش عظیم سے بالاتر

جو مظلوم عشق موا ہے بڑھ کر ٹک میدان کے بیچ

یوں ہی نظر چڑھ رہتی نہیں کچھ حسرت میں تو چشم سفید

دیکھی ہے ہیرے کی دمک میں اس چشم حیران کے بیچ

وہ پرکالہ آتش کا ہے صبح تلک بھڑکا بھی نہ تھا

کیا جانوں کیا پھونک دیا لوگوں نے اس کے کان کے بیچ

وعدے کرو ہو برسوں کے تم دم کا بھروسا ہم کو نہیں

کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے یاں اک پل میں اک آن کے بیچ

۱۱۵۸۵

تبعیّت سے جو فارسی کی میں نے ہندی شعر کہے

سارے ترک بچے ظالم اب پڑھتے ہیں ایران کے بیچ

بندے خدائے پاک کے ہم جو میرؔ نہیں تو زیر فلک

پھر یہ تقدس آیا کہاں سے مشت خاک انسان کے بیچ

 

(۱۵۸۴)

فصل گل میں اسیر ہوئے تھے من ہی کی رہی من کے بیچ

اب یہ ستم تازہ ہے ہم پر قید کیا ہے چمن کے بیچ

یہ الجھاؤ سلجھتا ہم کو دے ہے دکھائی مشکل سا

یعنی دل اٹکا ہے جا کر ان بالوں کے شکن کے بیچ

وہ کرتا ہے جب زباں درازی حیرت سے ہم چپکے ہیں

کچھ بولا نہیں جاتا یعنی اس کے حرف و سخن کے بیچ

۱۱۵۸۰

دشت بلا میں جا کر مریے اپنے نصیب جو سیدھے ہوں

واں کی خاک عنبر کی جاگہ رکھ دیں لوگ کفن کے بیچ

کبک کی جان مسافر ہووے دیکھے خرام ناز اس کا

نام نہیں لیتا ہے کوئی اس کا میرے وطن کے بیچ

کیا شیریں ہے حرف و حکایت حسرت ہم کو آتی ہے

ہائے زبان اپنی بھی ہووے یک دم اس کے دہن کے بیچ

غم و اندوہ عشقی سے ہر لحظہ نکلتی رہتی ہے

جان غلط کر میرؔ آئی ہے گویا تیرے بدن کے بیچ

 

(۱۵۸۵)

 

اس کے رنگ کھلا ہے شاید کوئی پھول بہار کے بیچ

شور پڑا ہے قیامت کا سا چار طرف گلزار کے بیچ

۱۱۵۸۵

رحم کرے وہ ذرا ذرا تو دیکھنے آوے دم بھر یاں

اب تو دم بھی باقی نہیں ہے اس کے کسو بیمار کے بیچ

چین نہ دے گا خاک کے نیچے ہرگز عشق کے ماروں کو

دل تو ساتھ  اے کاش نہ گاڑیں ان لوگوں کے مزار کے بیچ

چشم شوخ سے اس کی یارو کیا نسبت ہے غزالوں کو

دیکھتے ہیں ہم بڑا تفاوت شہری اور گنوار کے بیچ

کون شکار رم خوردہ سے جا کے کہے ٹک پھر کر دیکھ

کوئی سوار ہے تیرے پیچھے گرد و خاک و غبار کے بیچ

رونے سے جو رود بہا تو اس کا کیا ہے یارو عجب

جذب ہوئے ہیں کیا کیا دریا اپنے جیب و کنار کے بیچ

۱۱۶۰۰

چشمک غمزہ عشوہ کرشمہ آن انداز و ناز و ادا

حسن سوائے حسن ظاہر میرؔ بہت ہیں یار کے بیچ

 

(۱۵۸۶)

اے بوئے گل سمجھ کے مہکیو پون کے بیچ

زخمی پڑے ہیں مرغ ہزاروں چمن کے بیچ

بہ بھی گیا میں اندر ہی اندر گداز ہو

دھوکا ہے جوں حباب مرے پیرہن کے بیچ

ردیف ح

 

(۱۵۸۸)

گھر سے لیے نکلتا ہے تلوار بے طرح

اب ان نے سج بنائی ہے خونخوار بے طرح

جی بچنے کی طرح نظر آتی نہیں کوئی

کرتا ہے میرے خون پہ اصرار بے طرح

۱۱۶۰۵

چہرہ تو ان نے اپنا بنایا ہے خوب لیک

بگڑا پھرے ہے اب وہ طرحدار بے طرح

کس طرح جائے پکڑی زباں اس کی خشم میں

کہتا ہے بیٹھا متصل اب یار بے طرح

لوہو میں ڈوبے دیکھیو دامان و جیب میرؔ

بپھرا ہے آج دیدۂ خونبار بے طرح

 

(۱۵۸۸)

 

وہ نوباوۂ گلشن خوبی سب سے رکھے ہے نرالی طرح

شاخ گل سا جائے ہے لہکا ان نے نئی یہ ڈالی طرح

مونڈھے چلے ہیں چولی چسی ہے مہری پھنسی ہے بند کسے

اس اوباش نے پہناوے کی اپنے تازہ نکالی طرح

۱۱۶۱۰

جبہ نوچا منھ نوچا سب سینہ نوچا ناخن سے

میرؔ نے کی ہے غم غصے میں اپنی یہ بدحالی طرح

 

 

                ردیف خ

 

(۱۵۸۸)

 

جھمک سے اس کے بدن میں ہر ایک جا ہے شوخ

برنگ برق سراپا وہ خود نما ہے شوخ

پڑے ہے سینکڑوں جا راہ چلنے میں اس کی

کسو کی آنکھ تو دیکھے کوئی بلا ہے شوخ

نظر پڑی نہیں کیا اس کی شوخ چشمی میرؔ

حضور یار کے چشم غزال کیا ہے شوخ

 

(۱۶۰۰)

 

گلبن چمن کے اس کو جو دیکھتے ہیں گستاخ

کیا تازہ کوئی ان کی نکلی بہار میں شاخ

۱۱۶۱۵

 

 

                ردیف د

 

(۱۶۰۱)

 

اس سے نہ الفت ہو مجھ کو تو ہووے نہ میرا چہرہ زرد

ہاتھ نہ رکھوں کیوں دل پر میں رنج و بلا ہے قیامت درد

ملنے میں خنکی ہی کرتا وہ کاشکے پہلے چاہ کے دن

گرمی نہ ہوتی آپس میں تو کھنچتی نہ ہر دم آہ سرد

برسوں میں اقلیم جنوں سے دو دیوانے نکلے تھے

میرؔ آوارۂ شہر ہوا ہے قیس ہوا ہے بیاباں گرد

 

(۱۶۰۲)

 

کہتے ہو تم کہ یکسر مجھ میں وفا ہے شاید

متروک رسم جور و ظلم و جفا ہے شاید

کم ناز سے ہے کس کے بندے کی بے نیازی

قالب میں خاک کے یاں پنہاں خدا ہے شاید

۱۱۶۲۰

یاں کچھ نہیں ہے باقی اس کے حساب لیکن

مجھ میں شمار دم سے اب کچھ رہا ہے شاید

قید فراق سے تو چھوٹیں جو مر رہیں ہم

اس درد بے دوا کی مرنا دوا ہے شاید

یہ عشق ہے یقینی حال ایسا کم سنا ہے

اے میرؔ دل کسو سے تیرا لگا ہے شاید

 

(۱۶۰۳)

رکھتا ہے دل کنار میں صدپارہ دردمند

ہر پارہ اس کا پاتے ہیں آوارہ دردمند

تسکین اپنے دل کی جو پاتا نہیں کہیں

جز صبر اور کیا کرے بے چارہ دردمند

۱۱۶۲۵

اسلامی کفری کوئی ہو ہے شرط درد عشق

دونوں طریق میں نہیں ناکارہ دردمند

قابل ہوئی ہیں سیر کے چشمان خوں فشاں

دیکھیں ہیں آنکھوں لوہو کا فوارہ دردمند

کیا کام اس کو یاں کے نشیب و فراز سے

رکھتا ہے پاؤں دیکھ کے ہموارہ دردمند

اس کارواں سرائے کے ہیں لوگ رفتنی

حسرت سے ان کا کرتے ہیں نظارہ دردمند

سو بار حوصلے سے اگر رنج کش ہو میرؔ

پھر فرط غم سے مر رہے یک بارہ دردمند

۱۱۶۳۰

 

(۱۶۰۴)

ہے عشق کا فسانہ میرا نہ یاں زباں زد

ہر شہر میں ہوئی ہے یہ داستاں زباں زد

حسرت سے حسن گل کی چپکا ہوا ہوں ورنہ

طیران باغ میں ہوں میں خوش زباں زباں زد

مذکور عاشقی کا ہر چار سو ہے باہم

یعنی نہیں کہانی میری کہاں زباں زد

فرہاد و قیس و وامق ہر یک سے پوچھ لو تم

شہروں میں عشق کے ہوں میں ناتواں زباں زد

کیا جانے میرؔ کس کے غم سے ہے چپ وگرنہ

حرف و سخن میں کیا ہی ہے یہ جواں زباں زد

۱۱۶۳۵

(۱۶۰۵)

کیا کہیے ہوئے مملکت ہستی میں وارد

بے یار و دیار اب تو ہیں اس بستی میں وارد

کچھ ہوش نہ تھا منبر و محراب کا ہم کو

صد شکر کہ مسجد میں ہوئے مستی میں وارد

 

(۱۶۰۶)

 

کچھ تدبیر بتاؤ ہم کو دل اپنا ہے درد آلود

خاک اڑاتے کہاں تک پھریے چہرہ سب ہے گرد آلود

 

 

                ردیف ر

 

(۱۶۰۸)

اپنے موئے بھی رنج و بلا ہے ہمسایوں کی جانوں پر

کیا کیا سینہ زنی رہتی ہے درد و غم کے فسانوں پر

میں تو کیا کیا حرف وسخن تھے میرے جہاں سے جاتے رہے

باتیں دردآگیں ہیں اب تک کیسی کیسی زبانوں پر

۱۱۶۴۰

تو بھی رباط کہن سے صوفی سیر کو چل ٹک سبزے کی

ابرسیہ قبلے سے آ کر جھوم پڑا میخانوں پر

آمد و رفت نسیم سے ظاہر رنجش بلبل ہے لیکن

باؤ بھی اب تک بہی نہیں گلہ اے چمن کے کانوں پر

جیغہ جیغہ اس کی سی ابرو دلکش نکلی نہ کوئی یاں

زور کیے لوگوں نے اگرچہ نقش و نگار کمانوں پر

جان تو یاں ہے گرم رفتن لیت و لعل واں ویسی ہے

کیا کیا مجھ کو جنوں آتا ہے اس لڑکے کے بہانوں پر

بعد مرے سبحے کو میرے ہاتھوں ہاتھ ملک لیں گے

سو سو بار لیا ہے میں نے نام اس کا ان دانوں پر

۱۱۶۴۵

دل کی حقیقت عرش کی عظمت سب کچھ ہے معلوم ہمیں

سیر رہی ہے اکثر اپنی ان پاکیزہ مکانوں پر

راہ چلو تم اپنی اپنی میرے طریق سے کیا تم کو

آنکھوں سے پردہ میں نے کیا ہے واں پاؤں کے نشانوں پر

عشق عجائب زورآور ہے کشتی سب کی پاک ہوئی

ذکر میرؔ ہے کیا پیری میں حرف و سخن ہے جوانوں پر

 

(۱۶۰۸)

کئی داغ ایسے جلائے جگر پر

کہ وے نرگسی زن تھے گلہ اے تر پر

گیا میری وادی سے سیلاب بچ کر

نظر یاں جو کی عشق کے شیرنر پر

۱۱۶۵۰

سر رہ سے اس کے موئے ہی اٹھیں گے

یہ جی جا رہا ہے اسی رہگذر پر

سر اس آستاں پر رگڑتے گئے ہیں

ہوئے خون یاروں کے اس خاک در پر

ہم آتا اسے سن کے جیتوں میں آئے

بنا زندگانی کی ہے اب خبر پر

اسے لطف اس کا ہی لاوے تو لاوے

نہیں وصل موقوف کچھ زور و زر پر

سرکتے نہیں شوق کشتوں کے سر بن

قیامت سا ہنگامہ ہے اس کے در پر

۱۱۶۵۵

اتر جو گیا دل سے روکش ہو اس کا

چڑھا پھر نہ خورشید میری نظر پر

ق

بھری تھی مگر آگ دل میں دروں میں

ہوئے اشک سوزش سے اس کی شرر پر

گیا پی جو ان آنسوؤں کے تئیں میں

سراسر ہیں اب داغ سطح جگر پر

ق

سرعجز ہر شام تھا خاک پر ہی

تہ دل تھی کیسی ہی آہ سحر پر

پلک اٹھے آثار اچھے نہ دیکھے

پڑی آنکھ ہرگز نہ روئے اثر پر

۱۱۶۶۰

طرف شاخ گل کی لچک کے نہ دیکھا

نظر میرؔ کی تھی کسو کی کمر پر

غزل در غزل صاحبو یہ بھی دیکھو

نہیں عیب کرنا نظر اک ہنر پر

 

(۱۶۰۸)

بھروسا اسیری میں تھا بال و پر پر

سو پر وا ہوئے نہ قفس کے بھی در پر

سواران شائستہ کشتے ہیں تیرے

نہ تیغ ستم کر علم ہر نفر پر

کھلا پیش دنداں نہ اس کا گرہچہ

کنھوں نے بھی تھوکا نہ سلک گہر پر

۱۱۶۶۵

جلے کیوں نہ چھاتی کہ اپنی نظر ہے

کسو شوخ پرکار رعنا پسر پر

نہ محشر میں چونکا مرا خون خفتہ

وہی تھا یہ خوابیدہ اس شور و شر پر

کئی زخم کھا کر تڑپتا رہا دل

تسلی تھی موقوف زخم دگر پر

سنا تھا اسے پاس لیکن نہ پایا

چلے دور تک ہم گئے اس خبر پر

ق

سرشب کہے تھا بہانہ طلب وہ

گھڑی ایک رات آئی ہو گی پہر پر

۱۱۶۸۰

کوئی پاس بیٹھا رہے کب تلک یوں

کہو ہو گی رخصت گئے اب سحر پر

جہاں میں نہ کی میرؔ اقامت کی نیت

کہ مشعر تھا آنا مرا یاں سفر پر

 

 

 

(۱۶۱۰)

 

عشق خدائی خراب ہے ایسا جس سے گئے ہیں گھر کے گھر

کعبہ و دیر کے ایوانوں کے گرے پڑے ہیں در کے در

حج سے جو کوئی آدمی ہو تو سارا عالم حج ہی کرے

مکے سے آئے شیخ جی لیکن وے تو وہی ہیں خر کے خر

رنج و تعب میں مرتے دیکھے ہم نے ممسک دولت مند

جی کے جی بھی عبث جاتے ہیں ان لوگوں کے زر کے زر

۱۱۶۸۵

مسلم و کافر کے جھگڑے میں جنگ و جدل سے رہائی نہیں

لوتھوں پہ لوتھیں گرتی رہیں گی کٹتے رہیں گے سر کے سر

سخت مصیبت عشق میں یہ ہے جانیں چلی جاتی ہیں لیک

ہاتھ سروں پر ماریں گے تو بند رہیں گے گھر کے گھر

کب سے گرمی عشق نے میرے چشمۂ چشم کو خشک کیا

کپڑے گلے سب تن کے لیکن وے ہیں اب تک ترکے تر

نکلے اب کے قفس میں شاید کوئی کلی تو نکلے میرؔ

سارے طیر شگفتہ چمن کے ٹوٹے گئے وے پر کے پر

 

(۱۶۱۱)

 

بات کہو کیا چپکے چپکے بیٹھ رہو ہو یاں آ کر

ایسے گونگے بیٹھو ہو تم تو بیٹھیے اپنے گھر جا کر

۱۱۶۸۰

دل کا راز کیا میں ظاہر بلبل سے گلزار میں لیک

اس بے تہ نے صحن چمن میں جان دی چلا چلا کر

جیسا پیچ و تاب پر اپنے بالیدہ تھا ویسا ہی

مارسیہ کو رشک سے مارا ان بالوں نے بل کھا کر

ڈھونڈتے تا اطفال پھریں نہ ان کے جنوں کی ضیافت میں

بھر رکھی ہیں شہر کی گلیاں پتھر ہم نے لالا کر

ہاہا ہی ہی نے شوخ کی میرے تنگ کیا خوش رویاں کو

سرخ و زرد ہوئے خجلت سے چھوٹے ہاہاہاہا کر

چاہ کا جو اظہار کیا تو فرط شرم سے جان گئی

عشق شہرت دوست نے آخر مارا مجھ کو رسوا کر

۱۱۶۸۵

میرؔ یہ کیا روتا ہے جس سے آنکھوں پر رومال رکھا

دامن کے ہر پاٹ کو اپنے گریۂ زار سے دریا کر

 

(۱۶۱۲)

 

ٹیڑھی نگاہیں کیا کرتے ہو دم بھر کے یاں آنے پر

ایدھر دیکھو ہم نے نہیں کی خم ابرو مر جانے پر

زور ہوا ہے چل صوفی ٹک تو بھی رباط کہنہ سے

ابر قبلہ بڑھتا بڑھتا آیا ہے میخانے پر

گل کھائے بے تہ بلبل نے شور قیامت کا سا کیا

دیکھ چمن میں اس بن میرے چپکے جی بہلانے پر

سر نیچے کر لیتا تھا تلوار چلاتے ہم پر وے

ریجھ گئے خوں ریزی میں اپنی اس کے پھر شرمانے پر

۱۱۶۸۰

گالی مار کے غم پر میں نے صبر کیا خاموش رہا

رحم نہ آیا ٹک ظالم کو اس میرے غم کھانے پر

نادیدہ ہیں نام خدا کے ایسے جیسے قحط زدہ

دوڑتی ہیں کیا آنکھیں اپنی سبحے کے دانے دانے پر

حال پریشاں سن مجنوں کا کیا جلتا ہے جی اپنا

عاشق ہم بھی میرؔ رہے ہیں اس ڈھب کے دیوانے پر

 

(۱۶۱۳)

روزوں میں  رہ سکیں گے ہم بے شراب کیونکر

گذرے گا اتقا میں عہد شباب کیونکر

تھوڑے سے پانی میں بھی چل نکلے ہے اپھرتا

بے تہ ہے سر نہ کھینچے اک دم حباب کیونکر

۱۱۶۸۵

چشمے بحیرے اب تک ہیں یادگار اس کے

وہ سوکھ سب گئی ہے چشم پر آب کیونکر

دل کی طرف کا پہلو سب متصل جلے ہے

مخمل ہو فرش کیوں نہ آوے گی خواب کیونکر

اول سحور کھانا آخر صبوحی کرنا

آوے نہ اس عمل سے شرم و حجاب کیونکر

اجڑے نگر کو دل کے دیکھوں ہوں جب کہوں ہوں

اب پھر بسے گی ایسی بستی خراب کیونکر

جرم و ذنوب تو ہیں بے حد و حصر یارب

روزحساب لیں گے مجھ سے حساب کیونکر

۱۱۸۰۰

پیش از سحر اٹھے ہے آج اس کے منھ کا پردہ

نکلے گا اس طرف سے اب آفتاب کیونکر

خط میرؔ آوے جاوے جو نکلے راہ ادھر کی

نبھتا نہیں ہے قاصد لاوے جواب کیونکر

 

(۱۶۱۴)

تڑپے ہے غم زدہ دل لاوے گا تاب کیونکر

خوں بستہ ہیں گی آنکھیں آوے گی خواب کیونکر

پر ناتواں ہوں مجھ پر بھاری ہے جی ہی اپنا

مجھ سے اٹھیں گے اس کے ناز و عتاب کیونکر

اس بحر میں ہے مٹنا شکل حباب ہر دم

ابھرا رہے ہمیشہ نقش پر آب کیونکر

۱۱۸۰۵

پانی کے دھوکے پیاسے کیا کیا عزیز مارے

سر پر نہ خاک ڈالے اپنے سراب کیونکر

آب رواں نہ تھا کچھ وہ لطف زندگانی

جاتی رہی جوانی اپنی شتاب کیونکر

سینے میں میرے کب سے اک سینک ہی رہے ہے

قلب و کبد نہ ہوویں دونوں کباب کیونکر

شلّاق خواری کی تھی خجلت جو کچھ نہ بولا

منھ کیا ہے نامہ بر کا نکلے جواب کیونکر

سوز دل و جگر سے جلتا ہے تن بدن سب

میں کیا کوئی ہو کھینچے ایسے عذاب کیونکر

۱۱۸۱۰

چہرہ کتابی اس کا مجموعہ میرؔ کا ہے

اک حرف اس دہن کا ہوتا کتاب کیونکر

 

(۱۶۱۵)

لاوے جھمکتے رخ کی آئینہ تاب کیونکر

ہو چہرہ اس کے لب سے یاقوت ناب کیونکر

ہے شعر و شاعری گو کب سے شعار اپنا

حرف و سخن سے کریے اب اجتناب کیونکر

جوں ابر اگر نہ روویں وادی و کوہ پر ہم

تو شہروں شہروں آوے نہروں میں آب کیونکر

اب بھی نہیں ہے ہم کو  اے عشق ناامیدی

دیکھیں خراب ہووے حال خراب کیونکر

۱۱۸۱۵

اڑ اڑ کے جا لگے ہے وہ تیر مار کاکل

کھاتا رہے نہ افعی پھر پیچ تاب کیونکر

چشمے محیط سے جو ہووے نہ چشم تر کے

تو سیر ہو ہوا پر پھیلے سحاب کیونکر

اب تو طپش نے دل کی اودھم مچا رکھا ہے

تسکین پاوے دیکھوں یہ اضطراب کیونکر

رو چاہیے ہے اس کے در پر بھی بیٹھنے کو

ہم تو ذلیل اس کے ہوں میرؔ باب کیونکر

 

(۱۶۱۶)

 

سنا تم نے جو گذرا سانحہ ہجراں میں یاروں پر

قیامت غم سے ہر ساعت رہی الفت کے ماروں پر

۱۱۸۲۰

کیا ہے عشق عالم کش نے کیا ستھراؤ لوگوں کا

نکل چل شہر سے باہر نظر کر ٹک مزاروں پر

تڑپ کر گرم ٹک جوں برق ٹھنڈے ہوتے جاتے ہیں

بسان ابر رحمت رو بہت ہم بے قراروں پر

بڑی دولت ہے درویشی جو ہمرہ ہو قناعت کے

کہ عرصہ تنگ ہے حرص و ہوا سے تاجداروں پر

سیاحت خوب مجھ کو یاد ہے پر کی بھی وحشت کی

پر اپنا پاؤں پھیلے دشت کے سر تیز خاروں پر

گئے فرہاد و مجنوں ہو کوئی تو بات بھی پوچھیں

یکایک کیا بلا آئی ہمارے غم گساروں پر

۱۱۸۲۵

گئی اس ناتوان عشق کے آگے سے پیری ٹل

سبک روحی مری  اے میرؔ بھاری ہے ہزاروں پر

 

(۱۶۱۸)

اک آدھ دن نکل مت  اے ابر ادھر سے ہو کر

بیٹھا ہوں میں ابھی ٹک سارا جہاں ڈبو کر

اب کل نہیں ہے تجھ کو بے قتل غم کشوں کے

کہتے تو تھے کہ ظالم خوں ریزی سے نہ خو کر

کہتے ہیں راہ پائی زاہد نے اس گلی کی

روتا کہیں نہ آوے ایمان و دیں کو کھو کر

ہے نظم کا سلیقہ ہرچند سب کو لیکن

جب جانیں کوئی لاوے یوں موتی سے پرو کر

۱۱۸۳۰

کیا خوب زندگی کی دنیا میں شیخ جی نے

تعبیر کرتے ہیں سب اب ان کو مردہ شو کر

گو تیرے ہونٹ ظالم آب حیات ہوں اب

کیا ہم کو جی کی بیٹھے ہم جی سے ہاتھ دھو کر

کس کس ادا سے فتنے کرتے ہیں قصد ادھر کا

جب بے دماغ سے تم اٹھ بیٹھتے ہو سو کر

ٹکڑے جگر کے میرے مت چشم کم سے دیکھو

کاڑھے ہیں یہ جواہر دریا کو میں بلو کر

احوال میرؔ جی کا مطلق گیا نہ سمجھا

کچھ زیر لب کہا بھی سو دیر دیر رو کر

۱۱۸۳۵

(۱۶۱۸)

عشق ہمارا خون کرے ہے جی نہیں رہتا یار بغیر

وہ گھر سے نہیں اپنے نکلتا دم بھر بھی تلوار بغیر

جان عزیز کی جاں بھی گئے پر آنکھیں کھلی رہ جائیں گی

یعنی کشتۂ حیرت تھا میں آئینہ سا دیدار بغیر

گوندھے گئے سو تازہ رہے جو سبد میں تھے سوملالت سے

سوکھ کے کانٹا پھول ہوئے وے اس کے گلے کے ہار بغیر

پھولوں کا موسم کاشکے ہو پردے سے ہوا کے چشمک زن

گل کھائے ہیں ہزار خزاں میں مرغ چمن نے بہار بغیر

وحشی و طیر سے دشت بھرے تھے صیادی تھی یار کی جب

خالی پڑے ہیں دام کہیں میرؔ اس کے ذوق شکار بغیر

۱۱۸۴۰

(۱۶۱۸)

خندہ بجائے گریہ و اندوہ و آہ کر

ماتم کدے کو دہر کے تو عیش گاہ کر

کیا دیکھتا ہے ہر گھڑی اپنی ہی سج کو شوخ

آنکھوں میں جان آئی ہے ایدھر نگاہ کر

رحمت اگر یقینی ہے تو کیا ہے زہد شیخ

اے بیوقوف جائے عبادت گناہ کر

چھوڑ اب طریق جور کو  اے بے وفا سمجھ

نبھتی نہیں یہ چال کسو دل میں راہ کر

چسپیدگی داغ سے مت منھ کو اپنے موڑ

اے زخم کہنہ دل سے ہمارے نباہ کر

۱۱۸۴۵

جیتے جی میرے لینے نہ پاوے طپش بھی دم

اتنی تو سعی تو بھی جگر خوامخواہ کر

اس وقت ہے دعا و اجابت کا وصل میرؔ

یک نعرہ تو بھی پیش کش صبح گاہ کر

 

(۱۶۲۰)

 

شوریدہ سر رکھا ہے جب سے اس آستاں پر

میرا دماغ تب سے ہے ہفتم آسماں پر

گھائل گرا رہا ہے فتراک سے بندھا ہے

کیا کیا ستم ہوئے ہیں اس صید ناتواں پر

لطف بدن کو اس کے ہرگز پہنچ سکے نہ

جا پڑتی تھی ہمیشہ اپنی نگاہ جاں پر

۱۱۸۵۰

خاشاک و خار و خس کو کر ایک جا جلایا

کیا چشم شور برق خاطف تھی آشیاں پر

وہ باغباں پسر کچھ گل گل شگفتہ ہے اب

یہ اور گل کھلا ہے اک پھولوں کی دکاں پر

پرکالے آگ کے تھے کیا نالہ ہائے بلبل

شبنم سے آبلے ہیں گل برگ سی زباں پر

دل کیا مکاں پھر اس کا کیا صحن میرؔ لیکن

غالب ہے سعی میں تو میدان لامکاں پر

 

(۱۶۲۱)

 

آیا نہ پھر ادھر وہ مست شراب ہو کر

کیا پھول مر گئے ہیں اس بن خراب ہو کر

۱۱۸۵۵

صید زبوں میں میرے یک قطرہ خوں نہ نکلا

خنجر تلے بہا میں خجلت سے آب ہو کر

وعدہ وصال کا ہے کہتے ہیں حشر کے دن

جانا ہوا ولیکن واں سے شتاب ہو کر

دارو پیے نہ ساتھ آ غیروں کے بیشتر یاں

غیرت سے رہ گئے ہیں عاشق کباب ہو کر

یک قطرہ آب اس بن میں نے اگر پیا ہے

نکلا ہے میرؔ پانی وہ خون ناب ہو کر

 

(۱۶۲۲)

 

ابر سیہ قبلے سے اٹھ کر آیا ہے میخانے پر

بادہ کشوں کا جھرمٹ ہے کچھ شیشے پر پیمانے پر

۱۱۸۶۰

رنگ ہوا سے ٹپکنے لگا ہے سبزے میں کوئی پھول کھلا

یعنی چشمک گل کرتا ہے فصل بہار کے آنے پر

شور جنوں ہے جوانوں کے سر میں پاؤں میں زنجیریں ہیں

سنگ زناں لڑ کے پھرتے ہیں ہر ہر سو دیوانے پر

بیتابانہ شمع پر آیا گرد پھرا پھر جل ہی گیا

اپنا جی بھی حد سے زیادہ رات جلا پروانے پر

قدر جان جو کچھ ہووے تو صرفہ بھی ہمؔ میر کریں

منھ موڑیں کیا  آنے سے اس کے اپنی جان کے جانے پر

 

(۱۶۲۳)

سعی سے اس کی ہوا مائل گریباں چاک پر

آفریں کر  اے جنوں میرے کف چالاک پر

۱۱۸۶۵

کیوں نہ ہوں طرفہ گلیں خوش طرح بعضی  اے کلال

خاک کن کن صورتوں کی صرف کی ہے خاک پر

گِل ہوئی کوچے میں اس کے آنے سے بھی اب رہا

ابر تو کاہے کو رویا تھا ہماری خاک پر

ہم کو مٹی کر دیا پامالی گردوں نے میرؔ

وہ نہ آیا ناز کرتا ٹک ہماری خاک پر

 

 

                ردیف ز

 

(۱۶۲۴)

اس بستر افسردہ کے گل خوشبو ہیں مرجھائے ہنوز

اس نکہت سے موسم گل میں پھول نہیں یاں آئے ہنوز

اس زلف و کاکل کو گوندھے دیر ہوئی مشاطہ کو

سانپ سے لہراتے ہیں بال اس کے بل کھائے ہنوز

۱۱۸۸۰

آنکھ لگے اک مدت گذری پائے عشق جو بیچ میں ہے

ملتے ہیں معشوق اگر تو ملتے ہیں شرمائے ہنوز

تہ داری کیا کہیے اپنی سختی سے اس کی جیتے موئے

حرف و سخن کچھ لیکن ہرگز منھ پہ نہیں ہم لائے ہنوز

ایسی معیشت کر لوگوں سے جیسی غم کش میرؔ نے کی

برسوں ہوئے ہیں اٹھ گئے ان کو روتے ہیں ہمسائے ہنوز

 

(۱۶۲۵)

کب سے گیا ہے آیا نہیں نامہ بر ہنوز

راہی بھی کچھ سنا نہیں جاتے خبر ہنوز

خون جگر کو سوکھے ہوئے برسوں ہو گئے

رہتی ہیں میری آنکھیں شب و روز تر ہنوز

۱۱۸۸۵

ہرچند آسماں پہ ہماری دعا گئی

اس مہ کے دل میں کرتی نہیں کچھ اثر ہنوز

مدت سے لگ رہی ہیں مری آنکھیں اس کی اور

وہ دیکھتا نہیں ہے غلط کر ادھر ہنوز

برسوں سے لکھنؤ میں اقامت ہے مجھ کو لیک

یاں کے چلن سے رکھتا ہوں عزم سفر ہنوز

تیشے سے کوہکن کے دل کوہ جل گیا

نکلے ہے سنگ سنگ سے اکثر شرر ہنوز

جل جل کے ہو گیا ہے کبد تو کباب میرؔ

جول غنچہ نا شگفتہ ہے داغ جگر ہنوز

۱۱۸۸۰

 

(۱۶۲۶)

 

کب سے آنے کہتے ہیں تشریف نہیں لاتے ہیں ہنوز

آنکھیں مندیں اب جاچکے ہم وے دیکھو تو آتے ہیں ہنوز

کہتا ہے برسوں سے ہمیں تم دور ہو یاں سے دفع بھی ہو

شوق و سماجت سیر کرو ہم پاس اس کے جاتے ہیں ہنوز

راتوں پاس گلے لگ سوئے ننگے ہو کر ہے یہ عجب

دن کو بے پردہ نہیں ملتے ہم سے شرماتے ہیں ہنوز

ساتھ کے پڑھنے والے فارغ تحصیل علمی سے ہوئے

جہل سے مکتب کے لڑکوں میں ہم دل بہلاتے ہیں ہنوز

گل صد رنگ چمن میں آئے باد خزاں سے بکھر بھی گئے

عشق و جنوں کی بہار کے عاشق میرؔ جی گل کھاتے ہیں ہنوز

۱۱۸۸۵

(۱۶۲۸)

کب سے قیدی ہیں پہ ہے نالش بسیار ہنوز

دل بہاران چمن کا ہے گرفتار ہنوز

وہ مہ چار دہ اس شہر سے کب کا نکلا

ہر گلی جھانکتے پھرتے ہیں طلبگار ہنوز

بالا بالا ہی بہت عشق میں مارے گئے یار

وہ تہ دل سے کسو کا نہ ہوا یار ہنوز

سال میں ابر بہاری کہیں آ کر برسا

لوہو برسا رہے ہیں دیدۂ خونبار ہنوز

اب کے بالیدن گلہا تھا بہت دیکھو نہ میرؔ

ہمسر لالہ ہے خار سر دیوار ہنوز

۱۱۸۸۰

 

(۱۶۲۸)

سرکش ہے تند خو ہے عجب ہے زباں دراز

آتش کا ایسا لائحہ کب ہے زباں دراز

پروانہ تیری چرب لساں سے ہوا ہلاک

ہے شمع تو تو کوئی غضب ہے زباں دراز

 

 

                ردیف س

 

(۱۶۲۸)

یار ہم سے جدا ہوا افسوس

نہ جدا ہو کے پھر ملا افسوس

جب تلک آن کر رہے مجھ پاس

مجھ میں تب تک نہ کچھ رہا افسوس

دل میں حسرت گرہ ہے رخصت کی

چلتے ان نے نہ کچھ کہا افسوس

۱۱۸۸۵

کیا تدارک ہے عشق میں دل کا

میں بلا میں ہوں مبتلا افسوس

سب سے بیگانگی کی جس کے لیے

وہ نہیں ہم سے آشنا افسوس

رات دن ہاتھ ملتے رہتے ہیں

دل کے جانے کا ہے بڑا افسوس

باچھیں پھٹ پھٹ گئیں ہیں گھگھیاتے

بے اثر ہو گئی دعا افسوس

مجھ کو کرنا تھا احتراز اس سے

ہائے افسوس کیا کیا افسوس

۱۱۸۰۰

نوش دارو ہے نیش دارو میرؔ

متاثر نہیں دوا افسوس

 

(۱۶۳۰)

کوئی دن کریے معیشت جاکسو کامل کے پاس

ناقصوں میں رہیے کیا رہیے تو صاحب دل کے پاس

بوئے خوں بھک بھک دماغوں میں چلی آتی ہے کچھ

نکلی ہے ہو کر صبا شاید کسو گھائل کے پاس

شور و ہنگامہ بہت دعویٰ ضروری ہے بہت

کاشکے مجھ کو بلاویں حشر میں قاتل کے پاس

گرد سے ہے ناقۂ سلمیٰ کو مشکل رہروی

خاک کس کی ہے کہ مشتاق آتی ہے محمل کے پاس

۱۱۸۰۵

تل سے تیرے منھ کے دل تھا داغ  اے برنائے چرب

خال یہ اک اور نکلا ظالم اگلے تل کے پاس

دل گداز عشق سے سب آب ہو کر بہ گیا

مر گئے پر گور میری کریے تو بے دل کے پاس

ملیے کیونکر نہ کف افسوس جی جاتا ہے میرؔ

ڈوبتی ہے کشتی ورطے سے نکل ساحل کے پاس

 

(۱۶۳۱)

صد پارہ گلا تیرا ہے کر ضبط نفس بس

سنتا نہیں اس قافلے میں کوئی جرس بس

دنیا طلبی نفس نہ کر شومی سے جوں سنگ

تھک کر کہیں ٹک بیٹھ رہ  اے ہرزہ مرس بس

۱۱۸۱۰

خنداں نہ مرے قتل میں رکھ تیغ کو پھر سان

جوں گل یہ ہنسی کیا ہے اسیروں پہ نہ ہنس بس

اس زار نے ہاتھ ان کا جو کھینچا لگے کہنے

غش کرنے نہ لگ جاؤں کہیں چھوڑیے بس بس

کیا میرؔ اسیروں کو در باغ جو وا ہو

ہے رنگ ہوا دیکھنے کو چاک قفس بس

 

(۱۶۳۲)

آنکھ کھلتے گئی بہار افسوس

گل کو دیکھا بھی نہ ہزار افسوس

جس کی خاطر ہوئے کنارہ گزیں

نہ ہوئے اس سے ہم کنار افسوس

۱۱۸۱۵

نہ معرف نہ آشنا کوئی

ہم ہیں بے یار و بے دیار افسوس

بے قراری نے یوں ہی جی مارا

اس سے نے عہد نے قرار افسوس

خوں ہوئی دل ہی میں امید وصال

مر رہے جی کو مار مار افسوس

چارۂ اشتیاق کچھ نہ ہوا

وہ نہ ہم سے ہوا دوچار افسوس

اک ہی گردش میں اس کی آنکھوں کی

پھر گیا ہم سے روزگار افسوس

۱۱۸۲۰

گور اپنی رہی گذر گہ میں

نہ ہوا یار کا گذار افسوس

منتظر ہی ہم اس کے میرؔ گئے

یاں تک آیا کبھو نہ یار افسوس

 

(۱۶۳۳)

کیا کیا تم نے ہم سے کہا تھا کچھ نہ کیا افسوس افسوس

کیا کیا کڑھایا جی سے مارا لوہو پیا افسوس افسوس

نور چراغ جان میں تھا کچھ یوں ہی نہ آیا لیکن وہ

گل ہو ہی گیا آخر کو یہ بجھتا سا دیا افسوس افسوس

رخصت میں پابوس کی سب کے جی جاتا تھا سوان نے

ہاتھ میں عاشق وارفتہ کا دل نہ لیا افسوس افسوس

۱۱۸۲۵

میرؔ کی آنکھیں مندنے پر وہ دیکھنے آیا تھا ظالم

اور بھی یہ بیمار محبت ٹک نہ جیا افسوس افسوس

 

 

                ردیف ش

 

(۱۶۳۴)

رکھتے رہے بتوں سے مہر و وفا کی خواہش

اس آرزو نے مارا یہ بھی خدا کی خواہش

بیماری دلی پر میں صبر کر رہا ہوں

جی کو نہیں ہے میرے مطلق دوا کی خواہش

شب وصل کی میسر آئی نہ ایک دن بھی

دل کو یہی ہمارے اکثر رہا کی خواہش

چاہت بہت کسو کی  اے ہمنشیں بری ہے

سو جان کی ہے کاہش اک اس ادا کی خواہش

۱۱۸۳۰

مشتاق عاشقی کا عاقل کوئی نہ ہو گا

ابلہ کسو کو ہو گی اس بدب لا کی خواہش

عجز و انابت اپنی یوں ہی تھی صبح گہ کی

درویشوں سے کریں گے اب ہم دعا کی خواہش

حیران کار الفت  اے میرؔ چپ ہوں میں تو

پوچھا کرو ہو ہر دم کیا بے نوا کی خواہش

 

(۱۶۳۵)

رنج و غم آئے بیشتر درپیش

راہ رفتن ہے اب مگر درپیش

مرگ فرہاد سے ہوا بدنام

ہے خجالت سے تیشہ سردرپیش

۱۱۸۳۵

یار آنکھوں تلے ہی پھرتا ہے

میری مدت سے ہے نظر درپیش

خانہ روشن پتنگوں نے نہ کیا

ہے چراغوں کو بھی سحر درپیش

غم سے نزدیک مرنے کے پہنچے

دور کا میرؔ ہے سفر درپیش

 

(۱۶۳۶)

کرکریں ہیں لجّوں لطموں کے دڑیڑے سب کے گوش

بیکراں دریائے غم کے ہیں بلا جوش و خروش

صومعے کو اس ہوائے ابر میں دیتے ہیں آگ

میکدے سے باہر آتے ہی نہیں ذی عقل و ہوش

۱۱۸۴۰

تنگ چولی سوجگہ سے کسمساتے ہی چلی

تنگ درزی سے کبھی ملتا نہیں وہ تنگ پوش

وائے رے پروانہ کیسا چپکے جل کر رہ گیا

گرمی پہنچے کیا اچھلتا ہے سپند ہرزہ کوش

کیسا خود گم سر بکھیرے میرؔ ہے بازار میں

ایسا اب پیدا نہیں ہنگامہ آرا دل فروش

 

(۱۶۳۸)

ادھر آتا بھی وہ سوار  اے کاش

اس کا ہو جاتا دل شکار  اے کاش

زیر دیوار خانہ باغ اس کے

ہم کو جا ملتی خانہ وار  اے کاش

۱۱۸۴۵

کب تلک بے قرار رہیے گا

کچھ تو ملنے کا ہو قرار  اے کاش

راہ تکتے تو پھٹ گئیں آنکھیں

اس کا کرتے نہ انتظار  اے کاش

اس کی پامالی سرفرازی ہے

راہ میں ہو مری مزار  اے کاش

پھول گل کچھ نہ تھے کھلی جب چشم

اور بھی رہتی اک بہار  اے کاش

اب وہی میرؔ جی کھپانا ہے

ہم کو ہوتا نہ اس سے پیار  اے کاش

۱۱۸۵۰

(۱۶۳۸)

غصے میں ناخنوں نے مرے کی ہے کیا تلاش

تلوار کا سا گھاؤ ہے جبہے کا ہر خراش

صحبت میں اس کی کیونکے رہے مرد آدمی

وہ شوخ و شنگ و بے تہ و اوباش و بدمعاش

بے رحم تجھ کو ایک نظر کرنی تھی ادھر

کشتے کے تیرے ٹکڑے ہوئے لے گئے بھی لاش

آباد اجڑا لکھنؤ چغدوں سے اب ہوا

مشکل ہے اس خرابے میں آدم کی بود و باش

عمر عزیز یاس ہی میں جاتی ہے چلی

امیدوار اس کے نہ ہم ہوتے میرؔ کاش

۱۱۸۵۵

 

 

                ردیف ص

 

(۱۶۳۸)

شاعری شیوہ ہے شعار اخلاص

دین و مذہب مرا ہے پیار اخلاص

اب کہاں وہ مؤدت قلبی

ہووے ظاہر میں یوں ہزار اخلاص

سورۃ اخلاص کی پڑھی برسوں

میرؔ رکھتا نہیں ہے یار اخلاص

 

 

                ردیف ض

 

(۱۶۴۰)

 

عالم علم سے اس عالم میں ہر لحظہ طاری ہے فیض

ہے معلوم کہ عالم عالم پھر یاں وہ جاری ہے فیض

سنگ و شجر ہیں پانی پون ہیں غنچہ و گل ہیں بارو بر

عالم ہژدہ ہزار جو ہیں یہ سب میں وہ ساری ہے فیض

۱۱۸۶۰

 

 

                ردیف ط

 

(۱۶۴۱)

 

جس کو ہوا ہے اس صنم بے وفا سے ربط

اس کو خدا ہی ہووے تو ہو کچھ خدا سے ربط

گل ہو کے برگ برگ ہوئے پھر ہوا ہوئے

رکھتے ہیں اس چمن کے جو غنچے صبا سے ربط

زنہار پشت پا سے نہیں اٹھتی اس کی آنکھ

اس چشم شرمگیں کو بہت ہے حیا سے ربط

شاید اسی کے ہاتھ میں دامن ہو یار کا

ہو جس ستم رسیدہ کو دست دعا سے ربط

کرتی ہے آدمی کو دنی صحبت فقیر

اچھا نہیں ہے میرؔ سے بے تہ گدا سے ربط

۱۱۸۶۵

(۱۶۴۲)

 

عشق کو جرأت و جگر ہے شرط

زردی رنگ و چشم تر ہے شرط

بے خبر حال سے نہ رہ میرے

میں کہے رکھتا ہوں خبر ہے شرط

حج کو جاوے تو شیخ کو لے جا

کعبے جانے کو یہ بھی خر ہے شرط

پیسوں پر ریجھتے ہیں یہ لڑکے

عشق سیمیں تناں کو زر ہے شرط

خام رہتا ہے آدمی گھر میں

پختہ کاری کے تیں سفر ہے شرط

۱۱۸۸۰

خبث یاروں کا کر فسانوں میں

عیب کرنے کو بھی ہنر ہے شرط

لعل پارے ہیں میرؔ لخت جگر

دیکھ کر خون رو نظر ہے شرط

 

(۱۶۴۳)

رکھتا ہے میرے دل سے تمھارا غم اختلاط

ہر لمحہ لحظہ آن و زماں ہر دم اختلاط

ہم وے ملے ہی رہتے ہیں مردم کی شکل کیا

ان صورتوں میں ہوتا نہیں باہم اختلاط

شیریں لباں جہاں کے نہیں چھوٹ جانتے

ہوں گو کہ میرؔ صاحب و قبلہ کم اختلاط

۱۱۸۸۵

 

 

                ردیف ظ

 

(۱۶۴۴)

 

لطف جوانی کے ساتھ گئے پیری نے کیا ہے کیا محظوظ

کیونکے جئیں یارب حیرت ہے بے مزہ ایسے نا محظوظ

رونے کڑھنے کو عیش کہو ہو ہم تو تمھارے دعاگو ہیں

یوں ہی ہمیشہ عشق میں اس کے رکھے ایسا خدا محظوظ

زردی منھ کی اشک کی سرخی دونوں اب تو رنگ پہ ہیں

شاید میرؔ بہت رہتے ہو اس سے ہو کے جدا محظوظ

 

 

                ردیف ع

 

(۱۶۴۵)

لیے داغ سر پر جو آئی تھی شمع

سحر تک سب ان نے ہی کھائی تھی شمع

پتنگے کے حق میں تو بہتر ہوئی

اگر موم کی بھی بنائی تھی شمع

۱۱۸۸۰

نہ اس مہ سے روشن تھی شب بزم میں

نکالا تھا اس کو چھپائی تھی شمع

وہی ساتھ تھا میرے شب گیر میں

کہ تاب اس کے رخ کی نہ لائی تھی شمع

پتنگ اور وہ کیوں نہ باہم جلیں

کہیں سے مگر اک لگ آئی تھی شمع

فروغ اس کے چہرے کا تھا پردہ در

ہوا کیا جو ہم نے بجھائی تھی شمع

تف دل سے میرؔ اک کف خاک ہے

مری خاک پر کیوں جلائی تھی شمع

۱۱۸۸۵

(۱۶۴۶)

 

کیا جھمکا فانوس میں اپنا دکھلاتی ہے دور سے شمع

وہ منھ ٹک اودھر نہیں کرتا داغ ہے اس کے غرور سے شمع

وہ بیٹھا ہے جیسے نکلے چودھویں رات کا چاند کہیں

روشن ہے کیا ہو گی طرف اس طرح رخ پر نور سے شمع

آگے اس کے فروغ نہ تھا جلتی تھی بجھی سی مجلس میں

تب تو لوگ اٹھا لیتے تھے شتابی اس کے حضور سے شمع

جلنے کو آتی ہیں جو ستیاں میرؔ سنبھل کر جلتی ہیں

کیا بے صرفہ رات جلی بے بہرہ اپنے شعور سے شمع

 

(۱۶۴۸)

آتی ہے مجلس میں تو فانوس میں آتی ہے شمع

وہ سراپا دیکھ کر پردے میں جل جاتی ہے شمع

۱۱۸۸۰

 

 

                ردیف غ

 

(۱۶۴۸)

غم کھنچا رائیگاں دریغ دریغ

ہم ہوئے خستہ جاں دریغ دریغ

عشق میں جی بھی ہم گنوا بیٹھے

ہو گیا کیا زیاں دریغ دریغ

سب سے کی دشمنی جنھوں کے لیے

وے ہیں نامہرباں دریغ دریغ

قطع امید ہے قریب اس سے

تیغ ہے درمیاں دریغ دریغ

دل گئے پر نہ ورد نے تسبیح

کہتے ہیں ہر زماں دریغ دریغ

۱۱۸۸۵

اٹھنے دیتا نہیں شکستہ دل

ڈھہ گیا کیا مکاں دریغ دریغ

تب کھلی آنکھ میرؔ اپنی جب

جا چکا کارواں دریغ دریغ

 

(۱۶۴۸)

ہم کو شہر سے اس مہ کے ہے عزم راہ دروغ دروغ

یہ حرکت تو ہم نہ کریں گے خانہ سیاہ دروغ دروغ

الفت کلفت کون کہے ہے چاہ گناہ لکھا کن نے

بے دردی سے وے رکھتے ہیں یہی گناہ دروغ دروغ

شیخ کو وہ تو جھوٹ کہے ہے جھوٹ کو کیوں کر جھوٹ گنیں

اہل درد جو کوئی ہو تو کہیے آہ دروغ دروغ

۱۱۸۰۰

عشق کے مارے غم زدگاں سے انس کرے بہتان و کذب

اس بے مہر کی ہم لوگوں سے الفت چاہ دروغ دروغ

کس دلبر کو شوق سے دیکھا میرؔ غلط ہے تہمت ہے

منھ پہ کسو کے پڑی نہیں ہے گاہ نگاہ دروغ دروغ

 

(۱۶۵۰)

 

کیا کہیے میاں اب کے جنوں میں سینہ اپنا یکسر داغ

ہاتھ گلوں سے گلدستے ہیں شمع نمط ہے سر پر داغ

داغ جلائے فلک نے بدن پر سرو چراغاں ہم کو کیا

کہاں کہاں اب مرہم رکھیں جسم ہوا ہے سراسر داغ

صحبت درگیر آگے اس کے پہر گھڑی ساعت نہ ہوئی

جب آئے ہیں گھر سے اس کے تب آئے ہیں اکثر داغ

۱۱۸۰۵

غیر کو دیکھ کے اس مجلس میں غیرت عشق سے آگ لگی

اچھلے کودے سپند نمط ہم ہو گئے آخر جل کر داغ

جلتی چھاتی پہ سنگ زنی کی سختی ایام سے میرؔ

گرمی سے میری آتش دل کی سارے ہوئے وے پتھر داغ

 

 

                ردیف ف

 

(۱۶۵۱)

 

دیکھ نہ ہر دم  اے عاشق قاتل کی تیغ جفا کی طرف

کوئی نظر کر عبرت آگیں اس کے نازو ادا کی طرف

چار طرف سے نزول حوادث جاؤں کدھر تنگ آیا ہوں

غالب ہے کیا عہد میں میرے  اے دل رنج و عنا کی طرف

آوے زمانہ جب ایسا تو ترک عشق بتاں کا کر

چاہیے بندہ قصد کرے جانے کا اپنے خدا کی طرف

۱۱۸۱۰

قحط مروت اب جو ہوا ہے کس کو دماغ بادہ کشی

ابر آیا سبزہ بھی ہوا کرتا نہیں کوئی ہوا کی طرف

ظلم و ستم سے جور و جفا سے کیا کیا عاشق مارے گئے

شہر حسن کے لوگوں میں کرتا نہیں کوئی وفا کی طرف

شام و سحر ہے عکس سے اپنے حرف و سخن اس گلرو کو

پشت پا سے نگاہ اٹھالی چھوڑی ان نے حیا کی طرف

ہاتھ کسی کا دیکھتے رہیے گاہے ہم سے ہو نہ سکا

اپنی نظر  اے میرؔ رہی ہے اکثر دست دعا کی طرف

 

(۱۶۵۲)

 

عشق سے ہم کو نگاہ نہیں کچھ ہائے زیان جاں کی طرف

ورنہ سبھی دیکھا کرتے ہیں اپنے سود و زیاں کی طرف

۱۱۸۱۵

ازبس مکروہات سے یاں کا مزبلہ زار لبالب ہے

یاں سے گئے پر پھیر کے منھ دیکھا نہ کنھوں نے جہاں کی طرف

صورت کی شیرینی ایسی تلخی زباں کی ایسی کچھ

منھ دیکھے اس کا جو کوئی پھر دیکھے ہے زباں کی طرف

وہ محبوب تو راہ گیا ہے اپنی لیکن دیر تلک

آنکھیں اہل نظر کی رہیں گی اس کے قدم کے نشاں کی طرف

کس سے کہوں جو میرؔ طرف کر اس سے داد دلا دیوے

چھوٹے بڑے ہر ایک نے لی ہے اس اوباش جواں کی طرف

 

(۱۶۵۳)

کیا نیچی آنکھوں دیکھو ہو تلوار کی طرف

دیکھو کنکھیوں ہی سے گنہگار کی طرف

۱۱۸۲۰

آوارگی کے محو ہیں ہم خانماں خراب

مطلق نہیں نظر ہمیں گھر بار کی طرف

مانا ہے قبلہ کعبہ خدا فرط شوق سے

جاتے ہیں سر رگڑتے ہوئے یار کی طرف

شاید متاع حسن کھلی ہے کسو کی آج

ہنگامہ حشر کا سا ہے بازار کی طرف

عاشق کی اور ناز کناں جاوے ہے کبھو

جیسے طبیب جاوے ہے بیمار کی طرف

ہرگز طرف نہ ہوسکے رخسار یار کے

پھیکی ہے اس کے سامنے گلزار کی طرف

۱۱۸۲۵

کچھ گل صبا کا لاگو نہیں اس چمن میں میرؔ

کرتے ہیں سب ہی اپنے طرفدار کی طرف

 

(۱۶۵۴)

نظر کیوں گئی رو و مو کی طرف

کھنچا جائے ہے دل کسو کی طرف

نہ دیکھو کبھی موتیوں کی لڑی

جو دیکھو مری گفتگو کی طرف

اگر آرسی میں صفائی ہے لیک

نہیں کرتی منھ اس کے رو کی طرف

چڑھے نہ کہیں کود یہ مغز میں

نہ کر شانہ تو گل کی بو کی طرف

۱۱۸۳۰

اسے ڈھونڈتے میرؔ کھوئے گئے

کوئی دیکھے اس جستجو کی طرف

 

(۱۶۵۵)

 

ہنستے ہی ہنستے مار رکھا تھے جو ہم ظریف

ہے یار بھی ہمارا قیامت ستم ظریف

 

(۱۶۵۶)

 

بہار و باغ و گل و لالہ دلربا بن حیف

بھرے ہیں پھولوں سے جیب و کنار لیکن حیف

 

(۱۶۵۸)

اے تجھ بغیر لالہ و باغ و بہار حیف

گل سے چمن بھرے ہوں نہ ہو تو ہزار حیف

 

 

                ردیف ق

 

(۱۶۵۸)

مہر قیامت چاہت آفت فتنہ فساد بلا ہے عشق

عشق اللہ صیاد انھیں کہیو جن لوگوں نے کیا ہے عشق

۱۱۸۳۵

عشق سے نظم کل ہے یعنی عشق کوئی ناظم ہے خوب

ہر شے یاں پیدا جو ہوئی ہے موزوں کر لایا ہے عشق

عشق ہے باطن اس ظاہر کا ظاہر باطن عشق ہے سب

اودھر عشق ہے عالم بالا ایدھر کو دنیا ہے عشق

دائر سائر ہے یہ جہاں میں جہاں تہاں متصرف ہے

عشق کہیں ہے دل میں پنہاں اور کہیں پیدا ہے عشق

موج زنی ہے میرؔ فلک تک ہر لجہ ہے طوفاں زا

سرتا سر ہے تلاطم جس کا وہ اعظم دریا ہے عشق

 

(۱۶۵۸)

ارض و سما میں عشق ہے ساری چاروں اور بھرا ہے عشق

ہم ہیں جناب عشق کے بندے نزدیک اپنے خدا ہے عشق

۱۱۸۴۰

ظاہر و باطن اول و آخر پائیں بالا عشق ہے سب

نور و ظلمت معنی و صورت سب کچھ آپھی ہوا ہے عشق

ایک طرف جبریل آتا ہے ایک طرف لاتا ہے کتاب

ایک طرف پنہاں ہے دلوں میں ایک طرف پیدا ہے عشق

خاک و باد و آب و آتش سب ہے موافق اپنے تئیں

جو کچھ ہے سو عشق بتاں ہے کیا کہیے اب کیا ہے عشق

میرؔ کہیں ہنگامہ آرا میں تو نہیں ہوں چاہت کا

صبر نہ مجھ سے کیا جاوے تو معاف رکھو کہ نیا ہے عشق

 

(۱۶۶۰)

 

بیتاب ہے دل غم سے نپٹ زار ہے عاشق

کیا جا کے دو چار اس سے ہو ناچار ہے عاشق

۱۱۸۴۵

وہ دیکھنے کو جاوے تو بہتر ہے وگرنہ

بدحال و ستم دیدہ و بیمار ہے عاشق

رہتا ہے کھڑا دھوپ میں دو دو پہر آ کے

بے جرم سدا اس کا گنہگار ہے عاشق

اٹھتا نہیں تلوار کے سائے کے تلے سے

یعنی ہمہ دم مرنے کو تیار ہے عاشق

چسپاں ہوئے ہیں میرؔ خریدار سے تنہا

کیا جنس ہے معشوق کہ بازار ہے عاشق

 

 

                ردیف ک

 

(۱۶۶۱)

 

اب رنج و درد و غم کا پہنچا ہے کام جاں تک

پر حوصلے سے شکوہ آیا نہیں زباں تک

۱۱۸۵۰

آواز کے ہماری تم حزن پر نہ جاؤ

یہ نالۂ حزیں تو جاتے ہیں آسماں تک

رونا جہاں جہاں تو عین آرزو ہے لیکن

روتا ہوں رویا جاوے میرے کنے جہاں تک

اکثر صداع مجھ کو رہتا ہے عاشقی میں

تصدیع درد و غم سے کھینچے کوئی کہاں تک

آوارہ ہی ہوئے ہم سر مار مار یعنی

نوپر نکل گئے ہیں اپنے سب آشیاں تک

اے وائے بے نصیبی سر سے بھی گذرے لیکن

پیشانی ٹک نہ پہنچی اس خاک آستاں تک

۱۱۸۵۵

نفع کثیر اٹھایا کر عشق کی تجارت

راضی ہیں میرؔ اب تو ہم جان کے زیاں تک

 

(۱۶۶۲)

 

دل کی تڑپ نے ہلاک کیا ہے دھڑکے نے اس کے اڑائی خاک

خشک ہوا خون اشک کے بدلے ریگ رواں سی آئی خاک

صورت کے ہم آئینے کے سے ظاہر فقر نہیں کرتے

ہوتے ساتے روتے پاتے ان نے منھ کو لگائی خاک

پیچ و تاب سے خاک بھی میری جیسے بگولا پھرنے لگی

سر میں ہوا ہی اس کے بہت تھی تب تو ہوئی ہے ہوائی خاک

اور غبار کسو کے دل کا کس انداز سے نکلے آہ

روئے فلک پر بدلی سی تو ساری ہماری چھائی خاک

۱۱۸۶۰

نعمت رنگارنگ حق سے بہرہ بخت سیہ کو نہیں

سانپ رہا گو گنج کے اوپر کھانے کو تو کھائی خاک

اپنے تئیں گم جیسا کیا تھا یاں سر کھینچ کے لوگوں نے

عالم خاک میں ویسی ہی اب ڈھونڈی ان کی نہ پائی خاک

انس نہیں انسان سے اچھا عشق و جنوں اک آفت ہے

فرق ہوئے کیا چھوڑے ہے آدم میں اس کی جدائی خاک

ہوکے فقیر گلی میں اس کی چین بہت سا پایا ہم

لے کے سرہانے پتھر رکھا جائے فرش بچھائی خاک

قلب گداز ہیں جن کے وے بھی مٹی سونا کرتے ہیں

میرؔ اکسیر بنائی انھوں نے جن کی جہاں سے اٹھائی خاک

۱۱۸۶۵

(۱۶۶۳)

کیا ہم میں رہا گردش افلاک سے اب تک

پھرتے ہیں کمھاروں کے پڑے چاک سے اب تک

تھے نوخطوں کی خاک سے اجزا جو برابر

ہو سبزہ نکلتے ہیں تہ خاک سے اب تک

تا ند نظر چھا رہے ہیں لالۂ صد  برگ

جنگل بھرے ہیں سب گل تریاک سے اب تک

دشمن ہوئی ہے جس کے لیے ساری خدائی

مربوط ہیں ہم اس بت بیباک سے اب تک

ہر چند کہ دامن تئیں ہے چاک گریباں

ہم ہیں متوقع کف چالاک سے اب تک

۱۱۸۸۰

گو خاک سی اڑتی ہے مرے منھ پہ جنوں میں

ٹپکے ہے لہو دیدۂ نمناک سے اب تک

وے کپڑے تو بدلے ہوئے میرؔ اس کو کئی دن

تن پر ہے شکن تنگی پوشاک سے اب تک

 

(۱۶۶۴)

شاد افیونیوں کا دل غمناک

دشت دشت اب کے ہے گل تریاک

تین دن گور میں بھی بھاری ہیں

یعنی آسودگی نہیں تہ خاک

ہاتھ پہنچا نہ اس کے دامن تک

میں گریباں کروں نہ کیوں کر چاک

۱۱۸۸۵

تیز جاتا ہوں میں تو جوں سیلاب

میرے مانع ہو کیا خس و خاشاک

عشق سے ہاتھ کیا ملاوے کوئی

یاں زبردستوں کی ہے کشتی پاک

بندگی کیشوں پر ستم مت کر

ڈر خدا سے تو  اے بت بیباک

عشق مرد آزما نے آخرکار

کیے فرہاد و قیس میرؔ ہلاک

 

(۱۶۶۵)

اے عشق کیا جو مجھ سا ہوا ناتواں ہلاک

کر ہاتھ ٹک ملا کے کوئی پہلواں ہلاک

۱۱۸۸۰

میں چل بسا تو شہر ہی ویران سب ہوا

اس نیم جاں کے بدلے ہوا یک جہاں ہلاک

مقصود گم ہے پھرتا جو رہتا ہے رات دن

ہلکان ہو کے ہو گا کبھو آسماں ہلاک

اس ظلم کیش کی ہے طرب گاہ ہر کہیں

عاشق خدا ہی جانے ہوا ہے کہاں ہلاک

جی میرؔ نے دیا نہ ہوا لیک وصل یار

افسوس ہے کہ مفت ہوا یہ جواں ہلاک

 

 

                ردیف گ

 

(۱۶۶۶)

 

راہ کی بات کہیں ہم کس سے بے تہ یاں اکثر ہیں لوگ

سرگرم بے راہ روی ہیں خود گم بے رہبر ہیں لوگ

۱۱۸۸۵

بدتر آپ سے پاؤں کسو کو تو میں اس کا عیب کہوں

خوب تامل کرتا ہوں تو سب مجھ سے بہتر ہیں لوگ

دیوانے ہیں شہر وفا کی راہ و رسم کے ہم تو میرؔ

دل کے کہے جی دینے والے قاطبۃً گھر گھر ہیں لوگ

 

(۱۶۶۸)

رہتے ہیں اس سے لاگ پہ ہم بے قرار الگ

کرتے ہیں دوڑ نت ہی تما اے شیار الگ

تھا گرد بوئے گل سے بھی دامن ہوا کا پاک

کیا اب کے اس چمن سے گئی ہے بہار الگ

پاس اس کا بعد مرگ ہے آداب عشق سے

بیٹھا ہے میری خاک سے اٹھ کر غبار الگ

۱۱۸۸۰

ناگاہ اس نگاہ سے میں بھی ہوا نہاں

جاتا ہے جوں نکل کے کسو کا شکار الگ

خونباری سے نہیں پڑی لوہو کی چھینٹ بھی

اب تک تو بارے اپنے ہیں جیب و کنار الگ

تا جانیں لوگ کشتۂ ہجراں ہیں یہ غریب

کریو تمام گوروں سے میری مزار الگ

بچتے نہیں ہیں بوزدگی سے گلوں کی میرؔ

گو طائران خستہ جگر ہوں ہزار الگ

 

(۱۶۶۸)

وہ نہیں ملتا ایک کسو سے مرتے ہیں اودھر جاجا لوگ

یعنی ضائع اپنے تئیں کرتے ہیں اس بن کیا کیا لوگ

۱۱۸۸۵

جیسے غم ہجراں میں اس کے عاشق جی کھو بیٹھے ہیں

برسوں مارے چرخ فلک تو ایسے ہوویں پیدا لوگ

زلف و خال و خط سے اس کے جہاں تہاں اب مبحث ہے

عقل ہوئی ہے گم خلقت کی یا کہتے ہیں سودا لوگ

چار قدم چلنے میں اس کے دیکھتے جاتے ہیں جو کفک

فتنے سر کھینچا ہی کریں ہیں ایک قیامت برپا لوگ

دنیا جائے نہیں رہنے کی میرؔ غرور نہیں اچھا

جو جاگہ سے جاتے ہیں اپنی وے کرتے ہیں بے جا لوگ

 

 

                ردیف ل

 

(۱۶۶۸)

دل دل لوگ کہا کرتے ہیں تم نے جانا کیا ہے دل

چشم بصیرت وا ہووے تو عجائب دید کی جا ہے دل

۱۲۰۰۰

اوج و موج کا آشوب اس کے لے کے زمیں سے فلک تک ہے

صورت میں تو قطرۂ خوں ہے معنی میں دریا ہے دل

جیسے صحرا کو کشادہ دامن ہم تم سنتے آتے ہیں

بند کر آنکھیں ٹک دیکھو تو ویسا ہی صحرا ہے دل

کوہکن و مجنوں وامق تم جس سے پوچھو بتا دیوے

عشق و جنوں کے شہروں میں ہر چار طرف رسوا ہے دل

ہائے غیوری دل کی اپنے داغ کیا ہے خود سر نے

جی ہی جس کے لیے جاتا ہے اس سے بے پروا ہے دل

مت پوچھو کیوں زیست کرو ہو مردے سے افسردہ تم

ہجر میں اس کے ہم لوگوں نے برسوں تک مارا ہے دل

۱۲۰۰۵

میرؔ پریشاں دل کے غم میں کیا کیا خاطرداری کی

خاک میں ملتے کیوں نہ پھریں اب خون ہو بہ بھی گیا ہے دل

 

(۱۶۸۰)

 

آئی بہار نکلے چمن میں ہزار گل

دل جو کھلا فسردہ تو جوں بے بہار گل

بستر سے اس کے پھول تر و تازہ رکھ کے دور

سوکھے ہے دیر رہ کے تو ہوتا ہے خار گل

دیکھا کبھو نہ ہم نے سنا ہے فگندہ میرؔ

داغ جنوں ہے سر پہ ہمیشہ بہار گل

 

(۱۶۸۱)

 

صد ہزار افسوس آ کر خالی پائی جائے گل

ہے خزاں میں دل سے لب تک ہائے گل  اے وائے گل

۱۲۰۱۰

بے نصیبی سے ہوئے ہم موسم گل میں اسیر

تھے نہ پیشانی میں اپنے سجدہ ہائے پائے گل

دعوی حسن سراپا تھا پہ نازاں تجھ کو دیکھ

شاخیں پر گل جھک گئیں یعنی بہت شرمائے گل

کیا گل مہتاب و شبو کیا سمن کیا نسترن

اس حدیقے میں نہ نقش پا سے اس کے پائے گل

جیتے جی تو داغ ہی رکھا موئے پر کیا حصول

گور پر دلسوزی سے جوں شمع سر رکھ لائے گل

بے دلی بلبل نہ کر تاثیر میں گو تو ہے داغ

خوش زبان عشق کی جب ہم نے بھر کے کھائے گل

۱۲۰۱۵

اس چمن میں جلوہ گر جس حسن سے خوباں ہیں میرؔ

موسم گل میں کہیں اس خوبی سے کب آئے گل

 

(۱۶۸۲)

 

رنگارنگ چمن میں اب کے موسم گل میں آئے گل

ہم تو اس بن داغ ہی تھے سو اور بھی جل کر کھائے گل

ہار گلے کے ہو کر جیسے یاد رکھا تب عرصے میں

طرفہ تو یہ ہے اب منت سے گور پہ میری لائے گل

آئے شب گل میرؔ ہمیں کیا صبح بہار سے کیا حاصل

داغ جنوں ہے سر پہ ہمارے شمع کے رنگوں چھائے گل

 

(۱۶۸۳)

ہر لحظہ ہے کدورت خاطر سے بار دل

آندھی سی آوے نکلے کبھو جو غبار دل

۱۲۰۲۰

تربندی خشک بندی نمک بندی ہو چکی

بے ڈول پھیلتا سا چلا ہے فگار دل

جوں رنگ لائے سیب ذقن باغ حسن میں

ووں ہیں ریاض عشق میں صد چاک انار دل

باہر ہیں حد و حصر سے کھینچے جو غم الم

کیا ہوسکے حساب غم بے شمار دل

لاکھوں جتن کیے نہ نبھی دل سے یار کے

اس کا جفا شعار وفا ہے شعار دل

اس کی گلی میں صبح دلوں کا شکار تھا

نکلا ہزار ناز سے بہر شکار دل

۱۲۰۲۵

کیا میرؔ پھر ثبات سے رو سوئے دل کریں

ایسے نہیں گئے ہیں سکون و قرار دل

 

(۱۶۸۴)

رکھتا نہیں ہے مطلق تاب عتاب اب دل

جاتا ہے کچھ ڈھہا ہی خانہ خراب اب دل

درد فراق دلبر دے ہے فشار بے ڈھب

ہو جائے جملگی خوں شاید شتاب اب دل

بے پردہ اس کی آنکھیں شوخی جو کرتیاں ہیں

کرتا ہے یہ بھی ترک شرم و حجاب اب دل

آتش جو عشق کی سب چھائی ہے تن بدن پر

پہلو میں رہ گیا ہے ہو کر کباب اب دل

۱۲۰۳۰

غم سے گداز پا کر اس بن جو بہ نہ نکلا

شرمندگی سے ہو گا  اے میرؔ آب اب دل

 

(۱۶۸۵)

مدت سے اب وہی ہے مرا ہم کنار دل

آزردہ دل ستم زدہ و بے قرار دل

جو کہیے ہے فسردہ و مردہ ضعیف و زار

ناچار دیر ہم رہے ہیں مار مار دل

دو چار دل سے راضی نہیں ہوتے دلبراں

شاید تسلی ان کی ہو جو لیں ہزار دل

خود گم ہے ناشکیب و مکدر ہے مضطرب

کب تک رکھوں گا ہاتھ تلے پر غبار دل

۱۲۰۳۵

ہے میرؔ عشق حسن کے بھی جاذبے کے تیں

کھنچتا ہے سوئے یار ہی بے اختیار دل

 

 

                ردیف م

 

(۱۶۸۶)

 

عشق ہمارے در پئے جاں ہے آئے گھر سے نکل کر ہم

سر پر دیکھا یہی فلک ہے جاویں کیدھر چل کر ہم

بل کھائے ان بالوں سے کب عہدہ برآ ہوتے ہیں ہزار

تکلے کا سا بل نکلا ہے ٹک جو جلے تھے بل کر ہم

مت پوچھو کچھ پچھتاتے ہیں کیا کہیے گھبراتے ہیں

جی تو لیا ہے پاس بغل میں دل بیٹھے ہیں ڈل کر ہم

بے تگ و دو کیا سیری ہو دیدار کے ہم سے تشنوں کو

پانی بھی پی سکتے نہیں ٹک اپنی جگہ سے ہل کر ہم

۱۲۰۴۰

عشق جو ہوتا واقع میں تو سیدھے جاتے تیغ تلے

راہ ہوس کی پھر لی ہم نے یعنی چلے ہیں ٹل کر ہم

ہائے جوانی شور کناں پا بوس کو اس کے پھرتے تھے

اب چپ بیٹھ رہے ہیں یکسو ہاتھ بہت سے مل کر ہم

آگے تو کچھ اس سے آہیں گرم شعلہ فشانی تھیں

اب تو ہوئے ہیں میرؔ اک ڈھیری خاکستر کی جل کر ہم

 

(۱۶۸۸)

 

ڈول لگائے بہتیرے پر ڈھب پہ کبھو نہیں آتے تم

آنا یک سو کب دیکھو ہو ایدھر آتے جاتے تم

ہر صورت کو دیکھ رہو ہو ہر کوچے کو جھانکو ہو

آگے عشق کیا ہوتا تو پھرتے جی نہ کھپاتے تم

۱۲۰۴۵

چاہت آفت الفت کلفت مہر و وفا و رنج و بلا

عشق ہی کے سب نام ہیں یہ دل کاش کہیں نہ لگاتے تم

شائق ہو مرغان قفس کے آئے گھر صیادوں کے

پھول اک دو تسکین کو ان کی کاش چمن سے لاتے تم

دونوں طرف سے کشش رہتی تھی نیا نیا تھا عشق اپنا

دھوپ میں آتے داغ ہوئے تو گرمی سے گل کھاتے تم

کیدھر اب وہ یک رنگی جو دیکھ نہ سکتے دل تنگی

رکتے پاتے ٹک جو ہمیں تو دیر تلک گھبراتے تم

کیا کیا شکلیں محبوبوں کی پردۂ غیب سے نکلی ہیں

منصف ہو ٹک  اے نقاشاں ایسے چہرے بناتے تم

۱۲۰۵۰

شاید شب مستی میں تمھاری گرم ہوئی تھیں آنکھیں کہیں

پیش از صبح جو آئے ہو تو آئے راتے ماتے تم

کب تک یہ دزدیدہ نگاہیں عمداً آنکھیں جھکا لینا

دلبر ہوتے فی الواقع تو آنکھیں یوں نہ چھپاتے تم

بعد نماز دعائیں کیں سو میرؔ فقیر ہوئے تم تو

ایسی مناجاتوں سے آگے کاشکے ہاتھ اٹھاتے تم

 

(۱۶۸۸)

 

چاہ چھپی بے پردہ ہوئی اب یارب کیدھر جاویں ہم

کاش اجل بے وقت ہی پہنچے ایک طرف مر جاویں ہم

اس کی نگہ کی اچپلیوں سے غش کرتے ہیں جگر داراں

کیا ٹھہرے گا دل اپنا جو بجلی سے ڈر جاویں ہم

۱۲۰۵۵

صبر و قرار جو ٹک ہووے تو بہتر ہیں بے طاقت بھی

ہاتھ رکھے دل ہی پر کب تک اودھر اکثر جاویں ہم

خاک برابر عاشق ہیں اس کوچے میں ناچاری سے

گھر ہوں خانہ خرابوں کے تو اپنے بھی گھر جاویں ہم

میرؔ اپنی سب عمر گئی ہے سب کی برائی ہی کرتے

سر پر آیا جانے کا موسم اب تو بھلا کر جاویں ہم

 

(۱۶۸۸)

 

ہم تو یہی کہتے تھے ہمیشہ دل کو کہیں نہ لگاؤ تم

کیا کہیے نہ ہماری سنی اب بیٹھے رنج اٹھاؤ تم

جھوٹ کہا کیا ہم نے اس میں طور جو اس سے ظاہر ہے

ہاتھ چلے تو عاشق زار کو خاک و خوں میں لٹاؤ تم

۱۲۰۶۰

صبر کرو بیتاب رہو خاموش پھرو یا شور کرو

کس کو یاں پروا ہے کسو کی ٹھہرو آؤ جاؤ تم

ناز غرور تبختر سارا پھولوں پر ہے چمن کا سو

کیا مرزائی لالہ و گل کی کچھ خاطر میں نہ لاؤ تم

وائے کہ اس ہجراں کشتے نے باغ سے جاتے ٹک نہ سنا

گل نے کہا جو خوبی سے اپنی کچھ تو ہمیں فرماؤ تم

دست و پا بہتیرے مارے سر بھی پھوڑے حیرت ہے

کیا کریے جو بے دست و پا ہم سوں کے ہاتھ آؤ تم

غم میں تمھاری صورت خوش کے سینکڑوں شکلیں گو بگڑیں

بیٹھے ناز و غرور سے بکھرے بال اپنے نہ بناؤ تم

۱۲۰۶۵

در پہ حرم کے کشود نہیں تو دیر میں جا کر کافر ہو

قشقہ کھینچو پوتھی پڑھو زنار گلے سے بندھاؤ تم

بود نبود ثبات رکھے تو یہ بھی اک بابت ہے میرؔ

اس صفحے میں حرف غلط ہیں کاشکے ہم کو مٹاؤ تم

 

(۱۶۸۰)

 

کیا کریں بیکس ہیں ہم بے بس ہیں ہم بے گھر ہیں ہم

کیوں کر اڑ کر پہنچیں اس تک طائر بے پر ہیں ہم

سر نہ بالیں سے اٹھاویں کاشکے بیمار عشق

ہو گا یک ہنگامہ برپا فتنہ زیر سر ہیں ہم

سو طرف لے جاتی ہے ہم کو پریشاں خاطری

یاں کسے ڈھونڈو ہو تم کیا جانیے کیدھر ہیں ہم

۱۲۰۸۰

گر نہ روئیں کیا کریں ہر چار سو ہے بیکسی

بیدل و بے طاقت و بے دین و بے دلبر ہیں ہم

وہ جو رشک مہ کبھی اس راہ سے نکلا نہ میرؔ

ہم نہ رکھتے تھے ستارہ یعنی بد اختر ہیں ہم

 

(۱۶۸۱)

 

کہا سنتے تو کاہے کو کسو سے دل لگاتے تم

نہ جاتے اس طرف تو ہاتھ سے اپنے نہ جاتے تم

شکیبائی کہاں جو اب رہے جاتی ہوئی عزت

کدھر وہ ناز جس سے سرفرو ہرگز نہ لاتے تم

یہ حسن خلق تم میں عشق سے پیدا ہوا ورنہ

گھڑی کے روٹھے کو دو دو پہر تک کب مناتے تم

۱۲۰۸۵

نظر دزدیدہ کرتے ہو جھکی رکھتے ہو پلکوں کو

لگی ہوتیں نہ آنکھیں تو نہ آنکھوں کو چھپاتے تم

یہ ساری خوبیاں دل لگنے کی ہیں مت برا مانو

کسو کا بار منت بے علاقہ کب اٹھاتے تم

پھرا کرتے تھے جب مغرور اپنے حسن پر آگے

کسو سے دل لگا جو پوچھتے ہو آتے جاتے تم

جو ہوتے میرؔ سو سر کے نہ کرتے اک سخن ان سے

بہت تو پان کھاتے ہونٹ غصے سے چباتے تم

 

(۱۶۸۲)

 

اس کی گلی میں غش جو کیا آسکے نہ ہم

پھر ہو چکے وہیں کہیں گھر جاسکے نہ ہم

۱۲۰۸۰

سوئے تو غنچہ ہو کسو گلخن کے آس پاس

اس تنگنا میں پاؤں بھی پھیلا سکے نہ ہم

حالانکہ ظاہر اس کے نشاں شش جہت تھے میرؔ

خود گم رہے جو پھرتے بہت پا سکے نہ ہم

 

(۱۶۸۳)

ہم نہ کہا کرتے تھے تم سے دل نہ کسو سے لگاؤ تم

جی دینا پڑتا ہے اس میں ایسا نہ ہو پچھتاؤ تم

سو نہ سنی تم نے تو ہماری آنکھیں لگو ہیں لگ پڑیاں

رو رو کر سر دھنتے ہو اب بیٹھے رنج اٹھاؤ تم

صبر کہاں جو تسکیں ہووے بیتابی سے چین کہاں

ایک گھڑی میں سو سو باری اودھر ایدھر جاؤ تم

۱۲۰۸۵

خواہش دل ہے چاہ کسو کی یہی سبب ہے کاہش کا

ناحق ناحق کیوں کہتے ہو حق کی طرف دل لاؤ تم

ہر کوچے میں کھڑے رہ رہ کر ایدھر اودھر دیکھو ہو

ہائے خیال یہ کیا ہے تم کو جانے بھی دو اب آؤ تم

فاش نہ کریے راز محبت جانیں اس میں جاتی ہیں

درد دل آنکھوں سے ہر یک کے تا مقدور چھپاؤ تم

قدر و قیمت اس سے زیادہ میرؔ تمھاری کیا ہو گی

جس کے خواہاں دونوں جہاں ہیں اس کے ہاتھ بکاؤ تم

 

(۱۶۸۴)

تظلم کہ کھینچے الم پر الم

ترحم کہ مت کر ستم پر ستم

۱۲۰۸۰

علم بازی آہ جانکاہ ہے

رہے ٹوٹتے ہی علم پر علم

جو سو سر کے ہو آؤ مانوں نہ میں

عبث کھاتے ہو تم قسم پر قسم

کئی بار آنا ادھر لطف سے

عطا پر عطا ہے کرم پر کرم

خطرناک تھی وادی عشق میرؔ

گئے اس پہ بھی ہم قدم پر قدم

 

 

                ردیف ن

 

(۱۶۸۵)

تاروں کی جیسے دیکھیں ہیں آنکھیں لڑانیاں

اس بے نشاں کی ایسی ہیں چندیں نشانیاں

۱۲۰۸۵

پیری ہے اب تو کہیے سو کیا کہیے ہم نشیں

کس رنج و غم میں گذریں ہیں اپنی جوانیاں

ظلم و ستم سے خون کیا پھر ڈبا دیا

برباد کیا گئیں ہیں مری جاں فشانیاں

میں آپ چھیڑ چھیڑ کے کھاتا ہوں گالیاں

خوش آ گئیں ہیں اس کی مجھے بد زبانیاں

سنتا نہیں ہے شعر بھی وہ حرف ناشنو

دل ہی میں خوں ہوا کیں مری نکتہ دانیاں

باتیں کڈھب رقیب کی ساری ہوئیں قبول

مجھ کو جو ان سے عشق تھا میری نہ مانیاں

۱۲۱۰۰

مجلس میں تو خفیف ہوئے اس کے واسطے

پھر اور ہم سے اٹھتیں نہیں سرگرانیاں

عالم کے ساتھ جائیں چلے کس طرح نہ ہم

عالم تو کاروان ہے ہم کاروانیاں

سررفتہ سن نہ میرؔ کا گر قصد خواب ہے

نیندیں اچٹتیاں ہیں سنے یہ کہانیاں

 

(۱۶۸۶)

 

رساتے ہو آتے ہو اہل ہوس میں

مزہ رس میں ہے لو گے کیا تم کرس میں

درا میں کہاں شور ایسا دھرا تھا

کسو کا مگر دل رکھا تھا جرس میں

۱۲۱۰۵

ہمیں عشق میں بیکسی بے بسی ہے

نہ دشمن بھی ہو دوستی کے تو بس میں

نہ رہ مطمئن تسمہ باز فلک سے

دغا سے یہ بہتوں کے کھینچے ہے تسمیں

بہت روئے پردے میں جب دیدۂ تر

ہوئی اچھی برسات تب اس برس میں

تن زرد و لاغر میں ظاہر رگیں ہیں

بھرا ہے مگر عشق اک ایک نس میں

محبت وفا مہر کرتے تھے باہم

اٹھا دی ہیں وے تم نے اب ساری رسمیں

۱۲۱۱۰

تمھیں ربط لوگوں سے ہر قسم کے ہے

نہ کھایا کرو جھوٹی جھوٹی تو قسمیں

ہوا ہی کو دیکھیں ہیں  اے میرؔ اسیراں

لگادیں مگر آنکھیں چاک قفس میں

 

(۱۶۸۸)

غم ہجراں میں گھبرا کر اٹھا میں

طرف گلزار کی آیا چلا میں

شگفتہ خاطری اس بن کہاں تھی

چمن میں غنچہ پیشانی رہا میں

کسو سے دل نہیں ملتا ہے یارب

ہوا تھا کس گھڑی ان سے جدا میں

۱۲۱۱۵

تعارف ہم صفیروں سے نہیں کچھ

ہوا ہوں ایک مدت میں رہا میں

کیا صبر آخر آزار دلی پر

بہت کرتا رہا دارو دوا میں

نہ عنقا کا کہیں نام و نشاں تھا

ہوا تھا شہرہ جب نام خدا میں

ہوا تھا میرؔ مشکل عشق میں کام

کیا پتھر جگر تب کی دوا میں

 

(۱۶۸۸)

 

فریاد سے کیا لوگ ہیں دن ہی کو عجب میں

رہتی ہے خلش نالوں سے میرے دل شب میں

۱۲۱۲۰

حسرت کی جگہ ہے نہ کہ سبزان گل اندام

جاتے ہیں چلے آگے سے آتے نہیں ڈھب میں

افتادگی پر بھی نہ چھوا دامن انھوں کا

کوتاہی نہ کی دلبروں کے ہم نے ادب میں

کر خوف کَلک خَسپ کی جو سرخ ہیں آنکھیں

جلتے ہیں تر و خشک بھی مسکیں کے غضب میں

پایا نہ کنھوں نے اسے کوشش کی بہت میرؔ

سب سالک و مجذوب گئے اس کی طلب میں

 

(۱۶۸۸)

 

کس کو دل سا مکان دیتے ہیں

اہل اس گھر پہ جان دیتے ہیں

۱۲۱۲۵

کیونکے خوش خواں نہ ہوویں اہل چمن

ہم انھوں کو زبان دیتے ہیں

نو خطاں پھیر لیں ہیں منھ یعنی

ملتے رخصت کے پان دیتے ہیں

جان کیا گوہر گرامی ہے

بدلے اس کے جہان دیتے ہیں

ہندو بچوں سے کیا معیشت ہو

یہ کبھو انگ دان دیتے ہیں

یہ عجب گم ہوئے ہیں جس کے لیے

نہیں اس کا نشان دیتے ہیں

۱۲۱۳۰

گل خوباں میں میرؔ مہر نہیں

ہم کو غیروں میں سان دیتے ہیں

 

(۱۶۸۰)

 

پلکیں پھری ہیں کھنچی بھویں ہیں ترچھی تیکھی نگاہیں ہیں

اس اوباش کی دیکھو شوخی سادگی سے ہم چاہیں ہیں

کیا پہناوا خوش آتا ہے لڑکے چسپاں پوشوں کا

مونڈھے چسے ہیں چولی پھنسی ہے ٹیڑھی ٹیڑھی کلاہیں ہیں

ضبط گریہ دل سے ہو تو کوزے میں دریا کرتا ہے

حوصلہ داری جن کی ہو ایسی عشق میں ان کو سراہیں ہیں

جب سے جدا میں ان سے ہوا ہوں حال عجب ہے روز و شب

چشم تر سے ٹپکے ہیں آنسو خشک لبوں پر آہیں ہیں

۱۲۱۳۵

دل ہے داغ جگر ہے ٹکڑے رہ جاتے ہیں چپکے سے

چھاتی سراہیے ان لوگوں کی جو چاہت کو نباہیں ہیں

دل الجھے ان بالوں میں تو آخر سودا ہوتا ہے

کوچے کو زنجیر کے یعنی زلفوں سے دو راہیں ہیں

یہ بھی سماں خوش ترکیبوں کا میرؔ نہ اپنے دل سے گیا

سوتے سے اٹھ کر آنکھیں ملے ہیں لے انگڑائی جماہیں ہیں

 

(۱۶۸۱)

 

صبر کیا ہے برسوں ہم نے رات سے بے طاقت سے ہیں

اور گذارا کب تک ہو گا کچھ اب ہم رخصت سے ہیں

رسم لطف نہیں ہے مطلق شہر خوش محبوباں میں

دیکھے کم جو کرتے کسو پر ہم عاشق مدت سے ہیں

۱۲۱۴۰

عشق کے دین اور مذہب میں مرجانا واجب آیا ہے

کوہکن و مجنون موئے اب ہم بھی اسی ملت سے ہیں

ملنا نفروں سے ان کا چھوٹا آ کر میری صحبت میں

پھر متنفر بھی یہ بے تہ مجھ سے کی صحبت سے ہیں

فرصت ان کو کم ہے اگرچہ پر ملتے ہیں قابو پر

برسوں میرؔ سے مل دیکھا ہے کچھ وے کم فرصت سے ہیں

 

(۱۶۸۲)

 

ہر چند میرے حق میں کب اس کا ستم نہیں

پر اس ستم سے با مزہ لطف و کرم نہیں

درویش جو ہوئے تو گیا اعتبار سب

اب قابل اعتماد کے قول و قسم نہیں

۱۲۱۴۵

حیرت میں سکتے سے بھی مرا حال ہے پرے

آئینہ رکھ کے سامنے دیکھا تو دم نہیں

مستغنی کس قدر ہیں فقیروں کے حال سے

یاں بار غم سے خم ہوئے واں بھوویں خم نہیں

شاید جگر کا کام تمامی کو کھنچ گیا

یا لوہو روتے رہتے تھے یا چشم نم نہیں

ق

غم اس کا کچھ نہیں ہمیں گو لوگ کچھ کہیں

یہ التفات ان نے جو کی ہے سو کم نہیں

کہنے لگا کہ میرؔ تمھیں بیچوں گا کہیں

تم دیکھیو نہ کہیو غلام اس کے ہم نہی

۱۲۱۵۰

(۱۶۸۳)

دل جلتے کچھ بن نہیں آتی حال بگڑتے جاتے ہیں

جیسے چراغ آخری شب ہم لوگ نبڑتے جاتے ہیں

رنگ ثبات چمن کا اڑایا باد تند خزاں نے سب

برگ  و بار و نورس گل کے غنچے جھڑتے جاتے ہیں

طینت میں ہے نیاز جنھوں کی مسجود ان کی سب ہے زمیں

خاک جو یہ پامال ہے اس سے سر کو رگڑتے جاتے ہیں

راہ عجب پیش آئی ہم کو یاں سے تنہا جانے کی

یار و ہمدم ہمراہی ہر گام بچھڑتے جاتے ہیں

ضعف دماغ سے افتاں خیزاں چلتے ہیں ہم راہ ہوس

دیکھیں کیا پیش آوے اب تو گرتے پڑتے جاتے ہیں

۱۲۱۵۵

قد کو اپنے حشر خرام کے ایک نہیں لگ سکتا ہے

سرو روان باغ جہاں ہر چند اکڑتے جاتے ہیں

میرؔ بلا ناساز طبیعت لڑکے ہیں خوش ظاہر بھی

ساتھ ہمارے راہ میں ہیں پھر ہم سے لڑتے جاتے ہیں

 

(۱۶۸۴)

عشق نے ہم کو مار رکھا ہے جی میں اپنے تاب نہیں

دل کو خیال صبر نہیں آنکھوں کو میل خواب نہیں

کوئی سبب ایسا ہو یارب جس سے عزت رہ جاوے

عالم میں اسباب کے ہیں پر پاس اپنے اسباب نہیں

قحط نہیں ہے دل کا اب من مارے تم کیوں پھرتے ہو

لینے والا چاہیے اس کا ایسا تو کمیاب نہیں

۱۲۱۶۰

خط کا جواب نہ لکھنے کی کچھ وجہ نہ ظاہر ہم پہ ہوئی

دیر تلک قاصد سے پوچھا منھ میں اس کے جواب نہیں

رونا روز شمار کا مجھ کو آٹھ پہر اب رہتا ہے

یعنی میرے گناہوں کو کچھ حصر و حد وحساب نہیں

رنگ شکستہ دل ہے شکستہ سر ہے شکستہ مستی میں

حال کسو کا اپنا سا اس میخانے میں خراب نہیں

ٹھہریں میرؔ کسو جاگہ ہم دل کو قرار جو ٹک آوے

ہوکے فقیر اس در پر بیٹھیں اس کے بھی ہم باب نہیں

 

(۱۶۸۵)

آنکھیں سفید دل بھی جلا انتظار میں

کیا کچھ نہ ہم بھی دیکھ چکے ہجر یار میں

۱۲۱۶۵

دنیا میں ایک دو نہیں کرتا کوئی مقام

جو ہے رواروی ہی میں ہے اس دیار میں

دیکھی تھیں ایک روز تری مست انکھڑیاں

انگڑائیاں ہی لیتے ہیں اب تک خمار میں

اخگر تھا دل نہ تھا مرا جس سے تہ زمیں

لگ لگ اٹھی ہے آگ کفن کو مزار میں

بے دم ہیں دام گاہ میں اک دم تو چل کے دیکھ

سنتے ہیں دم نہیں کسی تیرے شکار میں

محمل کے تیرے گرد ہیں محمل کئی ہزار

ناقہ ہے ایک لیلیٰ کا سو کس قطار میں

۱۲۱۸۰

شور اب چمن میں میری غزل خوانی کا ہے میرؔ

اک عندلیب کیا ہے کہوں میں ہزار میں

 

(۱۶۸۶)

 

طلب ہے کام دل کی اس کے بالوں کی اسیری میں

گدائی رات کو کرتا ہوں خجلت سے فقیری میں

نگہ عزلت میں اس ابرو کماں کی تھی ادھر یعنی

لگا تیر اس کا چھاتی میں ہماری گوشہ گیری میں

نظیر اس کی نظر آئی نہ سیاحان عالم کو

سیاحت دور تک کی ایک ہے وہ بے نظیری میں

حزیں آواز ہے مرغ چمن کی کیا جنوں آور

نہیں خوش زمزمہ ویسا ہماری ہم صفیری میں

۱۲۱۸۵

جوانی میں نہ رسوائی ہوئی تا میرؔ غم کھینچا

ہوئے اطفال تہ بازار گاہک جی کے پیری میں

 

(۱۶۸۸)

دل کی تہ کی کہی نہیں جاتی کہیے تو جی ماریں ہیں

رک کر پھوٹ بہیں جو آنکھیں رود کی سی دو دھاریں ہیں

حرف شناس نہ تھے جب تم تو بے پرسش تھا بوسۂ لب

ایک اک بات کی مشتاقوں سے سو سو اب تکراریں ہیں

عشق کے دیوانے کی سلاسل ہلتی ہے تو ڈریں ہیں ہم

بگڑے پیل مست کی سی زنجیروں کی جھنکاریں ہیں

وے بھوویں جیدھر ہوں خمیدہ اودھر کا ہے خدا حافظ

یعنی جوہر دار جھکی خوں ریز کی دو تلواریں ہیں

۱۲۱۸۰

وے وے جن لوگوں کو پھرتے آنکھوں ہم نے دیکھا تھا

حد نظر تک آج انھوں کی گرد شہر مزاریں ہیں

پیچ و تاب میں بل کھا کھا کر کوئی مرے یاں ان کو کیا

واں وے لیے مشاطہ کو یکسو بال ہی اپنے سنواریں ہیں

بڑے بڑے تھے گھر جن کے یاں آثار ان کے ہیں یہ اب

میرؔ شکستہ دروازے ہیں گری پڑی دیواریں ہیں

 

(۱۶۸۸)

 

حسن کیا جنس ہے جی اس پہ لگا بیٹھے ہیں

عزلتی شہر کے بازار میں آ بیٹھے ہیں

ہم وے ہر چند کہ ہم خانہ ہیں دونوں لیکن

روش عاشق و معشوق جدا بیٹھے ہیں

۱۲۱۸۵

ان ستم کشتوں کو ہے عشق کہ اٹھ کر یک بار

تیغ خوں خوار تلے یار کی جا بیٹھے ہیں

کیونکے یاں اس کا خیال آوے کہ آگے ہی ہم

دل سا گھر آتشیں آہوں سے جلا بیٹھے ہیں

پیش رو دست دعا ہے وہی شے خواہش ہے

اور سب چیز سے ہم ہاتھ اٹھا بیٹھے ہیں

ساری رات آنکھوں کے آگے ہی مری رہتا ہے

گو کہ وے چاند سے مکھڑے کو چھپا بیٹھے ہیں

باغ میں آئے ہیں پر اس گل تر بن یک سو

غنچہ پیشانی و دل تنگ و خفا بیٹھے ہیں

۱۲۱۸۰

کیا کہوں آئے کھڑے گھر سے تو اک شوخی سے

پاؤں کے نیچے مرے ہاتھ دبا بیٹھے ہیں

قافلہ قافلہ جاتے ہیں چلے کیا کیا لوگ

میرؔ غفلت زدہ حیران سے کیا بیٹھے ہیں

 

(۱۶۸۸)

 

منھ کیے اودھر زرد ہوئے جاتے ہیں ڈر سے سبک ساراں

کیوں کے ہیں گے اس رستے میں ہم سے آہ گراں باراں

جی تو پھٹا دیکھ آئینہ ہر لوح مزار کا جامہ نما

پھاڑ گریباں تنگ دلی سے ترک لباس کیا یاراں

کی ہے عمارت دل کی جنھوں نے ان کی بنا کچھ رکھی رہی

اور تو خانہ خراب ہی دیکھے اس بستی کے معماراں

۱۲۱۸۵

میخانے میں اس عالم کے لغزش پر مستوں کی نہ جا

سکر میں اکثر دیکھے ہم نے بڑے بڑے یاں ہشیاراں

کیا ستھراؤ شفا خانے میں عشق کے جا کر دیکھے ہیں

ایدھر اودھر سینکڑوں ہی بر پشت بام تھے بیماراں

بعد صبوحی گھگھیاتے گھگھیاتے باچھیں پھٹ بھی گئیں

یارب ہو گی قبول کبھو بھی دعائے صبح گنہگاراں

عشق میں ہم سے تم سے کھپیں تو کھپ جاویں غم کس کو ہے

مارے گئے ہیں اس میداں میں کیا دل والے جگر داراں

 

(۱۸۰۰)

 

حاکم شہر حسن کے ظالم کیونکے ستم ایجاد نہیں

خون کسو کا کوئی کرے واں داد نہیں فریاد نہیں

۱۲۲۰۰

یاری ہماری یک باری خاطر سے فراموش ان نے کی

ذکر ہمارا اس سے کیا سو کہنے لگا کچھ یاد نہیں

کیا کیا مردم خوش ظاہر ہیں عالم حسن میں نام خدا

عالم عشق خرابہ ہے واں کوئی گھر آباد نہیں

عشق کوئی ہمدرد کہیں مدت میں پیدا کرتا ہے

کوہ رہیں گو نالاں برسوں لیکن اب فرہاد نہیں

لڑنا کاواکی سے فلک کا پیش پا افتادہ ہے

میرؔ  طلسم غبار جو یہ ہے کچھ اس کی بنیاد نہیں

 

(۱۸۰۱)

 

تدبیر کوئی بتاوے جو آپ کو سنبھالیں

جینے کی اپنے ہم بھی کوئی طرح نکالیں

۱۲۲۰۵

قالب میں جی نہیں ہے اس بن ہمارے گویا

حیران کار یارب ہم کیسا ڈول ڈالیں

محشر میں داد خوباں چاہیں تو کس سے چاہیں

واں لگ چلے ملک تو اس کو بھی یہ لگا لیں

طالع نہ ذائقے کے اپنے کھلے کہ ہم بھی

ان شکریں لبوں کے ہونٹوں کا کچھ مزہ لیں

خوش چشم خوبرویاں دیدہ وراں ہیں کتنے

دزدیدہ دیکھنے میں دل دیکھتے چرا لیں

عشق و جنوں سے جی تو تنگ آ گیا ہے کاش اب

دست تلطف اپنے سر سے مرے اٹھا لیں

۱۲۲۱۰

خونریزی سے ہماری اچھا ہے ہاتھ اٹھانا

یوں چاہیے کہ دلبر درویش سے دعا لیں

چلتے ہیں ناز سے جب ٹھوکر لگے ہے دل کو

آتیں نہیں سمجھ میں ان دلبروں کی چالیں

منت ہزار کریے مانے منے نہ ہرگز

میرؔ ایسے غصہ ور کو ہم کس طرح منا لیں

 

(۱۸۰۲)

 

مے کشی صبح و شام کرتا ہوں

فاقہ مستی مدام کرتا ہوں

ق

کوئی ناکام یوں رہے کب تک

میں بھی اب ایک کام کرتا ہوں

۱۲۲۱۵

یا تو لیتا ہوں داد دل یا اب

کام اپنا تمام کرتا ہوں

 

(۱۸۰۳)

ملنے کے دن جب یاد آتے ہیں سدھ بدھ بھولے جاتے ہیں

بے خود ہو جاتے ہیں ہم تو دیر بخود پھر آتے ہیں

 

 

                ردیف و

 

(۱۸۰۴)

دل کھلتا ہے واں صحبت رندانہ جہاں ہو

میں خوش ہوں اسی شہر سے میخانہ جہاں ہو

ان بکھرے ہوئے بالوں سے خاطر ہے پریشاں

وے جمع ہوئے پر ہیں بلا شانہ جہاں ہو

رہنے سے مرے پاس کے بدنام ہوئے تم

اب جا کے رہو واں کہیں رسوا نہ جہاں ہو

۱۲۲۲۰

کچھ حال کہیں اپنا نہیں بے خودی تجھ کو

غش آتا ہے لوگوں کو یہ افسانہ جہاں ہو

کیوں جلتا ہے ہر جمع میں مانند دیے کے

اس بزم میں جا شمع سا پروانہ جہاں ہو

ان اجڑی ہوئی بستیوں میں دل نہیں لگتا

ہے جی میں وہیں جا بسیں ویرانہ جہاں ہو

وحشت ہے خرد مندوں کی صحبت سے مجھے میرؔ

اب جا رہوں گا واں کوئی دیوانہ جہاں ہو

 

(۱۸۰۵)

اپنے حسن رفتنی پر آج مت مغرور ہو

پاس تو ہے جس کے وے ہی کل کہیں گے دور ہو

۱۲۲۲۵

دیکھ کر وہ راہ چلتا ہی نہیں ٹک ورنہ ہم

پاؤں اس کے آنکھوں پر رکھ لیویں جو منظور ہو

شہر دل کی کیا خرابی کا بیاں باہم کریں

اس کو ویرانہ نہ کہیے جو کبھو معمور ہو

ہم بغل اس سنگ دل سے کاشکے اس دم ہوں جب

شیشۂ مے پاس ہووے اور وہ مخمور ہو

عشق دلکش ذبح ہے پر کھیل قدرت کا ہے میرؔ

صرف کریے اس میں اپنا جس قدر مقدور ہو

 

(۱۸۰۶)

عاشق ہو تو اپنے تئیں دیوانہ سب میں جاتے رہو

چکر مارو جیسے بگولا خاک اڑاتے آتے رہو

۱۲۲۳۰

دوستی جس کو لوگ کہیں ہیں جان سے اس کو خصومت ہے

ہو جاوے جو تم کو کسی سے تا مقدور چھپاتے رہو

دل لگنے کی چوٹ بری ہے اس صدمے سے خدا حافظ

بارے سعی و کشش کوشش سے جی کو اپنے بچاتے رہو

آئی بہار جنوں ہو مبارک عشق اللہ ہمارے لیے

نعل جڑے سینوں پہ پھرو تم داغ سروں پہ جلاتے رہو

شاعر ہو مت چپکے رہو اب چپ میں جانیں جاتی ہیں

بات کرو ابیات پڑھو کچھ بیتیں ہم کو بتاتے رہو

ابر سیہ قبلے سے آیا تم بھی شیخو پاس کرو

تخفیفے ٹک لٹ پٹے باندھو ساختہ ہی مدھ ماتے رہو

۱۲۲۳۵

کیا جانے وہ مائل ہووے کب ملنے کا تم سے میرؔ

قبلہ و کعبہ اس کی جانب اکثر آتے جاتے رہو

 

(۱۸۰۸)

 

کیا فرض ہستی کی رخصت ہے مجھ کو

کہیں اپنے رونے سے فرصت ہے مجھ کو

پھروں ہوں ترے عشق میں کوچہ کوچہ

مگر کوچہ گردی سے الفت ہے مجھ کو

کہاں زندگی مدت العمر ظالم

ترے عشق میں دم غنیمت ہے مجھ کو

نہ کر شور ناصح بہت ناتواں ہوں

کہاں بات اٹھانے کی طاقت ہے مجھ کو

۱۲۲۴۰

ہیں اسباب مرنے کے سب تیرے غم میں

جیا اب تلک کیونکے حیرت ہے مجھ کو

دل اتنا ہے آشفتہ خورشید رو کا

کہ اپنے بھی سائے سے وحشت ہے مجھ کو

کڑھوں ہوں گا من مانتا میرؔ صاحب

غم یار میں کیا فراغت ہے مجھ کو

 

(۱۸۰۸)

 

کیا غیرت سے دل پر تنگ رنج و غم نے دنیا کو

بس اب تو کھل گئیں ہیں آنکھیں دیکھا ہم نے دنیا کو

رہا ہے ایک عالم اور دنیا داروں میں اس کا

کیا ہے بے وفا معلوم سب عالم نے دنیا کو

۱۲۲۴۵

ہمیشہ رونا کڑھنا سینہ کوبی ہر زماں کرنا

عزا خانہ کیا دل کے مرے ماتم نے دنیا کو

سنا میں نے کہ آخر ہاتھ اٹھایا اس نے دنیا سے

اگر پایا بھی محنت کر کسو ہمدم نے دنیا کو

زمیں سے آسماں تک میرؔ ہے شور جنوں میرا

تہ و بالا کیا دونوں میں اس اودھم نے دنیا کو

 

(۱۸۰۸)

 

کیا کچھ ہم سے ضد ہے تم کو بات ہماری اڑا دو ہو

لگ پڑتے ہیں ہم تم سے تو تم اوروں کو لگا دو ہو

کیا روویں قدر و قیمت کو یہیں سے ہے معلوم ہمیں

کام ہمارا پاس تمھارے جو آتا ہے بہادو ہو

۱۲۲۵۰

اتنی تو جا خالی رہی ہے بزم خوش میں تمھارے سوا

جن کو کہیں جاگہ نہیں ملتی پہلو میں ان کو جا دو ہو

زنگ تو جاوے دل سے ہمارے غیر سیہ روبد گو کے

کھینچ کے تو ایک ایسی لگاؤ تیغ ستم کی تا دو ہو

صحبت گرم ہماری تمھاری شمع پتنگے کی سی ہے

یعنی ہو دل سوز جو کوئی اس کو تم تو جلا دو ہو

رنگ صحبت کس کو دکھاویں خوبی اپنی قسمت کی

ساغر مے دشمن کو دو ہو ہم کو زہر منگا دو ہو

بند نہیں جو کرتے ہو تم سینے کے سوراخوں کو

جی کی رکن میں ان رخنوں سے شاید دل کو ہوا دو ہو

۱۲۲۵۵

آنکھ جھپک جاتی نہیں تنہا آگے چہرۂ روشن کے

ماہ بھی بیٹھا جاتا ہے جب منھ سے نقاب اٹھا دو ہو

غیر سے غیریت ہے آساں لیکن تہ کچھ ہم کو نہیں

بات بتاویں کیا ہم تم کو تم ہم کو تو بنا دو ہو

میرؔ حقارت سے ہم اپنی چپ رہ جاتے ہیں جان جلے

طول ہمارے گھٹنے کو دے کر جیسے چراغ بڑھا دو ہو

 

(۱۸۱۰)

 

کہتے نہ تھے ہم تم سے دل ہاتھ سے مت دیجو

مت کھائیو غم اپنا اپنا نہ لہو پیجو

ان پلکوں کی کاوش سے زخمی ہے جگر سارا

لے تار نگاہوں کے نازک سا رفو کیجو

۱۲۲۶۰

کیا جان لیے جس کے جاناں سے چھپاتا منھ

جینا تو کوئی دن ہے تم میرؔ بہت جیجو

دل خستہ شکستہ دل دل بستہ گرفتہ دل

ہو ان میں کوئی اس کا دل ہاتھ میں ٹک لیجو

اس راہ سے کرتا ہے دل کسب ہوا گاہے

میرے پھٹے سینے کو زنہار نہ تم سیجو

 

(۱۸۱۱)

 

بات کہوں کیا چپکے چپکے دیکھو ہو آئینے کو

دیکھتے ہو تو دیکھو ہمارے جلتے توے سے سینے کو

کیا جانو تم قدر ہماری مہر و وفا کی لڑکے ہو

لوہو اپنا دیں ہیں تمھارے گرتے دیکھ پسینے کو

۱۲۲۶۵

پھیر ایام نحس کا مجھ کو بہت کڈھب آتا ہے نظر

تم بھی غنیمت جانو میاں دس دن کے میرے جینے کو

وہ جو غیرت مہ ملتا ہے غیر سے ہم ہیں غیرت کش

سال ہمارے جی کا ہو گا ظاہر کوئی مہینے کو

لخت دل آنکھوں سے گرا سو ٹکڑا لعل کا تھا گویا

نصب کروں گا میرؔ جگر پر خوش رنگ ایسے نگینے کو

 

(۱۸۱۲)

 

صوفیاں خم وا ہوئے ہیں ہائے آنکھیں وا کرو

ابر آیا زور غیرت تم بھی ٹک پیدا کرو

مستی و دیوانگی کا عہد ہے بازار میں

پائے کوباں دست افشاں آن کر سودا کرو

۱۲۲۸۰

ہر جگہ دلکش ہے اس کی برگ گل سے جسم میں

ایک جا تو جی لگاؤ دل کے تیں بے جا کرو

ہے تکلف ہے تعین اس قصب پوشی کی قید

خرقۂ صد چاک پہنو آپ کو رسوا کرو

گرچہ ہم پر بستہ طائر ہیں پر  اے گل ہائے تر

کچھ ہمیں پروا نہیں ہے تم اگر پروا کرو

 

(۱۸۱۳)

موسم گل آیا ہے یارو کچھ میری تدبیر کرو

یعنی سایۂ سرو و گل میں اب مجھ کو زنجیر کرو

پیش سعایت کیا جائے ہے حق ہے میری طرف سو ہے

میں تو چپ بیٹھا ہوں یکسو گر کوئی تقریر کرو

۱۲۲۸۵

کان لگا رہتا ہے غیر اس شوخ کماں ابرو کے بہت

اس تو گناہ عظیم پہ یارو ناک میں اس کی تیر کرو

پھیر دیے ہیں دل لوگوں کے مالک نے کچھ میری طرف

تم بھی ٹک  اے آہ و نالہ قلبوں میں تاثیر کرو

آگے ہی آزردہ ہیں ہم دل ہیں شکستہ ہمارے سب

حرف رنجش بیچ میں لا کر اور نہ اب دلگیر کرو

کیا ہو محو عمارت منعم  اے معمار خرابی ہے

بن آوے تو گھر ویراں درویشوں کے تعمیر کرو

عاشق ہو ترسا بچگاں پر تا کیفیت حاصل ہو

اور کشود کار جو چاہو پیر مغاں کو پیر کرو

۱۲۲۸۰

شعر کیے موزوں تو ایسے جن سے خوش ہیں صاحب دل

روویں کڑھیں جو یاد کریں اب ایسا تم کچھ میرؔ کرو

 

(۱۸۱۴)

کیونکر مجھ کو نامہ نمط ہر حرف پہ پیچ و تاب نہ ہو

سو سو قاصد جان سے جاویں یک کو ادھر سے جواب نہ ہو

گل کو دیکھ کے گلشن کے دروازے ہی سے پھر آیا

کیا مل بیٹھیے اس سے بھلا جو صحبت ہی کا باب نہ ہو

مستی خرابی سر پر لائی کعبے سے اٹھ دیر گیا

جس کو خدا نے خراب کیا ہو پھر وہ کیونکے خراب نہ ہو

خلع بدن کرنے سے عاشق خوش رہتے ہیں اس خاطر

جان و جاناں ایک ہیں یعنی بیچ میں تن جو حساب نہ ہو

۱۲۲۸۵

خشم و خطاب جبیں پر چیں تو حسن ہے گل رخساروں کا

وہ محبوب خنک ہوتا ہے جس میں ناز و عتاب نہ ہو

میں نے جو کچھ کہا کیا ہے حد و حساب سے افزوں ہے

روز شمار میں یارب میرے کہے کیے کا حساب نہ ہو

صبر بلا ہائے عشقی پر حوصلے والے کرتے ہیں

رحمت ہے اس خستہ جگر کو دل جس کا بیتاب نہ ہو

جس شب گل دیکھا ہے ہم نے صبح کو اس کا منھ دیکھا

خواب ہمارا ہوا ہوا ہے لوگوں کا سا خواب نہ ہو

نہریں چمن کی بھر رکھی ہیں گویا بادۂ لعلیں سے

بے عکس گل و لالہ الٰہی ان جویوں میں آب نہ ہو

۱۲۲۸۰

اس دن میں تو مستانہ ہوتا ہوں کوئی کوچہ گدا

جس دن کاسۂ چوبیں میں میرے یک جرعہ بھی شراب نہ ہو

تہ داری کچھ دیدۂ تر کی میرؔ نہیں کم دریا سے

جوشاں شور کناں آ جاوے یہ شعلہ سیلاب نہ ہو

 

(۱۸۱۵)

تم کو ہم سے لاگ لگی ہے روتے ہیں تو ہنستے ہو

ہم نے کمر کو کھول رکھا ہے اپنی کمر تم کستے ہو

درج گوہر مال نہیں کچھ دیں در بستہ مصر اگر

تو بھی ایسی قیمت پر تم آگے ہمارے سستے ہو

رستے راہ میں دیکھ لیا ہے بستی میں سے نکلے تمھیں

کیا جانیں ہم روز و شب تم کیدھر رستے بستے ہو

۱۲۲۸۵

ابر کرم کی راہ تکو اب رحمت حق پہ نظر رکھو

گو کہ تم  اے مستاں مجرم اس غم سے دل خستے ہو

پیری میں بھی جواں رکھا ہے دختر تاک کی صحبت نے

یعنی پی پی مئے انگوری میرؔ ہوئے کٹ مستے ہو

 

(۱۸۱۶)

راہیں رکے پر اس سے ملاقات ہو تو ہو

خاموش ان لبوں سے کوئی بات ہو تو ہو

رنج و عنا کہ دشمن جان عزیز ہیں

ان سے بچاؤ اس کی عنایات ہو تو ہو

نومید وصل دل نہیں شب ہائے ہجر میں

ان راتوں ہی میں ملنے کی بھی بات ہو تو ہو

۱۲۳۰۰

امید ہے کہ اس سے قیامت کو پھر ملوں

حسن عمل کی واں بھی مکافات ہو تو ہو

تخفیفے شملے پیرہن و کنگھی اور کلاہ

شیخوں کی گاہ ان میں کرامات ہو تو ہو

ساقی کو چشم مست سے اودھر ہی دیکھنا

مسجد ہو یا کہ کعبہ خرابات ہو تو ہو

منکر نہیں ہے کوئی سیادت کا میرؔ کی

ذات مقدس ان کی یہی ذات ہو تو ہو

 

(۱۸۱۸)

 

مژہ وا کرو تمھیں غش ہے کیا کبھو حال پر بھی نظر کرو

یہی حال ہمیشہ رہا کیا تو مآل پر بھی نظر کرو

۱۲۳۰۵

کہیں دل بھی ان کے اٹکتے ہیں جنھیں شوق میں ہے کمال کچھ

ہوئے ہو جو رفتہ خرام کے تو جمال پر بھی نظر کرو

نہ بنے جو دلبر سادہ تو نہ بھلا لگے مری آنکھوں میرؔ

نہیں سادگی ہی میں لطف کچھ خط و خال پر بھی نظر کرو

 

 

                ردیف ہ

 

(۱۸۱۸)

 

ہائے ستم ناچار معیشت کرنی پڑی ہر خار کے ساتھ

جان عزیز گئی ہوتی کاش اب کے سال بہار کے ساتھ

کس آوارۂ عشق و جنوں کی اک مٹھی اب خاک اڑی

اڑتی پھرے ہے پس محمل جو راہ کے گرد و غبار کے ساتھ

وہ لحظہ نہیں جاتا جی سے آنکھ لڑی تھی جب اس سے

چاہ نکلتی تھی باتوں سے چتون بھی تھی پیار کے ساتھ

۱۲۳۱۰

جی مارے شب مہ میں ہمارے قہر کیا مشاطہ نے

بل کھائے بالوں کو دیے بل اس کے گلے کے ہار کے ساتھ

کیا دن تھے جو ہم کو تنہا کہیں کہیں مل جاتا تھا

اب تو لگے ہی رہتے ہیں اغیار ہمارے یار کے ساتھ

ہم ہیں مریض عشق و جنوں سختی سے دل کو مت توڑو

نرم کرے ہیں حرف و حکایت اہل خرد بیمار کے ساتھ

دیدۂ تر سے چشمۂ جوشاں ہیں جو قریب اپنے واقع

تو ہی رود چلے جاتے ہیں لگ کر جیب و کنار کے ساتھ

دیر سے ہیں بیمار محبت ہم سے قطع امید کرو

جانیں ہی جاتی دیکھی ہیں ہم نے آخر اس آزار کے ساتھ

۱۲۳۱۵

رونے سے سب سر بر آئے خاک ہمارے سر پر میرؔ

مدت میں ہم ٹک لگ بیٹھے تھے اس کی دیوار کے ساتھ

 

(۱۸۱۸)

 

اب کچھ مزے پر آیا شاید وہ شوخ دیدہ

آب اس کے پوست میں ہے جوں میوۂ رسیدہ

آنکھیں ملا کبھو تو کب تک کیا کروں میں

دنبالہ گردی تیری  اے آہوئے رمیدہ

پانی بھر آیا منھ میں دیکھے جنھوں کے یارب

وے کس مزے کے ہوں گے لب ہائے نامکیدہ

سائے کو اس پری کے لگتا نہ تھا چمن میں

مغرور کاہے پر ہے شمشاد قد کشیدہ

۱۲۳۲۰

آنکھیں ہی بچھ رہی ہیں اہل نظر کی یکسر

چلتے ہوئے زمیں پر رکھ پاؤں دیدہ دیدہ

چل سیر کرنے تو بھی تا صبح آنکھیں کھولیں

منھ پر ترے چمن میں گل ہائے نو دمیدہ

محراب میں رہو نہ سجدہ کیا کرو نہ

بے وقت کیا ہے طاعت قد اب ہوا خمیدہ

پروانہ گرد پھر کر جل بھی بجھا ولیکن

خاموش رات کو تھی شمع زباں بریدہ

دیکھا مجھے شب گل بلبل نے جو چمن میں

بولا کی میرے منھ پر کیا کیا دہن دریدہ

۱۲۳۲۵

قلب و کبد تو دونوں تیروں سے چھن رہے ہیں

وہ اس ستم کشی پر ہم سے رہے کبیدہ

اشعار میرؔ سب نے چن چن کے لکھ لیے ہیں

رکھیں گے یاد ہم بھی کچھ بیتیں چیدہ چیدہ

 

(۱۸۲۰)

 

ہم جانتے تو عشق نہ کرتے کسو کے ساتھ

لے جاتے دل کو خاک میں اس آرزو کے ساتھ

مستی میں شیخ شہر سے صحبت عجب رہی

سر پھوڑتے رہا کیے اکثر سبو کے ساتھ

تھا عکس اس کی قامت دلکش کا باغ میں

آنکھیں چلی گئیں ہیں لگی آب جو کے ساتھ

۱۲۳۳۰

نازاں ہو اس کے سامنے کیا گل کھلا ہوا

رکھتا ہے لطف ناز بھی روئے نکو کے ساتھ

ہم زرد کاہ خشک سے نکلے ہیں خاک سے

بالیدگی نہ خلق ہوئی اس نمو کے ساتھ

گردن بلند کرتے ہی ضربت اٹھا گئے

خنجر رکھے ہے اس کا علاقہ گلو کے ساتھ

ہنگامے جیسے رہتے ہیں اس کوچے میں سدا

ظاہر ہے حشر ہو گی نہ ایسے غلو کے ساتھ

مجروح اپنی چھاتی کو بخیہ کیا بہت

سینہ گتھا ہے میرؔ ہمارا رفو کے ساتھ

۱۲۳۳۵

(۱۸۲۱)

 

جان چلی جاتی ہے ہماری اس کی اور نظر کے ساتھ

یعنی چشم شوق لگی رہتی ہے شگاف در کے ساتھ

شاہد عادل عشق کے دونوں پاس ہی حاضر ہیں یعنی

پہروں پہروں خشک لبی رہتی ہے چشم تر کے ساتھ

آنا اس کا ظاہر ہے پر مژدہ لایا یاں نہ کرو

جی ہی نکل جاوے گا اپنا یوں ہی ذوق خبر کے ساتھ

کیا رو ماہ و خور کو لیکن جھمکا اس کا دکھا دوں ہوں

روز و شب کچھ ضد سی ہوئی ہے مجھ کو شمس و قمر کے ساتھ

سینہ خالی آج پڑا ہے میرؔ طرف سے پہلو کے

دل بھی شاید نکل گیا ہے روتے خون جگر کے ساتھ                                        ۱۲۳۴۰

(۱۸۲۲)

 

گل گل شگفتہ مے سے ہوا ہے نگار دیکھ

یک جرعہ ہمدم اور پلا پھر بہار دیکھ

اب وہ نہیں کرم کہ بھرن پڑنے لگ گئی

جوں ابر آگے لوگوں کے دامن پسار دیکھ

آنکھوں کو تیری عین کیا سب نے دیدنی

تو سب سے ٹک تو پھیر لے آنکھوں کو یار دیکھ

محتاج گل نہیں ہے گریبان غم کشاں

گلزار اشک خونیں سے جیب و کنار دیکھ

آنکھیں ادھر سے موند لیں ہیں اب تو شرط ہے

پھر دیکھیو نہ میری طرف ایک بار دیکھ

۱۲۳۴۵

خالی پڑا ہے خانۂ دولت وزیر کا

باور نہیں تو آصف آصف پکار دیکھ

خواہش نہ ہووئے دل کی جو حاصل تو موت ہے

احوال میرؔ دیکھ نہیں جی تو مار دیکھ

 

(۱۸۲۳)

بندہ ہے یا خدا نہیں اس دلربا کے ساتھ

دیر و حرم میں ہو کہیں ہوہے خدا کے ساتھ

ملتا رہا کشادہ جبیں خوب و زشت سے

کیا آئینہ کرے ہے بسر یاں حیا کے ساتھ

گو دست لطف سر سے اٹھا لے کوئی شفیق

دل کا لگاؤ اپنا ہے دست دعا کے ساتھ

۱۲۳۵۰

تدبیر دوستاں سے ہے بالعکس فائدہ

ہے درد عاشقی کو خصومت دوا کے ساتھ

کی کشتی اس کی پاک زبردست عشق نے

جن نے ملائے ہاتھ ٹک ایک اس بلا کے ساتھ

اوباش لڑکوں سے تو بہت کر چکے معاش

اب عمر کاٹیے گا کسو میرزا کے ساتھ

کیا جانوں میں چمن کو ولیکن قفس پہ میرؔ

آتا ہے برگ گل کبھو کوئی صبا کے ساتھ

 

(۱۸۲۴)

عز و وقار کیا ہے کسو خود نما کے ہاتھ

ہے آبرو فقیر کی شاہ ولا کے ہاتھ

۱۲۳۵۵

بٹھلا دیا فلک نے ہمیں نقش پا کے رنگ

اٹھنا ہمارا خاک سے ہے اب خدا کے ہاتھ

آنکھوں میں آشنا تھا مگر دیکھا تھا کہیں

نو گل کل ایک دیکھا ہے میں نے صبا کے ہاتھ

دیکھ اس کو مجھ کو یاروں نے حیران ہو کہا

کس ڈھب سے لگ گیا ہے یہ گوہر گدا کے ہاتھ

دل کی گرہ نہ ناخن تدبیر سے کھلی

عقدہ کھلے گا میرؔ یہ مشکل کشا کے ہاتھ

 

 

                ردیف ی

 

(۱۸۲۵)

رات کو تھا کعبے میں میں بھی شیخ حرم سے لڑائی ہوئی

سخت کدورت بیچ میں آئی صبح تلک نہ صفائی ہوئی

۱۲۳۶۰

تہمت رکھ مستی کی مجھ پر شیخ شہر کنے لایا

وہ بھی بگڑا حد سے زیادہ سن کر بات بنائی ہوئی

شیشہ ان نے گلے میں ڈلوا شہر میں سب تشہیر کیا

ہائے سیہ رو عاشق کی عالم میں کیا رسوائی ہوئی

کیسی ہی شکلیں سامنے آویں مژگاں وا اودھر نہ کروں

حور و پری پر آنکھ نہیں پڑتی ہے کسو سے لگائی ہوئی

حوصلہ داری کیا ہے اتنی قدرت کچھ ہے خدا ہی کی

عالم عالم جہاں جہاں جو غم کی ہم میں سمائی ہوئی

دیکھ کے دست و پائے نگاریں چپکے سے رہ جاویں نہ کیوں

منھ بولے ہے یارو گویا مہندی اس کی رچائی ہوئی

۱۲۳۶۵

دل میں درد جگر میں طپیدن سر میں شور آشفتہ دماغ

کیا کیا رنج اٹھائے گئے ہیں جب سے ان سے جدائی ہوئی

ہفتم چرخ سے اودھر ہو کر عرش کو پہنچی میری دعا

اور رسائی کیا ہوتی ہے گو کہ کہیں نہ رسائی ہوئی

دود دل سوزان محبت محو جو ہو تو عرش پہ ہو

دور بجھے گی یعنی جا کر عشق کی آگ لگائی ہوئی

یہ یہ بلائیں سر پر ہیں تو آج موئے کل دوسرا دن

یاری ہوئی بیماری ہوئی درویشی ہوئی تنہائی ہوئی

اتنی لگو ہیں چشم کسو کی قہر قیامت آفت ہے

تم نے دیکھی نہیں ہے صاحب آنکھ کوئی شرمائی ہوئی

۱۲۳۸۰

جب موسم تھا وا ہونے کا تب تو شگفتہ ٹک نہ ہوا

اب جو بہت افسردہ ہوا ہے دل ہے کلی مرجھائی ہوئی

اس کی طرف جو لی ہم نے ہے اپنی طرف سے پھرا عالم

یعنی دوستی سے اس بت کی دشمن ساری خدائی ہوئی

ہم قیدی بھی موسم گل کے کب سے توقع رکھتے تھے

دیر بہار آئی اب کے پر اسیروں کی نہ رہائی ہوئی

کہنا جو کچھ جس سے ہو گا سامنے میرؔ کہا ہو گا

بات نہ دل میں پھر گئی ہو گی منھ پہ میرے آئی ہوئی

 

(۱۸۲۶)

آنکھوں کی طرف گوش کی در پردہ نظر ہے

کچھ یار کے آنے کی مگر گرم خبر ہے

۱۲۳۸۵

یہ راہ و روش سرو گلستاں میں نہ ہو گی

اس قامت دلچسپ کا انداز دگر ہے

یہ بادیۂ عشق ہے البتہ ادھر سے

بچ کر نکل  اے سیل کہ یاں شیر کا ڈر ہے

وہ ناوک دلدوز ہے لاگو مرے جی کا

تو سامنے ہو ہمدم اگر تجھ کو جگر ہے

کیا پھیل پڑی مدت ہجراں کو نہ پوچھو

مہ سال ہوا ہم کو گھڑی ایک پہر ہے

کیا جان کہ جس کے لیے منھ موڑیے تم سے

تم آؤ چلے داعیہ کچھ تم کو اگر ہے

۱۲۳۸۰

تجھ سا تو سوار ایک بھی محبوب نہ نکلا

جس دلبر خود کام کو دیکھا سو نفر ہے

شب شور و فغاں کرتے گئی مجھ کو تو اب تو

دم کش ہو ٹک  اے مرغ چمن وقت سحر ہے

سوچے تھے کہ سودائے محبت میں ہے کچھ سود

اب دیکھتے ہیں اس میں تو جی ہی کا ضرر ہے

شانے پہ رکھا ہار جو پھولوں کا تو لچکی

کیا ساتھ نزاکت کے رگ گل سی کمر ہے

کر کام کسو دل میں گئی عرش پہ تو کیا

اے آہ سحرگاہ اگر تجھ میں اثر ہے

۱۲۳۸۵

پیغام بھی کیا کریے کہ اوباش ہے ظالم

ہر حرف میاں دار پہ شمشیر و سپر ہے

ہر بیت میں کیا میرؔ تری باتیں گتھی ہیں

کچھ اور سخن کر کہ غزل سلک گہر ہے

 

(۱۸۲۸)

 

کیا خانہ خرابی کا ہمیں خوف و خطر ہے

گھر ہے کسو گوشے میں تو مکڑی کا سا گھر ہے

میلان نہ آئینے کا اس کو ہے نہ گل کا

کیا جانیے اب روئے دل یار کدھر ہے

اے شمع اقامت کدہ اس بزم کو مت جان

روشن ہے ترے چہرے سے تو گرم سفر ہے

۱۲۳۸۰

اس عاشق دیوانہ کی مت پوچھ معیشت

دنداں بجگر دست بدل داغ بسر ہے

کیا آگ کی چنگاریاں سینے میں بھری ہیں

جو آنسو مری آنکھ سے گرتا ہے شرر ہے

ڈر جان کا جس جا ہے وہیں گھر بھی ہے اپنا

ہم خانہ خرابوں کو تو یاں گھر ہے نہ در ہے

کیا پرسش احوال کیا کرتے ہو اکثر

ظاہر ہے کہ بیمار اجل روز بتر ہے

رہتی ہیں الم ناک ہی وے آنکھیں جو اچھی

بد چشم کسو شخص کی شاید کہ نظر ہے

۱۲۳۸۵

دیدار کے مشتاق ہیں سب جس کے اب اس کی

کچھ شورش ہنگامۂ محشر میں خبر ہے

سب چاہتے ہیں رشد مرا یوں تو پر  اے میرؔ

شاید یہی اک عیب ہے مانع کہ ہنر ہے

 

(۱۸۲۸)

 

کیا کہیے کچھ بن نہیں آتی جنگل جنگل ہو آئے

چھانہہ میں جا کے ببولوں کی ہم عشق و جنوں کو رو آئے

دل کی تلاش میں اٹھ کے گئے تھے شاید یاں پیدا ہو سو

جان کا اپنی گرامی گوہر اس کی گلی میں کھو آئے

آہوئے عرفاں صید انھوں کا گر نہ ہوا نقصان کیا

اس عالم سے اس عالم میں کسب کمال کو جو آئے

۱۲۴۰۰

کچھ کہنے کا مقام نہ تھا وہ وا ہوتا تو کہتے کچھ

آنا نہ آنا یکساں تھا واں ہوتے ادھر ہم گو آئے

سب کہتے تھے چین کرے گا کچھ بھی نہ دیکھا جز سختی

پتھر رکھ کے سرہانے ہم ٹک اس کی گلی میں سو آئے

کیا ہی دامن گیر تھی یارب خاک بسمل گاہ وفا

اس ظالم کی تیغ تلے سے ایک گیا تو دو آئے

سر دینا ٹھہرا کر ہم نے پاؤں کو باہر رکھا تھا

ہر سو ہو دشوار ہے پھرنا میرؔ ادھر اب تو آئے

 

(۱۸۲۸)

 

جوں ابر بے کسانہ روتے اٹھے ہیں گھر سے

برسے ہے عشق اپنے دیوار اور در سے

۱۲۴۰۵

جمہور راہ اس کی دیکھا کرے ہے اکثر

محفوظ رکھ الٰہی اس کو نظر گذر سے

وحش اور طیر آنکھیں ہر سو لگا رہے ہیں

گرد رہ اس کی دیکھیں اٹھ چلتی ہے کدھر سے

شاید کہ وصل اس کا ہووے تو جی بھی ٹھہرے

ہوتی نہیں ہے اب تو تسکین دل خبر سے

مدت سے چشم بستہ بیٹھا رہا ہوں لیکن

وہ روئے خوب ہرگز جاتا نہیں نظر سے

گو ہاتھ وہ نہ آوے دل غم سے خون کرنا

ہے لاگ میرے جی کو اس شوخ کی کمر سے

۱۲۴۱۰

یہ گل نیا کھلا ہے لے بال تو قفس میں

کوئی کلی نہ نکلے مرغ چمن کے پر سے

دیکھو نہ چشم کم سے یہ آنکھ ڈبڈبائی

سیراب ابر ہوتے دیکھے ہیں چشم تر سے

گلشن سے لے قفس تک آواز ایک سی ہے

کیا طائر گلستاں ہیں نالہ کش اثر سے

ہر اک خراش ناخن جبہے سے صدر تک ہے

رجھواڑ ہو تو پوچھے کوئی ہمیں ہنر سے

یہ عاشقی ہے کیسی ایسے جیو گے کب تک

ترک وفا کرو ہو مرنے کے میرؔ ڈر سے

۱۲۴۱۵

(۱۸۳۰)

بسکہ ہے گردون دوں پرور دنی

ہووے پیوند زمیں یہ رفتنی

بزم میں سے اب تو چل  اے رشک صبح

شمع کے منھ پر پھری ہے مردنی

میں چراغ صبح گاہی ہوں نسیم

مجھ سے اک دم کے لیے کیا دشمنی

مجھ سا محنت کش محبت میں نہیں

ہر زماں کرتا رہا ہوں جاں کنی

کچھ گدا شاعر نہیں ہوں میرؔ میں

تھا مرا سرمشق دیوان غنیؔ

۱۲۴۲۰

 

(۱۸۳۱)

بسان برق وہ جھمکے دکھاوے

ولے دل شرط ہے جو تاب لاوے

اڑاتا گڈی وہ باہر نہ آوے

مبادا مجھ کو بھی گڈا بناوے

صبا سے میں جو لگ چل کر گیا واں

ہوا کھاوے کہا آنے نہ پاوے

نزاکت سے بہت ہے کم دماغی

رکھے پگڑی پہ گل تیوری چڑھاوے

بزن گاہ اس کشندے کی گلی ہے

وہی جاوے جو لوہو میں نہاوے

۱۲۴۲۵

نہ پوچھو فرش رہ کیا ہووے اس کا

جو اہل دل ہو تو آنکھیں بچھاوے

بلا مغرور ہے وہ آتشیں خو

بہت منت کرو تو جی جلاوے

پڑا تڑپا کیا میں دور پہروں

عجب کیا ہے جو پاس اپنے بلاوے

بتان دیر سے ایسی نہیں لاگ

خدا ہی ہو تو کعبے میرؔ جاوے

 

(۱۸۳۲)

کیا خط لکھوں میں رونے سے فرصت نہیں رہی

لکھتا ہوں تو پھرے ہے کتابت بہی بہی

۱۲۴۳۰

میدان غم میں قتل ہوئی آرزوئے وصل

تھی اپنے خاندان تمنا میں اک یہی

اپنا لکھا ہے یاد مجھے میری بات بھول

قاصد نے جا کے یار سے کچھ اور ہی کہی

شب شور کرنے میں جو سماجت کی تنگ ہو

کہنے لگا کہ مارو اسے یہ تو ہے وہی

مت بہ نمک حرام تو داغوں سے ساز کر

اے زخم کہنہ میرؔ کی خاطر ہی یوں سہی

 

(۱۸۳۳)

نہ بک شیخ اتنا بھی واہی تباہی

کہاں رحمت حق کہاں بے گناہی

۱۲۴۳۵

ملوں کیونکے ہم رنگ ہو تجھ سے  اے گل

ترا رنگ شعلہ مرا رنگ کاہی

مجھے میرؔ تا گور کاندھا دیا تھا

تمنائے دل نے تو یاں تک نباہی

 

(۱۸۳۴)

ادھر مطرب کا عودی رنگ کب طناز آتا ہے

عجب ہیں لوگ جو کہتے ہیں وہ ناساز آتا ہے

خبر ہے شرط اتنا مت برس ائے ابر بارندہ

ہمیں بھی آج رونا درد دل پرداز آتا ہے

اٹھے ہے گرد معشوقانہ اس تربت سے عاشق کی

کبھو ٹک جس کے اوپر وہ سراپا ناز آتا ہے

۱۲۴۴۰

عجب رنگ حنا طائر ہے دست آموز خوباں کا

اڑے ہے تو بھی ہاتھوں ہی میں کر پرواز آتا ہے

وہی نازاں خراماں کبک سا آیا مری جانب

کوئی مغرور وہ شوخی سے اپنی باز آتا ہے

رہائی اپنی ہے دشوار کب صیاد چھوڑے ہے

اسیر دام ہو طائر جو خوش آواز آتا ہے

اگر مسجد سے آؤں میرؔ تو بھی لوگ کہتے ہیں

کہ میخانے سے پھر دیکھو وہ شاہد باز آتا ہے

 

(۱۸۳۵)

اس کے رنگ چمن میں شاید اور کھلا ہے پھول کوئی

شور طیور اٹھتا ہے ایسا جیسے اٹھے ہے بول کوئی

۱۲۴۴۵

یوں پھرتا ہوں دشت و در میں دور اس سے میں سرگشتہ

غم کا مارا آوارہ جوں راہ گیا ہو بھول کوئی

ایک کہیں سر کھینچے ہے ایسا جس کی کریں سب پابوسی

ہو ہر اک کو قبول دلہا یہ نہ کرے گا قبول کوئی

کس امید کا تجھ کو  اے دل چاہ میں اس کی حصول ہوا

شوخ و شلائیں خوشرویاں سے رہتا ہے مامول کوئی

لمبے اس کے بالوں کا میں وصف لکھا ہے دور تلک

حرف مار تو طولانی تھا پھر بھی وے ہے طول کوئی

مستی حسن پرستی رندی یہی عمل ہے مدت سے

پیر کبیر ہوئے تو کیا ہے چھوٹے ہے معمول کوئی

۱۲۴۵۰

حرف و حکایت شکر و شکایت تھی اک وضع و وتیرہ پر

میرؔ کو جا کر دیکھا ہم نے ہے مرد معقول کوئی

 

(۱۸۳۶)

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

لگنے نہ دے بس ہو تو اس کے گوہر گوش کو بالے تک

اس کو فلک چشم مہ و خور کی پتلی کا تارا جانے ہے

آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں

کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے

عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہو گا دنیا میں

جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے

۱۲۴۵۵

چارہ گری بیماری دل کی رسم شہر حسن نہیں

ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارہ جانے ہے

کیا ہی شکار فریبی پر مغرور ہے وہ صیاد بچہ

طائر اڑتے ہوا میں سارے اپنے اساریٰ جانے ہے

مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں

اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے

عاشق تو مردہ ہے ہمیشہ جی اٹھتا ہے دیکھے اسے

یار کے آ جانے کو یکایک عمر دوبارہ جانے ہے

کیا کیا فتنے سر پر اس کے لاتا ہے معشوق اپنا

جس بے دل بے تاب و تواں کو عشق کا مارا جانے ہے

۱۲۴۶۰

رخنوں سے دیوار چمن کے منھ کو لے ہے چھپا یعنی

ان سوراخوں کے ٹک رہنے کو سو کا نظارہ جانے ہے

تشنۂ خوں ہے اپنا کتنا میرؔ بھی ناداں تلخی کش

دمدار آب تیغ کو اس کے آب گوارا جانے ہے

 

(۱۸۳۸)

جب جل گئے تب ان نے کینے کی ادا کی ہے

چال ایسی چلا جس پر تلوار چلا کی ہے

خلقت مگر الفت سے ہے شورش سینہ کی

چسپاں مری چھاتی سے دن رات رہا کی ہے

ہم لوگوں کے لوہو میں ڈوبی ہی رہی اکثر

اس تیغ کی جدول بھی کیا تیز بہا کی ہے

۱۲۴۶۵

عشاق موئے پر بھی ہجراں میں معذب ہیں

مدفن میں مرے ہر دم اک آگ لگا کی ہے

صد رنگ بہاراں میں اب کے جو کھلے ہیں گل

یہ لطف نہ ہو ایسی رنگینی ہوا کی ہے

مرنے کو رہے حاضر سو مارے گئے آخر

گو ان نے جفا کی ہے ہم نے تو وفا کی ہے

مایوس ہی رہتے ہیں بیمار محبت کے

اس درد کی مدت تک ہم نے بھی دوا کی ہے

آنا ادھر اس بت کا کیا میری کشش سے ہے

ہو موم جو پتھر تو تائید خدا کی ہے

۱۲۴۸۰

دامان دراز اس کا جو صبح نہیں کھینچا

اے میرؔ یہ کوتاہی شب دست دعا کی ہے

 

(۱۸۳۸)

ملو ان دنوں ہم سے اک رات جانی

کہاں ہم کہاں تم کہاں پھر جوانی

شکایت کروں ہوں تو سونے لگے ہے

مری سرگذشت اب ہوئی ہے کہانی

ادا کھینچ سکتا ہے بہزاد اس کی

کھنچے صورت ایسی تو یہ ہم نے مانی

ملاقات ہوتی ہے تو کشمکش سے

یہی ہم سے ہے جب نہ تب اینچا تانی

۱۲۴۸۵

بسنتی قبا پر تری مر گیا ہے

کفن میرؔ کو دیجیو زعفرانی

 

(۱۸۳۸)

بے اس کے تیرے حق میں کوئی کیا دعا کرے

عاشق کہیں شتاب تو ہووے خدا کرے

اے سردمہر کوئی مرے رہ تو گرم ناز

پرسش کسو کے حال کی تیری بلا کرے

دامن بہت وسیع ہے آنکھوں کا  اے سحاب

لازم ہے تجھ کو ان ہی کا پانی بھرا کرے

آ کر بکھیرے پھول مری مشت خاک پر

مرغ چمن اگر حق صحبت ادا کرے

۱۲۴۸۰

پتھر کی چھاتی چاہیے ہے میرؔ عشق میں

جی جانتا ہے اس کا جو کوئی وفا کرے

 

(۱۸۴۰)

 

عالم عالم عشق و جنوں ہے دنیا دنیا تہمت ہے

دریا دریا روتا ہوں میں صحرا صحرا وحشت ہے

ہم تو عشق میں ناکس ٹھہرے کوئی نہ ایدھر دیکھے گا

آنکھ اٹھا کر وہ دیکھے تو یہ بھی اس کی مروت ہے

ہائے غیوری جس کے دیکھے جی ہی نکلتا ہے اپنا

دیکھیے اس کی اور نہیں پھر عشق کی یہ بھی غیرت ہے

کوئی دم رونق مجلس کی اور بھی ہے اس دم کے ساتھ

یعنی چراغ صبح سے ہیں ہم دم اپنا بھی غنیمت ہے

۱۲۴۸۵

خط آئے ظاہر ہے ہم پر بگڑی بھی اچھی صورت تھی

بارے کہو ناکام ہی ہو یا کام کی بھی کچھ صورت ہے

ایک ورق پر تصویریں میں دیکھی ہیں لیلی و مجنوں کی

ایسی صورت حال کی اپنی ان دونوں کو حیرت ہے

خاک سے آدم کر کے اٹھایا جس کو دست قدرت نے

قدر نہیں کچھ اس بندے کی یہ بھی خدا کی قدرت ہے

صبح سے آنسو نومیدانہ جیسے وداعی آتا تھا

آج کسو خواہش کی شاید دل سے ہمارے رخصت ہے

کیا دلکش ہے بزم جہاں کی جاتے یاں سے جسے دیکھو

وہ غم دیدہ رنج کشیدہ آہ سراپا حسرت ہے

۱۲۴۸۰

ـجب کچھ اپنے کنے رکھتے تھے تب بھی صرف تھا لڑکوں کا

اب جو فقیر ہوئے پھرتے ہیں میرؔ انھیں کی دولت ہے

 

(۱۸۴۱)

 

عشق کیا سو جان جلی ہے الفت تھی یا کلفت تھی

کوٹے گئے ہیں سب اعضا یہ محبت تھی یا محنت تھی

اب تو نڈھال پڑے رہتے ہیں ضعف ہی اکثر رہتا ہے

آئے گئے اس کے کوچے میں جب تک جی میں طاقت تھی

آب حیات وہی نہ جس پر خضر و سکندر مرتے رہے

خاک سے ہم نے بھرا وہ چشمہ یہ بھی ہماری ہمت تھی

آنسو ہو کر خون جگر کا بیتابانہ آیا تھا

شاید رات شکیبائی کی جلد بہت کچھ رخصت تھی

۱۲۴۸۵

جب سے عشق کیا ہے میں نے سر پر میرے قیامت ہے

ساعت دل لگنے کی شاید نحس ترین ساعت تھی

 

(۱۸۴۲)

 

یاری کرے جو چاہے کسو سے غم ہی غم یاری میں ہے

بے موقع یاں آہ و فغاں ہے بے اثری زاری میں ہے

ہاتھ لیے آئینہ تجھ کو حیرت ہے رعنائی کی

ہے بھی زمانہ ہی ایسا ہر کوئی گرفتاری میں ہے

باغ میں شب جو روتا پھرتا ہوں اس بن میں سو صبح تلک

دانۂ اشک روش شبنم کے گل پر ہر کیاری میں ہے

صورتیں بگڑیں کتنی کیوں نہ اس کو توجہ کب ہے وہ

سامنے رکھے آئینہ مصروف طرحداری میں ہے

۱۲۵۰۰

میرؔ کوئی اس صورت میں امید بہی کی کیا رکھے

ایک جراحت سینے کے میرے ہر زخم کاری میں ہے

 

(۱۸۴۳)

دل بھی بھرا رہتا ہے میرا جی بھی رندھا کچھ جاتا ہے

کیا جانوں میں روؤں گا کیسا دریا چڑھتا آتا ہے

سچ ہے وہ جو کہا کرتا ہے کون ہے تو کیا سمجھے ہمیں

بیگانے تو ہیں ہی ہم وے ناؤں کا چاہ کا ناتا ہے

تو بلبل آزردہ نہ ہو گل پھول سے باغ بہاراں میں

رنج کش الفت ہے عاشق جی اپنا بہلاتا ہے

عشق و محبت کیا جانوں میں لیکن اتنا جانوں ہوں

اندر ہی سینے میں میرے دل کو کوئی کھاتا ہے

۱۲۵۰۵

عاشق اپنا جان لیا ہے ان نے شاید میرؔ ہمیں

دیکھ بھری مجلس میں اپنی ہم ہی سے شرماتا ہے

 

(۱۸۴۴)

 

اس مغرور کو کیا ہوتا ہے حال شکستہ دکھائے سے

جس کو شبہ ہووے نہ ہرگز جی کے ہمارے جائے سے

کیسا کیسا ہوکے جدا پہلو سے اس بن تڑپا ہے

کیا پوچھو ہو آئی قیامت سر پر دل کے لگائے سے

یمن تجرد سے میں اپنے روز جہاں سے گذرتا ہوں

وحشت ہے خورشید نمط اپنے بھی مجھ کو سائے سے

ہر کوئے و ہر برزن میں یا پہر پہر وہ جویاں تھا

یا اب ننگ اسے آتا ہے پاس ہمارے آئے سے

۱۲۵۱۰

ایک جراحت کیا تسکیں دے موت کے بھوکے صید کے تیں

شاید دل ہو تسلی اس کا زخم دگر کے کھائے سے

رنج و عنا پر درد و بلا پر صبر کیے ہم بیٹھے ہیں

کلفت الفت جاتی رہی کیا جور و ستم کے اٹھائے سے

اول تو آتے ہی نہیں ہو اور کبھو جو آتے ہو

نیچی آنکھیں کیے پھرتے ہو مجلس میں شرمائے سے

جھگڑا ناز و نیاز کا سن کر بے مزہ ہم سے تم تو ہوئے

میرؔ سخن کو طول نہ دو بس بات بڑھے ہے بڑھائے سے

 

(۱۸۴۵)

گردش دنوں کی کم نہ ہوئی کچھ کڑے ہوئے

روزے رکھے غریبوں نے تو دن بڑے ہوئے

۱۲۵۱۵

نرمی سے کوئے یار میں جاوے تو جا نسیم

ایسا نہ ہو کہ اکھڑیں کہیں دل گڑے ہوئے

آہن دلوں نے مارا ہے جی غم میں ان کے ہم

پھرتے ہیں نعل سینوں پر اپنے جڑے ہوئے

آئے ہو بعد صلح کبھو ناز سے تو یاں

منھ پھیر ادھر سے بیٹھے ہو جیسے لڑے ہوئے

بیمار امیدوار سے بستر پہ اپنے ہم

دروازے ہی کی اور تکیں ہیں پڑے ہوئے

بار اس کی بزم میں نہیں ناچار در پہ ہم

رہتے ہیں جیسے صورت دیوار اڑے ہوئے

۱۲۵۲۰

ہم زیر تیغ بیٹھے تھے پر وقت قتل میرؔ

وے ٹک ہمارے پاس نہ آ کر کھڑے ہوئے

 

(۱۸۴۶)

عہد جنوں ہے موسم گل کا اور شگوفہ لایا ہے

ابر بہاری وادی سے اٹھ کر آبادی پر آیا ہے

سن کر میرے شور شب کو جھنجھلا کر وہ کہنے لگا

نالے اس کے فلک تک پہنچے کن نے اس کو ستایا ہے

دکھن اتر پورب پچھم ہنگامہ ہے سب جاگہ

اودھم میرے حرف و سخن نے چاروں اور مچایا ہے

بے چشم و رو ہو بیٹھے ہو وجہ نہیں ہے ظاہر کچھ

کام کی صورت بگڑی ہماری منھ کیوں تم نے بنایا ہے

۱۲۵۲۵

ظلم و ستم سب سہل ہیں اس کے ہم سے اٹھتے ہیں کہ نہیں

لوگ جو پرسش حال کریں ہیں جی تو انھوں نے کھایا ہے

ہو کے فقیر تو واں بیٹھے ہیں رہتے ہیں اشراف جہاں

ہم نے توکل بحت کیا ہے نام خدا سرمایہ ہے

برسوں ہم درویش رہے ہیں پردے میں دنیاداری کے

ناموس اس کی کیونکے رہے یہ پردہ جن نے اٹھایا ہے

ڈھونڈ نکالا تھا جو اسے سو آپ کو بھی ہم کھو بیٹھے

جیسا نہال لگایا ہم نے ویسا ہی پھل پایا ہے

میرؔ غریب سے کیا ہو معارض گوشے میں اس وادی کے

ایک دیا سا بجھتا ان نے داغ جگر پہ جلایا ہے

۱۲۵۳۰

 

(۱۸۴۸)

 

دل کی لاگ بری ہوتی ہے رہ نہ سکے ٹک جائے بھی

آئے بیٹھے اٹھ بھی گئے بیتاب ہوئے پھر آئے بھی

آنکھ نہ ٹک میلی ہوئی اپنی مطلق دل بے جا نہ ہوا

دل کی مصیبت کیسی کیسی کیا کیا رنج اٹھائے بھی

ٹھنڈے ہوتے نہ دیکھے ہرگز ویسے ہی جلتے رہتے ہیں

تلوے حنائی اس کے ہم نے آنکھوں سے سہلائے بھی

رنگ نہیں ہے منھ پہ کسی کے باد خزاں سے گلستاں میں

برگ و بار گرے بکھرے ہیں گل غنچے مرجھائے بھی

نفع کبھو دیکھا نہیں ہم نے ایسے خرچ اٹھانے پر

دل کے گداز سے لوہو روئے داغ جگر پہ جلائے بھی

۱۲۵۳۵

عشق میں اس کے جان مری مشتاق پھرے گی بھٹکی ہوئی

شوق اگر ہے ایسا ہی تو چین کہاں مر جائے بھی

تاجر ترک فقیر ہوئے اب شاعر عالم کامل ہیں

پیش گئی کچھ میرؔ نہ اپنی سوانگ بہت سے لائے بھی

 

(۱۸۴۸)

 

کوئی نام اس کا نہ لو جبر ہے

کہ بیتاب دل کی بنا صبر ہے

نہ سوز جگر خاک میں بھی گڑا

موئے پر پرآتش مری قبر ہے

گلستاں کے ہیں دونوں پلے بھرے

بہار اس طرف اس طرف ابر ہے

۱۲۵۴۰

جو درویش پہنے ہے ببری لباس

تو پھر عینہٖ شیر ہے ببر ہے

در کعبہ پر کفر بکتا ہے میرؔ

مسلماں نہیں وہ کہن گبر ہے

 

(۱۸۴۸)

 

ظلم سہے ہیں داغ ہوئے ہیں رنج اٹھے ہیں درد کھنچے

اب وہ دل میں تاب نہیں جو لب تک آہ سرد کھنچے

جیتے جی میت کے رنگوں عشق میں اس کے ہو بیٹھا

بعد مرے نقاش سے شاید صورت میری زرد کھنچے

خاک ہوئی تھی سرکشی اپنی جوں کی توں اپنی طبیعت میں

میرؔ عجب کیا ہے اس کا تا گردوں جو یہ گرد کھنچے

۱۲۵۴۵

(۱۸۵۰)

 

عشق اگر ہے مرد میداں مرد کوئی عرصے میں لائے

یکسر ان نا مردوں کو جو ایک ہی تک تک پا میں اٹھائے

کار عدالت شہر کا ہم کو اک دن دو دن ہووے تو پھر

چاروں اور منادی کریے کوئی کسی سے دل نہ لگائے

پر کے اسیر دام ہوئے تھے نکلے ٹوٹی شکن کی راہ

اب کے دیکھیں موسم گل کا کیسے کیسے شگوفے لائے

بھوکے مرتے مرتے منھ میں تلخی  صفرا پھیل گئی

بے ذوقی میں ذوق کہاں جو کھانا پینا مجھ کو بھائے

گھر سے نکل کر کھڑے کھڑے پھر جاتا ہوں میں یعنی میرؔ

عشق و جنوں کا آوارہ حیران پریشاں کیدھر جائے

۱۲۵۵۰

 

(۱۸۵۱)

 

ہم پہ خشم و خطاب ہے سو ہے

وہ ہی ناز و عتاب ہے سو ہے

گرچہ گھبرا کے لب پہ آئی ولے

جان کو اضطراب ہے سو ہے

بس گئی جاں خراب مدت کی

حال اپنا خراب ہے سو ہے

خشکی لب کی ہے تری کیسی

چشم لیکن پر آب ہے سو ہے

خاک جل کر بدن ہوا ہے سب

دل جلا سا کباب ہے سو ہے

۱۲۵۵۵

کر گئے کاروانیاں شب گیر

وہ گراں مجھ کو خواب ہے سو ہے

یاں تو رسوا ہیں کیسا پردۂ شرم

اس کو ہم سے حجاب ہے سو ہے

دشمن جاں تو ہے دلوں میں بہم

دوستی کا حساب ہے سو ہے

زلفیں اس کی ہوا کریں برہم

ہم کو بھی پیچ و تاب ہے سو ہے

خاک میں مل کے پست ہیں ہم تو

ان کی عالی جناب ہے سو ہے

۱۲۵۶۰

شہر میں در بدر پھرے ہے عزیز

میرؔ ذلت کا باب ہے سو ہے

 

(۱۸۵۲)

 

چلتے ہوئے تسلی کو کچھ یار کہہ گئے

اس قافلے میں ہم بھی تھے افسوس رہ گئے

کیا کیا مکان شاہ نشیں تھے وزیر کے

وہ اٹھ گیا تو یہ بھی گرے بیٹھے ڈھہ گئے

اس کج روش سے ملنا خرابات میں نہ تھا

بے طور ہم بھی جا کے ملے بے جگہ گئے

وے زور ور جواں جنھیں کہیے پہاڑ تھے

جب آئی موج حادثہ تنکے سے بہ گئے

۱۲۵۶۵

وہ یار تو نہ تھا تہ دل سے کسو کا میرؔ

ناچار اس کے جور و ستم ہم بھی سہ گئے

 

(۱۸۵۳)

ہائے جوانی وصل میں اس کے کیا کیا لذت پاتے تھے

بوسۂ کنج لب سے پھر بھی ذائقے اپنے بناتے تھے

کیا کیا تم نے فریب کیے ہیں سادگی میں دل لینے کو

ٹیڑھی کر کے کلاہ آتے تھے مے ناخوردہ ماتے تھے

ہائے جدائی ایک ہی جاگہ مار کے ہم کو توڑ رکھا

وے دن یاد آتے ہیں اب جب ان کے آتے جاتے تھے

غیروں کی تم سنتے رہے سو غیرت سے ہم سہتے رہے

وے تو تم کو لگا جاتے تھے تم آہم کو جلاتے تھے

۱۲۵۸۰

رنج  و الم غم عشق ہی کے اعجاز سے کھنچتے تھے ورنہ

حوصلہ کتنا اپنا جس میں یہ آزار سماتے تھے

وے دن کیسے سالتے ہیں جو آ کر سوتے پاتے کبھو

آنکھوں سے ہم سہلا سہلا تلوے اس کو جگاتے تھے

چاہت روگ برا ہے جی کا میرؔ اس سے پرہیز بھلا

اگلے لوگ سنا ہے ہم نے دل نہ کسو سے لگاتے تھے

 

(۱۸۵۴)

بات ہماری یاد رہے جی بھولا بھولا جاتا ہے

وحشت پر جب آتا ہے تو جیسے بگولا جاتا ہے

تھوڑے سے پانی میں میں نے سر کھپی کی ہے جیسے حباب

کہتے ہیں بے تہ مجھ کو کیا اپھرا پھولا جاتا ہے

۱۲۵۸۵

گام کی صورت کیا ہے اس کی راہ چلے ہے میرؔ اگر

دیکھنے والے کہتے ہیں یہ کوئی ہیولا جاتا ہے

 

(۱۸۵۵)

 

اس تک کوشش سے بھی نہ پہنچے جان سے آخر سارے گئے

عاشق اس کی قامت کے بالا بالا مارے گئے

اس کے روئے خوئے کردہ پہ نقاب لیے وہ صورت ہے

جیسے یکایک سطح ہوا پر بدلی آئی تارے گئے

ایسے قماری سے دل کو لگا کر جیتے رہنا ہو نہ سکا

رفتۂ شاہد بازی اس کے جی بھی اپنا ہارے گئے

چارہ گر اس شہر کے ہوں تو فکر کریں آبادی کا

یارب بستے تھے جو یاں وے لوگ کہاں بیچارے گئے

۱۲۵۸۰

مشکل میرؔ نظر آتا تھا اٹھنا بار امانت کا

آئے ہم تو سہولت سے وہ بوجھ اٹھا کر بارے گئے

 

(۱۸۵۶)

عیدیں آئیں بارہا لیکن نہ وے آ کر ملے

رہتے ہیں ان کے گلے لگنے کے برسوں سے گلے

اس زمانے کی تری سے لہر بہر اگلی کہاں

بے تہی کرنے لگے دریا دلوں کے حوصلے

غنچگی میں دیکھے ہیں صد رنگ جور آسماں

اب جو گل سا بکھرا ہوں دیکھوں کہ کیسا گل کھلے

سارے عالم کے حواس خمسہ میں ہے انتشار

ایک ہم تم ہی نہیں معلوم ہوتے دہ دلے

۱۲۵۸۵

میرؔ طے ہو گا بیابان محبت کس طرح

راہ ہے پرخار میرے پاؤں میں ہیں آبلے

 

(۱۸۵۸)

 

کیسی سعی و کشش کوشش سے کعبے گئے بت خانے سے

اس گھر میں کوئی بھی نہ تھا شرمندہ ہوئے ہم جانے سے

دامن پر فانوس کے تھا کچھ یوں ہی نشاں خاکستر کا

شوق کی میں جو نہایت پوچھی جان جلے پروانے سے

ننگے سامنے آتے تھے تو کیا کیا زجر اٹھاتے تھے

ننگ لگا ہے لگنے انھیں اب بات ہماری مانے سے

پاس غیرت تم کو نہیں کچھ دریا پرسن غیر کو تم

گھر سے اٹھ کے چلے جاتے ہو نہانے کے بھی بہانے سے

۱۲۵۸۰

تم نے کہا مر رہ بھی جا کر بندہ جا کر مر ہی رہا

کس دن میں نے عدول کیا ہے صاحب کے فرمانے سے

سوکھ کے ہوں لکڑی سے کیوں نہ زرد و زبوں ہم عاشق زار

کچھ نہیں رہتا انساں میں ہر لحظہ غم کے کھانے سے

جب دیکھو تب تربت عاشق جھکڑ سے ہے تزلزل میں

عشق ہے باد صرصر کو یاں ان کی خاک اڑانے سے

برسوں میں پہچان ہوئی تھی سو تم صورت بھول گئے

یہ بھی شرارت یاد رہے گی ہم کو نہ جانا جانے سے

سنی سنائی بات سے واں کی کب چیتے ہیں ہم غافل

دونوں کان بھرے ہیں اپنے بے تہ یاں کے فسانے سے

۱۲۵۸۵

میرؔ کی تیری کیا سلجھے گی حرف و سخن میں گنجلک ہے

کوئی بھی عاقل الجھ پڑے ہے ناصح ایسے دوانے سے

 

(۱۸۵۸)

 

گئے روزے اب دید وادید ہے

گلے سے ہمارے لگو عید ہے

گریزاں ہوں سائے سے خورشید ساں

جہاں جب سے ہے مجھ کو تجرید ہے

تصرف میں جب ڈال دیتے ہیں بات

خدا رس کہیں ہیں یہ توحید ہے

جو آویں بتاں جذب سے یاں تو یہ

خدا کی طرف ہی کی تائید ہے

۱۲۶۰۰

لپیٹا ہے میں بوری اے نماز

یہی میرؔ جانے کی تمہید ہے

 

(۱۸۵۸)

 

ہجر میں خوں ہوا تھا سب غم سے

دل نے پہلو تہی کیا ہم سے

عالم حسن ہے عجب عالم

چاہیے عشق اس بھی عالم سے

طرح چھریوں کی پلکوں سے ڈالی

نکلی تلوار ابرو کے خم سے

نسبت ان بالوں کی درست ہوئی

دیر میں میرے حال درہم سے

۱۲۶۰۵

درپئے خون میرؔ کے نہ رہو

ہو بھی جاتا ہے جرم آدم سے

 

(۱۸۶۰)

 

اٹھکھیلیوں سے چلتے طفلی میں جان مارے

نام خدا ہوا ہے اب وہ جوان بارے

اپنی نیاز تم سے اب تک بتاں وہی ہے

تم ہو خدائے باطل ہم بندے ہیں تمھارے

ٹھہرے ہیں ہم تو مجرم ٹک پیار کر کے تم کو

تم سے بھی کوئی پوچھے تم کیوں ہوئے پیارے

کل میں جو سیر میں تھا کیا پھول پھول بیٹھی

بلبل لیے ہے گویا گلزار سب اجارے

۱۲۶۱۰

کرتا ہے ابر نیساں پر در دہن صدف کا

منھ جو کوئی پسارے ایسے کنے پسارے

اے کاش غور سے وہ دیکھے کبھو ٹک آ کر

سینے کے زخم اب تو غائر ہوئے ہیں سارے

چپکا چلا گیا میں آزردہ دل چمن سے

کس کو دماغ اتنا بلبل کو جو پکارے

میدان عشق میں سے چڑھ گھوڑے کون نکلا

مارے گئے سپاہی جتنے ہوئے اتارے

جو مر رہے ہیں اس پر ان کا نہیں ٹھکانا

کیا جانیے کہاں وے پھرتے ہیں مارے مارے

۱۲۶۱۵

کیا برچھیاں چلائیں آہوں نے نیم شب کی

رخنے ہیں آسماں میں سارے نہیں ستارے

ہوتی ہے صبح جو یاں ہے شام سے بھی بدتر

کیا کہیے میرؔ خوبی ایام کی ہمارے

 

(۱۸۶۱)

 

کیا کہیے ویسی صورت گاہے نظر نہ آئی

ایسے گئے کہ ان کی پھر کچھ خبر نہ آئی

روٹھے جو تھے سو ہم سے روٹھے ہوئے وداعی

کیا رویئے ہمیں تو منت بھی کر نہ آئی

طالع کا مکث دیکھو آئی صبا جو واں سے

چاروں طرف پھرا کی لیکن ادھر نہ آئی

۱۲۶۲۰

جی میں جو کچھ کسو کے آوے سو باندھ جاوے

اپنے خیال میں تو اس کی کمر نہ آئی

کیا رات دن کٹے ہیں ہجراں کی بے خودی میں

سدھ اپنی میرؔ اس بن دو دو پہر نہ آئی

 

(۱۸۶۲)

 

داد فریاد جابجا کریے

شاید اس کے بھی دل میں جا کریے

اب سلگنے لگی ہے چھاتی بھی

یعنی مدت پڑے جلا کریے

چشم و دل جان مائل خوباں

بدی یاروں کی کیا کیا کریے

۱۲۶۲۵

دیکھیں کب تک رہے ہے یہ صحبت

گالیاں کھائیے دعا کریے

کچھ کہیں تو کہے ہے یہ نہ کہو

کیونکر اظہار مدعا کریے

اتفاق ان کا مارے ڈالے ہے

ناز و انداز کو جدا کریے

عید ہی کاشکے رہے ہر روز

صبح اس کے گلے لگا کریے

راہ تکنے کو بھی نہایت ہے

منتظر کب تلک رہا کریے

۱۲۶۳۰

ہستی موہوم و یک سرو گردن

سینکڑوں کیونکے حق ادا کریے

ق

وہ نہیں سرگذشت سنتا میرؔ

یوں کہانی سی کیا کہا کریے

مترتب ہو نفع جو کچھ بھی

دل کی بیماری کی دوا کریے

سو تو ہر روز ہے بتر احوال

متحیر ہیں آہ کیا کریے

 

(۱۸۶۳)

دو چار روز آگے چھاتی گئی تھی کوٹی

ہجراں کا غم تھا تہ میں سختی سے جان ٹوٹی

۱۲۶۳۵

کلیاں جھڑی ہیں کچی بکھرے ہیں پھول سارے

پائیز نے چمن میں کیا کیا بہار لوٹی

سیر چمن میں کچھ تو جی سے ہوس نکلتی

موسم میں گل کے بلبل افسوس ہے نہ چھوٹی

 

(۱۸۶۴)

کیا کہیے اپنے عہد میں جتنے امیر تھے

ٹکڑے پہ جان دیتے تھے سارے فقیر تھے

دل میں گرہ ہوس رہی پرواز باغ کی

موسم گلوں کا جب تئیں تھا ہم اسیر تھے

برنائی ہی میں تم سے شرارت نہیں ہوئی

لڑکے سے بھی تھے تم تو قیامت شریر تھے

۱۲۶۴۰

آرائش بدن نہ ہوئی فقر میں بھی کم

جاگہ اتو کی جامے پہ نقش حصیر تھے

آنکھوں میں ہم کسو کی نہ آئے جہان میں

از بس کہ میرؔ عشق سے خشک و حقیر تھے

 

(۱۸۶۵)

جو کوئی خستہ جگر عشق کا آزاری ہے

جی چکا وہ کہ یہ بے طرح کی بیماری ہے

کارواں گاہ جہاں میں نہیں رہتا کوئی

جس کے ہاں دیکھتے ہیں چلنے کی تیاری ہے

چیز و ناچیز کا آگاہ کو رہتا ہے لحاظ

سارے عالم میں حقیقت تو وہی ساری ہے

۱۲۶۴۵

آئینہ روبرو رکھنے کو بھی اب جائے نہیں

صورتوں سے اسے ہم لوگوں کی بیزاری ہے

مر گئے عشق میں نازک بدنوں کے آخر

جان کا دینا محبت کی گنہگاری ہے

پلکیں وے اس کی پھری جی میں کھبی جاتی ہیں

آنکھ وہ دیکھے کوئی شوخی میں کیا پیاری ہے

بے قراری میں نہ دلبر سے اٹھا ہرگز ہاتھ

عشق کرنے کے تئیں شرط جگرداری ہے

وائے وہ طائر بے بال ہوس ناک جسے

شوق گل گشت گلستاں میں گرفتاری ہے

۱۲۶۵۰

جرم بے جرم کھنچی رہتی ہے جس کی شمشیر

اس ستم گار جفاجو سے ہمیں یاری ہے

آنکھ مستی میں کسو پر نہیں پڑتی اس کی

یہ بھی اس سادہ و پرکار کی ہشیاری ہے

واں سے جز ناز و تبختر نہیں کچھ یاں سے میرؔ

عجز ہے دوستی ہے عشق ہے غم خواری ہے

 

(۱۸۶۶)

 

درد و غم سے دل کبھو فرصت نہ پائے

یہ صعوبت کب تلک کوئی اٹھائے

طفل تہ بازار کا عاشق ہوں میں

دل فروشی کوئی مجھ سے سیکھ جائے

۱۲۶۵۵

زار رونا چشم کا کب دیکھتے

دیکھیں ہیں لیکن خدا جو کچھ دکھائے

کب تلک چاک قفس سے جھانکیے

برگ گل یاں بھی صبا کوئی تو لائے

کب سے ہم کو ہے تلاش دست غیب

تا کمر پیچ اس کا اپنے ہاتھ آئے

اس کی اپنی بنتی ہی ہرگز نہیں

بگڑی صحبت ایسی کیا کوئی بنائے

جو لکھی قسمت میں ذلت ہو سو ہو

خط پیشانی کوئی کیونکر مٹائے

۱۲۶۶۰

داغ ہے مرغ چمن پائیز سے

دل نہ ہو جلتا جو اس کا گل نہ کھائے

زخم سینہ میرا اس کے ہاتھ کا

ہو کوئی رجھواڑ تو اس کو رجھائے

میرؔ اکثر عمر کے افسوس میں

زیر لب بالائے لب ہے ہائے وائے

 

(۱۸۶۸)

 

ننوشتہ نامہ آیا یہ کچھ ہمیں لکھا ہے

اس سادہ رو کے جی میں کیا جانیے کہ کیا ہے

کافر کا بھی رویہ ہوتا نہیں ہے ایسا

ٹھوکر لگا کے چلنا کس دین میں روا ہے

۱۲۶۶۵

دنیا میں دیر رہنا ہوتا نہیں کسو کا

یہ تو سرائے فانی اک کارواں سرا ہے

بندے کا دل بجا ہے جاتا ہوں شاد ہر جا

جب سے سنا ہے میں نے کیا غم ہے جو خدا ہے

پائے ثبات کس کا ٹھہرا ہے اس کے دیکھے

ہے ناز اک قیامت انداز اک بلا ہے

ہرجا بدن میں اس کے افراط سے ہے دلکش

میں کیا دل ملک بھی اٹکے اگر بجا ہے

مرنا تو ایک دم ہے عاشق مرے ہے ہر دم

وہ جانتا ہے جس کو پاس دل وفا ہے

۱۲۶۸۰

خط اس کو لکھ کے غم سے بے خود ہوا ہوں یعنی

قاصد کے بدلے یاں سے جی ہی مرا چلا ہے

شوخی سے اس کی درہم برہم جہاں ہے سارا

ہنگامۂ قیامت اس کی کوئی ادا ہے

عمر عزیز گذری سب سے برائی کرتے

اب کر چلو بھلا کچھ شاید یہی بھلا ہے

جو ہے سو میرؔ اس کو میرا خدا کہے ہے

کیا خاص نسبت اس سے ہر فرد کو جدا ہے

 

(۱۸۶۸)

 

دل پہلو میں ناتواں بہت ہے

بیمار مرا گراں بہت ہے

۱۲۶۸۵

ہر آن شکیب میں کمی ہے

بیتابی زماں زماں بہت ہے

مقصود کو دیکھیں پہنچے کب تک

گردش میں تو آسماں بہت ہے

جی کو نہیں لاگ لامکاں سے

ہم کو کوئی دل مکاں بہت ہے

گو خاک سے گور ہووے یکساں

گم گشتے کا یہ نشاں بہت ہے

جاں بخشی غیر ہی کیا کر

مجھ کو یہی نیم جاں بہت ہے

۱۲۶۸۰

اکثر پوچھے ہے جیتے ہیں میرؔ

اب تو کچھ مہرباں بہت ہے

 

(۱۸۶۸)

 

صاحب ہو تم ہمارے بندے ہیں ہم تمھارے

موقوف رحم پر ہیں دشوار کام سارے

ہو ملتفت کہ ہم بھی جیتوں میں آویں چندے

یہ عشق بے محابا تا چند جان مارے

آشوب بحر ہستی کیا جانیے ہے کب سے

موج و حباب اٹھ کر لگ جاتے ہیں کنارے

کوئی تو تھا طرف پر آواز دی نہ ہم کو

ہم بے قرار ہو کر چاروں طرف پکارے

۱۲۶۸۵

بے طاقتی سے کیونکر سر مارتے رہیں نہ

صبر و قرار دونوں یک بارگی سدھارے

کوئی تو ماہ پارہ اس بھی رواق میں ہے

چشمک کریں ہیں ہر شب اس کی طرف ستارے

دنیا میں میرؔ آ کر کھولا ہے بار ہم نے

اس رہگذر میں دیکھیں کیا پیش آوے بارے

 

(۱۸۸۰)

 

عشق ہمارا در پئے جاں ہے کیسی خصومت کرتا ہے

چین نہیں دیتا ہے ظالم جب تک عاشق مرتا ہے

شاید لمبے بال اس مہ کے بکھر گئے تھے باؤ چلے

دل تو پریشاں تھا ہی میرا رات سے جی بھی بکھرتا ہے

۱۲۶۸۰

صورت اس کی دیدۂ تر میں پھرتی ہے ہر روز و شب

ہے نہ اچنبھا یہ بھی کہیں پانی میں نقش ابھرتا ہے

کیا دشوار گذر ہے طریق عشق مسافر کش یارو

جی سے اپنے گذر جاتا ہے جو اس راہ گذرتا ہے

حال کسو بے تہ کا یاں مانا ہے حباب دریا سے

ٹک جو ہوا دنیا کی لگی تو یہ کم ظرف اپھرتا ہے

یاد خدا کو کر کے کہو ٹک پاس ہمارے ہو جاوے

صد سالہ غم دیکھے اس خوش چشم و رو کے بسرتا ہے

دامن دیدۂ تر کی وسعت دیکھے ہی بن آوے گی

ابر سیاہ و سفید جو ہو سو پانی ان کا بھرتا ہے

۱۲۶۸۵

دل کی لاگ نہیں چھپتی ہے کوئی چھپاوے بہتیرا

زردی عشق سے بے الفت یہ رنگ کسو کا نکھرتا ہے

کھینچ کے تیغہ اپنا ہر دم کیا لوگوں کو ڈراتے ہو

میرؔ جگر دار آدمی ہے وہ کب مرنے سے ڈرتا ہے

 

(۱۸۸۱)

 

نالہ جب گرم کار ہوتا ہے

دل کلیجے کے پار ہوتا ہے

مار رہتا ہے اس کو آخرکار

عشق کو جس سے پیار ہوتا ہے

سب مزے درکنار عالم کے

یار جب ہم کنار ہوتا ہے

۱۲۸۰۰

دام گہ کا ہے اس کے عالم اور

ایک عالم شکار ہوتا ہے

بے قراری ہو کیوں نہ چاہت میں

ہم دگر کچھ قرار ہوتا ہے

جبر ہے قہر ہے قیامت ہے

دل جو بے اختیار ہوتا ہے

راہ تکتے ہی بیٹھیں ہیں آنکھیں

اس کا جب انتظار ہوتا ہے

شاخ گل لچکے ہے تو جانوں ہوں

جلوہ گر یوں ہی یار ہوتا ہے

۱۲۸۰۵

کس کو پوچھے ہے کوئی دنیا میں

دیر یاں اعتبار ہوتا ہے

آہ کس جائے بار کھولا میرؔ

یاں تو جینا بھی بار ہوتا ہے

 

(۱۸۸۲)

 

سخت بے رحم آہ قاتل ہے

میری خوں ریزی ہی کا مائل ہے

دور مجنوں کا ہو گیا آخر

یاں جنوں کا ابھی اوائل ہے

نکلے اس راہ کس طرح وہ ماہ

نہ تو طالع نہ جذب کامل ہے

۱۲۸۱۰

مثل صورت ہیں جلوہ کے حیراں

ہائے کیا شکل کیا شمائل ہے

ہاتھ رکھ لیوے تو کہے کہ بس اب

کیا جیے گا بہت یہ گھائل ہے

حق میں اس بت کے بد کہیں کیونکر

وہ ہمارا خدائے باطل ہے

سچ ہے راحت تو بعد مرنے کے

پر بڑا واقعہ یہ ہائل ہے

تیغ اگر درمیاں رہے تو رہے

یار میرا جوان جاہل ہے

۱۲۸۱۵

رو نہیں چشم تر سے اب رکھیے

سیل اسی در کا کب سے سائل ہے

حال ہم ڈوبتوں کا کیا جانے

جس کو دریا پہ سیر ساحل ہے

میرؔ کب تک بحال مرگ جئیں

کچھ بھی اس زندگی کا حاصل ہے

 

(۱۸۸۳)

بے کسان عشق تھے ہم غم میں کھپ سارے گئے

باز خواہ خوں نہ تھا مارے گئے مارے گئے

بار کل تک ناتوانوں کو نہ تھا اس بزم میں

گرتے پڑتے ہم بھی عاجز آج واں بارے گئے

۱۲۸۲۰

چھاتی میری سرد آہوں سے ہوئی تھی سب کرخت

استخواں اب اس کے اشک گرم سے دھارے گئے

بخت جاگے ہی نہ ٹک جو ہو خبر گھر میں اسے

صبح تک ہم رات دیواروں سے سر مارے گئے

میرؔ قیس و کوہکن ناچار گذرے جان سے

دو جہاں حسرت لیے ہمراہ بیچارے گئے

 

(۱۸۸۴)

بے یار ہوں بیکس ہوں آگاہ نہیں کوئی

بے غم کرو خوں ریزی خوں خواہ نہیں کوئی

کیا تنگ مخوف ہے اس نیستی کا رستہ

تنہا پڑا ہے جانا ہمراہ نہیں کوئی

۱۲۸۲۵

موہوم ہے ہستی تو کیا معتبری اس کی

ہے گاہ اگر کوئی تو گاہ نہیں کوئی

فرہاد کو مجنوں کو موت آ گئی ہے آگے

کس سے کہیں درد دل اب آہ نہیں کوئی

میرؔ اتنی سماجت جو بندوں سے تو کرتا ہے

دنیا میں مگر تیرا اللہ نہیں کوئی

 

(۱۸۸۵)

دیدۂ گریاں ہمارا نہر ہے

دل خرابہ جیسے دلی شہر ہے

آندھی آئی ہو گیا عالم سیاہ

شور نالوں کا بلائے دہر ہے

۱۲۸۳۰

دل جو لگتا ہے تڑپنے ہر زماں

اک قیامت ہے غضب ہے قہر ہے

بہ نہیں ہوتا ہے زخم اس کا لگا

آب تیغ یار یکسر زہر ہے

یاد زلف یار جی مارے ہے میرؔ

سانپ کے کاٹے کی سی یہ لہر ہے

 

(۱۸۸۶)

عشق بلاانگیز  مفتن یہ تو کوئی قیامت ہے

جس سے پیار رکھے ہے کچھ یہ اس کے سر پر شامت ہے

موسم گل میں توبہ کی تھی واعظ کے میں کہنے سے

اب جو رنگ بہار کے دیکھے شرمندہ ہیں ندامت ہے

۱۲۸۳۵

شیخ کی ادنیٰ حرکت بھی میں خرق عادت جانوں ہوں

مسجد سے میخانے آیا یہ بھی اس کی کرامت ہے

ایک طرف میں عشق کیا تھا رسوائی یہ کہاں سے ہوئی

اب جو گھر سے نکل آتا ہوں چاروں طرف سے ملامت ہے

تو ہی کر انصاف صبا ٹک باغوں باغوں پھرے ہے تو

روئے گل اس کا ساروہے سرو کا ایسا قامت ہے

صبح کو خورشید اس کے گھر پر طالع ہو کر آتا ہے

دیکھ لیا جو ان نے کبھو تو اس سادہ کی شامت ہے

چھوڑو اس اوباش کا ملنا ورنہ سر کٹواؤ گے

چاہ رہو گے بہتیروں کو سر جو میرؔ سلامت ہے

۱۲۸۴۰

(۱۸۸۸)

 

اے پریشاں ربط دیکھیں کب تلک یہ دور ہے

ہر گلی کوچے میں تیرا اک دعا گو اور ہے

بال بل کھائے ہوئے پیچوں سے پگڑی کے گتھے

طرز کیں چتون کی پائی سر میں شور جور ہے

ہم سے یہ انداز اوباشانہ کرنا کیا ضرور

آنکھ ٹیڑھی خم ہے ابرو طور کچھ بے طور ہے

طبع درہم وضع برہم زخم غائر چشم تر

حال بد میں بیکسوں کے کچھ تمھیں بھی غور ہے

کیا شکایت کریے اس خورشید چہرہ یار کی

مہر وہ برسوں نہیں کرتا ستم فی الفور ہے

۱۲۸۴۵

وصل کی دولت گئی ہوں تنگ فقر ہجر میں

یا الٰہی فضل کر یہ حور بعد الکور ہے

اس کے دیوانے کے سر پر داغ سودا ہے جو میرؔ

وہ مخبط عاشقوں کا اس سبب سرمور ہے

 

(۱۸۸۸)

 

گردن کش زمانہ تو تیرا اسیر ہے

سلطان عصر تیری گلی کا فقیر ہے

چشمک کرے ہے میری طرف کو نگاہ کر

وہ طفل شوخ چشم قیامت شریر ہے

تنکا سا ہو رہا ہے تن آگے ہی سوکھ کر

اب ننگ کیا فقیر جو سب میں حقیر ہے

۱۲۸۵۰

جھڑ باندھ دے ہے رونے جو لگتا ہوں صبح کو

ہے چشم تر کہ غیرت ابر مطیر ہے

اک دو اجل رسیدہ جو صید آئے کب کھنچا

پرپیچ جال گیسوؤں کا جرگہ گیر ہے

جوں جوں بڑھاپا آتا ہے جاتے ہیں اینٹھتے

کس مٹی کا نہ جانیے اپنا خمیر ہے

اس خوبصورتی سے نہ صورت نظر پڑی

سورت تلک تو سیر کی وہ بے نظیر ہے

پر جوہر  اس کی تیغ ہے نامہ برائے قتل

پیغام مرگ عاشقوں کو اس کا تیر ہے

۱۲۸۵۵

پوچھو اسی سے مضطرب الحال دل کی کچھ

وہ آفتاب چہرۂ روشن ضمیر ہے

جوں طفل شوخ و شنگ و جوان بلند طبع

شائستۂ فلک ہے اگر چرخ پیر ہے

فریاد شب کی سن کے کہا بے دماغ ہو

دیکھو تو اس بلا کو یہ شاید کہ میرؔ ہے

 

(۱۸۸۸)

 

ان بلاؤں سے کب رہائی ہے

عشق ہے فقر ہے جدائی ہے

دیکھیے رفتہ رفتہ کیا ہووے

ہم بھی چلنے کو ہیں کہ آئی ہے

۱۲۸۶۰

استخواں کانپ کانپ جلتے ہیں

عشق نے آگ یہ لگائی ہے

دل کو کھینچے ہے چشمک انجم

آنکھ ہم نے کہاں لڑائی ہے

اس صنائع کا اس بدائع کا

کچھ تعجب نہیں خدائی ہے

نہ تو جذب رسا نہ بخت رسا

کیونکے کہیے کہ واں رسائی ہے

ہے تصنع کہ اس کے لب ہیں لعل

سب نے اک بات یہ بنائی ہے

۱۲۸۶۵

ق

کیا کہوں خشم عشق سے جو مجھے

کبھو جھنجھلاہٹ آہ آئی ہے

ایسا چہرے پہ ہے نہوں کا خراش

جیسے تلوار منھ پہ کھائی ہے

میں نہ آتا تھا باغ میں اس بن

مجھ کو بلبل پکار لائی ہے

آئی اس جنگ جو کی گر شب وصل

شام سے صبح تک لڑائی ہے

اور کچھ مشغلہ نہیں ہے ہمیں

گاہ و بے گہ غزل سرائی ہے

۱۲۸۸۰

توڑ کر آئینہ نہ جانا یہ

کہ ہمیں صورت آشنائی ہے

 

(۱۸۸۰)

 

گل قفس تک نسیم لائی ہے

بو کہ پھر کر بہار آئی ہے

عشق دریا ہے ایک لنگر دار

تہ کسو نے بھی اس کی پائی ہے

وہ نہ شرماوے کب تلک آخر

دوستی یاری آشنائی ہے

وے نہیں تو انھوں کا بھائی اور

عشق کرنے کی کیا منائی ہے

۱۲۸۸۵

بے ستوں کوہکن نے کیا توڑا

عشق کی زور آزمائی ہے

بھیڑیں ٹلتی ہیں اس کے ابرو ہلے

چلی تلوار تو صفائی ہے

لڑکا عطار کا ہے کیا معجون

ہم کو ترکیب اس کی بھائی ہے

کج روی یار کی نہیں جاتی

یہی بے طور بے ادائی ہے

آنے کہتا ہے پھر نہیں آتا

یہی بدعہدی بے وفائی ہے

۱۲۸۸۰

کر چلو نیکی اب تو جس تس سے

شاید اس ہی میں کچھ بھلائی ہے

برسوں میں میرؔ سے ملے تو کہا

اس سے پوچھو کہ یہ کجائی ہے

 

(۱۸۸۱)

 

یارب کوئی دیوانہ بے ڈھنگ سا آ جاوے

اغلال و سلاسل ٹک اپنی بھی ہلا جاوے

خاموش رہیں کب تک زندان جہاں میں ہم

ہنگامہ قیامت کا شورش سے اٹھا جاوے

کب عشق کی وادی ہے سر کھینچنے کی جاگہ

ہو سیل بھلا سا تو منھ موڑ چلا جاوے

۱۲۸۸۵

عاشق میں ہے اور اس میں نسبت سگ و آہو کی

جوں جوں ہو رمیدہ وہ توں توں یہ لگا جاوے

افسوس کی جاگہ ہے یاں باز پسیں دم میں

ہو روبرو آئینہ وہ منھ کو چھپا جاوے

ان نو خطوں سے میری قسمت میں تو تھی خواری

کس طرح لکھا میرا کوئی آ کے مٹا جاوے

دیکھ اس کو ٹھہر رہنا ثابت قدموں سے ہو

اس راہ سے آوے تو ہم سے نہ رہا جاوے

کہیے جہاں کرتا ہو تاثیر سخن کچھ بھی

وہ بات نہیں سنتا کیا اس سے کہا جاوے

۱۲۸۸۰

یہ رنگ رہے دیکھیں تا چند کہ وہ گھر سے

کھاتا ہوا پان آ کر باتوں کو چبا جاوے

ہم دیر کے جنگل میں بھولے پھرے ہیں کب کے

کعبے کا ہمیں رستہ خضر آ کے بتا جاوے

ہاتھوں گئی خوباں کے کچھ شے نہیں پھر ملتی

کیونکر کوئی اب ان سے دل میرا دلا جاوے

یہ ذہن و ذکا اس کا تائید ادھر کی ہے

ٹک ہونٹ ہلے تو وہ تہ بات کی پا جاوے

یوں خط کی سیاہی ہے گرد اس رخ روشن کے

ہر چار طرف گاہے جوں بدر گھرا جاوے

۱۲۸۸۵

کیا اس کی گلی میں ہے عاشق کسو کی رویت

آلودۂ خاک آوے لوہو میں نہا جاوے

ہے حوصلہ تیرا ہی جو تنگ نہیں آتا

کس سے یہ ستم ورنہ  اے میرؔ سہا جاوے

 

(۱۸۸۲)

 

ترے بندے ہم ہیں خدا جانتا ہے

خدا جانے تو ہم کو کیا جانتا ہے

نہیں عشق کا درد لذت سے خالی

جسے ذوق ہے وہ مزہ جانتا ہے

ہمیشہ دل اپنا جو بے جا ہے اس بن

مرے قتل کو وہ بجا جانتا ہے

۱۲۸۰۰

گہے زیر برقع گہے گیسوؤں میں

غرض خوب وہ منھ چھپا جانتا ہے

مجھے جانے ہے آپ سا ہی فریبی

دعا کو بھی میری دغا جانتا ہے

جفا اس پہ کرتا ہے حد سے زیادہ

جنھیں یار اہل وفا جانتا ہے

لگا لے ہے جھمکے دکھا کر اسی کو

جسے مغ بچہ پارسا جانتا ہے

اسے جب نہ تب ہم نے بگڑا ہی پایا

یہی اچھے منھ کو بنا جانتا ہے

۱۲۸۰۵

بلا شور انگیز ہے چال اس کی

اسی طرز کو خوش نما جانتا ہے

نہ گرمی جلاتی تھی ایسی نہ سردی

مجھے یار جیسا جلا جانتا ہے

یہی ہے سزا چاہنے کی ہمارے

ہمیں کشتہ خوں کے سزا جانتا ہے

مرے دل میں رہتا ہے تو ہی تبھی تو

جو کچھ دل کا ہے مدعا جانتا ہے

پری اس کے سائے کو بھی لگ سکے نہ

وہ اس جنس کو کیا بلا جانتا ہے

۱۲۸۱۰

جہاں میرؔ عاشق ہوا خوار ہی تھا

یہ سودائی کب دل لگا جانتا ہے

 

(۱۸۸۳)

یہی عشق ہے جی کھپا جانتا ہے

کہ جاناں سے بھی جی ملا جانتا ہے

بدی میں بھی کچھ خوبی ہووے گی تب تو

برا کرنے کو وہ بھلا جانتا ہے

مرا شعر اچھا بھی دانستہ ضد سے

کسو اور ہی کا کہا جانتا ہے

زمانے کے اکثر ستم گار دیکھے

وہی خوب طرز جفا جانتا ہے

۱۲۸۱۵

نہیں جانتا حرف خط کیا ہیں لکھے

لکھے کو ہمارے مٹا جانتا ہے

نہ جانے جو بیگانہ تو بات پوچھے

سو مغرور کب آشنا جانتا ہے

نہیں اتحاد تن و جاں سے واقف

ہمیں یار سے جو جدا جانتا ہے

٭٭٭

تشکر: تصنیف حیدر جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید